Labels

یسین سابق منہاجی کی گستاخی کا علمی رد اور قران اور حدیث سے سیدنا معاویہ کی شان



 *#یسین سابق منہاجی رافضی کو فالفور گرفتار کرکے تشریف لال کی جائے اور شرعی سزا دی جائے اور حکومت عدلیہ اس پر پابندی لگائے کہ یہ کہیں بیان تقریر نہیں کر سکتا تحریر تصنیف نہیں کر سکتا کیونکہ اس نے صرف ایک نہیں بلکہ فتح مکہ کے بعد والے جنتی صحابہ کرام کو طلاق یافتہ کہہ کر گستاخی کی ہے۔۔۔۔۔!!*

.

تمھید:

یسین رافضی کہتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد والے جن کے تم عرس مناتے ہو وہ صحابی نہیں طلقاء ہیں طلاق یافتہ ہیں، طلقاءطلیق طلاق سے بنا ہے

۔ 

*#جواب و تحقیق۔۔۔۔۔۔!!*

جاہل اجہل کہیں کے۔۔۔۔ طلقاء طلقاء کی رٹ لگائے بیٹھا ہے اور اس کا معنی کر رہا ہے کہ طلاق یافتہ یعنی نعوذ باللہ صحابہ کرام جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے وہ طلاق یافتہ ہیں یعنی تیرے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے کوئی واسطہ تعلق نہیں کیونکہ طلاق یافتہ سے تو تعلقات ختم ہو جاتے ہیں بلکہ حرام ہو جاتے ہیں تو کیا تمہارے مطابق ان صحابہ کرام سے تعلقات، ان کی تعریف ،ان کی مدح سرائی انہیں قبول کرنا سب کچھ حرام ہے۔۔۔۔۔۔؟؟

۔ 

ابے جاہل یہ پڑھ

طلاق طلیق طلق طلقاء طلاقۃ۔۔۔۔۔۔ ان سب کا ایک معنی کرنا کہ جسے کوئی تعلق نہ ہو جس کو طلاق دے دی گئی ہو جس سے تعلقات ختم کر دیے گئے ہوں بہت بڑی گستاخی بہت بڑا جرم ہے بہت بڑی جہالت ہے

۔ 

کیونکہ حدیث پاک طلق اور طلیق  لفظ اچھائی و نیکی کے معنی میں بھی ائے ہیں

الحدیث:

لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا، وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلْق

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی بھی نیکی کو کمتر نہ سمجھو حتی کہ (یہ بھی نیکی ہے کہ) اپ اپنے مسلمان بھائی سے خندہ پیشانی سے ملیں

(مسلم حدیث2626)

۔ 

الحدیث:

مِنَ الصَّدقَةِ أنْ تُسلِّم على الناسِ وأَنْتَ طَليقُ الوَجْهِ"

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ بھی صدقہ ہے کہ اپ سلام کریں خندہ پیشانی کے ساتھ

(صحیح ترغیب ترہیب حدیث2683)

جاہل اجہل گستاخ

کر ابھی معنی طلق طلیق مطلب طلاق یافتہ۔۔۔۔۔ کیا نعوذ باللہ رسول کریم یہ حکم دے رہے ہیں کہ طلاق دینا نیکی ہے اور بھائی سے ایسے ملو جیسے طلاق یافتہ ہے۔۔۔۔۔ شرم کر کچھ شرم ۔۔۔۔۔!!

۔ 

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فتح مکہ کے دن بے شک یہ فرمایا کہ تم طلقاء ہو۔۔۔۔ لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ تم طلاق یافتہ کی طرح ناپسند بے تعلق ہو مجھے۔ ۔۔۔۔۔۔ یہ معنی بالکل نہیں کہ گویا رسول کریم نے فرمایا ہو جاؤ تم لوگوں کو میں نے طلاق دے دی ہے کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کریمانہ اخلاق معاف کر دینے کے موقع پر یہ فرمائیں گے کہ معاف کر دیا لیکن طلاق ہے تم لوگوں کو۔۔۔۔۔۔۔؟؟ بلکہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ سے یہی جھلکتا ہے کہ گویا اپ فرما رہے ہوں اہل مکہ آپ لوگوں نے مجھے تکالیف دیں لیکن کیا یاد رکھو گے ،جاؤ اپ لوگ ازاد ہو، ہشاش بشاش خندہ پیشانی والے بن کے جاؤ ازاد ہو ۔۔۔۔جاؤ تمہیں معاف کیا لیکن تم میں سے معافی کے بعد جو ایمان لے ایا اسے میں نے سینے سے لگا لیا اسے جنت کی بشارت ہے

.

الحدیث:

وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةُ آلَافٍ وَمِنَ الطُّلَقَاءِ

جہاد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام کی بہت بڑی تعداد تھی 10 ہزار کے قریب تھے جس میں طلقاء صحابہ کرام بھی تھے

( بخاری حدیث4337)

دیکھ اے جلے بھنے گستاخ دیکھ طلقاء صحابہ کرام کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لیا ۔۔۔قبول فرما لیا۔۔۔گویا ایک طرح سے سینے سے لگا لیا۔۔۔ان پر اعتماد فرمایا۔۔۔انہیں جہاد میں ساتھ لے گئے اور تو کہتا ہے کہ انہیں طلاق  ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟ شرم کر شرم۔۔۔بے شرم بے حیاء۔۔۔۔ اللہ تجھے عشق و محبت ایمان ادب و غیرت نصیب کرے

۔ 

من الطلقاء استعمله النبي صلى الله عليه وسلم على صدقات بني المصطلق

ایک صحابی جو طلقاء میں سے تھے ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مصطلق کے صدقات جمع کرنے کا عہدہ عطا فرمایا

(الکاشف للذھبی2/353)

دیکھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طلقاء صحابی پر اعتماد فرما رہے ہیں۔۔۔انہیں عہدہ دے رہے ہیں ۔۔۔انہیں ایک طرح سے سینے سے لگا رہے ہیں ۔۔۔۔ اپنا بنا رہے ہیں۔۔۔۔ایک طرح سے اس معاملے میں اپنا نائب قرار رہے ہیں اور تو کہتا ہے کہ طلقاء مطلب طلاق یافتہ۔۔۔۔۔ شرم کر شرم بے شرم۔۔۔۔۔۔۔ !!

.

مُعَاوِيَةَ "، وَكَانَ كَاتِبَهُ

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے کاتب رہے

(مسند احمد تحت حدیث2651)

ارے جاہل اجہل گستاخ جلے بھنے رافضی نیم رافضی دیکھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا اعتماد فرمایا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر جس کو طلاق دے دی گئی ہو جس کو چھوڑ دیا گیا ہو کیا اسے اپنا کاتب خاص عہدے و ذمہ داری والا رکھا جاتا ہے۔۔۔۔۔؟؟ شرم کر شرم۔۔۔۔ڈوب مر



*سیدنا معاویہ صحابی ہیں، چند حوالے ملاحظہ کیجیے...!!*

دَعَوْنَا مِنْ مُعَاوِيَةَ فَإِنَّهُ قَدْ صَحِبَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں سیدنا معاویہ کے متعلق نازیبا بات نہ کرو وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں

(المعجم الكبير للطبراني11/124)

(الشريعة للآجري5/2459نحوه)

(مشكاة المصابيح1/399نحوہ)

۔

ابے رافضی تیری مانیں یا صحابی سیدنا ابن عباس کی مانیں۔۔۔۔۔۔؟؟ صحابی سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو تو بھی مانتا ہے تو یہاں بھی ان کی مان۔۔۔۔صحابی سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ تو فرما رہے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ صحابی ہیں ساتھی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور تو کہتا ہے کہ طلاق یافتہ ہیں۔۔۔

۔

الحدیث:

لَا تَسُبُّوا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِي ؛ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے کسی بھی ایک بھی صحابی کو برا نہ کہو ان کی تو اتنی شان ہے کہ وہ ایک مد خرچ کریں اور تم احد پہاڑ جتنا سونا خرچ کرو تو بھی ان کو نہیں پہنچ سکتے

(صحیح مسلم حدیث2541)

.

قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: أَيُّهُمَا أَفْضَلُ: مُعَاوِيَةُ أَوْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ؟ فَقَالَ: «مُعَاوِيَةُ أَفْضَلُ، لَسْنَا نَقِيسُ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا» . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِيَ الَّذِينَ بُعِثْتُ فِيهِمْ

 امام احمد بن حنبل سے سوال کیا گیا کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز، امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں... ہم کسی غیر صحابی(حتی کہ عظیم الشان تابعی وغیرہ جیسے عمر بن عبدالعزیز)کو(سیدنا معاویہ وغیرہ)کسی صحابی کے برابر نہیں کرسکتے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے افضل ترین وہ لوگ(صحابہ) ہیں کہ جن میں میں ظاہری حیات رہا

(السنة لأبي بكر بن الخلال2/434)

ثابت ہوا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فضیلت والے صحابی ہیں، غیر صحابی بڑے بڑے متقی پرہیزگار صوفیاء اولیاء علماء سیدنا معاویہ کے برابر نہیں ہوسکتے

.

سَأَلْتُ أَبَا أُسَامَةَ أَيُّمَا كَانَ أَفْضَلَ مُعَاوِيَةُ أَوْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ؟ فَقَالَ: لَا نَعْدِلُ بِأَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا

 ابو اسامہ سے سوال کیا کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز، آپ نے فرمایا کہ ہم کسی غیر صحابی(حتی کہ عظیم الشان تابعی وغیرہ جیسے عمر بن عبدالعزیز)کو(سیدنا معاویہ وغیرہ)کسی صحابی کے برابر نہیں کرسکتے

(جامع بيان العلم وفضله2/1173)

ثابت ہوا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فضیلت والے صحابی ہیں، غیر صحابی بڑے بڑے متقی پرہیزگار صوفیاء اولیاء علماء سیدنا معاویہ کے برابر نہیں ہوسکتے

.

وَقَالَ رَجُلٌ لِلْمُعَافَى بْنِ عِمْرَانَ: أَيْنَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنْ مُعَاوِيَةَ ؟! .. فَغَضِبَ وَقَالَ: لَا يُقَاسُ بِأَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ

 ایک شخص نے المعافی سے پوچھا کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز کا مرتبہ سیدنا معاویہ کے معاملے میں کتنا ہے...؟؟ آپ غضبناک ہو گئے اور فرمایا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی صحابی(سیدنا معاویہ وغیرہ) کے برابر کوئی نہیں ہو سکتا

(الشفا بتعريف حقوق المصطفى2/123)

ثابت ہوا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فضیلت والے صحابی ہیں، غیر صحابی بڑے بڑے متقی پرہیزگار صوفیاء اولیاء علماء سیدنا معاویہ کے برابر نہیں ہوسکتے

.

معاوية بن أبى سفيان الصحابى ابن الصحابى

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنھما صحابی ہیں اور آپ کے والد بھی صحابی ہیں

(تهذيب الأسماء واللغات2/101)



.

معاوية بن أبى سفيان صخر بن حرب بن أمية الأموى: أبو عبد الرحمن الخليفة، صحابى

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اموی خلیفہ اور صحابی ہیں(مغاني الأخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار3/555)

.

مُعَاوِيَةَ وَيَقُولُ: كَانَ مِنَ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ

سیدنا فضیل فرماتے ہیں سیدنا معاویہ اصحاب محمد کے علماء صحابیوں میں سے ہیں

(السنة لأبي بكر بن الخلال2/438)

.

مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ) : وَهُمَا صَحَابِيَّانِ

 سیدنا معاویہ صحابی ہیں اور سیدنا ابو سفیان بھی صحابی ہیں

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح1/364)

.

 علامہ ابن صلاح فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل و دیندار ہیں( فاسق و فاجر دنیادار ظالم منافق نہیں) وہ صحابہ کرام بھی عادل و دیندار ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے(جیسے سیدنا معاویہ وغیرہ) اس پر معتدبہ علماء کا اجماع ہے..خطیب بغدادی فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل و دیندار ہیں(فاسق و فاجر ظالم دنیادار منافق نہیں)صحابہ کرام کی تعدیل اللہ نے فرمائی ہے اور اللہ نے ان کی پاکیزگی کی خبر دی ہے 

(امام ابن حجر عسقلانی.. الإصابة في تمييز الصحابة، 1/22)

ثابت ہوا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ جو جنگوں میں پڑے وہ سب کے سب نیک عادل صحابی ہیں اس پر تمام معتبر علماء کا اجماع ہے اور یہ نظریہ  قرآن و حدیث سے ثابت ہے

.

وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ مِنَ الْعُدُولِ الْفُضَلَاءِ وَالصَّحَابَةِ النُّجَبَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَمَّا الْحُرُوبُ الَّتِي جَرَتْ فَكَانَتْ لِكُلِّ طَائِفَةٍ شُبْهَةٌ اعْتَقَدَتْ تَصْوِيبَ أَنْفُسِهَا بِسَبَبِهَا وَكُلُّهُمْ عُدُولٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَمُتَأَوِّلُونَ فِي حُرُوبِهِمْ وَغَيْرِهَا وَلَمْ يُخْرِجْ شئ مِنْ ذَلِكَ أَحَدًا مِنْهُمْ عَنِ الْعَدَالَةِ لِأَنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ اخْتَلَفُوا فِي مَسَائِلَ مِنْ مَحَلِّ الِاجْتِهَادِ كَمَا يَخْتَلِفُ الْمُجْتَهِدُونَ بَعْدَهُمْ فِي مَسَائِلَ مِنَ الدِّمَاءِ وَغَيْرِهَا وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ نَقْصُ أَحَدٍ مِنْهُمْ

سیدنا معاویہ عادل و دیندار فضیلت والے نجباء صحابہ میں سے ہیں باقی جو ان میں جنگ ہوئی تو ان میں سے ہر ایک کے پاس شبہات تھے اجتہاد جس کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی عادل ہونے کی صفت سے باہر نہیں نکلتا اور ان میں کوئی نقص و عیب نہیں بنتا

(امام نووي ,شرح النووي على مسلم ,15/149)

.

*#اگر سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو طلقاء مان بھی لیا جائے تو طلقاء کہنے سے صحابیت کی نفی نہیں ہوتی جیسے مہاجر و انصار کہنے سے صحابیت کی نفی نہیں ہوتی......!!*

.

أنه صحابي من الطلقاء

 بے شک وہ صحابی ہیں طلقاء میں سے ہیں

(التنوير شرح الجامع الصغير5/194)

.

الصَّحَابِيُّ، مِنَ الطُّلَقَاءِ

وہ صحابی ہیں طلقاء میں سے ہیں

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة2/543)

.

ذكره ابن سعد، والطّبريّ: وابن شاهين في الصحابة، وكان من الطلقاء

  امام ابن سعد اور امام طبری اور امام ابن شاہین نے انہیں صحابہ میں شمار کیا اور وہ طلقاء میں سے تھے

(الإصابة في تمييز الصحابة4/301)

.

أَبُوْهُ مِنَ الطُّلَقَاءِ، وَمِمَّنْ حَسُنَ إِسْلاَمُهُ

 ان کے والد طلقاء میں سے تھے اور ان کا اسلام لانا اچھا ہو گیا تھا

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة3/484)

.

معاوية) بنُ أبي سفيانَ خالُ المؤمنين وأميرُهم، الأمويُّ -بضم الهمزة- الصّحابيُّ بنُ الصحابيِّ، كان من مُسلمة الفتح، ومن المؤلَّفة قلوبهم، ثمَّ حَسُنَ إسلامه كأبيه وأمه هند بنت عتبة

یعنی

 سیدنا معاویہ ماموں ہیں مومنین کے اور مومنوں کے امیر ہیں،صحابی ہیں، صحابی کے بیٹے ہیں،فتح مکہ کے دن ایمان ظاہر کیا،پہلے پہل مولفۃ القلوب میں سے تھے پھر اسلام لانا انکا اچھا ہوگیا، اسلام پر اچھائی و پابندی کے ساتھ رہے جیسے کہ انکا والد ابوسفیان اور انکی والدہ ھندہ(کا اسلام اچھا ہوگیا تھا،اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے)

(كشف اللثام شرح عمدة الأحكام3/472)

.

 سیدنا ابو سفیان سیدنا معاویہ سیدنا حکیم سیدنا حارث سیدنا صفوان سیدنا سہیل سیدنا حویطب سیدنا علاء سیدنا عیینہ سیدنا اقرع سیدنا مالک بن عوف سیدنا عباس بن مرداس سیدنا قیس سیدنا جبیر

یہ سب پہلے پہل مولفۃ القلوب میں سے تھے پھر اسلام لانا انکا اچھا ہوگیا، اسلام پر اچھائی پابندی کے ساتھ رہے 

(كتاب المعارف1/342)

.

ابْنُ عَمِّ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الطُّلَقَاءِ الَّذِيْنَ حَسُنَ إِسْلاَمُهُم..

 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے طلقاء میں سے تھے پھر ان کا اسلام اچھا ہوگیا،اسلام پر اچھائی پابندی کے ساتھ رہے

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة3/95)

.

أسلم هو وأبوه يوم فتح مكة، وشهد حُنينًا وكان من المؤلفة قلوبهم، ثم حسن إسلامه

سیدنا معاویہ اور انکے والد سیدنا ابو سفیان فتح مکہ کے دن ایمان لائے جہاد حنین (وغیرہ) میں شریک ہوئے، پہلے پہل مولفۃ القلوب تھے پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے

(تاريخ الخلفاء سيوطي ص148)

.

ومعاوية بن أبي سفيان ثمّ حسن إسلامه

سیدنا معاویہ پہلے پہل مولفۃ القلوب تھے پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے

(درج الدرر في تفسير الآي والسور ط الفكر1/777)

.

، وكان هو وأبوه من المؤلَّفة قلوبهم، ثم حَسُنَ إسلامُهما

سیدنا معاویہ اور انکے والد ابو سفیان پہلے پہل مولفۃ القلوب تھے پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے

(التاريخ المعتبر في أنباء من غبر1/286)

.

العلماء متفقون على حسن إسلامه

علماء متفق ہیں کہ سیدنا معاویہ کا اسلام لانا اچھا ہوگیا تھا،اسلام پر اچھائی سے رہے

(الإصابة في الذب عن الصحابة  ص220)

.

أبو سفيان بن حرب» ، و «معاوية» ابنه، ثم حسن إسلامهما

سیدنا معاویہ اور انکے والد سیدنا ابو سفیان فتح مکہ کے دن ایمان لائے(پہلے پہل مولفۃ القلوب میں سے تھے) پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے

(المعارف ابن قتيبة 1/342)

.

.

*#طلقاء کا شیعہ روافض نیم روافض نے غلط معنی بیان کیا کہ طلقاء زبردستی مسلمان ہوتے ہیں اور صحابی نہیں ہوتے...طلقاء سے مراد کیا ہے، چند عبارات پیش ہیں،انصاف سے پڑہیے......!!*

.

(الطلقاء) جمع طليق: وهم أهل مكة الذين عفا عنهم رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم فتح مكة، فقال لهم: «اذهبوا فأنتم الطلقاء»

طلقاء ان اہل مکہ کو کہتے ہیں کہ جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن معاف کر دیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم آزاد ہو(چاہو تو ایمان لاؤ ، چاہو تو دنیا و آخرت کی بربادی پے ڈٹے رہو، کہ ہمارا کام سمجھانا ہے، زبردستی مسلمان کرنا نہیں)

(جامع الأصول2/319)

.

(الطلقاء) أهل مكة؛ لأنه -صلى الله عليه وسلم- منَّ عليهم، وأطلقهم يوم فتح مكة 

طلقاء وہ اہل مکہ ہیں کہ جن پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کرتے ہوئے انہیں فتح مکہ کے دن آزاد کر دیا تھا(کہ چاہو تو ایمان لاؤ ، چاہو تو دنیا و آخرت کی بربادی پے ڈٹے رہو، کہ ہمارا کام سمجھانا ہے، زبردستی مسلمان کرنا نہیں)

(المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم3/684)

.

اذْهَبُوا، فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ. فَعَفَا عَنْهُمْ، وَكَانَ اللَّهُ قَدْ أَمْكَنَهُ مِنْهُمْ، وَكَانُوا لَهُ فَيْئًا، فَلِذَلِكَ سُمِّيَ أَهْلُ مَكَّةَ الطُّلَقَاءَ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جاؤ تم آزاد ہو(چاہو تو ایمان لاؤ ، چاہو تو دنیا و آخرت کی بربادی پے ڈٹے رہو کہ ہمارا کام سمجھانا ہے، زبردستی مسلمان کرنا نہیں) رسول کریم نے انہیں معاف کر دیا، لہذا ان اہل مکہ کو طلقاء کہتے ہیں

(الكامل في التاريخ - ت تدمري2/125)

.

الطُلَقاءُ وهُم الَّذين خلّى عَنْهُم يومَ فتْحِ مكّة، وأطلقھم

طلقاء انکو کہتے ہیں کہ جن کو فتح مکہ کے دن رسول کریم نے آزاد کر دیا تھا اور ان کا راستہ چھوڑ دیا تھا(کہ چاہیں تو ایمان لائیں ، چاہیں تو دنیا و آخرت کی بربادی پے ڈٹے رہیں کہ ہمارا کام سمجھانا ہے زبردستی مسلمان کرنا نہیں)

(تاج العروس26/120)

.

الطلقاء، يعني: الذين خلى عنهم يوم فتح مكة وأطلقهم

طلقاء انکو کہتے ہیں کہ جن کو فتح مکہ کے دن رسول کریم نے آزاد کر دیا تھا اور ان کا راستہ چھوڑ دیا تھا(کہ چاہیں تو ایمان لائیں ، چاہیں تو دنیا و آخرت کی بربادی پے ڈٹے رہیں کہ ہمارا کام سمجھانا ہے زبردستی مسلمان کرنا نہیں)

(شرح الزرقاني على المواهب اللدنية3/498)

.

الطُّلَقَاءُ) هُوَ بِضَمِّ الطَّاءِ وَفَتْحِ اللَّامِ وَبِالْمَدِّ وَهُمُ الَّذِينَ أَسْلَمُوا يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ وَهُوَ جَمْعُ طَلِيقٍ يُقَالُ ذَاكَ لِمَنْ أُطْلِقَ مِنْ إِسَارٍ أَوْ وَثَاقٍ قَالَ الْقَاضِي فِي الْمَشَارِقِ قِيلَ لِمُسْلِمِي الْفَتْحِ الطُّلَقَاءُ لِمَنِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ

طلقاء وہ کہ جو فتح مکہ کے دن ایمان لے آئے ، ان کو اس لئے طلقاء کہا جاتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر خصوصی احسان کیا

(شرح النووي على مسلم7/153)

.

القرآن:

لَا یَسۡتَوِیۡ  مِنۡکُمۡ مَّنۡ  اَنۡفَقَ مِنۡ قَبۡلِ الۡفَتۡحِ وَ قٰتَلَ ؕ اُولٰٓئِکَ  اَعۡظَمُ  دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ  بَعۡدُ وَ قٰتَلُوۡا ؕ وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ  الۡحُسۡنٰی

 تم میں سے جس نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا اور جہاد کیا ان کا درجہ ان لوگوں سے زیادہ ہے کہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور جہاد کیا لیکن سارے صحابہ سے اللہ تعالی نے اچھا وعدہ یعنی جنت کا وعدہ کیا ہے

(سورہ الحدید آیت10)

.

آیت کی تفسیر ملاحظہ کیجیے کہ سیدنا ابوبکر و عمر سیدنا علی و سیدنا معاویہ مہاجرین انصار اور ان کے بعد کے سارے صحابہ کرام جنتی ہیں...ہر صحابی نبی جنتی جنتی

①*صحابی سیدنا ابن عباس کا عقیدہ:*

مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْح} فتح مَكَّة {وَقَاتل} الْعَدو مَعَ النبى صلى الله عَلَيْهِ وَسلم {أُولَئِكَ} أهل هَذِه الصّفة {أَعْظَمُ دَرَجَةً} فَضِيلَة ومنزلة عِنْد الله  بِالطَّاعَةِ وَالثَّوَاب {مِّنَ الَّذين أَنفَقُواْ مِن بَعْدُ} من بعد فتح مَكَّة {وَقَاتَلُواْ} الْعَدو فِي سَبِيل الله مَعَ النبى صلى الله عَلَيْهِ وَسلم {وكلا} كلا لفريقين  من أنْفق وَقَاتل من قبل الْفَتْح وَبعد الْفَتْح {وَعَدَ الله الْحسنى} الْجنَّة

یعنی 

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ سے پہلے جن صحابہ کرام نے خرچ کیا جہاد کیا اور فتح مکہ کے بعد جنہوں نے خرچ کیا جہاد کیا ان کے درجات میں اگرچہ تفاوت ہے لیکن سب صحابہ کرام سے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ کیا ہے 

(تنوير المقباس من تفسير ابن عباس ص457)

.

*②امام القرظی تابعی( وفات180ھجری تقریبا) کا عقیدہ:*

وقال محمد بن كعب القرظي: أوجب الله  لجميع الصحابة الجنة والرضوان

ترجمہ 

محمد بن كعب القرظي علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے تمام صحابہ کے لیے جنت اور رضامندی کو واجب کردیا ہے 

(أنموذج اللبيب في خصائص الحبيب1/236)

.

*③امام مقاتل وفات تقرہبا150ھجری کا عقیدہ:*

 لا يَسْتَوِي مِنْكُمْ فى  الفضل والسابقة مَنْ أَنْفَقَ مِنْ ماله قَبْلِ الْفَتْحِ فتح مكة «وَقاتَلَ» «1» العدو أُولئِكَ  أَعْظَمُ دَرَجَةً يعني جزاء مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ من بعد فتح مكة وَقاتَلُوا «2»  العدو وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنى يعني الجنة، يعني كلا الفريقين وعد الله الجنة

یعنی

جن صحابہ نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا قتال کیا اور جہاد کیا انکا درجہ زیادہ عظیم ہے ان صحابہ سے کہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا جہاد کیا لیکن سب صحابہ کے لئے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے  

(تفسير مقاتل بن سليمان4/239)

.

*④امام ابن وھب وفات تقریبا192ہجری کا عقیدہ:*

{لا يستوي منكم من أنفق من قبل الفتح}، قال: فتح مكة...فَالْحُسْنَى الْجَنَّةُ

یعنی

فتح مکہ سے پہلے جنہوں نے خرچ کیا وہ عظیم درجے والے ہیں ان کے برابر نہیں ہو سکتے وہ صحابہ کہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا لیکن سب صحابہ کے لئے جنت کا وعدہ ہے 

(تفسير القرآن من الجامع لابن وهب62 ,1/176)


.

*⑤امام سمرقندی وفات تقریبا 373ھجری کا عقیدہ:*

.من أنفق وقاتل مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ يعني: فتح  مكة...

وعد الله كلا الحسني يعني الجنة

یعنی

یہ آیت مبارکہ صحابہ کرام کے بارے میں نازل ہوئی کہ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا تھا جہاد کیا کہ یہ عظیم مرتبے والے ہیں ان کے مرتبے کو وہ صحابہ نہیں پہنچ سکتے کہ جو فتح مکہ کے بعد والے ہیں لیکن سب کے سب صحابہ کے لیے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے 

(تفسير السمرقندي = بحر العلوم3/403ملتقطا)

.

*⑥امام ابن ابی زمنین وفات399ھجری کاعقیدہ:*

لا یَسْتَوِي من أنْفق مِنْكُم من قبل الْفَتْح وَقَاتل، وَهُوَ فتح مَكَّة.

(أُوْلَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلاًّ وَعَدَ اللَّهُ لْحُسْنَى} يَعْنِي: الْجنَّة؛ من أنْفق وَقَاتل قبل فتح مَكَّة وَبعده

یعنی

تم صحابہ کرام میں سے جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ کیا اور جہاد کیا ان کا درجہ ان صحابہ کرام سے زیادہ ہے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور جہاد کیا لیکن سب صحابہ سے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے، چاہے فتح مکہ سے پہلے والے ہوں یا فتح مکہ کے بعد والے 

(تفسير القرآن العزيز لابن أبي زمنين4/349,350)

.

.

 ⑦يعني: فتح مكة {وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى} كلا الفريقين وعد الله الحسنى الجنة

یعنی

فتح مکہ سے پہلے والے اور فتح مکہ کے بعد والے سب صحابہ کرام سے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ کیا ہے 

(التفسير الوسيط4/246)


.

8۔۔۔وَالْجُمْهُورُ على أن المراد بالفتح هاهنا فَتْحُ مَكَّةَ،

جمہور اور اکثر علماء اس بات پے ہیں کہ یہاں فتح سے مراد فتح مکہ ہے 

(تفسير ابن كثير ط العلمية8/46)

۔

 9۔۔۔۔الْمُرَادُ بِهَذَا الْفَتْحِ فَتْحُ  مَكَّةَ،: أَيْ وَكُلَّ وَاحِدٍ مِنَ الْفَرِيقَيْنِ  وَعَدَ اللَّه بالحسنى أَيِ الْمَثُوبَةَ الْحُسْنَى، وَهِيَ الْجَنَّةُ

آیت میں فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور دونوں فریقین یعنی سب صحابہ کے لئے اللہ تعالی نے اچھا وعدہ یعنی جنت کا وعدہ کیا ہے 

(تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير29/453)

.

صحابی کی معتبر تعریف یہ ہے

الصَّحابيِّ مَنْ لَقِيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ [تَعالى] عليهِ [وآلهِ] وسلَّمَ ُمؤمِناً بهِ وماتَ عَلى الإِسلامِ

صحابی اس کو کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو یا ملاقات کی ہو اور اس کی وفات اسلام پر ہوئی ہو 

[نزهة النظر في توضيح نخبة الفكرpage 111]

.


مَنْ لَقِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْلِمًا وَمَاتَ عَلَى إِسْلَامِهِ.

صحابی وہ ہے جس نے اسلام کی حالت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو یا ملاقات کی ہو اور اسلام پر ہی وفات پائی ہو

[تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ,2/667]

.


لہذا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتد ہو گئے وہ صحابہ نہیں،صحابی تو ہوتا ہے کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھے یا ملاقات کرے اور حالت ایمان پر اس کی وفات ہو۔۔۔۔صحابہ کرام تمام کے تمام عدول و نیک اور جنتی ہیں ان میں کوئی بھی کافر مرتد گستاخ فاسق نہیں۔۔۔۔حتی کہ آپس میں جنگ کرنے والے صحابہ کرام مثلا سیدنا معاویہ سیدنا علی وغیرہ رضی اللہ عنھم اجمعین بھی فاسق نہیں۔۔۔صحابہ کرام کو عادل و نیک  ہم نے اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ قرآن کی آیات اور احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ صحابہ کرام عادل اور نیک تھے مرتد گستاخ و فاسق نہیں

۔

قَالَ الخَطِيْبُ البَغْدَادِيُّ رَحِمَهُ اللهُ بَعْدَ أنْ ذَكَرَ الأدِلَّةَ مِنْ كِتَابِ اللهِ، وسُنَّةِ رَسُوْلِ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -، الَّتِي دَلَّتْ على عَدَالَةِ الصَّحَابَةِ وأنَّهُم كُلُّهُم عُدُوْلٌ، قَالَ: «هَذَا مَذْهَبُ كَافَّةِ العُلَمَاءِ، ومَنْ يَعْتَدُّ بِقَوْلِهِم مِنَ الفُقَهَاءِ

خطیب بغدادی نے قرآن سے دلاءل ذکر کیے، رسول اللہ کی سنت سے دلائل ذکر کیے اور پھر فرمایا کہ ان سب دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام صحابہ کرام عادل ہیں(فاسق و فاجر ظالم گمراہ نہیں)اور یہی مذہب ہے تمام علماء کا اور یہی مذہب ہے معتدبہ فقہاء کا 

(الكفاية ص67)

.

أجمعت الأمة على وجوب الكف عن الكلام في الفتن التي حدثت بين الصحابة.

ونقول: كل الصحابة عدول، وكل منهم اجتهد، فمنهم من اجتهد فأصاب كـ علي فله أجران، ومنهم من اجتهد فأخطأ كـ معاوية فله أجر، فكل منهم مأجور، القاتل والمقتول، حتى الطائفة الباغية لها أجر واحد لا أجران، يعني: ليس فيهم مأزور بفضل الله سبحانه وتعالى.

امت کا اجماع ہے کہ صحابہ کرام میں جو فتنے جنگ ہوئی ان میں نہ پڑنا واجب ہے تمام صحابہ کرام عادل ہیں(فاسق و فاجر ظالم گمراہ نہیں)ان میں سے ہر ایک مجتہد ہے اور جو مجتہد حق کو پا لے جیسے کہ سیدنا علی تو اسے دو اجر ہیں اور جو مجتہد خطاء پر ہو جیسے سیدنا معاویہ تو اسے ایک اجر ملے گا لہذا سیدنا علی اور معاویہ کے قاتل مقتول سب جنتی ہیں حتیٰ کہ سیدنا معاویہ کا باغی گروہ بھی جنتی ہے اسے بھی ایک اجر ملے گایعنی تمام صحابہ میں سے کوئی بھی گناہ گار و فاسق نہیں اللہ کے فضل سے  

[شرح أصول اعتقاد أهل السنة للالكائي ١٣/٦٢]

.

قال حجة الإسلام الغزالي رحمه الله يحرم على الواعظ وغيره......وما جرى بين الصحابة من التشاجر والتخاصم فانه يهيج بغض الصحابة والطعن فيهم وهم اعلام الدين وما وقع بينهم من المنازعات فيحمل على محامل صحيحة فلعل ذالك لخطأ في الاجتهاد لا لطلب الرياسة او الدنيا كما لا يخفى وقال في شرح الترغيب والترهيب المسمى بفتح القريب والحذر ثم الحذر من التعرض لما شجر بين الصحابة فانهم كلهم عدول خير القرون مجتهدون مصيبهم له أجران ومخطئهم له أجر واحد

یعنی

حجة الاسلام امام غزالی نے فرمایا کہ صحابہ کرام کے درمیان جو مشاجرات ہوئےان کو بیان کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے خدشہ ہے کہ صحابہ کرام کے متعلق بغض بغض اور طعن پیدا ہو۔ ۔۔۔۔۔صحابہ کرام میں جو مشاجرات ہوئے ان کی اچھی تاویل کی جائے گی کہا جائے گا کہ ان سے اجتہادی خطا ہوئی انہیں حکومت و دنیا کی طلب نہ تھی

ترغیب وترہیب کی شرح میں ہے کہ

مشاجرات صحابہ میں پڑنے سے بچو بے شک تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)تمام صحابہ کرام خیرالقرون ہیں مجتہد ہیں مجتہد میں سے جو درستگی کو پہنچا اس کے لئے دو اجر اور جس نے خطا کی اس کے لیے ایک اجر 

[روح البيان، ٤٣٧/٩]

.

قال ابن الصّلاح: «ثم إن الأمة مجمعة على تعديل جميع الصّحابة ومن لابس الفتن منهم، فكذلك بإجماع العلماء الذين يعتدّ بهم في الإجماع قال الخطيب البغداديّ في الكفاية» مبوبا على عدالتهم: عدالة الصحابة ثابتة معلومة بتعديل اللَّه لهم، وإخباره عن طهارتهم واختياره لهم في نص القرآن

یعنی

محقق عظیم علامہ ابن صلاح فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 

وہ صحابہ کرام بھی عدل ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے اس پر معتدبہ علماء کا اجماع ہے

محقق عظیم واعظ اور علامہ خطیب بغدادی فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل ہیں(فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)صحابہ کرام کی تعدیل اللہ نے فرمائی ہے اور اللہ نے ان کی پاکیزگی کی خبر دی ہے 

[ابن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ٢٢/١]

۔

.

الصحابة كلهم عدول

تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 

[عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ١٧٨/١٠]


.


محبوب سبحانی سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:

واتفق أهل السنة على وجوب الكف عما شجر بينهم، والإمساك عن مساوئهم، وإظهار فضائلهم ومحاسنهم، 

ترجمہ:

اہلسنت کا اس پر اتفاق ہے کہ صحابہ کرام میں جو اختلافات و مشاجرات ہوئے، جو کچھ سیدنا علی و طلحہ و زبیر وعائشہ و معاویہ  رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین میں جو کچھ جاری ہوا اس میں ہم پر واجب ہے کہ ہم اپنی ربان کو لگام دیں اور ان کی مذمت و برائی سے رک جائیں، اور ان کے فضائل و اچھائیاں بیان کریں 

(غنیۃ الطالبین جلد1 ص161,163ملتقطا مع حذف یسیر)

.


وقد قال - صلى الله عليه وسلم: " «إذا ذكر أصحابي فأمسكوا» " أي: عن الطعن فيهم، فلا ينبغي لهم أن يذكروهم إلا بالثناء الجميل والدعاء الجزيل، وهذا مما لا ينافي أن يذكر أحد مجملا أو معينا بأن المحاربين مع علي ما كانوا من المخالفين، أو بأنمعاوية وحزبه كانوا باغين على ما دل عليه حديث عمار: " «تقتلك الفئةالباغية» " ; لأن المقصود منه بيان الحكم المميز بين الحق والباطل والفاصل بين المجتهد المصيب، والمجتهد المخطئ، مع توقير الصحابة وتعظيمهم جميعا في القلب لرضا الرب

ترجمہ:

اور بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ میرے صحابہ کا ذکر ہو تو رک جاؤ، یعنی لعن طعن سے رک جاؤ...تو ضروری ہے کہ انکا ذکر ایسے ہو کہ انکی مدح سرائی کی جائے اور دعاء جزیل دی جائے، لیکن اسکا یہ مطلب نہین کہ حضرت علی سے جنگ کرنے والوں کو یا سیدنا معاویہ اور انکے گروہ کو باغی نا کہا جائے(بلکہ مجتہد باغی کہا جائے گا یہ فضائل بیان کرنے کے منافی نہین کہ مجتہد باغی گناہ نہیں) کیونکہ حدیث عمار کہ اے عمار رضی اللہ عنہ تجھے باغی گروہ قتل کرے گا....کیونکہ (اجتہادی باغی خاطی کہنا مذمت کے لیے نہین بلکہ)اس لیے ہے کہ وہ حکم واضح کر دیا جائے جو حق و باطل میں تمییز کرے اور مجتہد مصیب اور مجتہد خطاء کار مین فیصلہ کرے، اس کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کی(فقط زبانی منافقانہ نہیں بلکہ) دلی تعظیم و توقیر ہو، اللہ کی رضا کی خاطر

(مرقاۃ تحت الحدیث3397ملتقط)

.##############

*#امام بخاری اور صحاح سے احادیث جن میں دو ٹوک سیدنا معاویہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے*

الحدیث:

أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ البَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا

میری امت کا پہلا گروہ کہ جو بحری جہاد کرے گا ان کے لئے جنت واجب ہے 

(صحيح البخاري,4/42حدیث2924)

(المعجم الكبير  للطبراني حدیث323)

(دلائل النبوة للبيهقي مخرجا 6/452)

(مستدرك للحاکم4/599حدیث8668)

۔

أَرَادَ بِهِ جَيش مُعَاوية،وَإِنَّمَا مَعْنَاهُ: أوجبوا اسْتِحْقَاق الْجنَّة

مذکورہ حدیث میں جنتی گروہ سے مراد سیدنا معاویہ کا گروہ ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ جنت کا مستحق ہونا واجب ہوگیا 

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري14/198ملتقطا)


.

أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ،

 سب سے پہلے مسلمانوں نے جو بحری جہاد کیا وہ معاویہ بن سفیان کے ساتھ کیا 

(سنن ابن ماجه ,2/927)

.

وَفِيهِ فَضْلٌ لِمُعَاوِيَةَ إِذْ جَعَلَ مَنْ غَزَا تَحْتَ رَايَتِهِ مِنَ الْأَوَّلِينَ

یعنی اس حدیث پاک سے معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اسی کے جھنڈے تلے مسلمانوں نےسب سے پہلے بحری جہاد کیا

(الاستذکار لابن عبد البر5/128)

.

*امام بخاری سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت و شان بیان کرتے ہیں*

سَمِعْتُ بْنَ مُنَبِّهٍ عَنِ ابْنِ عباس قال ما رأيت احدا اخلق للملك مِنْ مُعَاوِيَةَ

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کے میں نے(رسول کریم اور خلفاء راشدین وغیرہ مستحقین کے بعد) معاویہ سے بڑھ کر حکومت کے لیے بادشاہت کے لیے کسی کو عظیم مستحق ترین , لائق ترین اور عظیم  اخلاق والا  نہیں پایا 

(التاریخ الکبیر امام بخاری7/321)

.

امام بخاری سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت و شان بیان کرتے ہیں

النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِيَةَ الْحِسَابَ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یا اللہ معاویہ کو حساب کا علم عطا فرما

التاریخ الکبیر امام بخاری7/321)

.

امام بخاری سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت و شان بیان کرتے ہیں

سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِهِ وَاهْدِ بِهِ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ کے متعلق فرمایا یا اللہ اسے ہادی بنا مہدی بنا، اسے ہدایت دے اور اس کے ذریعے ہدایت دے

(التاریخ الکبیر امام بخاری7/321)

.

 امام بخاری نے صحیح بخاری میں فضائل معاویہ کا باب لکھنے کے بجائے ذکر معاویہ کا باب باندھا... جس سے کچھ لوگوں نے سمجھ لیا کہ سیدنا معاویہ کے بارے میں کوئی معتبر فضیلت ثابت نہیں ہے... امام بخاری کا اپنی دوسری کتاب میں صحیح یا حسن حدیث و روایات بیان کرنا اور اس سے شان امیر معاویہ بیان کرنا اس بات کی دلالت ہے کہ سیدنا معاویہ کی فضیلت ثابت ہے صحیح ترین نہ سہی مگر صحیح یا کم سے کم حسن معتبر حدیث موجود ہے.... دراصل امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں صحیح ترین احادیث کو جمع کیا ہے اور اس میں کیونکہ امام بخاری کے مطابق صحیح ترین دوٹوک حدیث پاک سیدنا معاویہ کی فضیلت میں نہیں تھی تو اس لیے فضائل معاویہ باب نہ لکھا... لیکن دوسری کتاب میں آپ نے صحیح بخاری کے مقابلے میں یہ شرط نہ رکھیں کہ صحیح ترین روایت ذکر کی جائے بلکہ دوسری کتاب میں صحیح روایت حسن روایات بھی لکھی ہیں تو اس لیے آپ نے شان معاویہ دوسری کتاب میں بیان کیا

.

یہی وجہ ہے کہ جن ائمہ محدثین نے اصح ترین حدیث لکھنا اپنے اوپر لازم نہ کیا بلکہ صحیح یا حسن یا ضعیف کو بھی لکھا کہ فضائل میں متفق طور پر یہ قبول ہیں تو انہوں نے فضائل معاویہ، مناقب معاویہ کے عنوان و ابواب لکھے

.

مثلا امام احمد بن حنبل کی کتاب میں باب فضائل معاویہ ہے

فَضَائِلُ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا

(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل2/913)

.

علامہ هبة اللہ طبری رازی نے فضائل معاویہ کا باب باندھا

سِيَاقُ مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي فَضَائِلِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة8/1524)

.

علامہ آجری نے کتاب فضائل معاویہ کا عنوان دیا

كِتَابُ فَضَائِلِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

(الشريعة للآجري5/2431)

.

علامہ ابن حجر عسقلانی نے فضل معاویہ باب لکھا

فَضْل مُعَاوِيَةَ رَضِيَ الله عَنْه

(المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية16/434)

.

امام ترمذی نے فضائل کے ہم نام لفظ یعنی مناقب علی اور "مناقب معاویہ"  کا باب لکھا

مَنَاقِبُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللہ عنہ...پھر لکھتے ہیں مَنَاقِبُ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

(دیکھیے ترمذی ابواب المناقب)

.

علامہ دھلوی فرماتے ہیں کہ مناقب کا معنی ہے شرف و فضائل

المناقب) جمع منقبة وهي الفضيلة والشرف

(لمعات شرح مشکاۃ9/557)

.

امام بخاری نے فضائل کا ہم نام یعنی مناقب فاطمہ لکھا...اگر مناقب کا معنی فضیلت نہین تو کیا امام بخاری کے مطابق خاتون جنت کی کوئی فضیلت نہیں....؟؟

بَابٌ : مَنَاقِبُ فَاطِمَةَ

(بخاری5/29)

.

مناقب معاوية

(غاية المقصد فى زوائد المسند4/52)

اور بھی بہت کتب ہیں جن کے نام فضائل معاویہ مناقب معاویہ ہیں...کتب میں ابواب و عنوان بےشمار ہیں کہ مناقب معاویہ فضائل معاویہ...ہم نے بطور تبرک چند پیش کییے،حق پسند کے لیے اتنا کافی ہے

۔ 

الحدیث:

لَا تَذْكُرُوا مُعَاوِيَةَ إِلَّا بِخَيْرٍ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ اهْدِ بِهِ»

حضرت معاویہ کا تذکرہ خیر کےساتھ ہی کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی وعلیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ! اسے(ہدایت یافتہ بنا کر اسے)ذریعہ ہدایت بنا۔

(سنن الترمذي ت شاكر ,5/687حدیث3843)

اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا رد نہیں ہوتی لہذا سیدنا معاویہ اور ان کا گروہ فاسق منافق نہ تھےہدایت یافتہ تھے اگرچہ اجتہادی خطا پر تھے کیونکہ اجتہادی خطا پر بھی ایک ثواب ملتا ہے 

.

الحدیث:

جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، اسْتَوْصِ مُعَاوِيَةَ ; فَإِنَّهُ أَمِينٌ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ، وَنِعْمَ الْأَمِينُ هُوَ

جناب جبریل رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے محمد! معاویہ سے خیر خواہی کرو کیونکہ وہ اللہ کی کتاب پر امین ہیں اور وہ کیا ہی اچھے امین ہیں۔

(الطبراني ,المعجم الأوسط ,4/175حدیث3902)

(جامع الأحاديث ,1/200حدیث321)

حضرت جبرائیل علیہ السلام کا حضرت معاویہ کو امین کہنا  اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا انکار نا فرمانا بلکہ سیدنا معاویہ کو کاتب رکھ لینا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ آمین ایماندار تھے فاسق منافق نہ تھے 

.

.

 أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا لِمُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ «اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ، وَالْحِسَابَ وَقِهِ الْعَذَابَ»

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت معاویہ بن سفیان کیلئے دعا فرمائی،اے اللہ اسے لکھنا اور حساب سکھا اور اسے عذاب سے محفوظ فرما۔

(السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/459 حدیث712)

(فضائل الصحابة لاحمد بن حنبل حدیث1749)۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اللہ تعالی سیدنا معاویہ کو عذاب سے بچائے اور نبی پاک کی دعا رد نہیں ہوتی لہذا سیدنا امیر معاویہ جنتی ہیں فاسق منافق نہیں, انہیں عذاب نہ ہوگا جب کہ فاسق منافق کو عذاب ہوتا ہے 

.

 «دَخَلَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ وَرَأْسُ مُعَاوِيَةَ فِي حِجْرِهَا وَهِيَ تُقَبِّلُهُ، فَقَالَ لَهَا: " أَتُحِبِّينَهُ؟ ". فَقَالَتْ: وَمَا لِي لَا أُحِبُّ أَخِي! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " فَإِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُحِبَّانِهِ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام حبیبہ کے پاس آئے اور سیدنا معاویہ کا سر مبارک سیدہ ام حبیبہ کے جھولی میں تھا اور سیدہ ام حبیبہ بوسہ دے رہی تھی کہ رسول کریم نے فرمایا کہ کیا تم معاویہ  سے اتنی محبت کرتی ہو؟ عرض کی کیوں نہ کروں؟میرے بھائی ہیں( اور مسلمان ہوچکے ہیں) تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ اور اس کا رسول بھی معاویہ سے محبت کرتے ہیں

(مجمع الزوائد حدیث15923)

.

ادْعُوا لِي مُعَاوِيَةَ ، فَلَمَّا وَقَفَ عَلَيْهِ ، قَالَ : أَشْهِدُوهُ أَمَرَكُمْ ، أَحْضِرُوهُ أَمَرَكُمْ ، فَإِنَّهُ قَوِيُّ أَمِينٌ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معاویہ کو بلاؤ جب وہ حاضر ہوئے تو فرمایا معاویہ کو اپنے معاملات میں شامل کیا کروں اس سے مشورہ کیا کرو بے شک وہ قوی(علم و حکمت و تجربے والا) ہے آمین ہے امانت دار ہے

(البحر الزخار بمسند البزاز حدیث2987)

.

النبي صلى الله عليه وسلم انه قال لمعاوية: " اللهم اجعله هاديا مهديا واهد به

صحابی رسول عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا: ”اے اللہ! تو ان کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنا دے، اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے

(ترمذی حدیث3842)

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا رد نہیں ہوتی لہذا حضرت امیر معاویہ ہدایت یافتہ تھے فاسق منافق نہیں۔۔۔بلکہ اکثر معاملات میں ہدایت دینے والے مجتہد تھے اکا دکا معاملات میں اجتہادی خطا ان سے ہوئی جس پر حدیث پاک کے مطابق ایک اجر ملے گا

.

 سیدنا معاویہ فقیہ مجتہد تھے

قَالَ : إِنَّهُ فَقِيهٌ

  فرمایا کہ بےشک معاویہ فقیہ ہیں

(بخاری روایت3765)

الحدیث:

فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ، فَلَهُ أَجْرٌ

 اجتہاد کرے پھر وہ درستگی کو پائے تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر اجتہاد کرے اور خطاء کرے تو اس کے لئے ایک اجر ہے(بخاری حدیث7352)

.

*#سیدنا_معاویہ رضی اللہ عنہ کی خطاء اجتہادی تھی،اسکی دلیل بھی پڑھتے چلیے......!!*

القرآن:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ  اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ

اےایمان والو اللہ کی اطاعت کرو، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اولی الامر کی اطاعت و پیروی کرو...پس اگر اختلاف و جگھڑا ہوجائے تو اگر تم ایمان والے ہو تو معاملہ اللہ اور رسول(قران و حدیث و سنت) کی طرف لوٹا دو

(سورہ نساء ایت59)

 آیت مبارکہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے معاملات قرآن حدیث اور سنت کی طرف لوٹا دے اور قرآن و سنت اور حدیث کی پیروی کرے تو وہ مسلمان شخص مومن کہلائے گا...اور سیدنا معاویہ اور سیدنا علی دونوں نے معاملہ قرآن و حدیث کی طرف لوٹا دیا تھا...دونوں معزز حضرات کی دلیل قرآن و احادیث تھیں... سوال میں اعتراض چونکہ سیدنا معاویہ پر ہوا ہے تو ہم آپ کو دکھاتے ہیں کہ سیدنا معاویہ نے اپنا معاملہ قرآن اور حدیث اور سنت کی طرف کیسے لوٹایا

القرآن:

مَنۡ قُتِلَ مَظۡلُوۡمًا فَقَدۡ جَعَلۡنَا لِوَلِیِّہٖ سُلۡطٰنًا

جو ظلماً قتل کیا جائے تو اللہ نے اس کے ولی کو قوت و اختیار دیا ہے(کہ قصاص لیں یا دیت لیں یا معاف کردیں)

(سورہ بنی اسرائیل آیت33)

.

نبی پاکﷺاحد پہاڑ پے تشریف فرما ہوئے اور آپ کے ساتھ سیدنا ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنھم تھے تو احد پہاڑ جنبش کرنے لگا نبی پاکﷺ نے فرمایا اے احد ساکن ہو جا راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں نبی پاکﷺنے اپنا پاؤں مبارک احد پہاڑ پے مار کر فرمایا تھا کہ ساکن ہوجا.....(پھر نبی کریم نے فرمایا)بےشک تجھ پر نبیﷺاور صدیق اور دو شہید ہیں(یعنی سیدنا عمر و عثمان ناحق و ظلماً قتل کییے جائیں گے،شہادت کا رتبہ پائیں گے )

(صحيح البخاري ,5/15حدیث3699)

.

وشهيدان) هما: عمر وَعُثْمَان

 بخاری شریف کی حدیث میں جو ہے کہ دو شہید ہیں ان سے مراد سیدنا عمر اور سیدنا عثمان شہید ہیں

(عمدۃ القاری شرح بخاری16/191)


.

إِنَّهُ فَقِيهٌ

سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ بےشک سیدنا معاویہ فقیہ(مجتہد) ہیں

(بخاری روایت3765)

.

أَنْتَ تُنَازِعُ عَلِيّاً، أَمْ أَنْتَ مِثْلُهُ؟فَقَالَ: لاَ وَاللهِ، إِنِّيْ لأَعْلَمُ أَنَّهُ أَفْضَلُ مِنِّي، وَأَحَقُّ بِالأَمْرِ مِنِّي، وَلَكِنْ أَلَسْتُم تَعْلَمُوْنَ أَنَّ عُثْمَانَ قُتِلَ مَظْلُوْماً، وَأَنَا ابْنُ عَمِّهِ، وَالطَّالِبُ بِدَمِهِ

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا گیا کہ آپ سیدنا علی سے جھگڑا کر رہے ہیں اختلاف کر رہے ہیں کیا آپ ان کی مثل ہیں تو سیدنا معاویہ نے فرمایا نہیں نہیں اللہ کی قسم میں ان جیسا نہیں ہوں، میں انکے برابر نہیں ہوں، میں جانتا ہوں کہ سیدنا علی مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے معاملے میں وہ مجھ سے زیادہ حقدار ہیں لیکن کیا تم نہیں جانتے کہ سیدنا عثمان ظلماً شہید کئے گئے اور میں اس کے چچا کا بیٹا ہو اور اس کے قصاص کا طلب گار ہوں

(سير أعلام النبلاء ابن جوزی ط الرسالة3/140)

(البداية والنهاية امام ابن کثیر ت التركي11/425)

.

محققین نے اس روایت کی سند کو جید معتبر قرار دیا ہے

إسناده جيد

(روضة المحدثين7/242)

.

 آیت مبارکہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ظلماً جو قتل کیا جائے اس کے ولی قصاص لے سکتے ہیں اور حدیث پاک اور اسکی شرح سے سے یہ ثابت ہوا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ظلماً شہید کیے گئے تو سیدنا عثمان کے ولی قصاص لے سکتے ہیں اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہی تو ارشاد فرمایا تھا کہ میں سیدنا عثمان کا ولی ہوں لیھذا میں قصاص کا مطالبہ کرتا ہوں کہ سیدنا عثمان ظلماً شہید کیے گئے...سیدنا معاویہ نے اپنا دعوی اپنا اختلاف و اجتہاد قرآن و حدیث پے ہی رکھا یعنی معاملہ قرآن و حدیث و سنت کی طرف لوٹا دیا اور آیت میں ہے ایمان والے ہیں وہ مسلمان جو اپنا معاملہ قران و حدیث و سنت کی طرف لوٹا دیں لیھذا ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ مومن متقی نیک عادل پرہیزگار اور قرآن و سنت و حدیث کے پیروکار تھے ہاں فقیہ و مجتہد بھی تھے اور اسلام نے اجتہاد کی اجازت دی ہے، اجتہاد صحابہ کرام اہلبیت عظام نے کیا بلکہ اجتہاد کا حکم قرآن و حدیث میں موجود ہے......!!

.

قَالَ مُعَاوِيَةُ لِضَرَارٍ الصَّدَائِيِّ : يَا ضَرَّارُ، صِفْ لِي عَلِيًّا....فبكى مُعَاوِيَة وَقَالَ: رحم الله أَبَا الْحَسَن، كَانَ والله كذلك، فكيف حزنك عَلَيْهِ يَا ضرار؟ قَالَ: حزن من ذبح ولدها  وَهُوَ فِي حجرها. وكان مُعَاوِيَة يكتب فيما ينزل بِهِ ليسأل لَهُ علي بْن أَبِي طالب رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ ذَلِكَ، فلما بلغه قتله قَالَ: ذهب الفقه والعلم بموت ابْن أَبِي طالب

 سیدنا معاویہ نے سیدنا ضرار سے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان بیان کرو میں سننا چاہتا ہوں... سیدنا ضرار نے طویل شان بیان کی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ روتے ہوئے فرمانے لگے اللہ کی قسم سیدنا علی ایسے ہی تھے... اے ضرار تمہیں سیدنا علی کی وفات پر جو غم ہے وہ بیان کرو... سیدنا ضرار نے فرمایا کہ مجھے غم ایسا ہے جیسے کسی کی اولاد اس کی جھولی میں ہی شہید کر دی جائے.... سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالئ عنہ مسائل میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف لکھ کر پوچھا کرتے تھے جب سیدنا معاویہ کو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کی خبر ملی تو فرمایا کہ آج فقہ اور علم چلا گیا

(الاستيعاب في معرفة الأصحاب ,3/1108)

سیدنا معاویہ و سیدنا علی کا اختلاف تھا مگر آپس میں نفرت و دشمنی نہ رکھتے تھے

.

اب سن کان کھول کر

 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ میں اختلاف تھا دشمنی نہیں ہوئی تھی

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

والظاهر أن ربنا واحد ونبينا واحد، ودعوتنا في الاسلام واحدة. لا نستزيدهم في الإيمان بالله والتصديق برسوله صلى الله عليه وآله ولا يستزيدوننا. الأمر واحد إلا ما اختلفنا فيه من دم عثمان

 یہ بات بالکل واضح ہے ظاہر ہے کہ ان(سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہ)کا اور ہمارا رب ایک ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہے، انکی اور ہماری اسلامی دعوت و تبلیغ ایک ہے، ہم ان کو اللہ پر ایمان رسول کریم کی تصدیق کے معاملے میں زیادہ نہیں کرتے اور وہ ہمیں زیادہ نہیں کرتے...ہمارا سب کچھ ایک ہی تو ہے بس صرف سیدنا عثمان کے قصاص کے معاملے میں اختلاف ہے

(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ3/114)

 ثابت ہوا کہ سیدنا علی کا ایمان سیدنا معاویہ کا ایمان سیدنا معاویہ کا اسلام سیدنا علی کا اسلام اہل بیت کا اسلام صحابہ کرام کا اسلام قرآن و حدیث سب کے سب معاملات میں متفق ہی تھے،سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ سب کے مطابق قرآن و حدیث میں کوئی کمی بیشی نہ تھی....پھر کالے مکار بے وفا ایجنٹ غالی جھوٹے شیعوں نے الگ سے حدیثیں بنا لیں، قصے بنا لیے،الگ سے فقہ بنالی، کفریہ شرکیہ گمراہیہ نظریات و عمل پھیلائے اور رافضیوں نیم رافضیوں نے سیدنا علی و معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام کے اختلاف کو دشمنی منافقت کفر کا رنگ دے دیا...انا للہ و انا الیہ راجعون

.

فنعى الوليد إليه معاوية فاسترجع الحسين...سیدنا حسین کو جب سیدنا معاویہ کی وفات کی خبر دی گئ تو آپ نےاِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا…(شیعہ کتاب اعلام الوری طبرسی1/434) مسلمان کو کوئی مصیبت،دکھ ملےتو کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ(سورہ بقرہ156)ثابت ہوا سیدنا معاویہ امام حسین کے مطابق کافر ظالم منافق دشمن برے ہرگز نہ تھے جوکہ مکار فسادی نافرمان دشمنان اسلام گستاخانِ معاویہ کے منہ پر طمانچہ ہے

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.