Labels

قبلہ احمد شاہ صاحب اور ان کے حمایتیوں تک یہ علمی تحقیقی تحریر پہنچائیں کہ شاید تنازعہ ٹھنڈا پڑ جائے


قبلہ سید احمد شاہ صاحب اور ان کی حمایت کرنے والے احباب تک یہ تحریر پہنچائیے، شاید کہ

قبلہ جلا لی کے متعلق سمجھ جائیں سلجھ جائیں۔۔۔لنکس پےتحریر روانی سےپڑہیے،آگےپیچھے نہیں ہوگی

*#سیدہ فاطمہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالی عنہا سے خطاء اجتہادی ہوئی یا نہیں اس معاملے میں آخری تحریر......!!*

تمھید:

قبلہ سید احمد شاہ صاحب نے قبلہ امام جلا لی صاحب کو سخت رگڑا دیا، سخت مذمت کی، گستاخ کہا تو دوسری طرف سے امام جلا لی صاحب کے حمایتی بھی کچھ سختی کا مظاہرہ فرما رہے ہیں اور سوشل میڈیا پہ وبال مچا ہوا ہے

 ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ  تعالی عنہا سے خطا اجتہادی ہوئی تھی یا نہیں.....؟؟

اور جلا لی صاحب نے کیا سیدہ پاک کی گستاخی کی یا نہیں....؟؟ اس سلسلے میں بار بار لکھنے کو جی نہیں چاہتا بس یہ اخری تحریر عرض کر رہا ہوں

.

*#خلاصہ اور میرا موقف.......!!*

 ہمارا عشق ہماری عقل ہمارا دل یہ کہتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اجتہادی خطا سے پاک ہیں صحابہ کرام اہل بیت عظام صوفیا کرام اولیاء کرام بھی اجتہادی خطا سے پاک ہیں

لیکن

 ہمارے عشق ہماری عقل پر شریعت کا دارومدار نہیں..... جب قران و احادیث میں انبیاء کرام کی طرف اجتہادی خطا کی نسبت کی گئی تو پھر جو انبیاء کرام کے بعد ہیں یعنی صحابہ کرام اہلبیت عظام  اسلاف وغیرہ ان کو ادب و دلیل کے ساتھ اجتہادی خطا پر کہنا بھی کوئی گستاخی نہیں گمراہی نہیں.....اس میں راز شاید یہ ہو کہ ہمارا امتحان ہے کہ ہم محض عقل عشق و چاہت پے چلتے ہیں یا سچا عشق رکھتے ہوئے شریعت پر عمل کرتے ہیں....؟؟

.

 علماء محققین صوفیاء فقہاء اکابرین اسلاف نے بعض اسلاف کو بلکہ بعض انبیاء کرام کو بھی باادب ہوکر دلیل کے ساتھ خطاء اجتہادی کی طرف منسوب کیا حتی کہ بعض انبیاء کرام علیھم السلام کو اجتہادی خطاء کی طرف منسوب کیا گیا حدیث میں اقوال ِ اسلاف میں....تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بڑی شان والی ہیں مگر شان میں انبیاء کرام سے بعد میں ہیں تو انکو خطاء اجتہادی کی طرف منسوب کوءی کرے تو کفر گستاخی گمراہی نہیں...

.

روایات سے پتہ چلتا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ایک دفعہ نہیں بلکہ دو دفعہ بلکہ  بعض روایت کے مطابق دو دفعہ سے بھی زیادہ مطالبہ کیا میراث نبوی کا...... لہذا وہ جو میرا موقف تھا کہ سیدہ پاک فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو شاید معلوم نہ تھا اس لیے انہوں نے مطالبہ کیا وہ موقف کالعدم قرار دیتا ہوں کیونکہ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا  نے ایک دفعہ مطالبہ کیا کہ میراث نبوی میں سے دیا جائے تو ان کو حدیث پاک سنائی گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم انبیاء کرام کی مالی میراث نہیں ہوتی جو ہم چھوڑ کے جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے سب لوگوں کے لیے مسلمانوں کے لیے اہل بیت کے لیے سب کے لیے..... لیکن یہ حدیث پاک سننے کے باوجود سیدہ پاک رضی اللہ تعالی عنہا دوبارہ خود تشریف لے ائیں اور اجتہاد واضح کیا کہ سیدنا ابوبکر صدیق بتائیں کہ اپ کی وفات کے بعد اپ کا وارث کون ہوگا.... سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے وہی عرض کیا کہ عقلا وارث تو اولاد ہوتی ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرما دیا ہے کہ میری کوئی مالی وراثت نہیں ہے.... اس کے بعد کیا ہوا.......؟؟ مختلف اقوال و روایات ملتی ہیں

.

 قوی روایات و اسلاف کے اقوال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اجتہاد کیا ایک دفعہ مطالبہ کیا پھر حدیث پاک سننے کے باوجود مطالبہ کیا اور اسلاف نے دو ٹوک فرمایا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ حق پر تھے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے اجتہادی خطا ہوئی کہ انہوں نے دوبارہ مطالبہ کیا.... لیکن سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا فورا یا پھر کچھ عرصے کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے راضی ہو گئی تھیں، اجتہادی خطاء پر قائم نہ رہیں

.###################

*#دلائل........!!*

*#پہلی قسم کی روایات.....!!*

 درج روایات میں ہے کہ سیدہ فاطمہ نے بھیجا.... یا تو پیغام  سیدنا علی کے ذریعے بھیجا یا کسی اور کو بھیجا اور فرمایا کہ میراث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے دیا جائے تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ نبی پاک نے فرمایا ہے کہ میری کوئی مالی میراث نہیں لیکن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ال اور اولاد وغیرہ کو اپنی ال اولاد سے زیادہ محبوب سمجھتا ہوں اور ان پر خرچ کرتا رہوں گا جیسے کہ رسول کریم خرچ کیا کرتے تھے لیکن ان کی ملکیت میں کسی کی ملکیت میں نہیں دے سکتا...روایات کا ترجمہ کچھ اسی طرح بنتا ہے لہذا ہم نے ترجمہ نہیں کیا

.

 فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَطْلُبُ صَدَقَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي بِالْمَدِينَةِ، وَفَدَكٍ، وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ. فَقَالَ  أَبُو بَكْرٍ  : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ مِنْ هَذَا الْمَالِ - يَعْنِي مَالَ اللَّهِ - لَيْسَ لَهُمْ أَنْ يَزِيدُوا عَلَى الْمَأْكَلِ "، وَإِنِّي وَاللَّهِ، لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،

(بخاری تحت الحدیث3711,3712)

.

أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ، وَفَدَكٍ، وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، فَقَالَ  أَبُو بَكْرٍ  : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا نُورَثُ ؛ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، 

(بخاری تحت الحدیث4240,4241)

.

أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ، وَفَدَكٍ، وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمْسِ خَيْبَرَ، فَقَالَ  أَبُو بَكْرٍ  : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ

(مسلم تحت الحدیث1759)

(ابوداود تحت الحدیث2668)

.

، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ، وَفَدَكَ، وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، فَقَالَ  أَبُو بَكْرٍ  : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ

(مسند احمد تحت الحدیث55)

.

*#روایات قسم دوئم......!!*

درج روایات میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا خود تشریف لائیں اور فرمایا کہ میراثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے دیا جائے تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ نبی پاک نے فرمایا ہے کہ میری کوئی مالی میراث نہیں لیکن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ال اور اولاد وغیرہ کو اپنی ال اولاد سے زیادہ محبوب سمجھتا ہوں اور ان پر خرچ کرتا رہوں گا جیسے کہ رسول کریم خرچ کیا کرتے تھے لیکن ان کی ملکیت میں کسی کی ملکیت میں نہیں دے سکتا...روایات کا ترجمہ کچھ اسی طرح بنتا ہے لہذا ہم نے ترجمہ نہیں کیا

.

،  أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ، وَالْعَبَّاسَ أَتَيَا أَبَا بَكْرٍ يَلْتَمِسَانِ مِيرَاثَهُمَا أَرْضَهُ مِنْ فَدَكٍ، وَسَهْمَهُ مِنْ خَيْبَرَ. 

  فَقَالَ  أَبُو بَكْرٍ  : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا نُورَثُ.....

(بخاری تھت الحدیث4035,4036)

.

أَنَّ فَاطِمَةَ وَالْعَبَّاسَ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ، أَتَيَا أَبَا بَكْرٍ يَلْتَمِسَانِ مِيرَاثَهُمَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُمَا حِينَئِذٍ يَطْلُبَانِ أَرْضَيْهِمَا مِنْ فَدَكَ وَسَهْمَهُمَا مِنْ خَيْبَرَ 

  فَقَالَ لَهُمَا  أَبُو بَكْرٍ  : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ....

(بخاری تحت الھدیث6725,6726)

.

  أَنَّ فَاطِمَةَ جَاءَتْ  أَبَا بَكْرٍ ،  وَعُمَرَ  رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، تَسْأَلُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَا : سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ : " إِنِّي لَا أُورَثُ

(ترمذی تحت الحدیث1609)

.

،  أَنَّ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا جَاءَتْ  أَبَا بَكْرٍ ،  وَعُمَرَ  رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ؛ تَطْلُبُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَا : إِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " إِنِّي لَا أُورَثُ "

(مسند احمد تحت الحدیث79)

.

جاءَت فاطِمَةُ إلَى أبى بكرٍ وعُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - تَطلُبُ ميراثَها، فقالا: سَمِعنا رسولَ اللَّهِ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يقولُ: "لا نُورَثُ؛ ما تَرَكْنا صَدَقَةٌ

(السنن الکبری بیھقی تحت الحدیث12868)

.


*#تیسری قسم کی روایات.....!!*

 درج زیل روایات میں تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنا اجتہاد واضح کر کے بتایا کہ یا خلیفہ رسول سیدنا ابوبکر صدیق اپ فرمائیے کہ اپ کا وارث کون ہوگا....؟؟ سیدنا صدیق اکبر نے فرمایا کہ میری اولاد تو سیدہ نے فرمایا کہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد یعنی ہم لوگ کیوں وارث نہیں ہیں تو سیدنا صدیق اکبر نے ارشاد فرمایا کہ وہی حدیث پاک ہے کہ نبی پاک نے فرمایا کہ میری کوئی مالی میراث نہیں ہے... روایات کا ترجمہ کچھ اسی طرح بنتا ہے لہذا ہم نے ترجمہ نہیں کیا

.

فَاطِمَةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالَتْ : مَنْ يَرِثُكَ ؟ قَالَ : أَهْلِي وَوَلَدِي. قَالَتْ : فَمَا لِي لَا أَرِثُ أَبِي. فَقَالَ  أَبُو بَكْرٍ  : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا نُورَثُ 

(ترمذی تحت الحدیث1608)

.

، أَنَّ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ  لِأَبِي بَكْرٍ  : مَنْ يَرِثُكَ إِذَا مِتَّ. قَالَ : وَلَدِي وَأَهْلِي. قَالَتْ : فَمَا لَنَا لَا نَرِثُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " إِنَّ النَّبِيَّ لَا يُورَثُ

(مسند احمد تحت الحدیث60)

.

أن فاطِمَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - جاءَت إلَى أبى بكرٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - فقالَت: مَن يَرِثُكَ؟ قال: أهلِى ووَلَدِى. قالَت: فما لِى لا أرِثُ النَّبِيَّ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -؟ قال: إنِّى سَمِعتُ رسولَ اللَّهِ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يقولُ: "إِنَّا لا نُورَثُ

(السنن الکبری بیھقی تحت الحدیث12869)

.

*#نتیجہ.....!!*

سیدہ نے بھیجا.....حدیث سنائی گئ....حدیث سننے کے باوجود پھر خود تشریف لائیں اور اجتہاد بھی کیا..اجتہاد میں حق سیدنا ابوبکر صدیق کے ساتھ تھا تو سیدہ فاطمہ سے اجتہادی خطاء ہوئی ناں......؟؟ جو احباب فرما رہے کہ سیدہ نے مطالبہ کیا انہیں حدیث پاک سناءی گئ تو سیدہ نے تسلیم کرلیا لیھذا کوئی اجتہاد نہیں کوئی خطاء نہیں تو بتائیے ارسلت مطلب بھیجا اور پھر جاءت یعنی(بھیجنے کے بعد) خود تشریف لائیں کا جواب کیا ہوگا.....؟؟یہاں سے تو دوٹوک واضح ہورہا ہے کہ پہلے کسی کو سیدہ نے بھیجا انہیں حدیث سنائی گئ پھر دوبارہ سیدہ تشریف لائیں اور اجتہاد بتایا پھر بعد میں رجوع کیا...لیھذا لاعلمی نہیں تھی بلکہ ان روایات و احادیث سے دوٹوک یا اشارتا ثابت ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہ کی اجتہادی خطاء تھی.......واللہ تعالیٰ ورسولہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلم بالصواب

.

############

امام بدر الدین قاضی عیاض کے حوالے سے فرماتے ہیں:

قَالَ عِيَاض: تَأَول قوم طلب فَاطِمَة مِيرَاثهَا من أَبِيهَا على أَنَّهَا تأولت الحَدِيث أَن كَانَ بلغَهَا، قَوْله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: إِنَّا لَا نورث على الْأَمْوَال الَّتِي لَهَا بَال، فَهُوَ الَّذِي لَا يُورث لَا مَا يتركون من طَعَام وأثاث وَسلَاح

 امام قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ کو حدیث پہنچی تھی تو اس کے بعد پھر میراث کیوں طلب کی تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ سیدہ نے تاویل کی تھی یہ حدیث بعض اموال کے لیے ہے

(عمدۃ القاری15/19ملخصا)

.

قاضی عیاض کی اسی بات کو امام نووی نے بھی لکھا

(شرح النووي على مسلم12/73)

.

قاضی عیاض کی یہی بات امام ابن ملقن نے بھی برقرار رکھی

(التوضيح شرح بخاری18/384)

.

امام ھیثمی فرماتے ہیں:

فجاءته تستدل عليه، بأنها ترثه قياسا على غيره، إذ الأصل عدم الخصوصية، وعذرها واضح، فإنه لم يبلغها الحديث الذى ذكره لها أبو بكر، وبفرض أنه لو بلغها، فلعلها تأولت

 سیدہ فاطمہ قیاس کرتے ہوئے مطالبہ کیا... انہیں حدیث  معلوم نہیں تھی، اور اگر فرض کر لیا جائے(فرض نہیں بلکہ واضح ہوتا ہے اوپر کی احادیث سے)کہ حدیث بتائی گئ تھی تو سیدہ فاطمہ حدیث کی تاویل کرتی تھی

(اشرف الوسائل591)

.

وأن ظاهر هذا ما تأولوه، ولم يكن الأمر كذلك....وفى ترك فاطمة منازعة أبى بكر - رضى الله عنهما - بعد احتجاجه عليها بالحديث التسليم والإجماع على القضية، وأنها لما بلغها الحديث أو بين لها التأويل تركت رأيها

 سیدنا علی سیدنا عباس سیدنا سیدہ فاطمہ نے جو تاویل کی کے بعض اموال کے ساتھ یہ حدیث جو سیدنا ابوبکر جو بیان فرما رہے ہیں تو ان کی یہ تاویل درست نہیں ہے کہ یہ تاویل دوسری حدیث سے ہی رد ہو جاتی ہے... یہی وجہ ہے کہ جب ان کو حدیث پہنچی یا ان کو حدیث کی صحیح تاویل پہنچی تو سیدہ فاطمہ نے اپنے  اجتہادی رائے کو ترک کر دیا

(اکمال المعلم شرح مسلم6/81ملتقطا)

.

علامہ ابن حجر نے بعض محققین کا قول نقل فرمایا اور نفی بھی نہ کی تو یہ قول امام ابن حجر سمیت بعض محققین کا کہلایا کہ:

وَأَمَّا سَبَبُ غَضَبِهَا مَعَ احْتِجَاجِ أَبِي بَكْرٍ بِالْحَدِيثِ الْمَذْكُورِ فَلِاعْتِقَادِهَا تَأْوِيلَ الْحَدِيثِ عَلَى خِلَافِ مَا تَمَسَّكَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ وَكَأَنَّهَا اعْتَقَدَتْ تَخْصِيصَ الْعُمُومِ فِي قَوْلِهِ لَا نُورَثُ وَرَأَتْ أَنَّ مَنَافِعَ مَا خَلَّفَهُ مِنْ أَرْضٍ وَعَقَارٍ لَا يَمْتَنِعُ أَنْ تُورَثَ عَنْهُ وَتَمَسَّكَ أَبُو بَكْرٍ بِالْعُمُومِ وَاخْتَلَفَا فِي أَمْرٍ مُحْتَمِلٍ لِلتَّأْوِيلِ فَلَمَّا صَمَّمَ عَلَى ذَلِكَ انْقَطَعَتْ عَنْ الِاجْتِمَاعِ بِهِ لِذَلِكَ فَإِنْ ثَبَتَ حَدِيثُ الشَّعْبِيِّ أَزَالَ الْإِشْكَالَ وَأَخْلَقُ بِالْأَمْرِ أَنْ يَكُونَ كَذَلِكَ لِمَا عُلِمَ مِنْ وُفُورِ عَقْلِهَا وَدِينِهَا عَلَيْهَا السَّلَامُ

 سیدہ فاطمہ نے جب سیدنا ابو بکر صدیق سے یہ حدیث سن لی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم انبیاء کرام کی کوئی مالی وراثت نہیں ہوتی... یہ حدیث سننے کے باوجود سیدہ فاطمہ نے  یہ اعتقاد و رائے و اجتہاد کیا کہ حدیث کی تاویل ہے کہ حدیث عام نہیں بلکہ اس سے کچھ مستثنی ہیں اس طرح اختلاف ہوا اور سیدہ ناراض ہوئیں لیکن شعبی کی روایت کہ سیدہ پاک کی شان کے لائق ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدہ وفات سے کچھ عرصہ قبل جب سیدنا ابوبکر صدیق ان کے پاس آئے تھے تو اس وقت راضی ہوگئ تھیں(اور اجتہادی نظریہ سے رجوع کر لیا تھا)

(فتح الباري ابن حجر عسقلانی6/202)

 

.

فَلَمَّا مَاتَ ادَّعَتْ فَاطِمَةُ عليها السلام...فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنْتِ أَعَزُّ النَّاسِ عَلَيَّ... لَكِنِّي لَا أَعْرِفُ صِحَّةَ قَوْلِكِ، وَلَا يَجُوزُ أَنْ أَحْكُمَ بِذَلِكَ.. فَأَجْرَى أَبُو بَكْرٍ ذَلِكَ عَلَى مَا كَانَ يُجْرِيهِ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ..

 امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ نے میراث کا دعوی کیا تو سیدنا ابو بکر صدیق نے فرمایا کہ آپ کی بہت عزت ہے لیکن میں آپ کے قول و دعوے(اجتہاد) کو درست نہیں سمجھتا(خطاء اجتہادی ہے آپ کی)... لہٰذا میرے لئے جائز نہیں ہے کہ میں آپ کی قول پر عمل کروں تو سیدنا ابوبکر صدیق نے سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مال و دولت  میں وہی طریقہ جاری کیا جو سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور یہی طریقہ جاری رکھا

(تفسیر کبیر امام رازی29/506)

.

لا نُورثُ ما تَرَكنا صَدَقةٌ"...قال ابن إسحاق: ثم أقامت فاطمة على ذلك تطلب حقها من أبي بكر حتى قبضت بعد ستة أشهر

 حدیث پاک کے تمام انبیاء کرام کا مالی ورثہ نہیں ہوتا یہ سننے کے باوجود سیدہ پاک فاطمہ سیدنا ابو بکر صدیق سے حقِ میراث کے دعوے پے رہیں وفات تک(وفات سے کچھ دن پہلے راضی ہوگئ تھیں)

(مرآة الزمان في تواريخ الأعيان4/276)

.

أما سبب غضبها مع احتجاج أبي بكر بما سبق فلاعتقادها تأويله

 انبیاء کرام کی وراثت مالی نہ ہونے کے متعلق حدیث پاک سننے کے باوجود بھی سیدہ پاک فاطمہ طیبہ طاہرہ نے سیدنا ابوبکر صدیق پر غصہ کیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ سیدہ فاطمہ حدیث کی تاویل کرتی تھیں

(وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى3/155)

.

والله أعْلَمُ حَمْلُ الأمْر فِي ذَلِكَ عَلَى أَنَّ كُلا مِنْ عَلِيّ، والْعَبَّاس، ومثلهما فاطمة رضي الله تعالى عنهم اعْتَقَدُوا أنَّ عُمُوم قولِهِ: "لا نُورَثُ"، مَخْصُوص ببَعْضِ مَا يَخْلُفُهُ دُون بَعْض

 سیدنا علی سیدنا عباس اور سیدہ فاطمہ یہ سب اعتقاد و اجتہاد(اور تاویل) رکھتے تھے کہ انبیاء کی کوئی مالی وراثت نہیں یہ حدیث پاک عام نہین بلکہ اس سے کچھ مستثنی ہے

(ذخیرۃ العقبی32/190)

.

بأنهما اعتقدا أن عموم قوله: "لا نورث" مخصوص ببعض ما يخلفه دون بعض

سیدنا علی سیدنا عباس(اسی طرح سیدہ فاطمہ) رضی اللہ تعالیٰ عنھم اعتقاد و اجتہاد(اور تاویل) رکھتے تھے کہ انبیاء کی کوئی مالی وراثت نہیں یہ حدیث پاک عام نہیں بلکہ اس سے کچھ مستثنی ہے

(ارشاد الساری5/195)

.

امام عینی

امام قسطلانی

امام سمھودی

امام رازی

امام ابن حجر

امام ابن اسحاق

سبط ابن جوزی

امام ھیثمی

امام ابن ملقن

امام نووی

ان سب کی عبارت سے واضح ہے کہ سیدہ فاطمہ نے اجتہاد کیا اور حدیث سننے کے بعد تاویل کی اور سیدنا ابوبکر حق پر تھے تو ان اسلاف کی عبارات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہ نے اجتہادی خطاء کی پھر بعد میں وضاحت ہوئی تو اجتہادی خطاء سے رجوع فرما لیا....کیا یہ سب بھی گستاخ گمراہ نعوز باللہ.....؟؟

.

وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ

 سیدنا عمر نے فرمایا کہ بے شک سیدناابوبکرصدیق اس معاملے میں سچے تھے حسن سلوک کرنے والے تھے ہدایت پر تھے حق کے تابع تھے(اور سیدنا علی سیدہ فاطمہ سیدنا عباس بعض ازواج مطہرات اجتہادی خطاء پر تھے)

(بخاری روایت3094)

.

فَتَأمل مَا فِي حَدِيث عَائِشَة وَالَّذِي قبله تعلم حقية مَا عَلَيْهِ أَبُو بكر رَضِي الله عَنهُ

 امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ ان احادیث میں غور کرو تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ سیدنا صدیق اکبر حق پر تھے(اور سیدنا علی سیدہ فاطمہ سیدنا عباس بعض ازواج مطہرات اجتہادی خطاء پر تھے)

(الصواعق المحرقة ابن حجر ہیتمی1/97)

.

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں بطور میراثِ نبوی تقسیم نہ کیا یہ بھی دلیل ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حق پے تھے:

امام قاضی عیاض فرماتے ہیں:

 إذ لم يكن بعد ولا أحد من ذريتها فى ذلك طلب بالميراث، وإذ قد ولى على - الأمر فلم يعدل به عما فعل فيه

 أبو بكر وعمر

 دلیل یہ بھی ہے کہ اس کے بعد سیدہ کی اولاد نے یا سیدنا علی نے بطور میراث مطالبہ نہیں کیا حالانکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو کچھ بھی کرسکتے تھے مگر پھر بھی باغ فدک وغیرہ میں وہی طریقہ و فیصلہ جاری رکھا جو سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما نے جاری کیا تھا

( اکمال المعلم شرح صحیح مسلم 6/81)

.

علامہ عبد العلي محمد بن نظام الدين محمد السهالوي الأنصاري اللكنوي فرماتے ہیں:

وأهل البيت كسائر المجتهدين، يجوز عليهم الخطأ في اجتهادهم وهم يصيبون ويخطئون وكذا يجوز عليهم الزلة....، كما وقع من سيدة النساء رضي الله تعالى...أهل البيت أيضاً كانوا عالمين بعدم عصمة أنفسهم من هذا الخطأ الاجتهادي ألم تر كيف رد ابن مسعود قول أمير المؤمنين علي في عدة الحامل المتوفى عنها زوجها...لا عصمة في أهل البيت بمعنى عدم جواز الخطأ الاجتهادي منهم فاحفظه

اہل بیت دیگر مجتہدین کی طرح ہیں ان پر خطاء جائز ہے بلکہ وہ کبھی خطا کرتے ہیں اور کبھی درستگی کو پاتے ہیں۔۔اہل بیت سے زلۃ(لغزش، اجتہادی خطاء)واقع ہونا بھی جائز ہے جیسے کہ بی بی فاطمہ سے لغزش واقع ہوئی۔۔۔۔اسی طرح اہل بیت کے صحابہ کرام سے الگ تفردات گزرے ہیں جس پر اگرچہ فتوی نہیں دیا گیا لیکن کوئی مذمت بھی نہیں کی گئی ۔۔۔صحابہ کرام اور اہل بیت عظام دونوں یہ سمجھتے تھے کہ ان سے خطائے اجتہادی کا صدور ہو سکتا ہے بلکہ ہوا ہے جیسے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خطا اجتہادی حاملہ متوفی زوجھا کی عدت کے معاملے میں واقع ہوءئ اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن میں اہل بیت اور صحابہ کرام کے اجتہادی خطائیں تفردات واقع ہوئے ہیں جو جمہور کے خلاف تھے لیکن فتوی جمہور پر دیا گیا لیکن تفردات والے پر بھی مذمت نہ کیا گیا

(فواتح الرحموت2/279 ملتقطا ماخوذا مشرحا)

.

شیخ الحدیث و التفسیر علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

بہرحال حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے اس باب(مطالبہ میراث،مطالبہ فدک اور بظاہر ناراضگی) میں جو جاری ہوا وہ ان کا اجتہاد تھا۔۔۔۔اس باب میں صحت اور صواب(درستگی)حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ تھا

(نعمة الباری شرح بخاری 14/841)

.#####################

چند حوالہ جات پڑہیے کہ صحابہ کرام تابعین عظام اکابر و اسلاف میں سے بعض نے بعض کو بعض مسائل میں خطاء کی طرف منسوب کیا جبکہ چمن زمان بمع ہمنوا کہتے ہیں کہ اسلاف نے صحابہ کرام نے خطا کی طرف کوئی نسبت نہیں کی....!!

وَلَكِنَّهُ أَخْطَأَ 

سیدہ عائشہ نے فرمایا کہ اس مسلہ عذاب میں سیدنا ابن عمر  نے خطاء کی

[ترمذی تحت حدیث1006 سنن نسائی روایت1856, ,إثبات عذاب القبر للبيهقي ,page 72]


.

فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " أَخْطَأَ فِي هَذَا،

سیدنا ابن عباس نے فرمایا کہ سیدنا ابن مسعود نے اس مسلہ میں خطاء کی

[مصنف عبد الرزاق الصنعاني ,6/419]



مُجَاهِدًا فَقَالَ: «أَخْطَأَ

سیدنا مجاہد نے فرمایا کہ سیدنا عکرمہ نے تفسیر میں خطاء کی

[مصنف عبد الرزاق الصنعاني ,4/457]


.

فَسَأَلْتُ عَطَاءً فَقَالَ: «أَخْطَأَ سَعِيدٌ

اس مسلہ میراث میں سیدنا عطاء نے کہا کہ سیدنا سعید نے خطاء کی ہے

[,مصنف ابن أبي شيبة استاد بخاری,6/246]


.

قال عُمَرُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -: إنَّكَ أخطأتَ التّأويلَ

حضرت سیدنا عمر نے سیدنا صحابی قدامہ کو فرمایا کہ ایت کی تاویل و تفسیر میں اپ نے خطاء کی

[,السنن الكبرى للبيهقي,17/481]

.

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ قَالَ أَبِي: " أَخْطَأَ فِيهِ يَحْيَى بْنُ سَعِيد

تعری کے معاملے میں امام احمد بن حنبل نے کہا کہ یحیی بن سعید نے خطاء کی

[مسند أحمد مخرجا ,20/238]

.

قَالَ ابْنُ الْمُسَيِّبِ: أَخْطَأَ شُرَيْحٌ

سیدنا ابن مسیب نے فرمایا( عظیم)قاضی شریح نے اس مسلے میں خطاء کی 

[مصنف عبد الرزاق الصنعاني ,8/413...

[مصنف ابن أبي شيبة ,4/396].


أَخْطَأَ الْمَوْلِيَانِ،

سیدنا ابن عباس نے فرمایا کہ اس آیت کی تفسیر میں سیدنا سعید اور سیدنا عطاء نے خطاء کی

[مصنف عبد الرزاق الصنعاني ,1/134]



.

أَجَلْ، إِنَّهُ أَخْطَأَ

سیدنا عروہ نے کہا کہ جی ہاں نماز کسوف کے متعلق میرے بھائی نے خطاء کی ہے

[بخاری تحت حدیث1046,مسند أحمد مخرجا ,41/119]

.

فَقَالَ الشَّعْبِيُّ: «أَخْطَأَ،

امام شعبی نے کہا کہ امام ابن حازم نے خطاء کی

[,المستدرك على الصحيحين للحاكم ,3/637]

یقینا اکثر طور پر خطاء سے مراد خطاء اجتہادی ہی ہے کہ صحابہ کرام سے کچھ اور برے معنی متصور نہیں ہوسکتے

.###################

کتب میں اتنا تک لکھا ہے کہ جب بھی (علمی ماحول میں)خطاء بولا جائے تو وہ اجتہادی خطاء ہی مراد ہوتا ہے

اعلم أنّ الخطأ والصواب يستعملان في المجتهدات

ترجمہ:

جان لو کہ بےشک خطاء اور صواب اجتہاد میں استعمال ہوتے ہیں[كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم ,1/683]

.

ما ما صح عنهم من خطأ فإنه يحمل على الاجتهاد....لا  على سوء الاعتقاد والكفر

جو اسلاف سے صحیح ثابت ہو کہ انہوں نے خطاء کی یا کہی تو اس خطاء کو خطاء اجتہادی پر محمول کیا جائے گا(خطاء اجتہادی ہی مراد لی جائے گی)خطاء سے برا اعتقاد کفر گستاخی وغیرہ مراد نہ لی جائے گی

(المنقذ من الضلال امام غزالی ص 188)

.

یہاں ایک بات تو یہ واضح ہوئی کہ اہل علم یا کسی سچے اچھے مسلمان سے خطاء لفظ نکلے تو اسے اجتہادی خطاء پر محمول کیا جائے گا گناہ قصور مذمت وغیرہ برے معنی مراد نہ لیے جائیں گے....اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اہل علم کے ہاں خطاء کے کئ معنی ہیں، یہ بھی ثابت ہوا کہ خطاء خطاء اجتہادی کا احتمال رکھتاہے جبکہ چمن زمان کی بدگمانی حسد تعسب ایجنٹی یا کم علمی واضح کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ خطاء خطاء اجتہادی کا احتمال ہی نہیں رکھتا...لاحول ولا قوة الا باللہ

.

خطاء کے اچھے برے کئ معنی ہیں تو کسی صحیح المذہب سچے عاشق رسول محب صحابہ محب اہلبیت سے خطاء لفظ نکلے تو اسکا اچھا معنی و محمل مراد لیناواجب بدگمانی حرام

.

#اچھا محمل ، اچھا معنی مراد لینا واجب قرآن و حدیث سےماخوذ انتہائی اہم اصول.و.حکم.......!!*

.

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ  بَعۡضَ الظَّنِّ   اِثۡمٌ(سورہ الحجرات آیت12)والمؤمن ينبغي أن يحمل كلام أخيه المسلم على أحسن المحامل ، وقد  قال بعض السلف : لا تظن بكلمة خرجت من أخيك سوءا وأنت تجد لها في الخير  محملا .فمن حق العلماء: إحسان الظن بهم؛ فإنه إذا كان من حق المسلم على المسلم أن يحسن الظن به ، وأن يحمل كلامه على أحسن المحامل، فمن باب أولى العالم

خلاصہ:

قرآن و حدیث میں حکم ہے کہ بدگمانی غیبت تجسس سے بچا جائے،اچھا گمان رکھا جائےاسی وجہ سےواجب ہےکہ مذمت تکفیر تضلیل تفسیق اعتراض کےبجائے عام مسلمان اور بالخصوص اہلبیت صحابہ اسلاف صوفیاء و علماء کےکلام.و.عمل کو

حتی الامکان

اچھےمحمل،اچھے معنی،اچھی تاویل پےرکھاجائے

(دیکھیےفتاوی حدیثیہ1/223...فتاوی العلماءالکبار فی الارہاب فصل3...فھم الاسلام  ص20...الانوار القدسیہ ص69)

.

ولا تظنن بكلمة خرجت من مسلم شراً وأنت تجد لها في الخير محملا

 سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں

مسلمان کوئی بات کرے اور آپ اس کا اچھا محمل و معنی  پاتے ہوں تو اسے برے معنی پر محمول ہرگز نہ کریں 

(جامع الاحادیث روایت31604)

.

سیدی اعلٰی حضرت امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ بعض محتمل لفظ جب کسی مقبول سے صادر ہوں بحکمِ قرآن انہیں "معنی حسن" پر حمل کریں گے، اور جب کسی مردود سے صادر ہوں جو صریح توہینیں کرچکا ہو تو اس کی خبیث عادت کی بنا پر معنی خبیث ہی مفہوم ہوں گے کہ:

 کل اناء یترشح بما فیہ صرح بہ الامام ابن حجر المکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔

 ہر برتن سے وہی کچھ باہر آتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے... 

(فتاوی رضویہ : ج29، ص225)

.#################

سوال:

سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو (اجتہادی)خطاء پر کہہ کر باپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت کس منہ سے مانگو گے....؟؟

جواب:

 پھر تو ام المومنین رضی اللہ تعالی عنھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محبوبہ سیدہ پاکیزہ بی بی عائشہ کو بھی خطاء اجتہادی پر مت کہو ورنہ ماں کو خطاء پے کہہ کر کس منہ سے شفاعت مانگو گے....؟؟

یہ جذباتی بلیک میلنگ چھوڑو، اجتہادی خطاء گناہ و عیب نہیں، کل قیامت کے دن اجتہادی خطاء پر پکڑ ہی نہیں ہوگی تو طلب شفاعت میں شرمندگی کس بات کی.....؟؟ ہاں یہ ضرور ہے کہ بلاضرورت خطاء خطاء کہتے پھرنے والے کیا منہ دکھائیں گے.....؟؟ ضرورت والے عرض کریں گے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے اپ کی شریعت کی پاسداری میں خطاء اجتہادی کا قول کہا اور برے عقیدوں نظریوں سے عوام کو بچایا....ہمارا اجتہادی خطاء کہنا توہین و بے ادبی کے لیے ہرگز نہ تھا

.

اَزۡوَاجُہٗۤ  اُمَّہٰتُہُمۡ ؕ

سورہ احزاب6

نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی گھر والیاں مومنوں کی مائیں ہیں(سورہ احزاب آیت6)

.#########################

اول بات تو یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا ناراض نہ ہوئیں تھیں، بعض کتب میں جو مہاجرت و ترک کلام لکھا ہے اسکا معنی علماء نے یہ لکھا ہے کہ فدک وغیرہ کے متعلق کلام ترک کردیا مطالبہ ترک کر دیا...(دیکھیے ارشاد الساری شرح بخاری5/192 ،عمدۃ القاری15/20وغیرہ کتب)

بالفرض

اگر سیدہ فاطمہ ناراض بھی ہوئی تھیں تو سیدنا ابوبکر نے انہیں منا لیا تھا راضی کر لیا تھا اور سیدہ فاطمہ راضی ہوگئ تھیں

ترضاھا حتی رضیت

سیدناصدیق اکبر بی بی فاطمہ کو مناتے رہے حتی کہ سیدہ فاطمہ راضی ہوگئیں(سنن کبری بیہقی12735 عمدۃ القاری15/20,السیرۃ النبویہ ابن کثیر4/575)

سیدنا علی راضی سیدہ فاطمہ راضی ، ہدایت ملے ورنہ جل بھن جائے رافضی نیم رافضی......!!

.

رسول کریم نے جو فرمایا ہے کہ سیدہ فاطمہ کو جو ناراض کرے گا اس نے مجھے ناراض کیا اس کا ایک معنی یہ ہے کہ جو مباح کام کرکے سیدہ کو ناراض کریے گا ناحق ناراض کرے گا یا جان بوجھ کے ناراض کرے گا تو وہ مجھے ناراض کرے گا.... مباح کام کیا جائے اس سے کوئی شخص ناراض ہو جائے تو مباح کام کرنے والے پر کوئی وبال نہیں ہوتا لیکن یہ سیدہ فاطمہ کی خاصیت ہے کہ رسول کریم نے انہیں خصوصیت عطا فرمائی کہ سیدہ فاطمہ کو مباح کام کرکے بھی ناراض نہیں کیا جا سکتا

، وإن توليد الإيذاء مما كان أصله مباحاً وهو من خواصه صلى الله عليه وسلم

 جو سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو مباح کام کرکے ناراض کرے گا تو یہ رسول کریم کو ناراض کرنا ہے اور یہ انکی خصوصیات میں سے ہے

(شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن12/3903)

(لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح9/699نحوہ)

 اس معنی کے تحت بھی سیدہ فاطمہ کو سیدنا ابوبکر صدیق نے اذیت نہیں پہنچائی غضبناک نہیں کیا کیونکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرض واجب کی تکمیل کی کہ وراثت نبوی کو بحکم نبوی صدقہ کرنا فرض تھا،کسی کی ملکیت میں نہ دینا فرض تھا جو آپ نے پورا کیا

.

ولو أجابها إلى سؤالها كان معصية من وجهين:الأول: مخالفة أمر رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وإبطال صدقته.الثاني: أنه كان ما يعطي لفاطمة مالًا حرامًا بلا خلاف

سیدہ فاطمہ کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے سیدنا ابوبکر صدیق اگر فدک وغیرہ سیدہ کی ملکیت کر دیتے تو گناہ گار ہوتے کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و حدیث کو باطل قرار دینا کہلاتا اور اگر ملکیت میں دے دیتے تو انکے لیے بطور ملکیت مالِ حرام ملکیت میں دینا قرار پاتا کہ سیدعالم کی تو میراث نہیں تھی تو یہ مال بطور میراث مالک بنانا حرام تھا

(الکوثر الجاری شرح بخاری6/88)

.################

چمن زمان لکھتا ہے خلاصہ:

انبیاء کرام سے خطاء اجتہادی ہوسکتی ہے یہ قول باطل محض ہے، تقلید و پیروی کے قابل نہیں...(دیکھیے چمن کی کتاب تحریری مناظرہ قسط4 ص225)

چمن زمان فیسبک پے وڈیو میں کہتا ہے اور وڈیو کے ساتھ کیپشن میں لکھتا ہے کہ...خلاصہ:

چمن زمان کہتا ہے کہ انبیاء کرام کی طرف اجتہادی خطاء کی نسبت کرنا ایک بدبخت امتی کو بچانے انبیاء کرام کی عظمتوں پے حملہ ہے

.

*#جواب......!!*

 قران مجید میں اور احادیث میں بعض انبیاء کرام کی طرف خطا اجتہادی کی نسبت کی گئی ہے، اسی طرح کئی اسلاف نے انبیاء کرام کی طرف خطا کی نسبت کی ہے... تو کیا یہ تمام حضرات ہمیں باطل نظریہ دے گئے جو قابل تقلید ہی نہیں وہ نظریہ دے گئے گستاخی کر گئے....؟؟ بھلا یہ اسلاف کس کو بچانے کے لیے عظمتوں پر حملہ کر گئے....؟؟نعوذ باللہ

.

ہمیں کوئی شوق نہیں کہ انبیاء کرام کی طرف اجتہادی خطاء کی نسبت والی روایت و حوالہ نکالتے لکھتے مگر جب جھوٹ و مبالغہ آرائی کی بنیاد پر دوسروں پر گستاخی کفر ناصبیت وغیرہ کے فتوے بار بار سرعام کیے جا رہے ہیں تو مجبورا انہیں اور عوام کو دکھانا پڑ رہا ہے کہ عظیم الشان عظمتوں کے باوجود انبیاء کرام کی طرف اجتہادی خطاء کی نسبت کی گئ ہے تو انبیاء کرام اور انبیاء کے بعد شان والے یعنی صحابہ کرام و اہلبیت عظام کی طرف پردلیل باادب طریقے سے اجازتِ شریعت کے تحت اجتہادی خطاء کی نسبت کرنا یقینا عیب نہیں، توہین گستاخی نہیں

.

 نبی کریم روف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کی طرف خطاءِ اجتہادی کی نسبت کی ہے ملاحظہ کیجئے

فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ. وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ، وَيَقُولُ : ائْتُوا نُوحًا..... فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ -وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ - ائْتُوا إِبْرَاهِيمَ الَّذِي اتَّخَذَهُ اللَّهُ خَلِيلًا. فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ - وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ - ائْتُوا مُوسَى الَّذِي كَلَّمَهُ اللَّهُ. فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ - فَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ....ائْتُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، فَيَأْتُونِي فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي، فَإِذَا رَأَيْتُهُ وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ يُقَالُ : ارْفَعْ رَأْسَكَ، سَلْ تُعْطَهْ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ. فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِي ثُمَّ أَشْفَعُ

(بخاری حدیث6565ملخصا)

.

فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ - وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِى أَصَابَ فَيَسْتَحِى مِنْ رَبِّهِ مِنْهَا - وَلَكِنِ ائْتُوا نُوحًا أَوَّلَ رَسُول بَعَثَهُ اللهُ، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ - وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِى أَصَابَ فَيَسْتَحِى مِنْ رَبِّهِ - وَلَكِنِ ائْتُوا إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ - وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِى أَصَابَ فَيَسْتَحِى رَبَّهُ مِنْهَا - وَلَكِنِ ائْتُوا مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكمْ - وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِى أَصَابَ، فَيَسْتَحِى رَبَّهُ مِنْهَا

(مسند أبي يعلى - ت السناري  حدیث2899)

.

قَالَ: " فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ أَكْلَهُ مِنَ الشَّجَرَةِ، وَقَدْ نُهِيَ عَنْهَا، وَلَكِنْ ائْتُوا نُوحًا، أَوَّلَ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللهُ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ، قَالَ: فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ سُؤَالَهُ اللهَ بِغَيْرِ عِلْمٍ، وَلَكِنْ ائْتُوا إِبْرَاهِيمَ خَلِيلَ الرَّحْمَنِ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ كَذَبَهُنَّ، قَوْلَهُ: إِنِّي سَقِيمٌ، وَقَوْلَهُ: بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا وَأَتَى عَلَى جَبَّارٍ مُتْرَفٍ وَمَعَهُ امْرَأَتُهُ، فَقَالَ: أَخْبِرِيهِ أَنِّي أَخُوكِ فَإِنِّي مُخْبِرُهُ أَنَّكِ أُخْتِي، وَلَكِنْ ائْتُوا مُوسَى عَبْدًا كَلَّمَهُ اللهُ تَكْلِيمًا، وَأَعْطَاهُ التَّوْرَاةَ، وَقَالَ: فَيَأْتُونَ مُوسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ قَتْلَهُ الرَّجُلَ

(مسند احمد حدیث13561)

.

. وعن وهب بن منبه، عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "لم يزل أخي داود باكيًا على خطيئته

 وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بھائی داؤد علیہ السلام اپنی اجتہادی خطا پر بہت زیادہ روتے رہے

(التوضيح لشرح الجامع الصحيح29/508)

.

مذکورہ احادیث مبارکہ کی مثل بہت ساری احادیث ہیں کئ کتب میں ہیں، صحابہ کرام اہلبیت عظام تابعین سے مروی ہیں لیکن ہم نے اختصارا دو تین لکھی ہیں جس میں واضح طور پر

 سیدنا آدم علیہ السلام کی طرف

 سیدنا نوح علیہ السلام کی طرف

 سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرف

 سیدنا موسی علیہ السلام کی طرف

 سیدنا داؤد علیہ السلام کی طرف

 نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہادی خطا کی نسبت فرمائی ہے..... اور اس روایت کو صحابہ کرام تابعین عظام اہل بیت عظام اسلاف نے روایت کیا ہے.... تو کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کرام کی عظمتوں پر حملہ کیا......؟؟ باطل نظریہ باطل عقیدہ بتایا.....؟؟ نعوذ باللہ نبی پاک اور اسلاف سارے خطا اجتہادی پر ہو گئے کہ انہوں نے انبیاء کرام کو خطاء اجتہادی پر کہا.....؟؟ چمن زمان اسکے ماننے والو اے مشہدیوں اے حنیف قریشی اے سادات کرام سب ہوش کرو ہوش......!!



.

 سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا داؤد علیہ السلام کی طرف اجتہادی خطا کی نسبت کی

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «فَلَوْ أَنَّ بُكَاءَ جَمِيعِ بَنِي آدَمَ جُمِعَ مَعَ بُكَاءِ دَاوُدَ عَلَى خَطِيئَتِهِ، مَا عَدَلَ بُكَاءُ جَمِيعِ بَنِي آدَمَ بُكَاءَ دَاوُدَ عَلَى خَطِيئَتِهِ

(كتاب الثاني من أجزاء ابن الصواف ص25)

.

سیدنا قتادہ سیدنا حسن بصری نے سیدنا داؤد علیہ السلام کی طرف اجتہادی خطا کی نسبت کی:

قتادة عن الحسن قال: كان داود عليه السلام بعد الخطيئة

(مرآة الزمان في تواريخ الأعيان2/172)

.

 سیدنا مجاہد اور سیدنا سعید بن مسیب نے سیدنا داؤد علیہ السلام کی طرف خطائے اجتہادی کی نسبت کی

مجاهِدٍ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَا: " يُبْعَثُ دَاوُدُ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَذِكْرُ خَطِيئَتِهِ

(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة3/297)

.

امام ضحاک نے سیدنا داؤد علیہ السلام کی طرف خطائے اجتہادی کی نسبت کی

وقال الضحاك: يبعث داود النبي عليه السلام وذكر خطيئته

(كتاب الهداية الى بلوغ النهاية10/6236)

.

 حضرت مجاہد نے سیدنا داؤد علیہ السلام کی طرف خطا اجتہادی کی نسبت کرتے ہوئے کہا:

 مُجَاهِدٍ، قَالَ: " سَأَلَ دَاوُدُ رَبَّهُ أَنْ يَجْعَلَ خَطِيئَتَهُ فِي كَفِّهِ. فَكَانَ لَا يَتَنَاوَلُ طَعَامًا، وَلَا شَرَابًا، وَلَا يَمُدُّ يَدَهُ إِلَى شَيْءٍ إِلَّا أَبْصَرَ خَطِيئَتَهُ فَأَبْكَاهُ

 امام مجاہد فرماتے ہیں کہ داؤد علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالی سے دعا مانگی کہ ان کی اجتہادی خطا کو ان کی ہتھیلی میں رکھ دیا جائے، تو سیدنا داؤد علیہ السلام کھانا پینا فرماتے تھے تو اپنی خطا کو دیکھتے تھے تو بہت رویا کرتے تھے

( الرقة والبكاء لابن أبي الدنيا ص239)

.

مجَاهِدٍ قَالَ: لَمَّا أَصَابَ دَاوُدُ الْخَطِيئَةَ

 سیدنا مجاہد نے فرمایا کہ جب سیدنا داؤد علیہ الصلوۃ والسلام نے خطائے اجتہادی کی

(كتاب الزهد لهناد بن السري1/262)

(كتاب المصنف - استاد بخاری7/67نحوہ)

.

خلیفہ راشد سیدنا عبدالعزیز نے نصیحت کرنے کی گذارش کی تو عظیم عبادت گذار سیدنا سالم کی نصیحت میں یہ الفاظ بھی تھے کہ:

وَكَانَ عَابِدًا خَيِّرًا....قَالَ لَهُ: يَا سَالِمُ، عِظْنَا، قَالَ: «آدَمُ عَمِلَ خَطِيئَةً وَاحِدَةً

سیدنا آدم علیہ السلام نے صرف ایک اجتہادی خطاء کی

(اور اتنا استغفار کیا مگر ہم ہیں کہ لاپرواہ خطاوں پر خطائیں گناہ تک کرتے جا رہے ہیں نہ نصیحت پے عمل کرتے ہیں نہ استغفار کی کثرت کرتے ہیں )

(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة5/329)

.

امام ابن حجر اور ابوعطاف نے سیدنا داؤد علیہ السلام کی طرف خطائے اجتہادی کی نسبت کی:

أَبِي عطاف قَالَ: كَانَ دَاوُدُ عَلَيْهِ (الصلاة و) السَّلَامُ، إِذَا قَرَّبَ الْإِنَاءَ مِنْ فِيهِ، لِيَشْرَبَ، (فَذَكَرَ) خَطِيئَتَهُ، بَكَى

 امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ ابو عطاف نے فرمایا ہے کہ سیدنا داؤد علیہ السلام جب کچھ نوش فرمانا چاہتے تو اپنی خطا کو اجتہادی خطا کو یاد فرماتے اور رویا کرتے

(المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية14/266)

.

امام غزالی منقولا لکھتے ہوئے سیدنا داؤد علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف خطا اجتہادی کی نسبت کرتے ہیں:

عبد العزيز بن عمر لما أصاب داود الخطيئة

 امام غزالی فرماتے ہیں کہ عبدالعزیز بن عمر نے فرمایا کہ جب سیدنا داؤد علیہ السلام نے اجتہادی خطا کی

(احیاء العلوم 4/182)

.

 امام طبری نے سیدنا ادم علیہ السلام کی طرف خطائے اجتہادی کی نسبت کی

بعد الذي كان من خطيئة آدم

(تفسير الطبري جامع البيان - ط دار التربية والتراث1/535)

.

امام مکی مالکی اور امام قرطبی اور امام ثعلبی نے سیدنا ادم علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف خطائے اجتہادی کی نسبت کی:

. وكانت خطيئة آدم

(كتاب الهداية الى بلوغ النهاية6/4403)

تفسير القرطبي = الجامع لأحكام القرآن1/295)

(تفسیر الكشف والبيان عن تفسير القرآن17/169)

.

امام ابن عاشور لکھتے ہیں:

أَكْلَ آدَمَ مِنَ الشَّجَرَةِ خَطِيئَةٌ

 سیدنا ادم علیہ الصلوۃ والسلام نے ممنوعہ درخت سے تناول فرما کر خطائے اجتہادی کی

(تفسیر التحرير والتنوير1/438)

.

امام اعطم ابوحنیفہ لکھتے ہیں:

وَقد كَانَت مِنْهُم زلات وخطایاھم

ترجمہ:

اور بےشک بعض انبیاء کرام علیھم السلام سے لغزیشیں اور(اجتہادی)خطائیں ہوئیں

[أبو حنيفة ,الفقه الأكبر ,page 37]

.


شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے شاگرد ثناء اللہ نقشبندی حنفی لکھتے ہیں:

وجاز الخطا في اجتهاد الأنبياء الا انهم لا يقرون عليه

ترجمہ: 

انبیائے کرام کے اجتہاد میں خطا واقع ہونا جائز ہے مگر یہ کہ وہ خطائے اجتہادی پر قائم نہیں رہتے (بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)

[التفسير المظهري ,6/215]

.


علامہ ماوردی شافعی سنی لکھتے ہیں:

لأن الأنبياء معصومون من الغلط والخطأ لئلا يقع الشك في أمورهم وأحكامهم , وهذا قول شاذ من المتكلمين. والقول الثاني: وهو قول الجمهور من العلماء والمفسرين ولا يمتنع وجود الغلط والخطأ من الأنبياء كوجوده من غيرهم. لكن لا يقرون عليه وإن أقر عليه غيرهم

خلاصہ: 

وہ جو کہتے ہیں کہ انبیاء کرام غلطی اور خطا سے معصوم ہے یہ قول شاذ متکلمین کا ہے

جمہور علماء اور مفسرین کا قول یہ ہے کہ انبیائے کرام سے اجتہادی غلطی اور اجتہادی خطا ہوجاتی ہے لیکن وہ اس پر قائم نہیں رہتے (بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)غیر انبیاء سے خطا اجتہادی ہوتی ہے تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اس پر قائم نہ رہیں بلکہ بعض اس پر قائم بھی رہتے ہیں 

[اتفسير الماوردي = النكت والعيون ,3/457بحذف یسییر]


.

أن الخطأ إذا وقع من نبي بقول أو فعل فإن الله تعالى يصححه على الفور، مما يبين وجوب الأسوة والقدوة بهم، وأن ذلك لا يؤثر على الاقتداء والتأسي بهم؛ لأن خطأهم مصحح بخلاف خطأ غيرهم

 خلاصہ: 

جب کسی نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے قول یا فعل میں خطااجتہادی ہوتی ہے تو اللہ تعالی فورا اس کی تصحیح فرما دیتا ہے(لہذا انبیاءکرام کی خطا اجتہادی وقتی ہوتی ہے جس پر وہ قائم نہیں رہتے اللہ تعالی ان کی اصلاح فرما دیتا ہے)بر خلاف غیر انبیاء کی خطا کے(لہذا غیر انبیاء کی خطا اجتہادی کبھی وقتی ہوتی ہے کبھی دوامی)  

[أصول أهل السنة والجماعة ,1/6]

.

.

علامہ سید حسین بغوی شافعی لکھتے ہیں:

وَقَالُوا: يَجُوزُ الْخَطَأُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ إِلَّا أَنَّهُمْ لَا يُقِرُّونَ عَلَيْهِ

ترجمہ:

علماء فرماتے ہیں کہ انبیاء کرام سے خطاء جائز ہے مگر یہ کہ وہ خطا پر قائم نہیں رہتے

[تفسير البغوي - طيبة ,5/333]


.

علامہ کورانی حنفی سنی لکھتے ہیں:

فأخطأ في الاجتهاد،وهذا شأن الأنبياء لا يُقَرُّون على الخطأ

ترجمہ:

نبی پاک سے اجتہاد میں خطاء ہوئی اور یہ انبیائے کرام کی شان ہے کہ وہ خطاء (اجتہادی)پر قائم نہیں رہتے(بلکہ اللہ تعالی انکی  اصلاح فرما دیتا ہے)

[الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري ,6/36ملخصا]

.

علامہ موفق حنبلی سنی لکھتے ہیں:

يجوز وقوع الخطأ منهم، لكن لا يقرّون عليه،

ترجمہ: 

انبیائے کرام سے خطا اجتہادی کا واقع ہونا جائز ہے لیکن وہ خطا پر قائم نہیں رہتے( بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)

[روضة الناظر وجنة المناظر ,2/354]

.

علامہ غلام رسول سعیدی سنی حنفی لکھتے ہیں:

انبیاء (علیہم السلام) اپنی عصمت میں زلات (لعزشوں، اجتہادی خطاء، مکروہ تنزیہی یا خلاف  اولی کا ارتکاب) سے مامون(محفوظ) نہیں ہوتے

(تبیان القرآن تحت سورہ الاعلی آیت6)


.

مفتی احمد یار خان نعیمی سنی حنفی قادری لکھتے ہیں:

نوح (علیہ السلام) یا تو اس نہی کو بھول گئے یا ان سے خطا اجتہادی ہوئی

(نور العرفان تحت سورہ المومنون آیت27)

.

طاہر الکادری لکھتا ہے:

اس لئے کہ انبیاء (علیہم السلام) معصوم ہوتے ہیں۔ یہ ہوسکتا ہے کہ اجتہاد میں خطا ہوجائے۔ چنانچہ آپ کو بھی اجتہاد میں خطا ہوئی اور خطا اجتہادی معصیت نہیں ہوتی۔

(عرفان القرآن تحت سورہ بقرہ ایت36)

.

مفتی نعیم الدین مرادآبادی سنی حنفی قادری لکھتے ہیں:

حضرت آدم علیہ السلام سے اجتہاد میں خطا ہوئی اور خطائے اجتہادی معصیت نہیں ہوتی۔

(خزائن العرفان تحت سورہ بقرہ ایت36)


 .

علامہ ابن ہمام حنفی سنی لکھتے ہیں:

لا الصغائر غير المنفرة خطأ

ترجمہ:

انبیاء کرام (اجتہادی)خطاء والے صغائر غیر منفرہ سے معصوم نہیں

(مسامرہ ص195)

.

علامہ آلوسی نقشبندی سنی حنفی لکھتے ہیں:

جمهور المحدثين والفقهاء على أنه يجوز للأنبياء عليهم السلام الاجتهاد في الأحكام الشرعية ويجوز عليهم الخطأ في ذلك لكن لا يقرون عليه

ترجمہ:

جمہور.و.اکثر محدثین و فقہاء کا نظریہ ہے کہ انبیائے کرام کے لئے اجتہادی خطا جائز ہے لیکن وہ اجتہادی خطا پر قائم نہیں رہتے ( بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)

[تفسير الألوسي = روح المعاني ,7/68]


.

المعتقد کے حاشیہ میں  سیدی امام اہلسنت اعلی حضرت نے انبیاء کرام کی طرف اجتہادی خطاء کی نسبت کی....اعلیٰ حضرت کی عربی عبارت کا ترجمہ تاج الشریعۃ نے کیا جس میں صاف لکھا ہے کہ بعض انبیاء کی وقتی غیر دوامی خطاء(خطاء اجتہادی) اور لغزشیں ثابت ہیں..

ملاحظہ فرمائیں

ملا علی قاری نے فرمایا یہ بات کہنا بچند وجوہ خطا ہے اس لئے کہ لوہاروں کو ملائکہ پر قیاس کرنا منع ہے ۔ اس لئے کہ انبیاء کی خطاء نہ تھی مگر بعض اوقات  ، نادر لغزشیں  ، جنہیں صغیرہ کہا جاتا ہے بلکہ خلاف اولی  ، بلکہ وہ دوسروں کی برائیوں کی بنسب نیکیاں تھیں ، اور اس کے باوجود وہ لغزشیں بعد میں توبہ سے مٹ گئیں اور ان کی توبہ کا قبول ہونا محقق ہے ، جیسا کہ اللہ نے اس کی خبر دی ، بر خلاف امتوں کے گناہوں کے اس لئے کہ وہ کبیرہ  ، غیر کبیرہ ، ارادی ، غیر ارادی ، اور دائمی گناہوں کو شامل ہیں ۔ اور ان کی توبہ کی تقدیر پر اس کی صحت کے شرائط کا متحقق ہونا ، اور اس کا مقبول ہونا معلوم نہیں ، بلکہ توبہ کرنے والے کا انجام کار بھی معلوم نہیں بخلاف انبیاء  ، کہ وہ لغزش پر قائم رہنے سے معصوم ہیں اور سوء خاتمہ کا ان کو اندیشہ نہیں

( المعتقد المنتقد مع المعتمدالمستند  ۔ صفحہ(252)  تا (253)

.

یا رب کریم جس طرح اسلاف نے ضرورت کے تحت انبیاء کرام کی اجتہادی خطاؤں کا تذکرہ کیا انہی کے نقش قدم پے چل کر میں نے کچھ عبارات لکھیں جس میں انبیاء کرام و اسلاف کی طرف اجتہادی خطاء کی نسبت کی گئ ہے، اگر کچھ اونچ نیچ ہوگئ ہو تو اے مولیٰ پاک مجھے معاف فرما، استغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ.....یارب کریم ہمیں سچا اچھا بنا، سچی تعریف کرنے والا بنا، غلو مبالغہ آرائی سے بچا، مکاروں چمچوں چاپلوسوں پیسہ پجاریوں شہرت کے بیماروں کی پہچان عطاء فرما اور ادب ادب ادب ادب ادب ادب ادب ادب کے ساتھ لکھنے بولنے کی توفیق عطاء فرماء مگر محبت و ادب میں حد سے بڑھ جانے سے بھی محفوظ فرما.......آمین یا رب العالمین

.

*#عرض*

تمام احباب سے گزارش ہے کہ میرا مشہور واٹسپ نمبر 03468392475 چار پانچ دنوں سے بلاک ہے٫ریویو کا آپشن بھی نہیں آ رہا، ماہرین کہتے ہیں کہ مستقل بلاک کر دیا ہے وٹسپ والوں نے۔۔تقریبا700واٹسپ گروپ تھے جس میں تحریرات بھیجا کرتا تھا۔۔اپ سے گزارش ہے کہ میرا نیا واٹسپ نمبر 03062524574 سیو کیجئے اور وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنا دیجئے تاکہ میں پہلے سے بھی بڑھ کر دین کی خدمت کر سکوں ، علمی اصلاحی تحقیقی تحریرات زیادہ سے زیادہ پھیلا سکوں۔۔۔امید ہے اپ میری مدد ضرور کریں گے اور نمبر سیو کرکے گروپوں میں بھی ایڈ کرکے ایڈمین بنا دیں گے۔۔۔اپ کا بہت بہت شکریہ۔۔یاد رکھیے نمبر ضرور سیو کیجئے پھر  گروپوں میں شامل کیجئے ایڈمین بنائیے پھر ہوسکے تو رپلے فرمائیے۔۔۔ جزاکم اللہ خیرا 

عرض گزار: 

العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

naya wtsp nmbr

03062524574

purana block shuda wtsp nmbr

03468392475

 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.