*#ذوالحج کی 18 تاریخ کے متعلق ذہن نشین فرما لیں اور خوب پھیلا دیں کہ 18ذوالحج عید غدیر نہیں، یومِ ولایتِ علی نہیں بلکہ اس دن سیدعالم نے جگھڑا ختم کرتے ہوئے سیدنا بریدہ وغیرہ سے فرمایا تھا کہ اگر مالِ غنیمت کی تقسیم کی وجہ سے سیدنا علی سے ناگواری ہے تو ناگواری ختم کرو کیونکہ جسکا میں مولا اسکا علی مولا یعنی جس کو میں محبوب ہوں علی اس کے محبوب ہیں.....!!*
.
*#عیدِ غدیر یا یومِ ولایتِ علی.....؟؟*
*#علی مولا کا معنی وپسِ منظر.....؟؟*
.
تمھید:
*#شیعہ کے مطابق 18ذوالحج عید غدیر ہے.......!!*
18ذوالحج کو شیعہ عید غدیر مناتے ہیں کہتے ہیں کہ اس روز حجۃ الوداع سے واپسی پر "غدیر خم" مقام پے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا " میں جس کا مولا علی اسکا مولی......حضور اکرم کے اس فرمان سے شیعہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رسول کریم نے حضرت علی کو اس قول کےذریعے اپنا خلیفہ بلافصل بنایا
شیعہ محقق لکھتا ہے:
(فمن كنت مولاه فهذا علي مولاه..) وهذا نص صريح في استخلافه على أمته،
شیعہ محقق کہتا ہے کہ علی مولا یہ نص صریح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو اپنی امت پر خلیفہ بنایا
(شیعہ کتاب ومن الحوار اكتشفت الحقيقة ص386)
.
من كنت مولاه فعلي مولاه...يوم ثمانية عشر من ذي الحجة...وهو عيد الله الأكبر
شیعہ محقق کہتا ہے کہ یہ جو عید غدیر ہے 18 ذوالحج کو ہوتی ہے اور یہ بہت بڑی عید ہے کیونکہ اس روز رسول کریم نے علی مولا فرمایا تھا
(شیعہ کتاب عيد الغدير في الإسلام ص83)
.
*#نیم شیعہ ، نیم رافضی مثلا طاہر کادری ریاض شاہ، عرفان شاہ، چمن زمان وغیرہ کے مطابق 18 ذوالحج یومِ ولایت علی ہے.....!!*
نیم روافض کے عظیم محقق سمجھے جانے والے جناب چمن زمان صاحب لکھتے ہیں کہ :
نواصب(اہلبیت کے دشمن)اٹھارہ ذوالحج کو جشن ولایت منانے سے یہ کہہ کر روکتے ہیں یہ دن شہادتِ عثمان کا دن ہے...جبکہ اٹھارہ ذوالحج کو سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی کو من کنت مولاہ کہہ کر ولایت عطاء کی..(دیکھیے چمن زمان کا رسالہ شہادت سیدنا ذو النورین اور نواصب کا اصل ہدف صفحہ2...13ملخصا)
.
طاہر الکادری سیاسی و روحانی خلیفہ کی تقسیم کرتے ہوئے لکھتا ہے:
ولایت باطنی جو " من کنت مولاہ فعلی مولاه کے ذریعے حضرت علی کو عطا ہوئی اس میں وہی یکتا ہیں۔
(طاہر الکادری کی کتاب القول الوثیق صفحہ41)
.
چمن زمان مزید لکھتا ہے:
اول روحانی خلیفہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں
(دیکھیے چمن زمان کی کتاب بارہ امامان اہلبیت ص42)
.
*#جواب.و.تحقیق*
اہلسنت کے مطابق 18ذوالحج کو خلیفہ بلافصل کا نظریہ رکھ کر عید غدیر منانا جھوٹ مکاری بدعت و گناہ بلکہ کفر تک ہوجاتا ہے اور 18 ذوالحج کو یوم ولایت علی یعنی سیدنا علی کو باطنی اول خلیفہ و افضل مان کر منانا جھوٹ بدعت و بہتان ہے اور نہ منانے والوں کو ناصبی کہنا یعنی اہلبیت سے بغض رکھنے والا کہنا کفر تک لے جاتا ہے بلکہ اس کے الٹ اسلاف نے اول سیاسی و روحانی خلیفہ و افضل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لکھا دلائل کے ساتھ، لیھذا ولایت علی کا دن نہ سمجھنے والے کو ناصبی کہنا اہلبیت سے بغض رکھنے والا کہنا انتہائی غلط فتوی ہے جھوٹ و بہتان ہے بلکہ کفر تک لے جاتا ہے
.
*#بحث ایک..سیدنا علی مولا کا معنی و پس منظر....!!*
عجیب بات ہے کہ حجۃ الوداع جو اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ کسی کو نہ بنایا اور واپسی پر تھوڑی تعداد کے سامنے غدیرخم پر خلیفہ کا اعلان کر دیا......؟؟
.
اگر خلافت کا اعلان رسول کریمﷺنےکرنا ہوتا تو اسکا صحیح و بہترین موقعہ حجۃ الوداع تھا........غدیرخم مقام پے تو رسول کریمﷺنے ایک تنازع کا حل فرمایا اور فرمایا کہ علی سے ناگواری مت رکھو، اس سے محبت کرو، جسکو میں محبوب ہوں وہ علی سے محبت رکھے
.
دراصل ہوا یہ تھا کہ مال غنیمت حضرت علی نے تقسیم کی تھی ، تقسیم پر کچھ صحابہ کرام کو ناگوار گذرا انہوں نے غدیرخم مقام پر رسول کریمﷺسے حضرت علی کی شکایت کی....رسول کریمﷺنے پوچھا اے بریدہ کیا تم علی سے(اس تقسیم کی وجہ سے)ناگواری محسوس کرتے ہو...؟ حضرت بریدہ نے فرمایا جی ہاں... رسول کریمﷺ نے فرمایا علی سے ناگواری مت رکھ، جتنا حصہ علی نے لیا ہےحق تو اس سے زیادہ حصہ بنتا ہے....بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بعد میری ناگواری ختم ہوگئ...اس تقسیم وغیرہ کی وجہ سے دیگر صحابہ کرام وغیرہ کو بھی ناگواری گذری ہو تو انکی بھی ناگواری ختم ہو اس لیے رسول کریمﷺنے اعلان فرمایا:
میں جسکا مولا علی اسکا مولا.... یعنی میں جسکو محبوب ہوں وہ علی سے بھی محبت رکھے،ناگواری ختم کردے
(دیکھیے بخاری حدیث4350,,المستدرك حدیث4578
مسند احمد23036...,22967...22945)
مرقاۃ شرح مشکاۃ11/247 البيهقي في الكبرى 6/342...7/309) الصواعق المحرقة 1/109 الاعتقاد للبيهقي ص 498 البداية والنهاية 5/227.. ,11/58)
.
*#شیعہ کتب سے بھی یہی پس منظر ثابت ہے*
وخرج بريدة الأسلمي فبعثه علي عليه السلام في بعض السبي، فشكاه بريدة إلى رسول الله صلى الله عليه وآله فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: من كنت مولاه فعلي مولاه
یعنی
بریدہ اسلمی نے رسول کریمﷺسے حضرت علی کی مال غنیمت کی تقسم کی شکایت تو رسول کریمﷺنے فرمایا میں جسکا مولا و محبوب ہوں علی بھی اس کے مولا و محبوب ہیں)لیھذا ناگواری نہ رکھو، ختم کرو)
(شیعہ کتاب بحار الانوار37/190)
.
، قال: أتبغض عليا؟ قال: قلت: نعم قال: فلا تبغضه وان كنت تحبه فازدد له حبا، فوالذي نفس محمد بيده لنصيب علي في الخمس أفضل من وصيفة
بریدہ اسلمی کہتےہیں ہمیں مال غنیمت حاصل ہوا...رسول کریمﷺکی طرف خط لکھا کہ تقسیم کے لیے کسی کو بھیجیں،رسول کریمﷺنے علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا حضرت علی نے تقسیم کیا اور اپنا حصہ بھی نکالا، ابو بریدہ تقسیم کی شکایت لے کر (غدیر خم مقام پے) رسول کریمﷺ
کو پہنچے اور شکایت و ناگواری کا اظہار کیا رسول کریمﷺنے فرمایا علی نے جتنا لیا اس سے بڑھ کرحصہ ہے اگر علی سے ناگواری ہے تو ختم کردو اگر محبت ہےتو زیادہ محبت کرو
(شیعہ کتاب کشف الغمہ لاربیلی1/293بحذف)
.
*#پہلی بات*
ایک طرح سےچمن زمان نے اہلسنت کی اکثریت کو ناصبی یعنی دشمن اہلبیت قرار دے دیا کیونکہ وہ 18 ذوالحج کو جشن ولایت نہیں مناتے....انا للہ و انا الیہ راجعون
چمن زمان صاحب تاریخ کے جھمیلے میں پڑنے کی حاجت ہی نہیں کیونکہ اگر اسلاف نے لکھ دیا ہوتا کہ من کنت مولاہ حدیث سے ولایتِ سیدنا علی ثابت ہوتی ہے تو ہم یقینا جشن ولایت مناتے .... چاہے اس دن کسی کی وفات ہی کیوں نہ ہوتی کیونکہ
ایک ہی دن ولادت و وفات ہو اور اسکو خوشی کا دن عید بھی کہا جائے یہ حدیث پاک سے ثابت ہے، جمعہ کو سیدنا آدم علیہ السلام کی ولادت بھی ہے اور وفات بھی ہے اور اسی جمعہ کے دن کو نبی پاک نے عید بھی فرمایا..
(دیکھیے ابو داود حدیث نمبر1047..ابن ماجہ حدیث1084)
ابن ماجہ حدیث نمبر1098)
لیکن
من کنت مولاہ سے ولایتِ سیدنا علی معتبر اسلاف نے ثابت نہیں کی بلکہ جنہوں نے ثابت کی انکا رد کیا گیا تو آپ چمن زمان پر لازم تھا کہ اسلاف کی کتب سے لکھتے دکھاتے کہ مولا کا معنی ولایتِ سیدنا علی ہے لیکن آپ نے کوئی معتبر قوی حوالے نہ دییے مگر ہماری طرف سے چند معتبر مضبوط حوالہ جات حاضر ہیں...شاید کہ آپ کو ہدایت ملے ورنہ کم سے کم عوام تو پہچان لے
*#دوسری بات......!!*
جسکا میں مولا ، علی اسکا مولا ہیں.... اسکا معنی یہ لیا جائے خلیفہ مراد ہے تو معنی بنے گا جسکا میں یعنی نبی پاک خلیفہ علی اسکا خلیفہ....؟؟ ہے ناں عجیب و غلط معنی...؟؟ کہ رسول کریم تو اللہ کے خلیفہ ہیں لوگوں کے خلیفہ تو نہیں کہ فرمائیں اے لوگو میں تمھارا مولا یعنی خلیفہ تھا اب سے علی تمھارا خلیفہ ہے...عجیب عجیب
.
*#تیسری بات......!!*
اگر معنی یہ ہو کہ جسکا میں روحانی خلیفہ علی اسکا روحانی خلیفہ تو یہ بھی غلط ہے کہ ایک وقت میں دو روحانی خلیفہ نہیں ہوتے اس میں تمام صوفیاء کا اتفاق ہے حتی کہ طاہر الکادری اور چمن زمان جیسے نیم رافضیوں نے بھی مانا ہے کہ روحانی خلیفہ یعنی قطب ایک وقت میں ایک ہی ہوتا ہے جو سب سے افضل ہوتا ہے اب اگر سیدنا علی کو قطب روحانی خلیفہ مانا جاءے جیسے کہ عرفان شاہ مشہدی ریاض شاہ چمن زمان طاہر الکادری کہتے ہیں تو نعوذ باللہ رسول کریم سے بھی افضل قرار پائیں گے سیدنا علی...کیونکہ قطب تو سب سے افضل ہوتا ہے..اور قطب ایک ہی ہوتا ہے تو سید عالم سے قطب کی نفی کرکے اول قطب سیدنا علی کو کہنا صراحتاً گستاخی لگتی ہے، فتوی مفتیان کرام ہی دیں گے
.
*#چوتھی بات.....!!*
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی کو خلیفہ بنانا چاہتے تو صاف صاف الفاظوں بھی فرما دیتے کہ فلاں میرا خلیفہ ہے ایسے گول مول الفاظ میں کیوں بیان فرماتے ہیں کہ جس سے کچھ بھی معنی نکل سکتا ہو تو یہ شایانِ نشان نہیں ہے کسی نبی کے کہ گل مول بات کر جائے تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرینہ کلام سے سیاق و سباق سے کہ رسول کریم نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے فرمایا تھا کہ جس کو میں محبوب ہوں حضرت علی کو محبوب ہو
.
*#پانچوین بات.....!!*
اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےخلیفہ بنا دیا تھا سیدنا علی کو مولا علی کہہ کر تو پھر سیدنا علی نے خلافت کا مطالبہ کیوں نہ کیا کہ جب رسول پاک نے ان کو حکم دے دیا ان کو خلیفہ بنا دیا تو رسول کریم کی نافرمانی کیوں کی ، اللہ کی نافرمانی کیوں کی سیدنا علی نے... یہ تو بہت بڑا جرم کیا نعوذ باللہ سیدنا علی نے کہ لوگوں کے باتوں میں اکر لوگوں کے خوف میں اکر شریعت کی بات کو جھٹلا دیا نعوذ باللہ...شریعت کو چھوڑ دیا... کیا نعوذ باللہ سیدنا علی اتنے ڈرپوک تھےجبکہ انکے بیٹے حسین نے پورا گھرانہ شہید کرادیا مگر حق نہ چھوڑا تو ایسے بیٹے کے عظیم والد شیر خدا حیدر کرار بھلا کیسے ڈرپوک ہوگئے.....؟؟ نعوذ باللہ یہ تو شیعوں نے کی بہت بڑی گستاخی ہے کہ سیدنا علی کو ڈرپوک شریعت چھوڑ دینے والا قرار دے رہے
.
*#الحاصل.........!!*
لیھذا واجب ہےکہ مولا علی سے مراد خلیفہ یا روحانی خلیفہ بلافصل یا ولایتِ بلافصل یا قطب بلافصل ہرگز ہرگز نہیں...بلکہ محبوب وغیرہ معنی مراد لینا ہی برحق و لازم ہے
.
لَا يَسْتَقِيمُ أَنْ تُحْمَلَ الْوِلَايَةُ عَلَى الْإِمَامَةِ الَّتِي هِيَ التَّصَرُّفُ فِي أُمُورِ الْمُؤْمِنِينَ، لِأَنَّ الْمُتَصَرِّفَ الْمُسْتَقِلَّ فِي حَيَاتِهِ هُوَ هُوَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لَا غَيْرُ فَيَجِبُ أَنْ يُحْمَلَ عَلَى الْمَحَبَّةِ وَوَلَاءِ الْإِسْلَامِ وَنَحْوِهِمَا..
حدیث کا معنی یہ بنانا کہ پہلے میں مولا تھا اب علی مولا ہے یعنی اب علی خلیفہ ہے اب تمام معاملات علی سنبھالے گا، یہ معنی قطعا درست نہیں ہے لہذا واجب ہے کہ علی مولا کا معنی ہے کہ جس کو میں محبوب ہوں علی اس کو محبوب ہوں
(مرقاة المفاتيح 9/3937)
( شرح المشكاة للطيبي12/3884)
.
امام ابن عساکر امام بیھقی سے روایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اہلبیت کے اماموں میں سے ایک امام حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
الرَّافِضِيُّ: أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ لِعَلِيٍّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ؟ فَقَالَ: أَمَا وَاللَّهِ أَنْ لَوْ يَعْنِي بِذَلِكَ الْإِمْرَةَ وَالسُّلْطَانَ لَأَفْصَحَ لَهُمْ بِذَلِكَ كَمَا أَفْصَحَ لَهُمْ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَصِيَامِ رَمَضَانَ وَحَجِّ الْبَيْتِ وَلَقَالَ لَهُمْ: أَيُّهَا النَّاسُ هَذَا وَلِيُّكُمْ مِنْ بَعْدِي فَإِنَّ أَنْصَحَ النَّاسِ كَانَ لِلنَّاسِ رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم , وَلَوْ كَانَ الْأَمْرُ كَمَا تَقُولُونَ إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ اخْتَارَا عَلِيًّا لِهَذَا الْأَمْرِ وَالْقِيَامِ بَعْدَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ إِنْ كَانَ لَأَعْظَمَ النَّاسِ فِي ذَلِكَ خِطْأَةً وَجُرْمًا إِذْ تَرَكَ مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم
امام حسن بن حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رافضی نے ان سے کہا کہ نبی پاک نے حضرت علی کے لیے کہا کہ جس کا میں مولا علی اس کا مولا تو سیدنا حسن نے فرمایا کہ اگر یہ قول کا معنی خلافت باطنی یا خلافت سیاسی ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واضح الفاظ میں ارشاد فرما دیتے اور فرماتے ہیں کہ اج کے بعد تمام معاملات علی سنبھالیں گے جبکہ ایسا نہیں ہے.... اور اگر معنی یہ لیا جائے کہ میری وفات کے بعد علی روحانی اور سیاسی خلیفہ ہوں گے تو بھی ٹھیک نہیں ہے کیونکہ سیدنا علی نے روحانیت کی بیعت شروع نہیں کی اور نہ ہی سیاسی بیعت شروع کی تو نعوذ باللہ یہ تو سیدنا علی حضور کے فرمان کے مخالف ہو گئے ،اس پر عمل نہ کرنے والے ٹھہرے( لہذا علی مولا کا معنی ہے کہ علی اس کے محبوب ہیں جس کو میں محبوب ہوں)
(الطبقاب الکبری5/319)
.
امام ابن الاعرابی اور امام ثعلب فرماتے ہیں:
ابن الأعرابي قال المولى المالك وهو الله والمولى ابن العم والمولى المعتق والمولى المعتق والمولى الجار والمولى الشريك والمولى الحليف والمولى المحب والمولى اللوي (3) والمولى الولي ومنه قول النبي (صلى الله عليه وسلم) من كنت مولاه فعلي مولاه معناه من تولاني فليتول عليا قال ثعلب وليس هو كما تقول الرافضة ولكنه من باب المحبة
امام ابن الاعرابی فرماتے ہیں کہ مولا کا معنی مالک ہے مولا کا معنی چچا کا بیٹا ہے مولا کا معنی ہے ازاد کردہ وغیرہ دوسرے معنی بھی ہیں اور ایک معنی ہے محبوب، یہی محبوب معنی مراد ہے اس قول میں کہ جس کا میں مولا علی اس کا مولا
(تاریخ دمشق ملتقطا42/238)
.
وهو وليُّ كلِّ مؤمن"؛ أي: حبيبه....معناه: من كنت أتولاه فعليٌّ يتولاه؛ من الولي ضد العدو
علی ولی اللہ ہیں مولا ہیں یعنی محبوب ہیں، ولی مولا کا الٹ عدو یعنی دشمن ہے
(شرح المصابيح لابن الملك6/439)
.
قال الشافعي رضي الله عنه: يعني بذلك ولاء الإسلام كقوله تعالى: {ذلك بأن اللہ مولى الذين آمنوا وأن الكافرين لا مولى لهم
امام شافعی فرماتے ہیں کہ علی مولا کا معنی ہے علی محبوب ہیں... جیسا کہ اس ایت ذلك بأن اللہ مولى الذين آمنوا وأن الكافرين لا مولى لهم کا معنی اسی طرح بنتا ہے
(شرح المشكاة للطيبي12/3884)
.
من كُنْتُ مَوْلَاهُ فعَليٌّ مَوْلاهُ". أراد بذلك ولاء الإسلام، كقوله تعالى: {ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آَمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمْ
امام سیوطی نے بھی فرمایا کہ علی مولا ہیں اسے مراد یہ ہے کہ علی اسلامی طور پر محبوب ہیں جیسا کہ اس ایت ذلك بأن الهل مولى الذين آمنوا وأن الكافرين لا مولى لهم کا معنی اسی طرح بنتا ہے
( قوت المغتذي على جامع الترمذي2/1002)
.
وفي بعضها قال ذلك يوم غدير خم وزاد البزار في رواية " اللهم وال من والاه وعاد من عاداه وأحب من أحبه وأبغض من أبغضه
امام بزاز نے علی مولا والی روایت میں یہ زیادہ کیا ہے کہ یا اللہ ان سے محبت فرما جو علی سے محبت فرمائے...( مطلب مولا کا معنی محبوب ہے)
(فیض القدیر شرح جامع صغیر6/217)
.
وهو ولي كل مؤمن) أي: حبيبه
شیخ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ ولی مولا کا معنی محبوب ہے
(لمعات شرح مشکواۃ9/653)
.
مَوْلَاهُ مَعْنَاهُ مَحْبُوبٌ مَنْ أَنَا مَحْبُوبُهُ قُلْتُ وَيَدُلُّ عَلَى هَذَا الْمَعْنَى قَوْلُهُ: اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَلَاهُ أَيْ أَحِبَّ مَنْ أَحَبَّهُ بِقَرِينَةِ اللَّهُمَّ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَعَلَى هَذَا فَهَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ لَهُ تَعَلُّقٌ بِالْخِلَافَةِ
أَصْلًا
علی مولا ہیں اس سے نہ تو روحانی خلافت ثابت ہوتی ہے نہ ہی سیاسی خلافت ثابت ہوتی ہے اس کا معنی تو یہ ہے کہ جس کو میں محبوب ہوں علی اس کو محبوب ہیں اور یہ معنی حدیث سے ہی ثابت ہوتے ہیں کہ حدیث پاک میں ہے کہ یا اللہ اس سے محبت فرما جو علی سے محبت کرے اس سے دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھے
(حاشية السندي على سنن ابن ماجه1/56)
.
سَبَبُ وُرُودِ هَذَا الْحَدِيثِ كَمَا نَقَلَهُ الْحَافِظُ شَمْسُ الدِّينِ الْجَزَرِيُّ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ أَنَّ عَلِيًّا تَكَلَّمَ بَعْضُ مَنْ كَانَ مَعَهُ بِالْيَمَنِ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حَجَّهَ خَطَبَ بِهَا تَنْبِيهًا عَلَى قَدْرِهِ وَرَدًّا عَلَى مَنْ تَكَلَّمَ فِيهِ كَبُرَيْدَةَ كَمَا فِي
الْبُخَارِيِّ
بخاری وغیرہ کی حدیث سے یہ معنی و پس منظر ثابت ہوتا ہے کہ علی مولا کہنے کی جو روایت ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ بعض صحابہ کرام نے حضرت علی کی مال غنیمت کے معاملے میں شکایت لگائی تھی تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تنبیہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ جس کا میں محبوب ہوں علی اس کا محبوب ہے
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح9/3937)
.
فَقَدْ ذَكَرْنَا مِنْ طُرُقِهِ فِي كِتَابِ الْفَضَائِلِ مَا دَلَّ عَلَى مَقْصودِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ وَهُوَ أَنَّهُ لَمَّا بَعَثَهُ إِلَى الْيمَنِ كَثُرَتِ الشَّكَاةُ عَنْهُ وَأَظْهَرُوا بُغْضَهُ فَأَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَذْكُرَ اخْتِصَاصَهُ بِهِ وَمَحبَّتَهُ إِيَّاهُ وَيَحُثُّهُمْ بِذَلِكَ عَلَى مَحَبَّتِهِ وَمُوَالِاتِهِ وَتَرْكِ مُعَادَاتِهِ فَقَالَ: «مِنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ فَعَلِيٌّ وَلِيَّهُ» وَفِي بَعْضِ الرُّوَايَاتِ: مِنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمْ وَالِ مِنْ وَالِاهُ وَعَادِ مِنْ عَادَاهُ. وَالْمُرَادُ بِهِ وَلَاءُ الْإِسْلَامِ
وَمَودَّتُهُ،
احادیث مبارکہ سے معنی و پس منظر ثابت ہوتا ہے کہ جب سیدنا علی کو یمن کی طرف بھیجا گیا تھا تو وہاں پر مال غنیمت کی تقسیم میں بعض صحابہ کرام کو ناگواری گزری تو انہوں نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ معاملہ شکایت غدیرخم پے عرض کی تو حضور نے حضرت علی کی محبت و خصوصیت اجاگر کرنے کے لیے فرمایا کہ جس کا میں محبوب ہوں علی اس کو محبوب ہیں تو اس سے مراد محبت ہے نہ کہ کوئی اور چیز....اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ بعض احادیث میں یہ بھی اضافہ ہے کہ یا اللہ تو اس شخص سے محبت رکھ جو حضرت علی سے محبت رکھے
(الاعتقاد للبیھقی ص354)
.
وَأَيْضًا فسبب ذَلِك كَمَا نَقله الْحَافِظ شمس الدّين الْجَزرِي عَن ابْن إِسْحَاق أَن عليا تكلم فِيهِ بعض من كَانَ مَعَه فِي الْيمن فَلَمَّا قضى رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم حجه خطبهَا تَنْبِيها على قدره وردا على من تكلم فِيهِ كبريدة كَمَا فِي البُخَارِيّ أَنه كَانَ يبغضه
علی مولا کا معنی سبب و پس منظر یہ ہے کہ مال غنیمت کے معاملے میں کچھ صحابہ کرام نے شکایت کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کی قدر و منزلت بیان کرنے کے لیے فرمایا کہ جس کا میں مولا علی اس کا مولا یعنی ان سے بغض نہ رکھو ان سے محبت رکھو جیسے کہ بخاری سے ثابت ہوتا ہے
(الصواعق المحرقة 1/109 )
.
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے شاگرد قاضی ثناء اللہ پانی پتی کہ جس کے متعلق شاہ عبدالعزیز دہلوی نے فرمایا کہ بیھقیِ وقت ہیں، قاضی صاحب خلیفہ تھے حضرت مظہر جان جانان دہلوی کے، یہی قاضی پانی پتی لکھتے ہیں :
حدیث مذکورہ میں مولا سے مراد محبوب ہے حدیث کے آخری دعائیہ الفاظ(کہ اے جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ) اس پر قرینہ ہیں...مزید فرماتے ہیں..المفھوم: علی مولا والی حدیث کا سبب و پس منظر یہ ہے کہ مال غنیمت کی تقسیم کے معاملے میں کچھ صحابہ کرام کو سیدنا علی سے اختلاف ہوا، ناگواری محسوس کی اور اسکا تذکرہ سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو اپ علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا تاکہ ناگواری وشکایت ختم ہوجائے اس لیے فرمایا کہ میں جس کا مولا علی اس کا مولا یعنی جس کا میں محبوب علی اس کا محبوب ہے لیھذا علی کو دوست رکھو، ناگواری شکایت دل سے نکال دو...(السیف المسلول مترجم ص245,246ملخصا)
.
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے کلام کا مفھوم:
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹی چھوٹی چیزوں کے متعلق ہدایت فرمائی تو اتنے بڑے مسئلے کے متعلق اگر کچھ فرمانا ہوتا واضح فرما دیتے، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو رحمت میں ڈالتے ہوئے اور انہیں غور و خوض کرنے کی عادت ڈالنے کے لیے یہ معاملہ ان کی صوابدید پر چھوڑ دیا، اور نماز میں سیدنا ابوبکر صدیق کو خلیفہ بنا کر یہ اشارہ بھی دے دیا کہ کون خلیفہ ہونا چاہیے... علی مولا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت بڑھانے کے لیے فرمایا تھا کیونکہ صحابہ کرام کو سیدنا علی سے شکایت تھی تو شکایت دور کرنے کے لیے فرمایا تھا
(تحفہ اثناء عشریہ ص418,419)
.
سیدی اعلیٰ حضرت نے بھی مولا کا معنی دوست لکھا ہے
(مطلع القمرین ص71)
.
تاجدار گولڑہ پیر مہر علی شاہ فرماتے ہیں :
غدیر کے واقعہ کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" بریدہ کی شکایت کی وجہ سے تھا اس کا مطلب یہ ہے ، کہ علی سے دوستی اور محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دوستی ہے
(تصفیہ مابین سنی و شیعہ ص33)
.
ریاض شاہ چمن زمان عرفان شاہ طاہر کادری آپ سب لوگ ان عظیم بزرگوں کو پیشوا مانتے ہو اعلان کرتے ہو، ان کے نام پے شہرت چندہ کماتے ہو مگر مکار کہیں کے تم لوگ کہ بزرگوں کے خلاف جاتے ہو، کیا تمھاری سمجھ بزرگوں کی سمجھ سے بڑھ کر ہے یا معاملہ ایجنٹی ایرانی مال ڈالر پاؤنڈ شہرت مکاری وغیرہ کا ہے.......؟؟ تمھارے فتوے مطابق تو یہ سب اہلسنت حضرات ناصبی کہلائے اہلبیت سے بغض رکھنے والے کہلائے....اب بندہ آپ کو کیا کہے....؟؟
.
############
*#بحث دوئم......کوڑے.....؟؟*
یہ بات متواتر سے ثابت ہے کیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اس امت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ افضل ابو بکر ہیں پھر عمر۔۔۔حضرت علی کی یہ روایت قریبا 80 طرق سے مروی ہے
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے تھے کہ جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دے گا میں اسے بہتان باندھنے والے کی سزا دوں گا۔۔۔حتی کہ متقدمین شیعہ بھی یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ سب سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر کہتے تھے کہ
ہم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بات کو کیسے جھٹلا سکتے ہیں.....؟؟
[العواصم من القواصم ط دار الجيل ,page 274]
.
*#تفضیلی کا جواب......!!*
تفضیلی نے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ عاجزی بڑے پن کے طور پر کہا ہے ورنہ اپ سیدنا علی ہی افضل ہیں
.
*#ہمارا جواب......!!*
عاجزی کے طور پر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اتنا تو فرما سکتے تھے کہ میں افضل نہیں ہوں مجھے افضل نہ کہو چلیں اتنی بات تک تو ممکن ہے عاجزی کے طور پر فرمائی ہو لیکن بات یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اپ نے فرمایا کہ جو مجھے فضیلت دے گا اسے میں بہتان باندھنے والے جھوٹ بولنے والے کی سزا حد مفتری کی سزا دوں گا
اور
حد کے طور پر سزا قطعی چیزوں میں دی جاتی ہے کیونکہ حدیث پاک کے مطابق اور اہلسنت و شیعہ دونوں کے مطابق شبہات ظنیات احتمالات کی وجہ سے تو حد ساقط ہو جاتی ہے.... گویا سیدنا علی فرما رہے ہیں کہ یہ میں عاجزی کے طور پر نہیں کہہ رہا بلکہ قطعی طور پر افضل سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما ہیں کہ اگر میری افضلیت کا احتمال بھی ہوتا تو مفتری کی حد نہ لگاتا جبکہ میں سیدنا علی اعلان کر رہا ہوں کہ مفتری کی حد لگاؤں گا
.
الحدیث:
ادْرَءُوا الْحُدُودَ عَنِ الْمُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ، فَإِنْ كَانَ لَهُ مَخْرَجٌ فَخَلُّوا سَبِيلَهُ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حدود والی سزاؤں میں کوئی شبہ و احتمال و راستہ نکلتا ہو تو حد والی سزا نہ دو
(ترمذی حدیث1424)
ادرءوا الحدود بالشبهات
شبہات کی وجہ سے حد کو دور کر دو حد نہ لگاؤ
(شیعہ کتاب شرح اصول کافی1/485)
#################
*#تیسری بحت، شیعہ کتاب سے ایک اور اہم دلیل ......!!*
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
إنه بايعني القوم الذين بايعوا أبا بكر وعمر وعثمان على ما بايعوهم عليه، فلم يكن للشاهد أن يختار ولا للغائب أن يرد، وإنما الشورى للمهاجرين والأنصار، فإن اجتمعوا على رجل وسموه إماما كان ذلك لله رضى
میری(سیدنا علی کی)بیعت ان صحابہ کرام نے کی ہےجنہوں نےابوبکر و عمر کی کی تھی،یہ مہاجرین و انصار صحابہ کرام کسی کی بیعت کرلیں تو اللہ بھی راضی ہے اور اللہ کی خاطر ہم بھی راضی ہیں(اور وہ خلیفہ برحق کہلائے گا) تو ایسی بیعت ہو جائے تو دوسرا خلیفہ انتخاب کرنے یا تسلیم نہ کرنے کا حق نہیں(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ ص491)یہ سیدنا علی کا فرمان ان شیعوں کے منہ پےزناٹےدار تھپڑ ہیں جو سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر سیدنا عثمان وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے متعلق دو ٹوک یا ڈھکے چھپے الفاظ میں گستاخی و بکواس کرتےہیں…مزید اس قول مبارک سے یہ بھی ثابت ہوا کہ
سیدنا علی کے مطابق سیدنا ابوبکر و عمر مہاجرین انصار صحابہ کرام برحق سچےاچھےتھے ،انکی خلافت برحق تھی تبھی تو سیدنا علی نے انکی بیعت کو دلیل بنایا.....!! اس قول سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا علی کے مطابق رسول کریمﷺنے دوٹوک کسی کو خلیفہ نہ بنایا اگر بنایا ہوتا تو مہاجرین و انصار صحابہ کرام کی رائے و انتخات کو وقعت نہ دیتے بلکہ وہ نص بیان فرماتے کہ میں تو فلاں آیت یا حدیث کی وجہ سے خلیفہ بلافصل ہوں....اس قول مبارک سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا علی کے مطابق خلافت میں پہلا نمبر ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اور دوسرا نمبر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا...یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا ابوبکر سیدنا عمر وغیرہ صحابہ کرام کافر مشرک مرتد منافق ظالم غاصب بدعتی نہ تھے، بلکہ نیک و عبادت گذار سچے تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ انکی تعریف و مدح کرتے تھے…
.
اگر سیدنا علی کو خلافت اللہ و رسول کی طرف سے ملی ہوتی تو اللہ کی نافرمانی کرکے کیوں فرماتے کہ صحابہ کے فیصلوں میں اللہ کی رضامندی ہے ہماری بھی اللہ کی خاطر رضامندی ہے...اسکا مطلب خلافت کسی کو نہ ملی تھی ورنہ اللہ و رسول کے حکم کے خلاف جانے میں اللہ و رسول کی رضامندی نہیں بلکہ اللہ کا غضب ہوتا ہے کہ اللہ و رسول کے مقابلے میں صحابہ کرام کی کیسے مانتے سیدنا علی...یقینا اللہ و رسول نے خلافت نہ دی تھی
.####################
*#چوتھی_بحث_سیدنا_ابوبکر_عمر_کے_افضل ہونے اولین قطب و روحانی خلیفہ ہونے کے کچھ دلائل و اسلاف کے اقوال........!!*
حق چار یار کی نسبت سے چار قرآنی دلائل کہ جس سے افضلیت سیدنا صدیق اکبر ثابت کی گئ ہے.
①القرآن..سورہ توبہ...ایت40
(تفسير النيسابوري = غرائب القرآن ورغائب الفرقان3/471)
.
②القرآن...سورہ حدید...ایت10
(تفسیر اللباب في علوم الكتاب18/462)
.
③القرآن..سورہ لیل...آیت17
(تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير31/188)
.
④القران..سورہ نور...آیت22
(تفسیر اللباب في علوم الكتاب14/335)
.
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.===============
سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے افضل ہونے اولین قطب و روحانی خلیفہ ہونے کے متعلق تین اہم احادیث مبارکہ بمع شرح........!!*
.
①مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ ". فَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ فَصَلَّى
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابوبکر کو کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے تو سیدنا ابو بکر نکلے اور نماز پڑھانا شروع کی
(بخاری حدیث664)
.
والإمامة الصغرى تدل على الكبرى، ومطابقة الحديث للترجمة ظاهرة، فإن أبا بكر أفضل الصحابة، وأعلمهم وأفقههم
اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ جب نماز میں سیدنا ابوبکر صدیق زیادہ مستحق ہیں تو بڑی امامت(روحانی و سیاسی خلافت) میں بھی وہ سب سے زیادہ حقدار ہیں، اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق تمام صحابہ میں سب سے زیادہ افضل تھے سب سے زیادہ علم والے تھے سب سے زیادہ فقہ و سمجھ والے تھے
(ارشاد الساری شرح بخاری2/43)
.
②فَوُزِنْتَ أَنْتَ وَأَبُو بَكْرٍ فَرَجَحْتَ أَنْتَ بِأَبِي بَكْرٍ، وَوُزِنَ عُمَرُ وَأَبُو بَكْرٍ فَرَجَحَ أَبُو بَكْرٍ، وَوُزِنَ عُمَرُ وَعُثْمَانُ فَرَجَحَ عُمَرُ
ایک شخص نے عرض کی کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ترازو لایا گیا اور اس میں آپ کو وزن کیا گیا اور ابو بکر کو وزن کیا گیا تو آپ کا پلڑا بھاری رہا... پھر ابوبکر اور عمر کو وزن کیا گیا تو ابوبکر کا پلڑا بھاری رہا پھر عمر اور عثمان کو وزن کیا گیا تو عمر کا پلڑا بھاری رہا
(ابوداؤد حدیث تقریری4634)
.
ومعنى رجحان كل من الآخر أن الراجح أفضل من المرجوح
اس حدیث کا یہ معنی ہے کہ جس کا پلڑا بھاری رہا وہ افضل ہے( لہذا سیدنا ابوبکر صدیق افضل ہیں اس کے بعد سیدنا عمر اس کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہم)
(عون المعبود شرح حدیث4634)
.
③وَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ : فَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جہاں تک تعلق ہے میرے زمین میں دو وزیروں کا تو وہ ابوبکر اور عمر ہیں
(ترمذی حدیث3680)
.
فِيهِ دَلَالَةٌ ظَاهِرَةٌ عَلَى فَضْلِهِمَا عَلَى غَيْرِهِمَا مِنَ الصَّحَابَةِ وَهُمْ أَفْضَلُ الْأُمَّةِ، وَعَلَى أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَفْضَلُ مِنْ عُمَرَ
اس حدیث پاک میں واضح دلیل ہے کہ سیدنا ابوبکر اور عمر تمام صحابہ کرام سے افضل ہیں اور ساری امت سے افضل ہیں اور سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سے افضل ہیں
(مرقاۃ شرح مشکواۃ9/3915)
.
*#صحابہ کرام کے مطابق افضل کون.....؟؟*
ہم صحابہ کرام لوگوں کے درمیان فضیلت دیتے تھے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارک میں تو ہم فضیلت دیتے تھے سب سے پہلے ابو بکر صدیق کو پھر سیدنا عمر کو پھر عثمان بن عفان کو ُ(پھر سیدنا علی کو)
[صحيح البخاري ,5/4روایت3655]
.
*#سیدنا_علی نے فرمایا.....!!*
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں سے بہتر.و.افضل ابوبکر ہیں اور ابوبکر کے بعد سب لوگوں سے بہتر.و.افضل عمر ہیں...(ابن ماجہ روایت نمبر106)
.
مذکورہ دلائل سے ثابت ہوا کہ سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.===============
*سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے افضل ہونے اولین قطب و روحانی خلیفہ ہونے کے متعلق کئ علماء ائمہ اولیاء صوفیاء کے اقوال ہیں، سب کو جمع کیا جائے تو ضخیم کتاب مجلدات بن جائیں...اختصار کے ساتھ چند مشھور اسلاف کے اقوال پڑہیے....!!*
.
*#امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں*
وَأفضل النَّاس بعد النَّبِيين عَلَيْهِم الصَّلَاة وَالسَّلَام أَبُو بكر الصّديق ثمَّ عمر بن الْخطاب الْفَارُوق ثمَّ عُثْمَان بن عَفَّان ذُو النورين ثمَّ عَليّ بن أبي طَالب المرتضى رضوَان الله عَلَيْهِم أَجْمَعِينَ
انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر ہیں پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین
(الفقه الاكبر ص41)
*#امام احمد کا عقیدہ*
سمعت أبا عبد اللَّه يقول في التفضيل: أبو بكر، ثم عمر،
راوی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ افضلیت میں سیدنا ابوبکر سب سے افضل ہیں اس کے بعد سیدنا عمر ہیں
( الجامع لعلوم الإمام أحمد - العقيدة4/289)
.
*#تمام اہل علم کا نظریہ ہے*
فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ عَلِيَّ بنَ أَبي طالبٍ أَفْضَلُ من أَبِي بَكْرٍ قد رَدَّ الكِتابَ والسُّنَّة
فرماتے ہیں کہ جس نے یہ گمان کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں تو اس نے کتاب و سنت کو رد کردیا
(الجامع لعلوم الإمام أحمد - العقيدة3/41)
.
*#ابن جوزی ابن مفلح اور امام احمد کا عقیدہ*
وأفضلُ الناس بعدَ رسول الله أبو بكر وعُمر وعثمان وعَلي
تمام لوگوں میں سب سے زیادہ افضل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر ہیں پھر عمر ہیں پھر عثمان پھر علی ہیں
(مناقب الإمام أحمد ص239)
(المقصد الارشد1/317نحوہ)
.
*#امام مالک کا نظریہ*
سئل مالك من أفضل الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ وقال مالك أبو بكر ثم قال ثم من؟ قال عمر ثم قال ثم من؟ قال عثمان
امام مالک سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے تو امام مالک نے فرمایا ابوبکر صدیق ہیں پھر اس کے بعد عمر ہے پھر اس کے بعد عثمان ہیں
(ترتيب المدارك وتقريب المسالك45، 2/46)
.
*#امام غزالی کا نظریہ*
بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر ہیں پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی ہیں رضی اللہ تعالی عنہم اور ہم پر لازم ہے کہ ہم تمام صحابہ کی تعریف و مدح سرائی کریں جیسے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول نے ان کی تعریف و مدح کی ہے یہ تمام باتیں وہ ہیں کہ جن کے متعلق احادیث اور آثار ہیں جو یہ اعتقاد رکھے گا وہ اہل سنت میں سے ہوگا اہل حق میں سے ہوگا اور گمراہوں اور بدعتوں سے دور ہوگا
(احیاء العلوم 1/93)
.
*#امام سيوطي کا نظریہ*
سیدنا ابوبکر صدیق تمام انبیاء کے بعد تمام لوگوں سے افضل ہیں اس کے بعد سیدنا عمر افضل ہیں ان کے بعد سیدنا عثمان افضل ہیں ان کے بعد سیدنا علی افضل ہیں رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین
(إتمام الدراية لقراء النقاية ص17)
.
*#پیران پیر دستگیر کا نظریہ*
غوث اعظم پیران پیر دستگیر فرماتے ہیں کہ تمام امتوں سے افضل امت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے، پھر امت محمدیہ میں سب سے افضل صحابہ ہیں اور صحابہ میں افضل عشرہ مبشر ہیں اور عشر مبشرہ میں سے افضل چار خلفاء ہیں اور چار خلفاء میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان پھر علی رضی اللہ تعالیٰ عنھم
وأفضل الأربعة أبو بكر ثم عمر ثم عثمان ثم علي -رضي الله تعالى عنهم
(غنیۃ الطالبین157, 1/158)
نیم رافضی تفضیلی مثلا طاہر کادری چمن رمان ریاض شاہ عرفان شاہ قادری کہلانے کے مستحق نہیں...قادری نظریہ کے باغی اہلسنت سے خارج ہیں...اگر پھر بھی خود کو سنی و قادری کہیں تو سمجھ جاؤ دھوکہ دے کر اپنا بنا کر بہلا پھسلا کر تمھیں تفضیلت کا زہر دینا چاہتے ہیں اور ایجنٹی کرکے پیسہ کماتے ہیں اور عوام کو دھوکہ دے کر عزت شہرت کماتے ہیں
.
*#امام طحاوی کا نظریہ*
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہم خلافت سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق کے لیے ثابت کرتے ہیں کیونکہ وہ سب سے افضل ہیں اور سب سے مقدم ہیں پھر اس کے بعد سیدنا عمر بھر اس کے بعد سیدنا عثمان پھر اس کے بعد سیدنا علی یہ تمام کے تمام خلفاء راشدین ہیں
(عقیدہ طحاویہ ص81)
.
داتا صاحب کے مطابق بھی سیدنا صدیق اکبر سیاسی و روحانی اول خلیفہ ہیں،لکھتے ہیں:
صدیق اکبر انبیاء کے بعد تمام بشروں سےافضل ہیں،اہل طریقت کے پیشوا خاص ہیں(کشف المحجوب ص174،175)
.
سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے
.===================
*سیدنا صدیق اکبر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی افضلیت اجماعی و قطعی ہے...چند حوالے ملاحظہ کیجیے.......!!*
.
*#علامہ امام عینی فرماتے ہیں*
ومذهب أهل السنة: أن أفضل الناس بعد نبينا -عليه السلام- أبو بكر، ثم عمر، ثم عثمان، ثم علي - رضي الله عنه
تمام اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر ہیں پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی ہیں
( نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار16/498)
.
*#امام ابن ملقن فرماتے ہیں*
قام الإجماع من أهل السنة والجماعة على أن الصديق أفضل الصحابة، ثم عمر
اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ تمام صحابہ میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں اس کے بعد سیدنا عمر ہیں
(التوضيح لشرح الجامع الصحيح20/250)
.
قال ابو الحسن الأشعري تفضيل ابى بكر على غيره من الصحابة قطعى قلت قد اجمع عليه السلف وما حكى عن ابن عبد البر ان السلف اختلفوا فى تفضيل ابى بكر وعلى فهو شىء غريب الفرد به عن غيره ممن هو أجل منه علما واطلاعا
امام ابو الحسن اشعری فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق کی افضلیت قطعی ہے...صاحب تفسیر مظہری فرماتے ہیں کہ اس بات پر تمام اسلاف کا اجماع ہے اور وہ جو ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ کچھ اختلاف ہے تو یہ اختلاف شاذ ہے اختلاف کرنے والوں کی جلالت اور علم اور اطلاع ان علماء جیسی نہیں ہے کہ جنہوں نے قطعی قرار دیا ہے
(التفسير المظهري9/191)
.
*#امام قسطلانی فرماتے ہیں*
الأفضل بعد الأنبياء أبو بكر، وقد أطبق السلف على أنه أفضل الأمة. حكى الشافعي وغيره إجماع الصحابة والتابعين على ذلك
انبیاء کرام کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں اس پراسلاف نے اجماع کیا ہے اور امام شافعی وغیرہ نے منقول کیا ہے کہ اس بات پر صحابہ اور تابعین کا بھی اجماع ہے
(ارشاد الساری شرح بخاری6/85)
.
*#علامہ ہاشم ٹھٹھوی سندھی فرماتے ہیں*
اقول لو اطلع هؤلاء على الاحاديث الكثيرة البالغة حد التواتر وعلى الاجماع الدالين على الترتيب المذكور لما قالوا بظنيتها اصلاً ولما قروا بقطعيتها حتما
جن لوگوں نے سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی افضلیت کو ظنی کہا ان لوگوں کے علم میں اجماع اور وہ روایات نہ تھیں کہ جو تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور اگر انہیں سیدنا ابوبکر و عمر کی سیدنا علی وغیرہ سب پر افضلیت کی حد تواتر تک پہنچی ہوئی روایات پہنچتی اور اجماع کا پتہ چلتا تو وہ کبھی بھی اس مسئلے کو ظنی قرار نہ دیتے بلکہ حتمی و قطعی اجماعی قرار دیتے
(الطریقۃ المحمدیۃ ص122..123)
.================
*سیدنا ابوبکر و عمر روحانی و سیاسی اولین خلیفہ تھے، قطب تھے،ولایت و کمالات کے جامع تھے...دوٹوک عبارتیں ملاحظہ کیجیے.....!!*
حوالہ:1
و فی شرح المواهب اللدنية قال: أول من تقطب بعد النبی الخلفاء الأربعة على ترتيبهم في الخلافة، ثم الحسن هذا ما عليه الجمهور
شرح المواهب اللدنية میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے جو قطب(روحانی خلیفہ) ہیں وہ خلفائے اربعہ ہیں اس ترتیب پر جو ان کی خلافت کی ترتیب ہے یعنی سب سے پہلے قطب(روحانی و سیاسی خلیفہ) سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی قطب ہیں پھر سیدنا حسن(رضی اللہ تعالیی عنھم اجمعین)اور یہ وہ(نظریہ قول) ہے کہ جس پر جمہور(علماء اور صوفیاء)ہیں
(جلاء القلوب2/265)
.
*حوالہ 2*
علامہ ابن رجب لکھتے ہیں:
لما انطوى بساط النبوة من الأرض بوفاة الرسول صلى الله عليه وسلم لم يبق على وجه الأرض أكمل من درجة الصديقية وأبو بكر رأس الصديقين فلهذا استحق خلافة الرسول
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے تو صدیقیت کے علاوہ کوئی بھی افضل درجہ نہ تھا اور سیدنا ابوبکر صدیق تمام صدیقوں کے سردار تھے اسی لیے خلافت(روحانی و سیاسی خلافت)کے مستحق ٹہرے
(لطائف المعارف ص104)
.
*حوالہ نمبر3*
صوفی امام شعرانی اور صوفی ابی مدین اور صوفی امام علی الخواص اور علامہ شامی کا نظریہ:
ابی بکر الصدیق...وھو اول اقطاب ھذہ الامۃ و کذالک مدۃ خلافۃ عمر و عثمان و علی...وبلغنا مثل ذلك عن الشيخ ابن العربی فقلت لشيخنا فهل يشترط ان يكون القطب من اهل البيت كما قاله بعضهم فقال لا يشترط ذلك لأنها طريق وهب يعطيها الله تعالى لمن شاء
سیدنا ابوبکر صدیق اس امت کے تمام قطبوں میں سے سب سے پہلے اولین قطب ہیں اور اسی طرح سیدنا عمر اپنی خلافت کے زمانے میں قطب تھے اور سیدنا عثمان بھی اپنی خلافت میں قطب تھے اور سیدنا علی اپنے خلافت کے زمانے میں قطب تھے، اسی طرح کا نظریہ ہمیں صوفی ابن مدین سے بھی ملا ہے، امام شعرانی فرماتے ہین کہ میں نے اپنے شیخ مرشد امام علی الخواص سے پوچھا کہ کیا قطب کے لیے اہلبیت نبوی میں سے ہونا شرط ہے جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں، آپ نے فرمایا شرط نہیں، قطبیت اللہ کی عطاء ہے جسے چاہے نوازے
(مجموع رسائل ابن عابدین 2/275)
.
*حوالہ نمبر 4*
وأول من تقطب بعد النبي يَةُ الخلفاء الأربعة على ترتيبهم في الخلافة، ثم الحسن، هذا ما عليه الجمهور
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے جو قطب(روحانی خلیفہ) ہیں وہ خلفائے اربعہ ہیں اس ترتیب پر جو ان کی خلافت کی ترتیب ہے یعنی سب سے پہلے قطب سیدناابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی قطب ہیں پھر سیدنا حسن(رضی اللہ تعالیی عنھم اجمعین)اور یہ وہ(نظریہ قول) ہے کہ جس پر جمہور(علماء اور صوفیاء)ہیں
(مشتهى الخارف الجاني ص506)
.
*حوالہ نمبر 5*
علامہ مناوی فرماتے ہیں:
لكن حيث أطلق القطب لا يكون في الزمان إلا واحدا وهو الغوث، وهو سيد أهل زمنه وإمامهم، وقد يحوز الخلافة الظاهرة كما حاز الباطنة، كالشيخين والمرتضى والحسن و عبد العزيز رضي الله عنهم،
قطب زمانے میں ایک ہوتا ہے اور اسے غوث بھی کہتے ہیں اور وہ اپنے تمام زمانے والوں کا سردار و امام و افضل شخص ہوتا ہے...قطب کبھی روحانی خلیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی خلیفہ بھی ہوتا ہے جیسے کہ سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا علی سیدنا حسن اور سیدنا عبد العزیز( یہ سب روحانی اور سیاسی دونوں قسم کے خلافت والے تھے)
(التوقیف ص58)
.
*حوالہ نمبر6*
وبعد عصرہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفتہ القطب، متفق علیہ بین اہل الشرع و الحکماء۔۔۔انہ قد یکون متصرفا ظاہرا فقط کالسلاطین و باطنا کالاقطاب و قد یجمع بین الخلافتین کالخلفاء الراشدین کابی بکر و عمر بن عبدالعزیز
اور
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارکہ کے بعد جو آپ کا خلیفہ ہوا وہی قطب ہے اس پر تمام اہل شرع(علماء صوفیاء)اور حکماء کا اتفاق ہے کہ خلیفہ کبھی ظاہری تصرف والا ہوتا ہے جیسے کہ عام بادشاہ اور کبھی فقط باطنی تصرف والا ہوتا ہے جیسے کہ قطب اور کبھی خلیفہ ایسا ہوتا ہے کہ جو ظاہری تصرف بھی رکھتا ہے اور باطنی تصرف بھی رکھتا ہے(وہ بادشاہ بھی ہوتا ہے اور قطب و روحانی خلیفہ بھی ہوتا ہے)جیسے کہ خلفائے راشدین مثلا سیدنا ابو بکر صدیق اور عمر بن عبدالعزیز
(نسیم الریاض3/30ملتقطا)
.
*حوالہ نمبر7*
شیخ الدقائق صوفی امام ابن عربی کا قول منقول ہے کہ:
ولكن الأقطاب المصطلح على أن يكون لهم هذا الإسم مطلقًا من غير إضافة لا يكون إلا واحد وهو الغوث أيضًا وهو سيد الجماعة في زمانه ومنهم من يكون ظاهر الحكم ويحوز الخلافة الظاهرة كما حاز الخلافة الباطنة كأبي بكر وعمر وعثمان وعلي رضوان الله تعالى عليهم
قطب زمانے میں ایک ہوتا ہے اور اسے غوث بھی کہتے ہیں اور وہ اپنے تمام زمانے والوں کا سردار و امام و افضل شخص ہوتا ہے...قطب کبھی روحانی خلیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی خلیفہ بھی ہوتا ہے جیسے کہ سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا علی( یہ سب روحانی اور سیاسی دونوں قسم کے خلافت والے تھے)
(الموسوعة الميسرة في تراجم أئمة التفسير والإقراء والنحو واللغة3/2530)
.
*حوالہ نمبر 8*
قطب.....وھو الغوث ایضا و ھو سید الجماعۃ فی زمانہ۔۔یحوز الخلافۂ الظاہریۃ کما حاز الخلافۃ الباطنیۃ کابی بکر و عمر و عثمان و علی رضوان اللہ تعالیٰ علھیم...و ذہب التونسی من الصوفیۃ الی ان اول من تقطب بعدہ صلی اللہ علیہ وسلم ابنتہ فاطمۃ و لم ار لہ فی ذالک سلفا
قطب(روحانی خلیفہ) اس کو غوث بھی کہتے ہیں اور وہ اپنے زمانے میں تمام امتیوں کا سردار و افضل ہوتا ہے...خلیفہ کبھی ایسا ہوتا ہے جو ظاہری خلافت بھی پاتا ہے اور باطنی خلافت و قطبیت بھی پاتا ہے جیسے کہ سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر اور سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین اور صوفیاء میں سے تونسی اس طرف گئے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد اول قطب ان کی بیٹی فاطمہ ہے اور ہم اس مسئلہ میں ان کا کوئی ہمنوا و حوالہ نہیں پاتے
(مجموع رسائل ابن عابدین 2/265ملتقطا)
.
*حوالہ نمبر 9*
سیدی امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ کا نظریہ
غوث(کو)قطب الاقطاب(بھی کہا جاتا) ہے
(فتاوی رضویہ28/373)
امت میں سب سے پہلے درجہ غوثیت(روحانیت قطبیت) پر امیر المومنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ممتاز ہوئے.
(ملفوظات اعلی حضرت حصہ 1 ص178)
.
*حوالہ نمبر10*
حضرت خواجہ باقی باللہ نقشبندی فرماتے ہیں:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قطب سیدنا ابوبکرصدیق ہیں قطب وہ ہے جو اپنے وقت میں واحد اور سب سے افضل ہوتا ہے، اس کے بعد سیدنا عمر قطب ہوئے اس کے بعد سیدنا عثمان اور اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ قطب ہیں....(مکتوبات خواجہ ص89..90ملخصا منقولا)
.
*حوالہ نمبر11*
مرزا مظہر جانان فرماتے ہیں:
چاروں خلفاء( سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا علی) اور حضرت امام حسن میں یہ دونوں باتیں(ظاہری و باطنی خلافت) جمع تھیں...(مکتوبات مرزا مظہر جانان ص148منقولا)
.
*حوالہ نمبر12*
*#امام اہلسنت مجدد دین و ملت پیکر عشق و محبت سیدی احمد رضا علیہ الرحمۃ نے ظاہری اور باطنی روحانی اول خلیفہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لکھا اور اس کو صحابہ کرام تابعین و اسلاف و امت کا اجماعی عقیدہ قرار دیا اور جو کہتے ہیں کہ باطنی اول خلیفہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں انہیں سیدی امام احمد رضا نے جھوٹے سنی اور گمراہ قرار دیا....متن اور اس پر سیدی امام احمد رضا کا حاشیہ پڑہیے......!!*
امام بر حق رسول اللہ ﷺ کے بعد ابو بکر ، پھر عمر، پھر عثمان، پھر علی رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین ہیں، اور ( ان چاروں کی فضیلت [۳۱۶) ترتیب خلافت کے موافق ہے۔
(۳۱۶) اس حسین عبارت میں مصنف رحمہ اللہ تعالی علیہ نے احمد سابقین کی پیروی کی اور اس میں اس زمانے کے تفصیلیوں کا رد ہے جو جھوٹ اور بہتان کے بل پر سنی ہونے کے مدعی ہیں اس لئے کہ انہوں نے فضیلات میں ترتیب کے مسئلے کو ( ظاہر سے ) اس طرف پھیرا کہ خلافت میں اولیت (خلافت میں زیادہ حقدار ہونے ) کا معنی دنیوی خلافت کا زیادہ حقدار ہونا، اور یہ اس کے لئے ہے جو شہروں کے انتظام اور لشکر سازی، اور اس کے علاوہ دوسرے امور جن کے انتظام وانصرام کی سلطنت میں حاجت ہوتی ہے ان کا زیادہ جاننے والا ہو۔ اور یہ باطل خبیث قول ہے، صحابہ اور تابعین رضی اللہ تعالی عنہم کے اجماع کے خلاف ہے
(المعتقد المنتقد ص286ملتقطا)
.
سیدی امام احمد رضا لکھتے ہیں:
جس کا میں مولا اس کا یہ مولا ، الہی دوست رکھ اسے جو اسے دوست رکھے ، اور دشمن رکھ اسے جو اس سے دشمنی کرے ... تفضیلیہ یا رافضیہ کا مطلب اس سے کچھ نہیں نکلتا ۔ (مطلع القمرین ص71)
.
چمن زمان مکار منافق ایک طرف کہتا ہے کہ:
ہم باب نظریات میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی شخصیت پر مکمل اعتماد کرتے ہیں
(دیکھیے چمن زمان کی کتاب جدید نعرے ص57,58)
اور دوسری طرف امام اہلسنت کے نظریے کی مخالفت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
من کنت مولاہ سے اول روحانی خلافتِ سیدنا ثابت ہوتی ہے
(دیکھیے چمن زمان کی کتاب شہادت سیدنا ذو النورین اور نواصب کا اصل ہدف صفحہ2...13ملخصا)
پہچانیے منافق مکار چالبار پیسہ خور شہرت کا طالب ایجنٹ بکاؤ چمن زمان و کمپنی کو....یہ اسلاف کے خلاف جاتے ہیں لیکن ڈھٹائی مکاری چالبازی ایسی کہ عوام کو کہتے ہیں ہم تو اہلسنت اسلاف کے پابند ہیں...یہ لوگ ایسا اس لیے کرتے ہیں تاکہ عوام کو بہلا پھسلا کر گمراہیت کا زہر ان کے ذہنوں میں گھول دیا جائے تو پھر عوام سے چندہ مال بٹورہ جائے عزت شہرت کمائی جائے
لیھذا
پہچانیے ایسوں کو...نہ عزت وقعت شہرت دیجیے نا دولت چندہ دیجیے....سمجھائیے اور سمجھانے کے ساتھ ساتھ عزت کا فالودہ بھی کیجیے کہ شاید بےعزتی کے ڈر سے ہی سہی مگر گمراہی پھیلانے سے رک جائیں
.#############
كَانَ يُفَضِّلُ عَلِيًّا كَرَّمَ اللَّهُ تَعَالَى وَجْهَهُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ... أَنَّهُ مُبْتَدِعٌ
اگر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ پر فضیلت دیتا ہو تو وہ بدعتی ہے
(فتاوى عالمگیری ,2/264ملخصا)
.
وَالتَّشَبُّهُ بِأَهْلِ الْبِدَعِ مَنْهِيٌّ عَنْهُ فَتَجِبُ مُخَالَفَتُهُمْ
بدعتی گمراہوں سے مشابہت ممنوع ہے،انکی مخالفت کرنا واجب ہے
(فتاوی شامی6/753)
لیھذا عید غدیر منانا یا یوم ولایت علی منانا غلط نظریہ بدعت گمراہی پر مبنی ہے اس لیے ہرگز ہرگز نہیں منا سکتے
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whatsap nmbr
03468392475
00923468392475
Your writing is very enlightening about Islam, thank you for that
ReplyDeleteMay you always be safe