*#عید نماز ہو یا کوئی محفل ہو تو اتنے القابات لگائے جاتے ہیں، ایسا کیوں۔۔۔؟؟ کیا ہمیں عاجزی نہیں کرنی چاہیے۔۔۔؟ بڑے بڑے القابات والے پوسٹر تحریرات شائع کرنا کرانا پھیلانا کیا ایک قسم کا تکبر نہیں۔۔۔؟؟ اللہ کریم نے نعمت بخشی ہے تو پھر اس نعمت والے القابات پہ ناز کرنا۔۔۔۔؟؟۔۔۔ایک صاحب علم کے سوال پر ناچیز کا جواب*
سوال:
علامہ صاحب ہمیں کیا ہو گیا ہے۔۔۔۔جدھر دیکھو القابات کی بوچھاڑ ہو رہی ہے کوئی محقق العصر ہے تو کوئی فقیہ العصر کوئی بےتاج بادشاہ ہے تو کوئی تاج الفقہاء ہے، کوئی مقرر بے مثال ہے تو کوئی مقرر شعلہ بیان ہے۔۔۔کیا کیا پوسٹر پر لکھوایا جا رہا ہے۔۔۔عید نماز کے پوسٹر ہوں یا کسی محفل کے پوسٹر القابات کی بوجھاڑ کی جاتی ہے اور اسے وہی شخص پھیلاتا بھی ہے جس کے متعلق القابات لکھے جاتے ہیں۔۔۔مطلب اپنی تعریف اپ۔۔۔؟؟ اپنے منہ میاں مٹھو بننا۔۔۔؟؟ علامہ صاحب ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔۔؟؟
۔
*#جواب سے پہلے ایک گزارش*
تحریرات سوالات اعتراضات کے جوابات، اہلسنت کے دفاع، معاشرے کی اصلاح و معلومات و تحقیق و تشریح و تصدیق یا تردید وغیرہ کے لیے مجھے وٹسپ کر سکتے ہیں
naya wtsp nmbr
03062524574
میرے نئے وٹسپ نمبر کو وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنائیے تاکہ میں تحریرات وہاں بھیج سکوں،،،سوالات اعتراضات کے جوابات دے سکوں۔۔۔۔دینی خدمات زیادہ سے زیادہ سر انجام دے سکوں
.
علمی تحقیقی اصلاحی سیاسی تحریرات کے لیے اس فیسبک پیج کو فالوو کیجیے،پیج میں سرچ کیجیے،ان شاء اللہ بہت مواد ملے گا...اور اس بلاگ پے بھی کافی مواد اپلوڈ کردیا ہے...لنک یہ ہے:
https://www.facebook.com/profile.php?id=100022390216317&mibextid=ZbWKwL
.
https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1
.
اب اتے ہیں سوال کے جواب کی طرف
*#جواب*
پیارے محترم بھائی میں کچھ حد تک اب کی بات سے متفق ہوں کہ کبھی عاجزی کا اظہار بھی ہونا چاہیے۔۔۔مگر اج کے اس پرفتن دور میں اسلام کے سچے خادموں ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے غلاموں کو القابات پر ناز کرنے دیجئے۔۔۔عوام انہیں سچے القابات سے نوازے اور یہ سچے القابات پہ ناز کرتے ہوئے عوام میں پھیلائیں تو کوئی حرج نہیں بلکہ خوشی کی بات ہے بشرطیکہ واقعی میں وہ دوسروں کو حقیر و کمتر نہ سمجھتے ہوں اور وہ واقعی القابات کے مستحق بھی ہوں
۔
ارے یہ اسلام کی خدمت کا اظہار ہی تو ہے
ارے یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا اظہار ہی تو ہے
انہی دو نسبتوں پر ناز ہی تو ہے۔۔۔تو ناز کرنے دیجیے،
۔
ہاں درد دل ایسے انداز میں لکھیے کہ سچے لوگ، سچی خدمات پر ، سچی غلامی پر ناز کرتے ہوئے القابات لکھ سکتے ہیں پھیلا سکتے ہیں مگر ناحق یا غیر مستحق ہو کر القابات لگنا لگوانا پھیلانا درست نہیں
۔
فقیہ العصر کا یہی تو معنی ہے کہ میں نے دین اسلام کی فقہ میں بہت خدمت کی ہے کہ میں اب ناز کر سکتا ہوں کہ میرے ساتھ ساتھ دوسرے لوگ بھی فقیہ العصر ہو سکتے ہیں ، میں بھی فقیہ العصر ہوں۔۔۔ شکر الحمدللہ
۔
شیخ الاسلام شیخ الحدیث شیخ التفسیر علامۃ الدہر خطیب شیریں، خطیب بے مثال، وغیرہ القابات یہی سمجھ کر لکھے جائیں پھیلائے جائیں کہ شکر الحمدللہ میں نے حدیث کی بہت خدمت کی ہے اور میں نے قران مجید کی اور میں نے تفسیر کی بہت خدمت کی ہے اور میں نے علم پڑھانے میں بہت خدمت کی ہے اور میں خطاب میں لذت لانے کے لیے بہت محنت کی ہے اس لیے دوسری بھی ان القابات کے مستحق ہیں لیکن میں بھی الحمدللہ الحمدللہ اس کا مستحق ہوں
۔
یا پھر یہ نیت ہو کہ عوام اور خواص میری خدمات کو دیکھ کر القابات دے رہے ہیں تاکہ دوسرے لوگ بھی مجھ سے فائدہ اٹھائیں تو بھی برحق ہے
۔
یا پھر یہ نیت ہو کہ یہ اللہ تعالی کے مجھ پر کرم ہے احسانات ہیں اور اللہ کی دی ہوئی دولت نعمت ہے اور اللہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے پر اللہ کی نعمتوں کا اظہار بھی ہو
۔
لیکن ہر صورت میں یہ لازم ہے کہ ہم ایک دوسرے کو حقیر و کمتر نہ سمجھیں، نہ ایسے اقدامات اٹھائیں کہ جن سے حقارت کی بو اتی ہو۔۔۔سوائے وہ منافق غدار دشمن برے کہ جن کو اسلام نے عزت نہیں بخشی تو انہیں ہم کیوں عزت دیں۔۔۔۔۔؟؟
۔
القرآن،ترجمہ:
یوسف نے کہا مجھے زمین کے خزانوں پر کردے بیشک میں حفاظت والا علم والا ہوں(سورہ یوسف ایت 55)
اس آیت مبارکہ سے علمائے کرام نے دلیل اخذ کی ہے کہ ویسے تو منصب کی طلب جائز نہیں مگر یہ کہ ضرورت ہو یا خوف ہو کہ نا اہل منصب پر آجائیں گے تو اس حالت میں منصب کی طلب جائز ہے جیسے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے منصب کی طلب کی۔۔۔۔۔اسی طرح اپنے آپ کو عالم وغیرہ لکھنا بھی ٹھیک نہیں مگر جب وقت ضرورت ہو یا اچھا مقصد ہو تو عالم لکھنا مفتی لکھنا اہل کے لیے جائز ہے بشرطیکہ تفاخر نہ ہو تکبر نہ ہو جیسے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے آپ کو حفاظت والا علم والا کہا۔۔(دیکھیے تفسیر خزائن العرفان مرآة شرح مشکاة وغیرہ)
۔
اپنی منہ اپنی تعریف ٹھیک نہیں مگر اپنے منہ اپنا تعارف یعنی بطور تعارف یا وقت ضرورت القاب لگانا جائز ہے..ڈاکٹر اگر ایم.بی بی ایس وغیرہ لکھے تو اعزاز کی بات ہے اور اگر اچھے مقصد کے لیے عالم خود کو عالم لکھے مفتی خود کو مفتی لکھے تو عیب،اعتراض......؟؟
واقعی کوئی عالم،مفتی ہوتو ڈاکٹر،جج،وکیل کیطرح تعارفا یا دیگر اچھے مقاصد کے تحت عالم مفتی لکھے تو برحق بلکہ کبھی لازم
مگر
اپنی تعریف و تکبر بڑائی مقصد ہو تو ناحق و جرم....غیر مستحق ہو یا بطورِ تکبر عالم ہونا جتاے تو جرم.و.عیب ہے ورنہ ہرگز نہیں
فتاوی عالمگیری میں ہے کہ:
لا بأس للعالم أن يحدث عن نفسه بأنه عالم ليظهر علمه فيستفيد منه الناس وليكن ذلك تحديثا بنعم الله تعالى
صاحبِ بہار شریعت خلیفہ اعلی حضرت اسکا تشریحی ترجمہ کرتے ہوے فرماتے ہیں:
عالم اگر اپنا عالم ہونا لوگوں پر ظاہر کرے تو اس میں حرج نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ تفاخر کے طور پر یہ اظہار نہ ہو
(کہ تفاخر حرام ہے)بلکہ محض تحدیثِ نعمت الٰہی کے لیے یہ اظہار ہو اور یہ مقصد ہو کہ جب لوگوں کو ایسا معلوم ہوگا تو استفادہ کریں گے کوئی دین کی بات پوچھے گا اور کوئی پڑھے گا..(فتاوی عالمگیری جلد5 صفحہ377,بہار شریعت جلد3 حصہ16 صفحہ627)
.
اللہ بہتر جانتا ہے کہ میں اگر اپنے نام کے ساتھ علامہ لکھتا ہوں تو علامہ ہونے کا غرور اور تکبر نہیں ہے غرور و تکبر کی وجہ سے نہیں لکھتا ہوں۔۔۔عالم ہونے کا جتانے کے لیے نہیں لکھتا ہوں۔۔۔بلکہ میرے استاد محترم نے مجھے یہ اجازت دی بلکہ حکم دیا کہ تحریر میں نام کے ساتھ علامہ لکھو
کیونکہ
تحریر پھیلتے پھلتے نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے اگر علامہ نہیں لکھا ہوگا تو لوگوں کو زیادہ اطمینان حاصل نہ ہوگا لوگ سمجھیں گے کہ یہ شاید کسی عام مولوی لکھاری کی تحریر ہے جبکہ علامہ لکھا ہوگا تو تحریر میں وزن پڑے گا کہ یہ حوالہ جات معتبر اور درست ہیں کسی جاننے والے نے علامہ نے لکھے ہیں اور مزید اس کی یہ بھی فوائد ہوں گے کہ لوگ اعتراضات وغیرہ مسائل وغیرہ میں رہنمائی لیں گے...اللہ تکبر تفخر دھوکے بازی بدگمانی حق تلفی حسد تحقیر اور غیرمستحق ہوکر القاب لگانے سے محفوظ رکھے..
.
أنا حمزة بن عبد المطلب أسد الله وأسد رسوله...سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے للکارتےہوئےفرمایا "میں حمزہ ، اللہﷻکا شیر ہوں،اسکےرسولﷺکا شیر ہوں(طبقات کبری2/12)
اللہﷻاور رسولﷺکا شیر کہا…صرف اللہ کا شیر نہ کہا…بالخصوص نجدیوں لھابیوں کےلیے ہدایت کا سامان ہے ورنہ منافقوں گمراہوں نام نہاد توحیدیوں کے جل بھن جانےکا مقام ہے
.
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منع نہ فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ خود کو شیر خدا ، شیر مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کہنا کہلوانا برحق ہے ، جائز ہے بشرطیکہ کسی مسلمان کو حقیر و کمتر نہ سمجھا جائے بلکہ سمجھا جائے کہ ان میں بھی شیر خدا اور شیر مصطفی ہوسکتے ہیں بلکہ ہوتے ہیں
اسی طرح دیگر القابات بھی لگائے جا سکتے ہیں بشرط کہ مقصود اسلام کی سربلندی ہو مقصود یہ ہو کہ
یہ شان ہے ان کے غلاموں کی سرکار کا عالٗم کیا ہوگا۔۔، اکابرین کا عالٗم و درجہ کیا ہوگا۔۔
۔
الحدیث
شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُحُدًا، فَضَرَبْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَقُلْتُ : خُذْهَا مِنِّي وَأَنَا الْغُلَامُ الْفَارِسِيُّ. فَالْتَفَتَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : " فَهَلَّا قُلْتَ : خُذْهَا مِنِّي وَأَنَا الْغُلَامُ الْأَنْصَارِيُّ ؟
ایک صحابی فرماتے ہیں کہ
میں غزوہ احد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا میں نے ایک مشرک کو ضرب ماری اور میں نے کہا یہ لو مجھ سے اور میں ایک فارسی جوان ہوں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ایسا کیوں نہیں کہا کہ یہ ضرب میری طرف سے ہے اور میں انصاری جوان ہوں(یعنی ایک طرح سے رسول کریم فرما رہے تھے کہ تمھیں ایسا کہنا چاہیے تھا کہ میں انصاری جوان ہوں مجھے اس پر ناز ہے)
(ابو داؤد حدیث 5123)
۔
اس حدیث پاک میں بھی واضح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور اسلام کی خدمات کے علاوہ دیگر نسبتیں بھی لگائی جا سکتی ہیں جیسے کہ انصار مہاجرین اور اسی طرح قادری چشتی سہروردی نقشبندی حنفی شافعی حنبلی مالکی وغیرہ مختلف قسم کی نسبتیں لگائی جا سکتی ہیں اور اس کے علاوہ اللہ نے کچھ دولت یعنی علم و حکمت خدمت کی دولت عطا فرمائی ہے تو اس کا بھی اظہار کرنا چاہیے بشرطیکہ کسی کو حقیر اور کمتر نہ سمجھا جائے
.
الحدیث
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ أَنْ يُرَى أَثَرُ نِعْمَتِهِ عَلَى عَبْدِهِ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پسند فرماتا ہے کہ بندے پر اللہ کی نعمتوں کا اظہار ہو (یعنی بندہ اظہار کرے کہ اس پر اللہ کی نعمتیں ہیں)
(ترمذی حدیث 2819)
اللہ نے اپ کو علم کی نعمت عطا فرمائی ہے تو اس کا اظہار کر سکتے ہیں
اللہ نے اپ کو حدیث پاک پڑھانے تفسیر پڑھانے کی نعمت عطا فرمائی ہے تو اس کا اظہار کر سکتے ہیں
اللہ نے اپ کو بہادری جرات تدبر تفکر خدمت خلق خدمت دین تفقہ حدیث تفسیر فقہ توجیہ تطبیق استنباط امالہ تجوید وغیرہ وغیرہ بہت ساری نعمتیں عطا فرمائی ہیں تو ان نعمتوں کا اظہار ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ تو اللہ کو محبوب و پسند ہے بشرطیکہ ہم کسی مستحق عزت کو حقیر و کمتر سمجھیں
۔
الحدیث
حَسْبُ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کسی کے بدتر ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر و کمتر سمجھے
(ابو داؤد حدیث 4882)
۔
ایسے الفاظ و انداز و اقدامات سے بچنا لازم ہے جس سے کسی کی کسی عزت دار کی کمتری اور حقارت کی جا رہی ہو۔۔۔۔ایک دوسرے کو حوصلہ دینا چاہیے۔۔۔ایک دوسرے کو عزت دینی چاہیے۔۔۔۔۔!!
۔
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
naya wtsp nmbr
03062524574