Labels

قران اور احادیث سے ماخوذ ایک ایسا اصول کہ جس سے جہلمی جیسے سب لوگوں کی وڈیوز تعلیمات کا خاتمہ ہو جاتا ہے


*#مرزا جہلمی کی اج تک جو بھی بات فتوی حکم وڈیوز بیانات سب کچھ اس کا اس اہم ترین اصول کے تحت مشکوک یا مردود قرار پایا، لیھذا جہلمی جیسوں کی بات سچی بھی لگے یا باحوالہ حدیث و ایت بھی پڑہیں تو بھی اپ معتبر باریک بین مستند وسیع علم والے اہلسنت عالم دین سے اسکی تصدیق تحقیق تردید تشریح وغیرہ کرائیے۔۔۔جہلمیت کی  بظاہر شان و شوکت سے بھری عمارت دھڑام کرکے گر جاتی ہے قران و سنت سے ماخوذ اس اصول سے۔۔۔ضرور پڑہیے، پھیلائیے، سیو کیجیے یا شئیر کیجیے پھر تسلی سے پڑھیے*

تمھید اور اصول کی تفصیل و دلائل:

ایک صاحب پوڈٹ کاسٹ پہ مرزا جہلمی کو سمجھا رہے ہیں۔۔۔جسکا مفھوم کچھ یوں ہے کہ دیکھیں سرجری کرنا اپریشن کرنا ایک ایسے کامل ڈاکٹر کا کام ہوتا ہے جو پراپر طور پر سیکھا ہوا ہو۔۔۔ اس کا بیک گراؤنڈ ہو۔۔۔ اس کا تجربہ ہو۔۔۔ اس کی بہت معلومات ہو۔۔۔ تب جا کر وہ سرجری کر سکتا ہے۔۔۔ تو اسی طرح اپ مرزا جہلی اپنی فیلڈ میں پراپر طور پر سیکھے ہوئے نہیں ہیں۔۔۔ اپ کا کوئی بیک گراؤنڈ نہیں ۔۔۔ اس لیے اپ شریعت کا حکم بیان نہیں کر سکتے ۔۔۔ حدیثوں سے حکم بیان کر نہیں کر سکتے ۔۔۔۔ ایت پڑھ کر حکم ثابت نہیں کر سکتے۔۔۔ اعتراضات نہیں کر سکتے

۔

محترم یوٹیوبر نے بہت ہی عمدہ طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن مرزا جہلمی نے پھر دھوکہ دے دیا مکاری کر دی اور لوگوں کو گمراہ کر دیا یہ کہہ کر کہ:

 ڈاکٹر کی فیلڈ الگ ہے اس کی شرائط الگ ہیں جبکہ اسلام کی فیلڈ الگ ہے اس کی شرائط الگ ہیں ۔۔۔اسلام نے تو یہ فرمایا ہے حدیث پاک میں ہے کہ پہنچا دو میری طرف سے اگرچہ ایک ایت ہو۔۔۔(ترمذی حدیث2669)

۔

بظاہر یہاں تک دیکھا جائے تو مرزا جہلمی جیت گیا لیکن حدیث پاک میں ہے کہ جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے اور تفکر تدبر تحقیق صبر اللہ کی طرف سے ہے۔۔۔لہذا تحقیق تفصیل حدیث کی وضاحت پڑھیں گے تو اپ کو پتہ چلے گا کہ مرزا جہلمی نے حدیث کا غلط مطلب لیا حدیث کا غلط مطلب بیان کیا دھوکہ دیا گمراہ کیا مکاری سے کام لیا۔۔۔اس لیے اپ بھی جلد بازی میں یہ مت سمجھیے کہ جہلمی جیت گیا 

۔

الحدیث:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الأناة من الله والعجلة من الشيطان

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:

انائت(جلد بازی نہ کرنا،مناسب وقت موقعہ الفاظ انداز کا لحاظ رکھنا ، ثابت قدمی، سنجیدگی، وقار، وسعتِ ظرفی،صبر) اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے..(ترمذی حدیث2012)

تو جلد بازی مت کیجئے۔۔۔جلد بازی میں جہلمی کو جیتا ہوا مت سمجھیے۔۔۔زندگی کا بہت اہم اصول ہے کہ جلد بازی مت کیجئے۔۔۔کسی کو اپنانے میں یا کسی کو دھتکارنے میں جلد بازی مت کیجئے۔۔۔تحقیق سے کام لیجیے تفکر سے کام لیجئے مشورے سے کام لیجئے تحقیق دانوں سے مشورہ کیجئے دلیل شواہد حق اور احتیاط کی بنیاد پر اسلام کی سربلندی کی بنیاد پر فیصلے کیجئے 

۔

*#اہم گزارش*

علمی تحقیقی اصلاحی سیاسی تحریرات کے لیے اس فیسبک پیج کو فالوو کیجیے،پیج میں سرچ کیجیے،ان شاء اللہ بہت مواد ملے گا...اور اس بلاگ پے بھی کافی مواد اپلوڈ کردیا ہے...لنک یہ ہے:

https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1

https://www.facebook.com/profile.php?id=100022390216317&mibextid=ZbWKwL

اور تحریرات سوالات اعتراضات کے جوابات، اہلسنت کے دفاع، معاشرے کی اصلاح و معلومات و تحقیق و تشریح و تصدیق یا تردید وغیرہ کے لیے مجھے وٹسپ کر سکتے ہیں

naya wtsp nmbr

03062524574

میرے نئے وٹسپ نمبر کو وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنائیے تاکہ میں تحریرات وہاں بھیج سکوں،،،سوالات اعتراضات کے جوابات دے سکوں۔۔۔۔دینی خدمات زیادہ سے زیادہ سر انجام دے سکوں

.

*#اب اتے ہیں کہ کیا جہلمی نے درست کہا۔۔۔۔۔۔؟؟تو مختصر جواب ہے کہ بالکل غلط کہا جس کے دلائل درج ذیل ہیں*

*#پہلی دلیل*

 حدیث پاک میں یہ بے شک ہے کہ ایک حدیث ہو یا ایک ایت ہو تو بھی اپ پہنچا دو۔۔۔۔لیکن حدیث پاک میں یہ نہیں ہے کہ اس ایک ایت کی وجہ سے اس ایک حدیث کی وجہ سے بلا تحقیق اور دیگر احادیث و ایات کی طرف نظر کیے بغیر معنی سمجھے بغیر فتوی مت لگائیے حکم مت لگائیے کسی پر اعتراض مت جڑیے۔۔۔تو حدیث پہنچانی ہے ایت پہنچانی ہے مگر اس کی ذریعے سے فورا فتوی اور حکم نہیں لگانا اعتراض نہیں کرنا بلکہ اس کی تفسیر تشریح فہم فقہ دیگر احادیث سے دیگر ایات مبارکہ سے دیگر دلائل سے لغت سے گرائمر سے علم بیان و بلاغت وغیرہ سے سمجھنا ہے یا کسی ماہر کامل وسیع علم والے عالم سے اس کا خلاصہ سمجھنا ہے 

۔

یہ جو مفہوم حدیث کا ہم نے اپ کو بتایا یہ مفہوم بھی ہم نے دیگر احادیث سے سمجھا ہے وہ احادیث اپ کے نظر کروں گا لیکن پہلے ایک دنیاوی مثال دیتا چلوں کہ اپ کو کسی نے ایک گفٹ پیک دیا اور کہا کہ اس کو فلاں فلاں تک پہنچا دو گفٹ پیک میں تھوڑا سا پلاسٹک کا ٹکڑا لگا تھا جہاں سے نظر ا رہا تھا کہ ہزار کا نوٹ پڑا ہے ۔۔۔اب اپ کا کام پہنچانا تو ہے مگر اس گفٹ کے ظاہر کو دیکھ کر فتوی نہیں لگانا۔۔ اعتراض نہیں کرنا ۔۔۔یہ نہیں کہنا کہ یہ رشوت دی جا رہی ہے یا پھر یہ نہیں کہنا کہ سارا گفٹ پیسوں سے بھرا ہے اس لیے یہ مالدار ہے یا یہ فتوی نہیں لگانا کہ یہ چوری کا پیسہ ہے یا یہ فتوی نہیں لگانا کہ یہ تحفے کا پیسہ ہے یا یہ فتوی نہیں لگانا کہ یہ حلال کمائی ہے ، تنخواہ ہے۔۔ اپ ہزار روپے دیکھ تو رہے ہیں لیکن پوری سمجھ اپ کو نہیں۔۔۔۔ پوری سمجھ  یہ تو اپ گفٹ دینے والے سے سمجھیں یا گفٹ لینے والے کو دیگر معاملات کا پتہ ہوگا تو اس کی وجہ سے وہ سمجھ جائے گا کہ یہ گفٹ اخر ہے کیا ۔۔۔ تب اپ فتوی اور حکم لگا سکتے ہیں

۔

اسی طرح اس حدیث پاک کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اپ فقط پہنچا دیں لیکن اپ کو کامل مکمل فہم نہیں ہے دیگر احادیث ایات صحابہ کرام کے اقوال لغت فقہ گرائمر وغیرہ کا علم نہیں ہے تو اپ حکم نہیں لگا سکتے، اپ اعتراض نہیں کر سکتے، لیکن جہلمی صاحب ہیں کہ ایک دو حدیث دو چار حدیث پڑھ لی اور چلے اپریشن کرنے۔۔۔چلے فتوی بازی کرنے۔۔۔۔۔ چلے اعتراضات کی بوچھاڑ کرنے۔۔۔

۔

الحدیث:

نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ ؛ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو ہم سے حدیث سنے اور اس کو یاد کر لے اور اس کو پہنچائے تو اللہ تعالی اس کے چہرے کو تر و تازہ خوشحال رکھے پس کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو پہنچانے والی چیز کی سمجھ بھی رکھتے ہیں اور وہ اس کو اس تک پہنچاتے ہیں جو اس سے زیادہ سمجھ رکھتے ہیں اور کچھ تو اور کئی ایسے ہیں کہ جو سمجھ تو رکھتے ہیں لیکن وہ فقیہ نہیں ہیں

(ابو داؤد حدیث 3660)

اس حدیث پاک میں واضح بتایا جا رہا ہے کہ ایک حدیث اپ نے پہنچانی ہے اس کی تھوڑی بہت اپ کو فقہ اور سمجھ بھی ہوگی لیکن تب بھی اپ فقیہ نہیں کہلائیں گے فقیہ کہلانے کے لیے دیگر ایات و احادیث کی طرف دیگر دلائل اور شواہد کی طرف تفاسیر کی طرف لغت کی طرف بلاغت و بیان کی طرف اور بہت کچھ علوم و فنون ہونا وسیع علم تفکر تدبر ہونا ضروری ہے تاکہ اس حدیث اور ایت کا صحیح مفہوم سمجھا جا سکے۔۔۔لہذا اپ پہنچائیں تو سہی مگر فتوی نہ لگائیں، اعتراض نہ جڑیں 

۔

لہذا جہلمی کی بات درست نہیں کہ شریعت کی فیلڈ میں اپ ایک حدیث کے ذریعے سے بھی فتوے لگا سکتے ہیں حکم لگا سکتے ہیں اعتراضات کر سکتے ہیں ۔۔۔جہلمی کی یہ بات بالکل درست نہیں۔۔۔شرعی اصولوں کے بھی خلاف ہے اور عقل اور دانشمندی کے بھی خلاف ہے 

۔

*#دوسری دلیل*

القرآن:

لَوۡ رَدُّوۡہُ  اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ

اگر معاملات و مسائل کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق،باشعور،باریک دان،سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور جان لیتے

(سورہ نساء آیت83)

بالکل واضح ہے کہ ایک بات اپ کو پتہ چل جائے یا دو چار باتیں اپ کو پتہ چل جائیں تو اس پر فتوے جھاڑتے مت پھریں۔۔۔ اعتراضات کرتے ہیں مت پھریں۔۔ایت احادیث وغیرہ جو کچھ بھی اپ کو معلوم ہے اگر اپ کو دیگر ایات و احادیث بھی معلوم ہیں لغت اپ کو اتی ہے گرائمر اپ کو اتی ہے دیگر شرائط ولوازمات سے اپ صحیح سمجھ سکتے ہیں اپ کا بیک گراؤنڈ علمی ہے کسی استاد سے تجربہ کر کے سیکھا ہے کہ کس طرح شرح کی گئی ہے کیسے شرح کی گئی ہے اور کیسے شرح کی جاتی ہے اور کیسے معنی سمجھے جاتے ہیں اور کیسے فتوی دیے جاتے ہیں تو پھر اپ بے شک فتوے دیں حکم لگائیں اور باطلوں کو رد کریں باطلوں پر اعتراضات کریں 

لیکن

اگر اپ پراپر طور پر وسیع علم و حکمت والے نہیں تو پھر اپ پر لازم ہے کہ اہل استنباط کی طرف رجوع کریں،یہ حکم قران مجید کا ہے، مذکورہ ایت میں ہے، لہذا ایت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ عمومی طور پر ہمیں حدیث یا ایت کہیں سے ملے تو ہم اسے اگے یہ کہہ کر پہنچا سکتے ہیں کہ اس کی تفسیر معتبر عالم دین سے پوچھ لیجئے گا لیکن ہم بغیر تفصیل سمجھے فتوے نہیں جڑیں گے ،اعتراضات نہیں کریں گے،بلکہ تحقیق دانوں وسیع علم والوں باریک بین علمائ کرام مفتیان عظام سے اس ایت اور حدیث کی تفسیر و شرح سمجھنی ہوگی تب اگے پھیلانی ہوگی تب حکم اگے بتانا ہوگا اور تب عمل کرنا ہوگا اور تب اس کی بنیاد پر اپ اعتراض بھی کسی پر کر سکتے ہیں ۔۔۔برحق اعتراض۔۔۔ مدلل اعتراض۔۔۔۔لہذا اس ایت مبارکہ سے بھی جہلمی کا اور اس جیسے کم علم لوگوں کا رد ہو جاتا ہے جو دو چار ایات و احادیث پڑھ لیتے ہیں تو بغلیں مارتے ہوئے جھوٹے مکار ہو کر محقق کہلاتے ہیں گمراہ ہو کر حق والے کہلاتے ہیں اور مستند علماء کرام پر اعتراضات کرتے رہتے ہیں اور مختلف قسم کے احکامات بتاتے رہتے ہیں اور لوگوں کو اپنا فالوور بناتے ہیں لوگوں کو اپنی پیروی کا حکم دیتے ہیں یا لوگ ان کے پیروکار بن جاتے ہیں تو یہ سب غلط ہے۔۔۔انسان اس سے گمراہی اور پھر گمراہی سے کفر نفرت بےباکی نہ جانے کون کون سے برائیوں میں پڑ جاتے ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے اپ کو اچھا سمجھ رہے ہوتے ہیں۔۔۔ برحق سمجھ رہے ہوتے ہیں۔۔۔اللہ کریم سمجھ عطا فرمائے

.

الحدیث:

إِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے اپنی امت پر ان لوگوں کا خوف ہے کہ جو گمراہ کن ائمہ(خطیب یوٹیوبر سوشلی اور جعلی محقق، جعلی عالم مفتی، واعظ بظاہر علم بیان کرنے والے) ہوں گے

(ترمذی حدیث2229)

.

گمراہ کن ائمہ اس طرح ہوں گے کہ کم علمی یا ایجنٹی یا عیاشی لالچ وغیرہ کی بنیاد پر غلط جواب دیں گے، قران مجید کی تمام ایات کی تفاسیر اس کو مد نظر نہ ہوں گی اور اکثر احادیث کا علم نہ ہوگا یا اکثر احادیث کا صحیح فہم نہ ہوگا اور اقوال صحابہ کرام کا علم نہ ہوگا... عربی علوم لغت معنی صرف نحو بدیع بیان حقیقت مجاز وغیرہ علوم و فنون اسے نہ ہوں گے اور وہ ان تمام کے بغیر مسائل نکال کر بتاتا پھرے گا۔۔۔ ایت و احادیث کی غلط تاویل و تفسیر و تشریح کرتا پھرے گا۔۔۔ پھیلاتا پھرے گا اور گمراہ ہوگا اور گمراہ کرتا پھرے گا... لہذا ان سے دور رہو یہ قران و حدیث کے حوالے دے تب بھی ان کا کوئی اعتبار نہ کرو کیونکہ یہ قران و حدیث کے معنی کرنے میں معنی و مقصود سمجھانے میں دو نمبری کرتے ہیں.... ان دو نمبر کو پہچانو.... ان دو نمبر کی وجہ سے اصلی علماء اصلی مولوی سے نفرت نہ کرو

.

الحدیث:

أَلَا إِنَّ شَرَّ الشَّرِّ، شِرَارُ الْعُلَمَاءِ، وَإِنَّ خَيْرَ الْخَيْرِ، خِيَارُ الْعُلَمَاءِ

ترجمہ:

خبردار............!! بےشک بد سے بدتر چیز برے علماء ہیں اور اچھی سے اچھی چیز اچھے علماء ہیں

(دارمی حدیث382)

غور کیا جائے تو اس حکم میں علم و معلومات پھیلانے والے تمام لوگ و ذرائع اس حکم میں شامل ہیں

لیھذا

علماء، معلمین، مرشد، اساتذہ، میڈیا، سوشل میڈیا، صحافی، تجزیہ کار،وکیل،جج،جرنیل،مبلغ ، واعظ وغیرہ معلومات پھیلانے والے لوگ

اچھی سے اچھی چیز ہیں بشرطیکہ کہ اچھے ہوں سچے ہوں باعمل ہوں

اور

یہی لوگ بد سے بدتر ہیں اگر برے ہوں

.

القرآن،ترجمہ:

سچوں(کو پہچان کر ان)کا ساتھ دو(سورہ توبہ آیت119)

دین و دنیا کو بدنام تو جعلی منافق مکار کر رہےہیں....عوام و خواص سب کو سمجھنا چاہیےکہ #جعلی_مکار_منافق تو علماء پیر اینکر لیڈر سیاست دان جج وکیل استاد ڈاکٹر فوجی وغیرہ افراد و اشیاء سب میں ہوسکتےہیں،ہوتے ہیں

تو

جعلی کی وجہ سے #اصلی سےنفرت نہیں کرنی چاہیےبلکہ اصلی کی تلاش کرنی چاہیے اور اسکا ساتھ دینا چاہیے اور ایک دوسرے کی اصلاح کرنی چاہیے، اصلاح و جواب قبول کرنے کا دل جگرہ ہونا چاہیے، رد و مذمت مجبوری ہے تاکہ عوام ایسوں سے دور رہے ورنہ اصل مقصد تو یہ ہے کہ اللہ ہمیں اور ہماری تحریر تقریر رد و جواب سب کچھ کو ہدایت کا باعث بنائے

۔

*#تیسری دلیل*

آیات پاک و حدیث پاک کی تنسیخ تخصیص توضیح تفسیر و تشریح دوسری ایات و احادیث سے ہوتی ہے جس پر کئ دلائل و حوالہ جات ہیں ہم اختصار کے پیش نظر فقط ایک حدیث پاک پیش کر رہے ہیں

الحدیث:

كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينسخ حديثه بعضه بعضا، كما ينسخ القرآن بعضه بعضا ".

‏‏‏‏ ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کو دوسری  حدیث منسوخ و مخصوص(و تشریح) کر دیتی ہے۔ جیسے قرآن کی ایک آیت دوسری آیت سے منسوخ و مخصوص(و تفسیر) ہو جاتی ہے

(مسلم حدیث777)

لیھذا یہ اصول یاد رہے کہ بعض آیات و احادیث کی تشریح تنسیخ تخصیص دیگر آیات و احادیث سے ہوتی ہے....عام آدمی کے لیے اسی لیے تقلید لازم ہے کہ اسے ساری یا اکثر احادیث و تفاسیر معلوم و یاد نہیں ہوتیں،مدنظر نہیں ہوتیں تو وہ کیسے جان سکتا ہے کہ جو ایت یا حدیث وہ پڑھ رہا ہے  پھیلا رہا ہے پہنچا رہا ہے وہ کہیں منسوخ یا مخصوص تو نہیں.....؟؟ یااسکی تفسیر و شرح کسی دوسری آیت و حدیث سےتو نہیں.....؟ 

تو آیت و حدیث پڑھتے ہوءے معتبر اہلسنت عالم کی تفسیر و تشریح مدنظر ہو تقلید ہو یہ لازم ہے ورنہ اپنے سے نکات و مسائل نکالنا گمراہی بلکہ کفر تک لے جاسکتا ہے....وہ عالم وہ مجتہد و فقیہ نکات و مسائل نکال سکتا ہے جو بلاتصب وسیع الظرف ہوکر اکثر تفاسیر و احادیث کو جانتا ہو لغت و دیگر فنون کو جانتا ہو مگر آج کے مصروف دور میں اور علم و حافظہ کے کمی کے دور میں اور فنون و احاطہ حدیث و تفاسیر کے کمی کے دور میں بہتر بلکہ لازم یہی ہے کہ عالم فقیہ بھی تقلید کرے، کسی مجتہد کے قول و تفسیر و تشریح کو لے لے کیونکہ ہر مسلے پر اجتہاد مجتہدین کر چکے

البتہ

جدید مسائل میں باشعور وسیع الظرف وسیع علم والا عالم اپنی رائے پردلیل باادب ہوکر قائم کر سکتا ہے

۔

لہذا ثابت ہوا کہ ایک حدیث یا دو چار حدیث پڑھ کر فتوے نہیں لگا سکتے اپ۔۔۔۔ اعتراضات کے بازار گرم نہیں کر سکتے اپ۔۔۔لہذا جہلمی کا رد واضح ہے اور اس کی بتائی ہوئی حدیث کا مطلب بھی یہی ہے کہ فقط پہنچا دو مگر فتوے مت لگاؤ، اعتراضات مت کرو بلکہ ایت حدیث پہنچانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی پہنچاؤ کہ اس کی تفسیر تشریح حکم وغیرہ اپ نے معتبر عالم دین سے سننا سمجھنا ہے۔۔۔اور معتبر علماء کرام نے مختلف دلائل کی بنیاد پر تقریبا ہر حدیث کی شرح کر دی ہے تو اس کی طرف رجوع کرنا لازم ہے اپنی طرف سے من مانی تفسیر کرنا، من مانی تشریح کرنا کوئی غلط ہے گمراہی ہے کفر تک ہو سکتا ہے

۔

یہاں جہلمی جیسے لوگ اعتراض کر سکتے ہیں یا دیگر احباب کے ذہن میں سوال اس سکتا ہے کہ حدیث میں تو یہ ہے کہ حدیث حدیث کو منسوخ کرتی ہے جبکہ اپ نے منسوخ کا ترجمہ تشریح تفسیر تفصیل کر دیا ہے تو یہ ترجمہ کیسے کیا، کس دلیل کی بنیاد پر کیا۔۔۔۔۔؟؟

تو اس کا جواب بھی حاضر ہے کہ اصطلاحی طور پر مشہور تو یہی ہے کہ پہلے کا سارا حکم ختم ہو جائے نیا حکم ا جائے تو اس کو منسوخ کہتے ہیں لیکن تحقیق اور تفصیل یہ ہے کہ پہلا حکم سارا ختم ہو جائے یا پہلے حکم کے کچھ حصے کو ختم کیا جائے یا پہلے حکم کی وضاحت کی جائے یا اس میں کچھ اضافہ کیا جائے تو یہ ساری صورتیں بھی منسوخ کی ہیں اس لیے تفسیر تشریح تفصیل بھی ایک طرح سے منسوخ کے زمرے میں اتی ہے اور یہ منسوخ کے زمرے میں انا لغوی طور پر ہے کیونکہ لغت و تحقیقی اصطلاح میں منسوخ کا معنی یہی ہے جو ہم نے بتایا

لغت کی معتبر ترین کتب میں سے ایک کتاب تاج العروس میں نسخ منسوخ کا ایک معنی یہ بھی لکھا ہے

 نَسَخَ (مَا فِي الخَلِيَّة: حَوَّلَه إِلى غَيْرِهَا

نسخ منسوخ کا معنی ہے ایک چیز کو دوسری طرف پھیر دینا

(تاج العروس 7/356)

مکمل طور پر پھیر دیا جائے تو بھی منسوخ ہے 

یا معنی کا کچھ حصہ پھیر دیا جائے تو بھی منسوخ ہے 

یعنی معنی کو پھیر دینا ۔۔۔تھوڑا معنی پھیر دینا یا زیادہ معنی پھیر دینا دلیل کی بنیاد پر حدیث کی بنیاد پر دیگر ایات وغیرہ کی بنیاد پر ایک حدیث و ایات کے معنی کو پھیر دینا، تفسیر کر دینا، تشریح کر دینا، حکم میں سے کچھ کمی بیشی کر لینا دلیل کی بنیاد پر،یا حکم میں اضافہ کر دینا دلیل کی بنیاد پر،یہ سب منسوخ کے زمرے میں اتا ہے لغوی طور پر۔۔۔۔۔۔۔لہذا اوپر کی حدیث کا یہی معنی بنے گا کہ ایک حدیث یا ایت کی مکمل طور پر تشریح تفسیر تنسیخ و تفھیم حکم و معنی وغیرہ دوسری ایات و احادیث سے ہوتی ہے لہذا ہمیں تمام احادیث و ایات کی طرف رجوع کرنا ہوگا پھر جا کر حدیث کا معنی ایت کا معنی صحیح سمجھ میں ائے گا لہذا مرزا جہلمی کا اور ان جیسے کم علم ایجنٹوں گمراہوں کا واضح طور پر رد ہو گیا 

۔

*#چوتھی دلیل*

وَإِنَّمَا نَزَلَ كِتَابُ اللَّهِ يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا، فَلَا تُكَذِّبُوا بَعْضَهُ بِبَعْضٍ، فَمَا عَلِمْتُمْ مِنْهُ فَقُولُوا، وَمَا جَهِلْتُمْ فَكِلُوهُ إِلَى عَالِمِهِ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قرآن مجید اسکا بعض حصہ دوسرے بعض حصے  کی تصدیق کرتا ہے تو قرآن کے بعض حصے کو بعض کی وجہ سے مت جھٹلاؤ ...جس کا تمہیں(دیگر ایات و احادیث و سنت و دلائل کے ذریعے)سمجھ آجائے تو وہ بات کہو(عمل کرو پھیلاؤ) ورنہ لازمی طور پر(دیگر ایات و احادیث و دلائل لغت وغیرہ کے وسیع علم والے معتبر) عالم کی طرف سپرد کرو، ان سے سمجھو

(مسند احمد حدیث6741)

۔

میرے خیال سے میں اوپر بہت کچھ مدلل عرض کر چکا ہوں اس حدیث پاک سے بھی یہی واضح ہو رہا ہے کہ اہل علم وسیع علم والے علماء کی طرف سپرد کرنا ہے ان سے سمجھنا ہے کہ فلاں ایت فلاں حدیث جس کو میں پھیلا رہا ہوں اس کا اخر معنی کیا ہے تاکہ میں اس پر عمل کروں اور اس معنی کو بھی لوگوں کو سمجھاؤں۔۔۔

۔

*#پانچویں دلیل*

الحدیث:

حدثنا حفص بن عمر، عن شعبة، عن ابي عون، عن الحارث بن عمرو اخي المغيرة بن شعبة، عن اناس من اهل  حمص، من اصحاب معاذ بن جبل، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، لما اراد ان يبعث معاذا إلى اليمن، قال:" كيف تقضي إذا عرض لك قضاء؟، قال: اقضي بكتاب الله، قال: فإن لم تجد في كتاب الله؟، قال: فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فإن لم تجد في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا في كتاب الله؟، قال: اجتهد  رايي ولا آلو، فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره، وقال: الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله لما يرضي رسول الله".

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کرب بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاس کو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے

(ابوداؤد حدیث3592)

.

ضعفه الشيخ الألباني، ولكن بعض أهل العلم صححه أو حسنه، ومنهم ابن كثير في أول تفسير سورة الفاتحة، وكذلك الشوكاني حسنه وقال: إن ابن كثير جمع فيه جزءاً وقال: كذلك أيضاً أبو الفضل بن طاهر المقدسي جمع فيه جزءاً.وقد وجدت آثار عن عدد من الصحابة تدل على ما دل عليه

 ابو داود شریف کی مذکورہ حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن بعض اہل علم نے اس حدیث کو صحیح و دلیل قرار دیا ہے یا پھر حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے جیسے کہ امام ابن کثیر نے اور جیسے کہ امام شوکانی نے صحیح یا حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے... بعض ائمہ نے تو اس حدیث کی تائید و تخریج و شرح پر کتب و رسائل تک لکھے ہیں... صحابہ کرام سے بہت سارے آثار مروی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے قرآن اور حدیث بھر اقوال صحابہ پھر ان پر کیا گیا اجتہاد و قیاس  کرنا اور عمل کرنا کرانا جائز بلکہ لازم و برحق ہے

(شرح ابوداود للعباد تحت الحدیث3592)

.

اس حدیث پاک سے بالکل واضح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ قران مجید فرقان حمید کی تمام ایات میں سمجھنا ہے تفکر کرنا ہے تدبر کرنا ہے پھر جا کر کسی ایت کا مطلب سمجھ ائے گا اور بعض اوقات تو احادیث مبارکہ بھی سے بھی سمجھنا لازمی ہوگا اور تمام احادیث پر نظر اور فکر تفکر تدبر کرنا ہوگا اور احادیث کے بعد ہمارے لیے یہ بھی حکم ہے کہ صحابہ کرام نے کیا سمجھا وہ سمجھ سمجھنا اپنانا پھیلانا عمل کرنا ضروری ہے 

۔

فقط دو چار احادیث ایات کا معنی دیکھ کر فتوے بازی شروع نہیں کر دینی اعتراض نہیں اٹھانے بلکہ تمام ایات مبارک اور تمام احادیث مبارکہ اور دیگر دلائل لغت تفسیر گرائمر صحابہ کرام کی فہم و فراست سب کو دیکھ کر ایت کو سمجھنا ہے حدیث کو سمجھنا ہے پھر جا کر اس سے فتوی دیا جا سکتا ہے تب جا کر اس کی بنیاد پر اعتراض کیا جا سکتا ہے 

۔

*#اہم نوٹ*

بعض لوگ کے ذہن میں ا سکتا ہے کہ اگر حدیث کی تفسیر تشریح ایت کی تفسیر تشریح تفصیل وغیرہ دیگر احادیث ودلائل سے ہوتی ہے تو وہ دلائل سب کو کیوں نہیں ملتے اختلاف کیوں ہو جاتا ہے ایک حدیث کو سمجھنے میں ایک ایت کو سمجھنے میں اختلاف کیوں ہو جاتا ہے۔۔۔۔؟؟

.

جواب:

الحدیث:

 قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الأحزاب: «لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة» فأدرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم: بل نصلي، لم يرد منا ذلك، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فلم يعنف واحدا منهم

ترجمہ:

غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:

تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے

(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)

پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نا فرمائی

(بخاری حدیث946)

.

دیکھا آپ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کا قیاس و استدلال اور اس میں اختلاف... صحابہ کرام نے اس برحق اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر منافق فاسق گمراہ گستاخ نہیں کہا اور نبی پاک نے بھی کسی کی ملامت نا فرمائی...ایسا اختلاف قابل برداشت ہے بلکہ روایتوں میں ایسے فروعی برحق پردلیل باادب اختلاف کو رحمت فرمایا گیا ہے

.

اختلاف ایک فطرتی چیز ہے.... حل کرنے کی بھر پور کوشش اور مقدور بھر علم و توجہ اور اہلِ علم سے بحث و دلائل کے بعد اسلامی حدود و آداب میں رہتے ہوئے پردلیل اختلاف رحمت ہے

مگر

آپسی تنازع جھگڑا ضد انانیت تکبر لالچ ایجنٹی منافقت والا اختلاف رحمت نہیں، ہرگز نہیں...اختلاف بالکل ختم نہیں ہو پاتا مگر کم سے کم ضرور کیا جا سکتا ہے،اس لیے اختلاف میں ضد ،انانیت، توہین و مذمت نہیں ہونی چاہیے بلکہ صبر اور وسعتِ ظرفی ہونی چاہیے... اور یہ عزم و ارادہ بھی ہونا چاہیے کہ اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، ختم نہیں ہو پایا تو اختلاف کو کم سے کم ضرور کیا جائے گا..اختلاف کو جھگڑے سے بچایا جائے گا..

.

اختلاف کی بنیاد حسد و ضد ہر گز نہیں ہونی چاہیے...

اختلاف اپنی انا کی خاطر نہ ہو

اختلاف لسانیت قومیت کی خاطر نہ ہو

اختلاف ذاتی مفاد لالچ کی خاطر نہ ہو

اختلاف شہرت واہ واہ کی خاطر نہ ہو

اختلاف فرقہ پارٹی کی خاطر کی نہ ہو

اختلاف کسی کی ایجنٹی کی خاطر نہ ہو

اختلاف منافقت، دھوکے بازی کی خاطر نہ ہو

اختلاف ہو تو دلیل و بھلائی کی بنیاد پر ہو، بہتر سے بہترین کی طرف ہو، علم و حکمت سے مزین ہو،

.

ہر شخص کو تمام علم ہو،ہر طرف توجہ ہو، ہر میدان میں ماہر ہو یہ عادتا ممکن نہیں، شاید اسی لیے مختلف میدانوں کے ماہر حضرات کی شوری ہونا بہت ضروری ہے، اسی لیے اپنے آپ کو عقل کل نہیں سمجھنا چاہیے....بس میں ہی ہوں نہیں سوچنا چاہیے...ترقی در ترقی کرنے کی سوچ ہو، ایک دوسرے کو علم، شعور، ترقی دینے کی سوچ ہو....!!

.


کسی کا اختلاف حد درجے کا ہو، ادب و آداب کے ساتھ ہو، دلائل و شواہد پر مبنی ہو تو اس سے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے...ایسے اختلاف والے کی تنقیص و مذمت نہیں کرنی چاہیے،ایسے اختلاف پے خطاء والے کو بھی اجر ملتا ہے

الحدیث:

فاجتهد، ثم اصاب فله اجران، وإذا حكم فاجتهد، ثم اخطا فله اجر

مجتہد نے اجتہاد کیا اور درستگی کو پایا تو اسے دو اجر اور جب مجتہد نے اجتہاد کیا خطاء پے ہوا اسے ایک اجر ملے گا

(بخاری حدیث7352)

توجیہ تنبیہ جواب تاویل ترجیح کی کوشش کرنی چاہیے جب یہ ممکن نا ہو تو خطاء اجتہادی پر محمول کرنا چاہیے.....ہاں تکبر عصبیت مفاد ضد انانیت ایجنٹی منافقت وغیرہ کے دلائل و شواہد ملیں تو ایسے اختلاف والے کی تردید و مذمت بھی برحق و لازم ہے

.


اسی طرح ہر ایک کو اختلاف کی بھی اجازت نہیں... اختلاف کے لیے اہل استنباط مین سے ہونا ضروری ہے... کافی علم ہونا ضروری ہے... وسعت ظرفی اور تطبیق و توفیق توجیہ تاویل ترجیح وغیرہ کی عادت ضروری ہے، جب ہر ایرے غیرے کم علم کو اختلاف کی اجازت نا ہوگی تو اختلافی فتنہ فسادات خود بخود ختم ہوتے جاءیں گے

.

امام احمد رضا فرماتے ہیں:

اطلاق و عموم سے استدلال نہ کوئی اصطلاحی قیاس ہے نہ مجتھد سے خاص(یعنی اطلاق و عموم سےاستدلال کوئی بھی ماہر عالم کرسکتا ہے اس کے مجتہد ہونا ضروری نہیں)(فتاویٰ رضویہ جلد7 صفحہ496)

.

ہاں اطلاق و عموم میں کیا کیا آئے گا اور کون اور کیا کس وجہ سے اطلاق و عموم نہیں آئے گا..؟ یہ سمجھ بوجھ بھی ضروری ہے... جس کے لیے آیات احادیث اثارِ صحابہ و تابعین و آئمہ اسلام...اور وسیع گہرا مطالعہ...عقائد فقہ لغت علم المعانی والبیاناور اس قسم کے دیگر علوم پر نظر ضروی ہے... ایسے علماء محققین کو اطلاق و عموم سے استدلال جائز و ثواب بلکہ کبھی لازم تک ہوجاتا ہے......!!

.

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: «مَنْ كَانَ عَالِمًا بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَبِقَوْلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا اسْتَحْسَنَ فُقَهَاءُ الْمُسْلِمِينَ وَسِعَهُ أَنْ يَجْتَهِدَ رَأْيَهُ...قال الشافعی لَا يَقِيسُ إِلَّا مَنْ جَمَعَ آلَاتِ .الْقِيَاسِ وَهَى الْعِلْمُ بِالْأَحْكَامِ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَرْضِهِ وَأَدَبِهِ وَنَاسِخِهِ وَمَنْسُوخِهِ وَعَامِّهِ وَخَاصِّهِ وإِرْشَادِهِ وَنَدْبِهِ

....وَلَا يَكُونُ لِأَحَدٍ أَنْ يَقِيسَ حَتَّى يَكُونَ عَالِمًا بِمَا مَضَى قَبْلَهُ مِنَ السُّنَنِ، وَأَقَاوِيلِ السَّلَفِ وَإِجْمَاعِ النَّاسِ وَاخْتِلَافِهِمْ وَلِسَانِ الْعَرَبِ وَيَكُونُ صَحِيحَ الْعَقْلِ حَتَّى يُفَرِّقَ بَيْنَ الْمُشْتَبِهِ، وَلَا يُعَجِّلَ بِالْقَوْلِ وَلَا يَمْتَنِعَ مِنَ الِاسْتِمَاعِ مِمَّنْ خَالَفَهُ لَأَنَّ لَهُ فِي ذَلِكَ تَنْبِيهًا عَلَى غَفْلَةٍ رُبَّمَا كَانَتْ مِنْهُ.... وَعَلَيْهِ بُلُوغُ عَامَّةِ جَهْدِهِ، وَالْإِنْصَافُ مِنْ نَفْسِهِ حَتَّى يَعْرِفَ

مِنْ أَيْنَ قَالَ مَا يَقُولُ

 امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے شاگرد رشید محمد بن حسن فرماتے ہیں کہ جو کتاب اللہ کا عالم ہو سنت رسول اللہ کا عالم ہو اور صحابہ کرام کے اقوال کا عالم ہو اور فقہاء کے اجتہاد و استنباط و قیاس کا عالم ہو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ قیاس و اجتہاد کرے... امام شافعی فرماتے ہیں کہ قیاس و اجتہاد وہی کرسکتا ہے کہ جس نے قیاس کے لیے مطلوبہ علوم و فنون میں مہارت حاصل کی ہو، مثلا قرآن کریم(اور سنت رسول) کے احکامات کا علم ہو قرآن کریم(و سنت رسول) کے فرض واجبات آداب ناسخ  منسوخ عام خاص اور اس کے ارشادات و مندوبات وغیرہ کا علم ہو... قیاس و اجتہاد صرف اس عالم کے لئے جائز ہے کہ جو عالم ہو سنتوں کا، اسلاف(صحابہ کرام تابعین عظام و دیگر ائمہ)کے اقوال کا عالم ہو، اسلاف کے اجماع و اختلاف کا عالم ہو، لغت عرب کے فنون کا عالم ہو، عمدہ عقل والا ہو تاکہ اشتباہ سے بچ سکے،اور جلد باز نہ ہو،اور مخالف کی بات سننے کا دل جگرہ رکھتا ہوکہ ممکن ہے یہ غفلت میں ہو اور مخالف کی تنقید سے اسکی غفلت ہٹ جائے۔۔۔نیز قیاس و اجتہاد کرنے والے پر واجب ہے کہ دلائل پر بھرپور غور کرے انصاف کے ساتھ بلاتعصب۔۔۔۔ اور اسے پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے کس بنیاد پر کہہ رہا ہے۔۔۔۔؟؟

(جامع بیان العلم و فضلہ2/856)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

naya whatsapp nmbr

03062524574

 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.