اسلام و پاکستان کے قانون کے مطابق مساجد مزارات اور اہل حق کے امام خطیب علماء لیڈرز ورکرز کو حق حاصل ہے کہ وہ تقدس پامال کییے بغیر مسجد مزار کسی بھی جگہ حق بولے،حق کے لیے تحریک اجتماع جلسے جلوس کرے، البتہ بڑے اسلامی فوائد کے حصول کےلیے اور بڑے نقصان سے بچنے کے لیے عارضی جوش نہ دکھائیں مگر ہم عوام و اکابرین ایسی خاموشی و سستی نہ کریں کہ حق کے خلاف قانون بنوا ڈالیں،غلامی کے معاہدے کرا ڈالیں

🟥 *#اسلام و پاکستان کے قانون کے مطابق مساجد مزارات اور اہل حق کے امام خطیب علماء لیڈرز ورکرز کو حق حاصل ہے کہ وہ تقدس پامال کییے بغیر مسجد مزار کسی بھی جگہ حق بولے،حق کے لیے تحریک اجتماع جلسے جلوس کرے، البتہ بڑے اسلامی فوائد کے حصول کےلیے اور بڑے نقصان سے بچنے کے لیے عارضی جوش نہ دکھائیں مگر ہم عوام و اکابرین ایسی خاموشی و سستی نہ کریں کہ حق کے خلاف قانون بنوا ڈالیں،غلامی کے معاہدے کرا ڈالیں۔۔۔!!*

۔

https://tahriratehaseer.blogspot.com/2025/11/blog-post.html

📣 *#اہم_نوٹ*

حساس اور اہم معاملے پر سفیر کو ملک بدر کرنا یا ملک بدر کرنے کا مطالبہ کرنا اور مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا اور مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کرنا قانونی طور جائز بھی ہے اور کئ ممالک میں یہ سب کچھ ہوا بھی ہے اور کسی ملک میں ایسے معاملے کو بنیاد بنا کر دہشتگرد قرار نہیں دیا گیا۔۔ثبوت قانونی حوالے اس لنک پے پڑھیے،تحریر کے عنوان پے اکتفاء نہ کیجیے بلکہ لنک پے دی گئ لنکس تھوڑا آگے پڑھیے حوالے ہی حوالے ملیں گے۔۔

https://tahriratehaseer.blogspot.com/2025/10/blog-post_24.html

https://www.facebook.com/share/p/17G7Ca6CNy/

۔

🚨 *#تنازعہ*

 تنازعہ یہ ہے کہ حکومت اور اقتدار میں کس کی چلے گی

💠 *#سیاستدانوں کا نظریہ*

زرداری صاحب کہتے ہیں کہ ملک مولویوں کے لیے نہیں بنا اور حکومت پنجاب اور عمران کا مولویوں پر جبر ظلم و ستم اور دیگر تمام معاملات کو دیکھا جائے تو سیاست دانوں کا نظریہ یہی نظر اتا ہے کہ مولوی کا کام ہے مسجد میں اصلاحی اور دینی بیان کرنا۔۔۔ سیاست اور دیگر مطالبات وغیرہ کے لیے مولوی ہرگز نہیں نکل سکتا ، اس کے لیے مسجد کا ہرگز استعمال نہیں ہو سکتا۔۔ دین اور سیاست کو وہ دو الگ چیزیں رکھنا چاہتے ہیں کہ مولویوں کا کیا کام سیاست سے۔۔۔۔!!

۔

💠 *#کئ عوام و بعض علماء کا نظریہ*

کئی عوام اور بعض علماء معتدل رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض تو یہ فرماتے ہیں کہ سیاست اصل میں حق ہی مولویوں کا ہے۔۔ سیاست دان تو مولوی و علماء کے مہرے ہیں مہرے


✅ *#حل*

اسلام کے نظریات تعلیمات کو دیکھا جائے اور بانیان پاکستان کے قول کردار کو دیکھا جائے اور ائین پاکستان کو دیکھا جائے اور معتدل عقل کا استعمال کیا جائے تو حل یہ نکلتا ہے کہ فی زمانہ معاملات سیاست بہت وسیع ہے لہذا ہر زاویے سے سوچنے والے مختلف قسم کے لوگ مفکر لیڈرز علماء و بظاہر دنیادار سیاست دان سائنس دان جرنیل وغیرہ سب مل کر شوری بنائیں اور شوری اسلام کی پابند ہو کر حکومت کرے

۔

👈الحمد للہ 45دلائل لکھے ہیں اس تحریر میں۔۔۔۔دلائل میں بہتر ترتیب تو یہ ہے  کہ پہلے قران پھر حدیث پھر صحابہ کرام کا عمل پھر علماء کرام کے اقوال پھر سیاستدانوں کے اقوال وغیرہ۔۔۔۔ مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ اس وقت مولوی صاحبان علمائے کرام تو شوری کے لیے راضی ہیں، جدوجہد کر رہے ہیں مگر سیاستدان سننے کو تیار ہی نہیں لگتے۔۔۔ تو اس لیے سب سے پہلے سیاست دانوں کے لیے انہی کی زبان میں دلائل دیتے ہیں


🟢 *#دلیل1*

سیاست دانوں کے ہاں بھی مفکر پاکستان بانی پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال بہت معتبر ہیں انتہائی معتبر ہیں تو وہ فرماتے ہیں

۔

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جُدا ہو دِیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

کلیات اقبال ص374

۔

✅علامہ اقبال نے کتنی بڑی وضاحت سے بیان کر دیا کہ سیاست اقتدار جمہوریت سب کچھ کے لیے سیاست کے ساتھ ساتھ ، دنیا کے ساتھ ساتھ دین ہونا بہت ضروری ہے ورنہ اگر دین ساتھ نہ ہو تو وہ چنگیزی حیوانیت ظلم و بربریت رہ جاتی ہے۔۔ علامہ اقبال نے گویا دیگر الفاظ میں یہ فرما دیا کہ دین اور دنیا مل کر شوری بنائیں یعنی دینی ادمی اور دنیاوی ادمی مل کر شوری بنائیں اور وہ شوری اقتدار چلائے حکومت چلائے، 📌ثابت ہوتا ہے کہ دینی ادمی چاہے وہ مسجد میں ہو یا مدرسے میں ہو یا کسی بھی جگہ کا ہو اسے لازمی طور پر سیاست کا حصہ ہونا چاہیے، وہ سیاست کو پاکیزہ کرے، پاکیزہ رکھے اور دنیاوی معاملات میں دنیاوی لوگوں سے مشاورت ہو اور دینی معاملات پر اس کو پرکھا جائے کہ اس کا جواز نکلتا ہے یا نہیں اور پھر اسے لاگو کیا جائے یا ترک کیا جائے

۔

🟢 *#دلیل2*

سیاست دانوں دنیا داروں کے ہاں عظیم مفکر عظیم سیاستدان بانیان پاکستان قائد اعظم اور علامہ اقبال فرماتے ہیں

۔

انگریزوں کی تجویز ہے کہ وطن جغرافیائی طور پر ہو ، مذہبی نہ ہو، افسوس کچھ سیاسی اور مذہبی لیڈر بھی انگریزوں کی تجویزہ پر چل رہے ہیں۔۔(اقبال کے حضور ص267..268ملخصا)

.

قائد اعظم نے فرمایا:

ہمیں نہ انگریزوں پر بھروسہ ہے نہ ہندو بنیے پر، ہم دونوں کے خلاف جنگ کریں گے، خواہ وہ آپس میں متحد کیوں نا ہو جائیں...(قائد اعظم کے افکار و نظریات ص36)

۔

✅لوگو انکھیں کھولو بانیان پاکستان کے اقوال پڑھو کہ وہ مذہب کو ملک کا بنیاد سمجھتے تھے اور اج کے سیاستدان مذہب کو اور مولویوں کو ملک کی بنیاد سے ہٹانا چاہتے ہیں جو کہ بانیان پاکستان کے مطابق انگریزوں کا مشن ہے، اللہ سیاست دانوں کو ہدایت عطا فرمائے اور ہم مولویوں کو جرات صبر بہادری سب کچھ عطا فرمائے کہ ہم کوشش کرتے رہیں بھرپور کوشش۔۔۔۔۔!!

۔

🟢 *#دلیل3*

سیاست دانوں کے ہاں عظیم سیاست دان سمجھے جانے والے بانی پاکستان سمجھے جانے والے قائد اعظم نے واضح اعلان کیا کہ:

کمیونسٹ(لوگ،لیڈر) ملک میں انتشار پیدا کر رہے ہیں،یاد رکھیے پاکستان میں اسلامی شریعت نافذ ہوگی..

(اکابر تحریک پاکستان ص129,حیات خدمات تعلیمات مجاہد ملت نیازی ص104)

۔

✅یہ واضح پیغام ہے کہ جو لوگ ملک میں دین کو الگ رکھ کر ملک کو کمیونسٹ یعنی عقل پرستی دنیا داری پر چلانا چاہتے ہیں وہ قائد اعظم کے مشن کے بالکل خلاف ہیں۔۔ گویا ان الفاظوں میں قائد اعظم نے فرما دیا کہ لیڈر جیسا بھی ہو لیکن تابع شریعت کے ہی ہوگا، 📌اور شریعت والے مساجد میں ہوتے ہیں ،مدارس میں ہوتے ہیں ،مولوی ہوتے ہیں ،علماء ہوتے ہیں تو گویا سیدھا سیدھا قائد اعظم نے فرما دیا کہ علماء مساجد مزارات مولوی صاحبان سب سیاست کا ضروری حصہ ہیں۔۔۔ یہی تو شوری ہے

۔

🟢 *#دلیل4*

قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا:

میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ(سیرت نبی، سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم)پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام(حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم)نے ہمارے لیے بنایا ہے، ہمیں چاہیے کہ

ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں(قرآن و سنت) پر رکھیں..(قائد اعظم کے افکار و نظریات ص29)

۔

✅جمہوریت کی بنیاد اسلام و مذہب دین اسلام پر ہونی چاہیے یہ دو ٹوک فرمایا بانی پاکستان عظیم سیاست دان قائد اعظم محمد علی جناح نے۔۔۔ ظاہر بات ہے جب تک ملک چلے گا جمہوریت چلے گی تو اس کی بنیاد اسلام پر رکھنی ہوگی تو وقتا فوقتا ہر دم دین کی ضرورت ہوگی اور دین تو جانتے ہیں علماء مولوی صاحبان امام مسجد گدی نشین۔۔۔ لہذا سیاست دانوں پر لازم ہے کہ وہ علماء مولوی امام مسجد گدی نشین وغیرہ سب کو ساتھ لے کر چلیں ، انہیں سیاست کا بہت بڑا حصہ بلکہ بنیاد سمجھیں اور ان کی مانیں، اور اپس میں ساتھ مل کر چلیں۔۔۔ یہی تو شوری ہے

۔

🟢 *#دلیل5*

قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا:

اسلامی حکومت کے تصور  کا یہ امتیاز پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت و وفاکیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے، اسلام میں اصلا نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص کی یا ادارے کی، قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرسکتے ہیں...(قائد اعظم کے افکار و نظریات ص25)

۔

✅دیکھا آپ نے بانی پاکستان کے مطابق وہ جمہوریت، وہ لوگ، وہ صدر، وہ وزیر، وہ سینیٹر وہ پارلیمنٹ، وہ جج وہ وکیل، وہ فوجی  وہ جرنیل الغرض جو بھی اسلام کے اصول و تصورات کے خلاف ہو وہ جوتے کی نوک پر.....!!

پاکستان ان کی حکمرانی عیاشی کے لیے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ ان کے عیاشی کے خاتمے اور اسلام یعنی اسلام کے سچے ترجمان جماعت اہلسنت نظریات و اعمال کے نفاذ کے لیے بنایا گیا تھا

۔

🟢 *#دلیل6*

میں نے اے ائی سے پوچھا کہ پاکستان کے قانون میں کیا یہ چیز موجود ہے کہ پاکستان کے کوئی بھی شہری مسجد مزارات مولوی کہیں بھی بیٹھ کر حکومت کے خلاف اواز بلند کر سکتا ہے ان کی غلط پالیسیوں پر اواز بلند کر سکتا ہے تنقید کر سکتا ہے اور غلط پالیسیوں پر تنظیم تحریک بنا سکتا ہے تو اس کا جواب تھا کہ

۔

پاکستان کے آئین میں ایسی شقیں موجود ہیں جو نہ صرف حق دیتی ہیں بلکہ درحقیقت شہریوں( چاہے وہ مولوی ہو عالم ہو امام مسجد ہو یا عام شہری ہر ایک پر) پر یہ فرض عائد کرتی ہیں کہ وہ آئین کی بالادستی کو قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

آئیے اسے تفصیل سے سمجھتے ہیں۔

1. آئین کی بالادقی کا تحفظ: شہریوں کا فرض

پاکستان کا آئین محض ایک دستاویز نہیں، بلکہ "سپریم لاء" (Supreme Law) ہے۔ آرٹیکل 5 واضح کرتا ہے کہ آئین کی پابندی اور اس کا احترام ہر شہری اور ریاست کی ہر organ کا فرض ہے۔


· آرٹیکل 5: "آئین کی پابندی اور اس کا احترام ہر شہری کا فرض ہے اور ہر organ کی ذمہ داری ہے۔"


یہ شق بنیاد فراہم کرتی ہے۔ جب حکومت آئین کے خلاف کام کرتی ہے، تو وہ خود آئین کی خلاف ورزی کر رہی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں، شہریوں کا آئین کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے بولنا محض ایک "حق" نہیں، بلکہ ایک آئینی فرض (Constitutional Duty) بن جاتا ہے۔


2. وہ مخصوص بنیادی حقوق جو آپ کے سوال کا جواب ہیں

آپ نے "بولنا"، "تنظیم بنانا" اور "جلسے کرنا" تینوں چیزیں درست پہچانی ہیں۔ آئین ان تینوں حقوق کی ضمانت دیتا ہے:

· آرٹیکل 16: اجتماع کی آزادی (Freedom of Assembly)

  · "ہر شہری کو پرامن طریقے سے اجتماع کرنے کا حق حاصل ہے۔"

  · یہ حق آپ کو احتجاجی جلسے، دھرنے اور مظاہرے کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

۔

· آرٹیکل 17: تنظیم کی آزادی (Freedom of Association)

  · "ہر شہری کو انجمنیں یا یونینیں بنانے کا حق حاصل ہے۔"

  · یہ شق آپ کو حکومتی پالیسیوں کے خلاف مہم چلانے کے لیے تنظیمیں (سول سوسائٹی آرگنائزیشنز، تحریکیں وغیرہ) بنانے کا حق دیتی ہے۔

۔

· آرٹیکل 19: تقریر اور اظہار کی آزادی (Freedom of Speech and Expression)

  · "ہر شہری کو تقریر اور اظہار کی آزادی حاصل ہے..."

  · یہ سب سے اہم شق ہے جو آپ کو حکومت کی غلط پالیسیوں، جابرانہ فیصلوں اور آئین کی خلاف ورزیوں پر کھل کر بولنے، لکھنے اور پرنٹ / الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق دیتی ہے۔


نتیجہ:

پاکستان کا آئین شہریوں کو وہ تمام حقوق فراہم کرتا ہے جو کسی جابرانہ یا آئین شکن حکومت کے خلاف پرامن مزاحمت،تنقید اور مہم چلانے کے لیے درکار ہیں۔ یہ حقوق جمہوریت کی روح ہیں۔ جب حکومت آئین سے انحراف کرتی ہے، تو ان حقوق کا استعمال شہریوں کا نہ صرف حق بلکہ ان کا قومی اور جمہوری فرض بن جاتا ہے، بشرطیکہ یہ احتجاج پرامن، قانونی اور آئینی دائرہ کار کے اندر رہے۔

🟨🟨🟨🟨🟨🟨🟨

🟢 *#دلیل7*

القرآن: وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ

اور انکے معاملات باہم مشاورت سے ہوتے ہیں

(سورہ شوری ایت38)

.

علامہ جلال الدین علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ:

یتشاورون فیہ ولا یعجلون

یعنی سچے اہل اسلام معاملات میں وہ باہم مشورہ کرتے ہیں اور جلد بازی نہیں کرتے..(جلالین مع الصاوی جلد2 صفحہ1879)

.

کسی بھی ملک تنظیم ادارے علاقے گھر میں جب محض ایک دو اشخاص ہی کی چلتی ہو تو وہ ناکامی کے زیادہ قریب ہوتی ہے... شوری  مشاورت ہونا بہت ضروری ہے..

کیونکہ

لیڈر سربراہ یا بڑا جب اکیلا خود مختار ہو تو جلد بازی غلطی یا غلط فھمی میں ایسا کر بیٹھتا ہے یا کچھ ایسا کہہ بیٹھتا ہے کہ جو ناکامی بربادی کا سبب بنتا ہے.. ترقی نا کرنے کا سبب بنتا ہے..ذات پرستی مفاد پرستی کا ڈر ایک طرف اور ایجنٹی لالچ ضد و تکبر کا خوف دوسری طرف... اور پھر کون کب بدل جائے کوئی گارنٹی نہین دے سکتا...لیھذا شوری ہی میں عافیت اتحاد احتیاط و ترقی ہے

مشورے سے ایک دوسرے کی معلومات بڑھتی ہے... شعور بڑھتا ہے.. صبر و وسعت ظرفی ملتی ہے.. حوصلہ ہمت تجربہ ملتا ہے...نئے جوانوں کو مشاورت میں لینا، افھام و تفھیم کرنا...اپنے جیسے کئ بہترین لیڈرز سیاستدان سائنسدان علماء مجاہدین مفکرین مدبرین و جوش والے و ہوش والے بنانا ہی ترقی کا راز ہے

.

🟢 *#دلیل8*

معتبر و اہم روایت ہے کہ:

إن الله يحب الأمراءَ إذا خالطوا العلماءَ

اللہ تعالی ان امراء( سیاست دانوں) کو پسند فرماتا ہے کہ جو علماء سے مل کر حکومت کرتے ہیں

المقاصد الحسنۃ5/291

✅چاہے وہ علماء مولوی صاحبان امام مسجد ہوں یا مسجد و مزارات و مدارس میں ہوں یا کہیں بھی ہوں انہیں سیاست میں حصہ لینا انتہائی ضروری ہے

۔

🟢 *#دلیل9*

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو گورنر سیاستدان بنا کر حاکم بنا کر بھیجا تو پھر حکومت کرنے کا طریقہ بھی پڑھ لیجئے

الحدیث:

حدثنا حفص بن عمر، عن شعبة، عن ابي عون، عن الحارث بن عمرو اخي المغيرة بن شعبة، عن اناس من اهل  حمص، من اصحاب معاذ بن جبل، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، لما اراد ان يبعث معاذا إلى اليمن، قال:" كيف تقضي إذا عرض لك قضاء؟، قال: اقضي بكتاب الله، قال: فإن لم تجد في كتاب الله؟، قال: فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فإن لم تجد في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا في كتاب الله؟، قال: اجتهد  رايي ولا آلو، فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره، وقال: الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله لما يرضي رسول الله".

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کرب بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاس کو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے

(ابوداؤد حدیث3592)

.

ضعفه الشيخ الألباني، ولكن بعض أهل العلم صححه أو حسنه، ومنهم ابن كثير في أول تفسير سورة الفاتحة، وكذلك الشوكاني حسنه وقال: إن ابن كثير جمع فيه جزءاً وقال: كذلك أيضاً أبو الفضل بن طاهر المقدسي جمع فيه جزءاً.وقد وجدت آثار عن عدد من الصحابة تدل على ما دل عليه

 ابو داود شریف کی مذکورہ حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن بعض اہل علم نے اس حدیث کو صحیح و دلیل قرار دیا ہے یا پھر حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے جیسے کہ امام ابن کثیر نے اور جیسے کہ امام شوکانی نے صحیح یا حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے... بعض ائمہ نے تو اس حدیث کی تائید و تخریج و شرح پر کتب و رسائل تک لکھے ہیں... صحابہ کرام سے بہت سارے آثار مروی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے قرآن اور حدیث بھر اقوال صحابہ پھر ان پر کیا گیا اجتہاد و قیاس  کرنا اور عمل کرنا کرانا جائز بلکہ لازم و برحق ہے

(شرح ابوداود للعباد تحت الحدیث3592)

.

لما بُعث معاذ إلى اليمن معلمًا، وكان رجلًا أعرج،

فصلّى بالنّاس

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن کی طرف گورنر بنا کر بھیجا تو معلم بنا کر بھیجا اور وہ لوگوں کو نماز بھی پڑھایا کرتے تھے

تاریخ اسلام ذہبی3/177ملخصا

۔

✅واضح ہو جاتا ہے کہ امام مسجد ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سیاست گورنری میں حصہ نہیں لے سکتا بلکہ یہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں سے ہے اسلام کی تعلیمات میں سے ہے کہ گورنر بھی ہو صدر وزیراعظم بھی ہو اور بے شک امام مسجد بھی ہو تو جو لوگ مسجد امام مسجد کو سیاست سے جدا کرتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں

.

🟢 *#دلیل10*

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدي، وسيكون خلفاء فيكثرون

(بخاری حدیث نمبر3455)

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ نے اس حدیث پاک کا ترجمہ یوں فرمایا:

بنو اسرائیل کا سیاسی انتظام انبیاء کرام کرتے تھے،جب کبھی ایک نبی انتقال فرماتے تو دوسرے نبی ان کے پیچھے تشریف لاتے اور میرے بعد کوئی نبی نہیں،خلفاء ہونگے اور بہت ہونگے..(بخاری حدیث نمبر3455)

۔

دیکھا برحق سچی سیاست تو انبیاء کرام کی سنت ہے...بلکہ علماء مولوی دینی حضرات پر لازم و ذمہ داری ہے کہ اہل علم انبیاء کرام کے وارث و نائب ہیں...(دیکھیے ابوداؤد حدیث3641)

۔

✅لہذا سیاست علماء مولوی حضرات کی ذمہ داری ہے چاہے وہ امام مسجد ہوں یا مسجد کے خطیب ہوں یا مدرسے کے معلم ہوں یا تنظیم و تحریک کے یا عام علماء لیڈر ہوں

.

🟢 *#دلیل11*

الحدیث:

قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " «من لا يهتم بأمرالمسلمين فليس منهم

ترجمہ:

جو مسلمانوں کے معاملات(معاشرتی و انفرادی بھلائی ترقی اصلاح) پر اہتمام نا کرے، اہمیت نا دے وہ اہلِ اسلام میں سے نہیں(مجمع الزوائد حدیث294)

✅اسلامی سیاست میں یہی معاشرتی انفرادی بھلائی ترقی اصلاح کا اہتمام ہی تو ہوتا ہے.... اور یہ سیاست کرنا ہر ایک پر لازمی قرار دے دیا گیا ہے 📌چاہے وہ امام مسجد ہو چاہے وہ خطیب مسجد ہو چاہے وہ دربار کا متولی ہو چاہے وہ کوئی صوفی ہو چاہے وہ کوئی دنیا دار ہو ہر ایک پر مسلمانوں کی بھلائی کی سیاست کرنا لازم ہے

🚨🚨الا یہ کہ ایت میں یہ بھی ہے کہ ایک مخصوص گروہ ہونا چاہیے کہ جو خاص توجہ زیادہ تر اپنا وقت اصلاح معاشرہ پر توجہ دے مگر حسب مناسبت احتیاط کے ساتھ اشارے کنائے سے سیاسی اہل حق کی تعریف بھی کرے،انکی ایک طرح سے مدد بھی کرے۔۔۔ دیکھیے سورہ التوبہ ایت122

۔

🟢 *#دلیل12*

الحدیث:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ لِحَسَّانَ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ ؛ يَقُومُ عَلَيْهِ قَائِمًا يُفَاخِرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوَقَالَتْ : يُنَافِحُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے مسجد میں ممبر رکھواتے اور وہ اس پر کھڑے ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے ان کی شان بیان کرتے اور کفار باطلوں کی مذمت فرماتے

ترمذی حدیث2846ماخوذا

۔

✅یہ بھی ایک واضح دلیل ہے کہ مسجد کا استعمال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس کے لیے ناموس رسالت کے لیے ہونا ، باطلوں ظالموں کی مذمت و رد کے لیے مسجد کا استعمال ہونا ممبر کا استعمال ہونا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مبارک ہے

اور سیاست میں یہی تو ہوتا ہے کہ دین اسلام کا دفاع ہوتا ہے اور باطل لوگوں کفار ظالموں سے کس طرح نمٹنا ہے کس کی مذمت کرنی ہے کس الفاظ میں مذمت کرنی ہے یہ سب کچھ ہی تو سیاست کا ایک حصہ ہے 📌اور یہ سیاست مسجد کے ممبر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کروائی۔۔۔!!

.

🟨🟨🟨🟨🟨🟨🟨🟨

🟢 *#دلیل13*

قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " ابْتَاعِيهَا فَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ ". ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ : " مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ

ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا کہ کسی غلام کو ازاد کیا جائے تو ولایت کا حق کس کو ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کو خرید لو اور اس کو ازاد کر دو اور ولایت کا حق ازاد کرنے والے کو ہے پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد شریف کے ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا کہ ایسی شرطیں باندھتے ہیں کہ جو کتاب اللہ میں نہیں ہے

بخاری حدیث2735

۔

✅رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سیاسی مسئلہ، خرید و فروخت کا مسئلہ، ولاء کا مسئلہ مسجد کے ممبر پر تشریف فرما کر حل فرمایا جس سے واضح ہوتا ہے کہ مسجد کے ممبر کا استعمال سیاست کے لیے یعنی اچھی سیاست کے لیے ہونا بالکل برحق ہے۔۔۔ 📌مسجد  اور امام مسجد کو سیاست سے دور کرنا، سیاست اور دین کو الگ الگ سمجھنا بہت بڑی غلط فہمی ہے بلکہ گمراہی بلکہ کفر تک ہو سکتا ہے

.

🟢 *#دلیل14*

فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ يَوْمِهِ فَاسْتَعْذَرَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ : " يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَنِي عَنْهُ أَذَاهُ فِي أَهْلِي ؟ وَاللَّهِ، مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا، وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا، وَمَا يَدْخُلُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا مَعِي ". قَالَتْ : فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ أَخُو بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، فَقَالَ : أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْذِرُكَ، فَإِنْ كَانَ مِنَ الْأَوْسِ ضَرَبْتُ عُنُقَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا مِنَ الْخَزْرَجِ أَمَرْتَنَا فَفَعَلْنَا أَمْرَكَ.

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد شریف کے ممبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا کہ اس شخص کو بدلا سزا کون دے گا کہ جس نے میرے گھر والوں کے متعلق مجھے اذیت دی صحابی نے عرض کی یا رسول اللہ وہ ہمارے قبیلے سے ہو یا کسی بھی قبیلے سے ہو میں اسے قتل کر دوں گا اپ کے حکم کی تعمیل کروں گا

بخاری حدیث4141ملخصا

۔

✅یہ کوئی نماز روزے  کا مسئلہ نہیں تھا کہ بلکہ ایک قسم کا سیاسی ۔۔۔یعنی  دینی سیاسی مسئلہ تھا جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد شریف کے ممبر کا استعمال فرمایا۔۔۔ لہذا مسجد ممبر امام خطیب علماء کو سیاست سے دور کرنا الگ رکھنا سراسر غلط و  بے بنیاد ہے

.

🟢 *#دلیل15*

حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ : بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْثًا، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ فَطَعَنَ بَعْضُ النَّاسِ فِي إِمَارَتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَنْ تَطْعُنُوا فِي إِمَارَتِهِ فَقَدْ كُنْتُمْ تَطْعُنُونَ فِي إِمَارَةِ أَبِيهِ مِنْ قَبْلُ، وَايْمُ اللَّهِ، إِنْ كَانَ لَخَلِيقًا

لِلْإِمَارَةِ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر جنگ کے لیے جہاد کے لیے بھیجا اور سیدنا اسامہ بن زید کو ولی مقرر کیا تو بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم تو ان کے والد کی ولایت میں بھی اعتراض کر چکے ہو لیکن سنو خدا کی قسم وہ ولایت و امارت کے لیے عمدہ و لائق ہے

بخاری حدیث3730

۔

✅رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک سے، عمل مبارک سے ہمیں ہدایت ملتی ہے کہ امام مسجد اور مسجد کا امام جو عالم ہو وہ لوگوں کہ اعتراض اور فیصلے کو رد کرتے ہوئے اواز بلند کر سکتا ہے ممبر مسجد پر۔۔۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ جنگی معاملات سیاسی معاملات عسکری معاملات سیاسی معاملات وغیرہ مسجد و محراب میں ممبر و محراب میں امام مسجد و علماء کی سربراہی میں ان کی اواز و دلیل میں حل ہو سکتے ہیں، حل ہونے چاہیے

.

🟢 *#دلیل16*

 قَامَ عُمَرُ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ : أَمَّا بَعْدُ، نَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ، وَهِيَ مِنْ خَمْسَةٍ۔۔۔۔، وَالْخَمْرُ مَا خَامَرَ الْعَقْل

سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ مسجد کے ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ شراب کی حرمت نازل ہو چکی ہے شراب اس وقت پانچ چیزوں سے بنتی ہے اور خمر یعنی شراب وہ ہے کہ جو عقل کو خمر کرے یعنی ڈھانپ دے ، عقل بگاڑ دے

بخاری روایت5581

۔

✅سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے قیاس فرمایا کہ شراب فقط انگور والی شراب نہیں بلکہ ہر وہ چیز جو عقل کو بگاڑ دے ڈھانپ لے وہ شراب میں شامل ہے تو یہ میڈیکل کا سیاسی مسئلہ مسجد و ممبر کا استعمال کرتے ہوئے بیان کیا گیا لہذا میڈیکل سے ریلیٹڈ سیاسی مسائل میں بھی مسجد محراب اور امام مسجد  و خطیب مسجد وغیرہ حصہ لیں گے، ضرور لیں گے 

.

🟢 *#دلیل17*

 : اسْتَعْمَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ بَنِي أَسْدٍ - يُقَالُ لَهُ : ابْنُ الْأُتَبِيَّةِ - عَلَى صَدَقَةٍ، فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ : هَذَا لَكُمْ، وَهَذَا أُهْدِيَ لِي. فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ - قَالَ سُفْيَانُ أَيْضًا : فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ - فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ : " مَا بَالُ الْعَامِلِ نَبْعَثُهُ، فَيَأْتِي يَقُولُ : هَذَا لَكَ، وَهَذَا لِي. فَهَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ فَيَنْظُرَ أَيُهْدَى

 لَهُ أَمْ لَا

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو صدقات و زکوۃ لینے کی ذمہ داری سونپی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حساب کتاب مانگا تو انہوں نے عرض کی یہ میرے لیے تحفہ ہیں اور یہ زکوۃ و صدقات ہیں تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام ممبر پر تشریف فرما ہوئے اللہ کی حمد کی ثنا کی اور فرمایا کہ یہ کیسے کہہ رہا ہے کہ یہ میرے لیے ہے یہ تمہارے لیے ہے۔۔۔ تو کیوں نہ وہ اپنے باپ کے گھر میں بیٹھ جاتا تو دیکھتے کہ اسے تحفے ملتے  یا نہیں

بخاری حدیث7174

۔

✅حدیث پاک سے واضح ہوتا ہے کہ احتساب جو کہ سیاسی عمل ہے وہ مسجد و ممبر میں ہو سکتا ہے، مسجد و ممبر سے امام مسجد کی طرف سے ، علماء کی طرف سے احتساب کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے

.

🟢 *#دلیل18*

 رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ مِنَ الْمِنْبَرِ، فَيَعْرِضُ لَهُ الرَّجُلُ فِي الْحَاجَةِ، فَيَقُومُ مَعَهُ حَتَّى 

يَقْضِيَ حَاجَتَهُ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ممبر سے تشریف لاتے تو اس وقت کوئی شخص اپنی حاجت کوئی مسئلہ عرض کرتا تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام اس کے ساتھ گفتگو فرماتے یہاں تک کہ اس کا مسئلہ حل کر دیتے

ابوداود حدیث1120

.

✅یہ حدیث پاک تو مطلق و عام ہے کہ جس قسم کا بھی مسلہ ہو، سیاسی مسئلہ ہو یا دینی مسئلہ ہو وہ مسجد میں حل ہو سکتا ہے اس کو مسجد میں ڈسکس کیا جا سکتا ہے اور مسجد میں ایسے سیاسی مسائل اور دیگر قسم کے مسائل پر اواز اٹھائی جا سکتی ہے تاکہ مسئلہ حل ہو۔۔۔۔ چاہے وہ اواز اٹھانے والا حل کرنے والا امام مسجد ہو یا خطیب مسجد یا کوئی اور۔۔۔۔!!

.

🟨🟨🟨🟨🟨🟨🟨🟨

🟢 *#دلیل19*

 قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا عَلَى الْمِنْبَرِ، وَبِلَالٌ قَائِمٌ بَيْنَ يَدَيْهِ مُتَقَلِّدٌ سَيْفًا

صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ممبر پر تشریف فرما ہوتے ہوئے دیکھا اور اپ کے سامنے سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ تلوار لیے کھڑے تھے

ابن ماجہ حدیث2816

۔

✅اہل حق کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی سیکیورٹی کے لیے سیکیورٹی گارڈ مسجد میں ہی رکھیں۔۔ 📌سیکیورٹی بظاہر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور وہ مسجد میں ہی حل کیا جا رہا ہے

.

🟢 *#دلیل20*

 سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَالْمُؤَذِّنُ يُقِيمُ الصَّلَاةَ وَهُوَ يَسْتَخْبِرُ النَّاسَ، يَسْأَلُهُمْ عَنْ أَخْبَارِهِمْ وَأَسْعَارِهِمْ.

سیدنا عثمان بن عفان خلیفہ راشد رضی اللہ تعالی عنہ ممبر پر تشریف فرما ہوتے تھے اور لوگوں سے ان کے احوال پوچھتے تھے مسائل پوچھتے تھے اور خرید و فروخت اور قیمت و ریٹ کے بارے میں پوچھتے تھے

مسند احمد روایت540

.

✅اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ معاشی مسائل معیشت کے مسائل مسجد میں ڈسکس کیے جا سکتے ہیں اور لوگوں کے مسائل مسجد میں ڈسکس کیے جا سکتے ہیں۔۔۔ چاہے وہ مسائل سیاسی ہوں تجارتی ہوں یا دیگر ضروریات زندگی یا مسائل زندگی سے تعلق رکھتے ہوں۔۔

🟨🟨🟨🟨🟨🟨🟨🟨

🟢 *#دلیل21*

 مسجد اور امام مسجد اور عوام نے مل کر حکومت وقت کے خلاف اواز بلند کی یہ عمل صحابہ کرام سے ثابت ہے

.

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ابن سُفْيَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُفَيْرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ فُلَيْحٍ أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنِ حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ وَفَدَ عَلَى يَزِيدَ فَأَكْرَمَهُ وَأَحْسَنَ جَائِزَتَهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ قَامَ إِلَى جَنْبِ الْمِنْبَرِ- وَكَانَ مَرْضِيًّا صَالِحًا- فَقَالَ أَلَمْ أُحِبَّ أَنْ أُكْرَمَ وَاللهِ لَرَأَيْتُ يَزِيدَ ابْنَ مُعَاوِيَةَ يَتْرُكَ الصَّلَاةَ سُكْرًا فَأَجْمَعَ النَّاسُ عَلَى خُلْعَانِهِ بِالْمَدِينَةِ فَخَلَعُوهُ

سیدنا عبداللہ بن حفص یزید کے پاس گیا ایک وفد کے ساتھ، یزید نے اس کی بڑی عزت کی اور اس کو اچھے اچھے انعامات دیے (مطلب لالچ مقصود تھا یزید کا تاکہ یہ میرے خلاف نہ ہو جائے) لیکن ابن فلیح فرماتے ہیں سیدنا عبداللہ بن حفص منبر کے قریب کھڑے ہوئے وہ تو بہت نیک ادمی تھے نہ ڈرنے والے تھے انہوں نے فرمایا کہ مجھے یہ ہرگز پسند نہ تھا کہ یزید مجھے انعامات دے کیونکہ واللہ۔۔۔ اللہ کی قسم میں نے اسے دیکھا ہے کہ وہ نمازیں چھوڑ دیتا ہے اور شراب نشے میں دھت رہتا ہے، تو سیدنا عبداللہ بن حفص نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ یزید کی بیعت توڑ دو اور لوگوں نے یزید کی بیعت توڑ دی

(دلائل النبوة - البيهقي6/474)

.

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ قَالَ: حَدَّثَنِي جَدِّي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِمَّنْ حَضَرَ ابْنَ الزُّبَيْرِ حِينَ هَدَمَ الْكَعْبَةَ وبَنَاهَا، قَالُوا: لَمَّا أَبْطَأَ عَبْدُ اللَّهِ ابن الزبير عن بيعة يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، وتَخَلَّفَ وخَشِيَ مِنْهُمْ؛ لَحِقَ بِمَكَّةَ لِيَمْتَنِعَ بِالْحَرَمِ، وجَمَعَ مَوَالِيَهُ، وجَعَلَ يُظْهِرُ عَيْبَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ ويَشْتُمُهُ ويَذْكُرُ شُرْبَهُ

 الْخَمْرَ وغَيْرَ ذَلِكَ

ابن جریج کہتے ہیں کہ کئی اہل علم راویوں نے مجھے واقعہ بتایا یہ وہ اہل علم راوی ہیں کہ جو سیدنا ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر تھے تو انہوں نے بتایا کہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے یزید کی بیعت نہ کی اور وہ واپس ائے اور انہیں خوف ہوا کہ یزید انہیں شہید کر دے گا تو وہ مکہ میں حرم شریف میں رہنے لگے تاکہ کم از کم حرم شریف کا احترام کرتے ہوئے یزید قتل نہ کرے(لیکن یزید پلید نے حرم شریف کا بھی احترام نہ کیا) سیدنا ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے تمام ساتھیوں کو بلایا اور بتانے لگے کہ یزید شراب پیتا ہے اور اس کے علاوہ بہت سارے گناہ کرتوت برائیاں کیں اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ یزید کو سب و شتم مذمت کرتے رہے

(أخبار مكة - الأزرقي - ت ابن دهيش روایت225)

.

✅ان روایات میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام نے مسجد کا استعمال کیا ایک سیاسی مقصد کے لیے، مسجد کا استعمال کیا حکومت وقت کے خلاف اواز بلند کی اور اس کی بیعت توڑ دی، حکومت وقت کے خلاف لوگوں کو وہاں مسجد میں جمع کیا۔۔۔ ثابت ہوتا ہے کہ مسجد سے حکومت وقت کے خلاف اواز بلند کی جا سکتی ہے اور مسجد سے تنظیم و تحریک شروع ہو سکتی ہے اور امام مسجد اور خطیب مسجد علماء وغیرہ سب کو حق حاصل ہے کہ جب حکومت ظلم و ستم کرے ناحقی کرے تو اس کے خلاف اواز بلند کی جا سکتی ہے اور اس کے لیے اجتماع کیے جا سکتے ہیں وہ بھی مسجد میں اور پھر مسجد سے نکل کر یہ تحریک روڈوں میں پھیل جائے یہ بالکل صحابہ کرام سے ثابت ہے

۔

🟢 *#دلیل22*

ظالم کے ساتھ نہ چلنا، تعاون و مدد حمایت نہ کرنا فرض ہے اور حتی المقدور مظلوم کے ساتھ چلنا، ساتھ دینا، تعاون و حمایت کرنا لازم ہے، اور یہ ہر شخص پر لازم ہے جو قدرت رکھتا ہو، 📌چاہے وہ امام مسجد ہو یا چاہے وہ مدرسہ میں خطیب ہو مدرس ہو یا کسی مزار کا گدی نشین ہو ہر ایک کو حق حاصل ہے کہ وہ ظلم کے خلاف نکلے اواز بلند کرے

الحدیث:

رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من مشى مع ظالم ليعينه وهو يعلم أنه ظالم، فقد خرج من الإسلام

ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جسے پتہ ہو کہ فلاں ظالم ہے پھر بھی اس ظالم کے ساتھ چلے تاکہ اسکی مدد کرے(ساتھ دے، تعاون و حمایت کرے) تو وہ اسلام سے نکل گیا

(طبرانی حدیث619)

اسی حدیث کا مفھوم معتبر یہ بنے گا کہ

جسے پتہ ہو کہ فلاں مظلوم ہے اور وہ اس مظلوم کے ساتھ چلے ، تعاون حمایت مدد کرے تو یہ عین ایمان و اسلام

.

🟢 *#دلیل23*

القرآن..ترجمہ:

تقوی پرہیزگاری اور نیکی بھلائی میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور سرکشی اور گناہ میں ایک دوسرے کی مدد نا کرو.

(سورہ مائدہ آیت2)

✅یہ حکم سب کے لیے ہے چاہے وہ امام مسجد ہو یا خطیب مسجد یا کوئی عالم یا کوئی سیاست دان ہر ایک کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ بری سیاست میں کسی کا ساتھ نہ دے اور اچھی سیاست میں سب کا ساتھ دے

۔

🟢 *#دلیل24*

القرآن..ترجمہ:

اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ.(سورہ توبہ آیت119)

✅یہ حکم بھی سب کے لیے ہے کہ وہ امام مسجد ہو یا خطیب مسجد ہو یا عالم ہو یا مدرس ہو یا کوئی سیاستدان ہو جو کوئی بھی ہو ہر ایک پر لازم ہے کہ وہ سچوں کے ساتھ ہو جائے اور ان کی تنظیم تحریک مطالبات جلسے جلوس دھرنے وغیرہ میں شرکت کرے ساتھ دے

.

🟢 *#دلیل25*

القرآن...ترجمہ:

میری نماز میری قربانی میرا جینا میرا مرنا سب اللہ ہی کےلیے ہے(سورہ انعام162)میں(اللہ)نے تمھارے لیے اسلام کو چنا ہے(مائدہ3)

✅امام مسجد ، خطیب مسجد، عالم پیر لیڈر جج جرنیل سیاستدان و عوام یعنی ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اسکی زندگی و عہدے و کارکردگی کا مقصد یہ ہو کہ اس نے اسلام کے لیے جینا مرنا ہے اسلام کے لیے سب کچھ کرنا ہے، اسلام کی سربلندی کے لیے سیاست کرنی ہے

.

🟢 *#دلیل26*

القرآن...ترجمہ:

عدل کرو،حق سچ کہو اگرچہ(بظاہر نقصان کا)معاملہ تمھارے قریبی کا ہو(سورہ انعام152)کسی سےاختلاف،دشمنی تمہیں اس پر نہ اکسائےکہ تم(بدلہ،تنقید،مذمت اعتراض،جواب میں)عدل نہ کرو،بلکہ(دوست دشمن مخالف)ہر ایک سےعدل کرو(سورہ مائدہ8)

.

✅کوئی سیاسی معاملہ ہو یا کوئی فقہی معاملہ یا کوئی عدالتی معاملہ ہر معاملے میں امام مسجد خطیب مسجد علماء سیاستدان لکھاری سب پر لازم ہے کہ عدل کے ساتھ لکھیے بولیے فیصلہ کیجیے حق و اسلام کی پرواہ میں...چاہے سامنے کوئی رشتے دار ہو یا اپنا ہو یا دوست ہو یا دشمن ہو یا طاقتور ہو جو بھی ہو تم نے حق و اسلام کی پرواہ کرنی ہے...کسی کے دباو و مفاد لالچ میں نہیں انا....اسلام و حق کے مقابلے میں کسی طاقتور وڈیرے لیڈر جرنل کرنل ہجوم سیاسدانوں ملکی و غیرملکی طاقتوں سے نہیں ڈرنا.....!!

.

القرآن..ترجمہ:

لوگوں سے مت ڈرو، مجھ(اللہ)سے ڈرو...(سورہ مائدہ144)

.

🟨🟨🟨🟨🟨🟨🟨

🟢 *#دلیل27*

الحدیث..ترجمہ:

خبردار...!!جب کسی کو حق معلوم ہو تو لوگوں کی ھیبت

(رعب مفاد دبدبہ خوف لالچ) اسے حق بیانی سے ہرگز نا روکے

(ترمذی حدیث2191)

.

الحدیث.. ترجمہ:

حق کہو اگرچے کسی کو کڑوا لگے

(مشکاۃ حدیث5259)

۔

.

القرآن...ترجمہ:

اے ایمان والو!

 انصاف پر خوب قائم ہوجاؤ(عدل و حق سچ کہو، حق سچ کی مدد کرو) اللہ کے لئے گواہی دو، چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتہ داروں کا.(سورہ نساء135)عدل لازم ہے حق سچ بولنا لکھنا لازم ہے...عدل حق سچ اسلام کی پرواہ لازم ہے چاہے اس میں اپنا ہی نقصان کیوں نا ہو

.

✅امام مسجد ہو یا خطیب مسجد یا علماء یا سیاستدان یا عوام کوئی بھی لیڈر کوئی ورکر سب پر لازم ہے کہ وہ حق کا ساتھ دے اور حق بولے اگرچہ کسی کو، اگرچہ حکومت کو کڑوا لگے۔۔۔ کسی کے رعب اور دبدبے میں نہیں انا بلکہ ہمیشہ حق کی پرواہ کرنی ہے

.

🟨🟨🟨🟨🟨🟨🟨🟨

🟢 *#دلیل28*

حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں

وثلاثة من أعلام النصيحة: إغمام القلب بمصائب المسلمين وبذل النصيحة لهم متجرعا لمرارة ظنونهم وإرشادهم إلى مصالحهم وإن جهلوه وكرهوه "

ترجمہ:

(حقیقی سچی) نصیحت کی تین نشانیاں ہیں

1:مسلمانوں کے مصائب، تکالیف و مشکلات پر دل کو غمگین و کڑھن والا کرنا

2:لوگوں کے کڑوے گمانوں کے گھونٹ پیتے ہوئے انہیں انکی اصلاح و بھلائی کے لیے نصیحت کرتے رہنا

3:لوگ اگرچہ جاہل ہوں اور پسند نا کریں(توجہ نہ دیں) تب بھی انہیں انکی اصلاح و بھلائی والی چیزوں کی طرف نصیحت و رہنمائی کرنا

(شعب الایمان روایت نمبر10696)

.

.

①اسلام و حق کے مقابلے میں لوگوں کی پسند ناپسند معتبر نہیں...ہرگز نہیں

اسلام و حق کے مقابلے میں کسی قسم کی جمہوریت معتبر نہیں...ہرگز نہیں

ہاں اسلام نے جہاں عوام کی رائے مشورے کا مشروط و محدود اختیار دیا وہاں جمہوریت کی رائے مشورہ معتبر.....!!

.

②لوگ کم علمی یا جلد بازی یا کم توجہی یا حسد وغیرہ میں آکر کڑوے گمان رکھیں گے، تانے ماریں گے، جملے کسیں گے، بے جا ناحق مذمت کریں گے، شہرت پسند کہین گے، بلادلیل مفادی مطلبی گمان کریں گے، گالیاں تک دیں گے، لیکن پھر بھی ہم پر لازم ہے کہ لوگوں کے کڑوے گمان، کڑوے تلخ کمنٹس سے دل چھوٹا نہ کریں... ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے، سمجھنا سمجھانا چاہیے.... ورنہ کڑوے گھونٹ پی لینے چاہیے..اور نصیحت و اصلاح، حق بیانی سلیقے سے جاری رکھنا چاہیے

.

③لوگ پسند کرین یا نا کریں مگر پھر بھی حق سچ بیانی اور نصیحت و کڑھن لازم ہے....لوگ انفرینڈ کردیں، ناحق مذمت کریں، گالیاں دیں، دھمکیاں دیں، تکالیف پہنچاءیں، اکابرین و علماء کا مخالف و گستاخ گمان کریں یا ایسے بے بنیاد الزامات لگاءیں

پھر بھی اسلامی حق بیانی کرتا رہنا لازم ہے... سمجھنے سمجھانے سلجھانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے... پردلیل اختلاف ادب کے ساتھ کرنا حق ہے... اختلاف رائے مشورے دینا حق ہے... پردلیل و پرشواہد تنقید برائے اصلاح کرنا لازم ہے،

چاہے کسی کے ممبر، ورکر، مریدین، عوام پسند کرین یا نہ کریں....!!

انکی پرواہ نہیں...پرواہ ہے تو اسلام و حق سچ کی ہے.... پرواہ ہے تو وسعتِ ظرفی کی ہے... پرواہ ہے تو اسلامی انسانیت کی ہے...پرواہ ہے تو اسلامی آزادی کی ہے..

ہاں

تعلم و ترقی، ادب و آداب، حکمت و دانائی اور صبر و وسعت ظرفی بھی لازم ہے...........!!

.


🟢 *#دلیل29*

فقال أحمد إذا سكتأنت فمتى يعرف الجاهل الصحيح من السقيم

امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ اگر تم اہل حق میں سے ہو کر بھی بھی خاموش رہو گے تو پھر علم نہ رکھنے والے لوگ صحیح اور غلط وہ کیسے پہچانیں گے

اسرار مرفوعہ1/51

✅اگر امام مسجد خطیب مسجد علماء اہل حق نہ بولیں گے نہ لکھیں گے تو لوگ صحیح اور غلط کی پہچان کیسے کریں گے لہذا علماء پر یہ امام مسجد پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حق کو سچ بیان کرے اور غلط کو غلط کہے

🟨🟨🟨🟨🟨🟨🟨🟨🟨

🟢 *#دلیل30*

ناموس رسالت کا معاملہ ہو یا ختمِ نبوت کا، کسی منافقت گمراہی دھوکے بازی مکاری کرپشن واضح کرنے کا معاملہ ہو یا کسی بھی اسلامی نظریے کا ،📌ہم عوام و امام مسجد و خطیب مسجد و علماء سارے مسلمان بے شک ٹھکیدار نہیں مگر نگہبان، پہرے دار، خدمت گذار ضرور ہیں

الحدیث: ألا كلكم راع

ترجمہ:

سنو....!! تم میں سے ہر ایک نگہبان.و.ذمہ دار ہے

(بخاری حدیث7138, مسلم حدیث1459)

۔

🟢 *#دلیل31*

 فَلَا تَخۡشَوُا النَّاسَ وَاخۡشَوۡنِ وَلَا تَشۡتَرُوۡا بِاٰيٰتِىۡ ثَمَنًا قَلِيۡلًا‌ ؕ وَمَنۡ لَّمۡ يَحۡكُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡكٰفِرُوۡنَ ۞ 

ترجمہ:

سو تم لوگوں سے نہ ڈرو مجھ سے ڈرو ‘ اور میری آیتوں کے بدلہ میں تھوڑی قیمت نہ لو ‘ اور جو اللہ کے نازل کیے ہوئے (احکام) کے موافق فیصلہ نہ کریں سو وہی لوگ کافر ہیں۔

(سورہ مائدہ آیت44)

✅اس آیت مبارکہ میں واضح حکم موجود ہے کہ اللہ تعالی کا خوف ہونا چاہیے دنیا دولت شہرت مفاد لوگوں پیسےوالوں کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے۔۔۔قرآن حدیث سنت اسلام کے احکام کو پس پشت ڈال کر تھوڑی سی اس کی قیمت وصول کر لینا مفاد حاصل کر لینا مطلبیت حاصل کر لینا دولت شہرت حاصل کرلینا اور اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال دینا کوئی اسلام نہیں منافقت اور کفر ہے

اور

📌اگر امام مسجد خطیب مسجد علماء اہل حق نگہبانی نہیں کریں گے کہ کون اچھا کر رہا ہے اور کون برا کر رہا ہے تو پھر اور کون نگرانی کرے گا۔۔۔۔؟؟امام مسجد علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاہدوں کی تحقیق کریں بلکہ سیاست دانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے معاہدوں کو علماء سے تصدیق کرائیں کہ کہیں یہ اسلام بیچ کھانے کے مترادف تو نہیں۔۔۔۔؟؟

۔

🟢 *#دلیل32*

وَاِذۡ اَخَذَ اللّٰهُ مِيۡثَاقَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوۡا الۡكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَكۡتُمُوۡنَهٗ فَنَبَذُوۡهُ وَرَآءَ ظُهُوۡرِهِمۡ وَ اشۡتَرَوۡا بِهٖ ثَمَنًا قَلِيۡلًاؕ فَبِئۡسَ مَا يَشۡتَرُوۡنَ ۞ 

ترجمہ:

(اور یاد کیجیے) جب اللہ نے اہل کتاب سے یہ عہد لیا کہ تم اس کو ضرور لوگوں سے بیان کرنا اور اس کو نہ چھپانا ‘ تو انھوں نے اس عہد کو اپنے پس پشت پھینک دیا ‘ اور اس کے بدلہ میں تھوڑی قیمت لی ‘ سو وہ کیسی بری چیز ہے جس کو یہ خرید رہے ہیں

(سورہ آل عمران آیت187)

✅اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ ہمیں یہود و نصاری کی طرح نہیں ہونا چاہیے کہ قرآن اور حدیث سنت کی تعلیمات کو اسلام کی تعلیمات کو پس پشت ڈالیں اپنے مفاد کی خاطر دنیا دولت کی خاطر۔۔۔!!

📌اگر امام مسجد خطیب مسجد علماء اہل حق نگہبانی نہیں کریں گے کہ کون اچھا کر رہا ہے اور کون برا کر رہا ہے تو پھر اور کون نگرانی کرے گا۔۔۔۔؟؟امام مسجد علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاہدوں کی تحقیق کریں بلکہ سیاست دانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے معاہدوں کو علماء سے تصدیق کرائیں کہ کہیں یہ اسلام بیچ کھانے کے مترادف تو نہیں۔۔۔۔؟؟

۔

الحدیث..ترجمہ:

تکبر تو یہ ہے کہ حق کی پرواہ نا کی جاے, حق ٹھکرایا جائے اور لوگوں کو حقیر سمجھا جاے

(صحیح مسلم حدیث نمبر147)


.

🟢 *#دلیل33*

الحدیث..ترجمہ:

خبردار...!!جب کسی کو حق معلوم ہو تو لوگوں کی ھیبت

(رعب مفاد دبدبہ خوف لالچ) اسے حق بیانی سے ہرگز نا روکے

(ترمذی حدیث2191)

✅احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مفاد لالچ شہرت شخصیت کسی کی پرواہ حق کے مقابلے میں نہیں کرنی بلکہ حق و سچ اور اسلام کی پرواہ کرنی ہے۔۔۔۔اسلامی تعلیمات کو قرآن و سنت کو پس پشت ڈال کر اپنے مفاد و ذات لالچ کے درپے ہونا اسلام نہیں منافقت ہے برائی و ناحقی ہے

۔

اسلامی احکام کو پس پشت ڈالنے والے لوگوں،علماء سوء کو ننگا کرنا اور اور انہیں اس برائی و خیانت سے روکنا ہم سب کی ذمہ داری ہے 📌چاہے ہم امام مسجد ہوں یا خطیب مسجد یا علماء میں سے ہوں یا پھر عوام میں سے ہوں یا پھر گدی نشین میں سے ہوں کوئی بھی ہوں ہم پر لازم ہے کہ ہم ظلم کے خلاف نکلیں ظلم کے خلاف اواز بلند کریں سیاست میں حصہ لیں

۔

🟨🟨🟨🟨🟨🟨

🟢 *#دلیل34*

الحدیث..ترجمہ:

راہِ حق سے ہٹے ہوے ظالم بادشاہ یا راہِ حق سے ہٹے ہوے ظالم امیر (امیر یعنی حاکم،لیڈر، قاضی، جج، سردار وغیرہ کؤئی بھی ذمہ دار، عھدے دار) کے پاس عدل.و.حق کی بات کہنا افضل جھاد ہے.. (ابوداؤد حدیث نمبر4344)

✅حدیث پاک کتنی واضح ہے کہ حکومت وقت کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا حق بات بیان کرنا حق بات کے لیے نکلنا جلد سے جلوس کرنا سیاست میں حصہ لینا امام مسجد کی بھی ذمہ داری ہے خطیب مسجد کی بھی ذمہ داری ہے عوام کی بھی ذمہ داری ہے علماء کی بھی ذمہ داری ہے ہر ایک کی ذمہ داری ہے

۔

🟢 *#دلیل35*

الحدیث:

رحم الله حارس الحرس

ترجمہ:

جو(پولیس فوج علماء جج وکیل عوام جو بھی) حفاظت کی چیز(اسلام و مسلمین، تعلیمات اسلام، نظریات و منفردات اسلام،زمینی جغرافیائی و نظریاتی سرحد وغیرہ) کی حفاظت و پہرے داری کرے اللہ اس پر رحمت بھیجے

(ابن ماجہ حدیث2769)

✅سیاست میں کیا کچھ ہو رہا ہے ملک میں کیا کچھ ہو رہا ہے ،حق ہو رہا ہے یا ناحقی ہو رہی ہے یا ظلم ہو رہا ہے یا برے ناحق معاہدے ہو رہے ہیں سب کچھ پر نظر رکھنا اور اسلام کی پہرہ داری کرنا علماء کی ذمہ داری ہے امام مسجد کی ذمہ داری ہے خطیب مسجد کی ذمہ داری ہے عوام کی ذمہ داری ہے تمام اہل حق کی ذمہ داری ہے

.

🟢 *#دلیل36*

الحدیث:

مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ رَدَّ اللَّهُ عَنْ وَجْهِهِ النَّارَ يَوْمَ القِيَامَةِ

ترجمہ:

جو اپنے مسلمان بھائی کا(برحق)دفاع کرےگا،اللہ اسے

بروز قیامت جہنم سےبچائےگا(ترمذی حدیث1931)

جب مسلمان بھائی کا برحق دفاع کی فضیلت ہے تو دیگر معزز و مکرم چیزوں کا دفاع بھی برحق و فضیلت والا کہلائے گا

لیھذا

قرآن مجید

انبیاء کرام علیھم الصلاۃ و السلام

اسلام و مسلمین،اسلامی عقائد و نظریات

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین

اہلبیت.و.سادات عظام رحمھم اللہ تعالیٰ اجمعین

اولیاء کرام رحمھم اللہ تعالیٰ اجمعین

برحق علماء کرام رحمھم اللہ تعالیٰ اجمعین

برحق مشائخ و پیران عظام رحمھم اللہ تعالیٰ اجمعین

مساجد ، کعبہ ، بیت المقدس، اسلامی علاقہ و ملک وغیرہ اسلامی شرف.و.عزت والوں

کا

📌برحق دفاع کرنےوالا ہونا ہم پر لازم ہے چاہے ہمارا تعلق امام مسجد کے طور پر ہو یا خطیب مسجد یا علماء میں سے ہوں یا پھر ہمارا تعلق عوام سے ہو ہم سب پر یہ ذمہ داری ہے

۔

🟢 *#دلیل37*

.الحدیث:

لَا يَظْلِمُهُ، وَلَا يَخْذُلُهُ ، وَلَا يَحْقِرُهُ،

 کسی مسلمان پر ظلم نہ کرو اور کسی مسلمان کو بےیار و مددگار مت چھوڑو اور کسی مسلمان کو(ناحق)حقیر و کمتر نہ سمجھو،نہ کہو..(مسلم حدیث2564)

✅امام مسجد ہو یا خطیب مسجد یا علماء یا لیڈر یا گدی نشین یا کوئی بھی سیاستدان سب پر لازم ہے کہ وہ مسلمانوں کو بے یار و مددگار نہ چھوڑے اور کسی مسلمان کو حقیر و کمتر سمجھنے سے روکے اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کردار ادا کرے

۔

🟨🟨🟨🟨🟨🟨🟨

🟢 *#دلیل38*

📌ہم عوام نے ،علماء نے ،امام مسجد نے، خطیب مسجد نے، تمام اہل حق نے بروں کی اطاعت نہیں کرنی بلکہ اعلان لاتعلقی کرنی ہے برے حکمرانوں سے، برے لیڈروں ، برے جعلی عالموں سے

الحدیث:

" لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ

  معصیت (گناہ گمراہی الحاد لادینیت گستاخی غلامی کفر) کے معاملے میں کسی کی اطاعت مت کرو اطاعت تو نیک(اور جائز) کاموں میں ہے

(بخاری حدیث7257)

.

🟢 *#دلیل39*

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا یارسول اللہ

کوئ مالِ غنیمت(دنیا،دولت)کے لیے لڑتا ہے

کوئ بہادری دکھانے کے لیے لرتا ہے

کوئ غصے کی وجہ سے لرتا ہے

کوئ برادری قومیت(پارٹی،تفرقہ،سیاست،طاقت)کے لیے لڑتا ہے

کوئ دکھاوے کے لیے لڑتا ہے

کوئ عزت و مقام و مرتبہ دکھانے کے لیے لڑتا ہے

کوئ یاد رہ جانے کے لیے لڑتا ہے

تو (حقیقتا)اللہ کی راہ کی لڑائ(حقیقی جھاد)کیا ہے..؟

آپ علیہ الصلاۃ والسلام نےارشاد فرمایا:

جو(جد.و.جہد،لڑائی،اصلاح،کردار)صرف اسلام کی سربلندی کے لیے ہو تو وہ جھاد ہے..(مسلم حدیث1904 کے تحت درج چار احادیث مبارکہ کو یکجا کرکے ترجمہ لکھا گیا ہے)

۔

✅سیاست میں جو نا اہل ہیں ان کو سمجھانا ضروری ہے اگر وہ نا اہلی برائی منافقت وغیرہ پر ڈٹ جائیں تو ان کے خلاف نکلنا لازم ہے ان سے زبانی جہاد قلمی جہاد اور پریشر ڈالنے کا جہاد وغیرہ تمام چیزیں ضروری ہیں ہم سب پر ضروری ہیں 📌چاہے ہمارا تعلق مسجد سے ہو ہم امام مسجد ہوں یا خطیب مسجد یا علماء ہوں یا لکھاری ہوں یا ورکر ہوں یا کوئی سیاست دان ہوں ہم سب پر لازم ہے

۔

🟢 *#دلیل40*

القرآن..ترجمہ:

حق سے باطل کو نا ملاؤ اور جان بوجھ کر حق نہ چھپاؤ

(سورہ بقرہ آیت42)

.

الحدیث:

 أترعون عن ذكر الفاجر؟، اذكروه بما فيه يعرفه الناس

ترجمہ:

کیا تم(زندہ یا مردہ طاقتور یا کمزور کسی بھی) فاجر(فاسق معلن منافق , خائن،مکار، دھوکے باز بدمذہب مفادپرست گستاخ) کو واضح کرنے سے ہچکچاتے ہو...؟(جیسا وہ ہے ویسا کہنے سے گھبراتے ہو...؟؟)اسے ان چیزوں(ان کرتوتوں، عیبوں اعلانیہ گناہوں ، خیانتوں، منافقتوں دھوکے بازیوں) کے ساتھ واضح کرو جو اس میں ہوں تاکہ لوگ اسے پہچان لیں(اور اسکی گمراہی خیانت منافقت بدعملی دھوکے بازی مکاری شر فساد سے بچ سکیں)

(طبرانی معجم  کبیر  حدیث 1010)

(طبرانی معجم صغیر حدیث598نحوہ)

یہ حدیث پاک  کتبِ حدیث و تفاسیر اور فقہ و تصوف کی کئی کتب میں موجود ہے... مثلا جامع صغیر، شعب الایمان، احیاء العلوم، جامع الاحادیث، کنزالعمال، کشف الخفاء ردالمحتار ، عنایہ شرح ہدایہ، فتاوی رضویہ، تفسیر ثعالبی، تفسیر درمنثور وغیرہ کتب میں بھی موجود ہے

علامہ ہیثمی نے فرمایا:

وإسناد الأوسط والصغير حسن، رجاله موثقون، واختلف في بعضهم اختلافاً لا يضر

 مذکورہ حدیث پاک طبرانی کی اوسط اور معجم صغیر میں بھی ہے جسکی سند حسن معتبر ہے، اسکے راوی ثقہ ہیں بعض میں اختلاف ہے مگر وہ کوئی نقصان دہ اختلاف نہیں

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ت حسين أسد2/408)

.

✅سمجھانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے...مگر حسبِ تقاضہِ شریعت ایسوں کے عیوب مکاریاں منافقتیں خیانتیں کرپشن فسق و فجور دھوکے بازیاں بیان کرنا برحق ہے لازم ہے اسلام کا حکم ہے....یہ عیب جوئی نہیں، غیبت نہیں، ایسوں کی پردہ پوشی کرنا جرم ہے... یہ فرقہ واریت نہیں، یہ حسد نہیں، بغض نہیں بلکہ حق کی پرواہ ہے اسلام کے حکم کی پیروی ہے...شاید کہ یہ سدھر جائیں انہیں ہدایت ملے ورنہ ذلت کے خوف سے فساد و گمراہی پھیلانے سے رک جائیں اور معاشرہ اچھا بنے... ہاں حدیث پاک میں یہ بھی واضح ہے کہ وہ عیوب، وہ خیانتیں، وہ دھوکے بازیاں وہ کرتوت بیان کیے جائیں جو اس مین ہوں...جھوٹی مذمت الزام تراشیاں ٹھیک نہیں......!!

لیھذا جو جیسا ہوگا ویسا سمجھا جائے گا ویسا کہلایا جائے گا، جو جس سلوک کا حق دار ہوگا ویسا سلوک پائے گا،

سمجھانے سلجھانے کا سلوک اچھا سلوک نرمی ہدایت سب کے ساتھ برتی جائے گی

مگر

اعلانیہ گناہ کرنے والا منافقت کرنے والا ظلم و مکاری کرنے والا اور اپنے مذکورہ کرتوتوں پر ندامت و توبہ رجوع نا کرنے والا سزا کا مستحق ہے، مذمت کا مستحق ہے، اسکی مذمت کی جائے گی اسکی منافقت اسکے اعلانیہ کرتوت دھوکے بازیاں سب کے سامنے لائی جائیں گی، یہ سب ضروری ہے یہ بغض و حس نہین، یہ فرقہ واریت نہیں، یہ حق بیانی ہے،

اور

📌یہ ہم سب پر لازم ہے چاہے ہم امام مسجد ہوں یا خطیب مسجد یا علماء میں سے ہوں یا سیاست دانوں میں سے ہوں یا تاجروں میں سے ہوں یا کسی بھی عہدے منصب والے ہوں یا عام عوام ورکر ہوں ہم سب پر یہ لازم ہے

.

🟨🟨🟨🟨🟨🟨🟨

🟢 *#دلیل41*

الحدیث:

من كتم غالا فإنه مثله

ترجمہ:

جو(زندہ یا مردہ) غل کرنے والے(دینی دنیاوی خیانت کرنے والے، چھپکے سے کمی بیشی کرنے والے، کھوٹ کرنے والے کرپشن کرنے والے) کی پردہ پوشی کرے تو وہ بھی اسی کی طرح(خیانت کرنے والا، کھوٹا، دھوکے باز کرپٹ مجرم) ہے

(ابو داؤد حدیث2716)

✅ہم امام مسجد ہو کر خطیب مسجد ہو کر عالم ہو کر بھی خاموش رہیں تو سب سے بڑے مجرم ہیں۔۔۔۔!!

۔

🟢 *#دلیل42*

مَنْ رَاٰى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَاِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهٖ فَاِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهٖ وَذٰلِكَ اَضْعَفُ الْاِيْمَانِ

جو تم میں سے کوئی بُرائی دیکھے تو اُسے اپنے ہاتھ سے بَدَل دے(برائی سے روک کر بھلائی کی طرف بدل دے) اور اگر وہ اِس کی قوّت نہیں رکھتا تو اپنی زَبان سے (روک کر بھلائی کی طرف بدل دے) پھر اگر وہ اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو دل سے (بُرا جانے) اور یہ سب سے کمزور ایمان کادَرَجہ ہے۔(مسلم،حدیث: 177...49)

✅اور برائی کو روکنا ہم سب پر لازم ہے چاہے ہمارا تعلق مسجد سے ہو یعنی ہم امام مسجد ہوں یا خطیب مسجد یا علماء ہوں یا کوئی بھی منصب والا یا عوام برحق۔۔۔ سیاسی معاملہ ہو یا کوئی بھی معاملہ ہو ہر ایک معاملے میں برائی کو روکنا ضروری ہے ہم سب پر حسب طاقت۔۔۔۔۔!!

.

🟢 *#دلیل43*

القرآن:

وَ اۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ انۡہَ  عَنِ الۡمُنۡکَرِ

اور بھلائی کا حکم دو برائی(کفر شرک بدمذہبی شراب جوا زنا وغیرہ ہر قسم کی برائی، اسلام کی منع کردہ ہرچیز) سے روکو

(سورہ لقمان آیت17)

✅اس قسم کی کئ ایات مبارکہ ہیں.... لہذا ہم پر لازم ہے کہ ہم خود بھی برائی سے بچیں اور برائی سے روکیں، نہ کہ برائی بد مذہبی وغیرہ کے سرٹیفکیٹ دیں اجازت دیں قوانین بنائیں.....!! میٹھی زباب یا زبردستی یا دولت عیاشی لڑکی فحاشی نوکری شہرت وغیرہ کی لالچ دیکر بھی غیرمسلم بدمذہب و برا نہیں بناسکتے

📌اچھائی کا حکم دینا اور برائی کو روکنا ہم سب پر لازم ہے چاہے ہمارا تعلق مسجد سے ہو یعنی ہم امام مسجد ہوں یا خطیب مسجد یا علماء ہوں یا کوئی بھی منصب والا یا عوام برحق۔۔۔ سیاسی معاملہ ہو یا کوئی بھی معاملہ ہو ہر ایک معاملے میں برائی کو روکنا ضروری ہے ہم سب پر حسب طاقت۔۔۔۔۔!!

.

🟢 *#دلیل44*

کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ

تم بہترین امت ہو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہو کہ تم برائی سے روکتے ہو اور اچھائی کا حکم دیتے ہو

سورہ آل عمران ایت110

✅اچھائی کا حکم دینا اور برائی کو روکنا ہم سب پر لازم ہے چاہے ہمارا تعلق مسجد سے ہو یعنی ہم امام مسجد ہوں یا خطیب مسجد یا علماء ہوں یا کوئی بھی منصب والا یا عوام برحق۔۔۔ سیاسی معاملہ ہو یا کوئی بھی معاملہ ہو ہر ایک معاملے میں برائی کو روکنا ضروری ہے ہم سب پر حسب طاقت۔۔۔۔۔!!

۔

🟢 *#دلیل45*

القرآن:

فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ  الذِّکۡرٰی  مَعَ الۡقَوۡمِ  الظّٰلِمِیۡنَ

یاد آجانے(دلائل آجانے)کے بعد تم ظالموں(بدمذبوں گمراہوں گستاخوں مکاروں گمراہ کرنے والوں منافقوں ظالموں) کے ساتھ نہ بیٹھو(نہ میل جول کرو، نہ انکی محفل مجلس میں جاؤ، نہ کھاؤ پیو، نہ شادی بیاہ دوستی یاری کرو،ہر طرح کا بائیکاٹ کرو)

(سورہ انعام آیت68)

.

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ میں معاہدہ کیا تھا تو اس معاہدے کی ایک شق معاشی اقتصادی بائیکاٹ پر مشتمل تھی:

لَا تُجَارُ قُرَيْشٌ وَلَا مَنْ نَصَرَهَا

ترجمہ:

قریش سے تجارت نہ کی جائے گی اور ان سے بھی تجارت نہ کی جائے گی جو قریش کے مددگار ہوں

(البداية والنهاية ط هجر4/558)

(اللؤلؤ المكنون في سيرة النبي المأمون2/204)

(مجموعة الوثائق السياسية 1/592)

.

غیرتِ صحابہ کرام…صحابہ کرام علیھم الرضوان کا فتوی و فرمان

ما عهدناهم أن يؤذونا في الله ورسوله

ہم نےان سے(تجارتی ریہائشی وغیرہ)امن و معاہدے اس لیےنہیں کیےکہ وہ نبی پاکﷺکی گستاخی کریں

(سبل الھدی10/457)

.

✅ہم امام مسجد ہوں یا خطیب مسجد یا علماء یا لکھاری یا سوشل ورکر یا عام عوام یا سیاستدان تمام اہل حق کو حق حاصل ہے کہ وہ شریعت کی روشنی میں علماء کی نگرانی میں جہاں مناسب لگے وہاں پر بائیکاٹ کی مہم چلا سکتے ہیں اور سفیر نکالنے وغیرہ کے مطالبات بھی کر سکتے ہیں اور یہ حقوق قانون کے مطابق بھی حاصل ہیں جیسے کہ تحریر کے شروع میں نوٹ کے تحت لکھا کہ اس کے دلائل فلاں لنک پر ہیں

۔

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

New whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.