Labels

شیعہ کی بکواس کہ عام قربانی رسم ہے سنت نہیں اور حضرت ابراہیم کی یاد میں جانوروں پر چھریاں چلتی ہیں اور حسین کی یاد میں جوانوں پے چھریاں چلتی ہیں،گستاخ بدعقل شیعہ کی اس بکواس کا جواب.....اور دوندا ہونا شرط ہے عمر جتنی بھی ہو،غیرمقلد اہلحدیث کے اس فتوے کا جواب

 *#قربانی رسم ہے سنت نہیں اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یاد میں جانوروں پر چھریاں چلتی ہیں اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی یاد میں جوانوں پے چھریاں چلتی ہیں،گستاخ بدعقل شیعہ کی اس بکواس کا جواب.....اور دوندا ہونا شرط ہے عمر جتنی بھی ہو،غیرمقلد اہلحدیث کے اس فتوے کا جواب.....!!*

سوال:

 علامہ صاحب ہمارے گاؤں میں سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ ایک سید  کہلانے والے آیا کرتے تھے اور وہ اپنے مرید کا بیٹا لے کے گیا اور کراچی میں اسے داخل کروا دیا اور اسے اسی دن سے تنخواہ ملنا شروع ہو گئی، ہم نے اس شخص کو تنبیہ کی کہ دیکھو یہ شیعہ پیسوں کی لالچ میں تمہارے بیٹے کو خراب بنا رہے ہیں کل کو یہ ہمارے علاقے میں بہت گند پھیلائے گا... مگر وہ غریب شخص پیسوں کی لالچ میں اگیا اور نہ مانا... اس سال اس کے بیٹے نے یہ مسئلہ کھڑا کر دیا اس نے تقریر میں کہا کہ:

 دیکھو ابراہیم علیہ السلام کی یاد میں چھریاں چلتی ہیں جانوروں پر مگر حضرت حسین علیہ السلام کی یاد میں جوانوں کے سینوں پے چھریاں چلتی ہیں، بتاؤ پلڑا کس کا بھاری....؟؟ اور پھر اس نے کہا کہ یہ جو قربانی کی جاتی ہے یہ محض ایک رسم و رواج ہے کوئی سنت نہیں کوئی ثواب نہیں قربانی فقط وہ ہے کہ جو مکہ میں حج کے دن میں کی جاتی ہے جو حاجی کرتے ہیں....جب ہم نے اس سے دلیل مانگی تو کہنے لگا اپنے استادوں سے سنا ہے، کتابوں میں پڑھا ہے کوئی آصف نام کے ذاکر کا نام بھی لے رہا تھا کہہ رہا تھا کہ یہ آصف بہت بڑا محقق عالم ہے ہمارا..... علامہ صاحب اس کا تسلی بخش جواب دیجیے اور دعا کیجیے کہ ہم وڈیرے کو آپ کی تحریر کی مدد سے سمجھا سکیں اور اس بدبخت کو مسجد سے دھتکار سکیں

.

ایک اور بھائی نے سوال کیا کہ علامہ صاحب ہمارے ہاں ایک شخص دو چار سال سے ہمیشہ پھڈا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تم لوگوں کی قربانی نہیں ہوتی کیونکہ تم لوگ دوندا قربان نہیں کرتے جبکہ دوندا قربان کرنا شرط ہے تم لوگ دو سال کا یا پانچ سال کا یا ایک سال کا قربانی کا جانور ذبح کرتے ہو یہ غلط ہے... علامہ صاحب یہ چار فقہ کو نہیں مانتا چار فقہ کے علاوہ والے دوسرے علماء کا حوالہ مل جائے تو بہت نوازش ہوگی

.

*#جواب.و.تحقیق......!!*

*#پہلی بحث، شیعہ کو جواب.......!!*

پہلی بات:

جانوروں پے چھریاں صرف چلتی نہیں بلکہ کاٹ ڈالتی ہیں جبکہ تم شیعہ لوگ اپنا گلہ کیوں نہیں کاٹتے......؟؟

.

*#دوسری بات*

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یاد میں چھریاں خود پر نہیں چلائی جاتیں جبکہ تم خود پر چلاتے ہو....یہ قیاس برابر تو نہیں ہوا ناں، قیاس تو یہ کہتا ہے کہ آپ ہمیں اور دوسروں کو موقعہ دیجیے ہم تم لوگوں پر چھریاں چلائیں گے تم بچ گئے تو غازی مر گئے تو شہید تمھارے مطابق....ہم سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی پیروی میں چھری اٹھاءیں گے اور تم لوگ مینڈھا بن جانا اور ہم پہلے چھریاں چلائیں گے تم چیخنا چلانا مت پھر ہم آخرکار مینڈھے کی گردن پے چھری چلا کر کاٹ ڈالیں گے تاکہ قیاس برابر ہو........!!

.

*#تیسری بات*

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یاد میں چھریاں چلانے کا حکم تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا جبکہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی یاد میں چھریاں لگانے لگوانے کا حکم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیا بلکہ الٹا اس ماتم شاتم کی سختی سے مذمت و روک تھام کا حکم دیا ہے

.

*#چوتھی بات*

افضلیت و فضیلت کا تعلق تمھارے گندے قیاس و عقل پر نہیں....ورنہ سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ وغیرہ کی یاد میں چھریاں نہیں چلتیں،تو کیا سیدنا حسین افضل ہوئے سیدعالم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے...؟؟ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی افضل ہوئے....؟؟

.

*#پانچویں بات*

سیدنا حسین پے چھریاں تو یزیدیوں نے چلائیں... مطلب تم یزید کی پیروی کرتے ہوئے چھریاں چلاتے ہو.....؟؟ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے تو خود پر چھریاں نہیں چلائی ناں.....خیر چھریاں چلتے چلتے گردن پے چلائی گئیں تھیں تو تم بھی گلا کاٹ ڈالو اپنا......؟؟

.

*#چھٹی بات*

*#پیٹنا...زخمی کرنا...ماتم کرنا...نوحے کرنا*

يحرم اللطم والخدش وجز الشعر إجماعا...عن الصادق عليه السلام لا شئ في لطم الخدود سوى الاستغفار والتوبة...وفي صحاح العامة أنا برئ ممن حلق وصلق، أي حلق الشعر ورفع صوته

  تمام شیعہ کا متفقہ فتویٰ ہے کہ پیٹنا اور زخمی کرنا اور بال نوچنا جائز نہیں ہے، امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ پیٹنے پر توبہ اور استغفار ہے...صحیح روایتوں میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اس سے برءی ہوں جو بال کاٹے یا چیخ و پکار(نوحہ کرے)

(شیعہ کتاب بحار الأنوار - المجلسي106, 79/105)

.

 ضرب المسلم يده على فخذه عند المصيبة إحباط لأجره...الصبر على قدر المصيبة، ومن ضرب يده على فخذه عند مصيبة حبط أجره

 پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مصیبت (یعنی کسی دکھ درد یا وفات و شہادت) پے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنے (پیٹنے، سینہ کوبی کرنے، ماتم کرنے زخمی کرنے)سے نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں... سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جتنی بڑی مصیبت ہو اتنا بڑا صبر لازم ہے، مصیبت(یعنی کسی دکھ درد یا وفات و شہادت)  پے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنے (پیٹنے، سینہ کوبی کرنے، ماتم کرنے زخمی کرنے)سے نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں

(شیعہ کتاب وسائل الشيعة الحر العاملي2/914)

.

أو تضرب يدك على فخذك، فإنه يحبط أجرك عند المصيبة 

 مصیبت(یعنی کسی دکھ درد یا وفات و شہادت)پے اپنی ران پر ہاتھ مت مارو (مت پیٹو، سینہ کوبی مت کرو، زخمی مت کرو، ماتم مت کرو کہ یہ ایسے گناہ ہیں) کہ اس سے نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں

(شیعہ کتاب مستدرک الوسائل2/448)

.

ونهى عن الرنة عند المصيبة، ونهى عن النياحة والاستماع إليه... 

 سیدنا علی فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبت کے وقت( یعنی کسی کی وفات پے یا کسی اور مصیبت و دکھ کے وقت) چیخنے سے منع کیا ہے اور نوحہ کرنے اور نوحہ سننے سے منع کیا ہے

(شیعہ کتاب من لا يحضره الفقيه جلد4 ص5)

.

الحدیث۔ ۔۔ترجمہ:

آج کے بعد(یعنی سیدنا حمزہ پر نوحہ کےبعد) کسی پر بھی نوحہ نہ کریں(یعنی آج کے بعد نوحہ ماتم ہمیشہ کے لئے ممنوع اور حرام ہے)

(ابن ماجہ حدیث نمبر1591)

.

ليس منا من ضرب الخدود، وشق الجيوب ".

2444 / 13 وعن أبي أمامة: ان رسول الله (صلى الله عليه وآله) لعن الخامشة وجهها، والشاقة جيبها، والداعية بالويل والثبور.2445 / 14 وعن يحيى بن خالد: أن رجلا أتى النبي (صلى الله عليه وآله فقال: ما يحبط الاجر في المصيبة؟ قال:

" تصفيق الرجل يمينه على شماله، والصبر عند الصدمة الأولى، من رضي فله الرضى، ومن سخط فله السخط ".

وقال النبي (صلى الله عليه وآله): " انا برئ ممن حلق وصلق " أي: حلق الشعر، ورفع صوته.

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ ہم اہل اسلام میں سے نہیں کہ جو چہرہ پیٹے(یا سیینہ یا پیٹھ پیٹھے ماتم کرے زخمی کرے) اور گریبان پھاڑے... رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر لعنت کی ہے کہ جو اپنا چہرہ(سینہ پیٹھ) کو زخمی کرے گریبان پھاڑے، ایک شخص آیا اس نے عرض کی یارسول اللہ کون سی چیز ہے کہ مصیبت کے وقت میں (دکھ درد مصیب پے کسی کی شہادت و وفات پے) اس سے نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ بندہ اپنے سیدھے ہاتھ کو الٹے ہاتھ پر مارے(یا چہرہ سینہ پیٹھ پیٹے زخمی کرے تو اس گناہ سے نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں).... کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ جو چیخ و پکار کرے(نوحہ ماتم سینہ کوبی کرے)یا بال منڈائے 

(شیعہ کتاب مستدرک الوسائل جلد2 صفحہ452)

.

النياحة من أمر الجاهلية

نوحہ کرنا جاہلی کاموں میں سے ایک ہے

(شیعہ کتاب من لا يحضره الفقيه4/376)

.

لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم النائحة والمستمعة

ترجمہ:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی اس پر جو نوحہ کرے اور.اس پر جو نوحہ سنے

(شیعہ کتاب مستدرک وسائل2/453)


.

 مولا علی نےفرمایا

جزع کرنا(وفات کے فورا تین دن کے علاوہ قصدا غم و بےصبری کا اظہار کرنا،نوحےماتم کرنا)گناہ ہے.(دیکھیے شیعہ کتاب مسکن الفواد ص4)

.

امامِ عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی شہادت سے پہلے سختی سے حکم دیا تھا کہ:

لا تشقي علي جيبا، ولا تخمشي علي وجها، ولا تدعي علي بالويل والثبور

ترجمہ:

جب میں شہید ہوجاؤں تو اپنے کپڑے مت پھاڑنا، اپنا چہرہ(سینہ، پیٹھ) زخمی مت کرنا(ماتم مت کرنا) اور یہ مت پکارنا کہ ہائے مصیبت، ہائے ہم ہلاک ہوگئے(مطلب نوحے ماتم چیخ و پکار مت کرنا)

(شیعہ کتاب بحار الانواز45/3)

.

نوحہ کرنے والےقیامت کےدن کُتوں کی شکل میں ہونگے.(ماخذ:شیعہ کتاب جامع احادیث شیعہ3/650)

.

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نےفرمایا:

میں تمھیں وعظ و نصیحت کرتا ہوں، سمجھاتا ہوں مگر تم لوگ(وعظ نصیحت ہدایت) سے نفرت کرتے ہو گویا تم(شیعہ لوگ جعلی محب) بدصورت گدھے ہو....(شیعہ کتاب احتجاج طبرسی1/254)

.###############

*#آٹھویں بات......!!*

تمھارے ذاکر ماکر اور جھوٹ سے بھری کتب اور ذاکر آصف علوی سب جھوٹ مکار گند کے پلندے ہیں...عقلی رد اوپر لکھ آیا پھر منقولی دلائل بھی لکھ آیا کہ ماتم چھریاں نوحے باطل گناہ ہیں کفر تک ہوجاتے ہیں...دین تو عقل پے نہیں چلتا بلکہ عقل کو دین کے تابع کرنا لازم ہے بلکہ درحقیقت عقل وہی درست ہے جو شریعت کی بات کو ثابت کرے....جھوٹے شیعہ کی کتابیں جھوٹ سے بھری پڑی ہیں مگر کہتے ہیں ناں کہ بہت بڑا جھوٹا بھی کبھی کبھار سچ بول دیتا ہے.... شیعوں کی جھوٹ گستاخی سے بھری کتابوں میں تھوڑا سا سچ یہ بھی موجود ہے کہ:

.

فإذا ثبت ذلك فهي سنة مؤكدة وليس بفرض ولا واجب.....يجوز ذبح الأضحية ونحرها في منزله وغير منزله أظهرها أو سترها ، وليست كالهدايا التي من شرطها الحرم لأن النبي صلى الله عليه وآله ضحى بالمدينة على ما رويناه ، وعليه الاجماع قولا وعملا

 شیعوں کا معتبر عالم شیخ طوسی کہتا ہے کہ جب یہ دلائل ثابت ہو گئے تو ان سے ثابت ہوتا ہے کہ عام قربانی کرنا سنت موکدہ ہے فرض واجب نہیں، اور یہ قربانی حج والی قربانی کی طرح نہیں کہ جو صرف اور صرف مکہ میں حرم میں کی جاتی ہے بلکہ یہ قربانی  کسی بھی جگہ کی جا سکتی ہے گھر میں کی جا سکتی ہے، کیونکہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف میں قربانی کیا کرتے تھے اور اسی پر اجماع ہے قولی اجماع ہے اور عملی اجماع ہے

(شیعہ کتاب المبسوط شیخ طوسی1/387)

.

وإنما الأضحى على أهل الأمصار ..علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن عبد الله بن المغيرة ، عن عبد الله بن سنان عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) قال : سئل عن الأضحى أواجب على من وجد لنفسه وعياله ؟ فقال : أما لنفسه فلا يدعه وأما لعياله إن شاء تركه

شیعہ معتبر عالم شیخ کلینی کہتا ہے کہ حج والی قربانی تو حاجی ہی پر ہوتی ہے مگر یہ جو دوسری قربانی ہے یہ تمام لوگوں پر ہوتی ہے کہ جو دوسرے شہروں میں ہوتے ہیں، سیدنا ابو عبداللہ علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ یہ قربانی واجب ہے یا نہیں تو اپ نے فرمایا کہ اپنی طرف سے ہو تو اسے ہرگز نہ چھوڑے بلکہ ہرسال کرتا رہے اور اگر اہل و عیال کی طرف سے ہو تو اس کی مرضی ہے چاہے تو کرے چاہے تو نہ کرے

(شیعہ کتاب الکافی شیخ کلینی488, 4/487)

.

قال علماؤنا : الأضحيّة سنّة مؤكّدة وليست واجبة...ام سلمی

فاستقرضي فإنه دين مقضي..رسول الله صلى الله عليه وآله أنه ضحى بكبشين ...وكان أمير المؤمنين عليه السلام يضحي عن رسول الله صلى الله عليه وآله كل سنة بكبش فيذبحه ويذبح كبشا آخر...وفي غير منى من الأمصار ثلاثة أيّام : يوم النحر ويومان بعده .

ذهب إليه علماؤنا أجمع

 شیعہ محقق کہتا ہے کہ ہمارے شیعہ علماء نے کہا ہے کہ عام قربانی کرنا سنت موکدہ ہے یہ واجب نہیں ہے، سیدہ  ام سلمی نے عرض کی یا رسول اللہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں تو کیا میں قرض لے کر قربانی کروں حضور نے فرمایا ہاں قربانی کرو کہ یہ وہ قرض ہے کہ جو دینا ہے... اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں قربانی کیا کرتے تھے مینڈھے کی... اور امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ کی طرف سے ہر سال قربانی کیا کرتے تھے مینڈھے کی اور اپنی طرف سے بھی ایک مینڈا قربانی کیا کرتے تھے یہ قربانی حج کے علاوہ دوسری جگہوں پر ہے کہ جو تین دن تک کی جاسکتی ہے اس پر ہمارے تمام شیعہ علماء کا اجماع ہے

(شیعہ کتاب منتھی المطلب281, 11/279)

.

فمن رغب عن سنتي فليس منى

 شیعہ محقق کہتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو میری سنت سے بے رغبتی کرے تو وہ مجھ سے نہیں ہے

(شیعہ کتاب وسائل الشيعة ج20 صفحہ21)

.

فمن رغب عن سنتي فليس مني

شیعہ محقق کہتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو میری سنت سے بے رغبتی کرے تو وہ مجھ سے نہیں ہے

(شیعہ کتاب کافی شیخ کلینی5/496)

.

سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت اہلبیت کو رسم رواج کہنے والے شیعہ کتب اور شیعہ ذاکر ماکر جھوٹوں پے بے شمار للعت......!! ان کتوں کا کوئی بھروسہ نہیں،  نہ جانے کب عقل و جھوٹ کے گھوڑے پے سوار ہوکر گند پھیلائیں لیھذا ایسے گستاخوں کو مسجد و خطابت ہرگز ہرگز نہ دیجیے....اس کتے نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی توہین کی اور سیدنا حسین کو گویا افضل قرار دیا اور پھر سیدعالم صلی اللہ علیہ کی سنت قربانی کو اور اہلبیت کی سنت قربانی کو رسم و رواج فالتو کہہ کر توہینِ رسالت اور توہینِ اہلبیت کی ہے....اس پر تو آپ لوگ اور وڈیرہ سارے مل کر پرچہ کرائیں ورنہ کم سے کم اس گھرانے کو نکال پھینکیں اپنی آبادی سے.....!!

.

ایک امام نےقبلہ کی طرف تھوکا،رسول کریمﷺنےفرمایا:

لایصلی لکم

ترجمہ:

وہ تمھیں نماز نہیں پڑھا سکتا

(ابوداؤد حدیث481، صحیح ابن حبان حدیث1636,

مسند احمد حدیث16610 شیعہ کتاب احقاق الحق ص381)

کعبہ کی طرف تھوکنے کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت فتوی و حکم دیا اور اسے امامت سے روک دیا اور لوگوں کو بھی روک دیا کہ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو تو جو باعزت لوگ یعنی انبیاء کرام علیھم السلام صحابہ کرام علیھم الرضون اہلبیت عظام علیھم الرضوان اور اولیاء کرام وغیرہ کے گستاخ ہیں...جن فرقوں کے بڑے بڑے جو گزرے وہ گستاخانہ عبارات لکھ گئے اور اج کی نسل انکو صحیح قرار دے رہی تو ایسے ایجنٹ مکار دوغلے پیسہ خور گستاخ کٹر بےادب لوگوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا حکم بھی ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و حکم پر عمل کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں....یہ فرقہ واریت نہیں..اسلام کی نمک حلالی و حق بیانی ہے

.#################


*#دوسری بحث....فسادی غیرمقلد سلفی نام نہاد اہلحدیث کو جواب.......!!*

*#پہلی بات*

 پہلی بات تو یہ ہے کہ جو اپ کہہ رہے ہیں کہ دوندا ہونا شرط ہے دانت ہونا شرط ہے چاہے دو سال کا ہو چاہے چار سال کا ہو چاہے چھ سال کا ہو کچھ بھی ہو تو یہ اپ نے کس دلیل کس کتاب کس غیر جانبدار عالم کی کتاب سے حوالہ نکالا......؟؟تم اپنے نام نہاد علماء کے فتوے ہم پے کیوں فٹ کر رہے ہو...؟؟ کیا یہ انصاف ہے کہ تیرے جن علماء کو ہم کچھ سمجھتے ہی نہیں انکو دلیل بنا کر ہم پر فتوے لگا کر فساد برپا کر رہے ہو....کیا یہ انصاف ہے....؟؟ ہاں آپ ہمارے معتبر علماء کرام کی عبارات دکھاتے اور کہتے کہ تم تو اپنے علماء کے خلاف جا رہے ہو

یا

کم از کم ان علماء کے حوالے دیتے کہ جو معتدل ہیں جو بہت پرانے ہیں کہ وہ چار فقہ سے بھی پہلے تھے اگرچہ وہ بھی تقلید کرتے تھے مگر چار فقہ رائج نہ تھی اس وقت کے معتبر عالم دین کا حوالہ دیتے

.

*#دوسری بات*

چلیں ہم آپ پر احسان کییے دیتے ہیں کہ تمھارے کئ اہلحدیث سلفی غیرمقلد علماء نے لکھا کہ بکرا بکری مینڈھا وغیرہ ایک سال کا ہو اور گائے وغیرہ دو سال کے ہوں اور اونٹ پانچ سال کا ہو تو ہی قربانی انکی درست ہے

.

الحدیث:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قربانی نہ کرو مگر یہ کہ مسنہ کی( یا اس سے جو بڑھ کر ہو)

(مسلم حدیث1963...ابوداود حدیث2797)

.

مسنہ کی تشریح میں اب ہم جو نیچے کتابوں کے حوالے دے رہے ہیں یہ سارے کے سارے کتابیں نام نہاد اہل حدیث غیر مقلد سلفی وغیرہ سب کے نزدیک معتبر ہیں

.

والمسن من الإبل: ما أتم خمس سنين، والمسن من البقر: ما أتم سنتان، والمسن من المعز: ما أتم سنة

 اونٹ جب پانچ سال کا ہو جائے تو اسے مسنہ کہتے ہیں اور گائے وغیرہ جب دو سال کے ہو جائیں تو ان سے مسنہ کہتے ہیں اور بھیڑ بکری وغیرہ جب ایک سال کی ہو جائیں تو اسے مسنہ کہتے ہیں

(توفيق الرب المنعم بشرح صحيح الإمام مسلم5/475)

.

الثنية من الضأن والمعز: بنت سنة، ومن البقر: بنت سنتين، ومن الإبل: بنت خمس سنين

 بھیڑ بکری جب ایک سال کی ہو تو اسے ثنیہ و مسنہ کہتے ہیں، اسی طرح جب گائے وغیرہ دو سال کے ہوں اور اونٹ پانچ سال کا ہو جائے تو اسےثنیہ و مسنہ کہتے ہیں

(شرح سنن ابن ماجه للهرري18/359)

.

فلابد أن تكون مسنة تمت لها سنة....ومن البقر لا يجزئ إلا ما تم له سنتان، ومن الإبل ما تم له خمس سنين في الضحايا والهدايا،

 قربانی کے جانور کے لیے شرط ہے کہ وہ مسنہ ہو یعنی اس کو ایک سال پورا ہو گیا ہو... اور گائے وغیرہ دو سال کے ہوں اور اونٹ پانچ سال کے ہوں تو قربانی اور حج کی قربانی میں وہ ذبح ہو سکتے ہیں

(الافہام شرح عمدۃ الاحکام ص313)

.

ما له خمس سنين، ومن البقر والجاموس ماله سنتان، ومن المعز ما له سنة

مسنہ اونٹ وہ ہوتا ہے جو پانچ سال کا ہو اور گائے بھینس وغیرہ میں دو سال ہو جائیں اور بکرا بکری دنبی بھیڑ وغیرہ کو ایک سال ہو جائے تو اسے مسنہ کہا جاتا ہے

( توضيح الأحكام من بلوغ المرام7/87)

.

وثَنِيٌّ سِواه فَالإبِلُ خَمْسٌ والبَقَرُ سَنَتَانِ، والمَعِزُ سَنَةٌ

ثنیہ اور مسنہ اونٹ جب پانچ سال کا ہو اور گائے وغیرہ دو سال کے ہوں اور بھیڑ بکری وغیرہ ایک سال کے ہوں تو ثنیہ اور مسنہ کہلاتے ہیں

( الشرح الممتع على زاد المستقنع7/425)

.

مسنة هي الكبيرة في السن، ويقال مسن وهما كثنى وثنية، وهي من الإبل ما لها خمس سنين، ومن البقر ما لها سنتان، ومن الضأن والمعز ما لها سنة،

مسنہ کا معنی ہے عمر والا ہونا...مسنہ ثنی اور ثنیہ سب کا ایک ہی معنی ہے اور یہ ہے کہ اونٹ پانچ سال کا ہو، گائے وغیرہ دو سال کے ہوں اور بھیڑ بکری وغیرہ ایک سال کے ہوں

(التاج الجامع للأصول في أحاديث الرسول3/113)

.

اشتراط السن المعتبرة في الأضحية، وهو أن تكون الأضحية مسنة، وهو الثنيُّ من بهيمة الأنعام، فمن الضأن والمعز ما تم له سنة، ومن البقر ما تم له سنتان، ومن الإبل ما تم له خمس سنين

 قربانی کے جانور میں جو عمر شرط ہے وہ یہ ہے کہ مسنہ ثنیہ ہو یعنی بھیڑ بکری ایک سال کے ہوں اور گائے وغیرہ دو سال کے ہوں اور اونٹ پانچ سال کے ہوں

( الجامع لفوائد بلوغ المرام3/172)

.

*#تیسری بات*

دانت ہونے کی بات اگر کسی معتبر عالم نے بھی کی تو انکا مقصد یہ نہ ہوگا کہ مقصود اصلی یہ ہو کہ دانت دو چار ہوں... بلکہ غور و فکر کیا جائے تو جانور کی دیکھ بھال خوراک وغیرہ کے بعد جب بکرا بکری وغیرہ ایک سال کا ہو جائے یا گائے وغیرہ دو سال کا ہو جائے یا اونٹ پانچ سال کا ہو جائے تو وہ اس عمر کو پہنچ جاتا ہے کہ اس کا گوشت کھانے میں صحیح محسوس ہوتا ہے، جبکہ نرم خوراک کی وجہ سے یا مسوڑوں کی کمزوری یا دودھ کم پینے کی وجہ سے وہ ایک سال کا یا دو سال کا یا پانچ سال کا تو ہو جاتا ہے لیکن اس کے دو چار دانت نہیں نکلے ہوئے ہوتے لیھذا سال و عمر کا اعتبار ہے،دانت ضروری نہیں...دانت تو فقط نشانی ہیں

لیھذا

فی زمانہ فساد و جھوٹ کرپشن عام ہونے کی وجہ سے منڈی میں احتیاط اسی میں ہے کہ دانتوں کو دیکھ کر ہی جانور لیا جائے اور اگر گھر میں خود پالا ہے اور ایک سال پورا ہو گیا یا دو سال پورے ہو گئے یا پانچ سال پورے ہو گئے اور ابھی دو چار دانت نہیں نکلے تو کوئی حرج نہیں قربانی کر سکتے ہیں......!!

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

old but working whatsap nmbr

03468392475

00923468392475

New but second whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

رابطہ اولڈ وٹس اپ نمبر پے فرماءیے مگر دونوں نمبر سیو رکھیے اور گروپس میں بھی دونون نمبر شامل کرکے ایڈمین بنا دیجیے کہ پرانہ نمبر کبھی کبھار گربڑ کرتا ہے تو نیو نمبر سے دینی خدمات جاری رکھ سکیں...جزاکم اللہ خیرا

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.