Labels

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر دس سنگین اعتراضات کے علمی تحقیقی جوابات

 *#شیعہ روافض نیم روافض کی طرف سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر کیے گئے دس اعتراضات کے علمی تحقیقی جوابات.......!!*

*#شیعہ روافض نیم روافض کا اعتراض①.....!!*

شیعہ رافضی نیم رافضی نے لکھا کہ:

مسلمان كو كافر كا وارث قرار دے كر شریعت كی كهلی مخالفت کی معاویہ نے

.

*#جواب و تحقیق.....!!*

شریعت کی کھلی مخالفت ہی مقصود تھی تو کافر کو مسلمان کا مالی وارث کیوں نہ بنایا سیدنا معاویہ نے....؟؟  فقط مسلمان کو وارث کیوں بنایا....؟؟ آخر کچھ تو وجہ ہوگی کہ فقط مسلمان کو کافر کا وارث بنایا....مسلمان کا بھلا سوچا...وہ بھی اجتہاد کرتے ہوئے اور وہ بھی فقط سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نہیں بلکہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ جیسے جلیل القدر صحابی نے بھی ایسا فتوی دیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عمل سے بھی اس فتوے کی تائید ہوتی ہے بلکہ اہلبیت میں سے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے سیدنا محمد بن علی بن حسین نے بھی یہی فتوی دیا....بتا کیا ان سب پر بھی فتوی تم لگاؤ گے کہ شریعت کی کھلی مخالفت کی......؟؟

.

قَوْلَ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَمُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ وَمَنْ تَابَعَهُمْ، مِنْهُمْ: سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، وَغَيْرُهُمَا فِي تَوْرِيثِ الْمُسْلِمِ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ

 سیدنا معاذ سیدنا معاویہ سیدنا سعید بن مسیب سیدنا محمد بن علی بن حسین وغیرہ نے مسلمان کو اہل کتاب(کفار) کا مالی وارث قرار دیا

(معرفۃ السنن للبیھقی9/144)

.

أَنَّ  مُعَاذًا  حَدَّثَهُ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " الْإِسْلَامُ يَزِيدُ وَلَا يَنْقُصُ ". فَوَرَّثَ الْمُسْلِمَ

(دو بھائی تھے ایک یہودی ایک مسلمان، یہودی مر گیا تو)سیدنا معاذ نے یہودی کی وراثت مسلمان کو دی اور اجتہاد فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسلام بڑھتا ہے کہ ہم نہیں ہوتا

(ابوداود تحت الحدیث2912)(استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ تحت حدیث31450نحوہ)

.

مُعَاوِيَةُ فِي أَهْلِ الْكِتَابِ قَالَ: «نَرِثُهُمْ، وَلَا يَرِثُونَنَا كَمَا يَحِلُّ لَنَا النِّكَاحُ فِيهِمْ، وَلَا يَحِلُّ لَهُمُ النِّكَاحُ فِينَا

 سیدنا معاویہ نے اہل کتاب کے متعلق فرمایا کہ ہم مسلمان ان کے مالی وارث ہوں گے لیکن وہ ہمارے مالی وارث نہیں ہوں گے( اس اجتہادی مسئلے کی دلیل یہ دی کہ) جیسے ہمارے لیے ان کی عورتوں کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے لیکن ہماری عورتیں ان کے لیے حلال نہیں ہیں

(استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ روایت31451)

.

، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّهُ أَتَى بِمُسْتَوْرِدٍ الْعِجْلِيِّ وَقَدِ ارْتَدَّ فَعَرَضَ عَلَيْهِ الْإِسْلَامَ فَأَبَى، قَالَ: «فَقَتَلَهُ وَجَعَلَ مِيرَاثَهُ بَيْنَ وَرَثَتِهِ

الْمُسْلِمِينَ»

 مستورد مرتد ہو گیا تھا کافر ہو گیا تھا سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس پر اسلام پیش کیا اس نے قبول نہیں کیا تو سیدنا علی نے اسے قتل کر دیا اور اس مرتد کافر کی میراث مسلمان وارثوں میں تقسیم کر دی

(استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ تحت حدیث32764)

.

 ، أَنَّ عَلِيًّا «قَسَّمَ مِيرَاثَ الْمُرْتَدِّ بَيْنَ وَرَثَتِهِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ»

 بے شک سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے مرتد کی میراث مالی میراث کے حقدار اس کے مسلمان وارثوں کو قرار دے کر اس میں تقسیم کر دی

(استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ تحت حدیث32765)

.

 ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «إِذَا قُتِلَ الْمُرْتَدُّ وَرِثَهُ وَلَدُهُ»

عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ مرتد جب قتل کر دیا جائے تو اس کے وارث مسلمان ہوں تو انہیں وراثت ملے گی

(استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ تحت حدیث32766)

.

 كَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ فِي مِيرَاثِ الْمُرْتَدِّ لِوَرَثَتِهِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَلَيْسَ لِأَهْلِ دِينِهِ شَيْءٌ

 سیدنا عمر بن عبدالعزیز خلیفہ راشد نے یہ خط لکھوا کر بھجوا دیا( کونے کونے میں)کہ مرتد جب مر جائے تو اس کے وارث جو مسلمان وارث تھے وہی مالی وارث ہوں گے لیکن دین اسلام کو چھوڑ کر یہ جس دین کی طرف جائے گا اس دین والے(یہودی عیسائی مشرک کافر) اس کے وارث نہیں کہلائیں گے

(استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ تحت حدیث32767)

.

 ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «يُقْتَلُ وَمِيرَاثُهُ بَيْنَ وَرَثَتِهِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ»

 سیدنا حسن فرماتے ہیں کہ مرتد کو قتل کیا جائے گا اور اس کی میراث اس کے مسلمان وارثوں کو دی جائے گی

(استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ تحت حدیث32770)

.

##########

*#شیعہ روافض نیم روافض کا اعتراض②.....!!*

شیعہ رافضی نیم رافضی نے لکھا کہ:

حج كے موقع پر بلند آواز میں تلبیه پكارنے كی سنت پر پابندی لگائی معاویہ نے

.

*#جواب و تحقیق......!!*

پہلی بات:

تلبیہ بہت ہی مشھور سنت ہے جسے کئ صحابہ کرام نے بھی روایت کیا ہے...اس مشھور و معروف سنت پر پابندی سیدنا معاویہ لگاتے تو بھلا جراءت مند صحابہ کرام و تابعین عظام اہلبیت کرام خاموش بیٹھتے.....؟؟ ہرگز نہیں بلکہ اگر نعوذ باللہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایسی کوئی پابندی لگائی ہوتی تو بہت ساری روایتیں ہوتی ہیں کئ صحابہ کرام نے بتایا ہوتا کہ یہ سیدنا معاویہ نے غلط کام کیا ہے

جبکہ

ہم دیکھتے ہیں کہ پابندی لگانے کا الزام فقط ایک راوی خالد بن مخلد نے لگایا ہے، اپ جس کتاب سے بھی یہ روایت پڑھیں گے تو اس میں یہ راوی اپ کو ضرور ملے گا.... اور یہ راوی کٹر شیعہ بدمذہب تھا، لیھذا یقین ہوجاتا ہے کہ اس جلے بھنے شیعہ نے سیدنا معاویہ کے متعلق یہ جھوٹی من گھڑت روایت لکھی ہے...جھوٹ بولا ہے ورنہ سیدنا معاویہ سے ایسی کوئی پابندی لگانا ثابت نہیں

.

بدمذہب شیعہ خارجی وارجی سے بعض اوقات امام بخاری مسلم جیسے بڑے بڑے امام بھی روایت نقل کرتے ہیں لیکن وہ اس شرط پر نقل کرتے ہیں کہ وہ شیعہ یا خارجی ایسی روایت نہ کرے کہ جو اس کے مذہب کو تقویت دے اگر اس کے مذہب کو تقویت دے تو اس روایت کو نہیں لکھتے تھے اور اس روایت کو جھوٹی من گھڑت روایت قرار دیتے تھے.... لہذا خالد بن مخلد بد مذہب شیعہ راوی سے بھی امام بخاری مسلم نے بعض روایات ایسی لی ہیں کہ جو اس کے مذہب کی تائید نہیں کرتیں، لیکن سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر الزام تراشی والا معاملے میں اس کی روایت ہرگز قابل قبول نہیں کیونکہ یہ اس کے مذہب کی تائید کر رہی ہے تو لہذا یہ من گھڑت جھوٹی کہلائے گی مردود کہلائے گی

.

إِذا لم يكن دَاعِيَة لبدعته وَلَا تقبل إِذا كَانَ دَاعِيَة وَهَذَا مَذْهَب كثيرين أَو الْأَكْثَر من الْعلمَاء وَهُوَ الأعدل الصَّحِيح

 (کفریہ بدعت والے کی تو ہرگز ہرگز کوئی روایت قبول نہیں ہے) اور جو کفر والی بدعت نہ ہو تو اس کی وہ روایت قبول ہے کہ جو اس کے مذہب کی طرف نہ بلائے، اگر اس کے مذہب کی طرف بلانے والی تائید کرنے والی روایت ہوگی تو قبول نہیں کی جائے گی یہی اکثر علماء کا مذہب ہے اور یہی عدل والا انصاف والا صحیح مذہب ہے

(علم الجرح و التعدیل ص64)

.

امام احمد بن حنبل اور امام عقیلی اور ابن عدی کے مطابق خالد بن مخلد کی منکر یعنی غیر ثابت روایات بھی ہیں لیھذا اس کی بیان کردہ روایات کا کوئی اور متابع ہو یا کسی شریعت کے اصول کے خلاف نہ ہو تو پھر مان لو ورنہ ہرگز نہ مانو 

خَالِدِ بْنِ مَخْلَدٍ الْقَطَوَانِيِّ، فَقَالَ: لَهُ أَحَادِيثُ مَنَاكِيرُ

 خالد بن مخلد منکر روایتیں بہت کرتا ہے

(الضعفاء الكبير للعقيلي2/15)

(الكامل في ضعفاء الرجال3/462)

(كتاب موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله1/33)

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر یہ الزام صرف اسی خالد بن مرخلد نے لگایا ہے اس کے علاوہ کسی نے نہیں لگایا کسی راوی نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا لہذا اس خالد بن مخلد کا کوئی متابع نہیں ہے اور یہ شریعت کی اصولوں کی بھی خلاف ہے کہ کسی صحابی کے متعلق خلاف سنت کا ایسا سخت فتوی دیا جائے لیھذا یہ روایت باطل و مردود ہے،ثابت یہی ہوتا ہے کہ یہ خالد بن مخلد کی گھڑی ہوئی خود ساختہ بےبنیاد روایت ہے

.

وقال ابن سعد: كان متشيعا مفرطاً

 خالد بن مخلد کے متعلق امام ابن سعد نے فرمایا ہے کہ یہ حد سے بڑھا ہوا شیعہ تھا

(ھدی الساری لابن حجر ص398)

.

وقال الجوزجاني: «كان شتّاما معلنا بسوء مذهبه»

 امام جوز جانی نے فرمایا کہ خالد بن مخلد اسلاف(بعض صحابہ کرام بعض تابعین عظام) کو گالیاں دیتا تھا اعلانیہ اپنی بد مذہبی کو پھیلاتا تھا

 (أحوال الرجال ص82)

.

شیعہ سنی نجدی سب کا متفقہ اصول ہے کہ

فحديثه منكر مردود

ترجمہ:

اس کی حدیث.و.روایت(بلامتابع بلاتائید یا

مخالفِ صحیح ہو تو)منکر و مردود ہے

[شیعہ کتاب رسائل فی درایۃ الحدیث1/185]

[المقنع في علوم الحديث1/188]

.

*#دوسری بات*

 یہ خالد بن مخلد کہتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بغض کی وجہ سے تلبیہ پر پابندی لگائی..... اس کی یہ بات خود بتا رہی ہے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے، کیونکہ تلبیہ کوئی ایسی سنت تو نہیں ہے کہ جو فقط سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہوئی ہو.... بلکہ درج زیل صحابہ کرام سے بھی تلبیہ منقول ہے

.

سیدہ عائشہ سے


(بخاری1550)

.

سیدنا ابن عمر سے

(بخاری1549)

.

سیدنا جابر سے

(بخاری1570)

.

سیدنا ابن مسعود سے

(مسلم1283)

.

سیدنا ابن عباس سے

(ابوداود1776)

رضی اللہ تعالی اجمعین

.

شیطان وسوسہ دے سکتا ہے کہ یہاں راویوں نے جو تلبیہ بیان کیا وہ آہستہ والا تھا....بلند آواز سے تلبیہ شاید صرف سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے اس لیے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بلند اواز سے تلبیہ سے منع کیا.....تو اسکا جواب ہے کہ یہ بھی شیطانی وسوسہ ہی ہے کیونکہ بلند آواز سے تلبیہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے (دیکھیے ترمزی827) سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی مروی ہے (دیکھیے ترمزی2998) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی مروی ہے(دیکھیے مجمع الزوائد5378)

بلکہ

 امام بخاری کے استاد روایت نقل فرماتے ہیں جس میں ہے کہ صحابہ کرام سارے کے سارے صحابہ کرام بلند اواز سے تلبیہ پڑھتے تھے

كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  يَرْفَعُونَ  أَصْوَاتَهُمْ بِالتَّلْبِيَةِ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام تلبیہ بلند اواز سے پڑھتے تھے

(استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ15057)

.

لیھذا تلبیہ کی سنت اور بغض علی رضی اللہ عنہ...کوئی لاجک کوئی مناسبت ہی نہیں بنتی....لیھذا یہ بھی نشانی ہے کہ شیعہ مردود بد مذہب راوی خالد بن مخلد نے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بغض میں سیدنا معاویہ پر الزام تراشی کی ہے،جھوٹ بولا ہے

.###############

*#شیعہ روافض نیم روافض کا اعتراض③.....!!*

شیعہ رافضی نیم رافضی نے لکھا کہ:

حضرت سیده عائشه صدیقهؓ كے ساته تلخ لهجے میں بات كرنا

(مطلب نعوذ باللہ سیدنا معاویہ امہات المومنین کا خیال نہ رکھتے تھے)

.

*#جواب.و.تحقیق........!!*

سیدہ عائشہ کا فرمان ہے کہ سیدنا معاویہ اچھے ہیں،کچھ معاملات کی وجہ سے سیدنا معاویہ کے متعلق اگر سیدہ عائشہ نے کچھ اگرچہ فرمایا بھی تو سیدنا معاویہ نے عذر سنایا وضاحت دی اور سیدہ عائشہ نے عذر قبول کر لیا....سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ کو تحفے تحائف تک بھیجا کرتے تھے جو اس طرف واضح اشارہ ہے کہ سیدنا معاویہ رسول کریم کی ازواج مطہرات کا خیال رکھا کرتے تھے

.

أَهْدَى مُعَاوِيَةُ لِعَائِشَةَ ثِيَابًا وَوَرِقًا وَأَشْيَاءَ

ترجمہ:

حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کپڑے اور چاندی کے سکے(نقدی) اور دیگر چیزیں تحفے میں بھیجیں

(حلية الأولياء 2/48)


كَيْفَ أَنَا فِي حَاجَاتِكِ وَرُسُلِكِ وَأَمْرِكِ؟، قَالَتْ: صَالِحٌ

 سیدنا معاویہ نے فرمایا کہ( اجتہاد کی بنیاد پے جنگ و قتل کو چھوڑییے)آپ کے معاملے میں اے سیدہ عائشہ میں کیسا ہوں...؟؟ سیدہ عائشہ نے فرمایا آپ اچھے ہیں

(المعجم الكبير للطبراني19/319)

(دلائل النبوة للبيهقي6/457)

.

يَا أمَّ الْمُؤْمِنِينَ كَيْفَ أَنَا فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنْ حَاجَاتِكَ وَأَمْرِكَ؟ قَالَتْ: صَالِحٌ...فَلَمْ يَزَلْ يَتَلَطَّفُ حَتَّى دَخَلَ فَلَامَتْهُ فِي قَتْلِهِ حُجْرًا، فَلَمْ يَزَلْ يَعْتَذِرُ حَتَّى عَذَرَتْهُ

(اجتہاد کی بنیاد پے جنگ و قتل کو چھوڑییے) اے ام المومنین اس کے علاوہ میں کیسا ہوں تو سیدہ عائشہ نے فرمایا اچھے ہیں... سیدنا حجر کے قتل کے معاملے میں سیدہ عائشہ نے سیدنا معاویہ کی ملامت فرمائی تو سیدنا معاویہ نے عذر پیش کیا یہاں تک کہ سیدہ عائشہ نے عذر قبول کر لیا

(البداية والنهاية ت شيري8/60)

.##############

*#شیعہ روافض نیم روافض کا اعتراض④.....!!*

شیعہ رافضی نیم رافضی نے لکھا کہ:

معاهدوں  كی دیت میں سے آدهی دیت خود وصول کرکے کھانا شروع کر دی

.

*#پہلی بات*

 یہ روایت مضطرب ہے کیونکہ زہری لنفسہ کہتا ہے جبکہ ربیعہ لبیت المال کہتا ہے اور مضطرب روایت سے دلیل نہیں بنتی

زہری کی روایت یہ ہے:

وَبِهِ قَالَ الزُّهْرِيُّ، وَمَضَتِ السُّنَّةُ أَنَّ دِيَةَ الْمُعَاهَدِ كَدِيَةِ الْمُسْلِمِ، وَكَانَ مُعَاوِيَةُ أَوَّلَ مَنْ قَصَرَهَا إِلَى النِّصْفِ، وَأَخَذَ النِّصْفَ

لِنَفْسِهِ

 زہری فرماتے ہیں کہ سنت یہی جاری تھی کہ معاہد کی دیت مسلمان کی دیت کی طرح ہے اور معاویہ وہ پہلا شخص ہے جس نے آدھی دیت وارثوں کو دی اور ادھی دیت اپنے لیے رکھی

(البدایہ و النہایہ8/139)

.

ربیعہ کی روایت یہ ہے:

فَقَالَ: مُعَاوِيَةُ: إِنْ كَانَ أَهْلُهُ أُصِيبُوا بِهِ فَقَدْ أُصِيبَ بِهِ بَيْتُ مَالِ الْمُسْلِمِينَ، فَاجْعَلُوا لِبَيْتِ مَالِ الْمُسْلِمِينَ النِّصْفَ وَلِأَهْلِهِ النِّصْفَ خَمْسَمِائَةِ دِينَارٍ وَخَمْسَ مِئَةِ دِينَارٍ

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے( اجتہاد کرتے ہوئے) فرمایا کہ اگر اس کے معاہد کے اہل و عیال کو نقصان پہنچا ہے تو بے شک بیت المال کو بھی نقصان پہنچا ہے تو لہذا آدھی دیت پانچ دینار بیت المال مسلمانوں کے لیے رکھ دو اور ادھی دیت پانچ سو دینار اس کے وارثوں کو دے دو

(مراسیل ابی داود روایت268)

.

مراتب الضعف الشديد (لا يعتبر بحديث رواتها)] مضطرب الحديث، مردود الحديث، منكر الحديث

 مضطرب الحدیث کہا جائے مردود الحدیث کہا جائے منکر الحدیث کہا جائے تو اس کی روایت اس کی بیان کردہ حدیث شدید ترین ضعیف ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی حالت میں قبول نہیں

(منتقى الألفاظ بتقريب علوم الحديث للحفاظ138)

.

*#دوسری بات:

دونوں روایات مرسل ہیں اور مرسل ضعیف ہے، دلیل نہیں بن سکتی خاص کر زہری کی مرسل کو تو ائمہ نے خوب رد کر دیا

.

كان يحيى بن سعيد القطان لا يرى إرسال الزهري وقتادة شيئًا، ويقول: هو بمنزلة الريح...الشافعي...وإرسال الزهري ليس بشيء ذلك... يحيى بن سعيد يعني القطان يقول: مرسل الزهري شر من مرسل غيره

 امام یحیی بن سعید فرماتے ہیں کہ زہری اور قتادہ کی مرسل روایات کوئی حیثیت نہیں رکھتی وہ تو گویا ہوا ہے(ہوائی فائر ہے) اور زہری کی  مرسل روایت تو دیگر راویوں کی مرسل روایت سے شدید ترین بدترین ہے... امام شافعی فرماتے ہیں کہ زہری کی مرسل روایت کوئی حیثیت نہیں رکھتی 

(موسوعة محاسن الإسلام ورد شبهات اللئام8/539)

.

*#تیسری بات*

اگر درست مان بھی لیا جائے تو عین ممکن ہے کہ پانچ سو دینار رقم سے اصل دیت یعنی سو اونٹ جتنی رقم مکمل ہوجاتی ہو اور بقایا پانچ سو دینار بطور صلح مقرر کیے ہوں اور حدیث پاک کے مطابق دیت کے علاوہ صلح کی رقم باہم رضامندی سے مقرر ہوسکتی ہے...یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آدھی دیت اہل دیت کی رضامندی سے بیت المال کے لیے رکھی گئ ہو اور دیت کے معاملے میں رضامندی سے ایسا ہوسکتا ہے

الحدیث:

الدِّيَةَ، وَهِيَ : ثَلَاثُونَ حِقَّةً، وَثَلَاثُونَ جَذَعَةً، وَأَرْبَعُونَ  خَلِفَةً ، وَمَا صَالَحُوا عَلَيْهِ فَهُوَ لَهُمْ

 دیت 100 اونٹ ہیں اور جس پر(باہم رضامندی سے) صلح کر لی جائے( دیت میں کمی یا زیادتی پر باہم رضامندی سے صلح ہو جائے) تو تو یہ ان کے لیے جائز ہے

(ترمذی حدیث1387)

.###################

*#شیعہ روافض نیم روافض کا اعتراض⑤.....!!*

شیعہ رافضی نیم رافضی نے لکھا کہ:

خطبه بیٹھ  كر دینے كی بدعت كو جاری کیا

.

*#جواب.و.تحقیق......!!*

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں خطبہ مبارک بہت چھوٹا ہوا کرتا تھا..... پھر وقت گزرتا گیا اور حالات کے تقاضے بدلتے گئے تو خطبہ طویل ہوتا گیا، اس لیے سیدنا معاویہ نے اجتہاد کیا کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دو بار بیٹھ کر خطبہ دینا بھی ثابت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تم پر مشقت نہیں چاہتا لہذا طویل خطبہ ہوتا ہے تو بیٹھ کر دیا جائے خطیب کے لیے مشقت کھڑی نہ کی جائے...یہ اجتہاد امت کی آسانی کے لیے تھا تاکہ اطمینان و تسلی سے خطیب بیٹھ کر طویل وعظ و نصیحت بھرا خطبہ دے، سیدنا معاویہ نے نعوذ باللہ سنت کو روند ڈالنے یا حسد وغیرہ برے مقاصد کے تحت ایسا نہ کیا....حقیقتا دیکھا جائے تو اجکل خطبہ یعنی خطاب بیٹھ کر ہی کیا جاتا ہے وہ تو ایک حیلہ نکال کر عربی چھوٹا سا خطبہ بنالیا تاکہ عربی میں وہ خطبہ کھڑے ہوکر دیا جائے سنت کی ادائیگی ہوجائے....یہ حیلہ ہی ہے ورنہ خطبہ حقیقتا خطاب کو کہتے ہیں جو اج کل بھی بیٹھ کر خطاب کیا جاتا ہے،وہ الگ بات ہے کہ یہ حیلہ کیا ہی عمدہ حیلہ ہے

.

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُطِيلُ الْمَوْعِظَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ؛ إِنَّمَا هُنَّ كَلِمَاتٌ يَسِيرَاتٌ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ میں وعظ و نصیحت طویل نہیں فرماتے تھے بلکہ چھوٹے آسان کلمات ارشاد فرماتے

(ابوداود حدیث1107)

.

إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى الْمِنْبَرِ وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ

( امام بخاری نے جمعہ کے باب میں یہ حدیث بیان کی کہ) بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ممبر پر تشریف فرما ہوئے اور صحابہ فرماتے ہیں ہم رسول کریم کے ارد گرد بیٹھ گئے

(بخاری کتاب الجمعہ حدیث921)

.

فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ قَعَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ الَّذِي صُنِعَ

 جمعہ کا دن تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو ممبر بنایا گیا تھا اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے

(بخاری حدیث2095)

.

قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس قدر شریعت اجازت دے اتنی اسانی کرو اور بے جا سختی تنگی نہ کرو

(بخاری حدیث6125)

.

امام ابن حجر فرماتے ہیں:

أَنَّ الَّذِي قَعَدَ قَعَدَ بِاجْتِهَادٍ 

 جس نے خطبہ بیٹھ کر دینا شروع کیا اس نے اجتہاد کر کے خطبہ بیٹھ کر دینا شروع کیا

(فتح الباري بشرح البخاري - ط السلفية2/401)

.

ومتى استند المحدث إلى أصل مشروع لم يذم...متى تكون البدعة حسنة؟فالبدعة الحسنة متفق على جواز فعلها والاستحباب لها رجاء الثواب لمن حسنت نيته فيها، وهي كل مبتدع موافق لقواعد الشريعة غير مخالف لشيء

 ہر وہ نیا کام کہ جس کی اصل ثابت ہو تو اس کی مذمت نہیں ہے... بدعت کب حسنہ ہو جاتی ہے کہ اس پر عمل جائز ہو جائے اور ثواب کی امید ہو تو بظاہر جو بدعت ہو وہ اگر شرعی قواعد کے موافق ہو تو بدعت حسنہ ہے

(حقيقه السنة والبدعة للسيوطي ص92)

.

ما ليس له أصلٌ في الشرع، وإنما الحامل عليه مجرد الشهوة أو الإرادة، فهذا باطلٌ قطعًا، بخلاف محدَثٍ له أصلٌ في الشرع إما بحمل النظير على النظير، أو بغير ذلك؛ فإنه حسنٌ....فالحاصل: أن البدعة منقسمةٌ إلى الأحكام الخمسة؛ لأنها إذا عرضت على القواعد الشرعية. . لم تخل عن واحدٍ من تلك الأحكام

 ہر وہ بدعت کہ جس کی شریعت میں اصل ثابت نہ ہو بلکہ اس پر عمل کرنے کے لیے خواہش نفس ہی ہو تو یہ قطعاً باطل بدعت ہے اور وہ نیا کام کہ جو بظاہر بدعت ہو لیکن اس کی شریعت میں اصل موجود ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے... الحاصل بدعت کی پانچ قسمیں ہیں کیونکہ بدعت کو قواعد شریعت پر پرکھا جائے گا تو پانچ قسمیں بنیں گی

(الفتح المبين بشرح الأربعين لابن حجر الہیثمی ص476)

.

أَنَّ الْبِدْعَةَ الْمَذْمُومَةَ مَا لَيْسَ لَهَا أَصْلٌ مِنَ الشَّرِيعَةِ يُرْجَعُ إِلَيْهِ، وَهِيَ الْبِدْعَةُ فِي إِطْلَاقِ الشَّرْعِ، وَأَمَّا الْبِدْعَةُ الْمَحْمُودَةُ فَمَا وَافَقَ السُّنَّةَ، يَعْنِي: مَا كَانَ لَهَا أَصْلٌ مِنَ السُّنَّةِ يُرْجَعُ إِلَيْهِ، وَإِنَّمَا هِيَ بِدْعَةٌ لُغَةً لَا شَرْعًا

 شریعت میں جو بدعت کی مذمت ہے تو اس سے مراد وہ بدعت ہے کہ جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو اور وہ نیا کام کے جو بظاہر بدعت ہو لیکن وہ اچھا ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے جس کی سنت سے اصل ثابت ہو.... بدعت حسنہ دراصل بدعت ہی نہیں اسے لغوی اعتبار سے،(ظاہری اعتبار سے)بدعت کہا جاتا ہے شرعی اعتبار سے وہ بدعت نہیں ہے

(جامع العلوم والحكم ت الأرنؤوط2/131)

.

وَمَا كَانَ مِنْ بِدْعَةٍ لَا تُخَالِفُ أَصْلَ الشَّرِيعَةِ وَالسُّنَّةِ فَتِلْكَ نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ

 وہ بدعت کے جو شریعت کے اصولوں کے خلاف نہ ہو تو وہ کیا ہی اچھی بدعت ہے

(الاستذكار لابن عبد البر 2/67)

.

وَعَنْ زَيْنِ الْعَرَبِ الْبِدْعَةُ مَا أُحْدِثَ عَلَى غَيْرِ قِيَاسِ أَصْلٍ مِنْ أُصُولِ الدِّينِ.وَعَنْ الْهَرَوِيِّ الْبِدْعَةُ الرَّأْيُ الَّذِي لَمْ يَكُنْ لَهُ مِنْ الْكِتَابِ وَلَا مِنْ السُّنَّةِ سَنَدٌ ظَاهِرٌ أَوْ خَفِيٌّ مُسْتَنْبَطٌ وَقِيلَ عَنْ الْفِقْهِيَّةِ الْبِدْعَةُ الْمَمْنُوعَةُ مَا يَكُونُ مُخَالِفًا لِسُنَّةٍ أَوْ لِحِكْمَةِ مَشْرُوعِيَّةِ سُنَّةٍ فَالْبِدْعَةُ الْحَسَنَةُ لَا بُدَّ أَنْ تَكُونَ عَلَى أَصْلٍ وَسَنَدٍ ظَاهِرٍ أَوْ خَفِيٍّ أَوْ مُسْتَنْبَطٍ

 خلاصہ

 امام زین العرب فرماتے ہیں کہ حقیقتا شرعا بدعت اس کو کہتے ہیں کہ جو اصول دین کے قیاس سے ثابت نہ ہو، امام ھروی فرماتے ہیں کہ شرعا بدعت وہ ہے کہ جس کی قرآن اور سنت سے اصل ظاہر نہ ہو یا جسکی خفی اصل ثابت نہ ہو یا جسکی مستنبط اصل نہ ہو تو وہ شرعا بدعت ہے برائی ہے وگرنہ جسکی اصل ظاہر یا اصل خفی یا اصل مستنبط موجود ہو وہ بدعت حسنہ ہے

( بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية1/87)

.

 ان سب روایات میں یہ واضح ہے کہ حدیث پاک سے ثابت ہے کہ جس کی اصل موجود ہو تو اس پر اجتہاد کرتے ہوئے بالخصوس ضرورت کے تحت کوئی مسئلہ اخذ کر لیا جائے تو وہ اجتہادی مسئلہ بدعت نہیں کہلاتا.... بیٹھ کر خطبہ دینا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے تو اس کی اصل ثابت ہو گئی لہذا اجتہاد کیا سیدنا معاویہ نے اور بیٹھ کر خطبہ دینا ضرورت کے تحت جائز قرار دیا کہ اس وقت خطبے طویل ہوا کرتے تھے اور خطیب کے لیے کھڑے رہنے میں مشقت ہوتی تھی

.################

*#شیعہ روافض نیم روافض کا اعتراض⑥.....!!*

شیعہ رافضی نیم رافضی نے لکھا کہ:

زیاد جیسے حرامی كو شریعتِ اسلامیه كی صریح مخالفت كر كے اپنا بهائی قرار دیا معاویہ نے

.

جواب.و.تحقیق.....!!

پہلی بات:

 امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

وكان زياد قوى المعرفة جيد السياسة وافر العقل وكان من شيعة علي وولاه أمرة القدس

 زیاد بہت معرفت والا تھا اور اچھی سیاست اچھی عقل والا تھا بڑی عقل والا تھا... زیاد شیعان علی میں سے تھا سیدنا علی نے اس کو قدس کی امارت سونپی تھی

(لسان المیزان2/493)

.

 امام بخاری کے استاد لکھتے ہیں

فَكَتَبَ مِنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى زِيَادٍ ابْنِهَا»

 سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے خط لکھا کہ یہ خط عائشہ ام المومنین کی طرف سے اپنے بیٹے زیاد کی طرف ہے

(المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت6/186)

الکامل فی تاریخ....سمط النجوم...تاریخ ابن خلدون وغیرہ میں "ابنھا زیاد" ہے...

ثابت ہوا کہ سیدہ عائشہ نے دو ٹوک فرمایا کہ سیدہ عائشہ ام المومنین کی طرف سے یہ خط ہے ام المومنین سیدہ عائشہ کے(اسلام کی نسبت سے) بیٹے زیاد کی طرف خط ہے

.

 اے رافضی نیم رافضی بتا کیا تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی یہی کہے گا کہ آپ نے زیاد جیسے حرامی کو اپنا معتبر والی گورنر وغیرہ بنایا......؟؟ کیا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے تم یہی کہو گے کہ آپ نے ایک حرامی کو اپنا بیٹا کہا.....؟؟ تو پھر ہمیں کہنے دیجیے کہ سیدنا معاویہ سے ہی بغض لگتا ہے تیرا......!!

.

*#دوسری بات*

 بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ زیاد نے دعوی کیا کہ میں سیدنا معاویہ کا بھائی ہوں، اور اس پر گواہ پیش کیے... اور بعض روایات میں ہے کہ سیدنا معاویہ نے ان کو اپنا بھائی قرار دیا اور گواہ پیش کییے... لہذا یہ ضروری نہیں ہے کہ سیدنا معاویہ نے ہی پہل کی ہو، بلکہ اگر یہ شرعا نامناسب کام ثابت ہو جائے ناجائز کام ثابت ہو جائے تو اس کو زیاد کی طرف منسوب کیا جائے گا سیدنا معاویہ صحابی کی طرف گناہ اور گندے کام کی نسبت نہ کی جائے گی

.

*#تیسری بات*

جاہلیت کے نکاحوں سے جو جاہلیت کے طریقے پر نسب ثابت کرنے کا طریقہ تھا اسے اسلام نے ثابت النسب برقرار رکھا اور اب آئندہ یہ طریقہ جاری کیا کہ ولد فراش کے لیے ہوگا

اب معاملہ یہ ہوا تھا کہ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ نے سفر میں ایک جگہ طائف میں جاہلیت کے نکاحوں میں سے ایک کے ذریعے نکاح کیا تھا تو اس سے زیاد پیدا ہوا اور جاہلیت کے قواعد مطابق وہ ابوسفیان کا بیٹا قرار پایا تھا لیکن ابو سفیان چونکہ واپس لوٹ چکے تھے تو یہ بات زیادہ مشہور نہ ہوئی.... جب زیاد نے اس بات کو اٹھایا یا سیدنا معاویہ نے اس بات کی طرف توجہ کی پتہ لگوایا کہ کیا واقعی جاہلیت ہی کے زمانے میں یہ اسکا بھائی قرار دیا جا چکا تھا....؟؟ تو تقریبا 10 گواہوں نے گواہی دی کہ ایسا ہی ہوا تھا لیکن یہ بات مشہور نہ ہوئی تھی.... لہذا سیدنا معاویہ نے اسے اپنا بھائی تسلیم کر لیا، اور وہ جو حدیث پاک میں ہے کہ ولد فراش کے لیے ہے وہ اس وقت لاگو ہوتا جب جاہلیت میں بیٹا قرار نہ پایا ہوتا...کیونکہ اسلام نے جاہلیت کے انساب ثابت رکھے کسی کو جاہلیت کے نکاحوں کی وجہ سے حرامی قرار نہ دیا گیا


(ایک شخص کے بارے میں سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دعوی ایا کہ ایک اسے اپنے اپنی طرف منسوب کرتا اور دوسرا اپنی طرف... تو ادھر سوال پیدا ہوا تھا کہ اگر جاہلیت کے نکاح سے نسب معتبر تھے تو پھر یہ جھگڑا کیسے ہوا....؟؟ اس کا جواب دیتے ہوئے علامہ قرطبی اور علامہ ابن حجر نے فرمایا کہ جاہلیت کے نسب ثابت کرنے کے طریقوں میں سے کوئی طریقہ نہیں ہوا تھا اس لیے جھگڑا ہوا ورنہ جو طریقہ جاہلیت میں نسب ثابت کرنے کا تھا وہ جو معتبر تھا وہ اپنایا جاتا تو جھگڑا نہ ہوتا.... اسی بات کو علامہ قرطبی اور علامہ ابن حجر نے ان الفاظوں میں بیان کیا:

الْقُرْطُبِيُّ فَقَالَ وَلَمْ يَكُنْ حَصَلَ إِلْحَاقُهُ بِعُتْبَةَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِمَّا لِعَدَمِ الدَّعْوَى وَإِمَّا لِكَوْنِ الْأُمِّ لَمْ تَعْتَرِفْ بِهِ لِعُتْبَةَ

 جس عورت سے یہ بیٹا پیدا ہوا تھا اس نے اس کو کسی کی طرف منسوب نہیں کیا تھا اور اور کسی نے اسے اپنا بیٹا نہیں کہا تھا اسی لیے جھگڑا پیدا ہوا کہ یہ کس کا بیٹا ہے( مطلب واضح ہے کہ اگر عورت کہہ دیتی کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے یا وہ شخص مان جاتا کہ ہاں یہ میرا بیٹا ہے تو یہ جاہلیت کی نسب ثابت کرنے کے اس طریقوں کے مطابق نسب ثابت ہو جاتا)

(فتح الباری شرح بخاری ابن حجر12/33)

.

 جاہلیت کے اسی نسب ثابت کرنے کے طریقے سے سیدنا ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کا بیٹا قرار پایا تھا کہ زیاد کی والدہ نے اس کو سیدنا ابو سفیان کی طرف منسوب کر دیا تھا تو ثابت ہو گیا کہ یہ سیدنا ابوسفیان کا بیٹا تھا سیدنا معاویہ کا بھائی ہو گیا تھا لیکن یہ بات زیادہ مشہور نہ ہوئی تھی

.

وكان أبو سفيان قد ذهب إلى الطائف في بعض حاجاته فأصابها بنوع من أنكحة الجاهلية وولدت زيادا هذا، ونسبه [٢] إلى أبي سفيان وأقرّ لها به، إلّا أنه كان بخفية

 سیدنا ابو سفیان کسی کام سے طائف گئے اور وہاں پر جاہلیت کی نکاحوں میں سے ایک نکاح کر لیا جس سے زیاد  پیدا ہوا اور اس عورت نے زیاد کو ابو سفیان کی طرف منسوب کیا اور سیدنا ابو سفیان نے اس کا اقرار بھی کر لیا مگر یہ کہ وہ بات زیادہ مشہور نہ ہوئی

(كتاب تاريخ ابن خلدون3/9)

.

دس گواہوں کے نام یہ ہیں...جنہوں نے گواہی دی کہ ہاں زیاد سیدنا ابوسفیان کا بیٹا اور سیدنا معاویہ کا بھاءی ہے

وشهد بذلك زياد بن أسماء الحرمازي، ومالك بن ربيعة السلوليّ، والمنذر بن الزبير فيما ذكر المدائني بأسانيده وزاد في الشهود جورية بنت أبي سفيان والمستورد بن قدامة الباهليّ، وابن أبي نصر الثقفيّ، وزيد بن نفيل الأزديّ، وشعبة بن العلقم المازنيّ، ورجل من بني عمرو بن شيبان، ورجل من بني المصطلق، وشهدوا كلهم على أبي سفيان أنّ زيادا ابنه،

(الاصابۃ فی تمییز الصحابہ 2/528)

.

أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمَتِ الْعَرَبُ أَنِّي كُنْتُ أَعَزُّهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَأَنَّ الإِسْلامَ لَمْ يَزِدْنِي إِلا عِزًّا، وَأَنِّي لَمْ أَتَكَثَّرْ بِزِيَادٍ مِنْ قِلَّةٍ، وَلَمْ أَتَعَزَّزْ بِهِ مِنْ ذِلَّةٍ، وَلَكِنْ عَرَفْتُ حَقًّا لَهُ فَوَضَعْتُهُ مَوْضِعَهُ،

 سیدنا معاویہ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم تم جانتے ہو کہ عرب کے اندر میں عزت والا تھا اور اسلام نے میری عزت مزید بڑھا دی اور میں زیاد کو اپنا  بھائی تسلیم کرکے کوئی عزت و دولت نہیں کما رہا، بلکہ حق کو اس کی جگہ پر رکھا ہے

(تاریخ طبری5/215)

.

 سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بھی تسلیم کر لیا تھا کہ زیاد ابو سفیان کا بیٹا ہے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا بھائی ہے، اسی لیے سیدہ عائشہ نے زیاد کو ابو سفیان کا بیٹا کہہ کر لکھا خط میں

إِلَى زياد بْن أَبِي سُفْيَان من عائشة أم الْمُؤْمِنِين، فلما رأى زياد أنها قَدْ كاتبته ونسبته إِلَى أَبِي سُفْيَان سر بذلك وأكرم مرة وألطفه، وقال للناس: هَذَا كتاب أم الْمُؤْمِنِين إلي فيه وعرضه عليهم ليقرءوا

 سیدہ عائشہ نے خط لکھا کہ ام المومنین عائشہ کی طرف سے یہ خط ہے زیاد کی طرف جو کہ بیٹا ہے ابو سفیان کا... زیاد نے جب یہ خط پڑھا تو اسے بہت ہی خوشی ہوئی، اور ان کا شکریہ ادا کیا اور انہیں تحفے تحائف دیے اور لوگوں کو یہ خط نکال کر دکھاتا تھا کہ دیکھو پڑھو سیدہ عائشہ نے بھی مجھے سیدنا ابو سفیان کا بیٹا تسلیم کر لیا ہے

( كتاب فتوح البلدان ص351)

.

#################

*#شیعہ روافض نیم روافض کا اعتراض⑧.....!!*

شیعہ رافضی نیم رافضی نے لکھا کہ:

اپنے عاملین و نائبین سے عوام كو قصاص لینے كی اجازت نه دی معاویہ نے

.

*#جواب.و.تحقیق......!!*

 جھوٹا الزام بہتان تراشی ہے سیدنا معاویہ پر.... سیدنا معاویہ خود کو یا اپنے نائبین کو اپنے عاملین کو شریعت سے ماورا نہیں سمجھتے تھے ہرگز نہیں، سب سے پہلے ایک واقعہ عرض کرتا ہوں کہ جس سے پتہ چلے گا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ شریعت مطہرہ اسلامیہ کے سخت پابند تھے

واقعہ:

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث و سنت کی اتباع و پیروی کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے·

صحابی سیدنا ابو مریم الازدی حضرت سیدنا معاویہ کے پاس تشریف لائے تو حضرت معاویہ نے فرمایا:

آپ کی تشریف آوری سے ہمارا دل باغ بہار ہوگیا، فرمائیے کیسے آنا ہوا.......؟؟

صحابی ابو مریم الازدی(جو سیدنا معاویہ سے عمر میں چھوٹے تھے)نے فرمایا کہ میں آپ کو ایک حدیث پاک سنانے آیا ہوں

"رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

جسے اللہ نے مسلمانوں کی حکومت(لیڈری، ذمہ داری، عھدے داری)سے نوازا ہو اور وہ لوگوں پر اپنے دروازے بند کر دے حالانکہ لوگ تنگ دستی میں ہوں حاجات والے ہوں اور فقر و فاقہ مفلسی والے ہوں تو اللہ قیامت کے دن ایسے(نا اہل) حکمران و ذمہ دار پر(رحمت کے، جنت کے) دروازے بند کر دے گا حالانکہ وہ تنگ دست ہوگا حاجت مند ہوگا مفلس و ضرورت مند ہوگا..."

صحابی کہتے ہیں کہ حدیث پاک سنتے ہی فورا سیدنا معاویہ نے لوگوں کی حاجات و مسائل کے سننے، حل کرنے ، مدد کرنے کے لیے ایک شخص کو مقرر کر دیا

(ابوداود حدیث2948بالحذف الیسیر)

.

بادشاہ وقت صحابی سیدنا معاویہ عمر میں چھوٹے صحابی کی بیان کردہ اس حدیث پر فورا عمل کیا جس پر بظاہر اب تک عمل نہ تھا... بظاہر لگتا تھا کہ سیدنا صحابی ابو مریم تنقید فرما رہے ہیں بظاہر مخالف نظر ارہے تھے لیکن پھر بھی سیدنا معاویہ نے اتباعِ سنت اور حکم نبوی کی  پیروی کی ایسی جھلک واضح کر دی کہ کوئی بھی حدیث پاک سنا دے تو وہ اس پر سختی سے عمل پیرا ہوتے تھے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اپ شریعت مطہرہ کے بہت پابند تھے... ہاں جس معاملے میں شریعت نے اجتہاد کا دروازہ کھولا وہاں اجتہاد بھی فرمایا

.

لما كان معاوية موصوفًا به من الفضل والدين والحلم وكرم الأخلاق

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ فضیلت والے دین والے دین پر عمل کرنے والے حلم و بردباری والے کرم نوازی والے تھے اچھے اخلاق والے تھے

(الکوکب الوھاج شرح مسلم جز23 ص463)

.

 اب اتے ہیں اصل مسئلے کی طرف کہ جب ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم یعنی سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی اتباعِ شریعت کی ایسی حالت ہے کہ سختی سے عمل فرماتے تھے تو بھلا اپنے عاملوں نائبوں سے قصاص کیسے معاف کریں گے.....؟؟ ضرور کچھ اور مسئلہ ہوگا....تو لیجیے پڑہیے:

فَقَالُوا لَهُ: إِنْ نَائِبَكَ قَطَعَ يَدَ صَاحِبِنَا فِي شُبْهَةٍ فَأَقِدْنَا مِنْهُ. فَقَالَ: لَا سَبِيلَ إِلَى الْقَوْدِ مِنْ نُوَّابِي وَلَكِنِ الدِّيَةُ

 لوگوں نے کہا کہ اے سیدنا معاویہ اپ کے نائب نے ہمارے ایک ساتھی کا ہاتھ کاٹ دیا ہے شبہے کی وجہ سے، تو ہمیں قصاص لینے دیجئے تو سیدنا معاویہ نے فرمایا کہ شبہ کی وجہ سے قصاص تو نہیں ہوتا ہاں دیت ہو جائے گی

( البداية والنهاية - ت التركي11/281)

.

الحديث:

ادرءوا الحُدُود بالشُّبُهاتِ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حد( قصاص وغیرہ) شبہات کی وجہ سے نہ لو(بلکہ اسکی دیت دو لو)

(جامع صغیر حدیث1271)

.

.###################

*#شیعہ روافض نیم روافض کا اعتراض⑨.....!!*

شیعہ رافضی نیم رافضی نے لکھا کہ:

امام حسن كے ساته طے كی گئی شرطوں كو پورا نه کیا معاویہ نے

.

*#جواب.و.تحقیق.....!!*

شرائط_صلح:

فأرسل إليه الحسن يبذل له تسليم الأمر إليه، على أن تكون له الخلافة من بعده، وعلى ألا يطالب أحدًا من أهل المدينة والحجاز والعراق بشيء مما كان أيام أبيه، وعلى أن يقضي ديونه، فأجاب معاوية إلى ما طلب، فاصطلحا على ذلك فظهرت  المعجزة النبوية في قوله صلى الله عليه وسلم: "يصلح الله به بين فئتين من المسلمين"

(پہلی شرط:)

سیدنا حسن نے سیدنا معاویہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ سیدنا معاویہ کو خلافت اور حکومت دینے کے لیے تیار ہیں ان شرائط پر کہ سیدنا معاویہ کے بعد حکومت سیدنا حسن کو ملے گی

اور

(دوسری شرط)

اہل مدینہ، اہل حجاز اور اہل عراق سے(محض اختلاف و گروپ کی وجہ سے)کوئی مطالبہ مواخذہ نہیں کیا جائے گا(شرعا جو مواخذہ ہوگا وہ کیا جائے گا)

اور

(تیسری شرط)

ایک شرط یہ تھی کہ سیدنا معاویہ حضرت امام حسن کا قرض چکائیں گے تو حضرت معاویہ نے ان شرائط پر صلح کرلی تو معجزہ نبوی ظاہر.و.پورا ہوا کہ جو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ تعالی میرے اس بیٹے کے ذریعے سے دو مسلمان گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا 

(تاريخ الخلفاء ص147)

(سمط النجوم العوالي3/89)

(أسد الغابة ط الفكر1/491)

(تهذيب الأسماء واللغات1/159)

.

(چوتھی شرط)

وإني قد أخذت لكم على معاوية أن يعدل فيكم

امام حسن نے فرمایا کہ میں نے سیدنا معاویہ سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ تم میں عدل کا معاملہ کریں گے 

(الطبقات الكبرى-متمم الصحابة1/326)

.

.

(پانچویں_شرط)

*#متنازعہ،غیر متفقہ شرط کہ ولی عہد نہ کریں گے:*

 وعلى أنه ليس لمعاوية أن يعهد لأحد من بعده، وأن يكون الأمر شورى....ردھما الی معاویہ

سیدنا امام حسن نے یہ شرط لکھی کہ سیدنا معاویہ اپنے بعد کسی کو مقرر نہ کریں گے بلکہ معاملہ شوری پر چھوڑیں گے۔۔۔یہ شرائط لکھ کر سیدنا معاویہ کی طرف خط بھیجا  

(أنساب الأشراف للبلاذري3/42)

.

متنازعہ شرط نہ منظور ہوکر صلح ہوئی:

فَلَمَّا أَتَتِ الصَّحِيفَةُ إِلَى الْحَسَنِ اشْتَرَطَ أَضْعَافَ الشُّرُوطِ الَّتِي سَأَلَ مُعَاوِيَةَ قَبْلَ ذَلِكَ وَأَمْسَكَهَا عِنْدَهُ، فَلَمَّا سَلَّمَ الْحَسَنُ الْأَمْرَ إِلَى مُعَاوِيَةَ طَلَبَ أَنْ يُعْطِيَهُ الشُّرُوطَ الَّتِي فِي الصَّحِيفَةِ الَّتِي خَتَمَ عَلَيْهَا مُعَاوِيَةُ، فَأَبَى ذَلِكَ مُعَاوِيَةُ وَقَالَ لَهُ: قَدْ أَعْطَيْتُكَ مَا كُنْتَ تَطْلُبُ فَلَمَّا اصْطَلَحَا

جو صحیفہ امام حسن کی طرف معاویہ نے روانہ کیا تھا جس پر مہر لگائی تھی امام حسن نے مذکورہ شرائط کے علاوہ کئ شرائط لگا دی تو حضرت معاویہ نےان(زائد)شرائط کو پورا کرنے سے انکار کر دیا پھر جب(زائد متنازع شرائط کو نکال کر ) دونوں نے صلح کرلی

(الكامل في التاريخ ج3 ص6)

۔

تفصیل:

 سیدنا معاویہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ بنا کر نہ جائیں گےتو اس شرط کے غیرمتفقہ متنازعہ  غیرموجود مردود ہونے کی تین وجوہ ہیں

①ایک وجہ یہ ہے کہ سب سے پہلی شرط یہ تھی کہ حکومت سیدنا معاویہ کے بعد سیدنا حسن کو ملے گی شوری کا تو تذکرہ ہی نہیں تھا جبکہ یہ پانچویں شرط شوری کا بتا رہی ہے لیھذا یہ شرط پہلی شرط کے خلاف و مردود ہے…پہلی شرط میں یہ ہے کہ سیدنا حسن کو بعد از سیدنا معاویہ خلافت ملے گی، پہلی شرط میں یہ نہیں لکھا کہ سیدنا حسین کو حکومت ملے گی لیھذا سیدنا حسن کی وفات ہوگئ تو پہلی شرط خود بخود کالعدم ہوگئ اس لیے سیدنا معاویہ نے اجتہاد کرتے ہوئے یزید کے لیے بیعت لی...زیادہ سے زیادہ اسے اجتہادی خطاء کہا جاسکتا ہے مگر سیدنا معاویہ کو بدعہد خائن دھوکےباز نہیں کہا جاسکتا

②اور کسی کو مقرر نہ کرنے کی یہ شرط کسی معتبر تاریخ کی کتاب میں بھی نہیں آئی۔۔۔

③نیز یہ بھی کتابوں میں آیا ہے کہ کچھ شرطیں ایسی تھی کہ جن کو سیدنا معاویہ نے رد کر دیا تھا تو عین ممکن ہے کہ یہ بھی انہی شرائط میں سے ہوں کہ جن کو سیدنا معاویہ نے رد کر دیا اور اس کے بعد سیدنا حسن سے صلح ہو گئی ہو

.

*#سیدنا معاویہ نے شرائط پوری کیں.....!!*

فأجابه معاوية

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام شرائط پوری کیں

(سير أعلام النبلاء - ط الحديث4/338)

.

فَكتب إِلَى مُعَاوِيَة وَاشْترط شُرُوطًا إِن أَجَابَهُ إِلَيْهَا سمع وأطاع، فَأَجَابَهُ مُعَاوِيَة إِلَيْهَا

 سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف لکھا اور اس میں بہت ساری شرطیں لکھیں اور فرمایا کہ معاویہ اگر یہ شرطیں پوری کرے تو میں صلح کرکے سیدنا معاویہ کی بیعت کرونگا، سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام شرطیں پوری فرمائیں

(كتاب تاريخ ابن الوردي1/57)

.

أنه اشترط عليه شروطا كثيرة فالتزمها ووفى له بها

 سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے کئی شرائط رکھیں، جن کو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے  لازمی پورا کیا

(الصواعق المحرقہ ابن حجر ہیتمی مکی2/625)

.

سیدنا معاویہ کی حکومت سیدنا عمر کی حکومت جیسی عادلانہ برحق تھی،رضی اللہ تعالیٰ عنھما

عَمِلَ مُعَاوِيَةُ بِسِيرَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ سِنِينَ لَا يَخْرِمُ مِنْهَا شَيْئًا»

سیدنا معاویہ نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت پر سالوں تک عمل کیا۔۔۔ان سالوں میں سوئی برابر بھی راہ حق سے نہ ہٹے 

(السنة لأبي بكر بن الخلال روایت683)

وقال المحقق إسناده صحيح

(حاشیۃ معاوية بن أبي سفيان أمير المؤمنين وكاتب وحي النبي الأمين صلى الله عليه وسلم - كشف شبهات ورد مفتريات1/151)

سالوں کی قید شاید اس لیے لگاءی کہ تاکہ وہ سال نکل جائیں جن میں سیدنا معاویہ نے ولی عہد کیا...کیونکہ ولی عہد سیدنا عمر کی سیرت نہیں بلکہ سیدنا معاویہ کا اجتہاد تھا...جب سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حکومت سیدنا عمر کے نقش قدم پر تھی اور سیدنا عمر کی حکومت رسول کریم کے ارشادات کے مطابق تھی تو ایسی برحق عادلانہ حکومتوں کے بارے میں کیوں نہ کہا جائے کہ فیضان عمر جاری رہے گا ، فیضان علی جاری رہے گا ، فیضان معاویہ جاری رہے گا 

.

سیدنا معاویہ فقیہ مجتہد تھے

قَالَ : إِنَّهُ فَقِيهٌ

  فرمایا کہ بےشک معاویہ فقیہ ہیں

(بخاری روایت3765)

.

الحدیث:

فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ، فَلَهُ أَجْرٌ

 اجتہاد کرے پھر وہ درستگی کو پائے تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر اجتہاد کرے اور خطاء کرے تو اس کے لئے ایک اجر ہے(بخاری حدیث7352)

.

 لہذا ولی عہد کرنا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا اجتہاد تھا اور اجتہاد میں اگر خطاء بھی واقع ہو تو اس کے لیے ایک اجر ہے...لیھذا ولی عہدی کی وجہ سے سیدنا معاویہ پر طعن و مذمت نہیں بنتی......!!

.

#################

*#شیعہ روافض نیم روافض کا اعتراض10.....!!*

شیعہ رافضی نیم رافضی نے لکھا کہ:

یزید زانی شرابی بلکہ جہنمی جیسے بیكار بیٹے كے لیے حكومت كا راسته هموار كرنے كی سر توڑ كرششیں كی معاویہ نے....!!

.

*#جواب.و.تحقیق......!!*

.بیعت کےوقت یزید پلید نااہل و برا نہ تھا لیھذا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کہ برے و نا اہل کو ولی عہد کیا جھوٹ ہے لیھذا یہ اعتراض کہ یزید کے والدین نے تربیت بری کی،جھوٹ ہے..........!!

.

جب یزید کی لئے بیعت لی گئ، بیعت کی گئی تو اس وقت یزید برا نہ تھا ، نا اہل نہ تھا ، بعد میں پلید ظالم برا فاسق و فاجر بنا یا ظاہر ہوا....بیعت کے وقت نااہل و برا نہ تھا اس پر ہم مختصراً حق چار یار کی نسبت سے چار دلائل  پیش کر رہے ہیں 

*دلیل نمبر 1*

بَلَغَ ابْنَ عُمَرَ أَنَّ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ بُويِعَ لَهُ فَقَالَ: «إِنْ كَانَ خَيْرًا رَضِينَا , وَإِنْ كَانَ شَرًّا صَبَرْنَا

جب صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ خبر پہنچی کہ یزید بن معاویہ کی بیعت کی گئی ہے تو آپ نے فرمایا کہ اگر اچھا نکلا تو ہم راضی ہو جائیں گے اور اگر برا نکلا تو ہم صبر کر لیں گے 

(استادِ بخاری مصنف ابن أبي شيبة ,6/190روایت30575)

صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ کہنا کے اگر برا نکلا واضح دلیل ہے کہ اس وقت یزید  برا نہیں تھا


.

*دلیل نمبر 2*

 بايعه ستون من أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم

ساٹھ صحابہ کرام نے یزید کی بیعت کی

(عمدة الأحكام الكبرى1/42)

(ذيل طبقات الحنابلة3/55)

بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنے صحابہ کرام کسی شرابی زانی بے نمازی فاسق و فاجر نااہل کی بیعت کریں۔۔۔۔؟؟

.

*دلیل نمبر3*

اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي وَلَّيْتُهُ لِأَنَّهُ فِيمَا أَرَاهُ أَهْلٌ لِذَلِكَ فَأَتْمِمْ لَهُ مَا وَلَّيْتُهُ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي إِنَّمَا وَلَّيْتُهُ لِأَنِّي أُحِبُّهُ فَلَا تُتْمِمْ لَهُ مَا وَلَّيْتُهُ

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب یزید کے لیے بیعت لے لی تو آپ یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اللہ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کو اس لیے ولی عہد کیا ہے کہ وہ اس کا اہل ہے تو اس کو ولی عہدی عطا فرما اور اگر تو جانتا ہے کہ میں نے اس کو ولی عہد محض اس لئے بنایا ہے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کے لیے ولی عہدی کو مکمل نہ فرما

(البداية والنهاية ط هجر11/308)

صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہ نے بیٹے کو اہل اچھا سمجھتے تھے تب بھی تو ان کے لئے بیعت لی اور آگے کے لئے دعا فرمائی

.

*دلیل نمبر4*

تمام معتبر کتب میں لکھا ہے کہ دو تین صحابہ کرام نے یزید کی بیعت نہ کی تو انہوں نے بیعت نہ کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ یہ طریقہ ولی عہدی مروجہ ماثورہ نہیں ہے بلکہ سیدنا معاویہ کا(اجتہاد کردہ)نیا طریقہ ہے۔۔۔اگر یزید نااہل ہوتا زانی شرابی فاسق و فاجر ہوتا تو صحابہ کرام ضرور اعتراض میں اس چیز کا تذکرہ کرتے... صحابہ کرام کو کوئی عذر معلوم نہ ہوا سوائے اس کے کہ ولی عہدی اسلام میں ایک نیا طریقہ ہے 

ويزيد أخوكم، وابن عمَكم، وأحسن النَّاس فيكم رأيًا، وإنما أردت أن تقدموه، وأنتم الذين تنزعون وتؤمرون وتقسمون، فسكتوا، فَقَالَ: ألَّا تجيبوني! فسكتوا، فأقبل عَلَى ابن الزبير فقال: هات  يابن الزبير، فإنك لعَمْري صاحب خطبة القوم. قَالَ: نعم يَا أمير المؤْمِنِينَ، نخيرك بَيْنَ ثلاث خصال، أيها مَا أخذتَ فهو لك، قَالَ: للَّهِ أَبُوك، اعرضهنّ، قَالَ: إن شئتَ صُنع مَا  صنع رَسُول اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ صُنع مَا صنع أَبُو بكر، وإن شئت صُنع مَا صنع عمر. قَالَ: مَا صنعوا؟ قَالَ: قُبِضَ  رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فلم يعهد عهدًا، وَلَمْ يستخلف أحدًا، فارتضي المسلمون أبا بكر. فَقَالَ: إِنَّهُ ليس فيكم  الْيَوْم مثل أَبِي بكر، إن أبا بكر كَانَ رجلًا تُقطع دونه الأعناق، وإني لست آمن عليكم الاختلاف. قَالَ: صدقت، واللَّه مَا نحب أن تدعنا، فاصنع ماصنع أَبُو بكر. قَالَ: للَّهِ أَبُوك وَمَا صنع؟ قَالَ: عمد إِلَى رَجُلٌ من قاصية11 قريش،  ليس من رهطه فاستخلفه، فإن شئت أن تنظر أي رَجُلٌ من قريش شئت، ليس من بني عَبْد شمس، فنرضى بِهِ. قَالَ: فالثالثة مَا هِيَ؟ قَالَ: تصنع مَا صنع عمر. قَالَ: وَمَا صنع؟ قَالَ: جعل الأمر شورى في ستة،  ليس فِيهِم أحد من ولده، وَلَا من بني أبيه، وَلَا من رهطه. قَالَ: فهل عندك غير هَذَا؟ قَالَ: لَا،

انظر: البداية "8/ 56-58"، تاريخ الطبري "5/ 270-276"، الكامل "3/ 490"

(تاريخ الإسلام ط التوفيقية4/77,78)

.

مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ جن کا شمار اکابر علماے اہل سنت میں ہوتا ہے ، آپ کا "فتاوی فیض الرسول" مشہور زمانہ ہے ، آپ بعض اذہان کے اندر اور زبانوں کے اوپر آنے والے ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

"رہا یزید کا فسق و فجور تو کہیں یہ ثابت نہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی میں یزید فاسق و فاجر تھا ، اور نہ ہی یہ ثابت ہے کہ انہوں نے یزید کو فاسق و فاجر جانتے ہوئے اپنا جانشین بنایا ، یزید کا فسق و فجور دراصل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ظاہر ہوا ، اور فسق ظاہر ہونے کے بعد فاسق قرار دیا جاتا ہے نہ کہ پہلے "

(سیرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ، ص 37)

.

اقتدار ملنے سے پہلے پہلے  یزید بھی اچھا تھا پھر اقتدار کے نشے میں یا نفسانی خواہشات میں وہ برا پلید بن گیا، اگر کوئی برا بن جائے تو اسکے والدین رشتے داروں پر کسی پر اعتراض نہیں جب تک کہہ پختہ ثبوت سے کسی کے ملوث ہونے کا ثبوت نہ مل جائے

.

القرآن:

 وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ  وِّزۡرَ  اُخۡرٰی

کسی جان(مرد و عورت) کے کرتوتوں(گناہ کفر شرک برائی) کا بوجھ کسی اور جان پر نہیں ہوگا(سوائے اس کے کہ اسکا ملوث ہونا ثابت ہوجائے)

(سورہ انعام آیت164)

.

الحديث:

أَمَا إِنَّهُ لَا يَجْنِي عَلَيْكَ وَلَا تَجْنِي عَلَيْهِ ". وَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : { وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى }

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس بیٹے کے کرتوت(گناہ کفر شرک برائی)کا بوجھ تم پر نہیں ہوگا اور تمھارے کرتوت(گناہ کفر شرک برائی)کا بوجھ تمھارے بیٹے پر نہیں ہوگا

(ابوداود حدیث4495)

.

*#وسوسہ پیدا ہوتا ہے کہ تربیت اچھی تھی تو ایک دم سے کوئی شخص کیسے بدل جاتا ہے..ضرور تربیت میں گڑ بڑ ہوگی....؟؟*

تو لیجیے حدیث پاک پڑہیے

إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيمِ

 کوئی بندہ جہنم والے کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور کوئی بندہ جنت والے کام کرتا ہے وہ جہنمی ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اعمال کا دار و مدار خاتمہ پر ہے(اگر موت سے پہلے پہلے اچھے کام کرے گا تو جنتی، برے کام کرے گا تو جہنمی)

(بخاری حدیث6607)

 اس حدیث پاک سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ کوئی شخص شروع شروع میں اچھا ہوتا ہے اس کی تربیت اچھی ہوتی ہے لیکن پھر وہ اپنے نفسانی خواہشات پر عمل کرکے یا کسی شیطانی وسوسوں پے عمل کرکے یا کسی بھی وجہ سے  برے کام کرتا ہے اور جہنمی بن جاتا ہے

لیھذا

اچھی تربیت سے ہی لوگ جنتی بن جائیں یہ لازم نہیں ہے اچھی تربیت کے ساتھ ساتھ اچھے خاتمے کی بھی دعا کرنی چاہیے

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

old but working whatsap nmbr

03468392475

00923468392475

New but second whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

رابطہ اولڈ وٹس اپ نمبر پے فرماءیے مگر دونوں نمبر سیو رکھیے اور گروپس میں بھی دونون نمبر شامل کرکے ایڈمین بنا دیجیے کہ پرانہ نمبر کبھی کبھار گربڑ کرتا ہے تو نیو نمبر سے دینی خدمات جاری رکھ سکیں...جزاکم اللہ خیرا

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.