Labels

میلاد منانا اور دفن کے بعد اذان دینا بدعت حسنہ ہے تو عید نماز ، اشراق چاشت نماز سے پہلے بدعت حسنہ کہہ کر اذان کیوں نہیں دیتے ہو۔۔۔؟؟ بدعت کسے کہتے ہیں۔۔۔؟؟ اہل سنت جو بظاہر نئے دینی کام کر رہے ہیں وہ بدعت کیوں نہیں۔۔۔؟؟ ہر بدعت حدیث کے مطابق گمراہی ہے تو بدعت حسنہ بھی تو گمراہی ہونی چاہیے۔۔۔؟؟ تفصیلی تحقیقی مدلل جواب اس تحریر میں پڑھیے

*#میلاد منانا اور دفن کے بعد اذان دینا بدعت حسنہ ہے تو عید نماز ،  اشراق چاشت نماز سے پہلے بدعت حسنہ کہہ کر اذان کیوں نہیں دیتے ہو۔۔۔؟؟ بدعت کسے کہتے ہیں۔۔۔؟؟ اہل سنت جو بظاہر نئے دینی کام کر رہے ہیں وہ بدعت کیوں نہیں۔۔۔؟؟ ہر بدعت حدیث کے مطابق گمراہی ہے تو بدعت حسنہ بھی تو گمراہی ہونی چاہیے۔۔۔؟؟ تفصیلی تحقیقی مدلل جواب اس تحریر میں پڑھیے۔۔۔!!*

*#گزارش*

تحریرات سوالات اعتراضات کے جوابات، اہلسنت کے دفاع، معاشرے کی اصلاح و معلومات و تحقیق و تشریح و تصدیق یا تردید وغیرہ کے لیے مجھے وٹسپ کر سکتے ہیں

naya wtsp nmbr

03062524574

میرے نئے وٹسپ نمبر کو وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنائیے تاکہ میں تحریرات وہاں بھیج سکوں،،،سوالات اعتراضات کے جوابات دے سکوں۔۔۔۔دینی خدمات زیادہ سے زیادہ سر انجام دے سکوں

.

میرے واٹسپ چینل کو بھی ضرور فالوو کریں۔۔لنک یہ ہے

https://whatsapp.com/channel/0029Vb5jkhv3bbV8xUTNZI1E

 اور چینل پہ فیس بک پیج پہ بلاگ پیج پہ وقتا فوقتا ضرور ایا کریں جزاکم اللہ خیرا 

۔

علمی تحقیقی اصلاحی سیاسی تحریرات کے لیے اس فیسبک پیج کو فالوو کیجیے،پیج میں سرچ کیجیے،ان شاء اللہ بہت مواد ملے گا...اور اس بلاگ پے بھی کافی مواد اپلوڈ کردیا ہے...لنک یہ ہے:

https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1

https://www.facebook.com/share/17GnVpk9AS/

https://www.facebook.com/share/1FXojoSkQp/

*#اور میلاد جلوس ریلی نعرے جھنڈے لائٹنگ وغیرہ بہت کچھ میلاد کے متعلق اس لنک پے پڑھیے*

https://www.facebook.com/share/p/1CUsvt3omk/

سوال:

علامہ صاحب بد مذہبوں کے ایک اعتراض نے بہت پریشان کر رکھا ہے وہ اعتراض یہ ہے کہ اگر میلاد کی اصل ثابت ہے اس لیے بدعت نہیں بلکہ ثواب کا کام ہے اور اگر دفن کرنے کے بعد اذان دینا بدعت نہیں کیونکہ اس کی اصل ثابت ہے تو پھر عید نماز اشراق چاشت سے پہلے بدعت حسنہ کہہ کر اذان کیوں نہیں دے سکتےکیونکہ اس کی بھی تو اصل ثابت ہے کہ اصل میں اذان تو ثابت ہے تو ہر جگہ اذان کو بدعت حسنہ کہہ کر رائج کیا جائے۔۔جبکہ اذان سے پہلے درود و سلام پڑھتے ہو بدعت حسنہ کہہ کر اور میت کو دفنانے کے بعد اذان پڑھتے ہو بدعت حسنہ کہہ کر تو یہاں پر بدعت حسنہ جاری ہے تو وہاں پر بدعت حسنہ کیوں جاری نہیں۔۔۔اور ساتھ میں یہ بھی بتا دیں کہ بدعت کسے کہتے ہیں اور بدعت حسنہ کس کو کہتے ہیں۔۔۔۔؟؟ حدیث پاک میں تو ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے تو پھر بدعت حسنہ بھی تو گمراہی ہونی چاہیے۔۔۔۔؟؟

۔

*#جواب و تحقیق.......!!*

بدعت حسنہ وہ ہوتی ہے جس کی اصل قران و سنت سے ثابت ہو، جس پر دلائل اور حوالہ جات احادیث مبارکہ سے اور مخالفین کے اقوال سے ہم اس تحریر کے اخر میں لکھیں گے۔۔

۔

*#یہاں دو اہم امور و اصول ذہن میں رہیں*

حدیث پاک میں ہے:

من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء

ترجمہ:

جس نے اسلام میں نیا اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے بعد

جو جو  اس پر عمل کرے گا ان سب کا ثواب اسے ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کمی نا آے گی

(مسلم حدیث نمبر1017...6800)

یہ حدیث پاک ابن ماجہ سنن نسائی وغیرہ بہت کتابوں میں بھی ہے

۔

اصول1۔۔۔کوئی معاملہ ، کوئی عبادت نیکی ، کوئی بھی چیز شریعت کی طرف سے مخصوص ہو جائے تو اب اس کے اندر قیاس کر کے اضافہ بدعت حسنہ کہہ کر نہیں کر سکتے کیونکہ اس صورت میں بدعت حسنہ والی حدیث کا عموم اور اس معاملے کو مخصوص کرنے والی حدیث میں ٹکراؤ ائے گا تو جو معاملات مخصوص اور متعین ہو چکے ہیں ان میں وہی دلائل معتبر کہلائیں گے اور بدعت حسنہ والی حدیث کا عموم اس جگہ پر فٹ نہیں ہوگا

لیھذا

بدعت حسنہ اس جگہ پر فٹ کر سکتے ہیں ، نکال سکتے ہیں جہاں پر کوئی مخصوص معین طریقہ مقرر نہ کیا گیا ہو۔۔۔جیسے فاتحہ ، صدقہ ، دین پہنچانا ، مدد کرنا، خوشی کا اظہار، میلاد وغیرہ کے نئے اور پرانے طریقے سارے جائز ہوں گے بشرطیکہ وہ کسی شرعی اصول کے مخالف نہ ہوں۔۔۔۔کیونکہ ان کے کوئی مخصوص و متعین طریقے شریعت نے مقرر نہیں فرمائے تو لہذا اس میں نئے پرانے طریقے جائز ہوں گے۔۔۔لیکن ان میں یہ ضرور ہوگا کہ نئے طریقے شریعت مطہرہ کے کسی قانون کے خلاف نہ ہوں۔۔۔ مثلا سود بے حیائی فحاشی وغیرہ اگر ان میں شامل ہو جائے تو نئے پرانے طریقے کو ان برائیوں سے پاک رکھنا ضروری ہے

۔

اصول2۔۔۔بدعت حسنہ درحقیقت بدعت ہی نہیں ہوتی اسے تو ظاہر یا لغوی اعتبار سے بدعت کہتے ہیں کیونکہ بدعت حسنہ تو وہ ہوتی ہے جسکی اصل قران سنت حدیث وغیرہ اسلامی اصول میں سے کسی اصول سے ثابت ہو۔۔۔تو جسکی اصل قران و سنت و حدیث سے ثابت ہو اور اسکا طریقہ متعین و مخصوص نہ ہو تو یہ حدیث ثابت کرے گی کہ اس جگہ نئے پرانے طریقے بدعت نہیں کیونکہ ایسے معاملات یعنی جسکے طریقے غیرمخصوص و غیرمتعین ہوں اس کے متعلق حدیث پاک ہے کہ جس نے نئے اچھی بدعت اچھا طریقہ جائز طریقہ نکالا تو اس کے اتنا ثواب ہے کہ جو بھی اس پر عمل کرے گا تو اس عمل کرنے والے کو بھی ثواب ملے گا اور اس کو بھی ثواب ملے گا جس نے نیا طریقہ اچھی بدعت نکالی

۔

کیونکہ

جب مخصوص طریقہ کر دیا گیا ہو تو اس صورت میں بدعت حسنہ والی حدیث یا تو قران سے ٹکرائے گی یا پھر دوسری مضبوط حدیث سے ٹکرائے گی یا پھر اجماع وغیرہ سے ٹکرائے گی اور اجماع بھی قران اور حدیث سے ماخوذ ہوتا ہے اس لیے اس صورت میں بدعت حسنہ والی حدیث کے ذریعے سے کوئی نیا طریقہ اضافہ نہیں کرسکتے

۔

قَالَ الشَّافِعِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ: مَا أُحْدِثَ مِمَّا يُخَالِفُ الْكِتَابَ أَوِ السُّنَّةَ أَوِ الْأَثَرَ أَوِ الْإِجْمَاعَ فَهُوَ ضَلَالَةٌ، وَمَا أُحْدِثَ مِنَ الْخَيْرِ مِمَّا لَا يُخَالِفُ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَلَيْسَ بِمَذْمُومٍ

امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ وہ نیا کام کہ جو قران یا سنت یا صحابی کے قول یا اجماع کے خلاف ہو تو وہ بدعت گمراہی ہے اور جو  اچھا کام نیا نکالا گیا جو مذکورہ شرعی اصولوں کے خلاف نہیں تو وہ مذمت والا کام نہیں (لہذا وہ بری بدعت نہیں بلکہ جائز بدعت کہلائے گی ثواب والی کہلائے گی)

(مرقاۃ شرح مشکواۃ1/224)

۔

ہم نے فالحال مرقاۃ سے ایک حوالہ لکھا ہے ورنہ ایسی بات کئ کتب حتی کہ مخالفین کی کتب میں بھی ایسا ہی لکھا ہے۔۔۔جیسے کے ہم تحریر کے اخر میں تفصیل سے لکھیں گے

۔

*#اعتراض کا جواب*

اب جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ عید نماز سے پہلے اور نماز چاشت سے پہلے یا نماز اشراق سے پہلے بدعت حسنہ کہہ کر اذان کیوں نہیں دیتے ہو۔۔۔۔؟؟ تو اس کا جواب پڑھیے لیکن

پہلے یہ دو حدیثیں پڑھ لیجئے کہ جواب سمجھنے میں اسانی ہوگی

1۔۔۔الحدیث،تلخیصی ترجمہ:

کچھ صحابہ کرام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مہمان بن کر ٹھہرے تاکہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضروری علم حاصل کر کے اپنے علاقے میں وہ نافذ کریں، ان علوم میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ یہ فرض نمازیں ہیں جب ان فرض نمازوں کا وقت ا جائے تو اذان پڑھو

(بخاری حدیث685ملخصا)

۔

2۔۔۔حدیث پاک میں ہے:

من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء

ترجمہ:

جس نے اسلام میں نیا اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے بعد

جو جو  اس پر عمل کرے گا ان سب کا ثواب اسے ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کمی نا آے گی

(مسلم حدیث نمبر1017...6800)

یہ حدیث پاک ابن ماجہ سنن نسائی وغیرہ بہت کتابوں میں بھی ہے

۔


یہاں اعتراض کا جواب بالکل واضح ہو جاتا ہے اور وہ جواب یہ ہے کہ نماز کے معاملے میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام معاملات مخصوص اور معین فرما دیے، مذکورہ بالا حدیث پاک سے یہ ثابت ہو گیا کہ نماز کے معاملے میں اذان فقط اور فقط پنج وقتہ فرض نماز کے لیے دی جا سکتی ہے۔۔۔۔۔نماز کے علاوہ دیگر معاملات میں اذان کا حکم الگ ہے وہ ہم تفصیل سے لکھیں گے دلائل کے ساتھ۔۔

۔

نماز کے معاملے میں بنیادی چیزیں متعین اور مخصوص ہو گئیں اور ان میں سے ایک اذان بھی ہے کہ اذان اگر نماز کے لیے اگر دی جا سکتی ہے تو وہ فقط پنج وقتہ فرض نماز ہے اس کے علاوہ اشراق چاشت عید نماز وغیرہ کے لیے اذان نہیں دی جا سکتی، اگر کوئی اذان دے گا تو بدعت حسنہ نہیں کہلائے گی بلکہ بدعت سیئہ یعنی  بری بدعت کہلائے گی کیونکہ یہ اس حدیث سے ٹکرا رہی ہے جو ہم نے اوپر لکھی کہ نماز کے معاملے میں اذان مخصوص ہے پنج وقتہ فرض نماز کے ساتھ۔۔۔۔

۔

 لہذا ہم عبادت کے ذوق و شوق کو بڑھاتے ہوئے یا پھر ظہر نماز پر قیاس کرتے ہوئے فجر کی نماز کو چار رکعت نہیں کر سکتے۔۔۔ کیوں۔۔۔؟؟ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے معاملات کو مخصوص اور معین کر دیا ہے اس میں بدعت حسنہ والی حدیث نہیں چلے گی، ہاں کوئی واضح صریح دو ٹوک حدیث کسی معاملے کے استثناء کو بیان کر دے تو وہ معاملہ مستثنی ہوگا

۔

جیسے حدیث پاک میں ہے کہ خلفاء راشدین کی سنت کی بھی پیروی کرو تو خلفائے راشدین میں سے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جمعہ کی دوسری اذان کا اضافہ فرمایا،لہذا وہ مستثنی کہلائے گی

۔

جبکہ میلاد اور میت دفنانے کے بعد اذان یا ذکر و اذکار وغیرہ کے متعلق حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے کوئی چیز معین اور مخصوص نہیں فرمائی لہذا وہاں پر یہ حدیث لاگو ہوگی کہ جو ان چیزوں میں اچھا اضافہ کرے گا مثلا صدقہ دینے میں مختلف قسم کے صدقے دے گا نئے پرانے قسم کے صدقے دے گا تو میلاد بھی مختلف طریقوں سے منائے گا ، نئے پرانے طریقوں سے منائے گا جو جائز ہوں، شریعت کے اصول کے تحت بنتے ہوں تو لہذا وہ سب بدعت حسنہ کہلائیں گے کیونکہ اس کی اصل ثابت ہے اور ان کو ان خیر کے معاملات کو رسول کریم نے کسی ایک طریقے سے معین اور مخصوص نہیں کر دیا

.

*#سوال*

اپ نے کہا کہ نماز کے معاملات مخصوص و متعین ہو چکے ہیں ان میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جا سکتی تو ہمیں بتائیے کہ پھر نماز تراویح بدعت حسنہ کیوں ہے کیونکہ وہ بھی تو نماز ہے اور نماز کے معاملات تو مخصوص ہو چکے ہیں 

۔

*#جواب*

جیسا کہ ہم نے کہا کہ نماز کے معاملات مخصوص ہو چکے مگر کسی معاملے میں اگر کوئی استثنائی پہلو ا جائے تو اس استثنائی پہلو کہ جو حدیث یا ایت وغیرہ سے دو ٹوک ثابت ہوتا ہو تو پھر اس دوٹوک استثنائی دلیل کو بنیاد بنا کر ہم نماز کے مخصوص معاملات میں سے کچھ کو مستثنی کر دیں گے جس کے مستثنی کرنے پر دو ٹوک دلیل ا چکی ہو واضح دلیل ا چکی ہو۔۔۔اب دیکھتے ہیں سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح نماز کے متعلق کیا ارشاد فرمایا ہے

الحدیث:

ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج ليلة من جوف الليل فصلى في المسجد وصلى رجال بصلاته،  فاصبح الناس فتحدثوا، فاجتمع اكثر منهم فصلى فصلوا معه، فاصبح الناس فتحدثوا، فكثر اهل المسجد من الليلة الثالثة، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى فصلوا بصلاته، فلما كانت الليلة الرابعة، عجز المسجد عن اهله حتى خرج لصلاة الصبح، فلما قضى الفجر، اقبل على الناس فتشهد، ثم قال: اما بعد، فإنه لم يخف علي مكانكم، ولكني خشيت ان تفترض عليكم فتعجزوا عنه

ترجمہ:

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ (رمضان کی) نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اور وہاں تراویح کی  نماز پڑھی۔ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے۔ صبح ہوئی تو انہوں نے اس کا چرچا کیا۔ چنانچہ دوسری رات میں لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ نماز پڑھی۔ دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا اور تیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ آپ نے (اس رات بھی) نماز پڑھی اور لوگوں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اقتداء کی۔ چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھی۔ (لیکن اس رات آپ برآمد ہی نہیں ہوئے) بلکہ صبح کی نماز کے لیے باہر  تشریف لائے۔ جب نماز پڑھ لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر شہادت کے بعد فرمایا۔ امابعد! تمہارے یہاں جمع ہونے کا مجھے علم تھا، لیکن مجھے خوف اس کا ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے اور پھر تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہو جاؤ

(بخاری حدیث2012باب صلاۃ التراویح)

۔

واضح ہے کہ حدیث پاک میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وجہ سے تراویح نماز موقوف کر دی کہ کہیں امت پر فرض نہ ہو جائے، تو اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر فرض ہو جانے کا خدشہ نہ ہو تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت ہے کہ تراویح نماز پڑھی جائے،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کو جماعت کے ساتھ پڑھنے سے اس لیے رک گئے کہ کہیں امت پر فرض نہ ہو جائے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام کو پابندی سے کریں گے تو وہ فرض ہو جائے گا لیکن کسی چیز کو فرض کرنے کا اختیار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی جانب سے اللہ کی وحی سے یہ اختیار حاصل ہے باقی دیگر امتی لاکھ پابندی کے ساتھ نماز ذکر و اذکار کوئی وظیفہ کریں تو بھی وہ فرض نہیں ہوگا۔۔۔

۔

لہذا صحابہ کرام نے پابندی کے ساتھ تراویح جماعت کے ساتھ پڑھنا شروع کر دی کیونکہ ان کے پڑھنے سے فرض نہیں ہو جاتی، بلکہ سنت موکدہ ہو جائے گی کیونکہ صحابہ کرام کی پیروی کا حکم ہے تو اس لیے سنت موکدہ کا حکم ثابت ہو جائے گا ، لہذا جو شخص عادتا نماز تراویح چھوڑ دے یا ساری مسجدوں میں تراویح چھوڑ دی جائے تو صحابہ کرام کی پیروی نہ کرنے کی وجہ سے ملامت ہوگی،گناہ ہوگا۔۔۔اس لیے ہم سب پر لازم ہے کہ ہم پابندی سے نماز تراویح جماعت کے ساتھ ادا کریں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام خصوصا خلفائے راشدین کی پیروی کرنے کا بھی حکم دیا ہے

۔

الحدیث:

فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ، تَمَسَّكُوا بِهَا

 نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم پر میری سنت لازم ہے اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت لازم ہے، ان سنتوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو

(ابوداؤد حدیث4607)

(ابن ماجہ  حدیث43نحوہ)

(ترمذی حدیث2676نحوہ)

۔

*#اب اذان کے بارے میں کچھ تفصیل ہو جائے۔۔۔تو اذان مختلف معاملات و حالات میں دی جاتی ہے* 

1۔۔بچہ پیدا ہونے کے بعد کے معاملے میں

2۔۔میت دفنانے کے بعد کے معاملے میں

3۔۔مصیبت کی حالت میں جیسے زلزلے وغیرہ 

4۔۔فرائض پنج وقتہ سفر مقیم اور عید نماز اشراق چاشت وغیرہ نمازوں کے معاملے میں

5۔۔اذان سے پہلے درود سلام پڑھنا کی حالت 

اور بھی مختلف احوال و معاملات ہو سکتے ہیں 

۔

 *#بچہ پیدا ہونے کے بعد اذان*

بچہ جب پیدا ہوتا ہے  تو اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے جس کی دلیل یہ حدیث مبارکہ ہے

رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ

صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ اپ نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہما کے کان میں اذان دی

(ابو داؤد حدیث 5105)

اس اصل سے ہم نے ثابت کر لیا کہ ہر بچہ جو پیدا ہو تو اس کے کان میں اذان دینی چاہیے لہذا یہ بری بدعت نہیں

۔

*#فرائض پنج وقتہ سفر مقیم اور عید نماز اشراق چاشت وغیرہ نمازوں کے معاملے میں*

الحدیث،تلخیصی ترجمہ:

کچھ صحابہ کرام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مہمان بن کر ٹھہرے تاکہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضروری علم حاصل کر کے اپنے علاقے میں وہ نافذ کریں، ان علوم میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ یہ فرض نمازیں ہیں جب ان فرض نمازوں کا وقت ا جائے تو اذان پڑھو

(بخاری حدیث685ملخصا)

اس حدیث پاک سے واضح ہو گیا کہ پنج وقتہ نماز کے لیے اذان دی جائے گی باقی نمازوں کے لیے عید نماز کے لیے جنازہ کے لیے اشراق و چاشت کے لیے اذان نہیں دی جائے گی کیونکہ نماز کے معاملے میں اذان پنج وقت نماز کے ساتھ خاص ہے۔۔۔لہذا جب شریعت مطہرہ نے خاص کر دیا تو ہم اس میں اضافہ نہیں کر سکتے۔۔۔جیسا کہ شروع میں تفصیل لکھا ہے

۔

*#میت دفنانے کے بعد اذان*

میت کو دفنانے کے بعد بھی اذان دینی چاہیے، دعا استغفار کرنا چاہیے حتی کہ ہو سکے تو اس کے اس پاس بیٹھ کر تلاوت قران کی جائے تاکہ اسے انسیت حاصل ہو ، اسے راحت حاصل ہو ، اسے حوصلہ ملے اور بھی دیگر بہت فوائد ہیں۔۔۔اس کی اصل یہ دو حدیثیں ہیں 

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ : " اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ، وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ ؛ فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ

 جب میت کو دفنا دیا جاتا تو اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبر مبارک کے قریب ٹھہرتے اور فرماتے کہ اپنے بھائی کے لیے استغفار کی دعا کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرو ، اس وقت اس سے سوال ہو رہے ہوتے ہیں

(ابوداود حدیث3221)

ثابت قدمی کی دعا سے ہم نے اخذ کیا کہ یہ اصل ہے کہ اذان دینا بدعت نہیں کیونکہ اذان دیں گے تو اسے اذان سے بہت کچھ یاد ائے گا اور وہ ثابت قدم رہے گا۔۔۔اب کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ مردہ تو سنتا نہیں تو اس کے لیے یہ حدیث پاک ہے کہ دیکھیے مردہ سنتا ہے

حتى إنه ليسمع قرع نعالهم

حتی کہ مردہ لوگوں کے جوتوں کی ہلکی سی آہٹ تک سنتا ہے...(بخاری حدیث1338)

.

فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا، ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُورٌ وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا ؛

حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ

صحابی فرماتے ہیں کہ جب مجھے دفناؤ تو مجھ پر مٹی ڈال دو پھر میری قبر پر اتنی دیر ٹھہرے رہو کہ جتنی دیر ایک اونٹ ذبح کیا جاتا ہے اور اسے کاٹ کر اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ اتنی دیر تم ٹھہرے رہو گے تو مجھے تمہارے ٹھہرنے سے انسیت حاصل ہوگی

(مسلم روایت321)

یقینا صحابی نے یہ بدعت نہیں نکالی بلکہ صحابی نے رسول کریم کی اوپر والی حدیث سے اخذ کیا کہ مردہ سنتا ہے اس کے لیے دعا کرنے چاہیے اور اس کے لیے ثابت قدمی کے اقدام کرنے چاہیے تو ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگ ٹھہرے رہیں ، مسلمان ٹھہرے رہیں، مردہ قبر میں دیکھتا ہے سنتا ہے تو وہ اپنوں کو دیکھے گا مسلمانوں کو دیکھے گا تو بہت کچھ یاد ہوگا ، بہت کچھ یاد ائے گا ، اپنے اپ کو تنہا محسوس نہ کرے گا اور سوالات کے جوابات دے سکے گا اور اذان اور دعا اور استغفار اور قران کی تلاوت وغیرہ یہ سب معمولات قبر پر کیے جائیں تو بدعت حسنہ ہوں گے کیونکہ ان کی اصل مذکورہ یہ دو دلیل ہیں

۔

*#مصیبت کی حالت میں جیسے زلزلے وغیرہ*

مصیبت کے حالات ہوں جیسے بہت زیادہ بارشیں ہوں یا سیلاب یا زلزلے ا رہے ہوں یا وبائی امراض بڑھ رہے ہوں کہ لوگوں میں خوف و پریشانی ہو رہی ہو تو ان مواقع پہ بھی اذان دینا بری بدعت نہیں بلکہ بدعت حسنہ ہے جس کی اصل یہ حدیث ہے

قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أُذِّنَ فِي قَرْيَةٍ أَمَّنَهَا اللهُ مِنْ عَذَابِهِ ذَلِكَ الْيَوْمَ»

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جہاں پر اذان دی جاتی ہے تو وہاں پر اس دن مصیبت و پریشانی سے اللہ محفوظ فرماتا ہے 

(طبرانی کبیر حدیث 746)

ان مواقع پہ مختلف لوگوں کو چاہیے کہ وہ اذانیں دیں کہ نہ جانے کس کی اذان مقبول ہو جائے اور اس کی برکت سے مصیبت ختم ہو جائے یا مصیبت زیادہ نہ بڑھے یا مصیبت کم ہوتی جائے اور اللہ کی رحمت نازل ہوتی جائے۔۔۔ایک دم سے سب کچھ ختم ہو جائے تو بھی اللہ کی کرم نوازی اور اگر اللہ چاہے تو اہستہ اہستہ ختم ہو سکتا ہے اور دعا اور اذان وسیلوں میں سے ہیں کہ ان وسیلوں سے مصیبتیں پریشانیاں ختم ہوتی ہیں، کم ہوتی ہیں، بڑھتی نہیں ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اذان دے دی دعا کر دی تو اب اللہ پر فرض واجب ہو گیا کہ مصیبت ختم کر دے پریشانیاں ختم کر دے بیماریاں زلزلے بارشیں ختم کر دے سلاب و زلزلے ختم کر دے ، یہ اللہ پر لازم نہیں ہے۔۔۔۔بلکہ اللہ راضی ہو جائے تو کرم فرما دے اور فورا یہ سب کچھ ختم ہو جائے ورنہ جو اس کی رضامندی ویسے ہی ہوگا اور ہم پر لازم ہے کہ ہم وسیلوں کو اپنی کوششوں کو استعمال کریں، دوا کریں ، دعا کریں احتیاط کریں، اذان دیں۔۔۔بیماری پریشانی مصیبت زلزلے وغیرہ کے ظاہری اسباب کو ختم کرنے کی کوشش کریں

۔

*#اذان سے پہلے درود سلام پڑھنا*

اذان سے پہلے درود و سلام پڑھنا اس طرح پڑھنا کہ اذان کا حصہ نہ لگے تو یہ بری بدعت نہیں بلکہ بدعت حسنہ ہے کیونکہ اس کی اصل یہ حدیث پاک ہے

قَالَتْ: كَانَ بَيْتِي مِنْ أَطْوَلِ بَيْتٍ حَوْلَ الْمَسْجِدِ وَكَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ عَلَيْهِ الْفَجْرَ فَيَأْتِي بِسَحَرٍ فَيَجْلِسُ عَلَى الْبَيْتِ يَنْظُرُ إِلَى الْفَجْرِ، فَإِذَا رَآهُ تَمَطَّى، ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَحْمَدُكَ وَأَسْتَعِينُكَ عَلَى قُرَيْشٍ أَنْ يُقِيمُوا دِينَكَ» قَالَتْ: ثُمَّ يُؤَذِّنُ، قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُهُ كَانَ تَرَكَهَا لَيْلَةً وَاحِدَةً تَعْنِي هَذِهِ الْكَلِمَاتِ

یعنی

راویہ کہتی ہیں کہ میرا گھر سب سے بلند تھا سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے گھر کی چھت پے فجر کی اذان سے قبل ہمیشہ یہ دعا پڑھتے تھےاللَّهُمَّ إِنِّي أَحْمَدُكَ وَأَسْتَعِينُكَ عَلَى قُرَيْشٍ أَنْ يُقِيمُوا دِينَكَ پھر اذان دیتے تھے

(سنن أبي داود ,1/143روایت519)

.

اذان سے قبل سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ دعا پڑھنا بہت کم آواز میں نہ تھا بلکہ کچھ نا کچھ آواز سے تھا کہ گھر میں موجود راویہ یہ دعا سنتی تھیں...سیدنا بلال کا آواز سے دعا پڑھنا اذان میں اضافہ و بدعت قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس دعا کو اذان کا حصہ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا کہ بقیہ اذانون سے قبل پڑھنا منقول نہیں....لیھذا کہا جائے گا کہ اذان سے قبل اذان کی طرز کے بغیر اس طرح دعا و درود و سلام پڑھنا جائز و ثواب ہے کہ یوں نہ لگے کہ یہ اذان کا حصہ ہے

.

جب ایک فجر اذان سے پہلے دعا پڑھنا ثابت ہو گیا تو یہ دلیل ہو گئی یہ اصل ہو گئی کہ باقی  اذانوں میں اذان سے پہلے اس طرز پر دعا اور صلاۃ و سلام پڑھ سکتے ہیں کہ اذان کا حصہ نہ لگے۔۔۔جب دعا پڑھ سکتے ہیں تو یہ اصل ہے کہ درود و سلام بھی پڑھ سکتے ہیں 

۔

@@@@@@@@@@@

ہم نے اوپر تمام بحث اس اصول کے تحت کی کہ بدعت اس کو کہتے ہیں کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو اور جس کی اصل ثابت ہو وہ اصل میں بدعت ہے ہی نہیں بلکہ وہ بدعت حسنہ کہلاتی ہے اور بدعت حسنہ درحقیقت بدعت ہی نہیں ہوتی وہ تو ظاہری طور پر بدعت ہوتی ہے اس کی تفصیل درج ذیل ہے

.

*#بدعت کی تحقیق اور تفرقہ کا ایک حل....!!*

سوال:

کیا میلاد فاتحہ شب براءت ،شب معراج، شب قدر کی سالانہ عبادات و شب بیداری ، کونڈے ، سوئم چہلم وغیرہ ایصال ثواب، نماز جنازہ کے بعد دعا اور دفنانے کے بعد اذان اور اذان سے قبل درود و سلام وغیرہ سنت ہیں یا بدعت..؟؟

بدعت کس کو کہتے ہیں...؟؟ حدیث پاک میں تو ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے تو پھر بدعت حسنہ بھی تو گمراہی ہوئی۔۔۔۔؟؟

.

*#جواب و تحقیق*

میلاد فاتحہ سوئم چہلم گیارویں عرس کونڈے ایصال ثواب دعا بعد جنازہ، اذان سے قبل درود، شب براءت ،شب معراج، شب قدر کی سالانہ عبادات و شب بیداری، دفنانے کے بعد اذان دعا تلاوت قران وغیرہ وہ کام جو اہلسنت کرتے ہیں یہ سب مروجہ صورت میں جائز و ثواب ہیں مگر انکی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے، یہ کام مروجہ صورت کے ساتھ سنت نہیں بلکہ جائز و ثواب ہیں... سنت کے علاوہ جائز و ثواب بھی اسلام کی تعلیمات کا حصہ ہیں.. یہ تمام امور شرعا اصلا بدعت و گناہ نہیں..

.

فرقہ واریت یا اختلاف کی ایک بڑی وجہ وہ سوچ ہے جو معاشرے میں پھیلا دی گئ ہے اور مسلسل پھیلائی جا رہی ہے کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اور جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا وہ بدعت ہے... جو کام سنت نہین وہ بدعت ہے کہہ دیا جاتا ہے..لیھذا اذان سے پہلے درود و سلام، دعا بعد نماز جنازہ، میلاد فاتحہ شب بیداری وغیرہ وغیرہ سب بدعت ہیں..پھر یہ بدعت وہ بدعت ایک لمبی لسٹ شروع کردی جاتی ہے

جو امت میں تفرقہ کا کلیدی کردار ادا کرتی ہے.. لیھذا ان مسائل میں اتفاق کیا جائے تو *بہت بڑا #اتحاد* ہوسکتا ہے..

.

حدیث پاک میں ہے کہ:

وما سكت عنه فهو مما عفا عنه

ترجمہ:

جس چیز کے متعلق(قرآن و احادیث میں)خاموشی ہو(مطلب دوٹوک حلال یا دوٹوک حرام نہ کہا گیا ہو تو)وہ معاف ہے، جائز ہے... (ابن ماجہ حدیث3368)

یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد وغیرہ بہت کتابوں میں ہے

.

حدیث پاک میں ہے:

من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء

ترجمہ:

جس نے اسلام میں نیا اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے بعد

جو جو  اس پر عمل کرے گا ان سب کا ثواب اسے ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کمی نا آے گی

(مسلم حدیث نمبر1017...6800)

یہ حدیث پاک ابن ماجہ سنن نسائی وغیرہ بہت کتابوں میں بھی ہے

.

ان دونوں احادیث مبارک سے ثابت ہوتا ہے کہ:

①جو کام سنت نا ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا...لیھذا یہ کہنا کہ فلان کام سنت نہیں اس لیے بدعت ہے، یہ کہنا غلط ہے کیونکہ حدیث پاک کی روشنی سے واضح ہے کہ جو سنت نا ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا... ہاں اگر سنت نا ہو اور جائز بھی نا ہو بلکہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہو تب بدعت و گناہ کہلائے گا

.

②اگر کوئی آپ سے کہے کہ فلاں کام سنت نہیں بدعت ہے تو آپ فورا جواب دیں کہ ٹھیک ہے سنت نہیں تو کیا جائز بھی نہیں...؟؟

.

③بے شک سنت کی عظمت ہے مگر اسی سنت نے ہمیں سکھایا ہے کہ سنت کے علاوہ جائز بھی اہم چیز ہے... لیھذا سنت سنت کی رٹ لگانے کے ساتھ ساتھ جائز جائز کی رٹ لگانا بھی ضروری ہے

.

④ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ عبادت وہ نیک کام جسکا کوئی ایک طریقہ مقرر نا ہو تو اس کے نئے طریقے بدعت نہیں بلکہ اس کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں....ہاں جس کام جس عبادت کے طریقے اسلام نے متعین و مخصوص کر دیے ہیں ان میں نیا طریقہ نکالنا ٹھیک نہیں... جیسے نماز روزے کے نئے طریقے نکالنا ٹھیک نہیں مگر صدقہ خیرات ذکر اذکار درود میلاد فاتحہ ایصال ثواب شب براءت ،شب معراج، شب قدر کی سالانہ عبادات و شب بیداری وغیرہ کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں بشرطیکہ اسلام کے کسی اصول کے خلاف نا ہوں..

.

*#نئے طریقے بدعت نہیں تو #پھر_بدعت_ہے_کیا...؟؟*

دراصل بدعت کی تعریف واضح الفاظ میں کسی آیت کسی حدیث میں نہیں آئی، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا وہ بدعت ہے ہم انہیں کہتے ہیں کہ کسی حدیث میں یہ دکھا دیں کہ بدعت وہ ہے جو کام صحابہ کرام نے نا کیا ہو...؟؟

کچھ لوگ کہتے ہیں جو سنت نہیں وہ بدعت ہے، یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ اوپر احادیث کی زبانی بتایا جا چکا ہے کہ جو کام سنت نا ہو وہ جائز بھی کہلا سکتا ہے، سنت کے بعد جائز بھی ایک قیمتی چیز ہے

.

*پھر آخر بدعت ہے کیا.....؟؟*

آیات تفاسیر احادیث میں غور کرکے بدعت کی تعریف اخذ کی گئ ہے جسے علماء کرام نے جامع انداز میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے کہ:المراد بھا ما احدث ولیس لہ اصل فی الشرع،،ویسمی فی عرف الشرع بدعۃ، وماکان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعۃ فالبدعۃ فی عرف الشرع مذمومۃ بخلاف اللغۃ

ترجمہ:

بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی شریعت میں کوئ اصل نا ہو،،شریعت میں اسی کو بدعت کہا جاتا ہے

اور

جس نئے کام کی اصل ہو کہ اس پر شریعت رہنمائ کرے وہ تو بدعت نہیں، بدعۃ شریعت میں مذموم ہی ہوتی ہے"با خلاف لغت(اور ظاہری بدعت) کے"

(فتح الباری 13/253،اصول الایمان ص126

اصول الرشاد ص64 مرعاۃ،عمدۃ القاری، مجمع بحار الانوار

فتح المبین،وغیرہ بہت کتابوں میں بھی یہی تعریف ہے

جن تین کتابوں کا مکمل حوالہ لکھا ہے وہ اس لیے کہ پہلی کتاب تمام کے ہاں معتبر ہے خاص کر اہل حدیث کے لیے

اور دوسری کتاب وہابیوں کی ہے سعودی عرب کی حکومت نے چھاپی ہے اور تیسری کتاب امام اہلسنت سیدی احمد رضا کے والد صاحب کی کتاب ہے)

.

سیدنا عمر کا فتوی اور جمھور صحابہ کرام کا عدم انکار:

نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ

یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے

(بخاری جلد2 صفحہ707)

یہ فتوی دیگر بہت کتابوں میں بھی ہے

 سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بدعت کو کیا ہی اچھی بدعت کہا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بظاہر کوئی چیز بدعت ہوتی ہے لیکن اس کی اصل شریعت میں ہوتی ہے تو وہ اچھی بدعت کہلاتی ہے اور اس پر جمھور صحابہ کرام علیھم الرضوان نے انکار بھی نہیں کیا تو اکثر صحابہ کرام کے مطابق بدعت اچھی بھی ہوتی ہے... بعض صحابہ کرام سے جو مروی ہے کہ انہوں نے بعض نیک کاموں کو بدعت کہا تو یہ ان کا  غیر مفتی بہ یا مؤول قول کہلائے گا

.

سنی وہابی نجدی شیعہ اہل حدیث وغیرہ تمام کی کتابوں میں "موضوع حدیث" لفظ بولا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں کوئ "حدیث" موضوع نہیں ہوتی ..اسکو فقط ظاہر کے لحاظ سے اور لغت و معنی مجاز کے لحاظ سے "حدیث" کہا جاتا ہے

اسی طرح "اچھی بدعت" حقیقت میں بدعت نہیں اسے فقط ظاہر کے لحاظ سے لغت و مجاز کے لحاظ سے بدعت کہا جاتا ہے... اوپر صحابہ کرام کے فتوے میں جو اچھی بدعت فرمایا گیا وہ بھی حقیقت میں بدعت نہیں...اسے ظاہر و لغت کے لحاظ سے بدعت فرمایا گیا ہے... بدعت کی جو پانچ اقسام بتائی جاتی ہیں وہ بھی دراصل ظاہر و لغت کے لحاظ سے ہیں ورنہ بدعت حسنہ حقیقتا بدعت ہی نہیں، بدعت کی تعریف میں"بخلاف لغت کے" الفاظوں میں اسی چیز کو بیان کیاگیا ہے

.

*#وہابیوں اہلحدیثوں غیرمقلدوں نجدیوں کا امام ابن تیمیہ پہلے اپنا نظریہ  لکھتا ہے اور پھر بطور دلیل یا نقل امام شافعی کے قول کو برقرار رکھتا ہے کہ*

 وَمَا خَالَفَ النُّصُوصَ فَهُوَ بِدْعَةٌ بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِينَ وَمَا لَمْ يُعْلَمْ أَنَّهُ خَالَفَهَا فَقَدْ لَا يُسَمَّى بِدْعَةً قَالَ الشَّافِعِيُّ - رَحِمَهُ اللَّهُ -: الْبِدْعَةُ بِدْعَتَانِ: بِدْعَةٌ خَالَفَتْ كِتَابًا وَسُنَّةً وَإِجْمَاعًا وَأَثَرًا عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَذِهِ بِدْعَةُ ضَلَالَةٍ. وَبِدْعَةٌ لَمْ تُخَالِفْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَهَذِهِ قَدْ تَكُونُ حَسَنَةً لِقَوْلِ عُمَرَ: نِعْمَتْ الْبِدْعَةُ هَذِهِ هَذَا الْكَلَامُ أَوْ نَحْوُهُ رَوَاهُ البيهقي بِإِسْنَادِهِ الصَّحِيحِ فِي الْمَدْخَلِ

جو نص شرعی یعنی( قرآن و حدیث) خلاف ہو وہ بدعت ہے اس پر سب کا اتفاق ہے اور جس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ وہ نص کے خلاف ہے تو اس کو بدعت نہیں کہیں گے... امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک بدعت وہ ہے کہ جو کتاب اللہ اور سنت کے خلاف ہو یا اجماع کے خلاف ہو یا(جمھور) صحابہ کرام کے اقوال کے خلاف ہو تو یہ بدعت گمراہی ہے اور دوسری بدعت وہ ہے کہ جو ان چیزوں کے خلاف نہ ہو تو یہ بدعت حسنہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا عمر نے فرمایا تھا کہ یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے، اس قسم کی بات کو امام بیہقی نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے

( مجموع الفتاوى ابن تيميه20/163)

.

*#کل بدعۃ ضلالۃ(ہر بدعت گمراہی ہے)کی وضاحت انہی ابن تیمیہ وہابی سے سنیے...لکھتا ہے*

عَنْهُ فَيَعُودُ الْحَدِيثُ إلَى أَنْ يُقَالَ: " كُلُّ مَا نُهِيَ عَنْهُ " أَوْ " كُلُّ مَا حُرِّمَ " أَوْ " كُلُّ مَا خَالَفَ نَصَّ النُّبُوَّةِ فَهُوَ ضَلَالَةٌ " وَهَذَا أَوْضَحُ مِنْ أَنْ يَحْتَاجَ إلَى بَيَانٍ بَلْ كُلُّ مَا لَمْ يُشْرَعْ مِنْ الدِّينِ فَهُوَ ضَلَالَةٌ. وَمَا سُمِّيَ " بِدْعَةً " وَثَبَتَ حُسْنُهُ بِأَدِلَّةِ الشَّرْعِ فَأَحَدُ " الْأَمْرَيْنِ " فِيهِ لَازِمٌ: إمَّا أَنْ يُقَالَ: لَيْسَ بِبِدْعَةِ فِي الدِّينِ وَإِنْ كَانَ يُسَمَّى بِدْعَةً مِنْ حَيْثُ اللُّغَةُ. كَمَا قَالَ عُمَرُ: " نِعْمَت الْبِدْعَةُ هَذِهِ " وَإِمَّا أَنْ يُقَالَ: هَذَا عَامٌّ خُصَّتْ مِنْهُ هَذِهِ الصُّورَةُ لِمُعَارِضِ رَاجِحٍ كَمَا يَبْقَى فِيمَا عَدَاهَا عَلَى مُقْتَضَى الْعُمُومِ كَسَائِرِ عمومات الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، وَهَذَا قَدْ قَرَّرْته فِي " اقْتِضَاءِ الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيمِ " وَفِي " قَاعِدَةِ السُّنَّةِ وَالْبِدْعَةِ " وَغَيْرِهِ.

خلاصہ

 ہر بدعت گمراہی ہے تو اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے اور ایسی ہر بدعت گمراہی ہے اور جس کی اصل ثابت ہو وہ بدعت ہی نہیں ہے تو وہ لغت و ظاہر کے اعتبار سے بدعت ہے اور وہ گمراہی نہیں ہے ، وہ بدعت حسنہ ہے... یا پھر یہ کہا جائے گا کہ ہر بدعت گمراہی ہے اس عموم سے بدعت حسنہ مستثنی ہے جیسے کہ قرآن و حدیث کے کئ عموم ہوتے ہیں اور اس سے کچھ چیزیں مستثنی ہوتی ہیں

( مجموع الفتاوى ابن تيميه10/370)

.

*#ابن حزم اور بدعت قولی فعلی بدعت حسنہ*

البدعة: كل ما قيل أو فعل مما ليس له أصل في ما نسب إليه، وهو في الدين كل ما لم يأت [في القرآن ولا] عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، إلا منها ما يؤجر عليه صاحبه ويعذر فيما قصد به الخير، ومنها ما يؤجر عليه صاحبه جملة ويكون حسنا

 بدعت ہر اس قول کو کہتے ہیں ہر اس فعل کو کہتے ہیں کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو... شریعت میں بدعت وہ ہے کہ جس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو... جس کی اصل ثابت ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اس پر اجر دیا جاتا ہے

(رسائل ابن حزم4/410)

.

*#ابن جوزی اور بدعت*

 ومتى أسند المحدث إِلَى أصل مشروع لم يذم

 جس بدعت کی اصل ثابت ہو اس کی مذمت نہیں ہے( وہ تو دراصل بدعت ہے ہی نہیں اسے تو ظاہر اور لغت کے اعتبار سے بدعت کہا جاتا ہے)

(ابن جوزي تلبيس إبليس ص18)

.

*#وہابیوں اہلحدیثوں غیرمقلدوں نجدیوں کا امام شوکانی علامہ ابن حجر کی عبارت لکھتا ہے اور اسکی نفی نہیں کرتا جسکا صاف مطلب ہے کہ یہ عبارت، یہ نظریہ بھی یا یہی نظریہ ٹھیک ہے*

وَالتَّحْقِيقُ أَنَّهَا إنْ كَانَتْ مِمَّا يَنْدَرِجُ تَحْتَ مُسْتَحْسَنٍ فِي الشَّرْعِ فَهِيَ حَسَنَةٌ، وَإِنْ كَانَتْ مِمَّا يَنْدَرِجُ تَحْتَ مُسْتَقْبَحٍ فِي الشَّرْعِ فَهِيَ مُسْتَقْبَحَةٌ، وَإِلَّا فَهِيَ مِنْ قِسْمِ الْمُبَاحِ، وَقَدْ تَنْقَسِمُ إلَى الْأَحْكَامِ الْخَمْسَةِ

 تحقیق یہ ہے کہ جو ظاہر اور لغت کے اعتبار سے بدعت ہو تو اس کی تقسیم کچھ یوں ہوگی کہ اگر وہ شریعت کے کسی اصول کے  تحت اچھی درج ہو سکتی ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ شریعت کے کسی اصول کے تحت بری ہو تو وہ بری بدعت ہے اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہو تو وہ بدعت مباحہ ہے اور بدعت کی پانچ قسمیں بیان کی جاتی ہے

(كتاب نيل الأوطار3/65)

.

*#کل بدعۃ ضلالۃ کا جواب و وضاحت*

فإن قلت: ففي الحديث: "كل بدعة ضلالة "؟ قلت: أراد بدعة لا أصل لها في الإسلام؛ بدليل قوله: "من سنَّ سُنَّةً حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها إلى يوم القيامة

 حدیث میں جو ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے تو اس سے مراد وہ ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو وہ گمراہی ہے (کیونکہ بدعت جس کی اصل ثابت ہو وہ گمراہی نہیں)کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ جس نے نیا اچھا طریقہ جاری کیا تو اسے اجر ملے گا اور عمل کرنے والوں کا اجر بھی ملے گا قیامت تک

(الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري4/331)

.

: شر الأمور محدثاتها: يعني: المحدثات التي ليس لها في الشريعة أصل يشهد لها بالصحة والجواز، وهي المسمّاة بالبدع؛ ولذلك حكم عليها بأن كل بدعة ضلالة. وحقيقة البدعة: ما ابتُدئ وافتُتح من غير أصل شرعي، وهي التي قال فيها - صلى الله عليه وسلم -: من أحدث في أمرنا ما ليس منه فهو ردّ

 تمام نئے امور میں سے گندی چیز بدعت ہے... نئے امور جو برے ہیں ان سے مراد وہ ہیں کہ جن کی اصل شریعت میں ثابت نہ ہو اسی کو بدعت کہتے ہیں اور اسی لئے کہتے ہیں کہ ہر بدعت گمراہی ہے یہی بدعت کی حقیقت ہے حدیث پاک میں ہے کہ جو ہمارے دین میں نئی چیز پیدا کرے تو وہ مردود ہے تو اس سے مراد بھی یہی بدعت ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو

(القرطبی..المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم2/508)

.

*#بدعت کی تعریف و تنقیح پے مزید کچھ حوالے*

، ومتى استند المحدث إلى أصل مشروع لم يذم...متى تكون البدعة حسنة؟فالبدعة الحسنة متفق على جواز فعلها والاستحباب لها رجاء الثواب لمن حسنت نيته فيها، وهي كل مبتدع موافق لقواعد الشريعة غير مخالف لشيء

 ہر وہ نیا کام کہ جس کی اصل ثابت ہو تو اس کی مذمت نہیں ہے... بدعت کب حسنہ ہو جاتی ہے کہ اس پر عمل جائز ہو جائے اور ثواب کی امید ہو تو بظاہر جو بدعت ہو وہ اگر شرعی قواعد کے موافق ہو تو بدعت حسنہ ہے

(حقيقه السنة والبدعة للسيوطي ص92)

.

ما ليس له أصلٌ في الشرع، وإنما الحامل عليه مجرد الشهوة أو الإرادة، فهذا باطلٌ قطعًا، بخلاف محدَثٍ له أصلٌ في الشرع إما بحمل النظير على النظير، أو بغير ذلك؛ فإنه حسنٌ....فالحاصل: أن البدعة منقسمةٌ إلى الأحكام الخمسة؛ لأنها إذا عرضت على القواعد الشرعية. . لم تخل عن واحدٍ من تلك الأحكام

 ہر وہ بدعت کہ جس کی شریعت میں اصل ثابت نہ ہو بلکہ اس پر عمل کرنے کے لیے خواہش نفس ہی ہو تو یہ قطعاً باطل بدعت ہے اور وہ نیا کام کہ جو بظاہر بدعت ہو لیکن اس کی شریعت میں اصل موجود ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے... الحاصل بدعت کی پانچ قسمیں ہیں کیونکہ بدعت کو قواعد شریعت پر پرکھا جائے گا تو پانچ قسمیں بنیں گی

(الفتح المبين بشرح الأربعين لابن حجر الہیثمی ص476)

.

أَنَّ الْبِدْعَةَ الْمَذْمُومَةَ مَا لَيْسَ لَهَا أَصْلٌ مِنَ الشَّرِيعَةِ يُرْجَعُ إِلَيْهِ، وَهِيَ الْبِدْعَةُ فِي إِطْلَاقِ الشَّرْعِ، وَأَمَّا الْبِدْعَةُ الْمَحْمُودَةُ فَمَا وَافَقَ السُّنَّةَ، يَعْنِي: مَا كَانَ لَهَا أَصْلٌ مِنَ السُّنَّةِ يُرْجَعُ إِلَيْهِ، وَإِنَّمَا هِيَ بِدْعَةٌ لُغَةً لَا شَرْعًا

 شریعت میں جو بدعت کی مذمت ہے تو اس سے مراد وہ بدعت ہے کہ جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو اور وہ نیا کام کے جو بظاہر بدعت ہو لیکن وہ اچھا ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے جس کی سنت سے اصل ثابت ہو.... بدعت حسنہ دراصل بدعت ہی نہیں اسے لغوی اعتبار سے،(ظاہری اعتبار سے)بدعت کہا جاتا ہے شرعی اعتبار سے وہ بدعت نہیں ہے

(كتاب جامع العلوم والحكم ت الأرنؤوط2/131)

.

وَمَا كَانَ مِنْ بِدْعَةٍ لَا تُخَالِفُ أَصْلَ الشَّرِيعَةِ وَالسُّنَّةِ فَتِلْكَ نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ

 وہ بدعت کے جو شریعت کے اصولوں کے خلاف نہ ہو تو وہ کیا ہی اچھی بدعت ہے

(كتاب الاستذكار لابن عبد البر 2/67)

.

) فالبَدْعَةُ بِدْعَتَانِ: بِدْعَةُ هُدَى، وبِدْعَةُ ضَلاَلَةٍ، وبِدْعَةُ الضَّلاَلةِ كُلُّ مَا ابْتُدِعَ على غَيْرِ سُنَّةِ

 بدعت کی دو قسمیں ہیں نمبر1 ہدایت والی بدعت ، نمبر2 گمراہی والی بدعت، گمراہی والی بدعت وہ ہے کہ جو سنت کے خلاف ہو

(كتاب تفسير الموطأ للقنازعي1/87)

.

وَصَفَهَا بِنِعْمَتْ لِأَنَّ أَصْلَ مَا فَعَلَهُ سُنَّةً

 جس کی اصل سنت سے ثابت ہو تو وہ کیا ہی اچھی بدعت ہے

(شرح الزرقاني على الموطأ1/418)

.

وَإِنْ لَمْ تُوجَدْ فِي الزمان الأول، فأصولها موجودة

 بدعت حسنہ کے مروجہ طریقے کہ جو بظاہر پہلے کے زمانے میں نہ تھے لیکن اس کے اصول موجود تھے تو اس لیے یہ اچھی بدعت ہیں

(الاعتصام للشاطبي ت الشقير والحميد والصيني1/48)

.


الْبِدْعَة مَا لَيْسَ بمكروه فتسمى بِدعَة مُبَاحَة وَهُوَ مَا يشْهد لحسنه أصل الشَّرْع

 ظاہر اور لغت کے اعتبار سے جو بدعت ہو لیکن وہ مکروہ نہ ہو تو اس کو بدعت مباحہ کہتے ہیں اور یہ وہ ہے کہ جس کی اصل شریعت سے ثابت ہو

(الصنعاني ،ثمرات النظر في علم الأثر ص46)

.

، وإلا فقد عرفت أن من البدع ما هو واجب....، أو مندوب

 ورنہ آپ جانتے ہیں کہ بدعت کی ایک قسم واجب بھی ہوتی ہے اور ایک قسم اچھی بھی ہوتی ہے

(عبدالحق محدث دہلوی، لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح1/507)

.

*#بدعت کی تعریف تصوف کی کتب سے*

وَعَنْ زَيْنِ الْعَرَبِ الْبِدْعَةُ مَا أُحْدِثَ عَلَى غَيْرِ قِيَاسِ أَصْلٍ مِنْ أُصُولِ الدِّينِ.وَعَنْ الْهَرَوِيِّ الْبِدْعَةُ الرَّأْيُ الَّذِي لَمْ يَكُنْ لَهُ مِنْ الْكِتَابِ وَلَا مِنْ السُّنَّةِ سَنَدٌ ظَاهِرٌ أَوْ خَفِيٌّ مُسْتَنْبَطٌ وَقِيلَ عَنْ الْفِقْهِيَّةِ الْبِدْعَةُ الْمَمْنُوعَةُ مَا يَكُونُ مُخَالِفًا لِسُنَّةٍ أَوْ لِحِكْمَةِ مَشْرُوعِيَّةِ سُنَّةٍ فَالْبِدْعَةُ الْحَسَنَةُ لَا بُدَّ أَنْ تَكُونَ عَلَى أَصْلٍ وَسَنَدٍ ظَاهِرٍ أَوْ خَفِيٍّ أَوْ مُسْتَنْبَطٍ

 خلاصہ

 امام زین العرب فرماتے ہیں کہ حقیقتا شرعا بدعت اس کو کہتے ہیں کہ جو اصول دین کے قیاس سے ثابت نہ ہو، امام ھروی فرماتے ہیں کہ شرعا بدعت وہ ہے کہ جس کی قرآن اور سنت سے اصل ظاہر نہ ہو یا جسکی خفی اصل ثابت نہ ہو یا جسکی مستنبط اصل نہ ہو تو وہ شرعا بدعت ہے برائی ہے وگرنہ جسکی اصل ظاہر یا اصل خفی یا اصل مستنبط موجود ہو وہ بدعت حسنہ ہے

( بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشريعة نبوية في سيرة أحمدية1/87)

.

فكم من محدث حسن كما قيل في إقامة الجماعات في التراويح إنها من محدثات عمر رضي الله عنه وأنها بدعة حسنة إنما البدعة المذمومة ما يصادم السنة القديمة أو يكاد يفضي إلى تغييرها

 کئ ایسے نئے امور ہوتے ہیں کہ جو بدعت حسنہ کہلاتے ہیں جیسے کہ تراویح کی (مستقل)جماعت کروانا یہ سیدنا عمر کی بدعات حسنہ میں سے ہے ... حقیقی بدعت تو وہ ہے یا بدعت مذمومہ تو وہ ہے کہ جو سنت قدیمہ کے خلاف ہو یا سنت کو تغیر کرنے والی ہو

(الغزالي ,إحياء علوم الدين ,1/276)


.

*#بدعت کے متعلق فقہ سے ایک ایک حوالہ بطور تبرک...!!*

لَكِنْ قَدْ يَكُونُ بَعْضُهَا غَيْرَ مَكْرُوهٍ فَيُسَمَّى بِدْعَةً مُبَاحَةً وَهُوَ مَا شَهِدَ لِجِنْسِهِ أَصْلٌ فِي الشَّرْعِ

 جو کام بظاہر بدعت ہو لیکن وہ مکروہ نہیں ہوتے تو اس کو بدعت مباحہ کہتے ہیں وہ وہ ہے کہ جس کی اصل شریعت میں ثابت ہو

(فقه حنفي البحر الرائق 3/258)


.

البدعة منقسمة إلى واجبة ومحرمة ومندوبة ومكروهة ومباحة, قال: والطريق في ذلك أن تعرض البدعة على قواعد الشريعة, فإن دخلت في قواعد الإيجاب .. فهي واجبة أو في قواعد التحريم .. فمحرمة, أو المندوب .. فمندوبة, أو المكروه .. فمكروهة, أو المباح .. فمباحة

 بدعت کی درج ذیل قسمیں ہے واجب مکروہ حرام مستحب مباح.... اس کی صورت یہ ہے کہ بدعت کو شریعت کے قواعد پر پرکھا جائے گا اگر وہ واجب کے قواعد میں ہو تو بدعت واجبہ ہے اگر وہ حرام کے قواعد میں ہو تو بدعت حرام ہے اور اگر وہ مستحب کے زمرے میں آتی ہوں تو بدعت مستحب ہے اور اگر وہ مکروہ کے تحت آتی ہو تو مکروہ ھے ورنہ مباح ہے

(فقہ شافعی النجم الوهاج في شرح المنهاج10/323)

(فقہ حنفی رد المحتار,1/560 نحوہ)



.

أحدث في الإسلام مما لا أصل له لا في الكتاب ولا في السنة

 شریعت کی رو سے بدعت وہ ہے کہ جس کی کوئی اصل ثابت نہ ہو قرآن سے اور نہ ہی سنت سے(جس کی اصل ثابت ہو وہ تو بدعت ہی نہیں وہ تو اچھی بدعت و ثواب ہے)

(فقہ حنبلی شرح زاد المستقنع - الشنقيطي - التفريغ210/8)

.

تَقَدَّمَ ذِكْرُ أَصْلِ فِعْلِهَا وَمَا كَانَ كَذَلِكَ فَلَا يَكُونُ بِدْعَةً...أَنَّ الْبِدَعَ قَدْ قَسَّمَهَا الْعُلَمَاءُ عَلَى خَمْسَةِ أَقْسَامٍ:بِدْعَةٌ وَاجِبَةٌ الْبِدْعَةُ الثَّانِيَةُ: بِدْعَةٌ مُسْتَحَبَّةٌ الْبِدْعَةُ الثَّالِثَةُ: وَهِيَ الْمُبَاحَةُ الْبِدْعَةُ الرَّابِعَةُ:وَهِيَ الْمَكْرُوهَةُ الْبِدْعَةُ الْخَامِسَةُ: وَهِيَ الْمُحَرَّمَةُ

 اس کی اصل ثابت ہے تو یہ بدعت نہیں... بے شک بدعت کی علماء نے پانچ قسمیں بنائی ہے بدعت واجب بدعت مستحب بدعت مباح بدعت مکروہ بدعت حرام

(فقہ مالکی المدخل لابن الحاج..290...2/257)

.

*#الحاصل*

خلاصہ یہ ہے کہ

①سنت کے علاوہ جائز بھی اسلام کا ایک اہم ستون ہے... جائز کو بھلانا گمراہی و تفرقہ کا باعث ہے

②ہر نئ چیز شرعا مذموم بدعت نہیں ہوتی...جو سنت نا ہو وہ بدعت نہیں بلکہ جائز کہلائے گی بشرطیکہ کہ اسلامی اصول کے خلاف نا ہو...بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی اصل موجود نہ ہو

③میلاد فاتحہ اذان سے پہلے درود، دعا بعد نماز جنازہ، دفنانے کے بعد اذان، سوئم چہلم گیارویں عرس کونڈے ایصال ثواب ، شب براءت ،شب معراج، شب قدر کی سالانہ عبادات و شب بیداری وغیرہ جو کام اہلسنت کرتے ہیں وہ برائی و بدعت نہیں کیونکہ انکی اصل قرآن و سنت میں موجود ہے... ذرا غور کیجیے گا کہ مذکورہ کام جس طریقے سے آج کیے جاتے ہیں بالکل اسی طریقے سے پہلے نہیں کیے جاتے تھے مگر ان امور کی اصل قرآن وسنت مین موجود ہے لیھذا یہ موجودہ مروجہ طریقوں کے ساتھ مذکوہ کام سنت نہیں بلکہ جائز و ثواب ضرور ہیں کیونکہ انکی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے......!!

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

New whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.