Labels

ذاکر نائیک کہ چند کفریہ اور گمراہ کن عقائد اور ان تحقیقی رد اور ذاکر نائیک فلاں کام کرے تو ٹھیک ورنہ اسے ڈیش ڈیش پہ بٹھا کر ڈنڈے مار کر شہر شہر گھمایا جائے

 *#ذاکر نائیک کے چند کفریہ اور گمراہ کن نظریات اور انکا رد۔۔۔ذاکر نائیک قران اور حدیث پاک کے حکم کے تحت اعلانیہ توبہ کریں رجوع کرے اور معتبر اہل سنت علماء محققین باریک بین کی صحبت اختیار کریں ان کی نگرانی میں رہے ان کی رہنمائی میں رہے ان سے بہت کچھ سیکھیں اور پھر سوال جواب مباحثے کر سکتا ہے لیکن ان سوال جواب اور مباحثوں کی رہنمائی تصدیق تردید وغیرہ کے لیے ہمہ وقت معتبر علمائے اہل سنت کی نگرانی میں رہے تو ٹھیک ہے ورنہ اسے جانور یا کسی سواری پر بٹھا کر ڈنڈے مارے جائیں اور شہروں میں گھمایا جائے اور اج کے ڈیجیٹل دور میں مختلف پے لائیو دکھایا جائے اور اعلان کیا جائے کہ جو محض اپنی عقل سے عقائد اور اسلام کے متعلق رائے دے گا اس کا یہی حشر ہوگا۔۔۔۔ہم سب پر لازم ہے کہ ہم قران و سنت اور قران و سنت و آثار سے اجتہاد و استدلال کرکے جواب دیں تحقیق کریں سمجھیں سمجھائیں ورنہ منہ بند رکھیں۔۔۔۔۔۔!!*

.

إِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے اپنی امت پر ان لوگوں کا خوف ہے کہ جو گمراہ کن ائمہ ہوں گے

(ترمذی حدیث2229)

.

گمراہ کن ائمہ اس طرح ہوں گے کہ کم علمی کی بنیاد پر جواب دیں گے قران مجید کی تمام ایات کی تفاسیر اس کو مد نظر نہ ہوں گی اور اکثر احادیث کا علم نہ ہوگا یا اکثر احادیث کا صحیح فہم نہ ہوگا اور اقوال صحابہ کرام کا علم نہ ہوگا عرب کے علوم لغت معنی صرف نحو بدیع بیان حقیقت مجاز وغیرہ علوم و فنون اسے نہ ہوں گے اور وہ ان تمام کے بغیر مسائل نکال کر بتاتا پھرے گا ایت و احادیث کی غلط تاویل و تفسیر و تشریح کرتا پھرے گا پھیلاتا پھرے گا اور گمراہ ہوگا اور گمراہ کرتا پھرے گا

۔ 

عُمَرُ: «أَخْوَفُ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ قَوْمٌ يَتَأَوَّلُونَ الْقُرْآنَ عَلَى غَيْرِ تَأْوِيلِهِ»

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اس امت پر سب سے زیادہ خوف اس قوم کا ہے کہ جو قران کو اس کی صحیح تاویل پر نہیں رکھیں گے

(استاد بخارى في المصنف7/503)

.

وَتَعَلَّمُوا الْعَرَبِيَّةَ مَا تُعْرِفُونَ بِهِ كِتَابَ اللهِ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عربی کا علم حاصل کرو کہ جس سے قران کا علم تمہیں ملے گا قران کی صحیح فہم تمہیں ملے گی

( فضل علم السلف على علم الخلف ص11)

عربی کا علم مطلق ہے جس میں گرائمر حقیقت مجاز لغت بدیع معنی بیان وغیرہ کئی عربی کے علوم و فنون کا ہونا لازمی ہے

.

عن عُمَر: تعلموَا العربيةَ فإنها مِنَ دينِكُمْ،

سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ عربی سیکھو عربی کے علوم فنون سیکھو کہ بے شک  اس سے تم دین کی صحیح سمجھ حاصل کر سکو گے

(مسبوك الذهب في فضل العرب وشرف العلم على شرف النسب ص63)

.

قال: حسن يتعلمها فإن الرجل يقرأ الآية فيعيا بوجهها فيهلك بها...

امام حسن فرماتے ہیں جسے قران حدیث اثار صحابہ عربی علوم و فنون کا علم نہ ہوگا وہ کوئی ایت پڑھے گا تو اسے اس کی سمجھ نہیں ائے گی اور وہ غلط تشریح کر کے غلط تشریح سمجھ کے غلط تشریح پھیلا کے ہلاکت میں پڑے گا

(شعب الایمان3/216مشرحا)

.

عمر...فَإِنَّ أَصْحَابَ السُّنَنِ أَعْلَمُ بِكِتَابِ اللَّه

سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ کتاب اللہ کے علم کے لیے ضروری ہے کہ احادیث و سنتوں کا علم ہو

(ذم الكلام و اهله3/32)

.


فقال عمر رضي الله عنه: "عليكم بديوان العرب فإن فيه تفسير كتابكم

سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ دیوان عرب کہ علوم تم پر لازم ہے کہ اس سے قران مجید کی صحیح تفسیر معلوم ہوتی ہے

( مجلة الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة13/432)

.

۔ 

قَالَ الشَّافِعِي حكمى فِي أَصْحَاب الْكَلَام أَن يضْربُوا بِالْجَرِيدِ وَيُطَاف بهم فِي الْقَبَائِل والبشائر وَيُقَال هَذَا جَزَاء من ترك الْكتاب وَالسّنة وَأخذ فِي الْكَلَام

امام غزالی فرماتے ہیں کہ امام شافعی نے فرمایا ہے کہ جو شخص قران سنت کے وسیع مطالعے کے بغیر قران و سنت کے دلائل کے بغیر عقائد میں بحث و مباحث کرے تو اسے جانور یا کسی سواری پر بٹھا کر اسے ڈنڈے مارتے جائیں اور شہروں میں گھماتے جائیں اور اعلان کرتے جائیں کہ جو قران و سنت و اثار صحابہ کو چھوڑ کر ان سے دلیل پکڑے بغیر عقائد میں بحث کرے گا اس کی سزا یہی ہے

(ماخوذا قواعد العقائد غزالی ص85)

۔ 

اور شک نہیں کہ ذاکر نائک نے قران سنت احادیث اقوال صحابہ کرام کا وسیع مطالعہ دقیق مطالعہ نہیں کیا اور ان سے دلیل اخذ کر کے دلیل نہیں دی بلکہ جو اس کی عقل میں ایا کہہ دیا اور ان احادیث کو مانا جو اس کی عقل کے موافق تھی جیسے کہ اپ نیچے تفصیل میں پڑھیں گے تو بلا شک و شبہ ذاکر نائیک پر فرض ہے کہ وہ توبہ رجوع کرے معتبر اہل سنت علماء محققین کی نگرانی میں رہے ان سے پڑھے سمجھے انہیں اپنے دلائل دے اور اپنے دلائل کی تصدیق کرائے دلائل کی تحقیق کرائے دلائل کی تصحیح کرائے پھر انہی علماء کی نگرانی میں بحث و مباحث کرے ورنہ اسے جانور یا گدھے پہ بٹھا کر ڈنڈے جوتے برسائے جائیں اور چینلز پہ لائیو دکھایا جائے اور شہر شہر گھمایا جائے اور بتایا جائے کہ جو قران و سنت اقوال صحابہ کو چھوڑ کر اسلاف کے اقوال کو چھوڑ کر اپنی عقل پر چلے یا جو اس کی عقل مانے اسی کو مانے تو اس کی سزا یہی ہے

۔ 

سرعام توبہ اس لیے کہ حدیث پاک میں ہے کہ سرعام گناہ کیا ہو اعلانیہ گناہ کیا ہو تو اس کی توبہ بھی سرعام کرنی ہوگی اعلانیہ کرنی ہوگی

الحدیث

إذا عَمِلْتَ سَيِّئَةً فَأَحدِثْ عِنْدَهَا تَوْبَةً السِّرَّ بالسِّرِّ والعَلانِيَةَ بالعَلانِيَةِ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تجھ سے گناہ ہو جائے تو اگر اعلانیہ گناہ ہوا ہے سرعام گناہ ہوا ہے تو اس کی توبہ بھی سرعام کر ورنہ تنہائی میں توبہ کر

(جامع صغیر حدیث1613)

.

علماء اہلسنت بریلوی اور علماء دیوبند کے مطابق ذاکر نائیک دلائل کی رو سے باطل و مردود فتنہ گمراہ کرنے والا اہلسنت سے خارج بدعتی ضرور ہے اس کی باتیں اسکی تقریریں  سننا اسکی کتابیں تحریریں پڑھنا کسی مسلمان کے لیے ہرگز ہرگز جائز نہیں۔۔۔۔۔۔ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے کفریہ گمراہ کن نظریات سے توبہ رجوع  اعلانیہ کرے اور معتبر اسلاف اہل سنت علماء کی نگرانی میں رہے اور ان کی نگرانی اور رہنمائی میں عقائد و فقہ پر بات کرے۔۔۔۔۔ لیکن جب تک توبہ رجوع نہیں کرتا علماء کی رہنمائی اور سرپرستی حاصل نہیں کرتا اس سے بائیکاٹ کرنا لازم ہے

( دیکھیے علمائے دیوبند کی کتاب چند اہم عصری مسائل ص93تا112)

۔

اب یہ نہ کہیے کہ ذاکر نائک کے ہاتھوں کئی مسلمان ہوئے کیونکہ

حدیث پاک میں ہے کہ اللہ تعالی فاجر سے بھی دین کے کام لیتا ہے تو اگر بالفرض ذاکر نائک سے اللہ نے دین کا کام لے بھی لیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس فاجر کو اسلام کا ہیرو بنا دیں بلکہ اسے سدھار کر اچھا بنائیں۔۔۔۔اس سے توبہ رجوع کرائیں۔۔۔۔اس کو صحیح مسائل کی طرف لے کر ائیں۔۔۔۔اس کو کافی مسائل و عقائد کا وسیع علم دیں۔۔۔۔پھر اسے وعظ و تقریر اور عقائد جیسے اہم معاملات میں بحث و تبلیغ و تقریر تحریر کی اجازت دیں اور علماء مسلسل نگرانی کرتے رہے سمجھاتے رہیں اور جب ٹھیک طرح سے کام کر کے وفات پا جائے تب جا کر اسے ہیرو قرار دیا جائے

۔ 

الحدیث:

إِنَّ اللَّهَ لَيُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ

ترجمہ:

بےشک اللہ عزوجل فاجر(گمراہ، بدمذھب،منافق، مرتد، زندیق،فاسق،ظالم)سے بھی اس دین اسلام کی تائید.و.خدمات لیتا ھے(صحیح بخاری حدیث 3062)

خدمات تقریریں کتب خدمت خلق بھی اسی وقت کام آئے گی جب عقیدے نظریے ٹھیک ہوں اعمال ٹھیک ہوں، شیطان کتنا بڑا عالم عبادت گذار تھا مگر ایک برے نظریے نے اسے مردود لعنتی بنا دیا اسکا علم اسکی عبادات شہرت سب کچھ رائیگاں گیا…ایک گلاس دودھ میں چند قطرے زہر یا پیشاب کے ملا لیں اور کہا جائے دو چار ہی تو قطرے ہیں باقی تو دودھ ہے اس سے اتحاد کر لو اس دودھ کو بھی اچھا مفید سمجھ لوں،  پی لو........؟؟کیا ایسا کہنا ٹھیک ہے؟؟ ہر گز نہیں عقلا اخلاقا شرعا ہر لحاظ سے ٹھیک نہیں…خوارج بھی کلمہ بہت نیک و قاری تھے، مگر ان کی مزمت و مشروط قتل حدیث پاک سے ثابت ہے کیونکہ ان کے دو چار نظریے ہی اسلام کے منافی تھے…صحابہ کرام نے انہیں سمجھایا اور ضدی فسادیوں سے جہاد کیا…خوارج تم کلمہ گو ہو اہل قبلہ ہو اس لیے تم سے اتحاد کرتے ہین تمھہیں بھی حق کہتے ہیں ایسا صحابہ کرام نے نہ کیا......لیھزا ہر جگہ اتحاد کی میٹھی دعوت بھی گمراہ کن ہے، ایسوں سے اتحاد نہ کرنا لازم...انہیں سمجھانا لازم...ضدی فسادی بدمذہب سے مشروط قتال ورنہ بائیکاٹ و مذمت لازم......یہ تفرقہ بازی نہیں ،عیب جوئی نہیں ، غیبت نہیں بلکہ حق بیانی و لازم ہے اسلام کی نمک حلالی ہے، حق بیانی ہے

.

القرآن..ترجمہ:

حق سے باطل کو نا ملاؤ اور جان بوجھ کر حق نہ چھپاؤ

(سورہ بقرہ آیت42)

.

الحدیث:

 أترعون عن ذكر الفاجر؟، اذكروه بما فيه يعرفه الناس

ترجمہ:

کیا تم(زندہ یا مردہ طاقتور یا کمزور کسی بھی) فاجر(فاسق معلن منافق , خائن،مکار، دھوکے باز بدمذہب مفادپرست گستاخ) کو واضح کرنے سے ہچکچاتے ہو...؟(جیسا وہ ہے ویسا کہنے سے گھبراتے ہو...؟؟)اسے ان چیزوں(ان کرتوتوں، عیبوں اعلانیہ گناہوں ، خیانتوں، منافقتوں دھوکے بازیوں) کے ساتھ واضح کرو جو اس میں ہوں تاکہ لوگ اسے پہچان لیں(اور اسکی گمراہی خیانت منافقت بدعملی دھوکے بازی مکاری شر فساد سے بچ سکیں)

(طبرانی معجم  کبیر  حدیث 1010)

(طبرانی معجم صغیر حدیث598نحوہ)

یہ حدیث پاک  کتبِ حدیث و تفاسیر اور فقہ و تصوف کی کئی کتب میں موجود ہے... مثلا جامع صغیر، شعب الایمان، احیاء العلوم، جامع الاحادیث، کنزالعمال، کشف الخفاء ردالمحتار ، عنایہ شرح ہدایہ، فتاوی رضویہ، تفسیر ثعالبی، تفسیر درمنثور وغیرہ کتب میں بھی موجود ہے

علامہ ہیثمی نے فرمایا:

وإسناد الأوسط والصغير حسن، رجاله موثقون، واختلف في بعضهم اختلافاً لا يضر

 مذکورہ حدیث پاک طبرانی کی اوسط اور معجم صغیر میں بھی ہے جسکی سند حسن معتبر ہے، اسکے راوی ثقہ ہیں بعض میں اختلاف ہے مگر وہ کوئی نقصان دہ اختلاف نہیں

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ت حسين أسد2/408)

.

سمجھانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے...مگر حسبِ تقاضہِ شریعت ایسوں کے عیوب مکاریاں منافقتیں خیانتیں کرپشن فسق و فجور دھوکے بازیاں بیان کرنا برحق ہے لازم ہے اسلام کا حکم ہے....یہ عیب جوئی نہیں، غیبت نہیں، ایسوں کی پردہ پوشی کرنا جرم ہے... یہ فرقہ واریت نہیں، یہ حسد نہیں، بغض نہیں بلکہ حق کی پرواہ ہے اسلام کے حکم کی پیروی ہے...شاید کہ یہ سدھر جائیں انہیں ہدایت ملے ورنہ ذلت کے خوف سے فساد و گمراہی پھیلانے سے رک جائیں اور معاشرہ اچھا بنے... ہاں حدیث پاک میں یہ بھی واضح ہے کہ وہ عیوب، وہ خیانتیں، وہ دھوکے بازیاں وہ کرتوت بیان کیے جائیں جو اس مین ہوں...جھوٹی مذمت الزام تراشیاں ٹھیک نہیں......!!

۔ 

القرآن:

لَوۡ رَدُّوۡہُ  اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ

اگر معاملات و مسائل کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق،باشعور،باریک دان،سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور جان لیتے

(سورہ نساء آیت83)

 آیت مبارکہ میں واضح حکم دیا جارہا ہے کہ اہل استنباط کی طرف معاملات کو لوٹایا جائے اور انکی مدلل مستنبط رائے و سوچ و حکم کی تقلید و پیروی کی جائے.....!!

.

يَسْتَخْرِجُونَهُ وَهُمُ الْعُلَمَاءُ..الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُنَافِقِينَ، لَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى ذَوِي الرَّأْيِ وَالْعِلْمِ،...وَفِي الْآيَةِ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْقِيَاسِ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ مَا يُدْرَكُ بِالتِّلَاوَةِ وَالرِّوَايَةِ وَهُوَ النَّصُّ، وَمِنْهُ مَا يُدْرَكُ بِالِاسْتِنْبَاطِ وَهُوَ الْقِيَاسُ عَلَى الْمَعَانِي الْمُودَعَةِ فِي النُّصُوصِ

 اہل استنباط سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو احکام و نکات نکالتے ہوں اور وہ علماء ہیں... آیت میں منافقین اور مومنین سب کو حکم ہے کہ وہ معاملات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دیں اور اہل علم کی طرف لوٹا دیں اور رائے و قیاس کرنے والوں کی طرف لوٹا دیں... اس آیت میں دلیل ہے کہ قیاس کرنا بالکل جائز ہے کہ علم وہ ہوتا ہے کہ جو نص یعنی قرآن اور حدیث و سنت سے ملتا ہے یا پھر ان سے نکالا جاتا ہے یہی تو قیاس ہے

(تفسیر بغوی2/255)

.

دلت هذه الآية على أنَّ القياس حُجَّة... أن في الأحْكَام ما لا يُعْرَف بالنَّصِّ، بل بالاستِنْبَاطِ... أن العَامِيِّ يجِب عليه تَقْلِيد العُلَمَاء

 مذکورہ آیت مبارکہ دلالت کرتی ہے کہ قیاس ایک دلیل و حجت ہے، اس آیت سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ بعض احکام نص سے معلوم ہوتے ہیں اور بعض احکام قیاس و استنباط سے معلوم ہوتے ہیں.... بے شک عام آدمی پر واجب ہے کہ وہ علماء کرام کی تقلید کرے

(اللباب فی علوم الکتاب6/526)

.

وفي هذه الآية دليل على وجوب القول بالاجتهاد، عند عدم النص...فقد دل بذلك على أن من العلم ما يدرك بالتلاوة والرواية، وهو النص، ومنه ما يدرك بغيرهما، وهو المعنى، وحقيقة الأعتبار والاستنباط والقياس: الحكم بالمعاني المودعة في النصوص غير الحكم بالنصوص

 یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جب نص نہ ہو تو اجتہاد اور قیاس کرنا واجب ہے اور اس پر عمل کرنا بھی لازم ہے..اس آیت سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ بعض احکام نص سے معلوم ہوتے ہیں اور بعض احکام قیاس و استنباط سے معلوم ہوتے ہیں

(تفسیر ثعلبی10/493)

.

الحدیث:

حدثنا حفص بن عمر، عن شعبة، عن ابي عون، عن الحارث بن عمرو اخي المغيرة بن شعبة، عن اناس من اهل  حمص، من اصحاب معاذ بن جبل، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، لما اراد ان يبعث معاذا إلى اليمن، قال:" كيف تقضي إذا عرض لك قضاء؟، قال: اقضي بكتاب الله، قال: فإن لم تجد في كتاب الله؟، قال: فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فإن لم تجد في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا في كتاب الله؟، قال: اجتهد  رايي ولا آلو، فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره، وقال: الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله لما يرضي رسول الله".

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کرب بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاس کو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے

(ابوداؤد حدیث3592)

.

ضعفه الشيخ الألباني، ولكن بعض أهل العلم صححه أو حسنه، ومنهم ابن كثير في أول تفسير سورة الفاتحة، وكذلك الشوكاني حسنه وقال: إن ابن كثير جمع فيه جزءاً وقال: كذلك أيضاً أبو الفضل بن طاهر المقدسي جمع فيه جزءاً.وقد وجدت آثار عن عدد من الصحابة تدل على ما دل عليه

 ابو داود شریف کی مذکورہ حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن بعض اہل علم نے اس حدیث کو صحیح و دلیل قرار دیا ہے یا پھر حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے جیسے کہ امام ابن کثیر نے اور جیسے کہ امام شوکانی نے صحیح یا حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے... بعض ائمہ نے تو اس حدیث کی تائید و تخریج و شرح پر کتب و رسائل تک لکھے ہیں... صحابہ کرام سے بہت سارے آثار مروی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے قرآن اور حدیث بھر اقوال صحابہ پھر ان پر کیا گیا اجتہاد و قیاس  کرنا اور عمل کرنا کرانا جائز بلکہ لازم و برحق ہے

(شرح ابوداود للعباد تحت الحدیث3592)

.

یہ حدیث مبارک مشعل راہ ہے کہ قران پھر حدیث و سنت پھر قیاس و استدلال....اس حدیث مبارک سے واضح ہوتا ہے کہ قران حدیث و سنت سے اجتہاد و استدلال کرنا برحق و ماہر علماء کا منصب بلکہ ذمہ داری ہے....استدلال و قیاس کرنے میں سب متفق ہوں یہ ضروری نہیً لیھذا غیرمنصوص ظنیات و فروعیات میں کبھی اختلاف ہونا فطری عمل ہے


الحدیث:

 قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الأحزاب: «لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة» فأدرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم: بل نصلي، لم يرد منا ذلك، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فلم يعنف واحدا منهم

ترجمہ:

غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:

تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے

(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)

پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نا فرمائی

(بخاری حدیث946)

.

دیکھا آپ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کا قیاس و استدلال اور اس میں اختلاف... صحابہ کرام نے اس برحق اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر منافق فاسق گمراہ گستاخ نہیں کہا اور نبی پاک نے بھی کسی کی ملامت نا فرمائی...ایسا اختلاف قابل برداشت ہے بلکہ روایتوں مین ایسے فروعی برحق پردلیل باادب اختلاف کو رحمت فرمایا گیا ہے

.

اختلاف ایک فطرتی چیز ہے.... حل کرنے کی بھر پور کوشش اور مقدور بھر علم و توجہ اور اہلِ علم سے بحث و دلائل کے بعد اسلامی حدود و آداب میں رہتے ہوئے پردلیل اختلاف رحمت ہے

مگر

آپسی تنازع جھگڑا ضد انانیت تکبر لالچ ایجنٹی منافقت والا اختلاف رحمت نہیں، ہرگز نہیں...اختلاف بالکل ختم نہیں ہو پاتا مگر کم سے کم ضرور کیا جا سکتا ہے،اس لیے اختلاف میں ضد ،انانیت، توہین و مذمت نہیں ہونی چاہیے بلکہ صبر اور وسعتِ ظرفی ہونی چاہیے... اور یہ عزم و ارادہ بھی ہونا چاہیے کہ اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، ختم نہیں ہو پایا تو اختلاف کو کم سے کم ضرور کیا جائے گا..اختلاف کو جھگڑے سے بچایا جائے گا..

.

اختلاف کی بنیاد حسد و ضد ہر گز نہیں ہونی چاہیے...

اختلاف اپنی انا کی خاطر نہ ہو

اختلاف لسانیت قومیت کی خاطر نہ ہو

اختلاف ذاتی مفاد لالچ کی خاطر نہ ہو

اختلاف شہرت واہ واہ کی خاطر نہ ہو

اختلاف فرقہ پارٹی کی خاطر کی نہ ہو

اختلاف کسی کی ایجنٹی کی خاطر نہ ہو

اختلاف منافقت، دھوکے بازی کی خاطر نہ ہو

اختلاف ہو تو دلیل و بھلائی کی بنیاد پر ہو، بہتر سے بہترین کی طرف ہو، علم و حکمت سے مزین ہو،

.

ہر شخص کو تمام علم ہو،ہر طرف توجہ ہو، ہر میدان میں ماہر ہو یہ عادتا ممکن نہیں، شاید اسی لیے مختلف میدانوں کے ماہر حضرات کی شوری ہونا بہت ضروری ہے، اسی لیے اپنے آپ کو عقل کل نہیں سمجھنا چاہیے....بس میں ہی ہوں نہیں سوچنا چاہیے...ترقی در ترقی کرنے کی سوچ ہو، ایک دوسرے کو علم، شعور، ترقی دینے کی سوچ ہو....!!

.


کسی کا اختلاف حد درجے کا ہو، ادب و آداب کے ساتھ ہو، دلائل و شواہد پر مبنی ہو تو اس سے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے...ایسے اختلاف والے کی تنقیص و مذمت نہیں کرنی چاہیے،ایسے اختلاف پے خطاء والے کو بھی اجر ملتا ہے

الحدیث:

فاجتهد، ثم اصاب فله اجران، وإذا حكم فاجتهد، ثم اخطا فله اجر

مجتہد نے اجتہاد کیا اور درستگی کو پایا تو اسے دو اجر اور جب مجتہد نے اجتہاد کیا خطاء پے ہوا اسے ایک اجر ملے گا

(بخاری حدیث7352)

توجیہ تنبیہ جواب تاویل ترجیح کی کوشش کرنی چاہیے جب یہ ممکن نا ہو تو خطاء اجتہادی پر محمول کرنا چاہیے.....ہاں تکبر عصبیت مفاد ضد انانیت ایجنٹی منافقت وغیرہ کے دلائل و شواہد ملیں تو ایسے اختلاف والے کی تردید و مذمت بھی برحق و لازم ہے

.


اسی طرح ہر ایک کو اختلاف کی بھی اجازت نہیں... اختلاف کے لیے اہل استنباط مین سے ہونا ضروری ہے... کافی علم ہونا ضروری ہے... وسعت ظرفی اور تطبیق و توفیق توجیہ تاویل ترجیح وغیرہ کی عادت ضروری ہے، جب ہر ایرے غیرے کم علم کو اختلاف کی اجازت نا ہوگی تو اختلافی فتنہ فسادات خود بخود ختم ہوتے جاءیں گے

.

امام احمد رضا فرماتے ہیں:

اطلاق و عموم سے استدلال نہ کوئی قیاس ہے نہ مجتھد سے خاص(اطلاق و عموم سےاستدلال کوئی بھی ماہر عالم کرسکتا ہے اس کے مجتہد ہونا ضروری نہیں)..(فتاویٰ رضویہ جلد7 صفحہ496)

.

ہاں اطلاق و عموم میں کیا کیا آئے گا اور کون اور کیا کس وجہ سے اطلاق و عموم نہیں آئے گا..؟ یہ سمجھ بوجھ بھی ضروری ہے... جس کے لیے

آیات احادیث اثارِ صحابہ و تابعین و آئمہ اسلام...اور

 وسیع گہرا مطالعہ...عقائد فقہ لغت علم المعانی والبیان

اور اس قسم کے دیگر علوم پر نظر ضروی ہے... ایسے علماء محققین کو اطلاق و عموم سے استدلال جائز و ثواب بلکہ کبھی لازم تک ہوجاتا ہے......!!

.

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: «مَنْ كَانَ عَالِمًا بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَبِقَوْلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا اسْتَحْسَنَ فُقَهَاءُ الْمُسْلِمِينَ وَسِعَهُ أَنْ يَجْتَهِدَ رَأْيَهُ...قال الشافعی لَا يَقِيسُ إِلَّا مَنْ جَمَعَ آلَاتِ .الْقِيَاسِ وَهَى الْعِلْمُ بِالْأَحْكَامِ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَرْضِهِ وَأَدَبِهِ وَنَاسِخِهِ وَمَنْسُوخِهِ وَعَامِّهِ وَخَاصِّهِ وإِرْشَادِهِ وَنَدْبِهِ

....وَلَا يَكُونُ لِأَحَدٍ أَنْ يَقِيسَ حَتَّى يَكُونَ عَالِمًا بِمَا مَضَى قَبْلَهُ مِنَ السُّنَنِ، وَأَقَاوِيلِ السَّلَفِ وَإِجْمَاعِ النَّاسِ وَاخْتِلَافِهِمْ وَلِسَانِ الْعَرَبِ وَيَكُونُ صَحِيحَ الْعَقْلِ حَتَّى يُفَرِّقَ بَيْنَ الْمُشْتَبِهِ، وَلَا يُعَجِّلَ بِالْقَوْلِ وَلَا يَمْتَنِعَ مِنَ الِاسْتِمَاعِ مِمَّنْ خَالَفَهُ لَأَنَّ لَهُ فِي ذَلِكَ تَنْبِيهًا عَلَى غَفْلَةٍ رُبَّمَا كَانَتْ مِنْهُ.... وَعَلَيْهِ بُلُوغُ عَامَّةِ جَهْدِهِ، وَالْإِنْصَافُ مِنْ نَفْسِهِ حَتَّى يَعْرِفَ مِنْ أَيْنَ قَالَ مَا يَقُولُ

 امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے شاگرد رشید محمد بن حسن فرماتے ہیں کہ جو کتاب اللہ کا عالم ہو سنت رسول اللہ کا عالم ہوتا ہے اور صحابہ کرام کے اقوال کا عالم ہو اور فقہاء کے اجتہاد و استنباط و قیاس کا عالم ہو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ قیاس و اجتہاد کرے... امام شافعی فرماتے ہیں کہ قیاس و اجتہاد وہی کرسکتا ہے کہ جس نے قیاس کے لیے مطلوبہ علوم و فنون میں مہارت حاصل کی ہو، مثلا قرآن کریم(اور سنت رسول) کے احکامات کا علم ہو قرآن کریم(و سنت رسول) کے فرض واجبات آداب ناسخ  منسوخ عام خاص اور اس کے ارشادات و مندوبات وغیرہ کا علم ہو... قیاس و اجتہاد صرف اس عالم کے لئے جائز ہے کہ جو عالم ہو سنتوں کا، اسلاف(صحابہ کرام تابعین عظام و دیگر ائمہ)کے اقوال کا عالم ہو، اسلاف کے اجماع و اختلاف کا عالم ہو، لغت عرب کے فنون کا عالم ہو، عمدہ عقل والا ہو تاکہ اشتباہ سے بچ سکے،اور جلد باز نہ ہو،اور مخالف کی بات سننے کا دل جگرہ رکھتا ہوکہ ممکن ہے یہ غفلت میں ہو اور مخالف کی تنقید سے غفلت ہٹ جائے اور اس پر واجب ہے کہ دلائل پر بھرپور غور کرے انصاف کے ساتھ بلاتعصب اور اسے پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے کس بنیاد پر کہہ رہا ہے

(جامع بیان العلم و فضلہ2/856)

.##############

 

*#اب ذاکر نائیک کے چند اہم گمراہ کن اور کفریہ عقائد و نظریات کی ایک جھلک پڑھیے*

 

1⃣ *#پہلا نظریہ* ذاکر نائیک کہتا ہے:

خدا انسان بن سکتا ہے لیکن پھر وہ خدا نہیں رہے گا...

(دیکھیے ذاکر نائیک کی کتاب خدا کا تصور مذاہب عالم میں ص69)

۔ 

*#جواب۔ و۔ تحقیق۔۔۔۔۔۔!!*

نعوذ باللہ صاف الفاظوں میں ذاکر نائیک اعتراف کر رہا ہے کہ اللہ وہ چیز بن سکتا ہے جو خدا نہیں یعنی نعوذ باللہ خدائی صفت اللہ سے ختم ہو سکتی ہے نعوذ باللہ یعنی اللہ کی ذات خدا نہ رہے ایسا ہو سکتا ہے جو کہ سراسر کفر و گمراہی ہے کیونکہ اللہ کی ذات سےخدائی صفت اور اللہ ہونا کبھی ختم نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ ازلی اور ابدی ہے اس کی ذات اس کی صفات ازلی اور ابدی ہیں اس کی ذات اس کی صفات ازلی اور ابدی ہیں ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی

۔ 

القرآن:

وَّ یَبۡقٰی وَجۡہُ  رَبِّکَ

اور اللہ کی ذات ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گی

(سورہ رحمن ایت27)

۔ 

هُوَ الذِي لاَ تَعْترِضُ عَلَيهِ عَوَارِضُ الزوَالِ وَهُوَ الذِي بَقَاؤه غيرُ مُتَنَاهٍ، وَلَا مَحْدُوْدٍ،...وَذَلِكَ أن بَقَاءَهُ أزَليٌّ أبَدِيٌّ

اللہ کی ذات وہ ہے کہ جس کو زوال نہیں وہ ہمیشہ ہے ہمیشہ رہے گا کیونکہ وہ ازلی اور ابدی ہے یعنی ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا

(شأن الدعاء للخطابي1/96)

.

أزلي أبدي وهو الحق سبحانه

ازلی اور ابدی صرف اللہ ہی کی ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا

(التوقيف على مهمات التعاريف ص46)

.

مَعَ اتِّفَاقِهِمْ عَلَى أَنَّهُ لَمْ يَزَلْ مَوْصُوفًا بِصِفَاتِهِ قَدِيمًا بِهَا

سارے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رب تعالی کی ذات ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گی اور اس کی صفات ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہیں گی

(مجموع فتاوی ابن تیمیہ6/271)

.#############

2⃣ *#دوسرا نظریہ* ذاکر نائیک کہتا ہے:

ہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس کی مقدس کتاب ہی اللہ تعالی کا کلام ہے اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ معلوم کریں کہ کون سی کتاب واقعی اللہ کا کلام ہے تو اسے آخری امتحان یعنی جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے گزاریں، اگر وہ جدید سائنس کے مطابق ہو تو سمجھ لیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ہی کلام ہے

(چند اہم عصری مسائل ص95)

.

*#جواب۔ و۔ تحقیق۔۔۔۔۔۔!!*

کئی وجوہات کی بنیاد پر مذکورہ بالا اقتباس کئی کفریات گمراہیات پر مشتمل ہے مثلا

1....نعوذ باللہ اپ لحظہ بھر کے لیے شک کر سکتے ہیں کہ اللہ کی کتاب قران ہے یا نہیں۔۔۔۔ شک کرنے کے بعد پھر اپ سائنس کی طرف توجہ دیں گے کہ وہ اس کو کیا کہتی ہے نعوذ باللہ

2....پھر اگر سائنس تردید کر دے تو نعوذ باللہ اپ بھی تردید کر دیں کہ قران اللہ کا کلام نہیں نعوذ باللہ تعالی

3... جو کلام اللہ نہیں بلکہ یہود و نصاری کی تحریف ہے اس کی بھی اگر سائنس تصدیق کر دے کہ اللہ کا کلام ہے تو نعوذ باللہ ہمیں بھی تصدیق کرنا ہوگی کہ یہ اللہ کا کلام ہے

4..... سائنس جو خود ایک مشکوک ہے ظنی علم ہے۔۔۔مشکوک علم ہے۔۔۔ائے روز بدلتا رہتا ہے اس کے اوپر اتنا یقین کر لینا اتنا یقینی اسے مان لینا کہ اللہ کے کلام کو جانچنے کا معیار مقرر کر دینا یہ کفر نہیں تو بھلا کیا ہے

۔ 

ہمارا تو وہی عقیدہ ہے جو قران مجید نے دیا ہے کہ قران مجید اللہ کے کلام ہونے میں ذرا برابر بھی شک نہیں۔۔۔ایک لحظہ کے لیے بھی شک نہیں ۔۔۔کوئی توقف نہیں ۔۔۔۔چاہے سائنس مانے یا نہ مانے۔۔۔۔سائنس تصدیق کرے یا تردید کرے ہمیں ہر حال میں یہی عقیدہ رکھنا ہے کہ قران مجید اللہ کا ہی کلام ہے جس میں کوئی شک و شبہ کی جگہ نہیں

۔ 

القرآن:

ذٰلِکَ  الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚ ۖ ۛفِیۡہِ

یہ عظیم مرتبے والی کتاب قران مجید اللہ کی کتاب ہے جس میں کوئی شک و شبہ کی جگہ نہیں

(سورہ بقرہ ایت2)

.

القران:

 اَنَّہٗ مُنَزَّلٌ مِّنۡ رَّبِّکَ بِالۡحَقِّ فَلَا تَکُوۡنَنَّ  مِنَ الۡمُمۡتَرِیۡنَ

بے شک یہ قران مجید اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتاب ہے اللہ کا کلام ہے تو( اے سننے والے پڑھنے والے) آپ اس میں ہرگز شک کرنے والے نہ بنیں

(سورہ انعام ایت114)

۔ 

.##############

3⃣ *#تیسرا نظریہ* ذاکر نائیک کہتا ہے:

بعض لوگ کہتے ہیں قران سمجھنے کا کام صرف علماء کا ہے عام ادمی نہیں سمجھ سکتا۔۔۔۔اللہ تبارک و تعالی ایک سورت میں چار مرتبہ سورہ قمر میں کہتے ہیں کہ وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ  لِلذِّکۡرِ  فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ ہم نے قران کو سمجھنے کے لیےآسان بنایا، تو اللہ کی مانیں گے یا ان مسلمانوں کی

(حقیقت ذاکر نائیک ص186بتغیر یسیر)

.

*#جواب و تحقیق۔۔۔۔۔۔۔!!*

ذاکر نائیک نے گویا کہ ایک طرح سے ایت کا غلط معنی بتا کر معنوی تحریف کی ہے جو کہ ایک طرح سے کفر و گمراہی ہے

*#پہلی بات*

جب عام ادمی قران سمجھ سکتا ہے تو پھر اسے اپ ذاکر نائک صاحب مشورہ کیوں دیتے ہیں کہ میرا ترجمہ قران خریدو پڑھو سمجھو اور حدیث کو پڑھو سمجھو۔۔۔۔۔اپ سیدھا سیدھا کہہ دو کہ قران مجید کھولو اور خود سمجھ جاؤ ، میرے کتاب کی میرے ترجمے کی ضرورت ہی نہیں۔۔۔۔جب قران کو سمجھنے کے لیے اپ کے ترجمے کی ضرورت ہے اور اپ کی تجویز کردہ احادیث کی کتب کی ضرورت ہے تو پھر اپ کا اپنا رد ہو گیا کہ عام ادمی سمپلی طور پر قرآن مجید نہیں سمجھ سکتا اسے قران سمجھنے کے لیے سہارے کی ضرورت ہے عالم کے سہارے کی ضرورت ہے۔۔۔۔اخر ترجمہ تو عالم ہی کرے گا ناں۔۔۔غیر عالم کا ترجمہ تو معتبر ہی نہیں جیسے کہ نیچے تفصیل ائے گی

۔ 

*#دوسری بات*

آیات پاک و حدیث پاک کی تنسیخ تخصیص توضیح تفسیر و تشریح دوسری ایات و احادیث سے ہوتی ہے جس پر کئ دلائل و حوالہ جات ہیں ہم اختصار کے پیش نظر فقط ایک حدیث پاک پیش کر رہے ہیں

الحدیث:

كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينسخ حديثه بعضه بعضا، كما ينسخ القرآن بعضه بعضا ".

‏‏‏‏ ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کو دوسری  حدیث منسوخ و مخصوص(و تشریح) کر دیتی ہے۔ جیسے قرآن کی ایک آیت دوسری آیت سے منسوخ و مخصوص(و تفسیر) ہو جاتی ہے

(مسلم حدیث777)

لیھذا یہ اصول یاد رہے کہ بعض آیات و احادیث کی تشریح تنسیخ تخصیص تفسير دیگر آیات و احادیث سے ہوتی ہے....عام آدمی کے لیے اسی لیے تقلید كرنا اور علماء سے تشریح سمجھنا لازم ہے کہ اسے ساری یا اکثر احادیث و تفاسیر معلوم و یاد نہیں ہوتیں،مدنظر نہیں ہوتیں تو وہ کیسے جان سکتا ہے کہ جو ایت یا حدیث وہ پڑھ رہا ہے وہ کہیں منسوخ یا مخصوص تو نہیں.....؟؟ یااسکی تفسیر و شرح کسی دوسری آیت و حدیث سےتو نہیں.....؟؟

.

*#تیسری بات*

 القران:

فَسۡئَلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ  اِنۡ کُنۡتُمۡ  لَا  تَعۡلَمُوۡنَ

اہل ذکر(اچھی یاداشت وسیع علم والے معتبر علماء) سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں

(سورہ نحل ایت43)

قران مجید میں قران سمجھنے کا بھی حکم ہے تو احادیث سمجھنے کا بھی حکم ہے خود ذاکر نائک صاحب بھی قران اور صحیح احادیث کی طرف رجوع کراتے ہیں اور کہتے ہیں قران سمجھو اور صحیح احادیث سمجھو عمل کرو تو احادیث کی تعداد کتنی ہے لاکھوں احادیث ہیں اور ایات مبارکہ کی تعداد کتنی ہے ہزاروں ایات مبارکہ ہیں اور اوپر ہم پڑھ چکے ہیں کہ ایک ایت دوسری ایت کی وضاحت کرتی ہے ایک حدیث کی وضاحت ایت سے اور حدیث سے ہوتی ہے اور اسی طرح ایک ایت کی وضاحت حدیث اور ایت سے ہوتی ہے ہمیں تو عام طور پر لوگوں کو علم نہیں ہوتا بلکہ ہمیں تو تھوڑا سا بھی علم نہیں ہوتا کیونکہ ہم تو عربی جانتے ہی نہیں ہم تو ان کا ترجمہ بھی خود سے نہیں کر سکتے تو لازم ہے کہ ہمیں عام طور پر علم نہیں ہوتا اور جب علم نہیں تو ایت مبارکہ میں حکم ہے کہ اہل علم معتبر اہل علم جو ذکر والے ہوں جو یادداشت والے ہوں جو شعور و فکر و تدبر والے ہوں جو بہت ساری وسیع علوم کو جامع ہوں ان سے پوچھیں سمجھیں جبکہ ذاکر نائک صاحب کہتے ہیں علماء کی ضرورت نہیں ہے اب خود ہی ایت حدیث سمجھ کے جو من میں سمجھ میں ائے اس پر عمل کر لو۔ ۔۔۔۔۔۔ جو کہ ایات و احادیث کے سراسر خلاف ہے

.

*#چوتھی بات*

الحدیث:

طلب العلم فريضة على كل مسلم

 علم کی طلب ہر مسلمان پر ایک فریضہ ہے

(ابن ماجہ حدیث224)

علم کی طلب کس سے کریں گے علماء سے کریں گے تو اس حدیث پاک سے واضح ہے کہ ہم نے علماء سے علم سیکھنا ہے قران کو حدیث کو علماء سے سمجھنا ہے معتبر علماء سے سمجھنا ہے۔۔۔۔ عام ادمی خود سے قران سمجھ لے یہ نہیں ہو سکتا اس کے لیے لازم ہے کہ وہ معتبر علماء سے علم حاصل کرے سمجھے جبکہ ذاکر نائیک فرما رہے ہیں کہ علماء سے سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تم خود ہی سمجھ سکتے ہو۔ ۔۔۔یہ تو سیدھا سیدھا لوگوں کو گمراہی کی راہ پر چلانا ہے

۔ 

*#پانچویں بات*

إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَعٌ، وَإِنَّ رِجَالًا يَأْتُونَكُمْ مِنْ أَقْطَارِ الْأَرَضِينَ ؛ يَتَفَقَّهُونَ فِي الدِّينِ، فَإِذَا أَتَوْكُمْ، فَاسْتَوْصُوا بِهِمْ خَيْرًا

 رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  لوگ تمہارے تابع ہیں ، لوگ تمہارے پاس زمین کے گوشہ گوشہ سے علم دین حاصل کرنے کے لیے آئیں گے تو جب وہ تمہارے پاس آئیں تو تم ان کے ساتھ  بھلائی کرنا، خیر خواہی کرنا ، خیال رکھنا

(ترمذی حدیث2650)

اگر قران کو حدیث کو اسلام کو پڑھنا سمجھنا اتنا ہی اسان تھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا کیا کرو گے کہ جس میں رسول کریم فرما رہے ہیں کہ لوگ تم سے پڑھنے کے لیے سمجھنے کے لیے ائیں گے اس حدیث پاک سے واضح ہوتا ہے کہ ہم اپنی طرف سے سمجھ نہیں سکتے ہمیں استاد کی علماء کی ضرورت ہے اور رہے گی جبکہ ذاکر نائک صاحب علماء سے لوگوں کو دور کر رہے ہیں اور گمراہی کی پٹڑی پر چڑھا رہے ہیں

.

*#چھٹی بات*

وَإِنَّمَا نَزَلَ كِتَابُ اللَّهِ يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا، فَلَا تُكَذِّبُوا بَعْضَهُ بِبَعْضٍ، فَمَا عَلِمْتُمْ مِنْهُ فَقُولُوا، وَمَا جَهِلْتُمْ فَكِلُوهُ إِلَى عَالِمِهِ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قرآن مجید اسکا بعض حصہ دوسرے بعض حصے  کی تصدیق کرتا ہے تو قرآن کے بعض حصے کو بعض کی وجہ سے مت جھٹلاؤ جس کا تمہیں(قران و حدیث و سنت کے ذریعے)سمجھ آجائے تو وہ بات کہو(عمل کرو پھیلاؤ) جس کی تمہیں سمجھ نہ آئے تو وہ عالم(صحابہ کرام اہلبیت عظام تابعین مستند علماء اولیاء) کی طرف سپرد کرو، ان سے سمجھو

(مسند احمد حدیث6741)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واضح حکم فرما رہے ہیں کہ تمہیں اگر علم نہیں اور یقینا ہمیں علم نہیں کیونکہ ہم عربی نہیں جانتے اگر ہم عربی جانتے بھی ہوں تو ساری احادیث ہمیں مدنظر نہیں ہوتی تو یقینا ہمیں علم نہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم ایت و قرآن کے عالم محقق اور احادیث کے عالم و محقق کی طرف رجوع کریں۔۔۔ان سے سیکھیں سمجھیں کہ ایت کا کیا معنی ہے ، کیا مفہوم ہے ۔۔۔۔ حدیث کا کیا معنی ہے، کیا مفہوم ہے۔۔۔۔اپنے سے مطلب اور مفہوم نکالنے بیٹھ گئے تو گمراہی کفر کا دروازہ کھولنے کے برابر ہے

.

*#ذاکر نائک کی پیش کردہ ایت کی تحقیق*

القران

وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ  لِلذِّکۡرِ  فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ

(سورہ قمر ایت17)

۔ 

ایک تفسیر یہ ہے کہ

سهلناه للاذكار والاتعاظ

قران کو ہم نے نصیحت کے لیے اور وعظ کے لیے اسان کر دیا ہے(باقی تفسیر احکامات علم معلومات دقائق باریکیاں بہت علوم فنون اسان نہیں ہیں وہ قران کے ماہر عالم سے ہی سیکھی جا سکتی ہیں)

(تفسیر نسفی3/402)

اور بھی کئی تفاسیر میں یہ تفسیر کی گئی ہے۔۔۔۔۔ قران مجید میں ذکر کا لفظ ہے یعنی ہم نے قران کو ذکر کے لیے اسان کر دیا ہے قران میں یہ نہیں کہ ہم نے قران کو فہم کے لیے اسان کر دیا ہے مسائل دقائق نکالنے کے لیے اسان کر دیا ہے ایسا نہیں ہے

۔ 

دوسری تفسیر:

مذکورہ بالا ایات و احادیث سے صاف ہوتا ہے کہ قران کو ہم نے اس طرح اسان کر دیا ہے کہ اس کے لیے علماء پیدا کر دیے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے ماہرین پیدا کر دیے ہیں جنہوں نے کتابیں لکھ دی ہیں اپ ان سے اسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں

۔ 

تیسری تفسیر: 

ایک تفسیر سیدنا سعید اور سیدنا ابن عباس وغیرہ سے یہ کی گئی ہے کہ قران کو حفظ کرنے کے لیے یاد کرنے کے لیے زبان پر لانے کے لیے پڑھنے کے لیے اسان کر دیا ہے ورنہ کوئی انسان اللہ کا کلام پڑھ نہ پاتا یاد نہ کر پاتا حفظ نہ کر پاتا یہی وجہ ہے کہ قران کے ہی اکثر حافظ ہیں باقی کتب کے حافظ نہیں ہیں

وَأَخْرَجَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَابْنُ مَرْدَوَيْهِ وَالْبَيْهَقِيُّ عَنْهُ أَيْضًا فِي قَوْلِهِ: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ قَالَ: لَوْلَا أَنَّ اللَّهَ يَسَّرَهُ عَلَى لِسَانِ الْآدَمِيِّينَ مَا اسْتَطَاعَ أَحَدٌ مِنَ الْخَلْقِ أَنْ يَتَكَلَّمُوا بِكَلَامِ اللَّهِ. وَأَخْرَجَ الدَّيْلَمِيُّ عَنْ أَنَسٍ مَرْفُوعًا مِثْلَهُ. وَأَخْرَجَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَابْنُ الْمُنْذِرِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ قَالَ: هَلْ مِنْ متذكّر.

(تفسیر فتح القدیر5/150)

اور بھی کئی کتب میں یہ تفسیر کی گئی ہے

۔ 

.##################

4⃣ *#چوتھا نظریہ* ذاکر نائیک کہتا ہے:

ہر کسی کے لیے فتوی دینا جائز ہے، اس لیے کہ فتوی کا معنی رائے دینا ہے

(چند اہم عصری مسائل ص۔96۔95)

۔ 

*#جواب۔ و۔ تحقیق۔۔۔۔۔۔۔!!*

یہ بات بھی ذاکر نائک کی کفریہ گمراہ کن نظریہ ہے

*#پہلی بات*

قران مجید میں ہے کہ اللہ فتوی دیتا ہے تو کیا مطلب اللہ رائے دیتا ہے یا حکم بیان فرماتا ہے۔۔۔۔۔؟؟ اُسی ایت کے شروع میں ہے کہ اللہ فتوی دیتا ہے اور ایت کے اخر میں ہے کہ اللہ تعالی اسی طرح حکم بیان فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ جس سے واضح ہوتا ہے کہ فتوی کا معنی ہے حکم بیان کرنا۔۔۔۔ جس ایت مبارکہ کی بات کر رہا ہوں وہ یہ ایت مبارکہ ہے

القران:

 ؕ قُلِ اللّٰہُ یُفۡتِیۡکُمۡ فِی الۡکَلٰلَۃِ ؕ اِنِ امۡرُؤٌا ہَلَکَ لَیۡسَ لَہٗ  وَلَدٌ وَّ لَہٗۤ اُخۡتٌ فَلَہَا نِصۡفُ مَا تَرَکَ ۚ وَ ہُوَ یَرِثُہَاۤ اِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّہَا وَلَدٌ ؕ فَاِنۡ کَانَتَا اثۡنَتَیۡنِ فَلَہُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ ؕ وَ  اِنۡ کَانُوۡۤا اِخۡوَۃً رِّجَالًا وَّ  نِسَآءً فَلِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ؕ یُبَیِّنُ اللّٰہُ  لَکُمۡ اَنۡ تَضِلُّوۡا ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ

(سورہ نساء ایت176)

۔ 

*#دوسری بات*

لغت کی کتابوں میں فتوی کا معنی دیکھتے ہیں لغت کی مشہور و معتبر کتاب تاج العروس میں ہے

 أَفْتَى العالِمُ إِذا بَيَّنَ الحُكْم.ويقالُ: أَصْلُه مِن الفَتَى وَهُوَ الشابُّ القَوِيُّ

فتوی کا معنی ہے حکم بیان کرنا اور اس کی اصل فتی ہے جس کا معنی ہے جوان قوی طاقتور (گویا فتوی کا معنی ہوا طاقتور دلائل سے حکم بیان کرنا)

( تاج العروس39/212)

عام سی راے دے دینا کہاں۔۔۔۔۔ جاہل کی عام سی بات کہاں۔۔۔۔اور طاقتور دلائل سے فتوی دینا کہاں۔۔۔۔۔ لہذا فتوی عالم طاقتور دلائل کی روشنی میں ہی دے سکتا ہے جاہل کو فتوی دینے کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں ہے

۔ 

*#تیسری بات*

الحدیث:فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا

جاہل(کم علم) فتویٰ دیں گے تو وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے( لہذا ایسوں سے بچو)

(بخاری حدیث100)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کو گمراہ قرار دے رہے ہیں جو بغیر علم کے ۔۔۔۔ بغیر مضبوط علم کے۔۔۔۔ بغیر وسیع علم کے۔۔۔۔ بغیر معتبر علم کے بغیر فتوی دیں تو وہ گمراہ ہے جبکہ

 ذاکر نائک صاحب کہہ رہے ہیں کہ فتوی کوئی بھی دے سکتا ہے جائز ہے ....کہاں جائز اور کہاں گمراہ...... رسول کریم ان کو گمراہ کہیں اور ذاکر نائیک اس کو جائز کہے فیصلہ اپ کے ضمیر پر ہے

.

*#چوتھی بات*

الحدیث:

وَمَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے قران میں اپنی رائے سے کچھ کہا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے

(ترمذی حدیث3451)

رائے دینے کو عموما رسول کریم نے گمراہی خطا جہنم کا ٹھکانہ قرار دیا اور جناب ذاکر نائک اسے جائز قرار دے رہے ہیں

.###############

5⃣ *#پانچواں نظریہ* ذاکر نائیک کہتا ہے:

اسلام کے ماننے والے اس بات کی پابند ہیں کہ وہ خود کو مسلمان کہیں۔۔۔جنہوں نے فرقے بنا لیے ہیں جب ان سے کہا جاتا ہے تم کون ہو تو کہتے ہیں میں سنی ہوں یا میں شیعہ ہوں اس طرح کچھ لوگ اپنے اپ کو حنفی شافعی مالکی یا حنبلی کہتے ہیں اور کوئی یہ کہتا ہے میں دیوبندی ہوں یا بریلوی ہوں ایسے لوگوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا تھے۔۔۔۔؟؟ میں چاروں اماموں کا احترام کرتا ہوں امام ابو حنیفہ امام شافعی امام مالک امام احمد بن حنبل سب کا احترام کرتا ہوں لیکن ہمیں مسلمان کہلانا چاہیے

(حقیقت ذاکر نائک ص196الخ ملخصا)

۔ 

*#جواب۔ و۔ تحقیق۔۔۔۔۔۔!!*

پہلی بات:

ذاکر صاحب اپ ایک طرف امام اعظم ابو حنیفہ امام مالک امام شافعی امام احمد بن حنبل کا احترام کرتے ہیں اور جب یہ اپنے اپ کو اہل سنت کہلواتے ہیں تو بھی اپ ان کا احترام کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ اپ کے مطابق یہ ائمہ اہل سنت کہلا کر قران کے خلاف جا رہے ہیں بدعت کر رہے ہیں تو پھر بھی قران کے خلاف جانے والے بدعتیوں کی عزت و تعظیم کر رہے ہیں اپ احترام کر رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔؟؟ حق پسند ہوتے تو اللہ کے حکم کی جو خلاف ورزی کر رہا ہے اس کی اپ سرعام ڈنکے کی چوٹ پر مخالفت کرتے چاہے وہ کتنا بڑا ہی عالم کیوں نہ ہو لیکن اپ لگی لپٹی اس لیے کر رہے ہیں تاکہ عوام سے جوتے نہ کھانے پڑیں تاکہ ان کی عوام کو ورغلا کر اپنا گرویدہ بنایا جائے بڑے مکار ہیں اپ۔۔۔۔۔۔۔!!

۔ 

*#دوسری بات*

القرآن:

حَنِیۡفًا مُّسۡلِمًا۔۔۔۔۔۔۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام حنیف مسلم تھے

(ال عمران ایت67)

ایت میں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ فقط مسلمان نہیں کہا گیا بلکہ مسلمان کے ساتھ ساتھ حنیف بھی کہا گیا ہے مطلب ہم مسلمان کہلانے کے ساتھ ساتھ حنیف بھی کہلا سکتے ہیں فقط مسلمان کہلوانا فرض نہیں

.

القرآن:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ  الصّٰدِقِیۡنَ

اے ایمان والو تقوی پرہیزگاری اختیار کرو اور صادقین (سچے مسلمانوں) کے ساتھ ہو جاؤ

(سورہ توبہ ایت119)

دیکھا ایت میں مسلمانوں کو صادقین بھی کہا گیا ہے اور یہاں مزے کی بات یہ ہے کہ مسلمان لفظ بھی نہیں ہے صرف صادقین ہے یعنی ایسا لفظ کہ جو مسلمان سچے مسلمان ہونے پر دلالت کرے ، سچے مسلمانوں کی ترجمانی کرے وہ لفظ استعمال ہو سکتا ہے لہذا صادقین کہہ سکتے ہیں تو اہل سنت بھی کہہ سکتے ہیں حنفی شافعی مالکی حنبلی بریلوی بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ جس طرح صادقین کا معنی ہے وہ مسلمان کہ جو سچے ہوں اسی طرح حنفی کا معنی ہے وہ مسلمان کے جو امام ابو حنیفہ کی انتخاب کردہ روایات و اجتہادات پر عمل کرے۔۔۔۔

۔ 

الحدیث: 

شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُحُدًا، فَضَرَبْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَقُلْتُ : خُذْهَا مِنِّي وَأَنَا الْغُلَامُ الْفَارِسِيُّ. فَالْتَفَتَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : " فَهَلَّا قُلْتَ : خُذْهَا مِنِّي وَأَنَا الْغُلَامُ الْأَنْصَارِيُّ ؟

ایک صحابی فرماتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جنگ احد میں حاضر ہوا تو میں نے مشرکوں میں سے ایک شخص کو ضرب لگائی اور میں نے کہا کہ یہ لو میری طرف سے ضرب اور میں فارسی غلام ہوں تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ یہ ضرب میری طرف سے لو اور میں انصاری غلام ہوں۔۔۔۔(ابوداود حدیث5123)

صحابہ کرام کا انصار اور مہاجر کہلانا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کو انصار اور صحابہ مہاجر کہنا روز روشن کی طرح واضح اور سب کو معلوم ہے۔ ۔۔۔۔ اگر فقط مسلم کہلانا لازم ہوتا تو رسول کریم فرماتے ہیں کہ یہ ضرب لو اور میں مسلمان غلام ہوں جبکہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے انصاری غلام کہنے کی اجازت عطا فرمائی بلکہ تلقین کی تو انصاری غلام کہنے سے مسلمانیت کا تصور خود بخود ا جاتا ہے گویا انصاری غلام کہنے کا مطلب ہوا میں مسلمان انصاری غلام ہوں تو لفظ مسلمان کو ہٹا کر فقط انصاری غلام کہہ سکتے ہیں اسی طرح مسلم اہل سنت ہوں مسلم حنفی ہوں مسلم شافعی ہوں مسلم مالکی ہوں مسلم حنبلی ہوں مسلم بریلوی ہوں ان کا یہی معنی ہے لیکن اگر مسلم ہٹا کر حنفی شافعی سنی بریلوی حنبلی وغیرہ کچھ کہنا فرقہ واریت نہیں ہے یہ بالکل جائز ہے

۔ 

سیدنا ابن عباس نے جنتی جماعت کے متعلق فرمایا کہ وہ اہل السنۃ والجماعۃ ہیں اور اس پر کسی صحابی نے اعتراض نہ کیا...ظاہر ہے اس وقت صحابہ کرام تابعین عظام اہل السنۃ والجماعۃ کہلواتے تھے تبھی تو انہی جنتی کہا گیا

دلیل:

عباس رضي الله عنهما في قوله تعالى: يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ [آل عمران: 106]؛ "فأما الذين ابيضت وجوههم: فأهل السنة والجماعة وأولوا العلم، وأما الذين اسودت وجوههم: فأهل البدع والضلالة

سیدنا

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز اہل السنۃ والجماعۃ کے چہرے چمکتے ہونگے(کہ یہی فرقہ برحق و جنتی صحابہ تابعین وغیرہ اہل حق کا فرقہ ہے)اور بدعتیوں کے چہرے کالے ہونگے

(تفسير القرطبي4/167)

(الشريعة للآجري روایت2074)

تفسير ابن كثير ط العلمية2/79)

(تفسير ابن أبي حاتم، الأصيل3/729)

(الدر المنثور في التفسير بالمأثور2/291)

(تاريخ جرجان ص132)

(العرش للذهبي1/27)

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة اللالكائي1/79)

.

والأساس الذي تبنى عليه الجماعة،  وهم أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم ورحمهم الله أجمعين، وهم أهل السنة والجماعة،

جماعت و کثرت سے مراد صحابہ کرام کی اکثریت ہے کہ وہی صحابہ کرام اہل السنۃ والجماعۃ تھے

(كتاب شرح السنة للبربهاري ص35)

.

سموا أنفسهم معتزلة...أهل السّنة وَالْجَمَاعَة يَقُولُونَ إِن الله وَاحِد قديم

انہوں نے اپنا نام معتزلہ رکھا ان کے مقابلے میں(صحابہ تابعین)اہل السنۃ والجماعۃ کہلائےجو کہتے تھے کہ اللہ واحد ہے ہمیشہ سے ہے

(التنبيه والرد على أهل الأهواء والبدع ص36)

.

وقال عكرمة...{إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ}: أهل السنة والجماعة

سیدنا عکرمہ فرماتے ہیں جس پر اللہ رحم کرے سے مراد اہل السنۃ و الجماعۃ ہیں

(التفسير البسيط للواحدى11/588)

(الاعتصام 1/92نحوہ)

.

وَكَذَلِكَ الْخَلِيفَةُ الرَّابِعُ وَهُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ سَيْفُهُ فِي الْخَوَارِجِ سَيْفَ حَقٍّ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ , فَأَعَزَّ اللَّهُ الْكَرِيمُ دِينَهُ بِخِلَافَتِهِمْ , وَأَذَلُّوا الْأَعْدَاءَ , وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ , وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ , وَسَنُّوا لِلْمُسْلِمِينَ السُّنَنَ الشَّرِيفَةَ , وَكَانُوا بَرَكَةً عَلَى جَمِيعِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ

یعنی

چوتھے خلیفہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جنہوں سے خوارج سے جہاد کیا، خوارج سے جہاد قیامت تک جاری رہے گا،خوارج وغیرہ ناحق و باطل کے مقابلے میں صحابہ کرام تابعین عظام اہل السنۃ و الجماعۃ تھے

(الشريعة للآجري تحت روایت1176)

.

ما وقعت في الأُمة بذور البدع في الِإرجاء، والقدر، والتشيع

 فتميزت جماعة المسلمين باسم:أَهل  السنة،وأَهل السنة والجماعة

جب

مرجئہ قدریہ شیعہ خوارج وغیرہ باطل فرقے ظاہر ہوے تو مسلمانوں(صحابہ کرام تابعین عظام وغیرہ)نے اپنا نام اہل السنۃ و الجماعۃ رکھ لیا اور اسی سے امتیازیت حاصل کی

(عقيدة السلف -مقدمة أبي زيد القيرواني ص21)

.

1...امام اشعری نے فرمایا

وقال قائلون: وهم أهل السنة  والجماعة: هو في العشرة وهم في الجنة لا محالة.

أهل السنة  والجماعة کہتے ہیں کہ عشرہ مبشرہ قطعی جنتی ہیں...(مقالات الإسلاميين ت زرزور2/352)

.

ٍ2۔۔۔۔امام ترمذی کا فرمان:

وَهَكَذَا قَوْلُ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالجَمَاعَةِ

اسی طرح کا قول ہےأهل السنة  والجماعة کا

(سنن الترمذي ت بشار2/44)

.

3۔۔۔۔۔امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں:

وَهُوَ قَول اهل السّنة وَالْجَمَاعَة

(أبو حنيفة النعمان ,الفقه الأكبر ,page 159)

.

4۔۔۔۔۔امام شیبانی فرماتے ہیں

ثمَّ الْمَذْهَب عِنْد جُمْهُور الْفُقَهَاء رَحِمهم الله من أهل السّنة وَالْجَمَاعَة أَن الْكسْب بِقدر مَالا بُد مِنْهُ فَرِيضَة

جمھور و اکثر فقہاء أهل السنة  والجماعة کا مذہب ہے کہ بقدر ضرورت کمانا فرض ہے

(كتاب الكسب لمحمد بن الحسن الشیبانی ص44)

.


5۔۔۔۔۔۔(اعلم) أن الناجي من هذه الأمة أهل  السنة والجماعة وذلك بفتوى النبي صلّى الله عليه وسلم لما سئل من الناجي قال ما أنا عليه وأصحابي

جان لو کہ

نجات والا فرقہ و جماعت أهل السنة  والجماعة ہی ہے کہ نبی پاک نے فرمایا کہ نجات و جنت والا وہ ہے جو میرا اور میرے صحابہ کا پیروکار ہو

(مفيد العلوم ومبيد الهموم ص66)

.


6۔۔۔۔۔۔وَقَالَتْ طَائِفَةٌ ثَالِثَةٌ وَهُمُ  الْجُمْهُورُ الْأَعْظَمُ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ

جمھور اعظم أهل السنة  والجماعة ہیں

(تعظيم قدر الصلاة لمحمد بن نصر المروزي2/529)

.

7۔۔۔۔۔۔وَأَدْرَكْنَا عَلَيْهِ أَهْلَ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ

انہی عقائد برحقہ پر أهل السنة  والجماعة کو ہم نے پایا

(صريح السنة للطبري ص20)

.

8۔۔۔۔۔۔۔اعلموا رحمنا الله وإياكم أن مذهب أهل الحديث أهل السنة والجماعة الإقرار بالله وملائكته وكتبه ورسله

جان لو کہ

أهل السنة  والجماعة کا عقیدہ ہے کہ اللہ ملائکہ کتب سماوی اور رسولوں پر ایمان لانے کا اقرار کیا جائے

(اعتقاد أئمة الحديث ص49)

.

9۔۔۔۔۔ولكنه شيء لقيت فيه العلماء بمكة والمدينة والبصرة والشام فرأيتهم على السنة والجماعة

یعنی

مکہ مدینہ بصرہ شام وغیرہ ممالک و علاقوں میں أهل السنة  والجماعة سے یہی پایا ہے

(الجامع لعلوم الإمام أحمد3/595ملتقطا)

.

10۔۔۔۔۔وَهَذَا المَذْهَبُ هو الصحيح، وَهُوَ قَوْلُ أهْلِ السنة وَالجَمَاعَةِ

یہی مذہب صحیح ہے جو أهل السنة  والجماعة کا ہے

(شأن الدعاء1/8)

.

11...:وَيَعْصِمَنَا مِنَ الْأَهْوَاءِ الْمُخْتَلِفَةِ وَالْآرَاءِ الْمُتَفَرِّقَةِ وَالْمَذَاهِبِ الرَّدِيَّةِ مِثْلِ الْمُشَبِّهَةِ وَالْمُعْتَزِلَةِ وَالْجَهْمِيَّةِ وَالْجَبْرِيَّةِ وَالْقَدَرِيَّةِ وَغَيْرِهِمْ مِنَ الَّذِينَ  خَالَفُوا السنة والجماعة

یعنی

اللہ کریم ہمیں مشبہ معتزلہ جھمیہ جبریہ قدریہ وغیرہ ردی فرقوں سے بچائے أهل السنة  والجماعة کے ساتھ رکھے

(متن الطحاوية ص87)

.

12....مَعَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ فَارْجُهُ

جو

أهل السنة  والجماعة کے ساتھ ہو اس کے جنتی ہونے کی امید رکھ

(الإبانة الكبرى لابن بطة1/205)

.

13....ألا تُصلِّ إلا خلفَ مَن تَثقُ به وتعلمُ أنَّه مِن أهلِ السُّنةِ والجماعةِ

خبردار

أهل السنة  والجماعة کے ہی پیچھے نماز پڑھنا

(المخلصيات4/82)

.

مذکورہ حوالہ جات سے باخوبی و روز روشن کی طرح ظاہر و ثابت ہوگیا کہ صحابہ کرام تابعین عظام و دیگر اسلاف  اہل السنۃ و الجماعۃ بھی کہلواتے تھے اور حدیث پاک کی روشنی میں قران کی روشنی میں ہم نے یہ بھی ثابت کیا کہ ایسا کوئی لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے جو لفظ مسلمان کی ترجمانی کرے اور اہلسنت والجماعۃ کہلوانا سنی کہلوانا حنفی شافعی حنبلی مالکی ماتریدی اشعری بریلوی نقشبندی قادری سہروردی چشتی وغیرہ بہت کچھ نام استعمال کیے جا سکتے ہیں یہ فرقہ واریت نہیں ہے

۔ 

*#نوٹ*

اگر کوئی سوال کرے کہ مسلمانوں میں اتنے سارے نام ہیں اتنے سارے فرقے ہیں ہم کس کے پیچھے جائیں تو اس کے جواب میں اپ غیر مسلم و مسلم کو کہہ سکتے ہیں کہ یہ نام بطور پہچان ہیں۔۔۔۔یہ سارے کے سارے اہل سنت مسلمان ہیں ان میں سے جس جس کی چاہیں پیروی کریں کوئی حرج نہیں

.

*#ذاکر نائک کا سوال کہ نبی کریم روف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم سنی تھے یا شیعہ تھے یا حنبلی تھے یا شافعی تھے یا حنفی تھے یا مالکی تھے یا دیوبندی تھے یا بریلوی تھے۔۔۔۔؟؟ اس سوال کا جواب ملاحظہ کیجئے*

۔ 

جواب1:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہیں تو کیا ہم بھی رحمة للعالمین کہلوانا شروع کر دیں..... نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عظیم الشان رسول ہیں تو کیا ہم بھی رسول کہلانا شروع کر دیں۔۔۔۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے 99 نام ہیں تو کیا وہ سارے نام ہم اپنے فرقے کے رکھنا شروع کر دیں......؟؟ 

.

جواب2:

دیکھیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ میری امت فرقوں میں بٹے گی سارے فرقے جہنمی ہوں گے سوائے ان کے کہ جو جماعت ہیں جو میری سنت پر عمل کرتے ہیں اور میرے صحابہ کی سنت پر عمل کرتے ہیں

 الحدیث:

وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ، إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً ". قَالُوا : وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : "

 مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بنو اسرائیل کے 72 فرقے ہوئے تھے میری امت 73 فرقوں میں بٹے گی سارے فرقے جہنمی ہیں سوائے ایک جماعت کے۔۔۔۔صحابہ کرام نے عرض کی وہ کون ہیں کہ جو جنت ہی گروہ ہے تو اپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا نجات و حق والا جنتی فرقہ گروہ جماعت وہ ہے جو میرا اور میرے صحابہ کا پیروکار ہو

(سنن الترمذي ت شاكر ,5/26 حديث2641)

(نحوہ فی المستدرك للحاکم,1/218حدیث444)

(نحوہ فی الشريعة للآجري ,1/307حدیث23)

(المعجم الكبير للطبراني ,14/52حدیث14646)

)نحوہ فی الترغيب والترهيب ,1/529)

۔ 

تو اس حدیث پاک میں یہ اشارہ کر کے بتایا جا رہا ہے کہ دوسرے فرقے بھی اپنے اپ کو مسلمان کہیں گے تو تم بھی مسلمان کہلاو گے تو تم میں اور ان میں فرق کیا رہے گا۔۔۔۔۔لوگ پہچان نہ پائیں گے حالانکہ قران مجید میں حکم ہے کہ

القرآن..ترجمہ:

حق سے باطل کو نا ملاو

(سورہ بقرہ آیت42)

۔ 

تو جنتی فرقے اور جہنمی فرقے میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے نام میں فرق ہونا چاہیے تاکہ لوگ نام سے ہی پہچان جائیں کہ کون جنتی ہے کون جہنمی ہے تو جب اہل بدعت جہنمی فرقے اپنا نام مسلمانوں والا رکھنا شروع کر دیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک میں یہ اشارہ ہے ایات میں یہ اشارہ ہے کہ اپ ایسا نام رکھ لیں کہ جو مسلمان ہونے کی بھی طرف اشارہ کرے اور برحق فرقے ہونے کی بھی طرف اشارہ کرے اور اپ ایسا نام بھی رکھ سکتے ہیں جو اپ کی پہچان بن سکے لہذا گویا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اجازت عطا فرما دی کہ اپ حنفی شافعی سنی مالکی حنبلی حنفی ماتریدی اشعری وغیرہ القابات ایسے رکھ سکتے ہیں کہ جو عرف عام میں اس چیز کی نمائندگی ترجمانی کرتے ہوں کہ یہ مسلمانوں کے برحق فرقوں میں سے ہے ۔۔۔۔۔جب رسول کریم کی اجازت اگئی ایات و احادیث سے اجازت ثابت ہو گئی تو پھر یہ سوال کرنا فالتو ہے کہ رسول کریم کیا کہلاتے تھے کیونکہ رسول کریم کے زمانے میں تو جہنمی فرقے نہیں تھے۔۔۔۔۔۔؟؟ 



##############

6⃣ *#چھٹا نظریہ* ذاکر نائیک کہتا ہے:

اسلام عورت اور مرد کی برابری میں یقین رکھتا ہے...قران مجید میں جو ہے کہ مرد قوام ہیں اور انہیں درجہ حاصل ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ذمہ داری میں مرد کو درجہ زدہ حاصل ہے کہ اس کی ذمہ داری زیادہ ہے نہ کہ فضیلت میں....جیسے کہ تفسیر ابن کثیر میں ہے

(حقیقت ذاکر نائک ص301ملخصا)

۔ 

*#جواب۔ و۔ تحقیق۔۔۔۔۔۔۔ !!*

ذاکر نائک صاحب کا یہ نظریہ بھی لزوم کفر و گمراہی پر مبنی ہے.... اور قران مجید کی من مانی تفسیر کرنے کے مترادف ہے تحریف کرنے کے مترادف ہے کیونکہ کسی بھی مفسر نے ایسی تفسیر نہیں کی جو ذاکر نائک نے کی ہے

۔ 

*#پہلی بات*

القرآن:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ

مرد عورتوں پر افسر ہیں کیونکہ اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے

(سورہ نساء ایت34)

ایت میں بالکل واضح ہے کہ عورت اور مرد برابر نہیں ہے فضیلت کے معاملے میں۔۔۔۔بلکہ اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اب اللہ نے کس کو کس پر فضیلت دی ہے؟ مرد کو عورت پر فضیلت دی ہے یا عورت کو مرد پر فضیلت دی ہے یہ مفسرین اور دیگر احادیث و ایات سے قران مجید کے سیاق و سباق سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہاں سے ذاکر نائیک کا دو ٹوک رد ہو گیا کیونکہ وہ فضیلت کا قائل نہیں جب کہ ایت مبارکہ دو ٹوک فضیلت قرار دے رہی ہے

۔ 

کس کو کس پر فضیلت ہے ہم مفسرین سے دکھائیں تو اس سے بہتر یہ ہے کہ اس تفسیر سے دکھائیں جس تفسیر کا ذاکر نائیک صاحب حوالہ دے رہے ہیں یعنی تفسیر ابن کثیر تو لیجئے پڑھیے

۔ 

بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلى بَعْضٍ أَيْ لِأَنَّ الرِّجَالَ أَفْضَلُ مِنَ النِّسَاءِ، وَالرَّجُلُ خَيْرٌ مِنَ الْمَرْأَةِ، وَلِهَذَا كَانَتِ النُّبُوَّةُ مُخْتَصَّةٌ بِالرِّجَالِ، وَكَذَلِكَ الْمُلْكُ الْأَعْظَمُ لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمُ امْرَأَةً» رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ «1» مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِيهِ، وَكَذَا مَنْصِبُ الْقَضَاءِ وَغَيْرُ ذَلِكَ.۔وَبِما أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوالِهِمْ أَيْ مِنَ الْمُهُورِ وَالنَّفَقَاتِ وَالْكُلَفِ الَّتِي أَوْجَبَهَا اللَّهُ عَلَيْهِمْ لَهُنَّ فِي كِتَابِهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَالرَّجُلُ أَفْضَلُ مِنَ الْمَرْأَةِ فِي نَفْسِهِ

امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ایت میں ہے کہ بعض کو بعض پر فضیلت ہے یعنی مرد افضل ہیں عورتوں سے یہی وجہ ہے کہ نبوت خاص ہے مردوں کے ساتھ اور اسی طرح سربراہی منصب وغیرہ بھی خاص ہیں مردوں کے ساتھ کیونکہ حدیث پاک میں ہے بخاری کی حدیث ہے کہ وہ قوم فلاح نہ پائے گی جس نے سربراہی عورت کو سونپی اور فضیلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مرد بہت زیادہ خرچے اٹھاتا ہے بہت زیادہ تکالیف اٹھاتا ہے بہت زیادہ ذمہ داریاں اٹھاتا ہے اور عورت کو اس کے تابع بنایا گیا ہے اس کی ذمہ داری میں دیا گیا ہے اور عورت پر لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ مرد کی اطاعت کرے تو ان تمام چیزوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فی نفسہ مرد افضل ہے عورت سے

(تفسیر ابن کثیر2/256)



.

القرآن

لِلرِّجَالِ عَلَیۡہِنَّ دَرَجَۃٌ ؕ۔۔۔۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ مردوں کو عورتوں پر درجہ حاصل ہے

(سورہ بقرہ ایت228)

.

ذاکر نائک صاحب نے کہا ہے کہ تفسیر ابن کثیر میں بھی ہے کہ ان کو یعنی مردوں کو جو درجہ حاصل ہے وہ درجہ فضیلت میں نہیں بلکہ ذمہ داری میں ایک درجہ زیادہ درجہ حاصل ہے تو ائیے ابن کثیر کی اصل عبارت پڑھتے ہیں

وَقَوْلُهُ وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ أَيْ فِي الْفَضِيلَةِ فِي الْخُلُقِ والخلق وَالْمَنْزِلَةِ وَطَاعَةِ الْأَمْرِ وَالْإِنْفَاقِ وَالْقِيَامِ بِالْمَصَالِحٍ وَالْفَضْلِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ،

علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ مردوں کو ایک درجہ حاصل ہے یعنی خلق میں ایک درجہ حاصل ہے فضیلت میں منزلت میں معاملے کی اطاعت میں خرچ کرنے میں ذمہ داری اٹھانے میں ایک درجہ حاصل ہے اور دنیا اور اخرت میں مردوں کو فضیلت میں ایک درجہ حاصل ہے

(تفسیر ابن کثیر1/459)

 اپ دیکھ سکتے ہیں تفسیر ابن کثیر میں دو ٹوک الفاظ میں لکھا ہے کہ دنیا اور اخرت میں مجموعی طور پر مردوں کو فضیلت حاصل ہے افضلیت حاصل ہے ہم نے سنا تھا کہ ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب حوالہ جلد نمبر وغیرہ سب کچھ بتا دیتے ہیں لیکن اس میں وہ بات ہوتی نہیں ہے اس کا ایک نمونہ تو ادھر اپ نے دیکھ لیا باقی اللہ ہی بہتر جانتا ہے

.

.##############

7⃣ *#ساتواں نظریہ*

ایک سوال ہوا کہ کیا حضور انتقال فرما گئے ہیں یا زندہ ہیں جیسے شہید زندہ ہیں ذاکر نائک جواب میں کہتے ہیں شہید دنیا میں زندہ نہیں بلکہ اخرت میں زندہ ہیں جسمانی لحاظ سے حضور وفات پا چکے ہیں اور زندہ نہیں ہیں

(حقیقت ذاکر نائیک ص349)

.

*#جواب و تحقیق۔۔۔۔۔۔ !!*

ذاکر نائک کے جواب سے واضح ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شہید کے طرح زندہ ہیں یعنی اخرت میں زندہ ہیں جسمانی لحاظ سے وفات پا چکے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کا مقصد ہے کہ قبر مبارک میں رسول کریم کا جسم مبارک زندہ نہیں ہے ۔۔۔۔کسی بھی نبی کا جسم مبارک زندہ نہیں ہے بلکہ وہ اخرت میں زندہ ہیں جیسے شہید اخرت میں زندہ ہیں..... ذاکر نائک کا یہ عقیدہ بھی لزوم کفر اور گمراہ کن ہے کیونکہ ایات و احادیث و دیگر دلائل کی بنیاد پر علمائے اہل سنت علماء اسلام کا اجماع ہے کہ انبیاء کرام کی حیات جسم مبارک کے ساتھ تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور تواتر کا انکار کرنا اجماع کا انکار کرنا لزوم کفر و گمراہی ہے

الحدیث:

①مررت - على موسى ليلة أسري بي عند الكثيب الأحمر، وهو قائم يصلي في قبره

ترجمہ:

(نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ) معراج کی رات میں موسی علیہ السلام کے پاس سے گذرا، وہ کثیب احمر کے نزدیک اپنی قبر مبارک میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے

(صحیح مسلم حدیث2375)

.

②معراج کی رات انبیاء کرام سے ملاقات کرنا اور انبیاء کرام کا مرحبا کہنا اور پھر حضرت موسی علیہ السلام کا رونا اور نمازیں کم کروانے کا مشورہ دینا، یہ سب حدیث پاک میں ہے جسکو امام بخاری نے بھی روایت کیا ہے

(دیکھیے صحیح بخاری حدیث نمبر3887)

.

③الحدیث:

دخلت بيت المقدس فجمع لي الأنبياء عليهم السلام , فقدمني جبريل حتى أممتهم

ترجمہ:

(نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہین کہ معراج کے سفر کے دوران) میں بیت المقدس(جو فلسطین میں ہے) داخل ہوا تو میرے لیے انبیاء کرام علیھم السلام کو جمع کیا گیا اور جبرائیل نے مجھے آگے کر دیا حتی کہ میں نے تمام انبیاء کرام کو نماز پڑھائی(جماعت کرائی)

(سنن نسائی حدیث450)

.

④الحدیث:

إن الله عز وجل حرم على الأرض أجساد الأنبياء


بے شک اللہ عزوجل نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انیباء کرام کے جسموں کو کھائے...(ابو داؤد حدیث 1047)

یہ حدیث پاک ایک نہین بلکہ بہت ساری کتابوں میں موجود ہے حتی کہ انہیں کے محدث وقت البانی کو بھی اقرار کرنا پڑا کہ یہ حدیث صحیح ہے

.

⑤ایک اور حدیث پاک میں مزید وضاحت ہے کہ

الحدیث:

وبعد الموت، إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء، فنبي الله حي يرزق


میری وفات کے بعد بھی تمھارا درود مجھ تک پہنچے گا کیونکہ بے شک اللہ عزوجل نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انیباء کرام کے جسموں کو کھائے، تو اللہ عزوجل کے انبیاء کرام وفات کے بعد بھی زندہ ہوتے ہیں، رزق دیے جاتے ہیں

(ابن ماجہ حدیث1638)

یہ حدیث پاک بھی کئ کتابوں مین موجود ہے....نجدیوں سے پہلے کے مستند علماء نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے، اسلام کو آئے ہوئے کوئی چودہ سو سال ہوئے ہیں جبکہ نجدی تو کوئی دو سو سال کی پیداوار ہیں، ان سے پہلے کے علماء کرام نے اس حدیث پاک کی سند کے متعلق لکھا ہے کہ:

وقال المنذرى رواه ابن ماجه بإسناد جيد. وقال المناوى قال الدميرى: رجاله ثقات

ترجمہ:

امام منذری فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے جسکی سند جید(بہترین) ہے اور امام مناوی نے امام دمیری کے حوالے سے لکھا کہ اس حدیث کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں(لیھذا یہ حدیث ضعیف نہیں)

(حاشیہ جامع الاحادیث 5/375)

۔ 

*#اہم_نوٹ*

ان احادیث مبارکہ میں غور کیجئے ...کسی حدیث پاک میں ہے کہ انبیاء کرام قبروں میں زندہ ہیں رزق دیے جاتے ہیں نماز پڑھتے ہیں اور کسی حدیث پاک میں ہے کہ رسول کریم نے سب انبیاء کرام کو بیت المقدس پہ نماز پڑھائی اور ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ ہر اسمان پہ نبی کریم کی ملاقات کسی نہ کسی نبی سے ہوئی.... اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام قبروں میں زندہ ہیں لیکن قبروں میں قید نہیں ہیں ..... وہ جب چاہیں جس وقت چاہیں اللہ کے حکم سے کسی بھی جگہ جا سکتے ہیں، رہ سکتے ہیں

.

حياة الأنبياء في قبورهم قال السيوطي في مرقات الصعود تواترت بها الأخبار وقال في أنباء الأذكياء بحياة الأنبياء ما نصه حياة النبي صلى الله عليه وسلم في قبره وسائر الأنبياء معلومة عندنا علماً قطعياً لما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت به الأخبار الدالة على ذلك

ظاہری وفات کے بعد قبر مبارک میں انبیاء کرام اپنے جسموں کے ساتھ زندہ ہیں یہ نظریہ متواتر ہے جیسے کہ امام سیوطی بھی فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسی طرح دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کا قبروں میں زندہ ہونا قطعی علم کے ساتھ ثابت ہے کیونکہ اس متعلق دلائل قطعی متواتر ہیں

(نظم المتناثر ص126)

.

وفي "المحيط": من أنكر الأخبار المتواترة في الشريعة كفر، "شرح فقه أكبر" ونحوه في "الهندية" عن الظهيرية. وتوارده الأصوليون في باب السنة، . فصار منكر المتواتر ومخالفه كافراً. "أصول بزدوى" و"الكشف".مأخوذ من "الفتح

قران اور احادیث سے یہ قاعدہ اصول ثابت اور متفقه بین المعتبرین ہے کہ: جو شخص شرعی متواتر کا انکار کرے تو اس سے کفر لازم اتا ہے ایسا ہی کچھ لکھا ہے محیط میں شرح فقہ اکبر میں فتاوی عالمگیری میں فتوی ظہیریہ میں اصول بزدوی میں کشف میں جیسے کہ فتح القدیر میں دیکھا جا سکتا ہے اور ایسا ہی کچھ قاعدہ قانون اصولی علماء نے اپنی کئ کتب میں جا بجا لکھا ہے

(إكفار الملحدين في ضروريات الدين ص65ملخصا)

.

.#############

8⃣ *#اٹھواں نظریہ*

ذاکر نائیک سے سوال ہوتا ہے کہ اخر کار ( یعنی سزا بھگت کر) مسلمان جنت چلا جائے گا۔۔۔۔؟؟ ڈاکٹر ذاکر نائک کہتے ہیں کوئی بھی قران کا لفظ نہیں نہ حدیث میں ہے۔۔۔۔قران میں لکھا ہے سورہ عصر میں کہ چار چیزیں ہونا شرط ہیں 

ایمان۔۔۔۔نیک اعمال۔۔۔۔حق کی تلقین ۔۔۔۔صبر کی تلقین

(حقیقت ذاکر نائیک355)

.

*#جواب و تحقیق۔۔۔۔۔۔۔!!*

ذاکر نائک نے قران مجید کی غلط تشریح کر کے تحریف معنوی کا ارتکاب کیا ہے اور کئی احادیث کو جھٹلایا ہے بلکہ دیکھا جائے تو ایتوں کو بھی جھٹلایا ہے لہذا یہ ذاکر نائک کا سراسر کفریہ نظریہ ہے میں نے ذاکر نائک کی اس متعلق ایک ویڈیو بھی یوٹیوب پے دیکھی وہاں بھی اس نے کچھ ایسا ہی کہا کہ گویا یہ چار پیپر پاس کرنا شرط ہے اگر ایک پیپر میں بھی فیل ہو گیا تو اس کے لیے جنت نہیں ہے اگر ایک پیپر نیک عمل نہیں اگرچہ ایمان ہو وہ جنت نہیں جائے گا اسی طرح وہ کہتا ہے کہ جنت جانے کے لیے چار پیپر کا میں پاس ہونا ضروری ہے ایمان ہونا پہلا پیپر ۔۔۔۔۔دوسرا پیپر نیک اعمال تیسرا پیپر حق کی تلقین۔۔۔۔چوتھا پیپر صبر کی تلقین

حالانکہ

قران اور احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جنت کے لیے ایک شرط ہے اور وہ ہے ایمان لانا باقی نیک اعمال کرنا شرط نہیں حتی کہ گناہ گار سزا پا کر جہنم میں سزا پا کر اللہ کی مرضی سے یا شفاعت سے اخر کار جنت ضرور جائے گا۔۔۔۔۔اگر نیک اعمال شرط ہوتے تو وہ کبھی بھی جنت نہ جا پاتا حتی کہ علماء نے دو ٹوک فرمایا ہے کہ گنہگار مسلمان جس نے نیک اعمال نہ کیے ہوں( نہ صبر کی تلقین کی ہو ناحق کی تلقین کی ہو تو) اگرچہ اسے ان کرتوتوں کی سزا ملے گی مگر اخر کار جنت میں ضرور جائے گا یہ متواتر ایات و احادیث سے ثابت ہے جسکا انکار کفر و گمراہی ہے


ہُوَ الَّذِیۡۤ  اَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ  فِیۡ  قُلُوۡبِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ  لِیَزۡدَادُوۡۤا  اِیۡمَانًا مَّعَ اِیۡمَانِہِمۡ ؕ وَ لِلّٰہِ  جُنُوۡدُ  السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ  کَانَ اللّٰہُ  عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا.....لِّیُدۡخِلَ  الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ  مِنۡ تَحۡتِہَا  الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا

اللہ کریم فرماتا ہے کہ اللہ تو وہ عظیم ذات ہے کہ جس نے سکینہ کو نازل کیا مومنین کے دلوں میں تاکہ ان کا ایمان بڑھ جائے تاکہ اللہ تعالی مومنوں کو جنت میں داخل کرے

(سورہ فتح ایت4۔ 5)

اس ایت مبارکہ میں جنت میں داخل کرنے کے لیے ایمان کے علاوہ کوئی شرط نہیں رکھی گئی جبکہ ذاکر نائک ایت کی غلط تشریح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جنت میں جانے کے لیے دیگر تین شرائط اور بھی ہیں

.

 أَنَّ الْجَنَّةَ لَا يَدْخُلُهَا إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں صرف مسلمان ہی داخل ہوں گے

بخاری حدیث6528

 مسلم حدیث221

۔ 

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يُنَادِيَ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ : أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَهِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ تشریق کے دن کھانے پینے کے دن ہیں اور سنو مومن کے علاوہ کوئی جنت نہیں جائے گا

نسائي حديث4994

۔ 

أَتَانِي آتٍ مِنْ رَبِّي فَأَخْبَرَنِي " أَوْ قَالَ : " بَشَّرَنِي أَنَّهُ : مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ ". قُلْتُ : وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ ؟ قَالَ : " وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے مجھے بشارت ملی کہ جو ایمان لائے گا شرک نہ کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے کہا کہ اگرچہ وہ زنا کرے چوری کرے تو کہا ہاں وہ اخر کار جنت جائے گا اگرچہ اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہو

بخاری حدیث1237

اس قسم کی کئ احادیث اور بھی بہت ساری کتب میں موجود ہیں

.

ان احادیث شریف میں بھی ایمان کے علاوہ کسی اور چیز کو شرط قرار نہیں دیا گیا اگرچہ حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں نیک اعمال کی ضرورت نہیں بلکہ دیگر احادیث میں ہے کہ جو نیک اعمال نہیں کرے گا برے اعمال کرے گا اسے سزا ملے گی لیکن سزا کے بعد سزا بھگتنے کے بعد اللہ کی رحمت سے اللہ کے وعدے کے تحت وہ جنت میں ضرور جائے گا بلکہ اللہ اللہ چاہے تو اسے اپنی رحمت خاصہ سے بخش دے یا مومنوں کی شفاعت سے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے اسے بخش دے اور جہنم سے نکال کر جنت میں داخل فرما دے

.



يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ،

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے کلمہ پڑھا یعنی ایمان لایا وہ جہنم سے نکال دیا جائے گا جنت میں داخل کر دیا جائے گا

(بخاری حدیث44)

۔ 

أَخْرِجُوا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ

جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو اس کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دو

(بخاری حدیث22)

۔ 

اس قسم کی اور بھی بہت ساری احادیث بہت ساری کتب میں موجود ہیں


ان احادیث پاک میں دو باتوں کا ذکر ہے ایک یہ کہ گناہوں کی وجہ سے زنا چوری شراب نوشی وغیرہ گناہوں کی وجہ سے نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے مختلف گناہوں ظلموں کرتوتوں کی وجہ سے مسلمان جہنم کی سزا پائے گا لیکن سزا بھگتنے کے بعد وہ جنت میں ضرور جائے گا

.


وقد تواترت النصوص بأنَّ العصاة من الموحدين مآلهم إلى الجنّة

اور متواتر نصوص و احادیث ہیں کہ ایمان والے مگر گنہگار ہوں تو وہ اخر کار جنت ہی جائیں گے

كتاب طريق الهجرتين وباب السعادتين1/413

.

- ذكر السيوطي وغيره أنها متواترة وفي مطالع المسرات ما نصه وأما العصاة من المؤمنين فالأحاديث في عدم تخليد المؤمن العاصي في النار زائدة على حد التواتر

گنہگار مومنین کا جنت میں جانا اور جہنم میں ہمیشہ نہ رہنا متواتر سے بھی زیادہ بڑھ کر اس کے متعلق احادیث و ایات ہیں

كتاب نظم المتناثر ص240

.

وفي "المحيط": من أنكر الأخبار المتواترة في الشريعة كفر، "شرح فقه أكبر" ونحوه في "الهندية" عن الظهيرية. وتوارده الأصوليون في باب السنة، . فصار منكر المتواتر ومخالفه كافراً. "أصول بزدوى" و"الكشف".مأخوذ من "الفتح

قران اور احادیث سے یہ قاعدہ اصول ثابت اور متفقه بین المعتبرین ہے کہ: جو شخص شرعی متواتر کا انکار کرے تو اس سے کفر لازم اتا ہے ایسا ہی کچھ لکھا ہے محیط میں شرح فقہ اکبر میں فتاوی عالمگیری میں فتوی ظہیریہ میں اصول بزدوی میں کشف میں جیسے کہ فتح القدیر میں دیکھا جا سکتا ہے اور ایسا ہی کچھ قاعدہ قانون اصولی علماء نے اپنی کئ کتب میں جا بجا لکھا ہے

(إكفار الملحدين في ضروريات الدين ص65ملخصا)

.

ذاکر نائیک کی مستدل ایت کی تشریح تفسیر وہ نہیں کہ جو ذاکر نائک نے بیان کی کہ جنت کے لیے چار شرطیں ہیں

 ایمان۔۔۔نمبر دو نیک اعمال۔۔۔نمبر تین نیکی کی دعوت۔۔۔۔نمبر چار صبر کی تلقین

بلکہ

ایات و احادیث کی روشنی میں اس ایت مبارکہ کی تشریح یہ ہے تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ دنیا میں معاشرتی بھلائی کے لیے خسارے سے بچنے کے لیے دنیا میں یہ چار چیزیں لازمی ہیں ایمان لانا نیک اعمال کرنا نیکی اور حق کی دعوت دینا صبر کی تلقین کرنا یا یہ چار چیزیں دنیا میں دنیا کی اصلاح معاشرتی اصلاح معاشرتی فلاح کے لیے لازمی ہے جنت کے لیے یہ چار چیزیں شرط نہیں ہیں

۔ 

وكان عليّ رضى الله عنه يقرأ ذلك: (إنَّ الإنْسانَ لَفِي خُسْر وإنه فيه إلى آخر الدهر

سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ انسان خسارے میں ہے یعنی دنیا میں سارا وقت اس کا خسارے میں گزرے گا اگر وہ چار اعمال نہ کرے گا

(تفسیر طبری24/589)

۔ 

إِنَّ الإنسان لَفِى خُسْرٍ} أيْ خُسرانٌ في متاجرِهم ومساعيهم وصرفِ أعمارِهم

چار اعمال کے بغیر انسان خسارے میں ہے اس کا معنی ہے کہ دنیا کے اندر تجارت میں خسارہ ہوگا عمر گزارنے میں خسارہ ہوگا نقصان ہوگا معاشرتی نقصان ہوگا( ہاں اگر یہ چار چیزیں کی جائے تو نقصان سے بچا جا سکتا ہے سوائے یہ کہ اللہ تعالی امتحان کے لیے کوئی ازمائش فرمائے)

تفسیر ابی سعود9/197)

۔

 لَفِي نَقْصٍ وَضَلَالٍ عَنِ الْحَقِّ حَتَّى يَمُوتَ

یعنی انسان ان چار چیزوں پر عمل نہ کرے گا تو وہ گمراہی میں ہوگا یہاں تک کہ مر جائے گا

(تفسیر شوکانی5/600)

۔ 

ان تفاسیر میں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ معاشرے کی بھلائی کے لیے دنیا میں یہ چار چیزیں ضروری ہیں ۔۔۔۔۔یہ نہیں کہ جنت میں جانے کے لیے چار شرائط ہیں

.

.##############

9⃣ *# ناواں نظریہ*

یوٹیوب پے

Zakir Naik - Hazrat Mohammad ko maan'na haraam hai

لکھ کر سرچ کریں تو اس میں ذاکر نائیک کی ویڈیو ا جائے گی جس میں وہ کہتا ہے کہ حدیث پاک میں ہے کہ قبر کو مٹا کر زمین کے برابر کر دو۔۔۔۔۔زمین کے لیول کر دو..... مطلب نعوذ باللہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ گنبد مبارک بھی گرا کر اس کو زمین کے برابر۔۔۔۔زمین بوس کر دینا لازمی ہے نعوذ باللہ تعالی

.

*#جواب و تحقیق۔۔۔۔۔۔۔!!*

قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسَنَّمًا

ترجمہ:

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک مسنم یعنی اونٹ کے کوہان کی طرح کم و بیش ایک بالشت بلند تھی 

(بخاري روایت1390)

.

صحابہ کرام نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو کم و بیش ایک بالشت زمین سے بلند کیا اگر قبر کو زمین کے برابر کرنے کا حکم ہوتا تو صحابہ کرام یہ کام نہ کرتے

۔

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُشَّ عَلَى قَبْرِهِ الْمَاءُ، وَوُضِعَ عَلَيْهِ حَصْبَاءُ مِنْ حَصْبَاءِ الْعَرْصَةِ، وَرُفِعَ قَبْرُهُ قَدْرَ شِبْرٍ

ترجمہ:

بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر پانی چھڑکا گیا اور ان کی قبر مبارک پر چھوٹی چھوٹی کنکریاں رکھی گئی اور اور نبی پاک کی قبر مبارک زمین سے کم و بیش ایک بالشت بلند کی گئی  

(سنن کبری بیہقی حدیث6737)

.

رَأَيْت قَبْرَرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شِبْرًا أَوْ نَحْوَ شِبْرٍ

ترجمہ:

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو دیکھا وہ ایک بالشت یا کم و بیش ایک بالشت زمین سے بلند تھی 

(تلخیص الحبیر روایت790)

.

نبی پاک کے زمانے مبارک میں جو مسلمان ، صحابی وفات پاتا ان کی قبر کو بھی کم و بیش ایک بالشت بلند کیا جاتا جیسا کہ شہداء احد کی قبروں کو ایک بالشت بلند کیا گیا

.


وقد كانت القبور في عهد النبي صلى الله عليه وسلم ترفع عن الأرض قدر شبر،

ويرفع قدر شبر تقريبا هذه هي السنة في القبور

ترجمہ:

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں مسلمانوں کی قبریں ایک بالشت کے قریب قریب بلند ہوتی تھی اور سنت بھی یہی ہے کہ قبر تقریبا ایک بالشت بلند ہو 

(مجموع فتاوی ابن باز 221 ، 13/313)

.

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: «رَأَيْت ُقُبُورَ شُهَدَاءِ أُحُدٍ

جُثًى مُسَنَّمَةً

شہدائے احد کی قبور مسنم(اونٹ کی کوہان کی طرح زمین سے کم و بیش ایک بالشت اوپر )تھیں

( المصنف استاد بخاری روایت11736)

شہدائے احد کی قبریں اتنی اونچی تھی ظاہر سی بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق ان کو اس طرح دفنایا گیا ان کی قبر کو اتنا اونچا کیا گیا جبکہ ذاکر نائک حدیث کی غلط تشریح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ زمین بوس کر دو قبروں کو۔۔۔۔ 

.


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد کی قبر پر پانی چھڑکا..(ابن ماجہ حدیث1551)

.

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے کی قبر کے اوپر کنکریاں ڈالیں...(سنن کبری حدیث6740)

۔

یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے جابجا لکھا ہے کہ قبر کو مسنم یا مسطح یا مربع جو بھی ہو لیکن ایک بالشت زمین سے بلند کیا جائے 

۔

ويسنم القبر) مرتفعا قدر أربع أصابع أو شبر؛ لما روى البخاري في صحيحه عن ابن عباس أنه رأى قبر النبي - صلى الله عليه وسلم - مسنما،

قبر کو مسنم کیا جائے گا یعنی چار انگل برابر یا ایک بالشت زمین سے بلند کیا جائے گا کیونکہ امام بخاری نے سیدنا ابن عباس سے روایت کی ہے کے سیدنا ابن عباس نے نبی پاک کی قبر مبارک مسنم یعنی زمین سے تقریبا ایک بالشت بلند دیکھی

الاختیار1/96

.

ومقدار التسنيم أن يكون مرتفعا من الأرض قدر شبر، أو أكثر قليلا.

قبر کے مسنم ہونے کی مقدار یہ ہے کہ زمین سے ایک بالشت یا ایک بالشت سے تھوڑا اوپر ہو 

1/320 بدائع

۔

۔

ان تمام حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ رسول کریم کی قبر مبارک اور صحابہ کرام کی قبور مبارک خود صحابہ کرام نے ایک ایک بالشت کے قریب قریب بلند کی صحابہ کرام نے یہ عمل اپنی طرف سے تو نہیں کیا ہوگا بلکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت و اجازت سے کیا ہوگا تو ثابت ہوا کہ قبروں کو کم از کم ایک بالشت بلند ہونا چاہیےیہی سنت ہے۔۔۔۔۔ اور قبر مبارک پر چڑھنا یا اسے مٹانا اسے اذیت دینا ہے جیسے کہ حدیث پاک میں ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے متعلق کہنا کہ اس کو زمین کے برابر کیا جائے یا اولیاء کرام کی قبر کے متعلق کہنا کہ ان کو زمین کے برابر کیا جائے تو یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینا ہے اور اولیاء کرام کو اذیت دینا ہے جس سے کفر لازم اتا ہے اور گمراہی لازم اتی ہے

۔

اب آئیے اس روایت کا جائزہ لیتے ہیں جس میں ہیں کہ قبر کو برابر کر دیا جائے 

حدثنا يحيى بن يحيى ، وابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، قال يحيى: اخبرنا، وقال الآخران: حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن حبيب بن ابي ثابت ، عن ابي وائل ، عن ابي الهياج الاسدي ، قال: قال لي علي بن ابي طالب : " الا ابعثك على ما بعثني عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ ان لا تدع تمثالا إلا طمسته، ولا قبرا مشرفا إلا سويته "

ترجمہ:

‏‏‏‏ ابی الھیاج اسدی رحمہ اللہ نے کہا: مجھ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم کو بھیجتا ہوں اس کے لئے جس کے لیے مجھ کو بھیجا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کہ نہ چھوڑ کوئی تصویر(بت مجسمہ)مگر مٹا دے اس کو اور نہ چھوڑ کوئی بلند قبر مگر اس کو برابر کر دے...(صحیح مسلم حدیث2243)

۔

اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ زمین کے برابر کر دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ برابر کر دیا جاے اس کا ایک مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ عام قبروں کے مطابق ایک بالشت کے برابر کردیا جائے یا پھر اگر اس حدیث کا معنی زمین بوس کر دینا لیا جائے تو یہ حکم کفار کی قبروں کے متعلق ہے نہ کہ مسلمانوں کی قبروں کے  

۔

نبی پاک کے زمانے مین مسلمانوں کی تدفین اور دیگر معاملات کو آپ علیہ السلام کی ہدایات کے تحت ہوتی تھیں پھر مسلمانوں کی اس وقت قبریں اونچی کیسی ہوگئیں..؟؟

کیا نعوذ باللہ رسول کریم یا صحابہ نے اسلام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلند قبریں بنوائیں اور پھر خود ہی انکو گرانے کا حکم دیا...؟؟

.

 تو پھر حضرت علی کو ایسا حکم غیرمسلموں کی قبروں کے بارے مین تھا یا مسلمانوں کی...؟؟

.

کہین ایسا تو نہین کہہ کافروں کی قبروں کے بارے مین جو حکم تھا خوارج کی طرح اسے مسلمانوں پر فٹ کیا گیا.........؟؟

.

امره عليه السلام عليا (ان لا يترك قبرا مشرفا الا سواه ولا تمثالا الا طمسه) - قلت - الظاهر ان المراد قبور المشركين بقرينة عطف التمثال عليها وكانوا يجعلون عليها الانصاب والابنية فاراد عليه السلام ازالة آثار الشرك

وكذا حديث علي لا تترك قبرا مشرفا

الا سويته اي سويته بالقبور المعتادة 

رفعها مسنمة قدر شبر على ما عليه عمل المسلين في ذلك

خلاصہ: 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حضرت علی کو حکم دیا کی قبروں کو برابر کردیا جائے  اور مجسموں کو تصویروں کو ڈھا دیا جائے تو یہ حکم مشرکین کی قبر کے لئے تھا

یا

یا پھر اس حکم کا معنی یہ ہے کہ قبروں کو عام قبور کے مطابق ایک بالشت برابر کردیا جائے 

الجوہر النقی4/4)

روایات اور اس وضاحت سے ثابت ہوگیا اور دیگر احادیث سے ثابت ہوگیا کے مسلمانوں کی قبروں کو زمین بوس نہ کیا جائے بلکہ ایک بالشت بلند کیا جائے یہی سنت ہے حتی کہ بعد کے نجدیوں نے بھی اسے سنت کا اقرار کیا ہے...

.

شیخ ابن باز نجدی لکھتا ہے

ويرفع قدر شبر تقريبا هذه هي السنة في القبور

نعم القبور لا بأس أن ترفع قدر شبر كما ثبت من حديث

أما حديث علي وما جاء في معناه فالمراد به الإشراف الزائد على هذا

ترجمہ:

قبروں میں سنت یہ ہے کہ تقریبا ایک بالشت زمین سے بلند ہوں جیسا کہ حدیث پاک سے ثابت ہے اور وہ جو حضرت علی والی حدیث ہے کہ قبروں کو برابر کردو تو اس کا معنی یہ ہے کہ ایک بالشت سے زیادہ ہو تو ایک بالشت کے برابر کردو 

(مجموع فتاوی ابن باز4/329 +ویب سائیٹ)

۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کی قبر کے سرہانے بڑا پتھر رکھا اور فرمایا: یہ نشانی کے لیے ہے

(ابوداؤد حدیث3206)

اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ قبر کے قریب میں نشانی کے لیے کچھ رکھا جا سکتا ہے یا لکھا جاسکتاہے وہ جو لکھنے کی ممانعت حدیث میں ہے وہ قبر کے اوپر لکھنے کی ممانعت ہے یا نشانی کے علاوہ کتابت کی ممانعت ہے

.

الحدیث:

انزل من القبر لا تؤذ صاحب القبر ولا يؤذيك

قبر سے اتر جا، قبر والے کو اذیت نا پہنچا اور وہ تجھے اذیت نہین پہنچائے..

(صحیح مستدرک حاکم حدیث6502

طبرانی..شرح معانی الاثار.. مجمع الزوائد.. مسند احمد.. مرقات.. معالم السنن... وغیرہ بہت کتب میں یہ حدیث موجود ہے) اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ مردے سنتے ہیں اور وہ مدد کر سکتے ہیں اذیت پہنچا سکتے ہیں تو لہذا ان سے اگر مدد طلب کی جائے کہ اپ اللہ کی بارگاہ میں ہمارے لیے دعا کریں تو بے شک غلط نہ ہوگا

.

اس حدیث پاک سے دو باتین نہایت واضح ہوتی ہیں کہ

1:قبر والے کو بھی اذیت ہوتی ہے

2:مردہ اذیت بھی پہنچا سکتا ہے

مر کھپ گئے، مٹی مین مل گئے کہنا بدعت ہے... اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے... اسلام قبرپرستی سے روکتا ہے مگر قبروں کا احترام بھی سکھاتا ہے..

.

علامہ ابن حجر فرماتے ہیں

اسنادہ صحیح...یعنی اس حدیث کی سند صحیح ہے

(فتح الباری3/225)

.

امام بخاری کے استاد فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس کا فرمان ہے کہ:

أذى المؤمن في موته كأذاه في حياته

مردے کو اذیت.و.تکلیف دینا ایسے ہے جیسے اسے زندہ حالت مین اذیت پہنچانا...

(المصنف روایت نمبر 11990)

.

اور بھی بہت احادیث بلکہ آیات سے یہ بات ثابت ہے... علماء نے اس پر رسائل اور کتابیں لکھی ہیں...

حتی کہ نجدی علماء بھی احترامِ مقابر کا لکھ گئے..

.

ابن قییم جوزی لکھتا ہے:

وکان ھدیہ ان لاتھان القبور و توطا وان لایجلس علیھا ویتکاء علیھا

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں مین سے ہے کہ قبروں کی توہین نا کی جائے اور نا ہی ان پر چلا جائے، نا قبروں پر بیٹھا جائے اور نا ہی ٹیک لگائی جائے

(زاد المعاد1/524)


۔ #################

🔟 *#دسواں نظریہ*


ایک پروگرام گفتگو میں کسی نے سوال کیا کہ بخاری شریف میں ہے کہ قہط پڑا تو لوگوں نے حضرت عباس بن عبدالمطلب کو لے جا کر وسیلہ دیا اور کہا کہ جب اپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے تو ہم ان کا وسیلہ دیتے تھے جواب میں ذاکر نائک صاحب کہتے ہیں قران اور صحیح حدیث میں وسیلہ کرنے کا ذکر نہیں

(حقیقت ذاکر نائیک ص359)

.

ذاکر نائک کہتا ہے کہ اپ مزار پر جائیں درگاہ پر جائیں اس کے لیے دعا کریں لیکن اس کے ذریعے سے دعا نہ کرے اور اس سے دعا نہ کریں یعنی اس کے ذریعے سے دعا کرنا یعنی وسیلہ نہ بنائیں اور اس سے دعا نہ کریں یعنی اس کو کچھ عرض نہ کریںzakir zaik dargah mazar لکھ کر یوٹیوب پہ ویڈیو سرچ کریں ویڈیو دیکھیں ذاکر نائک کی ایسی ہی بات اس نے کی ہے

.

*#جواب و تحقیق۔۔۔۔۔۔۔!!*

ذاکر نائک کی کھوپڑی میں بات عقل میں بات نہ ائی تو سیدھا سیدھا صحیح حدیث بخاری کی مشہور حدیث کا انکار کر ڈالا بلکہ وسیلے کی تمام احادیث کا انکار کر ڈالا۔۔۔۔اس لیے تو ہم نے شروع میں لکھا ہے کہ جو فقط محض اپنی عقل پر چلے ایات و احادیث بھی وہی مانے جو اس کی عقل میں ائے تو ایسے شخص کو جوتے مارتے ہوئے شہروں میں گھمایا جائے

۔

وسیلہ

مثلا:

کسی نیک صالح مومن سید عالم مفتی صوفی والدین بیمار مسافر وغیرہ سے عرض کرنا کہ میرے لیے اللہ سے دعا کیجیے کہ فلاں کام ہوجائے.. فلاں حاجت پوری ہوجائے...ایسا کرنا جائز ہے...شرک و بدعت نہیں

مثلا:

کسی مسجد یا گھر یا کہیں بھی بیٹھ کر دعا کرنا کہ یا اللہ فلاں فلاں زندہ یا وفات شدہ تیرے پیاروں کا واسطہ ہماری دعا قبول فرما، ہماری فلاں حاجت پوری فرما..ایسا کرنا جائز ہے...شرک و بدعت نہیں

مثلا:

کسی مزار پے حاضر ہوکر دعا اللہ سے کرنا اور صاحب مزار کا واسطہ وسیلہ دینا بھی جائز ہے...شرک بدعت نہیں، مزار والے اللہ کے پیارے سے عرض کرنا کہ اللہ سے دعا فرمائیے کہ میری فلاں حاجت پوری ہوجائے...یہ بھی جائز ہے ، شرک بدعت نہیں

مثلا:

اللہ سے دعا کرنا اور نیک اعمال نیک بندوں کا واسطہ وسیلہ دینا بھی جائز ہے...شرک بدعت نہیں

.

*#تفصیل.......!!*

وسیلے پر علماء اہلسنت  نے باقاعدہ رسائل و کتب لکھے ہیں انکا مطالعہ کیجیے، نفع عام کے لیے، تبرک و ثواب کے لیے، شعور پھیلانے کے لیے ہم بھی تقریبا 20 دلائل لکھ رہے ہیں، ملاحظہ کیجیے,saveکر لیجیے یا شیئر لیجیے پھر وقت ملنے پر اطمینان و غور سے بلاتعصب پڑہیے، ہوسکے تو مناسب لائک کمنٹ کیجیے کہ اس سے تحریر زیادہ پھیلتی ہے

.

*#وسیلے کا فائدہ......؟؟*

دعا کے لیے وسیلہ فرض واجب نہیں...وسیلے کے بغیر بھی دعا کر سکتے ہیں لیکن وسیلے سے دعا کرنا سنت ہے انبیاء کرام کی صحابہ کرام اور اولیاء و اسلاف کی.....!! دعا میں وسیلے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ:

تقديمَ الوسيلةِ على المسئول أدعى إلى الإجابة والقبول

دعا میں وسیلہ کو مقدم کرنے سے زیادہ امید ہے کہ دعا جلد قبول ہوگی 

(تفسير أبي السعود ,1/276)

.===============


*#دلیل 1⃣ *

القرآن:

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ  اِلٰی رَبِّہِمُ الۡوَسِیۡلَۃَ

وہ اللہ کے مقرب و نیک بندے اور دیگر جنکی عبادت کی جاتی ہے وہ تو خود اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں(تو بھلا وہ معبود کیسے ہوسکتے ہیں وہ تو خود اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں)

(سورہ بنی اسرائیل آیت57)

.

وأكثر العلماء: هم عيسى وأمه وعزير والملائكة عليهم السلام والشمس والقمر والنجوم

اکثر علماء نے یہ فرمایا ہے کہ کے وسیلہ تلاش کرنے والوں سے مراد عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ اور حضرت عزیر علیہ السلام اور ملائکہ اور سورج چاند اور ستارے ہیں (یہ سب اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں)

(تفسير الثعلبي ,16/365)


.

مَعْنَاهُ: يَنْظُرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ إِلَى اللَّهِ فَيَتَوَسَّلُونَ بِهِ

آیت کا معنی یہ ہے کہ یہ اللہ کے مقرب و نیک بندے و دیگر دیکھتے ہیں کہ اللہ کے قریب کون ہے پھر اس کو وسیلہ بناتے ہیں 

(تفسير البغوي - طيبة ,5/101)

.

أُولَئِكَ الذين يعبدون من دون اللَّه يبتغون إلى ربهم الوسيلة؛ فكيف تعبدونهم

یہ اللہ کے نیک و مقرب بندے اور دیگر کہ  اللہ کے علاوہ جن کی عبادت کی جاتی ہے یہ تو خود اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں تو تم ان کی عبادت کیسے کرتے ہو۔۔۔۔۔؟

(,تفسير الماتريدي = تأويلات أهل السنة ,7/66)

.

*دلچسپ و اہم بات*

آیت میں دو وسیلوں کی طرف اشارہ ہے ایک وسیلہ شرک اور دوسرا سنت.....جی ہاں نیک بندے جو غیراللہ ہیں ان کی عبادت کرنا وسیلہ سمجھ کر یہ شرک میں سے ہے یعنی وسیلے کے طور پر نیک غیراللہ و سورج چاند بت وغیرہ کی عبادت کرنا شرک میں سے ہے...دوسرا وسیلہ برحق ہے سنت انبیاء ہے وہ یہ ہے کہ نیک بندے جو غیراللہ ہیں انکی عبادت نہ کرنا بلکہ اللہ کی عبادت کرنا اور زندہ یا وفات شدہ نیک غیراللہ کا وسیلہ پیش کرنا یہ ہے سنتِ انبیاء و صالحین ہے...یہ سب اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے، یہ وسیلہ شرک بدعت نہیں....بعض منکرین وسیلہ کہتے ہیں کہ وفات شدہ اور دور والے کا وسیلہ نہیں دے سکتے،منکرین وسیلہ کا یہ نظریہ دلائل کے خلاف و غلط ثابت ہوا

کیونکہ

یہاں آیت میں وسیلہ مطلق و عموم ہے کہ کسی بھی نیک و مقرب کا وسیلہ دیا جاسکتا ہے چاہے وہ حیات ہو یا وفات شدہ،چاہے دور ہو یا قریب...سب کو آیت شامل معناً شامل ہے

.=================

*#دلیل 2⃣ *

القرآن:

  ۙ وَ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ یَسۡتَفۡتِحُوۡنَ

 اور آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے آپ کے وسیلے سے فتح یابی کی دعا کرتے تھے( لیکن عجیب لوگ ہیں کہ اب آپ کا انکار کرتے ہیں)

(سورہ بقرہ آیت89)

.

قالوا اللهم انصرنا بالنبى المبعوث في آخر الزمان الذي نجد نعته فى التوراة

 یعنی وہ یوں کہتے تھے کہ یا اللہ عزوجل ہماری مدد فرما اس نبی کے صدقے سے ، وسیلے سے جو آخری زمانے میں آئے گا کہ جس کی صفات ہم تورات میں پاتے ہیں

(تفسیر نسفی1/109)

.

وَقَالُوا: إِنَّا نَسْأَلُكَ بِحَقِّ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي وَعَدْتَنَا أَنْ تُخْرِجَهُ لَنَا فِي آخِرِ الزَّمَانِ إِلَّا تَنْصُرُنَا عَلَيْهِم

 وہ کہتے تھے کہ یا اللہ عزوجل ہم آپ سے سوال کرتے ہیں ہماری مدد فرما بحق النبی الامی یعنی نبی پاک کے صدقے وسیلے واسطے سے جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ آخری زمانہ میں تو اسے بھیجے گا

(تفسیر قرطبی 2/27)

.

ويقولون اللهم انصرنا بالنبيِّ المبعوثِ في آخرِ الزمان

وہ کہتے تھے کہ یا اللہ عزوجل ہم آپ سے سوال کرتے ہیں ہماری مدد فرما بحق النبی یعنی نبی پاک کے صدقے وسیلے واسطے سے جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ آخری زمانہ میں تو اسے بھیجے گا

(تفسیر ابی السعود1/49)

.

ويقولون: اللهم ربنا انصرنا عليهم باسم نبيك وبكتابك الذي تنزل عليه الذي وعدتنا

 وہ کہتے تھے ہمارے رب ہماری مدد فرما تجھے تیرے آنے والے نبی(محمد مصطفی) کے نام کا واسطہ اور تیری کتاب کا واسطہ کہ جو تو اس پر نازل کرے گا جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے

(تفسیر سمرقندی1/72)

.

ظاہری دنیا میں غیر موجود(وفات شدہ یا آنے والے)کا وسیلہ دیا جاسکتا ہے تو موجود کا بھی وسیلہ واسطہ دیا جاسکتا ہے...!!

.

سوال:

مذکورہ دلیل میں ماقبل شریعت والوں یعنی اہل کتاب نے وسیلہ اپنایا، یہ انکی شریعت ہوگی، شریعت محمدی کے لیے ماقبل شریعت کیسے دلیل بن سکتی ہے....؟؟

جواب:

ماقبل شریعتوں کے احکامات بلامذمت و بلامنسوخیت بیان ہوں تو وہ ہماری شریعت کا بھی حصہ شمار ہونگے

متفقہ اصول:

شرع من قبلنَا شرع لنا إِلَّا مَا ثَبت نسخه

ماقبل شریعتوں کے احکامات (بلامذمت اور )بلامنسوخیت بیان ہوں تو وہ ہماری شریعت کا بھی حصہ شمار ہونگے

(التبصرة في أصول الفقه1/285)

.

 مذکورہ آیات میں اہل کتاب کے  فعل یعنی وسیلے دینے کی مذمت نہیں کی گئی اور نہ ہی اس کو منسوخ کیا گیا ہاں البتہ یہود وغیرہ اہل کتاب کے ایمان نہ لانے کی مذمت کی گئی ہے... لہذا نیک لوگوں کا وسیلہ دینا جائز ہے اگرچہ وہ موجود ہو یا موجود نہ ہو یا وفات شدہ ہو ، قریب ہو یا دور ہو کوئی فرق نہیں پڑتا.......!!

.=================

*#دلیل 3⃣ *

القرآن:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابۡتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الۡوَسِیۡلَۃَ

 اے ایمان والو تقوی اختیار کرو اور اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرو

(سورہ مائدہ ایت35)

.

والوسيلة ولا بد من تقديم الوسيلة قبل الطلب وقد قال الله تعالى (وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ)وقد توسل آدم عليه السلام الى الله تعالى بسيد الكونين

 دعا سے پہلے وسیلہ ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور آدم علیہ السلام نے اللہ کی طرف وسیلہ پیش کیا نبی پاک سید کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا

(تفسیر روح البیان7/230)

.

وقد قال تعالى: وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ (2) ، ولا وسيلة إليه أقرب، ولا أعظم، من رسوله الأكرم صلى الله عليه وسلم

 اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کی طرف وسیلہ تلاش کیا جائے اور رسول کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون سا وسیلہ ہوگا

(التفسیر المدید4/458)

.

 اس آیت کی تفسیر میں نیک اعمال کرنے اور برائی سے بچنے کو وسیلہ بنانے کا فرمایا گیا ہے تفاسیر میں مگر کچھ تفاسیر میں رسول کریم کو بھی اسی آیت سے وسیلہ بنانا ثابت کیا گیا ہے جیسے کہ اوپر دو حوالے دییے لیھذا انبیاء کرام علیھم السلام اور اولیاء عظام وغیرہ سب نیک و مقرب بندوں و نیک اعمال کا وسیلہ دیا جاسکتا ہے

.=====================

*دلیل 4⃣ *

الحدیث: 

نبی پاک نے واقعہ ارشاد فرمایا کہ کس طرح پہلے کی امتوں میں سے تین شخص غار میں پھنس گئے اور پھر اپنے اعمال کا وسیلہ دے کر اللہ سے دعا کی تو غار کا منہ کھل گیا

(دیکھیے صحيح البخاري ,3/91حدیث2272)

.

وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ اسْتِحْبَابُ الدُّعَاءِ فِي الْكَرْبِ وَالتَّقَرُّبُ إِلَى الله

 امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مشکلات کے اندر دعا کرنا بہت اچھا کام ہے اور اللہ کی طرف وسیلہ دینا بھی مستحب و ثواب ہے(شرک بدعت نہیں)

(فتح الباري شرح بخاری لابن حجر ,6/509)

.

============

*#دلیل 5⃣ *

الحدیث:

اسْتَغَاثُوا بِآدَمَ، ثُمَّ بِمُوسَى، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 قیامت کے روز لوگ سیدنا آدم علیہ السلام سے استغاثہ کریں گے(انہیں وسیلہ بنائیں گے) پھر موسی علیہ السلام سے پھر(جب سارے انبیاء کرام فرماءیں گے کہ محمد مصطفی کے پاس جاؤ تو لوگ)سید الکونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ کریں گے(انہیں وسیلہ بنائیں گے)

(بخاری حدیث1475)

.

نَّ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَسْتَصْحِبُونَ حَالَهُمْ فِي الدُّنْيَا مِنَ التَّوَسُّلِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى فِي حَوَائِجِهِمْ بِأَنْبِيَائِهِمْ

 اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن جو لوگوں کا حال ہوگا وہ دنیا جیسا حال ہوگا توسل کے حساب سے کہ جس طرح دنیا میں اپنی حاجتوں میں وہ توسل کرتے تھے انبیائے کرام کے ساتھ اسی طرح حشر میں بھی توسل کریں گے

(فتح الباري شرح بخاری لابن حجر11/441)

 یعنی جس طرح دنیا میں انبیائے کرام کا وسیلہ دیا جاتا ہے

،ان سے توسل کیا جاتا ہے تو قیامت کے دن بھی ان کا وسیلہ دیا جائے گا ان سے توسل کیا جائے گا

.================

*#دلیل 6⃣ *

النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " قَالَ دَاوُدُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَسْأَلُكَ بِحَقِّ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے دعا کی اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں میرے آباء کے حق و وسیلے سے...میرے آباء یعنی حضرت ابراہیم حضرت اسحاق حضرت یعقوب علیھم السلام

(مسند البزار = البحر الزخار حدیث1307)

.

امام ہیثمی اور امام بزاز فرماتے ہیں:

وَأَبُو سَعِيدٍ فَلَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ، وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلا

 مذکورہ روایت کی سند میں ایک راوی ابو سعید ہے جو کہ حدیث کے معاملے میں قوی نہیں ہے لیکن اس روایت کی ایک اور سند بھی ہے جو کہ درج ذیل ہے

حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

(كشف الأستار عن زوائد البزار3/100)

لیھذا یہ روایت تعدد طرق کی و دیگر وجوہ تحسین کی وجہ سے حسن معتبر کہلانی چاہیے جو دلیل بنتی ہے...اور اگر بالفرض ضعیف بھی مان لیا جائے تو قران و صحیح احادیث کی معنوی تائید کی وجہ سے معتبر و دلیل بنے گی

.

 سیدنا ابراہیم علیہ السلام سیدنا اسحاق علیہ السلام سیدنا یعقوب علیہ السلام کے بعد

سیدنا داؤد علیہ السلام آئے تھے تو سیدنا داؤد علیہ السلام وفات شدہ کا وسیلہ دے کر دعا فرما رہے ہیں...ثابت ہوا کہ زندہ یا وفات شدہ کا وسیلہ دینا سنتِ انبیاء ہے، جسکا وسیلہ واسطہ دیا جارہا ہے وہ دور ہو یا قریب زندہ ہو یا وفات شدہ کوئی حرج نہیں...بعض منکرین وسیلہ کہتے ہیں کہ وفات شدہ اور دور والے کا وسیلہ نہیں دے سکتے،منکرین وسیلہ کا یہ نظریہ دلائل کے خلاف و غلط ثابت ہوا

.

 سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ذرا پڑہیے

وَمَاتَ عَنْ مِائَةٍ وَخمْس وَسبعين، وَقيل وَتِسْعين سنة..وَقَدْ ورد مَا يدل [على] أَنَّهُ عَاشَ مِائَتَيْ سَنَةٍ

سیدنا ابراہیم علیہ السلام 175 سال یا 190سال یا 200 سال کی عمر میں وفات پا گئے

(قصص الانبیاء ابن کثیر1/250ملخصا ملتقطا)

.

عن ابن عباس قال... ومن إبراهيم إلى موسى خمسمائة وخمس وسبعون سنة، ومن موسى إلى داود خمسمائة

 وتسع وسبعون

 سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے لیکر موسی علیہ السلام تک 575 سال ہیں اور سیدنا موسی علیہ السلام سے لیکر سیدنا داؤد علیہ السلام تک 579سال ہیں

( المنتظم في تاريخ الملوك والأمم2/145)

.

ثابت ہوا کہ سیدنا داؤد علیہ السلام نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی وفات کے کئ سو سال بعد انکا وسیلہ واسطہ دے کر دعا فرمائی...جب وفات شدہ نیک صالح کا وسیلہ واسطہ دینا جائز و سنت ِ انبیاء ہے تو یقینا زندہ نیک کا وسیلہ واسطہ دینا بدرجہ اولی جائز و ثواب ہے...شرک بدعت ہرگز نہیں

.================

*#دلیل 7⃣ *

قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ إِلَى الصَّلَاةِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ السَّائِلِينَ عَلَيْكَ، وَأَسْأَلُكَ بِحَقِّ مَمْشَايَ هَذَا، فَإِنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشَرًا، وَلَا بَطَرًا، وَلَا رِيَاءً، وَلَا سُمْعَةً، وَخَرَجْتُ اتِّقَاءَ، سُخْطِكَ، وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِكَ، فَأَسْأَلُكَ أَنْ تُعِيذَنِي مِنَ النَّارِ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، أَقْبَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِوَجْهِهِ، وَاسْتَغْفَرَ لَهُ سَبْعُونَ

 أَلْفِ مَلَكٍ "

جو نماز کے لیے اپنے گھر سے نکلے اور یہ دعا پڑھے

: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ السَّائِلِينَ عَلَيْكَ

(ترجمہ: اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں سائلین کے حق کے واسطے سے وسیلے سے)

 وَأَسْأَلُكَ بِحَقِّ مَمْشَايَ هَذَا

(ترجمہ: اے اللہ کریم میں تجھ سے سوال کرتا ہوں میرے اس نماز کے لئے چلنے کی حق کی وجہ سے واسطے سے وسیلے سے)

پھر یہ پڑھے

 فَإِنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشَرًا، وَلَا بَطَرًا، وَلَا رِيَاءً، وَلَا سُمْعَةً، وَخَرَجْتُ اتِّقَاءَ، سُخْطِكَ، وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِكَ، فَأَسْأَلُكَ أَنْ تُعِيذَنِي مِنَ النَّارِ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ

تو

اللہ کریم اس کی طرف خصوصی نظر کرم فرماتا ہے اور اس کے لئے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں 

(سنن ابن ماجه ,1/256حدیث778)

(مسند أحمد ط الرسالة حدیث11156)

(الجامع الصغير وزيادته حدیث12346)

(استاد بخاری,مصنف ابن أبي شيبة ,6/25نحوہ)

کتاب روضة المحدثين کے محققین نے اس حدیث کو حسن کہا ہے اور حدیث حسن قابل حجت ، قابل قبول ، قابل دلیل ہوتی ہے

حم جه تخز حل أبو نعيم فى الصلاة طد

(نتائج الأفكار 272/1)

** حسن

[مجموعة من المؤلفين ,روضة المحدثين ,11/64]

.

اس حدیث پاک میں سائلین کو وسیلہ بنایا گیا ہے انکا واسطہ دیا گیا ہے اور نیک عمل یعنی نماز کےلیے چلنے کو واسطہ بنا کر اللہ سے دعا کی گئ ہے اور سائلین مطلق و عام ہے چاہے وہ انبیاء کرام علیھم السلام ہوں یا اولیاء عظام....اور چاہے وہ زندہ ہوں کہ وفات شدہ ، مزار کے قریب جاکر وسیلہ بنایا جاءے یا دور سے انہیں وسیلہ بنایا جائے ہر صورتوں میں انہیں وسیلہ بنا کر،انکا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کرنا اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے....اللہ سمجھنے کی توفیق دے 

.===============

*#دلیل 8⃣ *

 فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حَنِيفٍ , فَشَكَا ذَلِكَ إِلَيْهِ , فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حَنِيفٍ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ , ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ قُلِ: اللَّهُمَّ , إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّكَ عَزَّ وَجَلَّ فَيَقْضِي لِي حَاجَتِي , وَتَذْكُرُ حَاجَتَكَ.....وَاللهِ مَا كَلَّمْتُهُ، وَلَكِنِّي شَهِدْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَتَاهُ ضَرِيرٌ فَشَكَى إِلَيْهِ ذَهَابَ بَصَرِهِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 ایک شخص نے صحابی سیدنا عثمان بن حنیف سے شکایت کی کہ ان کی حاجت پوری نہیں کی جا رہی تو سیدنا عثمان بن حنیف نے فرمایا کہ وضو خانے جاؤ وضو کرو پھر مسجد میں جاؤ، دو رکعت نفل حاجات پڑھ لو پھر یہ دعا کرو کہ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں نبی پاک محمد مصطفی کے وسیلہ سے جو نبی رحمت ہیں اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے ذریعہ سے آپ کے وسیلے سے توجہ کرتا ہوں اپنے رب کی طرف کہ میری حاجت اللہ تعالی پوری فرما دے.... پھر آپ اپنی حاجت بیان کریں(اس شخص نے یہ عمل کیا تو اس شخص کی حاجت پوری ہوئی تو اس نے صحابی سے پوچھا کہ کیا آپ کا کوئی کردار ہے اس حاجت روائی میں....؟؟) صحابی نے فرمایا کہ میرا کوئی کردار نہیں ہے یہ جو طریقہ میں نے تمہیں بتایا ہے یہ میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا ہے

(المعجم الصغير طبرانی روایت508ملخصا)

(معرفة الصحابة لأبي نعيم 4/1959نحوہ)

(كتاب دلائل النبوة امام بيهقي6/167نحوہ)

(وفاءالوفاءبأخبار دار المصطفى4/194نحوہ)

(الترغيب  في الدعاء للمقدسي ص108نحوہ)

.

امام منذری اور امام طبرانی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا

قال الطبراني بعد ذكر طُرقه: والحديث صحيح.

(الترغیب و الترھیب امام منذری1/476)

.

علامہ شامی نے فرمایا:

روى الطبراني والبيهقي- بإسناد متّصل ورجاله ثقات- عن عثمان بن حنيف

 مذکورہ واقعہ امام طبرانی نے اور امام بیہقی نے متصل سند کے ساتھ بیان کیا ہے جس کے تمام راوی ثقہ ہیں

(سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد12/407)

.

صحابی سیدنا عثمان بن حنیف نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات  کے کئ سال بعد نبی پاک کا وسیلہ دینے کی تعلیم دی اور کسی صحابی نے شرک بدعت کا فتوی نہ دیا...ثابت ہوا کہ انبیاء کرام علیھم السلام اور اولیاء عظام وغیرہ نیک مقرب بندوں کو قبل از وفات اور بعد از وفات وسیلہ بنانا جائز و ثواب ہے جسکی بہت برکات ملتی ہیں،حاجات پوری ہوتی ہیں،بلائیں ٹلتی ہیں

.===============

*#دلیل 9⃣ *

حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ مَالِكِ الدَّارِ، قَالَ: وَكَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَى الطَّعَامِ، قَالَ: أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا، فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ: " ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مُسْتَقِيمُونَ وَقُلْ لَهُ: عَلَيْكَ الْكَيْسُ، عَلَيْكَ الْكَيْسُ "، فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَكَى عُمَرُ ثُمَّ قَالَ: يَا رَبِّ لَا آلُو

 سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں قحط ہوا تو ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار مبارک کی طرف آیا اور عرض کی یا رسول اللہ اپنی امت کے لئے بارش کی دعا کیجئے وہ ہلاک ہو رہے ہیں، تو نبی پاک صلی اللہ وسلم اس شخص کے خواب میں آئے اور فرمایا کہ عمر کے پاس جاؤ، اسے میرا سلام کہو اور اسے خبر دو کہ تم عنقریب بارش سے نوازے جاؤ گے، اور عمر سے کہو کہ تم پر سمجھداری لازم ہے سمجھ داری لازم ہے تو وہ شخص سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا اور سب کچھ بتایا تو سیدنا عمر رونے لگے اور عرض کرنے لگے یا اللہ میں بھرپور کوشش کروں گا

(مصنف ابن ابی شیبہ استادِ بخاری روایت32002)

(كنز العمال ,8/431 روایت23535)

(دلائل النبوة للبيهقي مخرجا7/47)

(جامع الاحادیث للسیوطی حدیث 28209)

(فتح الباري شرح بخاری 494/2)

.

کتاب روضة المحدثين کے محققین نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور حدیث صحیح قابل حجت ، قابل قبول ، قابل دلیل ہوتی ہے....إسناده صحيح

(مجموعة من المؤلفين ,روضة المحدثين ,1/440)

.

امام زرقانی نے بھی اس واقعے کو لکھا دلیل بنایا اور اس کی سند کو صحیح قرار دیا

وروى ابن أبي شيبة بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان، عن مالك الدار....(شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية11/150)

.

 مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے کہ جب کوئی جواب نہ بن پایا تو غیر کے مقلدین اور وسیلہ کے منکرین یہ کہتے ہیں کہ یہاں پر رجل لفظ ہے کوئی بندہ پتہ نہیں کون بندہ تھا لہذا مجہول ہے اور مجھول کی روایت ضعیف ہے....

ہمارا جواب:

ارے عقل سے کام لیجیے اگر سند کا راوی رجل ہو مجھول ہو تو ضعف آ سکتا ہے...یہاں سند میں کوئی مجھول نہیں رجل لفظ سند کا حصہ نہیں بلکہ متن میں رجل ہے متن میں رجل آئے تو ضعیف ہونا ثابت نہیں ہوتا دیکھیے امام بخاری حدیث پاک لکھتے ہیں کہ

كَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ قَبْلَكُمْ

( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے کوئی بندہ ہوتا تھا....

(بخاری حدیث3612)

اب کیا رجل کی گردان پڑھ کر بخاری کی حدیث کو بھی ضعیف کہہ دو گے......؟؟

.

پھر بھی علماء کرام نے تحقیق فرما کر لکھا کہ وہ شخص صحابی بلال مزنی تھے

وَقَدْ رَوَى سَيْفٌ فِي الْفُتُوحِ أَنَّ الَّذِي رَأَى الْمَنَامَ الْمَذْكُورَ هُوَ بِلَالُ بْنُ الْحَارِثِ الْمُزَنِيُّ أَحَدُ الصَّحَابَةِ

 امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ علامہ سیف نے اپنی کتاب الفتوح میں لکھا ہے کہ جس شخص نے خواب دیکھا تھا وہ سیدنا بلال بن حارث مزنی تھے جو کہ صحابہ کرام میں سے ہیں

(فتح الباری شرح بخاری ابن حجر2/496)

.

 اس حدیث پاک سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وفات شدہ کا وسیلہ دیا جا سکتا ہے، ان سے فریاد و عرض کی جاسکتی ہے....یہ سنت صحابہ ہے، کیوں کہ سیدنا عمر نے یا دوسرے کسی صحابی نے شرک بدعت کا فتویٰ نہیں لگایا...بعض منکرینِ وسیلہ کہتے ہیں کہ وفات شدہ اور دور والے کا وسیلہ نہیں دے سکتے،منکرین وسیلہ کا یہ نظریہ دلائل کے خلاف و غلط ثابت ہوا

.==============

*#دلیل 🔟 *

قُلْنَا: فَإِنَّا نَسْأَلُكَ بِحَقِّ الْإِسْلَامِ، وَبِحَقِّ صُحْبَتِنَا إِلَّا جَعَلْتَنَا فِيهَا، قَالَ: «فَأَنْتُمْ فِيهَا

صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ سے سوال کرتے ہیں اسلام کے حق اور اسلام کے وسیلے واسطے سے اور ہماری صحبت  کے واسطے وسیلے سے کہ آپ ہمیں شفاعت میں ضرور شامل کیجئے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم شفاعت میں ضرور شامل ہو 

(المعجم الكبير للطبراني ,20/163حدیث343)

جامع الاحادیث کے حاشیہ میں اسکو صحیح کہا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ درج ذیل کتب میں بھی یہ حدیث موجود ہے

أخرجه أحمد (5/232، رقم 22078) . وأخرجه أيضًا: البزار (7/119، رقم 2674) ، والطبرانى (20/163، رقم 343) . قال الهيثمى (10/368) : رجال أحمد والطبرانى رجال الصحيح غير عاصم بن أبى النجود، وقد وثق

(جامع الأحاديث ,1/159)

اس روایت میں صحابہ کرام نے نبی پاک سے عرض کیا کہ اسلام کا واسطہ وسیلہ، ہماری صحبت کا واسطہ وسیلہ ہمیں اپنی شفاعت میں لے لیجیے گا، آپ نے شرک بدعت کا فتوی نہ لگایا بلکہ فرمایا کہ ہاں تم کو شفاعت میں لوں گا....غیر اللہ کا وسیلہ دینا ،واسطہ دینا ، نیک اعمال کا واسطہ ، وسیلہ دینا اس سے بھی ثابت ہوتا ہے یہ صحابہ کرام جیسے عظیم الشان صالحین کا طریقہ بھی ثابت ہوا

.===============

*#دلیل 1⃣1⃣ *

الحدیث:

وَوَسِّعْ عَلَيْهَا مُدْخَلَهَا، بِحَقِّ نَبِيِّكَ وَالْأَنْبِيَاءِ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِي فَإِنَّكَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ»

یا اللہ کریم اس مرحومہ کی قبر کو وسیع فرما اپنے نبی کے حق کا واسطہ، نبی کے حق کے صدقے میں اور مجھ سے پہلے جو انبیاء گزرے ہیں ان کے حق و صدقے میں ان کے واسطے میں ان کے وسیلے میں(مرحومہ کی قبر کو وسیع فرما) بے شک تو أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ہے

(طبراني کبیر حدیث871)

(حلیة الاولیاء3/121 نحوہ)

(كنزالعمال12/148نحوہ)

(جمع الجوامع امام سیوطی5/155)

علامہ ہیثمی اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس کے سارے راوی صحیح روایت والے راوی ہیں سوائے روح بن صلاح کے کہ جس میں ضعف ہے لیکن امام ابن حبان اور امام حاکم نے روح کو بھی ثقہ قرار دیا ہے

 رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ وَالْأَوْسَطِ، وَفِيهِ رَوْحُ بْنُ صَلَاحٍ، وَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاكِمُ، وَفِيهِ ضَعْفٌ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ رِجَالُ الصَّحِيحِ

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ,9/257)

اس حدیث پاک میں ظاہری حیات نبی پاک  یعنی حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دیا گیا ہے وسیلہ بنایا گیا ہے اور نبی پاک نے ظاہری وفات شدہ انبیاء کرام کا واسطہ وسیلہ پیش کیا ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کرام کے مزارات سے دور رہ کر انکا وسیلہ واسطہ دیا ہے.... لیھذا وسیلہ واسطہ دینا سنت ثابت ہوا جوکہ ہرگز شرک بدعت نہیں ہوسکتا...لیھذا انبیاء کرام اولیاء عظام کا واسطہ وسیلہ دیا جاسکتا ہے، انہیں وسیلہ بنایا جاسکتا ہے چاہے وہ زندہ ہوں یا وفات شدہ ہوں، چاہے دور سے وسیلہ بنایا جائے یا قبر شریف کے قریب کھڑے ہوکر وسیلہ بنا کر اللہ سے دعا کی جائے یا صاحب مزار کو اس طرح وسیلہ بنایا جائے کہ ان سے عرض کی جاءے کہ آپ اللہ کی بارگاہ میں میرے لیے دعا فرمائیں....بعض منکرین وسیلہ کہتے ہیں کہ وفات شدہ اور دور والے کا وسیلہ نہیں دے سکتے،منکرین وسیلہ کا یہ نظریہ دلائل کے خلاف و غلط ثابت ہوا

.

کئ وجوہ سے اس روایت کا ضعف ختم ہو کر یہ روایت صحیح یا حسن معتبر دلیل کہلائے گی اور اگر ضعیف مان بھی لیا جائے تو اوپر صحیح دلائل کی تائید کی وجہ سے یہ ضعیف روایت بھی تائیدی دلیل کہلائے گی

.===================

*#دلیل 1⃣2⃣ *

الحدیث:

قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا اقْتَرَفَ آدَمُ الْخَطِيئَةَ قَالَ: يَا رَبِّ أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لَمَا غَفَرْتَ لِي

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب سیدنا آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے اجتہادی خطا ہوئی تو سیدنا آدم علیہ السلام نے عرض کیا یا رب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کا واسطہ ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ مجھے بخش دیجئے

(المستدرك ,2/672روایت4228)

(المعجم الأوسط للطبرانی ,6/313)

امام ہیثھمی نے(مجمع زوائد 8/ 253) میں اور امام بیھقی نے(دلائل النبوة للبیھقی5/ 489) میں ضعیف قرار دیا لیھذا موضوع  من گھڑت جھوٹی روایت کہنا ٹھیک نہیں، اوپر صحیح دلائل سے وسیلہ ثابت ہے تو اس کی تائید و بطور شاہد ضعیف بھی مقبول ہے

.==============

*#دلیل 1⃣3⃣ *

وسلیہ....زندہ سے دعا کروانا

اس بارے میں تو کئ دلائل آیات و احادیث و اثار ہیں،  چند ملاحظہ کیجیے

القرآن:

قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا اسۡتَغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَاۤ اِنَّا کُنَّا خٰطِئِیۡنَ

 انہوں نے کہا اے ہمارے والد اللہ سے دعا کیجئے ہمارے استغفار کی کہ ہم نے خطاء کی ہے

(سورہ یوسف ایت97)

.

الحدیث:

إِنَّ الدُّعَاءَ يَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ يَنْزِلْ، فَعَلَيْكُمْ عِبَادَ اللَّهِ بِالدُّعَاءِ

بے شک دعا نفع، فائدہ دیتی ہے ان(بلاؤں بیماریوں مصیبتوں واقعات) میں جو نازل ہوچکے اور جو نازل نہیں ہوئے(ان سب میں دعا فائدہ دیتی ہے..) تو اے اللہ کے بندو تم پے دعا(کرنا کرانا) لازم ہے..(ترمذی حدیث3548)

.


فَادْعُهْ

صحابی نے عرض کی یا رسول اللہ میری صحت یابی کے لیے اللہ سے دعا کیجیے

(ترمذی تحت حدیث3578)

.

قُلْتُ : ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ. فَدَعَا

 ایک صحابیہ نے عرض کی یارسول اللہ اللہ سے میرے لیے دعا کیجئے کہ مجھے ان میں بنا دے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی

(بخاری تحت حدیث6283)

.

فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَصْرِفَهُ عَنَّا

 صحابی نے عرض کی یارسول اللہ اللہ سے دعا کیجئے کہ یہ نقصان دہ بارش ہم سے ٹل جائے

(بخاری تحت حدیث1015)

.

يَا رَسُولَ اللَّهِ....فَادْعُ اللَّهَ يُغِيثُنَا

صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ بارش عطاء فرمائے

(بخاری تحت حدیث1013)

.

قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنَا مِنْ أَهْلِهَا

 صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ اللہ سے دعا کیجئے کہ ہمیں آپ کی شفاعت نصیب ہو

(ابن ماجہ حدیث4317)

.==============

*#دلیل 1⃣4⃣ *

عن علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنه قال: قدم علينا أعرابي بعد ما دفنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بثلاثة أيام، فرمى بنفسه على قبر النبي صلى الله عليه وسلم، وحثا من ترابه على رأسه، وقال: يا رسول الله، قلت فسمعنا قولك،  ووعيت عن الله سبحانه وما وعينا عنك، وكان فيما أنزل عليك وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ [النساء: 64] الآية، وقد ظلمت وجئتك تستغفر لي، فنودي من القبر: إنه قد غفر لك

 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ جب ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کردیا تو کچھ دن کے بعد ایک شخص مزار اقدس پے حاضر ہوا  اور اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگا اور عرض کرنے لگا یا رسول اللہ قرآن میں تو ہے کہ اگر کوئی اپنے اوپر ظلم کرے تو وہ آپ کے پاس حاضر ہو اور اللہ سے توبہ کرے تو( آپ کے وسیلے سے) توبہ قبول ہو جائے گی معافی مل جائے گی تو میں ظلم کر چکا ہوں اور میں آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں، تو مزار اقدس سے آواز آئی تمہاری بخشش کر دی گئی ہے

(وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى4/186)

(كنز العمال2/386)

(جامع الاحادیث روایت34153)

.

واضح ہے کہ وفات کے بعد مزار پے حاضر ہونا عرض و فریاد کرنا وسیلہ بنانا جائز ہے کہ کسی صحابی نے اس فعل پر مذمت نہ کی.....!!

.=============

*#دلیل 1⃣5⃣ *

وسیلہ....دعا خود کرنا زندہ کو وسیلہ بنانا

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو حاجت روائی کے لیے نوافل پڑھ کر اللہ سے باوسیلہ نبی پاک دعا کرنے کا حکم دیا

أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ يُعَافِيَنِي فَقَالَ: «إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَكَ وَهُوَ خَيْرٌ، وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ» فَقَالَ: ادْعُهْ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ، وَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ، وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ، وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى، اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ» . قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

 ایک شخص جس کی بصارت میں کچھ نقص تھا اس نے عرض کی یارسول اللہ میرے لیے دعا کر دیجیے کہ اللہ تعالی مجھے شفا عطا فرمائے آپ نے فرمایا کہ اگر تم چاہے تو میں تمہارے لیے موخر کر دوں اور وہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر چاہے تو میں دعا کر دوں، صحابی نے عرض کی دعا فرما دیجیے کہ شفاء ملے تو حضور علیہ الصلاۃ و السلام نے اسے حکم دیا کہ وہ وضو کرے اور اچھا وضو کرے اور دو رکعت نفل(حاجات) پڑھے اور یہ دعا کرے کہ یا اللہ عزوجل میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں نبی الرحمۃ محمد مصطفی کے وسیلہ سے واسطے سے صدقے سے ، یارسول اللہ آپ کے صدقے سے وسیلے سے میں اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اپنی حاجت میں کہ اللہ میری حاجت پوری فرما دے یا اللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت(وسیلے واسطے کو) قبول فرما میرے معاملے میں

 امام ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے

(سنن ابن ماجه ,1/441حدیث1385)

(ترمذی حدیث3578نحوہ)

(الجامع الصغير سیوطی حدیث2159)

.

نیک اعمال کرنے چاہیے اور پھر زندہ یا وفات شدہ نیک بندوں کے وسیلے سے دعا اللہ سے مانگنی چاہیے

.=================

*#دلیل 1⃣6⃣ *

سیدنا علی کو وفات شدہ یعنی سیدنا جعفر کا واسطہ وسیلہ دیا جاتا تو  آپ عطاء فرماتے....شرک بدعت نہ فرماتے

كُنْتُ أَسْأَلُ عَلِيًّا رَضِي اللهُ عَنْهُ الشَّيْءَ فَيَأْبَى عَلَيَّ، فَأَقُولُ: بِحَقِّ جَعْفَرٍ، فَإِذَا قُلْتُ بِحَقِّ جَعْفَرٍ أَعْطَانِي

 سیدنا جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے فرماتے ہیں کہ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کچھ مانگتا تھا تو وہ نہ دیتے تھے پھر میں عرض کرتا بحق جعفر، سیدنا جعفر کا وسیلہ صدقہ واسطہ ہے آپ کو تو پھر عطاء فرماتے تھے

(المعجم الكبير للطبراني ,2/109روایت1476)

(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل2/903نحوہ)

 بعض منکرین وسیلہ کو کوئی اور راہ نہ سوجھی تو کہنے لگے کہ سیدنا جعفر کے بیٹے کو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ صلہ رحمی کے طور پر دیتے تھے کہ ان کے رشتہ دار تھے

ہمارا جواب:

ارے کچھ عقل سے کام لیجیے، اگر محض صلہ رحمی کے طور پر دینا ہوتا تو شروع میں انکار کیوں فرماتے...؟؟ کیا شروع میں صلہ رحمی یاد نہیں ہوتی تھی سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو....؟؟ صاف ظاہر ہے کہ صلہ رحمی ہو نہ ہو مگر دینے کی وجہ بحق جعفر یعنی سیدنا جعفر کا وسیلہ واسطہ کام آتا تھا.....سیدنا جعفر تو بہت پہلے شہید ہوچکے تھے تو وفات شدہ کا واسطہ وسیلہ دیا جاتا تھا تو سیدنا علی و دیگر صحابہ کرام شرک بدعت کا فتوی نہ لگاتے تھے بلکہ کرم نوازیاں فرماتے تھے


.=================

*#دلیل 1⃣7⃣ َ*

نبی پاک نے اذان و نماز کو وسیلہ بنانے کا فرمایا

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ النِّدَاءَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ الَّذِي وَعَدْتَهُ، إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ، حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو اذان سنے اور اس کے بعد کہے کہ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس دعوت تامہ کے وسیلے سے اور قائم ہونے والی نماز کے وسیلے سے، یا اللہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور اسے مقام محمود پر مبعوث فرما کہ جس کا آپ نے ان سے وعدہ کیا ہے اور آپ وعدے کے خلاف نہیں کرتے تو رسول کریم نے فرمایا کہ وہ میری شفاعت کا حقدار ہوجائے گا

(الدعوات الكبير ,1/108حدیث49)

(السنن الصغير للبيهقي ,1/122حدیث296)

.=================

*#دلیل 1⃣8⃣ *

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «تَمَثَّلْتُ بِهَذَا الْبَيْتِ وَأَبُو بَكْرٍ يَقْضِي وَأَبْيَضُ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ... فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے یہ شعر اپنے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے بطور مثال کہے کہ جب وہ حاجتیں پوری فرماتے.. شعر یہ تھے کہ سفید چہرے ہیں جس کے ذریعے سے جس کے واسطے سے جس کے وسیلے سے بارش طلب کی جاتی ہے تو سیدنا ابو بکر صدیق نے فرمایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے

(مصنف ابن ابی شیبہ استاذ بخاری6/353)

(إتحاف المهرة لابن حجر 8/252نحوہ)

ثابت ہوا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ نظریہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بنایا جا سکتا ہے ان کا واسطہ دیا جا سکتا ہے ان کی وفات کے بعد بھی......!! اور یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدہ عائشہ نے غیرنبی یعنی سیدنا صدیق اکبر کو وسیلہ واسطہ بنانا جائز سمجھا تبھی تو بطور تمثیل شعر کہے.....!! لیکن سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی کمال عاجزی تھی کہ آپ نے ان اشعار کے متعلق فرمایا کہ وہ ذات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے

.=================

*#دلیل 1⃣9⃣ *

أَسْأَلُكَ بِحُرْمَةِ وَجْهِكَ وَحُرْمَةِ عَرْشِكَ [وَحُرْمَةِ بَيْتِكَ] وَحُرْمَةِ نَبِيِّكَ عَلَيْهِ السَّلامُ

 صحابی سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے دعا کی کہ یا اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپ کے وسیلے سے آپ کے عرش کے وسیلے سے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے وسیلے سے

( المنتظم في تاريخ الملوك والأمم ابن جوزي6/135)

( تاريخ دمشق لابن عساكر 31/172)

(مجابو الدعوة لابن أبي الدنيا ص64)

 ثابت ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ دیا جا سکتا ہے بحرمۃ نبی اخر زمان کہا جا سکتا ہے، یہ سنت صحابہ ہے

.================

*#دلیل 2⃣0⃣ *

واسألوا الله بجاه نبيه ومن سكنها من الأنبياء والصالحين أن يسهل فتحها على أيدي المسلمين

 صحابی سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ نے تلقین فرمائی کہ بیت المقدس کو آزاد کرانے کے لیے جاؤ تو یوں دعا کرو کہ

 یا اللہ ہم آپ سے دعا کرتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے، بجاہ النبی کہہ کر دعا کرو، اور یا اللہ آپ کو واسطہ ہے ان کا کہ جو اس سر زمین پے انبیاء کرام گزرے ہیں اور صالحین کا واسطہ وسیلہ کہ مسلمانوں کو  فتح یابی اسانی سے عطا فرما

(كتاب فتوح الشام1/220)

(کتاب فتح القدس ص39)

(بيت المقدس أمام أحداث التاريخ ص121)

 وفات شدہ انبیائے کرام کا وسیلہ ، بجاہ النبی کہنے کا ثبوت اور زندہ و وفات شدہ صالحین کا وسیلہ اس سے ثابت ہوا اور صحابہ کرام میں سے کسی نے انکار بھی نہیں کیا...اللہ سمجھ عطا فرمائے

۔ 

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.