*#کیا سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ کوئی بھی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا۔۔۔؟؟کیا من کنت مولا سے خلافت و ولایت ثابت ہوتی ہے۔۔۔؟؟ دلائل اور حوالہ جات کے انبار پڑہیے اور ہو سکے تو پھیلائیے۔۔۔۔شیعہ و نیم روافض کے مرچ مسالے غلط سوچ و نظریات نکال کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا علی اور سیدنا حکیم بن حزام دونوں کعبہ میں پیدا ہوئے رضی اللہ تعالیٰ عنھم...اور مولا علی کا معنی و پسِ منظر.....اور صحابہ کرام کے متعلق شیعوں کی بکواس کی جھلک اور صحابہ کرام کے متعلق سیدنا علی کے اقوال و نظریات کی ایک جھلک پڑہیے.........!!*
*#خلاصہ*
بعض کتب میں لکھا ہے کہ صحابی سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کعبہ میں پیدا ہوئے اس کے علاوہ کوئی پیدا نہیں ہوا... بعض کتب میں لکھا ہے کہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ ہی کعبہ میں پیدا ہوئے اس کے علاوہ کوئی پیدا نہیں ہوا... بعض کتب میں ہے کہ دونوں ہستیاں کعبہ میں پیدا ہوئیں...ہمیں یہ تیسرا قول قوی ترین لگتا ہے...بہتر ہے دونوں ہستیوں کا اکھٹے تذکرہ کیا جائے کہ دونوں کعبہ میں پیدا ہوئے تاکہ حق سچ واضح ہو اور سیدنا علی و سیدنا حکیم بن حزام کی فضیلت بھی ثابت ہو مگر شیعہ روافض نیم روافض کے مرچ مسالے غلط نظریات اور جھوٹے قصوں وغیرہ کا رد بھی ہو....مکار جھوٹے شیعہ علی مولا کا معنی خلافت لیتے ہیں اور صحابہ کرام کو کافر مرتد کہتے ہیں جبکہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلیفہ کے لیے صحابہ کرام کے انتخاب کو درست قرار دیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا لیھذا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مطابق بھی علی مولا کا معنی وہ نہیں جو شیعہ مراد لیتے ہیں اور سیدنا علی نے صحابہ کرام کو کافر مرتد منافق بدعتی نہیں کہا بلکہ نیک و متقی پرہیزگار قرار دیا......!! شیعہ روافض نیم روافض جھوٹ مکاری عیاشی فحاشی ایجنٹی وغیرہ میدان کے ماہر شہ سوار تھے ہی تھے مگر نیم روافض نے بھی لگتا ہے انہی لالچوں میں آکر روافض کا چھوٹا بھاءی بڑا دھماکہ ثابت ہونے کی کوشش کی،آئے دن نیم روافض یعنی مشہدی گروپ ریاض شاہ گروپ حنیف قریشی گروپ چمن زمان گروپ و ہمنوا بھی کچھ نہ کچھ ایسا شوشہ چھوڑے رہتے ہیں جو اہلسنت نظریات کے خلاف ہوتا ہے اور روافض شیعوں کو خوش کرتا ہے، بظاہر عیاشی فحاشی چمچہ چاپلوسی پیسہ پرستی وغیرہ انکے مقاصد لگتے ہیں....کعبہ میں ولادت کے معاملے میں بھی چمن زمان نیم رافضی نے شیعوں کی نمک حلالی کرنے کی کوشش کی ہے..اور لکھا کہ امام حاکم کو غیر معتبر کہہ کر ولادت علی فی کعبہ کا انکار بغض اہلبیت ہے حالانکہ اہلسنت کے بعض جید و محب اہلبیت علماء نے حاکم کو غیرمعتبر کہا اور سیدنا علی کی ولادت کعبہ میں نہ ہونے کا قول اختیار کیا، اسی طرح چمن زمان نے خیانت کرکے بغض صحابی کا بھی اظہار کیا تو من گھڑت روایات بھی لکھیں....تفصیل پڑہیے
.
*#تفصیل..........!!*
میری معلومات کے مطابق سب سے قوی ترین دلیل اور حوالہ یہ ہے:
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي يُوسُفَ، قَالَ: ثنا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَقُولُ: " سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ....وَأَوَّلُ مَنْ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ: حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ.... وَأَوَّلُ مَنْ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ: عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جو کعبہ میں پیدا ہوا وہ حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور بنو ہاشم میں سے جو سب سے پہلے کعبہ میں پیدا ہوا وہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں
(أخبار مكة للفاكهي ,3/198روایت2018ملتقطا)
.
اس کے علاوہ اب ہم چند حوالے لکھ رہے ہیں جس میں سیدنا علی یا سیدنا حکیم بن حزام کو مولود کعبہ لکھا گیا ہے اور دوسرے کی صریح نفی نہیں کی گئ... جن علماء نے سیدنا علی کی نفی کی یا حکیم بن حزام کی نفی کی تو ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں ہے اس لیے ہم ان کے حوالے نقل نہیں کر رہے...اگر سیدنا علی کے مولود کعبہ ہونے کی روایت ضعیف ہے تو سیدنا حکیم بن حزام کے مولود کعبہ ہونے کی صحیح متصل سند بھی ہمارے علم کے مطابق موجود نہیں...اور معاملہ فضیلیت کا ہے کوئی حکم شرعی ثابت کرنا مقصود نہیں تو دونوں کو مولود کعبہ کہنا سمجھنا ہی قوی لگتا ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الْوَهَّابِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ عَثَّامٍ، يَقُولُ: «وُلِدَ حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ فِي الْكَعْبَةِ، دَخَلَتْ أُمُّهُ الْكَعْبَةَ، فَمَخَضَتْ فِيهِ، فَوَلَدَتْ فِيهِ
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے ان کی والدہ کعبہ میں داخل ہوئیں تو انہیں درد زہ ہوا اور انہوں نے عین کعبہ کے اندر حکیم بن حزام کو پیدا کیا
(معرفة الصحابة لأبي نعيم روایت1881)
(المستدرك على الصحيحين للحاكم روایت6041)
.
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَرْبِيُّ، ثَنَا مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَذَكَرَ نَسَبَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَزَادَ فِيهِ، «وَأُمُّهُ فَاخِتَةُ بِنْتُ زُهَيْرِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى، وَكَانَتْ وَلَدَتْ حَكِيمًا فِي الْكَعْبَةِ وَهِيَ حَامِلٌ، فَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ، وَهِيَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ، فَوَلَدَتْ فِيهَا فَحُمِلَتْ فِي نِطَعٍ، وَغُسِلَ مَا كَانَ تَحْتَهَا مِنَ الثِّيَابِ عِنْدَ حَوْضِ زَمْزَمَ، وَلَمْ يُولَدْ قَبْلَهُ، وَلَا بَعْدَهُ فِي الْكَعْبَةِ أَحَدٌ» قَالَ الْحَاكِمُ: «وَهَمُّ مُصْعَبٍ فِي الْحَرْفِ الْأَخِيرِ، فَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْأَخْبَارِ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَسَدٍ وَلَدَتْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ
امام حاکم فرماتے ہیں کہ سیدنا مصعب فرماتے ہیں کہ حکیم بن حزام کے علاوہ کوئی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا... امام حاکم فرماتے ہیں کہ مصعب کو اس میں وہم ہوا ہے کیونکہ یہ خبر متواتر ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی کعبہ میں پیدا ہوئے
(المستدرك على الصحيحين للحاكم3/550)
.
وفي مستدرك الحاكم أن علي بن أبي طالب كرم الله وجهه ولد أيضا في داخل الكعبة
مستدرک حاکم میں ہے کے سیدنا علی اور سیدنا حکیم بن حزام دونوں کعبہ میں پیدا ہوئے
(شرح الشفا للقاری1/159)
ولد في جوف الكعبة، في السنة الثانية والثلاثين من ميلاد رسول الله صلى الله عليه وسلم.
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ عین کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اس وقت آپ علیہ الصلاۃ و السلام کی عمر مبارک 32سال تھی
(التعريف بالإسلام ص302)
.
ولد على بن أبى طالب رضى الله عنه فى الكعبة
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے
( تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس1/279)
.
أما ما روي أن علي بن أبي طالب ولد فيها فضعيف عند العلماء
وہ جو روایت میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے تو یہ علماء کے مطابق ضعیف ہے
(فتح القريب المجيب على الترغيب والترهيب5/192)
.
وما في "المستدرك" من أن عليًّا - رضي الله عنه - وُلد في الكعبة ضعيف
اور مستدرک میں جو ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے تو یہ ضعیف ہے
( البحر المحيط الثجاج 27/75)
.
أي لأنه ولد في الكعبة وعمره صلى الله عليه وسلم ثلاثون سنة فأكثر...قيل الذي ولد في الكعبة حكيم بن حزام...قال بعضهم: لا مانع من ولادة كليهما في الكعبة، لكن في النور: حكيم بن حزام ولد في جوف الكعبة، ولا يعرف ذلك لغيره. وأما ما روي أن عليا ولد فيها فضعيف عند العلماء
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور آپ علیہ الصلاۃ و السلام کی عمر مبارک 30 سال سے زیادہ تھی... اور کہا گیا ہے کہ کعبہ میں صرف سیدنا حکیم بن حزام ہی پیدا ہوئے.... علماء نے فرمایا کہ دونوں کا کعبہ میں پیدا ہونا کوئی ممانعت نہیں رکھتا... لیکن النور میں ہے کہ سیدنا حکیم بن حزام ہی کعبہ میں پیدا ہوئے اور جو سیدنا علی کے متعلق ہے کہ کعبہ میں پیدا ہوئے تو وہ ضعیف ہے
( السيرة الحلبية1/202)
.
وَأما مَا رُوِيَ عَن عَلّي رَضي اللهُ عَنهُ أَنه ولد فِيهَا فضعيف
اور جو روایت میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے تو یہ ضعیف ہے
(كتاب البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبير6/489)
.
اور تمام علماء کے مطابق ضعیف قول سے فضیلت ثابت کی جا سکتی ہے... ہاں البتہ افضلیت وغیرہ شیعوں کے مرچ مسالے خلاف شرع نظریات وہ اس سے ثابت نہیں کیے جا سکتے
.
قَالَ مُسْلِمُ بْنُ الْحَجَّاجِ : وُلِدَ حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ
امام مسلم فرماتے ہیں کہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام کعبے کے اندر پیدا ہوئے
(کتاب صحیح مسلم تحت حدیث1532بَابُ الصِّدْقِ فِي الْبَيْعِ وَالْبَيَانِ)
.
حكيم بن حزام الذي ولد في جوف الكعبة
صحابی سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ کہ جو کعبہ میں پیدا ہوئے
(كتاب الوفيات لابن قنفذ ص67)
.
حکیم بن حزام....ولد في الكعبة
صحابی سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے
(كتاب الاستيعاب في معرفة الأصحاب1/362)
.
.
،حکیم بن حزام..... وُلِدَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ
صحابی سیدنا حکیم بن حزام کعبہ میں پیدا ہوئے
( من عاش مائة وعشرين سنة من الصحابة ص21)
.
وكان ولد في الكعبة
صحابی سیدنا حکیم بن حزام کعبہ میں پیدا ہوئے تھے
(كتاب المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام7/47)
.
أقول لا مانع من ولادة كليهما فى الكعبة المشرّفة
تاریخ الخمیس کے مصنف کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ سیدنا علی اور سیدنا حکیم بن حزام دونوں کا کعبہ مشرفہ میں پیدا ہونے کی نفی کی کوئی وجہ و دلیل نہیں ہے
(تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس1/279)
.
معین تاریخ:
متقدمین اہل تاریخ نے سیدنا علی کی ولادت کی تاریخ لکھی ہو ایسا ہمیں نہیں ملا اور یہ صرف سیدنا علی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ کئ صحابہ کرام بلکہ اکثر صحابہ کرام کی معین تاریخ ولادت نہیں لکھی گئ
.
بعد کے کچھ علماء نے بلادلیل و بلا حوالہ معتبرہ تیرہ رجب یا پندرہ رجب لکھی ہے
وما قيل إن فاطمة بنت أسد أوحي إليها: أن أدخلي وشرفي، فكذب صريح لأنه لم يقل أحد من الإسلاميين بنبوتها. فتأمل. والمشهور في ولادة الأمير عندنا هو أن أهل الجاهلية كانت عاداتهم أن يفتحوا باب الكعبة في يوم الخامس عشر من رجب ويدخلونها للزيارة، فممن دخل فاطمة، فوافقت الولادة ذلك اليوم.... وأيضا قد ثبت في التواريخ الصحيحة أن حكيم بن حزام
اور وہ جو کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت اسد کو وحی ہوئی کہ کعبہ میں داخل ہوجاؤ اور کعبہ کو شرف بخشو حضرت علی کی ولادت سے... تو یہ بات صریح جھوٹ ہے کیونکہ کسی نے بھی سیدہ فاطمہ کی نبوت کا دعوی نہیں کیا.... اور ہمارے مطابق مشہور یہ ہے کہ جاہلیت میں عادت تھی کہ کعبہ کا دروازہ 15 رجب کو کھولا کرتے تھے تو لوگ زیارت کے لیے داخل ہوتے تھے جس میں سیدہ فاطمہ بھی داخل ہوئی اور سیدنا علی کی ولادت ہو گئی... اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ صحیح تاریخ میں ہے کہ حکیم بن حزام بھی کعبہ میں پیدا ہوئے
(السيوف المشرقة ومختصر الصواقع المحرقة ص204)
.
ولادت والا واقعہ:
شیعہ کتب مین واقعہ درج ہے کہ حضرت علی کی والدہ کو وحی ہوئ،کچھ کتابوں میں ہے کہ الھام ہوا کہ کعبے میں جاے کیونکہ ولادتِ علی کا وقت قریب ہے... وہ کعبے مین گئیں دردِ زہ ہوا اور کعبے کے اندر سیدنا علی کی.ولادت ہوئ.. کچھ کتب میں اسکی مزید تفصیل یوں ہے کہ کعبہ کے اندر کا دروازہ کبھی کبھار ہی کھلتا تھا.. پندرہ رجب حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کا دن کے موقعے پر چار پانچ دن کے لیے کعبے کا اندر کا دروازہ بھی کھلتا تھا.. باپردہ خواتین پندرہ رجب سے دو تین دن پہلے ہی زیارت کر آتی تھیں..اس طرح اندازہ لگایا گیا کہ تیرہ رجب کو سیدنا علی کی والدہ کعبہ گئی ہوگی..پھر اہل تشیع نے سیدنا عیسی علیہ السلام سے بھی حضرت علی کو افضل کہہ دیا کہ حضرت عیسی کی ولادت کے وقت بی بی مریم کو بیت المقدس سے باہر بھیجا گیا اور یہاں کعبہ کے اندر ولادت علی کا حکم..
شاہ صاحب کا تبصرہ:
شاہ صاحب نے مذکورہ روایت ، مذکورہ واقع کو جھوٹ دھوکہ قرار دیا...فرمایا کہ کسی معتبر کتاب مین حدیث میں کہیں یہ نہیں آیا کہ بی بی مریم کو بیت المقدس سے نکل جانے کا حکم ہوا ہو...ہرگز نہیں.. اور فرمایا کہ کسی معتبر کتاب میں یہ نہیں کہ ولادتِ علی کے لیے کعبہ جانے کا حکم ہوا ہو..ہرگز نہیں.. وہ ایک اتفاق تھا.. وحی کا کہنا تو کفر ہے... شاہ صاحب نے تیرہ رجب پر گفتگو نہ فرمائی.. البتہ ان کے کلام سے واضح ہوتا ہے کہ شیعہ کے مرچ مسالے جھوٹ بے بنیاد غلط نظریات نکال کر یہ ہوسکتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ سیدنا علی کی والدہ بھی کعبہ کی زیارت کو گئی ہوں اور وہاں دردِ زہ زیادہ ہوگیا ہو اور اس طرح سیدنا علی کی ولادت کعبہ میں ہوئی ہو مگر شاہ صاحب نے ساتھ میں دو ٹوک ارشاد فرمایا کہ اس سے افضلیت وغیرہ شیعہ کے دعوے ثابت نہین ہوتے کیونکہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام بھی کعبہ کے اندر پیدا ہوے...(دیکھیے تحفہ اثنا عشریہ صفحہ 164,165.,166)
.
سیدنا عمر فرماتے ہیں کہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام اور سیدنا علی دونوں کعبہ میں پیدا ہوئے(أخبار مكة للفاكهي ,3/198ملخصا)سیدنا علی اندازا 13 رجب کو کعبہ میں پیدا ہوئے(دیکھیے تحفہ اثنا عشریہ صفحہ 164,165.,166) جشن مولود کعبہ مبارک ہو…بہتر ہے کہ سیدنا حکیم بن حزام اور سیدنا علی دونوں کو مولود کعبہ لکھیے پھیلائے تاکہ بدمذہبوں رافضیوں نیم رافضیوں کا رد بھی ہو
.#################
*#سیدنا_علی_مولا کا معنی و پسِ منظر....اور صحابہ کرام کے متعلق سیدنا علی کے اقوال و نظریات کی ایک جھلک........!!*
تمھید:
13رجب 18ذوالحج وغیرہ جیسے مواقع پے من کنت مولاہ حدیث بہت پڑھی پھیلائی جاتی ہے....آئیے پہچانیے کہ حدیث پاک کا اصل معنی کیا ہے اور شیعہ مکار کس معنی کو مدنظر رکھ کر بولتے ہیں
.
شیعہ لوگ عید غدیر مناتے ہیں کہتے ہیں کہ اس روز حجۃ الوداع سے واپسی پر "غدیر خم" مقام پے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا " میں جس کا مولا علی اسکا مولی......حضور اکرم کے اس فرمان سے شیعہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رسول کریم نے حضرت علی کو اس قول کےذریعے اپنا خلیفہ بلافصل بنایا لیکن نعوذ باللہ صحابہ کرام نے ابوبکر کو خلیفہ بنا کر کفر کیا....نعوذ باللہ
.
یقین نہیں آتا تو لیجیے یہ چند حوالے پڑہیے:
إن النبي صلى الله عليه وآله لما قبض ارتد الناس على أعقابهم كفارا إلا ثلاثة: سلمان، والمقداد، وأبو ذر الغفاري، إنه لما قبض رسول الله صلى الله عليه وآله، جاء أربعون رجلا إلى علي بن أبي طالب عليه السلام، فقالوا: لا والله لا نعطي أحدا طاعة بعدك أبدا، قال: ولم؟ قالوا: إنا سمعنا من رسول الله صلى الله عليه وآله فيك يوم غدير خم
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو لوگ یعنی صحابہ وغیرہ کافر و مرتد ہوگئے سوائے تین کے سلمان مقداد ابوذر.....کیونکہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو چالیس لوگ سیدنا علی کی بیعت کرنے آئے انہوں نے کہا کہ بیعت اس لیے کر رہے کہ جو فرمان ہم نے سنا غدیر خم کے موقعہ پر....(لیکن اگلے روز چالیس میں سے فقط چار یا سات لوگ ہی سیدنا علی کی بیعت کرنے آئے اس لیے باوی لوگ ابوبکر کی بیعت کرکے کافر ہوگئے کیونکہ شیعوں کے مطابق غدیر خم کے موقعہ پر رسول کریم نے سیدنا علی کو خلیفہ بلافصل بنایا لیکن صحابہ نے ابوبکر بیعت کرکے کفر کیا شیعوں کے مطابق)
(شیعہ کتاب معجم رجال الحديث19/346)
.
بایعوا ابابکر......أن الناس ارتدوا إلا ثلاثة
ترجمہ:
صحابہ نے ابوبکر کی بیعت کی.....بےشک سارے صحابہ مرتد ہوگئے سوائے تین کے
(شیعہ کتاب بحار الانوار28/255)
.
اِرْتَدَّ اَلنَّاسُ....سلمان ابوذر مقداد عمار عثمان ابو ساسان ابوعمرہ...وَ لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُ حَقَّ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِلاَّ هَؤُلاَءِ اَلسَّبعۃ
شیعہ کہتے ہیں کہ سیدنا سلمان سیدنا ابوذر سیدنا مقداد سیدنا عمار سیدنا عثمان سیدنا ابوساسان سیدنا ابوعمرۃ ان سات نے سیدنا علی کا حق خلافت جانا ان کے علاوہ باقیوں نے(سیدنا ابوبکر کی بیعت کرکے) کفر کیا
(شیعہ کتاب الاختصاص 1/10)
.
" إن الذين آمنوا ثم كفروا ثم آمنوا ثم كفروا ثم ازدادوا كفرا (3) " " لن تقبل توبتهم (4) " قال: نزلت في فلان وفلان وفلان، آمنوا بالنبي صلى الله عليه وآله في أول الأمر وكفروا حيث عرضت عليهم الولاية، حين قال النبي صلى الله عليه وآله: من كنت مولاه فهذا علي مولاه، ثم آمنوا بالبيعة لأمير المؤمنين عليه السلام ثم كفروا حيث مضى رسول الله صلى الله عليه وآله، فلم يقروا بالبيعة، ثم ازدادوا كفرا بأخذهم من بايعه بالبيعة لهم فهؤلاء لم يبق فيهم من الايمان شئ
ایت میں ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ایمان لایا پھر کفر کیا پھر ایمان لائے پھر کفر کیا پھر کفر پر زیادہ ہو گئے تو ان کی توبہ قبول نہیں ہے.... شیعہ کہتے ہیں کہ یہ ایت فلاں فلاں(صحابہ وغیرہ) کے متعلق نازل ہوئی جب وہ ایمان لائے پھر جب ان پر ولایت علی پیش کی گئ کہ جب رسول کریم نے فرمایا کہ میں جس کا مولا علی اسکا مولا تو انکار کر گئے لیکن پھر سیدنا علی کی بیعت کے لیے تیار ہوئے تو ایمان والے ہوئے مگر رسول کریم کی وفات کے بعد سیدنا علی کی بیعت نہ کرکے کافر و مرتد ہوگئے اور ابوبکر کی بیعت کرکے کفر پر زیادہ ہوگئے اور ان سب میں کچھ بھی ایمان باقی نہ رہا
(شیعہ کتاب الكافي - الشيخ الكليني 1/420)
مکار شیعوں کی مکاری پکڑییے کہ جب آیت نازل ہوئی تو اس آیت میں یہ تھا کہ "ایمان لائے پھر کفر کیا پھر ایمان لائے پھر کفر کردیا" یعنی آیت میں ماضی کے واقعے کی بات ہو رہی ہے جبکہ رسول کریم کی وفات کے بعد سیدنا علی کی بیعت مستقبل کا واقعہ ہے تو آیت اگر اس مستقبل کے واقعے کے متعلق ہوتی تو الفاظ یوں ہوتے کہ
" ایمان لائے پھر کفر کیا پھر ایمان لائے پھر کفر کریں گے"
جبکہ آیت میں ایسا نہیں تو یقینا یہ آیت سیدنا علی کی بیعت کے متعلق نہیں بلکہ معتبر تفاسیر و آیت کے سیاق و سباق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ آیت یہود و نصاری وغیرہ کے متعلق ہے اور رسول کریم کے زمانہ میں منافقین مرتدین کے متعلق ہے جو کہ صحابہ کرام نہ تھے بلکہ منافقین تھے جنکا سردار عبداللہ بن ابی وغیرہ تھے...!!
.
بالامامۃ یکمل الدین...ان الامامۃ من اصول الاسلام... نصب رسول اللہ علیا للامامۃ...من ناصب عليا الخلافة بعدي فهو كافر ومن شك في علي كافر
امامت خلافت سے دین مکمل ہوتا ہے، امامت خلافت دین کے اصولوں میں سے ہے، امامت و خلافت کے لئے رسول اللہ نے سیدنا علی کو مقرر کیا تھا، تو جس نے سیدنا علی سے خلافت کے معاملے میں مقابلہ بازی کی وہ کافر مرتد ہے...جو اس میں شک کرے وہ بھی کافر مرتد ہے
(شیعہ خمینی کی کتاب کشف الاسرار ص138.. 139.. 150)
.
*#جواب.و.تحقیق*
عجیب بات ہے کہ حجۃ الوداع جو اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ کسی کو نہ بنایا اور واپسی پر تھوڑی تعداد کے سامنے غدیرخم پر خلیفہ کا اعلان کر دیا......؟؟
.
اگر خلافت کا اعلان رسول کریمﷺنےکرنا ہوتا تو اسکا صحیح و بہترین موقعہ حجۃ الوداع تھا........غدیرخم مقام پے تو رسول کریمﷺنے ایک تنازع کا حل فرمایا اور فرمایا کہ علی سے ناگواری مت رکھو، اس سے محبت کرو، جسکو میں محبوب ہوں وہ علی سے محبت رکھے
.
دراصل ہوا یہ تھا کہ مال غنیمت حضرت علی نے تقسیم کی تھی ، تقسیم پر کچھ صحابہ کرام کو ناگوار گذرا انہوں نے غدیرخم مقام پر رسول کریمﷺسے حضرت علی کی شکایت کی....رسول کریمﷺنے پوچھا اے بریدہ کیا تم علی سے(اس تقسیم کی وجہ سے)ناگواری محسوس کرتے ہو...؟ حضرت بریدہ نے فرمایا جی ہاں... رسول کریمﷺ نے فرمایا علی سے ناگواری مت رکھ، جتنا حصہ علی نے لیا ہےحق تو اس سے زیادہ حصہ بنتا ہے....بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بعد میری ناگواری ختم ہوگئ...اس تقسیم وغیرہ کی وجہ سے دیگر صحابہ کرام وغیرہ کو بھی ناگواری گذری ہو تو انکی بھی ناگواری ختم ہو اس لیے رسول کریمﷺنے اعلان فرمایا:
میں جسکا مولا علی اسکا مولا.... یعنی میں جسکو محبوب ہوں وہ علی سے بھی محبت رکھے،ناگواری ختم کردے
(دیکھیے بخاری حدیث4350,,المستدرك حدیث4578
مسند احمد23036...,22967...22945)
مرقاۃ شرح مشکاۃ11/247لعمات شرح مشکواۃ9/667 البيهقي في الكبرى 6/342...7/309) الصواعق المحرقة 1/109 الاعتقاد للبيهقي ص 498 البداية والنهاية 5/227...البداية والنهاية ط هجر ,11/58)
.
وأيضًا سبب ذلك كما نقله الحافظ شمس الدين الجزري عن ابن إسحاق: أن عليًا تكلم فيه بعض من كان معه في اليمن، فلما قضى النبي -صلى اللَّه عليه وسلم- حجه خطبها تنبيهًا على قدره وردًّا على من تكلم فيه كبريدة، كما ذكر في (صحيح البخاري) أنه كان يبغضه، وذكر الذهبي وصححه (1): أنه خرج معه إلى اليمن فرأى منه جفوة فنقصه للنبي -صلى اللَّه عليه وسلم-، فجعل يتغير وجهه ويقول: (يا بريدة! ألست أولى بالمؤمنين من أنفسهم) قلت: بلى يا رسول اللَّه، قال: (من كنت مولاه فعلي مولاه)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ارشاد فرمایا کہ میں جس کا مولا علی اس کا مولا اس کا سبب اور پس منظر یہ ہے کہ جس طرح حافظ شمس الدین نے اور امام بخاری نے روایت کیا ہے کہ مال غنیمت کے معاملے میں کچھ ناگواری ہو گئی سیدنا علی اور سیدنا بریدہ اور سیدنا خالد بن ولید کے درمیان تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کا میں مولا علی اس کا مولا یعنی جس کو میں محبوب ہوں علی اس کو محبوب ہوں
(لعمات شرح مشکواۃ9/667)
(الصواعق المحرقة 1/109 )
.
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ عَلِيٍّ إِلَى الْيَمَنِ فَرَأَيْتُ مِنْهُ جَفْوَةً، فَقَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ عَلِيًّا فَتَنَقَّصْتُهُ، فَرَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَغَيَّرُ، فَقَالَ: «يَا بُرَيْدَةُ، أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟» قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ»
سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ایک غزوے میں تھا مال غنیمت کے معاملے میں ہم میں ناگواری ہو گئی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا(غدیر خم کے مقام پے) اور میں نے ماجرہ ذکر کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں جس کا مولا علی اس کا مولا ہے( یعنی جس کو میں محبوب ہوں وہ علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھے لہذا ناگواری ختم کرو)
(المستدرک حاکم حدیث4578)
.
*#شیعہ کتب سے بھی یہی پس منظر ثابت ہے*
وخرج بريدة الأسلمي فبعثه علي عليه السلام في بعض السبي، فشكاه بريدة إلى رسول الله صلى الله عليه وآله فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: من كنت مولاه فعلي مولاه
یعنی
بریدہ اسلمی نے رسول کریمﷺسے حضرت علی کی مال غنیمت کی تقسم کی شکایت تو رسول کریمﷺنے فرمایا میں جسکا مولا و محبوب ہوں علی بھی اس کے مولا و محبوب ہیں)لیھذا ناگواری نہ رکھو، ختم کرو)
(شیعہ کتاب بحار الانوار37/190)
.
فأصبنا سبيا قال: فكتب إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: أبعث لنا من يخمسه۔۔۔الخ
یعنی
بریدہ اسلمی کہتےہیں ہمیں مال غنیمت حاصل ہوا...رسول کریمﷺکی طرف خط لکھا کہ تقسیم کے لیے کسی کو بھیجیں،رسول کریمﷺنے علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا حضرت علی نے تقسیم کیا اور اپنا حصہ بھی نکالا، ابو بریدہ تقسیم کی شکایت لے کر (غدیر خم مقام پے) رسول کریمﷺ
کو پہنچے اور شکایت و ناگواری کا اظہار کیا رسول کریمﷺنے فرمایا علی نے جتنا لیا اس سے بڑھ کرحصہ ہے اگر علی سے ناگواری ہے تو ختم کردو اگر محبت ہےتو زیادہ محبت کرو
(شیعہ کتاب کشف الغمہ لاربیلی1/293)
.
.
یہ تھا اصل پس منظر کہ تنازع پے ناگواری و جگھڑا ختم کرایا گیا باقی نہ تو کوئی بیعت لی گئ اور نہ بیعت و خلافت کا اعلان کیا گیا....یہ تھا پس منظر جسکو جھوٹے مکار شیعوں نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا....لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العلیم و لعنۃ اللہ علی الماکرین الکاذبین
.
عید غدیر چونکہ شیعہ لوگ غلط نظریہ خلیفہ بلافصل کے تناظر میں مناتے ہیں اس لیے یہ کوئی عید نہیں، اسکی کوئی اصل نہیں بلکہ یہ جرم و گناہ ہے...کیونکہ سیدنا علی خلیفہ بلافصل نہیں بلکہ چوتھے خلیفہ ہیں
دما دم مست قلندر......سیدنا علی دا چوتھا نمبر
پہلا نمبر یعنی پہلا خلیفہ سیدنا ابوبکر پھر عمر پھر عثمان پھر علی....رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین
.
*سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کے متعلق فرمایا*
إنه بايعني القوم الذين بايعوا أبا بكر وعمر وعثمان على ما بايعوهم عليه، فلم يكن للشاهد أن يختار ولا للغائب أن يرد، وإنما الشورى للمهاجرين والأنصار، فإن اجتمعوا على رجل وسموه إماما كان ذلك لله رضى
میری(سیدنا علی کی)بیعت ان صحابہ کرام نے کی ہےجنہوں نےابوبکر و عمر کی کی تھی،یہ مہاجرین و انصار صحابہ کرام کسی کی بیعت کرلیں تو اللہ بھی راضی ہے(اور وہ خلیفہ برحق کہلائے گا) تو ایسی بیعت ہو جائے تو دوسرا خلیفہ انتخاب کرنے یا تسلیم نہ کرنے کا حق نہیں(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ ص491)یہ سیدنا علی کا فرمان ان شیعوں کے منہ پےزناٹےدار تھپڑ ہیں جو سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر سیدنا عثمان وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے متعلق دو ٹوک یا ڈھکے چھپے الفاظ میں گستاخی و بکواس کرتےہیں…مزید اس قول مبارک سے یہ بھی ثابت ہوا کہ
سیدنا علی کے مطابق سیدنا ابوبکر و عمر مہاجرین انصار صحابہ کرام برحق سچےاچھےتھے ،انکی خلافت برحق تھی تبھی تو سیدنا علی نے انکی بیعت کو دلیل بنایا.....!! اس قول سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا علی کے مطابق رسول کریمﷺنے دوٹوک کسی کو خلیفہ نہ بنایا اگر بنایا ہوتا تو مہاجرین و انصار صحابہ کرام کی رائے و انتخات کو وقعت نہ دیتے بلکہ وہ نص بیان فرماتے کہ میں تو فلاں آیت یا حدیث کی وجہ سے خلیفہ بلافصل ہوں....اس قول مبارک سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا علی کے مطابق خلافت میں پہلا نمبر ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اور دوسرا نمبر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا...یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا ابوبکر سیدنا عمر وغیرہ صحابہ کرام کافر مشرک مرتد منافق ظالم غاصب بدعتی نہ تھے، بلکہ نیک و عبادت گذار سچے تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ انکی تعریف و مدح کرتے تھے…
.
حضرت سیدنا علی رض اللہ عنہ نے شیعوں سے فرمایا:
رأيت أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم فما أرى أحداً يشبههم منكم لقد كانوا يصبحون شعثاً غبراً وقد باتوا سجداً وقياماً
ترجمہ:
میں(علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نے اصحاب محمد یعنی صحابہ کرام(صلی اللہ علیہ وسلم، و رضی اللہ عنھم) کو دیکھا ہے، وہ بہت عجر و انکساری والے، بہت نیک و عبادت گذار تھے(فاسق فاجر ظالم غاصب نہ تھے)تم(شیعوں)میں سے کوئی بھی انکی مثل نہیں...(تمام شیعوں کے مطابق صحیح و معتبر ترین کتاب نہج البلاغہ ص181)
.
بأصحاب نبيكم لا تسبوهم الذين لم يحدثوا بعده حدثا ولم يؤووا محدثا، فإن رسول الله (صلى الله عليه وآله) أوصى بهم
حضرت علی وصیت و نصیحت فرماتے ہیں کہ تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق میں تمھیں نصیحت و وصیت کرتا ہوں کہ انکی برائی نہ کرنا ، گالی لعن طعن نہ کرنا(کفر منافقت تو دور کی بات) انہوں نے نہ کوئی بدعت نکالی نہ بدعتی کو جگہ دی،بےشک رسول کریم نے بھی صحابہ کرام کے متعلق ایسی نصیحت و وصیت کی ہے.(شیعہ کتاب بحار الانوار22/306)
.
شیعہ محقق لکھتا ہے:
(فمن كنت مولاه فهذا علي مولاه..) وهذا نص صريح في استخلافه على أمته،
شیعہ محقق کہتا ہے کہ علی مولا یہ نص صریح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو اپنی امت پر خلیفہ بنایا
(شیعہ کتاب ومن الحوار اكتشفت الحقيقة ص386)
.
چمن زمان لکھتا ہے
سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی کو من کنت مولاہ کہہ کر ولایت عطاء کی..(دیکھیے چمن زمان کا رسالہ شہادت سیدنا ذو النورین اور نواصب کا اصل ہدف صفحہ2...13ملخصا)
.
طاہر الکادری سیاسی و روحانی خلیفہ کی تقسیم کرتے ہوئے لکھتا ہے:
ولایت باطنی جو " من کنت مولاہ فعلی مولاه کے ذریعے حضرت علی کو عطا ہوئی اس میں وہی یکتا ہیں۔
(طاہر الکادری کی کتاب القول الوثیق صفحہ41)
۔
الحاصل
چمن زمان کو عرفان شاہ مشہدی ریاض شاہ و دیگر طاہر الکادری وغیرہ ہمنوا کی تائید حاصل ہے تو ان سب اور شیعہ کے مطابق من کنت مولاہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو ولایت عطا کی
جبکہ
اوپر احادیث تاریخ و اسلاف کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ من کنت مولا کا پس منظر ولایت نہیں بلکہ کچھ اور ہے مزید کچھ حوالے پڑھتے چلیے
.
*#پہلی بات*
من کنت مولاہ سے ولایتِ سیدنا علی معتبر اسلاف نے ثابت نہیں کی بلکہ جنہوں نے ثابت کی انکا رد کیا گیا تو آپ چمن زمان پر لازم تھا کہ اسلاف کی کتب سے لکھتے دکھاتے کہ مولا کا معنی ولایتِ سیدنا علی ہے لیکن آپ نے کوئی معتبر قوی حوالے نہ دییے مگر ہماری طرف سے چند معتبر مضبوط حوالہ جات حاضر ہیں...شاید کہ آپ کو ہدایت ملے ورنہ کم سے کم عوام تو پہچان لے
*#دوسری بات......!!*
جسکا میں مولا ، علی اسکا مولا ہیں.... اسکا معنی یہ لیا جائے خلیفہ مراد ہے تو معنی بنے گا جسکا میں یعنی نبی پاک خلیفہ علی اسکا خلیفہ....؟؟ ہے ناں عجیب و غلط معنی...؟؟ کہ رسول کریم تو اللہ کے خلیفہ ہیں لوگوں کے خلیفہ تو نہیں کہ فرمائیں اے لوگو میں تمھارا مولا یعنی خلیفہ تھا اب سے علی تمھارا خلیفہ ہے...عجیب عجیب
.
*#تیسری بات......!!*
اگر معنی یہ ہو کہ جسکا میں روحانی خلیفہ علی اسکا روحانی خلیفہ تو یہ بھی غلط ہے کہ ایک وقت میں دو روحانی خلیفہ نہیں ہوتے اس میں تمام صوفیاء کا اتفاق ہے حتی کہ طاہر الکادری اور چمن زمان جیسے نیم رافضیوں نے بھی مانا ہے کہ روحانی خلیفہ یعنی قطب ایک وقت میں ایک ہی ہوتا ہے جو سب سے افضل ہوتا ہے اب اگر سیدنا علی کو قطب روحانی خلیفہ مانا جاءے جیسے کہ عرفان شاہ مشہدی ریاض شاہ چمن زمان طاہر الکادری کہتے ہیں تو نعوذ باللہ رسول کریم سے بھی افضل قرار پائیں گے سیدنا علی...کیونکہ قطب تو سب سے افضل ہوتا ہے..اور قطب ایک ہی ہوتا ہے تو سید عالم سے قطب کی نفی کرکے اول قطب سیدنا علی کو کہنا صراحتاً گستاخی لگتی ہے، فتوی مفتیان کرام ہی دیں گے
.
*#چوتھی بات.....!!*
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی کو خلیفہ بنانا چاہتے تو صاف صاف الفاظوں بھی فرما دیتے کہ فلاں میرا خلیفہ ہے ایسے گول مول الفاظ میں کیوں بیان فرماتے ہیں کہ جس سے کچھ بھی معنی نکل سکتا ہو تو یہ شایانِ نشان نہیں ہے کسی نبی کے کہ گل مول بات کر جائے تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرینہ کلام سے سیاق و سباق سے کہ رسول کریم نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے فرمایا تھا کہ جس کو میں محبوب ہوں حضرت علی کو محبوب ہو
.
*#پانچوین بات.....!!*
اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےخلیفہ بنا دیا تھا سیدنا علی کو مولا علی کہہ کر تو پھر سیدنا علی نے خلافت کا مطالبہ کیوں نہ کیا کہ جب رسول پاک نے ان کو حکم دے دیا ان کو خلیفہ بنا دیا تو رسول کریم کی نافرمانی کیوں کی ، اللہ کی نافرمانی کیوں کی سیدنا علی نے... یہ تو بہت بڑا جرم کیا نعوذ باللہ سیدنا علی نے کہ لوگوں کے باتوں میں اکر لوگوں کے خوف میں اکر شریعت کی بات کو جھٹلا دیا نعوذ باللہ...شریعت کو چھوڑ دیا... کیا نعوذ باللہ سیدنا علی اتنے ڈرپوک تھےجبکہ انکے بیٹے حسین نے پورا گھرانہ شہید کرادیا مگر حق نہ چھوڑا تو ایسے بیٹے کے عظیم والد شیر خدا حیدر کرار بھلا کیسے ڈرپوک ہوگئے.....؟؟ نعوذ باللہ یہ تو شیعوں نے کی بہت بڑی گستاخی ہے کہ سیدنا علی کو ڈرپوک شریعت چھوڑ دینے والا قرار دے رہے
.
*#الحاصل.........!!*
لیھذا واجب ہےکہ مولا علی سے مراد خلیفہ یا روحانی خلیفہ بلافصل یا ولایتِ بلافصل یا قطب بلافصل ہرگز ہرگز نہیں...بلکہ محبوب وغیرہ معنی مراد لینا ہی برحق و لازم ہے
.
لَا يَسْتَقِيمُ أَنْ تُحْمَلَ الْوِلَايَةُ عَلَى الْإِمَامَةِ الَّتِي هِيَ التَّصَرُّفُ فِي أُمُورِ الْمُؤْمِنِينَ، لِأَنَّ الْمُتَصَرِّفَ الْمُسْتَقِلَّ فِي حَيَاتِهِ هُوَ هُوَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لَا غَيْرُ فَيَجِبُ أَنْ يُحْمَلَ عَلَى الْمَحَبَّةِ وَوَلَاءِ الْإِسْلَامِ وَنَحْوِهِمَا..
حدیث کا معنی یہ بنانا کہ پہلے میں مولا تھا اب علی مولا ہے یعنی اب علی خلیفہ ہے اب تمام معاملات علی سنبھالے گا، یہ معنی قطعا درست نہیں ہے لہذا واجب ہے کہ علی مولا کا معنی ہے کہ جس کو میں محبوب ہوں علی اس کو محبوب ہوں
(مرقاة المفاتيح 9/3937)
( شرح المشكاة للطيبي12/3884)
.
امام ابن عساکر امام بیھقی سے روایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اہلبیت کے اماموں میں سے ایک امام حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
الرَّافِضِيُّ: أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ لِعَلِيٍّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ؟ فَقَالَ: أَمَا وَاللَّهِ أَنْ لَوْ يَعْنِي بِذَلِكَ الْإِمْرَةَ وَالسُّلْطَانَ لَأَفْصَحَ لَهُمْ بِذَلِكَ كَمَا أَفْصَحَ لَهُمْ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَصِيَامِ رَمَضَانَ وَحَجِّ الْبَيْتِ وَلَقَالَ لَهُمْ: أَيُّهَا النَّاسُ هَذَا وَلِيُّكُمْ مِنْ بَعْدِي فَإِنَّ أَنْصَحَ النَّاسِ كَانَ لِلنَّاسِ رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم , وَلَوْ كَانَ الْأَمْرُ كَمَا تَقُولُونَ إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ اخْتَارَا عَلِيًّا لِهَذَا الْأَمْرِ وَالْقِيَامِ بَعْدَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ إِنْ كَانَ لَأَعْظَمَ النَّاسِ فِي ذَلِكَ خِطْأَةً وَجُرْمًا إِذْ تَرَكَ مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم
امام حسن بن حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رافضی نے ان سے کہا کہ نبی پاک نے حضرت علی کے لیے کہا کہ جس کا میں مولا علی اس کا مولا تو سیدنا حسن نے فرمایا کہ اگر یہ قول کا معنی خلافت باطنی یا خلافت سیاسی ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واضح الفاظ میں ارشاد فرما دیتے اور فرماتے ہیں کہ اج کے بعد تمام معاملات علی سنبھالیں گے جبکہ ایسا نہیں ہے.... اور اگر معنی یہ لیا جائے کہ میری وفات کے بعد علی روحانی اور سیاسی خلیفہ ہوں گے تو بھی ٹھیک نہیں ہے کیونکہ سیدنا علی نے روحانیت کی بیعت شروع نہیں کی اور نہ ہی سیاسی بیعت شروع کی تو نعوذ باللہ یہ تو سیدنا علی حضور کے فرمان کے مخالف ہو گئے ،اس پر عمل نہ کرنے والے ٹھہرے( لہذا علی مولا کا معنی ہے کہ علی اس کے محبوب ہیں جس کو میں محبوب ہوں)
(الطبقاب الکبری5/319)
.
امام ابن الاعرابی اور امام ثعلب فرماتے ہیں:
ابن الأعرابي قال المولى المالك وهو الله والمولى ابن العم والمولى المعتق والمولى المعتق والمولى الجار والمولى الشريك والمولى الحليف والمولى المحب والمولى اللوي (3) والمولى الولي ومنه قول النبي (صلى الله عليه وسلم) من كنت مولاه فعلي مولاه معناه من تولاني فليتول عليا قال ثعلب وليس هو كما تقول الرافضة ولكنه من باب المحبة
امام ابن الاعرابی فرماتے ہیں کہ مولا کا معنی مالک ہے مولا کا معنی چچا کا بیٹا ہے مولا کا معنی ہے ازاد کردہ وغیرہ دوسرے معنی بھی ہیں اور ایک معنی ہے محبوب، یہی محبوب معنی مراد ہے اس قول میں کہ جس کا میں مولا علی اس کا مولا
(تاریخ دمشق ملتقطا42/238)
.
وهو وليُّ كلِّ مؤمن"؛ أي: حبيبه....معناه: من كنت أتولاه فعليٌّ يتولاه؛ من الولي ضد العدو
علی ولی اللہ ہیں مولا ہیں یعنی محبوب ہیں، ولی مولا کا الٹ عدو یعنی دشمن ہے
(شرح المصابيح لابن الملك6/439)
.
قال الشافعي رضي الله عنه: يعني بذلك ولاء الإسلام كقوله تعالى: {ذلك بأن اللہ مولى الذين آمنوا وأن الكافرين لا مولى لهم
امام شافعی فرماتے ہیں کہ علی مولا کا معنی ہے علی محبوب ہیں... جیسا کہ اس ایت ذلك بأن اللہ مولى الذين آمنوا وأن الكافرين لا مولى لهم کا معنی اسی طرح بنتا ہے
(شرح المشكاة للطيبي12/3884)
.
من كُنْتُ مَوْلَاهُ فعَليٌّ مَوْلاهُ". أراد بذلك ولاء الإسلام، كقوله تعالى: {ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آَمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمْ
امام سیوطی نے بھی فرمایا کہ علی مولا ہیں اسے مراد یہ ہے کہ علی اسلامی طور پر محبوب ہیں جیسا کہ اس ایت ذلك بأن الهل مولى الذين آمنوا وأن الكافرين لا مولى لهم کا معنی اسی طرح بنتا ہے
( قوت المغتذي على جامع الترمذي2/1002)
.
وفي بعضها قال ذلك يوم غدير خم وزاد البزار في رواية " اللهم وال من والاه وعاد من عاداه وأحب من أحبه وأبغض من أبغضه
امام بزاز نے علی مولا والی روایت میں یہ زیادہ کیا ہے کہ یا اللہ ان سے محبت فرما جو علی سے محبت فرمائے...( مطلب مولا کا معنی محبوب ہے)
(فیض القدیر شرح جامع صغیر6/217)
.
وهو ولي كل مؤمن) أي: حبيبه
شیخ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ ولی مولا کا معنی محبوب ہے
(لمعات شرح مشکواۃ9/653)
.
مَوْلَاهُ مَعْنَاهُ مَحْبُوبٌ مَنْ أَنَا مَحْبُوبُهُ قُلْتُ وَيَدُلُّ عَلَى هَذَا الْمَعْنَى قَوْلُهُ: اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَلَاهُ أَيْ أَحِبَّ مَنْ أَحَبَّهُ بِقَرِينَةِ اللَّهُمَّ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَعَلَى هَذَا فَهَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ لَهُ تَعَلُّقٌ بِالْخِلَافَةِ
أَصْلًا
علی مولا ہیں اس سے نہ تو روحانی خلافت ثابت ہوتی ہے نہ ہی سیاسی خلافت ثابت ہوتی ہے اس کا معنی تو یہ ہے کہ جس کو میں محبوب ہوں علی اس کو محبوب ہیں اور یہ معنی حدیث سے ہی ثابت ہوتے ہیں کہ حدیث پاک میں ہے کہ یا اللہ اس سے محبت فرما جو علی سے محبت کرے اس سے دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھے
(حاشية السندي على سنن ابن ماجه1/56)
.
سَبَبُ وُرُودِ هَذَا الْحَدِيثِ كَمَا نَقَلَهُ الْحَافِظُ شَمْسُ الدِّينِ الْجَزَرِيُّ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ أَنَّ عَلِيًّا تَكَلَّمَ بَعْضُ مَنْ كَانَ مَعَهُ بِالْيَمَنِ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حَجَّهَ خَطَبَ بِهَا تَنْبِيهًا عَلَى قَدْرِهِ وَرَدًّا عَلَى مَنْ تَكَلَّمَ فِيهِ كَبُرَيْدَةَ كَمَا فِي
الْبُخَارِيِّ
بخاری وغیرہ کی حدیث سے یہ معنی و پس منظر ثابت ہوتا ہے کہ علی مولا کہنے کی جو روایت ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ بعض صحابہ کرام نے حضرت علی کی مال غنیمت کے معاملے میں شکایت لگائی تھی تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تنبیہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ جس کا میں محبوب ہوں علی اس کا محبوب ہے
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح9/3937)
.
فَقَدْ ذَكَرْنَا مِنْ طُرُقِهِ فِي كِتَابِ الْفَضَائِلِ مَا دَلَّ عَلَى مَقْصودِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ وَهُوَ أَنَّهُ لَمَّا بَعَثَهُ إِلَى الْيمَنِ كَثُرَتِ الشَّكَاةُ عَنْهُ وَأَظْهَرُوا بُغْضَهُ فَأَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَذْكُرَ اخْتِصَاصَهُ بِهِ وَمَحبَّتَهُ إِيَّاهُ وَيَحُثُّهُمْ بِذَلِكَ عَلَى مَحَبَّتِهِ وَمُوَالِاتِهِ وَتَرْكِ مُعَادَاتِهِ فَقَالَ: «مِنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ فَعَلِيٌّ وَلِيَّهُ» وَفِي بَعْضِ الرُّوَايَاتِ: مِنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمْ وَالِ مِنْ وَالِاهُ وَعَادِ مِنْ عَادَاهُ. وَالْمُرَادُ بِهِ وَلَاءُ الْإِسْلَامِ
وَمَودَّتُهُ،
احادیث مبارکہ سے معنی و پس منظر ثابت ہوتا ہے کہ جب سیدنا علی کو یمن کی طرف بھیجا گیا تھا تو وہاں پر مال غنیمت کی تقسیم میں بعض صحابہ کرام کو ناگواری گزری تو انہوں نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ معاملہ شکایت غدیرخم پے عرض کی تو حضور نے حضرت علی کی محبت و خصوصیت اجاگر کرنے کے لیے فرمایا کہ جس کا میں محبوب ہوں علی اس کو محبوب ہیں تو اس سے مراد محبت ہے نہ کہ کوئی اور چیز....اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ بعض احادیث میں یہ بھی اضافہ ہے کہ یا اللہ تو اس شخص سے محبت رکھ جو حضرت علی سے محبت رکھے
(الاعتقاد للبیھقی ص354)
.
وَأَيْضًا فسبب ذَلِك كَمَا نَقله الْحَافِظ شمس الدّين الْجَزرِي عَن ابْن إِسْحَاق أَن عليا تكلم فِيهِ بعض من كَانَ مَعَه فِي الْيمن فَلَمَّا قضى رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم حجه خطبهَا تَنْبِيها على قدره وردا على من تكلم فِيهِ كبريدة كَمَا فِي البُخَارِيّ أَنه كَانَ يبغضه
علی مولا کا معنی سبب و پس منظر یہ ہے کہ مال غنیمت کے معاملے میں کچھ صحابہ کرام نے شکایت کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کی قدر و منزلت بیان کرنے کے لیے فرمایا کہ جس کا میں مولا علی اس کا مولا یعنی ان سے بغض نہ رکھو ان سے محبت رکھو جیسے کہ بخاری سے ثابت ہوتا ہے
(الصواعق المحرقة 1/109 )
.
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے شاگرد قاضی ثناء اللہ پانی پتی کہ جس کے متعلق شاہ عبدالعزیز دہلوی نے فرمایا کہ بیھقیِ وقت ہیں، قاضی صاحب خلیفہ تھے حضرت مظہر جان جانان دہلوی کے، یہی قاضی پانی پتی لکھتے ہیں :
حدیث مذکورہ میں مولا سے مراد محبوب ہے حدیث کے آخری دعائیہ الفاظ(کہ اے جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ) اس پر قرینہ ہیں...مزید فرماتے ہیں..المفھوم: علی مولا والی حدیث کا سبب و پس منظر یہ ہے کہ مال غنیمت کی تقسیم کے معاملے میں کچھ صحابہ کرام کو سیدنا علی سے اختلاف ہوا، ناگواری محسوس کی اور اسکا تذکرہ سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو اپ علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا تاکہ ناگواری وشکایت ختم ہوجائے اس لیے فرمایا کہ میں جس کا مولا علی اس کا مولا یعنی جس کا میں محبوب علی اس کا محبوب ہے لیھذا علی کو دوست رکھو، ناگواری شکایت دل سے نکال دو...(السیف المسلول مترجم ص245,246ملخصا)
.
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے کلام کا مفھوم:
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹی چھوٹی چیزوں کے متعلق ہدایت فرمائی تو اتنے بڑے مسئلے کے متعلق اگر کچھ فرمانا ہوتا واضح فرما دیتے، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو رحمت میں ڈالتے ہوئے اور انہیں غور و خوض کرنے کی عادت ڈالنے کے لیے یہ معاملہ ان کی صوابدید پر چھوڑ دیا، اور نماز میں سیدنا ابوبکر صدیق کو خلیفہ بنا کر یہ اشارہ بھی دے دیا کہ کون خلیفہ ہونا چاہیے... علی مولا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت بڑھانے کے لیے فرمایا تھا کیونکہ صحابہ کرام کو سیدنا علی سے شکایت تھی تو شکایت دور کرنے کے لیے فرمایا تھا
(تحفہ اثناء عشریہ ص418,419)
.
سیدی اعلیٰ حضرت نے بھی مولا کا معنی دوست لکھا ہے
(مطلع القمرین ص71)
.
تاجدار گولڑہ پیر مہر علی شاہ فرماتے ہیں :
غدیر کے واقعہ کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" بریدہ کی شکایت کی وجہ سے تھا اس کا مطلب یہ ہے ، کہ علی سے دوستی اور محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دوستی ہے
(تصفیہ مابین سنی و شیعہ ص33)
.
ریاض شاہ چمن زمان عرفان شاہ طاہر کادری آپ سب لوگ ان عظیم بزرگوں کو پیشوا مانتے ہو اعلان کرتے ہو، ان کے نام پے شہرت چندہ کماتے ہو مگر مکار کہیں کے تم لوگ کہ بزرگوں کے خلاف جاتے ہو، کیا تمھاری سمجھ بزرگوں کی سمجھ سے بڑھ کر ہے یا معاملہ ایجنٹی ایرانی مال ڈالر پاؤنڈ شہرت مکاری وغیرہ کا ہے.......؟؟ تمھارے فتوے مطابق تو یہ سب اہلسنت حضرات ناصبی کہلائے اہلبیت سے بغض رکھنے والے کہلائے....اب بندہ آپ کو کیا کہے....؟؟
#################
*#چمن زمان صاحب لکھتے ہیں*
مولائے کائنات کا مولودِ کعبہ ہونا آپ کے عظیم مناقب سے ہے ، لیکن یہ بات اپنی جگہ ہے کہ مبغضین کو جیسے مولائے کائنات کے دیگر مناقب ہضم نہیں ہوتے یونہی یہ منقبت بھی برداشت نہیں ہوتی۔ بہانے بہانے سے اس کے انکار کی کوشش کی جاتی ہے....(انتھی)
.
*#میرا تبصرہ*
مولائے کائنات سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو مولود کعبہ نہ کہنے والوں کو آپ نے مبغض یعنی اہلبیت سے بغض رکھنے والا قرار دے دیا...اب چند حوالے علماء اہل سنت کے پیش ہیں کہ جنہوں نے سیدنا مولا کائنات کو مولود کعبہ تسلیم نہیں کیا.... کیا آپ کی نظر میں یہ سب بھی بغض اہل بیت میں مبتلا تھے؟ ناصبی تھے؟ خارج از اہلسنت تھے......؟؟
.
علامہ سیوطی:
- ثُمَّ حَكِيمٌ مُفْرَدٌ بَأَنْ وُلِدْ ... بِكَعْبَةٍ وَمَا لِغَيْرِهِ عُهِدْ
امام سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ سیدنا صحابی حکیم بن حزام واحد آدمی ہیں جو کعبہ میں پیدا ہوئے دوسروں کے لئے ثابت نہیں
(ألفية السيوطي في علم الحديث ت الفحل ص144)
.
علامہ خفاجی:
حکیم بن حزام ولد داخل الکعبۃ ولم یولد فیھا احد غیرہ
علامہ خفاجی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حکیم بن حزام کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اس کے علاوہ کوئی بھی کعبہ کے اندر پیدا نہیں ہوا
(نسیم الریاض شرح شفا1/509)
.
علامہ سیوطی اور علامہ ابن حجر
: قَالَ الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ: كَانَ مَوْلِدُ حَكِيمٍ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ.
قَالَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ: وَلَا يُعْرَفُ ذَلِكَ لِغَيْرِهِ
علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ زبیر بن بکار نے فرمایا ہے کہ حکیم بن حزام کعبہ میں پیدا ہوئے اور شیخ الاسلام ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس کے علاوہ کسی کے لئے ثابت نہیں ہے کعبہ میں پیدا ہونا
( تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي2/880)
.
امام نووی اور بعض حافظ الحدیث علماء:
حكيم بن حزام كان مولده في جوف الكعبة، قال بعض الحفاظ: لم يشاركه في هذا أحد
علامہ نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حکیم بن حزام کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اور بعض حفاظ الحدیث فرماتے ہیں کہ اس فضیلت میں آپ کا کوئی بھی شریک نہیں ہے
(إرشاد طلاب الحقائق إلى معرفة سنن خير الخلائق صلى الله عليه وسلم2/775)
.
حاجی خلیفہ اور علامہ ابن عساکر:
قَالَ ولد عَلِيّ بِمَكَّة فِي شعب بَنِي هَاشم
سیدنا علی مکہ میں شعب بنی ہاشم میں پیدا ہوئے تھے(کعبہ میں پیدا نہ ہوئے)
(تاریخ خليفة بن خياط ص199)
(تاريخ دمشق لابن عساكر42/575)
.
دیگر کئ علماء نے بھی صراحتا دلالۃً نفی کی ہے تو چمن زمان صاحب بتائے کہ ان جیسے محدث خوف خدا رکھنے والے معتدل علماء بھی بغض اہل بیت میں مبتلا تھے......؟؟ یقینا نہیں بلکہ آپ بغض اہلسنت میں مبتلا لگتے ہیں،کم سے کم گمراہ بے باک تو ضرور ہوگئے ہیں...رافضیوں نیم رافضیوں سے اور ان کے حمایتی لوگوں سے داد و امداد وصول کرنے کے متلاشی لگتے ہیں
.
*چمن زمان کی خیانت بظاہر بغض ِ صحابہ......؟؟*
چمن زمان لکھتے ہیں
مؤرخِ شہیر ابو عبد اللہ محمد بن اسحاق فاکہی متوفی 275ھ اخبارِ مکہ میں رقمطراز ہیں:
وَأَوَّلُ مَنْ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ: عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ
مہاجرین میں سے بنو ہاشم کی پہلی وہ شخصیت جن کی ولادت کعبۃ اللہ میں ہوئی وہ مولا علی کی ذاتِ والا ہیں۔
(اخبار مکہ 3/198)
.
*#میرا تبصرہ*
دیکھا جائے تو آپ نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مولود کعبہ ہونے پر جو یہ دلیل دی اس میں خیانت کرتے ہوئے صحابی سیدنا حکیم بن حزام کا ذکر حذف کیا تو یہ آپ کی بغض صحابہ کی نشانی نہیں کہلائے گی آپ کے اصول کے مطابق......؟؟
.
علامہ فاکہی نے اسی روایت میں سیدنا حکیم بن حزام کو بھی مولود کعبہ لکھا ہے...یہ لیجیے ان کے الفاظ
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي يُوسُفَ، قَالَ: ثنا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَقُولُ: " سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ....وَأَوَّلُ مَنْ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ: حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ.... وَأَوَّلُ مَنْ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ: عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جو کعبہ میں پیدا ہوا وہ حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور بنو ہاشم میں سے جو سب سے پہلے کعبہ میں پیدا ہوا وہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں
(أخبار مكة للفاكهي ,3/198روایت2018ملتقطا)
.
*#چمن زمان صاحب نے لکھا*
مبغضین کو اس جملے میں مولائے کائنات کی مدح نظر نہ آتی تو حاکم نیشاپوری کا حوالہ دے دے کر لوگوں کو پاگل کر دیتے۔۔۔!!! آپ آزما لیں ، کوئی سا جملہ جو مبغضین کے مقاصد کی تکمیل میں ممد ومعاون ہو اور وہ جملہ ضروری نہیں کہ کسی اہل سے صادر ہوا ہو ، کسی غیر معروف اور غیر معتبر شخص نے کچھ بھی کہہ دیا تو مبغضینِ مولائے کائنات اسے آسمان پہ چڑھا لیتے ہیں ، لیکن اس کے بر عکس ایک ذمہ دار محدث مولائے کائنات کی جوفِ کعبہ میں ولادت کی روایات کو تواتر کا عنوان دے رہا ہے ، لیکن ظلم کی انتہاء ہے کہ مبغضین اس بات کا بابِ مناقب میں بھی اعتبار نہیں کرنا چاہتے...)انتھی)
.
*#میرا تبصرہ*
علماء کہ جنہیں آپ مبغضین(یعنی اہلبیت سے بغض رکھنے والے)کہہ رہے ہیں ان کا وطیرہ رہا ہے کہ انہوں نے امام حاکم کی کئ باتوں کو نہ مانا....جنہیں آپ مبغض کہہ رہے انکا انداز تو یہ نہیں کہ غیر معروف غیر معتبر ذرائع سے روایات لی ہوں
ہاں
آپ کے کلام پر تحقیقات تنقیدات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ میں یہ عادت موجود ہے کہ آپ کو جہاں سے جو کچھ ملتا ہے جیسا ملتا ہے لکھ ڈالتے ہیں ، استدلال کر ڈالتے ہیں ، معتبر کہہ ڈالتے ہیں... غیر معروف اور غیر معتبر روایات لینا تو آپ کی عادت ہے.... شاید آپ امام حاکم کو معتبر ذمہ دار محدث کہہ رہے ہیں حالانکہ معتبر علماء کرام نے امام حاکم پر تساہل اور تشیع کی جرح کی ہے اور اسے غیر معتبر غیر ذمہ دار قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ ان کی کتاب سے آنکھ بند کرکے کچھ نہ لیا جائے بلکہ اس کی روایات کی تحقیق کی جائے... ہم چند حوالہ جات پیش کر رہے ہیں تاکہ قارئین کو معلوم ہو کہ سچ کون بول رہا اور مکاری خیانت بےباکی کون کر رہا ہے
.
علامہ سیوطی فرماتے ہیں:
الحكم بتصحيح ما ليس بصحيح، فكان الأولى ترك باب النظر والنقد مفتوحًا ليُحكم على كل حديث بما يليق به
امام حاکم اس چیز کو صحیح کہہ دیتے ہیں جو صحیح نہیں ہوتی تو بہتر یہی ہے کہ غور و فکر نقد و جرح کا دروازہ کھلا رہے اور امام حاکم کی روایت پر صحیح حسن ضعیف موضوع جو بھی مناسب حکم ہو وہ لگایا جائے
(البحر الذي زخر في شرح ألفية الأثر 2/782)
.
علامہ نووی فرماتے ہیں
وهو متساهل
امام حاکم کسی روایت کو صحیح کرنے میں بہت سست و نرم آدمی ہیں( حدیث کو ، روایت کو صحیح قرار دینے کے لیے کڑی شرائط علماء رکھتے ہیں لیکن امام حاکم کڑی شرائط نہیں رکھتے اس وجہ سے وہ اس حدیث و روایت کو بھی صحیح کہہ دیتے ہیں جو صحیح نہیں ہوتی)
(التقريب والتيسير للنووي ,page 26)
.
، وهو متساهل في التصحيح، فينبغي أن يتتبع ويحكم على أحاديثه بما يليق بحالها، ولقد تتبعه الذهبي وحكم على أكثر أحاديثه بما يليق بحالها
امام حاکم کسی حدیث کو صحیح کر قرار دینے میں نرم ہیں ضروری ہے کہ امام حاکم کی بیان کردہ احادیث اور روایات کا تتبع تخریج کیا جائے اور اس پر وہ حکم لگایا جائے جو اس کے لائق ہے... علامہ ذہبی نے تتبع کیا ہے اور ان کی اکثر احادیث پر حکم لگایا ہے جو اس کے لائق ہے
( تيسير مصطلح الحديث ص50)
.
علامہ بدر الدین اور حافظ عراقی کا نظریہ
ونَقلَ الحَافِظُ "العِراقِيُّ" عن "بَدرِ الدِّينِ بنِ جَماعَةَ" قَالَ: "يُتَتَبَّعُ ويُحكَمُ عَلَيهِ بِما يَلِيقُ بِحالِهِ، من الحُسْنِ أو الصِّحَّةِ أو الضَّعْفِ". وهَذا هُو الصَّوابُ
حافظ عراقی نے نقل کیا ہے بدر الدین سے کہ امام حاکم کی بیان کردہ احادیث اور روایات کا تتبع چھان بین کیا جائے اور اس پر وہ حکم لگایا جائے جو اس کے موافق ہو یعنی حسن صحیح ہونے کا یا ضعیف ہونے کا حکم لگایا جائے اور یہی مذہب صحیح ہے
(الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث ص91)
.
علامہ ابن حجر اور علامہ ذہبی فرماتے ہیں:
يصحح في مستدركه أحاديث ساقطة، ويكثر من ذلك، فما أدرى هل خفيت عليه فما هو ممن يجهل ذلك، وإن علم فهذه خيانة عظيمة، ثم هو شيعي مشهور
امام حاکم مستدرک میں ساقط احادیث کو صحیح قرار دیتے ہیں اور یہ ان سے بہت ہوا اور میں نہیں جانتا کہ یہ اس پر مخفی ہوا یا پھر اس نے جان بوجھ کر کیا... اگر ان کو علم تھا کہ یہ حدیث روایت صحیح نہیں ہے پھر بھی صحیح قرار دے دیا تو یہ بہت بڑی خیانت ہوگی اور پھر وہ(امام حاکم) مشہور ہیں شیعہ ہونے میں
(ميزان الاعتدال3/608)
(لسان الميزان5/233)
.
*#چمن زمان صاحب لکھتے ہیں*
آپ ﷺ نے سیدنا ابو طالب سے کہا:
ما شأنك يا عم؟چچا جان! کیا پریشانی ہے؟سیدنا ابو طالب نے فرمایا: إن فاطمة بنت أسد تشتكي المخاض فاطمہ بنت اسد زچگی کی تکلیف میں ہیں۔آپ ﷺ نے جنابِ ابو طالب کا ہاتھ تھاما اور سیدہ فاطمہ بنت اسد کو لے کر کعبہ مشرفہ کی جانب آئے اور سیدہ فاطمہ بنت اسد کو کعبۂ مشرفہ کے اندر بٹھا دیا۔پھر فرمایا:اجلسي على اسم الله اللہ کا نام لے کر بیٹھ جائیں۔فطلقت طلقة فولدت غلاماً مسروراً، نظيفاً، منظفاً لم أر كحسن وجههسیدہ فاطمہ بنت اسد کو زچگی کا ایک جھٹکا محسوس ہوا اور اس کے ساتھ ہی ناف بریدہ ، صاف ستھرا ، ایسا خوبصورت بچہ پیدا ہوا کہ کسی نظر نے ایسا خوبصورت بچہ نہ دیکھا۔حضرت سیدنا ابو طالب نے بچے کا نام "علی" رکھا اور اللہ کے نبی ﷺ انہیں اپنی گود میں اٹھا کر سیدہ فاطمہ بنت اسد کے گھر تک لائے۔
(مناقب علی لابن المغازلی حدیث 3 ، الفصول المہمۃ فی معرفۃ الائمۃ 1/172)
.
*#میرا تبصرہ*
پہلی بات:
کھل کے بات کرو...سیدنا ابوطالب لکھ رہے ہو کیا تم ایمان ابی طالب کے قائل ہو یا عدم ایمان کے؟
.
*#دوسری بات*
اس روایت میں واضح لکھا ہے کہ ولادت علی کے وقت ابوطالب موجود تھے جبکہ کثیر سنی شیعہ مورخین و شارحین نے لکھا ہے کہ ولات علی کے وقت ابوطالب موجود ہی نہ تھے لیھذا یہ بات دلالت کرتی ہے کہ مذکورہ روایت من گھڑت ہے....محقق زمان مفتی اعظم کہلاتے ہو اور تحقیق و فتوے کا یہ حال ہے، جاہل اجہل مکار چاپلوس چمچے جھوٹے بکاؤ کہیں کے........!!
.
أنَّ أُمَّ على كانت فاطمة بنت أسد فلما ولدت علياً وأبو طالب غائب
سیدہ فاطمہ بنت اسد نے جب سیدنا علی کو پیدا کیا تو ابوطالب حاضر نہ تھے،وہاں موجود نہ تھے
(مناقب علي ابن المغازلي ص154)
أبو طالب غائب
ولادت علی کے وقت ابو طالب وہاں موجود نہ تھے
(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي - ج ٣٩ - الصفحة ١٥)
.
ذكروا أن علي بن أبي طالب ولد وأبو طالب غائب
علماء نے ذکر کیا ہے کہ سیدنا علی کی ولادت ہوئی اور ابو طالب وہاں موجود نہ تھے
(شیعہ کتاب موسوعة شهادة المعصومين لجنة الحديث في معهد باقر العلوم-1/259)
.
: ولد عليٌّ وأبو طالب غائب
سیدنا علی پیدا ہوئے اور ابو طالب وہاں موجود نہ تھے
(كشف اللثام شرح عمدة الأحكام1/291)
.
أَن أم عَليّ فَاطِمَة بنت أَسد ولدت عليا وَأَبُو طَالب غَائِب
سیدنا علی کی والدہ فاطمہ بنت اسد نے سیدنا علی کو پیدا کیا تو اس وقت ابو طالب وہاں موجود نہ تھے
( خزانة الأدب ولب لباب لسان العرب للبغدادي6/64)
.
ذَكَرُوا أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وُلِدَ وَأَبُو طَالِبٍ غَائِبٌ
علماء نے ذکر کیا ہے کہ سیدنا علی جب پیدا ہوئے تو ابو طالب وہاں موجود نہ تھے
( المجالسة وجواهر العلم3/269)
.
أن أم علي، وهي فاطمة بنت أسد، ولدت علياً وأبو طالب غائب
سیدنا علی کی والدہ فاطمہ بنت اسد نے سیدنا علی کو پیدا کیا تو اس وقت ابو طالب وہاں موجود نہ تھے
(الاقتضاب في شرح أدب الكتاب3/70)
.
ولد رَضِي الله عَنهُ وَأَبوهُ غَائِب
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ پیدا ہوئے اور ان کے والد وہاں موجود نہ تھے
(سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي2/554)
.
*#تیسری بات*
سند کے کچھ راوی مجھول ہیں....نہ جانے کیسے تھے رافضی شیعہ غیر معتبر تھے یا کوئی اور....؟؟ اور پھر روایت خلاف حقائق بھی ہے لیھذا مردود
.
*سبط ابن جوزی اور علامہ صفوری کی روایت کا جواب*
پہلی بات: سند ہی نہ لکھی
دوسری بات: علماء فرماتے ہیں:
فتراه يأتي فيه بمناكير الحكايات، وما أظنه بثقة فيما ينقله،....ثم إنه ترفض.
سبط ابن جوزی آپ دیکھیں گے کہ وہ ایسی حکایات کو لکھتے ہیں کہ جو صحیح روایات کے خلاف ہوتی ہیں اور میں ان کو ان کی نقل کردہ باتوں میں ثقہ معتبر نہیں سمجھتا... اور پھر ان(سبط ابن جوزی ) میں رافضیت بھی تھی
(الذهبي، شمس الدين ,ميزان الاعتدال ,4/471)
(ابن حجر العسقلاني ,لسان الميزان ,6/328)
علامہ صفوری کی کتاب نزہۃ المجالس کے متعلق تو مشھور ہے کہ اس میں ضعیف حسن موضوع روایات تک موجود ہیں
.
✍تحریر: العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
naya wtsp nmbr
03062524574
purana block shuda wtsp nmbr
03468392475