Labels

مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ کے 40 اہم ترین اقوال و نظریات، پڑہیےپھیلائیے

 *#مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ کے40 اہم اقوال و نظریات معمولات پڑہیے، عمل کیجیے، ہوسکےتو پھیلائیے۔۔۔۔۔۔۔!!*

تمھید:

28 یا 29صفر عظیم مجاہد عاشقِ رسول متبعِ سنت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ کی وفات کا دن ہے،ایصالِ ثواب کیجیے....انکی تعلیمات انکی خدمات کا مطالعہ کیجیے اور انکے نقشِ قدم پر چلیے

.

مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کی ساری عمر دین اسلام کی سربلندی کرانے اور محبت رسول پھیلانے اور دین اکبری کے رد میں گذری.. اتباع سنت دفاعِ اسلام میں گذری..آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حکومتِ وقت سے جہاد کیا اسکی غلط تعلیمات رسومات کا رد کیا ان کو سمجھایا۔۔۔

.

مجدد الف ثانی رحمت اللہ تعالی علیہ کا جہاد دین اکبری کے خلاف تھا... دین اکبری الحاد.و.کمیونزم صلح کلی سب ٥ھیک ہیں عقل پرستی من موجی سے ملتا جلتا تھا... دین اکبری میں ہندو مسلم سکھ عیسائی پارسی دنیا پرست سب بھائی بھائی سب ٹھیک ہیں کا عملی نعرہ لگتا تھا... بادشاہ وقت اسلام کا پابند نہین تھا بلکہ اپنی عقل پر فیصلے کرتا... شراب جوا کی اجازت تھی، زکواۃ جزیہ سب معاف تھے، بادشاہ کے سامنے جکھنا مقرر تھا، نماز روزہ حج کی پابندی نا تھی بلکہ نماز روزہ حج وغیرہ اسلامی عبادات کا مذاق اڑایا جاتا تھا...

.

. آج بھی اسلام کا سب سے بڑا مقابل یہی ہے... آج اگر واقعی صحیح معنوں میں مجدد الف ثانی کے نقشِ قدم پر کوئی ہیں تو وہ اہلسنت ہیں... جنہوں نے حکومت وقت کی سیکیولرازم نوازی پر آواز اٹھائی اور اب بھی جد.و.جہد میں جہاد میں مصروف ہیں... جہاد کے نام پر دہشت گردی بھی جرم ہے... حقیقی سچا جہاد اہلسنت کر رہے ہیں..

.

حکومت کے چمچے چپکو مولوی درباری مولوی اور غیروں کے ایجنٹ منافق مکار مولوی اس وقت بھی تھے اور آج بھی ہین.. تو سچے علماء کی پہچان کیجئے اور ان کا ساتھ دیجئے اسی میں دنیا و اخرت کی بھلائی ہے

۔ 

###################

مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ بڑی معتبر شخصیت گزرے ہیں یہاں تک کہ سرکاری نصابوں میں ان کا تذکرہ تک ملتا ہے تو ائیے ان کے40 اہم ترین اقوال و ملفوظات اعتقادات نظریات پڑھتے ہیں پھیلاتے ہیں اللہ کریم حکمرانوں کو ہم عوام کو مجدد الف ثانی وغیرہ اسلاف اہل سنت کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے کہ ان اسلاف کے اقوال قران و حدیث و اقوال صحابہ سے ہی ماخوذ ہیں۔۔۔۔۔۔ !!

۔ 

*1۔۔۔۔۔۔تصوف روحانی مشغلے سلسلے کشف مراقبے سب کچھ مرشد کی اجازت و نگہبانی میں کیجیے مگر وعظ و تبلیغ بھی ضروری ہے.......!!*

مجدد الف ثانی اپنے مرشد کی نگاہ عنایت و نگرانی میں مراقبے کشف صحو سکر سیر روحانی فناء فی اللہ کے درجات تصوف کے کمالات میں مشغول رہتے تھے لیکن ساتھ میں یہ بھی فرمایا کہ:

ہر چند کار دیگر درپیش داشتہ باشد اشتغال باین عمل ضروری است و مرضی است

یعنی

اگرچہ دوسرے کاموں( مراقبہ زہد و تقوی خلوت پرہیزگاری تصوف فنا فی اللہ مخلوق سے کٹ جانا) کی بھی مشغولیت ہے مگر وعظ و ارشاد میں مشغول رہنا بھی ضروری اور پسندیدہ ہے

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ 26 مکتوب نمبر 11)

.

*2۔۔۔۔۔۔کشف مراقبے وہی معتبر و اصل و حقیقی ہیں جو ظاہر شریعت کے مطابق ہوں ورنہ خطاء یا شیطانی چال ہیں اور سچے اہل سنت علماء ہی معتبر ہیں ان کے علاوہ زندقیت بے دینی الحاد کفر گمراہی ہے الا یہ کہ سکر و مجذوبیت و بےخودی ہو....!!*

مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

 تمام مکاشفات ظاہر شریعت کے مطابق ہو چکے ہیں بال برابر ظاہر شریعت سے مخالفت نہیں رکھتے بعض صوفیاء جو خلاف ظاہر شریعت مکاشفے بیان کرتے ہیں یہ بات یا تو سہو و فراموشی کے باعث ہے یاسکر کی بنا پر ورنہ باطن ظاہر کے ہرگز مخالفت نہیں راستے کے دوران مخالفت محسوس ہوتی ہے اور جمع اور توجیہ کی ضرورت پڑتی ہے حقیقتا انتہا کو پانے والا باطن کو ظاہر شریعت کے مطابق پاتا ہے

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ31۔32مکتوب13

۔

مجدد الف ثانی فرماتے ہیں:

درستی علوم لدنیا مطابقت است بصری علوم شریعہ اگر سر مو تجاوز است از سکر است والحق ما حققہ العلماء من اہلسنۃ و الجماعۃ و ما سوی ذالک اما زندقۃ و الحاد او سکر وقت و غلبۃ حال

یعنی

علوم لدنیہ کی درستی و صحت کی علامت یہ ہے کہ وہ علوم شریعہ کے ساتھ صریح مطابقت و موافقت رکھتے ہیں اس سے اگر بال برابر بھی تجاوز ہے تو وہ سکر کی وجہ سے ہے اور حق وہی ہے جو علماء اہل سنت و جماعت نے کہا ہے اس کے ماسوا زندقہ و الحاد ہے یا سکر  وقت و غلبہ حال ہے

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ84مکتوب30

.

*3۔۔۔۔۔۔۔ولایت کا مقام پانا چاہتے ہو تو شرع شریف کی پیروی کرو عمل بھی کرو، عبادت بھی کرو، وعظ و  تبلیغ بھی کرو......!!*

مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

و للکملین متابعیتہ علیہ الصلاۃ و التحیۃ نصیب کامل و حظ وافر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمیع کمالات الروح والسر والخفي والاخفى منوط بمتابعۃ سيد المرسلين عليه وعلى اله من الصلوات افضلها ومن التسليمات اكملها فعليكم بمتابعتہ و بمتابعۃ خلفائه الراشدين الهاديين المهديين من بعده فانهم نجوم الهدايه وشموس الولايه فمن شرف بمتابعتهم فقد فاز فوزا عظيما

 تو اگر تم لوگ اس بلند درجہ دولت اور اس درجہ علیا کے حصول کی توجہ رکھتے ہو تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی اتباع وپیروی کو مضبوط پکڑ لو۔ ۔۔۔۔ ظاہر باطن ہر قسم کے کمالات کا حصول حضور سید المرسلین کی مطابق اور پیروی کے ساتھ وابستہ ہیں اور خلفائے راشدین (اور دیگر صحابہ کرام و اہلبیت عظام)کی پیروی بھی لازم ہے کیونکہ یہ ستارے ہیں ہدایت کے اور ولایت کے افتاب ہیں تو جس کو ان کی پیروی کا شرف نصیب ہو گیا وہ عظیم کامیابی سے ہمکنار ہو گیا

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ50مکتوب21 و جلد اول صفحہ69مکتوب25


.

*4۔۔۔۔مجدد الف ثانی کے مطابق روحانی خلافت قطبیت ولایت سیدنا صدیق اکبر کی فوقیت رکھتی ہے........!!*

آپ فرماتے ہیں:

كذلك كانت ولايۃ هؤلاء الاكابرين فوق جميع ولايات الاولياء وان ولايتهم منسوبه الى الصديق الاكبر نعم لافراد من کمل المشايخ قد حصلت هذه النسبه لكن باقتباس من ولايۃ الصديق الاكبر رضي الله تعالى عنه

یعنی

 صوفیہ نقشبندیہ کا کمال کمالات سے بڑھ کر ہے اور ان کی نسبت تمام نسبتوں سے فوقیت رکھتی ہے، ایسا کیوں نہ ہو حالانکہ ان اکابر نقشبندیہ قدس اللہ اسرارہم کی ولایت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف منسوب ہے دوسرے سلاسل کے بعض کاملین کو بھی یہ نسبت حاصل ہوئی لیکن وہ بھی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ولایت سے اخذ کرکے

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ52 مکتوب21


.

*5۔۔۔۔۔علم عمل کھیتی ضائع، بےعمل بدعمل، پیر ناقص، پیر کامل........؟؟*

مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

واياكم عن المقال الخالي عن الحالي والعلم المعراء عن الاعمال۔۔۔۔ ان الدنيا مزرعۃ الاخرۃ فویل لمن لم يزرع فيها وعطل ارض الاستعداد واضاع بذر الاعمال۔۔۔ ومما ينبغي ان يعلم ان اضاعۃ الارض وتعطيلها اما بان لا يزرع فيها شيئا او القى فيها بذرا خبيثا فاسدا فهذا القسم من الاضاعۃ اشد مضرۃ و اكثر فسادا من القسم الاول۔۔۔۔ لان الناقص صاحب ھوی متبع و ما یشوب بالھوی لا یوثر(ای یضلک)۔۔۔فصحبۃ الشيخ الكامل المكمل كبريت احمر نزره دواء وكلمته شفاء۔۔۔۔ واياكم على جادۃ الشريعۃ المصطفویۃ على صاحبها الصلاه والسلام والتحيه اذ هو ملاك الامر ومدار النجاۃ ومناط السعاده

یعنی

 اللہ سبحانہ و تعالی اس علم سے بھی نجات عطا فرمائے جو عمل سے محروم ہے... دنیا آخرت کی کھیتی ہے، اسے برباد کرنے کے دو طریقے ہیں ایک یہ کہ اس میں کچھ نہ بوئے اچھے اعمال نہ کرے اور دوسرا یہ کہ خبیث برے عمل کرے، دوسرے کا ضرر اور فساد پہلی قسم سے بہت زیادہ ہے.... ناقص پیر جو خواہش نفس(دنیا دولت شہرت مکاری منافقت وغیرہ) کا پیروکار ہوتا ہے اس سے بچو وہ خود بھی گمراہ ہے اور تمہیں بھی گمراہ کر دے گا... پیر کامل کی نظر دوا ہے اور اس کی باتیں شفا ہیں پیر کامل وہی ہے کہ فناء فی اللہ ہوتا ہے، راہ سلوک کے راستوں کا عالم ہوتا ہے جو شریعت مصطفویہ علیہ و علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ پر قائم اور ثابت رہے اس پر عمل کرے، اسی میں نجات و سعادت ہے

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ59۔62 ملخصا مکتوب 23

.###############

*6۔۔۔۔ کس سے عداوت رکھیں۔۔۔۔۔؟؟ اور اسکو شیر جیسے چیر پھاڑ کرنے والے درندے سے بھی زیادہ نقصان دہ سمجھیں اور واجب تاویل۔۔۔۔۔؟؟*

مجدد الف ثانی فرماتے ہیں:

الشعراء والفضلاء من يلقب في الشعر بالكفر والحال انه من السادات العظام والنقباء الكرام فيا ليت شعري ما حمله على هذا الاسم الشنيع البين شناعته ۔۔۔۔المسلم ينبغي له ان يفر من هذا الاسم زيادۃ يفر من الاسد المهلك ويكره كل الكراهيۃ لان هذا الاسم ومسماہ مضغوضان لله سبحانه ورسوله عليه الصلاه والتسليمات والمسلمون مامورون بعداوۃ اهل الكفر والغلظۃ علیهم فالتحاشي عن مثل هذا الاسم الكبيح واجب وما وقع في عبارات بعض المشايخ قدس الله تعالى اسرارهم في غلبات السكر من مدح الكفر والترغيب۔۔۔۔۔وامثال ذلك فمصروف عن الظاهر ومحمول على التاویل فان كلام السكاری يحمل ويصرف عن الظاهر المتبادر فانهم معذورون بغلبۃ السكر

یعنی

بعض شعرا نقیب حضرات سادات طریقت والے مرشد کہلانے والے بڑا عالم کہلانے والے کفریہ لقب رکھتے ہیں کفریہ عقیدے رکھتے ہیں اس سے پوری طرح نفرت و کر اہیت کریں اور ان سے اتنا دور بھاگیں جیسے شیر سے دور بھاگتے ہیں کیونکہ یہ اللہ اور رسول کے ہاں ناپسند ناپسند ہیں اور ان پر اللہ کا غضب ہے۔۔۔ایسوں سے اور اہل کفر سے عداوت رکھیں اور ان پر سختی کریں لیکن جو معتبر ظاہر اور طریقت کے دونوں جامع ہوں ان سے اگر ظاہری طور پر کچھ کفریہ قسم کی باتیں وغیرہ سرزد ہوں تو ان کی تاویل واجب ہے کیونکہ مجذوبوں کا کلام ٹھیک معنی پر محمول کیا جاتا ہے ظاہری معنی پر محمول نہیں کیا جاتا

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ62۔ 63تتمہ مکتوب23ملخصا

۔

*7... صوفی ہو یا عالم ہو یا عام مسلمان ہو اس پر لازم ہے کہ ایسا کوئی کام یا بات و دعوی سرعام نہ کرے کہ جس کی وجہ سے اس پر تہمت لگے یا اسے برا سمجھا جائے۔۔۔۔!!!*

مجدد الف ثانی فرماتے ہیں:

واجتناب عن التهمه التي امرنا باتقائه اتقوا من مواضع التهم

یعنی

 اور تہمت اور برائی کے مقامات سے اجتناب کرنا چاہیے جیسے کہ ہمیں اس کا حکم ہے

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ64تتمہ مکتوب23ملخصا

۔ 

ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو صوفی کہلاتے ہیں بڑے بڑے عالم کہلاتے ہیں اور بظاہر شریعت کے خلاف کام کرتے ہیں بظاہر شریعت کے خلاف بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قصور عوام کا ہے وہ ہمارے کام کو سمجھ نہیں پاتے مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ سمجھا رہے ہیں کہ قصور عوام کا نہیں ہے اپ کا ہے اپ یہ کام ایسے الفاظ ایسے انداز جان بوجھ کر سرعام نہیں کر سکتے ہاں بے خودی میں کچھ صوفیائے کرام علماء کرام کچھ فرما جاتے ہیں کچھ کر جاتے ہیں جو بظاہر شریعت کے خلاف ہوتا ہے تو اس کی تاویل واجب ہے اور حتی المقدور کوشش کی جائے کہ ایسا کام ایسی بات سرعام نہ ہونے پائے کہ لوگ فتنے میں پڑ جائیں بدگمانی میں پڑ جائیں تہمت لگانے لگ جائیں ظاہر پر فتوی لگانے لگ جائیں

۔

*8۔۔۔۔۔۔۔علم فقہ تو تصوف مراقبےکشف سےزیادہ اہم ہے...!!*

مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

پس رعایت ادبی و اجتناب از مکروہی اگرچہ تنزیہی باشد فکیف کہ تحریمی بمراتب از ذکر و فکر و مراقبہ و توجہ بہتر باشد آرے ایں امور باین رعایت و اجتناب اگر جمع کنند فقد فاز فوزا عظیما۔۔۔۔۔کتب تصوف اگر مذکور نشود باک نیست کہ آں باحوال تعلق دارو در قال در نمی آید واز کتب فقہی مذکور نہ شدن احتمال ضرر دارد

(عقائد ، امر و نھی و دیگر) فرائض واجبات سنت کے بعد مستحب(علم.و.فقہ) پڑھنا اور عمل کرنا اور مکروہ سے بچنا ذکر فکر مراقبے کشف وغیرہ سے کہیں زیادہ افضل و لازم ہے…ہاں دونوں(فقہ و تصوف پڑھنا ان) پے عمل کرنا عظیم کامیابی ہے،کتب تصوف نہ پڑھے تو بھی حرج نہیں مگر کتب فقہ نہ پڑھنے میں نقصان کا احتمال ہے..

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ 81۔۔ملخصا مکتوب29

۔

*9......بد عمل کب باعمل صوفی سے افضل ہے....؟؟*

مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں

و علماء ظاہر اہل سنت و جماعت ہر چند در بعضی اعمال مقصر باشند اما جمال درستی عقائد اینہا در ذات و صفات آن قدر نورانیت دارد کہ آن تقصیر در جنب آن مضمحل و ناچیز در نظرمی در آید و بعضی متصوفہ باوجود ریاضات و مجاہدات چوں در ذات و صفات آںلن قدر درستی عقیدہ ندارند آن جمال درانیہا یافتہ نمی شود

یعنی

فرقہ صحیحہ اہل سنت والجماعت کے علماء ظاہر میں اگر کچھ اعمال میں کوتاہی کر جائیں لیکن ذات و صفات( یعنی عقائد و نظریات) ان کے درست ہوں تو وہ نور والے نجات والے ہیں ان کے مقابلے میں ظاہری صوفی کہ جو مجاہدے مشقتیں ریاضات اچھے اعمال عبادات کریں مگر ان کے عقیدے درست نہ ہوں تو ایسے صوفی بالکل کوئی حیثیت نہیں رکھتے ایسے صوفیاء سے تو اچھے عقیدے والے بے عمل علماء افضل و کامیاب ہیں

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ 19 مکتوب نمبر8

۔

*10۔۔۔۔۔۔۔۔ علماء اور طلباء اور فقہ سے محبت۔۔۔۔۔؟؟*

مجدد الف ثانی فرماتے ہیں

و، محبت بعلماء و طلبہ علوم بسیار پیدا شد است  روش ایشان خوش می آید و آرزو دارد کہ در جرگہ اینا باشد تلویح(کتاب اصول فقہ) رااز مقدمات اربعہ بطالب علمی مباحثہ میکند و ہدایہ فقہ

 علمائے کرام اور دینی طلباء کے ساتھ بہت محبت پیدا ہو چکی ہے ان کی روش اور طریقہ بہت اچھا لگتا ہے میری ارزو ہے کہ علماء اور طلباء کے گروہ میں بیٹھا رہوں اصول فقہ اور فقہ کی کتب کا تکرار کرتا رہوں

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ 19ملخصا مکتوب نمبر8

.####################

*11... اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ ہر گز نہ کیجیے۔۔۔۔۔!!*

مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:

وایضا مروم معتمد نقل کردہ اندکہ بعضی خلفاء شمارا مریدان ایشان سجدہ سیکنند ۔۔۔۔ شناعتاین فعل اظہر من الشمس است منع شان نکنید و تاکید  در منع نمائید اجتناب این قسم افعال قزہمہ کس مطلوب است علی الخصوص شخصی کہ باقتداء خلق خودرابر اوردہ باشد 

یعنی

بعض معتمد لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ میرے خلفاء کو مریدین میں سے بعض سجدہ کرتے ہیں اس فعل کی برائی سورج سے بھی زیادہ روشن ہے اس سے اجتناب کرنا اس سے بچنا اشد ضروری ہے اور برے افعال یا تہمت کے افعال سے وہ لوگ شدید پرہیز کریں جن کی پیروی کی جاتی ہے

( مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ80 مکتوب29ملخصا

۔

*12۔۔۔۔ بعض باتیں سرعام نہیں کی جاتیں اور صحبتِ مرشد ضروری ہے اور انقلاب۔۔۔۔۔؟؟*

مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں

تحریر تقریر وغیرہ میں اس قسم کی باتیں نہیں کی جاتی کہ خوف ہے کہ کسی کے فہم میں کچھ اور ہی نہ ا جائے یا وہ کچھ اور مطلب ہی نہ سمجھ بیٹھے۔۔۔(عجیب و مشوش باتیں دعوے کرنے کے بجائے عمل کیجئے اصلاح پھیلائیے شعور پھیلائیے اور) حسن ظن کے ساتھ پیر کی خدمت میں حاضری یا صحبت دراز جس طرح بھی ہو درکار ہے اس کے بغیر رنج و محنت اٹھانے کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔ اللہ تعالی کسی قوم کے حالات نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اپ کو نہ بدلیں(یعنی انقلاب تب آئے گا جب اپ خود بدلیں نیک بنیں اور پھر دوسروں کو بدلنے کی بھرپور محنت کوشش کریں اچھوں کی رہنمائی میں علماء صوفیاء کی رہنمائی میں)

مکتوبات امام ربانی مترجم جلد اول صفحہ۔104۔103مکتوب32


۔

*13......اچھے علماء اور برے علماء اور دولت اور کس کی دینی خدمات بھی مردود۔۔۔۔۔۔۔؟؟*

علماء را محبت دنیا و رغبت دران کلف چہرہ جمال شانست خلائق را اگرچہ ازیشان حصول فوائد است اما علم شان در حق ذاتہائے ایشان نافع نیامد ہرچند تقئید شریعت و تقویت ملت بر ایشان مرتب است اماگاہ  است کہ این تا٨ید و تقویت از اہل فجور دار باب فتور ہم می آید۔ ۔ ۔ ۔ در رنگ سنگ پارس اندکہ ازہس و اہن ہرچہ باورسد زر گر ددوا و فی حد ذاتہ بر حجرتہ خود است۔۔۔۔ درس و افتا وقتی نافع آید کہ خالصا لوجہ اللہ سبحانہ باشند و از شائبہ حب جاہ و ریاست و حصول مال و رفعت خالی باشد۔ ۔۔ عزیزے شیطان لعین راوید کہ فارغ نشستہ است ، لعہن گفت کہ علماء سوء این وقت درین کاربامن خود مدد عظیم کر دند و مرا ازیں مہم فارغ ساختند۔۔۔۔ رجالتجارت و بیع ایشا نرا مانع ذکر خدا نیست در عین تعپق باین امور بے تعلق اند۔۔۔ حضرت خوقجہ نقشبند فرمودہ اند کہ دربازار منی تاجرے رادیدم کہ پنجاہ ہزار دینار کم و طیش را خرید و فروخت نمود و یک لحظہ دل اواز حق سبحانہ غافل نگشت

یعنی

وہ علماء کے جو دنیا کی محبت رکھتے ہیں اس کی طرف رغبت رکھتے ہیں وہ بدترین ہیں اگرچہ ان سے کچھ لوگوں کو فائدہ حاصل ہوتا ہے تو سوچنا چاہیے کہ اللہ تو فاسق و فاجر سے بھی دین کی تائید و خدمات لے لیتا ہے لیکن فاجر کے لیے برے عالم کے لیے یہ خدمات کوئی نفع مند نہیں ممکن ہے یہ علماء کسی کو سونا بنا دیں لیکن یہ خود پتھر کے پتھر ہی رہتے ہیں درس تدریس فتوی دینی خدمات اس وقت نفع مند ہیں کہ جب خالص اللہ سبحانہ و تعالی کی رضا کے لیے ہوں اور شہرت سرداری حصول مال وغیرہ کے لیے نہ ہو بعض صوفیا نے شیطان کو بے فکر دیکھا تو وجہ پوچھی شیطان نے کہا دنیا دار علماء علمائے سو میرے کام میں مدد کر رہے ہیں انہوں نے مجھے اس مہم سے فارغ کر دیا ہے۔۔۔۔ جو علماء دنیا و برائی سے پاک ہوں بچتے ہوں انہی کے بارے میں ہے کہ یہی لوگ سب سے بہترین ہیں قیامت کے دن ان کی سیاہی شہیدوں کی خون پر غالب ا جائے گی یہی علماء ہیں کہ ان کا نیند کرنا بھی عبادت ہے ہاں بعض علماء کرام مشائخ عظام جائز دولت مندی کماتے ہیں وہ لمحے کے لیے بھی اللہ کی یاد سے دور نہیں ہوتے ایسے علماء و مشائخ کی مذمت نہیں۔۔۔ حضرت خواجہ نقشبند نے فرمایا کہ میں نے منی کے بازار میں ایک تاجر دیکھا جو کم و بیش 50 ہزار دینار کی خرید و فروخت کر رہا تھا مگر اس کا دل ایک لحظہ کے لیے بھی یاد حق سے غافل نہ تھا

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ95۔97مکتوب33

۔

*14۔۔۔۔۔ طریقت حقیقت تصوف دراصل شریعت کا دوسرا نام ہیں اور اللہ کا محبوب صوفی بننے کا طریقہ۔۔۔۔۔!!*

مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

مقصود از تحصیل آن ہر دو(طریقت و حقیقت) تکمیل شریعت است نہ امر دیگر ورائے شریعت

یعنی

طریقت اور حقیقت دونوں سے مقصود شریعت کی تکمیل ہے نہ کوئی اور امر جو شریعت کے علاوہ ہو۔۔۔  

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ101مکتوب36

۔ 

صرف ظاہری اعمال اور رسمی عبارتوں سے کام مکمل نہیں بن سکتا دل کو غیراللہ کی طرف توجہ سے سالم و محفوظ رکھنا اور اعمال صالحہ جن کا حکم شریعت نے دیا دونوں کو بجا لانا ضروری ہے اعمال صالحہ کی بجاوری کے بغیر دل کی سلامتی کا دعوی باطل ہے۔ ۔۔۔

 مکتوبات امام ربانی مترجم جلد اول صفحہ117 مکتوب39

۔ 

پس در متابعۃ او علیہ الصلاۃ والسلام کوشیدن منجز بمقام محبوبیت آمد فعلی کل عاقل ڈی لب السعی لکمقل اتباع حبیبہ  علیہ الصلاۃ و والسلام ظاہرا و باطنا

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت اور پیروی میں کوشش کرنا بندے کو مقام محبوبیت تک لے جاتا ہے تو ہر عقلمند اور دانشمند پر لازم ہے کہ اللہ تعالی کے حبیب علیہ الصلاۃ والسلام کی اتباع میں ظاہرا اور باطنا پوری سعی اور کوشش کرے

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ110 مکتوب41

۔ 

طریقت و شریعت عین یکد یگر اند  سرموئے از مخالفت درمیان ایشان واقع نیست فرق اجمال و تفصیل است و استدلال و کشف ہرچہ مخالف شریعت است مردود است۔ ۔۔ کلحقیقۃ ردتہ الشریعۃ فھو زندقۃ

طریقت اور شریعت ایک دوسرے کا عین ہے ان کے درمیان بال برابر بھی مخالفت نہیں فرق صرف اجمال و تفصیل اور استدلال اور کشف کا ہے جو چیز بھی شریعت کے خلاف ہے مردود ہے ہر حقیقت( تصوف کشف مراقبہ وغیرہ) جسے شریعت رد کر دے وہ مردود اور باطل زندیقیت ہے

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ114 مکتوب43


۔ 

*15........ عالم حافظ دین کی سربلندی کرنے والے کے لیے مالی تعاون کی اپیل کرنا چاہیے۔ ۔۔۔!!*

امام ربانی مجدد الف ثانی نے فرمایا کہ فلاں حافظ ہیں اہل علم ہیں اسباب معیشت کم ہیں ان کی مدد کیجئے مالی مدد کیجئے وظیفہ(مستقل مدد تنخواہ) مقرر کیجئے تو اپ کی کرم نوازی ہوگی۔۔۔۔ اپ نے دیگر خطوط میں بھی کئی احباب کے لیے اس طرح کی اپیل کی

حافظ اہل علم است و کثیر العیال از قلت اسباب معیشت متوجہ عسکر گشتہ اگر توجہ فرمودہ از سرکقر نصرے آثار سیادت و نقابت دستگاہے شیخ جیو وظیفہ با امدادی از برائے مشار الیہ حاصل کنند عین کرم ضواہد بود

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ110 مکتوب41ملخصا

۔ 

###################

*16...... ختم نبوت اور لوا الحمد*

امام ربانی مجدد الف ثانی لکھتے ہیں

ان محمدا رسول الله سيد ادم واكثر الناس تبعا يوم القيامه واكرم الاولين والاخرين على الله و اول من یشق عنہ قلقبر و اول شافع و اول مشفع و اول من یقرع باب الجنۃ فیفتح اللہ لہ و حقمل لواء الحمد یوم القیامۃ تحتہ ادم و دونہ و ھو الذی قال علیہ الصلاۃ و والسلام نحن الاخرون و نحن السباقون یوم القیامۃ۔۔۔۔ و انا خقتم النبیین ۔۔۔ وانا محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب

یعنی

بے شک حضور علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالی کے برحق رسول ہیں۔۔تمام اولاد ادم کے سردار ہیں ۔۔۔ قیامت کے روز سب سے زیادہ پیروکار اپ ہی کے ہوں گے۔۔۔اپ بارگاہ ایزدی میں سب پہلوؤں اور پچھلوں سے اکرم و بزرگ ہیں۔۔۔اپ ہی سب سے پہلے قبر سے باہر تشریف لائیں گے۔۔۔۔اپ ہی سب سے پہلے شفاعت کریں گے اور اپ ہی کی شفاعت سب سے پہلے مقبول ہوگی اور اپ ہی سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے تو اللہ تعالی اپ کے لیے بہشت کے دروازے کھول دے گا۔۔۔قیامت کے روز لواء الحمد اپ ہی اٹھائے ہوئے ہوں گےحضرت ادم علیہ السلام اور ان کے سوا سب اس جھنڈے کے نیچے ہوں گے ۔۔۔ اپ ہی وہ ذات ہیں کہ خود اپ نے فرمایا کہ ہم دنیا میں امد کے لحاظ سے سب سے پیچھے ہیں مگر قیامت کے روز سب سے اگے اور پہلے ہوں گے اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بغیر فخر کے کہتا ہوں کہ میں ہی اللہ کا حبیب ہوں اور میں ہی تمام انبیاء کا پیشوا ہوں اور میں ہی سلسلہ  نبوت کو ختم کرنے والا ہوں اور میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ116مکتوب44

۔ 

*17..... عموما کوشش کی جائے کہ حکمرانوں کو اپنا ساتھی بنا کر اپنا دوست بنا کر اپنا بھائی بنا کر اسلام کی سربلندی کے لیے خدمات کروائیں اسلام نافذ کروائیں اسلام کے عقائد و مسائل ان کو سمجھائیں تاکہ وہ نافذ کریں*

امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں

بگوش خاص و عام  رسیدہ اہل اسلام برخود  لازم دانستندکہ ممد و معاون بادشاہ باشند برترویج شریعت و تقویت ملت نمقیند این امداد و تقویت  خواہ بزبان میسر شود و خواہ بدست  سابق ترین دولت مددہا تبیین مسائل شرعیہ است و اظہار عقائد کلامیہ طبق کتاب و سنت  و اجماع امت  تا مبتدعی و ضالی درمیان امدہ ازراہ نبرد  و کار بفساد نہ انجامد

یعنی

 بادشاہ اسلام کے معاون بنیں اور ترویج شریعت اور تقویتِ دولت اسلام(اسلام کی بقدشاہت خلافت و حکمرانی) کی طرف رہنمائی کریں یہ تقویت یہ امداد خوازوان سے ہو یا ہاتھ سے ہو یا دولت سے ہو سب طریقوں سے کریں مسائل شرعیہ کی وضاحت کریں اور کتاب و سنت اور اجماع کے عقائد کلامی کا اظہار کیا جائے تاکہ کوئی بدعتی اور گمراہ درمیان میں پڑ کر راستہ نہ روکے

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ124مکتوب47

۔ 

*18.... دینی علماء اور دینی طلباء و مدارس کی اہمیت اور تصوف کے بارے میں سوال نہ ہوگا*

امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں: 

دینی طالب علموں کو مقدم کرنے میں شریعت کی ترویج ہے۔۔۔یہی لوگ شریعت کے حامل ہیں ۔۔۔۔ ملت مصطفویہ انہی سے قائم ہے ۔۔۔۔ کل قیامت کو شریعت کے بارے میں سوال ہوگا تصوف(کے وہ وہ احکام جو فرض واجب سنت نہیں ان) کے متعلق سوال نہ ہوگا... مدارس علماء طلباء جو برحق ہوں اسلام کے سچے داعی ہوں ان پر خرچ کرنا شریعت کے لیے خرچ کرنا اسلام کی سربلندی کے لیے خرچ کرنا دوسری جگہ کروڑوں روپے خرچ کرنے سے بہتر ہے۔ ۔۔۔ حتی کہ بظاہر دین پھیلانے والے علماء اور طلباء ہوں مگر وہ علماء اور طلباء حقیقت میں خلوت میں اچھے نہ ہوں تو بھی یہ لوگ اس صوفی سے بہتر ہیں جو حقیقت میں اپنی ذات کے لیے نیک ہو

مکتوبات امام ربانی مترجم جلد اول صفحہ160 مکتوب48ملخصا

۔ 

*19.....ایک خطرناک قسم کا تکبر*

وبالذات خواہاں انست کہ خلائق ہمہ بودی محتقج باشند و، منقاداوامر و نواہی اوگر وندواو بہیچ کس محتاج نباشد و محکوم احدی نبود این دعوی الوہیت است ازوی و شرکت است بخدائ

یعنی

لیڈروں کا علماء کا مشائخ و پیروں کا یا کسی کا بھی یہ چاہنا کہ لوگ میرے محتاج ہوں میری اطاعت و پیروی محکومی غلامی کریں ۔۔۔۔ میرا حکم چلے۔۔۔۔ لوگ میرے محکوم ہوں یہ تو ایک قسم کا خدائی دعوی ہے شرک ہے کفر ہے تکبر ہے گناہ ہے( بلکہ لوگوں کو مریدوں کو عوام کو طلباء کو اپنا دوست سمجھے،بھائی سمجھے، بڑوں کا ادب کرے اور چھوٹوں پر شفقت کرے اور چھوٹوں کو بڑا بنانے کی کوشش کرے دینی دنیاوی خدمات کرے)

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ169ملخصا مکتوب52

۔ 

*20..... بدعتی گستاخ فرقوں کی صحبت کافروں کے صحبت سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ ۔۔۔ *

مجدد الف ثانی فرماتے ہیں

یقین تصور فرمائیند کہ فساد صحبت مبتدع زیادہ از فساد صحبت کافر است

 اس بات پر یقین رکھیں کہ بدعتی کی صحبت کی خرابی کافر کی صحبت کی خرابی و نقصان سے زیادہ ہے

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ133مکتوب54

۔ 

##################

*21.... صحابہ کرام کے اختلافات جنگیں اور یزید۔۔۔۔؟؟*

امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں

خلافی و نزاعی کہ درمیان اصحاب علیھم الرضوان  واقع شدہ بود محمول برہوائ نفسانی نیست و صحبت خیر البشر نفس ایشان بہ تزکیہ رسیدہ بودند و از امارگی ازاد گشتہ اینقدر میدانم کہ حضرت امیر دران باب برحق بودہ و مخالف ایشان برخطاء بود اما این خطاء خطاء اجتہادی است تابحد فسق نمیر ساند بلکہ ملامت راہمدرین طور خطاء گنجائش نیست کی مخطی رانیزیک درجہ است از ثواب و یزید بیدولت از اصحاب نیست در بد بختی اوکرا سخن است

یعنی

 وہ اختلافات اور جھگڑے (جنگیں) جو صحابہ کرام علیہم رضوان میں واقع ہوئے خواہش نفسانی کے باعث ہرگز نہیں تھے۔۔۔یہ حضرات خیر البشر علیہ السلام کی صحبت پاک میں تزکیہ کے مقام میں پہنچ چکے تھے اور امارگی سے انہیں ازادی مل گئی تھی۔۔۔۔میں اس قدر جانتا ہوں کہ حضرت امیر (سیدنا علی )کرم اللہ وجہہ الکریم اس باب میں حق پر تھے اور ان کے مخالف خطا پر تھے لیکن ان کی یہ خطا خطائے اجتہادی ہے جو حد فسق تک نہیں پہنچاتی بلکہ اس طرح کی خطا میں ملامت کی بھی گنجائش نہیں کیونکہ خطائے اجتہادی میں مخطی کے لیے بھی ایک درجہ ثواب ہے اور بدبخت یزید صحابہ کرام میں سے نہیں اس کی بدبختی میں کیسے کلام ہو سکتا ہے

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ133مکتوب54

.

وما جرى بينهم من المنازعات والمحاربات فمحمول على محامل صالحۃ وحكم بالغۃ ما کانت عن ھوی و جهل ولكن عن اجتهاد وعلم و ان اخطا بعضهم في الاجتهاد فللمخطي درجه ايضا عند الله سبحانه هذا هو الطريق الوسط بين الافراط والتفريط الذي اختاره اهل السنه وهو الطريق الاوسط والسبيل الاحكم

یعنی

اور لڑائیاں جھگڑے جو ان( یعنی صحابہ کرام وا اہل بیت عظام) کے درمیان واقع ہوئے وہ نیک مرادوں اور بلیغ حکمتوں پر محمول ہیں وہ جہالت یا خواہش نفسانی کے تحت نہیں تھے بلکہ اجتہاد اور علم کی بنا پر تھے اگرچہ بعض کے اجتہاد میں غلطی واقع ہو گئی ایسی خطا پر اللہ کی ہاں ثواب کا ایک درجہ ہے یہی افراط اور تفریط کے درمیان کی راہ ہے جس کو اہل سنت والجماعت نے اختیار کیا ہے اور یہی محفوظ اور مضبوط راستہ ہے

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ140مکتوب59


۔

*22.... سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان*

مجدد الف ثانی امام ربانی فرماتے ہیں کہ

سئل عبد الله بن المبارك ايهما افضل معاویہ ام عمر بن عبد العزيز فقال الغبار الذي دخل انف فرس معاویہ مع رسول الله صلى الله عليه وسلم خير من عمر بن عبد العزيز كذا مرۃ

یعنی

حضرت عبداللہ بن مبارک سے پوچھا گیا حضرت معاویہ افضل ہیں یا حضرت عمر بن عبدالعزیز تو اپ نے جواب دیا وہ غبار جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ حضرت معاویہ کے گھوڑے کی ناک میں داخل ہوا وہ کئی درجے عمر بن عبدالعزیز سے افضل ہے

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ138مکتوب58

۔ 

کیف یکون جائرا و قد صح انہ کان اماما عادلا فی حقوق اللہ و حقوق المسلمین کما فی الصواعق

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو باغی ظالم بادشاہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ اللہ کے حقوق کے معاملے میں مسلمانوں کے حقوق کے معاملے میں نہایت عدل والے تھے جیسے کہ صواعق محرقہ میں ہے

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ415مکتوب251


۔ 

*23......ناجی فرقہ۔۔۔تقلید۔۔۔سادات و صحابہ اور افضلیت کا مسئلہ۔۔۔۔۔؟؟*

اہلسنت و جماعت کہ فرقہ ناجیہ اندو نجات بی اتباع این بزرگواران متصور نیست او اگر سرمو مخالفت قست خطر در خطر است۔۔۔ فطوبی لمن وفق لمتابعتهم وشرف بتقلیدیم۔۔۔ فويل لمن خالفهم واعتزل عنهم و رفض عن اصولهم وخرج عن زمرتهم فضلو و اضلوا فانکروا رویۃ و الشفاعۃ  و خفی علیھم فضيله الصحبه فحرموا عن محبۃ اهل البيت ومودت اولاد البتول فمنعوا عن خير كثير نالها اهل السنه۔۔۔۔ ان الصحابۃ متفقون على افضلیۃ الصديق فيكون اجماعا في صدر الاول على افضليته فيكون قطعیا لا يسوغ انكاره۔ ۔ ۔ ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جعل اصحابه كالنجوم ومن النجم هم يهتدون وشبه اهل بيته بسفينه النوح اشاره الى ان راكب السفينه لابد له من رعایۃ النجوم ليامن من الهلاك وبدون رعايه النجوم النجاۃ ممتنيه قطعا۔۔۔ ومما ينبغي ان یعلم ان الانكار عن بعد انكار عن جميعهم

یعنی

اور اہلسنت ہی ناجی فرقہ ہے ان بزرگوں کی اتباع کے بغیر نجات متصور نہیں اگر بال برابر بھی مخالفت ہے تو خطرہ ہی خطرہ ہے۔ ۔۔۔ کس قدر مبارک ہے وہ شخص جسے ان کی متابعت کی توفیق مل گئی اور ان کی تقلید کا شرف حاصل ہو گیا۔ ۔۔۔ جو حضرات اہلسنت سے دور ہو جائیں اللہ تعالی کا دیدار کے منکر ہو جائے، شفاعت کا منکر ہو جائے ،صحابہ کرام کی فضیلت نہ جانے ،اہل بیت کی محبت نہ جانے ، سادات کرام کی محبت اسے میسر نہ ہو تو وہ اہل سنت میں سے نہیں ہے۔۔خسارے میں ہے۔۔۔تباہی میں ہے گمراہی میں ہے۔ ۔۔ سیدنا صدیق اکبر کی افضلیت پر (دیگر دلائل کے ساتھ ساتھ بطور دلیل)اجماع ہےصحابہ کرام کا لہذا یہ افضلیت کا مسئلہ قطعی ہے جس کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں اور اہل بیت رسول علیہ السلام کا حال حضرت نوح کی کشتی کی طرح ہیں جو اس پر سوار ہوا نجات پا گیا جو اس سے دور ہوا ہلاک ہو گیا بعض عارفین کا قول ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ارشاد میں صحابہ کرام کو ستارے قرار دیا(جیسے کہ صحیح مسلم 2531 میں رسول کریم نے صحابہ کرام کو ستاروں کی طرح امنۃ فرمایا ہے )اور ستاروں سے لوگ راستہ پاتے ہیں اور اہل بیت کو سفینہ(کشتی) سے تشبیہ دی اس طرف اشارہ کرنے کے لیے کہ کشتی پر سوار ہونے والوں کے لیے ستاروں کو رعایت ضروری ہے تاکہ ہلاکت سے بچا رہے۔ ۔۔ اور ضابطے کی جو بات ذہن میں ہونی چاہیے یہ ہے کہ بعض صحابہ کرام کا انکار کُل (یعنی تمام صحابہ کرام و اہل بیت عظام)کا انکار ہے

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ138۔139مکتوب59

.

*24.... خان اعظم کو دشمنان اسلام پر حملہ کرنے کی ترغیب اور جہاد و جنون و جذبہ و غیرت کی اہمیت۔ ۔ ۔ ۔۔۔؟؟*

مجدد الف ثانی امام ربانی نے خانان خان کو کئی خطوط لکھے کچھ خطوط میں سے بعض الفاظ پیش خدمت ہیں:

اے خان اعظم حدیث پاک میں ہے تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اسے دین اسلام کے لیے سرشار نہ دیکھا جائے اسے مجنون نہ کہا جائے مطلب اسلام کی سربلندی کے لیے اور کفار کی مذمت اور روک تھام اور اصلاح معاشرہ میں اس قدر منہمک ہونا چاہیے کہ لوگ ہمیں دین اسلام کا دیوانہ کہیں اے خان خان اعظم مجھے اپ کے اندر وہ جھلک نظر اتی ہے اسلام کے لیے غیرت نظر اتی ہے اج اسلام کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اصل تعلیمات اسلام کو روکا جا رہا ہے اصل قوانین اسلام کو روکا جا رہا ہے اپ ائیں اور چھا جائیں برے بادشاہوں کا خاتمہ کریں اسلام کو سر بلند کریں نافذ کریں۔ ۔۔ ۔امام ربانی کے کچھ فارسی الفاظ ملاحظہ کیجیے 

غربت اسلام تقبحدی رسیدہ است کہ کفار برملا طعن اسلام و ذم مسلمانان می نمقیندوبی تحاشی۔۔۔۔ اجراء احکام کفر  و مداحی  اہل آن در کوچہ و بازار می کنند و مسلمانان از اجراء احکام اسلام ممنوع ۔۔۔۔۔۔ خبردار داست لن یومن احدکم حتی یقال انہ مجنون درین وقت آن جنون کہ مبناہی آن فرط غیرت قسلام است  درنہا شما محسوس است

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ150مکتوب65ملخصا

۔ 

*25...... چند نصیحتیں۔۔۔کل نماز پڑھوں گا۔۔۔۔۔!؟*

امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں

 اے فرزند دنیا ازمائش اور ابتلا کا مقام ہے۔۔۔۔۔اے بیٹے دنیا وہ چیز ہے جو تجھے خدا تعالی سے دور کر دے لہذا بیوی اولاد مال و جاہ و شہرت سرداری اور لہو لعب اور لایعنی چیزوں میں اشتغال سب دنیا میں داخل ہے اگر خدا سے دور کریں۔۔۔ اے میرے بیٹے دنیا اور گناہ کے تمام الات اسباب برے ساتھی سب کچھ مہیا ہیں یہ تیرا امتحان ہے کہ تو ان سے بچتا ہے یا نہیں۔ ۔۔۔ یہ انسان بندہ محکوم ہے اور اللہ تعالی کے احکام کی بجا اوری کا پابند ہے اسے شتر بے مہار کی طرح کھلا نہیں چھوڑا گیا کہ جو دل میں ائے کرے۔ ۔۔۔ ہلاکت میں ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں چلو کل کر لیں گے امید ہے کل کر لیں گے ایسی بے ہمتی نہ کرو،اج کا کام کل پر مت چھوڑو۔۔۔۔ اے میرے بیٹے جو کچھ احکام و عبادات اسلام نے دیے وہ سب تیری بھلائی کے لیے معاشرے کی بھلائی کے لیے ہیں انہیں خوشی سے سر انجام دو ، عبادات کو بھی خوشی سے انجام دو

مکتوبات امام ربانی مترجم جلد اول صفحہ196۔۔ 202 ماخوذا ملخصآ مکتوب73

۔ 

#################

*26...... صحابہ کرام کی اہمیت*

امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں

و طعن کردن در اصحاب فی الحقیقۃ طعن کردن ست پیغمبر خدا جل شانہ ما امن برسول اللہ من لم یوقر اصحابہ۔۔۔ شرائعکہ از راہ قرآن و احادیث بما رسیدہ است بتوسط نقل ایشان نسبت ہرگاہ ایشان مطعون ناشند نقل ایشان نیز مطعون خواہد بود و این نقل مخصوص بعض دون بعض نیست بل کلھم فی العدالۃ و الصدق و التبلیغ سواء۔۔۔ پسطعن ایشان ای واحد کان منھم مسلتزم طعن در دین است و العیاذ باللہ سبحانہ منہ

یعنی

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین میں عیب نکالنا درحقیقت پیغمبر خدا جل و علا کی ذات میں عیب نکالنے کے مترادف ہے کیونکہ قران اور احادیث کے احکام شریعت جو ہم تک پہنچے ہیں صحابہ کرام کی نقل و روایت اور واسطہ سے پہنچے ہیں جب صحابہ کرام مطعون ہوں گے تو ان کی نقل و روایت بھی مطعون ہوگی اور احکام شریعت کی نقل و روایت چند صحابہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام صحابہ کرام عدالت صدق اور تبلیغ دین میں برابر ہیں پس کسی ایک صحابی میں طعن و عیب دین میں عیب و طعن تسلیم کرنے کو لازم ہے۔۔۔۔اللہ ہمیں عیب جوئی والے نظریے عادت اقوال سے محفوظ فرمائے

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ177مکتوب80

۔ 

*27....تقیہ۔۔۔کیا سیدنا علی ڈر گئے۔۔۔۔۔۔؟؟*

جو لوگ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے خلفائے ثلاثہ کی منافقت کو دل میں چھپائے رکھا تو یہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ شیر خدا ہیں اور رسول کریم نے خلفائے ثلاثہ کی خصوصی فضیلت ارشاد فرمائی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو تقیہ نہیں کر سکتے لہذا خلفائے ثلاثہ برحق ہیں ان کے نا ماننے والے بد مذہب ہیں بے دین ہیں

(مکتوبات امام ربانی جلد اول مترجم صفحہ217۔۔ 218 ملخصا مکتوب80

۔ 

*28..... عام لوگوں کی رضامندی تلاش مت کرو*

امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں

مرضی حق سبحانہ رامی  باید ملاحظہ کرد اہل عالم راضی باشند یانباشند ۔۔۔۔ بایددانست با او ہرچہ جمع شود و شود ا اگر نہ شود نہ گونہ شود

یعنی

حق سبحانہ و تعالی کی رضامندی کا خیال کرنا چاہیے مخلوق راضی ہو یا نہ ہو لوگوں کی ناراضگی کا کیا اعتبار ہے۔۔۔ مقصود صرف خدا تعالی کی ذات کو ہی قرار دینا چاہیے اس مقصود کے ساتھ کچھ اور بھی حاصل ہو جائے تو ہو جائے ورنہ مگر حاصل نہ ہو تو نہ ہو

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ257مکتوب153

۔ 

ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو کہتے ہیں لوگ کیا کہیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔؟؟

وہ جو کہتے ہیں کہ

 سنو سب کی۔۔۔۔کرو من کی۔۔۔غلط کہتے ہیں۔۔۔۔درست یہ ہے کہ احتیاط و سمجھداری  کے ساتھ سن سکتے ہو سب کی مگر کرو حق کی

۔ 

*29۔۔۔۔۔۔ قران و حدیث سے مسائل نکالنے اور اسے سمجھنے میں اہم قاعدہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟؟*

مجدد الف ثانی امام ربانی فرماتے ہیں

سعادت اثار  آنچہ برما شما لازم است تصحیح عقائد بمقتضائ کتاب و سنت برنہجیکہ علماء اہل حق از کتاب و سنت آن عقائد را فہمیدہ اندو از انجا اخذ کردہ چہ فہہمیدن ما و شما چیز اعتبار ساقط است اگر موافق افہام این بزرگواران نباشد

یعنی

 اے سعادت کی نشان والے جو کچھ ہم اور تم پر لازم و ضروری ہے وہ علماءِحق کے طریقہ کے مطابق قران و سنت کے تقاضے کے موافق عقائد کی تصحیح ہے اور اپنے اپ کو ان عقائد پر قائم رکھنا ہے جو علماء اہل سنت نے قران و حدیث سے اخذ کیے ہیں کیونکہ ہمارا اور تمہارا قران و حدیث کے کسی معنی کو سمجھنا کچھ اعتبار نہیں اگر ان بزرگوں کی اراء کے مطابق نہیں

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ260مکتوب157

۔ 

*30..... مستحق پر سختی کرنا بھی اچھے اخلاق میں سے ہے۔ ۔۔۔۔۔!!*

امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں

يا أيها النبي جاهد الكفار والمنافقين واغلظ عليهم پس پیغمبر خودرا کہ موصوف بخلق عظیم است بجہاد کفار و غلظت برایشاں امر فرمود معلوم شد کہ غلظت بایشان داخل خلق عظیم است

یعنی

 حق سبحانہ و تعالی اپنے حبیب پاک علیہ السلام کو فرماتا ہے

القران:يا أيها النبي جاهد الكفار والمنافقين واغلظ عليهم

 اے نبی کریم کفار اور منافقین سے جہاد کریں اور ان پر سختی کریں۔۔۔ (سورہ توبہ ایت73)

پس اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر علیہ السلام کو جو خلق عظیم سے موصوف ہیں کفار سے جہاد اور ان پر سختی کرنے کا حکم دیا تو اس سے معلوم ہوا کہ کفار(جو کفر گمراہی گستاخی گندے نظریات پر ڈٹے رہیں ان کفار مشرکین ملحدین گستاخ بے دین بد مذہب منافقین وغیرہ) پر سخت رویہ اختیار کرنا بھی خلق عظیم میں داخل ہے

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ270مکتوب163

.####################

*31....توکل وسیلہ۔۔۔۔۔*

امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں


 اسباب کا توسط اور وسیلہ توکل کے منافی نہیں ہے بلکہ اسباب (اور وسیلہ )کے توسط میں کمال توکل ہے۔ ۔۔۔ اسباب( غیر اللہ) کی تاثیر کا انکار کرنا مطلق انکار کرنا مقابرہ اور ہٹ دھرمی ہے تاثیر کو ماننا چاہیے مگر اس طرح کے اللہ تعالی کے حکم سے اس کی عطا سے تاثیر پیدا ہو جاتی ہے

مکتوبات امام ربانی جلد دوئم مترجم صفحہ580مکتوب266ملخصا

۔ 

*32..... قبر کا عذاب اور سوال جواب*

امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ

 ہمارا یعنی اہل اسلام اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ قبر کا عذاب کافروں کو اور بعض گنہگار مومنوں کے لیے حق ہے اور قبر میں مومنوں اور کافروں کے لیے منکر نکیر کا سوال بھی حق ہے

 مکتوبات امام ربانی جلد دوئم مترجم صفحہ586 مکتوب266ملخصا

۔ 

*33.... خلف وعید اور کیا اللہ جھوٹ بول سکتا ہے*

مجدد الف ثانی فرماتے ہیں

پس گوئیا درین کریمہ ہم خلف وعدہ منتفی شد و ہم خلف وعید  و ایضا خلف وعید در رنگ خلف در وعدہ مستلزم کذب است

یعنی

اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے اور کافروں کے لیے ہمیشگیِ جہنم کی وعید سنائی ہے جو کہ برحق ہے اللہ اس کے خلاف نہیں کرتا ایت سے ثابت ہوتا ہے کہ وعدہ کے خلاف ورزی وعید کی خلاف ورزی سے اللہ پاک ہے کیونکہ اس سے اللہ کا جھوٹا ہونا لازم اتا ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں

مکتوبات امام ربانی جلد دوئم صفحہ479 مکتوب266ملخصا

۔ 

*34۔۔۔۔ مسئلہ افضلیت*

مجدد الف ثانی امام ربانی فرماتے ہیں

و ترتیب افضلیت درمیان خلفاء راشدین بترتیب خلافت است

یعنی

 ہم اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ بعد از انبیاء خلفائے راشدین سب سے افضل ہیں اور ان میں ترتیب افضل میں یہ ہے کہ جو پہلے خلیفہ ہوا وہ سب سے افضل ہے( یعنی سبز افضل سیدنا صدیق اکبر ہیں پھر سیدنا عمر فاروق پھر سیدنا عثمان پھر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین)

مکتوبات امام ربانی جلد دوئم صفحہ486مکتوب266ملخصا

۔ 

*35.... مسئلہ حیات انبیاء بعد از وفات*

امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ

عالم ارواحیم حضرت حق سبحانہ تعالی ارواح مارا قدرت کاملہ عطاء فرمودہ است کہ بصورت اجسام متمثل شدہ کارہائے کہ ارا اجام بوقوع می آیدازان ارواح ما صدور مے یا باز حرکات سکنات جسمانی و طاعات و عبادات جسدی درین اثناء  پرمیدہ شد

یعنی

 انبیاء کرام علیہم السلام عالم ارواح میں اللہ نے ان کو ایسی قدرت کاملہ عطا فرمائی ہے کہ اجسام کی صورت میں وہ متمثل ہو کر وہ کام کرتے ہیں جو جسموں سے وقوع پذیر ہوتے ہیں( یعنی انبیاء کرام علیہم السلام فقط روحوں کے ساتھ نہیں بلکہ جسموں کے ساتھ زندہ ہیں وفات کے بعد۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ کام کرتے ہیں جو وہ زندگی میں کر سکتے تھے)

مکتوبات امام ربانی جلد دوئم صفحہ533 مکتوب282ملخصا

۔ 

###################

*36.... علم غیب کے بارے میں*

مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں

علم غیب کہ مخصوص بادوست خلص رسل را اطلاع می نخشد

یعنی

 علم غیب پر اللہ تعالی خاص رسولوں کو مطلع فرماتا ہے

مکتوبات امام ربانی جلد دوئم صفحہ656 مکتوب310ملخصا

۔ 

*37..... مسئلہ نور بشر*

امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں

خلق محمدی دررنگ خلق سائر افراد انسانی  نیست بلکہ بخلق یہیچ فردے از افراد عالم مناسبت ندارد کہ او صلی اللہ علیہ وسلم باوجود نشا عنصری از نور حق جل و علا مخلوق گشتہ است کما کالا علیہ الصلاۃ والسلام خلقت من نور اللہ

یعنی

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق عام انسانوں کی طرح تخلیق نہیں ہے بلکہ کسی بھی فرد سے اپ کی تخلیق کی مشابہت نہیں ہے کیونکہ باوجود بشری صفات کے اپ کو اللہ تعالی نے اپنے نور سے پیدا کیا ہے

مکتوبات امام ربانی جلد دوئم دفتر سوئم صفحہ515 مکتوب100

.

محجوبان کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم را، بشرگفتند و در رنگ سائر بشر تصور نموددند ناچار نکر ند

یعنی

جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف بشر کہہ کر بلاتے ہیں وہ اپ کی ذات سے واقفیت نہیں رکھتے محرومی میں ہیں بلکہ وہ اخر کار منکر  بن گئے( اہل ایمان تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو خیر البشر افضل البشر رحمت عالم جان عالم سرکار عالم حبیب خدا وغیرہ تعریفی کلمات سے یاد کرتے ہیں انہیں ایمان نصیب ہو جاتا ہے نصیب رہتا ہے)

مکتوبات امام ربانی جلد دوئم دفتر سوئم صفحہ415 مکتوب64

۔ 

*38.....تصرفات اولیاء....اولیاء مددگار اللہ کی عطاء و،مدد و مشیت سے*

امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں

پیر صاحب تصرف مرید مستعد بتصرف خود بمراتبے  کہ فوق از استعداد اوست تواندرسانید  یا نہ بلے تو اندر سانید بآن مراتب فوق کہ مناسب استعداد اوست 

یعنی

اپ نے پوچھا تھا کہ صاحب تصرف( انبیاء کرام فرشتے اولیاء کرام صحابہ کرام اہل بیت عظام) اپنے تصرف( اللہ کی عطا کردہ طاقت کرامت) سے مستعد مرید کو ان مرتبوں میں جو اس کی استعداد سے بڑھ کر ہیں پہنچا سکتا ہے یا نہیں تو اس کا جواب ہے ہاں پہنچا سکتا ہے لیکن ان بلند مرتبوں میں جو اس کی استعداد کے مناسب ہیں

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ341مکتوب212

۔ 

روحانیت اکابر قدس اللہ اسرارہم کہ مناسب افعال اجسام است کاھلاک الاعداء و نصرت الاحیاء بوجود مختلفۃ

یعنی

اکابر اولیاء کے ان کی روحوں کو اللہ تعالی مناسب افعال کرنے کی طاقت دیتا ہے مناسب مدد کرنے کی طاقت دیتا ہے جیسے کہ کسی کو ہلاک کرنا زندہ لوگوں کی مدد کرنا اور دیگر طریقوں سے وہ مدد کرتے ہیں

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ398مکتوب239

۔ 

بر مزار عزیزے افتاددورین معللہ آن عزیزا ممد و، معاون بخودکرد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ

مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ

 ایک مسئلے میں میں الجھ گیا تو میں نے ایک ولی اللہ کے مزار کے پاس سے گزرا تو ان سے مدد کی طلب کی اور انہوں نے مدد کی اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانیت نے بھی مدد کی

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ357مکتوب220

۔ 

یہ عبارات انتہائی جامع ہیں کہ جس میں ہے کہ اولیاء کی روح زندگی میں اور بعد از وفات  مدد کرتی ہے اور یہ بھی ہے کہ زندگی میں بھی پیر اپنے مرید میں تصرف کر سکتا ہے اس کی مدد کر سکتا ہے اور یہ بھی بات ثابت ہوئی کہ امام ربانی نے وفات شدہ سے مدد طلب کی لہذا ان کے ماننے والے شرک کے فتوے اپنی جیب میں رکھیں لہذا ثابت ہوا کہ اولیاء کرام وفات سے پہلے اور وفات کے بعد ہر حال میں مدد کر سکتے ہیں ان کے لیے مافوق الاسباب و ما تحت الاسباب کی قید لگانا کسی معتبر دلیل سے ثابت نہیں ہے بلکہ ما فوق الاسباب ہی تو اصل مدد ہے کہ اللہ کی عطا سے وہ ایسے کام کر جاتے ہیں جو بذات خود وہ نہیں کر سکتے جو ان کی طاقت میں نہیں ہوتے ۔۔۔۔ تو ثابت ہوا اولیاء اللہ مدد کرتے ہیں مگر اللہ کی اجازت سے اس کی مشیت سے اس کی رضامندی سے اس کی عطا سے لیکن اولیاء کے نام ہمارے نوکر نہیں کہ جب بلائیں کہ جب مدد کے لیے پکاریں تو وہ ا جائیں بلکہ وہ اللہ کے حکم کے پابند ہیں جیسے ہم اللہ تعالی کو پکارتے ہیں تو کبھی اللہ کی مدد اتی ہے اور کبھی نہیں اتی یہ اللہ کا نظام ہے اللہ کی مرضی ہے جس کی چاہے مدد کر دے جس کی چاہے مدد نہ فرمائے اس کے ہر بات ہر کام میں حکمت ہے چاہے وہ حکمت ہمیں سمجھ میں ائے یا نہ ائے

۔ 

*39....عرس فاتحہ ایصال ثواب اور اس میں حاضری۔۔۔۔۔؟؟*

امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں چنانچہ در مجلس عرس پیر دستگیر در ڈولی نشستہ چند سات حاضر شدہ بود

یعنی

یعنی مجدد الفضانی فرماتے ہیں کہ میں نے ڈولی میں بیٹھ کر پیر دستگیر کے عرس پہ حاضری دی چند لمحوں کے لیے

مکتوبات حضرت خواجہ محمد معصوم صفحہ 108

۔ 

احسان باحسان بکنید و بدعا و صدقہ ساعت فساعت مدد نمائید

وفات شدہ کے اچھا برتاؤ کرو وقتا فوقتا اس کے لیے دعا کیا کرو صدقہ کیا کرو مدد کیا کرو (یہی تو فاتحہ ایصال ثواب ہے)

مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ186مکتوب86

۔ 

*40..... میلاد کا ثبوت اور بدعت کی وضاحت*

امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں

مولود خوانی اندراج یافتہ بود در نفس قرآن خوانی بصوت حسن و در قصائد نعت و، منقبت خواندن چہ مضایقہ است

یعنی

میلاد میں یہی تو ہوتا ہے کہ قران مجید خوبصورت اواز میں پڑھا جاتا ہے اور نعتیں پڑھی جاتی ہیں اور منقبت پڑھی جاتی ہے( اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و اصلاح معاشرہ پر بیان ہوتا ہے) تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں

مکتوبات امام ربانی جلد دو دفتر 3صفحہ428مکتوب72

۔ 

ظاہر بات ہے میلاد اس وقت بھی ربیع الاول کو مخصوص دنوں میں ہوتا تھا تو امام ربانی نے یہ نہیں فرمایا کہ دن مخصوص ہے اس لیے بدعت ہے، یہ نہیں فرمایا کہ رسول کریم کے زمانے میں نہیں تھا صحابہ کرام کے زمانے میں نہیں تھا اس لیے بھی بدعت ہے بلکہ اسے جائز اور اچھا کام قرار دیا

۔ 

بدعت کے بارے میں امام ربانی کی بعض تحریریں ایسی ہیں کہ جس سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی بدعت حسنہ نہیں ساری کی ساری بدعتیں بری ہیں۔۔۔۔اس سے مخالفین اہل سنت عوام کو دھوکہ دیتے ہیں کہ دیکھو امام ربانی نے فرمایا ہے کہ کوئی بدعت اچھی نہیں جبکہ امام ربانی کے کلام میں غور کیا جائے تو اپ نے مراقبہ کشف میلاد عرس فاتحہ ایصال ثواب اور بہت سارے کاموں کو جائز قرار دیا انہیں بدعت نہیں کہا حالانکہ علماء انہیں ان کاموں کو مروجہ طریقے سے بدت حسنہ کہتے ہیں جبکہ امام ربانی کے نزدیک چونکہ یہ بدعت ہی نہیں تو بدعت حسنہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کی اصل قران و حدیث سے ثابت ہے بدعت پر تفصیلی مضمون اور اکابرین کے دوٹوں کی عبارات قران و حدیث اور بہت کچھ دلائل اس بلاگ میں ملاحظہ فرمائیے

لہذا گویا کہ امام ربانی کے مطابق جس چیز کی اصل ثابت ہو اس کے جدید طریقے بدعت نہیں ہیں تو انہیں بدعت حسنہ نہیں کہنا چاہیے بلکہ مستحب کہنا چاہیے جائز و ثواب کہنا چاہیے اور جو بدعت حسنہ کہتے ہیں ان کی مراد بھی یہ نہیں ہوتی کہ یہ حقیقت میں بدعت ہیں بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ بظاہر یہ بدعت لگ رہے ہیں مگر یہ حقیقت میں شرعی حکم کے تحت اچھے کام ہیں جائز کام ہے ثواب ہیں

۔ 

امام ربانی مجدد الف ثانی کے کلام ملفوظات مکتوبات کے سمندر میں سے فقیر ناچیز نے بڑی عرق ریزی کر کے بڑی محنت کر کے عوام کے فائدے کے لیے اصلاح معاشرہ کے لیے ہم سب کی اصلاح کے لیے ہم سب کے عمل کے لیے 40 اہم ترین معاملات پہ امام ربانی کی کلام کو پیش کیا ہے ورنہ کلام ربانی میں وہ باتیں ہیں کہ جو محققین علماء ہی سمجھ سکتے ہیں اس لیے دقیق عبارات و، مسائل کے بجائے عام فہم ترجمہ کیا عام فہم نظریات پیش کیے جو روز بروز پیش اتے رہتے ہیں تاکہ ان میں رہنمائی بھی لے

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.