*#سموگ کا حل اور کس کی کیا ذمہ داری۔۔۔۔۔۔۔؟؟*
احباب ذی وقار یہ زمین ، یہ ملک اللہ نے ہمیں اس کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔۔۔ اس میں فساد نہ ڈالنے۔۔۔ اسے برباد نہ کرنے اس میں تباہی نہ مچانے کا حکم دیا ہے۔۔۔چاہے ہم عام ادمی ہوں یا عالم ہوں یا طالب علم ہوں یا سائنسدان ہوں یا سیاستدان ہوں یا حکمران ہوں جج وکیل صدر وزیر ہوں یا کسان ہوں کچھ بھی ہوں ہم سب پر اس سرزمین و فضاء کی حفاظت لازم ہے
۔
القرآن:
لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ
زمین کی درستگی کے بعد اسے خراب نہ کرو اسی میں تمہاری بھلائی ہے..(سورہ اعراف آیت85)
.
وَقَالَ الضَّحَّاك: من الْفساد فِي الأَرْض تغوير الْمِيَاه، وَقطع الْأَشْجَار المثمرة
یعنی امام ضحاک فرماتے ہیں کہ زمین کو خراب کرنے کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ پانیوں کو ضائع کیا جائے اور پھلدار درختوں کو کاٹا جائے
(تفسیر سمعانی2/189)
.
مفسرین کرام نے زمین کو برباد کرنے۔۔۔۔۔ اس میں فساد ڈالنے کی مختلف صورتوں کو بیان کیا ہے اور سب کو ناجائز و حرام و ممنوع قرار دیا ہے ۔۔۔۔معاشرے کو تباہ کیا جائے ۔۔۔۔۔زمین کو تباہ کیا جائے ۔۔۔۔فضا کو تباہ کیا جائے یہ سب جائز نہیں ہے
۔
سود رشوت زنا فحاشی اسمگلنگ باطل طریقے دھوکہ جوا نفسا نفسی مفاد پرستی عیاشی شراب نوشی وغیرہ تمام برائیاں معاشرے کو تباہ کرتی ہیں۔۔۔۔ آنے والی نسل کو تباہ کرتی ہیں ۔۔۔دوسرے لوگوں کو برائی کی ترغیب ملتی ہے اور معاشرہ تباہ ہوتا جاتا ہے یہ سب جائز نہیں ہے ڈبل سے بھی سخت گناہ ہے کہ ایک تو گناہ اور دوسرا گناہ کی ترغیب اور تیسرا معاشرے کی تباہی
۔
اسی طرح معاشرے کو جہالت الحاد بے دینی بد مذہبی وغیرہ سے پاک نہ کرنا۔۔۔ بچانے کی کوشش نہ کرنا بھی معاشرے کو تباہ کرنا ہے ہر قسم کے ناسور ہر قسم کی برائیاں تباہیاں ان کو ختم کرنے کی کوشش نہ کرنا گویا معاشرے کو تباہ کرنا ہے۔۔۔۔ایسی سستی جائز نہیں ہے
۔
اسی طرح قدرتی ماحول کو خراب کرنا بھی درست نہیں ہے ۔۔۔۔درختوں کی کٹائی بے دردی سے کرنا بہت بڑا جرم ہے۔۔۔ اسلام تو ہمیں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ترغیب دیتا ہے اور ضرورت ہو تو بقدر ضرورت کٹائی کی بھی اجازت دیتا ہے لیکن اج کل تو درخت ایندھن کے طور پر استعمال نہ کیے جائیں لازم ہے۔۔۔۔ اس کے بجائے کوئلہ گیس وغیرہ نعم البدل ایندھن استعمال کیا جائے کہ ایک تو پہلے سے درخت کم ہیں اور پھر کٹائی کی اجازت مطلق دی جائے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے
۔
اسی طرح جو سرزمین نفع کے قابل ہے ۔۔۔۔کھیت کے قابل ہے اسے کھیت میں استعمال نہ کرنا بھی ٹھیک نہیں لیکن جو ریگستان قدرتی طور پر قدرتی ماحول کے لیے فضا کے لیے ضروری ہے اس ریگستان کو بھی ختم نہیں کر سکتے ۔۔۔۔اس ریگستان کو ریگستان رہنے دینے میں ہی بھلائی ہے کہ اس کی وجہ سے زمین کے دوسرے خطوں میں فائدہ ہو رہا ہوتا ہے ۔۔۔۔ جس طرح زمین کی ایک خطے میں بہت زیادہ درخت ہوں تو اس کا فائدہ ریگستان کو ہوتا ہے اسی طرح ریگستان کا فائدہ دوسرے خطے کے درختوں کو ہوتا ہے
۔
اسی طرح کوئلہ گیس تیل وغیرہ معدنیات زیادہ مقدار میں نکالنا۔۔۔۔ اس بارے میں بھی محققین کو سائنسدانوں کو سوچنا چاہیے ۔۔۔۔معتبر سائنسدانوں کی ماننا چاہیے کہ کہیں ہم گیس تیل وغیرہ زیادہ نکال کر زمین کے اندر کے ماحول کو خراب تو نہیں کر رہے کہ جس کی وجہ سے زمین کی باہر کی فضا بھی خراب ہو رہی ہو۔۔۔۔۔ فساد پیدا ہو رہا ہو۔۔۔۔۔؟؟
۔
اسی طرح فصلوں کی باقیات کو جلانا کہ جس سے سموگ کی صورت پیدا ہو رہی ہے اور گاڑیوں کے دھواں جس سے سموگ کی صورت پیدا ہو رہی ہے فضائی الودگیاں بھٹیاں کارخانے فیکٹریاں گھریلو دھواں فصلوں کی باقیات کا دھواں ان سب کے متعلق محققین معتبر سائنسدان کہہ دیں کہ فضا کو یہ سب خراب کر رہے ہیں سموگ کی صورت پیدا ہو رہی ہے سموگ بڑھتی جا رہی ہے گلا خراب ہو رہا ہے گردے پھیپھڑے خراب ہو رہے ہیں کھانسی ہو رہی ہے بخار اور طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں تو معتبر محققین کی ۔۔۔۔معتبر سائنسدانوں کی۔۔۔۔ معتبر سیاست دانوں کی بات ماننا لازمی ہے اور سموگ کے تدارک کے لیے ہم میں سے ہر ایک کو اپنا فریضہ سر انجام دینا لازمی ہے
بلکہ
امیر لوگ تو اپنا علاج لندن انگلینڈ جینیوا وغیرہ میں جا کر کرا لیتے ہیں۔۔۔۔ وہاں چھٹیاں گزار لیتے ہیں۔۔۔۔ اس فضا میں ہم غریبوں کو رہی رہنا ہے تو یہ ہم اپنی سرزمین کو کیوں برباد کر رہے ہیں ۔۔۔۔ کیوں تباہ کر رہے ہیں کہ جس میں ہم نے رہنا ہے ، ہماری نسلوں نے رہنا ہے تو ہم اپنے اپ کو کیوں تباہ برباد کر رہے ہیں کیوں بیمار کر رہے ہیں آنے والی نسلوں کو کیوں بیمار کر رہے ہیں ۔۔۔۔ہمیں سوچنا چاہیے اور ہم میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داری پوری کرے
۔
1....علماء کرام ذمہ داری پوری فرمائیں کہ وہ جمعۃ المبارک کےبیانات میں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اور بالمشافہ ملاقات وغیرہ کے ذریعے لوگوں کو سمجھائیں کہ اسلام نے ہمیں کیا حکم دیا ہے۔۔۔۔ ہم کیسے سموگ سے بچ سکتے ہیں ۔۔۔۔ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے علماء کرام سمجھائیں سمجھانا علماء کرام کی ذمہ داری ہے
۔
2....ڈاکٹروں پر ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ علاج کے ساتھ ساتھ سختی کے لیے بھی کہیں کہ اپ نے یہ احتیاط کرنی ہے ۔۔۔۔دھوئیں کو کم سے کم کرنا ہے۔۔۔۔ دھوئیں سے دور بھاگنا ہے۔۔۔۔ دھوئیں کے نقصانات سموگ کے نقصانات سے اگاہ کرنا ہے.... دھواں شراب نشہ وغیرہ کتنا خطرناک و نقصان دہ ہے اگر ڈاکٹر حضرات دلائل کے ساتھ لاجک کے ساتھ سمجھائیں گے ،ٹی وی پر ا کر سمجھائیں گے ،سوشل میڈیا پر ا کر سمجھائیں گے اور بتائیں گے کہ ہمارے گردے پھیپھڑے ہمارا نظام ہماری فضا ہماری زمین کس طرح تباہ ہو رہی ہے تو لوگ ضرور سمجھیں گے اور فائدہ ہوگا۔۔۔۔ یہ ڈاکٹر حضرات کی ذمہ داری ہے وہ اپنی ذمہ داری پوری فرمائیں
۔
3۔۔۔۔۔اسی طرح سائنس دان حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی دلائل کے ساتھ سموگ نشہ دھواں کے نقصانات بتائیں کہ ان کی بات میں وزن سمجھا جائے گا اور سائنسدان حضرات پر دوسری ذمہ داری بھی ہے کہ وہ فصلوں کے باقیات کو جلانے کے لیے کوئی کیمیائی طریقہ ڈھونڈیں کہ جس سے سموگ نہ پیدا ہو بلکہ جلا کر انرجی حاصل کی جائے ۔۔۔۔وہ فصلوں کے باقیات کو بطور ایندھن محفوظ کرنے کے کیمیائی طریقے تلاش کرنے کی کوشش کریں، تجربات کریں لوگوں کو راہ دکھائیں کہ ہم باقیات سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں نیز وہ ماحول دوست گاڑیاں موٹر سائیکلیں انرجی بجلی وغیرہ زیادہ سے زیادہ پیدا کرنے کی کوشش کریں تاکہ پٹرول ڈیزل کے دھوئیں پرانی گاڑیوں کے دھوئیں سے نجات ملے یہ سب ذمہ داری سائنسدانوں کی ہےاگر سائنس دان حضرات توجہ نہیں کریں گے تو یہ ذمہ داری پوری نہ کرنا ہے
۔
4۔۔۔۔۔۔پولیس سیاستدان فوج عدلیہ حکومت حکمران ان سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ علماء کرام اور ڈاکٹروں اور سائنس دانوں کی ہدایات پر سختی سے عمل کروائیں جو عمل نہ کرے اس پر سزا مقرر کی جائے سختی کی جائے۔۔ملک سے چھٹی لے کر بھاگ جانا اور باہر جا کر اپنا علاج کرانا اور باہر کے اچھے موسم میں رہنا یہ نفسا نفسی ہے۔۔۔۔ عوام کو چھوڑ کر جانے والے عوام کا درد نہیں سمجھتے وہ مفاد پرست ہیں وہ حقیقی سیاستدان نہیں۔۔۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت لوگوں کو کہے کہ اپ لوگ باقیات جلانے کے بجائے ہمیں بیچ دیں اور حکومت ان باقیات کے لیے زمین کا ایک حصہ مخصوص کرے اور سائنس دانوں کو موقع دے کہ وہ کیا کہتے ہیں کہ کسی اور موسم میں جلائیں باقیات کو یا کسی اور انرجی میں اس کو کنورٹ کیا جائے۔۔۔۔ لوگوں سے اگر فصلوں کی باقیات خریدی جائیں گی تو یقینا وہ جلانے کے بجائے فائدہ اٹھائیں گے پیسہ کمائیں گے اور حکومت کو بیچ دیں گے
۔
5۔۔۔۔عالمی سطح پر پانی کے تقسیم کے قواعد و ضوابط قوانین ہیں حقوق ہیں اسی طرح طوفان بارش وغیرہ کے الرٹ عالمی حقوق ہیں تو اسی طرح فضا کی الودگی سموگ وغیرہ میں بھی قانون بننا چاہیے عالمی برادری انڈیا پاکستان بنگلہ دیش سری لنکا وغیرہ تمام ممالک پر لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں ایک دوسرے کی فضا کا خیال رکھیں اگر ان کی وجہ سے سموگ کسی دوسرے ملک میں بن رہی ہے تو اس کا تدارک کرنے کے لیے جو کچھ عالمی برادری انسانی ہمدردی کے ناطے طے کرے معتبر لوگ سائنسدان طے کریں اس پر چلنا لازمی ہونا چاہیے ورنہ عالمی برادری خلاف ورزی کرنے والے پر سزا و پابندیاں لگائے
۔
6۔۔۔۔۔دوا بھی ضروری ہے دعا بھی ضروری ہے احتیاط بھی ضروری ہے شریعت نے تینوں چیزوں کا حکم دیا ہے لہذا ہمیں سموگ سے بچنے کے لیے دوا بھی کرنی ہوگی دعا بھی کرنی ہوگی اور احتیاط بھی اپنانی ہوگی نہ جانے کس وسیلے سے نجات مل جائے محض دوا اور احتیاط پر کام کرنا انسان کو نفسا نفسی بے دینی کی طرف لے جاتا ہے ۔۔۔۔اللہ کی بارگاہ میں دعا بھی کرنی چاہیے گڑگڑانا چاہیے اللہ کی بارگاہ میں جھکنا چاہیے کہ یا رب کریم ہم نے احتیاط کی احتیاط کر رہے دوا کر رہے دعا کر رہے کرم فرما۔۔۔۔حتی کہ اجتماعی دعا بھی کی جا سکتی ہے حتی کہ سموگ کے لیے خصوصی طور پر دعا اجتماعی دعا کی جا سکتی ہے۔۔۔۔ سموگ سے بچنے کے لیے خصوصی اجتماع کیا جا سکتا ہے اور اس میں دوا دعا احتیاط تینوں چیزوں کا کہا جائے تاکہ لوگ اجتماع میں دعا بھی کریں اور دوا و احتیاط بھی اپنائیں اس تینوں طریقوں میں معاشرتی ذہنی انفرادی دینی دنیاوی ترقی و فلاح و بھلائی ہے
۔
7۔۔۔۔عوام پر ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معتبر بزرگوں کی باتوں پہ۔۔۔۔معتبر ڈاکٹروں کی باتوں پہ ۔۔۔۔ معتبر سائنسدان ان کی باتوں پہ۔۔۔۔معتبر حکمرانوں کی باتوں پہ۔۔۔ معتبر سیاست دانوں کی باتوں پہ۔۔۔معتبر علماء کرام کی باتوں پہ عمل کریں احتیاطیوں پہ عمل کریں اگر یہ لوگ کہیں کہ اس وقت فصلوں کی باقیات نہیں جلانی بلکہ جمع کر کے رکھنی ہے کسی اور مہینے میں کسی اور موسم میں جلائیں گے تو ان کی باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔۔۔۔ سموگ کے ماحول میں موسم میں فصلوں کی باقیات نہ جلانا لازم ہے۔۔۔یا ان باقیات کو کیسے ٹھکانے لگانا ہے سائنس دانوں کی باتوں پر عمل کریں سیاست دانوں کی باتوں پر عمل کریں علماء کی باتوں پر عمل کریں احتیاط پر عمل کریں۔۔۔۔ عوام نفسا نفسی میں مت ائیں۔۔۔کچھ نہیں ہوتا کچھ نہیں ہوتا اس میں مت پھنسے یہ شیطان کی چال ہو سکتی ہے۔۔۔کچھ فائدے کے لیے باقیات جلا کر نقصان کرنا اور ماحول کو معاشرے کو تباہ کرتے جانا کہاں کی عقلمندی ہے۔۔۔۔۔ عوام ہوش کے ناخن لے درخت نہ کاٹے درخت زیادہ اگائے اپنی فصلوں کے کونوں کونوں میں درخت اگائے۔۔۔ حدیث پاک میں ہے کہ اسباب کو اختیار کرو پھر توکل کرو یہ اللہ کا حکم ہے کہ ہم احتیاط کا دامن تھامیں۔۔۔ ہوشیاری اختیار کریں
۔
القرآن..ترجمہ:
اے ایمان والو ہوشیاری،احتیاط سے کام لو...(سورہ نساء آیت71)
.
ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ..ترجمہ:
ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮨﻼﮐﺖ ﻣﻴﮟ نہ ﮈﺍﻟﻮ.(سورہ بقرہ ایت195)
.
دوا دعا احتیاط تینوں چیزیں لازم ہیں اسی میں ہے ہوشیاری ہے یہی احتیاط ہے ورنہ اپنے اپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے
۔
الحدیث:
قال رجل: يا رسول الله أعقلها وأتوكل، أو أطلقها وأتوكل؟ قال: اعقلها وتوكل
ترجمہ:
ایک شخص نے عرض کیا"یا رسول اللہ" میں اونٹنی کو باندھ کر توکل کروں یا اسے کُھلا چھوڑ کر توکل کروں...؟آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: اونٹنی کو باندھ اور توکل کر
(ترمذی حدیث نمبر2517)
.
سیدی امام احمد رضا علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
یہ توکل نہیں کہ(بیماری ہلاکت کے ظاہری) اسباب کے ساتھ (علاج.و.احتیاط کےبغیر محض جذبات و ناقص توکل کےساتھ)مقابلہ کیا جائے(فتاوی رضویہ24/267)
.
الحدیث:
أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رُقًى نَسْتَرْقِيهَا وَدَوَاءً نَتَدَاوَى بِهِ وَتُقَاةً نَتَّقِيهَا، هَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ شَيْئًا ؟ فَقَالَ : " هِيَ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ
ایک شخص نے رحمتِ عالم ﷺ کے حضور عرض کی :
یا رسول اللہ۔۔۔۔یہ جو دم(قرآن ، سنت ، حدیث وغیرہ ماثورہ وغیرہ دم درود دعائیں) ہیں، جن کےساتھ ہم دم کرتے ہیں ، اور دوائیں ، جن کے ذریعے علاج کرتے ہیں ، اور حفاظت و احتیاط و پرہیز کہ جن کے ذریعے ہم اپنا بچاؤ کرتے ہیں ؛ کیا یہ تقدیرِ الہی کو ٹال سکتے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
یہ تو خود اللہ کی تقدیر سے ہیں ۔(یعنی دعا دوا پرہیز و احتیاط سب کو اپنانا چاہیے کہ نہ جانے کس وسیلے سے شفاء و راحت و نجات مل جائے)۔۔۔۔۔(ترمذی ،حدیث2148)
.
سَبْعَةٌ يَجْرِي لِلْعَبْدِ أَجْرُهُنَّ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ وَهُوَ فِي قَبْرِهِ: مَنْ عَلَّمَ عِلْمًا، أَوْ كَرَى نَهْرًا، أَوْ حَفَرَ بِئْرًا، أَوْ غَرَسَ نَخْلًا، أَوْ بَنَى مَسْجِدًا، أَوْ وَرَّثَ مُصْحَفًا، أَوْ تَرَكَ وَلَدًا يَسْتَغْفِرُ لَهُ بَعْدَ مَوْتِهِ»
سات کام ایسے ہیں کہ بندہ جب اپنی زندگی میں کرے تو موت کے بعد بھی اس کو اس کا ثواب ملتا رہتا ہے
علم پڑھایا یا نھر کھدوائی جاری کرواءی یا کنواں کھدوایا یا کھجور(یا پھلدار یا کوئی بھی مفید)درخت اگائے یا مسجد(مدرسہ یا رہائش کی کوئی جگہ وقف)بنوائی یا مصحف(یا کوئی مفید کتاب) دی یا اولاد چھوڑی جو دعا و استغفار کرے
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ,1/167 حدیث769)
اس حدیث پاک میں دیگر کے کاموں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے تو ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ترغیب دی گئی ہے کہ پانی کا بندوبست کیا جائے نہری پانی کا بندوبست کیا جائے جس سے درخت پھل جنگلات زرعات اگائے جائیں
.
إنْ قامَتِ السّاعَةُ وَفِي يَدِ أحَدِكُمْ فَسِيلَةٌ فإن استطاع أن لا تقوم حتى يغرسها فليغرسها
بالفرض اگر قیامت واقع ہورہی ہو اور تمہارے ہاتھ میں پھل دار درخت کا پودا ہے اگر تم قیامت واقع ہونے سے پہلے پہلے اسے آگا سکتے ہو تو ضرور اگاؤ
(جامع صغیر حدیث2304)
درخت باغات جنگلات زرعات اگانے کی کتنی بڑی اہمیت و افادیت ہےمذکورہ حدیث پاک سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے
.
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «النَّخْلُ وَالشَّجَرُ بَرَكَةٌ عَلَى أَهْلِهِ، وَعَلَى عَقِبِهِمْ بَعْدَهُمْ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کھجور اور دیگر درخت برکت ہیں لگانے والے کے لئے اور اس کے بعد کے آنے والوں کے لیے
(المعجم الكبير للطبراني ,3/84 حديث2735)
اس حدیث پاک میں واضح ارشاد موجود ہے کہ درختوں زرعات جنگلات کا فائدہ ہمیں بھی ہوگا اور ہماری نسلوں کو بھی ہوگا
.
مَنْ نَصَبَ شَجَرَةً فَصَبَرَ عَلَى حِفْظِهَا وَالْقِيَامِ عَلَيْهَا حَتَّى تُثْمِرَ كَانَ لَهُ فِي كُلِّ شَيْءٍ يُصَابُ مِنْ ثَمَرَتِهَا صَدَقَةٌ عِنْدَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ
جس نے کوئی درخت لگایا اور اس کی حفاظت کی اور اس کی دیکھ بھال کی یہاں تک کہ وہ پھلدار ہوگیا تو جو بھی اس کے پھل سے( یا سائے سے یا کسی بھی طرح کا) فائدہ اٹھائے گا تو اس کے لئے اجر ہوگا
(مسند احمد حدیث16586)
اس حدیث پاک میں جہاں ترغیب و فضیلت ہے کہ درخت باغات جنگلات زرعات وغیرہ اگائے جائیں تو وہاں اس چیز کی بھی ترغیب ہے کہ ان کی دیکھ بھال کی جائے ، انہیں پانی دیا جائے ان کی حفاظت کی جائے
.
الحدیث:
يُحِبُّ النَّظَافَةَ
(نظافت اختیار کرو کہ)نظافت(پاکیزگی صفائی ستھرائی) اللہ کو پسند ہے
(ترمذی حدیث2799)
باطن و ظاہر کی پاکیزگی ، اخلاق و اعمال کی پاکیزگی ، معاشرے کی پاکیزگی ، سیاست کی پاکیزگی ، نظام کی پاکیزگی ، ماحول کی پاکیزگی ، پانی کی پاکیزگی ، سمندروں کی پاکیزگی ، دریاؤں کی پاکیزگی، فضا اور آب و ہوا کی پاکیزگی
الغرض
ہر قسم کی پاکیزگی کو اختیار کرنا چاہیے اس میں ہماری اور ہماری نسلوں کی اور ہمارے معاشرے کی بھلائی ہے، انسانیت کی بھلائی ہے
.
اسی پاکیزگی کا تقاضا ہے کہ ہم سمندروں میں انسانی فضلات، فیکڑیوں کے فضلات نہ پھینکیں...ندی نالوں میں پلاسٹک وغیرہ نہ پھینکیں بلکہ انہیں اچھے طریقے سے ٹھکانے لگائیں... زرعات کے فضلات جلا کر ضائع نہ کریں بلکہ دیگر کاموں میں لائیں یا کیمیائی وغیرہ طریقوں سے ضائع کریں کہ سموگ دھند وغیرہ جیسے مسائل پیدا نہ ہوں بلکہ فضلات زمین کے لیے بطور کھاد بنائے جاسکتے ہیں…ہمیں اس طرف بھرپور توجہ ترقی کی ضرورت ہے
.
اسی پاکیزگی کا تقاضا ہے کہ ہم دھوئیں وغیرہ کے ذریعہ سے ہوا کو آلودہ نہ کریں ، زیادہ دھواں دینے والی گاڑیاں ہوائی جہاز وغیرہ استعمال نہ کریں یا کم سے کم کریں، ماحول دوست طریقوں سے بجلی بنائیں، سولرانرجی استعمال کریں اور دھوئیں کو کس طرح مفید بنایا جاسکتا ہے اس طرف توجہ دیں ترقی کریں
.
اسی پاکیزگی کا تقاضا ہے کہ ہم ملاوٹ نہ کریں، کم کھائیں مگر اچھا کھائیں ،خالص کھائیں....خالص تر نہ سہی مگر کوشش کریں کہ اچھے سے اچھے کوائلٹی کا کھاءیں اگرچے کم ہو، اسی طرح بے جا نظافت بھی نہیں کرنی چاہیے، مثلا سبزیوں پھلوں کے مفید چھلکے کو اتار کر نہیں پکانا چاہیے نہیں کھانا چاہیے بلکہ ان کے چھلکوں ان کے پتوں سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے، آٹا بالکل زیادہ ہی صاف کر کے اس کا چھلکا اتار کر استعمال نہیں کرنا چاہیے کہ اب سائنسدان بھی مان گئے کہ اس کے چھلکے میں بڑی افادیت ہے، دالوں اور چنوں کے چھلکے بھی اتار کر ضائع نہیں کرنے چاہیے، گوشت ڈالیں سبزیاں وغیرہ کڑھائی کرکے نہیں کھانی چاہیے بلکہ پانی میں پکا کر استعمال کرنی چاہیے کہ اس طرح وٹامنز افادیت زیادہ ہے
.
اسی پاکیزگی کا تقاضا ہے کہ ہم پرتعش زندگی کی طرف نہ جائیں بلکہ معتدل رہیں، پیدل چلیں ، سائیکل کی سواری کریں...گاڑیوں اور "اے سی" فریزر وغیرہ کی بہتات ہمارے معاشرے کو یا درجہ حرارت کو خراب کر رہی ہے یا نہیں اس طرف سائنسدانوں کو توجہ دینی چاہیے، اسی طرح پیٹرول گیس بہت زیادہ نکال کر بے تحاشہ استعمال کرنا زمین کے درجہ حرارت اور زمین کے اندرونی نظام کو خراب تو نہیں کر رہا.....؟؟ اس طرف بھی سائنسدانوں کو توجہ دینی چاہیے
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App,twitter nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574