*#باغ_فدک اور حدیث پاک کہ انبیاء کرام کے کوئی مالی وارث نہیں ہوتے،اس پر شیعوں کے اہم ترین اعتراضات کے جوابات اور کیا رسول کریمﷺکے اموال یعنی فدک وغیرہ کو سیدنا صدیق اکبر اہلبیت میں خرچ نہ کرتے تھے؟میراث رسولﷺ شیعہ کتب سے،مال رسولﷺ میں خلفاء راشدین کا طرز عمل......؟؟ اور کیا رسول کریم نے فدک سیدہ فاطمہ کو دے دیا تھا۔۔کیا ایسا اہلسنت کتاب درمنثور و بزاز میں ہے....؟؟*
۔
عرض و گزارش:
تمام احباب سے گزارش ہے کہ میرا مشہور واٹسپ نمبر 03468392475 چار پانچ دنوں سے بلاک ہے٫ریویو کا آپشن بھی نہیں آ رہا، ماہرین کہتے ہیں کہ مستقل بلاک کر دیا ہے وٹسپ والوں نے۔۔تقریبا700واٹسپ گروپ تھے جس میں تحریرات بھیجا کرتا تھا۔۔اپ سے گزارش ہے کہ میرا نیا واٹسپ نمبر 03062524574 سیو کیجئے اور وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنا دیجئے تاکہ میں پہلے سے بھی بڑھ کر دین کی خدمت کر سکوں ، علمی اصلاحی تحقیقی تحریرات زیادہ سے زیادہ پھیلا سکوں۔۔۔امید ہے اپ میری مدد ضرور کریں گے اور نمبر سیو کرکے گروپوں میں بھی ایڈ کرکے ایڈمین بنا دیں گے۔۔۔اپ کا بہت بہت شکریہ۔۔یاد رکھیے نمبر ضرور سیو کیجئے پھر گروپوں میں شامل کیجئے ایڈمین بنائیے پھر ہوسکے تو رپلے فرمائیے۔۔۔ جزاکم اللہ خیرا
۔
علمی تحقیقی اصلاحی سیاسی تحریرات کے لیے اس فیسبک پیج کو فالوو کیجیے،پیج میں سرچ کیجیے،ان شاء اللہ بہت مواد ملے گا...اور اس بلاگ پے بھی کافی مواد اپلوڈ کردیا ہے...لنک یہ ہے:
https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1
https://www.facebook.com/profile.php?id=100022390216317&mibextid=ZbWKwL
*#تمھید*
اس معاملے میں شیعہ کے چوٹی کے درج ذیل اعتراضات ہیں
*#پہلا اعتراض*
شیعہ و روافض کہتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے نعوذ باللہ جھوٹ باندھا کہ انبیاء کرام کے کوئی مالی وارث نہیں ہوتے کیونکہ قران مجید میں ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ یا اللہ مجھے رشتہ داروں کا خوف ہے تو مجھے وارث عطا فرما۔۔۔شیعہ کہتے ہیں کہ ظاہر بات ہے علم کا تو خوف ہوتا نہیں کہ علم تو چوری ہوتا نہیں ظاہر بات ہے ان کو اس بات کا خوف تھا کہ ان کی مال ملکیت چوری ہو جائے گی ،چھین لی جائے گی، غلط استعمال کی جائے گی ،اس لیے انہوں نے اپنا وارث مانگا جو نبی بھی ہو اور مالی وارث بھی بنے لہذا ابوبکر صدیق نے جو حدیث بیان کی کہ انبیاء کے مالی وارث نہیں ہوتے وہ سراسر قران کے خلاف ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قران کے خلاف نہیں بول سکتے لہذا یہ ابوبکر نے اپنی طرف سے جھوٹ گھڑ کر رسول کریم کی طرف منسوب کر دیا کہ انبیاء کرام کی کوئی وارث نہیں ہوتے
۔
*#دوسرا اعتراض*
شیعہ اعتراض کرتے ہیں کہ خلیفہ راشد ابوبکر نے باغ فدک وغیرہ اپنے قبضے میں رکھے اہل بیت کو نہ دیے لیکن خلیفہ راشد عثمان نے مروان کو دے دیا اور خلیفہ راشد عبدالعزیز نے واپس اہل بیت کو دے دیا تو بتاؤ ان خلفائے راشدین میں سے کون برحق ہے اور کون باطل۔۔۔۔؟؟
۔
*#تیسرا اعتراض*
شیعہ کہتے ہیں کہ یہ بھی جھوٹ پھیلایا جاتا ہے کہ اہل بیت کو باغ فدک وغیرہ میں سے خرچہ دیا جاتا تھا کیونکہ ابو داؤد میں دو ٹوک لکھا ہے کہ ابوبکر نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو دینے سے انکار کر دیا ان پر خرچ کرنا بھی گوارا نہ کیا
۔
.
*#چوتھا اعتراض*
شیعہ اعتراض کرتے ہیں کہ سیدہ پاک سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی باغ فدک دے دیا تھا تو پھر کس کی مجال کہ غضب کرے چھین لے اور جھوٹی حدیث بیان کرتا پھرے
۔
###############
*#جواب۔و۔تحقیق۔۔۔۔۔۔!!*
*#پہلے اعتراض کا خلاصہ*
شیعہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث نہیں بلکہ ابوبکر نے جھوٹ بولا کہ انبیاء کی میراث نہیں ہوتی کیونکہ قران میں ہے کہ سیدنا زکریا علیہ السلام نے دعا کی یا اللہ مجھے رشتہ داروں کا خوف ہے کہ وہ میرا مال دولت ہڑپ کر جائیں گے تو یا اللہ مجھے میرا بیٹا وارث عطا فرما
۔
*#پہلا جواب۔۔۔۔!!*
انبیاء کرام کی یہ شان نہیں کہ وہ مال و دولت جمع کرتے پھریں اور پھر ان کو خوف ہو کہ کوئی ان کا مال ہڑپ نہ کر جائے۔۔یہ انبیاء کرام کی شان کے لائق نہیں۔۔۔لہذا ایت میں سیدنا زکریا علیہ السلام نے یہ دعا کی کہ یا اللہ مجھے خوف ہے کہ میرے بعد میرے رشتہ دار یہ کہہ کر مسلط ہو جائیں گے کہ ہم تو زکریا علیہ السلام کے وارث ہیں اور سیدنا زکریا کی فلاں فلاں تعلیمات ہیں، اس طرح وہ اپنی بدعتیں اپنی خرافات اپنی عقلی باتیں من مانیاں دین میں شامل کر کے سیدنا زکریا علیہ السلام کی تعلیمات بگاڑ کر امت کو تباہ کر دیں گے۔۔۔ یہ خوف تھا سیدنا زکریا علیہ السلام کو اس لیے انہوں نے دعا فرمائی کہ یا اللہ میرے علم و حکمت دین و ملت مذہب و تعلیمات کا وارث بیٹا مجھے عطا فرما
۔
*#دوسرا جواب*
سیدنا زکریا علیہ السلام کی اتنی بڑی کوئی مال و دولت ہی نہیں تھی کہ جس کی حفاظت کے لیے وہ مالی وارث بیٹے کی دعا فرماتے
۔
*#تیسرا جواب*
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم انبیاء کرام نہ تو کسی کے مالی وارث بنتے ہیں اور نہ ہی کسی کو اپنا مالی وارث بناتے ہیں۔۔۔یہ حدیث پاک تو خود شیعہ کتب میں موجود ہے لہذا اسے سیدنا ابوبکر صدیق کی من گھڑت بات کہنا سراسر نا انصافی ہے جھوٹ ہے
۔
*#چوتھا جواب*
شیعہ کتب میں واضح ہے کہ جو اللہ کی ایات کو چھوڑ کر کسی بادشاہ کی بات مانے گا تو وہ شیطان کی بات مانے گا۔۔۔لیکن ہم شیعہ کی کتاب سے ہی دکھائیں گے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے دیگر تمام معاملات کے ساتھ ساتھ خلافت کے معاملے میں اور باغ فدک کے معاملے میں بھی فرمایا کہ میں صحابہ کرام مہاجرین و انصار اور ابوبکر و عمر کی پیروی کرتا ہوں۔۔۔لہذا ثابت ہوا کہ ایت میں وراثت علم کی وراثت مراد ہے مالی وراثت مراد نہیں کیونکہ اگر مالی وراثت مراد ہوتی تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اپنے دور خلافت میں ضرور اس کو مالی وراثت کے طور پر اس کے حقداروں تک پہنچاتے جبکہ سیدنا علی نے ایسا نہیں کیا۔۔۔ورنہ شیعوں کے مطابق تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی ایات کو چھوڑ کر مہاجرین و انصار کی بات مان کر اور سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کی بات مان کر نعوذ باللہ شیعہ کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ شیعہ کے مطابق کافر قرار پائے۔۔۔۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ
.
*#مذکورہ بالا جوابات میں نے اپنی طرف سے نہیں دیے بلکہ یہ لیجیے مذکورہ بالا جوابات کے دلائل و حوالہ جات*
.
وَالْأَوْلَى أَنْ يُحْمَلَ عَلَى مِيرَاثِ غَيْرِ الْمَالِ لِأَنَّهُ يَبْعُدُ أَنْ يُشْفِقَ زَكَرِيَّا وَهُوَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ أَنْ يَرِثَهُ بَنُو عَمِّهِ مَالَهُ.وَالْمَعْنَى: أَنَّهُ خَافَ تَضْيِيعَ بَنِي عَمِّهِ دِينَ اللَّهِ وَتَغْيِيرَ أَحْكَامِهِ عَلَى مَا كَانَ شَاهَدَهُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ تَبْدِيلِ الدِّينِ وَقَتْلِ الْأَنْبِيَاءِ، فَسَأَلَ رَبَّهُ وَلِيًّا صَالِحًا يَأْمَنُهُ عَلَى أُمَّتِهِ وَيَرِثُ نُبُوَّتَهُ وَعِلْمَهُ لِئَلَّا يَضِيعَ الدِّينُ. وَهَذَا مَعْنَى قَوْلِ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
درست یہ ہے کہ ایت میں سیدنا زکریا علیہ السلام نے مالی وراثت کی بات نہیں کی کیونکہ سیدنا زکریا علیہ السلام ایک نبی ہو کر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میرا مال کوئی ہڑپ نہ کر جائے۔۔۔ ہاں انبیاء کرام کی یہ شان ہے کہ انہیں یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ بنو اسرائیل جو شریر لوگ تھے تو ان سے خوف تھا کہ کہیں وہ دینی معلومات عقائد و نظریات تعلیمات کو بگاڑ کر رکھ نہ دیں ،اس لیے سیدنا زکریا علیہ السلام نے اپنی نبوت اور علم و تعلیمات کے لیے وارث بیٹے کی دعا فرمائی تاکہ دین ضائع نہ ہو اور یہی معنی سیدنا عطا رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے اور یہی معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت بھی ہے
(تفسير بغوي5/219)
۔
فخافهم أن يغيروا الدين وأن لا يحسنوا الخلافة على أمته فطلب عقباً صالحاً من صلبه يقتدي به في إحياء الدين۔۔۔۔۔أي هب لي ولداً وارثاً مني العلم ومن آل يعقوب النبوة ومعنى وراثة النبوة أنه يصلح لأن يوحى إليه
سیدنا زکریا علیہ السلام کو یہ خوف تھا کہ کہیں وہ دینی تعلیمات کو بدل نہ دیں اور امت پر خلافت دینی کو بگاڑ نہ دیں اس لیے دینی خلافت علمی خلافت وارث کی دعا فرمائی یعنی سیدنا زکریا علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ یا اللہ مجھے بیٹا عطا فرما جو میرا علم کا وارث ہو تعلیمات کا وارث ہو دین کا وارث ہو نبوت کا وارث ہو اور اس کی طرف وحی ہو
(تفسیر نسفی2/326,327)
۔
الأولى أن يحمل على ميراث غير المال؛ لقوله - عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام ُ -: «نَحْنُ معاشِرَ الأنبياءِ - لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صدقةٌ» ولأنه يبعدُ أن يشفق زكريَّا - وهو نبيٌّ من الأنبياء - أن يرث بنُو عمِّه مالهُ.والمعنى: أنه خاف تضييع بني عمِّه دين الله، وتغيير أحكامه على ما كان شاهدُه من بني إسرائيل من تبديل الدِّين، وقتل من قُتل من الأنبياء، فسأل ربَّه وليًّا صالحاً يأمنُه على أمَّته، ويرثُ نُبوَّته وعلمه؛ لئلاَّ يضيع الدِّين
درست یہ ہے کہ ایت میں مالی میراث مراد نہیں کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم انبیاء کرام کے کوئی مالی وارث نہیں ہوتے اور نہ ہی ہم کسی کے مالی وارث ہوتے ہیں، جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔۔۔ایت میں مالی میراث مراد نہیں اس کی یہ دلیل بھی ہے کہ سیدنا زکریا علیہ السلام نبی ہیں تو ان کی یہ شان نہیں کہ انہیں خوف ہو کہ ان کے مالی وارث رشتہ دار بن جائیں گے۔۔۔ہاں انہیں یہ خوف ہوگا کہ کہیں اس کے چچا کے بیٹے اس کے رشتہ دار سیدنا زکریا علیہ السلام کے دین کو بگاڑ نہ دیں۔۔۔اس لیے سیدنا زکریا علیہ السلام نے نیک صالح اولاد کی دعا کی تاکہ اپنی امت کے لیے وہ مطمئن ہو جائیں کہ ان کے لیے نبوت و تعلیمات کے لیے وارث چھوڑ کے جا رہے ہیں
(تفسیر اللباب13/14)
.
فَإِنَّ النَّبِيَّ أَعْظَمُ مَنْزِلَةً وَأَجَلُّ قَدْرًا مِنْ أَنْ يُشْفِقَ عَلَى مَالِهِ
الثَّانِي: أَنَّهُ لَمْ يُذْكَرْ أَنَّهُ كَانَ ذَا مَالٍ، بَلْ كَانَ نَجَّارًا يَأْكُلُ مِنْ كَسْبِ يَدَيْهِ، وَمِثْلُ هَذَا لَا يَجْمَعُ مَالًا وَلَا سِيَّمَا الْأَنْبِيَاءُ، عَلَيْهِمُ السَّلَامُ، فَإِنَّهُمْ كَانُوا أَزْهَدَ شَيْءٍ فِي الدُّنْيَا.الثَّالِثُ: أَنَّهُ قَدْ ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا نُورَث، مَاتَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ" وَفِي رِوَايَةٍ عِنْدَ التِّرْمِذِيِّ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ: "نَحْنُ مَعْشَرَ الْأَنْبِيَاءِ لَا نُورَثُ" وَ عَلَى هَذَا فَتَعَيَّنَ حَمْلُ قَوْلِهِ: {فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا * يَرِثُنِي} عَلَى مِيرَاثِ النُّبُوَّةِ
نبی کریم کوئی بھی ہو چاہے سیدنا زکریا علیہ السلام ہوں چاہے کوئی اور نبی ہوں ان کے لیے لائق نہیں ان کی شان نہیں کہ وہ مال کے معاملے میں خوف کریں۔۔۔اس لیے ایت میں مالی میراث مراد نہیں بلکہ دینی علمی وارث مراد ہے اور اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سیدنا زکریا علیہ السلام کا کوئی مال و دولت اتنا تھا ہی نہیں اور اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ ہم انبیاء کرام نہ تو کسی کو مالی وارث بناتے ہیں اور نہ ہی کسی کے مالی وارث بنتے ہیں جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے تو ان تمام دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ ایت میں مالی میراث مراد نہیں بلکہ علم تعلیمات نبوت کا وارث مراد ہے
(تفسیر ابن کثیر5/212,213ملتقطا)
۔
لا يجوز أن يقول زكريا: إنه يخاف أن يورث المال لأن أمر الأنبياء والصالحين أنهم لا يخافون أن يرثهم أقرباؤهم ما جعله الله لهم، وجاء عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال:" إنا معاشر الأنبياء لاَ نُورَث ما تركناه فهو صَدَقَة "
فقالوا معناه يرثني ويرث من آل يعقوب النبوة
یہ جائز نہیں ہو سکتا کہ سیدنا زکریا علیہ الصلوۃ والسلام نبی ہو کر یہ فرمائیں کہ ان کو مال کے وارث کا خوف ہے۔۔۔۔اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے مروی ہے کہ حضور نے فرمایا کہ ہم انبیاء کرام کا گروہ نہ تو وارث بنتے ہیں نہ کسی کا مالی وارث بناتے ہیں جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے لہذا اس ایت میں وراثت سے مراد مالی وراثت نہیں بلکہ علم تعلیمات و نبوت کا وارث مراد ہے
(تفسیر معانی القران3/320)
۔
============
*#رسول کریم کی مالی میراث نہیں، انکا مال صدقہ ہے،شیعہ کتب سے کچھ حوالے جات...لہذا اسے سیدنا ابوبکر صدیق کی من گھڑت بات کہنا سراسر نا انصافی ہے جھوٹ ہے۔۔۔۔۔۔۔!!*
رسول الله صلى الله عليه وآله يقول: " نحن معاشر الأنبياء لا نورث ذهبا ولا فضة ولا دارا ولا عقارا وإنما نورث الكتاب والحكمة والعلم والنبوة وما كان لنا من طعمة فلولي الأمر بعدنا أن يحكم فيه بحكمه
شیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے سونے کا نہ چاندی کا نہ ہی گھر کا نہ ہی زمینوں کا... ہم تو کتاب اور حکمت اور علم کا وارث بناتے ہیں... جو کچھ ہمارا مال ہے وہ ہمارے بعد جو خلیفہ آئے گا اس کے سپرد ہے اس کی صوابدید پر موقوف ہے کہ وہ کس طرح خرچ کرتا ہے
(شیعہ کتاب الاحتجاج - الشيخ الطبرسي1/142)
.
، وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم
شیعہ کہتے ہیں کہ بے شک علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں اور انبیائے کرام نے کسی کو درہم اور دینار( مالی وراثت )کا وارث نہیں بنایا انکی وراثت تو فقط علم ہے
(شیعہ کتاب الكافي - الشيخ الكليني1/34)
.
أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول: نحن معاشر الأنبياء لا نورث ذهبا ولا فضة ولا دارا ولا عقارا وإنما نورث الكتب (3) والحكمة والعلم والنبوة، وما كان لنا من طعمة فلولي الامر بعدنا ان يحكم فيه بحكمه
شیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے سونے کا نہ چاندی کا نہ ہی گھر کا نہ ہی زمینوں کا... ہم تو کتاب اور حکمت اور علم کا وارث بناتے ہیں... جو کچھ ہمارا مال ہے وہ ہمارے بعد جو خلیفہ آئے گا اس کے سپرد ہے اس کی صوابدید پر موقوف ہے کہ وہ کس طرح خرچ کرتا ہے
(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي29/231)
.
ویسے تو ہم شیعہ کتب کے متعلق کہتے ہیں کہ جھوٹ تضاد گستاخی سے بھری پڑی ہیں مگر کچھ سچ بھی لکھا ہے انہون نے لیھذا کتب شیعہ کی بات قرآن و سنت معتبر کتب اہلسنت کے موافق ہوگی تو وہی معتبر...مذکورہ حوالہ جات موافق قرآن و سنت ہیں، موافق کتب اہلسنت ہین لیھذا معتبر
کیونکہ شیعہ ناصبی جیسے جھوٹے بھی کبھی سچ بول جاتے ہیں ، لکھ جاتے ہیں اگرچہ الٹی سیدھی تاویلیں اپنی طرف سے کرتے ہیں جوکہ معتبر نہیں
قَدْ يَصْدُقُ الْكَذُوبَ
ترجمہ:
بہت بڑا جھوٹا کبھی سچ بول دیتا ہے
(فتح الباری9/56، شیعہ کتاب شرح اصول کافی2/25)
==============
ہم نے ایک جواب لکھا تھا کہ شیعہ کتب میں واضح ہے کہ جو اللہ کی ایات کو چھوڑ کر کسی بادشاہ کی بات مانے گا تو وہ شیطان کی بات مانے گا۔۔۔لیکن ہم شیعہ کی کتاب سے ہی دکھائیں گے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے دیگر تمام معاملات کے ساتھ ساتھ خلافت کے معاملے میں اور باغ فدک کے معاملے میں بھی فرمایا کہ میں صحابہ کرام مہاجرین و انصار اور ابوبکر و عمر کی پیروی کرتا ہوں۔۔۔لہذا ثابت ہوا کہ ایت میں وراثت علم کی وراثت مراد ہے مالی وراثت مراد نہیں کیونکہ اگر مالی وراثت مراد ہوتی تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اپنے دور خلافت میں ضرور اس کو مالی وراثت کے طور پر اس کے حقداروں تک پہنچاتے جبکہ سیدنا علی نے ایسا نہیں کیا۔۔۔ورنہ شیعوں کے مطابق تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی ایات کو چھوڑ کر مہاجرین و انصار کی بات مان کر اور سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کی بات مان کر نعوذ باللہ شیعہ کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ شیعہ کے مطابق کافر قرار پائے۔۔۔۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ
۔
اس جواب کے دلائل و حوالہ جات یہ ہیں:
هما أول من ظلمنا حقنا وأخذا ميراثنا، وجلسا مجلسا كنا أحق به منهما، لا غفر الله لهما ولا رحمهما، كافران،
كافر من تولاهما
شیعوں کے مطابق سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما پہلے دو شخص ہیں جنہوں نے اہل بیت کا حق مارا اور ان کی میراث ان کو نہ دی اور خلافت پر قبضہ کر بیٹھے شیعہ کے مطابق اللہ سیدنا ابوبکر و عمر کو نہ بخشے گا نہ رحم فرمائے گا وہ دونوں کافر ہیں اور جو ان سے دوستی رکھے ان کو درست مانے وہ بھی کافر ہے
(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي30/381)
۔
اسی عبارت میں شیعہ کے مطابق
خلافت سیدنا ابوبکر صدیق کے لیے ثابت سمجھنا کفر ہے اور یہ بھی کفر ہے کہ باغ فدک وغیرہ کو اہل بیت کا میراث نہ سمجھا جائے
جبکہ
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے خلافت صدیقی کو تسلیم کیا اور باغ فدک کو میراث نہ سمجھا تو کیا نعوذ باللہ شیعہ کے مطابق سیدنا علی نے کفر کر دیا یا شیعہ مکار جھوٹے گستاخ کافر مرتد ہیں۔۔۔۔فیصلہ کرنا اپ کے لیے ہم نے اسان کر دیا
۔
.=====================
بديهي ان ضرورة تنفيذ الاحكام لم تكن خاصة بعصر النبي (ص) بل الضرورة مستمرة
خمینی شیعیوں کا معتبر ترین معتدل ترین عظیم ترین امام خمینی کہتا ہے کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسلامی احکامات کو نافذ کرنا ضروری ہے یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ احکامات نافذ کرنے کی ذمہ داری ہمیشہ کے لیے ہے ہمیشہ ہمیشہ قیامت تک کے لیے ہے
(شیعہ خمینی کی کتاب الحکومت الاسلامیہ ص25)
۔
اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ جب خلیفہ بنے تو ان پر ضروری تھا ان پر لازم تھا ان پر فرض تھا کہ وہ اسلامی سچے احکامات نافذ کرتے اب اگر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا خلیفہ بننا اسلامی احکامات کے خلاف تھا اور انہوں نے باغ فدک کے معاملے میں جو کچھ کیا وہ سب غلط تھا تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ پر فرض تھا کہ اس کی درستگی فرماتے لوگوں کو دوبارہ کلمہ پڑھاتے اور فدک میں میراث جاری کرتے لیکن سیدنا علی نے ایسا نہیں کیا لہذا یا تو یہ خمینی شیعہ سارے جھوٹے ہیں یا پھر ان کے مطابق نعوذ باللہ سیدنا علی جھوٹے ہیں
.======================
وان الامام عليه السلام نفسه ينهي عن الرجوع الى سلاطين الجور وقضاته، ويعتبر الرجوع اليهم رجوعا الى
الطاغوت
امام برحق روکتا ہے کہ ناحق بادشاہوں کی طرف رجوع نہ کیا جائے اور اگر کوئی ان بادشاہوں کی طرف رجوع کرے گا تو وہ شیطان کی طرف رجوع کرنے والا کہلائے گا
(شیعہ خمینی کی کتاب الحکومت الاسلامیہ ص92)
۔
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے باغ فدک کے معاملے میں اور خلافت کے معاملے میں مہاجرین و انصار صحابہ کرام کی طرف رجوع کیا سیدنا ابوبکر صدیق و عمر کی طرف رجوع کیا اور ان کا حکم جاری کیا تو شیعہ کے مطابق نعوذ باللہ سیدنا علی نے شیطان کی طرف رجوع کیا۔۔۔۔لا حول ولا قوۃ الا باللہ
۔
۔========================
توجد نصوص كثيرة تصف كل نظام غير اسلامي بأنه شرك ، والحاكم او السلطة فيه طاغوت .
خمینی جو شیعوں کا بہت بڑا امام و عالم ہے کہتا ہے کہ ہمارے دلائل کے مطابق ہر وہ نظام کہ جو اسلامی نظام نہ ہو وہ شیطانی نظام ہے، وہ نظام شرک ہے اور اس مشرکانہ شیطانی نظام والا بادشاہ سرکش شیطان و طاغوت ہے
(شیعہ خمینی کی کتاب الحکومت الاسلامیہ ص33)
۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ بلا فصل بنے اگر یہ اسلامی نظام تھا باغ فدک کے متعلق جو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے حکم جاری فرمایا اگر وہ اسلامی نظام تھا تو اج کے شیعہ اس کی مخالفت کر کے مشرک ہوئے اور اگر وہ اس اسلامی نظام نہ تھا تو نعوذ باللہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اس غیر اسلامی نظام کی پیروی کر کے مشرک قرار پائے شیعوں کے مطابق۔۔۔۔۔!!
.
۔====================
۔
(السلطنۃ الطاغوتیہ)وقد امرنا الله ان نكفر بمثل ذلك ، وان تتمرد على كل حكومة جائرة وان كان ذلك يكلفنا الصعاب ويحملنا المشاق
مشرکانہ شیطانی حکومت کے جو اسلام کے خلاف ہوتی ہے ہمیں اللہ کا حکم ہے کہ ہم اس کا انکار کر دیں اور اس حکومت کے خلاف کھڑے ہو جائیں اگرچہ اس میں ہمیں بہت مشکلات اور مشقت اٹھانی پڑے
(شیعہ خمینی کی کتاب الحکومت الاسلامیہ ص86)
۔
خلافت بلا فصل سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے ہے اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے باغ فدک کے متعلق جو فیصلہ کیا یہ سب اسلامی نظام ہے تو شیعہ جھوٹے ثابت ہوئے غیر اسلامی ثابت ہوئے۔۔۔اور اگر وہ اسلامی نظام نہ تھا تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ کی طرف سے حکم تھا کہ وہ اس نظام کے خلاف کھڑے ہوتے چاہے انہیں مشکلیں کیوں نہیں درپیش اتی مگر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایسا نہیں کیا جس سے ثابت ہو گیا کہ شیعہ ہی مکار جھوٹے بدمعاش گمراہ گستاخ حتی کہ کئی کافر تک ہو جاتے ہیں
۔
۔=================
*#اوپر ہم نے لکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کو تسلیم کیا اور مہاجرین و انصار صحابہ کرام کی طرف رجوع کیا اور باغ فدک کے معاملے میں بھی سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے فیصلے کو جاری رکھا۔۔۔۔اس کی چند حوالہ جات یہ ہیں*
.
فلما وصل الأمر إلى علي بن أبي طالب عليه السلام كلم في رد فدك، فقال: إني لأستحي من الله أن أرد شيئا منع منه أبو بكر وأمضاه عمر
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ جب خلیفہ مقرر ہوئے تو ان سے بات کی گئی باغ فدک کو میراث کے طور پر لوٹانے کی تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں اللہ سے حیا کرتا ہوں کہ میں وہ چیز لوٹاؤں کہ جس کو ابوبکر نے منع کیا ہے اور عمر جاری کیا ہے
(شیعہ کتاب الشافي في الامامة - الشريف المرتضى4/76)
۔
جبکہ ہم اوپر شیعہ کتب کے حوالے سے لکھا ہے کہ حاکم اسلام پر فرض ہوتا ہے کہ وہ سچے دینی تعلیمات کو نافذ کرے ورنہ وہ بھی شیعہ کے مطابق شیطان کا پجاری ہوتا ہے اب نعوذ باللہ اگر باغ فدک کے معاملے میں سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنہما درست نہ تھے تو کہنا پڑے گا کہ شیعوں کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے شیطان کی طرف رجوع کیا اور شیطان کی بات مانی، اللہ کا حکم چھوڑ دیا، جو کہ انتہائی گھٹیا ترین بات ہے گستاخی ہے جو شیعہ ہی جیسے لوگ کر سکتے ہیں کیونکہ یہ بے حیا جھوٹ بولنے میں ماہر ہیں گستاخی کرنے میں ہچکچاتے نہیں اور نعرہ لگاتے ہیں جھوٹی محبت کا۔۔۔ ذرا برابر بھی شرم نہیں انہیں۔۔۔۔۔۔!!
.
*#باغ فدک میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کس طرح کا معاملہ فرمایا... شیعہ کتاب سے اوپر حوالہ لکھ دیا گیا اب اہل سنت کتب سے چند حوالہ جات ملاحظہ کیجیے......!!*
قَالَ : فَهُمَا عَلَى ذَلِكَ إِلَى الْيَوْمِ.
سیدنا زهري فرماتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر صدیق سے لے کر سیدنا علی وغیرہ تک یہ اسی طریقے پر جاری ہے( کہ اموال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی ملکیت نہیں ہے وہ صدقہ ہیں وہ اہل بیت و دیگر رشتہ داروں اور دیگر مسلمانوں اور اللہ کی راہ میں خرچ ہوتا رہا سب خلفاء راشدین کے دور میں)
(ابوداؤد روایت2968)
.
ولهذا لَمَّا صارت الخِلافة إلى عليٍّ لم يُغيِّرْها عن كونها صدَقة
جب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اسی طریقے کو جاری رکھا جو سیدنا ابوبکر صدیق نے جاری رکھا تھا اور اموالِ رسول کریم کو صدقہ قرار دیا
(اللامع الصبيح بشرح الجامع الصحيح9/156)
(كتاب منحة الباري بشرح صحيح البخاري6/209)
.
ومما يدل على ما قلناه: ما قاله أبو داود: أنه لم يختلف على - رضى الله عنه - أنه لما صارت الخلافة إليه لم يغيرها عن كونها صدقة
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال صدقہ ہیں اس بات پر یہ بھی دلیل ہے کہ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ جب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اسے صدقہ قرار دیا اور جس طرح سیدنا صدیق اکبر نے خرچہ جاری کیا تھا سیدنا علی نے اسی طریقے پر اسی طرز کو جاری رکھا اس سے تبدیل نہ کیا کسی کی ملکیت قرار نہ دیا
(إكمال المعلم بفوائد مسلم6/79)
۔
قال: وأخرج عن جعفر أيضا أنه قيل له: إن فلانا يزعم أنك تتبرأ من أبي بكر وعمر فقال برء الله من فلان إني لأرجو أن ينفعني الله بقرابتي من أبي بكر
ایک شخص نے کہا امام جعفرصادق سے کہ فلاں آدمی سمجھتا ہے کہ آپ ابو بکر اور عمر سے براءت کرتے ہیں جس پر امام جعفر صادق نے فرمایا کہ (جس نے میرے متعلق کہا ہے کہ براءت کرتا ہوں)اللہ اس سے بری ذمہ ہے(میں براءت نہیں کرتا توہین تنقیص فاسق فاجر ظالم غاصب وغیرہ نہیں سمجھتا بلکہ ایسا اللہ کا پیارا محبوب ولی عظیم الشان صحابی سمجھتا ہوں کہ)بے شک مجھےامید ہےاللہ مجھے نفع دیگا(سیدنا)ابوبکر کےساتھ میری قرابت اور رشتہ داری کی وجہ سے
(شیعہ کتاب الصوارم المھرقہ ص246)
(شیعہ کتاب الإمام جعفر الصادق ص178)
.
سیدنا علی فرماتے ہیں
إنه بايعني القوم الذين بايعوا أبا بكر وعمر وعثمان على ما بايعوهم عليه، فلم يكن للشاهد أن يختار ولا للغائب أن يرد، وإنما الشورى للمهاجرين والأنصار، فإن اجتمعوا على رجل وسموه إماما كان ذلك لله رضى
میری(سیدنا علی کی)بیعت ان صحابہ کرام نے کی ہےجنہوں نےابوبکر و عمر کی کی تھی،یہ مہاجرین و انصار صحابہ کرام کسی کی بیعت کرلیں تو اللہ بھی راضی ہے(اور وہ خلیفہ برحق کہلائے گا) تو ایسی بیعت ہو جائے تو دوسرا خلیفہ انتخاب کرنے یا تسلیم نہ کرنے کا حق نہیں(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ ص491)
سیدنا علی کےاس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ
①خلافت سیدنا علی کے لیے نبی پاک نے مقرر نہ فرمائی تبھی تو سیدنا علی نے صحابہ کرام کی شوری کو اللہ کی رضا و پسند فرمایا
سیدنا علی کےاس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ
②سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان کی خلافت برحق تھی، دما دم مست قلندر سیدنا علی دا چوتھا نمبر
سیدنا علی کےاس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ
③صحابہ کرام ایمان والے تھے کافر فاسق ظالم نہ تھے ورنہ سیدنا علی انکی مشاورت و ھکم کو برحق نہ کہتے
رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین
لہذا سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے اس قول سے ثابت ہو جاتا ہے کہ خلافت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ بلا فصل بالکل برحق ہے اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر صحابہ کرام کے فیصلے بھی برحق ہیں چاہے وہ فدک کے بارے میں ہوں یا کسی اور معاملے میں ہوں۔۔۔۔ زیادہ سے زیادہ اکا دکا معاملات میں اجتہادی خطا پر کہا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو۔۔۔۔و بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
۔
۔#######################
*#شیعوں کا اعتراض*
شیعہ کہتے ہیں کہ یہ بھی جھوٹ پھیلایا جاتا ہے کہ اہل بیت کو باغ فدک وغیرہ میں سے خرچہ دیا جاتا تھا کیونکہ ابو داؤد میں دو ٹوک لکھا ہے کہ ابوبکر نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو دینے سے انکار کر دیا ان پر خرچ کرنا بھی گوارا نہ کیا
.
*#سچے اہل اسلام یعنی اہلسنت کا جواب*
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی اپنے اموال میں سے ذرا برابر کا بھی مالک نہیں بنایا بلکہ اہل بیت ازواج مطہرات و دیگر مسلمانوں پر خرچ کرتے رہے اسی طرح رسول کریم نے فرمایا کہ میرا جو ترکہ ہے وہ صدقہ ہے...اس قسم کی حدیث پاک کو سیدنا علی نے بھی تسلیم کیا ، سیدنا عباس نے بھی تسلیم کیا ، سیدنا ابوبکر اور عمر صحابہ کرام نے بھی تسلیم کیا کہ ایسی حدیث واقعی میں ہے،لہذا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مالی میراث درحقیقت مالی میراث ہی نہیں تھی وہ تو اہل بیت و دیگر مسلمانوں کے لیے صدقہ تھی نفلی صدقہ جسے مناسب انداز میں مستحقین میں امام وقت خلیفہ وقت تقسیم کرے گا۔۔اگر اہل بیت کرام کو ضرورت نہ ہوتی تو ممکن تھا کہ انہیں باغ فدک وغیرہ میں سے نہ دیا جاتا تو بھی کوئی اعتراض نہ تھا مگر سیدنا صدیق اکبر کا انصاف اور سچائی اور محبت دیکھیے کہ اپ نے اہلبیت و دیگر رشتے داران رسول و فقراء مسلمین و اللہ کی راہ میں اسی طرح خرچ کیا جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرج کیا کرتے تھے.... پھر سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اسی طرح خرچ کیا کرتے تھے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کیا کرتے تھے... لہذا جو کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اہل بیت پر خرچ نہیں کیا وہ جھوٹ کہتے ہیں
.
*چند دلائل و حوالہ جات ملاحظہ کیجیے…...!!*
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ اچھا ‘ تو پھر ذرا ٹھہرئیے اور دم لے لیجئے میں آپ لوگوں سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”ہم پیغمبروں کا کوئی مالی اعتبار سے وارث نہیں ہوتا ‘ جو کچھ ہم (انبیاء) چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ “ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات گرامی بھی تھی۔ ان حضرات نے تصدیق کی ‘ کہ جی ہاں ‘ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا اب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما کی طرف مخاطب ہوئے ‘ ان سے پوچھا۔ میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ‘ کیا آپ حضرات کو بھی معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے یا نہیں؟ انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیشک ایسا فرمایا ہے۔۔(پس ثابت ہوا کہ یہ حدیث سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا علی سیدنا عباس وغیرہ کے مطابق بھی برحق و ثابت ہے)سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب میں آپ لوگوں سے اس معاملہ کی شرح بیان کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس غنیمت کا ایک مخصوص حصہ مقرر کر دیا تھا۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی دوسرے کو نہیں دیا تھا(جب نبی کریم نے اپنا حصہ کسی کو زندگی میں نہیں دیا تو ثابت ہوا کہ انبیاء کرام کے مال صدقہ ہوتے ہیں، کسی کی ملکیت نہیں بنتے) پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی «وما أفاء الله على رسوله منهم» سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «قدير» تک اور وہ حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص رہا۔ مگر قسم اللہ کی یہ جائیداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو چھوڑ کر اپنے لیے جوڑ نہ رکھی ‘ نہ خاص اپنے خرچ میں لائے ‘ بلکہ تم لوگوں کو(بغیر مالک بنائے صرف خرچہ اٹھانے کے لیے)دیں اور تمہارے ہی کاموں میں خرچ کیں۔ یہ جو جائیداد بچ رہی ہے اس میں سے آپ اپنی بیویوں کا سال بھر کا خرچ لیا کرتے اس کے بعد جو باقی بچتا وہ اللہ کے مال میں شریک کر دیتے... خیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی زندگی میں ایسا ہی کرتے رہے۔ حاضرین تم کو اللہ کی قسم! کیا تم یہ نہیں جانتے؟ انہوں نے کہا بیشک جانتے ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما سے کہا میں آپ حضرات سے بھی قسم دے کر پوچھتا ہوں ‘ کیا آپ لوگ یہ نہیں جانتے ہیں؟ (دونوں حضرات نے جواب دیا ہاں!) پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یوں فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے اٹھا لیا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں ‘ اور اس لیے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال و جائیداد اپنی نگرانی میں لیے اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کرتے تھے اسی طرح سیدنا صدیق اکبر(اہلبیت وغیرہ پر)خرچ کرتے رہے۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے اس طرز عمل میں سچے مخلص ‘ نیکوکار اور حق کی پیروی کرنے والے تھے...(پھر سیدنا عمر نے بھی رسول کریم اور سیدنا ابوبکر کے طرز پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا جسے سیدنا علی سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے بھی تسلیم کیا)
(صحیح بخاری 3094)
.
سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آ گئے اور ان کے پاس سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، سیدنا عبدالرحمٰن اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہم (پہلے سے) بیٹھے تھے، یہ دونوں (یعنی سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما) جھگڑنے لگے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن اور سعد رضی اللہ عنہم سے کہا: کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”نبی کا سارا مال صدقہ ہے سوائے اس کے جسے انہوں نے اپنے اہل کو کھلا دیا یا پہنا دیا ہو، ہم لوگوں کا کوئی مالی وارث نہیں ہوتا“، لوگوں نے کہا: کیوں نہیں (ہم یہ بات جانتے ہیں آپ نے ایسا ہی فرمایا ہے) اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مال میں سے اپنے اہل پرخرچ کرتے تھے اور جو کچھ بچ رہتا وہ صدقہ کر دیتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے آپ کے بعد اس مال کے متولی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دو سال تک رہے، وہ ویسے ہی خرچ کرتے رہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کرتے تھے
(ابوداود 2975)
.
سیدنا عمر فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد میں خلیفہ ہوا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال میں وہی تقسیم اور خرچہ جاری رکھا کہ جس طرح سیدنا ابوبکر صدیق کیا کرتے تھے... پھر ان اموال سے خرچہ اٹھانے کے لئے میں نے آپ اہل بیت کو یہ مال دیا اس شرط پر کہ آپ لوگ اسی طرح خرچہ اٹھاتے رہو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ میں خرچہ دیا کرتے تھے جس طرح سیدنا ابوبکر صدیق آپ میں خرچہ کیا کرتے تھے اور آپ لوگوں سے اس پر عہد بھی لیا
(نسائی روایت4148)
.
جَمَعَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بَنِي مَرْوَانَ حِينَ اسْتُخْلِفَ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ فَدَكُ، فَكَانَ يُنْفِقُ مِنْهَا، وَيَعُودُ مِنْهَا عَلَى صَغِيرِ بَنِي هَاشِمٍ، وَيُزَوِّجُ مِنْهَا أَيِّمَهُمْ، وَإِنَّ فَاطِمَةَ سَأَلَتْهُ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهَا فَأَبَى، فَكَانَتْ كَذَلِكَ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَلَمَّا أَنْ وَلِيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَلَمَّا أَنْ وَلِيَ عُمَرُ عَمِلَ فِيهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلَا حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، ثُمَّ أُقْطِعَهَا مَرْوَانُ، ثُمَّ صَارَتْ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ. قَالَ عُمَرُ - يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ : فَرَأَيْتُ أَمْرًا مَنَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ لَيْسَ لِي بِحَقٍّ، وَأَنَا أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ رَدَدْتُهَا عَلَى مَا كَانَتْ. يَعْنِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سیدنا عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ فدک وغیرہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال تھے اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہلبیت و مسلمانوں و فی سبیل اللہ خرچ کیا کرتے تھے... سیدہ فاطمہ نے اپنی ملکیت کے لیے کچھ لینا چاہا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا... پھر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اسی عمل و خرچے کو جاری رکھا پھر سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے بھی اس عمل کو جاری رکھا پھر یہ مروان کے حوالے کر دیا گیا اور پھر یہ مجھے ملا تو میں عمر بن عبدالعزیز کہتا ہوں کہ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ کی ملکیت قرار نہ دیا وہ میرا حق نہیں ہو سکتا میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں اس کو اسی حال پر واپس لوٹا رہا ہوں کہ جس حال پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے
(ابوداود روایت2972)
۔
*#اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ جو کہتے تھے شیعہ کے سیدنا عمر بن عبدالعزیز نے اہل بیت کو بطور میراث واپس کر دیا۔۔۔یہ شیعوں کا جھوٹ ہے۔۔۔۔سیدنا عمر بن عبدالعزیز نے کسی کی ملکیت میں نہ دیا بلکہ اس کو سیدنا ابوبکر صدیق کے طریقے پر جاری کر دیا جو طریقہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا*
۔
.###################
*#شیعہ اعتراض کرتے ہیں کہ خلیفہ راشد ابوبکر نے باغ فدک وغیرہ اپنے قبضے میں رکھے اہل بیت کو نہ دیے لیکن خلیفہ راشد عثمان نے مروان کو دے دیا اور خلیفہ راشد عبدالعزیز نے واپس اہل بیت کو دے دیا تو بتاؤ ان خلفائے راشدین میں سے کون برحق ہے اور کون باطل۔۔۔۔؟؟*
.
*#جواب*
اس کا جواب یہ ہے کہ اہل سنت اور شیعہ کی کتب میں حدیث پاک سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ جو بھی تھا وہ سب مسلمانوں کے لئے صدقہ تھا وہ اہل بیت پہ خرچ ہو سکتا تھا دوسرے مسلمانوں پر بھی خرچ ہو سکتا تھا کسی اہل بیت پر خرچ کرنا فرض واجب نہیں تھا... لہذا سیدنا ابوبکر صدیق نے اپنے قبضے میں نہیں رکھا اپنے ملکیت میں نہیں رکھا بلکہ اوپر ہم لکھ ائے سیدنا صدیق اکبر نے اہل بیت میں خرچ کیا اور دیگر مسلمانوں میں خرچ کیا ہاں کسی کی ملکیت میں نہ دیا اور اسی طرح سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے مروان کے لیے نگہبانی میں تو دیا لیکن مروان کی ملکیت میں نہیں دیا اور اسی طرح سیدنا عمر بن عبدالعزیز نے اہل بیت کی ملکیت میں نہیں دیا بلکہ اسے اس طریقے پر جاری کر دیا جس طریقے پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے جاری کیا تھا کہ وہ طریقہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جاری کردہ تھا لہذا تینوں خلفائے راشدین چاروں خلفاء راشدین کا طرز عمل برحق ہے
۔
.
فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا لَهُ فِيهَا حَقٌّ
(رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چھوڑا ہوا مال صدقہ ہے تو )اس صدقے میں ہر مسلمان کا حق ہے(وہ کسی کے لیے خاص نہیں)
(ابوداود روایت2966)
.
بين المسلمين ومصالحهم، وأن أمره إلى من يلي أمره بعد، متفق عليه بين الصحابة حتى العباس وعلي
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مال صدقہ ہیں وہ مسلمانوں میں اہلبیت وغیرہ میں خرچ ہوتے رہیں گے اور اس کی نگرانی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کے خلیفہ کے سپرد ہے اس بات پر تمام صحابہ کا اتفاق ہے حتی کہ سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہما کا بھی اسی بات پر اتفاق ہے
(لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح7/146)
.
اب جب ثابت ہوگیا کہ احادیث اور صحابہ کرام اور اہل بیت عظام کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال صدقہ ہیں تو لازم نہیں ہے کہ صرف اہل بیت میں ہی خرچ ہو وہ کہیں بھی خرچ ہو سکتے ہیں...یہ سب خلیفہ کی صوابدید پر ہے کہ وہ کہاں پر زیادہ حاجت کو محسوس کرتا ہے وہاں پر خرچ کرے گا
لیھذا
سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جب دیکھا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال اہل بیت میں خرچ کرنا لازم نہیں ہے تو انہوں نے دیگر اموال اہل بیت کو دیے اور اموال رسول دیگر معاملات میں خرچ کییے
.
إِنَّمَا أَقْطَعَ عُثْمَانُ فَدَكَ لِمَرْوَانَ لِأَنَّهُ تَأَوَّلَ أَنَّ الَّذِي يَخْتَصُّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكُونُ لِلْخَلِيفَةِ بَعْدَهُ فَاسْتَغْنَى عُثْمَانُ عَنْهَا بِأَمْوَالِهِ
باغ فدک سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے مروان کو دیا تھا خرچے کیلئے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ دلیل پکڑی کہ اموال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی خلیفہ کے لئے سپرد ہے تو سیدنا عثمان نے دیگر مال اہل بیت کو دے کر اموال رسول کریم سے مستغنی کر دیا
(كتاب فتح الباري لابن حجر6/204)
.###################
.
*#سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے قربی رسول اللہ کو نہ دیا کا معنی و تحقیق.......؟؟*
امام ابوداود و دیگر محدثین سے ہم نے ثابت کر دیا کہ خلفائے راشدین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو قریبی رشتہ داروں کو اور دیگر مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال میں سے خرچہ دیا کرتے تھے، معترض نے جو امام ابو داود کے حوالے سے لکھا ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کو کچھ نہ دیتے تھے یہ سراسر جھوٹ ہے....امام ابوداود نے ایسی کوئی حدیث نہیں لکھی بلکہ یہ سیدنا جبیر کا قول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذووی القربی کو سیدنا صدیق اکبر نہ دیتے تھے اور باقی تقسیم رسول اللہ علیہ والی فرماتے تھے
.
*#پہلی بات*
پہلی بات تو یہ ہے سیدنا جبیر کا قول دیگر محدثین کے بظاہر خلاف ہے تو غیر معتبر ہے
وهذا الحديث يخالفه فيما يأتي قريبًا من حديث
(بذل المجهود في حل سنن أبي داود10/166)
.
*#دوسری بات*
امام ابو داؤد نے ذووی القربی باب لکھا ہے مطلب دور کے رشتہ دار یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے رشتہ داروں کو سیدنا صدیق اکبر نہ دیتے تھے کیونکہ مال اتنا زیادہ نہ تھا کہ وہ سب کو دیتے بلکہ نبی پاک نے بھی اپنے بعض ذوی قربی یا دور کے رشتے داروں نہ دیا جیسا کہ ابوداود کے اس باب میں ہے
بَابٌ.فِي بَيَانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ، وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَى
(ابوداود قبیل 3/255)
.
(ذَوُو الْقُرْبَى)الْمُرَادُ بِهِمْ الْمَذْهَبُ الأَْوَّل: أَنَّهُمْ بَنُو هَاشِمٍ فَقَطْ، وَهُوَ مَا ذَهَبَ إِلَيْهِ أَبُو حَنِيفَةَ وَمَالِكٌ...الْمَذْهَبُ الثَّانِي: أَنَّ ذَوِي الْقُرْبَى هُمْ بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ فَقَطْ وَهُوَ الْمَذْهَبُ عِنْدَ الشَّافِعِيَّةِ (٥) ، وَالْحَنَابِلَةِ...الْمَذْهَبُ الثَّالِثُ: أَنَّ ذَوِي الْقُرْبَى هُمْ بَنُو قُصَيٍّ وَذَلِكَ مَرْوِيٌّ عَنْ أَصْبَغَ مِنَ الْمَالِكِيَّةِ،...الْمَذْهَبُ الرَّابِعُ: أَنَّ ذَوِي الْقُرْبَى قُرَيْشٌ كُلها
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذووی القربی(دور کے ) رشتہ دار کون سے ہیں.....؟؟ اس میں اختلاف ہے کچھ فرماتے ہیں کہ فقط بنو ہاشم ہیں اور اور یہ امام اعظم ابو حنیفہ اور امام مالک کا قول ہے..کچھ فرماتے ہیں کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ہیں اور یہ امام شافعی کا قول ہے اور حنبلیوں کا قول ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بنو قصی ہیں اور یہ بعض مالکیوں سے مروی ہے اور ایک قول یہ ہے کہ سب قریش ذووی القربی ہیں
(الموسوعة الفقهية الكويتية،70 33/67)
.
*#تیسری بات*
ایک توجیہ یہ لکھی ہے کہ بےشک سیدنا صدیق اکبر دیتے تھے تو لہذا سیدنا جیبر کا قول کم علمی غلط فھمی پر مبنی ہے معتبر نہیں ہے
" هذا إما مبني على عدم علمه بإعطاء أبو بكر إياهم وسيجيء عن علي ما يدل على أنه كات يعطي، فلعله كان يعطي ولم يطلع عليه جبير والإثبات مقدم علي النفی
سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ نے یہ جو فرمایا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ذووی القربی کو نہ دیا کرتے تھے تو یہ سید جبیر کی کم علمی ہے کہ انہیں معلوم نہیں تھا... سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ تو دیا کرتے تھے جیسے کہ اگلی والی حدیث سے ثابت ہے... اور ثبوت والی حدیث نفی والی روایت پر مقدم ہے
(فتح الودود في شرح سنن أبي داود3/307)
.
#######################
*#شیعہ کا ایک اعتراض دوست نے بھیجا کہ*
علامہ صاحب ایک شیعہ دوست نے اسکین بھیجا ہے مجھے بھی کنفیوز کردیا ہے...براءے مہربانی اس کا تسلی بخش تفصیلی جواب عنایت فرمائیں
اسکین میں ایک شیعہ کا دعوی تھا کہ بزاز مسند ابو یعلی تفسیر درمنثور وغیرہ کتب اہلسنت میں صحیح سند کے ساتھ حدیث ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے باغ فدک اپنی حیات مبارکہ ہی میں بی بی فاطمہ کو دے دیا تھا
.
*#جواب و تحقیق*
تفسیر در منثور کی پوری روایات یہ ہے:
أخرج الْبَزَّار وَأَبُو يعلى وَابْن أبي حَاتِم وَابْن مرْدَوَيْه عَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ رَضِي الله عَنهُ قَالَ: لما نزلت هَذِه الْآيَة {وَآت ذَا الْقُرْبَى حَقه} دَعَا رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَاطِمَة فَأَعْطَاهَا فدك
ترجمہ:
الْبَزَّار وَأَبُو يعلى وَابْن أبي حَاتِم وَابْن مرْدَوَيْه نے ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ نہ سے روایت کی ہے کہ جب آیت نازل ہوئی کہ رشتے داروں کو ان کا حق تو حضور نے فاطمہ کو بلایا اور انہیں باغ فدک دے دیا
[الدر المنثور في التفسير بالمأثور ,5/273]
.
اس روایت کی سند کیا ہے اور کیسی ہے اس پر بات بعد میں کریں گے پہلے امام ابن کثیر کا اس روایت پے تبصرہ پڑھیے آپ لکھتے ہیں:
وَهَذَا الْحَدِيثُ مُشْكَلٌ لَوْ صَحَّ إِسْنَادُهُ؛ لَأَنَّ الآية مكية، وفدك إِنَّمَا فُتِحَتْ مَعَ خَيْبَرَ سَنَةَ سَبْعٍ مِنَ الْهِجْرَةِ
ترجمہ:
اگر اس روایت کی سند کو صحیح مان لیا جائے تو اس پر اشکال وارد ہوتا ہے کہ آیت مکی ہے اور فدک تو (آیت کے نازل ہونے کے کئی سال بعد ) مدینہ میں 7 ہجری میں فتح خیبر کے ساتھ فتح ہوا تھا(یعنی آیت نازل ہوتے وقت باغ فدک رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ملکیت میں ہی نہیں تھا تو انھوں نے بی بی فاطمہ کو کیسے دیا۔۔۔۔؟؟)
(تفسیر ابن کثیر5/69)
.
ایک اور عقلی دلیل ملاحظہ کیجیے:
المشهور المعتمد عليه ان فاطمة سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم فدك فلم يعطها- كذا روى عن عمر بن عبد العزيز- ولو كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أعطاها فاطمة لما منعها عنها الخلفاء الراشدون لا سيما على رضى الله عنه فى خلافته والله اعلم
ترجمہ:
مشہور اور معتمد یہ ہے کہ بی بی فاطمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باغ فدک کا مطالبہ کیا تھا لیکن رسول اللہ نے ان کو نہیں دیا جیسے کہ عمر بن عبدالعزیز سے مروی ہے.... یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باغ دیا ہو اور خلفاء راشدین نہ دیں خاص طور پر سیدنا علی(کہ انہوں نے بھی اپنی خلافت میں بی بی فاطمہ کے وارثوں میں باغ فدک تقسیم نہ کیا)
[التفسير المظهري ,5/434]
.
اب آتے ہیں تفسیر در منثور کی اس مذکورہ روایت کی سند کی طرف
اسکی سند یہ ہے
قَرَأْتُ عَلَى الْحُسَيْنِ بْنِ يَزِيدَ الطَّحَّانِ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: هُوَ مَا قَرَأْتُ عَلَى سَعِيدِ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ(مسند ابی یعلی روایت1075)
.حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى التَّيْمِيُّ حَدَّثَنَا فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ
(البزاز بحوالہ تفسیر ابن کثیر5/68)
.
دونوں سندوں میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ مرکزی راوی عطیہ ہے اور عطیہ راوی کے متعلق علمائے جرح و تعدیل کے اقوال ملاحظہ کیجئے
ضعيف الحديث وكان شيعيا
عطیہ عوفی ضعیف الحدیث ہے اور یہ شیعہ تھا
(سیراعلام النبلاء5/326)
.
2321 - عَطِيَّة بن سعد أَبُو الْحسن الْكُوفِي ضعفه الثَّوْريّ وهشيم وَيحيى وَأحمد والرازي وَالنَّسَائی
عطیہ بن سعد الکوفی کو امام ثوری نے امام هشيم نے امام یحییٰ نے امام احمد نے امام رازی نے امام نسائی نے ضعیف قرار دیا ہے
[الضعفاء والمتروكون,2/180]
۔
عطبة بن سعد العوفى [الكوفي]
تابعي شهير ضعيف..كان عطية يتشيع
عطبة بن سعد العوفى الكوفي مشہور تابعی ہے ضعیف ہے اور اس میں شیعیت تھی
[ميزان الاعتدال ,3/79]
.
وذكر عطية العوفى فقال هو ضعيف الحديث
عطیہ عوفی کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ضعیف الحدیث ہے
[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ,6/383]
.
وَقَال مسلم بن الحجاج: قال أحمد وذكر عطية العوفي، فقال: هو ضعيف الحديث....وكان يعد مع شيعة أهل الكوفة
امام مسلم نے فرمایا کہ امام احمد نے فرمایا کہ ذکر ہوا عطیہ عوفی کا تو فرمایا کہ وہ ضعیف الحدیث ہے اور یہ کوفی شیعوں میں شمار کیا جاتا تھا
[تهذيب الكمال في أسماء الرجال148 ,20/147]
.
وَكَذَا ضعفه غير وَاحِد....وَكَانَ شِيعِيًّا
اسی طرح عطیہ عوفی کو کئی علماء نے ضعیف قرار دیا ہے اور یہ شیعہ تھا
[الوافي بالوفيات ,20/56]
.
عطیہ عوفی کوفی جسکو اکابر علماء جرح و تعدیل نے ضعیف و غیر معتبر شیعہ راوی کہا جب ایسا راوی ایسی روایت کرے کہ جو صحیح روایت کے خلاف ہو عقل اور حقیقت کے بھی خلاف ہو اور اسکی روایت کی مثل و تائید کسی معتبر روایت سے نہ ہو تو یقینا اسکی ایسی منفرد روایت مردود ناقابل حجت کہلائے گی
.
صحیح روایت میں ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدہ فاطمہ نے فدک طلب کیا مگر رسول کریم نہ دیا...
.لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غیرہ
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فدک وغیرہ اپنی ملکیت ہی میں رکھے کسی کو نہ دیے
[صحيح البخاري حدیث3094]
اور تفصیلی دلائل تحریر کے شروع میں لکھ آئے،دوبارہ ملاحظہ کرسکتے ہیں...!!
.
✍تحریر: العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
naya wtsp nmbr
03062524574
purana block shuda wtsp nmbr
03468392475