*#حق چار یار یا حق پانچ یار۔۔۔۔؟؟ بھائی چارگی اتحاد برداشت تطبیق محمل اور مذمت۔۔۔۔۔۔۔؟؟*
سوال:
علامہ صاحب میں بڑی تشویش میں مبتلا ہوں اہل سنت کے ہی بعض علماء سے سنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حق چار یار کہنا حدیث پاک کے خلاف ہے کیونکہ خلافت راشدہ 30 سال ہے یہ بات حدیث پاک میں ہے اور ان 30 سالوں میں خلیفہ راشد پانچ گزرے ہیں سیدنا صدیق اکبر سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا علی سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین تو نعرہ تحقیق کے جواب میں حق پانچ یار کہنا چاہیے، حق چار یار کہہ کر ہم حدیث پاک کی مخالفت کر رہے ہیں
۔
*#جواب۔و۔تحقیق۔۔۔۔۔!!*
نعرہ خلافت راشدہ کے جواب میں حق چار یار نہیں کہا جاتا بلکہ نعرہ تحقیق کے جواب میں حق چار یار کہا جاتا ہے۔۔۔۔تحقیق مطلب افضلیت کے معاملے میں چار یار کہا جاتا ہے اور یہ بالکل درست ہے کیونکہ افضلیت کے معاملے میں عمومی طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ انبیاء کرام علیھم السلام کے بعد امت میں سب سے افضل چار یار ہیں یعنی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ افضل ہیں پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان پھر سیدنا علی افضل ہیں رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین۔۔۔۔ اس طرح حق چار یار کا مطلب یہ ہوا کہ افضلیت کے معاملے میں حق چار یار اس ترتیب سے مشہور ہیں۔۔۔۔ان کے علاوہ افضلیت کے معاملے میں بڑی تفصیل ہے جو کتب میں دیکھی جا سکتی ہے ۔۔۔ ہم فقط مشہور تفضیل یعنی افضلیتِ حق چار یار بیان کر رہے ہیں۔۔۔۔
مسئلہ افضلیت کی کچھ تحقیق کچھ دلائل کچھ تفصیل اس لنک پہ پڑھیے:
https://tahriratehaseer.blogspot.com/2024/01/blog-post.html
.
https://www.facebook.com/share/p/CoFFx88EzpW6ng2Z/
۔
یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ مشھور خلفاء راشدین چار ہیں۔۔۔اس لیے نعرہ خلافت یا نعرہ خلافت راشدہ کے جواب میں بھی حق چار یار کہا جاسکتا ہے ۔۔۔۔مقصود یہی واضح کیا جائے کہ مشھور خلفاء راشدین جنہوں نے زندگی کہ اخر تک خلافت راشدہ سنبھالی وہ مشہور خلفاء راشدین چار ہیں۔ ۔ ۔ ۔۔ ہاں ساتھ میں یہ بھی وضاحت کی جائے کہ خلافت راشدہ پانے والے پانچ خلفائے راشدین ہیں۔ ۔۔۔۔ ہم خلافت راشدہ پانے کے حساب سے حق چار یار نہیں کہہ رہے بلکہ ہم مشہور خلفائے راشدین کے حساب سے حق چار یار کہہ رہے ہیں اور اس اعتبار سے حق چار یار کہہ رہے ہیں کہ جنہوں نے زندگی کے اخری لمحات تک خلافت راشدہ سنبھالی وہ چار ہیں کیونکہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ راشد ہیں لیکن انہوں نے زندگی میں ہی خلافت راشدہ سے دستبرداری کر لی تھی۔ ۔۔۔۔
۔
نعرہ تحقیق حق چار یار کے جب درست معنی ہو سکتے ہیں تو وہی مراد لینا واجب ہے۔۔۔سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے لیےچاہیں تو ایک نیا نعرہ ایجاد کر لیں مثلا نعرہ صلح عظیم۔۔۔(اسکا جواب ہو) سیدینا(syeedaina)حسن و معاویہ زندہ باد، زندہ باد۔۔۔چھوٹے چھوٹے فروعی اختلافات میں الجھنے الجھانےمناظرے کرنے کے بجائے حل کرکے،برداشت کرکے بڑے بڑے مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے
جب درست معنی بن سکتا ہے تو خواہ مخواہ اعتراض نہیں کرنا چاہیے انتشار نہیں پھیلنا چاہیے نفرتیں نہیں پھیلانی چاہیے کیونکہ کیونکہ معتبر حق برحق سنی حق چار یار کہنے والا کبھی سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت راشدہ کا انکار نہیں کرتا ۔۔۔امام مہدی کی انے والی خلافت راشدہ کا انکار نہیں کرتا۔۔۔۔اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مشہور خلفاء راشدین چار ہیں جس کا انکار شیعہ لوگ کرتے ہیں وہ صرف سیدنا علی کو خلیفہ راشد مانتے ہیں۔۔۔۔اس لیے ان کے رد میں ہم چار یار کا نعرہ لگاتے ہیں۔۔۔۔ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا امام مہدی رضی اللہ تعالی عنہ کو نکالنے کے لیے ان کی نفی کرنے کے لیے حق چار یار کا نعرہ نہیں لگاتے
۔
لہذا افضلیت کے معنی میں یا خلافت کے معنی میں حق چار یار کہنا درست ہے تو اعتراض نفرتیں انتشار درست نہیں۔۔۔۔ مشہور و معروف نعرے کو حدیث کے خلاف بتا کر بہت بڑا فتوی لگانا انتہائی نامناسب و ..... ہے۔۔۔۔۔!!
.
نعرہ تحقیق کے جواب میں حق پنج یار کہنا
یا نعرہ خلافت راشدہ کے جواب میں حق پنج یار کہنا
بھی ممنوع ہونا چاہیے کیونکہ حق پنج یار کہنے سے غلط معنی تصور میں ائے گا اور کسی غلط کی تردید بھی نہیں ہوگی کیونکہ کوئی بھی سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ راشد نہ مانتا ہو ایسا کوئی بھی نہیں تو حق چار یار کے ساتھ پانچواں یار ملانا یعنی سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو ملانا اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ چھٹا خلیفہ یعنی سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نعوذ باللہ باطل و ناحق ہے تو حق پنج یار کا نعرہ کوئی خاص فائدہ نہیں دے رہا الٹا غلط معنی کی طرف اشارہ دے رہا ہے کہ سیدنا معاویہ کی خلافت بادشاہت باطل و ناحق ہے کیونکہ اہل سنت کے مطابق سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اگرچہ خلیفہ راشد نہیں مگر برحق عادل نیک بادشاہ ضرور ہیں۔۔۔۔ تفصیل و دلائل اس لنک پر دی گئی تحریر میں پڑھیے
https://www.facebook.com/share/p/TzcySvz4Mh8ce6yP/
۔
https://tahriratehaseer.blogspot.com/2024/03/blog-post_87.html
۔
اعتراض کرنے والے علماء کرام کہ بارگاہ میں ہماری تحریر و عرض و گذارش پیش کریں۔۔۔۔ہماری تحریر پہنچائیں۔۔۔۔ہماری گزارش پہنچائیں کہ علامہ صاحب خصوصی رحم و کرم فرمائیں، خصوصی توجہ توجیہ تطبیق اپنائیں، کرم فرمائیں۔۔۔۔ایک چیز اہل سنت میں معروف و مشہور ہے ، اس کو اپ حدیث کے خلاف بتا رہے ہیں جبکہ اس کا صحیح مطلب بھی نکل سکتا ہے تو صحیح مطلب نکالنا ہی لازمی ہے ۔۔۔صحیح مطلب بتانا پھیلانا ہی لازمی ہے
۔
قران و حدیث میں تو حکم ہے کہ جب تک صحیح مطلب نکل سکتا ہو تب تک اعتراض نہیں کرنا چاہیے اور صحیح مطلب پر کلام کو محمول کرنا چاہیے۔۔۔۔ اسی طرح کسی کام کی درست تاویل درست توجیہ نکلتی ہو تو اس کام پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔۔۔۔۔ فروعی معاملات میں ایسا اختلاف کہ ایک دوسرے کی مذمت کرنے لگ جائیں یہ کہنا شروع ہو جائیں کہ یہ حدیث کے خلاف جاتا ہے بدعتی ہے مشرک ہے فلاں فلاں۔۔۔۔۔یہ انداز درست نہیں ہمیں بڑے دل جگرے والا ہونا چاہیے۔۔۔ اسی میں اسلام کی اہل سنت کی یگانیت و پیار و اتحاد ہے
.
بےجا اعتراض پھیلانا نفرت پھیلانے کے مترادف ہے انتشار پھیلانے کے مترادف ہے۔۔۔ بھائی چارگی و اتحاد کے منافی ہے
القرآن:
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ
مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں
(سورہ الحجرات آیت10)
۔
حتی المقدور کوشش کیجئے کہ بھائی چارہ پھیلائیے۔۔۔اختلافات نہ بڑھائیے۔۔۔۔کم سے کم کرنے کی کوشش کیجیے ہاں فاجر ظالم بد مذہب کرپٹ ڈاکو چور گستاخ وغیرہ باطلوں ایجنٹوں منقفقوں کو سمجھائیں لیکن وہ نہ سمجھیں اور ضد پہ اڑ جائیں تو ان کی مذمت ضروری ہے۔۔۔۔مرمت ضروری ہے ورنہ حتی المقدور محبت بھائی چارہ برداشت ضروری ہے
.
القرآن:
لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْاؕ-اِعْدِلُوْا
ترجمہ:
کسی سے اختلاف و دشمنی تمہیں اس پر جری نہ کرے، تمہیں اس پر نہ اکسائے کہ تم عدل نہ کرو بلکہ (دوست دشمن مخالف) ہر ایک سے عدل کرو...(سورہ مائدہ آیت8)
.
دوستی دشمنی تعریف مذمت تنقید تحقیق ہر بات ہر معاملے میں اسلام عدل و سچائی کا حکم دیتا ہے
مگر
افسوس آج کے معاشرے میں اس پر عمل بہت ہی کم نظر آتا ہے... ذرا سا اختلاف ہو جائے تو بےجا تنقید و مذمت شروع کر دی جاتی ہے... کسی سے اختلاف و دشمنی ہو تو حدیں پار کر لی جاتی ہیں... جبکہ اسلام ہمیں اختلاف میں بھی عدل کا حکم دیتا ہے تو پھر فروعی اختلاف میں تو بدرجہ اولی عدل و انصاف ضروری ہے برداشت ضروری ہے کیونکہ فروعی اختلاف صحابہ کرام میں ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کی مذمت نہ فرمائی
۔
الحدیث:
قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الأحزاب: «لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة» فأدرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم: بل نصلي، لم يرد منا ذلك، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فلم يعنف واحدا منهم
غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:
تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)
پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نہ فرمائی
(بخاری حدیث946)
.
دیکھا آپ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کا قیاس و استدلال اور اس میں اختلاف... صحابہ کرام نے اس برحق اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر منافق فاسق گمراہ گستاخ نہیں کہا اور نبی پاک نے بھی کسی کی ملامت نہ فرمائی...ایسا اختلاف قابل برداشت ہے بلکہ روایتوں میں ایسے فروعی برحق پردلیل باادب اختلاف کو رحمت فرمایا گیا ہے
.
اختلاف ایک فطرتی چیز ہے.... حل کرنے کی بھر پور کوشش اور مقدور بھر علم و توجہ اور اہلِ علم سے بحث و دلائل کے بعد اسلامی حدود و آداب میں رہتے ہوئے پردلیل اختلاف رحمت ہے
مگر
آپسی تنازع جھگڑا ضد انانیت تکبر لالچ ایجنٹی منافقت والا اختلاف رحمت نہیں، ہرگز نہیں...اختلاف بالکل ختم نہیں ہو پاتا مگر کم سے کم ضرور کیا جا سکتا ہے،اس لیے اختلاف میں ضد ،انانیت، توہین و مذمت نہیں ہونی چاہیے بلکہ صبر اور وسعتِ ظرفی ہونی چاہیے... اور یہ عزم و ارادہ بھی ہونا چاہیے کہ اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، ختم نہیں ہو پایا تو اختلاف کو کم سے کم ضرور کیا جائے گا..اختلاف کو جھگڑے سے بچایا جائے گا..
.
اختلاف کی بنیاد حسد و ضد ہر گز نہیں ہونی چاہیے...
اختلاف اپنی انا کی خاطر نہ ہو
اختلاف لسانیت قومیت کی خاطر نہ ہو
اختلاف ذاتی مفاد لالچ کی خاطر نہ ہو
اختلاف شہرت واہ واہ کی خاطر نہ ہو
اختلاف فرقہ پارٹی کی خاطر کی نہ ہو
اختلاف کسی کی ایجنٹی کی خاطر نہ ہو
اختلاف منافقت، دھوکے بازی کی خاطر نہ ہو
اختلاف ہو تو دلیل و بھلائی کی بنیاد پر ہو، بہتر سے بہترین کی طرف ہو، علم و حکمت سے مزین ہو،
.
ہر شخص کو تمام علم ہو،ہر طرف توجہ ہو، ہر میدان میں ماہر ہو یہ عادتا ممکن نہیں، شاید اسی لیے مختلف میدانوں کے ماہر حضرات کی شوری ہونا بہت ضروری ہے، اسی لیے اپنے آپ کو عقل کل نہیں سمجھنا چاہیے....بس میں ہی ہوں نہیں سوچنا چاہیے...ترقی در ترقی کرنے کی سوچ ہو، ایک دوسرے کو علم، شعور، ترقی دینے کی سوچ ہو....!!
.
کسی کا اختلاف حد درجے کا ہو، ادب و آداب کے ساتھ ہو، دلائل و شواہد پر مبنی ہو تو اس سے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے...ایسے اختلاف والے کی تنقیص و مذمت نہیں کرنی چاہیے،ایسے اختلاف پے خطاء والے کو بھی اجر ملتا ہے
۔
الحدیث:
فاجتهد، ثم اصاب فله اجران، وإذا حكم فاجتهد، ثم اخطا فله اجر
مجتہد نے اجتہاد کیا اور درستگی کو پایا تو اسے دو اجر اور جب مجتہد نے اجتہاد کیا خطاء پے ہوا اسے ایک اجر ملے گا
(بخاری حدیث7352)
توجیہ تنبیہ جواب تاویل ترجیح کی کوشش کرنی چاہیے جب یہ ممکن نا ہو تو خطاء اجتہادی پر محمول کرنا چاہیے.....ہاں تکبر عصبیت مفاد ضد انانیت ایجنٹی منافقت وغیرہ کے دلائل و شواہد ملیں تو ایسے اختلاف والے کی تردید و مذمت بھی برحق و لازم ہے
.
اسی طرح ہر ایک کو اختلاف کی بھی اجازت نہیں... اختلاف کے لیے اہل استنباط مین سے ہونا ضروری ہے... کافی علم ہونا ضروری ہے... وسعت ظرفی اور تطبیق و توفیق توجیہ تاویل ترجیح وغیرہ کی عادت ضروری ہے، جب ہر ایرے غیرے کم علم کو اختلاف کی اجازت نا ہوگی تو اختلافی فتنہ فسادات خود بخود ختم ہوتے جاءیں گے
.
القرآن:
لَوۡ رَدُّوۡہُ اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ
اگر معاملات و مسائل کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق،باشعور،باریک دان،سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور جان لیتے
(سورہ نساء آیت83)
آیت مبارکہ میں واضح حکم دیا جارہا ہے کہ اہل استنباط کی طرف معاملات کو لوٹایا جائے اور انکی مدلل مستنبط رائے و سوچ و حکم کی تقلید و پیروی کی جائے.. ہر ایرے غیرے کم علم جلد باز فسادی انتشار پھیلانے والے کی طرف معاملات کو ہرگز نہیں لوٹانا چاہیے
۔
الحدیث:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الأناة من الله والعجلة من الشيطان
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
انائت(جلد بازی نہ کرنا،مناسب وقت موقعہ الفاظ انداز کا لحاظ رکھنا ، ثابت قدمی، سنجیدگی، وقار، وسعتِ ظرفی،صبر) اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے..(ترمذی حدیث2012)
.
زندگی کا بہت ہی اہم اصول کہ جلدبازی نہیں کرنی چاہیے... چاہے دینی معاملہ ہو یا دنیاوی،
سیاسی معاملہ ہو یا ذاتی معاملہ....
باہر کا معاملہ ہو یا گھریلو معاملہ....
دوستی کا معاملہ ہو یا دشمنی کا....
محبت کا معاملہ ہو یا نفرت کا....
رشتہ توڑنے کا معاملہ ہو یا کسی سے رشتہ جوڑنے کا...
کسی پر اعتماد کا معاملہ ہو یا بے اعتمادی کا...
کسی کو سمجھنےسمجھانے کا معاملہ ہو یا تنقید کا.....
کسی کی تائید و تعریف کا معاملہ ہو یا تردید و مذمت کا...
الغرض
ہر معاملے میں جلد بازی ٹھیک نہیں، اہل علم سے، اہلِ شعور سے حتی کہ چھوٹوں سے بھی مشاورت کر لینی چاہیے مگر جلد بازی نہیں کرنی چاہیے...مناسب انداز و لحاظ رکھنا چاہیے، غصہ ہی غصہ تکبر جلدبازی میں نقصان و تباہی ہے.....اختلافات جگھڑے فسادات کی ایک بڑی وجہ عدمِ برداشت اور جلد بازی ہے
.
اچھا معنی مراد لینا ضروری ہے جب تک اچھا معنی مراد لیا جا سکے تب تک اعتراض کرنا غلط ہے بدگمانی کرنا سخت ممنوع ہے
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا(سورہ الحجرات آیت12)
والمؤمن ينبغي أن يحمل كلام أخيه المسلم على أحسن المحامل ، وقد قال بعض السلف : لا تظن بكلمة خرجت من أخيك سوءا وأنت تجد لها في الخير محملا .
فمن حق العلماء: إحسان الظن بهم؛ فإنه إذا كان من حق المسلم على المسلم أن يحسن الظن به ، وأن يحمل كلامه على أحسن المحامل، فمن باب أولى العالم
خلاصہ:
قرآن و حدیث میں حکم ہے کہ بدگمانی غیبت تجسس سے بچا جائے،اچھا گمان رکھا جائےاسی وجہ سےواجب ہےکہ مذمت تکفیر تضلیل تفسیق اعتراض کےبجائے عام مسلمان اور بالخصوص اہلبیت صحابہ اسلاف صوفیاء و علماء کےکلام.و.عمل کو
حتی الامکان
اچھےمحمل،اچھے معنی،اچھی تاویل پےرکھاجائے
(دیکھیےفتاوی حدیثیہ1/223...فتاوی العلماءالکبار فی الارہاب فصل3...فھم الاسلام ص20...الانوار القدسیہ ص69)
.
،قال عمر رضی اللہ عنہ
ولا تظنن بكلمة خرجت من مسلم شراً وأنت تجد لها في الخير محملا
حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں
مسلمان کوئی بات(یا عمل) کرے اور آپ اس کا اچھا محمل و معنی پاتے ہوں تو اسے برے معنی پر محمول ہرگز نہ کریں
(جامع الاحادیث روایت31604)
.
سیدی اعلٰی حضرت امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ بعض محتمل لفظ(اور اسی طرح محتمل عمل میل جول لین دین شرکت) جب کسی مقبول سے صادر ہوں بحکمِ قرآن انہیں "معنی حسن" پر حمل کریں گے، اور جب کسی مردود سے صادر ہوں جو صریح توہینیں کرچکا ہو تو اس کی خبیث عادت کی بنا پر معنی خبیث ہی مفہوم ہوں گے کہ:
کل اناء یترشح بما فیہ صرح بہ الامام ابن حجر المکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔
ہر برتن سے وہی کچھ باہر آتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے...(فتاوی رضویہ ج29، ص225)
.
الحدیث:
إِنَّ اللَّهَ لَيُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ
ترجمہ:
بےشک اللہ عزوجل فاجر(گمراہ، بدمذھب،منافق، مرتد، زندیق،فاسق،ظالم)سے بھی اس دین اسلام کی تائید.و.خدمات لیتا ھے(صحیح بخاری حدیث 3062)
(شیعہ کتاب نفحات الأزهار 19/36)
خدمات تقریریں کتب خدمت خلق بھی اسی وقت کام آئے گی جب عقیدے نظریے ٹھیک ہوں اعمال ٹھیک ہوں، شیطان کتنا بڑا عالم عبادت گذار تھا مگر ایک برے نظریے نے اسے مردود لعنتی بنا دیا اسکا علم اسکی عبادات شہرت سب کچھ رائیگاں گیا…ایک گلاس دودھ میں چند قطرے زہر یا پیشاب کے ملا لیں اور کہا جائے دو چار ہی تو قطرے ہیں باقی تو دودھ ہے اس سے اتحاد کر لو اس دودھ کو بھی اچھا مفید سمجھ لو، پی لو........؟؟کیا ایسا کہنا ٹھیک ہے؟؟ ہر گز نہیں عقلا اخلاقا شرعا ہر لحاظ سے ٹھیک نہیں…خوارج بھی کلمہ گو، بہت نیک و قاری تھے، مگر ان کی مزمت و مشروط قتل حدیث پاک سے ثابت ہے کیونکہ ان کے دو چار نظریے ہی اسلام کے منافی تھے…صحابہ کرام نے انہیں سمجھایا اور ضدی فسادیوں سے جہاد کیا…خوارج تم کلمہ گو ہو اہل قبلہ ہو اس لیے تم سے اتحاد کرتے ہین تمھہیں بھی حق کہتے ہیں ایسا صحابہ کرام نے نہ کیا......لیھزا ہر جگہ اتحاد کی میٹھی دعوت بھی گمراہ کن ہے، ایسوں سے اتحاد نہ کرنا لازم...انہیں سمجھانا لازم...ضدی فسادی بدمذہب سے مشروط قتال ورنہ بائیکاٹ و مذمت لازم......یہ تفرقہ بازی نہیں ،عیب جوئی نہیں ، غیبت نہیں بلکہ حق بیانی و لازم ہے اسلام کی نمک حلالی ہے، حق بیانی ہے
.
القرآن..ترجمہ:
حق سے باطل کو نا ملاؤ اور جان بوجھ کر حق نہ چھپاؤ
(سورہ بقرہ آیت42)
.
الحدیث:
أترعون عن ذكر الفاجر؟، اذكروه بما فيه يعرفه الناس
ترجمہ:
کیا تم(زندہ یا مردہ طاقتور یا کمزور کسی بھی) فاجر(فاسق معلن منافق , خائن،مکار، دھوکے باز بدمذہب مفادپرست گستاخ) کو واضح کرنے سے ہچکچاتے ہو...؟(جیسا وہ ہے ویسا کہنے سے گھبراتے ہو...؟؟)اسے ان چیزوں(ان کرتوتوں، عیبوں اعلانیہ گناہوں ، خیانتوں، منافقتوں دھوکے بازیوں) کے ساتھ واضح کرو جو اس میں ہوں تاکہ لوگ اسے پہچان لیں(اور اسکی گمراہی خیانت منافقت بدعملی دھوکے بازی مکاری شر فساد سے بچ سکیں)
(طبرانی معجم کبیر حدیث 1010)
(طبرانی معجم صغیر حدیث598نحوہ)
(شیعہ کتاب ميزان الحكمة 3/2333نحوہ)
یہ حدیث پاک کتبِ حدیث و تفاسیر اور فقہ و تصوف کی کئی کتب میں موجود ہے... مثلا جامع صغیر، شعب الایمان، احیاء العلوم، جامع الاحادیث، کنزالعمال، کشف الخفاء ردالمحتار ، عنایہ شرح ہدایہ، فتاوی رضویہ، تفسیر ثعالبی، تفسیر درمنثور وغیرہ کتب میں بھی موجود ہے
علامہ ہیثمی نے فرمایا:
وإسناد الأوسط والصغير حسن، رجاله موثقون، واختلف في بعضهم اختلافاً لا يضر
مذکورہ حدیث پاک طبرانی کی اوسط اور معجم صغیر میں بھی ہے جسکی سند حسن معتبر ہے، اسکے راوی ثقہ ہیں بعض میں اختلاف ہے مگر وہ کوئی نقصان دہ اختلاف نہیں
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ت حسين أسد2/408)
.
#سمجھانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے...مگر حسبِ تقاضہِ شریعت ایسوں کے عیوب مکاریاں منافقتیں خیانتیں کرپشن فسق و فجور دھوکے بازیاں بیان کرنا برحق ہے لازم ہے اسلام کا حکم ہے....یہ عیب جوئی نہیں، غیبت نہیں، ایسوں کی پردہ پوشی کرنا جرم ہے... یہ فرقہ واریت نہیں، یہ حسد نہیں، بغض نہیں بلکہ حق کی پرواہ ہے اسلام کے حکم کی پیروی ہے...شاید کہ یہ سدھر جائیں انہیں ہدایت ملے ورنہ ذلت کے خوف سے فساد و گمراہی پھیلانے سے رک جائیں اور معاشرہ اچھا بنے... ہاں حدیث پاک میں یہ بھی واضح ہے کہ وہ عیوب، وہ خیانتیں، وہ دھوکے بازیاں وہ کرتوت بیان کیے جائیں جو اس مین ہوں...جھوٹی مذمت الزام تراشیاں ٹھیک نہیں......!!
.
کوئی مجرم اپنے جرم سے سچی توبہ کر لے تو بے شک توبہ قبول ہوتی ہے مگر یاد رکھیے کچھ جرائم ایسے ہوتے ہیں کہ توبہ رجوع تو قبول مگر توبہ رجوع کی وجہ سے انکی سزا معاف نہیں ہوتی...ایسا نہیں کہ جو مَن میں آئے جرم کرو اور توبہ کرکے سزا معاف......؟؟نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں... بلکہ بعض جرائم ایسے ہوتے ہیں کہ توبہ کے باوجود سزا اسلام نے مقرر و لازم کر دی ہے... عقل کے لحاظ سے بھی یہ ٹھیک ہے، اسی میں ذاتی اجتماعی انسانی معاشرتی بھلائی ہے... بے شک اسلام کے کیا ہی بہترین عمدہ ترین برحق اصول ہیں.......!!
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App,twitter nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574
آپ میرا نام و نمبر مٹا کر بلانام یا ناشر یا پیشکش لکھ کر اپنا نام ڈال کے آگے فاروڈ کرسکتے ہیں،کاپی پیسٹ کرسکتے ہیں،شئیر کرسکتے ہیں...نمبر اس لیے لکھتاہوں تاکہ تحقیق رد یا اعتراض کرنے والے یا مزید سمجھنے والےآپ سے الجھنے کےبجائے ڈائریکٹ مجھ سے کال یا وتس اپ پے رابطہ کرسکیں