*#ہر شخص سیاستدان جج وکیل مولوی سب اپنے مفاد کی بات کرتے ہیں تو پھر کیوں نہ ہم بھی مفاد پرست بن جائیں۔۔۔۔؟؟ اس شیطانی وسوسے کا جواب۔۔۔۔۔۔!!*
.
سیاست رائج الوقت کہ اپنا مفاد ہو تو حلال و انسانیت و جمہوریت ہے اور دوسروں کے مفاد کا ہو تو حرام و دہشتگردی و غیرجمھوری عمل ہے۔۔۔۔اس قاعدہ کلیہ منافقانہ کی ایک چھوٹی سی مثال۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔ دیکھیں بات بہت گہری ہے سمجھنا ضروری ہے کیونکہ جب تک ہم ہیں تو سیاست ہے اور سیاست ہے تو ہم ہیں تو سیاست کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔۔۔ بہت بہت ضروری ہے۔۔۔خبریں سن رہا تھا تو نون لیگ کا بیانیہ سنا کہ کسی کے بہکاوے میں نہیں انا اور پر تشدد نہیں ہونا۔۔۔اتنی پیاری سیاست بھلا نون لیگ کے علاوہ کون کر سکتا ہے۔۔۔؟؟ واہ واہ نون لیگ زندہ باد نواز شریف زندہ باد مریم نواز زندہ باد شہباز شریف زندہ باد ان سے بڑھ کر تو کوئی جمہوری ہو ہی نہیں سکتا۔۔میں ان کی سیاست پر قربان۔۔۔ پھر میں نے خوشی خوشی مزید دلیل پختہ لانے کے لیے گوگل بابا سے پوچھا کہ نون لیگ نے پرتشدد مارچ تو کبھی نہیں کیا ناں۔۔۔۔؟؟ گوگل بابا نے بی بی سی کی رپورٹ میرے سامنے لا کھڑی کی۔۔۔پہلے جیو کی رپورٹ پڑھیں کہ نون لیگ کا بنیادی منشور کیا رہا ہے اور پھر نون لیگ کا عمل کیا گزرا تھا وہ بی بی سی کی رپورٹ میں پڑھیں
۔
پہلے میری ایک عرض پڑہیے
*#عرض*
تمام احباب سے گزارش ہے کہ میرا مشہور واٹسپ نمبر 03468392475 کئ دنوں سے بلاک ہے٫ریویو کا آپشن بھی نہیں آ رہا، ماہرین کہتے ہیں کہ مستقل بلاک کر دیا ہے وٹسپ والوں نے۔۔تقریبا700واٹسپ گروپ تھے جس میں تحریرات بھیجا کرتا تھا۔۔اپ سے گزارش ہے کہ میرا نیا واٹسپ نمبر 03062524574 سیو کیجئے اور وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنا دیجئے تاکہ میں پہلے سے بھی بڑھ کر دین کی خدمت کر سکوں ، علمی اصلاحی تحقیقی تحریرات زیادہ سے زیادہ پھیلا سکوں۔۔۔امید ہے اپ میری مدد ضرور کریں گے اور نمبر سیو کرکے گروپوں میں بھی ایڈ کرکے ایڈمین بنا دیں گے۔۔۔اپ کا بہت بہت شکریہ۔۔یاد رکھیے نمبر ضرور سیو کیجئے پھر گروپوں میں شامل کیجئے ایڈمین بنائیے پھر ہوسکے تو رپلے فرمائیے۔۔۔ جزاکم اللہ خیرا
۔
علمی تحقیقی اصلاحی سیاسی تحریرات کے لیے اس فیسبک پیج کو فالوو کیجیے،پیج میں سرچ کیجیے،ان شاء اللہ بہت مواد ملے گا...اور اس بلاگ پے بھی کافی مواد اپلوڈ کردیا ہے...لنک یہ ہے:
https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1
https://www.facebook.com/profile.php?id=100022390216317&mibextid=ZbWKwL
۔
سیاست کا پہلا رخ۔۔۔
ن لیگ عوام کو تشدد کی سیاست سے روکتے ہوئے:
ملتان: وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ جو آپ کو کہے آگ لگا دو، بسیں جلا دو، بم پھینک دو گولیاں چلا دو، اس بہکاوے میں کبھی نہ آنا، کسی کا ایندھن نه بننا..(جیو نیوز2025)
۔
سیاست کا دوسرا رخ۔۔۔
نون لیگ کا 2009 پی پی حکومت کی ایک نہ سنتے ہوئے پرتصادم پرتشدد سیاست کی، مارچ کیا۔۔۔جسے بی بی سی نے کچھ ان الفاظوں میں بیان کیا:
پولیس نے جن جن راستوں کو روکنے کے لیے نجی بسیں کھڑی کی تھیں ان کے ڈرائیوروں نے نواز شریف کی گاڑی دیکھ کر بسیں ہٹا لیں ۔ کلمہ چوک پر بس ڈرائیوروں نے تاخیر کی تو لوگوں نے ان کے شیشے توڑ دیئے ہیں۔ متعدد مقامات پر لٹھ بردار کارکنوں نے پولیس اہلکاروں کی پٹائی بھی کی ہے۔۔نواز شریف کے کارکن پرجوش ہیں وہ نواز شریف زنده باد اور دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا کے نعرے لگا رہے ہیں۔ نواز شریف اپنی بلٹ پروف گاڑی میں ہیں اور ہاتھ ہلا کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دے رہے ہیں۔ پولیس نے نواز شریف پر تعينات اپنی تمام سیکیورٹی ہٹا لی ہے اور اب ان کے ساتھ پارٹی کارکن اور خود ان کے سیکیورٹی گارڈ ہیں۔۔چند ناکے ایسے بھی تھے جہاں پولیس اہلکاروں نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور خاموشی سے الگ ہوگئے کارکنوں نے پنجاب پولیس زنده باد کے نعرے لگائے۔ لاہور کی تاریخ میں مسلم لیگ نون کا یہ پہلا ایسا بڑا جلوس ہے جو پرتشدد بھی ہے اور پولیس سے تصادم بھی کر رہا ہے۔(بی بی سی نیوز)
۔
سیاست جیسی پاکیزہ خدمت کو ان سیاہ ست دانوں نے کیسا گھٹیا کام بنا دیا ہے۔۔۔اسلام میں اگر حکم نہ دیتا تو خدا کی قسم ایسے سیاستدان 24 لاکھ کلمے پڑھتے تو بھی مسلمان نہ سمجھتے ہم انہیں۔۔۔۔لیکن کیا کریں اسلام نے فرمایا ہے کہ ظاہر کو دیکھو اور کلمہ پڑھ رہا ہے تو مسلمان سمجھ لو لیکن احتیاط اور سمجھداری سے بھی کام لو
۔
*#سوال*
چل چل مولوی تم بھی کوئی دودھ کے دھوئے نہیں۔۔۔جس مولوی کو دیکھو اپنے مفاد کی بات کرتا ہے
۔
*#جواب*
جو عالم مولوی مفتی پیر گدی نشین کوئی بھی اپنی مفاد پرستی کی بات کرے تو وہ مولوی ہی نہیں وہ عالم ہی نہیں وہ پیر ہی نہیں۔۔۔عالم پیر مفتی تو وہ ہوتے ہیں جو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی طرف بلاتے ہیں جو اسلام کے فائدے انسانیت کے حقیقی فائدے کی بات کرتے ہیں
۔
کسی کی غلامی کرنے سے ہزار درجہ بہتر ہے کہ ہم اپنے اقا و مولا اپنے خالق حقیقی اللہ تعالی کی فرمانبرداری کریں انکی غلامی کریں۔۔۔اللہ کی فرمانبرداری اور غلامی کرنے کے لیے ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ غلامی کرنی ہوگی پیروی کرنی ہوگی۔۔۔۔اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام نے اور اللہ تعالی نے اپنے فائدے کے لیے کچھ بھی نہیں حکم دیا بلکہ ہمیں جو بھی حکم دیا ہمارے اپنے فائدے کے لیے دیا ہمارے معاشرتی فائدے کے لیے دیا ہمارے انفرادی فائدے کے لیے دیا ہمارے دین و دنیا و اخرت کے فائدے کے لیے دیا۔۔۔۔لہذا جو عالم جو مفتی جو مولوی جو گدی نشین جو بھی مولانا حضرات ہوں وہ اگر اپ کے فائدے کے لیے اپ کے حقیقی فائدے کے لیے اور اسلام کی سربلندی کے لیے کہ جس میں ہماری ہی بھلائی ہے اس بھلائی کی طرف جو بلائے اس کے لیے نکل پڑو ، اس کے لیے جان نچھاور کر دو ، اس کے لیے ہوش گنوا بیٹھو۔۔۔اسی کے لیے جوش و غیرت آنی چاہیے
۔
لیکن افسوس کہ مولوی مفتی عالم پیر گدی نشین وغیرہ میں بھی دو نمبر شامل ہو گئے ہیں اور ہم جب جعلی مولوی کو بھی مفاد پرستی کرتے دیکھتے ہیں تو شیطان اپنا وار کر دیتا ہے اور ہمیں سوچ نظریہ دیتا ہے کہ بھیا اپنا مفاد سوچو یہ مولوی جو تمہیں اچھے لگتے تھے وہ بھی مفاد پرست ہیں یہ سیاست دان تو ہیں ہی مفاد پرست۔۔۔یہی امتحان کا مقام ہے یہی زندگی کا امتحان ہے یہی اللہ کی طرف سے امتحان ہے کہ ہم نے وسوسے میں انا ہے شیطان کی چال میں جال میں پھنسنا ہے یا پھر سوچ بچار کرنا ہے کہ نہیں سچے مولوی اچھے مولوی سچے اچھے علماء سچے اچھے مفتیان کرام سچے اچھے گدی نشین یہی لوگ سچوں کے سچے وارث ہیں یعنی انبیاء کرام کے وارث ہیں تو یہ ہمیں مفاد پرستی پر گامزن نہ کریں بلکہ حق بات کہنے کرنے کی تلقین کرتے رہیں گے چاہے وہ بظاہر ان سب سے اچھی مولویوں کے نقصان کا باعث ہی کیوں نہ ہو
۔
پہچان کرنا سیکھیے۔۔۔۔پہچان کرنا سیکھیے
.
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدي، وسيكون خلفاء فيكثرون
(بخاری حدیث نمبر3455)
مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ نے اس حدیث پاک کا ترجمہ یوں فرمایا:
بنو اسرائیل کا سیاسی انتظام انبیاء کرام کرتے تھے،جب کبھی ایک نبی انتقال فرماتے تو دوسرے نبی ان کے پیچھے تشریف لاتے اور میرے بعد کوئی نبی نہیں،خلفاء ہونگے اور بہت ہونگے..(بخاری حدیث نمبر3455)
دیکھا برحق سچی سیاست تو انبیاء کرام کی سنت ہے...بلکہ علماء مولوی دینی حضرات پر لازم و ذمہ داری ہے کہ اہل علم انبیاء کرام کے وارث و نائب ہیں...(دیکھیے ابوداؤد حدیث3641)
.
الحدیث:
قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " «من لا يهتم بأمرالمسلمين فليس منهم
ترجمہ:
جو مسلمانوں کے معاملات(معاشرتی و انفرادی بھلائی ترقی اصلاح) پر اہتمام نا کرے، اہمیت نا دے وہ اہلِ اسلام میں سے نہیں(مجمع الزوائد حدیث294)
اسلامی سیاست میں یہی معاشرتی انفرادی بھلائی ترقی اصلاح کا اہتمام ہی تو ہوتا ہے......!!
.
اسلام غیرت جوش.و.جذبے کے ساتھ ساتھ سمجھداری اور احتیاط کا حکم بھی دیتا ہے، مختلف قسم کی طاقت جمع کرنے کا حکم بھی دیتا ہے
القرآن..ترجمہ:
اے ایمان والو ہوشیاری،احتیاط سے کام لو..(سورہ نساء آیت71)
جوش کے ساتھ ساتھ ہوش بھی ضروری ہے.. احتیاط بھی ضروری ہے..
.
*#جوش و جزبہ ایمانی سرمایہ زندگانی ہے مگر اس جوش و جذبے کو اسلام کے ماتحت رکھنا لازم ہے*
کچھ ورکر کچھ علماء معتدل مزاج کے ہوں تو کچھ جوش و جذبے والے بھی ہوں یہ ضروری ہے یہ بہت بڑی نعمت ہے،ان کو جنونی نہیں کہا جا سکتا بشرطیکہ یہ اپنا جنون جذبہ شریعت کے ماتحت رکھیں
الحدیث:
إن لكل شيءشرة ولكل شرة فترة، فإن كان صاحبها سدد وقارب فارجوه
ترجمہ:
ہر ایک کے لیے جوش.و.نشاط ہے اور ہر جوش.و.نشاط کو زوال ہے…پس اگر جوش و جذبہ، نشاط والا بندہ سیدھا سچا رہے اور (علماء اولیاء کا)قرب.و.مشاورت حاصل کرے تو اس سے خیر کی امید رکھو...(ترمذی حدیث2453)
۔
*#مولوی اگر سچے ہیں تو جھگڑتے اختلاف کیوں ہیں۔۔۔۔؟؟*
دیکھیں اللہ تعالی نے بعض مولویوں کو علماء کو بہت علم اور حکمت سے نوازا ہے اور بعض دیگر بعض انعامات سے نوازا ہے صفات سے نوازا ہے۔۔۔۔پھر کچھ مولوی علماء مفتی محنت کر کے اللہ کی توفیق سے بڑی حکمت اور سمجھدار حاصل کر لیتے ہیں اور بعض کچھ کم توجہی کم علمی وغیرہ کی وجہ سے کم درجے کے ہوتے ہیں۔۔۔۔سب انسانوں کی سوچ یکسا نہیں دماغ یکسا نہیں۔۔۔کسی کا مطالعہ کم تو کسی کا زیادہ۔۔۔کسی کو توفیق تطبیق توجیہ ترجیح وافر مقدار میں ملتی ہے تو کسی کو کچھ کم درجے کیے۔۔۔اس لیے اسلام نے امتیوں کو کسی امتی کا غلام نہیں بنایا۔۔۔۔اور جب اللہ تعالی نے عقل اور شعور عطا فرمائی ہے اور اس کے بھی مختلف حصے ہو گئے مراحل ہو گئے تو پھر اللہ تعالی نے کسی کو بانجھ و مقید نہیں بنایا بلکہ کچھ ضروری معاملات میں غلام بنا دیا مقید بنا دیا بانجھ بنا دیا اور ان ضروری معاملات کے شواہد تلاش کرنے کا حکم عطا فرما دیا
اور
باقی دیگر معاملات میں کئی معاملات میں فروعی معاملات میں اسلام کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عقل چلانے کا حکم دیا حکمت چلانے کا حکم دیا۔۔۔۔یہیں سے اختلاف پیدا ہوتا ہے کسی کی عقل و حکمت یہ کہتی ہے کہ فلاں کام مفید ہے اور کسی کی عقل و حکمت کہتی ہے کہ فلاں دوسرا کام مفید ہے اس طرح اللہ کریم نے ان فروعی معاملات میں ہمیں کسی کا غلام نہیں بنایا بلکہ حکم دیا کہ کسی باشعور وسیع علم والے کی پیروی کریں یا پھر خود وسیع علم والے بن جائیں اور اختلاف کرنے کے رتبے پر پہنچ جائے تو اسلام کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام کی بلندی کے لیے مسلمانوں کی بلندی کے لیے معاشرے کی بھلائی اور بلندی کے لیے اپنی رائے دے سکتے ہیں مگر ضد و ہٹ دھرمی تکبر انانیت مفاد پرستی سے بھی روکا۔۔۔کچھ تو رک جاتے ہیں مگر کچھ مولوی ضد میں ا جاتے ہیں یا کچھ منافقت میں ا جاتے ہیں یا کچھ مفاد پرستی میں ا جاتے ہیں یا کچھ تکبر میں ا جاتے ہیں اور اسی طرح یہ دو نمبر مولوی اچھے مولویوں کو بھی بدنام کر دیتے ہیں۔۔۔تو اچھے علماء سچے علماء کا با ادب مدلل با سلیقہ اختلاف امت کی معاشرتی و انفرادی دنیاوی و دینی بھلائی کے لیے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ تو سہولت کی بات ہے کہ ہمیں بھی سوچنے سمجھنے ترقی کرنے اگے بڑھنے کا موقع ملے گا اور ہم بھی اس رتبے کو پا سکتے ہیں اور خلق کی خدمت کر سکتے ہیں، رہنمائی کر سکتے ہیں، اسی لیے اس قسم کے اختلافات کو رحمت قرار دیا گیا ہے، لہذا اس قسم کے فروعی مدلل باسلیقہ مشروط اختلاف سے دل چھوٹا نہ کریں ،یہ اختلاف اپ کو برحق علماء میں بھی ملے گا، ایسے اختلاف کی صورت میں اپ کو جس جگہ جس عالم جس مولوی جس پیر گد نشین کی بات و عمل معاشرے کے لیے اچھی لگے اسلام کی سربلندی کے لیے مفید لگے انفرادی دینی دنیاوی معاشرتی فوائد سے بھرپور لگے اس کی پیروی کر لیجئے اور دوسری کی توہین و مذمت نہ کیجیے بلکہ برداشت کیجیے اور کہیے کہ وہ بھی حق پر ہے ان کو بھی حق ہے
.
الحدیث:
قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الأحزاب: «لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة» فأدرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم: بل نصلي، لم يرد منا ذلك، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فلم يعنف واحدا منهم
ترجمہ:
غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:
تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے
(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)
پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نا فرمائی
(بخاری حدیث946)
.
دیکھا آپ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کا قیاس و استدلال اور اس میں اختلاف... صحابہ کرام نے اس برحق اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر منافق فاسق گمراہ گستاخ نہیں کہا اور نبی پاک نے بھی کسی کی ملامت نا فرمائی...ایسا اختلاف قابل برداشت ہے بلکہ روایتوں مین ایسے فروعی برحق پردلیل باادب اختلاف کو رحمت فرمایا گیا ہے
.
اختلاف ایک فطرتی چیز ہے.... حل کرنے کی بھر پور کوشش اور مقدور بھر علم و توجہ اور اہلِ علم سے بحث و دلائل کے بعد اسلامی حدود و آداب میں رہتے ہوئے پردلیل اختلاف رحمت ہے
مگر
آپسی تنازع جھگڑا ضد انانیت تکبر لالچ ایجنٹی منافقت والا اختلاف رحمت نہیں، ہرگز نہیں...اختلاف بالکل ختم نہیں ہو پاتا مگر کم سے کم ضرور کیا جا سکتا ہے،اس لیے اختلاف میں ضد ،انانیت، توہین و مذمت نہیں ہونی چاہیے بلکہ صبر اور وسعتِ ظرفی ہونی چاہیے... اور یہ عزم و ارادہ بھی ہونا چاہیے کہ اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، ختم نہیں ہو پایا تو اختلاف کو کم سے کم ضرور کیا جائے گا..اختلاف کو جھگڑے سے بچایا جائے گا..
.
اختلاف کی بنیاد حسد و ضد ہر گز نہیں ہونی چاہیے...
اختلاف اپنی انا کی خاطر نہ ہو
اختلاف لسانیت قومیت کی خاطر نہ ہو
اختلاف ذاتی مفاد لالچ کی خاطر نہ ہو
اختلاف شہرت واہ واہ کی خاطر نہ ہو
اختلاف فرقہ پارٹی کی خاطر کی نہ ہو
اختلاف کسی کی ایجنٹی کی خاطر نہ ہو
اختلاف منافقت، دھوکے بازی کی خاطر نہ ہو
اختلاف ہو تو دلیل و بھلائی کی بنیاد پر ہو، بہتر سے بہترین کی طرف ہو، علم و حکمت سے مزین ہو،
.
ہر شخص کو تمام علم ہو،ہر طرف توجہ ہو، ہر میدان میں ماہر ہو یہ عادتا ممکن نہیں، شاید اسی لیے مختلف میدانوں کے ماہر حضرات کی شوری ہونا بہت ضروری ہے، اسی لیے اپنے آپ کو عقل کل نہیں سمجھنا چاہیے....بس میں ہی ہوں نہیں سوچنا چاہیے...ترقی در ترقی کرنے کی سوچ ہو، ایک دوسرے کو علم، شعور، ترقی دینے کی سوچ ہو....!!
.
کسی کا اختلاف حد درجے کا ہو، ادب و آداب کے ساتھ ہو، دلائل و شواہد پر مبنی ہو تو اس سے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے...ایسے اختلاف والے کی تنقیص و مذمت نہیں کرنی چاہیے،ایسے اختلاف پے خطاء والے کو بھی اجر ملتا ہے
الحدیث:
فاجتهد، ثم اصاب فله اجران، وإذا حكم فاجتهد، ثم اخطا فله اجر
مجتہد نے اجتہاد کیا اور درستگی کو پایا تو اسے دو اجر اور جب مجتہد نے اجتہاد کیا خطاء پے ہوا اسے ایک اجر ملے گا
(بخاری حدیث7352)
توجیہ تنبیہ جواب تاویل ترجیح کی کوشش کرنی چاہیے جب یہ ممکن نا ہو تو خطاء اجتہادی پر محمول کرنا چاہیے.....ہاں تکبر عصبیت مفاد ضد انانیت ایجنٹی منافقت وغیرہ کے دلائل و شواہد ملیں تو ایسے اختلاف والے کی تردید و مذمت بھی برحق و لازم ہے
.
اسی طرح ہر ایرے غیرے کم علم کو اختلاف کرنے کی بھی اجازت نہیں بلکہ وہ سوال کرے وضاحت طلب کرے علم حاصل کرے تدبر تطبیق توفیق توجیہ کی عادت اپنائے اور اصلاح کی کوشش کرے۔۔۔۔ اختلاف کرنے کی اجازت بڑے علم والے وسیع علم والے باریک بین باشعور علماء کو ہے اہل استنباط کو ہے۔۔۔اس طرح ہر کوئی اختلاف نہیں کرے گا۔۔۔تھوڑے تھوڑے علم والا اختلاف نہیں کرے گا بلکہ اختلاف کو حل کرنے کی کوشش کرے گا سوال کرے گا علم حاصل کرے گا وضاحت حاصل کرے گا وضاحت پھیلائے گا تو اختلافات کم سے کم ہوتے جائیں گے
القرآن:
لَوۡ رَدُّوۡہُ اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ
اگر معاملات و مسائل کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق،باشعور،باریک دان،سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور جان لیتے
(سورہ نساء آیت83)
آیت مبارکہ میں واضح حکم دیا جارہا ہے کہ اہل استنباط معتبر وسیع علم والے باریک بین علماء اہلسنت کی طرف کی طرف معاملات کو لوٹایا جائے اور انکی مدلل مستنبط رائے و سوچ و حکم کی تقلید و پیروی کی جائے.....!!
.
اسلام تو اپنے ایثار و قربانی یعنی اپنے کو چھوڑ کر دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی بات کرتا ہے۔۔۔۔اسلام تو برائی سے زبردستی روکنے کی بات کرتا ہے۔۔۔۔اسلام تو حکم دیتا ہے کہ سمجھاؤ سمجھاؤ پھر وقت دو محاصرہ کرو معاہدے کرو لیکن جنگ نہ کرو لیکن اگر کوئی جنگ پر اتر ائے تو پھر اسے عبرت کا نشان بنا دو کہ دوسرے لوگ اس سے عبرت پکڑیں۔۔اسلام ناحق مہنگائی تنگدستی سے روکتا ہے اسلام چال بازی مکاری سے روکتا ہے اسلام ہر ایک کو اس کے مقام کے مطابق عزت و مرتبہ دینے کی بات کرتا ہے اسلام تو چاہتا ہے کہ ہر کوئی ترقی کرے ہر کوئی اگے بڑھے۔۔ کوئی ضائع نہ ہو۔۔کوئی کسی کا غلام نہ رہے۔۔۔فرقہ پرستی قومیت پرستی سے روکتا ہے اور حکم دیتا ہے امیر غریب سب مسلمان بھائی بھائی ہیں ایک دوسرے کی عزت کریں ایک دوسرے کو حقیر اور کمتر نہ سمجھیں۔۔۔زندگی کے ہر شعبے میں ہر معاملے میں اسلام میں اچھے اچھے اصول فراہم کیے ہیں۔۔۔اس چھوٹی سی تحریر میں ایک جھلک اپ کے سامنے رکھی لیکن ان تمام اصول تعلیمات فوائد کا احاطہ اس تحریر میں ممکن نہیں
۔
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
naya wtsp nmbr
03062524574
purana block shuda wtsp nmbr
03468392475