Labels

تحریر کا خلاصہ تو ضرور پڑھیے،کم عمری کی شادی و رخصتی پے54 دلائل و حوالہ جات

 *#خلاصہ ضرور پڑھیے پھر اس کے بعد تفصیل پڑھیے کہ کم عمری میں شادی نکاح جائز ہے یا نہیں اور رخصتی کب جائز ہے۔۔۔؟؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹیوں کی شادی کس عمر میں کرائی۔۔۔۔؟؟ اور بادشاہوں کے بادشاہ کون اور ہماری ذمہ داری کیا ہے، 54 دلائل و حوالہ جات اس تحریر میں لکھے ہیں پڑھیےپھیلائے شیئر کیجیے۔۔۔!!*

خلاصہ:

1۔۔۔ایات مبارکہ احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات و شرائط کا لحاظ رکھا جائے تو کم عمری کی شادی جائز ہے اور نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو پیاری بیٹیوں کا نکاح کم عمری میں کرایا اور صحابہ کرام میں سے کئی صحابہ کرام نے کم عمری میں اپنی بچیوں کی شادی کی ہے ، ان تمام سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ شرعی تعلیمات و شرائط پر عمل کرتے ہوئے کم عمری کی شادی کرائی جا سکتی ہے

۔

2۔۔۔۔لیھذا اگر والدین اچھے ہوں اور وہ جائز شرعی مصلحت  و فوائد کے تحت کم عمری میں شادی کر دیں، نا بالغی میں شادی کر دیں تو بالکل جائز ہے

۔

3۔۔۔لیکن شادی کے جائز ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ کم عمر بیگم سے جماع بھی جائز ہو جائے بلکہ شادی کے بعد کم عمر بیگم سے جماع ہمبستری کرنا جائز نہیں ہے،ہاں جب اس کی عمر و طاقت اتنی ہو جائے کہ جماع و ہمبستری کے قابل ہو جائے ،معتبر خواتین کہہ دیں کہ اب یہ جماع کے قابل ہے تو اب اجازت ہے کہ ہمبستری کرے رخصتی کی جائے ورنہ ہرگز ہرگز جائز نہیں

۔

4۔۔۔۔شریعت مطہرہ نے رخصتی ہمبستری جماع کے لیے کوئی عمر مقرر نہیں فرمائی کیونکہ شریعت محمدی علی صاحبھا الصلواۃ و السلام قیامت تک کے لیے ہے اور ساری دنیا کے لیے ہے اور قیامت تک اور ساری دنیا میں ہر ایک کی طبیعت ایک جیسی نہیں ہوتی کیونکہ موسم ماحول غذا خوراک جینز نسل موروثیت وغیرہ کی وجہ سے کوئی عورت بالغ ہو کر بھی جماع کے قابل نہیں ہوتی اور کچھ عورتیں بالغ ہونے سے پہلے ہی جماع کے قابل ہو جاتی ہیں اس لیے رخصتی ہمبستری کے لیے یہ شرط قرار دے دی گئی کہ بیگم میں ہمبستری کی طاقت ہو تو ہی رخصتی ہو سکتی ہے

۔

5۔۔۔۔لیکن والدین کو یہ بھی بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ ابھی تو بچی ہے، ابھی تو بچی ہے، ابھی تو پڑھائی کر رہی ہے اس طرح کے معاملات سوچ نظریات رکھ کر شادی میں تاخیر کر دینا کہ بچی کی عمر 25 ،30 سال تک ہو جائے یا اس سے بھی بڑھ جائے تو یہ فتنے کی بات ہوسکتی ہے، حق مارنے کی مثل ہوسکتی ہے،فتنہ ہے کہ کلاس میں نمبر مارکس اور جاب نوکری وغیرہ کے لیے عزت بیچ سکتی ہے،اور لذت ہوس کے چکر میں پھنس سکتی ہے، اس لیے فورا مناسب عمر میں شادی کرا دی جائے اور ہمیں یہ سوچ عام کرنی چاہیے کہ جوانی کی شادی ہونی چاہیے اور جوانی کی شادی کے بعد تعلیم بھی جاری رکھی جا سکتی ہے

۔

6۔۔۔۔اگر والدین نے لاپرواہی یا لالچ کی وجہ سے کم عمر بچی کی شادی کر دی تو وہ نکاح سرے سے ہوا ہی نہیں ، ایسا دو ٹوک فتوی علماء کرام نے دیا ہے جیسے کہ نیچے تفصیل ائے گی۔۔

۔

7۔۔۔حکمران لیڈر صدر وزیر جرنیل عدلیہ پارلیمنٹ تمام بادشاہوں حکمرانوں کے بھی بادشاہ و حکمران معتبر علمائے کرام مفتیان عظام ہیں، موجودہ قانون جو بنایا گیا ہے کہ 18 سال سے کم عمر کی شادی نہیں ہو سکتی، اگر علمائے کرام مدلل فتوی دے دیں کہ یہ قانون درست نہیں ہے تو پھر ہم پر لازم ہو جاتا ہے کہ ہم اواز اٹھائیں جلسے جلوس دھرنے کریں اور جس میں جتنی طاقت ہے اتنی طاقت استعمال کر کے اس قانون کو ختم کرائے 

۔

*#گزارش*

تحریرات سوالات اعتراضات کے جوابات، اہلسنت کے دفاع، معاشرے کی اصلاح و معلومات و تحقیق و تشریح و تصدیق یا تردید وغیرہ کے لیے مجھے وٹسپ کر سکتے ہیں

naya wtsp nmbr

03062524574

میرے نئے وٹسپ نمبر کو وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنائیے تاکہ میں تحریرات وہاں بھیج سکوں،،،سوالات اعتراضات کے جوابات دے سکوں۔۔۔۔دینی خدمات زیادہ سے زیادہ سر انجام دے سکوں

.

علمی تحقیقی اصلاحی سیاسی تحریرات کے لیے اس فیسبک پیج کو فالوو کیجیے،پیج میں سرچ کیجیے،ان شاء اللہ بہت مواد ملے گا...اور اس بلاگ پے بھی کافی مواد اپلوڈ کردیا ہے...لنک یہ ہے:

https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1

.

https://www.facebook.com/share/1BsksuGZ6h/

.@@@@@@@@@@@@@


*#صدر وزیر بادشاہ ولی عہد پارلیمنٹ عدالت کسی کے بھی حکم و قوانین اس وقت نافذ ہوں گے جب مستند معتبر باشعور وسیع علم و تجربہ رکھنے والے علمائے اہل سنت مفتیان اہل سنت اس کی تائید کریں اور یہ علماء و مفتیان کرام بھی مکمل طور پر ازاد حکمران نہیں بلکہ یہ بھی دلیل سے حکم و فتوی دیں گے تو ہی نافذ ہوگا، بے شک  معتبر علمائے اہل سنت مفتیان اہل سنت بادشاہوں کے بھی بادشاہ حکمرانوں کے بھی حکمران ہیں مگر یہ بھی اسلام قران و حدیث وہ دلائل شرعیہ کے پابند ہیں۔۔۔۔۔!!*

۔

*#دلیل و تفصیل۔۔۔پہلی آیت*

القرآن:

لَوۡ رَدُّوۡہُ  اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ

اگر معاملات و مسائل کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق،باشعور،باریک دان،سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور جان لیتے

(سورہ نساء آیت83)

 آیت مبارکہ میں واضح حکم دیا جارہا ہے کہ اہل استنباط کی طرف معاملات کو لوٹایا جائے اور انکی مدلل مستنبط رائے و سوچ و حکم کی تقلید و پیروی کی جائے.....!!

.

يَسْتَخْرِجُونَهُ وَهُمُ الْعُلَمَاءُ..الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُنَافِقِينَ، لَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى ذَوِي الرَّأْيِ وَالْعِلْمِ،...وَفِي الْآيَةِ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْقِيَاسِ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ مَا يُدْرَكُ بِالتِّلَاوَةِ وَالرِّوَايَةِ وَهُوَ النَّصُّ، وَمِنْهُ مَا يُدْرَكُ بِالِاسْتِنْبَاطِ وَهُوَ الْقِيَاسُ عَلَى الْمَعَانِي الْمُودَعَةِ فِي النُّصُوصِ

 اہل استنباط سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو احکام و نکات نکالتے ہوں اور وہ علماء ہیں... آیت میں منافقین اور مومنین سب کو حکم ہے کہ وہ معاملات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دیں اور اہل علم کی طرف لوٹا دیں اور رائے و قیاس کرنے والوں کی طرف لوٹا دیں... اس آیت میں دلیل ہے کہ قیاس کرنا بالکل جائز ہے کہ علم وہ ہوتا ہے کہ جو نص یعنی قرآن اور حدیث و سنت سے ملتا ہے یا پھر ان سے نکالا جاتا ہے یہی تو قیاس ہے

(تفسیر بغوی2/255)

.

دلت هذه الآية على أنَّ القياس حُجَّة... أن في الأحْكَام ما لا يُعْرَف بالنَّصِّ، بل بالاستِنْبَاطِ... أن العَامِيِّ يجِب عليه تَقْلِيد العُلَمَاء

 مذکورہ آیت مبارکہ دلالت کرتی ہے کہ قیاس ایک دلیل و حجت ہے، اس آیت سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ بعض احکام نص سے معلوم ہوتے ہیں اور بعض احکام قیاس و استنباط سے معلوم ہوتے ہیں.... بے شک سب پر واجب ہے کہ وہ علماء کرام کی تقلید کریں

(اللباب فی علوم الکتاب6/526)

.

الحدیث۔ترجمہ:

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پا سکو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں  اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے

(ابوداؤد حدیث3592)

.

ضعفه الشيخ الألباني، ولكن بعض أهل العلم صححه أو حسنه، ومنهم ابن كثير في أول تفسير سورة الفاتحة، وكذلك الشوكاني حسنه وقال: إن ابن كثير جمع فيه جزءاً وقال: كذلك أيضاً أبو الفضل بن طاهر المقدسي جمع فيه جزءاً.وقد وجدت آثار عن عدد من الصحابة

 تدل على ما دل عليه

 ابو داود شریف کی مذکورہ حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن بعض اہل علم نے اس حدیث کو صحیح و دلیل قرار دیا ہے یا پھر حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے جیسے کہ امام ابن کثیر نے اور جیسے کہ امام شوکانی نے صحیح یا حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے... بعض ائمہ نے تو اس حدیث کی تائید و تخریج و شرح پر کتب و رسائل تک لکھے ہیں... صحابہ کرام سے بہت سارے آثار مروی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے قرآن اور حدیث بھر اقوال صحابہ پھر ان پر کیا گیا اجتہاد و قیاس  کرنا اور عمل کرنا کرانا جائز بلکہ لازم و برحق ہے

(شرح ابوداود للعباد تحت الحدیث3592)

.

اس ایت مبارکہ اور اس کی تفسیر اور حدیث پاک کی وضاحت اور دیگر دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ قران حدیث و سنت و اقوال صحابہ کرام میں جو احکامات ائے ہیں انہیں نافذ کرنا لازم ہے اور جن سے روکا گیا ان سے رکنا روکنا لازم ہے

لیکن جو احکامات یا ممانعت قران حدیث و سنت و اقوال صحابہ میں نہیں ائے تو پھر قران حدیث سنت اقوال صحابہ پر قیاس کر کے حکم نکالنا یا ممانعت نکالنا بالکل برحق ہے اور وہ لازم العمل ہے۔۔۔اور یہ قیاس یہ اجتہاد یہ استنباط اہل علم یعنی علماء معتبر علماء باریک بین علماء باشعور علماء اہل استنباط علماء کے لیے جائز ہے لہذا ہمیں قران اور حدیث اور اقوال صحابہ کا علم سنت کا علم بھی انہی علماء سے معتبر علماء سے ملے گا اور انہی کی معتبر مدلل قیاس و استنباط پر عمل لازم ہوگا

 تو یقینا اس ایت مبارکہ اور حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ہم سب پر حکمرانی معتبر علماء و مفتیان اہل سنت کی ہے

.

*#دوسری ایت*

القرآن:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ  اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ

اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو فرمانبرداری کرو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کرو اور اولی الامر کی بھی اطاعت کرو ، اگر تم کسی بات مسئلے میں اختلاف کر بیٹھو تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو( یعنی قران و حدیث کی طرف توجہ کرو قران و حدیث پر قیاس کرو اجتہاد کرو جس کا اجتہاد زیادہ معتبر قوی مضبوط ہوگا اور اس کی تائید دیگر علماء بھی کریں گے تو وہی نافذ ہوگا) یہ سب تم کرو اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور اخرت کے دن پر

(سورہ نساء ایت 49)

۔

اس ایت مبارکہ میں بھی کافی تفاسیر کے مطابق

1۔۔۔۔اولی الامر سے مراد معتبر علماء کرام مفتیان عظام ہیں

2۔۔۔۔یا پھر علم والے بادشاہ حکمران اور  معتبر علماء دونوں ہی مراد ہیں

3۔۔۔۔یا پھر اگر بادشاہ اور حکمران مراد لیے جائیں تو بھی ان پر لازم ہے کہ وہ قران اور حدیث کے مطابق عمل کریں ورنہ قران اور حدیث کی طرف رجوع کریں یعنی قران اور حدیث پر قیاس کرنے کی طرف رجوع کریں اور قیاس اجتہاد اوپر والی ایت کے مطابق صرف اور صرف معتبر علماء کرام مفتیان عظام ہی کر سکتے ہیں

لہذا اس صورت میں بھی ایت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اتھارٹی حکمرانی بادشاہی علمائے اہل سنت کی ہی ہے مفتیان اہل سنت کی ہی ہے 

۔

*#دیگر دلائل و تفصیل*

1۔۔۔الحدیث:

إِنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علماء ہی انبیاء کرام کے وارث اور نائب ہیں اور بے شک انبیاء کرام کہ کوئی مالی وراثت نہیں ہوتی بلکہ وہ تو علم بطور وراثت چھوڑ جاتے ہیں (اور اس علم کے وارث معتبر علماء ہیں)

(ابن ماجہ حدیث 223)

۔

حقیقی علماء وہی ہیں کہ جو معتبر ہوں ,سچے عالم دین ہوں با عمل ہوں، باشعور ہوں ،وسیع علم والے ہوں، استنباط توجیہ تطبیق وغیرہ کے ماہر ہوں۔۔۔ایجنٹ لالچی مکار دھوکے باز دھوکہ دینے والے غلط معنی بتا کر گمراہ کرنے والے علماء کہلانے کے لائق نہیں اگرچہ بظاہر وہ اپنے اپ کو شیخ الحدیث مرد قلندر علمی کتابی وغیرہ کہتے ہوں

لیکن

شریعت مطہرہ کی نظر میں وہ ہرگز ہرگز علماء کی لسٹ میں شامل نہیں۔۔۔۔ لہذا ایسے غیر معتبر جو علماء علمی کتابی مرد قلندر شیخ الحدیث فقیہ بےمثال کہلاتے ہیں ان کی ہرگز ہرگز نہ سنی جائے گی نہ مانی جائے گی

.

2۔۔۔۔الحدیث:

إِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے اپنی امت پر ان لوگوں کا خوف ہے کہ جو گمراہ کن ائمہ(خطیب یوٹیوبر سوشلی اور جعلی محقق، جعلی عالم مفتی، واعظ بظاہر علم بیان کرنے والے) ہوں گے

(ترمذی حدیث2229)

.

گمراہ کن ائمہ اس طرح ہوں گے کہ کم علمی یا ایجنٹی یا عیاشی لالچ وغیرہ کی بنیاد پر غلط جواب دیں گے، قران مجید کی تمام ایات کی تفاسیر اس کو مد نظر نہ ہوں گی اور اکثر احادیث کا علم نہ ہوگا یا اکثر احادیث کا صحیح فہم نہ ہوگا اور اقوال صحابہ کرام کا علم نہ ہوگا... عربی علوم لغت معنی صرف نحو بدیع بیان حقیقت مجاز وغیرہ علوم و فنون اسے نہ ہوں گے اور وہ ان تمام کے بغیر مسائل نکال کر بتاتا پھرے گا۔۔۔ ایت و احادیث کی غلط تاویل و تفسیر و تشریح کرتا پھرے گا۔۔۔ پھیلاتا پھرے گا اور گمراہ ہوگا اور گمراہ کرتا پھرے گا... لہذا ان سے دور رہو یہ قران و حدیث کے حوالے دے تب بھی ان کا کوئی اعتبار نہ کرو کیونکہ یہ قران و حدیث کے معنی کرنے میں معنی و مقصود سمجھانے میں دو نمبری کرتے ہیں.... ان دو نمبر کو پہچانو.... ان دو نمبر کی وجہ سے اصلی علماء اصلی مولوی سے نفرت نہ کرو

.

3۔۔۔۔الحدیث:

أَلَا إِنَّ شَرَّ الشَّرِّ، شِرَارُ الْعُلَمَاءِ، وَإِنَّ خَيْرَ الْخَيْرِ، خِيَارُ الْعُلَمَاءِ

ترجمہ:

خبردار............!! بےشک بد سے بدتر چیز برے علماء ہیں اور اچھی سے اچھی چیز اچھے علماء ہیں

(دارمی حدیث382)

غور کیا جائے تو اس حکم میں علم و معلومات پھیلانے والے تمام لوگ و ذرائع اس حکم میں شامل ہیں

لیھذا

علماء، معلمین، مرشد، اساتذہ، میڈیا، سوشل میڈیا، صحافی، تجزیہ کار،وکیل،جج،جرنیل،مبلغ ، واعظ وغیرہ معلومات پھیلانے والے لوگ

اچھی سے اچھی چیز ہیں بشرطیکہ کہ اچھے ہوں سچے ہوں باعمل ہوں

اور

یہی لوگ بد سے بدتر ہیں اگر برے ہوں

.

حتی کہ علماء کرام پر لازم ہے کہ وہ مدلل فتوی ارشاد فرمائیں گے تو ہی اس پر عمل ہوگا۔۔۔اسی طرح لیڈر بادشاہ جرنیل حکمران عدلیہ صدر وزیر پارلیمنٹ سب کی اطاعت اس وقت کی جائے گی جب وہ شریعت کے مطابق حکم دیں گے ورنہ انکا حکم و قانون ردی کے ٹوکرے میں ڈال دیں گے

.

4۔۔۔۔الحدیث:

السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ حَقٌّ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِالْمَعْصِيَةِ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ

(علماء لیڈرز جج جرنیل وغیرہ عہدے داروں) کی سنو اور مانو بشرطیکہ معصیت(گناہ گمراہی الحاد لادینیت گستاخی غلامی کفر یا غیر شرعی بات) کا حکم نہ دیں، اگر معصیت(گناہ گمراہی الحاد لادینیت گستاخی غلامی کفر غیر شرعی بات) کا حکم دیں تو نہ سنو ، نہ مانو

(بخاری حدیث2955)


.

5۔۔۔الحدیث، ترجمہ:

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ بھیجا اور ان پر ایک شخص کو امیر مقرر کردیا اس امیر نے آگ بھڑکائی اور حکم دیا کہ اس آگ میں داخل ہو جاؤ کچھ لوگوں نے اس کی اطاعت میں داخل ہونے کا ارادہ کیا اور دوسروں نے کہا کہ ہم جہنم کی آگ سے فرار ہوکر مسلمان ہوئے ہیں آگ میں داخل نہ ہونگے… تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اس کا تذکرہ کیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے لئے متعلق فرمایا کہ جو آگ میں داخل ہونا چاہتے تھے ان سے فرمایا کہ اگر تم داخل ہوتے تو قیامت تک اس میں رہتے اور دوسروں کے لئے فرمایا کہ معصیت (گناہ گمراہی الحاد لادینیت گستاخی غلامی کفر و غیر شرعی حکم) کے معاملے میں کسی کی اطاعت مت کرو اطاعت تو نیک(اور جائز) کاموں احکامات میں ہے

(بخاری حدیث7257)

۔

6...تفسیر:

فَهَذِهِ أَوَامِرٌ بِطَاعَةِ الْعُلَمَاءِ وَالْأُمَرَاءِ، فِيمَا أَمَرُوكُمْ بِهِ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ لَا فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، كَمَا تَقَدَّمَ فِي الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ

قران مجید اور احادیث مبارکہ میں واضح حکم ہے کہ علماء اور حکمرانوں کی پیروی کرنی ہے ان معاملات میں کہ جو اللہ کی فرمانبرداری کی طرف حکم دیں تو وہ پیروی کرنی ہے اور اگر وہ اللہ کی نافرمانی میں کوئی حکم دیں تو اس کی پیروی نہیں کرنی کیونکہ صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی بھی پیروی نہیں کرنی

(تفسیر ابن کثیر2/345ملتقطا)

۔

7..... حکمران کی پیروی بھی مشروط ہے قران و سنت کے ساتھ۔۔۔۔

وَلَيْسَ لِغَيْرِ الْعُلَمَاءِ مَعْرِفَةَ كَيْفِيَّةِ الرَّدِّ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، وَيَدُلُّ هَذَا عَلَى صِحَّةِ كَوْنِ سُؤَالِ الْعُلَمَاءِ وَاجِبًا، وَامْتِثَالِ فَتْوَاهُمْ

لَازِمًا.

قران مجید کی ایت میں حکم تھا کہ اولی الامر کی پیروی کرو مگر اولی الامر و دیگر کا اپس میں اختلاف ہو جائے تو قران مجید نے حکم دیا کہ کتاب اللہ کی طرف جانا ہے اور سنت کی طرف جانا ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ قران مجید کا علم اور احادیث مبارکہ اور سنت مبارکہ کا علم علمائے کرام کو ہی ہوتا ہے تو ایت سے ثابت ہوتا ہے کہ علماء سے پوچھنا ان کی رہنمائی لینا واجب ہے اور ان کے مدلل فتوے پر عمل کرنا لازم ہے

(تفسیر قرطبی5/260)

۔

8۔۔۔۔بادشاہوں کے بادشاہ حکمرانوں کے حکمران کون۔۔۔۔؟؟

أَنَّ أَعْمَالَ الْأُمَرَاءِ وَالسَّلَاطِينِ مَوْقُوفَةٌ عَلَى فَتَاوَى الْعُلَمَاءِ، وَالْعُلَمَاءُ فِي الْحَقِيقَةِ أُمَرَاءُ الْأُمَرَاءِ

لیڈر بادشاہ حکمران وغیرہ سب کے احکامات قوانین وغیرہ علماء معتبرین کے فتوے پر موقوف ہیں اور معتبر علماء ہی حقیقت میں بادشاہوں کے بادشاہ ہیں،  لیڈروں کے لیڈر ہیں،  حکمرانوں کے حکمران ہیں

(تفسیر کبیر10/114)

.

مذکورہ بالا دلائل اور دیگر بہت سے دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی ممالک میں یا جن ممالک میں مسلمانوں کے لیے اصول بنائے جائیں تو وہاں پر لازم ہے کہ حکمران پارلیمنٹ لیڈر سیاستدان صدر وزرا ولی عہد سارے بادشاہ حکمران سب پر لازم ہے کہ وہ علمائے برحق کی نگرانی اور ان کے مدلل فتوے کے مطابق قوانین بنائیں احکامات بنائیں نافذ کریں اگر کوئی قانون و حکم شریعت مطہرہ کے خلاف ہوگا تو اسے ختم کرنا لازم ہوگا

۔

لھذا پاکستان میں جو قانون بنایا گیا ہے کہ نکاح شادی 18 سال سے پہلے کی عمر میں نہیں ہو سکتی، اور پھر اس پر طرح طرح کے جرمانے بھی رکھے گئے ہیں تو حکمران پارلیمنٹ سیاستدان لیڈر صدر جرنیل عدلیہ سب پر فرض ہے کہ اس قانون کو علماء کے پاس لے کر جائیں اگر وہ رد فرما دیں مدلل رد فرما دیں تو اس قانون کو ختم کرنا لازم ہوگا

۔ 

اور اگر علماء کرام کے فتوی جات کہ باوجود قانون فتوی جات کے خلاف بنتا ہے اور حکمران یہ قانون نافذ کرتے ہیں بناتے ہیں تو پھر اس صورت میں عوام پر لازم ہوگا کہ وہ بڑے بڑے جلسے جلوس احتجاج دھرنے کریں تاکہ حکمران اگر مجبور ہوئے تو اپنے اقاؤں کو کہہ سکیں گے کہ دیکھو عوام بپھری ہوئی ہے لہذا ہم یہ قانون نافذ نہیں کر سکتے ورنہ عوام میں جوتے مار کر اقتدار سے ہٹا دے گی۔۔۔اور اگر یہ مجبور نہ ہوئے بلکہ مغربیت کی ذہنیت سے متاثر غلام ہوئے تو پھر علماء کے دلائل اور عوام کے پریشر سے ان کا دماغ ان۔شاءاللہ عزوجل ٹھکانے ضرور لگے گا 

.

*#جاگو، اٹھو، آواز بلند کرو،جلسے جلوس کرو*

القرآن:

اِنَّ  الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ اِلَّا  الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ ۙ  وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ

بے شک انسان خسارے میں ہے سوائے اس کے کہ جو ایمان لے ائے، نیک عمل کرے اور حق کی تلقین کرتا رہے اور صبر کی تلقین کرتا رہے

(سورہ عصر ایت2،3)

.

الحدیث:

 "أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ، أَوْ أَمِيرٍ جَائِرٍ..

وفي رواية النسائي والحاكم "كلمة الحق"

راہِ حق سے ہٹے ہوے ظالم بادشاہ یا راہِ حق سے ہٹے ہوے ظالم امیر(امیر یعنی حاکم،لیڈر، قاضی، جج، سردار وغیرہ کؤئی بھی ذمہ دار، عھدے دار)کے پاس عدل.و.حق کی بات کہنا افضل جھاد ہے

(ابوداؤد حدیث نمبر4344)

.

قران و حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم عربی غیرعربی تمام مسلم عوام و خواص برائی پے پرزور اواز اٹھائیں اور پرزور مذمت کریں اور طاقت ہو تو طاقت کے بل بوتے پر برائی کو روکیں اور اگر طاقت نہیں تو طاقت جمع کریں اس طرح کہ ہم جلسے جلوس کریں ریلیاں نکالیں اکٹھے ہو کر جلوس دھرنے دیں کہ فلاں کام فلاں برائی روکی جائے۔۔۔اس طرح اگر حکمران مجبور بھی ہوئے تو بھی وہ اپنے اقاؤں کو کہہ سکیں گے کہ ہم مجبور ہیں عوام بپھری ہوئی ہے، لہذا فلاں برا کام نہیں کیا جا سکتا ورنہ عوام ہمیں جوتے مارے گی یا پھر ہمیں اقتدار سے نکال دے گی یا ہمیں قتل کر ڈالے گی

حتی کہ

علماء کرام تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر بظاہر سارا معاشرہ نیک اور درست اور اچھا ہو تو بھی ایک دوسرے کو وعظ و نصیحت کرتے رہنا چاہیے ، ایک دوسرے کو اچھائی کی باتیں کرتے رہنا چاہیے تاکہ ائندہ کسی کے ذہن میں برائی پیدا نہ ہو تاکہ برائی کا پہلے سے ہی سد باب ہو

۔

@@@@@@@@@@@@

*#ابھی جو قانون بنا ہے کہ کم عمری کی شادی نہیں ہو سکتی اس کے متعلق معتبر علمائے کرام، مفتیان عظام تو ان۔شاءاللہ عزوجل حسب ضرورت مدلل فتوی ضرور دیں گے لیکن اس کار خیر میں حصہ ڈالنے کے لیے میں نے بھی54 دلائل و حوالہ جات جمع کیے ہیں اور اپ کے سامنے رکھ رہا ہوں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کم عمری کی شادی جائز ہے بشرطیکہ شریعت کی تعلیمات کا لحاظ رکھا جائے، میرے ان دلائل کو علمائے اہل سنت مفتیان کرام کی بارگاہ میں پیش کریں اگر وہ اس تحریر کو معتبر قرار دیں ، درست قرار دیں تو ہی اپ اس تحریر کو معتبر سمجھیے ، درست سمجھیے اور عمل کیجئے اور عمل کرائیے، پھیلائیے، جلسے جلوس دھرنے وغیرہ کیجیے۔۔۔۔۔!!*

۔

*#کم عمری میں شادی نکاح جائز ہے بشرطیکہ اسلام کی تعلیمات و شرائط کو مدنظر رکھا جائے اس پر درج زیل 54 دلائل و حوالہ جات پڑھیے۔۔۔۔۔۔۔۔!!*

۔۔            

*#دلیل و حوالہ نمبر①*

القرآن:

وَ الِّٰٓیۡٔ  یَئِسۡنَ مِنَ  الۡمَحِیۡضِ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ   اِنِ  ارۡتَبۡتُمۡ فَعِدَّتُہُنَّ  ثَلٰثَۃُ اَشۡہُرٍ ۙ وَّ الِّٰٓیۡٔ  لَمۡ یَحِضۡنَ

تمہاری وہ عورتیں( بیویاں) کہ جو حیض و ماہواری سے نہ امید ہو چکی ہیں تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان عورتوں(بیویوں) کی عدت بھی تین مہینے ہے جنہیں ابھی تک(کم عمری وغیرہ کی وجہ سے) حیض نہیں ایا

(سورہ الطلاق ایت4)

ایت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ کم عمری کی شادی اسلامی تعلیمات و شرائط کے تحت کی جائے تو جائز ہے لیکن رخصتی میں قران و حدیث کے مطابق دیگر شرائط بھی ہیں جیسے کہ اپ نیچے تفصیل پڑھتے جائیں گے

۔

*#دلیل و حوالہ نمبر②*

تفسیر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

أبيّ بن كعب قال: قلت: يا رسول اللَّه إنّ ناساً من أهل المدينة لما نزلت الآيات التي في البقرة في عدة النساء قالوا: لقد بقي من عدة النساء عدد لم يذكرن في القرآن الصغار والكبار اللاتي قد انقطع عنهن الحيض وذوات الحمل، فأنزل اللَّه: {اللائي يئسن من المحيض من نسائكم إن ارتبتم فعدتهن ثلاثة أشهر}. {واللائي لم يَحِضْنَ} يعني كذلك عدتهن ثلاثة أشهر

صحابی ابن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم لوگ پوچھتے ہیں کہ عورتوں کی عدت کے متعلق کچھ ایات مبارکہ نازل ہو چکی ہیں مگر وہ عورتیں کہ جن کا نکاح کم عمری میں ہوا ہو یا وہ عورتیں کہ جو بہت زیادہ بوڑھی ہو گئی ہوں کہ ان دونوں کو حیض نہ اتا ہو اور حمل والی عورتیں کہ ان کو بھی حیض نہیں اتا تو ان کی عدت کیا ہوگی تو اللہ تعالی نے یہ ایت مبارکہ نازل فرمائی کم عمری کی وجہ سے جس بیوی کو حیض نہ اتا ہو یا زیادہ عمر والی بیگم کو حیض نہ اتا ہو اور ان کا شوہر وفات پا جائے یا ان کا شوہر ان کو طلاق دے دے تو ان کی عدت اسی طرح تین ماہ ہے

(تفسیر الماوردی33  ،6/32)

ایت مبارکہ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت سے واضح ہوتا ہے کہ کم عمری میں شادی نکاح جائز ہے بشرط کے شریعت کی تعلیمات کو مدنظر رکھا جائے اور اس کم عمر بیوی کو طلاق ہو جائے یا اس کا شوہر وفات پا جائے تو پھر اس کی عدت تین حیض نہیں بلکہ تین ماہ ہے

۔

*#دلیل و حوالہ نمبر③*

فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا عِدَّةُ الصَّغِيرَةِ الَّتِي لَمْ تَحِضْ؟ فَنَزَلَ: وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ أَيْ هِيَ بِمَنْزِلَةِ الْكَبِيرَةِ الَّتِي قَدْ يَئِسَتْ عِدَّتُهَا ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ

عرض کی یا رسول اللہ وہ کم عمر بیگم کہ جس کو حیض نہ اتا ہو تو اس کی عدت کیا ہے تو یہ یہ ایت نازل ہوئی کہ ایسی کم عمر بیگم  بڑی عمر کی عورت کے حکم میں ہے کہ جس کو حیض نہ اتا ہو تو ان دونوں کی عدت تین ماہ ہے

(تفسیر کبیر لرازی30/563)

۔

*#دلیل و حوالہ نمبر④*

وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ) - يَعْنِي الصَّغِيرَةَ- فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةَ أَشْهُرٍ۔۔۔وَهَذَا إِجْمَاعٌ

ایت مبارکہ ہے کہ جس کو حیض نہیں اتا یعنی اس ایت میں وہ کم عمر بیوی بھی شامل ہے کہ جس کو حیض نہ اتا ہو کم عمری کی وجہ سے تو اس کی عدت بھی تین ماہ ہے اور اس بات پر تمام صحابہ کرام تابعین ائمہ مفسرین محققین سب کا اجماع ہے متفقہ فتوی ہے

(تفسیر قرطبی18/165)

واضح ہوتا ہے کہ ایت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کم عمری میں شادی نکاح جائز ہے بشرط کے شریعت کی تعلیمات کو مدنظر رکھا جائے اور اس کم عمر بیوی کو طلاق ہو جائے یا اس کا شوہر وفات پا جائے تو پھر اس کی عدت تین حیض نہیں بلکہ تین ماہ ہے۔۔۔اس بات فتوی حکم پر تمام صحابہ کرام تابعین ائمہ کرام مفسرین مجتہدین محققین سب کا اجماع ہے متفقہ فتوی و حکم ہے۔۔۔

۔

*#دلیل و حوالہ نمبر⑤*

واللائي لَمْ يَحِضْنَ} من الصغر فعدتهن أَيْضا ثَلَاثَة أشهر

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ قران مجید میں جو ہے کہ جسے حیض نہیں اتا تو اس سے مراد وہ کم عمر بیوی بھی ہے کہ جس کو کم عمری کی وجہ سے حیض نہ اتا ہو تو اس کی عدت بھی تین ماہ ہے

(تفسیر ابن عباس ص476)

.           

*#دلیل و حوالہ نمبر⑥* 

وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ} يَعْنِي الصِّغَارَ اللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ فَعِدَّتُهُنَّ أَيْضًا ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ

ایت مبارکہ میں جو ہے کہ جن کو حیض نہیں اتا تو اس سے مراد وہ بیویاں بھی ہیں کہ جن کو کم عمری کی وجہ سے حیض نہ اتا ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے

(تفسیر بغوی8/152)

۔

*#دلیل و حوالہ نمبر⑦* 

واللائي لَمْ يَحِضْنَ} هن الصغائر وتقديره واللائي  لم يحضن  فعدتهن ثلاثة أشهر

 ایت مبارکہ میں جو ہے کہ جن کو حیض نہیں اتا تو اس سے مراد وہ بیویاں بھی ہیں کہ جن کو کم عمری کی وجہ سے حیض نہ اتا ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے

(تفسیر مدارک3/499)

۔

*#دلیل و حوالہ نمبر⑧*

وَاللائِي لَمْ يَحِضْنَ) يقول: وكذلك عدد اللائي لم يحضن من الجواري لصغر.۔۔قتادۃ واللائي لم يحضن هنّ الأبكار التي لم يحضن۔۔۔الضحاک، (وَاللائِي لَمْ يَحِضْنَ) لم يبلغن المحيض

ایت مبارکہ میں جو ہے کہ جن کو حیض نہیں اتا یعنی اسی طرح وہ کم عمر لڑکیاں کہ جن کی شادی ہو گئی اور انہیں کم عمری کی وجہ سے حیض نہیں اتا تو ان کا عدت بھی تین ماہ ہے۔۔۔ سیدنا قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ اس میں وہ عورتیں بھی شامل ہیں کہ جو کم عمر بیویاں ہیں اور کم عمری کی وجہ سے حیض نہیں اتا۔۔۔اور سیدنا ضحاک نے بھی یہی فرمایا کہ جو بیویاں حیض کی عمر کو نہیں پہنچی تو ان کی عدت تین ماہ ہے

(تفسیر طبری453 ،23/452 ملتقطا)

.

*#دلیل و حوالہ نمبر⑨*

ألا ترى أن الله تبارك وتعالى جعل على التي تحيض من العدة ثلاثة قروء، فإن لم تكن تحيض من كبر أو صغر جعل عليها ثلاثة أشهر

امام اعظم ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ان عورتوں کی عدت تین حیض رکھی جن کو حیض اتا ہو اور جن کو بڑھاپے کی وجہ سے یا کم عمری کی وجہ سے حیض نہ اتا ہو تو ان بیویوں کی عدت تین مہینے رکھی ہے

(الاصل للامام محمد الشیبانی، جلد2 ص7)

۔

مذکورہ بالا تمام حوالہ جات سے واضح ہوتا ہے کہ ایت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کم عمری میں شادی نکاح جائز ہے بشرط کے شریعت کی تعلیمات کو مدنظر رکھا جائے اور اس کم عمر بیوی کو طلاق ہو جائے یا اس کا شوہر وفات پا جائے تو پھر اس کی عدت تین حیض نہیں بلکہ تین ماہ ہے

.


*#دلیل و حوالہ نمبر⑩*

وللعامة قَوْله تَعَالَى: {وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ} [الطلاق: 4] (الطلاق: الآية 4) ، بين الله تعالى عدة الصغيرة، وسبب العدة شرعا النكاح، فذلك يقرر نكاح الصغيرة

جمہور علماء (نے شرائط کے ساتھ کم عمری کی شادی کو جائز قرار دیا ہے ان) کی ایک دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے سورہ طلاق میں کہ جن کو حیض نہیں اتا ان کی عدت تین ماہ ہے تو اس ایت میں اللہ تعالی نے کم عمر بیوی کے عدت بیان فرمائی ہے اور عدت کا مطلب ہے کہ نکاح جائز تھا جس سے ثابت ہوا کہ کم عمری میں نکاح ہو سکتا ہے( مگر کم عمر بیوی سے ہمبستری جماع رخصتی کے لیے مخصوص شرائط ہیں کہ جماع کی طاقت رکھتی ہو)

(بنایہ شرح ہدایہ5/90 )

.

*#دلیل و حوالہ نمبر⑪*

وَحُجَّتُنَا قَوْله تَعَالَى {وَاَللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ} [الطلاق: 4] بَيَّنَ اللَّهُ تَعَالَى عِدَّةَ الصَّغِيرَةِ، وَسَبَبُ الْعِدَّةِ شَرْعًا هُوَ النِّكَاحُ، وَذَلِكَ دَلِيلُ تَصَوُّرِ نِكَاحِ الصَّغِيرَةِ

صغیرہ یعنی کم عمر بچی کا نکاح جائز ہے اس کے متعلق امام سرخسی فرماتے ہیں کہ ہماری دلیل یہ ہے کہ قران مجید میں ہے سورۃ طلاق ایت نمبر چار وہ عورتیں کہ جن کو کم عمری وغیرہ کی وجہ سے حیض نہ اتا ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اس ایت میں کم عمر بچی کی عدت تین ماہ بتائی گئی ہے اور عدت کا سبب نکاح ہوتا ہے اور یہ دلیل ہے کہ کم عمر بچی کا نکاح ہو سکتا ہے( لیکن رخصتی ہمبستری جماع اس وقت جائز ہوگا کہ جب اس کی طاقت عورت میں ہو)

(المبسوط للامام السرخسی4/212)

.

*#دلیل و حوالہ نمبر⑫*

 قَوْلُهُ وَيَجُوزُ نِكَاحُ الصَّغِيرِ وَالصَّغِيرَةِ إذَا زَوَّجَهُمَا الْوَلِيُّ) لِقَوْلِهِ تَعَالَى {وَاللائِي لَمْ يَحِضْنَ} [الطلاق: 4] فَأَثْبَتَ الْعِدَّةَ لِلصَّغِيرَةِ وَهُوَ فَرْعُ تَصَوُّرِ نِكَاحِهَا شَرْعًا

چھوٹے بچے اور چھوٹی بچی کا نکاح جائز ہے اگر یہ نکاح ان دونوں کے شرعی سرپرست کرائیں، اس کی دلیل سورہ طلاق ایت چار ہے کہ جس میں کم عمر بیوی کے لیے عدت ثابت کی گئی ہے اور عدت اسی وقت ہو سکتی ہے کہ جب نکاح ہوا ہو

(فتح القدیر3/274)

.

@@@@@@@@@@@@@@

*#دلیل وحوالہ نمبر⑬*

القرآن:   

وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِی الۡیَتٰمٰی فَانۡکِحُوۡا

یتیم بچیوں کے متعلق اگر تمہیں خوف ہو کہ عدل نہ کر پاؤ گے تو پھر ان سے نکاح کر سکتے ہو

(سورہ نساء ایت3)

ایت مبارکہ میں واضح ہے کہ اسلام کی تعلیمات شرائط وغیرہ پر عمل کیا جائے تو یتیم بچیوں سے نکاح کیا جا سکتا ہے اور یتیم وہ کہلاتا ہے جو نابالغ ہو کم عمر ہو لہذا اس ایت مبارکہ سے بھی کم عمری کی شادی جائز ثابت ہو جاتی ہے

۔

*#دلیل اور حوالہ نمبر⑭*

راوی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے دریافت کیا اس ایت کے بارے میں تو اپ نے فرمایا کہ نا بالغ بچیاں جو یتیم ہو جاتی تھی وہ دوسرے کسی ولی وارث کے پاس ہوتی تھی تو وہ ان سے نکاح کر لیتا تھا لیکن وہ اتنے حقوق نہ دیتا تھا جو عام طور پر عورتوں کو دیا جاتا ہے تو اللہ تعالی نے حکم دیا اس ایت میں کہ اگر تم ان نابالغ بچیوں سے نکاح کرو تو نکاح کی تمام اعلی ترین سنتوں پر عمل کرو، عدل کرو

(بخاری روایت4574ملخصا)

۔

*#دلیل اور حوالہ نمبر⑮*

سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا {وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ} قَالَتْ: هِيَ الْيَتِيمَةُ تَكُونُ فِي حِجْرِ وَلِيِّهَا فَيَرْغَبُ فِي جَمَالِهَا وَمَالِهَا وَيُرِيدُ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا بِأَدْنَى مِنْ سُنَّةِ نِسَائِهَا، فَنُهُوا عَنْ نِكَاحِهِنَّ إِلَّا أَنْ يُقْسِطُوا لَهُنَّ

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سائل نے پوچھا کہ یہ ایت کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو اپ نے فرمایا کہ نابالغ بچی کسی کے ذمہ ہوتی تھی تو وہ اس کے حسن و جمال اور مال کی وجہ سے اس سے نکاح کرتا تھا لیکن اسے وہ والے حقوق نہ دیتا تھا جو دیگر عورتوں کو ملتے ہیں تو اللہ تعالی نے اس ایت میں اس فعل سے منع کر دیا اور فرمایا کہ اگر نکاح کرو نہ بالغ بچیوں سے تو پورا کا پورا عدل کرو

(تفسیر بغوی4/216)

۔

*#دلیل اور حوالہ نمبر⑯*

حقوقهنّ فانكحوا ما طاب لكم من النساء فان الحامى حينئذ بحقوقهن ميلان أنفسكم إليهن سواء كانت يتيمة

 او بالغة

اس ایت میں حکم ہے کہ بالغ عورت سے نکاح کرو یا نابالغ یتیم بچی سے نکاح کرو ہر حال میں تم پر لازم ہے کہ دونوں کے حقوق پوری طرح ادا کرو

(تفسیر مظہری1/6)

۔

*#دلیل اور حوالہ نمبر⑰*

فبيّن الله لهم هذه الآية أن اليتيمة إذا كانت ذات جمال ومال رغبوا في نكاحها ولم يلحقوها بسنتها في إكمال الصداق وإن كانت مرغوبة عنها في قلة المال والجمال تركوها والتمسوا غيرها من النساء قال فكلما يتركونها حين يرغبونها عنها فليس لهم أن ينكحوها إذا رغبوا فيها إلا أن يقسطوا لها ويعطوها حقها الأوفى

اللہ تعالی نے اس ایت میں بیان فرمایا ہے کہ نابالغ بچی کے حسن و مال کی وجہ سے اگر نکاح کرتے ہو لیکن اس کے حقوق پوری طرح ادا نہ کر سکو گے تو پھر ان سے نکاح ہرگز نہ کرو٫ دوسری عورتوں سے نکاح کرو مگر یہ کہ اگر ان نابالغ بچیوں سے نکاح کرو تو پورے کے پورے حقوق ادا کرو

(تفسیر الخازن1/339ملخصا)

۔

@@@@@@@@@@@@@

۔

*#دلیل و حوالہ نمبر⑱*

القرآن:

وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ

تم میں سے جو بے نکاح ہیں ان کا نکاح کرا دو

(سورہ نور ایت 32)

ایت مبارکہ میں لفظ بے نکاح مطلق ہے جس میں بالغ نابالغ تمام لڑکے لڑکیاں شامل ہیں

.

*#دلیل و حوالہ نمبر⑲*

وتكون الأيامى شاملة للرجال والنساء، ويكون الأمر بالنكاح هو الأمر بتسهيله وإشاعته، وتمكين كل بالغ وبالغة،

ایت میں لفظ الایامی ہے جس میں مرد عورت بالغ نابالغ سب شامل ہیں کہ ان سب کا نکاح کرا دو یہ حکم والدین کو ہے ولی وارث کو ہے

(زہرۃ التفاسیر10/5187ملخصا)

۔

*#دلیل و حوالہ نمبر⑳*

لان الايم يعم الرجل والمرأة الصغيرين والكبيرين۔۔۔۔وقد اجمعوا ۔۔۔ وعلى ان النكاح الباكرة الصغيرة

 الى الأوليا

ایت میں جو ہے کہ بے نکاح کا نکاح کرا دو تو اس میں مرد عورت دونوں شامل ہیں کم عمر لڑکے لڑکیاں بھی شامل ہیں اور اس بات پر تمام (صحابہ کرام تابعین ائمہ مجتہدین مفسرین محققین صوفیا علماء اولیاء) کا اجماع و متفقہ فتوی ہے کہ کم عمر بچی کا نکاح والد سرپرست کر سکتا ہے

(تفسیر مظہری6/509)

۔

*#دلیل و حوالہ نمبر ㉑*

بهذا قيل إن وقوع الإنكاح بالإضافة في الصغار إلى

الأولياء

اسی ایت کو دلیل بنا کر علماء کرام نے فرمایا ہے کہ کم عمر بچیوں کا نکاح والد سرپرست کے سپرد ہے

(تفسیر تاویلات اہل السنۃ 2/174)

.

*#دلیل و حوالہ نمبر㉒ *

وَلَنَا قَوْله تَعَالَى {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ} [النور: 32] وَالْأَيِّمُ اسْمٌ لِأُنْثَى مِنْ بَنَاتِ آدَمَ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - كَبِيرَةً كَانَتْ أَوْ صَغِيرَةً لَا زَوْجَ لَهَا

چھوٹی بچی اور چھوٹے بچے کا نکاح کیا جا سکتا ہے اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ قران مجید میں ہے سورہ نور میں ہے کہ تم میں سے جو بے نکاح ہیں ان کا نکاح کراؤ ایت میں لفظ الایامی ہے جو ایم سے بنا ہے اور ایم کا عمومی طور پر معنی بےنکاحی عورت ہے چاہے وہ کم عمر لڑکی ہو یا بڑی لڑکی یا بڑی عورت

(بدائع صنائع2/240)

۔ 

*#دلیل و حوالہ نمبر㉓*

ودليل آخر: وهو قوله تعالى: {وأنكحوا الأيامى منكم}، والأيم اسم المرأة التي لا زوج لها، وذلك يتناول الصغار والكبار

منهن

ایک دلیل یہ بھی ہے کہ قران مجید میں ہے الایامی کا نکاح کرا دو اور الایامی بنا ہے الایم سے جس کا معنی ہے وہ عورت جس کا شوہر نہ ہو، لیھذا یہ لفظ کم عمر لڑکی کو بھی شامل ہے اور بڑی عورتوں کو بھی شامل ہے

(شرح مختصر الطحاوی4/297)

@@@@@@@@@@@@

*#دلیل و حوالہ نمبر㉔*

القرآن:

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ  فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ  اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال وغیرہ میں تمہارے لیے اسوہ حسنہ ہے یعنی اچھی پیروی ہے

(سورہ الاحزاب ایت 21)

یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال و سنت  و حدیث پر عمل کرو گے تو اسی عمل اور پیروی میں بھلائی ہے اچھائی ہے

اور

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال میں سے یہ بھی ہے کہ اپ نے اپنی دو پیاری بیٹیوں سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا اور سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح کم عمری میں کر دیا تھا۔۔۔جیسے کہ نیچے تفصیل ائے گی 

۔

*#دلیل و حوالہ نمبر㉕*

الحدیث:

فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّهَا صَغِيرَةٌ ". فَخَطَبَهَا عَلِيٌّ، فَزَوَّجَهَا مِنْه

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے متعلق فرمایا کہ یہ چھوٹی ہے، پھر فورا ہی واقعہ ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدہ فاطمہ کا رشتہ مانگ لیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی کی شادی سیدہ فاطمہ سے کرا دی

(سنن نسائی حدیث3221)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی کے متعلق واضح الفاظ میں فرمایا کہ وہ چھوٹی ہے٫ اس کے باوجود جب مناسب رشتہ ایا تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار نہ فرمایا اور کم عمری میں شادی فرما دی، شادی کے وقت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر تقریبا 15 سال تھی،جیسے کہ دلائل و حوالہ جات نیچے ہم لکھ رہے ہیں

۔

*#دلیل و حوالہ نمبر㉖تا㉚*

1...وتزوجت ولها خمس عشرة سنة وخمسة أشهر ونصف ولعلي إحدى وعشرون سنة وخمسة أشهر

مضبوط قول کے مطابق  سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شادی سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوئی تو اس وقت سیدہ کی عمر 15 سال تھی اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر 21 سال تھی

(شرح زرقانی4/333)

.


2....وَكَانَ سنها يوم تزويجها خمس عشرة سنة وخمسة أشهر ونصفًا، وكانت سن علي إحدى وعشرين سنة

 وخمسة أشهر

سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی شادی کے وقت عمر 15 سال تھی اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر 21 سال تھی

(الاستیعاب4/1893)

.

3....على ما مر من زواج علي بها ولها خمس عشرة

سنة ونصف يكون عمرها أربعًا وعشرين سنة

دلائل و حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شادی ہوئی تو سیدہ فاطمہ کی عمر 15 سال تھی تو اس حساب سے وفات تک سیدہ فاطمہ کی عمر 24 سال بنتی ہے

(تذهيب تهذيب الكمال11/168)

.

4....وكان سنها يوم تزويجها خمس عشرة سنة وخمسة أشهر في قول

ایک مضبوط قول کے مطابق شادی کے وقت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر 15 سال تھی

(أسد الغابة في معرفة الصحابة7/220)

.

،5...وكان سِنُّها يوم تزوجها رضي الله عنهما خمس عشرة سنة وخمسة أشهر ونصفًا، وسِنُّ علي يومئذ: إحدى وعشرون سنة وستة أشهر

سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عمر شادی کے وقت 15 سال تھی اور اس وقت سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر 21 سال تھی

(المفهم شرح صحیح مسلم6/351)


.##########

*#دلیل و حوالہ نمبر㉗تا㊲*

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب  پیاری بیٹی سیدہ رقیہ پیدا ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 33 سال تھی، 40 سال کی عمر میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا اور اس کے 5 سال بعد سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کردیا، انہیں ہجرت حبشہ کا حکم دیا اور انہوں نے ہجرت فرمائی۔۔۔تو اس حساب سے 33/40 سے جواب نکلا 7سال اور 5 سال مزید تو کل ہوئے 12 ، 13 سال۔۔۔یعنی سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شادی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر پیاری بیٹی سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ہوئی تو سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عمر مبارک 13 سال کے قریب تھی جو کہ کم عمری کی شادی ہی ہے۔۔۔تفصیل و حوالہ جات درج زیل ہیں 

۔

1...وأما رقية فولدت سنة ثلاث وثلاثين من مولده- صلى الله عليه وسلم-...فتزوج عثمان بن عفان رقية بمكة، وهاجر بها الهجرتين إلى أرض الحبشة

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹی  سیدہ رقیہ  پیدا ہوئی تو اس وقت سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 33 سال تھی۔۔۔سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح مکہ میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوا اور سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی گھر والی سیدہ رقیہ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت بھی فرمائی تھی

(المواهب اللدنية بالمنح المحمدية480, 1/479)

.

2.....ولدت لرسول الله صلى الله عليه وسلم وعمره ثلاث وثلاثون سنة، وسماها رقية۔۔۔۔فتزوجت رقية عثمان بن عفان- رضي الله تعالى عنهما- بمكة وهاجر بها الهجرتين إلى أرض الحبشة

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیاری بیٹی رقیہ  رضی اللہ تعالی عنہا پیدا ہوئی تو اس وقت سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 33 سال تھی۔۔۔سیدہ رقیہ کا نکاح سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوا مکہ میں اور پھر اپ نے سیدہ کے ساتھ ہجرت حبشہ بھی فرمائی

(سبل الھدی، 11/33)

.

3....ووُلِدتْ رُقَيَّةُ بنتُ رسول اللهِ ﷺ[ورسولُ اللهِ ﷺ] (٧) ابن ثلاثٍ وثلاثينَ سنةً..فتزوج عُثْمَان بْن عفان رقية بمكة، وهاجرت معه إِلَى أرض الحبشة

سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ رقیہ کی ولادت ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 33 سال تھی۔۔۔سیدہ رقیہ کا نکاح مکہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوا اور  سیدہ رقیہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہجرت حبشہ فرمائی

(الاستيعاب في معرفة الأصحاب 4/1840)

.

4....تزوج عثمان رقية، وهاجر بها إلى الحبشة

سیدہ رقیہ کا نکاح سیدنا عثمان سے ہوا اور سیدنا عثمان نے ان کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی تھی

(الاصابۃ لابن حجر عسقلانی8/138)

.

5....وَكَانَ أَوّلُ مَنْ خَرَجَ مِنْ الْمُسْلِمِينَ مِنْ بَنِي أُمَيّةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسِ بْنِ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ قُصَيّ بْنِ كِلَابِ بْنِ مُرّةَ بْنِ كَعْبِ بْنِ لُؤَيّ بْنِ غَالِبِ بْنِ فِهْرٍ: عُثْمَانُ بْنُ عَفّانَ بْنُ أَبِي الْعَاصِ بْنِ أُمَيّةَ مَعَهُ امْرَأَتُهُ رُقَيّةُ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ

وَسَلَّم

حبشہ کی طرف جو سب سے پہلے ہجرت ہوئی اس ہجرت میں سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے اور ان کی بیوی سیدہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ساتھ تھی

(الروض الأنف3/121)

.

6....أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، وَامْرَأَتُهُ رُقْيَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَا مُهَاجِرَيْنِ مِنْ مَكَّةَ إِلَى

الْحَبَشَةِ الْأُولَى

سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کی گھر والی سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا دونوں نے مکہ سے حبشہ کی طرف پہلی ہجرت بھی فرمائی تھی

(مستدرک حاکم روایت4246)

.

7....وذلك في رجب سنة خمس من النبوة...وكان أول من خرج عثمان بن عفان مع امرأته رقية بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کا اعلان فرمایا تو اس کے پانچویں سال میں حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت عطا فرمائی تھی اور اس ہجرت میں اولین لوگوں میں سے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے کہ جو اپنی گھر والی  سیدہ رقیہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ساتھ لے کر گئے تھے

(شرح الزرقاني على المواهب اللدنية504 ،1/505)

.

8....الهجرة الأولى إلى الحبشة وكانت في السنة الخامسة من البعثة

پہلی ہجرت ہجرت حبشہ اعلان نبوت کے بعد پانچویں سال میں ہوئی

(موجز التاريخ الإسلامي ص60)

.

9....مَنْ هَاجَرُوا الْهِجْرَةَ الْأُولَى إلَى الْحَبَشَةِ۔۔۔عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ بْنِ أُمَيَّةَ، مَعَهُ امْرَأَتُهُ رُقَيَّةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ہجرت حبشہ کی طرف پہلی ہجرت جنہوں نے کی تھی ان میں سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے اور ان کے ساتھ ان کی گھر والی سیدہ رقیہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل تھیں

(سیرت ابن ہشام1/322)

.

10...أَنَّ خُرُوجَهُمْ إِلَيْهَا فِي رَجَبٍ سَنَةَ خَمْسٍ مِنَ الْبِعْثَةِ، وَأَنَّ أَوَّلَ مَنْ هَاجَرَ مِنْهُمْ أَحَدَ عَشَرَ رَجُلًا وَأَرْبَعُ نِسْوَةٍ، وَأَنَّهُمُ انْتَهَوْا إِلَى الْبَحْرِ مَا بَيْنَ مَاشٍ وَرَاكِبٍ، فَاسْتَأْجَرُوا سَفِينَةً بِنِصْفِ دِينَارٍ إِلَى الْحَبَشَةِ، وَهُمْ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وَامْرَأَتُهُ رُقَيَّةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے 40 سال کی عمر میں جب نبوت کا اعلان فرمایا تو اس کے پانچویں سال حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی اور کافی مسلمانوں نے یہ ہجرت کی،ان ہجرت کرنے والوں میں سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اپنی گھر والی سیدہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت سیدنا عثمان نے بھی فرمائی تھی

(البدایۃ و النہایہ4/165 ترجمہ ملتقطا)

.

11...فَخَرَجَ الْمُسْلِمُونَ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ مَخَافَةَ الْفِتْنَةِ وَفِرَارًا إِلَى اللَّهِ بِدِينِهِمْ، فَكَانَتْ أَوَّلَ هِجْرَةٍ فِي الْإِسْلَامِ، فَخَرَجَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وَزَوْجَتُهُ رُقَيَّةُ ابْنَةُ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مَعَهُ، وَأَبُو حُذَيْفَةَ بْنُ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَمَعَهُ امْرَأَتُهُ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلٍ، وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ، وَغَيْرُهُمْ تَمَامَ عَشَرَةِ رِجَالٍ، وَقِيلَ: أَحَدَ عَشَرَ رَجُلًا وَأَرْبَعُ نِسْوَةٍ، وَكَانَ مَسِيرُهُمْ فِي رَجَبٍ سَنَةَ خَمْسٍ مِنَ النُّبُوَّةِ

ہجرت حبشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے پانچویں سال میں ہوئی اور اس ہجرت میں سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے اور اپ نے اپنی گھر والی سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت فرمائی تھی

(تاریخ ابن الاثیر1/673ترجمہ ملتقطا)

.


@@@@@@@@@@@@@@

 *#دلیل و حوالہ نمبر㊳*

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَيْسَ لِلْوَلِيِّ مَعَ الثَّيِّبِ أَمْرٌ

وہ کم عمر لڑکی کہ جس کا نکاح ہوا پھر اس کے بعد اس کا شوہر وفات پا گیا یا اس کو طلاق ہو گئی تو اس کے بعد اس کا نکاح دوبارہ ہو تو اس وقت ولی کو وارث کو کوئی اختیار نہیں بلکہ وہ اب لڑکی سے رضامندی لے کر ہی اس کی شادی کرائے گا

(ابوداؤد حدیث2100 شرحی انداز کا ترجمہ لکھا ہے)

حدیث پاک کے سیاق و سباق اور مفہوم سے ثابت ہوتا ہے کہ جب کم عمر لڑکی کا نکاح ہو تو والدین سرپرست ولی وارث خوب جانچ پڑتال کر لیں کہ رشتہ مناسب ہے یا نہیں اور پھر وہ کم عمر لڑکی کا نکاح کر سکتے ہیں لیکن جب ایک دفعہ نکاح ہو جائے اور لڑکی کو تمام معاملات پتہ چل جائیں کہ نکاح میں کیا ہوتا ہے، شادی میں کیا ہوتا ہے ، کون اچھا ہے کون برا ہے لیکن اس کے بعد اس کو طلاق ہو جائے یا اس کا شوہر وفات پا جائے تو اب چونکہ عورت خود کافی کچھ سمجھدار ہوچکی ہے تو اب وہ اپنے لیے مناسب رشتہ پسند کرے گی لہذا ولی وارث والدین رشتہ ڈھونڈ کر لائیں گے لیکن حالات سے گزری ہوئی یہ کم عمر لڑکی اگر رضامندی کا اظہار کر دے گی تو ہی نکاح ہوگا 

لیھذا

حالات سے ناواقف کم عمر لڑکی کا بھی نکاح شرائط کے ساتھ جائز ہے اور حالات سے واقف ہو جانے کے بعد کم عمر لڑکی کا نکاح بھی اس کی رضامندی سے ہو سکتا ہے ،دونوں صورتوں میں اس حدیث مبارکہ سے یہ ثابت ہو گیا کہ کم عمری کا نکاح جائز ہے

۔

*#دلیل و حوالہ نمبر㊴ *

الحدیث:

إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ، وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيض

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی شخص تم سے رشتہ مانگے اور تم اس رشتے کے دیندای و اخلاق  سے راضی ہو تو نکاح کر دو، اگر نہ کرو گے تو زمین میں فساد عریض ہوگا، فتنہ ہوگا

(ترمذی حدیث1026)

یہ حدیث مطلق ہے کہ جب اپ کے پاس مناسب رشتہ ا جائے تو بے شک اپ کی بیٹی عمر میں کم ہو یا جتنی بھی عمر ہو بالغ ہو یا نابالغ اگر مناسب رشتہ ا جائے تو نکاح کر دینا چاہیے ہاں البتہ رخصتی کے لیے ضروری ہے کہ کم عمر لڑکی ہمبستری کے قابل ہو تو ہی رخصتی ہو سکتی ہے 

۔

ان لوگوں کو سوچنا چاہیے جو کہتے ہیں کہ ابھی تو بچی ہے ابھی تو اس کے پڑھنے کی عمر ہے اور اس چکر میں کیریئر کے چکر میں اس کی عمر بہت بڑی ہو جاتی ہے اور پھر ائے روز ہم سنتے رہتے ہیں کہ سکول کالج میں فلاں لڑکی سے زیادتی ہو گئی یا فلاں لڑکی پکڑی گئی حالانکہ وہ بچی نہیں ہوتی ، بڑی عمر ہو جاتی ہے مگر والدین لاپرواہی کرتے ہیں حتی کہ بعض اوقات تو اتنی بڑی عمر ہو جاتی ہے کہ رشتے انا بھی بند ہو جاتے ہیں اور تب جا کر سر پیٹتے ہیں کہ ہائے ہم نے کیا کر دیا

۔

لیھذا مناسب عمر میں مناسب رشتہ کر دینا چاہیے اور شادی کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی جاری رکھی جا سکتی ہے ہمیں ایسا تصور معاشرے میں عام کرنا چاہیے کہ نکاح رخصتی کے بعد بھی بیوی مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کر سکتی ہے ، تعلیم جاری رکھ سکتی ہے ،اگر ایسا تصور معاشرے میں عام کیا جائے تو بہت بڑے نقصانات فسادات فتنوں سے نجات مل جائے گی ، لڑکے لڑکیوں کو برائی کی طرف زیادہ توجہ بھی نہ ملے گی اور وہ کسی لڑکے لڑکی کے چکروں میں بھی نہ پڑیں گے اور ڈگریوں کے چکر میں بھی عزت نہ گنوائے گی

۔

*#دلیل و حوالہ نمبر㊵*

وَزَوَّجَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ابْنَتَهُ صَغِيرَةً

(کم عمر لڑکے لڑکی کا نکاح کرایا جا سکتا ہے اس کی دلیل ایک یہ بھی ہے کہ)کئی صحابہ کرام نے اپنی کم عمر بچیوں کا نکاح کرایا

(کتاب الام للشافعی7/163)

۔

*#دلیل و حوالہ نمبر㊶تا54*

1...وأجمعوا أن نكاح الأب ابنته الصغيرة البكر جائز إذا زوَّجها من كفء

(صحابه کرام تابعین مجتہدین ائمہ مفسرین محققین صوفیا علماء معتبرین کا)اجماع و متفقہ فتوی ہے کہ(دلائل شریعہ کی وجہ سے)والد صاحب کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی کم عمر بچی کا نکاح کرے بشرطیکہ وہ رشتے میں کفوء کا خیال رکھے(یعنی تعلیمات و شرائطِ شرع کا لحاظ رکھے)

(الاجماع لابن المنذر ص89)

.

2....وأجمع أهل العلم على أن نكاح الأب جائز على ابنه وابنته الصغيرين

اہل علم (یعنی تمام صحابہ کرام تابعین مجتہدین ائمہ مفسرین محققین صوفیا علمائے معتبرین مفتیان کرام) کا متفقہ فتوی اور اجماع ہے کہ والد کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے کم عمر لڑکے یا کم عمر لڑکی کا نکاح کر سکتا ہے(بشرطیکہ تعلیمات و شرائطِ شرع کا لحاظ رکھے)

(الاقناع فی مسائل الاجماع2/6)

.

3....القرآن:

وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ بِغَیۡرِ  مَا اکۡتَسَبُوۡا فَقَدِ احۡتَمَلُوۡا بُہۡتَانًا وَّ  اِثۡمًا مُّبِیۡنًا

اور وہ لوگ کہ جو مومنین کو اور مومنات کو بغیر جرم کے اذیت پہنچاتے ہیں تو وہ گناہ کماتے ہیں بہتان کماتے ہیں

(سورہ الاحزاب ایت58)

کم عمری کی اذیت بھری رخصتی یا دولہا کے زیادہ عمر ہونے کی وجہ سے کم عمر لڑکی کو نقصان پہنچانے اذیت پہنچانے والی رخصتی ہرگز ہرگز جائز نہیں ہے


4....الحدیث:

لَا يَظْلِمُهُ، وَلَا يُسْلِمُهُ

کوئی مسلمان مرد عورت کسی دوسرے مسلمان مرد عورت پر ظلم نہ کرے اور اسے ظلم کے لیے چھوڑ نہ دے بے یار و مددگار نہ چھوڑ دے

(صحیح بخاری حدیث2442)

حدیث پاک بالکل واضح ہے کہ اتنی کم عمری کی رخصتی ہرگز جائز نہیں کہ جس سے ظلم و اذیت پہنچے اور یہ بھی جائز نہیں کہ کوئی اپنی بچی کو ظلم کے لیے حوالے کر دے، اپنے مفاد کی خاطر، پیسوں کی خاطر ، برادری کی خاطر


5....الحدیث:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ملعون من ضار مؤمنا أو مكر به


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "لعنتی ہے وہ جو کسی مسلمان کو نقصان پہنچائے یا اس سے مکر.و.فریب کرے...(ترمذی حدیث1941)

اتنی کم عمر بچی ہو یا شوہر زیادہ بڑی عمر کا ہو کہ اذیت و نقصان پہنچے گا تو یقینا ایسی رخصتی کی گنجائش نہیں

۔

6....أجمع الْعلمَاء أَنه يجوز للآباء تَزْوِيج الصغار  إلاَّ أَنه لَا يجوز لِأَزْوَاجِهِنَّ الْبناء بِهن إلاَّ إِذا صلحن للْوَطْء واحتملن الرِّجَال، وأحوالهن فِي ذَلِك مُخْتَلف فِي قدر خَلقهنَّ وطاقتهن

(دلائل کی بنیاد پے) علماء کرام کا اجماع ہے کہ والدین کے لیے جائز ہے کہ اپنے کم عمر بچوں بچیوں کا نکاح کرائیں ہاں یہ ضرور ہے کہ نکاح کے بعد کم عمر بیگم سے ہمبستری جائز نہیں بلکہ اس وقت جائز ہوگی کہ جب وہ ہمبستری کی صلاحیت رکھتی ہو، اور اس کے لیے کوئی عمر مقرر نہیں کر سکتے کیونکہ ان کی خلقت میں قد کاٹھ میں طاقت میں کمی بیشی ہوتی ہے (کسی کو ماحول غذا وغیرہ کی وجہ سے جلدی طاقت حاصل ہو جاتی ہے اور کسی کو جلدی حاصل نہیں ہوتی اس لیے شادی کے بعد کم عمر بیوی سے ہمبستری اس وقت جائز ہوگی جب وہ  طاقت رکھتی ہو کہ ہمبستری کے قابل ہو)

(عمدۃ القاری شرح بخاری20/78)

۔ 

7....يَجُوزُ تَزْوِيجُ الصَّغِيرَةِ بِالْكَبِيرِ إِجْمَاعًا۔۔۔۔لَكِنْ لَا يُمَكَّنُ مِنْهَا حَتَّى تَصْلُحَ لِلْوَطْ

کم عمر بچی کا نکاح کرانا جائز ہے اس پر تمام علماء کا اجماع ہے لیکن کم عمر بیوی سے ہمبستری اس وقت جائز ہے جب وہ اس کے لائق ہو۔۔۔۔۔۔اس لیے شادی کرانے والا کم عمر بچی کا نکاح کرا کے فورا حوالے نہ کر دے بلکہ اس وقت حوالے کرے، رخصتی اس وقت کراے کہ جب وہ لائق ہو جائے

(فتح الباری9/124)


8....وَلَيْسَ لَهُ تَسْلِيمُهَا لِلدُّخُولِ بِهَا قَبْلَ إطَاقَةِ الْوَطْءِ وَلَا عِبْرَةَ لِلسِّنِّ

کم عمر بچی کا نکاح کر دیا تو جائز ہے لیکن جسمانی طور پر ہمبستری کے قابل ہو تو اس وقت بیوی حوالے کرے گا رخصتی کرے گا اور اس کے لیے کوئی عمر معتبر نہیں رکھی گئی(کیونکہ عورتیں مختلف احوال کی ہوتی ہیں کوئی کس عمر میں ہمبستری کے قابل ہو جاتی ہے اور کوئی کس عمر میں)

(فتاوی شامی3/66)

.

9....وَاخْتُلِفَ فِي حَدِّ الْمُطِيقَةِ لَهُ وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ غَيْرُ مُقَدَّرٍ بِالسِّنِّ وَإِنَّمَا الْعِبْرَةُ لِلِاحْتِمَالِ وَالْقُدْرَةِ عَلَى الْجِمَاعِ

کم عمر بیوی کب ہمبستری کے قابل ہو جاتی ہے اس کی کوئی حد ہے یا نہیں تو صحیح بات یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی عمر مقرر نہیں بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ وہ جسمانی طور پر ہمبستری کے قابل ہے یا نہیں

(البحر الرائق4/196)

.

10....وَأَكْثَرُ الْمَشَايِخِ عَلَى أَنَّهُ لَا عِبْرَةَ لِلسِّنِّ فِي هَذَا الْبَابِ وَإِنَّمَا الْعِبْرَةُ لِلطَّاقَةِ إنْ كَانَتْ ضَخْمَةً سَمِينَةً تُطِيقُ الرِّجَالَ وَلَا يُخَافُ عَلَيْهَا الْمَرَضُ مِنْ ذَلِكَ؛ كَانَ لِلزَّوْجِ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا،۔۔۔۔۔۔۔۔، وَإِنْ كَانَتْ نَحِيفَةً مَهْزُولَةً لَا تُطِيقُ الْجِمَاعَ وَيُخَافُ عَلَيْهَا الْمَرَضُ لَا يَحِلُّ لِلزَّوْجِ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، وَإِنْ كَبُرَ سِنُّهَا

وَهُوَ الصَّحِيحُ

اکثر اور جمہور علماء مشائخ کا فتوی ہے کہ ہمبستری کے معاملے میں کسی عمر کا اعتبار نہیں بلکہ معتبر یہ ہے کہلڑکی نکاح کے بعد ہمبستری کی طاقت رکھتی ہے یا نہیں۔۔۔۔ اگر جسمانی قد کاٹھ پر وہ طاقتور ہو اور ہمبستری کے لائق ہو تو رخصتی کر سکتے ہیں اور اگر طاقت نہ ہو اس کے بیمار ہونے کا خوف ہو نقصان کا خوف ہو تو بے شک عمر بڑی ہی کیوں نہ ہو جائے پھر بھی اس کے ساتھ جماع نہیں کر سکتے اور یہی فتوی برحق و درست ہے

(فتاوی عالمگیری1/287)

۔ 

11....وَقَالَ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَبُو حَنِيفَةَ حَدُّ ذَلِكَ أَنْ تُطِيقَ الْجِمَاعَ وَيَخْتَلِفُ ذَلِكَ بِاخْتِلَافِهِنَّ وَلَا يُضْبَطُ بِسِنٍّ

 وَهَذَا هُوَ الصَّحِيحُ

امام مالک امام شافعی امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ تعالی نے فرمایا کہ رخصتی کی حد یہ ہے کہ لڑکی کی رخصتی اس وقت کی جائے جب وہ ہمبستری کے لائق ہو اور اس کے لیے کوئی عمر مقرر نہیں کیونکہ عورتوں کے احوال(جسمانی اور ذہنی طور پر)مختلف ہوتے ہیں(کوئی کس عمر میں ہمبستری کے قابل ہو جاتی ہے کوئی کس عمر میں)

(شرح صحیح مسلم للنووی9/206)

۔

12....لِأَنَّ النِّكَاحَ يَتَضَمَّنُ الْمَصَالِحَ وَلَا تَتَوَفَّرُ إلَّا بَيْنَ الْمُتَكَافِئِينَ عَادَةً وَلَا يَتَّفِقُ الْكُفْءُ فِي كُلِّ زَمَانٍ فَأَثْبَتْنَا الْوِلَايَةَ فِي حَالَةِ الصِّغَرِ بِكْرًا كَانَتْ أَوْ ثَيِّبًا إحْرَازًا لِلْكُفْءِ

کم عمر بچی کا نکاح کرانے کی ولی وارث کو اجازت ہے اس کی حکمت یہ ہے کہ نکاح کے بہت سارے مصلحتیں اور فوائد ہوتے ہیں مثلا  کفو یعنی ہم پلا مناسب رشتہ ملنا۔۔۔ تو جیسے ہی کفو مل جائے لیکن لڑکی کی عمر چھوٹی ہو تو نکاح کر دیا جائے تاکہ لڑکا دوسرا رشتہ تلاش نہ کرے تو ایسی حکمتوں کے لیے کم عمر لڑکی کا نکاح جائز ہے( مگر ہمبستری جماع اس وقت جائز ہوگی جب اتنی عمر ہو جائے کہ جماع اور ہمبستری کے لائق ہو جائے)

(البحر الرائق3/127)


13....وَلِأَنَّ الْأَبَ وَافِرُ الشَّفَقَةِ عَلَى وَلَدِهِ يَنْظُرُ لَهُ مَا لَا يَنْظُرُ لِنَفْسِهِ وَالظَّاهِرُ أَنَّهُ لَا يَفْعَلُ ذَلِكَ إلَّا لِتَوْفِيرِ مَقْصُودٍ مِنْ مَقَاصِدِ النِّكَاحِ هُوَ أَنْفَعُ وَأَجْدَى مِنْ كَثِيرٍ مِنْ الْمَالِ مِنْ مُوَافَقَةِ الْأَخْلَاقِ، وَحُسْنِ الصُّحْبَةِ، وَالْمُعَاشَرَةِ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَحْوِ ذَلِكَ مِنْ الْمَعَانِي الْمَقْصُودَةِ بِالنِّكَاحِ فَكَانَ تَصَرُّفُهُ وَالْحَالَةُ هَذِهِ نَظَرًا لِلصَّغِيرِ وَالصَّغِيرَةِ لَا ضَرَرًا بِهِمَا

کم عمر لڑکی کا نکاح کرنے کی اجازت ولی وارث والد صاحب کو اس لیے دی گئی ہے کہ والدین بڑی شفقت والے ہوتے ہیں وہ بہت کچھ ایسا سوچتے ہیں جو بچہ سوچ ہی نہیں سکتا تو وہ ایسے فوائد رشتے میں دیکھتا ہے مثلا حسن اخلاق اچھی صحبت حسن معاشرت اس طرح کی دیگر صفات رشتے میں دیکھتا ہے تو وہ اس رشتے کو جانے نہیں دیتا اور اس کا نکاح اپنی بچی سے کر دیتا ہے تاکہ بچی کا فائدہ ہو اور شوہر کا فائدہ ہو تو یہ نکاح کی اجازت فوائد کے حصول کے لیے ہے لیکن بچی یا شوہر کے نقصان کے لیے نکاح کرنے کی ولایت حاصل نہیں

(بدائع صنائع2/246)


14....حَتَّى لَوْ عُرِفَ مِنْ الْأَبِ سُوءُ الِاخْتِيَارِ لِسَفَهِهِ أَوْ لِطَمَعِهِ لَا يَجُوزُ عَقْدُهُ إجْمَاعًا. اهـ (قَوْلُهُ وَإِنْ عُرِفَ لَا يَصِحُّ النِّكَاحُ)

کم عمری میں نکاح کرنے کی اجازت والد کو اس وقت حاصل ہے کہ جب اس میں شفقت بھرپور ہو اور وہ رشتہ اچھے فوائد کے لیے کرے اور اگر والد معروف ہو کہ وہ لالچی ہے اختیار کا غلط استعمال کر رہا ہے تو اس صورت میں تمام علماء کے مطابق اس کا کم عمری میں نکاح کرنا باطل ہے،جائز نہیں ہے

(فتاوی شامی67 ،3/66)

اس فتوے پر وہ لوگ غور کریں جو پیسوں وغیرہ کی لالچ میں ا کر اپنی چھوٹی بچیوں کا نکاح و رخصتی بڑی عمر کے لوگوں سے کر دیتے ہیں تو یہ نکاح شرعا ہرگز ہرگز درست نہیں

۔

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

New  whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.