Labels

مرزا جہلمی چمنی مشہد گروپ اور شیعوں کا رد سیدنا امام حسن و سیدنا امیر معاویہ کے معاملے میں

*#سیدنا_حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ،سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مشہدی ،ریاض شاہی ، چمنی گروپ اور مرزا جہلمی اور شیعہ.....؟؟ سیدنا حسن کی تاریخ ولادت وفات، زہر کس نے دیا، جنازے پہ تیر۔۔۔۔۔؟؟*

خلاصہ:

سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات ربیع الاول میں ہے لیکن شیعہ کے مطابق صفر مہینے میں ہے لہذا صفر مہینے میں عرسِ سیدنا حسن منا کر شیعہ کی موافقت نہ کیجئے بلکہ شیعوں کی مخالفت کرتے ہوئے برحق سچے قول معتبر قول کے مطابق ربیع الاول میں عرس منائیے ان کی تاریخ و سیرت کردار اقوال وغیرہ معتبر کتب  معتبر تحریرات سے پڑھیے پھیلائیے اور جو شیعہ کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو زہر دیا یہ جھوٹ ہے سب جھوٹے حوالے ہیں جھوٹ اور مکاری سے کام لیا گیا ہے اور جو یہ شیعہ کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ نے سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے جنازے پر تیر چلائے اور انہیں دفن نہ ہونے دیا روضہ رسول میں تو یہ بھی شیعوں کی سراسر جھوٹی بات ہے اور جو یہ شیعہ کہتے ہیں کہ سیدنا حسن نے سیدنا معاویہ سے ایسے صلح کی جیسے رسول کریم نے کفار سے صلح کی تو یہ بھی مردود اور باطل ہے۔۔۔۔ان تمام کے حوالہ جات اور ثبوت ہم شیعہ کتب سے لکھیں گے۔۔۔وقت نکال کر تحریر ہو سکے تو پوری پڑھیے اور پھیلائیے

۔

*#سوال*

علامہ صاحب  شیعہ کہتے ہیں کہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملوث تھے اور شیعہ کہتے ہیں کہ امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نا چاہتے ہوئے بیعت کی معاویہ کی مگر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت نہ کی...اور اسی طرح کی بات مرزا جہلمی نے بھی کی ہے اور استیعاب وغیرہ کتب کا حوالہ بھی دیا ہے...تفصیل ارشاد فرمائیں اور یہ بھی بتائیں کہ کئ لوگ اٹھائیس صفر کو شہادتِ سیدنا حسن کا دن مناتے ہیں تو اسکی کیا اصل ہے...؟؟ اور تاریخ شہادت کونسی معتبر ہے....؟؟ اور یہ جو شیعہ کہتے ہیں کہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے زہر دیا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے روضہ رسول میں دفن ہونے سے روکا بلکہ تیر چلائے کیا ایسی کوئی بات ہے۔۔۔ذرا تفصیلی مدلل تحریر لکھیے گا...جزاکم اللہ

.

*#جواب.و.تحقیق.....!!*

وُلِدَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فِي النِّصْفِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ

 سیدنا حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت 15 رمضان میں ہوئی

(تاريخ الطبري2/537)


.

(ولد)الحسن نصف رمضان

 سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت نصف رمضان یعنی 15 رمضان میں ہوئی

(التوضيح لشرح الجامع الصحيح32/382)

.

: الحسن، ولد للنصف من شهر رمضان

سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت نصف رمضان یعنی 15 رمضان میں ہوئی

(نسب قريش ص40)

.

ذَكَرَ الزُّبَيْرُ بنُ بَكَّارٍ: أَنَّهُ - أَعْنِي الحَسَنَ - وُلِدَ فِي نِصْفِ رَمَضَانَ، سَنَةَ ثَلاَثٍ، وَفِي شَعْبَانَ أَصَحُّ

 زبیر بن بکار کے مطابق امام حسن کی ولادت 15 رمضان میں ہوئی اور ایک قول یہ ہے کہ شعبان میں ہوئی اور شعبان والا قول زیادہ صحیح ہے

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة3/248)

مگر دیگر علماء نے پندرہ رمضان والے قول کو زیادہ صحیح و ثابت قرار دیا جیسے کہ امام قرطبی لکھتے ہیں

 ولد الحسن في النصف من شهر رمضان سنة ثلاث من الهجرة. هذا أصحُّ ما قيل في ذلك

 امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت تین ہجری پندرہ رمضان میں ہوئی اور یہ صحیح ترین قول ہے 

(المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم6/295)

.

: ولد الحسن بن علي بن أبي طالب في النصف من شهر رمضان سنة ثلاث من الهجرة

 امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت تین ہجری پندرہ رمضان میں ہوئی

(كتاب الطبقات الكبرى - متمم الصحابة - الطبقة الخامسة1/226)اس کتاب کے حاشیہ میں ہے کہ

) مثله في نسب قريش ص ٤٠. والاستيعاب: ١/ ٣٨٤. وقال: هذا أصح ما قيل في ذلك. وانظر الإصابة: ٢/ ٦٨ ونسبه إلى ابن سعد وابن البرقي وذكر أقوالا أخرى في تاريخ ولادته ثم رجح هذه الرواية بقوله: والأول أثبت

یعنی

 کتاب نسب قریش اور کتاب الاستیعاب میں یہی بات لکھی ہے اور فرمایا ہے کہ 15 رمضان والا قول ہی زیادہ صحیح ہے..الاصابہ میں دیگر اقوال بھی لکھے مگر 15 رمضان والے کو زیادہ ثابت قرار دیا

(حاشیہ كتاب الطبقات الكبرى - متمم الصحابة - الطبقة الخامسة1/226)

.#################

*#معتبر قول کے مطابق 5ربیع الاول سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا دن ہے...ایصال ثواب کیجیے،مستند کتب سےانکی سیرت کا مطالعہ کیجیےپیروی کیجیے*

.

 مات  الحسن بن علي لخمس ليال خلون من شهر ربيع الأول

سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پانچ ربیع الاول میں ہوئی

(الطبقات الكبرى - متمم الصحابة - الطبقة الخامسة1/354)

.

توفي الحسن في شهر ربيع الأول

 سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات ربیع الاول میں ہوئی

(أنساب الأشراف للبلاذري3/66)

.

وتوّفي لخمس ليالٍ خلون من ربيع الأول

سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پانچ ربیع الاول میں ہوئی

(صفۃ الصفوۃ1/350)

.

 مات الحسنُ بن  علي لخمس ليالٍ خَلَوْنَ من شهر ربيعٍ الأول

سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پانچ ربیع الاول میں ہوئی

(مرآۃ الزمان7/133)

.

توفي الحسن [٥] في ربيع الأول

 سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات ربیع الاول میں ہوئی

(المنتظم في تاريخ الملوك والأمم12/26)

.

ومات لخمس ليال خلون من شهر ربيع الأول

سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پانچ ربیع الاول میں ہوئی

(نسب قریش ص40)

.

وَتُوفِّي الْحسن فِي شهر ربيع الأول

سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات ربیع الاول میں ہوئی

(الوافي بالوفيات12/67)

.

الحَسَنْ)وَكَانَت وَفَاته لخمس خلون من ربيع الأول 

سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پانچ ربیع الاول میں ہوئی

(سمط النجوم3/102)

.

مات الحسن بن علي لخمس ليال خلون من شهر ربيع الأول

 سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات پانچ ربیع الاول میں ہوئی

(تاریخ دمشق13/302)

.

*#کئ شیعہ کے مطابق سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات 28صفر ہے......!!*

مَضَى لِلَيْلَتَيْنِ بَقِيَتَا مِنْ صَفَرٍ سَنَةَ خَمْسِينَ مِنَ اَلْهِجْرَةِ

سیدنا حسن کی وفات 28 صفر سن50 ھجری میں ہوئی

(شیعہ کتاب مناقب شہرآشوب4/28)

(شیعہ کتاب مسار الشیعہ شیخ مفید ص47نحوہ)

.

وَ خَرَجَ اَلْحَسَنُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِلَى اَلْمَدِينَةِ وَ أَقَامَ بِهَا عَشْرَ سِنِينَ وَ مَضَى إِلَى رَحْمَةِ اَللَّهِ تَعَالَى لِلَيْلَتَيْنِ بَقِيَتَا مِنْ صَفَرٍ سَنَةَ خَمْسِينَ مِنَ اَلْهِجْرَةِ

 امام حسن  مدینے کی طرف نکلے اور  10 سال وہاں رہے اور پھر 28صفر سن 50ھجری میں وفات پائی

(شیعہ کتاب کشف الغمۃ1/515)

.


مضى صلوات الله عليه لليلتين بقيتا من صفر سنۃ 50

خمسین

سیدنا حسن کی وفات 28 صفر سن50 ھجری میں ہوئی

(شیعہ کتاب تاج الموالید شیخ طبرسی ص26)

.

*#اہم نوٹ و اعتراض......!!*

 عام عوام سیدھے سادھے مسلمان لاعلمی میں اٹھائیس صفر کو یوم شہادت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ منائیں تو اتنا گلہ کیا کرنا کہ ہیں ہی کم علم تو انہیں پیار محبت دلیل و لاجک سے سمجھائیں گے کہ حق سچ کی پیروی کیجیے اور شیعہ کی مشابہت نہ کیجیے۔۔۔۔۔مگر اپنے آپ کو محقق و مفتی اعظم سمجھنے والے کہلوانے والے چمن زمان و انکے گرو عرفان شاہ مشہدی و ریاض شاہ وغیرہ گروپ نے بھی 28 صفر کو یوم شہادت سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ منایا اور اہل سنت کے مشہور قول معروف قول کو چھوڑ دیا اور شیعوں کے قول کے پیچھے اور مشابہت میں لگ لگے تو پھر اعتراض تو بنتا ہے کہ انکی دال میں کچھ کالا تو ہے کیونکہ ان لوگوں کی شیعوں سے یاری و غلامی و چاپلوسی اب ڈھکی چھپی نہیں تو ان پر اعتراض تو بنے گا ... ہاں اگر کسی اہلسنت کے معتبر عالم نے اٹھائیس صفر شہادت لکھی ہو تو انکی توجیہ و تاویل کی جاءے گی کہ ان سے تسامح عجلت وغیرہ کچھ ہوا


.##################

*#سیدنا_حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض فضائل*

الحدیث:

إِنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا

بےشک حسن و حسین دنیا کے میرے دو پھول ہیں

(ترمذی حدیث3770)

.

الحدیث:

عَانَقَهُ وَقَبَّلَهُ وَقَالَ : " اللَّهُمَّ أَحْبِبْهُ، وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُ

نبی پاکﷺنےسیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گلےلگایا، بوسہ دیا اور فرمایا یا اللہ اِسےمحبوب رکھ اور اُسےبھی محبوب رکھ جو ان سے(سچی برحق بلا مبالغہ بلا غلو)محبت رکھے

(بخاری حدیث2122)

اہلسنت ہی سچےبرحق محبان اہلبیت ہیں…باقی نام نہاد محبانِ اہلبیت تو مکار غدار بےوفا تقیہ باز منافق جھوٹےغالی ہیں

.

الحدیث:

مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ، وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي

جس نے حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے(سچی برحق بلا مبالغہ بلا غلو) محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض کیا اس نے مجھ سے بغض کیا

(ابن ماجہ حدیث143)

.

الحدیث:ایکم و الغلو

خبردار(محبت تعریف تنقید وغیرہ ہر معاملےمیں)خود کو غلو(مبالغہ آرائی،حد سےتجاوز کرنے) سےدور رکھو(ابن ماجہ حدیث3029شیعہ کتاب منتہی المطلب2/729)

.

صنفان من أمتي لا نصيب لهما في الاسلام: الغلاة والقدرية....إياكم والغلو فينا،

غلو کرنے والے اور قدری (کافر فاجر بدمذہب ہیں انکا)دین اسلام میں کوئی حصہ نہیں....ہم اہلبیت کی تعریف میں غلو مبالغہ آرائی سے بچو(شیعہ کتاب بحارالانوار25/270ملتقطا)

.

الحدیث:

الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ

حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھما اہل جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں

(ترمذی حدیث3768)

یعنی جو دنیا سے نوجوانی میں وفات پاگئے قیامت کے دن انکے سردار سیدنا حسن حسین ہونگے...ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ دنیا سے جو کھول عمر کی حالت میں وفات پائیں گے ان کے سردار سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما ہونگے...(دیکھیے ترمذی حدیث3664)

.####################

*#کیا سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سیدنا معاویہ نے زہر دلوایا........؟؟رافضیوں شیعوں اور مرزا پلمبریوں کا رد............!!*

.

سوال:

علامہ صاحب اس وڈیو کا جواب چاہیے…(وڈیو میں لکھا ہوا دیکھا جا سکتا ہے کہ بخاری ابوادود وغیرہ میں ہے کہ سیدنا حسن  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زہر دلوایا…وڈیو میں مرزا جہلمی کہتا ہے کہ الاستعاب طبقات ابن سعد انساب الاشراف اور تاریخ دمشق میں روایات موجود ہین جن میں لکھا ہے کہ یزید اور معاویہ نے سیدنا حسن کو زہر دلوایا)

.

*#جواب.و.تحقیق.....!!*

بخاری مسلم ابوداود وغیرہ میں تو ایسا کچھ نہیں لکھا کہ سیدنا معاویہ یا یزید پلید نے زہر دلوایا

البتہ

مرزا پلمبر کے دیے گئے حوالہ جات مین کیا لکھا ہے تحقیق پیش خدمت ہے

.

*#الاستیعاب میں کیا لکھا ہے.....؟؟*

مرزا پلمبر تو کہتا ہے کہ الاستیعاب میں روایات موجود ہیں کہ سیدنا معاویہ نے سیدنا حسن کو زہر دلوایا.....جب ہم الاستیعاب کی پوری عبارت پڑہیں تو واضح ہوتا ہے کہ الاستیعاب میں یہ لکھا ہے کہ

①بلاسند لکھا ہے کہ بعض نے کہا ہے کہ امام حسن کو انکی بیوی جعدہ نے زہر دیا

②ایک گروہ(شیعہ وغیرہ) سے بلاسند و بلادلیل سنا گیا ہے کہ سیدنا حسن کو اسکی بیوی جعدہ نے سیدنا معاویہ کی خفیہ سازش کے تحت زہر دیا

③الاستیعاب میں دو سندوں کے ساتھ روایت لکھی کہ سیدنا حسن سے اصرار کیا گیا کہ وہ نام بتائیں جس نے زہر دیا مگر سیدنا حسن نے نام نہ بتایا

الاستیعاب کی اصل عربی عبارت یہ ہے 

وقال قتادة وأبو بكر بن حفص: سم الحسن بن على، سمته امرأته جعدة بنت الأشعث بن قيس الكندي.

وقالت طائفة كان ذلك منها بتدسيس معاوية إليها

ذَكَرَ أَبُو زَيْدٍ عُمَرُ بْنُ شَبَّةَ وَأَبُو بَكْرِ بن أبى خيثمة قالا: حدثنا موسى ابن إِسْمَاعِيلَ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو هِلالٍ، عَنْ قَتَادَةَ، قال: دخل الحسين على الحسن، فَقَالَ: يَا أَخِي إِنِّي سُقِيتُ السُّمَّ ثَلاثَ مرار، لَمْ أُسْقَ مِثْلَ هَذِهِ الْمَرَّةِ إِنِّي لأَضَعُ كَبِدِي. فَقَالَ الْحُسَيْنُ: مَنْ سَقَاكَ يَا أَخِي؟ قَالَ: مَا سُؤَالُكَ عَنْ هَذَا؟ أَتُرِيدُ أَنْ تُقَاتِلَهُمْ، أَكِلُهُمْ إِلَى اللَّهِ

حَدَّثَنِي عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا قَاسِمٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوْحٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ بْنِ فَارِسٍ، قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، فَدَخَلَ الْمَخْرَجَ ثُمَّ خَرَجَ، فَقَالَ: لَقَدْ سُقِيتُ السُّمَّ مِرَارًا وَمَا سُقِيْتُهُ مِثْلَ هَذِه الْمَرَّةِ، لَقَدْ لَفَظْتُ طَائِفَةً مِنْ كَبِدِي، فَرَأَيْتُنِي أَقْلِبُهَا بِعُودٍ مَعِي فَقَالَ لَهُ الحسين: يَا أَخِي، مَنْ سَقَاكَ؟ قَالَ: وَمَا تُرِيدُ إِلَيْهِ؟ أَتُرِيدُ أَنْ تَقْتُلَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: لَئِنْ كَانَ الَّذِي أَظُنُّ فاللَّه أَشَدُّ نِقْمَةً، وَلَئِنْ كَانَ غَيْرُهُ مَا أُحِبُّ أَنْ تَقْتُلَ بِي بَرِيئًا. 

[الاستيعاب في معرفة الأصحاب390,,1/389ملتقطا]

.

گویا الاستیعاب کے مصنف بتانا چاہ رہے ہین کہ بلاسند اور سنی سنائی بات یہ ہے کہ سیدنا معاویہ کی سازش کے تحت سیدنا حسن کی بیوی جعدہ نے زہر دیا

مگر

معتبر باسند بات یہ ہے کہ سیدنا حسن نے زہر دینے والے کا نام نہ بتایا لیھذا بلاسند سنی سناءی بات ناقابل اعتبار ہے

لیکن مرزا جہلمی نے پوری عبارت پیش کرکے صحیح نتیجہ کرنے کے بجائے سنی سنائی والی بات کو معتبر روایت کہہ کر کہا کہ سیدنا معاویہ نے زہر دیا.....یہ مرزا جہلمی کی مکاری بغض معاویہ جھوٹ و بہتان نہین تو اور کیا ہے......؟؟

.

*#انساب الاشراف میں کیا لکھا ہے....؟؟*

انساب الاشراف میں سب سے پہلے یہ بات لکھی کہ امام حسن نے زہر دینے والے کا نام نہ بتایا اور پھر قیل کہہ کر لکھا کہ سیدنا معاویہ کی سازش کے تحت انکی بیوی نے زہر دیا....اہل علم باخوبی جانتے ہین کہ قیل ضعیف و کمزور غیرمعتبر قول کے لیے کہا جاتا ہے...گویا انساب الاشراف میں سیدنا معاویہ کے کہنے پے زہر کی بات کو قیل یعنی کمزور و ناقابل قبول غیر معتبر سنی سنائی بات قرار دیا....یہ رہی انساب الاشراف کی اصل عربی عبارت

ويقال: إنّه سمّ أربع دفعات فمات في آخرهن، وأتاه الْحُسَيْن وَهُوَ مريض فَقَالَ لَهُ: [أخبرني من سقاك السم؟ قَالَ: لتقتله؟ قَالَ: نعم.قَالَ: مَا أنا بمخبرك، إن كَانَ صاحبي الذي أظن فالله أشدّ له نقمة (ظ) وإلّا فو الله لا يقتل بي بريء۔۔وقد قيل: أن مُعَاوِيَة دس إِلَى جعدة بنت الأشعث بْن قَيْس امرأة الحسن

[أنساب الأشراف للبلاذري ,3/55]

.

*#تاریخ دمشق میں کیا لکھا ہے......؟؟*

تاریخ دمشق لابن عساکر میں تین روایات ایک ہی موضوع پر ہیں، انہین جدا جدا مت کیجیے بلکہ مکمل تینوں روایات پڑھنے کے بعد نتیجہ اخذ کیجیے...تینوں روایات کا حاصل یہ ہے کہ واقدی کہتا ہے کہ کچھ سننے والوں سے میں نے سنا ہے کہ امام حسن کو سیدنا معاویہ نے زہر دلوایا مگر تحقیقی سندی بات یہ ہے کہ امام حسن کو انکی بیوی نے یزید کے کہنے پر زہر دیا تھا....

.

یہ لیں اصل عربی الفاظ

 فابى أن يسميه وقد سمعت بعض من يقول كان معاوية قد تلطف لبعض خدمه أن يسقيه سما

قال وأنا محمد بن سعد أنا يحيى بن حماد أنا أبو عوانة عن يعقوب عن أم موسى أن جعدة بنت الاشعت بن قيس سقت الحسن السم فاشتكى منه شكاة قال فكان يوضع تحته طست وترفع أخرى نحوا من أربعين يوما

أنبأنا أبو محمد بن الأكفاني نا عبد العزيز الكتاني أنا عبيد الله بن احمد الصيرفي اجازة أنا أبو عمر بن حيوية أنا محمد بن خلف بن المرزبان حدثني أبو عبد الله الثمامي نا محمد بن سلام الجمحي عن ابن جعدبة قال كانت جعدة بنت الأشعت بن قيس تحت الحسن بن علي فدس إليها يزيد أن سمي حسنا أني مزوجك ففعلت فلما مات الحسن بعثت إليه جعدة تسأل يزيد الوفاء بما وعدها فقال أنا والله ولم نرضك للحسن فنرضاك لانفسنا فقال كثير وقد يروي للنجاشي (4) * يا جعد (5) بكيه ولا تسأمي * بكاء (6) حق ليس بالباطل لن (7) تستري البيت على مثله * في الناس من حاف ولا ناعل اعني الذي اسلمه أهله (8) * للزمن المستخرج الماحل كان إذا شبت له ناره * يرفعها بالنسب (9) الماثل كيما يراها بائس مرمل * أو فرد قوم ليس بالاهل يغلي بني اللحم حتى إذا * انضج لم يغل على آكل

(تاریخ دمشق لابن عساکر13/284)

.

تاریخ دمشق میں ایسی کوئی باسند روایت نہیں کہ جس میں لکھا ہو کہ سیدنا معاویہ نے زہر دیا البتہ دو سندوں کے مطابق یزید کے کہنے پر سیدنا حسن کو انکی بیوی نے زہر دیا....امام سیوطی نے بھی اسی بات کو اپنی کتاب مین لکھا...ان دو سندوں کی حیثیت کیا ہے یہ ایک الگ بات ہے مگر سیدنا معاویہ نے زہر دلوایا ہو یہ تاریخ دمشق میں باسند موجود نہیں لیھزا یہ مرزا جہلمی پلمبریوں اور رافضیوں کا جھوٹ و بہتان اور مکاری ہے...تاریخ دمشق میں ایسی کوئی باسندصحیح روایت نہیں جس میں لکھا ہوکہ سیدنا معاویہ نے زہر دلوایا ہو...

.

*#طبقات ابن سعد میں کیا لکھا ہے*

طبقات کبری میں بھی سند کے ساتھ یہ بات لکھی کہ سیدنا امام حسن نے زہر دینے والے کا نام نہ بتایا...ایک سند کے ساتھ یہ بات لکھی ہے کہ بیوی جعدہ نے زہر دیا....پھر بلاسند یہ لکھا ہے کہ بعض لوگون سے سنا ہے کہ سیدنا معاویہ نے زہر دلوایا....اسکی کوئی سند بھی پیش نہ کی...سنی سنائی بات حدیث پاک کے مطابق جھوٹ و غیر معتبر کہلاتی ہے...یہ رہی الطبقات کی اصل عربی عبارت:

فلما حضرته الوفاة قال الطبيب وهو يختلف إليه: هذا رجل قد قطع السم أمعاءه. فقال الحسين: يا أبا محمد خبرني من سقاك. قال: ولم يا أخي. قال: أقتله والله  قبل أن أدفنك، أو لا أقدر عليه. أو يكون بأرض أتكلف الشخوص إليه. فقال: يا  أخي إنما هذه الدنيا ليال فانية دعه حتى التقى أنا وهو عند الله فأبى أن يسميه. وقد سمعت بعض من يقول: كان معاوية قد تلطف لبعض خدمه أن يسقيه سما

(كتاب الطبقات الكبرى - متمم الصحابة - الطبقة الخامسة1/335)

.

وما ينقل من أنّ معاوية دس إليهم السمّ مع زوجه جعدة بنت الأشعث فهو من أحاديث الشيعة وحاشا لمعاوية

من ذلك

وہ جو کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ نے سیدناحسن رضی اللہ عنھم کو زہر دلوایا یہ شیعہ کی جھوٹے الزامات و بہتان میں سے ہیں ، سیدنا معاویہ ایسے کام سے بری الذمہ ہیں

(تاریخ ابن خلدون2/649)

.

الحدیث..ترجمہ:

انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بتاتا پھرے...(مسلم جلد1 ص8)

لیھذا رافضیوں مرزا پلمبر اور ان کے ماننے والوں کا سیدنا معاویہ کے متعلق کہنا کہ زہر دلوایا جھوٹ و بہتان ہے سنی سنائی بلاسند بات ہے...اسے پھیلانا معتبر بتانا جرم و مکاری و بہتان اور کم سے کم گمراہیت و بغض معاویہ کی نشانی ہے....اللہ کریم ہدایت دے

.

*#الحاصل*

کسی معتبر کتاب میں باسند صحیح ثابت نہیں کہ سیدنا معاویہ نے سیدنا حسن کو زہر دلوایا....کتب میں کوئی روایت صحیح موجود ہی نہیں کہ جس میں ہو کہ سیدنا معاویہ نے زہر دلوایا....البتہ یزید کے متعلق دو تین سندوں کے ساتھ لکھا ہے کہ اس نے زہر دلوایا، ان سندوں کا حال کیا ہے اس پر پھر کبھی بحث ہوگی فالحال اتنا ثابت کرنا بتانا مقصود تھا کہ سیدنا معاویہ نے زہر نہیں دلوایا......!!


####################

*#کیا سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفنانے سے منع کیا اور کیا سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے جنازے پر تیر برساے۔۔۔۔۔؟؟*

سوال:

علامہ صاحب شیعہ کی یہ تحریر دیکھیں اور اس کا جواب لکھیں تحریر میں تھا کہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات پر جب ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو مبارک میں دفنانا چاہا گیا تو عائشہ نے منع کر دیا بلکہ تیر تک برسائے 70 تیر سیدنا حسن کے جنازے سے نکلے۔۔۔۔تحریر میں تین حوالے تھے نمبر ایک بھجۃ المسائل ابن عبدالبر کی۔۔۔۔نمبر دو بلاذری کی کتاب انساب الاشراف اور تیسرا حوالہ لکھا تھا تاریخ یعقوبی کا۔۔۔ 

۔

*#جواب۔و۔تحقیق۔۔۔۔۔!!*

پہلا حوالہ کا جواب:

*#پہلی بات*

حوالے میں فقط اتنا لکھا ہے کہ سیدہ عائشہ نے منع کر دیا لیکن اتنی سی بات کا بھی کوئی حوالہ نہیں دیا گیا، نہ ہی اس کی کوئی سند بیان کی، بغیر سند کے اتنی بڑی بات کہ تیر برسائے قابل قبول نہیں ہو سکتی۔۔۔۔ بلکہ مذکورہ کتاب میں تیر چلانے والی تو بات اس میں لکھی ہی نہیں

۔ 

*#دوسری بات*

ابن عبدالبر نے کتاب بھجۃ المجالس پہلے لکھی اس کے بعد الاستیعاب لکھی اور الاستیعاب میں لکھا کہ سیدہ عائشہ نے اجازت دی تھی...مروان نے منع کیا تھا لہذا ابن عبدالبر کا اپنی بات سے ہٹ جانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تیر چلانے والی بات ، منع کرنے والی بات غیر معتبر مردود باطل جھوٹ ہے۔ ۔ ۔ ۔ بھجۃ المجالس پہلے لکھی اس کا ثبوت یہ ہے

 کہ الاستیعاب میں کئی جگہ اس کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ بھجۃ المجالس پہلے لکھی گئی

وقد ذكرنا الأبيات بتمامها فِي كتاب «بهجة المجالس»

(الاستيعاب في معرفة الأصحاب3/1165)

۔ 

الاستیعاب میں لکھا ہے:

كنت طلبت إلى عائشة إذا مت أن تأذن لي فأدفن في بيتها مع رسول الله ﷺ، فقالت: نعم. وإني لا أدري لعلها كان ذلك منها حياء، فإذا أنا مت فاطلب ذلك إليها فإن طلت نفسها فادفني في بيتها،وما أظن القوم إلا (١) سيمنعونك إذا أردت ذلك، فإن فعلوا فلا تراجعهم في ذلك، وادفني في بقيع الغرقد، فإن فيمن فيه (٢) أسوة.فلما مات الحسن أتى الحسين عائشة، فطلب ذلك إليها، فقالت: نعم وكرامة. فبلغ ذلك مروان، فقال مروان: كذب وكذبت، والله لا يدفن هناك أبدا، منعوا عثمان من دفنه في المقبرة، ويريدون دفن الحسن

علامہ ابن عبدالبر نے لکھا کہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ سےفرمایا کہ میں سیدنا حسن نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے عرض کی تھی کہ

میں جب وفات پا جاؤں تو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں جو جگہ اپ سیدہ عائشہ کے لیے ہے وہاں مجھے دفن ہونے کی اجازت دیجئے تو سیدہ عائشہ نے اجازت دے دی ہے لیکن ممکن ہے دلی اجازت نہ دی ہو تو اے سیدنا حسین آپ میری وفات کے بعد سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس جانا اور دوبارہ اجازت طلب کرنا اور مجھے ڈر ہے کہ کچھ لوگ تمہیں اس بات سے منع کریں گے جھگڑا کریں گے اگر ایسا ہو تو مجھے بقیع میں دفن کر دینا کہ وہاں پر بھی وہ اشخاص(صحابہ کرام اہل بیت عظام وغیرہ) مدفون ہیں کہ جن کی اسوہ حسنہ کی پیروی کی جاتی ہے

 تو

جب سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات ہوئی تو سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تشریف لائے اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا بات ہے میں سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو دفنانے کی اجازت طلب کی تو سیدہ عائشہ نے فرمایا میری طرف سے بالکل اجازت ہے بلکہ میرے لیے عزت و اعزاز کی بات ہے۔۔۔۔یہ بات مروان تک پہنچی تو اس نے کہا کہ سب جھوٹ ہے۔۔۔سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دفن نہ ہونے دیا گیا تھا تو ہم بھی سیدنا حسن کو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دفن نہ ہونے دیں گے پھر سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی وصیت کے مطابق اپ کو بقیع میں دفن کیا گیا  

(الاستيعاب في معرفة الأصحاب392 ،1/391ملخصا)

.

*#دوسرا حوالہ بلاذری کا*

پہلا جواب:

بلازری نے یہ نہیں لکھا کہ سیدہ عائشہ نے شروع سے ہی منع کر دیا تھا بلکہ اس نے یہ لکھا کہ مروان وغیرہ نے منع کر دیا اور جھگڑا ہو گیا تو جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے سیدہ عائشہ نے فرمایا کہ میں اپنی جگہ جو دفن ہونے کے لیے رکھی ہے وہ کسی کو نہیں دیتی.... باقی تیر چلانے مذمت کرنے وغیرہ کی کوئی بات بلاذری نے بھی نہہں لکھی

یہ دیکھیے بلازری کے الفاظ

فَلَمَّا رَأَتْ عَائِشَةُ السِّلاحَ وَالرِّجَالَ، وَخَافَتْ أَنْ يَعْظُمَ الشَّرُّ بَيْنَهُمْ وَتُسْفَكَ الدِّمَاءُ قَالَتْ: الْبَيْتُ بَيْتِي وَلا آذَنُ أَنْ يُدْفَنَ فِيهِ أَحَدٌ

یعنی

بلاذری کہتا ہے کہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں اسلحہ جمع ہو گیا ہے اور انہیں خوف تھا کہ جھگڑا بہت طویل ہو جائے گا بہت بڑا فساد کھڑا ہو جائے گا خون خرابہ ہو جائے گا تو سیدہ عائشہ نے فرمایا کہ وہ جگہ میری ہے تو میں اپنی جگہ کسی کو نہیں دیتی (اس طرح جھگڑا ختم ہو گیا اور سیدنا حسن کو ان کی وصیت کے مطابق بقیع میں سیدنا حسین نے دفن کر دیا)

(انساب الاشراف3/61)


۔ 

*#دوسرا جواب*

بلازری نے جو یہ لکھا کہ سیدہ عائشہ نے فرمایا کہ میں کسی کو دفن ہونے کے لیے جگہ نہیں دیتی تو اس کا بھی کوئی حوالہ نہیں دیا اور بغیر حوالے کے ایسی بات معتبر کیسے ہو سکتی ہے

۔ 

*#تیسرا جواب*

بلاذری معتبر اہل سنت مصنفین میں سے نہیں لہذا اس کی بات وہ بھی بغیر سند کے بھلا کیسے معتبر ہو سکتی ہے

 كثير الهجاء بذيء اللسان آخذا لأعراض الناس،

بلاذری بہت زیادہ مذمتیں کرتا تھا ۔۔۔فحش زبان تھا ۔۔۔عزتوں کو پامال کرتا تھا

(معجم الادباء حموی2/531)

.

*#تیسرا حوالہ تاریخ یعقوبی کا*

*#پہلا جواب*

تاریخ یعقوب میں اس کی کوئی سند نہیں لکھی بلکہ اس کو  قیل کہہ کر لکھا یعنی کہی گئی بات ہے۔۔۔۔کس نے کہی ہے کوئی اتہ پتہ نہیں اور یہ سب کو پتہ ہے کہ قیل کہہ کر کمزور قول کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے لہذا سیدہ عائشہ کی طرف اسے منسوب کرنا باطل و مردود قرار پایا

۔ 

*#دوسرا جواب*

تاریخ یعقوبی میں یہ لکھا ہے کہ سیدہ عائشہ منع کرنے کے لیے روانہ ہونے والی تھی کہ قاسم بن محمد بن ابی بکر نے انہیں روک لیا تو وہ رک گئیں لہذا یہ کہنا کہ تاریخ یعقوبی میں ہے کہ سیدہ عائشہ نے سیدنا حسین کو روکا بالکل غلط ہوگا کیونکہ سیدہ عائشہ روکنے کے لیے گئی ہی نہیں تھیں،

ثم أخرج نعشه يراد به قبر رسول الله، فركب مروان بن الحكم، وسعيد ابن العاص، فمنعا من ذلك، حتى كادت تقع فتنة.

وقيل إن عائشة ركبت بغلة شهباء، وقالت: بيتي لا آذن فيه لاحد. فأتاها القاسم بن محمد بن أبي بكر، فقال لها: يا عمة! ما غسلنا رؤوسنا من يوم الجمل الأحمر، أتريدين أن يقال يوم البغلة الشهباء؟فرجعت

تاریخ یعقوبی میں ہے کہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی لاش مبارک کو سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے کے جا رہے تھے کہ مروان اور ابن العاص رکاوٹ بنے یہاں تک کہ بہت بڑا فتنہ کھڑا ہونے لگا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ کہا گیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا خچر مبارک پر سوار ہوئی تھی تاکہ وہ روکیں لیکن قاسم بن محمد بن ابی بکر نے عرض کی کہ کہیں بات جھگڑا فساد جنگ ہو نہ جائے جیسے کہ جمل میں ہوا تھا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ رک گئی وہیں سے واپس پلٹ گئیں

  ( تاریخ یعقوبی2/225)

.

*#تیسرا جواب*

تاریخ یعقوبی ابن واضح کی کتاب ہے اور ابن واضح کے متعلق علماء نے لکھا کہ وہ شیعہ مذہب رکھتا تھا اہل سنت کا معتبر لکھاری نہیں ہے وہ۔۔ ۔ ۔ 

ولما كان ابن واضح شيعي المذهب فانه أتى بأشياء

ابن واضح شیعہ مذہب رکھتا تھا اس لیے اس نے اپنی کتاب تاریخ یعقوبی میں شیعت والی باتیں لکھی ہیں( جو کہ غیر معتبر ہیں)

(معجم المطبوعات العربية والمعربة2/1948)

۔ 

امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں

وَقد كنت طلبت إِلَى عَائِشَة رَضِي الله عَنْهَا أَن أدفن مَعَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَقَالَت نعم فَإِذا مت فأطلب ذَلِك إِلَيْهَا وَمَا أَظن الْقَوْم إِلَّا سيمنعونك فَإِن فعلوا فَلَا تراجعهم فَلَمَّا مَاتَ أَتَى الْحُسَيْن عَائِشَة رَضِي الله عَنْهَا فَقَالَت نعم وكرامة فَمَنعهُمْ مَرْوَان فَلبس الْحُسَيْن وَمن مَعَه السِّلَاح حَتَّى رده أَبُو هُرَيْرَة ثمَّ دفن بِالبَقِيعِ إِلَى جنب أمه رَضِي الله عَنْهُمَا

امام ابن حجر لکھتے ہیں کہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے اجازت طلب کی تھی کہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دفنانے کی اجازت دیں تو انہوں نے اجازت دے دی تھی۔۔۔جب میں وفات پا جاؤں تو دوبارہ سیدہ عائشہ سے اجازت لینا۔۔۔۔مجھے خطرہ ہے کچھ لوگ تمہیں اس کام سے روکیں گے جنگ و جدال ہوگا ان سے جھگڑا وغیرہ مت کرنا۔۔۔۔تو جب سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ وفات پا گئے تو سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ سیدہ عائشہ کے پاس تشریف لائے اور اجازت طلب کی دفنانے کی تو سیدنا سیدہ عائشہ نے اجازت دے دی اور فرمایا کہ یہ تو میرے لیے عزت و اعزاز کی بات ہے لیکن مروان اڑے ایا اور  سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے گروہ نے اسلحہ تک اٹھا لیا یہاں تک کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو روکا پھر سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کی والدہ کے قرب میں دفن کر دیا گیا

(صواعق محرقہ2/413)

.

امام ابن حجر والی مذکورہ بات تھوڑے بہت الفاظ کے اختلاف کے ساتھ درج ذیل کتب میں بھی موجود ہے

كتاب تاريخ المدينة لابن شبة1/110

كتاب تاريخ الإسلام -۔۔۔ذہبی 4/40

كتاب تاريخ الخلفاء۔۔امام سیوطی ص148

كتاب ذخائر العقبى۔۔۔طبری ص142

كتاب تاريخ الخميس 2/293

كتاب أسد الغابة۔۔۔۔ ابن الاثیر2/20



۔ 

#################

*#سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا حسن حسین رضی اللہ تعالی عنہا کے مطابق سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اجتہادی مخالف تھے مگر دشمن نہ تھے کافر ظالم وغیرہ نہ تھے*

۔

إِنَّ اِبْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَ لَعَلَّ اَللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ اَلْمُسْلِمِينَ  عَظيِمَتَيْنِ

بے شک یہ(حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ)میرا بیٹا سردار ہے اور امید ہے اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کروائے گا

.(شیعہ کتاب بحار الانوار 43/298  شیعہ کتاب کشف الغمة ي معرفة الأئمة1/519) ایسی حدیث پاک بخاری شریف میں بھی ہے

.

بأن معاوية ظالم كافر

شیعوں کے مطابق سیدنا معاویہ سے صلح کے وقت میں امام حسن نے فرمایا کہ معاویہ تو کافر و ظالم ہے...(شیعہ کتاب جواهر التاريخ - الشيخ علي الكوراني العاملي 2/110)

.

مُعَاوِيَةُ  كَافِرٌ بِهِمَا

شیعوں کے مطابق معاویہ اللہ و رسول پر ایمان نہیں رکھتا، وہ کافر ہے

(شیعہ کتاب شرح الأخبار في فضائل الأئمة الأطهار2/154)

.

رسول کریمﷺنے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور انکے گروہ کو مسلمان قرار دیا مگر شیعہ کافر کہتے ہیں…پہچانو کالےجعلی مسلمان شیعہ مکار بےوفا عیاش جعلی محبان اہل بیت کو

.

 امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے صلح فرما کر یہ بات واضح کر دی کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ مسلمانوں کے عظیم گروہ میں سے ہیں اور اب صلح کے بعد امیر المومنین ہیں لیکن شیعہ مکار بے وفا جھوٹے ظالم جعلی محب نہ مانے اور نہ آج تک مانتے ہیں....ان فسادی تفرقہ باز مکاروں جھوٹوں پے اللہ کی لعنت، 

.

بسم الله الرحمن الرحيم، هذا ما صالح عليه الحسن بن علي بن أبي طالب معاوية

 امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے لکھا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ صلح ہے امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ

(شیعہ کتاب بحار الانوار44/65)

۔

*#اہم ترین نوٹ*

 بے شرم شیعہ ہٹ دھرمی کی انتہا کو پہنچ کر کہتے ہیں  کہ سیدنا حسن نے معاویہ کو کافر سمجھ کر صلح کی جیسے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار سے صلح کی۔۔۔۔۔ شیعوں کی یہ بات بالکل جھوٹ ہے۔۔۔۔بے بنیاد ہے مردود اور باطل ہے کیونکہ

1۔۔۔۔۔۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار سے صلح کی مگر ان کی بیعت نہیں کی۔۔۔کسی مسلمان نے کفار کی بیعت نہیں کی جبکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت سیدنا حسن حسین رضی اللہ تعالی عنہما اور دیگر صحابہ کرام و دیگر مسلمانوں نے کی

۔

2۔۔۔۔۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار سے صلح کی مگر کفار کی اطاعت کرنے کا حکم نہ دیا جبکہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہا نے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی کی اطاعت کرنے کا حکم دیا

۔

3۔۔۔۔سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں شیعہ کی کتب میں یہ دو ٹوک لکھا ہے کہ سیدنا حسن مسلمانوں کے گروہ میں صلح کرایں گے۔۔۔۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ مسلمانوں اور کفار میں صلح کرایں گے بلکہ فرمایا کہ دو عظیم مسلمان گروہوں میں صلح کرائیں گے لیھذا ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا گروہ مسلمانوں کا گروہ تھا۔۔۔۔سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ عظیم مسلمانوں میں سے تھے

۔

4۔۔۔۔سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے شرط رکھی کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ خلفائے راشدین کی پیروی جاری رکھیں گے جبکہ کفار کے ساتھ ایسا معاہدہ نہیں ہوتا کہ اپ خلفائے راشدین کی پیروی کریں

هذا ما صالح عليه الحسن بن علي بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان: صالحه على أن يسلم إليه ولاية أمر المسلمين، على أن يعمل فيهم بكتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وآله وسيرة الخلفاء الصالحين

(شیعوں کے مطابق)امام حسن نے فرمایا یہ ہیں وہ شرائط جس پر میں معاویہ سے صلح کرتا ہوں، شرط یہ ہے کہ معاویہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سیرتِ نیک خلفاء کے مطابق عمل پیرا رہیں گے

(شیعہ کتاب بحار الانوار جلد44 ص65)

سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "نیک خلفاء کی سیرت" فرمایا جبکہ اس وقت شیعہ کے مطابق فقط ایک خلیفہ برحق امام علی گذرے تھے لیکن سیدنا حسن "نیک خلفاء" جمع کا لفظ فرما رہے ہیں جسکا صاف مطلب ہے کہ سیدنا حسن کا وہی نظریہ تھا جو سچے اہلسنت کا ہے کہ سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم خلفاء برحق ہیں تبھی تو سیدنا حسن نے جمع کا لفظ فرمایا...اگر شیعہ کا عقیدہ درست ہوتا تو "سیرت خلیفہ" واحد کا لفظ بولتے امام حسن....اور دوسری بات یہ بھی اہلسنت کی ثابت ہوئی کہ "قرآن و سنت" اولین ستون ہیں کہ ان پے عمل لازم ہے جبکہ شیعہ قرآن و سنت کے بجائے اکثر اپنی طرف سے اقوال گھڑ لیتے ہیں اور اہلبیت کی طرف منسوب کر دیتے ہیں...اور سیدنا معاویہ کی حکومت سنت رسول و سیرت خلفاء پر اچھی تھی ورنہ ظالمانہ ہوتی تو سیدنا حسن حسین ضرور باءیکاٹ فرماتے صلح نہ فرماتے چاہے اس لیے جان ہی کیوں نہ چلی جاتی جیسے کہ یزید سے بائیکاٹ کیا

۔

5۔۔۔۔۔۔سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے خط لکھا تو اس میں

سلام علیکم تھا کفار کے لیے کوئی سلام علیکم لکھتا ہےبھلا۔۔۔۔۔؟؟

من الحسن بن علي أمير المؤمنين إلى معاوية بن أبي سفيان سلام عليكم 

( شیعہ کتاب بحار الانوار مجلسی جلد44 ص39)

۔

6۔۔۔۔سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا جو کہ مسلمان کی وفات کے غم میں پڑھا جاتا ہے

۔ 

فنعى الوليد إليه معاوية فاسترجع الحسين...سیدنا حسین کو جب سیدنا معاویہ کی وفات کی خبر دی گئ تو آپ نےاِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا…(شیعہ کتاب اعلام الوری طبرسی1/434) مسلمان کو کوئی مصیبت،دکھ ملےتو کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ(سورہ بقرہ156)ثابت ہوا سیدنا معاویہ امام حسین کے مطابق کافر ظالم منافق دشمن برے ہرگز نہ تھے جوکہ مکار فسادی نافرمان دشمنان اسلام گستاخانِ معاویہ کے منہ پر طمانچہ ہے

۔

ان تمام نکات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ہرگز ہرگز کافر دشمن ظالم نہ تھے ہاں فروعی اجتہادی اختلاف تھا مگر کفر و دشمنی نہیں تھی

.

ہم جیسے اہل حق حق واضح کریں تو اسے تفرقہ بازی مت سمجھیے....یہ ناحق نفرت پھیلانا نہیں بلکہ لازم ہے کہ ایسے فسادی شیعہ نجدی خوارج چمنی اور مرزا پلمبریوں چوروں ڈاکوووں مکاروں جھوٹوں کو سمجھانے کے ساتھ ساتھ مذمت بھی کی جائے تاکہ لوگ ان سے نفرت کریں اور انکو معتبر نہ سمجھیں اور انکی نہ سنیں نہ نہ مانیں نہ مدد کریں،  نہ مالی مدد کریں یا شرکتی حوصلاتی مدد کریں اور وقت اور بچے انہین نہ دے کر انکی مدد نہ کریں

.

القرآن:

فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ  الذِّکۡرٰی  مَعَ الۡقَوۡمِ  الظّٰلِمِیۡنَ

یاد آجانے(دلائل آجانے)کے بعد تم ظالموں(بدمذبوں گمراہوں گستاخوں مکاروں گمراہ کرنے والوں منافقوں ظالموں) کے ساتھ نہ بیٹھو(نہ میل جول کرو، نہ انکی محفل مجلس میں جاؤ، نہ کھاؤ پیو، نہ شادی بیاہ دوستی یاری کرو،ہر طرح کا ائیکاٹ کرو)

(سورہ انعام آیت68)

لیھذا مکار گستاخ غالی شیعہ رافضی نیم رافضی اور بغض و عناد و کم علم بےباک ناصبی خارجی نجدیوں اور غامدیوں سرسیدیوں نیچریوں قادیانیوں غیرمقلدوں اہلحدیثوں جہلمیوں ذکریوں بوہریوں وغیرہ سب باطلوں سے دوری اختیار کیجیے

.

الحدیث:

السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ، مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ

پسند ہو نہ ہو، دل چاہے نہ چاہے ہر حال میں اہل حق مستحقین کی سنو اور مانو(اطاعت کرو جانی مالی وقتی ہر جائز تعاون کرو)بشرطیکہ معاملہ گناہ و گمراہی کا نہ ہو، گناہ و گمراہی پے نہ سنو نہ مانو(گمراہوں کو جلسوں میں بلاؤ نہ انکی بتائی ہوئی معلومات پے بھروسہ کرو نہ عمل کرو، ہرقسم کا ان سے نہ تعاون کرو)

(بخاری حدیث7144)

۔

بروں باطلوں مکاروں گمراہوں بدمذہبوں تفضیلیوں رافضیوں ناصبیوں ایجنٹوں قادیانیوں نیچریوں سرسیدیوں جہلمیوں غامدیوں قادیانیوں ذکریوں بوہریوں غیرمقلدوں نام نہاد اہلحدیثوں وغیرہ سب باطلوں سے ہر طرح کا تعاون نہ کرنا،انکی تحریروں کو لائک نہ کرنا، انہیں نہ سننا،  نہ پڑھنا، انہیں اپنے پروگراموں میں نہ بلانا، وقعت نہ دینا، جانی وقتی مالی تعاون نہ کرنا، مذمت کرنا مدلل کرنا ایمان کے تقاضوں میں سے ہے

الحدیث:

مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ، وَأَبْغَضَ لِلَّهِ، وَأَعْطَى لِلَّهِ، وَمَنَعَ لِلَّهِ ؛ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ

جو اللہ(اور اسلام کے حکم)کی وجہ سے محبت کرے اور(سمجھانے کے ساتھ ساتھ) اللہ(اور اسلام کے حکم)کی وجہ سے(مستحق برے ضدی فسادی بدمذہب گستاخ وغیرہ سے)بغض و نفرت رکھے اور (مستحق و اچھوں) کی امداد و مدد کرے اور (نااہل و بروں بدمذہبوں گستاخوں منافقوں ایجنٹوں) کی امداد و تعاون نہ کرے تو یہ تکمیل ایمان میں سے ہے 

(ابوداود حدیث4681)


.

الحدیث:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أترعون عن ذكر الفاجر؟، اذكروه بما فيه يعرفه الناس

ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کیا تم فاجر(فاسق معلن منافق ،بدعقیدہ، گمراہ گستاخ، کافر مرتد، خائن، دھوکے باز، بدمذہب) کو واضح کرنے سے ہچکچاتے ہو...؟(جیسا وہ ہے ویسا کہنے سے گھبراتے ہو...؟؟)

اسے ان چیزوں(ان کفر گمراہیوں گستاخیوں کرتوتوں، عیبوں اعلانیہ گناہوں ، خیانتوں، منافقتوں دھوکے بازیوں) کے ساتھ واضح کرو جو اس میں ہوں تاکہ لوگ اسے پہچان لیں(اور اسکی گمراہی خیانت منافقت بدعملی دھوکے بازی مکاری سے بچ سکیں)

(طبرانی کبیر حدیث1010)

(شیعہ کتاب ميزان الحكمة 3/2333نحوہ)

یہ حدیث پاک  کتبِ حدیث و تفاسیر اور فقہ و تصوف کی کئی کتب میں موجود ہے... مثلا جامع صغیر، شعب الایمان، احیاء العلوم، جامع الاحادیث، کنزالعمال، کشف الخفاء ردالمحتار ، عنایہ شرح ہدایہ، فتاوی رضویہ، تفسیر ثعالبی، تفسیر درمنثور وغیرہ کتب میں موجود ہے

لہذا مکاروں جھوٹوں باطلوں بدمزہبوں کو مذمت کرنا ان کے برے نظریات لکھنا بتانا اور ان کا رد کرنا فرقہ واریت نہیں بلکہ اسلام کا حکم ہے ہاں سمجھانے کی کوشش بھی ساتھ ساتھ ضرور ہونی چاہیے

.

 *#امام حسن اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہما دونوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت کی...لہذا شیعہ کا یہ بہانہ کرنا کہ امام حسین نے بیعت نہیں کی سراسر جھوٹ ہے مکاری ہے......!!*

معاوية، وأعد لهم الخطباء فقال:يا حسن قم قبايع فقام وبايع، ثم قال للحسين عليه السلام: قم فبايع، فقام فبايع

 ثالثین نے کہا کہ اے حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھیے اور امام معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کیجئے تو امام حسن اٹھے اور بیعت کی اور پھر امام حسن نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے فرمایا کہ اٹھیے بیعت کیجئے تو وہ بھی اٹھے اور انہوں نے بھی سیدنا معاویہ کی بیعت کی

(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي44/61)


.

والظاهر أن ربنا واحد ونبينا واحد، ودعوتنا في الاسلام واحدة. لا نستزيدهم في الإيمان بالله والتصديق برسوله صلى الله عليه وآله ولا يستزيدوننا. الأمر واحد إلا ما اختلفنا فيه من دم عثمان

سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں یہ بات بالکل واضح ہے ظاہر ہے کہ ان(سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم وغیرہ)کا اور ہمارا رب ایک ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہے، انکی اور ہماری اسلامی دعوت و تبلیغ ایک ہے، ہم ان کو اللہ پر ایمان رسول کریم کی تصدیق کے معاملے میں زیادہ نہیں کرتے اور وہ ہمیں زیادہ نہیں کرتے...ہمارا سب کچھ ایک ہی تو ہے بس صرف سیدنا عثمان کے قصاص کے معاملے میں اختلاف ہے

(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ3/114)

 ثابت ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایمان سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایمان سیدنا معاویہ کا اسلام سیدنا علی کا اسلام اہل بیت کا اسلام صحابہ کرام کا اسلام قرآن و حدیث سب کے سب معاملات میں متفق ہی تھے،سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ سب کے مطابق قرآن و حدیث میں کوئی کمی بیشی نہ تھی....پھر کالے مکار بے وفا ایجنٹ غالی جھوٹے شیعوں نے الگ سے حدیثیں بنا لیں، قصے بنا لیے،الگ سے فقہ بنالی، کفریہ شرکیہ گمراہیہ نظریات و عمل پھیلائے، سیدنا علی و معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام کے اختلاف کو دشمنی منافقت کفر کا رنگ دے دیا...انا للہ و انا الیہ راجعون

.

سیدنا معاویہ رضی اللہ سے صلح کو اس حدیث کا مصداق ٹہرایا صحابہ کرام اہلبیت عظام و علماء اسلاف نے....لیھذا صحابہ کرام اہلبیت عظام علماء اسلاف کے مطابق سیدنا معاویہ اور انکا گروہ مسلمان گروہ تھا غدار منافق کافر وغیرہ نہیں تھا کیونکہ حدیث پاک میں دو مسلمان گروہ آیا ہے جبکہ دوسری طرف ایات و احادیث کے سرعام یا خفیہ کالے شیعہ جلے بھنے رافضی نیم رافضی بکتے ہیں کہ شاہت الوجوہ  یعنی شاہ وہ نہیں جو سب حوالے کردے یعنی نعوذ باللہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ شاہ نہیں جوکہ حدیث پاک کی سراسر نفی ہے کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ میرا بیٹا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سید(شاہ) ہے اور دوسرے رافضی شیعہ میہ کالے کمینے بکواس کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کافر تھے، امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ چاہتے ہوئے صلح کی اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صلح نہ کی حالانکہ بھی حدیث پاک کے سراسر خلاف ہے کیونکہ حدیث پاک میں دو عظیم مسلمان گروہ کا لفظ آیا ہے جس سے ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ اور انکا گروہ مسلمان تھے ایمان والے تھے کافر منافق نہ تھے....کافر منافق پیسہ خور ایجنٹ یہ کمینے گستاخ لوگ ہیں

.

*#امام عالی مقام سیدنا حسن مجتبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:*

ﺍﺭﻯ ﻭﺍﻟﻠﻪ ﺍﻥ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺧﻴﺮ ﻟﻲ ﻣﻦ ﻫﺆﻻﺀ، ﻳﺰﻋﻤﻮﻥ ﺍﻧﻬﻢ ﻟﻲ ﺷﻴﻌﺔ ، ﺍﺑﺘﻐﻮﺍ ﻗﺘﻠﻲ ﻭﺍﻧﺘﻬﺒﻮﺍ ﺛﻘﻠﻲ، ﻭﺃﺧﺬﻭﺍ ﻣﺎﻟﻲ، ﻭﺍﻟﻠﻪ ﻟﺌﻦ ﺁﺧﺬ ﻣﻦ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻋﻬﺪﺍ ﺍﺣﻘﻦ ﺑﻪ ﺩﻣﻲ، ﻭﺍﻭﻣﻦ ﺑﻪ ﻓﻲ ﺍﻫﻠﻲ، ﺧﻴﺮ ﻣﻦ ﺍﻥ ﻳﻘﺘﻠﻮﻧﻲ ﻓﺘﻀﻴﻊ ﺍﻫﻞ ﺑﻴﺘﻲ ﻭﺍﻫﻠﻲ

ترجمہ:

(امام عالی مقام سیدنا حسن مجتبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں)اللہ کی قسم میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ جو میرے شیعہ کہلانے والے ہیں ان سے معاویہ رضی اللہ عنہ بہتر ہیں، ان شیعوں نے تو مجھے قتل کرنے کی کوشش کی، میرا ساز و سامان لوٹا، میرا مال چھین لیا، اللہ کی قسم اگر مین معاویہ سے عہد لے لوں تو میرا خون سلامت ہو جائے اور میرے اہلبیت امن میں آجاءیں، تو یہ اس سے بہتر ہے کہ شیعہ مجھے قتل کریں اور میرے اہل و اہلبیت ضائع ہوجائیں گے 

(شیعہ کتاب احتجاج طبرسی جلد2 ص9)

.


اور پھر سیدنا حسن حسین رضی اللہ تعالی عنھما نے بمع رفقاء سیدنا معاویہ سے صلح و بیعت کرلی....(دیکھیےشیعہ کتاب بحار الانوار44/65 شیعہ کتاب  جواهر التاريخ - الشيخ علي الكوراني العاملي3/81)

.

*امام حسن رضی اللہ عنہ نےفرمایا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کرو، اطاعت کرو*

وإنكم قد بايعتموني أن تسالموا من سالمت وتحاربوا من حاربت، وإني قد بايعت معاوية فاسمعوا له وأطيعوا

ترجمہ:

(سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدائن کے ایک محل میں عراق وغیرہ کے بڑے بڑے لوگوں کو جمع کیا اور) فرمایا کہ تم لوگوں نے میری بیعت کی تھی اس بات پر کہ تم صلح کر لو گے اس سے جس سے میں صلح کروں اور تم جنگ کرو گے اس سے جس سے میں جنگ کروں تو بے شک میں نے معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کر لی ہے تو تم بھی سیدنا معاویہ کی بات سنو مانو اور اطاعت کرو 

(الإصابة في تمييز الصحابة ,2/65...شیعہ کتاب  جواهر التاريخ - الشيخ علي الكوراني العاملي3/81)

*لیکن*

جب سیدنا حسن نے حدیث پاک کی بشارت مطابق سیدنا معاویہ سے صلح کی، سیدنا معاویہ کی تعریف کی،انکی بیعت کی،بیعت کرنے کا حکم دیا تو بعض شیعوں نےسیدنا حسن کو کہا:في أنه كان أصحاب الحسن المجتبى (عليه السلام) يقولون له: يا مذل المؤمنين و يا مسود الوجوه

ترجمہ

اے مومنوں کو ذلیل کرنےوالے،مومنوں کے منہ کالا کرنے والے(شیعہ کتاب مستدرک سفینہ بحار8/580)

.

سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:

قد خذلتنا شیعتنا

ترجمہ:

بے شک ہمارے کہلانے والے شیعوں نے ہمیں رسوا کیا،دھوکہ دیا، بےوفائی کی

(مقتل ابی مخنف ص43  مطبوعہ حیدریہ نجف)

(شیعہ کتاب موسوعہ کلمات الامام الحسین ص422)

.

.

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ

سیدنا حسن و معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما کا اختلاف بےشک تھا مگر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے مطابق بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بہتر و اچھے تھے، کافر گمراہ منافق وغیرہ نہ تھے

.

سیدنا حسن  رضی اللہ عنہ کی بات ان لوگوں کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے جو کہتے ہیں کہ سیدنا حسن رضی اللہ نے نه چاہتے ہوئے بیعت کی،مجبور ہوکر بیعت کی،تقیتًا بیعت کی

بلکہ

الٹا شیعوں کی مذمت ہے کیونکہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات سے واضح ہے کہ ان کو شیعوں کی بےوفائی و منافقت کا تقریبا یقین تھا، آپ کو خوف تھا کہ شیعہ جان مال اور اہلبیت کو بھی قتل کر دیں گے....اس لیے آپ نے اپنی جان مال اور اہلبیت کے تحفظ کے لیے سیدنا معاویہ سے صلح کی کیونکہ سیدنا حسن کا خیال تھا کہ شیعہ اہلبیت کو نقصان دیں گے مگر سیدنا معاویہ تحفظ دیں گے......اس میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی بڑی شان بیان ہے اور شیعوں کی بےوفاءی مکاری اسلام و اہلبیت سے دشمنی کا بیان ہے

.

سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوٹوک فرمایا کہ شیعوں نے ان پر حملہ کیا، مال لوٹا، ساز و سامان چھین کر لےگئے، اس سے ثابت ہوتا ہے شیعہ جعلی محب اور مکار ہیں....... محبت کا ڈھونگ رچا کر وہ دراصل اسلام دشمنی اہلبیت دشمنی نبہانے والے ہیں.....اسلام کو تباہ کرنے والے، قرآن و سنت اسلام میں شکوک و شبہات پھیلانے والے دشمن اسلام ہیں، دشمنان اسلام کے ایجنٹ ہیں.......انکی باتیں کتابیں جھوٹ و مکاریوں سے بھری پڑی ہیں...........سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی انہی بےوفا مکار کوفی شیعوں نے شہید کرایا، یہ لوگ مسلمانوں میں تفرقہ فتنہ انتشار قتل و غارت پھیلانے والے رہے ہیں... انہیں اسلام کی سربلندی کی کوئی فکر نہین بلکہ اسلام دشمن ہیں یہ لوگ..... انکا کلمہ الگ ،اذان الگ، نماز الگ، زکاۃ کے منکر، حج سے بیزار، قران میں شک کرنےوالے، شک پھیلانے والے، جھوٹے عیاش چرسی موالی بےعمل بدعمل بےوقوف و مکار دشمن اسلام دشمن اہلبیت ہیں...اسی طرح مرزا جہلمی اور نجدی اور نیم رافضی مشہدی چمنی وغیرہ بھی ایجنٹ منافق فسادی چاپلوس شہرت و پیسے کے پجاری فسادی ہیں، تحقیق کے نام پے دھوکہ گستاخیاں بے باکیاں ایجنٹیاں کرتے ہیں، اللہ کریم ان کو ہدایت دے ورنہ مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھے

.

القرآن،ترجمہ:

سچوں(کو پہچان کر ان)کا ساتھ دو(سورہ توبہ آیت119)

دین و دنیا کو بدنام تو جعلی منافق مکار کر رہےہیں....عوام و خواص سب کو سمجھنا چاہیےکہ #جعلی_مکار_منافق تو علماء پیر اینکر لیڈر سیاست دان جج وکیل استاد ڈاکٹر فوجی وغیرہ افراد و اشیاء سب میں ہوسکتےہیں،ہوتے ہیں

تو

جعلی کی وجہ سے #اصلی سےنفرت نہیں کرنی چاہیےبلکہ اصلی کی تلاش کرنی چاہیے اور اسکا ساتھ دینا چاہیے اور ایک دوسرے کی اصلاح کرنی چاہیے، اصلاح و جواب قبول کرنے کا دل جگرہ ہونا چاہیے، رد و مذمت مجبوری ہے تاکہ عوام ایسوں سے دور رہے ورنہ اصل مقصد تو یہ ہے کہ اللہ ہمیں اور ہماری تحریر تقریر رد و جواب سب کچھ کو ہدایت کا باعث بنائے

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.