*#سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پے دس مشھور اعتراضات کے مدلل علمی جوابات......!!*
.
*#اعتراض نمبر1*
شیعہ روافض نیم روافض اور ان کی دیکھا دیکھی میں کچھ کم علم اہلسنت حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ مسلم شریف میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ کو بلایا، دو بار بلایا لیکن سیدنا معاویہ نے کہا میں کھانا کھا رہا ہوں کیا عشق رسول یہی کہتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر کھانا کھانے کو ترجیح دی جائے۔۔۔؟؟کیا یہ مسلمانی طرز ہے۔۔۔؟؟ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ کو بد دعا دی کہ تمہارا پیٹ کبھی نہ بھرے
۔
*#تحقیق و جواب*
گذارش:
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ یا کسی بھی صحابی اہل بیت وغیرہ پر اعتراضات یا اہلسنت کے کسی بھی معاملے پر اعتراضات ہوں یا کسی حدیث وغیرہ کی تحقیق تخریج تصدیق کرانی ہو شرعی مسائل درپیش ہوں تو ان کا جواب لینے کے لیے ہمیں 03062524574 پر واٹسپ میسج کیجیے۔۔۔نیز تمام احباب سے گزارش ہے کہ میرا مشہور واٹسپ نمبر 03468392475 بلاک ہے۔۔تقریبا700واٹسپ گروپ تھے جس میں تحریرات بھیجا کرتا تھا۔۔اپ سے گزارش ہے کہ میرا نیا واٹسپ نمبر 03062524574 سیو کیجئے اور وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنا دیجئے تاکہ میں پہلے سے بھی بڑھ کر دین کی خدمت کر سکوں ، علمی اصلاحی تحقیقی تحریرات زیادہ سے زیادہ پھیلا سکوں..علمی تحقیقی اصلاحی سیاسی تحریرات کے لیے اس فیسبک پیج کو فالوو کیجیے،پیج میں سرچ کیجیے،ان شاء اللہ بہت مواد ملے گا...اور اس بلاگ پے بھی کافی مواد اپلوڈ کردیا ہے...لنک یہ ہے:
https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1
https://www.facebook.com/profile.php?id=100022390216317&mibextid=ZbWKwL
جس حدیث شریف کی اپ بات کر رہے ہیں وہ حدیث شریف یہ ہے
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنْتُ أَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَوَارَيْتُ خَلْفَ بَابٍ قَالَ فَجَاءَ فَحَطَأَنِي حَطْأَةً وَقَالَ اذْهَبْ وَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ هُوَ يَأْكُلُ قَالَ ثُمَّ قَالَ لِيَ اذْهَبْ فَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ هُوَ يَأْكُلُ فَقَالَ لَا أَشْبَعَ اللَّهُ بَطْنَهُ
سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے تھپتھپایا اور فرمایا کہ جاؤ میرے لیے معاویہ کو بلا کے لے اؤ سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں میں گیا اور واپس ا کر عرض کی یا رسول اللہ وہ کھانا کھا رہے ہیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے
(مسلم حدیث2628٫، 2604)
۔
*#پہلا جواب*
اپ نے جو یہ کہا کہ سیدنا معاویہ نے کہا کہ میں کھانا کھا رہا ہوں ، جھوٹ کہا کیونکہ اس روایت میں واضح ہے کہ سیدنا معاویہ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں کھانا کھا رہا ہوں بلکہ
سیدنا ابن عباس نے اپنی طرف سے جا کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ سیدنا معاویہ کھانا کھا رہے ہیں۔۔۔لہذا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اس بدعا کہ مستحق ہی نہیں ٹھہرے تو ان پر مذمت کیوں۔۔۔؟؟
۔
علامہ ابن حجر مکی فرماتے ہیں:
ان ابن عباس راہ یاکل استحی ان یدعوہ،فجاء و اخبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم بانہ یاکل و کذا فی المرۃ
الثانیۃ
بے شک ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھا تو( کم عمری کی وجہ سے اپ نے یہ سمجھا کہ) سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کھانے سے اٹھانے میں مجھے شرم ا رہی ہے اس لیے جا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کھانا کھا رہے ہیں اسی طرح دوسری مرتبہ بلانے پر بھی سیدنا ابن عباس نے اپنی طرف سے کہا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں
(تطہیر الجنان ص103)
۔
*#دوسرا جواب*
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شان مبارکہ نہیں کہ وہ مسلمانوں کو بددعا دیتے پھریں وہ تو مشرکین کافرین کے لیے بھی دعا فرماتے تھے کہ ہدایت پر ا جائیں۔۔۔لہذا علماء کرام نے فرمایا کہ رسول کریم نے یہ بددعا نہیں دی بلکہ یہ عرب کی عادت کے مطابق کہے جانے والے جملے تھے جس سے بظاہر مذمت کا پہلو نکلتا ہے تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق ارشاد فرما دیا کہ ایسا جملہ اگر میں بول دوں کسی مسلمان کو تو اسے بد دعا مت سمجھو بلکہ وہ اس مسلمان کے لیے پاکیزگی طہارت اور اجر و ثواب بن جائے گا
اللَّهُمَّ فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَبَبْتُهُ، فَاجْعَلْ ذَلِكَ لَهُ قُرْبَةً
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اے اللہ جس مومن کو میں نے برا کہا تو اس کے لیے اس بظاہر
بد دعا کو دعا میں بدل دینا اور اس کے لیے وہ ثواب کا باعث بن جائے
(بخاری حدیث6361)
۔
فَأَيُّ الْمُسْلِمِينَ لَعَنْتُهُ أَوْ سَبَبْتُهُ فَاجْعَلْهُ لَهُ زَكَاةً وَأَجْرًا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس مسلمان کو میں نے بظاہر لعنت کی ہو یا بظاہر برا کہا ہو تو یا اللہ کریم اس بظاہر بددعا کو دعا میں تبدیل فرما دے اور اس کے لیے ثواب بنا دے طہارت و پاکیزگی بنا دے
(مسلم حدیٹ6614,2600)
.
*#تیسرا جواب*
اگر سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق یہ کہیں کہ انہوں نے جان بوجھ کر انے میں تاخیر کی اور کھانا کھانے کو ترجیح دی تو کہنا پڑے گا کہ نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کر کے کفر کیا تو اب بتائیے ساری زندگی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو کیوں نہ بتایا کہ نعوذ باللہ معاویہ کافر ہو گیا ہے اسے اپنے اپ سے دور کر دو کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ وہ تو منافقین کو اور مرتدین کو دھتکار دیتے تھے اپنے سے جدا کر دیتے تھے
تو
لازما کہنا پڑے گا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ مومن تھے ایمان والے تھے اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں بھی انہیں اپنا ساتھی بنائے رکھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بظاہر بددعا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے دعا بن گئی تھی
۔
اسی لیے کئی علماء کرام نے تصریح فرمائی ہے کہ مذکورہ بالا بظاہر بددعا حقیقت میں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے دعا تھی رحمت کی دعا تھی اجر کی دعا تھی پاکیزگی کی دعا تھی تو یہ حدیث پاک تو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان بیان کر رہی ہے۔۔۔امام نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
وَفِي حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ لَا أَشْبَعَ اللَّهُ بطنه ونحو ذلك لا يقصدون بشئ مِنْ ذَلِكَ حَقِيقَةَ الدُّعَاءِ فَخَافَ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلم أن يصادف شئ مِنْ ذَلِكَ إِجَابَةً فَسَأَلَ رَبَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى وَرَغِبَ إِلَيْهِ فِي أَنْ يَجْعَلَ ذَلِكَ رَحْمَةً وَكَفَّارَةً وَقُرْبَةً وَطَهُورًا وَأَجْرًا وَإِنَّمَا كَانَ يَقَعُ هَذَا مِنْهُ فِي النَّادِرِ وَالشَّاذِّ مِنَ الْأَزْمَانِ وَلَمْ يَكُنْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا
وَلَا لَعَّانًا
اور وہ جو حدیث پاک میں ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول کریم نے بظاہر فرمایا کہ اللہ تمہارا پیٹ نہ بھرے تو اس سے مقصد بددعا نہیں تھی بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تھی کہ یا اللہ کریم اس دعا کو ان جیسی دعاؤں کو مومنین کے لیے کفارہ بنا دے ثواب بنا دے پاکیزگی بنا دے اجر بنا دے اور یاد رہے اس قسم کی بظاہر بد دعائیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی زبان اقدس سے کبھی کبھار نکلا کرتی تھی کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام فحش گوئی کرنے والے لعنتیں کرنے والے نہیں تھے
(شرح مسلم نووی16/152)
۔
*#سوال*
تم اہل سنت بریلویوں کا عقیدہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر چیز جانتے ہیں تو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا کہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تک میرا پیغام پہنچا ہی نہیں یہ تو سیدنا ابن عباس اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں تو پھر بھی
بلا قصور بظاہر بددعا کیوں دی۔۔۔۔۔؟؟
۔
*#جواب*
پہلا جواب:
بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب تھا اور ہے لیکن اللہ تعالی نے اپ کو اس بات کا پابند بنایا تھا کہ اپ شرعی معاملات میں علم غیب پر عمل کرنے کے بجائے اللہ تعالی کی وحی کا انتظار کیجئے اللہ کے حکم پر اور ظاہر پر عمل کیجئے
۔
دوسرا جواب:
سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے جو بظاہر بددعا کے کلمات نکلتے تھے وہ دراصل بددعا مقصود ہی نہیں ہوتے تھے بلکہ عرب لغت کے مطابق محاورے کے طور پر استعمال ہوتے تھے تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام بھی عرب محاورے کو استعمال فرما لیا کرتے تھے اس سے بد دعا مراد نہیں ہوتی تھی
۔
ان دونوں جوابوں کو امام نووی نے ان الفاظوں میں لکھا
كَيْفَ يَدْعُو عَلَى مَنْ لَيْسَ هُوَ بأهل للدعاء عَلَيْهِ أَوْ يَسُبُّهُ أَوْ يَلْعَنُهُ وَنَحْوُ ذَلِكَ فَالْجَوَابُ مَا أَجَابَ بِهِ الْعُلَمَاءُ وَمُخْتَصَرُهُ وَجْهَانِ أَحَدُهُمَا أَنَّ الْمُرَادَ لَيْسَ بِأَهْلٍ لِذَلِكَ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى وَفِي بَاطِنِ الْأَمْرِ وَلَكِنَّهُ فِي الظَّاهِرِ مُسْتَوْجِبٌ لَهُ فَيَظْهَرُ لَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتِحْقَاقَهُ لِذَلِكَ بِأَمَارَةٍ شَرْعِيَّةٍ وَيَكُونُ فِي بَاطِنِ الْأَمْرِ لَيْسَ أَهْلًا لِذَلِكَ وَهُوَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَأْمُورٌ بِالْحُكْمِ بِالظَّاهِرِ وَاَللَّهُ يَتَوَلَّى السَّرَائِرَ وَالثَّانِي أَنَّ مَا وَقَعَ مِنْ سَبِّهِ وَدُعَائِهِ وَنَحْوِهِ لَيْسَ بِمَقْصُودٍ بَلْ هُوَ مِمَّا جَرَتْ بِهِ عَادَةُ الْعَرَبِ فِي وَصْلِ كَلَامِهَا بِلَا نِيَّةٍ
پہلا جواب تو یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم تھاکہ بظاہر جو چیز ہو اس کے مطابق فیصلہ فرمائے اس کے مطابق عمل فرمائیں اس لیے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو حقیقت میں پتہ ہوتا تھا کہ فلاں ان الفاظوں کا مستحق نہیں پھر بھی ظاہر کے مطابق ان الفاظوں کا مستحق بن رہا ہے تو اس لیے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے وہ الفاظ ادا فرمائے
اور دوسرے جواب یہ ہے کہ یہ الفاظ بظاہر بددعا والے حقیقت میں بددعا ہی نہیں تھے بلکہ عرب محاورے کے مطابق حضور علیہ الصلوۃ والسلام بطور محاورہ استعمال فرمایا کرتے تھے
(شرح مسلم نووی16/152ملخصا)
.##################
*#اعتراض نمبر2*
شیعہ روافض نیم روافض اور ان کی دیکھا دیکھی میں کچھ کم علم اہلسنت حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ
ترمذی شریف میں ہے کہ صحابی فرماتے ہیں کہ بنو امیہ بادشاہ ہیں بہت برے بادشاہ لہذا معاویہ بھی بنو امیہ میں سے ہے تو وہ بھی برا بادشاہ ہے
۔
*#جواب و تحقیق*
سب سے پہلے ترمذی کی روایت ملاحظہ کیجئے
قَالَ سَعِيدٌ : فَقُلْتُ لَهُ : إِنَّ بَنِي أُمَيَّةَ يَزْعُمُونَ أَنَّ الْخِلَافَةَ فِيهِمْ. قَالَ : كَذَبُوا بَنُو الزَّرْقَاءِ، بَلْ هُمْ مُلُوكٌ مِنْ شَرِّ الْمُلُوكِ
سعید کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا سفینہ سے عرض کی کہ بنو امیہ گمان کرتے ہیں کہ خلافت ان میں ہے تو اپ نے فرمایا کہ بنو امیہ والوں نے جھوٹ بولا وہ بادشاہ ہیں برے بادشاہ
(ترمذی روایت 2226)
۔
کتابوں میں اپ سرچ کریں تفصیل پڑھیں تاریخ پڑھیں تو اپ کو پتہ چلے گا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں جنتی صحابی ہیں خلیفہ راشد ہیں خلیفہ برحق ہیں ان کا تعلق بھی بنی امیہ سے ہے اور خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز بھی بنو امیہ سے تعلق رکھتے ہیں تو صحابی سیدنا سفینہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جو فرمایا کہ بنو امیہ والے جھوٹ بولتے ہیں وہ برے بادشاہ ہیں تو لہذا سیدنا سفینہ کی مراد تمام کے تمام بنو امیہ نہیں کم از کم فورا سے پہلے یہ دو عظیم ہستیاں بنو امیہ سے ہونے کے باوجود برے بادشاہ نہیں تو ایا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا سفینہ کے مطابق برے بادشاہ ہیں یا نہیں اس کے متعلق تحقیق کرتے ہیں
۔
سیدنا سفینہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس روایت میں مطلقا بنو امیہ کہا ہے لیکن دوسری روایات میں کچھ وضاحت ہے وہ یہ ہے کہ
سَعِيدٌ : قُلْتُ لِسَفِينَةَ : إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَامُ لَمْ يَكُنْ بِخَلِيفَةٍ. قَالَ : كَذَبَتْ أَسْتَاهُ بَنِي الزَّرْقَاءِ. يَعْنِي بَنِي مَرْوَانَ.
سیدنا سعید فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا سفینہ صحابی رسول سے عرض کی کہ بنو امیہ والے سمجھتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ نہیں ہیں تو وہ سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ بنو زرقاء جھوٹ بولتے ہیں یعنی بنو مروان جھوٹ بولتے ہیں (مطلب بنو مروان میں سے وہ لوگ کہ جو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ نہ سمجھیں وہ برے بادشاہ ہیں)
(ابو داؤد روایت 4646)
۔
اس روایت سے واضح ہو گیا کہ سیدنا سفینہ کے مطابق سارے بنو امیہ کے حکمران برے بادشاہ نہیں بلکہ بنو مروان کے بعض بادشاہ برے ہیں اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بنو مروان میں سے نہیں بلکہ بنو سفیان میں سے ہیں
۔
اور سیدنا سفینہ کے مطابق سارے بادشاہ برے نہیں بلکہ وہ بادشاہ برے ہیں کہ جو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ برحق نہ سمجھیں تو ائیے دیکھتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا علی کو خلافت کا مستحق سمجھتے تھے یا نہیں۔۔۔۔؟؟
۔
أَنْتَ تُنَازِعُ عَلِيّاً، أَمْ أَنْتَ مِثْلُهُ؟فَقَالَ: لاَ وَاللهِ، إِنِّيْ لأَعْلَمُ أَنَّهُ أَفْضَلُ مِنِّي، وَأَحَقُّ بِالأَمْرِ مِنِّي، وَلَكِنْ أَلَسْتُم تَعْلَمُوْنَ أَنَّ عُثْمَانَ قُتِلَ مَظْلُوْماً، وَأَنَا ابْنُ عَمِّهِ، وَالطَّالِبُ بِدَمِهِ
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا گیا کہ آپ سیدنا علی سے جھگڑا کر رہے ہیں اختلاف کر رہے ہیں کیا آپ ان کی مثل ہیں تو سیدنا معاویہ نے فرمایا نہیں نہیں اللہ کی قسم میں ان جیسا نہیں ہوں، میں انکے برابر نہیں ہوں، میں جانتا ہوں کہ سیدنا علی مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے معاملے میں وہ مجھ سے زیادہ حقدار ہیں لیکن کیا تم نہیں جانتے کہ سیدنا عثمان ظلماً شہید کئے گئے اور میں اس کے چچا کا بیٹا ہو اور اس کے قصاص کا طلب گار ہوں
(سير أعلام النبلاء ابن جوزی ط الرسالة3/140)
(البداية والنهاية امام ابن کثیر ت التركي11/425)
.
محققین نے اس روایت کی سند کو جید معتبر قرار دیا ہے
إسناده جيد
(روضة المحدثين7/242)
.
اس روایت سے واضح ہو گیا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ برحق سمجھتے تھے لیکن مطالبہ کرتے تھے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا قصاص لیا جائے فورا لیا جائے بس یہی اختلاف تھا
۔
*#الحاصل*
سیدنا سفینہ کے مطابق تمام بنو امیہ کے بادشاہ برے نہیں۔۔۔بلکہ بنو مروان میں سے وہ بادشاہ کہ جو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ برحق نہ سمجھیں وہ برے بادشاہ ہیں تو بنو امیہ کے وہ بادشاہ وہ خلیفہ کہ جو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی برحق سمجھیں جیسے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بنو امیہ میں سے ہیں جیسے سیدنا عثمان بن عفان بنو امیہ میں سے ہیں جیسے سیدنا عمر بن عبدالعزیز بنو امیہ میں سے ہیں مگر یہ سب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ برحق سمجھتے تھے تو اس لیے یہ برے بادشاہ و برے خلیفہ نہیں ، ہرگز نہیں۔۔۔۔۔!!
۔
################
*#اعتراض نمبر3*
شیعہ روافض نیم روافض اور ان کی دیکھا دیکھی میں کچھ کم علم اہل سنت حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ مسلم شریف میں ہے کہ
تمہارے چچا کے بیٹے معاویہ تو ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم اپس میں ایک دوسرے کا مال حرام طریقے سے کھائیں اور ایک دوسرے کو قتل کریں
۔
*#جواب و تحقیق*
فقال معاوية للناس: إن هذا أحياني أحياه الله
ایک شخص نے سیدنا معاویہ کو مدلل جواب دیا تو آپ نے ان کی اصلاح کو قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے مجھے زندہ کر دیا ہے اللہ اسے زندہ رکھے
(موسوعة الأخلاق والزهد والرقائق1/241)
ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ شریعت مطہرہ کے سخت پابند تھے، تکبر بڑائی والے نہ تھے، اصلاح قبول فرما لیتے جوکہ عاجزی و انکساری کی علامت ہے...ہاں سیدنا معاویہ اجتہادی مسائل میں مدلل اختلاف بھی رکھتے تھے جیسے کہ دیگر بعض صحابہ کرام و بعض اہلبیت عظام بھی مدلل فروعی اجتہادی اختلاف کرتے تھے
.
دَخَلَ عَلَى مُعَاوِيَةَ فَحَدَّثَهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: فَبَكَى مُعَاوِيَةُ فَاشْتَدَّ بُكَاؤُهُ ثُمَّ أَفَاقَ، وَهُوَ يَقُولُ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
ایک راوی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا معاویہ کو ایک حدیث پاک سنائی تو راوی کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رونے لگے اور بہت شدید روئے پھر جب ان کو افاقہ ہوا تو کہنے لگے اللہ نے سچ فرمایا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا
(الزهد والرقائق - ابن المبارك - ت الأعظمي ص159)
واضح ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت مطہرہ کے سخت پابند تھے احادیث مبارکہ کے سخت پابند تھے اور لوگوں کو بھی پابند کرتے تھے
.
َمُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَوْمَ عَاشُورَاءَ عَامَ حَجَّ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ : يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ، أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " هَذَا يَوْمُ عَاشُورَاءَ، وَلَمْ يُكْتَبْ عَلَيْكُمْ صِيَامُهُ وَأَنَا صَائِمٌ، فَمَنْ شَاءَ فَلْيَصُمْ، وَمَنْ شَاءَ فَلْيُفْطِرْ
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عاشورہ کے دن ممبر پر سرعام یہ فرمایا کہ اے اہل مدینہ تمہارے علماء کہاں ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عاشورہ کا روزہ تم پر فرض نہیں ہے میں روزے دار ہوں چاہو تو تم روزہ رکھو چاہو تو تم روزہ نہ رکھو
(بخاري تحت حدیث2003)
۔
ان تمام روایتوں سے واضح ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ جیسی عظیم شخصیت کے جو سرعام شریعت مطہرہ کی پابندی کروائے اور جو ان کی اصلاح کرے تو اصلاح قبول فرما لے تو ایسے شخص کے بارے میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ سرعام کہیں کہ باطل طریقوں سے مال کھاؤ اور ایک دوسرے کو قتل کرو۔۔۔۔ایسا ہرگز نہیں کہہ سکتے۔۔۔۔یقینا بات کچھ اور ہوگی یہی وجہ ہے کہ علماء کرام نے اس بات کی وضاحت یوں کی ہے کہ:
۔
وقوله: " هذا ابن عمك معاوية، يأمرنا أن نأكل أموالنا بيننا بالباطل ونقتل أنفسنا ": الحديث هذا - والله أعلم - فيما أورده حين سمعه يذكر الحديث فى منازعة الخلافة وقتل المنازع، فاعتقد ذلك لمنازعته علياً، وقد تقدمت بيعته، ورأى أن النفقة فى حربه ومنازعته والقتال فيه؛ من أكل المال بالباطل، وقتل النفس
صحابی نے یہ جو فرمایا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم باطل طریقے سے مال کھائیں اور ہم اپنے اپ کو قتل کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صحابی یہ سمجھتے تھے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ برحق سیدنا علی سے جھگڑا کر رہے ہیں تو سیدنا علی سے جھگڑا کرتے ہوئے جو کچھ وہ مال خرچ کر رہے ہیں تو وہ مال ہم ایک دوسرے پر استعمال کر رہے ہیں وہ مال خرید و فروخت میں استعمال کر رہے ہیں تو یہ مال ہم ایک دوسرے کے ساتھ باطل طریقے سے کھا رہے ہیں کیونکہ یہ مال خلیفہ برحق سیدنا علی کا مقابلے میں مل رہا ہے اور اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے جنگ کر کے گویا ہم ایک دوسرے کو ناحق قتل کر رہے ہیں
(اکمال المعلم شرح مسلم6/256)
۔
المقصود بهذا الكلام أن هذا القائل لما سمع كلام عبد الله بن عمرو بن العاص في تحريم منازعة الخليفة الأول، وأن الثاني يقتل، اعتقد أن هذا الوصف في معاوية، لمنازعته عليا رضي الله عنهما وكانت قد سبقت بيعة علي، فرأى أن الأموال التي ينفقها معاوية على الجنود وغيرهم من الأتباع في حرب علي ومنازعته ومقاتلته إياه من قبيل أكل المال بالباطل، ورأى أن دفع معاوية جنوده لقتال جنود علي من قبيل
قتل النفس
صحابی نے یہ جو فرمایا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم باطل طریقے سے مال کھائیں اور ہم اپنے اپ کو قتل کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صحابی یہ سمجھتے تھے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ برحق سیدنا علی سے جھگڑا کر رہے ہیں تو سیدنا علی سے جھگڑا کرتے ہوئے جو کچھ وہ مال خرچ کر رہے ہیں تو وہ مال ہم ایک دوسرے پر استعمال کر رہے ہیں وہ مال خرید و فروخت میں استعمال کر رہے ہیں تو یہ مال ہم ایک دوسرے کے ساتھ باطل طریقے سے کھا رہے ہیں کیونکہ یہ مال خلیفہ برحق سیدنا علی کا مقابلے میں مل رہا ہے اور اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے جنگ کر کے گویا ہم ایک دوسرے کو ناحق قتل کر رہے ہیں
(فتح المنعم شرح مسلم7/463ملخصا
شرح مسلم نووی12/234نحوہ و ملخصا)
۔
وما ذكره عبد الرحمن عن معاوية رضي الله تعالى عنه إغياء فِي الكلام عَلَى حسب ظنّه، وتأويله، وإلا فمعاوية رضي الله تعالى عنه لم يُعرف منْ حاله، ولا منْ سيرته شيء
مما قَالَ له
صحابی نے جو یہ فرمایا ہے کہ سیدنا معاویہ حکم دیتے ہیں کہ ہم باطل طریقے سے مال کھائیں اور ایک دوسرے کو قتل کرے تو یہ ان کی اپنی تاویل کے مطابق ان کے گمان کے مطابق ہے ورنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت اور ان کے احوال شریعت مطہرہ کی پابندی کی عادت سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ایسا حکم دیں کہ شریعت مطہرہ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ باطل طریقوں سے مال کھاؤ اور ایک دوسرے سے جنگ کر کے ایک دوسرے کو ناحق ہلاک کرو
(ذخیرۃ العقبی32/294)
۔
###############
*#اعتراض نمبر4*
شیعہ روافض نیم روافض اور ان کی دیکھا دیکھی میں کچھ کم علم اہلسنت حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے شہید کرایا
معاویہ نے بی بی عائشہ کو اس طرح قتل کیا کہ اس کے گھر کنواں کھودوایا اور اوپر سے ڈھانپ دیا تاکہ دکھائے نا دے جس میں بی بی عائشہ گر کر وفات پا گئیں
(حبيب السير ص 425)
.
*#پہلی بات*
سیدہ طاہرہ بی بی عائشہ کےمتعلق شیعہ کا کفریہ عقیدہ..............!!
قوله تعالى: " ضرب الله مثلا "في تلك الآيات التصريح بنفاق عايشة وحفصة وكفرهما
شیعہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے عائشہ اور حفصہ کے کفر کی مثال ایت میں دی ہے
(بحار الانوار22/233)
.
أن عائشة خائنة للرسول الأعظم صلى الله عليه وسلم في عقيدته، وخائنة له في فراشه"
شیعہ اپنا عقیدہ لکھتے ہیں کہ عائشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر یہ معاملے میں خیانت کرتی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقائد و نظریات کے معاملے میں بھی خیانت کرتی تھی
(خيانة عائشة بين الاستحالة والواقع؛ ص:115)
۔
دیکھیے ان شیعوں کی کمینگی کہ جب اپنے مطلب کی بات ائی تو رو رو کر سمندر بہا دیے کہ دیکھو بی بی عائشہ سیدہ عائشہ کو بے دردی سے معاویہ نے شہید کر دیا۔۔۔۔اور دوسری طرف بکواس کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ سیدہ عائشہ تو کافر تھی اور زنا کرنے والی تھیں۔۔۔۔اب شیعوں کے پہلے فتوے کو مانا جائے تو دوسرے فتوے کے مطابق کٹر شیعہ کافر اور اگر دوسرے فتوے کو مانا جائے تو کٹر شیعہ پھر بھی کافر۔۔۔۔۔۔!!
۔
یہ کمینے لوگ اپنے مطلب کی بات خود سے بنا لیتے ہیں اور اس کو اہل بیت کی طرف یا رسول کریم کی طرف منسوب کر دیتے ہیں شیعہ روافض نیم روافض کی کسی بات پر بھروسہ مت کیجئے
.
*#دوسری بات*
سیدنا معاویہ نے قتل کرایا یہ اہل تشیع کا جھوٹ ہے، بغضِ سیدنا معاویہ ہے....جھوٹ انکی زبان و کتب میں بھرا پڑا ہوتا ہے، انکی اپنی اسی عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے....بی بی عائشہ آخری ایام میں اپنے بھائیوں کے ساتھ رہتی تھیں، بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بی بی کے گھر کنواں کھودوایا جائے اور سارے گھر والوں میں سے کسی کو پتہ تک نا چلے.......؟؟ اور کنواں کھودنے میں آخر وقت لگتا ہے اور مٹی کا ڈھیر نکلتا ہے....اہلِ خانہ کو پتہ ہی نا چلے یہ عقلا عادتا نہیں ہوسکتا...اور یہ کنوے والا جھوٹا واقعہ صحیح روایات، صحیح تاریخ کے بھی خلاف ہے
۔
صحیح روایات میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات طبعی طور پر بیمار ہو کر ہوئی ۔۔۔انہیں کسی نے شہید نہیں کیا
۔
سیرت حلبیہ میں ہے کہ:
وجاء أن ابن عباس رضي الله عنهما دخل على عائشة رضي الله عنها في مرض موتها
بی بی عائشہ جب بیمار تھیں کہ جس بیماری میں انکی وفات ہوئی اس بیماری میں سیدنا ابن عباس انکی عیادت کرنے آئے
(سیرت حلبیہ 2/412)
.
دیکھیے کتنا دو ٹوک اور واضح لکھا ہے کہ وفات بیماری کی وجہ سے ہوئی
.
بی بی عائشہ کی جان لیوا بیماری میں سیدنا ابن عباس کے آنے کا واقعہ امام بخاری نے بھی لکھا ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَبْلَ مَوْتِهَا عَلَى عَائِشَةَ وَهِيَ مَغْلُوبَةٌ،
بی بی عائشہ کی وفات کر جانے سے پہلے جب ان پر بیماری کا شدید غلبہ تھا اس وقت سیدنا ابن عباس عیادت کرنے آئے
(بخاري روایت نمبر 4753)
.
امام حاکم جس کو اہل تشیع بھی مانتے ہیں انہوں نے بھی سیدہ عائشہ کے جان لیوا بیماری اور سیدنا ابن عباس کی عیادت کا تذکرہ یوں کیا ہے:
جاء ابن عباس يستأذن على عائشة رضي الله عنها في مرضها [المستدرك على الصحيحين للحاكم: 4/ 9 ، صححہ الحاکم ووافقہ الذھبی]
.
بی بی عائشہ کی جان لیوا بیماری میں سیدنا ابن عباس کے آنے کا واقعہ صحیح ابن حبان میں بھی ہے
قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ: إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ مِنْ صَالِحِي بَنِيكَ جَاءَكِ يَعُودُكِ , قَالَتْ: فَأْذَنْ لَهُ فَدَخَلَ عَلَيْهَا
(اسی جان لیوا بیماری میں سیدہ عائشہ) کے بھاءی عبدالرحمن بن ابو بکر نے سیدہ عائشہ سے کہا کہ ابن عباس آپ کی عیادت کو آئے ہیں اور اندر آنے کی اجازت چاہ رہے ہیں، بی بی عائشہ نے اجازت دی اور وہ عیادت کرنے اندر تشریف لے آئے
(صحيح ابن حبان 16/ 41)
.
یہی واقعہ تاریخ الاسلام طبقات کبری تھزیب وغیرہ میں بھی ہے
اشتكت عائشة ، فجاء ابن عباس فقال: يا أم المؤمنين تقدمين على فَرَط صدق ، على رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وعلى أبي بكر رضي الله عنه
سیدہ عائشہ(مرض الموت مین) بیمار ہوئیں تو سیدنا عباس عیادت کرنے آئے فرمایا موت سے کیا گھبرانا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اپ کے منتظر و ہیش رو ہیں
(تاريخ الإسلام 4/249 نحوہ فی التھذیب12/386 و الطبقات الکبری 8/78)
.##################
*#اعتراض نمبر5*
شیعہ روافض نیم روافض اور ان کی دیکھا دیکھی میں کچھ کم علم اہلسنت حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ
شرابی زانی بدکار یزید پلید کو اپنا خلیفہ نامزد کیا لہذا جو کچھ بھی یزید نے کیا دراصل معاویہ نے کیا کیونکہ یزید کا کردار معلوم ہونے کے باوجود اس کو خلیفہ بنانا دراصل یزید کے تمام کرتوتوں کو اپنے گلے ڈالنا ہے
۔
*#جواب و تحقیق*
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے اجتہادی اختلاف تھا لیکن سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا معاویہ کی اپس میں دشمنی ہرگز نہ تھی نفرت ہرگز نہ تھی۔۔۔اس کی ایک جھلک ہم لکھیں گے اور پھر یہ بھی لکھیں گے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یزید کی اچھی تربیت کی تھی اور پھر یہ بھی دلائل کے ساتھ ثابت کریں گے کہ جب سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یزید کے لیے بیت لی تو اس وقت یزید کی برائیاں ظاہر نہ تھیں وہ شرابی زانی نہ تھا اور پھر حدیث پاک سے یہ بھی ثابت کریں گے کہ کوئی شخص کہ جس کی اچھی تربیت کی گئی ہو اور وہ بظاہر اچھا ہو لیکن بعد میں برا بن جائے تو یہ ہو سکتا ہے اور اس طرح کے بیٹے کی وجہ سے والدین پر کوئی حرف نہیں اتا۔۔۔اس طرح کے بیٹوں کی جرائم کی وجہ سے والدین کی مذمت نہیں کی جا سکتی
۔
*#سب سے پہلے ہم یزید کے والد سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق کچھ حوالہ جات پیش کر رہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ برے نہ تھے انہوں نے یزید کی اچھی تربیت کی تھی*
سیدنا معاویہ نے کیا تربیت دی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے
لَعَلَّكَ تَظُنُّ أَنَّ أُمَّكَ مِثْلُ أُمِّهِ، أَوْ جَدَّكَ كَجَدِّهِ، فَأَمَّا أَبُوْكَ وَأَبُوْهُ فَقَدْ تَحَاكَمَا إِلَى اللهِ، فَحَكَمَ لأَبِيْكَ عَلَى أَبِيْهِ
سیدنا معاویہ نے فرمایا خبردار اے میرے بیٹے یزید........!!
تو شاید یہ گمان کرے کہ تمہاری ماں حسین کی ماں کی طرح ہے یا تمہارا دادا اس کے دادا کی طرح ہے یا تمہارا باپ اس کے باپ کی طرح ہے یہ گمان ہرگز نہ کرنا..... سیدنا حسین کا بابا تمہارے بابا سے زیادہ افضل ہے
( سير أعلام النبلاء - ط الرسالة3/260)
.
حتی کہ شیعہ مصنف نے بھی لکھا کہ:
فاحفظ قرابته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، واعلم يابني ان اباه خير من ابيك وجده خير من جدك وامه خير من امك
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یزید کو تنبیہ فرمائی کہ امام حسین کا خیال رکھنا وہ رسول اللہ کے رشتہ دار ہیں... اے میرے بیٹے جان لو کہ سیدنا حسین کے بابا جان تمہارے بابا جان سے زیادہ بہترین اور افضل ہیں اور ان کے دادا تمہارے دادا سے زیادہ بہترین افضل ہے اور ان کی والدہ تمہاری والدہ سے زیادہ بہترین و افضل ہے
(شیعہ کتاب مقتل الحسین ص13)
.
انصاف کی نگاہ سے دیکھیے اہلبیت کے متعلق سیدنا معاویہ یزید کی کیسی تربیت فرما رہے ہیں......؟؟
حتی کہ
عام مجالس و محافل میں سیدنا معاویہ ایک طرح سے دعوت و نصیحت و تربیت کرتے تھے کہ دیکھو ہمارا فروعی اختلاف تھا مگر اہلبیت افضل ہیں انکا خیال رکھنا
۔
*#سیدنا معاویہ کی سیدنا علی سے محبت کی ایک جھلک۔۔۔۔۔۔۔۔!!*
قَالَ مُعَاوِيَةُ لِضَرَارٍ الصَّدَائِيِّ : يَا ضَرَّارُ، صِفْ لِي عَلِيًّا....فبكى مُعَاوِيَة وَقَالَ: رحم الله أَبَا الْحَسَن، كَانَ والله كذلك، فكيف حزنك عَلَيْهِ يَا ضرار؟ قَالَ: حزن من ذبح ولدها وَهُوَ فِي حجرها. وكان مُعَاوِيَة يكتب فيما ينزل بِهِ ليسأل لَهُ علي بْن أَبِي طالب رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ ذَلِكَ، فلما بلغه قتله قَالَ: ذهب الفقه والعلم بموت ابْن أَبِي طالب
سیدنا معاویہ نے سیدنا ضرار سے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان بیان کرو میں سننا چاہتا ہوں... سیدنا ضرار نے طویل شان بیان کی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ روتے ہوئے فرمانے لگے اللہ کی قسم سیدنا علی ایسے ہی تھے... اے ضرار تمہیں سیدنا علی کی وفات پر جو غم ہے وہ بیان کرو... سیدنا ضرار نے فرمایا کہ مجھے غم ایسا ہے جیسے کسی کی اولاد اس کی جھولی میں ہی شہید کر دی جائے.... سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالئ عنہ مسائل میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف لکھ کر پوچھا کرتے تھے جب سیدنا معاویہ کو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کی خبر ملی تو فرمایا کہ آج فقہ اور علم چلا گیا
(الاستيعاب في معرفة الأصحاب ,3/1108)
.
.
*اہلبیت کے مطابق بھی سیدنا معاویہ اچھے تھے......!!*
فنعى الوليد إليه معاوية فاسترجع الحسين...سیدنا حسین کو جب سیدنا معاویہ کی وفات کی خبر دی گئ تو آپ نےاِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا…(شیعہ کتاب اعلام الوری طبرسی1/434) مسلمان کو کوئی مصیبت،دکھ ملےتو کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ(سورہ بقرہ156)ثابت ہوا سیدنا معاویہ امام حسین کے مطابق کافر ظالم منافق دشمن برے ہرگز نہ تھے جوکہ مکار فسادی نافرمان دشمنان اسلام گستاخانِ معاویہ کے منہ پر طمانچہ ہے
.
هذا ما صالح عليه الحسن بن علي بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان: صالحه على أن يسلم إليه ولاية أمر المسلمين، على أن يعمل فيهم بكتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وآله وسيرة الخلفاء الصالحين
(شیعوں کے مطابق)امام حسن نے فرمایا یہ ہیں وہ شرائط جس پر میں معاویہ سے صلح کرتا ہوں، شرط یہ ہے کہ معاویہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سیرتِ نیک خلفاء کے مطابق عمل پیرا رہیں گے
(شیعہ کتاب بحار الانوار جلد44 ص65)
سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "نیک خلفاء کی سیرت" فرمایا جبکہ اس وقت شیعہ کے مطابق فقط ایک خلیفہ برحق امام علی گذرے تھے لیکن سیدنا حسن "نیک خلفاء" جمع کا لفظ فرما رہے ہیں جسکا صاف مطلب ہے کہ سیدنا حسن کا وہی نظریہ تھا جو سچے اہلسنت کا ہے کہ سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم خلفاء برحق ہیں تبھی تو سیدنا حسن نے جمع کا لفظ فرمایا...اگر شیعہ کا عقیدہ درست ہوتا تو "سیرت خلیفہ" واحد کا لفظ بولتے امام حسن....اور دوسری بات یہ بھی اہلسنت کی ثابت ہوئی کہ "قرآن و سنت" اولین ستون ہیں کہ ان پے عمل لازم ہے جبکہ شیعہ قرآن و سنت کے بجائے اکثر اپنی طرف سے اقوال گھڑ لیتے ہیں اور اہلبیت کی طرف منسوب کر دیتے ہیں
اور
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی ساری زندگی میں خلافت و سیاست میں شریعت مطہرہ قرآن و حدیث اور خلفائے راشدین کی پیروی کرتے رہے ہاں فروعی اجتہادی مسائل میں اجتہاد بھی کرتے رہے وہاں خطاء ممکن ہے لیکن شریعت مطہرہ قرآن و حدیث و خلفاء راشدین کی پیروی نہ کی ہوتی تو ضرور امام حسن اور حسین بلکہ دیگر صحابہ کرام بیعت توڑ دیتے اور حق کے لیے نکل آتے چاہے جان ہی کیوں نہ چلی جاتی جیسے کہ یزید کے معاملے میں باہر نکل آئے
.
*#وسوسہ پیدا ہوتا ہے کہ تربیت اچھی تھی تو ایک دم سے کوئی شخص کیسے بدل جاتا ہے..ضرور تربیت میں گڑ بڑ ہوگی....؟؟*
تو لیجیے حدیث پاک پڑہیے
إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيمِ
کوئی بندہ جہنم والے کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور کوئی بندہ جنت والے کام کرتا ہے وہ جہنمی ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اعمال کا دار و مدار خاتمہ پر ہے(اگر موت سے پہلے پہلے اچھے کام کرے گا تو جنتی، برے کام کرے گا تو جہنمی)
(بخاری حدیث6607)
اس حدیث پاک سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ کوئی شخص شروع شروع میں اچھا ہوتا ہے اس کی تربیت اچھی ہوتی ہے لیکن پھر وہ اپنے نفسانی خواہشات پر عمل کرکے یا کسی شیطانی وسوسوں پے عمل کرکے یا کسی بھی وجہ سے برے کام کرتا ہے اور جہنمی بن جاتا ہے
لیھذا
اچھی تربیت سے ہی لوگ جنتی بن جائیں یہ لازم نہیں ہے اچھی تربیت کے ساتھ ساتھ اچھے خاتمے کی بھی دعا کرنی چاہیے
.
*#بیعت کےوقت یزید پلید نااہل و برا نہ تھا لیھذا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کہ برے و نا اہل کو ولی عہد کیا جھوٹ ہے لیھذا یہ اعتراض کہ یزید کے والدین نے تربیت بری کی،جھوٹ ہے..........!!*
جب یزید کی لئے بیعت لی گئ، بیعت کی گئی تو اس وقت یزید برا نہ تھا ، نا اہل نہ تھا ، بعد میں پلید ظالم برا فاسق و فاجر بنا یا ظاہر ہوا....بیعت کے وقت نااہل و برا نہ تھا اس پر ہم مختصراً حق چار یار کی نسبت سے چار دلائل پیش کر رہے ہیں
*دلیل نمبر 1*
بَلَغَ ابْنَ عُمَرَ أَنَّ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ بُويِعَ لَهُ فَقَالَ: «إِنْ كَانَ خَيْرًا رَضِينَا , وَإِنْ كَانَ شَرًّا صَبَرْنَا
جب صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ خبر پہنچی کہ یزید بن معاویہ کی بیعت کی گئی ہے تو آپ نے فرمایا کہ اگر اچھا نکلا تو ہم راضی ہو جائیں گے اور اگر برا نکلا تو ہم صبر کر لیں گے
(استادِ بخاری مصنف ابن أبي شيبة ,6/190روایت30575)
صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ کہنا کے اگر برا نکلا واضح دلیل ہے کہ اس وقت یزید برا نہیں تھا
.
*دلیل نمبر 2*
بايعه ستون من أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم
ساٹھ صحابہ کرام نے یزید کی بیعت کی
(عمدة الأحكام الكبرى1/42)
(ذيل طبقات الحنابلة3/55)
بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنے صحابہ کرام کسی شرابی زانی بے نمازی فاسق و فاجر نااہل کی بیعت کریں۔۔۔۔؟؟
.
.
*دلیل نمبر3*
اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي وَلَّيْتُهُ لِأَنَّهُ فِيمَا أَرَاهُ أَهْلٌ لِذَلِكَ فَأَتْمِمْ لَهُ مَا وَلَّيْتُهُ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي إِنَّمَا وَلَّيْتُهُ لِأَنِّي أُحِبُّهُ فَلَا تُتْمِمْ لَهُ مَا وَلَّيْتُهُ
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب یزید کے لیے بیعت لے لی تو آپ یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اللہ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کو اس لیے ولی عہد کیا ہے کہ وہ اس کا اہل ہے تو اس کو ولی عہدی عطا فرما اور اگر تو جانتا ہے کہ میں نے اس کو ولی عہد محض اس لئے بنایا ہے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کے لیے ولی عہدی کو مکمل نہ فرما
(البداية والنهاية ط هجر11/308)
صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہ نے بیٹے کو اہل اچھا سمجھتے تھے تب بھی تو ان کے لئے بیعت لی اور آگے کے لئے دعا فرمائی
.
*دلیل نمبر4*
تمام معتبر کتب میں لکھا ہے کہ دو تین صحابہ کرام نے یزید کی بیعت نہ کی تو انہوں نے بیعت نہ کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ یہ طریقہ ولی عہدی مروجہ ماثورہ نہیں ہے بلکہ سیدنا معاویہ کا(اجتہاد کردہ)نیا طریقہ ہے۔۔۔اگر یزید نااہل ہوتا زانی شرابی فاسق و فاجر ہوتا تو صحابہ کرام ضرور اعتراض میں اس چیز کا تذکرہ کرتے... صحابہ کرام کو کوئی عذر معلوم نہ ہوا سوائے اس کے کہ ولی عہدی اسلام میں ایک نیا طریقہ ہے
ويزيد أخوكم، وابن عمَكم، وأحسن النَّاس فيكم رأيًا، وإنما أردت أن تقدموه، وأنتم الذين تنزعون وتؤمرون وتقسمون، فسكتوا، فَقَالَ: ألَّا تجيبوني! فسكتوا، فأقبل عَلَى ابن الزبير فقال: هات يابن الزبير، فإنك لعَمْري صاحب خطبة القوم. قَالَ: نعم يَا أمير المؤْمِنِينَ، نخيرك بَيْنَ ثلاث خصال، أيها مَا أخذتَ فهو لك، قَالَ: للَّهِ أَبُوك، اعرضهنّ، قَالَ: إن شئتَ صُنع مَا صنع رَسُول اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ صُنع مَا صنع أَبُو بكر، وإن شئت صُنع مَا صنع عمر. قَالَ: مَا صنعوا؟ قَالَ: قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فلم يعهد عهدًا، وَلَمْ يستخلف أحدًا، فارتضي المسلمون أبا بكر. فَقَالَ: إِنَّهُ ليس فيكم الْيَوْم مثل أَبِي بكر، إن أبا بكر كَانَ رجلًا تُقطع دونه الأعناق، وإني لست آمن عليكم الاختلاف. قَالَ: صدقت، واللَّه مَا نحب أن تدعنا، فاصنع ماصنع أَبُو بكر. قَالَ: للَّهِ أَبُوك وَمَا صنع؟ قَالَ: عمد إِلَى رَجُلٌ من قاصية11 قريش، ليس من رهطه فاستخلفه، فإن شئت أن تنظر أي رَجُلٌ من قريش شئت، ليس من بني عَبْد شمس، فنرضى بِهِ. قَالَ: فالثالثة مَا هِيَ؟ قَالَ: تصنع مَا صنع عمر. قَالَ: وَمَا صنع؟ قَالَ: جعل الأمر شورى في ستة، ليس فِيهِم أحد من ولده، وَلَا من بني أبيه، وَلَا من رهطه. قَالَ: فهل عندك غير هَذَا؟ قَالَ: لَا،
انظر: البداية "8/ 56-58"، تاريخ الطبري "5/ 270-276"، الكامل "3/ 490"
(تاريخ الإسلام ط التوفيقية4/77,78)
.
مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ جن کا شمار اکابر علماے اہل سنت میں ہوتا ہے ، آپ کا "فتاوی فیض الرسول" مشہور زمانہ ہے ، آپ بعض اذہان کے اندر اور زبانوں کے اوپر آنے والے ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
"رہا یزید کا فسق و فجور تو کہیں یہ ثابت نہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی میں یزید فاسق و فاجر تھا ، اور نہ ہی یہ ثابت ہے کہ انہوں نے یزید کو فاسق و فاجر جانتے ہوئے اپنا جانشین بنایا ، یزید کا فسق و فجور دراصل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ظاہر ہوا ، اور فسق ظاہر ہونے کے بعد فاسق قرار دیا جاتا ہے نہ کہ پہلے "
(سیرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ، ص 37)
.
*#بیٹے کے برے کرتوت کی وجہ سے والدین پر حرف نہیں آتا......!!*
القرآن:
وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی
کسی جان(مرد و عورت) کے کرتوتوں(گناہ کفر شرک برائی) کا بوجھ کسی اور جان پر نہیں ہوگا(سوائے اس کے کہ اسکا ملوث ہونا ثابت ہوجائے)
(سورہ انعام آیت164)
.
الحديث:
أَمَا إِنَّهُ لَا يَجْنِي عَلَيْكَ وَلَا تَجْنِي عَلَيْهِ ". وَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : { وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى }
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس بیٹے کے کرتوت(گناہ کفر شرک برائی)کا بوجھ تم پر نہیں ہوگا اور تمھارے کرتوت(گناہ کفر شرک برائی)کا بوجھ تمھارے بیٹے پر نہیں ہوگا
(ابوداود حدیث4495)
.
وَإِنَّمَا خُصَّ الْوَلَدُ وَالْوَالِدُ لِأَنَّهُمَا أَقْرَبُ الْأَقَارِبِ، فَإِذَا لَمْ يُؤَاخَذْ بِفِعْلِهِ فَغَيْرُهُمَا أَوْلَى
جب سب سے قریبی شخص والد و بیٹے کے کرتوتوں(گناہ کفر شرک برائی)کا مواخذہ ایک دوسرے سے نہیں ہوگا تو دیگر لوگوں سے بھی بدرجہ اولیٰ نہیں ہوگا(سوائے اس کے کہ باپ بیٹا یا کوئی اور ملوث ہو تو وہ بھی گناہ کرتوت میں شامل کہلائے گا)
(مرقاۃ شرح مشکاۃ5/1843)
۔
##################
*#اعتراض نمبر6*
شیعہ روافض وغیرہ اعتراض کرتے ہیں کہ
آپ ﷺوآلہ نے آپ (معاویہ) کے بارے میں فرمایا ، معاویہ کو اگر میرے منبر پر پاؤ تو قتل کردو۔
حوالہ: [انساب الاشراف جلد ٥ ص ١٣٦ طبع دار الفکر اور تاریخ دمشق جلد ٥٩ ص ١٥٦ طبع دار الفکر۔]
.
*#جواب و تحقیق*
تاریخ دمشق کا حوالہ تو لکھ دیا مگر خیانت کرتے ہوئے آدھی عبارت لکھی....اس روایت کو لکھنے کے بعد امام ابن عساکر لکھتے ہیں
إذا رأيتم معاوية على المنبر فاقتلوه فقال كذب عمرو... قال ابن عساكر وهذه الأسانيد كلها فيها مقال
جب تم معاویہ کو منبر پر دیکھو تو قتل کر دو ، یہ عمرو کا جھوٹ اور من گھڑت بات ہے۔۔۔میں ابن عساکر کہتا ہوں کہ اس روایت کی تمام سندوں میں کلام و اعتراض ہے
(تاريخ دمشق لابن عساكر59/159)
.
امام ابن حجر عسقلانی اس روایت کی اسانید پر بحث کرنے بعد آخری فیصلہ سناتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ:
وجملة القول أن هذا الحديث لم يثبت عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- من وجه صحيح، غالب الظن أنه موضوع مختلق
الحاصل
یہ روایت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے بلکہ غالب گمان یہی ہے کہ یہ موضوع من گھڑت اور جھوٹی روایت ہے
(المطالب العالية محققا18/201)
.
اس روایت کے ایک راوی مجالد کے متعلق امام بخاری اور امام ابن معین فرماتے ہیں
عَنْ يَحْيَى بْنِ مَعْينٍ، أَنَّهُ قَالَ: مُجَالِدٌ لَا يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ، وَقَالَ مَرَّةً أُخْرَى: مُجَالِدٌ كَذَّابٌ، وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيُّ: مُجَالِدٌ كَذَّابٌ
ابن معین فرماتے ہیں کہ مجالد کی حدیث سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی وہ کذاب جھوٹا راوی ہے اور امام بخاری فرماتے ہیں کہ مجالد کذاب و جھوٹا راوی ہے
(الأباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير1/354)
.
اس روایت کو طبری نے سیدنا معاویہ وغیرہ بنو امیہ کے متعلق لکھی گئ موضوع من گھڑت جھوٹی کتاب میں سے قرار دیا
(تاريخ الطبری54, 10/58)
.
امام سیوطی اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں
مَوْضُوع. عباد رَافِضِي وَالْحكم مَتْرُوك كَذَّاب
یہ روایت جھوٹی من گھڑت ہے اس کی ایک سند میً عباد راوی ہے جوکہ رافضی ہے اور ایک راوی حکم بھی ہے جوکہ متروک و کذاب جھوٹا ہے
(اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة1/388)
.
#######################
*#اعتراض نمبر7*
شیعہ روافض وغیرہ اعتراض کرتے ہیں کہ
آپ ﷺ وآلہ نے فرمایا آپ (معاویہ) جہنم اندر تابوت میں ہے
حوالہ: [انساب الاشراف جلد ٥ ص ١٣٦ طبع دار الفکر۔]
.
*#جواب و تحقیق*
وهذا باطل موضوع ظاهر الوضع إن لم يكن أحمد بن الطيب وضعه وإلا فغيره من الروافض.
یہ روایت جھوٹی من گھڑت ہے، احمد بن طیب راوی نے گھڑی ہے یا پھر کسی اور رافضی نے
(لسان الميزان ت أبي غدة1/489)
.
اس روایت کو طبری نے سیدنا معاویہ وغیرہ بنو امیہ کے متعلق لکھی گئ موضوع من گھڑت جھوٹی کتاب میں سے قرار دیا
(دیکھیے تاريخ الطبری،54, 10/58)
.
اس روایت کا ایک راوی سالم بن ابی الجعد تابعی ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ہی نہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہی نہیں اور وہ تابعی ہو کر بیچ میں راوی کو حذف کر کے کہہ رہا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا۔۔۔ایسی روایت کو مرسل کہا جاتا ہے اکثر علماء کے مطابق مرسل ضعیف ہے احکام میں یعنی فرض واجب ثابت کرنے میں کسی کے کفر ثابت کرنے میں معتبر نہیں لیکن امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک مرسل اگر ایسی روایت ہو کہ راوی خود ثقہ ہو اور ثقہ سے ہی ارسال کرتا ہوں تو پھر اس کی روایت قبول ہے
جبکہ
سالم بن ابی الجعد ثقہ تو ہے لیکن ثقہ سے ہی روایت کرنے میں محتاط نہیں ہے یہ کبھی کذاب جھوٹے من گھڑت راوی سے روایت کرتا ہے جیسے یہ اصبغ بن نباتہ کذاب جھوٹے راوی سے روایت کرتا ہے اور کبھی یہ مجہول راویوں سے روایت کرتا ہے جیسے یزید بن بشیر وغیرہ مجہول راویوں سے بھی یہ روایت کرتا ہے لہذا امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک بھی اس کی مرسل روایت ہرگز ہرگز قابل قبول نہیں بلکہ باطل و مردود ہے
۔
صحيح يحتج به: وهذا عند الأئمة الثلاثة -أبي حنيفة، ومالك، وأحمد في المشهور عنه- وطائفة من العلماء، بشرط أن يكون المرسِل ثقة، ولا يرسل إلا عن ثقة
امام اعظم ابو حنیفہ امام مالک امام احمد کے نزدیک مرسل روایت اس وقت قبول کی جا سکتی ہے جب راوی ثقہ ہو اور ثقہ سے ہی ارسال کرے ورنہ ہرگز قابل قبول نہیں ، باطل مردود ہے
(تیسییر مصطلح الحدیث ص89)
.###################
*#اعتراض نمبر8*
شیعہ روافض نیم روافض اور ان کی دیکھا دیکھی میں کچھ کم علم اہل سنت حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ
ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات پر سیدنا معاویہ نے خوشی کی اور صحابی نے سیدنا معاویہ کے متعلق فرمایا کہ سونا ریشم جانوروں کی کھال یہ دین و گناہ تمہارے گھر میں معاویہ میں نے دیکھے ہیں
۔
*#جواب و تحقیق*
پہلا جواب:
مذکورہ روایت میں ایک راوی بقیہ ہے، اسی بقیہ کی وجہ سے کئ علماء نے ابو داؤد کی مذکورہ بالا روایت کو ضعیف قرار دیا اور گناہ اور صحابی پے طعن کہ کسی مومن کی وفات پے جیسے معاملات میں ضعیف روایت ہرگز قابل قبول نہیں ہوتی
۔
ومداره عند الجميع على بقية بن الوليد۔۔۔۔هذا إسناد ضعيف؛ رجاله كلهم ثقات، إلا أن بقية بن الوليد، يدلس
ابو داؤد کی مذکورہ روایت کا دارومدار بقیہ پر ہے اور بقیہ کی سند ضعیف ہے کیونکہ بقیہ تدلیس کرتا ہے (تدلیس کی وضاحت اگے ا رہی ہے)
(ديوان السنة - قسم الطهارة4/580)
.
وَهُوَ شَرُّ أَقْسَامِهِ.... غُرُورٌ شَدِيدٌ، وَمِمَّنِ اشْتُهِرَ بِفِعْلِ ذَلِكَ بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ....لَأَنْ أَزْنِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُدَلِّسَ. وَقَالَ: التَّدْلِيسُ أَخُو الْكَذِبِ...لَمْ يُبَيِّنْ فِيهِ السَّمَاعَ، فَمُرْسَلٌ) لَا يُقْبَلُ، (وَمَا بَيَّنَ فِيهِ كَسَمِعْتُ، وَحَدَّثَنَا، وَأَخْبَرَنَا، وَشِبْهِهَا، فَمَقْبُولٌ
يُحْتَجُّ بِهِ
تدلیس ( یعنی اصل روایت کسی مردود راوی سے مروی تھی مگر راوی اس مردود راوی کو حذف کر کے کسی ثقہ کا نام ڈال دے تو سند بظاہر ثقہ راویوں کی لگتی ہے حالانکہ بیچ میں مردود راوی محذوف ہوتا ہے) یہ عمل شدید دھوکے دہی پر مبنی ہے اور یہ کام کئ راوی کرتے تھے لیکن بقیہ اس کام میں بہت مشہور ہے، تدریس اتنا گندا کام ہے کہ علماء فرماتے ہیں کہ یہ زنا سے بھی بڑھ کر برا کام ہے اور بعض فرماتے ہیں کہ تدلیس جھوٹ کا بھائی ہے۔۔۔لہذا ایسے راوی کی تدلیس والی روایت ہرگز ہرگز قبول نہیں ہاں اگر سمعت حدثنا اخبرنا جیسے الفاظ کہے تو مقبول ہے کیونکہ اس صورت میں تدلیس نہ رہی
(تدریب الراوی1/263وماقبلہ)
۔
قال الدارقطي بقيه بن الوليد يروي عن قوم متروكين
امام دار قطنی فرماتے ہیں بقیہ متروک مردود راویوں سے بھی روایت کرتا ہے
(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/383)
.
يروي عن الكذابين ويدلسهم
بقیہ جھوٹے کذاب راویوں سے روایت کرتا ہے اور تدلیس کرتا ہے یعنی جھوٹے کذاب مردود راویوں کو حذف کر کے سند میں کسی ثقہ راوی کا نام ڈال دیتا ہے
(نثل النبال بمعجم الرجال1/301)
۔
ابو داؤد کی مذکورہ بالا روایت میں بھی بقیہ راوی ہے اور چونکہ یہ تدلیس کرتا ہے جس کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ حدثنا اخبرنا سمعت وغیرہ الفاظ نہیں بولتا تو وہ تدلیس کر رہا ہوتا ہے۔۔۔ ابو داؤد کی مذکورہ روایت میں بھی اس نے یہ الفاظ نہیں بولے لہذا ابو داؤد کی مذکورہ روایت میں بھی اس نے تدلیس کی ہے یعنی کسی مردود کذاب جھوٹے راوی کو حذف کر کے ثقہ راوی کا نام ڈال دیا ہے لہذا مذکورہ بالا ابو داؤد کی روایت انتہائی ضعیف ہے اور گناہ اور صحابی پے طعن کہ مسلمان کی وفات پر خوشی جیسے کام میں ضعیف روایت ہرگز قابل قبول نہیں ہوتی
۔
کہتے ہیں مسند احمد میں یہی روایت تدلیس کے بغیر ہے تو اسکا جواب یہ ہے کہ مسند احمد میں اس روایت کو مختصر لکھا ہے اور اصل روایت مفصل ابوداود والی ہے تو مختصر کا اعتبار نہیں اصل مفصل کا اعتبار ہوگا یہی وجہ ہے کہ مسند احمد کے حاشیہ میں تدلیس علت بتا کر محقق نے مسند احمد والی روایت کو بھی ضعیف قرار دیا نیز مسند احمد میں اسی روایت میں اگلے راوی کے ساتھ عنعنہ ہے جوکہ تدلیس کی علامت بن رہا ہے
۔
نوٹ:
ریشم سونا اور جانوروں کی کھال کے متعلق دیگر احادیث موجود ہیں جن میں یہ والا واقعہ موجود نہیں ہے
.
*#دوسرا جواب*
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات پر دکھ کا اظہار کیا اور تعزیت بھی کی
. ولما جاء الكتاب بموت الحسن بن علي اتفق كون ابن عباس عند معاوية فعزاه فيه بأحسن تعزية، ورد عليه ابن عباس ردا حسنا
ایک خط ایا جس میں سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کا تذکرہ تھا اور اتفاق سے سیدنا ابن عباس بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہما کے پاس بیٹھے تھے تو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے دکھ کا اظہار کیا اور اچھے الفاظ میں تعزیت کی اور سیدنا ابن عباس نے ان کو اچھا جواب دیا
(البداية والنهاية - ت التركي12/106)
.
حتی کہ غیر معتبر کتاب کہ جسے شیعہ بہت معتبر مانتے ہیں اس کتاب میں بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا دکھ اور تعزیت کا تذکرہ موجود ہے یہ لیجئے عبادت پڑھیے
: لقي معاوية ابن عباس بمكة فعزاه عن الحسن فقال: لا يسوءك الله يا أبا العباس. فقال: لن يسوءني الله ما أبقاك يا أمير المؤمنين
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ملاقات سیدنا ابن عباس سے ہوئی تو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات پر تو کا اظہار کیا اور تعزیت کی اور سیدنا معاویہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی اپ لوگوں کو ہر برائی سے بچائے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اے معاویہ امیر المومنین اپ کے ہوتے ہوئے ہمیں بھلا کون سی برائی پہنچ سکتی ہے (کیونکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ عام عوام کے ساتھ ساتھ اہل بیت ازواج مطہرات صحابہ کرام اور انکی اولادیں وغیرہ کا بہت خیال رکھا کرتے تھے انہیں مالی تعاون دیا کرتے تھے اور ان کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے)
(أنساب الأشراف - ط الفكر3/299)
.
##################
*#اعتراض نمبر9*
شیعہ روافض وغیرہ حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ
آپ ﷺ وآلہ نے آپ (معاویہ) کی اور آپ کے والد (ابو سفیان) اور آپ (معاویہ ) کے بھائی یزید بن ابی سفیان ) کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:اللہ کی لعنت ہو سوار (ابوسفیان)، مہار پکڑنے والے پر (معاویہ) اور دھکا دینے والا پر (یزید بن ابی سفیان)حوالہ: [انساب الاشراف جلد ٥ ص ١٣٦ طبع دار الفکر اور مسند بزار جلد ٩ ص ٢٨٦ رقم روایت ٣٨٣٩ طبع مکتبہ العلوم اور مجمع الزوائد جلد ١ ص ١١٣ طبع مکتبہ القدسی ]
.
*#تحقیق و جواب*
انساب الاشراف کوئی معتبر حدیث کی کتاب نہیں اور مسند بزاز مین معاویہ یزید ابوسفیان کسی کا نام نہیں...یہ رہی مسند بزاز کی اصل روایت کے عربی الفاظ
3839 - حَدَّثَنَا السَّكَنُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: نَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: نَا أَبِي، وَحَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ جَالِسًا فَمَرَّ رَجُلٌ عَلَى بَعِيرٍ وَبَيْنَ يَدَيْهِ قَائِدٌ وَخَلْفَهُ سَائِقٌ، فَقَالَ: «لَعَنَ اللَّهُ الْقَائِدَ وَالسَّائِقَ وَالرَّاكِبَ»
[مسند البزار = البحر الزخار ,9/286]
.
امام طبری نے سیدنا معاویہ و سفیان علیھم الرضوان کی مذمت کرتے ہوئے مزکورہ روایت نہیں لکھی
بلکہ
یہ لکھا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق مذکورہ بالا و دیگر من گھڑت جھوٹی روایات ممبروں پر پڑھی جاتی تھیں
المعتضد بالله على لعن معاويه بن ابى سفيان على المنابر، وامر بإنشاء كتاب بذلك يقرا على الناس
[تاريخ الطبري ,10/54]
یعنی
معتضد باللہ نے جمعہ کے خطبوں میں سیدنا معاویہ و سفیان پر لعنت کا حکم دیا اور ایک تحریر لکھ دی جو ہر خطبہ جمعہ میں پڑھی جاتی تھی اس تحریر میں یہ بھی تھا کہ
ومنه قول الرسول ع وقد رآه مقبلا على حمار ومعاويه يقود به ويزيد ابنه يسوق به: لعن الله القائد والراكب والسائق
ترجمہ
معتضد باللہ کی تحریر میں یہ بھی جھوٹی من گھڑت روایت لکھی تھی کہ رسول اللہ نے دیکھا کہ ابو سفیان گدھے پے سوار ہے معاویہ آگے سے کھینچ رہا ہے اور اسکا بیٹا یزید گدھے کو پیچھے سے ہانک رہا ہے تو رسول نے فرمایا اللہ کی لعنت ہو سوار پر کھینچنے والے پر ہانکنے والے پر
(تاريخ الطبري ,10/58]
.
نیز اس روایت کے جھوٹے من گھرت ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ اس میں یزید بن معاویہ کا ذکر ہے کیونکہ یزید بن معاویہ زمانہ رسالت میں پیدا ہی نہیں ہوا تھا...
لیکن
شیعہ نے چالاکی خیانت دھوکہ بازی کی اور ابنہ اسکا بیٹا ترجمہ کرنے کے بجائے اخوہ کر دیا یعنی یزید معاویہ کا بھائی ترجمہ کردیا
.
اگر اخوہ مان لیا جاءے تب بھی یہ روایت من گھڑت جھوٹی ہی کہلائے گی
کیونکہ
اول تو یہ کہ تاریخ طبری میں اسکو حق سچ کہہ کر نہیں لکھا بلکہ ایک بادشاہ کے کرتوت کے طور پر لکھا
.
دوسری بات یہ ہے کہ روایت میں یہ نہیں لکھا کہ اسلام لانے کے بعد رسول کریم نے لعنت کی...کیونکہ عین ممکن ہے بلکہ اگر روایت صحیح مان لی جائے تو واجب ہے کہ یہ معنی لیے جائیں کہ یہ لعنت معاویہ و ابوسفیان کے اسلام لانے سے پہلے کی بات ہوگی اور اسلام لانے کے بعد تمام لعنتیں بددعائیں براءییاں گناہ مذمتیں سب کچھ معاف ہوجاتا ہے اسلام لانے کے بعد عظمت و فضیلت والا رحمتی بن جاتا ہے
الحدیث:
أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ
ترجمہ:
اسلام لانے سےپہلے جو گناہ و مظالم کرتوت وغیرہ اس نے کیے اسلام لانے کے بعد اسلام ان گناہ و مظالم مذمتوں لعنتوں وغیرہ سب کچھ کو اسلام مٹا دیتا ہے
(اہلسنت کتاب مسلم حدیث192)
(شیعہ کتاب میزان الحکمۃ2/134)
.
الحدیث:
لَا تَذْكُرُوا مُعَاوِيَةَ إِلَّا بِخَيْرٍ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ اهْدِ بِهِ
حضرت معاویہ کا تذکرہ خیر کےساتھ ہی کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی وعلیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ! اسے(ہدایت یافتہ بنا کر اسے)ذریعہ ہدایت بنا۔(سنن ترمذی حدیث 3843)
اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا رد نہیں ہوتی لہذا سیدنا معاویہ ہدایت یافتہ باعث ہدایت ہیں رسول کریم کی ان کے لیے اچھی دعا ہے لیھذا لعنت والی بلاسند روایت جھوٹ ہے
.
الحدیث:
قَدْ فَعَلْتُ، يَغْفِرُ اللَّهُ لَهُ كُلَّ عَدَاوَةٍ عَادَانِيهَا
میں ابوسفیان سےراضی ہوگیا،اللہ اسکی تمام دشمنیوں کو معاف فرمائے(مستدرک حدیث5108)
نبی پاک راضی،اللہ پاک راضی
جل بھن جائےرافضی،نیم رافضی
۔
#################
*#اعتراض نمبر10*
شیعہ روافض نیم رافضی وغیرہ حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ
حضرت عمار اور ایک روایت میں ہے کہ حضرے علی نے فرمایا
والله ما أسلموا ولکن استسلموا وأسروا الکفر فلما رأو علیه أعوانا أظهروه۔۔۔
خدا کی قسم معاویہ اور اسکے ساتھی بالکل اسلام نہیں لائے تھے، وہ ظاہری طور پر اسلام کا نام لیتے تھے اور اپنے کفر کو مخفی طور پر چھپاتے تھے اور آج جنگ صفین میں جب اس نے اپنے مددگاروں کو پا لیا ہے تو انھوں نے اپنے باطنی کفر کو اسلام کے خلاف ظاہر کر دیا ہے۔* (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، اسم المؤلف: علی بن أبی بکر الهیثمی، دار النشر: دار الریان للتراث/دار الکتاب العربی - القاهرة, بیروت – 1407، ج 1، ص 113، باب منه فی المنافقین)
.
*#جواب.و.تحقیق*
*#پہلی بات*
اس بےسند روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ سیدنا معاویہ بمع گروہ منافق تھے باطن میں کفر رکھتے تھے موقع پر کفر ظاہر کیا جبکہ حضرت سیدنا علی نے فرمایا کہ سیدنا معاویہ بمع گروہ ہمارے بھائی (اجتہادی) باغی تھے مشرک کافر منافق نہ تھے...
.
أن عليا – عليه السلام – لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق ، ولكنه يقول : هم بغوا علينا ))
ترجمہ:
بےشک سیدنا علی جنگ کرنے والوں(جنگ جمل و صفین والے سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ سیدنا زبیر و طلحہ وغیرہ صحابہ)کو شرک و منافقت کی طرف منسوب نہ کرتے تھے بلکہ فرماتے تھے کہ وہ ہماری دینی بھائی ہیں جنہوں نے(اجتہادی) بغاوت کی ہے
(شیعہ کتاب قرب الإسناد ص 62
شیعہ کتاب وسائل الشيعة11/62
شیعہ کتاب بحارالانوار32/324)
سیدنا علی کا سیدنا معاویہ وغیرہ کو بھائی کہنا دلیل ہے کہ وہ فاجر منافق کافر نہ تھے
نوٹ:
اجہتادی بغاوت شرک کفر منافقت گناہ نہیں
۔
شیعوں کی معتبر کتاب نہج البلاغۃ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم موجود ہے کہ: .ومن كلام له عليه السلام وقد سمع قوما من أصحابه يسبون أهل الشام أيام حربهم بصفين إني أكره لكم أن تكونوا سبابين، ولكنكم لو وصفتم أعمالهم وذكرتم حالهم كان أصوب في القول
ترجمہ:
جنگ صفین کے موقعے پر اصحابِ علی میں سے ایک قوم اہل الشام (سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرھما رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین) کو برا کہہ رہے تھے، لعن طعن کر رہے تھے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا: تمہارا اہل شام( سیدنا معاویہ، سیدنا ابو سفیان سیدہ عائشہ صحابہ وغیرہ کو) برا کہنا لعن طعن کرنا مجھے سخت ناپسند ہے ، درست یہ ہے تم ان کے اعمال کی صفت بیان کرو...(نہج البلاغہ ص437)
.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: لاتکرہ امارۃ معاویه ترجمہ: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو ناپسند.و.نفرت مت کرنا (بدایہ نہایہ8/131, استادِ بخاری فی "المصنف" روایت نمبر37854 شیعہ کتاب شرح نہج البلاغۃ ابن ابی حدید3/36)
.
*#دوسری بات*
بے سند مذکورہ بالا روایت میں سیدنا عمار بن یاسر کی طرف منسوب ہے کہ وہ سیدنا معاویہ کو ایمان پر نہیں سمجھتے تھے جبکہ معتبر کتب میں
سیدنا عمار کا نظریہ بھی ملاحظہ فرمائیے
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: كُنْتُ إِلَى جَنْبِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ بِصِفِّينَ , وَرُكْبَتِي تَمَسُّ رُكْبَتَهُ , فَقَالَ رَجُلٌ: كَفَرَ أَهْلُ الشَّامِ , فَقَالَ عَمَّارٌ: لَا تَقُولُوا ذَلِكَ نَبِيُّنَا وَنَبِيُّهُمْ وَاحِدٌ , وَقِبْلَتُنَا وَقِبْلَتُهُمْ وَاحِدَةٌ ; وَلَكِنَّهُمْ قَوْمٌ مَفْتُونُونَ جَارُوا عَنِ الْحَقِّ , فَحَقَّ عَلَيْنَا أَنْ نُقَاتِلَهُمْ حَتَّى يَرْجِعُوا إِلَيْهِ "
راوی کہتے ہیں کہ میں جنگ صفین کے موقع پر حضرت عمار بن یاسر کے اتنا قریب بیٹھا تھا کہ ان کے گھٹنے سے میرا میرا گھٹنا ملا ہوا تھا اسی اثنا میں ایک شخص نے کہا کہ اھل شام یعنی سیدنا معاویہ وغیرہ نے کفر کیا تو حضرت عمار نے فرمایا کہ یہ مت کہو کہ انہوں نے کفر کیا کیونکہ ان کے نبی اور ہمارا نبی ایک ہے اور ان کا قبلہ اور ہمارا قبلہ ایک ہے لیکن وہ قوم فتنہ میں پڑ گئی اور حق سے ہٹ گئی یعنی اجتہادی بغاوت کی تو ہم پر حق ہے کہ ہم ان کے ساتھ قتال کریں یہاں تک کہ وہ حق کی طرف لوٹ آئیں
[مصنف ابن أبي شيبة استاد بخاری روایت37841]
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
naya wtsp nmbr
03062524574
purana block shuda wtsp nmbr
03468392475