Labels

میلاد کی ایک دلیل پر اعتراض کا علمی تحقیقی جواب

 *#منکر میلاد کی میلاد کی ایک دلیل پر اعتراض کا ہماری طرف سے تحقیقی علمی جواب اور منکر کی خیانتوں کم علمی جہالت کی ایک جھلک۔۔۔۔۔۔۔ !!*

خلاصہ

ایک صاحب جو اپنے اپ کو بہت بڑے محقق سمجھتے ہیں وہ بحث کرنے لگے کہ میلاد کی ایک دلیل جو پیش کی جاتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ کیا تو یہ حدیث موضوع من گھڑت جھوٹی یا سخت ضعیف ہے، منکر نے کہا کہ میں اپنی طرف سے یہ حکم نہیں لگا رہا بلکہ امام نووی امام ابن حجر امام بیہقی امام احمد بن حنبل وغیرہ کئی ائمہ نے یہی حکم لگایا ہے۔۔۔۔۔۔ منکر میلاد کو جواب دیتے ہوئے ہم نے ثابت کیا ہے کہ بعض ائمہ کرام نے تو دو ٹوک حدیث کو صحیح قرار دیا ہے یا حسن معتبر قابل دلیل قرار دیا ہے جبکہ دیگر محدثین نے اگرچہ انفرادی طور پر حدیث پر ضعیف کا حکم لگایا مگر انہوں نے ایک اصول بھی ارشاد فرمایا کہ اگر ضعیف حدیث کا ہم معنی کوئی اور ضعیف حدیث مل جائے تو وہ حدیث معتبر حسن قابل دلیل بن جاتی ہے اور ہم نے اس حدیث کے چار سندیں پیش کی ہیں گویا چار ضعیف حدیثیں ہیں اور انہی ائمہ کی تحقیق اور اصول کی بنیاد کی روشنی میں چار ضعیف حدیثیں مل کر حسن معتبر قابل دلیل بن جاتی ہیں ہمیں تو حیرت ہے کہ ڈیجیٹل محقق نے اپنے ڈیجیٹل محقق البانی کو بھی نہیں پڑھا یا پھر دھوکہ دیا کیونکہ البانی نے اس حدیث کو حسن معتبر قابل دلیل قرار دیا ہے اسی طرح اس جعلی محقق نے ائمہ کے کلام کو سمجھا ہی نہیں ان کے اصولوں کو سمجھا ہی نہیں اور دھوکہ دیا کہ دیکھو ائمہ نے ضعیف قرار دیا ہے جبکہ ائمہ نے انفرادی طور پر ضعیف قرار دیا ہے لیکن اجتماعی طور پر انہی ائمہ کے اصول کی روشنی میں یہ حدیث ضعیف نہیں بلکہ قابل دلیل حسن معتبر ہے۔۔۔۔۔۔!!

۔ 

*#سوال*

علامہ صاحب ایک شخص اپنے اپ کو محقق سمجھتا ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ میلاد کی ایک دلیل کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ کیا یہ حدیث موضوع من گھڑت جھوٹی یا سخت ضعیف ہے اپ تحقیق کر کے بتائیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے یا نہیں۔۔۔۔۔؟؟

۔ 

*#جواب۔ و۔ تحقیق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!*

ہم نے بحث کرنے والے ایک سوشلی منکر میلاد محقق صاحب سے جب حوالہ جات پوچھے تو اس نے تقریبا وہی حوالہ جات دیے جو درج ذیل دو منکرین میلاد نے دیے ہیں

۔ 

*#ایک_منکر_میلاد_ابن_باز لکھتا ہے*

حديث أن النبي صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعد النبوة ضعيف أو موضوع. قال النووي رحمه الله في شرح المهذب ج٨ ص ٣٣٠ ما نصه: وأما الحديث الذي ذكره في عق النبي صلى الله عليه وسلم عن نفسه فرواه البيهقي بإسناده عن عبد الله بن محرر بالحاء المهملة والراء المكررة عن قتادة عن أنس بأن النبي صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعد النبوة وهذا حديث باطل.قال البيهقي: هو حديث منكر. وروى البيهقي بإسناده عن عبد الرزاق، قال: إنما تركوا عبد الله بن محرر بسبب هذا الحديث. قال البيهقي: وقد روي هذا الحديث من وجه آخر عن قتادة، ومن وجه آخر عن أنس ليس بشيء فهو حديث باطل وعبد الله بن محرر ضعيف متفق على ضعفه، قال الحافظ: هو متروك

 خلاصہ

منکر میلاد ابن باز کے مطابق وہ جو حدیث ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد اپنا عقیقہ فرمایا تو ابن باز کے مطابق یہ روایت یہ حدیث من گھڑت جھوٹی ہے یا سخت ضعیف ہے کیونکہ امام نووی نے شرح المھذب میں اس کو باطل لکھا ہے امام بیہقی نے اس کو باطل لکھا ہے۔۔۔حافظ ابن حجر عسقلانی نے متروک سخت ضعیف لکھا ہے

(مجموع فتاوى ومقالات متنوعة - ابن باز26/264)

۔

*#ایک اور منکر میلاد شحاتة صقر لکھتا ہے*

فقد ضعفه الأئمة مالك، وأحمد بن حنبل، والبزار، والبيهقي، والنووي، والحافظ المزي والحافظ الذهبي، والحافظ ابن حجر

ایک اور منکر میلاد لکھتا ہے کہ

یہ مذکورہ حدیث سخت ضعیف ہے امام مالک امام احمد بن حنبل امام بزار امام بہقی امام نووی حافظ مزی حافظ ذہبی حافظ ابن حجر سب نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے

(المولد النبوي هل نحتفل ص65)

۔ 

*#الحاصل*

منکرین میلاد کے مطابق درج ذیل 8 بلند پایا محدثین محققین نے مذکورہ حدیث کو سخت ضعیف یا من گھڑت موضوع جھوٹی قرار دیا ہے

1۔۔۔امام نووی

2۔۔۔امام بیہقی

3۔۔امام ابن حجر عسقلانی

4۔۔۔امام احمد بن حنبل

5۔۔۔امام مالک

6۔۔۔امام بزاز

7۔۔۔حافظ مزی

8۔۔۔حافظ ذہبی

.

*#ہمارا جواب۔۔۔۔۔۔۔۔!!*

اس حدیث پاک کے ہمیں چار طرق چار سندیں ملی ہیں تو

انفرادی طور پر مذکورہ روایات و حدیث کو ضعیف مان بھی لیا جائے تو بھی تعدد طرق کی وجہ سے حسن و معتبر کہلائے گی کیونکہ سنی شیعہ نجدی سب کا متفقہ اصول ہے کہ تعدد طرق سے ضعیف روایت حسن و معتبر بن جاتی ہے.... اس اصول کے بہت سارے حوالہ جات دیے جا سکتے ہیں مگر ہم درج زیل چھ حوالہ جات پہ اکتفاء کر رہے ہیں

.

1۔۔۔شیعہ کے علاوہ سب کا متفقہ امام علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں

فهما ضعيفان، فينجبر أحدهما للآخر فيرتقي الإسناد إلى الحسن لغيره

دو حدیثیں اگرچہ بنیادی طور پر ضعیف ہیں لیکن ایک دوسرے کو تقویت دے کر دونوں مل کر حسن معتبر قابل دلیل حدیث بن جائیں گی

(المطالب العالیہ11/257)

.

2۔۔۔۔موجودہ وہابیوں نجدیوں اہل حدیثوں غیر مقلدوں کا موجودہ دور کا بہت بڑا معتبر ترین عالم محقق مسٹر البانی لکھتا ہے:

إن تعدد الطرق إنما يرفع الحديث إلى مرتبة الحسن لغيره إذا كان الضعف في الرواة من جهة الحفظ والضبط فقط، لا من ناحية تهمة الكذب، فإن كثرة الطرق لا تفيد شيئا إذ ذاك "

حدیث ضعیف کی ایک دو سندیں یا زیادہ سندیں مل جائیں اگرچہ وہ ضعیف ہوں تب بھی وہ حدیث مجموعی طور پر حسن معتبر قابل دلیل بن جاتی ہے بشرط کہ حدیث کا ضعف کی وجہ کذب یا تہمت کذب نہ ہو

(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ1/88)


.

3۔۔۔۔وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن

تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور(حدیث و روایت کا) متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے

(شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)

.

4۔۔۔۔۔علامہ ابو المحاسن علیہ الرحمہ فرماتے ہیں

أن تعدد الطرق، ولو ضعفت، ترقي الحديث إلى الحسن

بےشک تعدد طرق سے ضعیف روایت و حدیث حسن و معتبر بن جاتی ہے(اللؤلؤ المرصوع ص42)

.

5۔۔۔۔۔امام سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں

لِأَنَّ كَثْرَةَ الطُّرُقِ تُقَوِّي

کثرت طرق(تعدد طرق)سے روایت و حدیث کو تقویت ملتی ہے(اور ضعف ختم ہوجاتا ہے)

(تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ,1/179)

.

6۔۔۔۔۔امام ملا علی قاری فرماتے ہیں

فَهَذِهِ عِدَّةُ طُرُقٍ وَإِنْ لَمْ يُحْتَجَّ بِوَاحِدٍ مِنْهَا فَالْمَجْمُوعُ يُحْتَجُّ بِهِ لِتَعَدُّدِ الطُّرُقِ

چند طرق اگرچہ انفرادی طور پر ان سے دلیل نہیں پکڑ سکتے کیونکہ ضعیف ہیں مگر ان سب کو ملا کر مجموعی طور پر یہ قابل دلیل بن جاتے ہیں

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح4/1395)

.

اپ نے اصول ملاحظہ فرما لیا کہ ایک حدیث بنیادی طور پر ضعیف ہو مگر اس کی تقویت کسی دوسری ضعیف حدیث سے ہو تو کسی دوسری ضعیف سند سے ہو تو وہ معتبر قابل دلیل حسن بن جاتی ہے وہ جو حدیث پاک ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ دوبارہ فرمایا اس حدیث کے درج ذیل چار سندیں ہمیں ملی ہیں، مزید تحقیق کرنے پر شاید مزید سندیں مل جائیں

۔ 

*#پہلی سند۔۔۔۔۔۔۔!!*

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قَالَ: نا الْهَيْثَمُ قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ ثُمَامَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «عَقَّ عَنْ نَفْسِهِ بَعْدَ مَا بُعِثَ نَبِيًّا»

بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت کے بعد اپنا عقیقہ دوبارہ فرمایا

(طبرانی کبیر حدیث994)

۔

*#دوسری سند۔۔۔۔۔۔۔۔!!*

حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ جَمِيلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى بْنِ أَنَسٍ، حَدَّثَنِي ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «عَقَّ عَنْ نَفْسِهِ بَعْدَمَا جَاءَتْهُ النُّبُوَّةُ»

 بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد اپنا عقیقہ دوبارہ فرمایا

( النفقة على العيال لابن أبي الدنيا حديث66)

.

*#تیسری سند۔۔۔۔۔۔۔ !!*

حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْمَحَامِلِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو قَتَادَةَ الْحَرَّانِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ الْجُرَشِيُّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَّ عَنْ نَفْسِهِ بَعْدَمَا أُنْزِلَتِ الْنُبُوَّةُ

بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد اپنا عقیقہ دوبارہ فرمایا

( الخامس من الأفراد لابن شاهين حديث3)

.

*#چوتھی سند۔۔۔۔۔۔۔۔ !!*

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ دَاوُدَ الْعَلَوِيُّ رَحِمَهُ اللهُ، أنبأ حَاجِبُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سُفْيَانَ الطُّوسِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حَمَّادٍ الْأَبْيُورْدِيُّ، ثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أنبأ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَرَّرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَّ عَنْ نَفْسِهِ بَعْدَ النُّبُوَّةِ

بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد اپنا عقیقہ دوبارہ فرمایا

(السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية، حديث19273)

۔ 

اب ہم مذکورہ بالا اٹھ بلند پایا محدثین محققین کے حوالے سے اس روایت کو اس حدیث پاک کو معتبر قوی حسن الاسناد قابل دلیل ثابت کریں گے ان شاءاللہ عزوجل

۔

*#امام ابن حجر عسقلانی سے ثبوت۔۔۔۔۔۔ !!*

فَالْحَدِيثُ قَوِيُّ الْإِسْنَادِ وَقَدْ أَخْرَجَهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَيْمَنَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْحَاقَ السَّرَّاجِ عَنْ عَمْرٍو النَّاقِدِ وَأَخْرَجَهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مَسْعُودٍ كِلَاهُمَا عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ جَمِيلٍ وَحْدَهُ بِهِ فَلَوْلَا مَا فِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُثَنَّى مِنَ الْمَقَالِ لَكَانَ هَذَا الْحَدِيثُ صَحِيحًا

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد اپنا عقیقہ دوبارہ فرمایا یہ حدیث سندوں کے اعتبار سے قوی مضبوط قابل دلیل ہے پھر امام ابن حجر نے اس کی سندیں بیان فرمائیں اور فرمایا کہ ان سندوں میں اگر ضعف نہ ہوتا تو میں اس حدیث کو صحیح حدیث قرار دیتا( لیکن حدیث صحیح اگرچہ نہیں مگر ضعیف سندوں کے مل جانے کی وجہ سے یہ حدیث حسن معتبر قابل دلیل ہے جو صحیح حدیث سے تھوڑا کم درجے کی ہے)

(فتح الباری شرح بخاری9/595)

۔ 

*#امام نووی سے ثبوت۔۔۔۔۔۔۔!!*

هُوَ مُخَيَّرٌ فِي الْعَقِيقَةِ عَنْ نَفْسِهِ. وَاسْتَحْسَنَ الْقَفَّالُ وَالشَّاشِيُّ: أَنْ يَفْعَلَهَا. وَيُرْوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ عَقَّ عَنْ نَفْسِهِ بَعْدَ النُّبُوَّةِ

امام نووی نے حدیث لکھی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ دوبارہ فرمایا اس سے امام نووی نے ثابت فرمایا کہ بڑے ہو کر بھی عقیقہ کیا جا سکتا ہے بلکہ امام نووی نے بعض ائمہ سے نقل کیا کہ اس حدیث کی وجہ سے ہم مستحب قرار دیتے ہیں کہ اپنا عقیقہ بڑے ہو کر کرے

(روضۃ الطالبین3/229)

۔ 

امام نووی نے شرح مہذب میں اس حدیث پاک کو باطل لکھا تھا لیکن وہ امام صاحب کی پرانی کتاب ہے اس کے بعد اپ نے روضۃ الطالبین کتاب لکھی جس میں اس حدیث کو معتبر دلیل قرار دیا روضۃ الطالبین بعد میں لکھی اس کا ثبوت یہ ہے کہ روضۃ الطالبین میں شرح مہذب کے حوالے ہیں مطلب شرح مہذب پہلے لکھی گئی گویا امام صاحب نے اپنے پہلے والے قول سے رجوع کر کے یہ قول معتبر قرار دے دیا کہ حدیث ثابت ہے دلیل بن سکتی ہے

وَقَدْ أَوْضَحْتُ ذَلِكَ فِي (شَرْحِ الْمُهَذَّبِ)

( روضۃ الطالبین1/21)

۔ 

*#امام بیھقی سے ثبوت۔۔۔۔۔۔۔!!*

فَإِذَا ضَمَمْنَا هَذِهِ الْأَسَانِيدَ بَعْضَهَا إِلَى بَعْضٍ، أَخَذَتْ قُوَّةً

امام بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ حدیثیں ضعیف ہیں لیکن یہ اپس میں مل جائیں تو تقویت و قوت پکڑ لیتی ہیں اور دلیل بن سکتی ہیں

(معرفۃ السنن والاثار2/65)

۔ 

هَذِهِ الْأَسَانِيدُ وَإِنْ كَانَتْ ضَعِيفَةً فَهِيَ إِذَا ضُمَّ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ أَخَذَتْ قُوَّةً

حدیث کی یہ سندیں انفرادی طور پر اگرچہ ضعیف ہیں مگر یہ سب مل کر قوت و تقویت حاصل کر لیتی ہیں اور قابل دلیل بن جاتی ہیں

(شعب الایمان5/333)

۔ 

امام بیہقی نے انفرادی طور پر اس حدیث کو،  دوبارہ عقیقہ کرنے والی حدیث کو ضعیف قرار دیا تھا مگر ان کے اصول کو دیکھا جائے تو اس حدیث کی چار سندیں ہیں تو امام بیہقی کے اپنے اصول کے مطابق یہ حدیث معتبر حسن قابل دلیل بن جاتی ہے

.

*#امام ذہبی سے ثبوت۔۔۔۔۔۔۔!!*

ويكون المتنُ مع ذلك عُرِف مِثلُه أو نحوُه مِن وجهٍ آخر اعتَضد به

ضعیف حدیث کی تقویت دوسری ضعیف حدیث سے ہوتی ہے اور وہ قابل دلیل بن جاتی ہے

(الموقظة للذهبي ص28)

۔ 

امام ذہبی نے انفرادی طور پر اس حدیث کو،  دوبارہ عقیقہ کرنے والی حدیث کو ضعیف قرار دیا تھا مگر ان کے اصول کو دیکھا جائے تو اس حدیث کی چار سندیں ہیں تو امام ذہبی کے اپنے اصول کے مطابق یہ حدیث معتبر حسن قابل دلیل بن جاتی ہے

.

*#امام احمد بن حنبل امام بخاری امام علی بن مدینی امام منذری امام عراقی امام ابن کثیر امام ذہبی امام ابن حجر عسقلانی امام زیلعی وغیرہ کئی ائمہ محدثین سے اس حدیث کا ثبوت۔۔۔۔۔۔۔ !!*

 تحسينَ الحديث الضعيف ضعفاً خفيفاً بتعدُّد طرقه، أو وجود شواهد له، مذهبٌ دَرَجَ عليه حفاظ الحديث ونقاده من الأئمة المتقدمين، أمثال الإمام أحمد بن حنبل، وعلي بن المديني، ومحمد بن إسماعيل البخاري وغيرهم، وارتضاه المتأخرون من أهل العلم، وأخذوا به، ومَشَوْا عليه إلى يومنا هذا، وفيما دوَّنَه الحفاظ:المنذريُّ والعراقي وابن كثير والذهبي وابن حجر والزَّيْلعي وغيرهم

مسند امام احمد بن حنبل کے حاشیہ میں ہے کہ وہ حدیث کہ جو زیادہ سخت ضعیف نہ ہو وہ درج ذیل ائمہ امام احمد بن حنبل امام بخاری امام علی بن مدینی امام منذری امام عراقی امام ابن کثیر امام ذہبی امام ابن حجر عسقلانی امام زیلعی وغیرہ کئی ائمہ محدثین کے مطابق دیگر ضعیف احادیث یا دیگر ضعیف سندوں سے مل کر حسن معتبر قابل دلیل بن جاتی ہے

(مقدمة مسند احمد1/78)

۔ 

الحاصل اوپر کے حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ درج ذیل تقریبا 16 ائمہ محدثین محققین سے ثابت ہے کہ وہ اگرچہ کسی حدیث کو صرف اس حدیث کی انفرادیت کی طرف نظر کرتے ہوئے ضعیف کہہ دیتے ہیں مگر اس جیسی دوسری حدیث ضعیف موجود ہو تو ان تمام محققین محدثین کے مطابق دو تین ضعیف حدیث مل کر حسن معتبر قابل دلیل قوی حدیث بن جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ 16 نام تو ہم نے حوالہ جات دیکھ کر ثابت کیے ورنہ ہزاروں ائمہ محدثین کا یہی نظریہ ہے

۔ 

1۔۔۔امام نووی

2۔۔۔امام بیہقی

3۔۔امام ابن حجر عسقلانی

4۔۔۔امام احمد بن حنبل

5۔۔۔امام ملا علی قاری

6۔۔۔امام بخاری

7۔۔۔حافظ عراقی

8۔۔۔حافظ ذہبی

9۔۔۔۔حافظ منذری

10۔۔۔۔۔۔حافظ ابن کثیر

11۔۔۔امام زیلعی

13۔۔۔۔۔امام عراقی

14۔۔۔۔۔امام ابن کثیر

15۔۔۔۔امام علی بن مدینی

16۔۔۔۔۔ امام سیوطی

۔ 

*#میلاد کے منکر مگر موجودہ دور کے بہت بڑے محقق سمجھے جانے والے البانی سے اس حدیث کا ثبوت۔۔۔۔۔۔!!*

مسٹر البانی لکھتا ہے

قلت: وهذا إسناد حسن رجاله ممن احتج بهم البخاري في " صحيحه " غير الهيثم ابن جميل، وهو ثقة

(یہ حدیث کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ دوبارہ فرمایا)یہ حدیث حسن ہے قابل دلیل ہے معتبر ہے اس کو روایت کرنے والے کئی ایسے راوی ہیں جن سے امام بخاری نے روایت لی ہے اور ہیثم سے اگرچہ امام بخاری نے روایت نہیں لی مگر پھر بھی وہ ثقہ معتبر راوی ہے

(سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ6/503)

۔ 

میں بحث کرنے والے جدید ڈیجیٹل لکیر کے فقیر اندھے جعلی محقق صاحب سے کہنا چاہتا ہوں کہ دوسری جگہ تو ڈنڈی اپ نے ماری ، خیانت کی، مکاری کی ، جھوٹ منسوب کیا ، تحقیق نہ کی مگر افسوس تجھے اپنے امام البانی کی واضح عبارت بھی نظر نہیں ائی یا پھر تم نے دھوکہ دینے کے لیے اسے بھی چھپانے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔؟؟ خیر تجھ سے کیا گلا تجھ سے پہلے ابن باز جیسے بہت بڑے عالمی سطح کے محقق سمجھے جانے والے نے ڈنڈیاں بلکہ بلنڈر مارے، خیانتیں کیں۔،جھوٹ منسوب کیے، تحقیق نہ کی۔۔۔۔۔۔۔ افسوس صد افسوس۔۔۔۔۔۔ لوگو

پہچانو ان منکرین کو جو دھوکہ دیتے ہیں جھوٹ منسوب کرتے ہیں ، پوری تحقیق نہیں کرتے ، عبارتوں سے دھوکہ دیتے ہیں ، عبارتوں میں خیانت کرتے ہیں، کتابوں سے عبارات تک اڑا دیتے ہیں عبارات حذف کر دیتے ہیں کلام میں ہیر پھیر تبدیلی حذف اضافہ تک کرتے ہیں۔۔۔۔پہچانو انہیں اور دور رہو ان کی کتابوں سے، ان کے نظریات سے۔۔۔۔۔۔۔!!

.

اے منکر میلاد اپنے نظریاتی ملک کی فتوی کمیٹی کا فتوی ہی پڑھ لیتے لکھتے ہیں:

ثبت أن النبي - صلى الله عليه وسلم - عق عن نفسه عند بعثته یہ بات ثابت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت کے بعد اپنا عقیقہ دوبارہ فرمایا

(فتاوى اللجنة الدائمة - المجموعة الثانية10/456)

.

*#نوٹ*

امام ابن حجر عسقلانی نے دو ٹوک فرمایا تھا کہ یہ حدیث قوی ہے معتبر ہے دلیل بن سکتی ہے اس کے علاوہ امام نووی نے اس حدیث سے دلیل اخذ کی تھی اس کے علاوہ مسٹر البانی اور فتوی کمیٹی نے بھی اس حدیث کو ثابت اور قابل دلیل قرار دیا اس کے علاوہ درج زیل علماء نے بھی اس سے دلیل اخذ کی یا اسے معتبر قرار دیا

۔ 

امام غماری لکھتے ہیں

ولا يخفى أن الحق معه في تصحيح هذا الحديث

یہ بات مخفی نہیں ہونی چاہیے کہ حق بات یہی ہے کہ یہ حدیث صحیح کہلانی چاہیے

(الہدایہ فی تخریج احادیث البدایہ6/281)

.

امام هيثمي فرماتے ہیں

وَرِجَالُ الطَّبَرَانِيِّ رِجَالُ الصَّحِيحِ خَلَا الْهَيْثَمَ بْنَ جَمِيلٍ، وَهُو

ثِقَةٌ،

اس حدیث کے راوی وہ ہیں کہ جو صحیح حدیث کے راوی ہوتے ہیں سوائے ابن جمیل کے لیکن وہ بھی ثقہ ہے معتبر ہے

(مجمع الزوائد4/59)

۔ 

امام سیوطی فرماتے ہیں:

" قلت و ظهر لی تخریجه على اصل آخر، و هو ما اخرجه البيهقي، عن انس، رضي الله عنه " ان النبي عليه السلام عق عن نفسه بعد النبوة مع انه قد ورد أن جده عبد المطلب عق عنه في سابع ولادته. والعقيقة لاتعاد مرة ثانية، فيحمل ذلك على ان الذي فعله النبي صلى الله عليه وآله وسلم اظهارا للشكر على ايجاد الله تعالى اياه، رحمة للعالمين وتشريفاً لامتة ، كما كان يصلى على نفسه، لذلك فيستحب لنا ايضاً اظهار الشكر بمولد و اجتماع الاخوان و اطعام الطعام، ونحو ذلك من وجود القربات، واظهار المسرات

یعنی

امام سیوطی فرماتے ہیں کہ میلاد النبی منانے کے حوالے سے ایک اور دلیل مجھ پر ظاہر ہوئی ہے جسے امام بیہقی علیہ الرحمہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ حضور صلی علی ایم نے اعلان نبوت کے بعد خود اپنا عقیقہ کیا، باوجود اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب آپ کی ولادت کےساتویں روز آپ کا عقیقہ کر چکے تھے اور عقیقہ دو مرتبہ نہیں کیا جاتا۔ پس یہ واقعہ اس پر محمول کیا جائے گا کہ آپ صلی علیہ ہم نے اپنے آپ کو اللہ تعالی کی طرف سے رحمۃ للعالمین اور اپنی امت کےمشرف ہونے کی وجہ سے اپنی ولادت کی خوشی کے اظہار کے لئے خود عقیقہ کیا۔ اس طرح ہمارے لئے مستحب ہے کہ ہم بھی حضور صلی علیم کے یوم ولادت پر خوشی کا اظہار کریں اور کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات بجالائیں اور خوشی کا اظہار کریں“

(حسن المقصد ص64، 65)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03136325125

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.