https://www.facebook.com/share/p/162cj2tKSZ/
*#کیا سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہا نے سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کلیجہ چبایا تھا۔۔۔؟؟دلائل کیا کہتے ہیں۔۔؟؟ ایسی روایات کو ثابت کرنے کا کیا فائدہ۔۔۔۔؟؟ اور آپکی بیان کردہ روایات سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ سیدنا علی کو گالیاں دی جاتی تھی سیدنا معاویہ کی محفل میں، اس کا جواب بھی لکھا ہے*
.
*#خلاصہ*
تقریبا چار روایات تو ایسی ہیں کہ جو خود دلیل بن سکتی ہیں ، دلیل بنتی ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندہ نے اسلام لانے سے پہلے سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کلیجہ مبارک چبایا تھا لیکن کھا نہ سکی، اور دیگر چار پانچ مزید روایات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے، اور تاریخ کی کئی کتابوں میں بھی یہی لکھا ہے لیکن اگر چبایا بھی ہو تو بھی ان کے متعلق نازیبہ الفاظ و انداز ہرگز ہرگز درست نہیں کیونکہ وہ مسلمان ہو گئی تھیں تو اسلام لانے کی وجہ سے قران و حدیث کی روشنی میں پہلے کے کرتوت معاف ہو جاتے ہیں لہذا کلیجہ چبانے والی بات لے کر سیدہ ہندہ کی مذمت نہیں کی جا سکتی، جیسے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض عزیز رشتہ دار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت گستاخی کیا کرتے تھے لیکن جب انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو اب ان کی مذمت نہیں کر سکتے ، اسی طرح سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بھی مذمت نہیں کر سکتے۔۔۔!!
۔
*#سب سے پہلے تو یہ پڑھیے کہ ایسی روایات کو ثابت کرنے کا فائدہ کیا۔۔۔۔۔۔۔؟؟*
*#سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کلیجہ چبایا، ایسی روایت کو ثابت کرنے کے متعلق اپ عنایت نے لمبی تحریر لکھ کر کیا فائدہ دیا.....؟؟*
سوال:
ایک قبلہ محترم سید صاحب نے اعتراض اٹھایا کہ علامہ صاحب اپ نے مفتی حسان صاحب کا رد کر کے لمبی تحریر لکھ کر کیا فائدہ دیا عوام کو۔۔۔؟؟ صحابہ کرام کی عظمت تو اس میں ہے کہ ہم اس واقعے کی نفی کریں۔۔۔اور اپ کی فیس بک ائی ڈی پر کمنٹ پڑھے، اکثر مذمت بھرے تھے ، کیا فائدہ ملا اپ کو ، یا کیا فائدہ ملا عوام کو۔۔۔؟؟
۔
*#مودبانہ جواب و عرض*
1۔۔۔۔قبلہ شاہ صاحب میں نے قبلہ مفتی حسان صاحب کا مطلقا رد نہیں کیا بلکہ ان کی ایک بات دلائل کے موافق تھی تو اس پر میں نے مزید دلائل دے کر ان کی حمایت کی اور مفتی صاحب کو قبلہ لکھا۔۔۔باقی ان کی جو دوسری بات تھی جو انہوں نے کلیجہ چبانے کی روایت کو سرے سے غیر معتبر قرار دیا ، ایک قسم کا جھوٹ قرار دیا تو اس کا میں نے رد کیا اور اس کا فائدہ کیا۔۔۔؟؟ یہ اپ نیچے پڑھیں گے
۔
2۔۔۔قبلہ شاہ صاحب کلیجہ چبانا ثابت ہی نہیں تھا تو پھر امام احمد بن حنبل نے کلیجہ چبانے کی روایت لکھی کیوں۔۔۔۔؟؟ ان کو کیا فائدہ ملا۔۔۔۔؟؟ انہوں نے کیا عوام کو فائدہ دیا۔۔۔۔؟؟
امام بہقی
امام طبرانی
امام ابن کثیر
امام ذہبی
امام ابن حجر
امام ابن سعد
امام ابن عساکر
وغیرہ وغیرہ نے ایسی روایات لکھیں، سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کلیجہ چبایا اس کو ثابت کرنے والی روایات ان اماموں نے، اکابرین اہلسنت نے لکھ کر عوام کو کیا فائدہ دیا۔۔۔۔۔؟؟
۔
3۔۔۔۔حتی کہ بعض علماء اہلسنت نے تو سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ داروں کے متعلق بھی یہ لکھا کہ وہ اسلام لانے سے پہلے گستاخ رسول تھے ، گستاخیاں کرتے تھے، تو ان کے متعلق ایسا کیوں لکھا۔۔۔؟؟ کیا فائدہ ملا انکو۔۔۔۔؟؟ کیا فائدہ دیا عوام کو۔۔۔۔۔؟؟
۔
4۔۔۔کیا ایسی سب روایات کو یہ کہہ کر ہم من گھڑت قرار دے دیں کہ یہ نواصب کی ہیں، یہ روافض کی ہیں، جبکہ ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل بھی نہیں کہ یہ نواصب نے لکھی ہیں یا روافض نے لکھی ہیں بلکہ واضح دلائل موجود ہے کہ ایسی کئ روایات علماء اہلسنت کے اکابرین نے لکھی ہیں
۔
5۔۔۔ان روایات کو لکھنے کا فائدہ مجھے ناچیز کو جو سمجھ میں ایا وہ یہ بھی ہے کہ
اج کے دور میں یا آنے والی نسلوں میں اگر کسی شخص نے کوئی گندے کرتوت کر لیے ہوں ، ان سے گستاخی ہو گئی ہو، توہین ہو گئی ہو، ان سے غنڈا گردی ہو گئی ہو ، دہشت گردی، قومیت پرستی ہو گئی ہو یا ان سے کوئی بھی برائی ظلم وغیرہ ہو گیا ہو تو وہ اپنے اسلاف کی طرف دیکھیں کہ بعض اسلاف سے بھی تو اتنا کچھ بُرا سرزد ہو گیا لیکن انہوں نے اسلام قبول کیا ، انہوں نے توبہ کی تو اسلام نے انہیں گلے لگایا ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گلے لگایا، لہذا ہمیں بھی توبہ کرنی چاہیے، ہمیں بھی اسلام کی پیروی کرنی چاہیے، ہمیں بھی اسلام موقع دیتا ہے، ہم بھی برائی سے توبہ کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب بن سکتے ہیں،جنتی بن سکتے ہیں۔۔۔۔ یہ ہمت ، یہ ہدایت نصیحت، یہ حوصلہ ، یہ توجہ ہمیں ان تاریخی واقعات سے بھی ملے گا
۔
اور بھی بہت سارے فوائد ہوں گے جو اسلاف کے مدنظر ہوں گے تبھی تو انہوں نے ایسے واقعات لکھے
واللہ تعالی اعلم بالصواب
۔
6۔۔۔۔ایسے واقعات صحابہ کرام کے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کے ایسے واقعات کہ جو نازیبہ تھے انہیں لکھ کر اسلاف نے صحابہ کرام اہل بیت عظام کی عظمت پر وار نہیں کیا بلکہ واقعات لکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی عظمت کو بھی ظاہر کیا کہ انہوں نے نازیبا کام کرکے بھی جب ہدایت پائی تو عظمت پائی، لہذا اگر ہم بھی ایسے واقعات موقع مناسبت شریعت کی اجازت سے لکھیں ثابت کریں اور ساتھ میں عظمت کا پہلو بھی واضح کریں تو ہم پر بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔!!
۔
7۔۔۔۔باقی جو فیسبک پہ لوگوں نے برے کمنٹ کیے تو وہ بھی فائدہ مند ہو سکتے ہیں، کیونکہ کوئی سوال کرے گا یا اپنے اندر کی موجود برائی کو ظاہر کرے گا تو اس کو مدلل جواب دیا جائے گا تو امید ہے کبھی نہ کبھی اس کے دل میں یہ بات ضرور بیٹھے گی کہ ہاں کچھ تو دم ہے دلائل میں۔۔۔۔وہ بظاہر کمنٹ میں اپنی شکست شاید تسلیم نہیں کریں گے مگر کیا پتہ دلیل کی مضبوطی ان کے ضمیر کو جھنجوڑے، کبھی نہ کبھی تو جھنجوڑے۔۔۔۔؟؟
۔
اللہ کریم ہم سب کو ہدایت کا باعث بنائے اور ہدایت پہ قائم و دائم رکھے اور دو جہاں کی کامیابیاں عطا فرمائے، جزاکم اللہ خیرا۔۔۔۔!!
۔
*#ایک گزارش*
تحریرات سوالات اعتراضات کے جوابات، اہلسنت کے دفاع، معاشرے کی اصلاح و معلومات و تحقیق و تشریح و تصدیق یا تردید وغیرہ کے لیے مجھے وٹسپ کر سکتے ہیں
naya wtsp nmbr
03062524574
میرے نئے وٹسپ نمبر کو وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنائیے تاکہ میں تحریرات وہاں بھیج سکوں،،،سوالات اعتراضات کے جوابات دے سکوں۔۔۔۔دینی خدمات زیادہ سے زیادہ سر انجام دے سکوں
.
علمی تحقیقی اصلاحی سیاسی تحریرات کے لیے اس فیسبک پیج کو فالوو کیجیے،پیج میں سرچ کیجیے،ان شاء اللہ بہت مواد ملے گا...اور اس بلاگ پے بھی کافی مواد اپلوڈ کردیا ہے...لنک یہ ہے:
https://www.facebook.com/profile.php?id=100022390216317&mibextid=ZbWKwL
.
https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1
.
*#تمھید*
میں کافی عرصے سے علیل ہوں حتی کہ فی الحال مدرسے میں پڑھا بھی نہیں رہا، ہوسکے تو اپنی خاص دعاؤں میں ضرور یاد رکھیے۔۔۔۔ان ایام میں دعوت اسلامی اور دوسرے اہل سنت میں ایک کشمکش زور پکڑ گئی ہے کہ سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہا نے سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کلیجہ مبارک چبایا تھا یا نہیں، دعوت اسلامی کی طرف سے نمائندہ سمجھے جانے والے قبلہ مفتی حسان عطاری نے فرمایا کہ یہ ثابت نہیں جبکہ دوسری طرف سے شدت کے ساتھ بڑے سخت الفاظ استعمال کر کے کہا جا رہا ہے کہ اس خاندان کی حمایت نہ کرو اور جو اس خاندان کی حمایت کرے سمجھو اس کی دال میں کچھ کالا ہے اور وہ پھر کچھ سیرت کی تاریخ کی کتابوں کے حوالے دیتے ہیں جن کی کوئی سند ہی موجود نہیں۔۔۔۔دوسری طرف اہل سنت کی عوام میں بھی کافی ایسے ہیں کہ جو حیران ہیں کہ ہم تو علماء سے اتنے سالوں سے سنتے ہوئے ا رہے ہیں کہ کلیجہ چبایا تھا، کتابوں میں پڑھا تھا کہ کلیجہ چبایا تھا ، اب یہ نئی تحقیق کہاں سے اگئی۔۔۔اور کچھ عوام اہل سنت یہ فرماتے ہوئے پائے گئے کہ پہلے کے علماء کرام کی ممکن ہے توجہ نہ گئی ہو اس لیے انہوں نے اس واقعے کو بیان کر دیا لیکن علم تحقیق کی بنیاد پر یہ واقعہ ثابت نہیں تھا۔۔۔مجھ سے کئی احباب اہل سنت نے فرمایا کہ اپ اپنی رائے اپنے دلائل اپنی تحریر ضرور منظر عام پر لائیں، میں ٹھہرا نکمہ ناکارا بیمار لیکن ہمت باندھ کر یہ تحریر لکھ رہا ہوں شاید کہ اللہ کریم اس تحریر کی بدولت اہلسنت میں اتفاق عطا فرمائے
۔
*#اصل موضوع کا ایک ضروری حصہ*
پہلی بات
الحدیث:
أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
اسلام لانے سےپہلے جو گناہ و مظالم کرتوت وغیرہ اس نے کیے اسلام لانے کے بعد اسلام ان گناہ و مظالم مذمتوں لعنتوں وغیرہ سب کچھ کو اسلام مٹا دیتا ہے
(اہلسنت کتاب مسلم حدیث192,321)
(شیعہ کتاب میزان الحکمۃ2/134)
سیدنا معاویہ ،سیدنا ابوسفیان سیدہ ہندہ کے سب کرتوت اسلام نے ، نبی پاک نے معاف فرما دییے تو تمھیں کیوں چڑ ہے...؟؟
.
التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ
گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے گناہ ہی نہ کیا ہو
(ابن ماجہ حدیث4250)
اسلام قبول کرنے والا گویا کہ پچھلے تمام کرتوتوں سے توبہ کر رہا ہوتا ہے اور حدیث پاک میں ہے کہ توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کرتوت کیا ہی نہیں تو پھر سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق نازیبہ الفاظ وہ انداز کیوں۔۔۔۔؟؟
۔
الحدیث:
قَدْ فَعَلْتُ، يَغْفِرُ اللَّهُ لَهُ كُلَّ عَدَاوَةٍ عَادَانِيهَا
میں ابوسفیان سےراضی ہوگیا،اللہ اسکی تمام دشمنیوں کو معاف فرمائے(مستدرک حدیث5108)
نبی پاک راضی،اللہ پاک راضی
جل بھن جائےبےشرم رافضی،نیم رافضی
.
بخاری میں ہے:
(،ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسلام لانے کے بعد) حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں یا رسول اللہ! روئے زمین پر کسی گھرانے کی ذلت آپ کے گھرانے کی ذلت سی زیادہ میرے لیے خوشی کا باعث نہیں تھی لیکن آج کسی گھرانے کی عزت روئے زمین پر آپ کے گھرانے کی عزت سے زیادہ میرے لیے خوشی کی وجہ نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایضا یعنی ”بھی"
(بخاری حدیث3825)
.
وَأَنا أَيْضا بِالنِّسْبَةِ إِلَيْك مثل ذَلِك، وَقيل: مَعْنَاهُ وَأَيْضًا ستزيدين فِي ذَلِك
بھی کا معنی ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تم سے راضی ہوں محبت کرتا ہوں، ایک معنی یہ بنتا ہے کہ اور بھی ترقی و محبت پاؤ گی
(عمدة القاري شرح صحيح البخاري ,16/284)
.
فَعَفَا - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ کی والدہ کو معاف کردیا
(تاريخ ابن الوردي1/124)
.
وبايعتْ رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم -، فلما عرفَها، قالت: أنا هند، فاعفُ عما سلف، فعف
ہندہ نے رسول کریم کی بیعت کی اور معافی طلب کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ کی والدہ کو معاف کردیا
(التاريخ المعتبر في أنباء من غبر1/159)
.
وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دی کہ یا اللہ انکو معاف فرما بخش دے
(تاريخ الطبري = ,3/62)
.
ثم إن هند أسلمت يوم الفتح وحسن إسلامها
سیدنا معاویہ کی والدہ ہندہ اسلام لائی اور اسلام پے اچھائی کے ساتھ رہیں
(أسد الغابة في معرفة الصحابة ط العلمية7/281)
.####################
*#دوسری بات*
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اسلام نے معاف کر دیا تو پھر دوبارہ ان روایات کو ثابت کرنے کی کیا ضرورت۔۔۔۔؟؟ اور اس خاندان نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی تکالیف پہنچائیں اس کا دفاع کرنے کا تمہارا دل کیسے کر رہا ہے۔۔۔۔۔؟؟
۔
*#جواب*
یہ دفاع نہیں کیونکہ دفاع تو تب کہلاتا جب ہم یہ کہتے کہ نعوذ باللہ ہندہ نے کلیجہ چبا کر اچھا کام کیا۔۔۔۔ہاں البتہ یہ اسلام لانے کے بعد ان کا دفاع ضروری ہے کیونکہ خود اسلام نے فرمایا ہے کہ اسلام لانے کے بعد کرتوت معاف ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ایسا دفاع تو ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان رشتہ داروں کا بھی کرتے ہیں کہ جو اسلام لانے سے پہلے گستاخ رسول تھے گستاخی کرتے تھے مگر پھر اسلام لایا تو ہم نے ان کا دفاع کیا اور ان کی عظمت کو بیان کیا یعنی سیدہ ہندہ اور سیدنا معاویہ اور رسول کریم کے گستاخ رشتہ داروں کے ان عظمتوں کو بیان کیا کہ جو اسلام لانے کے بعد انہوں نے عظمتیں ظاہر کیں،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار کیا
۔
جی تو نہیں چاہتا کہ میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں میں سے ان رشتہ داروں کو ڈھونڈو ، کتابوں میں ان کے نام ڈھونڈو کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی رکھتے تھے اور ان کی مزمت کرتے تھے پھر اسلام لے ائے اور رسول کریم نے انہیں معاف فرما دیا
لیکن
عام عوام کو سمجھانے کے لیے اور شاید کے سادات کرام کے دل میں بات بیٹھ جائے کہ اسلام لانے سے سب کچھ معاف ہو جاتا ہے۔۔۔۔اسلام لانے کے بعد کہنا کہ تم تو بڑے ظالم تھے بڑے دشمن تھے رسول کریم کی مذمت کرتے تھے ، تمہاری ہمارے دل میں کوئی جگہ نہیں۔۔۔ ایسا کہنا بالکل بھی غلط ہے
۔
کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض رشتہ داروں کے متعلق بھی یہی کہو گے کہ وہ انہوں نے دشمنی کی تھی انہوں نے رسول کریم کی ھجو مذمت اور توہین گستاخی کی تھی مگر پھر اسلام لے ائے تو پھر بھی ان کے متعلق نازیبہ الفاظ و انداز استعمال کرو گے، اور کیا پھر بھی ان کے متعلق کہو گے کہ اپ لوگوں کی ہمارے دل میں جگہ نہیں۔۔۔۔۔؟؟
۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض رشتہ دار کہ جن کی فضیلت قران و احادیث میں ائی ہے ان میں سے بعض رشتہ دار اگر دشمنی پہ اتر ائے تھے اور توہین رسول کی تھی، ایسے ایسے کرتوت کیے تھے مگر جب اسلام لے ائے رسول کریم نے ان کو معاف کر دیا تو کیا اب ہم ان کے بارے میں دل میں کچھ میل کچیل رکھیں۔۔۔۔؟؟ ہرگز میل کچیل نہیں رکھیں گے، ان کے متعلق دل کو صاف رکھیں گے، کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار ہیں بظاہر کچھ وقت کے لیے دشمن بن گئے، گستاخ بن گئے مگر اسلام لے ائے تو رسول کریم نے انہیں معاف کر دیا تو اب ہم ان کی عزت کریں گے اسی طرح سیدنا ابو سفیان سیدنا معاویہ سیدہ ہندہ وغیرہ اسلام لانے سے پہلے کرتوت کر گئے تھے مگر جب اسلام لے ائے رسول کریم نے انہیں معاف کر دیا تو اب ان کی ہم عزت کرنا لازم ہے۔۔۔یہ نہیں کرتے پھریں گے کہ اپ لوگوں کے ہمارے دل میں جگہ نہیں نعوذ باللہ تعالی۔۔۔۔!!
۔
جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض رشتہ داروں کے کرتوت بھلا دینا لازم ہیں اسی طرح سیدنا ابو سفیان سیدنا معاویہ سیدہ ہندہ کے کرتوت بھلا دینا لازم ہے۔۔۔۔ہاں بغیر مذمت کے صرف تاریخ اور واقعات محفوظ کرنے کی خاطر ان کے احوال لکھے جا سکتے ہیں اور لکھتے رہے ہیں علماء کرام۔۔۔۔۔ان احوال میں وہ احوال بھی اگئے کہ جو اسلام لانے سے پہلے برے تھے۔۔۔۔مگر ان برے اعمال و احوال کی وجہ سے کسی بھی معتبر مسلمان محقق مصنف نے زبان درازی نہیں کی۔۔۔۔۔۔!!
۔
صرف عرض کرنے، سمجھانے کے لیے دو مثالیں لکھ رہا ہوں اور جب دو مثالیں میری نظروں سے گزری تو پھر میں نے باقی تلاش کرنا چھوڑ دیا۔۔۔
۔
1.....عبداللہ بن ابی امیہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھیرے بھائی تھے
فأما عبد الله فأسلم، وكان قبل إسلامه شديد العداوة للنبي صلى الله عليه وسلم
سیدنا عبداللہ بن ابی امیہ رضی اللہ تعالی عنہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھیرے بھائی رشتہ دار تھے اسلام لانے سے پہلے وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے سخت عداوت و دشمنی رکھتے تھے(پھر جب اسلام قبول کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کا اسلام لانا قبول کر لیا اور انہیں معاف کر دیا)
(سبل الھدی11/85)
۔
2...أبو سفيان بن الحارث ابن عم النبي- صلى الله عليه وسلّم- وأخوه من الرضاعة ....فلما بعث رسول الله- صلى الله عليه وسلّم- عاداه وهجاه....أسلم عام الفتح وحسن إسلامه
سیدنا ابو سفیان بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے ہیں اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے رضائی بھائی ہیں ، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا تو انہوں نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے دشمنی کی اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ھجو اور مذمت کی، پھر فتح مکہ کے دن اسلام لے ائے اور ان کا اسلام لانا اچھا ہو گیا
(سبل الھدی11/135)
۔
نوٹ:
سیدنا ابو سفیان جو سیدنا معاویہ کے والد ہیں وہ ابو سفیان بن حرب ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے ابو سفیان بن حارث ہیں
ـ
۔#####################
ـ
*#کلیجہ چبانے کے موضوع پر گفتگو کا دوسرا حصہ*
قبلہ مفتی حسان صاحب نے فرمایا کہ
1۔۔۔۔سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کلیجہ چبایا ہو ایسا کوئی واقعہ معتبر سند سے ثابت نہیں اور مسند احمد میں یہ اگر واقعہ ہے تو اس کی سند میں کلام ہے کہ سند کا ایک راوی ایسا تھا کہ جس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا لہذا اس روایت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا
۔
2۔۔۔۔اور دوسری بات یہ ہے کہ مسند احمد میں جو کلیجہ چبانے والی روایت ہے وہ روایت کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ اس روایت میں کچھ تو گڑبڑ ہے کیونکہ روایت میں الفاظ ہیں کہ سیدنا حمزہ کا کوئی ٹکڑا جہنمی کے پیٹ میں جا کر جہنم میں نہیں جا سکتا تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ہندہ کو جہنمی قرار دیا جبکہ بخاری اور سیرت و تاریخ کی کئی کتابوں میں بلکہ تمام معتبر کتابوں میں یہ درج ہے کہ سیدہ ہندہ کا اسلام سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا تھا تو سیدہ ہندہ تو جنتی ہوئیں جبکہ حدیث تو ان کو جہنمی کہہ رہی ہے اور وہ حدیث جنتی کہنے والی حدیث کے مقابل میں دیکھی جائے تو نہایت کمزور ہے لہذا مسند احمد کی روایت اپنے الفاظوں سے ہی واضح ہو رہی ہے کہ غیر معتبر ہے
۔
3۔۔۔۔باقی جو کتب میں یہ واقعہ لکھا ہے اس میں سند ہی نہیں اور جب سند نہ ہو تو اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی خاص طور پر ان اہم معاملات میں ، ہاں فضائل میں جل جاتی ہے
۔
*#دیگر اہل سنت کہلانے والے محققین کے دلائل*
1۔۔۔۔انہوں نے سارا زور اس پر لگا دیا کہ اگرچہ سند کا راوی کا حافظہ خراب تھا لیکن اس سے روایت کرنے والا معتبر شخص ہے تو اس کے متعلق علماء نے فرمایا کہ دوسرے لوگ کی روایت معتبر نہیں مگر یہ شخص یا یہ دو اشخاص اس خراب حافظے والے شخص سے روایت کریں تو روایت معتبر کہلائے گی یا پھر وہ لوگ یہ کہتے ہیں اس پر زور دیتے ہیں کہ حافظہ خراب ہونے سے پہلے یہ روایت انہوں نے سنائی تھی لہذا بعد میں حافظہ خراب ہو جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا
۔
2۔۔۔۔ان احباب نے روایت کے الفاظوں پر جو اعتراض اٹھتا ہے اس کی طرف توجہ نہ دی ، شاید وہ اس دلیل سے لاجواب ہو گئے ہوں، ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہ بن پا رہا ہو۔۔۔۔
۔
3۔۔۔۔یہ احباب اکثر وہ حوالے دے رہے ہیں جن میں کوئی سند ہی نہیں، ان کا خیال ہے کہ اتنے بڑے بڑے مورخین یہ بات لکھ گئے تو ضرور یہ بات یہ معاملہ ہوا ہوگا، ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ اکثر مورخین جھوٹی بات لکھ دیں
۔
*#تبصرہ حصیر*
مجھ ناچیز کا تبصرہ و دلائل حاضر خدمت ہیں
۔
*#پہلی بات*
مسند احمد کی روایت کو قبلہ مفتی حسان صاحب ضعیف قرار دے رہے ہیں اور دیگر ان کے مخالفین اس روایت کو صحیح روایت قرار دے رہے ہیں تو چلیں ہم جرح و تعدیل کے سمندر میں غوطہ لگانے کے بجائے مان لیتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے،کیونکہ اس میدان میں غوطہ لگانے والوں کی تحریرات میں نے پڑھی ہیں تو ان میں کوئی ایسا نقطہ کوئی دلیل نہیں ملی کہ جو کسی ایک فریق کی بات کو تقویت پہنچائے..... لیکن یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ اگر کوئی روایت ضعیف قرار پائے تو اس کا ضعف دلائل کی بنیاد پر ختم ہو سکتا ہے، یہ ہو سکتا ہے کہ ضعیف روایتیں مل کر ترقی پا جائیں اور وہ حسن معتبر قابل دلیل بن جائیں لہذا دیکھنا ہوگا کہ اس مسند احمد کی روایت کے علاوہ دیگر روایات ہیں یا نہیں۔۔۔۔۔۔؟؟
.
اور نیچے ہم نے تحقیق کر کے تقریبا چار ایسی روایات لکھی ہیں کہ جو ڈائریکٹ معتبر حسن دلیل ہیں جن میں ثابت ہوتا ہے کہ سیدہ ہندہ نے اسلام لانے سے پہلے کلیجہ چبایا تھا۔۔۔اگر ہماری دی گئی تمام کی تمام 10 روایتوں کو ضعیف قرار دیا جائے تب بھی ہم کہیں گے کہ ضعیف روایتیں مل کر حسن معتبر بن جاتی ہیں جو کہ خود دلیل بن جاتی ہیں لہذا سیدہ ہندہ نے کلیجہ چبایا اتنا ثابت تو ہو جائے گا لیکن اس کی تفصیلی احوال مجھے مستند روایات میں نہیں ملے
۔
اور ہم نے جو یہ کہا ہے کہ ضعیف روایتیں مل کر حسن معتبر دلیل بن جاتی ہیں یہ اصول تمام اہل علم جانتے ہیں فقط تبرک کی نیت سے چند حوالہ جات لکھ رہا ہوں
قاعدہ:
انفرادی طور پر روایات و حدیث کو ضعیف مان بھی لیا جائے تو بھی تعدد طرق کی وجہ سے حسن و معتبر کہلائے گی کیونکہ سنی شیعہ نجدی سب کا متفقہ اصول ہے کہ تعدد طرق سے ضعیف روایت حسن و معتبر بن جاتی ہے
۔
وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن
تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور(حدیث و روایت کا) متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے
(شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)
۔
أن تعدد الطرق، ولو ضعفت، ترقي الحديث إلى الحسن
بےشک تعدد طرق سے ضعیف روایت و حدیث حسن و معتبر بن جاتی ہے(اللؤلؤ المرصوع ص42)
۔
لِأَنَّ كَثْرَةَ الطُّرُقِ تُقَوِّي
کثرت طرق(تعدد طرق)سے روایت و حدیث کو تقویت ملتی ہے(اور ضعف ختم ہوجاتا ہے)
(تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ,1/179)
۔
*#دوسری بات*
قبلہ مفتی حسان صاحب نے جو دوسرا نقطہ اٹھایا ہے وہ بالکل 100 فیصد درست ہیں جس کا جواب بظاہر مخالفین کے پاس بھی نہیں، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ دیگر دلائل اگر اس واقعے کو ثابت کر دیں تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ مسند احمد کی روایت میں موجود یہ جملہ کسی دوسری روایت سے ثابت نہیں ہوتا لہذا غیر معتبر ہے لیکن اس مسند احمد کی روایت کا بقیہ حصہ دوسری روایات سے ثابت ہو جاتا ہے تو لہذا مسند احمد کی اس روایت کا ایک حصہ معتبر ایک حصہ غیر معتبر اور ایسا علماء فرماتے رہے ہیں جو اہل علم پر مخفی نہیں۔
۔
*#تیسری بات*
مخالفین کی دلیل کہ بڑے بڑے مورخین نے یہ بات ، یہ واقعہ لکھا ہے تو سب مورخین ایک من گھڑت روایت من گھڑت قصے کو کیسے بیان کر رہے ہیں۔۔۔۔؟؟ ان کی اس بات میں میرے مطابق کچھ نہ کچھ وزن ضرور ہے، لیکن جب مخالف سند ہی کی ڈیمانڈ کرے تو پھر ہمیں سند والی روایات دکھانی ہوں گی یا پھر ہمیں ایسا اصول کوئی معتبر عالم دین کی کتب سے دکھانا پڑے گا کہ بڑے بڑے مورخین واقعہ لکھیں تو اس کی اصل ضرور ہوگی، ہاں اس کی تفصیل میں کچھ گڑبڑ ہو سکتی ہے جو معتبر نہ ہو لیکن اصل واقعہ ہو ہوا ہو یہ ضرور ہوگا
۔
*#چوتھی بات*
*#مجھ ناچیز کو کچھ دلائل ملے جو اپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اور وہ بھی سند کے ساتھ اور سند کی تحقیق کے ساتھ۔۔۔۔۔۔!!*
.
*#پہلی سند و روایت*
أخبرنا علي بن محمد. عن قيس بن الربيع. عن بدر بن الخليل. عن مولى الحسن بن علي (١). [قال: قال لي الحسن بن علي
فدعاه. فقال له الحسن: أنت الشاتم عليا عند
ابن آكلة الأكباد
سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ کیا تم نے کلیجہ چبانے والی یعنی سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو برا کہا۔۔۔۔؟؟
(الطبقات الكبرى - متمم الصحابة - الطبقة الخامسة روایت290)
حکم:
یہ روایت کم سے کم حسن لذاتہ معتبر یا حسن لغیرہ معتبر ضرور کہلانی چاہیے کہ اس کے سارے راوی اگرچہ صحیح ترین روایات جیسے بخاری مسلم والے راوی نہیں مگر اتنے گئے گزرے بھی نہیں کہ ان کی روایات کو سخت ضعیف کہا جائے
۔
سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی شان و عظمت کے کیا کہنے لیکن وہ بھی فرما رہے ہیں کہ سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام لانے سے پہلے کلیجہ چبایا تھا۔۔۔ کیا سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت بھی معتبر نہیں۔۔۔۔؟؟
.
*#نوٹ*
اس روایت سے اس طرف تو اشارہ ملتا ہے کہ کوئی بےجا جذباتی نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو برا کہا سیدنا معاویہ کے پاس۔۔۔۔مگر اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اس گالی پر راضی بھی ہوئے بلکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حسن اخلاق سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو سمجھایا کہ ہرگز گالی نہ دو، کیونکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنی محفل میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل و تعریف بیان کیا کرتے تھے جیسے کہ اوپر دی گئی لنک میں کچھ روایات لکھی ہیں، لہذا یہ محض بدگمانی بدذہنی سوچ کی گندگی ہوگی کہ کہا جائے کہ نعوذ باللہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی محفل میں گالیاں دی جاتی تھیں۔۔۔۔کچھ روایتیں پیش کی جاتی ہیں کہ نعوذ باللہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو گالیاں دی جاتی تھیں تو ان سب روایات کا میں نے الحمدللہ دو ٹوک رد لکھا ہے، اس تحریر کا لنک اوپر شروع میں لکھا ہے نیز میری فیسبک ائی ڈی پر یا میرے بلاگ پر لفظ گالیاں لکھ کر سرچ کر سکتے ہیں
۔
*#نوٹ*
اسی طرح باقی تمام روایات میں جو کلیجہ چبانے والی کا بیٹا کہا گیا ہے وہ مذمت کے طور پر ہرگز نہیں کہا گیا بلکہ ماضی کے احوال کو ذکر کیا گیا ہے،جیسے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض رشتہ داروں کے بارے میں ماضی کے احوال بیان کیا گیا کہ وہ گستاخی رسول کرتے تھے، اسی طرح فقط تاریخ بیان کرنا مقصود ہے تاکہ امت کو ہدایت و نصیحت ملے، حوصلہ ملے، توجہ ملے کہ ماضی اگر برا ہو تو توبہ تائب ہو کر اپنا حال و مستقبل درست کر سکتے ہیں، اچھا کر سکتے ہیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب بن سکتے ہیں
۔
راویوں کی تحقیق:
پہلا راوی۔۔۔ علي بن محمد:
روى شيئًا كثيرًا على سداد وصدق وصحة رواية، كان عدلًا وقورًا.قال الخطيب: كان تام المروءة، ظاهر الديانة، صدوقًا ثبتًا.
علي بن محمد کافی ساری روایات کی ہیں اور وہ درستگی پر کی ہیں اور سچائی پر کی ہیں اور روایت کو صحیح بیان کیا ہے اور وہ سچے تھے عادل تھے نیک تھے وقار والے تھے خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ وہ مروت کے حساب سے بھی مکمل کامل تھے اور دیانت داری کے لحاظ سے بھی نہایت واضح تھے اور سچے ثابت تھے
(سير أعلام النبلاء - ط الحديث13/79)
.
دوسرا راوی قیس بن ربیع
ہلکی سی جرح ان پر ہے لیکن امام ابو داؤد اور ترمذی جیسے اماموں نے ان سے روایت لی ہے اور دیگر ائمہ نے بھی ثقہ معتبر قرار دیا ہے اگرچہ بعض نے حدیث کے معاملے میں ضعیف قرار دیا ہے لیکن یہاں معاملہ حدیث کا نہیں تو لہذا یہ راوی کم سے کم حسن معتبر درجے کا ہونا چاہیے
۔
صدوق في نفسه۔۔۔وقال ابن معين وغيره: ليس بشيء.وقال ابن عدي: عامة رواياته مستقيمة
قیس بن ربیع بذات خود تو سچا ہے امام ابن معین وغیرہ نے فرمایا ہے کہ اس کی روایات میں کوئی حرج نہیں اور امام ابن عدی نے فرمایا کہ اس کی عام طور پر روایات ٹھیک ہوتی ہیں
(الجامع لكتب الضعفاء والمتروكين والكذابين12/255)
۔
قيس بن الربيع الأسدي الكوفي: صدوق، لا يحتج به. -د، ت
قیس بذات خود تو سچے ہیں مگر کچھ اور وجوہات کی بنیاد پر ان کی بیان کردہ احادیث سے دلیل نہیں پکڑ سکتے اگرچہ امام ابو داؤد اور امام ترمذی نے ان سے حدیث ذکر کی ہے اور دلیل اخذ کی ہے
(ديوان الضعفاء ص 328)
۔
قال الدَّارَقُطْنِيّ: ضعيف الحديث
امام دار قطنی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث کے معاملے میں ضعیف ہیں
(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/531)
۔
تیسرا راوی بدر بن خلیل:
الدَّارَقُطْنِيّ يقول بدر بن الخليل الأسدي كوفي، روى عنه شريك، لا بأس به۔۔۔ سمعت يحيى بن معين يقول بدر بن خليل، يروي عنه أبو أسامة، وهو صالح الحديث
امام دار قطنی فرماتے ہیں کہ بدر بن خلیل کوفی کی روایات میں کوئی حرج نہیں اور امام یحیی بن معین فرماتے تھے کہ بدر بن خلیل حدیث کے معاملے میں بھی صالح اور نیک ہے معتبر ہے
(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله1/145)
.
چوتھا راوی مولی حسن:
مولی الحسن سے مراد بظاہر الحسن بن سعد ہوتے ہیں جن سے امام مسلم نے روایت کی ہے تو یہ راوی بھی معتبر ثقہ ہے دیکھیے مسلم حدیث342
۔
۔###################
*#دوسری سند و روایت*
أخبرنا محمد بن إسماعيل بن أبي فديك المديني عن ابن أبي ذئب أن أمامة بنت أبي العاص قالت للمغيرة بن نوفل بن الحارث: إن معاوية قد خطبني. فقال لها:تزوجين ابن آكلة الأكباد
سیدہ امامہ فرماتی ہیں کہ میں نے مغیرہ سے کہا کہ سیدنا معاویہ نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے تو سیدنا مغیرہ نے فرمایا کہ کیا تم ایسے شخص سے نکاح کرنے والی ہو جس کی والدہ سیدہ ہندہ کلیجہ چبانے والی تھی
(الطبقات الكبرى - ط العلمية روایت4101
الإصابة في تمييز الصحابة ابن حجر8/26
حکم:
یہ سند منقطع ضعیف ہے کیونکہ ابن أبي ذئب نے سیدہ امامہ رضی اللہ تعالی عنہ کا زمانہ نہیں پایا،لیکن دیگر ضعیف روایتوں سے مل کر یا دیگر حسن معتبر روایتوں سے مل کر یہ خود ضعیف حدیث ترقی کر کے حسن معتبر روایت کہلائی۔۔۔۔ باقی ذاتی طور پر تمام راوی ثقہ معتبر ہیں
۔
*#نوٹ*
یہاں بھی سیدنا مغیرہ نے مذمت کے لیے سیدنا معاویہ کو کلیجہ چبانے والی کا بیٹا نہیں کہا یعنی مذمت کے لیے نہیں کہا بلکہ اپنی بہتری ثابت کرنے کے لیے کہا کہ میں سیدنا معاویہ سے زیادہ بہتر ہوں نکاح کے لیے کیونکہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت ہے کہ جو جاہلیت میں اچھے تھے اور وہ اسلام لے ائے تو وہ افضل ہیں ان سے کہ جو جاہلیت میں برے تھے اور پھر اسلام لے ائے۔۔۔۔
الحدیث:
فَخِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقُهُوا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو جاہلیت میں اچھا تھا وہ اسلام میں بھی بہتر اور افضل قرار پائے گا جب اسلام میں وہ فقاہت بھی حاصل کرے
(بخاری حدیث3374)
۔
اس روایت کا ایک راوی محمد بن اسماعیل ہے اور
محمد بن إسماعيل بن أبي فديك المديني سے امام بخاری نے روایت لی ہے اور بہت سے محدثین نے اسے روایت لی ہے تو یہ معتبر راوی ہے
( دیکھیے بخاری حدیث730)
۔
اس روایت کا دوسرا راوی ابن ابی ذئب ہے اور ابن أبي ذئب سے بھی امام بخاری نے روایت لی
( دیکھیے بخاری حدیث 119)
۔
سیدہ امامہ اہل بیت کی معروف و مشہور شخصیت ہیں کہ جن کے ثقہ معتبر ہونے میں کوئی شک نہیں
.
اس روایت کے اخری راوی جس نے سیدہ ہندہ کو کلیجہ چبانے والی کہا تھا وہ سیدنا مغیرہ ہیں ان کے بارے میں بھی پڑھیے
وكان المغيرةُ بنُ نوفلٍ هذا قاضِيًا في خلافةِ عثمانَ، وشهِد مع عليٍّ صَفِّينَ، يُكنى أبا يحيى، بابنِه يحيى بنِ المغيرةِ، مِن (٣) أُمامةَ بنتِ أبي العاصي بنِ الرَّبيعِ
سیدنا مغیرہ بن نوفل سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں قاضی تھے اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جنگ صفین میں شرکت فرمائی تھی اور پھر انہوں نے سیدہ امامہ سے نکاح کیا تھا
(الاستيعاب في معرفة الأصحاب - ت التركي3/433)
#######################
*#تیسری سند و روایت*
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَرْوَانَ، عَنْ أَرْطَاةَ، عَنْ تُبَيْعٍ، عَنْ كَعْبٍ،
وَيَجْلِسُ ابْنُ آكِلَةِ الْأَكْبَادِ عَلَى مِنْبَرِ دِمَشْقَ
سیدنا کعب الاحبار نے فرمایا کہ ایسا وقت ائے گا کہ کلیجہ چبانے والی سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بیٹا یعنی سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ دمشق کے ممبر پر بیٹھیں گے
(الفتن لنعيم بن حماد روایت910)
حکم:
یہ حدیث بھی کم سے کم حسن معتبر ضرور ہے یا صحیح لغیرہ ہونی چاہیے کیونکہ تمام راوی ثقہ معتبر راوی ہیں
.
*#نوٹ*
اس سے بھی دو باتیں ثابت ہوئیں ایک تو یہ کہ سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کلیجہ تھا اور دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ سیدنا کعب کا نظریہ تھا کہ سیدنا معاویہ افضل نہ ہو کر بھی ممبر پر بیٹھیں گے کیونکہ اوپر حدیث بتائی جا چکی ہے کہ افضل وہ ہے جو جاہلیت میں بھی اچھا تھا
۔
اس روایت کا پہلا راوی عبداللہ بن مروان ثقہ معتبر ہے
عبد اللہ بن مروان بن معاویہ بن الحارث
وكان ثقة
(تاريخ الإسلام - ت تدمري16/245)
.
اس روایت کا دوسرا راوی أَرْطَاةَ بن المنذر:
قال أحمدُ: ثقةٌ ثقةٌ (٤).وقال ابنُ معين: ثقةٌ (٥).وقال أبو حاتم: لا بأسَ به (٦).وقال ابنُ حبّان: ثقةٌ، حافظٌ،
فقيهٌ
أَرْطَاةَ بن المنذر کے متعلق امام احمد نے فرمایا ثقہ ہے ثقہ ہے( یعنی دو دفعہ تاکید کر کے فرمایا) اور امام ابن معین نے فرمایا کہ ثقہ ہیں ، امام ابو حاتم نے فرمایا کہ ان میں کوئی حرج نہیں، امام ابن حبان نے فرمایا کہ ثقہ حافظ فقیہ ہیں
(تهذيب التهذيب - ط دبي1/519)
.
اس روایت کا تیسرا راوی تبيع الحمیری ہے
وذَكَرهُ ابنُ حِبَّانَ في "الثِّقَات
تبيع الحمیری راوی کو امام ابن حبان نے ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے
(تهذيب التهذيب - ط دبي2/402)
.
كَعْبُ الأَحْبَارِ كَعْبُ بنُ مَاتِعٍ الحِمْيَرِيُّ * (د، ت، س)
هُوَ: كَعْبُ بنُ مَاتِعٍ الحِمْيَرِيُّ، اليَمَانِيُّ، العَلاَّمَةُ، الحَبْرُ، الَّذِي كَانَ يَهُودِيّاً، فَأَسْلَمَ بَعْدَ وَفَاةِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَقَدِمَ المَدِيْنَةَ مِنَ اليَمَنِ فِي أَيَّامِ عُمَرَ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ - فَجَالَسَ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَكَانَ يُحَدِّثُهُم عَنِ الكُتُبِ الإِسْرَائِيْليَّةِ، وَيَحْفَظُ عَجَائِبَ (٣) ، وَيَأْخُذُ السُّنَنَ عَنِ الصَّحَابَةِ. وَكَانَ حَسَنَ الإِسْلاَمِ مَتِيْنَ الدّيَانَةِ،
مِنْ نُبَلاَءِ العُلَمَاءِ
کاب الاحبار جن سے امام ابو داؤد ترمذی نے روایت بھی لی ہے بہت ہی بڑے علامہ تھے علم کے سمندر تھے حبر العلم تھے
اول وقت میں یہودی تھے پھر اسلام لے ائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اور یمن سے مدینہ اگئے اور یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی صحبت گہری صحبت اختیار کی اور انہیں اسرائیلی روایات بھی بیان کیا کرتے تھے لیکن سنتوں کو احادیث کو صحابہ کرام سے ہی لیا کرتے تھے اور اچھے اسلام والے تھے اور دیانت کے لحاظ سے دیانت داری کے لحاظ سے انتہائی ٹھوس تھے اور نامور مسلمان علماء میں سے تھے
(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة3/490)
۔
کعب الاحبار جیسا نامور عالم دین سخت دیانت دار عالم دین تابعی جس نے صحابہ کرام کی گہری صحبت پائی بڑی صحبت پائی ان سے علم حاصل کیا وہ سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق فرما رہے ہیں کہ انہوں نے کلیجہ چبایا تھا، کیا ایسے راوی کی بھی روایت معتبر نہیں۔۔۔۔۔؟؟
۔###################
۔
*#چوتھی سند و روایت*
أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ هَاشِمٍ الْجَنْبِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنَ قَيْسٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَلِيٍّ: «تَجْعَلُ بَيْنَكَ وَبَيْنَ ابْنِ آكِلَةِ الْأَكْبَادَ حَكَمًا
سیدنا علقمہ بن قیس نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے عرض کی کہ اپ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کہ جو کلیجہ چبانے والی سیدہ ہندہ کی اولاد ہیں ان کے درمیان اور اپنے درمیان ایک فیصلہ کرنے والا بنا رہے ہیں
(السنن الكبرى - النسائي - ط الرسالة روایت8523)
حکم:
یہ روایت بھی کم از کم حسن معتبر ضرور کہلانی چاہیے
۔
*#نوٹ*
یہاں بھی راوی سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی مذمت میں یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ کلیجہ چبانے والی کا بیٹا ہے بلکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ماضی کی طرف اشارہ کر کے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو عرض کر رہے ہیں کہ اپ ان سے افضل ہیں تو جب اپ افضل ہیں تو پھر اپ خلافت کے معاملے میں ان کے درمیان اور اپنے درمیان فیصلہ کرنے والا کیوں بٹھا رہے ہیں گویا کہ فیصلہ تو سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کر دیا کہ جو جاہلیت میں اچھا تھا اسلام لایا تو اب وہ افضل کہلائے گا لیکن سیدنا معاویہ جاہلیت میں اچھے نہ تھے تو اس لیے افضل نہ کہلائے
۔
سيدنا علقمہ بن قیس مشہور و معروف تابعی ہیں جن کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ بہت بڑے زاہد تھے بہت بڑے عبادت گزار تھے علم کے سمندر تھے حتی کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا سب سے بڑا علم سیدنا علقمہ کے پاس تھا۔۔۔ایسے تابعی فرما رہے ہیں کہ اے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کیا اپ کلیجہ چبانے والی یعنی سیدہ ہندہ کو کلیجہ چبانا والی قرار دیا اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے تردید بھی نہ فرمائی۔۔۔۔ کیا ایسی روایت بھی معتبر نہیں۔۔۔۔۔؟؟
۔
تفصیل:
مذکورہ روایت کے متعلق محقق نے فرمایا کہ محمد بن اسحاق کی وجہ سے روایت ضعیف ہے لیکن یہ ان کی غلط فہمی ہے کیونکہ محمد بن اسحاق کی بعض روایات مسلم شریف میں بھی ہیں، ان سے زیادہ ثقہ راوی اگر ان کی مخالفت کرے تو پھر معاملہ کچھ اور ہو سکتا ہے، ایسی بات تو ہر ثقہ راوی کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔۔۔انصاف یہی ہے کہ مجموعی طور پر ان کی روایات مقبول معتبر ہیں ، صحیح ترین نہ سہی لیکن صحیح لغیرہ یا حسن معتبر ضرور کہلانی چاہیے
۔
محمد بن اسحاق
صدوق"١"، قال ابن معين: "ثقة، وليس بحجة""٢"، وقال أحمد:
حسن"١" الحديث""٢"، وقال ابن المديني: "حديثه عندي صحيح""٣"، وقال الدَّارَقُطْنِيّ: "لا يحتج به""٤"، استشهد به مسلم في خمسة أحاديث
محمد بن اسحاق کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ سچے تھے امام ابن معین نے فرمایا کہ ثقہ معتبر تھے،ان کی بعض روایت کردہ احادیث حجت نہیں، لیکن امام احمد نے فرمایا کہ حدیث کے لحاظ سے بھی یہ حسن معتبر ہیں اور امام ابن مدینی نے فرمایا کہ میرے نزدیک ان کی روایات ان کی احادیث صحیح ہوتی ہیں اور امام داری کو اتنی نے فرمایا کہ عام طور پر تو یہی کہا جاتا ہے کہ ان کی بیان کردہ احادیث سے دلیل نہ پکڑی جائے لیکن امام مسلم نے پانچ احادیث میں ان کو بطور استشہاد بطور مضبوطی دلیل ذکر کیا ہے
(من تكلم فيه وهو موثق ت الرحيلي ص445)
۔#################
۔
*#پانچویں سند و روایت*
أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا الحسن بن علي أنا أبو عمر بن حيوية أنا أحمد بن معروف (٢) نا الحسين (٣) بن فهم (٤) نا محمد بن سعد أنا علي بن محمد يعني المدائني عن قيس بن الربيع عن بدر بن الخليل عن مولى الحسن بن علي قال قال الحسن ابن علي۔۔۔ فقال له الحسن أنت (٥) الشاتم عليا عند ابن أكلة الأكباد
سیدنا حسن نے فرمایا کہ کیا تم وہی ہو کہ جس نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو برا کہا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس کہ جو کلیجہ چبانے والی سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بیٹا ہے
تاريخ دمشق لابن عساكر روایت7500
مرآة الزمان في تواريخ الأعيان7/277بلاسند
حکم:
یہ روایت بھی حسن معتبر کہلانی چاہیے کہ جسے دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور حسن روایت کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے
۔
*#نوٹ*
جیسے کہ پہلی حدیث کے نوٹ کے تحت ہم لکھ چکے ہیں اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اس گالی سے راضی بھی ہوئے بلکہ اپ نے ان کو منع کر دیا تھا کہ یہی ان کے حسن اخلاق سے ثابت ہوتا ہے
۔
سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی شان و عظمت کے کیا کہنے لیکن وہ بھی فرما رہے ہیں کہ سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام لانے سے پہلے کلیجہ چبایا تھا۔۔۔ کیا سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت بھی معتبر نہیں۔۔۔۔؟؟
۔
راوی:أبو بكر محمد بن عبد الباقي
أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي بن محمد بن عبد الله البزاز الحنبلي الفقيه المعدِّل … وهو إمام من
فقهاء الحنابلة
أبو بكر محمد بن عبد الباقي جس کو عادل نیک قرار دیا گیا ہے اور وہ حنبلی فقہاء میں سے ایک بہت بڑے امام ہیں
(المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي ت بو شامة1/71
۔
.
راوی:أبو عمر بن حيوية
ثقة ثبت حجة
أبو عمر بن حيوية سکہ راوی ہے مضبوط راوی ہے جو کہ حجت ہے یعنی جس کی دلائل و روایات مضبوط حجت و دلیل ہوتی ہیں
الطبقات الكبرى - متمم الصحابة - الطبقة الخامسة1,/100
.
راوی: أحمد بن معروف بن بشر بن موسى
قال الخطيب: كان ثقة
احمد بن معروف کو امام خطیب بغدادی نے ثقہ معتبر قرار دیا ہے
(الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة2/104)
.
اس روایت کے ایک راوی حسین بن فہم کے بارے میں معتبر ہونے کی اتنی دلیل کافی ہے کہ علماء ان کے قول سے دوسرے راویوں کو ثقہ قرار دیتے ہیں
وقال حسين بن فهم: ثقة ثبت،
حسین بن فہم نے ایک راوی کے متعلق فرمایا کہ وہ ثقہ ہے ثابت ہے مضبوط ہے
(تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال4/254)
.
اس روایت کے ایک راوی علی بن محمد کے متعلق پڑھیے
العلامة الحافظ، الصادق أبو الحسن علي بن محمد بن عبد الله بن أبي سيف المدايني الأخباري.نزل بغداد، وصنف التصانيف، وكان عجبا في معرفة السير والمغازي والأنساب
وأيام العرب
علی بن محمد بہت بڑے علامہ حافظ سچے نیک تھے ان کا نام علی بن محمد بن عبداللہ بن ابی سیف مدینی تھا وہ تاریخ کے علامہ تھے انہوں نے کتابیں لکھی اور تاریخ سیرت نسب اور عربوں کی تاریخ کے متعلق حیرت انگیز معلومات رکھتے تھے
(رجال الحاكم في المستدرك2/75)
.
قیس بن الربیع اور بدر بن خلیل اور مولی الحسن کے متعلق حدیث نمبر ایک میں تفصیل درج کرائے جس کے مطابق یہ سب ایسے معاملات میں معتبر ہیں
۔###############
*#چھٹی سند و روایت*
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَلْمٍ الرَّازِيُّ، قَالَا: ثنا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ الْأَسَدِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ عَابِسٍ، عَنْ بَدْرِ بْنِ الْخَلِيلِ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ أَبِي كَبِيرٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ
أَنْتَ السَّبَّابُ عَلِيًّا عِنْدَ ابْنِ آكِلَةِ الْأَكْبادِ،
سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ کیا اپ وہی ہیں کہ جس نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق نازیبہ الفاظ کہے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس کہ جو کلیجہ چبانے والی سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بیٹے ہیں
المعجم الكبير للطبراني روایت2727
جامع المسانيد والسنن ابن کثیر روایت2482
البداية والنهاية - ت التركي19/439
حکم:
ابو بکیر اور عباد یوسف ضعیف راوی ہیں لہذا یہ روایت ضعیف ہے لیکن دیگر ضعیف روایات یا دیگر حسن روایات سے مل کر یہ بھی حسن معتبر روایت کہلائے گی
۔
سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی شان و عظمت کے کیا کہنے لیکن وہ بھی فرما رہے ہیں کہ سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام لانے سے پہلے کلیجہ چبایا تھا۔۔۔ کیا سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت بھی معتبر نہیں۔۔۔۔؟؟
۔
*#نوٹ*
جیسے کہ پہلی حدیث کے نوٹ کے تحت ہم لکھ چکے ہیں اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اس گالی سے راضی بھی ہوئے بلکہ اپ نے ان کو منع کر دیا تھا کہ یہی ان کے حسن اخلاق سے ثابت ہوتا ہے
۔
###############
*#اٹھویں سند و روایت*
وحدثني أبو فراس الشامي عن هشام بن الكلبي عن أبيه أنّ مسروقا قال: قالت عائشة
وعن مسروقِ بن الأجدعِ، قال: سمِعتُ عائشةَ أمَّ المؤمنين تقولُ۔۔۔۔بالشامِ، ولكنَّ ابنَ آكِلةِ الأكبادِ
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق فرمایا کہ انہوں نے کلیجہ چبایا تھا
(الاستيعاب في معرفة الأصحاب - ت التركي2/388)
(أنساب الأشراف - ط الفكر5/272)
حکم:
ضعیف مگر دیگر روایات سے مل کر یہ بھی ضعیف روایت ترقی کر کے حسن معتبر کہلانی چاہیے
۔
*#نوٹ*
یہ تو بندہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا معاویہ کو گالی دی ہو،ہرگز نہیں بلکہ سیدہ عائشہ نے ان کے ماضی کی طرف اشارہ کر کے واضح کیا کہ اپ افضل شخص نہیں ہیں
۔
راوی:ابو فراس الشامی کے متعلق کوئی تفصیل نہیں مل سکی
۔
راوی:کلبی کے متعلق پڑھیے
قال ابن عدي: وقد حدث عن الكلبي سفيان وشعبة وجماعة، ورضوه في التفسير، وأما في الحديث فعنده
مناكير
کلبی کو احادیث کے معاملے میں معتبر قرار نہیں دیا امام ابن عدی نے لیکن ان سے یعنی کلبی سے سیدنا سفیان سیدنا شعبہ اور دیگر جماعت نے تفسیر کے معاملے میں ان کی معلومات اجتہادات و روایات سے راضی ہوئے( لہذا اس معاملے میں وہ معتبر ہیں جب تک کہ وہ اپنے سے بلند پائے کے راوی کی مخالفت کریں یہ تو پھر معاملہ الگ ہو جائے گا)
(الجامع لكتب الضعفاء والمتروكين والكذابين13/331)
.
راوی: ہشام بن الکلبی کے متعلق ہے
وقال أبو حاتم: هو أحب إلي من أبيه
قلبی کہ جس کے متعلق اپ اوپر پڑھ چکے ان کے بیٹے ہشام کے متعلق امام ابو حاتم فرماتے ہیں کہ وہ تو قلبی سے زیادہ معتبر ہے
(الجامع لكتب الضعفاء والمتروكين والكذابين16/279)
۔##################
*#ناویں سند و روایت*
فحدثني عمر بن شبة، قال: حدثني علي، عَنْ حِبَّانَ بْنِ مُوسَى، عَنِ الْمُجَالِدِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ:
زیاد جسے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فارس کے شہروں پر حاکم مقرر فرمایا تھا انہوں نے سیدنا علی کی وفات پر سیدنا معاویہ کو کہا تھا کہ اپ کی والدہ سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کلیجہ چبایا تھا
ابْنِ آكِلَةِ الأَكْبَاد
(تاريخ الطبري5/170)
حکم:
ضعیف مگر دیگر روایات سے مل کر معتبر حسن بن جائے گی
۔
*#نوٹ*
یہاں بھی راوی نے ماضی کی بات کر کے افضلیت کی نفی کی ہے، اسے گالی سمجھنے مالے کا دماغ ہی بری سوچ و بدگمانی سے بھرا ہوگا
.
الدَّارَقُطْنِيّ عمر بن شبة، أبو زيد النميري، ثقة.
اس روایت کے ایک راوی عمر بن شبہ کے متعلق امام داری کو اتنی فرماتے ہیں کہ ثقہ معتبر ہیں
(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/482)
.
مذکورہ روایت کے ایک راوی علی بن عثمان کے متعلق ہے
کہ
علي بن عثمان اللاحقي.ثقة صاحب حديث.يروى عن حماد بن سلمة، وجويرة بن أسماء.وعنه أبو زرعة،
وأبو حاتم - ووثقه
علی بن عثمان ثقہ معتبر ہیں، حماد بن سلمہ جویریہ اور ان سے ابو زرعہ اور امام ابو حاتم نے روایت کی ہے اور امام ابو حاتم نے بھی انہیں معتبر ثقہ قرار دیا ہے
(الجامع لكتب الضعفاء والمتروكين والكذابين10/626)
.
اس روایت کے ایک راوی حبان بن موسی کے متعلق ہے
وقال أبو حاتم: ليس بالقوي، ولا بالمتروك
امام ابو حاتم فرماتے ہیں کہ حبان بن موسی اگرچہ قوی نہیں مگر ایسا بھی نہیں کہ وہ ترک شدہ راوی ہو
(تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال2/200)
.
اس روایت کے ایک راوی مجالد کے متعلق محققین نے فرمایا کہ وہ ثقہ نہیں ہے، ان کی حدیث ضعیف ہوتی ہے
إِسناده ضعيفٌ؛ مُجالد بن سعيد، ليس بثقة
(المسند المصنف المعلل35/303)
.
اس روایت کے ایک راوی امام شعبی بھی کے متعلق ہے
يحدث بالمغازي فقال لقد شهدت القوم فلهو أحفظ لها وأعلم بها وقال مكحول ما رأيت أفقه منه وقال أبو مجلز ما رأيت فيهم أفقه منه وقال ابن عيينة كانت الناس تقول بعد الصحابة بن عباس في زمانه والشعبي في زمانه
امام شعبی تاریخ و سیرت بیان فرماتے ہیں، دوسرے راویوں نے اماموں کو بھی ہم نے سیرت و تاریخ بیان کرتے دیکھا ہے لیکن امام شعبی سب سے زیادہ حافظ تھے یاد کرنے والے تھے بہت زیادہ علم والے تھے اور امام مکحول فرماتے ہیں کہ امام شعبی سے بڑھ کر فقیہ میں نے نہیں دیکھا۔۔۔ابن عیینہ نے فرمایا کہ لوگ کہا کرتے تھے کہ جیسے صحابہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ علم کے لحاظ سے بہت معتبر و مشہور تھے اسی طرح صحابہ کے بعد شعبی اپنے وقت میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح تھے
(تھذیب التھذیب5/67)
۔
اس وقت زیاد نامی راوی ظاہر بات ہے اتنا معتبر تھا کہ سیدنا علی نے اسے سربراہی سونپی، اور یہ الفاظ کہ سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کلیجہ چبایا تھا یہ الفاظ اس راوی کے اسی وقت کے ہیں،لہذا یہ الفاظ معتبر ہیں۔۔۔۔اس کے بعد زیادہ اگر برا ہو گیا تو ممکن ہے لہذا ہماری اس دلیل سے یہ نہ سمجھاجائے کہ ہم نے مطلقا ہر حال میں زیاد کی تعریف و تائید کر دی۔۔۔۔۔!!
۔
#######################
*#دسویں سند و روایت*
وَأَخَذَتْ هِنْدُ كَبِدَهُ فَلَاكَتْهَا،فَلَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَأْكُلَهَا
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام لانے سے پہلے سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہا کا کلیجہ لیا اور اسے چبایا لیکن وہ اسے کھا نا سکی
(مسند احمد روایت4414)
اس حدیث کی نیچے محقق نے اس حدیث کو حسن لغیرہ معتبر قرار دیا ہے اور حسن لغیرہ معتبر قابل قبول دلیل ہوتی ہے۔۔۔۔ہم نے اس روایت کا وہ حصہ غیر معتبر قرار دے دیا جس کو مفتی حسان صاحب نے اعتراض کے طور پر بیان کیا تھا کیونکہ اس روایت کا ایک راوی خلط ملط کرنے والا تھا تو صحیح اور ضعیف اور موضوع من گھڑت ان تینوں روایتوں میں سے کچھ کو کچھ سے ملا دیا جائے تو یہ بھی خلط ملط کے زمرے میں اتا ہے، لہذا ایسے راوی کی روایت پر ہم نے غور کیا تو ہمیں ان کا وہ حصہ شریعت کے منافی لگا اس لیے اس کو غیر معتبر قرار دے دیا لیکن جس حصے کی تائید دیگر روایات سے ہوتی ہے اس کو معتبر قرار دے دیا
۔
*#نوٹ*
یہاں بھی تاریخ کا ایک واقعہ لکھنا منقول کرنا مقصود ہے کیونکہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ رشتہ دار کہ جو سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرتے تھے ان کی تاریخ لکھتے وقت بتاتے وقت بھی یہ بتایا گیا کہ وہ گستاخی کرتے تھے تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو برا کہا گیا ، نہیں ہرگز نہیں، بلکہ تاریخ بیان کرنا مقصود ہوتی ہے تاکہ اج کے لوگ یا انے والی نسلیں ہدایت پائیں کہ جب اسلاف نازیبہ ہو کر اسلام لے ائے تو محبوب بن گئے تو ہم بھی گناہ ظلم شرک کرتوت کفر بدمذہبی گستاخی وغیرہ سے توبہ تائب ہو کر سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے محبوب بن سکتے ہیں
.################
*#گیارویں سند و روایت*
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّه الْحَافِظُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْبَغْدَادِيُّ، قَالَ:حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ.....قَدْ بُقِرَ بَطْنُهُ، وَاحْتُمِلَتْ كَبِدُهُ حَمَلَهَا وَحْشِيٌّ، وَهُوَ قَتَلَهُ وَشَقَّ بَطْنَهُ، فَذَهَبَ بِكَبِدِهِ إِلَى هِنْدِ بِنْتِ عُتْبَةَ فِي نَذْرٍ نَذَرَتْهُ حِينَ قَتَلَ أَبَاهَا يَوْمَ بَدْرٍ
سیدنا عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا پیٹ مبارک چیر دیا گیا تھا اور ان کے کلیجے کو نکال لیا گیا تھا اور اسے وحشی لے گیا تھا جس نے سیدنا حمزہ کو شہید کیا تھا اور ان کے پیٹ مبارک کو چاک کیا تھا اور کلیجہ لے کر ہندہ کے پاس گیا تاکہ ہندہ اپنی منت پوری کرے جو اس نے بدر کے دن اپنے والد کے قتل پر منت مانی تھی اللہ
(دلائل النبوۃ للبیھقی3/283)
محققین نے اسے بھی ضعیف قرار دیا ہے مگر دیگر روایات سے مل کر یہ بھی حسن معتبر کہلانی چاہیے
*#نوٹ*
یہاں بھی فقط تاریخ منقول کرنا مقصود ہے جیسے کہ اوپر والی روایت میں ہم نے تفصیل سے بیان کیا
.###############
*#بارہویں سند و روایت*
أخبرنا عبد الله بن الحسن الحراني قال: نا النفيلي قال: نا محمد بن سلمة عن محمد بن اسحق قال: قد وقفت هند بنت عتبة كما حدثني صالح بن كيسان.... وبقرت عن كبد حمزة فلاكتها فلم تستطيع أن تسيغها
ہندہ نے سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کلیجہ مبارک نکالا اور اسے چبانے لگی لیکن وہ اسے کھا نہ سکی
(سیرت سبن اسحاق ص333)
حکم:
محققین نے اسے مرسل ضعیف قرار دیا یہ ایک دیگر ضعیف روایات اور دیگر حسن روایات سے مل کر یہ بھی حسن معتبر کہلانی چاہیے
۔
*#نوٹ*
یہاں بھی فقط تاریخ منقول کرنا مقصود ہے جیسے کہ اوپر والی روایت نمبر10 میں ہم نے تفصیل سے بیان کیا
۔#########@@@@@@@@@@@
الحاصل:
روایت نمبر 1...3...4...5 خود ہی ڈائریکٹ حسن معتبر قابل دلیل ہیں کہ جن میں سیدہ ہندہ کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اسلام لانے سے پہلے سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کلیجہ چبایا تھا۔۔۔۔اس کے علاوہ دیگر روایات اگرچہ ضعیف ہیں مگر ایک ضعیف روایت دوسری ضعیف روایت سے مل کر ترقی پا جاتی ہے اور وہ حسن معتبر کہلاتی ہے اور یہاں تو بذات خود ہی حسن معتبر روایات موجود ہیں تو بقیہ ضعیف روایات دیگر ضعیف روایات و حسن روایات سے مل کر حسن و معتبر کہلانی چاہیے۔۔۔۔بالفرض اگر سب روایتوں کو ضعیف مان لیا جائے تو بھی ضعیف دیگر ضعیف سے مل کر حسن معتبر قابل دلیل قابل اعتماد بن جاتی ہیں
۔
ان تمام روایات میں سیدنا حسن، سیدہ امامہ، سیدنا مغیرہ، سیدنا کعب الاحبار، سیدنا علقمہ ، سیدہ عائشہ ، سیدنا ابن مسعود ، سیدنا عروہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین جیسے عظیم الشان راوی یہ واضح فرما رہے ہیں کہ سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام لانے سے پہلے سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کلیجہ چبایا تھا مگر وہ کھا نہ سکی تھی
۔
ہم نے تاریخ و سیرت کہ ان کتب کے حوالے بھی نہیں دیے کہ جن میں سند نہ تھی لیکن یہ لکھا تھا کہ سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام لانے سے پہلے سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کلیجہ مبارک چبایا تھا لیکن وہ کھا نہ سکی
۔
لہذا صرف تاریخ و احوال بیان کرنے کے لیے اور معلومات کو اگے پہنچانے کی غرض سے یہ بیان کیا جا سکتا ہے کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کلیجہ مبارک ہندہ نے اسلام لانے سے پہلے چبایا تھا۔۔۔۔۔لیکن اس کو مذمت کے طور ، اس خاندان کی توہین کے طور پر ایسے الفاظ و انداز میں بیان کرنا کہ جس میں مذمت و توہین چھلکتی ہو ، ایسے الفاظ و انداز میں بیان کرنا ہرگز ہرگز ہرگز جائز نہیں، گمراہی تو ضرور ہوگی لیکن بات اگے بھی بڑھ سکتی ہے، یاد رکھیے ہم اوپر بیان کر چکے کہ علماء کرام نے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض قریبی رشتہ داروں کے متعلق بھی لکھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت گستاخ تھے، گستاخی کرتے تھے مگر پھر اسلام لے ائے۔۔۔۔تو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز رشتہ داروں کے متعلق مذمت نہیں کر سکتے تو اسی طرح سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدہ ہندہ رضی اللہ تعالی عنہا کہ اسلام لانے کے بعد اور ان کے اسلام کے اچھے ہونے کے بعد اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی کے بعد ان سے مذمت کا الفاظ و انداز رکھنا بیان کرنا ہرگز ہرگز درست نہیں۔۔۔۔۔۔!!
۔
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
New whatsapp nmbr
03062524574
00923062524574