اگر اسلام کے نفاذ و سربلندی کے لیے سیاست میں اہلسنت کی نمائندگی لیڈری کے لیے قبلہ جلا/لی صاحب نے رجوع کیا ہو تو بھی یہ عمل قران و احادیث سےدرست ثابت ہوتاہے،تفصیل اس مدلل مختصر تحریر میں پڑھیے

 🟦 *#اگر اسلام کے نفاذ و سربلندی کے لیے سیاست میں اہلسنت کی نمائندگی لیڈری کے لیے قبلہ جلا/لی صاحب نے رجوع کیا ہو تو بھی یہ عمل قران و احادیث سےدرست ثابت ہوتاہے،تفصیل اس مدلل مختصر تحریر میں پڑھیے۔۔!!*

📣گزارش:

1۔۔۔۔میری دیگر تحقیقی تحریرات اس لنک پے پڑھ سکتے ہیں

https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1

2....میرے واٹسپ چینل اور فیسبک ائی ڈی کو فالوو کیجیے،تاکہ آنی والی تحریرات اپ پڑھ سکیں

https://whatsapp.com/channel/0029Vb5jkhv3bbV8xUTNZI1E

✅ *#اصول*

قران و احادیث و دیگر دلائل سے کتب اسلاف میں قانون قاعدہ لکھا ہے کہ جب دو یا دو سے زائد میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو اھم و انفع کو اپنایا جائے اور جو کم اھم ہو، کم نفع والا ہو اسے چھوڑ دیا جائے۔۔۔اس پر دلائل ہم تحریر کے اخر میں لکھیں گے

۔

🟥 *#صورت حال*

1️⃣۔۔۔سیدہ طیبہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا سے اجتہادی خطا ہوئی۔۔۔یہ موقف رکھنا فرض واجب نہیں،ضروری و اہم نہیں، لیکن اگر دلائل و ادب کے ساتھ خطا اجتہادی کی نسبت کی جائے تو گناہ و بے ادبی بھی ہرگز نہیں

۔

2️⃣۔۔۔سیدہ طیبہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا سمیت کسی بھی اہل بیت کرام کے فرد سے اور صحابہ کرام میں سے کسی صحابی سے اجتہادی خطا ہو سکتی ہے، صحابہ کرام اہل بیت عظام میں سے کوئی معصوم نہیں۔۔۔یہ نظریہ فرض و لازم ہے، جو کسی اہل بیت اطہار کے فرد کو یا کسی صحابی کو معصوم سمجھے تو کفر ہے

۔

3️⃣۔۔۔سیاست میں ا کر دین اسلام کی سربلندی کے لیے یعنی دین اسلام کے سچے ترجمان مسلک حق اہل سنت کی سربلندی کے لیے خدمات کرنا، نمائندگی کرنا ، سربراہی لیڈری کرنا ، شرعی سیاست کرنا شرعا اہم ترین امور میں سے ہے اور اج کے پاکستان کے حالات دیکھے جائیں تو اہم ترین سے بھی زیادہ اہم ہے کہ برحق علماء و مشائخ سیاست میں حصہ لیں

۔

✅ *#قبلہ جلا/لی و اکابرین کی سوچ و انتخاب*

 1️⃣۔۔۔عرصہ دراز قبل سیاست میں کافی حد تک نمائندگی لیڈری کرنے والے حضرات اہلسنت موجود تھے، اوس وقت اہم یہ تھا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی طرف اجتہادی خطا کی نسبت کو کفر اور گستاخی سمجھا جا رہا تھا تو اس کو رد کرنا زیادہ اہم تھا۔۔۔ کیونکہ جو چیز کفر نہ ہو اس کو کفر قرار دینے کے نظریے کا رد اہم ترین اور انفع ترین، نافع ترین، لازم ترین معاملہ تھا

اس لیے قبلہ جلا/لی صاحب نے سیاست و لیڈری کی پرواہ کیے بغیر اس اہم ترین معاملے میں بھرپور کردار ادا کرتے رہے،حتی کہ بعض اکابرین نے رجوع کا فرمایا تو بھی وہ ڈٹے رہے، کیونکہ قبلہ جلا/لی کے مطابق وہ اہم ترین اور امت کے لیے عقیدے کے حساب سے لازم ترین معاملات تھا تو اس پر ڈٹے رہے لیکن ہر ایک کی سوچ برابر نہیں ہوتی تو بعض اکابرین کی رائے میں اہم ترین یہ تھا کہ رجوع کیا جائے

۔

📌لہذا قبلہ جلا/لی اور اکابرین دونوں اپنی جگہ درست تھے اور ان سب کا مقصد دین کی سربلندی ہی تھا

۔

2️⃣۔۔۔اب جب کہ اہم ترین معاملہ عقیدے کا معاملہ کافی حد تک دلائل سے مزین ہو کر بہت عام ہو چکا ہے، لیکن لبیک پر پابندی لگ چکی ہے اور 📌اہل سنت کو ایک اہم ترین سیاسی لیڈر کی اشد ضرورت ہے اور اکابرین مسلسل اصرار کر رہے تھے کہ رجوع کیا جائے کہ رجوع میں زیادہ نفع و  زیادہ اہمیت ہے تو ڈاکٹر جلا/لی صاحب کو بھی لگا کہ اب زیادہ اہم اور مسلمانوں کے لیے اور اسلام کے لیے زیادہ مفید تر یہ ہے کہ وہ نظریہ کہ جو ہم نے اوپر تحریر کے شروع میں نمبر ایک میں لکھا ہے فرض واجب نہیں ہے اس کو جلا/لی صاحب نے اپنایا تھا تو اب اس کو چھوڑنا اور اس سے رجوع کرنا ہی زیادہ مفید اور زیادہ اہم ہو گیا تھا بشرط کہ نظریہ نمبر دو جو اوپر تحریر کے شروع میں ہم نے لکھا کہ کوئی امتی معصوم نہیں ، اس کو واضح کرتے ہوئے، اس کو ساتھ چلاتے ہوئے، اس کو ساتھ ساتھ بیان کرتے ہوئے نظریہ نمبر ایک سے رجوع کر لیا جائے اور اہم ترین معاملہ یعنی سیاست میں نمائندگی لیڈری کی طرف ایا جائے تو یہ زیادہ اہم ترین لازم ترین انفع و اہم ترین ہے

👈اور یقینا اکابرین نے بھی مسلسل سمجھایا لیکن اب ان حالات میں ان کے سمجھانے کا انداز بھی بدل گیا ہوگا کہ جلا/لی صاحب اب رجوع کرنا پہلے سے زیادہ اہم ترین ہو گیا ہے تاکہ اپ اہم ترین معاملے یعنی سیاست میں نمائندگی اور لیڈری کریں

تو

👈ایسے موقع پر اگر رجوع کر لیا جائے اور اہم ترین معاملے کی طرف ایا جائے، سیاست میں نمائندگی اور لیڈری کی جائے تو شرعی طور پر بالکل برحق اور درست ہے

۔

🚨یہ رجوع اور فیصلہ اقتدار کے نشے کے لیے نہیں,  ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ ایک عالم ربانی کے متعلق یہ نظریہ رکھنا فرض ہے کہ وہ ذاتی مفاد و شہرت کے لیے نہیں بلکہ امت کے درد کے لیے اور امت کو سنبھالنے کے لیے اور اسلام کی سربلندی کے لیے یہ سب کچھ رجوع و سیاست و لیڈری کر رہا ہے تو یقینا درست کر رہا ہے اور اس میں کوئی اعتراض کرنے کی بات نہیں ہے

.

🟦 *#دلائل*

1️⃣القرآن:

 اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ 

اور اگر تم رخصت کے باوجود روزہ رکھو تو تمہارے لیے بہتر ہے

سورہ بقرہ ایت184

✅اس ایت مبارکہ میں واضح ہوتا ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا بالکل جائز ہے درست ہے، ناحق و برا نہیں۔۔۔ اور اگر کوئی سفر میں روزے کو ناجائز قرار دے تو اس صورت میں تو شدت کے ساتھ بیان کیا جائے گا کہ سفر میں روزہ رکھا جائے تاکہ برا نظریہ ختم ہو لیکن جب برا نظریہ نہ ہو تو اس صورت میں زیادہ اہم اور بہتر اور بھلائی والا کام روزہ رکھنا ہو جاتا ہے

۔

✅اسی طرح سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو خطا اجتہادی کی طرف نسبت کرنا اگرچہ ناحق و برا نہیں تھا مگر جب نظریہ عام ہوا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا معصوم ہیں جیسے کہ انبیاء کرام معصوم ہوتے ہیں تو اس صورت میں شدت کے ساتھ اہم ترین معاملہ یہ تھا کہ دلائل کے ساتھ بیان کیا جائے کہ سیدہ فاطمہ طیبہ طاہرہ سمیت کوئی بھی اہل بیت کوئی بھی صحابی کوئی بھی امتی معصوم نہیں ہے لہذا اس وقت جب برا نظریہ عروج پر تھا تو اس کا رد کرنا بھی زیادہ اہم تھا

👈مگر

اب جب کہ دلائل واضح ہو چکے لوگوں کو پتہ چل چکا تو اب زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ نظریہ جو ناحق و برا نہ تھا لیکن فرض واجب بھی نہ تھا اس سے رجوع کر کے زیادہ اہم اور زیادہ مفید کام کی طرف توجہ کی جائے یعنی سیاست میں نمائندگی اور لیڈری کی جائے تو کوئی حرج نہیں بلکہ عین درست ہے بشرط کہ ساتھ ساتھ یہ بھی نظریہ بیان کیا جانا لازمی ہے کہ کوئی بھی امتی معصوم نہیں ہے

اور

 👈قبلہ مفتی ڈاکٹر ا/صف ا/شرف جلا/لی صاحب نے رجوع میں واضح لکھا ہے کہ کوئی امتی معصوم نہیں ہے اس کو اپناتے ہوئے مضبوطی سے تھامتے ہوئے میں اوس نظریے سے رجوع کرتا ہوں کہ جو فرض واجب نہیں اگرچہ برا و ناحق بھی نہیں تھا لیکن اب میں اوس سے رجوع کر رہا ہوں اکابرین کے کہنے پر کیونکہ اس وقت اسلام ہم سے تقاضا کر رہا ہے کہ رجوع کر کے اہم معاملے کی طرف توجہ کی جائے سیاست میں نمائندگی اور لیڈری کی جائے

۔

2️⃣ *#دلیل2*

الحدیث:

سیدہ فاطمہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کام کی مشقت کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خادم یا خادمہ کی درخواست کی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

تُكَبِّرَا أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ، وَتُسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتَحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فاطمہ اور علی رضی اللہ تعالی عنہما تم اللہ اکبر کی تسبیح کرو 34 مرتبہ اور سبحان اللہ کی تسبیح کرو 33 مرتبہ اور الحمدللہ کی تسبیح کرو 33 مرتبہ تو یہ عمل تمہارے لیے خادم یا خادمہ سے زیادہ بہتر ہے

بخاری حدیث3705

۔

✅یقینا سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے خادمہ کا ہونا اہم و مفید معاملہ تھا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اہم اور مفید سے رجوع کر کے اس طرف توجہ دلائی کہ  یہ عمل کرو یہ اپ لوگوں کے لیے زیادہ اہم ترین اور زیادہ مفید ترین ہے

👈اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ کسی وقت کوئی کام کم مفید ہو جائے ، کم اہم ہو جائے اور دوسرا کام زیادہ اہم اور زیادہ مفید ہو جائے تو رجوع کر کے زیادہ اہم کام، زیادہ مفید کام کی طرف چلے جانا چاہیے اور قبلہ ڈاکٹر جلا/لی صاحب نے ایسا ہی کیا ہے جو کہ بالکل درست اور بہترین اقدام کہلائے گا، کیونکہ عالم ربانی اپنی ذات کے لیے سیاست نہیں کرتا بلکہ وہ سیاست اور لیڈری میں ائے گا تو اسلام کی سربلندی کے لیے ہی ائے گا, مسلمانوں کی سربلندی کے لیے ہی ائے گا

۔

3️⃣ *#دلیل3*

يُقَدَّمُ الْأَهَمُّ فَالْأَهَمُّ

جو کام زیادہ اہم ہوگا اس کو مقدم کیا جائے گا

البحر الرائق8/503

۔

فَيَخْتَارُ مِنْ ذَلِكَ مَا هُوَ الْأَنْفَعُ

تو ان معاملات میں سے اس چیز کو اختیار کیا جائے گا کہ جو سب سے زیادہ مسلمانوں کے لیے نفع مند ہو، اسلام کے لیے زیادہ نفع مند ہو

المبسوط لسرخسی10/64

۔

وَإِنَّمَا تَرَكَهُ لِظُهُورِهِ وَتَنْبِيهًا عَلَى مَا هُوَ الْأَهَمُّ فَهُوَ مِنْ أُسْلُوبِ الْحَكِيمِ

جب ایک بات معاملہ واضح اور ظاہر ہو جائے تو اس کو چھوڑا سکتا ہے اور دوسری اہم بات معاملے کو اختیار کیا جا سکتا ہے بلکہ یہی اسلوب اختیار کرنا چاہیے کہ حکمت والے کا یہی اسلوب ہوتا ہے

فتاوی شامی4/210ملخصا

.

✅ان عبارات سے بھی بالکل واضح ہوتا ہے کہ شرعی حکمت کہ جس کی مدح و تعریف قران مجید میں ہے اسی حکمت کا تقاضا ہے کہ جب ایک بات واضح ہو جائے ، ایک معاملہ واضح ہو جائے تو اب اس سے رجوع کیا جا سکتا ہے تاکہ کسی اور اہم معاملے کو اختیار کیا جائے۔۔۔ یہ ذاتی پسند یا مفاد کی خاطر نہ ہو بلکہ اس لیے چھوڑا جائے اس لیے اختیار کیا جائے کہ وہ معاملہ اسلام و مسلمین کے لیے زیادہ مفید و اہم ترین ہو۔۔۔۔!!

.

4️⃣ *#دلیل4*

الحدیث:

قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " «من لا يهتم بأمرالمسلمين فليس منهم

ترجمہ:

جو مسلمانوں کے معاملات(معاشرتی و انفرادی بھلائی ترقی اصلاح) پر اہتمام نا کرے، اہمیت نا دے وہ اہلِ اسلام میں سے نہیں(مجمع الزوائد حدیث294)

اسلامی سیاست میں یہی معاشرتی انفرادی بھلائی ترقی اصلاح کا اہتمام ہی تو ہوتا ہے......!!

.

لها حكم شرعي معناه أنها داخلة تحت قواعد الشرع وإن لم ينص عليها بخصوصها.

ترجمہ:

سیاست کا شرعی حکم ہے،اسکا معنی یہ ہے کہ اگرچہ دوٹوک الفاظ میں اسکا حکم نہیں آیا مگر یہ شریعت کے(فرض واجب مستحب، عین و کفایہ،جائز مباح حلال حرام وغیرہ) قواعد کے تحت داخل ہے

(ردالمحتار المعروف فتاوی شامی جلد6 صفحہ23)

اس قاعدے کے تحت جب معاملہ ناموس رسالت یا دیگر فرائض واجبات کا ہو تو سیاست فرض کفایہ یا واجب کفایہ کہلائے گی یعنی سب پر فرض واجب تو نہیں بلکہ کچھ نے سیاست میں حصہ لے لیا تو ٹھیک ہے مگر ایسی صورت میں انکی تائید تعاون اور حمایت حسب طاقت لازم ہوگئ... اور اسی قاعدے اور دیگر قواعد کے تحت سیاست کبھی فرض کبھی واجب کبھی مستحب کبھی سنت غیرموکدہ اور کبھی مباح کہلائے گی اور کبھی ممنوع گناہ کہلائے گی..

۔

🚨✅اور اس وقت اپ ملک پاکستان کے حالات اسلامی لحاظ سے دیکھ رہے ہیں کہ کس کس قسم کے غیر اسلامی کام ہو رہے ہیں، بل پاس ہو رہے ہیں تو اس وقت انتہائی زیادہ شدید ترین ضرورت ہے کہ کوئی پیر سید مفتی مظفر شاہ صاحب جیسا مدبر محقق، کوئی مفتی منیب الرحمن جیسا مدبر محقق، کوئی ڈاکٹر  مفتی جلا/لی جیسا مدبر محقق سیاست میں ضرور ائے

 اور اس وقت تمام تر حالات موافق ہیں کہ

 ڈاکٹر مفتی جلا/لی صاحب نمائندہ اور لیڈر بن کر ابھریں اور علماء کی مشاورت، اکابرین کی مشاورت سے چلیں اور ہوش کے مقام پر ہوش اور جوش کے مقام پر جوش۔۔۔اور دلائل کے مواقع پر دلائل اور پریشر کے مواقع پر پریشر الغرض حسب حالات شریعت کے مطابق عمل کرتے ہوئے شریعت کو نافذ کراتے جائیں

۔

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

New whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.