Labels

تفضیلیوں کو سمجھاؤ ورنہ بائیکاٹ کرو، جو سیدنا علی کو افضل قرار دے اسکی سزا سیدنا علی نےمقرر فرمائی..

 *سیدنا علی وغیرہ کے فرمان کے مطابق جو سیدنا علی کو سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر پر فضیلت دیگا اس جھوٹے مفتری بدعتی کو سمجھایا جائے گا، عوام انکا بائیکاٹ کرے گی اور بادشاہ اسلام اسےتعزیری سزا 80کوڑے وغیرہ مفید سزا دیے سکتا ہے......!!*

سوال:

علامہ صاحب شیعہ حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ جو کہا جاتا ہے کہ سیدنا علی نے فرمایا کہ مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دیگا اسے کوڑے ماروں گا، شیعہ کہتے ہیں کہ یہ روایت جھوٹی ہے، خود اہلسنت کتب میں لکھا ہے کہ یہ ثابت نہیں....اسکا تحقیقی تفصیلی مدلل جواب لکھ بھیجیے

.

*جواب.و.تحقیق......!!*

 پہلے پہل تو ہم نے سمجھا کہ یہ کسی شیعہ کا ہوائی فائر ہے لیکن جب شیعہ کتب میں دیکھا تو شیعہ محقق مجلسی اس روایت کے متعلق لکھتا ہے

 إنما روى هذا الحديث سويد بن غفلة وقد أجمع أهل الآثار على أنه كان كثير الغلط...

 سیدنا علی کے فرمان کو سوید بن غفلہ نے روایت کیا ہے اور اہل اثار کا اتفاق ہے کہ سوید بن غفلہ بہت زیادہ غلطیاں کرتا تھا(یعنی یہ مردود غیر ثقہ راوی ہے)

(شیعہ کتاب بحار الانوار10/377)

.

*ہم اہلسنت کا جواب*

 شیعوں. کی مکاری اور دھوکہ دہی ہے... کیونکہ شیعہ محققین کے مطابق بھی سوید بن غفلہ ثقہ معتبر راوی ہے

.

- سويد بن غفلة " عفلة ": من أصحاب علي بل من أولياءه كما قاله المفيد والبرقي - ومن أصحاب الحسن روى في تفسير القمي " فهو ثقة

 سوید بن غفلہ سیدنا علی کے اولیاء اصحاب  میں سے ہے اور شیخ قمی نے فرمایا ہے کہ یہ ثقہ معتبر راوی ہے

(شیعہ کتاب المفيد من معجم رجال الحديث - محمد الجواهري ص272)

.

شیعہ شیخ محقق میلانی کہتا ہے

لا أوتين بأحد يفضلني على أبي بكر وعمر إلا جلدته حد المفتري .... فقد وضعوا على الإمام أمير المؤمنين عليه السلام أشياء في حق الأصحاب وفي خصوص الشيخين، منها هذا الكلام الذي استند إليه ابن تيمية في غير موضع من (منهاج السنة) من غير سند ولا نقل عن كتاب معتبر عندهم

 میلانی کہتا ہے کہ وہ جو  روایت ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دے گا اسے میں جھوٹے بہتان والی سزا یعنی 80 کوڑے ماروں گا تو یہ امیر المومنین حضرت علی پر جھوٹ باندھا گیا ہے... ابن تیمیہ نے اس روایت کو بغیر کسی سند کے بغیر کسی معتبر عند اہل السنۃ حوالے کے لکھا ہے

(شیعہ کتاب نفحات الأزهار 2/366)

 

.

*ہم اہلسنت کا جواب.....!!*

 دعویٰ تو یہ کر رہے ہیں کہ اہل سنت نے جھوٹی من گھڑت روایت لکھی  ہے لیکن دلیل میں صرف ابن تیمیہ کا حوالہ،ابن تیمیہ تو معتبر اہلسنت ہی نہیں، اہلسنت کی کتب دیکھی ہوتی ٹٹولی ہوتیں تو پتہ چل جاتا کہ یہ روایت اہلسنت کتب میں سند کے ساتھ اور حوالے کے ساتھ لکھی ہوئی ہے... خیر تم نے حوالہ ابن تیمیہ کا مانگا ہے تو ابن تیمیہ مذکورہ روایات لکھنے کے بعد انکا حوالہ دینے کے لیے لکھتا ہے

رواهما عبد الله بن أحمد وروى ذلك ابن بطة اللالكائي من حديث سويد بن غفلة عن علي في خطبة طويلة خطبها.

وروى الإمام أحمد بإسناد صحيح عن ابن أبي ليلى

 حضرت علی نے جو فرمایا ہے کہ مجھے ابوبکر اور عمر پر جو فضیلت دے گا اسے 80 کوڑے ماروں گا اس روایت کو امام احمد بن حنبل کے بیٹے عبد اللہ نے روایت کیا ہے اور اللالكائي نے روایت کیا ہے سوید بن غفلہ سے اور سیدنا عمر سے بھی مروی ہے

(الصارم المسلول ابن تيميه ص585)

 دیکھا ابن تیمیہ اس روایت کا حوالہ فضائل صحابہ امام احمد بن حنبل کے بیٹے کی کتاب کا دے رہا ہے اور ابن بطة اللالكائي کی کتاب کا حوالہ دے رہا ہے اور ان دونوں کتابوں میں اس کی سند موجود ہے... لہذا یہ جھوٹ بھی شیعہ کا نہ چلا

.

*روایت کی تحقیق نیچے بعد میں کریں گے سب سے پہلے یہ عرض کرتے چلیں کہ جو رافضی تفضیلی سیدنا ابوبکر اور عمر پر سیدنا علی کو فضیلت دے گا وہ بدعتی ہے گمراہ بدمذہب ہے اسے سزا دی جائے اس کا بائیکاٹ کیا جائے گا اسے سمجھایا جائے گا...کچھ دلائل و حوالے درج زیل ہیں......!!*

جو رافضی تفضیلی سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ پر سیدنا علی کو فضیلت دے وہ بدعتی بدمذہب گمراہ ہے......!!

وَمُبْتَدِعٌ إنْ فَضَّلَ عَلِيًّا عَلَيْهِمَا

 اگر رافضی تفضیلی سیدنا علی کو سیدنا ابوبکر صدیق و عمر پر فضیلت دے گا تو وہ بدعتی گمراہ بدمذہب کہلائے گا

(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر1/667)

.

وَإِنْ فَضَّلَ عَلِيًّا عَلَيْهِمَا فَمُبْتَدِعٌ

اگر رافضی تفضیلی سیدنا علی کو سیدنا ابوبکر صدیق و عمر پر فضیلت دے گا تو وہ بدعتی گمراہ بدمذہب کہلائے گا

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري5/136)

.

يُفَضِّلُ عَلِيًّا كَرَّمَ اللَّهُ تَعَالَى وَجْهَهُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ - لَا يَكُونُ كَافِرًا إلَّا أَنَّهُ مُبْتَدِعٌ

اگر رافضی تفضیلی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ پر فضیلت دیتا ہو تو وہ کافر نہیں ہے مگر بدعتی گمراہ بدمذہب ہے

(فتاوی عالمگری...الفتاوى الهندية ,2/264)

.

حضرت امیر المومنین سیدنا مولٰی علی کرم ﷲ وجہہ الکریم کو حضرت شیخین رضی ﷲ تعالٰی عنہما سے افضل بتانا رفض و بد مذہبی ہے(فتاوی رضویہ6/442)

.

*بدعتی کا حکم ہے کہ سمجھایا جائے، تعزیری تادیبی سزا بادشاہ اسلام دے اور بائیکاٹ کیا جائے.....!!*

الْقُهُسْتَانِيُّ وَلَا تُوضَعُ عَلَى الْمُبْتَدِعِ، وَلَا يُسْتَرَقُّ وَإِنْ كَانَ كَافِرًا لَكِنْ يُبَاحُ قَتْلُهُ إذَا أَظْهَرَ بِدْعَتَهُ، وَلَمْ يَرْجِعْ عَنْ ذَلِكَ وَتُقْبَلُ تَوْبَتُهُ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تُقْبَلُ تَوْبَةُ الْإِبَاحِيَّةِ وَالشِّيعَةِ وَالْقَرَامِطَةِ وَالزَّنَادِقَةِ مِنْ الْفَلَاسِفَةِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إنْ تَابَ الْمُبْتَدِعُ قَبْلَ الْأَخْذِ وَالْإِظْهَارِ، تُقْبَلُ وَإِنْ تَابَ بَعْدَهُمَا لَا تُقْبَلُ

 بدعتی فساد پھیلائے اگر اسے سزا کے لیے پکڑنے سے پہلے وہ توبہ کرلے تو بعض نے فرمایا سزا معاف ہے بعض نے فرمایا نہیں... بدعتی کو سمجھایا جائے گا اس پر جزیہ وغیرہ نہ رکھا جائے گا اور اسے غلام نہ بنایا جائے گا

(حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي4/199)

.

فِيهِ زَجْرٌ وَتَأْدِيبٌ وَلَوْ بِالْقَتْلِ، كَمَا قَالُوا فِي اللُّوطِيِّ وَالسَّارِقِ وَالْخَنَّاقِ إذَا تَكَرَّرَ مِنْهُمْ ذَلِكَ حَلَّ قَتْلُهُمْ سِيَاسَةً وَكَمَا مَرَّ فِي الْمُبْتَدِعِ

 بدعتی اگر بار بار فساد پھیلائے تو بادشاہ اسلام کے لیے سیاستاً اس کا قتل کرنا جائز ہے ورنہ اسے سمجھایا جائے گا اسے ڈانٹا جائے گا

(كتاب حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي4/15)

.

يَجِبُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ مِنْ أُولِي الأَْمْرِ وَغَيْرِهِمْ أَنْ يَأْمُرُوا أَهْل الْبِدَعِ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَيَحُضُّوهُمْ عَلَى اتِّبَاعِ السُّنَّةِ وَالإِْقْلاَعِ عَنِ الْبِدْعَةِ وَالْبُعْدِ عَنْهَا. لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}........الْمَنْعُ بِالْقَهْرِ، مِثْل كَسْرِ الْمَلاَهِي وَتَمْزِيقِ الأَْوْرَاقِ وَفَضِّ الْمَجَالِسِ.التَّخْوِيفُ وَالتَّهْدِيدُ بِالضَّرْبِ الَّذِي يَصِل إِلَى التَّعْزِيرِ، وَهَذِهِ الْمَرْتَبَةُ لاَ تَنْبَغِي إِلاَّ لِلإِْمَامِ أَوْ بِإِذْنِهِ؛ لِئَلاَّ يَتَرَتَّبَ عَلَيْهَا ضَرَرٌ أَكْبَرُ مِنْهَا

 بدعتیوں کو سمجھایا جائے گا برائی سے روکا جائے گا بدعتوں سے روکا جائے گا جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ تم میں سے ایک قوم ہو کہ جو بھلائی کی طرف بلائے اور برائی سے روکے.. اور اس کے علاوہ زبردستی روکنا ان کو ڈانٹنا ان کو سزا دینا امام وقت بادشاہ وقت یا اسکے نائب(علماء اہلسنت میں سے اکابرین) کے حکم سے جائز ہے... ہر آدمی کو اجازت نہیں تاکہ فساد نہ پھیلے

(موسوعہ فقہیہ کوئیتیہ8/40)

.

لِأَنَّهُ الَّذِي يُقِيمُ الْحُدُودَ فِي الْعَادَةِ

عموما سزائیں دینا عام طور پر قاضی کا ہی کام ہے(کچھ استثنائی صورتوں میں عام ادمی بھی سزا دے سکتا ہے)

 (رد المحتار ,6/140)

.

*سمجھانے ورنہ بائیکاٹ کرنے کا حکم.......!!*

بدمذہب گمراہ یا کافر مرتد زندیق  کی صحبت یاری دوستی میل جول کھانا پینا اکھٹے کرنا انکی مجلس محفل میں شرکت کرنا سب جائز نہیں...ان  سے انکی محفلوں مجلسوں سے دور رہنا لازم ہے، بائیکاٹ کرنا لازم ہے...سمجھانے کے ساتھ ساتھ مجرموں گستاخوں بدمذہبوں سے سلام دعا کلام ، کھانا پانی ، میل جول ، شادی بیاہ نماز وغیرہ میں شرکت نہ کرنے، انکی مذمت کرنے کرتوت بیان کرنے بائیکاٹ کرنے کے دلائل یہ ہیں

القرآن:

فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ  الذِّکۡرٰی  مَعَ الۡقَوۡمِ  الظّٰلِمِیۡنَ

یاد آجانے(دلائل آجانے)کے بعد تم ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھو(نہ میل جول کرو، نہ انکی محفل مجلس میں جاؤ، نہ کھاؤ پیو، نہ شادی بیاہ دوستی یاری کرو)

(سورہ انعام آیت68)

.

الحدیث:

[ ایاکم و ایاھم لا یضلونکم و لا یفتنونکم ]

’’گمراہوں،گستاخوں، بدمذہبوں سے دور بھاگو ، انہیں اپنے سے دور کرو(سمجھانے کے ساتھ ساتھ قطع تعلق و بائیکاٹ کرو کہ) کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں‘‘(صحیح مسلم1/12)

.

ایک امام نےقبلہ کی طرف تھوکا،رسول کریمﷺنےفرمایا:

لایصلی لکم

ترجمہ:

وہ تمھیں نماز نہیں پڑھا سکتا

(ابوداؤد حدیث481، صحیح ابن حبان حدیث1636,

مسند احمد حدیث16610 شیعہ کتاب احقاق الحق ص381)

.

الحدیث:

فَلَا تُجَالِسُوهُمْ، وَلَا تُؤَاكِلُوهُمْ، وَلَا تُشَارِبُوهُمْ، وَلَا تُنَاكِحُوهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا مَعَهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا عَلَيْهِمْ

ترجمہ:

بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ میل جول نہ رکھو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان سے شادی بیاہ نہ کرو، ان کے معیت میں(انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو

(السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/483حدیث769)

.

الحدیث:

فلا تناكحوهم ولا تؤاكلوهم ولا تشاربوهم ولا تصلوا معهم ولا تصلوا عليهم

ترجمہ:

بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ شادی بیاہ نہ کرو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان کے معیت میں (انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو

(جامع الأحاديث ,7/431حدیث6621)

.

صدر الشریعہ خلیفہ اعلی حضرت سیدی مفتی امجد علی اعظمی فرماتے ہیں:

اس وقت جو کچھ ہم کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے مُقاطَعہ(بائیکاٹ) کیاجائے اور ان سے میل جول نشست وبرخاست وغیرہ ترک کریں.(بہار شریعت جلد1 حصہ9 ص60)

.

چند اوراق بعد لکھتے ہیں:

سب سے بہتر ترکیب وہ ہے جو ایسے وقت کے لیے قرآن وحدیث میں ارشاد ہوئی اگر مسلمان اس پر عمل کریں تمام قصوں سے نجات پائیں دنیا وآخرت کی بھلائی ہاتھ آئے۔ وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے بالکل میل جول چھوڑ دیں، سلام کلام ترک کر دیں، ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا، ان کے ساتھ کھانا پینا، ان کے یہاں شادی بیاہ کرنا، غرض ہر قسم کے تعلقات ان سے قطع کر دیں..(بہار شریعت جلد1 حصہ9 ص84)

.==================

*#سیدنا_علی رضی اللہ تعالی عنہ سے جو روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جو مجھے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہما پر فضیلت دے گا میں اسے جھوٹ و بہتان باندھنے والے کی سزا یعنی 80 کوڑے ماروں گا...اس روایت کی تحقیق........!!*

شیعہ کا موقف:

 اوپر شیعہ کا موقف لکھا جا چکا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ روایت موضوع ومن گھڑت جھوٹی ہے اس کا کوئی حوالہ نہیں ہے اس کا کوئی سند نہیں ہے

.

*#ہم_اہلسنت_کا_موقف.....!!*

اس سلسلے میں مجھے انیس حوالے باسند ملے...ان میں سے جو ہم پہلی روایت و حوالہ  پیش کریں گے وہ یا تو صحیح ہے ورنہ کم از کم حسن معتبر ضرور ہے کہ سب راویوں کو ثقہ تو کہا گیا ہے لیکن اکا دوکا ناقدین نے بعض راویوں کو ثقہ کہنے کے ساتھ ساتھ بڑھاپے میں تغیر یا لایتابع جیسی خفیف جرح بھی ہے تو ثقہ ہیں لیکن صحیح روایت کے ثقہ راویوں سے کم اور ضعیف راویوں سے اوپر درجے کے راوی ہیں

لیکن

دیگر روایات کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ روایت صحیح معتبر کہلائے گی ورنہ کم از کم حسن معتبر تو ضرور ہے کہ اگر سب روایات کو ضعیف مان بھی لیا جائے تو بھی تعدد طرق مختلف سندوں کی وجہ سے حسن معتبر ہے

.

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سیدنا سوید یا زید یا أبو الزَّعْرَاء نے روایت کی ہے اور سیدنا الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ نے بھی سیدنا علی سے ایسی روایت کی ہے اور سیدنا علقمہ نے بھی سیدنا علی سے ایسی روایت کی ہے

اور

ایسا حکم سیدنا عمر سے بھی مروی ہے لیھذا یہ حکم صحیح معتبر یا حسن معتبر روایت سے ثابت شدہ کہلائے گا اگرچہ سندوں کو ضعیف مان لیا جائے تو بھی ضعیف مل کر حسن معتبر روایت بن جاتی ہے

.

*#قاعدہ…..ضعیف احادیث و روایات مل کر حسن معتبر قابل دلیل بن جاتی ہیں.....!!*

وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن

تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور(حدیث و روایت کا) متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے

(شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)

لِأَنَّ كَثْرَةَ الطُّرُقِ تُقَوِّي

کثرت طرق(تعدد طرق)سے روایت و حدیث کو تقویت ملتی ہے(اور ضعف ختم ہوجاتا ہے)

(تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ,1/179)

أن تعدد الطرق، ولو ضعفت، ترقي الحديث إلى الحسن

بےشک تعدد طرق سے ضعیف روایت و حدیث حسن و معتبر بن جاتی ہے(اللؤلؤ المرصوع ص42)


.

لِلصَّحِيحِ وَالْحَسَنِ، لِصَلَاحِيَتِهِمَا لِلِاحْتِجَاجِ

 صحیح اور حسن حدیث و روایت دلیل بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں

(سیوطی... تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي1/195)

.

*#حوالہ_1.....!!*

أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ غَالِبٍ الْخُوَارَزْمِيُّ، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَمْدَانَ النَّيْسَابُورِيُّ بِخُوَارَزْمَ: قَالَ: أَمْلَى عَلَيْنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبُوشَنْجِيُّ، ثنا أَبُو صَالِحٍ الْفَرَّاءُ مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، ثنا شُعْبَةُ , عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ , عَنْ أَبِي الزَّعْرَاءِ , أَوْ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ , أَنَّ سُوَيْدَ بْنَ غَفَلَةَ الْجُعْفِيَّ , دَخَلَ عَلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي إِمَارَتِهِ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنِّي مَرَرْتُ بِنَفَرٍ يَذْكُرُونَ أَبَا بَكْرٍ , وَعُمَرَ بِغَيْرِ الَّذِي هُمَا لَهُ أَهْلٌ مِنَ الْإِسْلَامِ , لِأَنَّهُمْ يَرَوْنَ أَنَّكَ تُضْمِرُ لَهُمَا عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ , وَإِنَّهُمْ لَمْ يَجْتَرِئُوا عَلَى ذَلِكَ إِلَّا وَهُمْ يَرَوْنَ أَنَّ ذَلِكَ مُوَافِقٌ لَكَ , وَذَكَرَ حَدِيثَ خُطْبَةِ عَلِيٍّ وَكَلَامِهِ فِي أَبِي بَكْرٍ , وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ , وَقَوْلِهِ فِي آخِرِهِ " أَلَا: وَلَا يَبْلُغُنِي عَنْ أَحَدٍ يُفَضِّلُنِي عَلَيْهِمَا إِلَّا جَلَدْتُهُ حَدَّ الْمُفْتَرِي " قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْبُوشَنْجِيُّ: هَذَا الْحَدِيثُ الَّذِي سُقْنَاهُ وَرَوَيْنَاهُ مِنَ الْأَخْبَارِ الثَّابِتَةِ , لِأَمَانَةِ حُمَّالِهِ , وَثِقَةِ رِجَالِهِ

 سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کی کہ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ سیدنا ابوبکر و عمر پر طعن تنقیص گستاخی کر رہے تھے، ان کا خیال ہے کہ آپ بھی دل میں یہی بات رکھتے ہیں..... سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے متعلق ایسی کوئی بات دل میں نہیں رکھتا... جو مجھے سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ تعالی عنہما پر فضیلت دے گا تو اسے میں جھوٹ اور بہتان باندھنے والے شخص والی سزا دوں گا یعنی 80 کوڑے ماروں گا

الْبُوشَنْجِيُّ اور خطیب بغدادی کے مطابق اس روایت کے تمام راوی ثقہ معتبر ہیں

(الکفایۃ خطیب بغدادی ص376)

.

اس حوالے و روایت کی سند کے راویوں کا احوال درج ذیل ہے

*پہلا راوی... احمد بن محمد خوارزمی برقانی*

أبو بكر أحمد بن محمد بن غالب الخوارزمي، الفقيه، الحافظ

احمد بن محمد خوارزمی برقانی حافظ الحدیث فقیہ  ہے(معتبر ثقہ ہے)

( الأربعون على الطبقات لعلي بن المفضل المقدسي ص447)

.

قَالَ الخَطِيْبُ:كَانَ البَرْقَانِيُّ ثِقَةً وَرِعاً ثَبْتاً فَهماً

 خطیب بغدادی فرماتے ہیں کہ برقانی ثقہ راوی ہے متقی پرہیزگار ہے علم و فہم و فقہ والا ہے 

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة17/465)

.

*دوسرا راوی....ابن حمدان حیری*

 مُحَمَّدُ بنُ أَحْمَدَ بنِ حَمْدَانَ بن علي بن عبد الله بن سنان، أبو العباس الحيري النيسابوري، محدث خوارزم 

 محمد بن احمد بن حمدان بن علی بن عبداللہ بن سنان ابو العباس حیری نیشاپوری  خوارزم کا محدث(ثقہ معتبر) ہے

(سير أعلام النبلاء - ط الحديث17/234)

.

*تیسرا راوی البوشنجيّ*

أبو عبد الله البوشنجيّ محمد بن إبراهيم بن سعيد بن عبد الرحمن بن موسى، أبو عبد الله، العبديّ، البوشنجيّ، الماسونيّ الفقيه، الأديب، أحد الفقهاء والحفّاظ العلماء، شيخ أهل الحديث في عصره

ابو عبداللہ البوشنجيّ فقیہ ہے ادیب ہے حافظ الحدیث عالم ہے

 اپنے وقت کے محدثین کے شیوخ میں سے ہے

(كتاب المقفى الكبير5/58)

.

محمد بن إبراهيم بن سعيد بن عبد الرحمن البُوْشَنْجي: ثقة حافظ فقيه

البوشنجيّ ثقہ ہے حافظ ہے فقیہ ہے

(تحفة اللبيب بمن تكلم فيهم الحافظ ابن حجر من الرواة في غير «التقريب»2/23)

.

*چوتھا راوی محبوب الأنطاكي*

محبوب " بن موسى الأنطاكي أبو صالح الفراء عن ابن المبارك وأبي إسحاق وعنه أبو داود وسعيد بن عبد الرحمن الأنطاكي وثقه العجلي

محبوب بن موسی الأنطاكي ابو صالح کو امام عجلی نے ثقہ قرار دیا ہے

(لسان الميزان ابن حجر7/350)

(الجامع في الجرح والتعديل2/435نحوہ)

.

وَقَال أَبُو عُبَيد الآجري عَن أبي داود: ثقة لا يلتفت إلى حكاياته إلا من كتاب.وذكره ابنُ حِبَّان في كتاب "الثقات"، وَقَال: متقن فاضل

محبوب بن موسی الأنطاكي کے متعلق امام ابو داؤد نے فرمایا ہے کہ ثقہ راوی ہے... امام ابن حبان نے ثقہ راویوں میں اس کا شمار کیا اور فرمایا ہے کہ یہ متقن(مضبوط بھروسے والا معتبر اور) فاضل راوی ہے

(تهذيب الكمال في أسماء الرجال27/266)


.

*پانچواں روای أبو إسحاق الفزاريّ*

الأوزاعيّ حديثا. فقيل: من حدّثك بهذا؟ قال: حدّثني الصّادق المصدوق أبو إسحاق الفزاريّ الفزاريّ أبو إسحاق الحجّة الإمام شيخ الإسلام، ثقة متقن

 امام اوزاعی فرماتے ہیں کہ ابو اسحاق الفزاری سچا راوی ہے اور اس کی سچائی بیان کی گئی ہے اور یہ حجۃ الاسلام ہے دلیل ہے امام ہے شیخ الاسلام ہے، ثقہ ہے متقن(مضبوط و بھروسے والا)ہے

(شذرات الذهب في أخبار من ذهب2/383)

.

أبو اسحاق الفزاري الثقة المأمون إمام

 ابو اسحاق الفزاری ثقہ ہے مامون ہے امام ہے

(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم1/282)

.

إِبْرَاهِيم بن مُحَمَّد أَبُو إِسْحَاق الْفَزارِيّ كوفى ثِقَة وَكَانَ رجلا صَالحا قَائِما بِالسنةِ

 ابو اسحاق الفزاری کوفی ہے ثقہ ہے اور نیک آدمی تھا سنت کو مضبوطی سے تھامنے والا تھا

(الثقات للعجلي ت البستوي1/205)

.

*چھٹا راوی امام شعبہ*

شُعْبَةُ أَمِيرُ المُؤْمِنِينَ في الحَدِيثِ

 امام شعبہ تو حدیث میں امیر المومنین ہے

(التاريخ الكبير للبخاري 5/399)

.

شعبة بن الحجاج بن الورد، الإمام الحبر الحافظ شيخ الإسلام أبو بسطام العتكي الأزدي

 امام شعبہ تو بہت بڑے امام ہیں حبر الاسلام ہیں حافظ الحدیث شیخ الاسلام ہیں

(ديوان الإسلام3/138)

.

*ساتواں راوی محمد بن سلمة*

محمد بن سلمة بن كهيل، يعتبر به

 محمد بن سلمہ بن کہیل معتبر راوی ہے

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/579)

.

- سَلمَة بن كهيل الْحَضْرَمِيّ كُوفِي ثِقَة ثَبت فِي الحَدِيث تَابِعِيّ

 سلمہ بن کہیل کوفی ہیں ثقہ ہیں،ثبت ہیں، تابعی ہیں

(الثقات للعجلي ت البستوي1/421)

.

قال أحمد بن حنبل: سلمة متقن الحديث، وقيس بن مسلم متقن للحديث أيضاً، لا تبالي إذا أخذت عنهما حديثهما

 امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ سلمہ اور قیس دونوں متقن(مضبوط معتبر) ہیں جب ان سے روایت کرو تو دل میں کوئی کھٹکا نہ رکھو

(موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله2/82)

.

*ساتواں راوی أبو الزَّعْرَاء*

عبد الله بن هانِئ الكِنْدي الأزدي أبو الزَّعْرَاء الكبير الكوفي.

 وقال العجلي: من أصحاب عبد الله، ثِقَةٌ

أبو الزَّعْرَاء عبداللہ بن ھانی الکندی کوفی ہیں امام عجلی نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے

(الجامع في الجرح والتعديل2/38)

.

 وثقه بن حبان هو عبد الله بن هانئ الكندي

أبو الزَّعْرَاء کو امام ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے

(لسان الميزان ابن حجر7/464)

.

*آٹھوان روای زید بن وھب*

: زيد بْن وهب الجهني أدرك الجاهلية، وأسلم في حياة النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وهاجر إليه، فبلغته وفاته في الطريق، يكنى أبا سليمان، وهو معدود في كبار التابعين، سكن الكوفة، وصحب علي بْن أَبِي طالب

 زید بن وہب انہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ مبارک پایا ہے اور نبی پاک کی طرف ہجرت کی ہے لیکن راستے میں ہی ان کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر پہنچی لیھذا یہ بڑے تابعین میں شمار ہوتا ہے اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی صحبت اس نے اختیار کی ہے

(أسد الغابة في معرفة الصحابة ط العلمية2/377)

.

يحيى بن معين أنه قال: زيد بن وهب ثقة

 امام یحیی بن معین فرماتے ہیں کہ زید بن وہب ثقہ ہے

(بغية الطلب فى تاريخ حلب - ت زكار9/4057)

.

وكان من الثّقات

 زید بن وہب ثقہ راویوں میں سے ہے

(تاريخ الإسلام - ت تدمري6/71)

.

قال الأعمش: إذا حَدَّثك زيد بن وَهْب عن أحد، فكأنك سمعته من الذي حدَّثك عنه.قال يحيى بن معين: هو ثقة.وقال عبد الرحمن بن يوسف بن خراش: زيد بن وهب كوفيٌّ، ثقةٌ

 امام اعمش فرماتے ہیں کہ جب تجھے زید بن وہب کسی سے روایت کرے تو گویا کہ تم اسی شخص سے سن رہے ہو جس سے وہ روایت کر رہا ہے امام یحییٰ بن معین نے فرمایا کہ زید بن وہب ثقہ راوی ہے اور عبدالرحمان نے بھی فرمایا ہے کہ زید بن وہب ثقہ ہے

(الكمال في أسماء الرجال5/84)

.

*نواں راوی امام سوید بن غفلہ*

- سُوَيْد بن غَفلَة الْجعْفِيّ كُوفِي تَابِعِيّ ثِقَة

سُوَيْد بن غَفلَة جعفی کوفی تابعی ثقہ ہیں

(الثقات للعجلي ت البستوي1/443)

.

. وكان فقيها إماما

سُوَيْد بن غَفلَة بڑے فقیہ و امام تھے

(الأعلام للزركلي3/146)

.===================

*#حوالہ_2…......!!*

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي هَدِيَّةُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ قثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قثنا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْحَكَمِ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: لَا يُفَضِّلُنِي أَحَدٌ عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ إِلَّا جَلَدْتُهُ حَدَّ الْمُفْتَرِي

الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ کوئی بھی مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت نہ دے ورنہ میں اسے جھوٹ اور بہتان والے کی سزا یعنی 80 کوڑے ماروں گا

(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل روایت49)

.

*پہلا راوی عبداللہ بن احمد بن حنبل*

سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن عبد الله بن أحمد بن حنبل، وحنبل ابن عم أحمد بن حنبل، فقال: ثقتان ثبتان

 امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل کے بیٹے عبد اللہ اور انکے چچا کے بیتے حنبل ثقہ ثبت ہیں

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/348)

.

*دوسرا راوی هَدِيَّةُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ*

قال أبو بكر بن أَبي عاصم: ثقة.وذكره ابنُ حِبَّان فِي كتاب "الثقات" ، وَقَال: ربما أخطأ

هَدِيَّةُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ کے متعلق امام ابوبکر بن ابی عاصم نے فرمایا ہے کہ یہ ثقہ ہیں اور امام ابن حبان نے اس کو ثقات میں شمار کیا ہے اور فرمایا ہے کہ کبھی کبھار خطا کرتا تھا

(تهذيب الكمال في أسماء الرجال30/158)

(التكميل في الجرح والتعديل ومعرفة الثقات والضعفاء والمجاهيل1/456)

.

*تیسرا راوی أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ*

أَحْمَدُ بنُ يُوْنُسَ التَّمِيْمِيُّ اليَرْبُوْعِيُّ الكُوْفِيُّ الإِمَامُ، الحُجَّةُ، الحَافِظُ، أَبُو عَبْدِ اللهِ أَحْمَدُ بنُ عَبْدِ اللهِ بنِ يُوْنُسَ التَّمِيْمِيُّ، اليَرْبُوْعِيُّ، الكُوْفِيُّ،....سَمِعْتُ أَحْمَدَ بنَ حَنْبَلٍ، وَسَأَلَهُ رَجُلٌ: عَمَّنْ أَكْتُبُ؟قَالَ: ارْحَلْ إِلَى أَحْمَدَ بنِ يُوْنُسَ، فَإِنَّهُ شَيْخُ الإِسْلاَمِ.

وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ: كَانَ ثِقَةً، مُتْقِناً

 احمد بن یونس امام ہے حجت ہے حافظ ہے، امام احمد بن حنبل سے ایک شخص نے پوچھا کہ کس سے لکھوں تو فرمایا کہ جاؤ احمد بن یونس سے لکھو کہ بے شک وہ شیخ الاسلام ہے امام ابو حاتم نے فرمایا کہ احمد بن یونس ثقہ ہے

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة10/457)

.

*چوتھا راوی مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ*

سَمِعْتُ يَحْيَى، وَسُئِلَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، فَقَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ صَالِحَ الْحَدِيثِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى قَالَ: مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ لَيْسَ بِشَيْءٍ. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: قَالَ أَبِي: مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ ثِقَةٌ

 امام یحییٰ فرماتے ہیں کہ محمد بن طلحہ بن مصرف صالح الحدیث ہے، اسکی روایات میں کوئی حرج نہیں... امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے کہ یہ ثقہ ہیں

(الضعفاء الكبير للعقيلي4/85)

.

محمد بن طلحة بن مصرّف"١":ثقة"٢"، قال النسائي"٣": "ليس بالقوي""٤"، "وقواه الدارقطني........حاصل أقوال الأئمة فيه:

وثقه بعضهم، ولينه بعضهم، وضعفه ابن معين في بعض الروايات عنه، ولكن لم يأت بجرح مفسر، والرجل مع توثيق البعض له قد احتج به الجماعة، وقد تُكُلِّمَ في سماعه من أبيه، لكنه ثقة، والثقة إذا ادعى السماع لا يكذَّب في ذلك ... ، وهو يخطئ قليلاً. وكذا قال في المغني: "وقال: "قلت: قد احتجا به في الصحيحين أصلاً"، وقال في الميزان: "صدوق مشهور، محتج به في الصحيحين"، وقال: "قلت: روى عنه عبد الرحمن بن مهدي، وعون بن سلام، وجبارة بن المغلس"، وفي الكاشف، ذكر الأقوال فيه فقط، وذكره في رسالة الثقات، وقال: "ثقة من رجال الصحيحين أصلاً، قال س: ليس بالقوي، قلت: ما هو بقوة شعبة

 محمد بن طلحہ ثقہ راوی ہے امام نسائی نے فرمایا کہ اتنا قوی نہیں ہے امام دارقطنی نے اس کو قوی راوی فرمایا... ان کے متعلق اقوال کا حاصل یہ ہے کہ بعض ائمہ نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے امام ابن معین نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن ضعیف کہنے کی کوئی ٹھوس وجہ بیان نہ فرما سکے... صحاح ستہ میں اس کی روایات موجود ہیں تو لہٰذا اگر اس کو قوی نہیں کہا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ زیادہ قوی نہیں ہے لیکن ثقہ ضرور ہے

(من تكلم فيه وهو موثق و حاشیتہ ص453)

.

*پانچواں راوی ابو عبیدہ بن حکم*

أُمَيَّة بن الحكم.عن الحكم بن جحل.وعنه ابنه مِهْجَع.لا يعرف

 ابو عبیدہ امیہ بن حکم کے بارے میں ہے کہ معروف راوی نہیں ہے

(لسان الميزان ت أبي غدة2/218)

(المغني في الضعفاء1/94)

.

*مجھول کا حکم.......!!*

 اگر اسے مجھول مان بھی لیا جائے تو بھی حدیث ضعیف کہلائے گی اور اس کے دیگر طرق و سندیں موجود ہیں تو ضعیف سندیں مل کر حسن معتبر بن جائیں گے

إِسناده ضعيف لجهالة محمد بن يعقوب.لكن له شواهد يرتقي بها إلى الحسن لغيره

 راوی کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن شواہد کی وجہ سے وہ ترقی کر کے حسن لغیرہٖ معتبر بن جاتی ہے

(المطالب العالية محققا ابن حجر4/444)

.

بدليل المتابعات، أو الشواهد، وبهذا يرتقي من درجة الضعيف إلى درجة الحسن لغيره.ويضاف إلى هذا: ما كان ضعفه لإرسال، أو عنعنة مدلس، أو لجهالة حال بعض رواته، أو لانقطاع يسير؛ فإنَّ هذا الضعف يزول بمجيئه من طريق آخر، ويصير الحديث حسناً لغيره؛ بسبب العاضد الذي عضده

 مرسل ہونے کی وجہ سے یا مدلس ہونے کی وجہ سے یا جہالت راوی کی وجہ سے مجہول راوی کی وجہ سے یا انقطاع کی وجہ سے اگر حدیث ضعیف ہو جائے تو دیگر دوسری ضعیف یا قوی سے ملکر وہ حسن معتبر کے درجہ پر پہنچ جاتی ہے

(محاضرات في علوم الحديث ص13)

.

*چھٹا راوی الحکم بن حجل*

وأمَّا الحكم بن جَحْل فهو: الأزديُّ، البصريُّ، وثَّقه ابن معين في رواية إسحاق بن منصور عنه، ولا نعلم أحدًا تكلَّم فيه

 الحکم بن حجل کو امام ابن معین نے ثقہ قرار دیا ہے اور ہم کسی محدث کو نہیں جانتے کہ جس نے اس میں جرح کی ہو

(تنقيح التحقيق لابن عبد الهادي3/146)

.

قال يحيى بن معين: ثقة.روى له: الترمذي، وأبو داود، وابن ماجه

الحكم بن جَحْل کو امام یحیی بن معین نے ثقہ قرار دیا ہے اور امام ترمذی نے امام ابو داؤد اور امام ابن ماجہ نے ان سے. روایت کی ہے

(الكمال في أسماء الرجال4/256)

 تاريخ الإسلام - ت تدمري7/345نحوہ)

(تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال2/409نحوہ)

.=================

*#حوالہ_3......!!*

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قثنا هَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ، وَالْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، قَالَا: نا شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ قَالَ: ضَرَبَ عَلْقَمَةُ بْنُ قَيْسٍ هَذَا الْمِنْبَرَ فَقَالَ: خَطَبَنَا عَلِيٌّ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَذَكَرَهُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَذْكُرَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ أُنَاسًا يُفَضِّلُونِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، وَلَوْ كُنْتُ تَقَدَّمْتُ فِي ذَلِكَ لَعَاقَبْتُ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الْعُقُوبَةَ قَبْلَ التَّقَدُّمِ، فَمَنْ قَالَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَهُوَ مُفْتَرٍ، عَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُفْتَرِي، إِنَّ خَيْرَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ

 سیدنا علقمہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے خطبہ دیا اللہ کی حمد کی ذکر کیا جتنا چاہا پھر فرمایا کہ مجھے کچھ لوگوں کی خبر پہنچی ہے کہ وہ مجھے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر پر فضیلت دیتے ہیں، میں سمجھائے بغیر اس پر سزا نہیں دوں گا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر اور پھر سیدنا عمر ہیں اس کے بعد جو کوئی اس بات کا انکار کرے جو مجھے فضیلت دے تو اس پر میں جھوٹ باندھنے والے بہتان باندھنے والے مفتری کی سزا دوں گا(80 کوڑے لگاؤں گا)

(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل  روایت484)

.

*پہلا راوی هَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ*

يحيى بْن مَعِين: ثقة.وَقَال أبو حاتم: صدوق...كان أَحْمَد بْن حَنْبَل يثنى عليه...وَقَال النَّسَائي: ليس به بأس.وذكره ابنُ حِبَّان في كتاب "الثقات

 امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ ہیثم بن خارجہ ثقہ راوی ہے امام ابو حاتم نے فرمایا ہے کہ یہ صدوق ہے سچا ہے اور امام احمد بن حنبل اس کی تعریف کیا کرتے تھے امام نسائی نے فرمایا ہے کہ اس راوی میں کوئی حرج نہیں ہے اور امام ابن حبان نے اس کو ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے

(تهذيب الكمال في أسماء الرجال377 ،30/376 )

.

*دوسرا راوی الحکم بن موسی*

الحكم بن موسى كان رجلا صالحا ثبتا

 الحکم بن موسی اچھا آدمی تھا ثبت تھا (ثقہ راوی تھا)

( بغية الطلب فى تاريخ حلب - ت زكار6/2879)

.

وقال عليّ بْن المَدِينيّ: سألتُ أبا عليّ جَزَرَة عن سُرَيْج بْن يونس، والْحَكَم بْن موسى، ويحيى بْن أيّوب، فوثقهم جدا

 امام علی بن مدینی فرماتے ہیں کہ میں نے علی جزرہ سے پوچھا کہ سریج اور حکم اور یحیی کیسے راوی ہیں تو انہوں نے ان تینوں کی بہت زیادہ توثیق فرمائی

(تاريخ الإسلام - ت تدمري17/144)

.

- الحكم بن مُوسَى أَبُو صَالح ثِقَة

 حکم بن موسی ابو صالح ثقہ راوی ہے

(الثقات للعجلي ت البستوي1/313)

.

*تیسرا راوی شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ*

قلت لابن المبارك: شهاب بن خراش؟ فقال: ثقة.نا عبد الرحمن أنا حرب بن إسماعيل [الكرماني - ٣] فيما كتب إلي قال قلت لأحمد: شهاب بن خراش؟ قال: لا بأس به.نا عبد الرحمن قال أنا أبو بكر بن أبي خيثمة فيما كتب إلي قال سمعت يحيى بن معين يقول: شهاب بن خراش بن حوشب كوفي نزل الشام ليس به بأس.نا عبد الرحمن قال سألت أبي عن شهاب بن خراش فقال: صدوق لا بأس به.نا عبد الرحمن قال سئل أبو زرعة عن شهاب بن خراش فقال: لا بأس به

 امام ابن مبارک نے فرمایا کہ شہاب بن خراش ثقہ راوی ہے... امام احمد بن حنبل اور امام یحی بن معین نے فرمایا کہ اس راوی میں کوئی حرج نہیں ہے... عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا شہاب بن خراش کے بارے میں؟ تو فرمایا کہ یہ سچا ہے اس راوی میں کوئی حرج نہیں ہے... امام ابو زرعہ سے اس راوی کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا اس راوی میں کوئی حرج نہیں ہے

(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم4/362)

.

قال أبو داود: قلت لأحمد: شهاب بن خراش؟ قال: كان أصله واسطياً، وكان سكن بيت المقدس، ما أرى به بأساً

 امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا شہاب بن خراش کے بارے میں فرمایا کہ اس راوی میں کوئی حرج نہیں ہے

(موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله2/162)

.

*چوتھا راوی الْحَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ*

قلت لابن المبارك: الحجاج بن دينار؟ فقال: ثقة.حدثنا عبد الرحمن؟ ؟ عبد الله بن أحمد بن حنبل فيما كتب إلي قال قال أبي: الحجاج بن دينار ليس به بأس. قال ابن نمير: كوفي ثقة، وذكره ابن حبان البستي في جملة "الثقات

 امام ابن مبارک فرماتے ہیں کہ حجاج بن دینار ثقہ راوی ہے... امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اس راوی میں کوئی حرج نہیں ہے... ابن نمیر نے فرمایا ہے کہ یہ ثقہ ہے اور امام ابن حبان نے اس کو ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے

(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم3/160)

.

وَقَالَ عَليّ بن الْمَدِينِيّ الْحجَّاج بن دِينَار ثِقَة

 امام علی بن مدینی نے فرمایا ہے کہ حجاج بن دینار ثقہ راوی ہے

(تاريخ أسماء الثقات ص69)

.

*پانچواں راوی ابو معشر*

سَمِعْتُ يَحْيى بن مَعِين يقول أبو مَعْشَر المديني ضعيف....سَمِعت أَبَا نعيم يَقُول كَانَ أَبُو مَعْشَر سنديا وكان رجلا الكن...قَالَ ابْن مهدي يعرف وينكر.وقال النسائي نجيح أَبُو معشر

مدني ضعيف

 امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ ابو معشر ضعیف راوی ہے...ابن مہدی نے فرمایا کہ صحیح روایات بھی کرتا تھا اور منکر بھی، امام نسائی نے ضعیف قرار دیا

(الكامل في ضعفاء الرجال،312، 8/311)

.

لَيْسَ بِقَوِيٍّ...فَقَالَ: كَانَ صَدُوقًا , وَلَكِنَّهُ لَا يُقِيمُ الْإِسْنَادَ

 ابو معشر اتنا قوی راوی نہیں ہے سچا راوی ہے لیکن سندوں کو قائم نہیں رکھ پاتا

(الضعفاء الكبير للعقيلي4/308)

.

وأبو معشر، وإن كان ضعيفًا فروايتُه تعضِّدُ...أبو معشر نجيح: حديثه حسنٌ في الشواهد

 ابو معشر اگرچہ ضعیف راوی ہے لیکن اتنا ضعیف بھی نہیں کہ اس کی روایت کی دوسری روایت سے توثیق نہ ہوسکے، شواہد میں اسکی روایت حسن معتبر ہے

(نثل النبال بمعجم الرجال4/336)

اس راوی کے ہلکے ضعف سے وجہ روایت حسن معتبر یا زیادہ سے زیادہ انفرادی ضعیف کہلائے گی مگر دیگر ضعیف روایات بھی ہیں اس سلسلے میں، تو ضعیف ضعیف سے مل کر حسن معتبر بن جائے گی

.

*چھٹا راوی امام إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ*

عاصم قال: كان إبراهيم رجل صدق...الأعمش. قال: كان إبراهيم صيرفيا في الحديث

 عاصم فرماتے ہیں کہ سیدنا ابراہیم نخعی بہت سچے آدمی تھے امام اعمش فرماتے ہیں کہ ابراہیم تو کھرے اور کھوٹے کی پہچان کرتے تھے

(موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله1/46)

.

إبراهيم النخعي:هو، أبو عمران إبراهيم بن يزيد بن قيس النخعي، الكوفي، فقيه أهل الكوفة، التابعي الجليل..أجمع العلماء على توثيقه

 امام ابراہیم نخعی فقیہ ہیں تابعی ہیں جلیل القدر ہیں، علماء کا اتفاق ہے کہ آپ ثقہ ہیں

(الحديث والمحدثون ص197)

.

*ساتواں راوی سیدنا علقمہ*

هو أبو شبل علقمة بن قيس بن عبد الله النخعي الكوفي التابعي الجليل...وقد أجمع معاصروه على جلالته ووقاره وغزارة علمه.....وكان ثقة كثير الحديث...انَ عَلْقَمَةُ مِنَ الرَّبَّانِيِّينَ»

 سیدنا علقمہ جلیل القدر تابعی ہیں تمام علماء کا اس پر اجماع ہے کہ آپ کی جلالت و وقار اور علم بہت وسیع تھا... آپ ثقہ علمائے ربانیین میں سے ہیں

(السنة قبل التدوين1/525)

.

- عَلْقَمَةُ بنُ قَيْسِ بنِ عَبْدِ اللهِ أَبُو شِبْلٍ النَّخَعِيُّ فَقِيْهُ الكُوْفَةِ، وَعَالِمُهَا، وَمُقْرِئُهَا، الإِمَامُ، الحَافِظُ، المُجَوِّدُ، المُجْتَهِدُ الكَبِيْرُ، أَبُو شِبْلٍ عَلْقَمَةُ بنُ قَيْسِ بنِ عَبْدِ اللهِ بنِ مَالِكِ بنِ عَلْقَمَةَ بنِ سَلاَمَانَ بنِ كَهْلٍ

 سیدنا علقمہ کوفہ کے بہت بڑے فقیہ ہیں بہت بڑے عالم ہیں بہت بڑی قاری ہیں امام ہیں حافظ ہیں، مجود و مجتہد ہیں

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة4/53)

.================

*#حوالہ_4......!!*

أنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْكَاتِبُ، قَالَ: نا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ نُوحٍ الْجُنْدَيْسَابُورِيُّ قَالَ: نا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: نا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: نا شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: وَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى مِنْبَرِ الْكُوفَةِ، فَقَالَ: خَطَبَنَا عَلِيٌّ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ، فَذَكَرَ مَا شَاءَ أَنْ يَذْكُرَ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ نَاسًا يُفَضِّلُونَنِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، وَلَوْ كُنْتُ تَقَدَّمْتُ فِي ذَلِكَ لَعَاقَبْتُ، وَلَكِنْ أَكْرَهُ الْعُقُوبَةَ قَبْلَ التَّقَدُّمِ، مَنْ أُتِيتُ بِهِ مِنْ بَعْدِ مَقَامِي قَدْ قَالَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَهُوَ مُفْتَرٍ، عَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُفْتَرِي. ثُمَّ قَالَ: إِنَّ خَيْرَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ

سیدنا علقمہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے خطبہ دیا اللہ کی حمد کی ذکر کیا جتنا چاہا پھر فرمایا کہ مجھے کچھ لوگوں کی خبر پہنچی ہے کہ وہ مجھے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر پر فضیلت دیتے ہیں، میں سمجھائے بغیر اس پر سزا نہیں دوں گا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر اور پھر سیدنا عمر ہیں اس کے بعد جو کوئی اس بات کا انکار کرے جو مجھے فضیلت دے تو اس پر میں جھوٹ باندھنے والے بہتان باندھنے والے مفتری کی سزا دوں گا(80 کوڑے لگاؤں گا)

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة اللالكائي

 روایت 2678)

.

*پہلا راوی مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْكَاتِبُ*

- مجد الدّين أبو عبد الله محمّد بن عثمان بن محمّد التستريّ الحويزيّ الكاتب يعرف بابن شيحان.صاحب الأخلاق الكريمة والهمّة العظيمة،

 ابو عبداللہ محمد بن عثمان کاتب ہے، عظیم ہمت اور اخلاق کریمہ والا ہے(معتبر راوی ہے)

(مجمع الآداب في معجم الألقاب4/517)

.

*دوسرا راوی محمد بن نوح*

الدَّارَقُطْنِيّ عن محمد بن نوح الجنديسابوري؟ فقال: هو ثقة

 امام دارقطنی سے پوچھا گیا محمد بن نوح کے بارے میں تو فرمایا ثقہ راوی ہے

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/631)

.

محَمَّدُ بنُ نُوْحٍ أَبُو الحَسَنِ الجُنْدَيْسَابورِيُّ الفَارِسِيُّ الإِمَامُ، الحَافِظُ، الثَّبْتُ....قَالَ أَبُو سَعِيْدٍ بنُ يُوْنُسَ: ثِقَةٌ حَافِظٌ وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: ثِقَةٌ مَأْمُوْنٌ

 محمد بن نوح حافظ ہے ثبت ہے ابو سعید فرماتے ہیں کہ ثقہ ہیں حافظ ہیں اور امام دارقطنی نے انھیں ثقہ اور مامون قرار دیا

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة35، 15/34 )

.

*تیسرا راوی ھارون بن اسحاق*

هارون بن إسحاق بن محمد بن مالك بن زبيد الهمداني، أبو القاسم، الكُوفِيّ. قال السُّلَمِيُّ: سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن هارون بن إسحاق، فقال: ثقة

 امام دارقطنی سے ہارون بن اسحاق کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا ثقہ ہے

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/687)

.

هارون بن إسحاق بن محمد الهمداني الكوفي ثقة

 ہارون بن اسحاق ثقہ راوی ہے

(كمشيخة النسائي = تسمية الشيوخ ص102)

.

*چوتھا راوی سعید بن منصور*

أَحْمَد بْن حنبل يحسن الثناء عليه.وَقَال حنبل بن إسحاق: قلتُ لأبي عَبد اللَّهِ: سَعِيد بْن منصور؟ قال: من أهل الْفَضْل والصدق.

وَقَال سلمة بْن شبيب: ذكرته لأحمد بْن حنبل، فأحسن الثناء عليه وفخم أمره.وَقَال الْفَضْل بْن زياد: سمعت أبا عَبد اللَّهِ وقيل لَهُ: من بمكة؟ قال: سَعِيد بْن منصور وَقَال مُحَمَّد بْن عَبد اللَّهِ بْن نمير ، ومحمد بْن سعد ، وأَبُو حاتم ، وعبد الرحمن بنيوسف بْن خراش : ثقة. زاد أَبُو حاتم: من المتقنين الأثبات ممن جمع وصنف.وَقَال غيره: كان مُحَمَّد بْن عبد الرحيم إذا حدث عنه اثنى عليه وأطراه، وكان يَقُولُ: حَدَّثَنَا سَعِيد بْن منصور وكان ثبتا

 سعید بن منصور کے بارے میں امام احمد بن حنبل اچھی تعریف کیا کرتے تھے... فرماتے تھے کہ وہ فضیلت والے ہیں سچے ہیں ثقہ ہیں،

(كتاب تهذيب الكمال في أسماء الرجال11/80)

*بقایا راوی وہی ہیں جو حوالہ نمبر تین میں مذکور ہیں*

.=================

*#حوالہ_5.......!!*

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنِي هُدَيَّةُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ أَبُو صَالِحٍ، بِمَكَّةَ، نَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ، عَنِ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْحَكَمِ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: «لا يُفَضِّلْنِي أَحَدٌ عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِلا جَلَدْتُهُ جَلْدَ الْمُفْتَرِي

الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی بھی مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت نہ دے ورنہ میں اسے جھوٹ باندھنے والے بہتان باندھنے والے کی سزا دوں گا

(السابع عشر من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي روایت25)

*اس کے راوی وہی ہیں جو حوالہ نمبر دو میں ہیں*

.==================

*#حوالہ_6........!!*

أَنْبَأَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْهَيْثَمِ النَّاقِدُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ , عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْحَكَمِ الْأَسَدِيِّ , عَنِ الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَا يُفَضِّلُنِي أَحَدٌ عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ , وَلَا يُفَضِّلُنِي أَحَدٌ عَلَيْهِمَا إِلَّا جَلَدْتُهُ جَلْدَ الْمُفْتَرِي

الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی بھی مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت نہ دے ورنہ میں اسے جھوٹ باندھنے والے بہتان باندھنے والے کی سزا دوں گا

(الشريعة للآجري روایت1813)

.

*پہلا راوی ابراہیم بن ھیثم*

إِبْرَاهِيْمُ بنُ الهَيْثَمِ المُحَدِّثُ، الرَّحَّالُ، الصَّادِقُ

 ابراہیم بن ہیثم محدث ہیں بہت سفر کرنے والے ہیں سچے ہیں

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة13/411)

.

*دوسرا راوی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْكُوفِيُّ*

قَالَ أَبُو حاتِم صدوق

 عبداللہ بن عمر کوفی کے بارے میں امام ابو حاتم فرماتے ہیں کہ سچے ہیں

(تاريخ الإسلام - ت تدمري17/221)

.

*بقایا راوی وہی ہیں جو حوالہ نمبر دو میں ہیں*

.==============

*#حوالہ_7.......!!*

أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ , أنا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ الصَّفَّارُ , ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ جَابِرٍ , ثنا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى , ثنا شِهَابٌ يَعْنِي ابْنَ خِرَاشٍ ثنا الْحَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ , عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: ضَرَبَ عَلْقَمَةُ هَذَا الْمِنْبَرِ وَقَالَ: خَطَبَنَا عَلِيٌّ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَذَكَرَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَذكُرَهُ ثُمَّ قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ نَاسًا يُفَضِّلونَنِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، وَلَوْ كُنْتُ تقَدَّمْتُ فِي ذَلِكَ لَعَاقَبْتُ فِيهِ وَلَكِنْ أَكْرَهُ الْعُقُوبَةَ قَبْلَ التَّقَدُّمِ، وَمَنْ قَالَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَهُوَ مُفْترٍ، عَلَيْهِ مَا عَلَى ⦗٣٦٢⦘ الْمُفْتَرِي، إِنَّ خَيْرَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرَ

سیدنا علقمہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے خطبہ دیا اللہ کی حمد کی ذکر کیا جتنا چاہا پھر فرمایا کہ مجھے کچھ لوگوں کی خبر پہنچی ہے کہ وہ مجھے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر پر فضیلت دیتے ہیں، میں سمجھائے بغیر اس پر سزا نہیں دوں گا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر اور پھر سیدنا عمر ہیں اس کے بعد جو کوئی اس بات کا انکار کرے جو مجھے فضیلت دے تو اس پر میں جھوٹ باندھنے والے بہتان باندھنے والے مفتری کی سزا دوں گا(80 کوڑے لگاؤں گا)

(الاعتقاد للبيهقي ص361)

.

*پہلا راوی عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ*

، وكان ثقة، وقدمت نيسابور في السنة الّتي مات فيها. وقال عبد الغافر الفارسي في "السياق": الجليل الحافظ

 علی بن احمد بن عبدان جلیل القدر حافظ ہیں اور ثقہ ہیں

(السلسبيل النقي في تراجم شيوخ البيهقي465)

.

*دوسرا راوی أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ الصَّفَّارُ*

انَ ثِقَةً ثَبْتاً

أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ الصَّفَّارُ ثقہ ثبت راوی ہے

(سير أعلام النبلاء - ط الحديث12/45)

.

*تیسرا راوی مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ جَابِرٍ*

الدَّارَقُطْنِيّ: محمد بن الفضل بن جابر بن شاذان السقطي، صدوق

 امام دارقطنی نے فرمایا ہے کہ محمد بن فضل سچا راوی ہے

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/614)

.

*باقی راوی وہی ہیں جو حوالہ نمبر تین کے ہیں*

.========================

*#حوالہ_8......!!*

أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ الْفَقِيهُ , أنا أَبُو حَامِدِ بْنِ بِلَالٍ , ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْأَحْمَسِي , ثنا الْمُحَارِبِيُّ , ثنا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ , عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ , عَنِ الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ، قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيٌّ بِالْبَصْرَةِ فَقَالَ: أَلَا لَا يُفَضِّلْنِي أَحَدٌ عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ لَا أُوتَى بِأَحَدٍ فَضَّلَنِي عَلَيْهِمَا إِلَّا جَلَدْتُهُ حَدَّ الْمُفْتَرِي

(الاعتقاد للبيهقي ص358)

.

*#حوالہ_9......!!*

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى، ثنا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدِ بْنِ الْحَكَمِ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ حُجَلَ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: لَا يُفَضِّلُنِي عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، أَوْ لَا أَجِدُ أَحَدًا يُفَضِّلُنِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، إِلَّا وَجَلَدْتُهُ جَلْدَ حَدِّ الْمُفْتَرِي

(السنة لابن أبي عاصم روايت1219)

.

*#حوالہ_10.......!!*

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، ح. وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الصُّوفِيُّ، ثنا الهُيْثمُ بْنُ خَارِجَةَ، وَالْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، ح. وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا الْعَلَاءُ بْنُ عَمْرٍو، قَالُوا: ثنا شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ، ثنا الْحَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: ضَرَبَ عَلْقَمَةُ هَذَا الْمِنْبَرَ فَقَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا يَخْطُبُ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ فَقَالَ: خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا عَلَيْهِ السَّلَامُ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ أَلَا وَإِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ رِجَالًا يُفَضِّلُونِي عَلَيْهِمَا أَلَا فَمَنْ وَجَدْتُهُ فَضَّلَنِي عَلَيْهِمَا فَهُوَ مُفْتَرٍ، ⦗١٤١⦘ عَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُفْتَرِي

(فضائل الخلفاء الراشدين لأبي نعيم الأصبهاني روایت169)


.

*#حوالہ_11.......!!*

حَدَّثَنَا عَلِيٌّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَغَوِيُّ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ قَالَ عَلْقَمَةُ خَطَبَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ.........فَمَنْ أُتِيتُ بِهِ بَعْدَ مَقَامِي هَذَا قَدْ قَالَ شَيْئًا من ذلك فهو مفتري عَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُفْتَرِي خَيْرُ النَّاسِ كَانَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ

(فضائل أبي بكر الصديق للعشاري روایت39)

.

*#حوالہ_12......!!*

حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَسَنُ بْنُ الْبَزَّارِ، ثنا الْهَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ، ثنا ⦗٤٨٠⦘ شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا عَلَى الْمِنْبَرِ، فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى مِنْبَرِ الْكُوفَةِ، يَقُولُ: بَلَغَنِي أَنَّ قَوْمًا يُفَضِّلُونَنِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، وَلَوْ كُنْتُ تُقِدِّمْتُ فِي ذَلِكَ لَعَاقَبْتُ فِيهِ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الْعُقُوبَةَ قَبْلَ التَّقْدِمَةِ، مَنْ قَالَ شَيْئًا مِنْ هَذَا فَهُوَ مُفْتَرٍ، عَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُفْتَرِي. إِنَّ خِيَرَةَ النَّاسِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ

(السنة لابن أبي عاصم روایت993)

.

*#حوالہ_13.......!!*

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، ثنا شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: ضَرَبَ عَلْقَمَةُ بِيَدِهِ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ: خَطَبَ عَلِيٌّ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ نَاسًا يُفَضِّلُونِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، فَلَوْ كُنْتُ تَقَدَّمْتُ فِي ذَلِكَ لَعَاقَبْتُ فِيهِ، وَلَكِنْ أَكْرَهُ الْعُقُوبَةَ قَبْلَ التَّقَدُّمِ، فَمَنْ قَالَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَهُوَ مُفْتَرٍ، عَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُفْتَرِي. خَيْرُ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ

(شرح مذاهب أهل السنة لابن شاهين روایت198)

.

*حوالہ نمبر آٹھ یا تیرہ کے تقریبا وہی مرکزی راوی ہیں جو اوپر تحقیق کردہ روایات کے راوی ہیں......!*

.

*#حوالہ_14......!!*

وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ مردوية، حَدثنَا سُلَيْمَان بن أَحْمد حَدثنَا الْحسن بن مَنْصُور الرمالي، وَأَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْعَتَكِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: بَلَغَ عَلِيًّا - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أَنَّ أَقْوَامًا يُفَضِّلُونَهُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللَّهُ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ قَوْمًا يُفَضِّلُونِّي عَلَى أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَلَوْ كُنْتُ تَقَدَّمْتُ فِيهِ لَعَاقَبْتُ مِنْهُ، فَمَنْ سَمِعْتُهُ بَعْدَ الْيَوْمِ يَقُولُ هَذَا فَهُوَ مُفْتَرٍ عَلَيْهِ حَدُّ الْمُفْتَرِي، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ خَيْرَ هَذِهِ الأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا: أَبُو بَكْرٍ

(الحجة في بيان المحجة روایت344)

.=========

*#حوالہ_15........!!*

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُظَفَّرِ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ، ثَنَا يُوسُفُ بْنُ وَاضِحٍ، ثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، ثَنَا شُعْبَةُ بْنُ حُصَيْنٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي لِيَلَى....«إِنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ خَيْرَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كَذَا فِي كَذَا فِي كَذَا ثَلَاثًا، فَمَنْ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ حَلَّ عَلَيْهِ مَا حَلَّ عَلَى الْمُفْتَرِي

( تثبيت الإمامة وترتيب الخلافة لأبي نعيم الأصبهاني روایت54)

.

*#حوالہ_16......!!*

أنا أَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ، أنا الْحُسَيْنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الرَّبِيعِ، قَالَ: نا حُمَيْدُ بْنُ الرَّبِيعِ، قَالَ: نا هُشَيْمٌ، أنا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ⦗١٣٧٠⦘، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: «خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، فَمَنْ قَالَ غَيْرَ هَذَا فَهُوَ مُفْتَرٍ، وَعَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُفْتَرِي

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة اللالكائي

 روایت 2448)

.

*#حوالہ_17.......!!*

- أنا أَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ، أنا الْحُسَيْنُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، قَالَ: نا حُمَيْدُ بْنُ الرَّبِيعِ، قَالَ: نا هُشَيْمٌ، أنا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، فَمَنْ قَالَ غَيْرَ هَذَا بَعْدَ مَقَامِي هَذَا فَهُوَ مُفْتَرٍ، عَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُفْتَرِي

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة اللالكائي

 روایت 2604)

.

*#حوالہ_18.......!!*

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا هُشَيْمٌ قَالَ: أنا حُصَيْنٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: أَلَا إِنَّ خَيْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، فَمَنْ قَالَ سِوَى ذَلِكَ بَعْدَ مَقَامِي هَذَا فَهُوَ مُفْتَرٍ، عَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُفْتَرِي

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے خطبہ دیا اللہ کی حمد کی ،اللہ کی ثنا کی پھر فرمایا کہ امت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر ہیں جس نے اس کے خلاف کوئی بات کی تو وہ بہتان باندھنے والا جھوٹا ہے اس پر بہتان اور جھوٹ باندھنے والے کی سزا ہوگی(80 کوڑے سزا ہوگی)

(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل روایت189)

.

*پہلا راوی ہشیم*

فذاكر مالك بن أنس بحديث، فَقَالَ: وهل بالعراق أحد يحسن الحديث إلا ذاك الواسطي؟ يعني هشيما...إن هشيما كان يقوى من الحديث...سمعت يَحْيَى بْن سَعِيد القطان، وعبد الرحمن بن مهدي يقولان: هشيم فِي حصين أثبت...وَقَال أَبُو داود (٣) : قال أَحْمَد بْن حنبل: ليس أحد أصح حديثا عن حصين بن هشيم... سَأَلتُ أبي(ابو حاتم)عَنْ هشيم، فَقَالَ: ثقة

 سیدنا مالک بن انس نے فرمایا کہ ہشیم حسن الحدیث ہے، قوی راوی ہے...اثبت راوی ہے... امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ حصین عن ہشیم صحیح ترین سندوں میں سے ہے، امام ابو حاتم فرماتے ہیں کہ ہشیم ثقہ راوی ہے

(تهذيب الكمال في أسماء الرجال30/280)

.

*دوسرا راوی حصین*

أَبُو حَاتِم الرَّازِيّ هُوَ ثِقَة فِي الحَدِيث فِي آخر عمره سَاءَ حفظه وَهُوَ صَدُوق قَالَ عبد الرَّحْمَن بن أبي حَاتِم سَأَلت أَبَا زرْعَة عَن حُصَيْن هَذَا فَقَالَ ثِقَة

 امام ابوحاتم فرماتے ہیں کہ حصین ثقہ راوی ہے اس کی آخری عمر میں حافظے میں کچھ خرابی آ گئی تھی لیکن پھر بھی وہ سچا صدوق ہے، امام ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ حصین ثقہ راوی ہے

(التعديل والتجريح، لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح2/532)فضائل صحابہ کے محقق نے ابن حجر کے حوالے سے لکھا کہ حصین کے اختلاط و حافظہ خراب ہونے سے پہلے ہی روایات کی گئ ہے لیھذا کوئی ضعف کی بات نہیں

.

قال أبو داود: قلت لأحمد: الشيباني؟قال: بخ، ثم قال: الشيباني ومطرف وحصين، هؤلاء ثقات

 امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا شیبانی کے بارے میں، مطرف کے بارے میں ، حصین کے بارے میں...؟؟ تو جواب ارشاد فرمایا یہ سارے ثقہ راوی ہے

(الجامع لعلوم الإمام أحمد - الرجال16/487)

.

*تیسرا راوی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى*

أحمد بن حنبل: "ابن أبي ليلى ضعيف

 امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ عبدالرحمن بن ابی لیلی ضعیف راوی ہے

(منهج الإمام أحمد في إعلال الأحاديث1/284)

.

قال يحيى بن معين: عبد الرحمن بي أبي ليلى ثقة.وكذلك قال العجلي. قال أبو حاتم: لا بأس به

 عبدالرحمن بن ابی لیلی کے بارے میں امام یحییٰ بن معین اور امام عجلی نے فرمایا کہ ثقہ ہے امام ابو حاتم نے فرمایا کہ اس راوی میں کوئی حرج نہیں

(مختصر تاريخ دمشق15/81)

.

سوال: بعض محققین نے محدثین نے فرمایا ہے کہ ابن ابی لیلی کا سماع سیدنا عمر سے ثابت نہیں ہے

جواب:

تو یہ انقطاع و ارسال ہوا جس سے روایت ضعیف ہوجاتی ہے مگر دیگر ضعیف روایات سے مل کر حسن معتبر بن جاتی ہے

.

والحديث المرسل: حديث ضعيف عند المحدثين، لا يجوز الاحتجاج به، وأجاز الاحتجاج به بعض الفقهاء كالإمام أبي حنيفة، ومالك، وأحمد -رحمهم الله- بشرط أن يكون مرسل التابعي،

 محدثین نے فرمایا ہے کہ مرسل مقبول نہیں ہے لیکن فقہاء جیسے کہ امام ابو حنیفہ امام مالک امام احمد کے نزدیک شرائط کے ساتھ مرسل تابعی کی روایت مقبول ہے

(كتاب الزبد في مصطلح الحديث ص23)

.

جب تابعی رسول کریم سے روایت کرے تو ارسال و انقطاع کے باوجود مقبول کہ تابعی کی شان عظیم ہے تو تابعی جب صحابی سے ارسال و انقطاع ہو تو بدرجہ اولیٰ مقبول ہے اور بالفرض ضعیف مان بھی لیا جائے تو اوپر دیگر ضعیف روایات اسی معنی کی ہیں تو شیعہ سنی نجدی اہلحدیث سب کے مطابق مقبول و معتبر کہلائے گی جیسے کہ شروع میں قاعدہ لکھ آئے.....!!

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.