Labels

مخطی طارق مسعود پر حکم قران حدیث اقوال صحابہ مفسرین علمائے گرامر کی روشنی میں

 *#مفتی مطلب مخطی طارق مسعود صاحب صحیح طرح توبہ کرو۔۔۔چونا نہ لگاو۔۔۔۔۔۔۔۔!!*

نوٹ

ہمارے مطابق جو دلائل کی بنیاد پر حکم لگ رہا تھا وہ ہم نے بیان کر دیا لیکن یہ اسی وقت معتبر ہوگا جب معتبر اہل سنت مفتی اس کی تائید فرما دیں گے یا جو حکم و فتوی معتبر مفتی اہلسنت صاحبان کا  دلیل کی بنیاد پر ہوگا اسی پر عمل کرنا لازم ہے

.

*#تمھید*

کینیڈا میں مفتی مطلب مخطی طارق مسعود صاحب نے تقریر کی اور انتہائی نامناسب لچھر انداز  میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قران مجید کا تذکرہ  کیا اور دو ٹوک کہا کہ نعوذ باللہ قران میں گرائمر کی سو فیصد غلطی ہے جو اج تک ہے۔۔۔جس کو کوئی مائی کا لال ٹھیک نہیں کر سکتاجس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ غلطی رسول کریم کو بھی غلطی نہیں معلوم ہوئی کیونکہ اپ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے (نعوذ باللہ)۔۔۔۔طارق مسعود کے مطابق وہ غلطی اج تک چلی ا رہی ہے پھر اس غلطی سے یہ دلیل اخذ کی کہ جب غلطی کو ٹھیک کرنے کے لیے قران میں ہیر پھیر نہیں کی گئی تو پھر جو صحیح درست ایات ہیں ان میں تبدیلی ہیر پھیر کیسے ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔ پھر اسی تقریر میں اس نے یہ بھی کہا اگر(یعنی بالفرض) ظاہری لحاظ سے غلطی نکلے اور ایک جگہ کہتا ہے کہ ہوئی بھی ہے( یعنی قران مجید میں ظاہری غلطی ہوئی بھی ہے ) تو بھی اس میں بڑی حکمتیں ہیں

پھر وضاحت میں کہتے ہیں کہ میں نے اس کو ظاہری غلطی کہا ہے کیونکہ صحابی نے اس کو عام قاعدے کے خلاف لکھا ہے پھر جناب کہتے ہیں کہ اس بات کو بیان کرنے میں وضاحت کرنے میں تعبیر کرنے میں کسی کے مطابق میں نے الفاظ غلط کہہ دیے ہوں تو معذرت چاہتا ہوں الفاظ سے رجوع کرتا ہوں

۔ 

*#تبصرہ۔و۔تحقیق۔۔۔۔۔۔۔!!*

اگر۔۔۔۔۔ بالفرض۔۔۔۔ 

ان دو لفظوں کی آڑ لیکر تم نجدیوں نے کیا سے کیا گند نہیں پھیلا۔۔۔۔ کبھی کہتے ہو کہ بالفرض اگر بعد میں کوئی نبی آ جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت محمد مصطفی کی خاتمیت ختم نبوت پہ کوئی فرق نہیں پڑتا اور کبھی کیا

بک۔واس کرتے ہو کبھی کیا بک۔واس کرتے ہو۔۔تم لوگ توحید بیان کرتے ہو یا اسلامی عقیدہ بیان کرتے ہو یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بیان کرتے ہو تو گھٹیا انداز سے دلائل کیوں دیتے ہو۔۔۔۔۔؟؟ کیا تمہارے پاس شاندار دلائل عمدہ دلائل نہیں ہیں کہ جو واقعی دلائل ہیں۔۔۔۔۔؟؟ تم لوگ دلیل دینے کی اڑ میں عشق مصطفی کی دھجیاں اڑاتے ہو منافقت ایجنٹیاں کرتے ہو شیطان کو خوش کرتے ہو۔۔۔۔۔۔وہ کہتے ہیں ناں کہ کوئی بکری دودھ دیتے وقت لید بھی کر کے دودھ میں ڈال دیتی ہے تم لوگ بھی ایسے ہی لگتے ہو بات کس عظمت کی ہو رہی ہوتی ہے اور تم لید کر جاتے ہو۔۔۔۔۔ ختم نبوت کو ثابت کرنا تھا اور تم کہہ گئے کہ نبی نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی اگر کوئی نبی آ جائے تو ختم نبوت پہ کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔۔۔ توحید بیان کرنی ہوتی ہے تو تم کہتے ہو کہ انبیاء کرام اور اللہ کے ولی نہ سن سکتے ہیں  نہ کچھ کر سکتے ہیں وہ تو مر گئے مٹی میں مل گئے۔ ل۔۔۔۔۔ ارے یار یہ کوئی شان بیان ہو رہی ہے یا کوئی توحید بیان ہو رہی ہے یا تنقیص و،مذمت۔۔۔۔۔؟؟ 

تمھیں یہ کہنے میں کیا تکلیف ہوتی ہے کہ جب انبیاء کرام اولیاء کرام کی اتنی بڑی شان  تو ان کے خالق و مالک اللہ تبارک و تعالی کی کتنی بڑی شان ہوگی

۔

تم لوگوں سے شان بیان نہیں ہو پائے گی کہ تمہارے اسلاف تمہارے اباؤ اجداد تمہاری تربیت ہی ایسی کر کے گئے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن اب کچھ لگ رہا تھا کہ دیوبند بدل رہی ہے توہین امیز کتب پر پابندیاں لگا رہی ہے مگر کتے کی تم وہی ٹیڑھی کی ٹیڑھی

۔

اگر مگر کا سہارا تو لیتے ہو لیکن طارق مسعود صاحب تم نے یہاں تو تم نے بالفرض اور اگر کی بات کے ساتھ ساتھ واضح الفاظ میں کہا ہیے کہ گرائمر کی بظاہر غلطی ہوئی بھی ہے ظاہری غلطی ہوئی بھی ہے جس کو اج تک کوئی مائی کا لال ٹھیک نہیں کر سکتا۔ ۔۔اپنا بیان دوبارہ سن لو

۔ ##################

اور جب علماء و عوام نے گرفت کی تو پھر سے وہی دھندہ شروع کر دیا کہ پہلی بات کو چھپا دیا کہ جس میں اپ نے کہا تھا کہ 100 فیصد بظاہر غلطی ہوئی ہے اس کو کیوں چھپا دیا۔۔۔۔؟؟ اس الفاظ سے رجوع کرتے ہیں ناں۔۔۔۔دل جگرا عشق محبت تھا تو کہتے کہ یہ 100 فیصد والی بات میں نے غلط کہی ہے

۔ 

لیکن الٹا ملبہ لوگوں پر ڈال دیا کہ کسی سمجھنے والے نے یہ سمجھ لیا کہ میں نے تعبیر میں الفاظ کچھ سے کچھ کر دیے ہیں اور پھر گول مول سی رجوع کر لی

۔ #################

*#اہم_ترین_مطالبہ*

ارے طارق مسعود صاحب مرد بن مرد۔۔۔۔منافقت انانیت تکبر چھوڑ دے۔۔۔۔سیدھا سیدھا بول کہ میرے الفاظ سو فیصد غلط ہیں،میں ان سے توبہ رجوع کرتا ہوں ،چاہے اس سے کسی نے اچھا مقصد لیا ہو یا غلط معنی لیا ہو لیکن میرے الفاظ غلط معنی  کی ترجمانی کرتے ہیں اس لیے ان سے میں توبہ رجوع کرتا ہوں اور اپنے عقیدے کا اعلان کرتا ہوں کہ

قران مجید میں کوئی بھی گرائمر کی غلطی نہیں ہے۔۔۔۔بظاہر یا ظاہری غلطی بھی نہیں اور حقیقت بھی میں بھی کوئی غلطی نہیں اور صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی غلط نہیں لکھا اور یہ بھی نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہ ہو کہ کیسا لکھا گیا ہے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوتا تھا کہ ایک ایک لفظ درست لکھا گیا ہے

۔ 

###############

اپ نے جو بولا کہ صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کو لکھنے میں غلطی ہوئی کہ اپ نے لنسفعاً لکھ دیا جبکہ یہ لفظ لنسفعنّ لکھا جانا چاہیے

۔ 

مولوی صاحب یہ گرائمر کی غلطی نہیں ہے بلکہ عین گرائمر کے مطابق دونوں طریقے سے لکھنا درست ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ حکم مبارک کے مطابق دو جگہ پر الف کے ساتھ لکھا ہوا ہے کیونکہ جب دو چار طریقے لکھنے کے ہوں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ اپ علیہ الصلوۃ والسلام کی اجازت کے بغیر اپنی طرف سے ایک طریقہ پر لکھا جائے بلکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے یقینا اجازت لی ہوگی کہ کس طریقے پر لکھا جائے اور کہاں پر کس طریقے پر لکھا جائے قران مجید میں دو جگہ پر نون کے بجائے الف سے لکھا گیا ہے

نمبر ایک سورہ یوسف میں "وليكونًا "

اور نمبر دو سورہ علق میں " لنسفعاً " ہے

اور دونوں جگہوں پہ یقینا کاتب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر ان کے حکم کے مطابق ہی ایسا لکھا


1⃣فَأَكْتُبُ وَهُوَ يُمْلِيَ عَلَيَّ، فَمَا أَفْرُغُ، حَتَّى تَكَادَ رِجْلِي تَنْكَسِرُ مِنْ ثِقْلِ الْقُرْآنِ حَتَّى أَقُولَ: لاَ أَمْشي عَلَى رِجْلِي أَبَداً، فَإذَا فَرَغْتُ، قَالَ: "اقْرَأْ". فَأَقْرَؤهُ، فَإنْ (٢) كَانَ فِيهِ سَقَطٌ، أَقَامَهُ

سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں وحی کو لکھتا جاتا تھا اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام لکھاتے جاتے تھے لکھنے کے بعد حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے کہ پڑھو اور میں پڑھتا تھا اگر اس لکھائی میں کچھ گڑبڑ ہوتی تو( رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی عطا سے دیے گئے علم کے مطابق) اس کی درستگی فرما دیتے تھے

رواه الطبراني (٣) في الأوسط، ورجاله موثقون

امام ہیثمی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے سارے راوی ثقہ معتبر ہیں

(مجمع الزوائد حدیث689)

۔ 

2⃣كتب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم كتاب، فقال لعبد الله بن أرقم: " أجب هؤلاء "، فأخذه عبد الله بن أرقم فكتبه، ثم جاء بالكتاب فعرضه على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " أحسنت

سیدنا عبداللہ بن ارقم نے کتابت کی تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا مجھے دکھاؤ حضور نے دیکھ کر تصدیق فرمائی کہ ٹھیک لکھا ہے

(مسند البزار = البحر الزخار1/392)

۔ 

مذکورہ حدیث کی سند جید معتبر قابل دلیل ہے

فالإسناد جيد

(سلسلة الأحاديث الصحيحة وفوائدها6/819)


۔ 

3⃣أن رسم المصحف توقيفي لا يجوز تغييره، وتحرم مخالفته، شأنه في ذلك شأن ترتيب سور القرآن وآياته، لا يجوز لنا أن نقدم أو نؤخر منها شيئا.وهو مذهب جمهور الأمة سلفا وخلفا، ونقل كثير من العلماء الإجماع على ذلك

قران مجید کو لکھنے کا انداز رسم الخط توقیفی ہے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر موقوف ہے کہ کس طرح لکھنا ہے لہذا اس رسم الخط کی مخالفت کرنا اس کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہے یہی عقیدہ ہے جمہور امت کا جمہور علماء کا جو پہلے گزر چکے اور جو ان کے بعد ائے بلکہ کئی علماء نے اجماع تک نقل کیا ہے اس بات پر کہ رسم الخط توقیفی ہے

(رسم المصحف وضبطه بين التوقيف والاصطلاحات الحديثة ص63)

.

4⃣ذهب جمهور العلماء إلى أن رسم المصحف العثماني توقيفي لا تجوز مخالفته واستدلوا بما يأتي: أن القرآن الكريم كتب كله بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان يملي على كتاب الوحي، ويرشدهم في كتابته بوحي من جبريل عليه السلام

جمہور علمائے اسلام نے فرمایا ہے کہ جو رسم الخط جس انداز میں قران مجید لکھا گیا ہے جو ہمارے پاس محفوظ ہے جسے رسم الخط عثمانی کہتے ہیں یہ رسم الخط توقیفی ہے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر موقوف تھا کہ وہ کس طرح لکھنے کا حکم ارشاد فرماتے ہیں کہ جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے کا حکم ارشاد فرماتے ہیں اسی طرح لکھا جاتا اور یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے نہیں لکھواتے تھے بلکہ جبرائیل علیہ السلام اللہ کی طرف سے وحی لے کر اتے تھے کہ کس لفظ کو کس طرح لکھنا ہے

(المدخل لدراسة القرآن الكريم ص243)

.

5⃣ أنه توقيفي لا تجوز مخالفته. وذلك مذهب الجمهور. واستدلوا بأن النبي صلى الله عليه وسلم كان له كتاب يكتبون الوحي وقد كتبوا القرآن فعلا بهذا الرسم وأقرهم الرسول على كتابتهم ومضى عهده صلى الله عليه وسلم والقرآن على هذه الكتبة لم يحدث فيه تغيير ولا تبديل

جمہور علماء کا مذہب یہی ہے کہ قران مجید کا رسم الخط لکھنے کا انداز یعنی خط عثمانی توقیفی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر لکھا گیا ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں کاتبان وحی لکھتے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کتابت کو مقرر فرماتے ہیں وہی مقرر ہو جاتی اور اسی رسم الخط پر بغیر کسی تبدیلی اور تغیر کے صحابہ کرام کے دور میں تابعین کے دور میں اور اج تک ہم تک یہی رسم الخط پہنچا ہے

( مناهل العرفان في علوم القرآن1/377)

۔ 

6⃣ المصحف ما هو إلا أمر توقيفي عن الرسول -صلى الله عليه وسلم- علمه أصحابه فكتبوا المصحف به كما تعلموه قال الدباغ: "ما للصحابة ولا لغيرهم في رسم القرآن ولا شعرة واحدة وإنما هو توقيف من النبي وهو الذي أمرهم أن يكتبوه على الهيئة المعروفة بزيادة الألف ونقصانها وسئل الإمام مالك: أيكتب المصحف على ما أحدثه الناس من الهجاء؟ قال: لا إلا على الكتبة الأولى٢ وقال الإمام أحمد: تحرم مخالفة خط المصحف٣ وقال البيهقي: من يكتب مصحفًا فينبغي أن يحافظ على الهجاء الذي كتبوا به تلك المصاحف٤ وقال الزمخشري: خط المصحف سنة لا تغير٥.قالوا: وهذه الروايات والآثار تدل على أن رسم المصحف توقيفي

جمہور علماء نے فرمایا ہے کہ قران مجید کا رسم الخط لکھائی کا انداز توقیفی ہے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس انداز کی اجازت دیتے وہی انداز لکھا جاتا اور یہ اجازت اپ علیہ السلام کو اللہ تعالی کی طرف سے ملتی تھی اس کی کئی دلیلیں ہیں ایک دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے رسم الخط کو ذرا برابر بھی نہ چھیڑا کیونکہ وہ اسکو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کردہ رسم الخط سمجھتے تھے۔۔۔۔ امام مالک علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ کیا قران مجید کو دوسرے رسم الخط میں لکھ سکتے ہیں فرمایا ہرگز نہیں بلکہ اسے پرانے رسم الخط پر ہی لکھا جائے گا۔۔۔۔ امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ جو رسم الخط قران مجید کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چلا ا رہا ہے اس کی مخالفت کرنا حرام ہے ناجائز ہے امام بیہقی نے فرمایا کہ قران مجید کو اسی خط پر لکھا جائے جو پرانہ رسم الخط ہے امام زمخشری نے فرمایا کہ مصحف شریف کا خط سنت ہے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا ہے اسے تبدیل نہیں کر سکتے

(دراسات في علوم القرآن - فهد الرومي ص370)

۔ 

*#اہم_نوٹ*

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعوی نبوت کیا اس وقت اپ لکھنا پڑھنا یعنی لکھے ہوئے کو پڑھنا اور لکھنا نہیں جانتے تھے تاکہ اعتراض کرنے والے یہ نہ کہیں کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے خطوط پڑھ کر کسی کی چوری شدہ کتابیں پڑھ کر اس کو قران کا نام دے رہے ہیں(نعوذ باللہ)۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن نبوت کے دعوے کے بعد جب یہ معجزہ مکمل ہو گیا کہ یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کسی دنیاوی استاد سے نہیں پڑھا تو اس کے بعد اللہ تعالی نے اپ کو دوسرا معجزہ عطا فرمایا کہ اپ کو لکھنا پڑھنا سکھا دیا یہ بعض علماء کا فرمان ہے اہل سنت کئی علماء اسی طرف گئے ہیں جیسے کہ تفسیر تیبیان القران میں لفظ امی کی بحث میں اپ پڑھ سکتے ہیں لیکن بعض علماء کرام نے فرمایا کہ دوسرا معجزہ کہ اپ علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھنا پڑھنا سکھا دیا گیا اس کی کوئی معتبر دلیل واضح دلیل نہیں ہے تو لہذا اپ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔۔۔

۔ 

*#لیکن*

 جب وحی لکھائی جاتی تھی تو اس وقت اللہ تعالی کی طرف سے یقینا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم و بصیرت ملی ہوتی تھی اور اپ علیہ الصلوۃ والسلام جو کچھ لکھا جا رہا ہوتا اسے سمجھتے اس کی اصلاح فرماتے تاکہ وحی کی حفاظت ہو۔۔۔۔۔۔!!

.

القران

اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ  وَ  اِنَّا  لَہٗ  لَحٰفِظُوۡنَ

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ بے شک ہم نے قران کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں

(سورہ حجر ایت نمبر 9)

.

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ" دَلَالَةٌ عَلَى كُفْرِ هَذَا الْإِنْسَانِ، لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ حَفِظَ الْقُرْآنَ مِنَ التَّغْيِيرِ وَالتَّبْدِيلِ، وَالزِّيَادَةِ وَالنُّقْصَان

 مذکورہ ایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قران مجید تبدیلی سے کسی قسم کے تغیر سے کچھ الفاظ زیادہ کرنے سے یا کچھ الفاظ گھٹانے سے پاک اور محفوظ ہے (جو ایسا نظریہ نہ رکھے وہ قران کا منکر کافر مرتد زندیق مردود باطل ہ)

(تفسیر قرطبی1/84)

یہ کہنا ہے کہ قران مجید میں 100 فیصد غلطی ہوئی ہے یا بظاہر غلطی ہوئی ہے صاف طور پر قران مجید کے محفوظ ہونے کے عقیدے کے خلاف ہے گویا طارق مسعود کہہ رہا ہے کہ غلطی سے فلاں لفظ قران مجید میں اگیا ہے نعوذ باللہ من ذالک

.

ثُمَّ قَرَّرَ تعالى أنه هو الذي أنزل عليه الذِّكْرَ وَهُوَ الْقُرْآنُ، وَهُوَ الْحَافِظُ لَهُ مِنَ التَّغْيِيرِ وَالتَّبْدِيلِ اس ایت سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالی نے قران کو نازل کیا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرنے والا ہے کہ اس میں کوئی تغیر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی(لیھذا جو کوئی کہے کہ کوئی حرف زیادہ ہو گیا ہے کوئی حرف کم ہو گیا ہے کوئی تبدیلی ہو گئی ہے گرامر کی غلطی ہو گئی ہے تو یہ قران کی حفاظت کے خلاف ہے کفر زندیقیت باطل مردودیت ہے)

(تفسیر ابن کثیر4/453)

.

وقال علي رضي الله عنه:"من كفر بحرف من القرآن، فقد كفر به

سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ جس نے قران کے ایک حرف کا انکار کیا اس نے کفر کیا

(رسالة في القرآن وكلام الله ص46)

 قران مجید میں الف ہے لیکن طارق مسعود کہتا ہے کہ الف نہیں ہے یہ غلطی سے الف اگیا ہے تو قران کے ایک حرف کا انکار بھی سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مطابق کفر ہے اللہ ہدایت کی توفیق دے

.

وقال عبدالله بن مسعود رضي الله عنه: من كفر بحرف منه فقد كفر به أجمع ....وقال عبدالله بن المبارك: من كفر بحرف من القرآن فقد كفر

سیدنا صحابی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے قران کے ایک حرف کا انکار کیا اس نے سارے قران کا انکار کیا اور سیدنا عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں جس نے ایک حرف کا بھی انکار کیا گویا اس نے سارے قران کا انکار کیا

(الموسوعة العقدية6/452)

قران مجید میں الف ہے لیکن طارق مسعود کہتا ہے کہ الف نہیں ہے یہ غلطی سے الف اگیا ہے تو قران کے ایک حرف کا انکار بھی کفر ہے اللہ ہدایت کی توفیق دے

۔ 

#############


قران مجید میں دو جگہ پر نون کے بجائے الف سے لکھا گیا ہے

نمبر ایک سورہ یوسف میں "وليكونًا "

اور نمبر دو سورہ علق میں " لنسفعاً  ہے

طارق مسعود صاحب اس کو گرامر کی غلطی قرار دے رہے ہیں جبکہ تمام معتبر مفسرین نے اسے گرامر کی غلطی قرار نہیں دیا بلکہ گرائمر کے قاعدے کے مطابق قرار دیا

اور

پھر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ گرامر کی قواعد بعد میں ایجاد ہوئے قران و احادیث پہلے نازل ہوئیں تو وہ گرامر جو ہمارے ذہن کی ایجاد ہے کہ ہم نے عربی کو دیکھ دیکھ کر اکثری قاعدے بنا لیے تو یہ ہمارے ذہن کی ایجاد کردہ قواعد قران قران و حدیث کے تابع ہیں ، قران و حدیث ہمارے ذہنی ایجاد کردہ قواعد کے تابع نہیں ہیں۔۔۔۔

۔ 

اب ہم تفاسیر سے 10 تفاسیر کے حوالہ جات پیش کر رہے ہیں جس میں صاف لکھا ہے کہ یہ دونوں الفاظ عربی گرائمر کے حساب سے درست ہیں۔۔۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ عربی گرائمر میں لکھنے کے دو چار انداز ہو سکتے ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عربی لکھنے کا جو انداز اللہ کے حکم سے مقرر فرما دیا وہی اج بھی برقرار ہے اس میں کوئی گرائمر وغیرہ کی کچھ بھی غلطی نہیں ہے نہ حقیقتا غلطی ہے نہ بظاہر غلطی ہے


1⃣۔۔۔۔۔وأما قوله: (وليكونًا) فإن الوقف عليه بالألف، لأنها النون الخفيفة، وهي شبيهةُ نون الإعراب في الأسماء في قول القائل:"رأيت رجلا عندك"، فإذا وقف على"الرجل" قيل:"رأيتُ رجلا"، فصارت النون ألفًا. فكذلك ذلك في:"وليكونًا"، ومثله قوله: (لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ نَاصِيَةٍ) ، [سورة العلق: 15، 16] الوقف عليه بالألف لما ذكرت ; ومنه قول الأعشي:

وَصَلِّ عَلَى حَينِ العَشَيَّاتِ والضُّحَى ... وَلا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ وَاللهَ فَاعْبُدَا

عربی کا ایک قاعدہ ہے کہ نون کو الف سے بدل کر لکھ دیا جاتا ہے اور کبھی الف کو نون سے بدل کر لکھ دیا جاتا ہے جیسےرأيت رجلاً عندك" میں رجلا اصل میں رجلن بھی درست ہے لیکن جب اپ وقف کریں گے تو کہیں گے

رأيتُ رجلا یعنی اب لام کے بعد الف ہے دو زبر یعنی تنوین نہیں ہے گویا رجلن کے نون کو الف سے بدل دیا۔۔۔۔۔ اسی طرح سورہ یوسف میں لفظ ليكونًا میں جو الف تنوین کے ساتھ ایا ہوا ہے یہ دراصل نون کی جگہ ایا ہے یہ دراصل یوں بھی ہو سکتا ہے لیکونن اسی طرح لَنَسْفَعًا میں الف دو زبر کے ساتھ جو ایا ہے وہ دراصل نون کی جگہ ایا ہے گویا اس کا یہ تلفظ بھی درست ہے لنسفعن۔۔۔۔۔ الحاصل عربی گرامر کا قاعدہ ہے کہ کبھی کبھار نون کو الف سے اور الف کو نون سے بدل دیا جاتا ہے یہ محض ہمارا اختراعی قاعدہ نہیں ہے بلکہ پہلے عرب میں یہ رائج قائدہ تھا جیسے کہ پرانے عرب کی شاعری میں ملتا ہےوَصَلِّ عَلَى حَينِ العَشَيَّاتِ والضُّحَى ... وَلا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ وَاللهَ فَاعْبُدَا

تو اس میں نون کی جگہ الف ایا ہے فَاعْبُدَا گویا فاعبدن ہے

 (تفسیر طبری 16/87)

۔ 

2⃣۔۔۔۔۔وكتبها في المصحف بالألف على حكم الوقف

لنسفعاً "وليكونًا کو الف دو زبر کے ساتھ لکھا گیا ہے تو یہ وقف والے قاعدے کے مطابق ہے کہ مناسبت سے وقف کی صورت میں نون الف بن جاتا ہے اور الف نون بن جاتا ہے

(تفسیر نسفی3/664

تفسیر ابی سعود9/180)

۔ 

3⃣۔۔۔۔۔ألا ترى أنك لو وقفت على قوله تعالى «لنسفعن» قلت: لنسفعا ومنه قول الأعشى:وصلّ على حين العشيات والضحى ... ولا تحمد الشيطان والله فاحمدا

أراد فاحمدن فقلب نون التوكيد ألفا

ایک قاعدے کے مطابق لنسفعن ہے لیکن اگر اپ اس پر وقف کریں گے تو نون الف میں بدل جائے گا اور لنسفعاً لکھا پڑھا جائے گا۔۔۔۔ جیسے کہ عرب شاعر کا شعر ہے

وصلّ على حين العشيات والضحى ... ولا تحمد الشيطان والله فاحمدا

تو اس میں فاحمدا ہے جو کہ فاحمدن ہے مگر نون اگیا اور وقف ہے تو نون الف سے بدل گیا اور فاحمدا ہو گیا

(اعراب القرآن و بیانہ9/291)

۔ 

4⃣۔۔۔۔۔۔وعلى قوله: {وَلَيَكُونًا} بالألف؛ لأنها مخففة (3)، وهي شبيهة نون الإعراب في الأسماء، كقولك: رأيت رجلًا، فإذا وقفت قلت: رجلا، ومثله قوله: {لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ} (4) ونحوها الوقف عليها بالألف، كقول الأعشى (5):وصَلِ على حَيْن العَشِيَّاتِ والضَّحَى ... ولا تَعْبُدْ الشَّيْطَانَ والله فاعْبُدا۔۔۔۔أراد: فاعبدن، فلما وقف عليه كان الوقف بالألف

بے شک وَلَيَكُونًا قاعدے کے مطابق ہے گرامر کے مطابق ہے کیونکہ یہ اصل میں نون تھا اور نون الف سے بدل جاتا ہے جیسے اپ رأيت رجلًا(رجلن) کو رجلا کہتے ہیں۔۔۔۔ اسی طرح

لَنَسْفَعًا میں بھی نون الف سے بدل گیا ہے اس کو عربی قاعدے کے مطابق لَنَسْفَعًا اور لنسفعَن لکھ اور پڑھ سکتے ہیں جیسے کہ عربی کا شعر ہےوصَلِ على حَيْن العَشِيَّاتِ والضَّحَى ... ولا تَعْبُدْ الشَّيْطَانَ والله فاعْبُدا اس میں فاعبدا جو الف نظر ارہا ہے وہ دراصل نون تھا یعنی فاعبدن.... یعنی نون الف سے بدل جانا اور الف قانون سے بدل جانا عربی گرامر کے قاعدوں میں سے ایک قاعدہ ہے

(تفسیر ثعلبی14/603)

۔ 

5⃣۔۔۔۔۔ويكتب النون الخفيفة كتنوين المنصوب على صورة الالف

نون کو بدل کر الف سے لکھا جاتا ہے (جیسے لنسفعاً "وليكونًا)

(تفسیر مظہری 10/308)

۔ 

6⃣۔۔۔۔۔وَلَيَكُوناً مِّن الصَّاغِرِينَ} فالوقف علهيا (وَلِيَكُونا) لان النون الخفيفة اذا انفتح ما قبلها فوقفت عليها جعلتها الفا ساكنة بمنزلة قولك "رَأَيْتُ زيدا" ومثله {لَنَسْفَعاً بِالنَّاصِيَةِ} الوقف عليها "لَنَسْفَعا

گرامر کی قواعد میں سے ہے نون الف سے بدل جاتا ہے جیسے اپ رایت زیدا میں وقف کریں تو گویا رایت زیدن زیدا ہوگیا اسی طرح لَنَسْفَعا میں نون الف سے بدل گیا ہے

(معانی القرآن لاخفش1/397)

۔ 

7⃣۔۔۔۔وقرئ لنَسْفَعَنَّ بنون مشددة۔۔۔۔۔، وكتابته في المصحف بالألف على حكم الوقف

لنَسْفَعَنَّ بھی پڑھا گیا ہے مگر معتبر روایت وہی ہے جس میں الف سے لکھا گیا ہے پڑھا گیا ہے کیونکہ قاعدہ ہے کہ وقف کی صورت میں نون الف میں بدل جاتا ہے تولنَسْفَعَنَّ کا اخری نون الف میں بدل کرلَنَسْفَعًا ہو گیا ہے

(تفسیر بیضاوی5/326)

۔ 

8⃣۔۔۔۔۔۔۔وقد كتب لَنَسْفَعاً في المصحف بالألف على حكم الوقف لأن النون الخفيفة المؤكدة يوقف عليها بالألف،

لنَسْفَعَنَّ کو قران مجید میں لَنَسْفَعاً لکھا گیا ہے پڑھا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ گرائمر کا قانون ہے کہ وقف کی صورت میں نون خفیفہ موکدہ الف سے بدل جاتا ہے تولنَسْفَعَنَّ کا اخری نون الف سے بدل کرلَنَسْفَعاً ہو گیا

(تفسیر غرائب القرآن6/533)

۔

9⃣۔۔۔۔۔وَعَلَى قَوْلِهِ: وَلَيَكُوناً بِالْأَلْفِ لِأَنَّهَا مُخَفَّفَةٌ، وَهِيَ شَبِيهَةٌ بِنُونِ [2] الْإِعْرَابِ فِي الْأَسْمَاءِ كَقَوْلِهِ رَأَيْتُ رَجُلًا، وَإِذَا وَقَفْتَ [قَلْتَ] [3] : رَأَيْتُ رَجُلَا بِالْأَلْفِ، وَمِثْلُهُ: لَنَسْفَعاً بِالنَّاصِيَة

گرائمر کے حساب سے اگر اپ کہتے ہیں رَأَيْتُ رَجُلًا تو گویا یہ رایت رجلن ہے جب اپ وقف کریں گے تو نون کو الف سے بدل دیں گے اور پڑھیں گے رایت رجلا یعنی اخر میں الف ائے گا تنوین نہیں ائے گی اسی طرح قاعدے کے مطابق لَنَسْفَعاً میں الف نون کی جگہ ایا ہے

(تفسیر بغوی2/490)

۔ 

🔟۔۔۔۔۔۔۔قوله: {وَلَيَكُوناً} قرأ العامة يتخفيف نون «وليَكُوناً» ، ويقفون عليها بالألف؛ إجراءً لها مجرى التنوين، ولذلك يحذفونها بعد ضمةٍ، أو كسرةٍ، نحو: هل تقومون؛ وهل تقومين؟ في: هل تقومن؟ والنونُ الموجودة في الوقف، نونُ الرفع، رجعوا بها عند عدم ما يقتضي حذفها، وقد تقرر فيما تقدَّم أنَّ نون التوكيدِ تثقَّلن وتخفف، والوقفُ على قوله: «ليُسْجَنَنَّ» بالنُّونِ؛ لأنَّها مشددةٌ، على قوله: «وليَكُوناً» بالألف؛ لأنها مخففةٌ، وهي شبيهةٌ بنون الإعراب في الأسماءْ؛ كقولك: رأيتُ رجلاً، وإذا وقفت قلت: رجلا، بالألف، ومثله:{لَنَسْفَعاً

خلاصہ:

گرائمر کا قاعدہ ہے کہ نون ا جائے تو وقف کی حالت میں وہ الف سے بدل جاتا ہے جیسےرأيتُ رجلاً (رجلن) کو اپ اگر وقف کی حالت میں پڑھیں گے تو نون گرا کر الف پڑھیں گے اسی طرح لَنَسْفَعاً میں نون الف سے بدل گیا ہے یہ عربی قائدے کے مطابق ہے

(تفسیر اللباب فی علوم الکتاب11/94)

.

*#اب ہم اب چار یار کی نسبت سے عربی گرامر کی چار مشہور کتب سے مذکورہ بالا قاعدہ لکھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ !!*

۔ 

1⃣التَّاسِع أَن تكون بَدَلا من نون سَاكِنة وَهِي إِمَّا نون التوكيد أَو تَنْوِين الْمَنْصُوب فَالْأول نَحْو {لنسفعا} وليكونا وَقَوله... وَلَا تعبد الشَّيْطَان وَالله فاعبدا

نواں قاعدہ یہ ہے کہ نون الف سے بدل جاتا ہے جیسے قران مجید میں لنسفعاً(لنسفعن تھا)  اور قران مجید میں وليكوناً (لیکونن تھا) تو ان دونوں صورتوں میں نون الف سے بدل گیا

(مغنی اللبیب ص486)

۔ 

2⃣ذا وقفتَ على النُّون الْخَفِيفَة المفتوح مَا قبلهَا أبدلت مِنْهَا ألفا كَقَوْلِه تَعَالَى {لنسفعا

ایک قاعدہ ہے کہ نون خفیفہ کا ما قبل مفتوح تو وہ الف سے بدل جاتا ہے جیسے قران مجید میں لنسفعاً( لنسفعن تھا) تو نون الف سے بدل گیا اور لنسفعاً ہو گیا

(اللباب فی علل2/71)

۔ 

3⃣فإنْ وَقَعَتْ بعد فتحة قُلِبَتْ ألفاً نحو: {لَنَسْفَعَاً} (الآية "5" من سورة العلق "96") و {لَيَكُوناً} (الآية "32" من سورة يوسف "12")وقول الأعشى:وإيّاكَ والمِيْتَاتِ لا تَقْرَبَنَّها ... ولا تَعْبُدِ الشيطانَ واللهَ فاعبُدَا والأصلُ فيهن: لَنَسْفَعَنْ.

وليكُونَنْ، فاعْبُدَنْ.

قاعدہ ہے کہ نون فتح کے بعد واقع ہو تو وہ الف میں بدل جائے گا جیسے قران مجید میں لَنَسْفَعَاً( لنسفعن تھا) اور قران مجید میں لَيَكُوناً (لیکونن)تھا تو الف سے بدل کر لَنَسْفَعَاً اور لَيَكُوناً ہوگیا جیسے شاعر نے شعر میں کہا تھا فاعبُدَا جو کہ اصل میں فاعبدن ہے لیکن ان بدل کر الف ہو گیا

(معجم قواعد العربیہ2/246)

۔ 

4⃣وإذا وقفت على المؤكد بالنون الخفيفة (1) أبدلتها ألفا إن وليت (2) فتحة كقولك في قوله تعالى: {لَنَسْفَعَنْ} (3): "لنسفعا". وكقولي:. . . . . . . . . . . … في "قفن" "قفا"

وكقول النابغة الجعدي: فمن يك لم يثأر لأعراض قومه … فإني ورب الراقصات لأثأرا

نون سے پہلے جب فتح ہو تو وہ الف میں بدل جاتا ہے جیسے کہ ایت میں ہےلنسفعا(لنسفعن تھا) نون بدل کر الف بن گیا تو لنسفعا ہوگیا جیسے کہ شاعر کی قول میں لأثأرا اصل میں لاثارن تھا نون الف سے بدل گیا تو لأثأرا ہوگیا

(کافیہ مع شرح شافیہ3/1419)

۔ 

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03136325125

آپ میرا نام و نمبر مٹا کر بلانام یا ناشر یا پیشکش لکھ کر اپنا نام ڈال کے آگے فاروڈ کرسکتے ہیں،کاپی پیسٹ کرسکتے ہیں،شئیر کرسکتے ہیں...نمبر اس لیے لکھتاہوں تاکہ تحقیق رد یا اعتراض کرنے والے یا مزید سمجھنے والےآپ سے الجھنے کےبجائے ڈائریکٹ مجھ سے کال یا وتس اپ پے رابطہ کرسکیں...بہتر تو یہ ہے کہ آپ تحریرات اپنے فیس بک اور وتس اپ گروپ پے کاپی پیسٹ کیا کریں،شیئر کریں

اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنی تحریرات اپ کے وتس اپ گروپ یا فیس گروپ پےبھیجا کروں تو آپ مجھے ایڈ کردیں اور ایڈمین بنا دیں..جزاکم اللہ، شکریہ

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.