*#بعض فضائل و احوالِ سیدنا معاویہ تفاسیر و احادیث و اقوال صحابہ اور امام احمد بن حنبل اور امام بخاری اور امام غزالی و پیران پیر وغیرہ اکابرین کے اقوال سے شان معاویہ ملاحظہ کیجیے اور سیدنا معاویہ کی شان کے متعلق کچھ حوالہ جات شیعہ کتب سے اور نعرہ ہر صحابی جنتی، بادشاہت معاویہ حکومت معاویہ زندہ باد، فیضان معاویہ بھی جاری رہے گا، اور اصلی قادری کون۔۔۔۔؟؟*
توجہ:
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ کے متعلق کوئی بھی اعتراض یا اہلسنت کے کسی بھی معاملے پر اعتراضات ہوں یا کسی حدیث وغیرہ کی تحقیق تخریج تصدیق کرانی ہو شرعی مسائل درپیش ہوں تو ان کا جواب لینے کے لیے ہمیں 03062524574 پر واٹسپ میسج کیجیے۔۔۔نیز تمام احباب سے گزارش ہے کہ میرا مشہور واٹسپ نمبر 03468392475 بلاک ہے۔۔تقریبا700واٹسپ گروپ تھے جس میں تحریرات بھیجا کرتا تھا۔۔اپ سے گزارش ہے کہ میرا نیا واٹسپ نمبر 03062524574 سیو کیجئے اور وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنا دیجئے تاکہ میں پہلے سے بھی بڑھ کر دین کی خدمت کر سکوں ، علمی اصلاحی تحقیقی تحریرات زیادہ سے زیادہ پھیلا سکوں
۔
علمی تحقیقی اصلاحی سیاسی تحریرات تحقیقات کے لیے اس فیسبک پیج کو فالوو کیجیے،پیج میں سرچ کیجیے،ان شاء اللہ بہت مواد ملے گا...اور اس بلاگ پے بھی کافی مواد اپلوڈ کردیا ہے...لنک یہ ہے:
https://www.facebook.com/profile.php?id=100022390216317&mibextid=ZbWKwL
https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1
القرآن:
لَا یَسۡتَوِیۡ مِنۡکُمۡ مَّنۡ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبۡلِ الۡفَتۡحِ وَ قٰتَلَ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعۡظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَ قٰتَلُوۡا ؕ وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الۡحُسۡنٰی
تم میں سے جس نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا اور جہاد کیا ان کا درجہ ان لوگوں سے زیادہ ہے کہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور جہاد کیا لیکن سارے صحابہ سے اللہ تعالی نے اچھا وعدہ یعنی جنت کا وعدہ کیا ہے
(سورہ الحدید آیت10)
.
آیت کی تفسیر ملاحظہ کیجیے کہ سیدنا ابوبکر و عمر سیدنا علی و سیدنا معاویہ مہاجرین انصار اور ان کے بعد کے سارے صحابہ کرام جنتی ہیں...ہر صحابی نبی جنتی جنتی
۔
کتب میں جابجا یہی لکھا ہے کہ تمام صحابہ جنتی جنتی ہم صرف تبرک کے طور پر حق چار یار کی نسبت سے چار تفاسیر کا حوالہ دے رہے ہیں
۔
مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْح} فتح مَكَّة {وَقَاتل} الْعَدو مَعَ النبى صلى الله عَلَيْهِ وَسلم {أُولَئِكَ} أهل هَذِه الصّفة {أَعْظَمُ دَرَجَةً} فَضِيلَة ومنزلة عِنْد الله بِالطَّاعَةِ وَالثَّوَاب {مِّنَ الَّذين أَنفَقُواْ مِن بَعْدُ} من بعد فتح مَكَّة {وَقَاتَلُواْ} الْعَدو فِي سَبِيل الله مَعَ النبى صلى الله عَلَيْهِ وَسلم {وكلا} كلا لفريقين من أنْفق وَقَاتل من قبل الْفَتْح وَبعد الْفَتْح {وَعَدَ الله الْحسنى} الْجنَّة
یعنی
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ سے پہلے جن صحابہ کرام نے خرچ کیا جہاد کیا اور فتح مکہ کے بعد جنہوں نے خرچ کیا جہاد کیا ان کے درجات میں اگرچہ تفاوت ہے لیکن سب صحابہ کرام سے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ کیا ہے
(تنوير المقباس من تفسير ابن عباس ص457)
أوجب الله لجميع الصحابة الجنة والرضوان
ترجمہ
اللہ تعالی نے تمام صحابہ کے لیے جنت اور رضامندی کو واجب کردیا ہے
(أنموذج اللبيب في خصائص الحبيب1/236)
.
اكْثَرُ الْمُفَسِّرِينَ عَلَى أَنَّ الْمُرَادَ بِالْفَتْحِ فَتْحُ مَكَّةَ...(وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنى) أَيِ الْمُتَقَدِّمُونَ الْمُتَنَاهُونَ السَّابِقُونَ، وَالْمُتَأَخِّرُونَ اللَّاحِقُونَ، وَعَدَهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا الْجَنَّةَ مَعَ تَفَاوُتِ الدَّرَجَاتِ
یعنی
اکثر مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور اللہ تعالی نے سب صحابہ کے لئے جنت کا وعدہ کیا ہے درجات کی اونچ نیچ کے ساتھ
(تفسير القرطبی,17/239,241)
.
وَظَاهِرُ لَفْظِ الْفَتْحِ أَنَّهُ فَتْحُ مَكَّةَ فَإِنَّ هَذَا الْجِنْسَ الْمُعَرَّفَ صَارَ عَلَمًا بِالْغَلَبَةِ عَلَى فَتْحِ مَكَّةَ، وَهَذَا قَوْلُ جُمْهُورِ الْمُفَسِّرِينَ
یعنی
ظاہر یہی ہے کہ فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور یہ جمہور مفسرین کا قول ہے
(التحرير والتنوير 27/374 )
.
اور سیدنا معاویہ فتح مکہ کے بعد ایمان لائے وہ عظیم فقیہ مجتہد صحابہ کرام میں سے تھے جیسے کہ نیچے حوالہ جات ائیں گے لیھذا اس ایت میں سیدنا معاویہ کی بھی فضیلت ہے، ان کے لیے بھی جنت کا وعدہ ہے.....!!
.
*#سیدنا معاویہ کے مطلق فضائل......!!*
دَعَوْنَا مِنْ مُعَاوِيَةَ فَإِنَّهُ قَدْ صَحِبَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں سیدنا معاویہ کے متعلق نازیبا بات نہ کرو وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں
(المعجم الكبير للطبراني11/124)
(الشريعة للآجري5/2459نحوه)
(مشكاة المصابيح1/399نحوہ)
۔
لہذا ایات و احادیث میں صحابہ کرام کی جو تعریف و عظمت و فضیلت و شان بیان ہوئی اس میں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل ہیں
۔
.
قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: أَيُّهُمَا أَفْضَلُ: مُعَاوِيَةُ أَوْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ؟ فَقَالَ: «مُعَاوِيَةُ أَفْضَلُ، لَسْنَا نَقِيسُ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا» . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِيَ الَّذِينَ بُعِثْتُ فِيهِمْ
امام احمد بن حنبل سے سوال کیا گیا کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز، امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں... ہم کسی غیر صحابی(حتی کہ عظیم الشان تابعی وغیرہ جیسے عمر بن عبدالعزیز)کو(سیدنا معاویہ وغیرہ)کسی صحابی کے برابر نہیں کرسکتے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے افضل ترین وہ لوگ(صحابہ) ہیں کہ جن میں میں ظاہری حیات رہا(بخاری حدیث2651)
(السنة لأبي بكر بن الخلال2/434)
.
وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي....رسول کریمﷺنےفرمایا:
میرے صحابہ میری امت کے لیے (ستاروں کی طرح) امان ہیں
(مسلم حدیث6466)
.
وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي
رسول کریمﷺنےفرمایا:
جس نےمیرےصحابہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی(ترمذی حدیث3862)
.
فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ
رسول کریمﷺنےفرمایا:
(میرے صحابہ کی تو ایسی عظیم شان و فضیلت و عظمت ہے کہ)تم میں سے کوئی احد پہاڑ جتنا سونا خرچ کرے تو میرے صحابہ کے ایک مد یا آدھے مد کے برابر نہیں
(بخاری حدیث3673)
.
الحدیث:
فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ،
رسول کریمﷺنےفرمایا:
جو میرے صحابہ سے محبت رکھے تو یہ مجھ سے محبت ہے اسی وجہ سے میں اس سے محبت رکھتا ہوں اور جو ان سے بغض کرے نفرت و گستاخی کرے تو یہ مجھ سے بغض و نفرت ہے...(ترمذی حدیث3862)
.
مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے میرے صحابہ کی گستاخی کی اس پر اللہ کی لعنت ہے
(استاد بخاری المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت6/405)
(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل2/908نحوہ)
(جامع الأحاديث سیوطی16/149نحوہ)
(السنة لابن أبي عاصم2/483نحوہ)
.
الحدیث:
لاَ تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي أَوْ رَأَى مَنْ رَآنِي
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے مجھے حالت اسلام میں دیکھا (اور اس کی وفات حالت ایمان میں ہوئی )تو اسے آگ نہ چھوئے گی اور اس کو بھی آگ نہ چھوئے گی جو میرے صحابہ کو حالت ایمان میں دیکھے(اور حالت ایمان میں وفات پا جائے)
(ترمذی حدیث3858حسن)
(حسن، كتاب مشكاة المصابيح حدیث6013)
( جامع الأحاديث حدیث16938)
( الرياض النضرة 1/220)
(الجامع الصغير وزيادته حدیث14424)
(السنة لابن أبي عاصم 2/630)
(کنز العمال حدیث32480-)
رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَعَنْ جَمِيعِ الصَّحَابَةِ الَّذِينَ ضَمِنَ اللَّهُ لَهُمْ فِي كِتَابِهِ أَنَّهُ لَا يُخْزِيهِمْ , وَأَنَّهُ يُتِمُّ لَهُمْ نُورَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , وَيَغْفِرُ لَهُمْ...أَخْبَرَ أَنَّهُ قَدْ رَضِيَ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ , وَأَنَّهُ أَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا , فَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ , وَنَفَعَنَا بِحُبِّهِمْ , وَبِحُبِّ أَهْلِ بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَبِحُبِّ أَزْوَاجِهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ
یعنی
تمام صحابہ کے بارے میں اللہ تعالی نے جنت و عزت کی ضمانت دی ہے قران میں اور ان کے لیے تیار رکھا ہے جنت کو اور ان سے راضی ہوا ہے۔۔۔اللہ ہمیں ان کی محبت سے سرفراز فرمائے اور اہل بیت کی محبت عطا فرمائے اور ازواج مطہرات کی محبت عطا فرمائے
(الشريعة للآجري قبل الحدیث1168)
.
يُشِيرُ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللَّهُ إِلَى الرَّدِّ عَلَى الرَّوَافِضِ وَالنَّوَاصِبِ. وَقَدْ أَثْنَى اللَّهُ تَعَالَى عَلَى الصَّحَابَةِ هُوَ وَرَسُولُهُ، وَرَضِيَ عَنْهُمْ، وَوَعَدَهُمُ الْحُسْنَى.كَمَا قَالَ تَعَالَى: {وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ} [التَّوْبَةِ: 100] .
یعنی
علامہ طحاوی رحمۃ اللہ تعالی اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس میں رد ہے رافضیوں کا اور ناصبیوں کا وہ اس طرح کے اللہ تعالی نے تمام صحابہ کرام سے سابقین اولین مہاجرین و انصار وغیرہ جو ان کے بعد آئے ان سب سے اللہ تعالی راضی ہوا اور ان کے لیے جنت کا وعدہ فرمایا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے
(,شرح الطحاوية ت الأرناؤوط ,2/689)
.
صحابی کی معتبر تعریف یہ ہے
الصَّحابيِّ مَنْ لَقِيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ [تَعالى] عليهِ [وآلهِ] وسلَّمَ ُمؤمِناً بهِ وماتَ عَلى الإِسلامِ
صحابی اس کو کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو یا ملاقات کی ہو اور اس کی وفات اسلام پر ہوئی ہو
[نزهة النظر في توضيح نخبة الفكرpage 111]
.
لہذا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتد ہو گئے وہ صحابہ نہیں،صحابی تو ہوتا ہے کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھے یا ملاقات کرے اور حالت ایمان پر اس کی وفات ہو۔۔۔۔صحابہ کرام تمام کے تمام عدول و نیک اور جنتی ہیں ان میں کوئی بھی کافر مرتد گستاخ فاسق نہیں۔۔۔۔حتی کہ آپس میں جنگ کرنے والے صحابہ کرام مثلا سیدنا معاویہ سیدنا علی وغیرہ رضی اللہ عنھم اجمعین بھی فاسق نہیں۔۔۔صحابہ کرام کو عادل و نیک ہم نے اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ قرآن کی آیات اور احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ صحابہ کرام عادل اور نیک تھے مرتد گستاخ و فاسق نہیں
۔
قَالَ الخَطِيْبُ البَغْدَادِيُّ رَحِمَهُ اللهُ بَعْدَ أنْ ذَكَرَ الأدِلَّةَ مِنْ كِتَابِ اللهِ، وسُنَّةِ رَسُوْلِ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -، الَّتِي دَلَّتْ على عَدَالَةِ الصَّحَابَةِ وأنَّهُم كُلُّهُم عُدُوْلٌ، قَالَ: «هَذَا مَذْهَبُ كَافَّةِ العُلَمَاءِ، ومَنْ يَعْتَدُّ بِقَوْلِهِم مِنَ الفُقَهَاءِ
خطیب بغدادی نے قرآن سے دلاءل ذکر کیے، رسول اللہ کی سنت سے دلائل ذکر کیے اور پھر فرمایا کہ ان سب دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام صحابہ کرام عادل ہیں(فاسق و فاجر ظالم گمراہ نہیں)اور یہی مذہب ہے تمام علماء کا اور یہی مذہب ہے معتدبہ فقہاء کا
(الكفاية ص67)
.
أجمعت الأمة على وجوب الكف عن الكلام في الفتن التي حدثت بين الصحابة.
ونقول: كل الصحابة عدول، وكل منهم اجتهد، فمنهم من اجتهد فأصاب كـ علي فله أجران، ومنهم من اجتهد فأخطأ كـ معاوية فله أجر، فكل منهم مأجور، القاتل والمقتول، حتى الطائفة الباغية لها أجر واحد لا أجران، يعني: ليس فيهم مأزور بفضل الله سبحانه وتعالى.
امت کا اجماع ہے کہ صحابہ کرام میں جو فتنے جنگ ہوئی ان میں نہ پڑنا واجب ہے تمام صحابہ کرام عادل ہیں(فاسق و فاجر ظالم گمراہ نہیں)ان میں سے ہر ایک مجتہد ہے اور جو مجتہد حق کو پا لے جیسے کہ سیدنا علی تو اسے دو اجر ہیں اور جو مجتہد خطاء پر ہو جیسے سیدنا معاویہ تو اسے ایک اجر ملے گا لہذا سیدنا علی اور معاویہ کے قاتل مقتول سب جنتی ہیں حتیٰ کہ سیدنا معاویہ کا باغی گروہ بھی جنتی ہے اسے بھی ایک اجر ملے گایعنی تمام صحابہ میں سے کوئی بھی گناہ گار و فاسق نہیں اللہ کے فضل سے
[شرح أصول اعتقاد أهل السنة للالكائي ١٣/٦٢]
.
قال حجة الإسلام الغزالي رحمه الله يحرم على الواعظ وغيره......وما جرى بين الصحابة من التشاجر والتخاصم فانه يهيج بغض الصحابة والطعن فيهم وهم اعلام الدين وما وقع بينهم من المنازعات فيحمل على محامل صحيحة فلعل ذالك لخطأ في الاجتهاد لا لطلب الرياسة او الدنيا كما لا يخفى وقال في شرح الترغيب والترهيب المسمى بفتح القريب والحذر ثم الحذر من التعرض لما شجر بين الصحابة فانهم كلهم عدول خير القرون مجتهدون مصيبهم له أجران ومخطئهم له أجر واحد
یعنی
حجة الاسلام امام غزالی نے فرمایا کہ صحابہ کرام کے درمیان جو مشاجرات ہوئےان کو بیان کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے خدشہ ہے کہ صحابہ کرام کے متعلق بغض بغض اور طعن پیدا ہو۔ ۔۔۔۔۔صحابہ کرام میں جو مشاجرات ہوئے ان کی اچھی تاویل کی جائے گی کہا جائے گا کہ ان سے اجتہادی خطا ہوئی انہیں حکومت و دنیا کی طلب نہ تھی
ترغیب وترہیب کی شرح میں ہے کہ
مشاجرات صحابہ میں پڑنے سے بچو بے شک تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)تمام صحابہ کرام خیرالقرون ہیں مجتہد ہیں مجتہد میں سے جو درستگی کو پہنچا اس کے لئے دو اجر اور جس نے خطا کی اس کے لیے ایک اجر
[روح البيان، ٤٣٧/٩]
.
قال ابن الصّلاح: «ثم إن الأمة مجمعة۔۔۔الخ
یعنی
محقق عظیم علامہ ابن صلاح فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)وہ صحابہ کرام بھی عدل ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے اس پر معتدبہ علماء کا اجماع ہے۔۔۔ علامہ خطیب بغدادی فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل ہیں(فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)صحابہ کرام کی تعدیل اللہ نے فرمائی ہے اور اللہ نے ان کی پاکیزگی کی خبر دی ہے
[ابن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ٢٢/١]
.
امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں:
فان معاویة واحزابه بغوا عن طاعته مع اعترافهم بانه افضل اھل زمانه وانه الاحق بالامامة بشبهه هی ترک القصاص عن قتله عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنه ونقل فی حاشیة کمال القری عن علی کرم اللہ تعالیٰ وجهه انہ قال اخواننا بغوا علینا ولیسوا کفرة ولا فسقة لما لھم من التاویل وشک نیست کہ خطاء اجتہادی از ملامت دور است واز طعن وتشنیع مرفوع
بے شک
سیدنا معاویہ اور اس کے لشکر نے حضرت علی سے بغاوت کی، باوجودیکہ کہ وہ مانتے تھے کہ وہ یعنی سیدنا علی تمام اہل زمانہ سے افضل ہے اور وہ اس سے زیادہ امامت کا مستحق ہے لیکن پھر بھی انکی بیعت نہ کی ازروئے شبہ کے کہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے قصاص کا ترک کرنا ہے ۔ اور حاشیہ کمال القری میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ہمارے بھائیوں نے ہم پر بغاوت کی حالانکہ نہ ہی وہ کافر ہیں اور نہ ہی فاسق کیونکہ ان کے لیے تاویل ہے اور شک نہیں کہ خطائے اجتہادی ملامت سے دور ہے اور طعن وتشنیع سے مرفوع ہے
(مکتوبات امام ربانی 331:1)
.
وقد قال - صلى الله عليه وسلم: " «إذا ذكر أصحابي فأمسكوا» " أي: عن الطعن فيهم، فلا ينبغي لهم أن يذكروهم إلا بالثناء الجميل والدعاء الجزيل، وهذا مما لا ينافي أن يذكر أحد مجملا أو معينا بأن المحاربين مع علي ما كانوا من المخالفين، أو بأنمعاوية وحزبه كانوا باغين على ما دل عليه حديث عمار: " «تقتلك الفئةالباغية» " ; لأن المقصود منه بيان الحكم المميز بين الحق والباطل والفاصل بين المجتهد المصيب، والمجتهد المخطئ، مع توقير الصحابة وتعظيمهم جميعا في القلب لرضا الرب
اور بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ میرے صحابہ کا ذکر ہو تو رک جاؤ، یعنی لعن طعن سے رک جاؤ...تو ضروری ہے کہ انکا ذکر ایسے ہو کہ انکی مدح سرائی کی جائے اور دعاء جزیل دی جائے، لیکن اسکا یہ مطلب نہین کہ حضرت علی سے جنگ کرنے والوں کو یا سیدنا معاویہ اور انکے گروہ کو باغی نا کہا جائے(بلکہ مجتہد باغی کہا جائے گا یہ فضائل بیان کرنے کے منافی نہین کہ مجتہد باغی گناہ نہیں) کیونکہ حدیث عمار کہ اے عمار رضی اللہ عنہ تجھے باغی گروہ قتل کرے گا....کیونکہ (اجتہادی باغی خاطی کہنا مذمت کے لیے نہین بلکہ)اس لیے ہے کہ وہ حکم واضح کر دیا جائے جو حق و باطل میں تمییز کرے اور مجتہد مصیب اور مجتہد خطاء کار مین فیصلہ کرے، اس کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کی(فقط زبانی منافقانہ نہیں بلکہ) دلی تعظیم و توقیر ہو، اللہ کی رضا کی خاطر
(مرقاۃ تحت الحدیث3397ملتقط)
ان لوگوں کا رد ہو گیا جو کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ کے متعلق سکوت اختیار کرو۔۔۔۔ارے جناب یہ حدیث کا غلط معنی نکال کر حدیث میں تحریف کی ہے جو کہ کفر تک لے جا سکتی ہے۔۔۔حدیث پاک کا واضح معنی ہے کہ صحابہ کرام کا تذکرہ کیا جائے تو زبان کو سنبھال کر تذکرہ کرو تذکرہ خیر کرو اور تمام علماء نے یہی معنی مراد لی ہے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی صحابہ کرام کی شان بیان کی ہے تو کیا نعوذ باللہ سیدنا معاویہ کے متعلق سکوت کا حکم اس حدیث سے ثابت کرنے والے یہ بھی کہیں گے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی صحابی ہیں ان کے متعلق بھی سکوت کرو ان کے فضائل بیان نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔؟؟
.
پیران پیر دستگیر محبوب سبحانی سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:
واتفق أهل السنة على وجوب الكف عما شجر بينهم، والإمساك عن مساوئهم، وإظهار فضائلهم ومحاسنهم،
اہلسنت کا اس پر اتفاق ہے کہ صحابہ کرام میں جو اختلافات و مشاجرات ہوئے، جو کچھ سیدنا علی و طلحہ و زبیر وعائشہ و معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین میں جو کچھ جاری ہوا اس میں ہم پر واجب ہے کہ ہم اپنی ربان کو لگام دیں اور ان کی مذمت و برائی سے رک جائیں، اور ان کے فضائل و اچھائیاں بیان کریں
(غنیۃ الطالبین جلد1 ص161,163ملتقطا مع حذف یسیر)
۔
ارے نیم رافضی قادری کہلاتا ہے مگر سیدنا شیخ عبدالقادر کی مانتا نہیں۔۔۔۔۔۔؟؟ لوٹ آ ورنہ قادری کہلا کر منافقت نہ کر، قادری کہلا کر چندہ عزت دولت شہرت کما کر کمینگی نہ کر۔۔۔۔۔۔!!
۔
وَقَالَ رَجُلٌ لِلْمُعَافَى بْنِ عِمْرَانَ: أَيْنَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنْ مُعَاوِيَةَ ؟! .. فَغَضِبَ وَقَالَ: لَا يُقَاسُ بِأَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ
ایک شخص نے المعافی سے پوچھا کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز کا مرتبہ سیدنا معاویہ کے معاملے میں کتنا ہے...؟؟ آپ غضبناک ہو گئے اور فرمایا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی صحابی(سیدنا معاویہ وغیرہ) کے برابر کوئی نہیں ہو سکتا
(الشفا بتعريف حقوق المصطفى2/123)
.
مُعَاوِيَةَ وَيَقُولُ: كَانَ مِنَ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ
سیدنا فضیل فرماتے ہیں سیدنا معاویہ اصحاب محمد کے علماء صحابیوں میں سے ہیں
(السنة لأبي بكر بن الخلال2/438)
.
وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ مِنَ الْعُدُولِ الْفُضَلَاءِ وَالصَّحَابَةِ النُّجَبَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَمَّا الْحُرُوبُ الَّتِي جَرَتْ فَكَانَتْ لِكُلِّ طَائِفَةٍ شُبْهَةٌ اعْتَقَدَتْ تَصْوِيبَ أَنْفُسِهَا بِسَبَبِهَا وَكُلُّهُمْ عُدُولٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَمُتَأَوِّلُونَ فِي حُرُوبِهِمْ وَغَيْرِهَا وَلَمْ يُخْرِجْ شئ مِنْ ذَلِكَ أَحَدًا مِنْهُمْ عَنِ الْعَدَالَةِ لِأَنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ اخْتَلَفُوا فِي مَسَائِلَ مِنْ مَحَلِّ الِاجْتِهَادِ كَمَا يَخْتَلِفُ الْمُجْتَهِدُونَ بَعْدَهُمْ فِي مَسَائِلَ مِنَ الدِّمَاءِ وَغَيْرِهَا وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ
نَقْصُ أَحَدٍ مِنْهُمْ
سیدنا معاویہ عادل و دیندار فضیلت والے نجباء صحابہ میں سے ہیں باقی جو ان میں جنگ ہوئی تو ان میں سے ہر ایک کے پاس شبہات تھے اجتہاد جس کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی عادل ہونے کی صفت سے باہر نہیں نکلتا اور ان میں کوئی نقص و عیب نہیں بنتا
(امام نووي ,شرح النووي على مسلم ,15/149)
.=====================
*#فضائل معاویہ میں صحیح حدیث وہ بھی بخاری سے*
الحدیث:
أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ البَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا
میری امت کا پہلا گروہ کہ جو بحری جہاد کرے گا ان کے لئے جنت واجب ہے
(صحيح البخاري,4/42حدیث2924)
(المعجم الكبير للطبراني حدیث323)
(دلائل النبوة للبيهقي مخرجا 6/452)
(مستدرك للحاکم4/599حدیث8668)
۔
أَرَادَ بِهِ جَيش مُعَاوية،وَإِنَّمَا مَعْنَاهُ: أوجبوا اسْتِحْقَاق الْجنَّة
مذکورہ حدیث میں جنتی گروہ سے مراد سیدنا معاویہ کا گروہ ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ جنت کا مستحق ہونا واجب ہوگیا
(عمدة القاري شرح صحيح البخاري14/198ملتقطا)
.
وَفِيهِ فَضْلٌ لِمُعَاوِيَةَ إِذْ جَعَلَ مَنْ غَزَا تَحْتَ رَايَتِهِ مِنَ الْأَوَّلِينَ
یعنی اس حدیث پاک سے معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اسی کے جھنڈے تلے مسلمانوں نےسب سے پہلے بحری جہاد کیا
(الاستذکار لابن عبد البر5/128)
۔
سیدی امام احمد رضا نے بھی اسی حدیث پاک کو دلیل بنا کر سیدنا معاویہ کو جنتی لکھا ہے...(دیکھیے سیدی رضا کی کتاب "تعلیقات امام اہل السنۃ علی العلل المتناہیۃ ص5 مخطوظ)
.
*#سیدنا معاویہ کی فضیلت میں ایک اور صحیح حدیث*
قَالَ: قُلْتُ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ: أَلَيْسَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُلُّ صِهْرٍ وَنَسَبٍ يَنْقَطِعُ إِلَّا صْهِرِي وَنَسَبِي» ؟ قَالَ: " بَلَى، قُلْتُ: وَهَذِهِ لِمُعَاوِيَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ، لَهُ صِهْرٌ وَنَسَبٌ. قَالَ: وَسَمِعْتُ ابْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ: «مَا لَهُمْ وَلِمُعَاوِيَةَ، نَسْأَلُ اللَّهَ الْعَافِيَةَ»
راوی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے سوال کیا کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ ہر نسب اور ہر رشتے داری منقطع ہو جائے گی سوائے میری رشتہ داری اور میرے نسب کے...؟؟ تو امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ جی ہاں یہ حدیث پاک ہے... راوی کہتے ہیں کہ پھر میں نے سوال کیا کہ کیا یہ فضیلت سیدنا معاویہ کو بھی حاصل ہے....؟؟ امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ بے شک یہ فضیلت سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو حاصل ہے کہ ان کا نسب اور ان کی رشتہ داری نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے... امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا کہ سیدنا معاویہ کے بارے میں نامناسب باتیں کرتے ہیں، (نامناسب باتوں اور ایسے لوگوں سے)اللہ عافیت میں رکھے
(أبو بكر الخلال ,السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/432)
۔
*#امام بخاری سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت و شان بیان کرتے ہیں*
سَمِعْتُ بْنَ مُنَبِّهٍ عَنِ ابْنِ عباس قال ما رأيت احدا اخلق للملك مِنْ مُعَاوِيَةَ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کے میں نے(رسول کریم اور خلفاء راشدین وغیرہ مستحقین کے بعد) معاویہ سے بڑھ کر حکومت کے لیے بادشاہت کے لیے کسی کو عظیم مستحق ترین , لائق ترین اور عظیم اخلاق والا نہیں پایا
(التاریخ الکبیر امام بخاری7/321)
.
امام بخاری سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت و شان بیان کرتے ہیں
النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِيَةَ الْحِسَابَ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یا اللہ معاویہ کو حساب کا علم عطا فرما
التاریخ الکبیر امام بخاری7/321)
.
امام بخاری سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت و شان بیان کرتے ہیں
سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِهِ وَاهْدِ بِهِ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ کے متعلق فرمایا یا اللہ اسے ہادی بنا مہدی بنا، اسے ہدایت دے اور اس کے ذریعے ہدایت دے
(التاریخ الکبیر امام بخاری7/321)
نوٹ:
امام بخاری نے صحیح بخاری میں فضائل معاویہ کا باب لکھنے کے بجائے ذکر معاویہ کا باب باندھا... جس سے کچھ لوگوں نے سمجھ لیا کہ سیدنا معاویہ کے بارے میں کوئی معتبر فضیلت ثابت نہیں ہے... امام بخاری کا اپنی دوسری کتاب میں صحیح یا حسن حدیث و روایات بیان کرنا اور اس سے شان امیر معاویہ بیان کرنا اس بات کی دلالت ہے کہ سیدنا معاویہ کی فضیلت ثابت ہے صحیح ترین نہ سہی مگر صحیح یا کم سے کم حسن معتبر حدیث موجود ہے.... دراصل امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں صحیح ترین احادیث کو جمع کیا ہے اور اس میں کیونکہ سید امام بخاری کے مطابق صحیح ترین سیدنا معاویہ کی فضیلت میں نہیں تھی تو اس لیے فضائل معاویہ باب نہ لکھا... لیکن دوسری کتاب میں آپ نے صحیح بخاری کے مقابلے میں یہ شرط نہ رکھیں کے صحیح ترین روایت ذکر کی جائے بلکہ دوسری کتاب میں صحیح روایت حسن روایات بھی لکھی ہیں تو اس لیے آپ نے شان معاویہ دوسری کتاب میں بیان کیا
.
یہی وجہ ہے کہ جن ائمہ محدثین نے اصح ترین حدیث لکھنا اپنے اوپر لازم نہ کیا بلکہ صحیح یا حسن یا ضعیف کو بھی لکھا کہ فضائل میں متفق طور پر یہ قبول ہیں تو انہوں نے فضائل معاویہ، مناقب معاویہ کے عنوان و ابواب لکھے
.
مثلا امام احمد بن حنبل کی کتاب میں باب فضائل معاویہ ہے
فَضَائِلُ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل2/913)
.
علامہ هبة اللہ طبری رازی نے فضائل معاویہ کا باب باندھا
سِيَاقُ مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي فَضَائِلِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة8/1524)
.
علامہ آجری نے کتاب فضائل معاویہ کا عنوان دیا
كِتَابُ فَضَائِلِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
(الشريعة للآجري5/2431)
.
علامہ ابن حجر عسقلانی نے فضل معاویہ باب لکھا
فَضْل مُعَاوِيَةَ رَضِيَ الله عَنْه
(المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية16/434)
.
امام ترمذی نے فضائل کے ہم نام لفظ یعنی مناقب علی اور "مناقب معاویہ" کا باب لکھا
مَنَاقِبُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللہ عنہ...پھر لکھتے ہیں مَنَاقِبُ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
(دیکھیے ترمذی ابواب المناقب)
.
علامہ دھلوی فرماتے ہیں کہ مناقب کا معنی ہے شرف و فضائل
المناقب) جمع منقبة وهي الفضيلة والشرف
(لمعات شرح مشکاۃ9/557)
.
امام بخاری نے فضائل کا ہم نام یعنی مناقب فاطمہ لکھا...اگر مناقب کا معنی فضیلت نہین تو کیا امام بخاری کے مطابق خاتون جنت کی کوئی فضیلت نہیں....؟؟
بَابٌ : مَنَاقِبُ فَاطِمَةَ
(بخاری5/29)
.
مناقب معاوية
(غاية المقصد فى زوائد المسند4/52)
اور بھی بہت کتب ہیں جن کے نام فضائل معاویہ مناقب معاویہ ہیں...کتب میں ابواب و عنوان بےشمار ہیں کہ مناقب معاویہ فضائل معاویہ...ہم نے بطور تبرک چند پیش کییے،حق پسند کے لیے اتنا کافی ہے
۔
سیدنا معاویہ کی فضیلت میں کچھ ضعیف و حسن احادیث بھی ہیں اس کے علاوہ مذکوہ صحیح احادیث بھی سیدنا معاویہ کی فضیلت میں ہے، وہ جو کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ کی فضیلت میں صحیح حدیث نہیں یہ انکی کم علمی یا غلط فھمی یا بےتوجھی ہے
.=======================
*#صحاح ستہ و دیگر کتب احادیث سے سیدنا معاویہ کے متعلق بعض حسن معتبر یا ضعیف معتبر احادیث ملاحظہ کیجیے کہ فضائل میں ضعیف بھی مقبول......!!*
يتْرك)أَي الْعَمَل بِهِ فِي الضَّعِيف إِلَّا فِي الْفَضَائِل
فضائل کے علاوہ میں حدیث ضیف پر عمل نہ کیا جائے گا مگر فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے
(شرح نخبة الفكر للقاري ص185)
.
الحدیث:
لَا تَذْكُرُوا مُعَاوِيَةَ إِلَّا بِخَيْرٍ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ اهْدِ بِهِ»
حضرت معاویہ کا تذکرہ خیر کےساتھ ہی کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی وعلیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ! اسے(ہدایت یافتہ بنا کر اسے)ذریعہ ہدایت بنا۔
(سنن الترمذي ت شاكر ,5/687حدیث3843)
اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا رد نہیں ہوتی لہذا سیدنا معاویہ اور ان کا گروہ فاسق منافق نہ تھےہدایت یافتہ تھے اگرچہ اجتہادی خطا پر تھے کیونکہ اجتہادی خطا پر بھی ایک ثواب ملتا ہے
.
الحدیث:
جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، اسْتَوْصِ مُعَاوِيَةَ ; فَإِنَّهُ أَمِينٌ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ، وَنِعْمَ الْأَمِينُ هُوَ
جناب جبریل رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے محمد! معاویہ سے خیر خواہی کرو کیونکہ وہ اللہ کی کتاب پر امین ہیں اور وہ کیا ہی اچھے امین ہیں۔
(الطبراني ,المعجم الأوسط ,4/175حدیث3902)
(جامع الأحاديث ,1/200حدیث321)
حضرت جبرائیل علیہ السلام کا حضرت معاویہ کو امین کہنا اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا انکار نا فرمانا بلکہ سیدنا معاویہ کو کاتب رکھ لینا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ آمین ایماندار تھے فاسق منافق نہ تھے
.
.
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا لِمُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ «اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ، وَالْحِسَابَ وَقِهِ الْعَذَابَ»
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت معاویہ بن سفیان کیلئے دعا فرمائی،اے اللہ اسے لکھنا اور حساب سکھا اور اسے عذاب سے محفوظ فرما۔
(السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/459 حدیث712)
(فضائل الصحابة لاحمد بن حنبل حدیث1749)۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اللہ تعالی سیدنا معاویہ کو عذاب سے بچائے اور نبی پاک کی دعا رد نہیں ہوتی لہذا سیدنا امیر معاویہ جنتی ہیں فاسق منافق نہیں, انہیں عذاب نہ ہوگا جب کہ فاسق منافق کو عذاب ہوتا ہے
.
«دَخَلَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ وَرَأْسُ مُعَاوِيَةَ فِي حِجْرِهَا وَهِيَ تُقَبِّلُهُ، فَقَالَ لَهَا: " أَتُحِبِّينَهُ؟ ". فَقَالَتْ: وَمَا لِي لَا أُحِبُّ أَخِي! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " فَإِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُحِبَّانِهِ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام حبیبہ کے پاس آئے اور سیدنا معاویہ کا سر مبارک سیدہ ام حبیبہ کے جھولی میں تھا اور سیدہ ام حبیبہ بوسہ دے رہی تھی کہ رسول کریم نے فرمایا کہ کیا تم معاویہ سے اتنی محبت کرتی ہو؟ عرض کی کیوں نہ کروں؟میرے بھائی ہیں( اور مسلمان ہوچکے ہیں) تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ اور اس کا رسول بھی معاویہ سے محبت کرتے ہیں
(مجمع الزوائد حدیث15923)
.
ادْعُوا لِي مُعَاوِيَةَ ، فَلَمَّا وَقَفَ عَلَيْهِ ، قَالَ : أَشْهِدُوهُ أَمَرَكُمْ ، أَحْضِرُوهُ أَمَرَكُمْ ، فَإِنَّهُ قَوِيُّ أَمِينٌ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معاویہ کو بلاؤ جب وہ حاضر ہوئے تو فرمایا معاویہ کو اپنے معاملات میں شامل کیا کروں اس سے مشورہ کیا کرو بے شک وہ قوی(علم و حکمت و تجربے والا) ہے آمین ہے امانت دار ہے
(البحر الزخار بمسند البزاز حدیث2987)
.
النبي صلى الله عليه وسلم انه قال لمعاوية: " اللهم اجعله هاديا مهديا واهد به
صحابی رسول عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا: ”اے اللہ! تو ان کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنا دے، اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے
(ترمذی حدیث3842)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا رد نہیں ہوتی لہذا حضرت امیر معاویہ ہدایت یافتہ تھے فاسق منافق نہیں۔۔۔بلکہ اکثر معاملات میں ہدایت دینے والے مجتہد تھے اکا دکا معاملات میں اجتہادی خطا ان سے ہوئی جس پر حدیث پاک کے مطابق ایک اجر ملے گا
فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ، فَلَهُ أَجْرٌ
اجتہاد کرے پھر وہ درستگی کو پائے تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر اجتہاد کرے اور خطاء کرے تو اس کے لئے ایک اجر ہے(بخاری حدیث7352)
۔
################
*#سیدنا معاویہ کی حکومت سیدنا عمر کی حکومت جیسی عادلانہ برحق تھی،رضی اللہ تعالیٰ عنھما*
عَمِلَ مُعَاوِيَةُ بِسِيرَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ سِنِينَ لَا يَخْرِمُ مِنْهَا شَيْئًا»
سیدنا معاویہ نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت پر سالوں تک عمل کیا۔۔۔ان سالوں میں سوئی برابر بھی راہ حق سے نہ ہٹے
(السنة لأبي بكر بن الخلال روایت683)
وقال المحقق إسناده صحيح
حاشیۃ معاوية بن أبي سفيان أمير المؤمنين وكاتب وحي النبي الأمين صلى الله عليه وسلم - كشف شبهات ورد مفتريات1/151)
سالوں کی قید شاید اس لیے لگاءی کہ تاکہ وہ سال نکل جائیں جن میں سیدنا معاویہ نے ولی عہد کیا...کیونکہ ولی عہد سیدنا عمر کی سیرت نہیں بلکہ سیدنا معاویہ کا اجتہاد تھا...جب سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حکومت سیدنا عمر کے نقش قدم پر تھی اور سیدنا عمر کی حکومت رسول کریم کے ارشادات کے مطابق تھی تو ایسی برحق عادلانہ حکومتوں کے بارے میں کیوں نہ کہا جائے کہ *#فیضان عمر بھی جاری رہے گا ، فیضان علی بھی جاری رہے گا ،فیضان معاویہ بھی جاری رہے گا*
.
سیدنا معاویہ فقیہ مجتہد تھے
قَالَ : إِنَّهُ فَقِيهٌ
فرمایا کہ بےشک معاویہ فقیہ ہیں
(بخاری روایت3765)
.
الحدیث:
فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ، فَلَهُ أَجْرٌ
اجتہاد کرے پھر وہ درستگی کو پائے تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر اجتہاد کرے اور خطاء کرے تو اس کے لئے ایک اجر ہے(بخاری حدیث7352)
.
لہذا ولی عہد کرنا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا اجتہاد تھا اور اجتہاد میں اگر خطاء بھی واقع ہو تو اس کے لیے ایک اجر ہے...لیھذا ولی عہدی کی وجہ سے سیدنا معاویہ پر طعن و مذمت نہیں بنتی......!! کیونکہ جب ولی عہد یزید کو بنایا تھا تو اس اس وقت یزید میں کوئی خرابیاں ظاہر نہ تھیں۔۔۔۔۔یزید تو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کے بعد پلید و گندا ظاہر ہوا
.
*#امام حسن رضی اللہ عنہ نے جب خلافت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کی ، صلح کی اور سیدنا معاویہ کی حکومت منھج رسول ، منھج خلفاء راشدین پے رہی الا چند مجتہدات کے تو سیدنا معاویہ کی حکومت عادلہ راشدہ کہلائی، خلافت راشدہ تب کہلاتی جب حدیث کے مطابق تیس سال کے دوران ہوتی...حکومت عادلہ ہے تو ایسی حکومت بادشاہت زندہ باد کیوں نہ ہو....؟؟*
.
وقد كان ينبغي أن تلحق دولة معاوية وأخباره بدول الخلفاء وأخبارهم فهو تاليهم في الفضل والعدالة والصحبة
(سیدنا امام حسن نے جب حکومت سیدنا معاویہ کو دی انکی بیعت کی، ان سے صلح کی تو اس کے بعد)سیدنا معاویہ کی حکومت خلفاء راشدین کی حکومت کی طرح حکومت عادلہ کہلانی چاہیے اور سیدنا معاویہ کے اقوال و اخبار بھی خلفاء راشدین کے اقوال و اخبار کی طرح کہلانے چاہیے کیونکہ فضیلت عدالت اور صحابیت میں سیدنا معاویہ خلفاء راشدین کے بعد ہیں
(تاریخ ابن خلدون2/650)
.
سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نےجب سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت کی اس وقت سے سیدنا معاویہ برحق "امیر المومنین" قرار پائے، اور آپکی حکومت اچھی(برحق.و.عادلہ)قرار پائی
(دیکھیے بخاری روایت3765, بدایہ نہایہ11/143، تاریخ الخلفاء ص256وغیرہ)
.
قَالَ كَعْب الْأَحْبَار لم يملك أحد هَذِه الْأمة مَا ملك مُعَاوِيَة
ترجمہ:
سیدنا کعب الاحبار نے فرمایا کہ جیسی(عظیم عادلہ راشدہ) بادشاہت سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تھی ایسی کسی کی بادشاہت نہیں تھی
(صواعق محرقہ2/629)
.
ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُوْلُ:مَا رَأَيْتُ رَجُلاً كَانَ أَخْلَقَ لِلمُلْكِ مِنْ مُعَاوِيَةَ
ترجمہ:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کے میں نے(رسول کریم اور خلفاء راشدین وغیرہ مستحقین کے بعد) معاویہ سے بڑھ کر حکومت کے لیے بادشاہت کے لیے کسی کو عظیم مستحق ترین , لائق ترین اور عظیم اخلاق والا نہیں پایا
[سير أعلام النبلاء3/153]
.
عَنِ ابْن عُمَر، قَالَ: مَا رأيت أحدا بعد رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أسود من مُعَاوِيَة. فقيل لَهُ: فأبو بَكْر، وَعُمَر، وعثمان، وعلي! فَقَالَ: كانوا والله خيرا من مُعَاوِيَة، وَكَانَ مُعَاوِيَة أسود منهم
سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا معاویہ سے بڑھ کر کسی کو کثرت سے کرم نوازی کرنے والا ، حلم و بردباری والا، سخاوت کرنے والا نہیں پایا...کسی نے پوچھا کہ ابوبکر عمر عثمان اور علی سے بھی زیادہ۔۔۔؟فرمایہ کہ یہ سب حضرات سیدنا معاویہ سے افضل تھے مگر کثرت کرم نوازی بردباری سخاوت میں سیدنا معاویہ زیادہ تھے
[الاستيعاب في معرفة الأصحاب ,3/1418]
مجمع الزوائد روایت15921نحوہ]
[السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/441نحوہ]
.
*#سیدنا معاویہ اور عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جھلک*
أوصى أن يكفن فِي قميص كَانَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قد كساه إياه، وأن يجعل مما يلي جسده، وَكَانَ عنده قلامة أظفار رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فأوصى أن تسحق وتجعل فِي عينيه وفمه
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے وصیت کی تھی کہ انہیں کفن میں وہ قمیض پہنائی جائے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہنائی تھی اور سیدنا معاویہ کے پاس حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے ناخن مبارک کے ٹکڑے تھے ان کے متعلق وصیت فرمائی کہ وہ ان کی آنکھوں اور منہ پر رکھے جائیں
[أسد الغابة ,5/201]
.
وَبَلَغ مُعَاوِيَة أنّ كَابِس بن رَبِيعَة يُشْبِه بِرَسُول اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْه ...الخ
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتے تھے،ایک دفعہ حضرت قابس بن ربیعہ آپ کے پاس آئے تو آپ انکی تعظیم میں کھڑے ہوگئے اور انکی پیشانی پر بوسہ دیا اور مرغاب نامی علاقہ ان پر نچھاور کر دیا، ان کے لیے وقف کردیا
وجہ فقط اتنی تھی کہ حضرت قابس کے چہرے کی کچھ مشابہت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے تھی
(دیکھیے شفا شریف2/51)
.
*#جہاد و فتوحاتِ سیدنا معاویہ کی جھلک*
وفي سنة ثلاث وأربعين فتحت الرخج وغيرها من بلاد سجستان، وودان من برقة، وكور من بلاد السودان
وفي سنة خمس وأربعين فتحت القيقان قوهستان
خلاصہ:
رخج وغیرہا کئ ممالک سجستان ودان کور سوڈان قعقان قوہستان وغیرہ کئ ممالک سلطنتیں سیدنا معاویہ کے دور میں فتح ہوئے...عرب تا افریقہ تک تقریبا آدھی دنیا پر سیدنا معاویہ کی حکومت تھی
[تاريخ الخلفاء ,page 149ملخصا]
.
*#سیدنا معاویہ کی ازواج مطہرات کی خدمت کی ایک جھلک*
سیدنا معاویہ بی بی عائشہ کو تحفے تحائف تک بھیجا کرتے تھے جو اس طرف واضح اشارہ ہے کہ سیدنا معاویہ رسول کریم کی ازواج مطہرات کا خیال رکھا کرتے تھے
أَهْدَى مُعَاوِيَةُ لِعَائِشَةَ ثِيَابًا وَوَرِقًا وَأَشْيَاءَ
ترجمہ:
حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کو کپڑے اور چاندی کے سکے(نقدی) اور دیگر چیزیں تحفے میں بھیجیں
(حلية الأولياء 2/48)
.
سیدنا معاویہ اہلبیت کو تحائف دیتے وہ قبول فرماتے
ﻭﻋﻦ ﺟﻌﻔﺮِ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﺃﻥَّ ﺍﻟﺤﺴﻦَ ﻭﺍﻟﺤﺴﻴﻦَ ﻛﺎﻧﺎ ﻳَﻘْﺒَﻼﻥِ ﺟﻮﺍﺋﺰَ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ.
سیدنا حسن حسین سیدنا معاویہ کے تحائف قبول کرتے تھے
( المصنف - ابن أبي شيبة -4/296)
.
۔۔۔۔۔۔۔ﻓﺄﺟﺎﺯﻩ ﺑﺄﺭﺑﻌﻤﺎﺋﺔ ﺃﻟﻒ، ﻓﻘَﺒِﻠﻬﺎ
ایک دفعہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے تو سیدنا معاویہ نے فرمایا کہ آج میں آپ کو وہ تحفہ دوں گا کہ ایسا تحفہ آپ سے پہلے کسی کو نہ دیا اور نہ دوں گا پھر سیدنا معاویہ نے آپ کو چار لاکھ درھم تحفے میں دیے امام حسن نے قبول فرمائے
(المصنف - ابن أبي شيبة -6/188)
.
صرف تحفے لینے اور دینے کا معاملہ نہ تھا بلکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالئ عنہ تعریف بھی کیا کرتے تھے
فَلَمَّا اسْتَقَرَّتِ الْخِلَافَةُ لِمُعَاوِيَةَ كَانَ الْحُسَيْنُ يَتَرَدَّدُ إِلَيْهِ مَعَ أَخِيهِ الْحَسَنِ، فَكَانَ مُعَاوِيَةُ يُكْرِمُهُمَا إِكْرَامًا زَائِدًا، وَيَقُولُ لَهُمَا: مَرْحَبًا وَأَهْلًا. وَيُعْطِيهِمَا عَطَاءً جَزِيلًا
جب سیدنا معاویہ کی خلافت (سیدنا حسن و حسین وغیرھما کی صلح کے بعد) قائم ہوگئ تو سیدنا حسن اور حسین سیدنا معاویہ کے پاس آیا کرتے تھے اور سیدنا معاویہ ان کا بے حد احترام عزت و اکرام کرتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ مرحبا اپنے گھر میں ہی آئے ہو اور انہیں بہت بڑے بڑے تحفے دیتے تھے
(البداية والنهاية ت التركي11/476)
.##################
: قلتُ لأبي عبد اللَّه: أيهما أفضل: معاوية أو عمر بن عبد العزيز؟فقال: معاوية أفضل، لسنا نقيس بأصحاب رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم- أحدًا؛ قال النبي -صلى اللَّه عليه وسلم-: "خيرُ الناسِ قرني الذي بعثتُ فيهم
امام احمد بن حنبل کے بیٹے کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ کون افضل ہے سیدنا معاویہ یا عمر بن عبدالعزیز.....؟؟ امام احمد بن حنبل نے فرمایا سیدنا معاویہ افضل ہیں اور فرمایا کہ ہم وہ لوگ نہیں کہ جو صحابہ کرام کے برابر کسی(تابعی وغیرہ) کو کہیں، صحابہ کرام تو وہ عظیم شخصیت ہیں جن کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین لوگ وہ ہیں کہ جن میں مجھے مبعوث کیا گیا
(كتاب الجامع لعلوم الإمام أحمد - العقيدة4/465)
.
امام احمد بن حنبل نے سیدنا معاویہ کو فضیلت والا صحابی قرار دیا جیسے کہ اوپر حوالہ جات گذرے اور پھر امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ کسی بھی ایک صحابی کی کوئی توہین کرے تو اس کو اسلام پر مت سمجھو
قَالَ لِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: يَا أَبَا الْحَسَنِ، إِذَا رَأَيْتَ رَجُلًا يَذْكُرُ أَحَدًا مِنَ الصَّحَابَةِ بِسُوءٍ فَاتَّهِمْهُ عَلَى الْإِسْلَامِ
راوی کہتے ہیں کہ مجھے امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ کسی بھی ایک صحابی کو نامناسب الفاظ سے یاد کرے تو اس کے ایمان پر شک کرو
( البداية والنهاية ت التركي11/450)
.
حتی کہ امام احمد بن حنبل کے مطابق جو سیدنا معاویہ وغیرہ کسی صحابی کے بارے میں نامناسب کہے تو اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے ورنہ بائیکاٹ کا حکم دیا امام احمد بن حنبل نے.... ایسے لوگوں کے بیانات وغیرہ روایات وغیرہ نہ سننے نہ ماننے کا حکم دیا امام احمد بن حنبل نے... اور امام احمد بن حنبل نےحکم دیا کہ لوگوں میں ایسوں کی مذمت کی جائے جو سیدنا معاویہ وغیرہ کے متعلق توہین کریں یا بے ادبی کریں
يقول لأبي عبد اللَّه: جاءني كتاب من الرقة أن قومًا قالوا: لا نقول: معاوية خال المؤمنين. فغضب وقال: ما اعتراضهم في هذا الموضع؟ يجفون حتى يتوبوا
ایک خط آیا لوگوں نے پوچھا کہ آپ کیا فرماتے ہیں معاویہ مومنوں کے ماموں ہیں یا نہیں تو امام احمد بن حنبل غضبناک ہو گئے اور فرمایا یہ( یعنی صحابہ کرام) بھی کوئی اعتراض کی جگہ ہیں....؟؟ ایسے لوگوں سے بے رخی اور سختی سے پیش آیا جائے گا ( بائیکاٹ کیا جائے گا) یہاں تک کہ توبہ کریں
(كتاب الجامع لعلوم الإمام أحمد - العقيدة4/464)
.
وَجَّهْنَا رُقْعَةً إِلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ: مَا تَقُولُ رَحِمَكَ اللَّهُ فِيمَنْ قَالَ: لَا أَقُولُ إِنَّ مُعَاوِيَةَ كَاتَبُ الْوَحْيِ، وَلَا أَقُولُ إِنَّهُ خَالُ الْمُؤْمِنِينَ، فَإِنَّهُ أَخَذَهَا بِالسَّيْفِ غَصْبًا؟ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: هَذَا قَوْلُ سَوْءٍ رَدِيءٌ، يُجَانَبُونَ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ، وَلَا يُجَالَسُونَ، وَنُبَيِّنُ أَمْرَهُمْ لِلنَّاسِ
ہم نے ایک خط امام احمد بن حنبل کی جانب سے لکھا کہ آپ کیا فرماتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو کہتا ہے کہ میں معاویہ کو کاتب وحی نہیں کہوں گا اور میں انہیں مومنوں کا ماموں نہیں کہوں گا، معاویہ نے طاقت کے زور پر حکومت حاصل کی ہے.... امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ یہ برا قول ہے ردی قول ہے ایسے قول کہنے والے لوگوں سے کنارہ کشی کی جائے گی ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نہ کیا جائے گا(بائیکاٹ کیا جائے گا) اور ایسے لوگوں کے کرتوت و مذمت ہم لوگوں میں عام کریں گے( تاکہ لوگ ایسے لوگوں خطیبوں لکھاریوں سے کنارہ کشی کریں اور گمراہ نہ ہوں)
(أبو بكر الخلال ,السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/434)
.
مبتدع زنديق من سب معاوية أو غيره من الصحابة رضي الله عنهم أجمعين
جو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی گستاخی کرے یا کسی اور صحابی کی گستاخی کرے وہ بدمذہب بدعتی زندیق ہے(شرح أصول اعتقاد أهل السنة للالكائي - محمد حسن عبد الغفار62/18)
.
إِسْحَاق بْن إِبْرَاهِيمَ قَالَ: سمعت أبا عبد اللَّه يسأل عَنِ الذي يشتم معاوية نصلي خلفه قَالَ: لا ولا كرامة
سیدنا اسحاق بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا کہ جو شخص سیدنا معاویہ کی گستاخی کرے کیا ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں تو فرمایا ہر گز نہیں..اور اس گستاخ کی کوئی عزت نہیں
(طبقات الحنابلہ1/108)
.
سمجھانے کےساتھ ساتھ مسلمانی کے دعوےدار بدمذہب و گستاخ سے بائیکاٹ کا حکم ہے....!! سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا علی سیدنا معاویہ کسی بھی صحابی کے گستاخ کو سمجھاؤ سمجھاؤ، اور اس کے ساتھ ساتھ بائیکاٹ کیجیے، ان کے ساتھ انکے پیچھے نماز نہ پڑہیے، نہ کھائیے نہ پئیے...محافل میں نہ بلائیے.. انکی نہ سنیے، نہ مانیے.....!!
.
امام عبداللہ بن مبارک رحمہ الہ جن کا شمار کبار محدثین وفقہاء میں ہوتا ہے، ان سے سوال ہوا کہ صحابی سیدنا معاویہ افضل ہیں یا تابعی سیدنا عمر بن عبد العزیز....؟؟فرماتے ہیں: الْغُبَار الَّذِي دخل أنف فرس مُعَاوِيَة مَعَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم خير من عمر ابْن عبد الْعَزِيز كَذَا وَكَذَا مرة
اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ کی معیت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک کی غبار تابعی خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے اتنے اتنے درجہ افضل ہے(بعض روایات میں ہے کہ ہزار درجہ بہتر ہے)
(الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة2/613)
.
عظیم صوفی حضرت بشر حافی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں خود سن رہا تھا امام معافی بن عمران جن کا لقب یاقوتۃ العلماء تھا سے پوچھا گیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ؟ انہوں نے فرمایا: ”كان معاوية أفضل من ستمائة مثل عمر بن عبدالعزيز“
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تو تابعی خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ جیسے چھ سو بزرگوں سے بھی افضل ہیں
(السنة لأبي بكر بن الخلال2/435)
.
أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيِّ، أَنَّهُ قَالَ لَهُ رَجُلٌ: إِنِّي أُبْغِضُ مُعَاوِيَةَ. فَقَالَ لَهُ: وَلِمَ؟ قَالَ: لِأَنَّهُ قَاتَلَ عَلِيًّا. فَقَالَ لَهُ أَبُو زُرْعَةَ: وَيْحَكَ! إِنَّ رَبَّ مُعَاوِيَةَ رَبٌّ رَحِيمٌ، وَخَصْمُ مُعَاوِيَةَ خَصْمٌ كَرِيمٌ، فَأَيْشِ دُخُولُكَ أَنْتَ بَيْنَهُمَا؟ !
امام ابو زرعہ رازی کے پاس ایک شخص آیا۔ اس نے کہا کہ میں معاویہ سے بغض رکھتا ہوں، ابوزرعہ نے کہا کیوں؟ تو اس شخص نے کہا: اس لئے کہ معاویہ نے علی سے جنگ کی۔ تو ابو زرعہ نے اسے کہا کہ معاویہ کا ربّ، ربِّ رحیم ہے۔ اور معاویہ کا مدِ مقابل سیدنا علی کریم ہے۔ تُو ان دونوں کے درمیان کیوں گھستا ہے۔۔۔؟
(البداية والنهاية ت التركي11/427)
.
*#سیدنا معاویہ عاجزی انکساری عبادت گذاری عوام کی خدمت غریبوں کی مدد صحابہ و اہلبیت اور انکی اولادوں کی خدمت اور جہاد جدت و ترقیاتی کام ، برائی سے بچنے بچانے، نیکی کا حکم دینے وغیرہ معاملات میں سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سخت پیروکار تھے اور سیدنا عمر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکات و سنن کے پیروکار تھے، جدت ترقی اجتہاد بھی حدیث و سنت سے ثابت ہے انکی......!!*
.
فَيَدُورُ عَلَى الْمَجَالِسِ يَسْأَلُ هَلْ وُلِدَ لِأَحَدٍ مَوْلُودٌ، أَوْ قَدِمَ أَحَدٌ مِنَ الْوُفُودِ، فَإِذَا أُخْبِرَ بِذَلِكَ أَثْبَتَ فِي الدِّيوَانِ. يَعْنِي لِيُجْرِيَ عَلَيْهِ الرِّزْقَ
(سیدنا معاویہ نے احادیث و حضرت سیدنا عمر کی سیرت سے اخذ کرکے ایک شخص کو مقرر کیا کہ)وہ چکر لگاتا اگر کہیں کوئی اولاد پیدا ہوتی یا کہیں کوئی وفد و مہمان آتا تو(سیدنا معاویہ کی حکومت کی طرف سے) اس کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کیا جاتا تھا، بچے کے لیے ضروریات کا انتظام کیا جاتا...(البداية والنهاية ت التركي11/438)
.
*#تقریبا آدھی دنیا کے حکمران تھے سیدنا معاویہ اور سخی و مددگار بھی تھے تو ان کے لیے جائز طریقے سے دولمتمندی بہت اہم تھی......!!*
وفي سنة ثلاث وأربعين فتحت الرخج وغيرها من بلاد سجستان، وودان من برقة، وكور من بلاد السودان
وفي سنة خمس وأربعين فتحت القيقان قوهستان
خلاصہ:
رخج وغیرہا کئ ممالک سجستان ودان کور سوڈان قعقان قوہستان وغیرہ کئ ممالک سلطنتیں سیدنا معاویہ کے دور میں فتح ہوئے...عرب تا افریقہ تک تقریبا آدھی دنیا پر سیدنا معاویہ کی حکومت تھی
[تاريخ الخلفاء ,page 149ملخصا]
.
*#سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عاجزی انکساری زھد و تقوی کی ایک جھلک.......!!*
خَرَجَ مُعَاوِيَةُ ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَابْنُ صَفْوَانَ حِينَ رَأَوْهُ، فَقَالَ : اجْلِسَا....
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے تو سیدنا عبداللہ بن زبیر اور سیدنا ابن صفوان نے جب ان کو دیکھا تو کھڑے ہو گئے( سیدنا معاویہ نے عاجزی انکساری کرتے ہوئے ، شریعت و حدیث پے عمل کرتے ہوئے فرمایا میرے لیے کھڑے نہ ہوا کرو اور)فرمایا کہ بیٹھ جاؤ
(ترمذی 2755)
.
قَلَّمَا يَكَادُ أَنْ يَدَعَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ أَنْ يُحَدِّثَ بِهِنَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ : " مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّ هَذَا الْمَالَ حُلْوٌ خَضِرٌ ، فَمَنْ يَأْخُذْهُ بِحَقِّهِ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَإِيَّاكُمْ وَالتَّمَادُحَ فَإِنَّهُ الذَّبْحُ
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اکثر جمعہ مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے اور یہ مال میٹھا ہے سرسبز ہے جو شخص اس کو حق کے ساتھ لے گا اس کے لیے برکت ہوگی اور اپنے آپ کو (خوشامدی اور مبالغانہ ناحق یا زیادہ)تعریف کرنے والا مت بناؤ کہ یہ ہلاکت میں ڈالنا ہے
(مسند احمد بن حنبل 16846)
.
، فقال معاوية للناس: إن هذا أحياني أحياه الله
ایک شخص نے سیدنا معاویہ کو مدلل جواب دیا تو آپ نے ان کی اصلاح کو قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے مجھے زندہ کر دیا ہے اللہ اسے زندہ رکھے
(موسوعة الأخلاق والزهد والرقائق1/241)
ثابت ہوا کہ تکبر بڑائی والے نہ تھے، اصلاح قبول فرما لیتے جوکہ عاجزی و انکساری کی علامت ہے...ہاں سیدنا معاویہ اجتہادی مسائل میں مدلل اختلاف بھی رکھتے تھے جیسے کہ دیگر بعض صحابہ کرام و بعض اہلبیت عظام بھی مدلل فروعی اجتہادی اختلاف کرتے تھے
.
يا معاوية، إن هذا المال ليس بمالك۔۔۔۔۔الخ
ابو مسلم نےسیدنا معاویہ سے فرمایا کہ آپ عطیات کیوں نہیں دے رہے....؟؟ یہ آپ کے ذاتی تو نہیں ہیں...؟؟ سیدنا معاویہ ممبر سے نیچے تشریف لائے اور وضو فرمایا... پھر ممبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ ابو مسلم نے سچ کہا ہے اور رسول کریم نے فرمایا ہے کہ جب غصہ آئے تو اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو(لیھذا میں نے وضو کیا)تو لے لو مجھ سے اپنے عطیات اللہ کی برکت سے
(موسوعة الأخلاق والزهد والرقائق2/131ملخصا)
.
: رَأَيْتُ مُعَاوِيَةَ عَلَى الْمِنْبَرِ بِدِمَشْقَ يَخْطُبُ النَّاسَ وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ مَرْقُوعٌ
راوی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا معاویہ کو دمشق میں ممبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا وہ لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے اور آپ کی قمیض مبارک پر پیوند لگے ہوئے تھے
(الزهد لأحمد بن حنبل ص142)
.
انَ مُعَاوِيَةُ مُتَوَاضِعًا....رَأَيْتُ مُعَاوِيَةَ فِي سُوقِ دِمَشْقَ وَهُوَ مُرْدِفٌ وَرَاءَهُ وَصِيفًا، عَلَيْهِ قَمِيصٌ مَرْقُوعُ الْجَيْبِ، وَهُوَ يَسِيرُ فِي أَسْوَاقِ دِمَشْقَ
بے شک سیدنا معاویہ بہت عاجزی انکساری والے تھے میں نے سیدنا معاویہ کو دمشق کے بازاروں میں دیکھا کہ وہ بازاروں میں گھوم رہے تھے حالانکہ آپ کی قمیض مبارک پر پیوند لگے تھے
(البداية والنهاية ت التركي11/438)
.
بعض اسلامی بادشاہوں اور علماء صوفیاء ائمہ سے عمدہ لباس پہننا ، عمدہ جگہ بیٹھنا بھی ثابت ہے تو یہ بھی سنتِ رسول سے ثابت ہے بشرطیکہ ہم تکبر نہ کریں، دوسروں کو ، طلباء کو، ماتحتوں کو، محبین کو ، مریدین کو ، عوام کو حقیر نہ سمجھیں اور موقعہ مناسبت سے عاجزی انکساری کا اظہار بھی کریں......!!
.
ھذہ جُبَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَلْبَسُهَا لِلْوُفُودِ، وَيَوْمَ الْجُمُعَةِ
یہ جبہ مبارک جو رسول کریم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ملاقاتوں کے لیے اور جمعہ(اور عید وغیرہ)میں پہنا کرتے تھے
(الأدب المفرد بخاری - ت عبد الباقي ص127)
.
.==============
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
والظاهر أن ربنا واحد ونبينا واحد، ودعوتنا في الاسلام واحدة. لا نستزيدهم في الإيمان بالله والتصديق برسوله صلى الله عليه وآله ولا يستزيدوننا. الأمر واحد إلا ما اختلفنا فيه من دم عثمان
یہ بات بالکل واضح ہے ظاہر ہے کہ ان(سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہ)کا اور ہمارا رب ایک ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہے، انکی اور ہماری اسلامی دعوت و تبلیغ ایک ہے، ہم ان کو اللہ پر ایمان رسول کریم کی تصدیق کے معاملے میں زیادہ نہیں کرتے اور وہ ہمیں زیادہ نہیں کرتے...ہمارا سب کچھ ایک ہی تو ہے بس صرف سیدنا عثمان کے قصاص کے معاملے میں اختلاف ہے
(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ3/114)
ثابت ہوا کہ سیدنا علی کا ایمان سیدنا معاویہ کا ایمان سیدنا معاویہ کا اسلام سیدنا علی کا اسلام اہل بیت کا اسلام صحابہ کرام کا اسلام قرآن و حدیث سب کے سب معاملات میں متفق ہی تھے،سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ سب کے مطابق قرآن و حدیث میں کوئی کمی بیشی نہ تھی....پھر کالے مکار بے وفا ایجنٹ غالی جھوٹے شیعوں نے الگ سے حدیثیں بنا لیں، قصے بنا لیے،الگ سے فقہ بنالی، کفریہ شرکیہ گمراہیہ نظریات و عمل پھیلائے، سیدنا علی و معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام کے اختلاف کو دشمنی منافقت کفر کا رنگ دے دیا...انا للہ و انا الیہ راجعون
.
شیعوں کی معتبر کتاب نہج البلاغۃ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم موجود ہے کہ:
ومن كلام له عليه السلام وقد سمع قوما من أصحابه يسبون أهل الشام أيام حربهم بصفين إني أكره لكم أن تكونوا سبابين، ولكنكم لو وصفتم أعمالهم وذكرتم حالهم كان أصوب في القول
جنگ صفین کے موقعے پر اصحابِ علی میں سے ایک قوم اہل الشام (سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرھما رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین) کو برا کہہ رہے تھے، لعن طعن کر رہے تھے
تو
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا:
تمہارا (اہل شام، معاویہ ، عائشہ صحابہ وغیرہ کو) برا کہنا لعن طعن کرنا مجھے سخت ناپسند ہے ، درست یہ ہے تم ان کے اعمال کی صفت بیان کرو...(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ ص437)
ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہھما صحابہ کرام پر لعن طعن گالی و مذمت کرنے والے شیعہ ذاکرین ماکرین رافضی نیم راضی محبانِ اہلِ بیت نہیں بلکہ نافرمان و مردود ہیں،انکےکردار کرتوت حضرت علی کو ناپسند ہیں..سخت ناپسند
.
ان عليا لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق ولكنه كان يقول: هم إخواننا بغوا علينا
ترجمہ:
بےشک سیدنا علی اپنےاہل حرب(سیدنا معاویہ،سیدہ عائشہ اور انکےگروہ)کو نہ تو مشرک کہتےتھےنہ منافق…بلکہ فرمایا کرتےتھےکہ وہ سب ہمارےبھائی ہیں مگر(مجتہد)باغی ہیں(شیعہ کتاب بحارالانوار32/324)
(شیعہ کتاب وسائل الشیعۃ15/83)
(شیعہ کتاب قرب الاسناد ص94)
سیدنا ابوبکر و عمر، سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام کو کھلےعام یا ڈھکے چھپے الفاظ میں منافق بلکہ کافر تک بکنے والے،توہین و گستاخی کرنےوالےرافضی نیم رافضی اپنےایمان کی فکر کریں…یہ محبانِ علی و اہلبیت نہیں بلکہ نافرمانِ علی ہیں،نافرمانِ اہلبیت ہیں
.
فنعى الوليد إليه معاوية فاسترجع الحسين...سیدنا حسین کو جب سیدنا معاویہ کی وفات کی خبر دی گئ تو آپ نےاِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا…(شیعہ کتاب اعلام الوری طبرسی1/434) مسلمان کو کوئی مصیبت،دکھ ملےتو کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ(سورہ بقرہ156)ثابت ہوا سیدنا معاویہ امام حسین کے مطابق کافر ظالم منافق دشمن برے ہرگز نہ تھے جوکہ مکار فسادی نافرمان دشمنان اسلام گستاخانِ معاویہ کے منہ پر طمانچہ ہے
.
هذا ما صالح عليه الحسن بن علي بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان: صالحه على أن يسلم إليه ولاية أمر المسلمين، على أن يعمل فيهم بكتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وآله وسيرة الخلفاء الصالحين
(شیعوں کے مطابق)امام حسن نے فرمایا یہ ہیں وہ شرائط جس پر میں معاویہ سے صلح کرتا ہوں، شرط یہ ہے کہ معاویہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سیرتِ نیک خلفاء کے مطابق عمل پیرا رہیں گے
(شیعہ کتاب بحار الانوار جلد44 ص65)
سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "نیک خلفاء کی سیرت" فرمایا جبکہ اس وقت شیعہ کے مطابق فقط ایک خلیفہ برحق امام علی گذرے تھے لیکن سیدنا حسن "نیک خلفاء" جمع کا لفظ فرما رہے ہیں جسکا صاف مطلب ہے کہ سیدنا حسن کا وہی نظریہ تھا جو سچے اہلسنت کا ہے کہ سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم خلفاء برحق ہیں تبھی تو سیدنا حسن نے جمع کا لفظ فرمایا...اگر شیعہ کا عقیدہ درست ہوتا تو "سیرت خلیفہ" واحد کا لفظ بولتے امام حسن....اور دوسری بات یہ بھی کہ سیدنا معاویہ خلفاء راشدین کی راہ حق پے چلے ورنہ سیدنا حسن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھما ضرور بیعت توڑ دیتے،سیدنا حسن حسین کی صلح رسول کریم کی صلح ہے جو سیدنا معاویہ کو عادل بادشاہ بنا دیتی ہے
.الحدیث:
أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ، وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ
ترجمہ:
(رسول کریم نے حسن حسین وغیرہ اہلبیت سے فرمایا) تم جس سے جنگ کرو میری اس سے جنگ ہے،تم جس سے صلح کرو میری اس سے صلح ہے
(اہلسنت کتاب صحیح ابن حبان حدیث6977)
(شیعہ کتاب بحار الانوار32/321)
.
اور تیسری بات بھی اہلسنت کی ثابت ہوئی کہ "قرآن و سنت" اولین ستون ہیں کہ ان پے عمل لازم ہے جبکہ شیعہ قرآن و سنت کے بجائے اکثر اپنی طرف سے اقوال گھڑ لیتے ہیں اور اہلبیت کی طرف منسوب کر دیتے ہیں
لیھذا
شیعہ کی بیان کردہ روایات احادیث قصے وہی معتبر ہیں جو قرآن و سنت و مستند تاریخ کے موافق ہوں ورنہ جھوٹ و غیرمقبول کہلائیں گے
۔
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
naya wtsp nmbr
03062524574
purana block shuda wtsp nmbr
03468392475