Labels

اے عمار رضی اللہ تعالی عنہ تجھے باغی گروہ قتل کرے گا اس حدیث پاک سے غلط معنی لے کر سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو باغی ظالم سرکش ثابت کرنے والوں کو قران و احادیث اور اسلاف کے اقوال سے جواب:

 *#اے عمار رضی اللہ تعالی عنہ تجھے باغی گروہ قتل کرے گا اس حدیث پاک سے غلط معنی لے کر سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو باغی ظالم سرکش ثابت کرنے والوں کو قران و احادیث اور اسلاف کے اقوال سے جواب۔۔۔۔۔۔!!*

سوال:

علامہ صاحب ہمارے کئی اہلسنت  بالخصوص نوجوانوں کو روافض نیم روافض نے اور مرزا جہلمی جیسوں نے گمراہ کر دیا ہے اور گمراہ کر رہے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو حدیث پاک میں باغی سرکش ظالم کہا گیا ہے جہنم کی طرف بلانے والا کہا گیا ہے اور تم  سیدنا معاویہ کے گیت گاتے ہو۔۔۔ ان کے نام کے جلسے جلوس کرتے ہو۔۔۔ ان کے دن مناتے ہو۔۔۔ کتنے افسوس کی بات ہے۔۔۔اس طرح یہ لوگ بہت گمراہی پھیلا رہے ہیں لہذا اس حدیث پاک کی وضاحت دلائل کے ساتھ کیجئے 

۔

*#جواب و تحقیق۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!*

گذارش:

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ یا کسی بھی صحابی اہلبیت وغیرہ پر اعتراضات یا اہلسنت کے کسی بھی معاملے پر اعتراضات ہوں یا کسی حدیث وغیرہ کی تحقیق تخریج تصدیق کرانی ہو شرعی مسائل درپیش ہوں تو ان کا جواب لینے کے لیے ہمیں 03062524574 پر واٹسپ میسج کیجیے۔۔۔نیز تمام احباب سے گزارش ہے کہ میرا مشہور واٹسپ نمبر 03468392475 بلاک ہے۔۔تقریبا700واٹسپ گروپ تھے جس میں تحریرات بھیجا کرتا تھا۔۔اپ سے گزارش ہے کہ میرا نیا واٹسپ نمبر 03062524574 سیو کیجئے اور وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنا دیجئے تاکہ میں پہلے سے بھی بڑھ کر دین کی خدمت کر سکوں ، علمی اصلاحی تحقیقی تحریرات زیادہ سے زیادہ پھیلا سکوں..علمی تحقیقی اصلاحی سیاسی تحریرات کے لیے اس فیسبک پیج کو فالوو کیجیے،پیج میں سرچ کیجیے،ان شاء اللہ بہت مواد ملے گا...اور اس بلاگ پے بھی کافی مواد اپلوڈ کردیا ہے...لنک یہ ہے:

https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1

https://www.facebook.com/profile.php?id=100022390216317&mibextid=ZbWKwL

.

جس حدیث پاک کی بنیاد پر اعتراض کیا جاتا ہے وہ حدیث پاک یہ ہے:

عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ

اس کا ظاہری ترجمہ یہ ہے:

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے عمار تجھے باغی گروہ قتل کرے گا تم ان کو جنت کی طرف بلا رہے ہونگے اور وہ تمہیں جہنم کی طرف بلا رہے ہونگے

(بخاری حدیث نمبر447)

۔

تاریخ سیرت شرح تفسیر تمام کتب میں لکھا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گروہ میں سے کسی نے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کیا 

۔

اس حدیث پاک کو لے کر روافض نیم روافض اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ تعالی سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور انکا گروہ باغی ظالم سرکش تھے 

۔

*#وضاحت و تحقیق۔۔۔۔۔۔۔۔!!*

سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ بغاوت کہتے کس کو ہیں

القران:

اِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا ۚ فَاِنۡۢ  بَغَتۡ اِحۡدٰىہُمَا عَلَی الۡاُخۡرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیۡ تَبۡغِیۡ  حَتّٰی تَفِیۡٓءَ  اِلٰۤی  اَمۡرِ اللّٰہِ

ترجمہ:

اگر مومنوں کے دو گروہ اپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ ،صلح کے بعد جو بغاوت کرے تو بغاوت کرنے والوں سے لڑو تاکہ وہ اللہ کے معاملے(اسلام کے احکامات لوازمات) کی طرف لوٹ ائیں

(سورہ الحجرات ایت9)

.

سوال:

صلح کون کرائے۔۔۔۔۔؟؟ بادشاہ اسلام صلح کرائے یا کوئی ثالث  یا کوئی امیر  یا کوئی عالم دین یا کون صلح کرائے۔۔۔۔۔؟؟

۔

جواب:

يصلح بينهما قوم مؤمنون

کوئی بھی مومن ان دونوں گروہوں میں صلح کرا سکتا ہے

(تفسیر شعراوی2/1063)

۔

وَالْأَمْرُ بِالْإِصْلَاحِ مُخَاطَبٌ بِهِ جَمِيعُ النَّاسِ مِنْ ذكر وأنثى،

صلح کرانے کا جو حکم ہے وہ تمام لوگوں سے ہے چاہے وہ مرد ہوں یا(کوئی طاقتور صلح کرانے والی باپردہ) خاتون

(تفسیر قرطبی14/181)

۔

حضرت ابو شریح نے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وبارک وسلم سے عرض کیا:

ان قومى اذا اختلفوا في شئى اتونى فحكمت بينهم فرضى كلا الفريقين قال (عليه الصلاة و السلام)ما احسن

 من هذا

بیشک میری قوم جب کسی چیز میں اختلاف کرتی ہے تو میرے پاس فیصلہ کرانے آتی ہے تو میں ان کا فیصلہ کر دیتا ہوں اور فریقین میرے فیصلہ پے راضی ہو جاتے ہیں تو نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: تمھارا یہ کام (یعنی ثالث بن کر فیصلہ کرنا صلح کرانا ) بہت ہی اچھا کام ہے

(ابوداود، نسائی حدیث3527)

.

صلح صفائی کی عظیم شان ہے مگر اس میں بھی یہ لازم ہے کہ اسلامی حدود و اختیارات و احکامات کا خیال رکھا جائے،معتبر عالم دین کی تصدیق یا مشاورت سے حتمی بات کی جائے

القرآن:

 وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ

جو کچھ اللہ نے احکامات نازل کییے ان(اسلامی قوانین و تعلیمات) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی فیصلہ کریگا تو وہی ظالم ہے

(سورہ مائدہ ایت45)

۔

*#نتیجہ*

اس ایت مبارکہ اور اس کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ دو گروہوں میں اختلاف ہو جائے تو ان کے درمیان کوئی بھی ثالث ادمی ,ثالث گروپ یا دو چار ادمی مل کر یا بادشاہ اسلام اکیلا  یا کوئی بھی مسلمان ان کے درمیان صلح کرائے۔۔۔۔صلح کے بعد صلح کرانے والوں کی کوئی نافرمانی کرے تو اسے ایت مبارکہ میں بغاوت کہا گیا ہے۔۔۔۔تو ثابت ہوا کہ 

بادشاہ اسلام کی نافرمانی کی جائے تو بغاوت ہے 

خلیفہ وقت کی نافرمانی کی جائے تو بغاوت ہے 

کسی شرعی امیر ،

کسی ثالث مصلح ادمی،

کسی عالم دین

 کسی پنچائیت

نے اسلام کے اصولوں کے تحت صلح کرائی تو اگر اس کی نافرمانی کی جائے تو بغاوت ہے 

۔


البغاة: هم الذين يقاتلون الإمام متأولين كالخوارج وغيرهم، والذين يخرجون على الإمام، أو يمتنعون عن الدخول في طاعته، أو يمنعون حقا وجب عليهم كالزكاة

وشبهها

باغی مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔۔۔وہ بھی باغی ہیں کہ جو تاویل کر کے بادشاہ سے یا خلیفہ سے جنگ کریں۔۔۔وہ لوگ بھی باغی ہیں کہ جو خلیفہ برحق امام برحق پر خروج کریں۔۔۔۔وہ بھی باغی ہیں کہ جو خلیفہ برحق ، امام برحق ،

شرعی امیر برحق کی اطاعت نہ کریں بلکہ نافرمانی کریں تو وہ بھی باغی ہیں۔۔۔۔وہ لوگ بھی باغی ہیں کہ جن پر زکوۃ وغیرہ جیسے حقوق تھے اور وہ ادا نہیں کر رہے تو وہ بھی باغی ہیں۔۔۔

(الموسوعة الفقهية الكويتية19/74)

.

وأَصلُ البَغْي مُجَاوَزَةُ الْحَدِّ

بغاوت کی اصلی تعریف و معنی یہ ہے کہ حد سے بڑھ جانا

(لسان العرب 14/78

مجمع بحار الانوار1/200)

۔

امام کی اطاعت کرنی تھی۔۔۔۔گروہ کے امیر کی اطاعت کرنی تھی۔۔۔ثالثین کی اطاعت کرنی تھی۔۔۔۔مگر اطاعت کے بجائے نافرمانی کرنے لگ گئے تو وہ باغی کہلائیں گے کیونکہ وہ حد سے بڑھ گئے۔۔۔

۔

البَغْيُ على ضَرْبَيْن: أَحدُهما مَحْمودٌ وَهُوَ تَجاوزُ العَدْلِ إِلَى الإحْسانِ والفَرْضِ إِلَى التَّطوّعِ؛ وَالثَّانِي: مَذْمومٌ وَهُوَ تَجاوزُ الحقِّ إِلَى الباطِلِ، أَو تَجاوزُه إِلَى الشّبَهِ، ۔۔۔۔۔ والبَغْيُ فِي أَكْثَر المَواضِع مَذْمومٌ

باغی کی عام طور پر دو قسمیں ہیں ایک باغی وہ ہوتا ہے کہ جو اچھا ہوتا ہے ۔۔۔ بغاوت کرنا اس کی اچھائی ہوتا ہے جیسے عدل کے بجائے عدل سے بڑھ کر احسان کرے اور وہ فرض پر اکتفا کرنے کے بجائے فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کی کثرت کرے تو یہ بھی شریعت کی مقرر کردہ کم سے کم حد سے بڑھ کر جا رہے ہیں اور شریعت نے اس کم سے کم حد پر اکتفا کرنے کو ضروری قرار نہیں دیا تو یہاں حد سے بڑھ جانا برائی نہیں بلکہ اچھائی ہے۔۔۔ایک باغی وہ ہوتا ہے کہ جو حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف تجاوز کر جاتا ہے۔۔۔۔ایک باغی وہ ہوتا ہے کہ جو مشتبھ کی طرف تجاوز کر جاتا ہے۔۔۔۔اکثر طور پر باغی مذمت کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار باغی کے درست معنی بھی مراد ہوسکتے ہیں

(تاج العروس37/185مشرحا)

.

*#رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں باغی لیکن رسول کریم نے ان باغیوں کو ملامت نہ کی۔۔۔۔!!*


إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ، فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی تین بندے بھی نکلیں تو کسی ایک کو اپنا امیر بنا لیں

(ابوداود حدیث2608)

۔

 مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمَنْ يُطِعِ الْأَمِيرَ فَقَدْ أَطَاعَنِي

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی بے شک اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جو شرعی امیر کی اطاعت کرے گا بے شک اس نے میری اطاعت کی

(بخاری حدیث2957)

۔

*#رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ امیر کی اطاعت کرنی ہے اور امیر کی اطاعت رسول کریم کی اطاعت ہے مگر اب ہم اپ کو وہ حدیث پاک بتا رہے ہیں کہ جہاں شرعی امیر کی اطاعت نہیں کی جا رہی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تو بھی اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملامت نہ فرمائی*

.

الحدیث:

 قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الأحزاب: «لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة» فأدرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم: بل نصلي، لم يرد منا ذلك، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فلم يعنف واحدا منهم

ترجمہ:

غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:

تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے

(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)

پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نا فرمائی

(بخاری حدیث946)

.

غزوہ احزاب کے بعد صحابہ کرام ٹولیوں میں بنی قریظہ کی طرف روانہ ہوئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ان کو دل و جان سے یاد ہوگا کہ سفر پر نکلیں تو تین بھی ادمی اگر نکلیں تو ایک کو امیر بنا لیں لہذا ٹولیوں میں جو صحابہ کرام روانہ ہوئے تو ہر ایک نے لازما اپنی ٹولی کا کوئی امیر مقرر کیا 

پھر 

ایک ٹولی دو گروہوں میں بٹ گئی، ہر ایک نے اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کیا اور دوسرے کی نافرمانی کی۔۔۔ان میں سے کسی ایک ٹولی میں تو لازما امیر ہوگا تو یہاں پر ٹولی کے دو گروہوں میں سے ایک گروہ لازما بغاوت کرنے والا کہلائے گا ، باغی کہلائے گا لیکن یہ چونکہ اجتہاد کر کے بغاوت کر رہا تھا اور اسلام کی سربلندی کے لیے بغاوت کر رہا تھا تو لہذا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باغی گروہ کو ملامت نہ فرمایا 

۔

*#ثابت ہوا کہ اسلام کی سربلندی کے لیے ایک گروہ دوسرے سے بغاوت کرے اور دونوں گروہ الگ الگ نظریے پر قائم رہیں اور اپنے نظریے پر عمل کریں لیکن دونوں کا مقصد اسلام کی سربلندی ہو تو ان میں سے جو بھی باغی ہو وہ باغی ملامت کا مستحق نہیں کیونکہ وہ اجتہادی باغی ہے جس کا مقصد اسلام کی سربلندی ہی ہے اور ایسے اجتہادی بغاوت پہ جو اسلام کی سربلندی کے لیے ہو اس پر بھی ایک اجر ملتا ہے*

.

الحدیث:

فاجتهد، ثم اصاب فله اجران، وإذا حكم فاجتهد، ثم اخطا فله اجر

مجتہد نے اجتہاد کیا اور درستگی کو پایا تو اسے دو اجر اور جب مجتہد نے اجتہاد کیا خطاء پے ہوا اسے ایک اجر ملے گا

(بخاری حدیث7352)

۔

*#نوٹ*

اوپر لفظ امیر آیا ہے۔۔۔اس سے مراد وہ شخص نہیں کہ جو پیسے والا ہو یعنی اردو والا امیر مراد نہیں بلکہ امیر سے مراد حکم دینے والا سربراہ مراد ہے

۔

*#اب سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا معاملہ دیکھتے ہیں کہ کیا انہوں نے اسلام کی سربلندی کے لیے اجتہاد کر کے بغاوت کی یا نعوذ باللہ کچھ اور مقصد تھا۔۔۔۔۔۔؟؟*

.

سچے اہلسنت کو سمجھانے کی اور دلیل دینے کی حاجت ہی نہیں۔۔۔کیونکہ ہر سچا سنی سمجھتا ہے کہ کوئی بھی صحابی اسلام کی سربلندی کے علاوہ کسی اور باطل مقصد کے لیے بغاوت کرے ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔۔مگر کیا کریں کچھ لوگ ہیں کہ جو دلیل کے بغیر نہیں مانتے 

تو یہ لیجیے دلائل کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام کی سربلندی کے لیے معاشرتی بھلائی کے لیے اجتہادی بغاوت کی 

۔

سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو ظلم و ستم کے ساتھ شہید کیا گیا۔۔ ان کا کھانا پانی بند کیا گیا۔۔۔ انہیں کئی روز تک نظر بند کیا گیا ۔۔۔۔ مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا گیا اور اخر کار شہید کر دیا گیا۔۔۔۔سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے قصاص کا مطالبہ کیا اور قصاص کا مطالبہ اسی لیے کیا کہ قاتل دوسروں کے لیے عبرت کا نشان ہوں کہ معاشرے میں بھلائی کی سوچ اجاگر ہوگی کہ اگر کسی نے بادشاہ وقت اور خلیفہ وقت پر ظلم کیا اسے ظلما شہید کیا تو اسے تلاش کر کر کے ڈھونڈ ڈھونڈ کے بدلہ لیا جائے گا تاکہ کسی کی ائندہ جرات نہ ہو 

۔

معافی بھی لازم مگر کبھی بدلے میں بھلائی ہوتی ہے...!!

القرآن:

وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ

اے عقل والو تمھارے لیے قصاص(بدلے)میں زندگی ہے

(سورہ بقرہ آیت179)

۔

معاف کرنا اختیار کرو(سورہ اعراف199)

۔

اکثر معافی و صلح ہی کرنی چاہیےمگر کبھی ظالم شریروں فسادیوں کا غرور توڑنے،اپنا حق لینےاور دیگر اچھےجائز مقصد کےلیےبدلہ لینا بھی برحق بلکہ کبھی لازم تک ہوجاتا ہے کہ اسی میں انفرادی معاشرتی بھلائی و زندگی ہوتی ہے

۔

*#سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مطالبے کی وضاحت۔۔۔۔۔۔۔!!*

القرآن:

مَنۡ قُتِلَ مَظۡلُوۡمًا فَقَدۡ جَعَلۡنَا لِوَلِیِّہٖ سُلۡطٰنًا

جو ظلماً قتل کیا جائے تو اللہ نے اس کے ولی کو قوت و اختیار دیا ہے(کہ قصاص لیں یا دیگر اختیارات چنیں)

(سورہ بنی اسرائیل آیت33)

.

الحدیث:

عن ابن عمر، قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم فتنة، فقال: يقتل هذا فيها مظلوما لعثمان

سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فتنے کا تذکرہ فرمایا اور حضرت عثمان کے متعلق فرمایا کہ اس فتنے میں وہ یعنی حضرت عثمان مظلوم شھید کیے جائیں گے..

(ترمذی حدیث نمبر3708)

.

صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُحُدًا وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، فَرَجَفَ، وَقَالَ: «اسْكُنْ أُحُدُ - أَظُنُّهُ ضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ -، فَلَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، وَصِدِّيقٌ، وَشَهِيدَانِ»

نبی پاکﷺاحد پہاڑ پے تشریف فرما ہوئے اور آپ کے ساتھ سیدنا ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنھم تھے تو احد پہاڑ جنبش کرنے لگا نبی پاکﷺ نے فرمایا اے احد ساکن ہو جا راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں نبی پاکﷺنے اپنا پاؤں مبارک احد پہاڑ پے مار کر فرمایا تھا کہ ساکن ہوجا.....(پھر نبی کریم نے فرمایا)بےشک تجھ پر نبیﷺاور صدیق اور دو شہید ہیں(یعنی سیدنا عمر و عثمان ناحق و ظلماً قتل کییے جائیں گے،شہادت کا رتبہ پائیں گے )

(صحيح البخاري ,5/15حدیث3699)

.

وشهيدان) هما: عمر وَعُثْمَان

 بخاری شریف کی حدیث میں جو ہے کہ دو شہید ہیں ان سے مراد سیدنا عمر اور سیدنا عثمان شہید ہیں

(عمدۃ القاری شرح بخاری16/191)

.

وفيه معجزة للنبي - صلى الله عليه وسلم - حيث أخبر عن كونهما شهيدين، وكانا كما قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم ...

 مذکورہ حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ظاہر ہورہا ہے کہ بے شک نبی پاک صلی اللہ وسلم نے(اللہ کی عطاء سے ملے ہوئے علمِ غیب سے) یہ خبر دی تھی کہ سیدنا عمر اور سیدنا عثمان شہید ہونگے اور ایسا ہی ہوا جیسے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

(شرح مصابیح السنۃ6/434)

.

إِنَّهُ فَقِيهٌ

سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ بےشک سیدنا معاویہ فقیہ(مجتہد) ہیں

(بخاری روایت3765)

.

آیت مبارکہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ظلماً جو قتل کیا جائے اس کے ولی قصاص لے سکتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں تو قصاص لینے میں ہی معاشرے کی بھلائی ہے جیسے کہ اوپر ایت گزری اور حدیث پاک اور اسکی شرح سے سے یہ ثابت ہوا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ظلماً شہید کیے گئے تو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ولی تھے ،قصاص لے سکتے تھے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہی تو ارشاد فرمایا تھا کہ میں سیدنا عثمان کا ولی ہوں لیھذا میں قصاص کا مطالبہ کرتا ہوں کہ سیدنا عثمان ظلماً شہید کیے گئے...سیدنا معاویہ نے اپنا دعوی اپنا اختلاف و اجتہاد قرآن و حدیث پے ہی رکھا یعنی معاملہ قرآن و حدیث و سنت کی طرف لوٹا دیا اور آیت میں ہے ایمان والے ہیں وہ مسلمان جو اپنا معاملہ قران و حدیث و سنت کی طرف لوٹا دیں لیھذا ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ مومن متقی نیک عادل پرہیزگار اور قرآن و سنت و حدیث کے پیروکار تھے ہاں فقیہ و مجتہد بھی تھے اور اسلام کی سربلندی، معاشرے کی بھلائی کے لیے قصاص کا مطالبہ کر رہے تھے

.


أَنْتَ تُنَازِعُ عَلِيّاً، أَمْ أَنْتَ مِثْلُهُ؟فَقَالَ: لاَ وَاللهِ، إِنِّيْ لأَعْلَمُ أَنَّهُ أَفْضَلُ مِنِّي، وَأَحَقُّ بِالأَمْرِ مِنِّي، وَلَكِنْ أَلَسْتُم تَعْلَمُوْنَ أَنَّ عُثْمَانَ قُتِلَ مَظْلُوْماً، وَأَنَا ابْنُ عَمِّهِ، وَالطَّالِبُ بِدَمِهِ

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا گیا کہ آپ سیدنا علی سے جھگڑا کر رہے ہیں اختلاف کر رہے ہیں کیا آپ ان کی مثل ہیں تو سیدنا معاویہ نے فرمایا نہیں نہیں اللہ کی قسم میں ان جیسا نہیں ہوں، میں انکے برابر نہیں ہوں، میں جانتا ہوں کہ سیدنا علی مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے معاملے میں وہ مجھ سے زیادہ حقدار ہیں لیکن کیا تم نہیں جانتے کہ سیدنا عثمان ظلماً شہید کئے گئے اور میں اس کے چچا کا بیٹا ہو اور اس کے قصاص کا طلب گار ہوں

(سير أعلام النبلاء ابن جوزی ط الرسالة3/140)

(البداية والنهاية امام ابن کثیر ت التركي11/425)

.

محققین نے اس روایت کی سند کو جید معتبر قرار دیا ہے

إسناده جيد

(روضة المحدثين7/242)

۔

ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ فقیہ مجتہد تھے اور سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ولی وارث تھے اور سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ظلم و ستم کے ساتھ شہید کیے گئے اور قران و احادیث کے مطابق کبھی کبھار قصاص لینا ہی معاشرے کی بھلائی ہوتا ہے تو اسی لیے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مطالبہ کیا کہ پہلے اپ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا قصاص لیجئے پھر میں اپ کی بیعت کروں گا تو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا بیعت نہ کرنا بغاوت تھا جو اجتہاد پر مبنی تھا تو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اجتہادی باغی قرار پائے اور اوپر ہم پڑھ چکے ہیں کہ معاشرے کی بھلائی کے لیے ، اسلام کی سربلندی کے لیے اجتہادی بغاوت کی جائے تو اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ملامت نہیں فرمائی 

۔

اور ادھر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا اجتہاد تھا کہ قران مجید میں ہے فتنہ قتل سے بھی بڑھ کر ہے تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرما رہے تھے کہ فورا قصاص کس سے لیں۔۔۔۔؟؟ قاتلین عثمان کو تلاش کرنا پڑے گا اور ان قاتلوں کو کس چیز نے ایسے گندے کام پر ابھارا اس کی چھان بین کرنی پڑے گی، ایک عرصے تک خفیہ چھان بین کرنی پڑے گی اور جب فتنے کا اصل سرچشمہ پتہ چلے گا تو پھر ان فتنہ بازوں کو سمجھایا جائے گا ان کے اعتراضات کا جوابات دیا جائے گا اور پھر قصاص کا معاملہ اٹھایا جائے گا 

۔

بہرحال سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ دونوں کا مقصود معاشرے کی بھلائی اور فتنے کی سرکوبی ہی تھا ۔۔۔اسلام کی سربلندی ہی تھا۔۔۔لہذا کسی پر کوئی ملامت نہیں

.

*#سوال*

اپ کہہ رہے ہیں کوئی ملامت نہیں جبکہ حدیث پاک میں ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا گروہ جہنم کی طرف بلا رہا ہوگا۔۔۔۔اس کا کیا جواب دو گے۔۔۔۔۔؟؟

۔

*#جواب*

جب احادیث مبارکہ ایات مبارکہ تفاسیر کتب سے یہ واضح ہو گیا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اجتہادی باغی ہیں ان پر کوئی ملامت نہیں وہ نیک متقی مومن صحابی ہیں تو قران اور حدیث سے ثابت شدہ اس شرح سے حدیث کے اگلے حصے کی بھی شرح ہو جاتی ہے کہ سیدنا عمار رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا گروہ جہنم کی طرف بلا رہا ہوگا تو اس کا ظاہری معنی مراد نہیں بلکہ یہ معنی مراد ہے کہ ظاہری الفاظ تو یہی ہیں مگر اجتہاد کی وجہ سے حدیث کی شرح سے یہ معنی ہی بنے گا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا گروہ حقیقت میں جنت کی طرف ہی بلا رہا تھا کیونکہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا قصاص لینا جنتی کام ہے لہذا حدیث کے اگلے حصے کی شرح حدیث سے ہی ہو جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ علمائے اہل سنت نے اس کا بھی  یہی جواب دیا ہے۔۔۔ حق چار یار کی نسبت سے چار حوالہ جات حاضر ہیں

۔

فَإِنْ قِيلَ كَانَ قَتْلُهُ بِصِفِّينَ وَهُوَ مَعَ عَلِيٍّ وَالَّذِينَ قَتَلُوهُ مَعَ مُعَاوِيَةَ وَكَانَ مَعَهُ جَمَاعَةٌ مِنَ الصَّحَابَةِ فَكَيْفَ يَجُوزُ عَلَيْهِمُ الدُّعَاءُ إِلَى النَّارِ فَالْجَوَابُ أَنَّهُمْ كَانُوا ظَانِّينَ أَنَّهُمْ يَدْعُونَ إِلَى الْجَنَّةِ وَهُمْ مُجْتَهِدُونَ لَا لَوْمَ عَلَيْهِمْ فِي اتِّبَاعِ ظُنُونِهِمْ فَالْمُرَادُ بِالدُّعَاءِ إِلَى الْجَنَّةِ الدُّعَاءُ إِلَى سَبَبِهَا وَهُوَ طَاعَةُ الْإِمَامِ وَكَذَلِكَ كَانَ عَمَّارٌ يَدْعُوهُمْ إِلَى طَاعَةِ عَلِيٍّ وَهُوَ الْإِمَامُ الْوَاجِبُ الطَّاعَةُ إِذْ ذَاكَ وَكَانُوا هُمْ يَدْعُونَ إِلَى خِلَافِ ذَلِكَ لَكِنَّهُمْ معذورون للتأويل الَّذِي ظهر لَهُم

امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اگر اعتراض کیا جائے کہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کو اس گروہ نے شہید کیا جس میں صحابہ کرام بھی تھے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ صحابہ کرام جہنم کی طرف بلا رہے ہوں۔۔۔۔۔؟؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث اپنے ظاہر پر محمول نہیں، یعنی ظاہر میں وہ جہنم کی طرف بلا رہے ہوں گے کیونکہ سیدنا علی کی اطاعت نہ کرنے کی طرف بلا رہے ہوں گے تو امام برحق کی اطاعت نہ کرنے کی طرف بلانا بظاہر جہنم کی طرف بلانا ہے لیکن حقیقت میں وہ اپنے خیال میں جنت کی طرف بلا رہے تھے کیونکہ ان کا اجتہاد کہتا تھا کہ جنت کا سبب یہ ہے کہ ہم قصاص  عثمان کا مطالبہ کریں۔۔۔اسی طرح سیدنا عمار رضی اللہ تعالی عنہ انہیں جنت کی طرف بلا رہے تھے کیونکہ وہ امام برحق سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی اطاعت کی طرف بلا رہے تھے لیکن صحابہ کرام میں سے ہر ایک کے پاس اجتہاد تھا تو انہوں نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا

(فتح الباری شرح بخاری1/542ملخصا)

۔

فإن قيل: قتلَه أهلُ الشَّام بصِفِّيْن، وفيهم صحابةٌ، فكيف جاز أنَّهم يَدعونَه إلى النَّار؟قيل: هم يظنُّون أنَّهم يدعونَه إلى الجنَّة باجتهادهم

سیدنا عمار رضی اللہ تعالی عنہ کو جس گروہ نے قتل کیا ان میں صحابہ کرام بھی شامل تھے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حدیث کے مطابق صحابہ کرام جہنم کی طرف بلا رہے ہوں۔۔۔۔۔؟؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بظاہر وہ جس کام کی طرف بلا رہے تھے وہ جہنم کا سبب تھا لیکن صحابہ کرام اپنے خیال میں جنت کی طرف بلا رہے تھے کیونکہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا قصاص لینا جنتی لوگوں کا کام ہے(حتی کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا قصاص لینے کے حق میں تھے لیکن وہ کچھ عرصے بعد کے قصاص لینے کا ارادہ رکھتے تھے لہذا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سب جنت کی طرف بلانے والے ہیں)

(الامع الصبیح3/214)

۔

لأنهم كانوا مجتهدين ظانّين أنهم يدعونه إلى الجنة، وإن كان في نفس الأمر بخلاف ذلك فلا لوم عليهم في اتباع

ظنونهم

سیدنا عمار رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کرنے والے اگرچہ بظاہر جہنم کی طرف بلا رہے تھے لیکن وہ مجتہد تھے وہ اپنے اجتہاد اور گمان کے مطابق جنت کی طرف بلا رہے تھے (کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا قصاص لینا جنتی کام ہے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا عثمان کا قصاص لینے کے لیے بلاتے تھے تو گویا اپنے خیال میں جنتی کام کی طرف بلاتے تھے)تو کسی پر کوئی ملامت نہیں کر سکتے

(شرح القسطلانی1/442)

۔

وَالْجَوَاب الصَّحِيح فِي هَذَا أَنهم كَانُوا مجتهدين ظانين أَنهم يَدعُونَهُ إِلَى الْجنَّة، وَإِن كَانَ فِي نفس الْأَمر خلاف ذَلِك، فَلَا لوم عَلَيْهِم فِي اتِّبَاع ظنونه

صحیح جواب یہ ہے کہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کرنے والے صحابہ کرام مجتہد تھے وہ اپنے گمان میں جنت کی طرف بلا رہے تھے(کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا قصاص لینا جنتی کام ہے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا عثمان کا قصاص لینے کے لیے بلاتے تھے تو گویا اپنے خیال میں جنتی کام کی طرف بلاتے تھے) اگرچہ بظاہر ایسا نہیں تھا لیکن اپنے اجتہاد اور گمان پر عمل کرنے کی وجہ سے ان پر کوئی ملامت نہیں ہے


(عمدة القاري شرح بخاری4/209)

۔

*#الحاصل*

 ثابت ہو گیا کہ حدیث پاک کی روشنی میں قران مجید کی روشنی میں تفاسیر کی روشنی میں کتب کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ مجتہد باغی تھے اور وہ حقیقت میں اپنے اجتہاد کے مطابق جنت کی طرف بلا رہے تھے لہذا ان پر کوئی طعن ملامت مذمت کرنا جائز نہیں ہے۔۔ہرگز نہیں۔۔

.

*#یہی وجہ ہے کہ سچے مسلمان یعنی اہلسنت کے علماء محققین محدثین شارحین سب نے لکھا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بغاوت اجتہادی تھی وہ خطاء اجتہادی پر تھے۔۔۔۔چند حوالہ جات پڑھتے چلیے۔۔۔۔پھر اخر میں ایک اہم بات لکھ کر تحریر ختم کر دوں گا*

.

*#حوالہ1۔۔۔۔اجماع ہے۔۔۔۔سارے علماء اولیاء محدثین محققین سب کا متفقہ اجماعی عقیدہ ہے کہ*

أجمعت الأمة على وجوب الكف عن الكلام في الفتن التي حدثت بين الصحابة..ونقول: كل الصحابة عدول، وكل منهم اجتهد، فمنهم من اجتهد فأصاب كـ علي فله أجران، ومنهم من اجتهد فأخطأ كـ معاوية فله أجر، فكل منهم مأجور، القاتل والمقتول، حتى الطائفة الباغية لها أجر واحد لا أجران، يعني: ليس فيهم مأزور بفضل الله سبحانه وتعالى.

امت کا اجماع ہے کہ صحابہ کرام میں جو فتنے جنگ ہوئی ان میں نہ پڑنا واجب ہے تمام صحابہ کرام عادل ہیں(فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)ان میں سے ہر ایک مجتہد ہے اور جو مجتہد حق کو پا لے جیسے کہ سیدنا علی تو اسے دو اجر ہیں اور جو مجتہد خطاء پر ہو جیسے سیدنا معاویہ تو اسے ایک اجر ملے گا لہذا سیدنا علی اور معاویہ کے قاتل مقتول سب جنتی ہیں حتیٰ کہ سیدنا معاویہ کا باغی گروہ بھی جنتی ہے اسے بھی ایک اجر ملے گا یعنی تمام صحابہ میں سے کوئی بھی گناہ گار و فاسق نہیں اللہ کے فضل و کرم سے  

[شرح أصول اعتقاد أهل السنة للالكائي13/62)

.

*#حوالہ2۔۔۔۔۔امام غزالی اور صوفی مفسر علامہ حقی کا عقیدہ*

قال حجة الإسلام الغزالي رحمه الله يحرم على الواعظ وغيره......وما جرى بين الصحابة من التشاجر والتخاصم فانه يهيج بغض الصحابة والطعن فيهم وهم اعلام الدين وما وقع بينهم من المنازعات فيحمل على محامل صحيحة فلعل ذالك لخطأ في الاجتهاد لا لطلب الرياسة او الدنيا كما لا يخفى وقال في شرح الترغيب والترهيب المسمى بفتح القريب والحذر ثم الحذر من التعرض لما شجر بين الصحابة فانهم كلهم عدول خير القرون مجتهدون مصيبهم له أجران ومخطئهم

له أجر واحد

حجة الاسلام امام غزالی نے فرمایا کہ صحابہ کرام کے درمیان جو مشاجرات ہوئےان کو بیان کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے خدشہ ہے کہ صحابہ کرام کے متعلق بغض بغض اور طعن پیدا ہو۔ ۔۔۔۔۔صحابہ کرام میں جو مشاجرات ہوئے ان کی اچھی تاویل کی جائے گی کہا جائے گا کہ ان سے اجتہادی خطا ہوئی انہیں حکومت و دنیا کی طلب نہ تھی..ترغیب وترہیب کی شرح میں ہے کہ مشاجرات صحابہ میں پڑنے سے بچو بے شک تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)تمام صحابہ کرام خیرالقرون ہیں مجتہد ہیں مجتہد میں سے جو درستگی کو پہنچا اس کے لئے دو اجر اور جس نے خطا کی اس کے لیے ایک اجر 

(روح البيان 9/437)

.

*#حوالہ3۔۔۔۔۔۔۔۔*

إذا حكم الحاكم فاجتهد فاصاب فله أجران وإذا حكم فاجتهد فاخطأ فله أجر واحد» رواه البخاري ومسلم وأحمد وأبو داود والنسائي والترمذي عن أبي هريرة، والبخاري وأحمد والنسائي وأبو داود وابن ماجة عن عبد الله بن عمرو بن العاص، والبخاري عن أبي سلمة..فالأجران للاجتهاد والإصابة والأجر الواحد للاجتهاد وحده. والصحابة الأربعة مجتهدون في الحرب مخطئون فيه وعلي رضي الله عنه مجتهد مصيب. وقد تقرر في الأصول أنه يجب على المجتهد أن يعمل بما ادى إليه اجتهاده ولا لوم عليه ولا على مقلده. فالقاتل والمقتول من الفريقين في الجنة

بخاری مسلم احمد ابو داؤد نسائی ترمذی وغیرہ کی حدیث ہیں کہ مجتہد اگر درستگی پالے تو اسے دو اجر اور مجتہد خطا کرے تو اسے ایک اجر ملے گا صحابہ کرام نے جو جنگیں ہوئیں وہ اسی اجتہاد کی وجہ سے ہوئی تو ان میں سے جو درستگی کو تھا اس کو دو اجر ملیں گے اور جو خطاء پر تھا اسے ایک اجر ملے گا لہذا سیدنا معاویہ اور سیدنا علی و غیرہ دونوں گروہ جنتی ہیں 

(الناهية عن طعن أمير المؤمنين معاوية، ص27)

.

*#حوالہ4۔۔۔۔تمام اہلسنت کا مذہب ہے کہ*

أن أصحاب علي أدنى الطائفتين إلى الحق وهذا هو مذهب أهل السنة والجماعة أن علياً هو المصيب وإن كان معاوية مجتهداً وهو مأجور إن شاء الله ولكن علي هو الإمام فله أجران كما ثبت في صحيح البخاري من حديث عمرو بن العاص أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إذا اجتهد الحاكم فأصاب فله أجران وإذا اجتهد

فأخطأ فله أجر

حدیث پاک میں ہے کہ مجتہد درستگی کو پالے تو اسے دو اجر اور اگر خطا کرے تو اسے ایک اجر ملے گا... اس کے مطابق حضرت علی کا گروہ درستگی پر تھا اسے دو اجر ملیں گے اور سیدنا معاویہ اجتہاد میں خطا پر تھے اس لیے اسے ایک اجر ملے گا یہی اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے 

(عقيدة أهل السنة في الصحابة لناصر بن علي2/728)

.

*#حوالہ5۔۔۔۔۔امام ابن کثیر کا عقیدہ*

وأما ما شجر بينهم بعده عليه الصلاة والسلام، فمنه ما وقع عن غير قصد، كيوم الجمل، ومنه ما كان عن اجتهاد، كيوم صفين. والاجتهار يخطئ ويصيب، ولكن صاحبه معذور وإن أخطأ، ومأجور أيضاً، وأما المصيب فله أجران اثنان، وكان علي وأصحابه أقرب إلى الحق من معاوية وأصحابه رضي الله عنهم أجمعين

صحابہ کرام میں کچھ جنگی تو ایسی ہیں جو بغیر قصد کے ہوئیں جیسے کہ جنگ جمل اور کچھ جنگیں ایسی ہیں جو اجتہاد کی بنیاد پر ہوئی جیسے کہ صفین....جس نے درستگی کو پایا جیسے کہ سیدنا علی تو ان کو دو اجر ملیں گے اور جس نے اجتہاد میں خطا کی جیسے کہ سیدنا معاویہ تو اسے ایک اجر ملے گا 

( الباعث الحثيث  ص182)

.

*#حوالہ6۔۔۔۔محدث شارح بخاری امام بدر الدین عینی حنفی کا راجح عقیدہ و نظریہ*

وَالْجَوَاب الصَّحِيح فِي هَذَا أَنهم كَانُوا مجتهدين ظانين أَنهم يَدعُونَهُ إِلَى الْجنَّة، وَإِن كَانَ فِي نفس الْأَمر خلاف ذَلِك، فَلَا لوم عَلَيْهِم فِي اتِّبَاع ظنونهم، فَإِن قلت: الْمُجْتَهد إِذا أصَاب فَلهُ أَجْرَانِ، وَإِذا أَخطَأ فَلهُ أجر، فَكيف الْأَمر هَهُنَا. قلت: الَّذِي قُلْنَا جَوَاب إقناعي فَلَا يَلِيق أَن يُذكر فِي حق الصَّحَابَة خلاف ذَلِك، لِأَن اتعالى أثنى عَلَيْهِم وَشهد لَهُم بِالْفَضْلِ

حدیث پاک میں جو ہے کہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کو باغی گروہ قتل کرے گا وہ باغی گروہ جہنم کی طرف بلائے گا تو صحابہ کرام شامل تھے اس گروہ میں جس گروہ نے سیدنا عمار کو شہید کیا تو صحابہ کرام کیسے جہنم کی طرف بلائیں گے۔۔۔۔؟؟ اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام جہنم کی طرف ہرگز نہیں بلا رہے تھے بلکہ وہ اپنے اجتہاد کے مطابق جنت کی طرف بلا رہے تھے۔۔۔۔اللہ تعالی نے صحابہ کرام پر تعریف کی ہے اور ان کی فضیلت بیان کی ہے تو یہ سب مجتہد تھے(سیدنا علی سیدنا معاویہ وغیرہ نے) جنگوں اور فتنوں میں اجتہاد کیا جس نے درستگی کو پایا اس کے لئے دو اجر اور جس نے خطا کی اس کے لیے ایک اجر یہی جواب صحیح ہے اور یہی جواب صحابہ کرام کے لائق ہے 

(بدر الدين العيني، عمدة القاري شرح بخاری4/209)

.

*#حوالہ7۔۔۔۔۔امام ملا علی قاری حنفی فرماتے ہیں*

وقد قال - صلى الله عليه وسلم: " «إذا ذكر أصحابي فأمسكوا» " أي: عن الطعن فيهم، فلا ينبغي لهم أن يذكروهم إلا بالثناء الجميل والدعاء الجزيل، وهذا مما لا ينافي أن يذكر أحد مجملا أو معينا بأن المحاربين مع علي ما كانوا من المخالفين، أو بأنمعاوية وحزبه كانوا باغين على ما دل عليه حديث عمار: " «تقتلك الفئةالباغية» " ; لأن المقصود منه بيان الحكم المميز بين الحق والباطل والفاصل بين المجتهد المصيب، والمجتهد المخطئ، مع توقير الصحابة وتعظيمهم جميعا في القلب لرضا الرب


اور بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ میرے صحابہ کا ذکر ہو تو رک جاؤ، یعنی لعن طعن سے رک جاؤ...تو ضروری ہے کہ انکا ذکر ایسے ہو کہ انکی مدح سرائی کی جائے اور دعاء جزیل دی جائے، لیکن اسکا یہ مطلب نہین کہ حضرت علی سے جنگ کرنے والوں کو یا سیدنا معاویہ اور انکے گروہ کو باغی نا کہا جائے(بلکہ مجتہد باغی کہا جائے گا یہ فضائل بیان کرنے کے منافی نہین کہ مجتہد باغی گناہ نہیں) کیونکہ حدیث عمار کہ اے عمار رضی اللہ عنہ تجھے باغی گروہ قتل کرے گا....کیونکہ (اجتہادی باغی خاطی کہنا مذمت کے لیے نہین بلکہ)اس لیے ہے کہ وہ حکم واضح کر دیا جائے جو حق کو واضح کرے اور مجتہد مصیب سیدنا علی اور مجتہد سیدنا معاویہ خطاء کرنے والے میں فیصلہ کرے، اس کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کی(فقط زبانی منافقانہ نہیں بلکہ) دلی تعظیم و توقیر ہو، اللہ کی رضا کی خاطر

(مرقاۃ تحت الحدیث3397ملتقطا)

.

*#حوالہ8۔۔۔۔۔۔محقق متکلم امام اہلسنت سعدالدین تفتازانی کی کتاب شرح المقاصد میں ہے کہ*

واما فی حرب جمل و حرب صفین فالمصیب علی لا کلتا الطائفتین ولا احدھما من غیر تعیین المخالفون بغاۃ  لخروجھم علی الامام الحق لشبھۃ لا فسقۃ او کفرۃ والمخالفون بغاۃ لخروجھم علی الامام الحق بشبھۃ لقولہ علیہ الصلام لعمار تقتلک الفئۃ الباغیۃ وقد قتل صفین علی ید اہل الشام ولقول علی رضی اللہ عنہ اخواننا بغوا علینا ولیسوا کفارا ولا فسقۃ ولا ظلمۃ لما لھم من التاویل وان کان باطلا فغایۃ الامر انھم اخطاؤا فی الاجتھاد وذالک لایوجب التفسیق ولھذا منع علی اصحابہ من لعن اہل الشام وقال اخواننا بغوا علینا وقد صح ندم طلحۃ و الزبیر و اشتھر ندم عائشۃ وقصد عائشۃ لم یکن الا اصلاح الطائفتین و تکسین الفتنۃ، ان حرب الجمل کانت فلتۃ من غیر قصد من الفریقین بل کانت تھییجا من قتلۃ عثمان  حیث صارو فرقتین و اختلطو بالعسکریں

اور جو جنگ جمل اور جنگ صفین ہوئیں ان تمام میں حضرت علی حق و درست تھے، دونوں حق و درست نہیں تھے(مطلب ایسا نہین کہ سیدنا علی کو بھی حق کہا جائے اور ان سے اختلاف کرنے والے مثل سیدنا طلحہ سیدنا زبیر و سیدہ عائشہ و سیدنا معاویہ وغیرہ بھی کو بھی حق پر کہا جائے ایسا ہرگز نہیں بلکہ سیدنا علی ہی حق پر تھے)

اور ایسا بھی نہیں کہ کہا جائے کہ بلاتعیین کوئی ایک حق پر تھا(مطلب ایسا بھی مت سمجھو کہ شاید سیدنا زبیر و طلحہ و عائشہ حق پر ہو یا شاید علی حق پر ہوں، ایسا مشکوک نظریہ بھی ٹھیک نہیں بلکہ واضح حق عقیدہ اہلسنت یہی ہے کہ سیدنا علی حق و درست تھے)اور مخالفیں باغی تھے کہ امام برحق پر خروج کیا شبہ کی وجہ سے، ہاں(شبہ اجتہادی بغاوت اجتہادی خطاء) کی وجہ سے انہیں فاسق و گناہ گار اور کافر نہیں کہہ سکتے

اور

حضرت علی کے مخالفیں کو باغیی(اجتہادی باغی جو گناہ گار نہیں) کہنے کی وجہ یہ ہے کہ

①انہوں نے شبہ(قصاص عثمان)کی وجہ سے امام برحق پر خروج کیا( لیھذا اجتہادی باغی ٹھرے)

②(مخالفینِ علی کو اجتہادی باغی) کہنے کی وجہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اے عمار تجھے باغی گروہ قتل کرے گا اور حضرت عمار کو جنگ صفین میں اہل شام(سیدنا معاویہ کے گروہ) نے قتل کیا تھا

③(مخالفینِ علی کو اجتہادی باغی) کہنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ یہ مخالفیں ہمارے(مسلمان) بھائی ہیں جنہوں نے بغاوت کی ہے اور وہ(حضرت علی کے اجتہادی مخالفین مثل سیدنا زبیر و طلحہ و بی بی عائشہ و معاویہ یہ سب)کافر نہیں اور فساق و گناہ گار نہیں اور ظالم نہیں کیونکہ ان کے پاس تاویل(اجتہاد) تھا اگرچہ انکی تاویل باطل تھی اور اس کی انتہاء یہ ہے کہ انہوں نے اجتہاد میں خطاء کی اور اس سے لازم نہیں اتا ہے انہیں فاسق و گناہ گار کہا جائے، یہی وجہ ہے کہ حضرت علی نے اپنے گروہ سے کہا تھا کہ اہل شام(سیدنا معاویہ وغیرہ) پر لعن طعن نا کرو اور فرمایا کہ وہ تو ہمارے بھائی ہیں جنہوں نے بغاوت کی ہے(حضرت علی کے مخالف قائدین میں سے) سیدنا طلحہ اور سیدنا زبیر دونوں کی ندامت و رجوع ثابت ہے اور سیدہ صدیقہ طیبہ طاہرہ بی بی عائشہ کی ندامت و رجوع بھی مشھور ہے، سیدہ عائشہ(سیدنا علی سے جنگ کرنے نہیں نکلیں تھی بلکہ) انکا مقصد فقط یہی تھا کہ دونوں گروہوں کی اصلاح کریں اور فتنے کو ٹھنڈا کریں، جنگ تو بغیر قصد کے(دونوں گروہوں میں موجود منافقوں فسادیوں کی) فریب سے مچ گئ بلکہ جو سیدنا عثمان کے قاتل تھے(جو دونوں گروہوں مین چھپے تھے)انہوں نے جنگ کی چنگاری مچوا دی اس طرح کہ قاتلین عثمان (بلوائی منافق فسادی) دو گروہ ہوگئے اور صحابہ کے گروہوں میں رل مل گئے

(شرح المقاصد جلد3  ص533, 534 ملتقطا  مع الحذف الیسیر)

.

*#حوالہ9*

والصحابة رضي الله عنهم كلهم عدول؛ سواء من لابس الفتن منهم أم لا، وهذا بإجماع من يعتدُّ به،

تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 

وہ صحابہ بھی عادل ہیں جو فتنوں جنگوں میں پڑے اور جو نہ پڑے سب صحابہ عادل ہیں اور اس پر سب معتد بہ کا اجماع ہے 

[ تيسير مصطلح الحديث، صفحة244]

.

*#حوالہ10۔۔۔۔۔محدث شارح امام ابن حجر عسقلانی کا عقیدہ*

وَذَهَبَ جُمْهُورُ أَهْلِ السُّنَّةِ إِلَى تَصْوِيبِ مَنْ قَاتَلَ مَعَ عَلِيٍّ لِامْتِثَالِ قَوْلِهِ تَعَالَى وان طَائِفَتَانِ من الْمُؤمنِينَ اقْتَتَلُوا الْآيَةَ فَفِيهَا الْأَمْرُ بِقِتَالِ الْفِئَةِ الْبَاغِيَةِ وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ مَنْ قَاتَلَ عَلِيًّا كَانُوا بُغَاةً وَهَؤُلَاءِ مَعَ هَذَا التَّصْوِيبِ مُتَّفِقُونَ عَلَى أَنَّهُ لَا يُذَمُّ وَاحِدٌ مِنْ هَؤُلَاءِ بَلْ يَقُولُونَ اجتهدوا فأخطئوا

 جمہور اہل سنت نے فرمایا ہے کہ جس نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ساتھ مل کر قتال کیا وہ حق پر تھے کیونکہ باغیوں کے ساتھ قتال کیا جاتا ہے یہ آیت میں حکم ہے اور سیدنا معاویہ کا گروہ باغی تھا... اس کے ساتھ ساتھ اہلسنت اس بات پر بھی متفق ہیں کہ دونوں گروہوں میں سے کسی کو بھی مذمت کا نشانہ نہ بنایا جائے گا کیونکہ سیدنا معاویہ وغیرہ نے اجتہاد کیا اور اجتہاد میں خطا کی

(ابن حجر عسقلانی فتح الباری شرح بخاری13/67)

.

*#حوالہ11۔۔۔۔۔۔۔۔محدث شارح امام سیوطی کا عقیدہ*

الصحابة كلهم عدول من لابس الفتن وغيرهم بإجماع من يعتد به

 تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) وہ صحابہ کرام بھی عادل ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے اور دوسرے بھی عادل ہیں اور اس پر معتدبہ امت کا اجماع ہے 

التدريب  امام سیوطی ص204)


)

.

*#اہم_نوٹ*

مذکورہ حوالے میں اور اس سے پہلے والے حوالوں میں اور نیچے انے والے حوالوں میں لفظ "معتد بہ کا اجماع" آیا ہے۔۔۔۔۔یہ لفظ کس طرف اشارہ کر رہا ہے کیا معنی بیان کر رہا ہے یہ ہم اخر میں لکھیں گے 

۔

*#حوالہ12۔۔۔۔۔۔امام نووی اور فقہ حنفی ۔۔۔فقہ مالکی ۔۔۔۔فقہ شافعی۔۔۔ فقہ حنبلی کا عقیدہ*

عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ هُوَ الْمُصِيبَ الْمُحِقَّ وَالطَّائِفَةُ الْأُخْرَى أَصْحَابُ مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانُوا بُغَاةً مُتَأَوِّلِينَ وَفِيهِ التَّصْرِيحُ بِأَنَّ الطَّائِفَتَيْنِ مُؤْمِنُونَ لَا يَخْرُجُونَ بِالْقِتَالِ عَنِ الْإِيمَانِ وَلَا يَفْسُقُونَ وَهَذَا مَذْهَبُنَا وَمَذْهَبُ

 مُوَافِقِينَا

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ درستگی پر تھے حق پر تھے اور دوسرا گروہ یعنی سیدنا معاویہ کا گروہ وہ باغی تھے لیکن تاویل(اجتہاد) کرنے والے تھے دونوں گروہ مومنین ہیں دونوں گروہ ایمان سے نہیں نکلتے اور دونوں گروہ فاسق نہیں ہیں یہی ہمارا مذہب ہے اور یہی مذہب ہمارے(عقائد میں)موافقین(حنفی حنبلی مالکی وغیرہ تمام اہل سنت)کا مذہب ہے 

(شرح مسلم للنووی7/168)

 

.

*#حوالہ13۔۔۔۔۔امام ہیتمی کا عقیدہ*

 وَغَايَة اجْتِهَاده أَنه كَانَ لَهُ أجر وَاحِد علىاجْتِهَاده وَأما عَليّ رَضِي الله عَنهُ فَكَانَ لَهُ أَجْرَان

زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیدنا معاویہ کو ایک اجر ملے گا اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دو اجر ملے گے 

(الصواعق المحرقة2/624)

۔

.

 *#حوالہ14۔۔۔۔۔امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں*

خلافی و نزاعی کہ درمیان اصحاب علیھم الرضوان  واقع شدہ بود محمول برہوائ نفسانی نیست و صحبت خیر البشر نفس ایشان بہ تزکیہ رسیدہ بودند و از امارگی ازاد گشتہ اینقدر میدانم کہ حضرت امیر دران باب برحق بودہ و مخالف ایشان برخطاء بود اما این خطاء خطاء اجتہادی است تابحد فسق نمیر ساند بلکہ ملامت راہمدرین طور خطاء گنجائش نیست کی مخطی رانیزیک درجہ است از ثواب و یزید بیدولت از اصحاب نیست در بد بختی اوکرا سخن است

یعنی

 وہ اختلافات اور جھگڑے (جنگیں) جو صحابہ کرام علیہم رضوان میں واقع ہوئے خواہش نفسانی کے باعث ہرگز نہیں تھے۔۔۔یہ حضرات خیر البشر علیہ السلام کی صحبت پاک میں تزکیہ کے مقام میں پہنچ چکے تھے اور امارگی سے انہیں ازادی مل گئی تھی۔۔۔۔میں اس قدر جانتا ہوں کہ حضرت امیر (سیدنا علی )کرم اللہ وجہہ الکریم اس باب میں حق پر تھے اور ان کے مخالف خطا پر تھے لیکن ان کی یہ خطا خطائے اجتہادی ہے جو حد فسق تک نہیں پہنچاتی بلکہ اس طرح کی خطا میں ملامت کی بھی گنجائش نہیں کیونکہ خطائے اجتہادی میں مخطی کے لیے بھی ایک درجہ ثواب ہے اور بدبخت یزید صحابہ کرام میں سے نہیں اس کی بدبختی میں کیسے کلام ہو سکتا ہے

(مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ133مکتوب54)

.

وما جرى بينهم من المنازعات والمحاربات فمحمول على محامل صالحۃ وحكم بالغۃ ما کانت عن ھوی و جهل ولكن عن اجتهاد وعلم و ان اخطا بعضهم في الاجتهاد فللمخطي درجه ايضا عند الله سبحانه هذا هو الطريق الوسط بين الافراط والتفريط الذي اختاره اهل السنه وهو الطريق الاوسط والسبيل الاحكم

یعنی

اور لڑائیاں جھگڑے جو ان( یعنی صحابہ کرام وا اہل بیت عظام) کے درمیان واقع ہوئے وہ نیک مرادوں اور بلیغ حکمتوں پر محمول ہیں وہ جہالت یا خواہش نفسانی کے تحت نہیں تھے بلکہ اجتہاد اور علم کی بنا پر تھے اگرچہ بعض کے اجتہاد میں غلطی واقع ہو گئی ایسی خطا پر اللہ کی ہاں ثواب کا ایک درجہ ہے یہی افراط اور تفریط کے درمیان کی راہ ہے جس کو اہل سنت والجماعت نے اختیار کیا ہے اور یہی محفوظ اور مضبوط راستہ ہے

(مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ140مکتوب59)


.

*#حوالہ15*

وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ مِنَ الْعُدُولِ الْفُضَلَاءِ وَالصَّحَابَةِ النُّجَبَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَمَّا الْحُرُوبُ الَّتِي جَرَتْ فَكَانَتْ لِكُلِّ طَائِفَةٍ شُبْهَةٌ اعْتَقَدَتْ تَصْوِيبَ أَنْفُسِهَا بِسَبَبِهَا وَكُلُّهُمْ عُدُولٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَمُتَأَوِّلُونَ فِي حُرُوبِهِمْ وَغَيْرِهَا وَلَمْ يُخْرِجْ شئ مِنْ ذَلِكَ أَحَدًا مِنْهُمْ عَنِ الْعَدَالَةِ لِأَنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ اخْتَلَفُوا فِي مَسَائِلَ مِنْ مَحَلِّ الِاجْتِهَادِ كَمَا يَخْتَلِفُ الْمُجْتَهِدُونَ بَعْدَهُمْ فِي مَسَائِلَ مِنَ الدِّمَاءِ وَغَيْرِهَا وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ نَقْصُ

أَحَدٍ مِنْهُمْ

سیدنا معاویہ عادل فضیلت والے نجباء صحابہ میں سے ہیں باقی جو ان میں جنگ ہوئی تو ان میں سے ہر ایک کے پاس شبہات تھے اجتہاد جس کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی عادل ہونے کی صفت سے باہر نہیں نکلتا اور ان میں کوئی نقص و عیب نہیں بنتا

(امام نووي ,شرح مسلم ,15/149)

.

*#حوالہ16۔۔۔۔۔امام ابن کثیر کا عقیدہ*

وَإِنْ كَانُوا بُغَاةً فِي نَفْسِ الْأَمْرِ فَإِنَّهُمْ كَانُوا مُجْتَهِدِينَ فِيمَا تَعَاطَوْهُ مِنَ الْقِتَالِ، وَلَيْسَ كُلُّ مُجْتَهِدٍ مُصِيبًا، بَلِ الْمُصِيب لَهُ أَجْرَانِ والمخطئ لَهُ أجر.

سیدنا معاویہ کا گروہ باغی تھا لیکن وہ مجتہد تھے لہذا انہیں ایک اجر ملے گا اور جو درستگی پر ہوگا اسے دو اجر ملے گے 

(السيرة النبوية2/308)

.

*#حوالہ17۔۔۔۔۔مفسر شہیر علامہ آلوسی کا عقیدہ*

أن الصحابة كلهم عدول من لابس منهم الفتنة ومن لم يلابس

تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) وہ بھی عدل ہیں جو فتنوں جنگوں میں پڑے اور وہ بھی عادل ہیں جو نہ پڑے 

[تفسير الألوسي = روح المعاني6/140)

.

*#حوالہ18۔۔۔۔۔علامہ طاہر فتنی کا نظریہ*

إنهم كلهم عدول، كبيرهم وصغيرهم، من لابس الفتن وغيرهم بإجماع من يعتد بهم.

چھوٹے بڑے تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)وہ بھی عادل ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے اور وہ بھی عادل ہیں جو جنگوں میں نہ پڑے اس پر معتدبہ علماء اور امت کا اجماع ہے 

[مجمع بحار الأنوار5/276)

.

*#حوالہ19۔۔۔۔۔۔امام ابن صلاح کا نظریہ*

إن الأمة مجمعة على تعديل جميع الصحابة، ومن لابس الفتن منهم فكذلك بإجماع العلماء الذين يعتد بهم في

الإجماع

تمام کی تمام امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ تمام کے تمام صحابہ کرام عادل ہیں نیک ہیں کوئی گنہگار منافق نہیں اگرچہ ان کی اپس میں جنگیں ہوئی ہوں تب بھی سارے عادل ہیں نیک ہیں اسی پر معتد بہ علماء کا اجماع ہے

(مقدمة ابن الصلاح ص295)

۔

*#حوالہ20۔۔۔۔۔امام قسطلانی کا عقیدہ*

لا تسبوا أصحابي) شامل لمن لابس الفتن منهم وغيره لأنهم مجتهدون في تلك الحروب

حدیث پاک میں ہے میرے صحابہ کرام کو برا نہ کہو تو اس میں وہ صحابہ کرام بھی شامل ہیں کہ جو فتنوں میں پڑے جنگ کرنے لگے کیونکہ جنگ کرنے والے صحابہ کرام مجتہد تھے (لہذا کوئی صحابی گنہگار ظالم فاسق فاجر نہیں)

(إرشاد الساري6/94)

.

*#حوالہ21۔۔۔۔پیران پیر غوث اعظم دستگیر شیخ عبدالقادر جیلانی محبوب سبحانی کا عقیدہ*

ومن قاتله من معاوية وطلحة والزبير طلبوا ثأر عثمان بن عفان خليفة الحق المقتول ظلمًا، والذين قتلوه كانوا في عسكر علي -رضي الله عنه-، فكل ذهب إلى

 تأويل صحيح

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ تعالی عنہ جو جو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے لڑنے نکلا تو وہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کہ جو ظلما شہید کیے گئے ان کا قصاص لینے کے لیے لڑنے نکلے تھے لہذا تمام صحابہ صحیح تاویل پر تھے اجتہاد پر تھے

(غنية الطالبين1/161)

.

*#حوالہ22۔۔۔۔امام_تفتازانی اور علامہ پرہاروی کا عقیدہ*

بل عن خطأ في الاجتهاد من معاوية

سیدنا معاویہ جو سیدنا علی سے اختلاف و جنگ کی وہ سب اجتہادی خطاء تھی سیدنا معاویہ کی

(نبراس مع عقائد نسفیہ ص657)


.

*#حوالہ23۔۔۔۔۔امام_اہلسنت_مجدد دین و ملت سیدی احمد رضا کا عقیدہ....!!*

بلاشبہہ ان(سیدنا معاویہ) کی خطا خطائے اجتہادی تھی اور اس پر الزام معصیت عائد کرنا اس ارشاد الہی کے صریح خلاف ہے۔(فتاوی رضویہ29/229)

.

*#حوالہ24۔۔۔۔علامہ_سید احمد سعید کاظمی شاہ صاحب کا عقیدہ*

"اگر کوئی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا ہے تو میں آپ کو بتادوں کہ امیر معاویہ سے جو کچھ بھی ہوا وہ اجتہادی خطاء کی بنا پر ہوا

(خطبات کاظمی3/300)

.

*#حوالہ25۔۔۔۔۔امام اہلسنت سیدی امام احمد رضا علیہ الرحمۃ کے عظیم خلیفہ قبلہ مفتی امجد علی اعظمی اپنی مشھور و معتبر کتاب بہار شریعت میں فرماتے ہیں کہ*

حضرت طلحہ و حضرت زبیر رضی ﷲ تعالی عنھما تو عشرہ مبشرہ سے ہیں، ان صاحبوں(سیدہ عائشہ حضرت طلحہ حضرت زبیر)سے بھی بمقابلہ امیر المومنین مولی علی کرم ﷲ تعالی وجہہ الکریم خطائے اجتہادی واقع ہوئی، مگر ان سب نے بالآخر رجوع فرمائی، عرف شرع میں بغاوت مطلقا مقابلہ امام برحق کو کہتے ہیں، عنادا ہو، خواہ اجتہادا ان حضرات پر بوجہ رجوع اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا، گروہ امیر معاویہ رضی ﷲ تعالی عنہ پر حسب اصطلاح شرع اطلاق فئہ باغیہ آیا ہے، مگر اب کہ باغی بمعنی مفسد ومعاند وسرکش ہو گیا اور دشنام سمجھا جاتا ہے، اب کسی صحابی پر اس کا اطلاق جائز نہیں۔

(بہار شریعت جلد اول حصہ اول ص40)

.

اس عبارت سے ثابت ہوا کہ سیدنا زبیر و طلحہ سے بغاوت و خطاء کی نفی اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اجتہادی بغاوت ، اجتہادی خطاء تو کی تھی مگر پھر رجوع کر لیا تھا اس لیے رجوع کے بعد باغی انہیں نہیں کہہ سکتے.....البتہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی اجتہادی بغاوت و اجتہادی خطاء سے رجوع ثابت نہیں اس لیے احادیث و صحابہ کرام کے اقوال آئمہ اولیاء علماء اسلاف کے اقوال میں سیدنا معاویہ کو مجتہد باغی کہا گیا ہے...مگر خلیفہ اعلی حضرت کے زمانہ مین باغی باغی کہتے پھرنا مذمت و گالی معروف تھا اس لیے اعترافِ اطلاقِ بغاوت کے باوجود حرام فرمایا....آج بھی مطلقا مجملا باغی باغی کہتے پھرنا ناجائز ہونا چاہیے کہ مذمت سمجھا جاتا ہے...اس کی جگہ اجتہادی باغی کہا جائے گا تاکہ حق و سچ بھی واضح و ظاہر و معروف رہے اور مذمت و طعن بھی لازم نا آئے...

۔

*#اہم نوٹ*

ہم نے اوپر اسلاف کی تحریرات میں پڑھا کہ صحابہ کرام کا عادل ہونا نیک متقی پرہیزگار ہونا اور گنہگار نہ ہونا فاسق فاجر نہ ہونا منافق نہ ہونا ایات مبارکہ سے ثابت ہے احادیث مبارکہ سے ثابت ہے 

لیکن ان تحریرات میں تھا کہ یہ عقیدہ معتد بہ علماء اور تمام امت کا ہے۔۔۔۔معتد بہ علماء فرما کر اسلاف نے یہ فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے اپ کو اہل سنت کہلاتے ہیں لیکن انہوں نے صحابہ کرام کو بعض صحابہ کرام کو فاسق ظالم جائر تک کہا ہے۔۔۔لیکن چونکہ وہ معتد بہ نہیں ہیں اس لیے یا تو ان کا کلام معتبر ہی نہیں یا پھر ان کے کلام کی تاویل کی جائے گی تاکہ جمہور اہل سنت اکثریت اہل سنت قران اور سنت کے موافق ان کا نظریہ ہو جائے 

۔

اسلاف کی عبارات کے حوالے سے کچھ اعتراضات کیے جاتے ہیں ان کے جوابات بھی پڑھتے چلیے

1..... جیسے امام اعظم ابو حنیفہ کے متعلق پھیلایا جاتا ہے کہ اپ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو فاسق شمار کیا ہے گنہگار شمار کیا ہے خطائے معصیت شمار کیا ہے

۔

جواب:

*#اہلسنت کے فقہ و عقائد کے امام_امام اعظم ابوحنیفہ کا عقیدہ*

قال أبو حنيفة و علي بن ابي طالب رضي الله عنه كان مصيبا في حربه و من قاتله كان على الخطأ "

سیدنا علی رضی اللہ عنہ جنگ کرنے میں حق پر تھے اور(سیدنا معاویہ غیرہ) نے ان سے جنگیں کیں وہ(اجتہادی)خطا پر تھے 

(أصول المنيفة ص 58)

.

کچھ لوگ امام اعظم ابو حنیفہ کی مذکورہ عبارت اور اس جیسی دیگر عبارات پیش کر کے کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے گناہ والی خطا کی۔۔۔۔۔لیکن عبارت میں امام اعظم ابو حنیفہ نے لفظ خطا بولا ہے۔۔۔۔خطا سے مراد گناہ والی خطا بھی ہو سکتی ہے اور خطا سے مراد اجتہاد والی خطا بھی ہو سکتی ہے تو ہم اپنی طرف سے معنی مراد لینے کے بجائے امام اعظم ابو حنیفہ کی دوسری عبارت پر نظر ڈالتے ہیں 

*#امام اہلسنت امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں*

وَلَا نذْكر أحدا من أَصْحَاب رَسُول الله إِلَّا بِخَير

 ہم اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ہر ایک کا تذکرہ بھلائی کے ساتھ کرتے ہیں

(الفقہ الاکبر ص48)

غور کیجیے امام اعظم کی اس عبارت میں واضح ہے کہ ہم کسی ایک صحابی کو بھی برا نہیں کہتے۔۔۔۔تو امام اعظم کی اوپر والی عبارت میں خطا سے مراد اگر گناہ والی خطا ہوتی تو امام اعظم کی نیچے والی عبارت غلط ثابت ہو جاتی کیونکہ کسی کو گناہ گار کہنا اس بات کے منافی ہے کہ اس کا تذکرہ خیر کر رہے ہیں اپ۔۔۔لہذا امام اعظم کا یہ فرمانا کہ ہم ہر ایک صحابی کو بھلائی کے ساتھ یاد کرتے ہیں اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی امام اعظم ابو حنیفہ بھلائی کے ساتھ یاد کرتے تھے اجتہادی خطا مراد لیتے تھے

۔

2........امام العقیدہ امام اہلسنت امام ابو الحسن الاشعری کا عقیدہ*

وأقول في معاوية وعمرو بن العاص أنهما بغيا على الإمام الحق عليّ بن أبي طالب رضي الله عنهم

امام اشعری فرماتے ہیں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ دونوں نے امام برحق سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ پر بغاوت کی

(المواعظ و الاعتبار للمقریزی4/195)

۔

کچھ لوگ امام اشعری کی اس بات کو لے کر اچھل کود کرنے لگ جاتے ہیں کہ دیکھو عقیدے کے امام نے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو باغی ظالم قرار دیا

۔

جن کے دل میں کھوٹ ہوتی ہے وہ تحقیق نہیں کرتے ۔۔۔۔انہیں بس ایک حوالہ مل گیا اس کا غلط معنی لے لیا اور ناچنے لگ گئے۔۔۔ جن کے دل میں صحابہ کرام کی محبت ہوتی ہے اور جو اصلی محقق ہوتے ہیں وہ اس حوالے کے متعلق مزید تفتیش کرتے ہیں، تلاش کرتے ہیں ، اس امام کے متعلق مزید تلاش کرتے ہیں کہ ان کے کیا فرمان ہیں اور الحمدللہ تعالی کہ اس نے مجھے ہم سب کو صحابہ کرام کا محب بنایا اور میں نے امام اشعری کی کتب میں تلاش کیا پڑھا تو مجھے دو زبردست قول ملے جسے پڑھ کر ناچنے والے ماتم کرنے لگ جائیں گے

.

امام اشعری فرماتے ہیں

وأجمعوا على الكف عن ذكر الصحابة - عليهم السلام 

 إلا بخير

تمام اہل سنت کے علماء محدثین سب کا اتفاق ہے سب کا اجماع ہے کہ صحابہ کرام علیہم السلام کا ذکر ہمیشہ خیر کے ساتھ ہی کرنا ہے بھلائی کے ساتھ ہی کرنا ہے

(رسالہ الہ اہل الثغر ص172)

لہذا امام اشعری کا یہ فرمانا کہ ہم  صحابہ کرام کو بھلائی کے ساتھ یاد کریں اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی امام اشعری بھلائی کے ساتھ یاد کرتے تھے لیھذا سیدنا معاویہ کو جو خطا پر قرار دیا تو اس سے مراد اجتہادی خطا ہے۔۔۔۔اگر گناہ والی خطا مراد لی جائے تو پھر تذکرہ خیر کہاں ہوا۔۔۔۔۔۔؟؟

۔

*#امام اشعری کی یہ عبارت پڑھیے اور کلیجہ ٹھنڈا کیجئے*

وكذلك ما جرى بين سيدنا علي ومعاوية رضي الله عنهما، فدل على تأويل واجتهاد.وكل الصحابة أئمة مأمونون غير متهمين في الدين

عقیدے کے امام امام اشعری فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے درمیان جو کچھ ہوا وہ سب تاویل اور اجتہاد کی بنیاد پر ہوا لہذا تمام کے تمام صحابہ کرام امام ہیں امانت دار ہیں نیک متقی پرہیزگار ہیں ان کے دیندار ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا

(الابانہ1/260)

۔

3۔۔۔۔۔۔۔۔۔روافض نیم روافض کہتے ہیں کہ امام مناوی نے لکھا کہ عقیدے کے امام امام ابو منصور ماتریدی نے اپنی کتاب اصول الدین میں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو باغی ظالم لکھا ہے

۔

جواب:

امام مناوی نے عبارت نقل کرنے میں غلطی فرمائی ہے کیونکہ اصل کتاب اصول الدین میں فقط لفظ باغی ہے ظالم کا لفظ نہیں۔۔۔پھر یہی امام ماتریدی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

وما جری بین علی و معاویہ کان مبنیا علی الاجتھاد

عقیدے کے امام امام ابو منصور ماتریدی لکھتے ہیں کہ جو سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کے درمیان جھگڑا جنگ اختلاف ہوا وہ سب اجتہاد پر مبنی تھا

(شرح فقہ اکبر لابی منصور ماتریدی ص139)

۔

لہذا امام نے جو اصول الدین میں باغی لفظ لکھا ہے اس سے مراد اجتہادی باغی ہی ہے کیونکہ امام کی کلام میں واضح موجود ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے درمیان جو کچھ ہوا وہ اجتہاد پر مبنی تھا 

۔

4....... روافض نیم روافض کہتے ہیں کہ امام قرطبی نے لکھا امام مناوی نے لکھا کہ امام جرجانی نے فرمایا ہے اپنی کتاب الامامہ میں کہ 

اہل حدیث اور فقہ کے چاروں اماموں اور فقہ و عقائد کے سارے علماء کے مطابق سیدنا معاویہ باغی ظالم تھے

القرطبي في التذكرة، 2/626، 

والمناوي في فيض القدير، 6/366

۔

جواب:

پہلی بات:

عقائد کے مشہور ترین معتبر ترین تین بزرگ علماء امام اشعری امام ماتریدی امام ابو حنیفہ تینوں سے ہم نے ثابت کیا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بغاوت اجتہادی تھی خطا اجتہادی تھی اس پر تمام اہل سنت کا اجماع ہے 

۔

دوسری بات:

اوپر حوالہ نمبر 12 میں امام نووی کے حوالے سے ہم نے لکھا کہ تمام فقہاء چاروں فقہ کے امام علماء کے مطابق سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خطا اجتہادی تھی بغاوت اجتہادی تھی 

۔

تیسری بات:

ہم اوپر کئی حوالہ جات لکھ چکے ہیں جن میں ہے کہ تمام اہل سنت کے مطابق ، تمام اہل سنت کا اجماعی عقیدہ ہے، متفقہ عقیدہ ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اجتہادی بغاوت ہوئی اجتہادی خطا ہوئی 

۔

چوتھی بات:

اب ایک طرف یہ تین باتیں اپ ذہن میں رکھیں اور دوسری طرف تفکر کریں کہ امام جرجانی کی کتاب الامامہ کا جو حوالہ دیا جا رہا ہے وہ کتاب شاید سرے سے ہے ہی نہیں،یا اگر کتاب لکھی تھی تو ناپید ہو گئی ،نہیں ملتی۔۔۔۔بالفرض اگر کتاب لکھی بھی تھی تو کیا واقعی اس میں ایسا اجماعی عقیدہ لکھا تھا۔۔۔۔اگر لکھا تھا تو اس ایک کتاب کے مقابلے میں یہاں اتنے سارے حوالے ہیں اپ خود غور فرمائیں کہ کون سے حوالہ جات زیادہ معتبر کہلائیں گے۔۔۔علامہ قرطبی نے اور علامہ مناوی نے یہ نہیں لکھا کہ امام جرجانی نے لکھا ہے بلکہ ان دونوں علماء نے یہ لکھا کہ ہم کو ابن دحیہ کے توسط سے پتہ چلا ہے کہ امام جرجانی نے ایسا لکھا ہے۔۔۔۔اور اپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ ابن دحیہ روایت عبارات نقل کرنے میں جھوٹا مکار راوی ہے وہ ایسی بات نقل کر دیتا ہے جو کتاب میں ہوتی ہی نہیں

بن دحية الأندلسي المحدث متهم في نقله....كان يدعي أشياء لا حقيقة لها...الناس مجتمعين على كذبه وضعفه وادعائه سماع ما لم يسمعه ولقاء من لم يلقه

ابن دحیہ محدث کہلاتا ہے لیکن  کسی بات کو نقل کرنے میں یہ جھوٹا ہے۔۔۔۔یہ ایسی ایسی چیزوں کا دعوی کرتا تھا جن کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہوتی تھی۔۔۔۔تمام علماء کا محدثین کا جرح کرنے والوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ شخص جھوٹا ضعیف ہے اور یہ دعوی کرتا ہے کہ میں نے فلاں سے سنا حالانکہ اس سے نہیں سنا ہوتا اور یہ دعوی کرتا ہے کہ میں نے فلاں سے ملاقات کی حالانکہ اس سے ملاقات نہیں کی ہوتی

(لسان الميزان - ط الهندية295, 4/292ملتقطا)

بتائیے بھلا ایسے شخص کی بات کیسے معتبر ہو سکتی ہے 

۔

5........ امام عینی اور امام ملا علی قاری کی عبارات سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف پیش کی جاتی ہیں اوپر ہم نے حوالہ نمبر 6 اور حوالہ نمبر 7 میں عبارات پیش کر دی ہیں کہ امام عینی اور امام ملا علی قاری کے مطابق بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بغاوت اجتہادی تھی اور خطا اجتہادی تھی 

۔

6....... فقہ اور دیگر کتب سے پیش کیا جاتا ہے کہ سیدنا معاویہ کو باغی لکھا گیا ہے۔۔۔۔۔۔اس کا جواب ہم تفصیلی دے چکے ہیں کہ جب سیدنا معاویہ حدیث پاک کے مطابق اجتہادی باغی ہیں تو فقہ اور دیگر کتب میں جو باغی لکھا گیا ہے اس سے مراد بھی اجتہادی باغی ہی ہے

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر


naya wtsp nmbr

03062524574

purana block shuda wtsp nmbr

03468392475

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.