Labels

اللہ بکری کو مارے تو حرام اور بندہ مارے تو حلال ،کیا یہ گستاخی نا انصافی نہیں؟

 


*#اللہ بکری کو مارے تو بکری حرام اور بندہ بکری کو مارے تو بکری حلال۔۔۔کیا یہ ناانصافی و گستاخی نہیں۔۔۔۔؟؟اسکا عقلی جواب اور عقل کے متعلق اہم بات بھی اس تحریر میں پڑہیے۔۔۔۔۔۔!!*

سوال

علامہ صاحب اعتکاف میں ایک بندے نے پرسنلی طور پر کچھ سوالات پوچھے۔۔۔ کچھ کے جوابات میں نے دے دیے لیکن کچھ کے جوابات سے وہ مطمئن نہیں ہوا ۔۔۔ان میں سے ایک سوال یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اس کے کچھ دوست ہیں جو عقل پہ بہت بھروسہ کرتے ہیں اور بے دین ہیں ملحد ہیں لیکن ظاہر نہیں کرتے اپنے اپ کو اور وہ عقل کی بنیاد پر ایسے اعتراضات کرتے ہیں کہ جو بندے کو مذہب سے دور کر دیتے ہیں۔۔۔ان اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ 

کہتے ہیں کہ بکری جب پہاڑ سے گر کر مر جائے یعنی اللہ بکری کو مارے تو وہ حرام ہے شریعت کے مطابق۔۔۔۔جبکہ بکری کو بندہ ذبح کرے تو بکری حلال ہے۔۔۔ یعنی اللہ مارے تو حرام اور بندہ مارے تو حلال۔۔۔یہ تو اللہ کے ساتھ ناانصافی ہے، اللہ کی گستاخی ہے۔۔۔ نعوذ باللہ تعالی۔۔۔عقلی جواب دی کر مشکور ممنون ہوں 

۔

جواب:

*#اہم گزارش*

علمی تحقیقی اصلاحی سیاسی عقلی دفاعی وغیرہ مختلف قسم کی تحریرات کے لیے اس فیسبک پیج کو فالوو کیجیے،پیج میں سرچ کیجیے،ان شاء اللہ بہت مواد ملے گا...اور اس بلاگ پے بھی کافی مواد اپلوڈ کردیا ہے...

https://www.facebook.com/profile.php?id=100022390216317&mibextid=ZbWKwL


https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1


اور تحریرات سوالات اعتراضات کے جوابات، اہلسنت کے دفاع، معاشرے کی اصلاح و معلومات و تحقیق و تشریح و تصدیق یا تردید وغیرہ کے لیے مجھے وٹسپ کر سکتے ہیں

naya wtsp nmbr

03062524574

میرے نئے وٹسپ نمبر کو وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنائیے تاکہ میں تحریرات وہاں بھیج سکوں،،،سوالات اعتراضات کے جوابات دے سکوں۔۔۔۔دینی خدمات زیادہ سے زیادہ سر انجام دے سکوں

۔

اب اتے ہیں سوال کے جواب کی طرف

*#پہلی بات۔۔۔عقل کے متعلق اہم اصول، اہم بات*

پیارے بھائی ہمیشہ یاد رکھنا کہ عقل کی بنیاد پر اگر کوئی شریعت پر اعتراض بنتا ہو تو عقل کو دور رکھیے گا اور  یہی عقیدہ رکھیے گا کہ اسلام و شریعت نے جو حکم دیا ہے وہ برحق ہے ، وہ یقینا عقل کے بھی مطابق ہوگا لیکن مجھے سمجھ نہیں ارہا فی الحال۔۔۔۔۔لہذا اپ یہی نظریہ رکھیے گا کہ میں علماء سے پوچھوں گا اور عقلی طور پر بھی مطمئن ہو جاؤں گا لیکن اگر مطمئن بھی ہوا تو بھی اسلام کے حکم کو مانوں گا اور اپنی  عقل کو ناقص سمجھوں گا اور سمجھوں گا کہ میری کمزور عقل اس لائق نہیں کہ وہ اسلام کے حکم کی حکمت سمجھ سکے۔۔۔۔!!

۔

یہ بات اپ تمام دوستوں کو سمجھا دیں اور عقل کی بنیاد پر اٹھنے والے اعتراضات لوگوں میں مشہور نہ کریں کہ اللہ نہ کرے اپ کی وجہ سے کوئی بے دین ہو گیا تو اس کا گناہ اپ کو بھی ملے گا۔۔۔!!

۔

اپ اور تمام دوست عہد کر لیں کہ جو اسلام نے حکم ارشاد فرمایا ہم اس کو جی جان سے مانتے ہیں، چاہے وہ ہماری عقل میں ائے یا نہ ائے۔۔۔پھر معتبر علماء کرام ، دو چار علماء کرام سے مسلسل رابطے میں رہیں اور ان سے با ادب ہو کر سوال یوں پیش کریں کہ میں شریعت کو مانتا ہوں چاہے میری عقل مانے نہ مانے لیکن میں عقلی طور پر مطمئن ہونے کے لیے سوال کر رہا ہوں پھر اپ اپنا عقلی سوال ، عقلی اعتراض پیش کریں ، ان شاءاللہ عزوجل علماء کرام اپ کو عقلی طور پر بھی اس کا جواب دیں گے لیکن ان کا جواب اپ کو سمجھ نہ ائے تو بھی اپ نے اسلام کا دامن نہیں چھوڑنا کیونکہ ہو سکتا ہے اس عالم صاحب کی عقل میں بھی شریعت کی حکمت نہ ائی ہو لہذا اپ کسی اور عالم سے رابطے کی کوشش کیجئے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اپ کی عقل کمزور ہو اور اپ کو سمجھ نہ لگے تو اس لیے ہمیشہ ہمیشہ اسلام کو سچا برحق سمجھیے اور اپنی عقل کو کمزور ناقص سمجھا کیجئے 

۔

*#دوسری بات۔۔۔بکری والے اعتراض کا جواب*

دیکھیے حلال اور حرام ہونے کا تعلق  اس بات سے نہیں ہے کہ بندہ حلال کرے تو حلال ہے ورنہ حرام۔۔۔بندہ اگر جان بوجھ کر تکبیر نہ پڑھے یا مشرک کافر بندہ کسی بکری کو ذبح کرے تو اس صورت میں بندے نے ذبح کیا مارا مگر پھر بھی بکری شریعت کے مطابق حلال نہیں۔۔۔لہذا اپ کے ذہن میں جو عقل کہہ رہی تھی کہ بندہ مارے تو حلال یہ اصول عقلی طور پر بھی غلط ثابت ہو گیا کیونکہ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ بندہ مارتا ہے مگر پھر بھی بکری حلال نہیں ہوتی۔۔۔۔

۔

باقی جو بکری پہاڑ سے گر کر مر رہی ہے اسے ڈائریکٹ اللہ نہیں مار رہا بلکہ وہ پھسل کر حادثاتی طور پر مر رہی ہے یعنی بکری کے مرنے کے اسباب ہوتے ہیں مثلا وہ پھسلنے کی وجہ سے مرتی ہے جس کا سبب پہاڑ بنا اور کبھی بیمار ہو کر مرتی ہے تو مرنے کا سبب بیماری بنا اور کبھی اسے درندہ مارتا ہے تو اس وقت ظاہری سبب موت کا درندہ ہوتا ہے اور کبھی بکری کو بندہ مارتا ہے تو بکری کے مرنے کا سبب بندہ ہے۔۔۔۔تو اسی طرح بکری جب بھی مرتی ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی ظاہری سبب ہوتا ہے تو ظاہری سبب کو دیکھیں گے کہ اللہ کا نام لیا گیا یا نہیں اگر اللہ کا نام لیا گیا اور پھر ذبح کیا گیا مارا گیا تو اللہ کے نام کی شرف و برکت کی وجہ سے اس بکری کو حلال قرار دے دیا گیا 

اور 

اگر اللہ کا نام نہ لیا گیا تو کسی بھی سبب سے بکری مرے تو چونکہ بظاہر غیر اللہ کے سبب کی وجہ سے بکری مر رہی ہے اللہ ڈائریکٹ نہیں مار رہا لہذا اللہ کا نام نہیں لیا جا رہا تو اللہ کے نام کی برکت بھی اس میں شامل نہ ہوگی اس لیے بکری حرام قرار پائے گی 

۔

 جب بندے نے اللہ اکبر کہہ کر بکری کو مارا ذبح کیا تو بندے کی وجہ سے بکری حلال نہیں ہوئی بلکہ اللہ کے نام کی برکت سے بکری حلال ہوئی ہے۔۔۔لہذا یہ کہنا کہ بندہ مارے تو حلال اللہ مارے تو حرام درست نہیں کیونکہ جب بندہ

اللہ کا نام لیے بغیر مارے تو بکری حرام لہذا بندے کے مارنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔۔۔ ہاں بندہ مومن جب اللہ کا نام لے کر مارے تو اللہ کے نام کی برکت کی وجہ سے حلال ہے۔۔۔

۔

لہذا ثابت ہوا کہ بندے کے مارنے سے کوئی فائدہ نہیں، کسی اور سبب کی وجہ سے بکری مرے تو کوئی فائدہ نہیں، لہذا کوئی بھی مارے تو اس کے مارنے کی وجہ سے حلال نہیں ہو جاتا۔۔۔ہاں بندہ مومن جب اللہ کا نام لے کر مارے تو اللہ کے نام کی برکت سے وہ حلال ہو جاتا ہے لہذا یہ عین انصاف ہے اللہ کی شان و عظمت کا بیان ہے کہ اس کے نام کی برکت سے بکری حلال ہو رہی ہے جبکہ بندہ اللہ کا نام لیے بغیر مارے تو بکری حرام قرار پاتی ہے کیونکہ اللہ کے نام کی برکت شامل نہیں 

۔

اور اللہ چونکہ ڈائریکٹ مارتا نہیں تو لہذا یہ نہیں کہہ سکتے کہ بکری پھسل کر مر جائے تو ڈائریکٹ اللہ نے ماری ہے حلال ہونی چاہیے ایسا نہیں کہہ سکتے کیونکہ ڈائریکٹ اللہ نے تو نہیں مارا بلکہ بکری پھسلنے کی وجہ سے مری ہے یا بیماری کی وجہ سے مرتی ہے یا کسی درندے کے حملے کی وجہ سے مرتی ہے تو ان تمام صورتوں میں بظاہر مارنے والا چونکہ کوئی اور ہے اور اللہ کا نام بھی نہیں لیا جا رہا لہذا اللہ کے نام کی برکت نہ ملے گی 

۔

اب ایک بات یہ رہ گئی کہ بندہ مارے اللہ کا نام لے کر یا بندہ مارے اللہ کا نام نہ لے یا بکری پہاڑ کی وجہ سے مرے یا بکری درندے کے حملے کی وجہ سے مرے یا بکری بیماری کی وجہ سے مرے تو ان صورتوں میں بظاہر تو مرنے کے اسباب اللہ کے علاوہ ہیں لیکن حقیقت میں ان تمام صورتوں میں بھی مارنے والا اللہ تعالی ہی ہے۔۔۔اب عقل کہتی ہے کہ جب مارنے والا اللہ ہی ہے تو ہر صورت میں بکری حلال ہونی چاہیے۔۔۔اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کریم نے فرمایا ہے کہ سب چیزوں کو میں نے پیدا کیا ہے اور سب چیزوں کو مارنے والا میں ہی ہوں اور سب کا مالک میں ہی ہوں اور میں ہی طاقت والا ہوں حکمرانی کرنے والا ہوں جو چاہوں حکم دوں تمھیں ماننا ہو گا۔۔۔لہذا اللہ کریم نے شریعت مطہرہ کے ذریعے سے ہمیں بتا دیا کہ ساری چیزوں کو میں پیدا کرتا ہوں لیکن میں ہی کچھ چیزوں کو حلال قرار دے رہا ہوں اور کچھ چیزوں کو حرام قرار دے رہا ہوں تاکہ تمہارا امتحان لوں کہ تم میری بات مانتے ہو یا نہیں لہذا انسان اللہ کی مانتے ہوئے سور گدھے سانپ بچھو شیر وغیرہ جن کو اللہ تعالی نے شریعت کے ذریعے سے حرام قرار دے دیا تو اب وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہیں اگرچہ اللہ نے ہی ان کو پیدا کیا ہے لیکن اللہ ہی نے تو ان کو حرام قرار دیا ہے تو یہی تو ہمارا امتحان ہے کہ ہم اللہ کی مانتے ہیں یا نہیں۔۔۔لہذا جن چیزوں کو اللہ نے حرام قرار دے دیا ان چیزوں پر کروڑ مرتبہ اللہ کا نام لے کر حلال کیا جائے تو بھی وہ چیزیں کھانے کے لیے حلال نہیں ہوتیں کیونکہ اللہ نے حکم دے دیا ہے کہ یہ چیزیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہیں چاہے اس پر کوئی میرا نام لے یا نہ لے ہر صورت میں حرام ہے تو لہذا ہم اللہ کی مانتے ہوئے انہیں حرام مانتے ہیں۔۔۔ہاں اللہ کریم نے ان کو حرام قرار دیا ہے تو ضرور اس میں ہمارا فائدہ ہوگا ، اس فائدے کو تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ نے یہ حکم دیا ہے تو ضرور اس میں کوئی حکمت ہوگی ، کوئی راز ہوگا ، کوئی فائدے کی بات ہوگی ، ہماری بھلائی کی بات ہوگی تو اس راز حکمت فائدے بھلائی کی بات کو تلاش کرنا چاہیے 

۔

لہذا حلال جانور جن کو اللہ تعالی نے حلال قرار دیا ان کے لیے بھی اللہ تعالی نے شرط رکھ دی کہ وہ اس صورت میں حلال ہیں کہ جب پاکیزہ بندہ یعنی مومن حلال کرے اور پاکیزہ نام یعنی اللہ کا نام لے کر حلال کرے تو ہی وہ حلال قرار پائیں گے

۔

لہذا اللہ تعالی نے گویا کہ شریعت مطہرہ کے ذریعے سے ہمیں بتا دیا کہ بندہ مارے اللہ کا نام لے کر یا اللہ کا نام نہ لیکر۔۔۔یا درندہ بکری کو مارے یا بیماری کی وجہ سے مرے یا پھسل کر مرے ہر صورت میں مارنے والا میں اللہ ہی ہوں لیکن میں اللہ ہی تمہیں حکم دیتا ہوں کہ ان تمام صورتوں میں میں تم پر حلال جانور کے مرنے کی وجہ سے حلال قرار نہیں دیتا بلکہ تمام صورتوں میں حرام ہے، صرف ایک صورت حلال کی قرار دیتا ہوں کہ پاکیزہ بندہ مومن حلال کرے پاکیزہ نام لے کر یعنی میرا نام لے کر حلال کرے تو ہی میں اس کو تمہارے لیے حلال قرار دیتا ہوں۔۔۔لہذا مشرک کافر مشرک کافر رہ کر ظاہری طور پر زبان سے ہی فقط ہزار بار اللہ کا نام لے کر حلال کرے تو بھی حلال نہیں ہوگا کیونکہ اللہ نے شرط رکھ دی ہے کہ میں اس صورت میں تمہارے لیے حلال قرار دیتا ہوں جب میرا نام پاکیزہ بندہ مومن توحیدی بندہ میرا نام لے کر حلال کرے تو ہی تمہارے لیے حلال ہے

۔

لہذا حقیقتا اللہ مارے یا پیدا کرے تو ایک عقل کہتی ہے کہ جب اللہ نے پیدا کیا ہے جب اللہ نے مارا ہے حقیقت میں تو حلال ہونی چاہیے لیکن دوسری عقل کہتی ہے کہ اللہ نے ہمارا امتحان لینے کے لیے اصول مقرر کیا ہے کہ فلاں صورت میں حلال چیز حلال طریقے سے ماری جائے تو ہی حلال ہوگی ورنہ میں اللہ تمہارے لیے حرام قرار دیتا ہوں تو اب اللہ کریم کے اس اصول کو کون مانتا ہے کون نہیں مانتا یہی تو امتحان ہے۔۔۔عقلی وجہ ہم نے اس میں سوچی تو پتہ چلا کہ اللہ کے نام کی برکت ذبح کرتے وقت مارتے وقت شامل حال ہو تو ہی حلال چیز حلال قرار پائے گی۔۔۔یہ اللہ کے نام کی ہی برکت ہے۔۔۔لہذا یہ اللہ کے ساتھ ہرگز ہرگز نا انصافی نہیں،گستاخی نہیں بلکہ یہ تو اللہ کی شان و عظمت بیان ہو رہی ہے کہ اللہ کا پاکیزہ نام پاکیزہ زبان سے ادا ہو تو ہی حلال چیز ہمارے لیے پاکیزہ و حلال قرار پائے گی۔۔۔!!

۔

واللہ تعالی اعلم و رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلم بالصواب

۔

✍تحریر: العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر قادری بلوچ

naya wtsp nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.