*##حضرت کے معنی اور اعلیٰ حضرت لفظ پر ریاض شاہ کی تنقید و اعتراض کا جواب اور جعلی برے تو سیاست دین دنیا شاید ہر شعبے میں ہوتے ہیں تو علماء مولوی سیاستدان وغیرہ میں سے اصلی و اچھے کی پہچان کیجیے،سب مولویوں سیاسدانوں سے نفرت نہ کیجیے......!!*
تمھید:
حناب حضرت ریاض شاہ صاحب کہتے ہیں...المفھوم: ابوبکر عمر وغیرہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کو فقط حضرت کہتے ہو اور امام احمد رضا کو "اعلیٰ حضرت" کہتے ہو... بڑے دکھ افسوس کی بات ہے، تکلیف دہ بات ہے
.
*#جواب.و.تحقیق......!!*
بدگمانی نہیں کرنی چاہیے، قرآن و سنت نے لازم کیا ہے کہ اچھے مناسب معنی ہی مراد لینا واجب ہیں...کتب میں ادنی سا غور کرنے پے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ "حضرت" کے دو چار معنی ہیں
①کسی ذات میں فنا، یا وہ ذات جس میں فناء ہوا جائے
②کسی ذات کے بہت قریب...یا وہ ذات جسکا قرب پایا جائے
③جس کے پاس لوگ حاضر ہوتے ہوں
جب ہم حضرات انبیاء کرام علیھم السلام کے لیے حضرت سیدنا کہتے ہیں تو تینوں معنی مراد ہوتے ہیں کہ انبیاء کرام اللہ کی ذات میں فناء ہیں، اللہ کی ذات کے بہت قریب ہیں اور لوگ ان کے پاس حاضر ہوتے ہیں جبکہ ہم کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے لیے "حضرت سیدنا" بولتے لکھتے ہیں تو زیادہ تر پہلے والے دو معنی مراد ہوتے ہیں لیکن اکثر اس معنی میں کہ صحابی نبی پاک کی ذات میں فناء اور انکے قریب ہوتے ہیں
جبکہ
انبیاء کرام علیھم السلام اور صحابہ کرام علیھم الرضوان کے علاوہ کسی کے لیے حضرت بولتے لکھتے ہیں تو اکثر تیسرا معنی مراد ہوتا ہے کہ لوگ طلباء انکے پاس کافی حاضر ہوتے ہیں
اب
کسی نبی پاک
کسی صحابی
کسی عالم ولی
کے لیے "حضرت" بولا لکھا جائے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ تینوں کا رتبہ برابر کر دیا بلکہ بدگمانی سے بچتے ہوئے اچھا گمان رکھتے ہوئے واجب ہوتا ہے کہ ایسے معنی مراد لییے جائیں کہ جو انکی افضلیت و شان و مرتبہ کو ظاہر کرے
.
اور اگر ان تینوں حضرات کے متعلق حضرت بول کر لکھ کر تینوں معنی مراد لییے جائیں تو "تعداد و مقدار کی کمی بیشی" ملحوظ رکھنا لازم ہوگا اب معنی ہوگا کہ
انبیاء کرام اللہ کی ذات میں اتنے فناء ہوتے ہیں اتنا قرب پاتے ہیں کہ صحابہ کرام بھی حضرت ہیں فناء فی اللہ ہیں اللہ کے قریب ہیں مگر اتنا نہیں کہ جتنا انبیاء کرام.... اور علماء بھی حضرت ہیں اتنے نہیں کہ جتنے صحابہ کرام حضرت ہیں کہ صحابہ کرام اللہ و رسول کے زیادہ حضرت ہیں یعنی زیادہ فناء فی اللہ و رسول ہیں یا اللہ و رسول کے زیادہ قریب ہیں کہ علماء اتنے فناء و قربت والے نہیں
پھر
سب حضرات ہیں تو فرق کرنے کے لیے " انبیاء کرام کے لیے علیہ السلام، اور صحابہ کرام اہلبیت عظام کے لیے رضی اللہ عنہ اور زندہ عالم ولی کے لیے دامت برکاتھم وغیرہ اور وفات شدہ کے لیے رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ لکھتے ہیں
.
تو نبی پاک کے لیے حضرت لکھنا کہنا....صحابی اہلبیت کے لیے حضرت لکھنا کہنا، عالم ولی کے لیے حضرت لکھنا کہنا برابر نہیں بلکہ رتبے کے لحاظ سے معنی و مفھوم مدنظر ہوتا ہے
اب
*کسی عالم ولی کو جتنا چاہو اعلیٰ حضرت کہو وہ صحابی کے لیے بولے گئے حضرت لفط سے کم تر ہی ہوگا کہ صحابی کے لیے حضرت بولا لکھا تو معنی یہ ہے کہ وہ اللہ عزوجل یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے قریب تر و فناء اس قدر ہے کہ عالم ولی جتنا بھی اعلیٰ حضرت ہوجائے وہ صحابی کے حضرت ہونے کو بھی نہیں پہنچ سکتا*
.
رہ گئ یہ بات کہ پھر کسی عالم ولی فقیہ کو اعلیٰ حضرت کہنے کی نوبت کیوں آئی تو دیکھیے کہ بعد میں حضرت لفظ بہت زیادہ عام ہوگیا کہ ہر چھوٹے موٹے مولانا عالم ولی کے لیے بھی حضرت بولا جانے لگا تو ایسے ماحول میں ہمعصر علماء اولیاء سے رتبہ زیادہ ظاہر کرنے کے لیے "اعلیٰ حضرت" لفظ تجویر کیا گیا....اسی طرح بعد میں امام لفظ بہت عام ہوگیا تو امام ابوحنیفہ کے لیے امام اعظم تجویز کیا گیا یعنی اپنے وقت کے امام اعظم...اپنے وقت کے اعلیٰ حضرت.....یہ یہ وقت کے امام اعظم و اعلیٰ حضرت کسی صحابی کے حضرت ہونے کو چھو بھی نہیں سکتے
.
*#ہماری مذکروہ گفتگو درج زیل باتوں اصولوں پر مبنی ہے......!!*
پہلی بات:
جناب من ریاض شاہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ نعوذ باللہ اہلسنت اپنے امام کو صحابہ کرام سے بڑھا رہے ہیں....ایسی بدگمانی ایسا اعتراض یا تو جاہل اجہل کرتا ہے یا حسد کا مارا ایسی بات کرتا ہے یا پھر جلدباز غیر تحقیقی شخص جلدبازی میں ایسا ویسا کچھ کہہہ جاتا ہے...ماضی سے مسلسل دیکھا تو ریاض شاہ کی یہ حرکت حسد بغض ایجنٹی چاپلوسی غیروں کو خوش کرنے کی سازش لگتی ہے
مگر
ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ کرے ایسا نہ ہو،بس شاید جلدبازی میں حضرت ایسا ویسا کچھ بول گئے ہونگے لیکن کوئی حضرت کو حاسد بغض والا شریر فسادی انتشاری کہے تو بےجا نہ ہوگا
الحدیث:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الأناة من الله والعجلة من الشيطان
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
انائت(جلد بازی نہ کرنا،مناسب وقت موقعہ الفاظ انداز کا لحاظ رکھنا ، ثابت قدمی، سنجیدگی، وقار، وسعتِ ظرفی،صبر) اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے..(ترمذی حدیث2012)
.
زندگی کا بہت ہی اہم اصول کہ جلدبازی نہیں کرنی چاہیے... چاہے دینی معاملہ ہو یا دنیاوی،
سیاسی معاملہ ہو یا ذاتی معاملہ....
باہر کا معاملہ ہو یا گھریلو معاملہ....
دوستی کا معاملہ ہو یا دشمنی کا....
محبت کا معاملہ ہو یا نفرت کا....
رشتہ توڑنے کا معاملہ ہو یا کسی سے رشتہ جوڑنے کا...
کسی پر اعتماد کا معاملہ ہو یا بے اعتمادی کا...
کسی کو سمجھنےسمجھانے کا معاملہ ہو یا تنقید کا.....
کسی کی تائید و تعریف کا معاملہ ہو یا تردید و مذمت کا...
الغرض
ہر معاملے میں جلد بازی ٹھیک نہیں، اہل علم سے، اہلِ شعور سے حتی کہ چھوٹوں سے بھی مشاورت کر لینی چاہیے مگر جلد بازی نہیں کرنی چاہیے...مناسب انداز و لحاظ رکھنا چاہیے، غصہ ہی غصہ تکبر جلدبازی میں نقصان و تباہی ہے.....اختلافات جگھڑے فسادات کی ایک بڑی وجہ عدمِ برداشت اور جلد بازی ہے
.
کاش کہ حضرت صاحب انتشار و نفرت پھیلانے اتنا بڑا گستاخی کا فتوی لگانے سے پہلے ذرا علماء اہلسنت سے سوال جواب تحقیق توجیہ تطبیق سے کام لیتے
مگر
ہائے افسوس دن بدن لوگ تو بےلگام ہوکر معترض بن ہی رہے ہیں تو بڑے بڑے کہلانے والے بھی بےلگام ہونگے تو انتشار تفرقہ افراتفری بےلگائی گستاخی بےادبی فتوےبازی کا بازار کیسے نا گرم ہوگا
.
*#دوسری بات......!!*
ارے حضرت جی شریعت مطہرہ کے مشھور اصول کہ "تحقیق کرو...جلدبازی نہ کرو...حسد نہ کرو...بدگمانی نہ کرو" یہ ایسے اصول ہیں کہ ادنی سا علم رکھنے والا بھی جانتا ہے مگر آپ ہیں کہ اس دور کے اعلیٰ حضرت محقق سمجھے جاتے ہیں اور حال یہ ہے کہ اللہ کی پناہ
.
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا(سورہ الحجرات آیت12)
والمؤمن ينبغي أن يحمل كلام أخيه المسلم على أحسن المحامل ، وقد قال بعض السلف : لا تظن بكلمة خرجت من أخيك سوءا وأنت تجد لها في الخير محملا .
فمن حق العلماء: إحسان الظن بهم؛ فإنه إذا كان من حق المسلم على المسلم أن يحسن الظن به ، وأن يحمل كلامه على أحسن المحامل، فمن باب أولى العالم
خلاصہ:
قرآن و حدیث میں حکم ہے کہ بدگمانی غیبت تجسس سے بچا جائے،اچھا گمان رکھا جائےاسی وجہ سےواجب ہےکہ مذمت تکفیر تضلیل تفسیق اعتراض کےبجائے عام مسلمان اور بالخصوص اہلبیت صحابہ اسلاف صوفیاء و علماء کےکلام.و.عمل کو
حتی الامکان
اچھےمحمل،اچھے معنی،اچھی تاویل پےرکھاجائے
(دیکھیےفتاوی حدیثیہ1/223...فتاوی العلماءالکبار فی الارہاب فصل3...فھم الاسلام ص20...الانوار القدسیہ ص69)
.
،قال عمر رضی اللہ عنہ
ولا تظنن بكلمة خرجت من مسلم شراً وأنت تجد لها في الخير محملا
حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں
مسلمان کوئی بات(یا عمل) کرے اور آپ اس کا اچھا محمل و معنی پاتے ہوں تو اسے برے معنی پر محمول ہرگز نہ کریں
(جامع الاحادیث روایت31604)
.
*#تیسری بات......!!*
پس لازم ہے ہم سب پر کہ پرمغز معتبر علماء سے سوال کریں اور ہم سب جلدبازی نہ کریں.... جلدبازی کی فتوےبازی نہ کریں...حسد نہ کریں... بےلگام نہ ہوں... اچھا گمان رکھیں... بدگمانیاں تعصب تفرقہ انتشار ناحق نفرت نہ رکھیں نہ پھیلائیں..... خود بھی سلجھیں اور دوسروں کو سلجھائیں، کوشش کریں کہ اصلاح ہو ہماری وجہ سے
مگر
ضدی فسادی ایجنٹ مکار وغیرہ کی مذمت بھی برحق ہے شاید کہ دباؤ مذمت کے ڈر سے ہی شر پھیلانے سے بچے....؟؟
.
پیارے مسلمان بھائیو یاد رکھو........!!
الحدیث:
أَلَا إِنَّ شَرَّ الشَّرِّ، شِرَارُ الْعُلَمَاءِ، وَإِنَّ خَيْرَ الْخَيْرِ، خِيَارُ الْعُلَمَاءِ
ترجمہ:
خبردار............!! بےشک بد سے بدتر چیز برے علماء ہیں اور اچھی سے اچھی چیز اچھے علماء ہیں
(دارمی حدیث382)
غور کیا جائے تو اس حکم میں علم و معلومات پھیلانے والے تمام لوگ و ذرائع اس حکم میں شامل ہیں
لیھذا
علماء، معلمین، مرشد، اساتذہ، میڈیا، سوشل میڈیا، صحافی، تجزیہ کار،وکیل،جج،جرنیل،مبلغ ، واعظ وغیرہ معلومات پھیلانے والے لوگ
اچھی سے اچھی چیز ہیں بشرطیکہ کہ اچھے ہوں سچے ہوں باعمل ہوں
اور
یہی لوگ بد سے بدتر ہیں اگر برے ہوں
.
القرآن،ترجمہ:
سچوں(کو پہچان کر ان)کا ساتھ دو(سورہ توبہ آیت119)
دین و دنیا کو بدنام تو جعلی منافق مکار کر رہےہیں....عوام و خواص سب کو سمجھنا چاہیےکہ #جعلی_مکار_منافق تو علماء پیر اینکر لیڈر سیاست دان جج وکیل استاد ڈاکٹر فوجی وغیرہ افراد و اشیاء سب میں ہوسکتےہیں،ہوتے ہیں
تو
جعلی کی وجہ سے #اصلی سےنفرت نہیں کرنی چاہیےبلکہ اصلی کی تلاش کرنی چاہیے اور اسکا ساتھ دینا چاہیے
.
*#چوتھی بات.....!!*
لیجیے حضرت کے کچھ معنی ملاحظہ کیجیے
والحَضْرَةُ: قرب الشَّي...حضرت کا معنی ہے کسی کے قریب ہونا
(کتاب العین3/102)
.
حَضْرَةُ الرَّجُلِ قُرْبهُ وفِناؤه....حضرت کا ایک معنی ہے کسی ذات میں فناء ہونا، قریب ہونا یا جس میں فناء ہوا جائے، جس کے قریب ہوا جائے،
(لسان العرب 4/196)
.
حَضْرَةُ الرَّجلِ: قُرْبُه وفِنَاؤه...ويُطْلَق على كُلِّ كَبِير يَحْضُر عِنْده النَّاسُ،
حضرت کا ایک معنی ہے کسی ذات میں فناء ہونا، قریب ہونا یا جس میں فناء ہوا جائے، جس کے قریب ہوا جائے،
اور
اسکا اطلاق اس شخص پر بھی ہوتا ہے جس کے پاس لوگ حاضر ہوں...(تاج العروس 11/39ملتقطا)
.
الحضرة) الْحُضُور يُقَال كَلمته بِحَضْرَة فلَان وَقرب الشَّيْء وَيُقَال كنت بِحَضْرَة الدَّار وحضرة الرجل فناؤه ويعبر بهَا عَن ذِي المكانة تجوزا
حضرت، حضور کا ایک معنی ہے قریب ہونے والا، ایک معنی ہےکسی میں فناء ہونے والا،یا جس میں فناء ہوا جائے، جس کے قریب ہوا جائے، ایک معنی ہے رتبے والا
(المعجم الوسیط1/81)
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App,twitter nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574
حضرت یا اعلی حضرت
ReplyDeleteسیدی حضور قبلہ شاہ جی نے مولانا احمد رضا کے بارے میں اعلی حضرت کی بجاۓ حضرت کا لفظ ہی کیا بول دیا حسد و کینہ کے مجسموں نے اپنے خبث و بغض باطن کا اظہار کرنا شروع کر دیا
پہلی بات تو یہ ذہن میں رہے کے مرشدنا الاعظم نے اعلی حضرت مطلقا کہنے لکھنے یا بولنے کی نفی نہیں کی اور نہ ہی ایسے کہنے والے کو غلط کہا۔
دوسری بات یہ ہے کہ سیدی مفکر اسلام نے نصف صدی سے زائد مولانا احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی دینی و ملی خدمات کو سراہا اور اس حوالے سے سیدی المکرم کی کتب لوح و قلم مختلف رسائل اور تقاریر شاہد ہیں۔
تیسری بات ایک مثال کے ساتھ عرض کرنا چاہوں گا امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو ہم امام اعظم کہتے لکھتے ہیں لیکن جب امام ابو حنیفہ کا ذکر ائمہ اہلبیت کی بارگاہ میں ہوتا ہو گا یا وہ امام باقر و امام زید شہید کی بارگاہ میں حاضری کا شرف پاتے ہوں گے تو وہاں امام اعظم تو کیا علامہ بھی کہلانا مناسب خیال نہیں کرتے ہوں گے بلکہ ان کی دہلیز کی غلامی کا قلادہ گلے میں سجا کر ادب و احترام کا پیکر بن کر حاضری دیتے ہوں گے امام ابو حنیفہ کا اپنا فرمان ہے جو آپ نے مسجد نبوی میں امام باقرعلیہ السلام کے سامنے عرض کیا تھا
"واللہ آپ کا احترام ہم پر ایسے ہی لازم ہے جیسے آپ کے نانا کا احترام ان کے صحابہ پر لازم تھا"
گویا خاندان رسول کے افراد ہر دور میں اعلی اکرم اور اعظم ہوتے ہیں اور اہل بیت و سادات پر کسی کو قیاس کیا ہی نہیں جا سکتا۔
چوتھی بات یہ کہ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو اعلی حضرت نہ کہنے سے ان ذات کی توہین و تحقیر قطعا لازم نہیں آتی۔
پانچویں بات ۔امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک شعر میں اہل بیت کے فرد فرید حضور سیدی الاغوث الاعظم کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔
تجھ سے در در سے سگ اور سگ سے ہے نسبت مجھ کو
یعنی میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا
مولانا کے دور میں آپ کے مرشد سید شاہ آل رسول رحمۃ اللہ علیہ نے آپ سے اپنی درگاہ کے باہر چوکی کرنے کےلیے دو کتے لانے کو کہا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے دونوں بیٹوں کو لے گئے اور عرض کی حضرت یہ آپ کے آستانے کی چوکی بھی کریں گے اور آپ کی نوکری بھی۔
چھٹی بات ۔یہ دو مثالیں عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بلاشبہ مولانا امام احمد رضا بڑے ہیں اکابرین میں سے ہیں صاحب علم و فن ہیں لیکن گھرانہ رسول کے سامنے وہ کبھی بھی اپنے آپ کو اعلی نہیں کہتے بلکہ وہ تو فتاوی رضویہ جلد 29 میں لکھتے ہیں :
ہم تو اہل بیت کے خانہ زاد نوکر اور غلام ہیں۔
ساتویں بات رسول اللہ علیہ السلام کے فرمان
انی قد ترکت فیکم ما ان اخذتم بہ لن تضلو کتاب اللہ و عترتی اہل بیتی
کے مطابق اسلام اور اہل سنت سے ہونے کےلیے قرآن کے ساتھ اپنے زمانے کے سادات کے دامان کرم سے وابستگی لازم ہے سنیت کی سند انہی کی دہلیز سے ملتی ہے۔
مفکر اسلام مفسر قرآن قائد اہل سنت حضرت علامہ پیر سید ریاض حسین شاہ جی ادام اللہ فیوضہم نہ صرف نقوی بخاری سادات میں سے ہیں بلکہ آپ اپنی ذات میں بھی اہل علم کے لیے حجت ہیں آپ مترجم و مفسر قرآن اور شیخ الحدیث ہیں ہزارہاں علماء آپ کے شاگرد ہیں درجنوں تصانیف کے آپ مؤلف ہیں اور سینکڑوں گدی نشین آپ کو اپنا رہبر و رہنما تسلیم کرتے ہیں ۔