اسلام کے مطابق اور پاکستانی قانون کے مطابق کسی کو احتساب و سزا سے استثنی حاصل نہیں، اگر کوئی ایسا قانون ڈائریکٹ یا ترمیم کے بعد بنے کہ فلاں کو استثنی ہے تو شرعا اور پاکستانی قانون کے مطابق وہ قانون کالعدم و مردود باطل قرار پائے گا اور ایسے قوانین بغاوت و خارجیت کو فروغ دےسکتےہیں لیھذا فورا ایسےقانون مٹانا لازم۔تفصیل اس تحریر میں15دلائل کےساتھ پڑھیے۔۔۔!!

🛑 *#اسلام کے مطابق اور پاکستانی قانون کے مطابق کسی کو احتساب و سزا سے استثنی حاصل نہیں، اگر کوئی ایسا قانون ڈائریکٹ یا ترمیم کے بعد بنے کہ فلاں کو استثنی ہے تو شرعا اور پاکستانی قانون کے مطابق وہ قانون کالعدم و مردود باطل قرار پائے گا اور ایسے قوانین بغاوت و خارجیت کو فروغ دےسکتےہیں لیھذا فورا ایسےقانون مٹانا لازم۔تفصیل اس تحریر میں15دلائل کےساتھ پڑھیے۔۔۔!!*

📣گزارش:

1۔۔۔۔میری دیگر تحقیقی تحریرات اس لنک پے پڑھ سکتے ہیں

https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1

2....میرے واٹسپ چینل اور فیسبک ائی ڈی کو فالوو کیجیے،تاکہ آنی والی تحریرات اپ پڑھ سکیں

https://whatsapp.com/channel/0029Vb5jkhv3bbV8xUTNZI1E

3.....میرے اس واٹسپ گروپ کو جوائن کیجیے تاکہ آپ تک تحریر فورا پہنچ جایا کرے

https://chat.whatsapp.com/IQvZzoUIR6NHboPxF2zT4R?mode=wwt

💠 *#پس منظر*

ترمیم کے ذریعے سے صدر کو احتساب و سزا سے استثنی دیا گیا پھر ابھی 27 ویں ترمیم کے ذریعے سے فائیو سٹار والوں کو بھی استثنی دے دیا گیا اور صدر وزیراعظم فیلڈ مارشل فائیو سٹار یا اس سے اوپر کے درجے کے ہیں لہذا انہیں بھی یہ استثنی مل گیا۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مزید 35 40 سے بھی زائد ترامیم منظور ہو گئیں۔۔۔لیکن شہباز شریف نے استثنی لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ ہمارا حق نہیں بنتا لیکن باقیوں کو استثنہ دلوانے کے لیے خود بھی ووٹ ڈالا اور اپنے تمام وزراء کے بھی ووٹ ڈلوائے

۔

🟥 *#تحقیق و تبصرہ*

💠خلاصہ

1️⃣۔۔۔شہباز شریف اور پنجاب حکومت تو ڈبل مجرم کہلانے چاہیے کیونکہ یہ لوگ استثنی کو جرم و ناحق سمجھ کر رد کروانے کے بجائے الٹا پاس کروا چکے ہیں

۔

2️⃣۔۔۔۔پاکستان کا ائین اسلام ہے اور پاکستان کے ائین میں لکھا ہے کہ اسلام مخالف کوئی بھی بل کوئی قانون پاس نہیں ہو سکتا

۔

3️⃣۔۔۔اسلام میں کسی کو احتساب و سزا سے استثنی حاصل نہیں ہے تو لہذا صدر وزیراعظم فیلڈ مارشل وغیرہ کو استثنی دینا خود قانون پاکستان اور اسلام کے تحت باطل مردود کلعدم ہیں

۔

4️⃣۔۔۔لہذا حکمرانوں پر لازم ہے کہ فورا سے پہلے ایسے قوانین کو فورا ختم کر دیں

۔

5️⃣۔۔۔صدر وزیراعظم فیلڈ مارشل اور فائیو سٹار بڑے بڑے عہدے والوں کو اگر استثنی دے دیا جائے تو عوامی بغاوت ابھرنے کا بھی خطرہ ہے اور خارجیوں کو بھی بہانہ مل جائے گا کہ حکمران اسلام مخالف جا رہے ہیں تو ان کے خلاف ان کے بچوں کے خلاف قتل و غارت کرنا اور فوجی تنصیبات پر قتل و غارت کرنا اور راضی ہونے والی عوام پر قتل و غارت کرنے کا بہانہ خوارج کو مل جائے گا🚨جوکہ اسلام و انسانیت کے مطابق نقصان ہے کیونکہ اسلام انسانیت پاکستان یہ نہیں چاہتے کہ کوئی چوری کرے، برائی ، دہشتگردی کرے اور ہم اسے سزا دیں بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی چوری برائی دہشتگردی ہی نہ کر پائے تاکہ وہ فلاح پائے، معاشرہ اچھا بنتا جائے

۔

6️⃣۔۔۔اس طرح کئی لوگ عام ذہن بغاوت کی طرف اور نفرت کی طرف یا خارجیت کی طرف مائل ہوتے جائیں گے اور اسلام کا اس میں بہت بڑا نقصان ہے کیونکہ اسلام سب کی اصلاح چاہتا ہے کیونکہ اسلام تو چاہتا ہے کہ بغاوت اور خارجیت سدھر کر اسلام میں داخل ہو جائیں ، اسلام مطابق ہو جائیں

۔

7️⃣۔۔۔عوام ہرگز ہرگز بغاوت اور خارجیت کی طرف نہ جائے بلکہ احتجاج اور پریشر ڈالنے کے مناسب اقدام کرے، اچھے لوگوں کو ووٹ دے تاکہ وہ اقتدار میں ا کر ایسے کالے قوانین کو ختم کر دیں اور قوانین کو اسلام مطابق کرتے جائیں

۔

8️⃣۔۔۔عوام کو بتایا ہی نہیں گیا کہ تقریبا 40 ترامیم کون کون سی پاس ہوئی ہیں اور شریعت نے اس کی اجازت دی ہے یا نہیں۔۔۔۔۔؟؟

ایسے قوانین پاس ہو جاتے ہیں کہ ہمیں بھنک تک نہیں لگتی 📌جبکہ پاکستان کے ائین کے مطابق ہر شہری کو حق ہے کہ وہ تمام قوانین اور ترامیم کو جانے چھانے اور اس پر اواز اٹھائے دلیل کے ساتھ۔۔۔!!

۔

🔵🔵🔵🔵🔵🔵🔵

🟤 *#دلیل1*

پاکستان کا آئین واضح طور پر کہتا ہے کہ ملک کا نظامِ حکومت "جمہوریت کی بنیاد پر اسلامی اصولوں کے مطابق" ہوگا۔ اس کی بنیادی شقوں (دفعہ 2، دفعہ 31 اور تمہید) میں یہ بات بار بار دہرائی گئی ہے۔لیھذا جو بھی قانون ڈائریکٹ یا ترمیم کے بعد اسلام مخالف بنے گا تو وہ اس قانون کے تحت خود بخود باطل مردود کلعدم ہو جائے گا اور حکمرانوں پر بھی لازم ہوگا کہ وہ اس کو جلد از جلد ختم کلعدم قرار دے دیں ورنہ عوام احتجاج کر کے اواز بلند کر کے ایسے کالے قوانین کے خلاف نکلیں اور ختم کروائیں اور اچھے لوگوں کو ووٹ دے کر ایسے قوانین کو ختم کروائیں

۔

🟤 *#دلیل2*

دفعہ 19-A کے تحت ہر شہری کو معلومات کا حق حاصل ہے، چاہے وہ نئے قانون کی معلومات ہوں یا سرکاری کام کاج سے متعلق۔

 آئین کے تحت طے شدہ قانون سازی کے عمل کا حصہ ہے کہ ہر نیا قانون سرکاری گزٹ میں شائع ہوگا، جو عوام کے سامنے اس کی دستیابی کو یقینی بناتا ہے۔

وفاقی RTI ایکٹ 2017) نے یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ حکومتی اداروں کو از خود معلومات شائع کرنی چاہئیں اور شہریوں کے معلومات کے مطالبے پر جواب دینا چاہیے۔

۔

دفعہ 19: تقریر اور اظہار کی آزادی

  · یہ دفعہ ہر شہری کو "تقریر اور اظہار کی آزادی" کا حق دیتی ہے۔ عدالتوں نے متعدد فیصلوں میں کہا ہے کہ "اظہار کی آزادی" میں "معلومات حاصل کرنے کا حق" بھی شامل ہے، کیونکہ بغیر معلومات کے صحیح اظہار ممکن نہیں۔

۔

👈👈ہم اسی قانون کا استعمال کرتے ہوئے یہ تحریر لکھ رہے ہیں اور اپنی رائے کا اظہار مدلل کر رہے ہیں کہ ایسے قانون پاس ہرگز نہیں ہو سکتے لہذا ہماری اس تحریر کو بغاوت شر انگیزی دہشت گردی ہرگز نہ سمجھا جائے بلکہ اسے ایک اصلاحی معلوماتی تحریر کے طور پر ہی سمجھا جائے

۔

🟤 *#دلیل3*

سیاست دانوں کے ہاں بھی مفکر پاکستان بانی پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال بہت معتبر ہیں انتہائی معتبر ہیں تو وہ فرماتے ہیں

۔

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جُدا ہو دِیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

کلیات اقبال ص374

۔

علامہ اقبال نے واضح کر دیا بانی پاکستان نے واضح کر دیا کہ پاکستان کا قانون دین اسلام مطابق ہوگا ورنہ وہ حیوانیت بربریت چنگیزیت ظلم و ستم کہلائے گا

۔

🟤 *#دلیل4*

سیاست دانوں دنیا داروں کے ہاں عظیم مفکر عظیم سیاستدان بانیان پاکستان قائد اعظم اور علامہ اقبال فرماتے ہیں

۔

انگریزوں کی تجویز ہے کہ وطن جغرافیائی طور پر ہو ، مذہبی نہ ہو، افسوس کچھ سیاسی اور مذہبی لیڈر بھی انگریزوں کی تجویزہ پر چل رہے ہیں۔۔(اقبال کے حضور ص267..268ملخصا)

.

قائد اعظم نے فرمایا:

ہمیں نہ انگریزوں پر بھروسہ ہے نہ ہندو بنیے پر، ہم دونوں کے خلاف جنگ کریں گے، خواہ وہ آپس میں متحد کیوں نا ہو جائیں...(قائد اعظم کے افکار و نظریات ص36)

۔

واضح ہوتا ہے کہ پاکستان ملک مذہبی ملک ہوگا اسلامی ملک ہوگا اسلامی نظام اسلامی قوانین والا ملک ہوگا اور جو اس میں غیر اسلامی قوانین نافذ کرے گا اس کی ہرگز نہیں سنی جائے گی

۔

🟤 *#دلیل5*

سیاست دانوں کے ہاں عظیم سیاست دان سمجھے جانے والے بانی پاکستان سمجھے جانے والے قائد اعظم نے واضح اعلان کیا کہ:

کمیونسٹ(لوگ،لیڈر) ملک میں انتشار پیدا کر رہے ہیں،یاد رکھیے پاکستان میں اسلامی شریعت نافذ ہوگی..

(اکابر تحریک پاکستان ص129,حیات خدمات تعلیمات مجاہد ملت نیازی ص104)

واضح ہوتا ہے کہ بانی پاکستان کے مطابق بھی پاکستان میں شریعت اسلامیہ نافذ ہوگی اس کے برخلاف جو قوانین بنیں گے وہ ظلم و ستم بربریت کہلائیں گے

۔

🟤 *#دلیل6*

قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا:

میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ(سیرت نبی، سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم)پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام(حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم)نے ہمارے لیے بنایا ہے، ہمیں چاہیے کہ

ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں(قرآن و سنت) پر رکھیں..(قائد اعظم کے افکار و نظریات ص29)

۔

🟤 *#دلیل7*

قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا:

اسلامی حکومت کے تصور  کا یہ امتیاز پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت و وفاکیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے، اسلام میں اصلا نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص کی یا ادارے کی، قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرسکتے ہیں...(قائد اعظم کے افکار و نظریات ص25)

۔

واضح ہوتا ہے کہ بانی پاکستان کے مطابق وہ جمہوریت، وہ لوگ، وہ صدر، وہ وزیر، وہ سینیٹر وہ پارلیمنٹ، وہ جج وہ وکیل، وہ فوجی  وہ جرنیل الغرض جو بھی اسلام کے اصول و تصورات کے خلاف ہو وہ باطل و مردود کالعدم ہے.....!!

پاکستان ان کی حکمرانی عیاشی کے لیے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ ان کے عیاشی کے خاتمے اور اسلام یعنی اسلام کے سچے ترجمان جماعت اہلسنت نظریات و اعمال کے نفاذ کے لیے بنایا گیا تھا

۔

🔵🔵🔵🔵🔵🔵🔵

🟤 *#دلیل8*

القرآن۔۔مَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ

جو اسلام کے(قوانین،تعلیمات،نظریات کے) علاوہ  کسی کی پیروی کرے گا تو ہرگز قابل قبول نہیں ہوگا

سورہ آل عمران ایت85

۔

قانون وہی قابل قبول ہے، تعلیم وہی قابل قبول ہے اور سائنسی و سیاسی ودیگر تمام نظریات و قوانین وغیرہ سب کچھ وہی قابل قبول ہیں جو اسلام مطابق ہوں۔۔۔ اور اسلام میں کسی امتی کو احتساب سے بالاتر سزا سے بالاتر قرار نہیں دیا لہذا احتساب و سزا سے بالاتر ہونے کے قوانین غیر اسلامی قوانین ہیں جو ہرگز قابل قبول نہیں بلکہ ظلم ہیں بلکہ کفر تک ہو سکتے ہیں

کیونکہ

ایت کریمہ میں ہے

القرآن:

 وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ

جو کچھ اللہ نے احکامات نازل کییے ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی فیصلہ کریگا تو وہی ظالم ہے

(سورہ مائدہ ایت45)

القرآن:

  وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ

جو کچھ اللہ نے احکامات نازل کییے ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جو  فیصلہ کریں گے تو وہ کافر ہیں

(سورہ مائدہ ایت44)

۔

🚨شاید یہی وہ پوائنٹ ہے کہ غیور مسلمان ممکن ہے بغاوت پر اتر ائیں گے جب وہ دیکھیں گے کہ اسلام کے خلاف قوانین بنائے جا رہے ہیں فیصلے کیے جا رہے ہیں تو ان کے پاس بظاہر بغاوت کے علاوہ اور کیا چارہ رہ جائے گا۔۔لیکن سوچیں سمجھیں معتبر علماء سے منسلک رہیں تو کئ حل و چارے راستے نکل ائیں گے

۔

🚨اور ممکن ہے یہ بہانہ خوارج کو بھی مل جائے گا کہ دیکھو ایت کریمہ میں ہے کہ ایسے لوگ تو کافر ہیں لہذا ان سے جہاد کرو۔۔۔جبکہ سمجھانا و دیگر طریقے اپنانا لازم ہیں،جنگی جہاد تو لاسٹ آپشن معتبر علماء کے فتوے کے بعد ہی ممکن ہے

۔

😭 اس طرح مسلمان ایک دوسرے کو تباہ کریں گے حالانکہ ہم سب نے مل کر اسلام کی سربلندی کے لیے کام کرنا ہے۔۔

۔

📣حکمران ایسے قوانین بنائیں جو اسلام کے خلاف ہوں تو وہ جبر کے تحت بھی ہو سکتے ہیں اور دل کی منافقت و کفر کی وجہ سے بھی ہو سکتے ہیں تو لہذا بڑے بڑے وسیع علم جوش ہوش والے معتبر علماء کرام ہی فیصلہ کریں گے فتوی دیں گے کہ حکمران مجبور ہیں یا کردار کے کالے یا کافر ہیں۔۔۔ لہذا بڑے بڑے علماء کرام ہی کفر کا فتوی دے سکتے ہیں

۔

 ✅لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خاموش بیٹھ جائیں کہ کیا پتہ علماء کرام بھی فتوی دو ٹوک نا دے پائیں کہ انہیں معلومات ہی نا ہو کہ جبر ہے یا نہیں ہے تو وہ کفر ہونے نہ ہونے کا فتوی کیسے دیں گے

لہذا علماء کے فتوے کا انتظار نہیں کرنا بلکہ کفر ہے یا نہیں ہے ہر صورت میں ہمیں پریشر ڈالنا ہوگا احتجاج کرنا ہوگا اور اچھے لوگوں کو ووٹ دینا ہوگا تاکہ ایسے کالے قوانین مٹوائے جا سکیں، خارجیت تو سراسر نقصان ہی ہے اور بغاوت کبھی فائدہ دیتی ہے اور کبھی کبھار بغاوت کے بغیر پریشر اور ووٹ کے ذریعے سے بھی ہم اصلاح کر سکتے ہیں تو لہذا بغاوت کی طرف جانا ضروری نہیں ہے اور کبھی ضروری بھی ہو سکتا ہے

۔


🟤 *#دلیل9*

القرآن۔۔ ۪ وَّ لَا  تَاۡخُذۡکُمۡ بِہِمَا رَاۡفَۃٌ  فِیۡ  دِیۡنِ اللّٰہِ

دینی معاملات( سزا احتساب قوانین اصول وغیرہ)میں تمھیں کوئی بےجا ترس نہ آئے

سورہ نور ایت2

۔

✅یہ ایت چور کی سزا کے متصل ائی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ سزا کا معاملہ ہو یا احتساب کا معاملہ ہو یا قوانین کا معاملہ ہو یا اصول کا معاملہ ہو۔۔۔ کسی بھی معاملے میں جب شریعت مطہرہ کا حکم آ جائے تو اس سے بالاتر کوئی نہیں ، سزا سے استثنی کسی کو نہیں، احتساب سے استثنی کسی کو نہیں۔۔۔ دینی حکم و قانون سے استثنی کسی کو نہیں

✅لہذا جب شریعت مطہرہ دین اسلام جو کچھ لازم کر دے تو ہم اپنی دلی نرمی یا رحمدلی یا محبت کی وجہ سے کسی کو نہیں بچا سکتے، کسی امتی کو سزا و احتساب سے بالاتر نہیں کرتے چاہے ماضی میں اس نے کتنے ہی اچھے کام اسلام کے لیے ہوں مگر جب اسلام سزا وغیرہ لازم کرے تو اب کوئی بالاتر و مستثنی نہیں

 بلکہ دلیر ہو کر ہر حال میں اسلام کا قانون نافذ کرنا ہوگا چاہے ہمارا بظاہر دل مانے یا نہ مانے ہر حال میں قانون اسلام کا جو ضروری ہوگا وہ ضرور نافذ ہوگا

 ہاں جہاں اسلام نے نرمی کا اختیار دیا تو وہاں نرمی کر سکتے ہیں

۔

🟤 *#دلیل10*

الحدیث

" إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا يُقِيمُونَ الْحَدَّ عَلَى الْوَضِيعِ، وَيَتْرُكُونَ الشَّرِيفَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ فَاطِمَةُ فَعَلَتْ ذَلِك

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے کی امتوں کو اس چیز نے ہلاک کیا کہ وہ سزا کمزور پر لاگو کرتے تھے اور بڑے رعب شہرت عزت طاقت والے کو چھوڑ دیتے تھے(لیکن دین اسلام میں ایسا نہیں ہے)خدا کی قسم میری بیٹی (جگر کا ٹکڑا)فاطمہ رضی اللہ عنھا بھی اگر بالفرض چوری کرے تو میں اسے سزا دوں گا

بخاری حدیث6787

۔

✅حدیث پاک سے واضح ہے کہ کوئی بہت بڑا ہیرو ہو بہت بڑا نیک ہو متقی پرہیزگار ہو بڑی عزت شرف والا ہو جیسے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جگر کا ٹکڑا۔۔۔۔ ایسا کوئی بھی ہو وہ اسلام کے احکامات سے، سزا و احتساب سے مستثنی نہیں۔۔۔۔!!

۔

🟤 *#دلیل11*

الحدیث

" كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے ہر ایک نگہبان و پہردار ہے اور تم میں سے ہر ایک سے حساب لیا جائے گا

بخاری حدیث5200

۔

✅یہ حدیث پاک واضح کرتی ہے کہ کوئی بھی شخص کوئی بھی امتی حساب سے بالاتر نہیں، مستثنی نہیں

 👊بلکہ ہر امتی پر لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ اسلام کی پہرہداری کرے نگرانی کرے اور اگر کہیں دیکھے کہ اسلام کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو اس کو حسب طاقت روکے اور روکنے کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں۔۔۔ احتجاج ریلیاں پریشر ڈال کر روکے یا ووٹ اچھوں کو دے کر انہیں اقتدار ملا کر برے قوانین سے روکے۔۔۔۔ اور بھی جائز طریقے برائی سے روکنے کے ہو سکتے ہیں جو علماء کرام کی اجازت سے اپنائے جا سکتے ہیں تاکہ مزید فتنہ فساد انتشار نہ پھیلے۔۔۔ 🚨کیونکہ

ہر شخص اگر ہتھیار اٹھا لے اور کہے کہ میں برائی سے روکنے کے لیے نکلا ہوں تو فتنہ فساد انتشار پھیلتا جائے گا، ہاں اسلام اور فقہ میں دو ٹوک لکھا ہے کہ کوئی ضدی فسادی بہت مشہور باطل گستاخ فسادی ہو تو اسے کوئی بھی شخص علماء کی اجازت کے بغیر ٹھکانے لگا سکتا ہے، لیکن اصل حکم یہ ہے کہ اچھے طریقے سے بغیر فتنہ فساد پھیلائے بغیر انتشار پھیلائے برائی کو روکا جائے۔۔۔۔!!

۔

🟤 *#دلیل12*

الحدیث

 مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُهُ دُونَ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ فَقَدْ ضَادَّ اللَّهَ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو اللہ کی مقرر کردہ سزاؤں حدود کے معاملے میں اڑے ایا تو وہ اللہ کے مقابلے کے لیے نکل ایا

ابوداود حدیث3597

✅اس حدیث پاک سے واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی امتی کو اللہ تعالی کے حدود سزاؤں کے معاملے میں مستثنی قرار نہیں دیا جا سکتا، یہ اللہ کریم کی سراسر خلاف ورزی ہے بلکہ اللہ سے مقابلہ ہے نعوذ باللہ تعالی ۔۔۔🚨 گویا ایسے قوانین بنانا بنوانا کہ جس سے کسی کو استثنی ملے تو گویا کہ کسی کو خدا قرار دینے کے مترادف ہے

۔

🔵🔵🔵🔵🔵🔵🔵

🟥 *#خلفاء راشدین سے ایک ایک مثال پیش ہے کہ ا ایسے عظیم جنتی خلفائے راشدین عظیم الشان ہو کر بھی وہ احتساب سزا و اسلامی قوانین وغیرہ سے بالاتر ہرگز نہ تھے*

۔

🟤 *#دلیل13*

فإن أحسنت فأعينوني وإن أسأت فقوِّموني...قال ابن كثير رواه ابن إسحاق بإسناد صحيح

سیدنا ابوبکر صدیق خلیفہ راشد خلیفہ اول رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ بالفرض اگر میں برا کروں تو مجھے درست کرو اور جب میں اچھا کام کروں تو میری مدد کرو

امام ابن کثیر نے فرمایا ہے کہ اس روایت کو امام ابن اسحاق نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے

 الموسوعة العقدية8/96

وله طرق يحسن بها

ترغیب ترہیب کہ حاشیہ میں محقق نے لکھا کہ اس روایت کی کئی سندیں ہیں جو سب مل کر حسن معتبر قابل دلیل بن جاتی ہیں

(الترغیب والترھیب1/547)

۔

✅اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ سیاسی وروحانی خلیفہ اول عظیم شخصیت، محبوب رسول کریم امتیوں میں سب سے افضل خلیفہ راشد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ وضاحت فرما رہے ہیں کہ میں اسلام سے بالاتر نہیں لہذا دیگر حکمران جو میرے ماتحت کام کرتے ہیں ان کے علاوہ تم عام ادمی بھی میری درستگی کر سکتے ہو دلائل کے ساتھ۔۔۔ یہ ان کی عاجزی اور انکساری تھی اور اسلام کی بالادستی کو واضح کرنا تھا ورنہ ایسا عظیم الشان شخصیت بھلا کیسے برا کام کرے گا کہ اسے درست کیا جائے۔۔۔ ان کا یہ فرمان امت کے لیے نمونہ ہے کہ کوئی امتی چاہے کتنا ہی بڑا ہیرو عظیم الشان کیوں نہ ہو وہ اسلام کے کسی بھی اصول قانون سے بالادست بالاتر مستثنی نہیں ہے

۔

🟤 *#دلیل14*

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہ جس کے متعلق ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حق اس کی زبان سے نکلتا ہے۔۔ایسا عظیم خلیفہ راشد بھی شریعت سے مستثنی نہیں تھے، احتساب سے مستثنی نہیں تھے۔۔۔ان کے فیصلے رائے کا مدلل احتساب کیا سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اور سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے ویگر صحابہ کرام نے۔۔ اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رجوع بھی کر لیا۔۔ دو مثالیں اپ کے سامنے رکھتا ہوں

۔

🟢 *#مثال1*

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، ح وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، الْمَعْنَى، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ، قَالَ هَنَّادٌ الْجَنْبيُّ: قَالَ: أُتِيَ عُمَرُ بِامْرَأَةٍ قَدْ فَجَرَتْ، فَأَمَرَ بِرَجْمِهَا، فَمَرَّ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَأَخَذَهَا فَخَلَّى سَبِيلَهَا، فَأُخْبِرَ عُمَرُ، قَالَ: ادْعُوا لِي عَلِيًّا، فَجَاءَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ، عَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَبْلُغَ، وَعَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ المَعْتُوهِ حَتَّى يَبْرَأَ»، وَإِنَّ هَذِهِ مَعْتُوهَةُ بَنِي فُلَانٍ، لَعَلَّ الَّذِي أَتَاهَا وَهِيَ فِي بَلَائِهَا، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: لَا أَدْرِي، فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلَام، وَأَنَا لَا أَدْرِي

سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک عورت کو لایا گیا کہ جس نے زنا کیا تھا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا گزر ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کو رجم نہ کرو سیدنا عمر کو یہ جب خبر دی گئی تو آپ نے فرمایا کہ حضرت علی کو میرے پاس بلا کر لے آؤ پس حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے اور فرمایا یا امیرالمومنین کیا آپ نہیں جانتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ تین لوگوں سے قلم اٹھا دی گئی ہے بچے سے یہاں تک کہ بالغ ہو جائے، سوئے ہوئے سے یہاں تک کہ اٹھے اور معتوہ سے یہاں تک کہ ٹھیک ہو جائے یہ عورت معتوھۃ(جس کو جنون کے دورے پڑتے ہوں اور کبھی افاقہ ہوتا ہو)ہے عین ممکن ہے کہ اس سے زنا کیا گیا ہو جنون کی حالت میں....حضرت عمر نے فرمایا مجھے علم نہیں ، حضرت علی نے فرمایا مجھے بھی علم نہیں(لیھذا ممکن ہے حالت جنون میں اس سے زنا کیا گیا ہو تو حضرت عمر نے جو رجم کا حکم دیا تھا وہ انکی اجتہادی خطاء تھی، سیدنا علی نےرجم نہ کرنے کی رائے دی جسے سیدنا عمر نے قبول کرلیا اور اسے رجم نہ کیا گیا)

(سنن أبي داود ,4/140روایت44029)

(سنن سعيد بن منصور ,2/94روایت2078)

.

یہ روایت مسند احمد میں بھی ہے اس میں یہ بھی اضافہ ہے کہ فَلَمْ يَرْجُمْهَا

ترجمہ:

پس اس معتوھۃ کو رجم نہ کیا

(مسند أحمد مخرجا ,2/443روایت1328)

حاشیہ مسند احمد میں لکھا ہے کہ یہ روایت درج ذیل کتب میں بھی ہے

وأخرجه الطيالسي (90) عن حماد، بهذا الإسناد. بالمرفوع منه فقط..وأخرجه أبو داود (4402) ، والنسائي في "الكبرى" (7344) ، وأبو يعلى (587) ، والبيهقي 8/264-265 من طرق عن عطاء، به. وسيأتي برقم (1362) .

وأخرجه النسائي في "الكبرى" (7345) من طريق أبي حصين، عن أبى ظبيان، به موقوفاً. ورجح النسائي هذه الرواية.

وأخرجه بنحوه من طريق الأعمش، عن أبي ظبيان، عن ابن عباس، عن علي مرفوعأ أبو داود (4399) و (4400) و (4401) ، والنسائي في "الكبرى" (3743) ، وابن حبان (143) ، والدارقطني 3/138، وا لحاكم 1/258 و2/59 و4/389، وا لبيهقي 8/264. وصححه الحاكم، ووافقه الذهبي.

.

قال الخطابي في "معالم السنن" 3/310: لم يأمر عمر رضي الله عنه برَجْم مجنونة ئطبق عليها في الجنون، ولا يجوز أن يخفى هذا ولا على أحدٍ ممن بحضرته، ولكن هذه امرأَة كانت تجَن مرةً، وتُفيق أخرى، فرأى عمرُ رضي الله عنه أن لا يسقط عنها الحد لما يصيبُها من الجنون، إذ كان الزنى منها في حال الإفاقة، ورأى على كرم الله وجهه أن الجنون شبهة يدرأ بها الحدُّ عمن يبتلى به، والحدود تُدرأ بالشبهات، لعلها قد أصابت ما أصابت وهي في بقية من بلاثها، فوافق اجتهاد عمر رضي الله عنه اجتهاده في ذلك، فدرأ عنها الحد، والله أعلم بالصواب

(حاشیہ مسند احمد 2/444)

.

مذکورہ واقعہ کی روایت کے متعلق امام حاکم نے کہا کہ بخاری مسلم کی شرط پر صحیح روایت ہے اور امام ذہبی نے اسے برقرار رکھا

هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»(فقال الذھبی)على شرطهما

(المستدرك للحاكم ,1/389روایت9499

۔

🟢 *#مثال2*

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أَشْيَاخِهِ: أَنَّ امْرَأَةً غَابَ عَنْهَا زَوْجُهَا(سَنَتَيْنِ کما فی سنن سعید بن منصور…حصیر)ثُمَّ جَاءَ وَهِيَ حَامِلٌ فَرَفَعَهَا إِلَى عُمَرَ: «فَأَمَرَ بِرَجْمِهَا».، فَقَالَ مُعَاذٌ: «إِنْ يَكُنْ لَكَ عَلَيْهَا سَبِيلٌ، فَلَا سَبِيلَ لَكَ عَلَى مَا فِي بَطْنِهَا»، فَقَالَ عُمَرُ: «احْبِسُوهَا حَتَّى تَضَعَ، فَوَضَعَتْ غُلَامًا لَهُ ثَنِيَّتَانِ»، فَلَمَّا رَآهُ أَبُوهُ، قَالَ: ابْنِي، فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ، فَقَالَ: «عَجَزَتِ النِّسَاءُ أَنْ يَلِدْنَ مِثْلَ مُعَاذٍ، لَوْلَا مُعَاذٌ هَلَكَ عُمَرُ»

ایک شخص دو سال گھر سے باہر رہا جب کر واپس آیا تو اس کی بیوی حاملہ تھی تو اس نے یہ معاملہ حضرت عمر کی طرف اٹھایا حضرت عمر نے اس عورت کے رجم کا حکم دیا تو سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہو سکتا ہے عورت پر آپ سزا لاگو کرے مگر جو اس کے پیٹ میں ہے اس پر سزا لاگو نہیں کر سکتے تو حضرت سیدنا عمر نے رجوع فرماتے ہوئے فرمایا کہ اس کو قید کر لو یہاں تک کہ یہ بچہ جنے تو اس نے جب بچہ جنا تو اس کے ابو نے دیکھا تو تو کہا کہ یہ تو میرا بیٹا ہے تو سیدنا عمر نے فرمایا کہ عورتیں عاجز آگئی ہیں کہ معاذ جیسے اولاد پیدا کرے؟ اگر معاذ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو چکا ہوتا…رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین

(استاد بخاری مصنف ابن أبي شيبة ,5/543)

(سنن سعيد بن منصور ,2/94)


.

🟤 *#دلیل15*

سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ عظیم الشان شخصیت خلیفہ راشد علم و حکمت کا سمندر رضی اللہ تعالی عنہ بھی احتساب سے بالاتر نہ تھےاپ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں

رواہت:

في حلالها حساب، وفي حرامها عقاب

سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اس دنیا میں جو کچھ حلال کرو گے تو اس کا حساب دینا پڑے گا اور اگر اس میں برا کرو گے تو اس پر سزا ملے گی

الكامل في اللغة والأدب1/125

۔

✅واضح ہوتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ ہر ایک کے متعلق فرما رہے ہیں کہ ہر ایک امتی چاہے وہ کیسا بھی ہو اس کو ہمیشہ یاد ہونا چاہیے کہ وہ حساب و احتساب سے بالاتر نہیں، مستثنی نہیں اور سزاؤں سے بالاتر نہیں، مستثنی نہیں

۔

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

New whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.