باغ فدک اور حدیث پاک کہ انبیاء کرام کے کوئی مالی وارث نہیں ہوتے،اس پر شیعوں کے اہم ترین اعتراضات کے جوابات اور کیا رسول کریمﷺکے اموال یعنی فدک وغیرہ کو سیدنا صدیق اکبر اہلبیت میں خرچ نہ کرتے تھے؟ رسول کریمﷺ کی مالی میراث نہیں، ثبوت شیعہ کتب سے۔۔مال رسولﷺ میں خلفاء راشدین کا طرز عمل..؟؟ کیا سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے ناراض رہ وفات پا گئیں۔۔؟؟ تحقیقی مدلل جوابات پڑھیےاس تحریر میں۔۔۔!!

*#باغ_فدک اور حدیث پاک کہ انبیاء کرام کے کوئی مالی وارث نہیں ہوتے،اس پر شیعوں کے اہم ترین اعتراضات کے جوابات اور کیا رسول کریمﷺکے اموال یعنی فدک وغیرہ کو سیدنا صدیق اکبر اہلبیت میں خرچ نہ کرتے تھے؟ رسول کریمﷺ کی مالی میراث نہیں، ثبوت شیعہ کتب سے۔۔مال رسولﷺ میں خلفاء راشدین کا طرز عمل..؟؟ کیا سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے ناراض رہ وفات پا گئیں۔۔؟؟ تحقیقی مدلل جوابات پڑھیےاس تحریر میں۔۔۔!!*

۔

عرض و گزارش:

اپ سے گزارش ہے کہ میرا نیا واٹسپ نمبر 03062524574 سیو کیجئے اور وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنا دیجئے تاکہ میں پہلے سے بھی بڑھ کر دین کی خدمت کر سکوں ، علمی اصلاحی تحقیقی تحریرات زیادہ سے زیادہ پھیلا سکوں

۔

علمی تحقیقی اصلاحی سیاسی تحریرات کے لیے اس فیسبک پیج کو فالوو کیجیے،پیج میں سرچ کیجیے،ان شاء اللہ بہت مواد ملے گا...اور اس بلاگ پے بھی کافی مواد اپلوڈ کردیا ہے...لنک یہ ہے:

https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1

https://www.facebook.com/profile.php?id=100022390216317&mibextid=ZbWKwL 


*#تمھید*

اس معاملے میں شیعہ کے چوٹی کے درج ذیل اعتراضات ہیں 

*#پہلا اعتراض*

شیعہ و روافض کہتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے نعوذ باللہ جھوٹ باندھا کہ انبیاء کرام کے کوئی مالی وارث نہیں ہوتے کیونکہ قران مجید میں ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ یا اللہ مجھے رشتہ داروں کا خوف ہے تو مجھے وارث عطا فرما۔۔۔شیعہ کہتے ہیں کہ ظاہر بات ہے علم کا تو خوف ہوتا نہیں کہ علم تو چوری ہوتا نہیں ظاہر بات ہے ان کو اس بات کا خوف تھا کہ ان کی مال ملکیت چوری ہو جائے گی ،چھین لی جائے گی، غلط استعمال کی جائے گی ،اس لیے انہوں نے اپنا وارث مانگا جو نبی بھی ہو اور مالی وارث بھی بنے لہذا ابوبکر صدیق نے جو حدیث بیان کی کہ انبیاء کے مالی وارث نہیں ہوتے وہ سراسر قران کے خلاف ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قران کے خلاف نہیں بول سکتے لہذا یہ ابوبکر نے اپنی طرف سے جھوٹ گھڑ کر رسول کریم کی طرف منسوب کر دیا کہ انبیاء کرام کی کوئی وارث نہیں ہوتے 

۔

*#دوسرا اعتراض* 

شیعہ اعتراض کرتے ہیں کہ خلیفہ راشد ابوبکر نے باغ فدک وغیرہ اپنے قبضے میں رکھے اہل بیت کو نہ دیے لیکن خلیفہ راشد عثمان نے مروان کو دے دیا اور خلیفہ راشد عبدالعزیز نے واپس اہل بیت کو دے دیا تو بتاؤ ان خلفائے راشدین میں سے کون برحق ہے اور کون باطل۔۔۔۔؟؟

۔

*#تیسرا اعتراض*

شیعہ کہتے ہیں کہ یہ بھی جھوٹ پھیلایا جاتا ہے کہ اہل بیت کو باغ فدک وغیرہ میں سے خرچہ دیا جاتا تھا کیونکہ ابو داؤد میں دو ٹوک لکھا ہے کہ ابوبکر نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو دینے سے انکار کر دیا ان پر خرچ کرنا بھی گوارا نہ کیا 

۔

.

*#چوتھا اعتراض*

شیعہ اعتراض کرتے ہیں کہ سیدہ پاک سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی باغ فدک دے دیا تھا تو پھر کس کی مجال کہ غضب کرے چھین لے اور جھوٹی حدیث بیان کرتا پھرے

۔

*#پانچوان اعتراض*

شیعہ اعتراض کرتے ہیں کہ تمہاری کتابوں میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور تمہاری یہ کتاب بخاری کی حدیث میں ہے کہ سیدہ فاطمہ کو ابوبکر نے ناراض کیا اور اسی ناراضگی کی حالت میں سیدہ فاطمہ کی وفات ہو گئی

۔

###############

*#جواب۔و۔تحقیق۔۔۔۔۔۔!!*

*#پہلے اعتراض کا خلاصہ*

شیعہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث نہیں بلکہ ابوبکر نے جھوٹ بولا کہ انبیاء کی میراث نہیں ہوتی کیونکہ قران میں ہے کہ سیدنا زکریا علیہ السلام نے دعا کی یا اللہ مجھے رشتہ داروں کا خوف ہے کہ وہ میرا مال دولت ہڑپ کر جائیں گے تو یا اللہ مجھے میرا بیٹا وارث عطا فرما 

۔

*#پہلا جواب۔۔۔۔!!*

انبیاء کرام کی یہ شان نہیں کہ وہ مال و دولت جمع کرتے پھریں اور پھر ان کو خوف ہو کہ کوئی ان کا مال ہڑپ نہ کر جائے۔۔یہ انبیاء کرام کی شان کے لائق نہیں۔۔۔لہذا ایت میں سیدنا زکریا علیہ السلام نے یہ دعا کی کہ یا اللہ مجھے خوف ہے کہ میرے بعد میرے رشتہ دار یہ کہہ کر مسلط ہو جائیں گے کہ ہم تو زکریا علیہ السلام کے وارث ہیں اور سیدنا زکریا کی فلاں فلاں تعلیمات ہیں، اس طرح وہ اپنی بدعتیں اپنی خرافات اپنی عقلی باتیں من مانیاں دین میں شامل کر کے سیدنا زکریا علیہ السلام کی تعلیمات بگاڑ کر امت کو تباہ کر دیں گے۔۔۔ یہ خوف تھا سیدنا زکریا علیہ السلام کو اس لیے انہوں نے دعا فرمائی کہ یا اللہ میرے علم و حکمت دین و ملت مذہب و تعلیمات کا وارث بیٹا مجھے عطا فرما

۔

*#دوسرا جواب*

سیدنا زکریا علیہ السلام کی اتنی بڑی کوئی مال و دولت ہی نہیں تھی کہ جس کی حفاظت کے لیے وہ مالی وارث بیٹے کی دعا فرماتے 

۔

*#تیسرا جواب*

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم انبیاء کرام نہ تو کسی کے مالی وارث بنتے ہیں اور نہ ہی کسی کو اپنا مالی وارث بناتے ہیں۔۔۔یہ حدیث پاک تو خود شیعہ کتب میں موجود ہے لہذا اسے سیدنا ابوبکر صدیق کی من گھڑت بات کہنا سراسر نا انصافی ہے جھوٹ ہے 

۔

*#چوتھا جواب*

شیعہ کتب میں واضح ہے کہ جو اللہ کی ایات کو چھوڑ کر کسی بادشاہ کی بات مانے گا تو وہ شیطان کی بات مانے گا۔۔۔لیکن ہم شیعہ کی کتاب سے ہی دکھائیں گے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے دیگر تمام معاملات کے ساتھ ساتھ خلافت کے معاملے میں اور باغ فدک کے معاملے میں بھی فرمایا کہ میں صحابہ کرام مہاجرین و انصار اور ابوبکر و عمر کی پیروی کرتا ہوں۔۔۔لہذا ثابت ہوا کہ ایت میں وراثت علم کی وراثت مراد ہے مالی وراثت مراد نہیں کیونکہ اگر مالی وراثت مراد ہوتی تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اپنے دور خلافت میں ضرور اس کو مالی وراثت کے طور پر اس کے حقداروں تک پہنچاتے جبکہ سیدنا علی نے ایسا نہیں کیا۔۔۔ورنہ شیعوں کے مطابق تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی ایات کو چھوڑ کر مہاجرین و انصار کی بات مان کر اور سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کی بات مان کر نعوذ باللہ شیعہ کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ شیعہ کے مطابق کافر قرار پائے۔۔۔۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ

.

*#مذکورہ بالا جوابات میں نے اپنی طرف سے نہیں دیے بلکہ یہ لیجیے مذکورہ بالا جوابات کے دلائل و حوالہ جات*


.

وَالْأَوْلَى أَنْ يُحْمَلَ عَلَى مِيرَاثِ غَيْرِ الْمَالِ لِأَنَّهُ يَبْعُدُ أَنْ يُشْفِقَ زَكَرِيَّا وَهُوَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ أَنْ يَرِثَهُ بَنُو عَمِّهِ مَالَهُ.وَالْمَعْنَى: أَنَّهُ خَافَ تَضْيِيعَ بَنِي عَمِّهِ دِينَ اللَّهِ وَتَغْيِيرَ أَحْكَامِهِ عَلَى مَا كَانَ شَاهَدَهُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ تَبْدِيلِ الدِّينِ وَقَتْلِ الْأَنْبِيَاءِ، فَسَأَلَ رَبَّهُ وَلِيًّا صَالِحًا يَأْمَنُهُ عَلَى أُمَّتِهِ وَيَرِثُ نُبُوَّتَهُ وَعِلْمَهُ لِئَلَّا يَضِيعَ الدِّينُ. وَهَذَا مَعْنَى قَوْلِ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ

 رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا

درست یہ ہے کہ ایت میں سیدنا زکریا علیہ السلام نے مالی وراثت کی بات نہیں کی کیونکہ سیدنا زکریا علیہ السلام ایک نبی ہو کر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میرا مال کوئی ہڑپ نہ کر جائے۔۔۔ ہاں انبیاء کرام کی یہ شان ہے کہ انہیں یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ بنو اسرائیل جو شریر لوگ تھے تو ان سے خوف تھا کہ کہیں وہ دینی معلومات عقائد و نظریات تعلیمات کو بگاڑ کر رکھ نہ دیں ،اس لیے سیدنا زکریا علیہ السلام نے اپنی نبوت اور علم و تعلیمات کے لیے وارث بیٹے کی دعا فرمائی تاکہ دین ضائع نہ ہو اور یہی معنی سیدنا عطا رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے اور یہی معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت بھی ہے

(تفسير بغوي5/219)

۔

فخافهم أن يغيروا الدين وأن لا يحسنوا الخلافة على أمته فطلب عقباً صالحاً من صلبه يقتدي به في إحياء الدين۔۔۔۔۔أي هب لي ولداً وارثاً مني العلم ومن آل يعقوب النبوة ومعنى وراثة النبوة أنه يصلح لأن يوحى إليه

سیدنا زکریا علیہ السلام کو یہ خوف تھا کہ کہیں وہ دینی تعلیمات کو بدل نہ دیں اور امت پر خلافت دینی کو بگاڑ نہ دیں اس لیے دینی خلافت علمی خلافت وارث کی دعا فرمائی یعنی سیدنا زکریا علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ یا اللہ مجھے بیٹا عطا فرما جو میرا علم کا وارث ہو تعلیمات کا وارث ہو دین کا وارث ہو نبوت کا وارث ہو اور اس کی طرف وحی ہو

(تفسیر نسفی2/326,327)

۔

الأولى أن يحمل على ميراث غير المال؛ لقوله - عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام ُ -: «نَحْنُ معاشِرَ الأنبياءِ - لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صدقةٌ» ولأنه يبعدُ أن يشفق زكريَّا - وهو نبيٌّ من الأنبياء - أن يرث بنُو عمِّه مالهُ.والمعنى: أنه خاف تضييع بني عمِّه دين الله، وتغيير أحكامه على ما كان شاهدُه من بني إسرائيل من تبديل الدِّين، وقتل من قُتل من الأنبياء، فسأل ربَّه وليًّا صالحاً يأمنُه على أمَّته، ويرثُ نُبوَّته وعلمه؛ لئلاَّ يضيع الدِّين

درست یہ ہے کہ ایت میں مالی میراث مراد نہیں کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم انبیاء کرام کے کوئی مالی وارث نہیں ہوتے اور نہ ہی ہم کسی کے مالی وارث ہوتے ہیں، جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔۔۔ایت میں مالی میراث مراد نہیں اس کی یہ دلیل بھی ہے کہ سیدنا زکریا علیہ السلام نبی ہیں تو ان کی یہ شان نہیں کہ انہیں خوف ہو کہ ان کے مالی وارث رشتہ دار بن جائیں گے۔۔۔ہاں انہیں یہ خوف ہوگا کہ کہیں اس کے چچا کے بیٹے اس کے رشتہ دار سیدنا زکریا علیہ السلام کے دین کو بگاڑ نہ دیں۔۔۔اس لیے سیدنا زکریا علیہ السلام نے نیک صالح اولاد کی دعا کی تاکہ اپنی امت کے لیے وہ مطمئن ہو جائیں کہ ان کے لیے نبوت و تعلیمات کے لیے وارث چھوڑ کے جا رہے ہیں

(تفسیر اللباب13/14)


.

فَإِنَّ النَّبِيَّ أَعْظَمُ مَنْزِلَةً وَأَجَلُّ قَدْرًا مِنْ أَنْ يُشْفِقَ عَلَى مَالِهِ

الثَّانِي: أَنَّهُ لَمْ يُذْكَرْ أَنَّهُ كَانَ ذَا مَالٍ، بَلْ كَانَ نَجَّارًا يَأْكُلُ مِنْ كَسْبِ يَدَيْهِ، وَمِثْلُ هَذَا لَا يَجْمَعُ مَالًا وَلَا سِيَّمَا الْأَنْبِيَاءُ، عَلَيْهِمُ السَّلَامُ، فَإِنَّهُمْ كَانُوا أَزْهَدَ شَيْءٍ فِي الدُّنْيَا.الثَّالِثُ: أَنَّهُ قَدْ ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا نُورَث، مَاتَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ" وَفِي رِوَايَةٍ عِنْدَ التِّرْمِذِيِّ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ: "نَحْنُ مَعْشَرَ الْأَنْبِيَاءِ لَا نُورَثُ" وَ عَلَى  هَذَا فَتَعَيَّنَ حَمْلُ قَوْلِهِ: {فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا * يَرِثُنِي} عَلَى مِيرَاثِ النُّبُوَّةِ

نبی کریم کوئی بھی ہو چاہے سیدنا زکریا علیہ السلام ہوں چاہے کوئی اور نبی ہوں ان کے لیے لائق نہیں ان کی شان نہیں کہ وہ مال کے معاملے میں خوف کریں۔۔۔اس لیے ایت میں مالی میراث مراد نہیں بلکہ دینی علمی وارث مراد ہے اور اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سیدنا زکریا علیہ السلام کا کوئی مال و دولت اتنا تھا ہی نہیں اور اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ ہم انبیاء کرام نہ تو کسی کو مالی وارث بناتے ہیں اور نہ ہی کسی کے مالی وارث بنتے ہیں جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے تو ان تمام دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ ایت میں مالی میراث مراد نہیں بلکہ علم تعلیمات نبوت کا وارث مراد ہے

(تفسیر ابن کثیر5/212,213ملتقطا)

۔

لا يجوز أن يقول زكريا: إنه يخاف أن يورث المال لأن أمر الأنبياء والصالحين أنهم لا يخافون أن يرثهم أقرباؤهم ما جعله الله لهم، وجاء عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال:" إنا معاشر الأنبياء لاَ نُورَث ما تركناه فهو صَدَقَة "

فقالوا معناه يرثني ويرث من آل يعقوب النبوة

یہ جائز نہیں ہو سکتا کہ سیدنا زکریا علیہ الصلوۃ والسلام نبی ہو کر یہ فرمائیں کہ ان کو مال کے وارث کا خوف ہے۔۔۔۔اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے مروی ہے کہ حضور نے فرمایا کہ ہم انبیاء کرام کا گروہ نہ تو وارث بنتے ہیں نہ کسی کا مالی وارث بناتے ہیں جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے لہذا اس ایت میں وراثت سے مراد مالی وراثت نہیں بلکہ علم تعلیمات و نبوت کا وارث مراد ہے

(تفسیر معانی القران3/320)

۔

============

*#رسول کریم کی مالی میراث نہیں، انکا مال صدقہ ہے،شیعہ کتب سے کچھ حوالے جات...لہذا اسے سیدنا ابوبکر صدیق کی من گھڑت بات کہنا سراسر نا انصافی ہے جھوٹ ہے۔۔۔۔۔۔۔!!*

رسول الله صلى الله عليه وآله يقول: " نحن معاشر الأنبياء لا نورث ذهبا ولا فضة ولا دارا ولا عقارا وإنما نورث الكتاب والحكمة والعلم والنبوة وما كان لنا من طعمة فلولي الأمر بعدنا أن يحكم فيه بحكمه

 شیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے سونے کا نہ چاندی کا نہ ہی گھر کا نہ ہی زمینوں کا... ہم تو کتاب اور حکمت اور علم کا وارث بناتے ہیں... جو کچھ ہمارا مال ہے وہ ہمارے بعد جو خلیفہ آئے گا اس کے سپرد ہے اس کی صوابدید پر موقوف ہے کہ وہ کس طرح خرچ کرتا ہے

(شیعہ کتاب الاحتجاج - الشيخ الطبرسي1/142)

.

، وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم

 شیعہ کہتے ہیں کہ بے شک علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں اور انبیائے کرام نے کسی کو درہم اور دینار( مالی وراثت )کا وارث نہیں بنایا انکی وراثت تو فقط علم ہے

(شیعہ کتاب الكافي - الشيخ الكليني1/34)


.

أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول: نحن معاشر الأنبياء لا نورث ذهبا ولا فضة ولا دارا ولا عقارا وإنما نورث الكتب (3) والحكمة والعلم والنبوة، وما كان لنا من طعمة فلولي الامر بعدنا ان يحكم فيه بحكمه

شیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے سونے کا نہ چاندی کا نہ ہی گھر کا نہ ہی زمینوں کا... ہم تو کتاب اور حکمت اور علم کا وارث بناتے ہیں... جو کچھ ہمارا مال ہے وہ ہمارے بعد جو خلیفہ آئے گا اس کے سپرد ہے اس کی صوابدید پر موقوف ہے کہ وہ کس طرح خرچ کرتا ہے

(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي29/231)


.


ویسے تو ہم شیعہ کتب کے متعلق کہتے ہیں کہ جھوٹ تضاد گستاخی سے بھری پڑی ہیں مگر کچھ سچ بھی لکھا ہے انہون نے لیھذا کتب شیعہ کی بات قرآن و سنت معتبر کتب اہلسنت کے موافق ہوگی تو وہی معتبر...مذکورہ حوالہ جات موافق قرآن و سنت ہیں، موافق کتب اہلسنت ہین لیھذا معتبر

کیونکہ شیعہ ناصبی جیسے جھوٹے بھی کبھی سچ بول جاتے ہیں ، لکھ جاتے ہیں اگرچہ الٹی سیدھی تاویلیں اپنی طرف سے کرتے ہیں جوکہ معتبر نہیں

قَدْ يَصْدُقُ الْكَذُوبَ

ترجمہ:

بہت بڑا جھوٹا کبھی سچ بول دیتا ہے

(فتح الباری9/56، شیعہ کتاب شرح اصول کافی2/25)

==============

ہم نے ایک جواب لکھا تھا کہ شیعہ کتب میں واضح ہے کہ جو اللہ کی ایات کو چھوڑ کر کسی بادشاہ کی بات مانے گا تو وہ شیطان کی بات مانے گا جیسے کہ حوالہ جات شیعہ کتب سے نیچے لکھیں گے۔۔۔لیکن ہم شیعہ کی کتاب سے ہی دکھائیں گے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے دیگر تمام معاملات کے ساتھ ساتھ خلافت کے معاملے میں اور باغ فدک کے معاملے میں بھی فرمایا کہ میں صحابہ کرام مہاجرین و انصار اور ابوبکر و عمر کی پیروی کرتا ہوں۔۔۔لہذا ثابت ہوا کہ ایت میں وراثت علم کی وراثت مراد ہے مالی وراثت مراد نہیں کیونکہ اگر مالی وراثت مراد ہوتی تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اپنے دور خلافت میں ضرور اس کو مالی وراثت کے طور پر اس کے حقداروں تک پہنچاتے جبکہ سیدنا علی نے ایسا نہیں کیا۔۔۔ورنہ شیعوں کے مطابق تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی ایات کو چھوڑ کر مہاجرین و انصار کی بات مان کر اور سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کی بات مان کر نعوذ باللہ شیعہ کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ شیعہ کے مطابق کافر قرار پائے۔۔۔۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ

۔

هما أول من ظلمنا حقنا وأخذا ميراثنا، وجلسا مجلسا كنا أحق به منهما، لا غفر الله لهما ولا رحمهما، كافران،

 كافر من تولاهما

شیعوں کے مطابق سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما پہلے دو شخص ہیں جنہوں نے اہل بیت کا حق مارا اور ان کی میراث ان کو نہ دی اور خلافت پر قبضہ کر بیٹھے شیعہ کے مطابق اللہ سیدنا ابوبکر و عمر کو نہ بخشے گا نہ رحم فرمائے گا وہ دونوں کافر ہیں اور جو ان سے دوستی رکھے ان کو درست مانے وہ بھی کافر ہے

(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي30/381)

۔

اسی عبارت میں شیعہ کے مطابق

خلافت سیدنا ابوبکر صدیق کے لیے ثابت سمجھنا کفر ہے اور یہ بھی کفر ہے کہ باغ فدک وغیرہ کو اہل بیت کا میراث نہ سمجھا جائے 

جبکہ

سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے خلافت صدیقی کو تسلیم کیا اور باغ فدک کو میراث نہ سمجھا جیسے کہ حوالہ جات شیعہ کتب سے نیچے لکھیں گے تو کیا نعوذ باللہ شیعہ کے مطابق سیدنا علی نے کفر کر دیا یا شیعہ مکار جھوٹے گستاخ کافر مرتد ہیں۔۔۔۔فیصلہ کرنا اپ کے لیے ہم نے اسان کر دیا

۔

.=====================

بديهي ان ضرورة تنفيذ الاحكام لم تكن خاصة بعصر النبي (ص) بل الضرورة مستمرة 

 خمینی شیعیوں کا معتبر ترین معتدل ترین عظیم ترین امام خمینی کہتا ہے کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسلامی احکامات کو نافذ کرنا ضروری ہے یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ احکامات نافذ کرنے کی ذمہ داری ہمیشہ کے لیے ہے ہمیشہ ہمیشہ قیامت تک کے لیے ہے

(شیعہ خمینی کی کتاب الحکومت الاسلامیہ ص25)

۔

اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ جب خلیفہ بنے تو ان پر ضروری تھا ان پر لازم تھا ان پر فرض تھا کہ وہ اسلامی سچے احکامات نافذ کرتے اب اگر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا خلیفہ بننا اسلامی احکامات کے خلاف تھا اور انہوں نے باغ فدک کے معاملے میں جو کچھ کیا وہ سب غلط تھا تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ پر فرض تھا کہ اس کی درستگی فرماتے لوگوں کو دوبارہ کلمہ پڑھاتے اور فدک میں میراث جاری کرتے لیکن سیدنا علی نے ایسا نہیں کیا جیسے کہ حوالہ جات شیعہ کتب سے نیچے لکھیں گے

 لہذا یا تو یہ خمینی شیعہ سارے جھوٹے ہیں یا پھر ان کے مطابق نعوذ باللہ سیدنا علی جھوٹے ہیں

.======================

وان الامام عليه السلام نفسه ينهي عن الرجوع الى سلاطين الجور وقضاته، ويعتبر الرجوع اليهم رجوعا الى

الطاغوت

 امام برحق روکتا ہے کہ ناحق بادشاہوں کی طرف رجوع نہ کیا جائے اور اگر کوئی ان بادشاہوں کی طرف رجوع کرے گا تو وہ شیطان کی طرف رجوع کرنے والا کہلائے گا

(شیعہ خمینی کی کتاب الحکومت الاسلامیہ ص92)

۔

سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے باغ فدک کے معاملے میں اور خلافت کے معاملے میں مہاجرین و انصار صحابہ کرام کی طرف رجوع کیا سیدنا ابوبکر صدیق و عمر کی طرف رجوع کیا اور ان کا حکم جاری کیا جیسے کہ حوالہ جات شیعہ کتب سے نیچے لکھیں گے

تو شیعہ کے مطابق نعوذ باللہ سیدنا علی نے شیطان کی طرف رجوع کیا۔۔۔۔لا حول ولا قوۃ الا باللہ

۔

۔========================

توجد نصوص كثيرة تصف كل نظام غير اسلامي بأنه شرك ، والحاكم او السلطة فيه طاغوت .

 خمینی جو شیعوں کا بہت بڑا امام و عالم ہے کہتا ہے کہ ہمارے دلائل کے مطابق ہر وہ نظام کہ جو اسلامی نظام نہ ہو وہ شیطانی نظام ہے، وہ نظام شرک ہے اور اس مشرکانہ شیطانی نظام والا بادشاہ سرکش شیطان و طاغوت ہے

(شیعہ خمینی کی کتاب الحکومت الاسلامیہ ص33)

۔

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ بلا فصل بنے اگر یہ اسلامی نظام تھا باغ فدک کے متعلق جو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے حکم جاری فرمایا اگر وہ اسلامی نظام تھا تو اج کے شیعہ اس کی مخالفت کر کے مشرک ہوئے اور اگر وہ اس اسلامی نظام نہ تھا تو نعوذ باللہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اس غیر اسلامی نظام کی پیروی کر کے مشرک قرار پائے شیعوں کے مطابق۔۔۔۔۔!!

.

۔====================

۔

(السلطنۃ الطاغوتیہ)وقد امرنا الله ان نكفر بمثل ذلك ، وان تتمرد على كل حكومة جائرة وان كان ذلك يكلفنا الصعاب ويحملنا المشاق

 مشرکانہ شیطانی حکومت کے جو اسلام کے خلاف ہوتی ہے ہمیں اللہ کا حکم ہے کہ ہم اس کا انکار کر دیں اور اس حکومت کے خلاف کھڑے ہو جائیں اگرچہ اس میں ہمیں بہت مشکلات اور مشقت اٹھانی پڑے

(شیعہ خمینی کی کتاب الحکومت الاسلامیہ ص86)

۔

خلافت بلا فصل سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے ہے اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے باغ فدک کے متعلق جو فیصلہ کیا یہ سب اسلامی نظام ہے تو شیعہ جھوٹے ثابت ہوئے غیر اسلامی ثابت ہوئے۔۔۔اور اگر وہ اسلامی نظام نہ تھا تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ کی طرف سے حکم تھا کہ وہ اس نظام کے خلاف کھڑے ہوتے چاہے انہیں مشکلیں کیوں نہیں درپیش اتی مگر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایسا نہیں کیا جس سے ثابت ہو گیا کہ شیعہ ہی مکار جھوٹے بدمعاش گمراہ گستاخ حتی کہ کئی کافر تک ہو جاتے ہیں 

۔

۔=================

*#اوپر ہم نے لکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا فصل کو تسلیم کیا اور مہاجرین و انصار صحابہ کرام کی طرف رجوع کیا اور باغ فدک کے معاملے میں بھی سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے فیصلے کو جاری رکھا۔۔۔۔اس کی چند حوالہ جات یہ ہیں*

.

فلما وصل الأمر إلى علي بن أبي طالب عليه السلام كلم في رد فدك، فقال: إني لأستحي من الله أن أرد شيئا منع منه أبو بكر وأمضاه عمر

سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ جب خلیفہ مقرر ہوئے تو ان سے بات کی گئی باغ فدک کو میراث کے طور پر لوٹانے کی تو  سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں اللہ سے حیا کرتا ہوں کہ میں وہ چیز لوٹاؤں کہ جس کو ابوبکر نے منع کیا ہے اور عمر جاری کیا ہے

(شیعہ کتاب الشافي في الامامة - الشريف المرتضى4/76)

۔

جبکہ ہم اوپر شیعہ کتب کے حوالے سے لکھا ہے کہ حاکم اسلام پر فرض ہوتا ہے کہ وہ سچے دینی تعلیمات کو نافذ کرے ورنہ وہ بھی شیعہ کے مطابق شیطان کا پجاری ہوتا ہے اب نعوذ باللہ اگر باغ فدک کے معاملے میں سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنہما درست نہ تھے تو کہنا پڑے گا کہ شیعوں کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے شیطان کی طرف رجوع کیا اور شیطان کی بات مانی، اللہ کا حکم چھوڑ دیا، جو کہ انتہائی گھٹیا ترین بات ہے گستاخی ہے جو شیعہ ہی جیسے لوگ کر سکتے ہیں کیونکہ یہ بے حیا جھوٹ بولنے میں ماہر ہیں گستاخی کرنے میں ہچکچاتے نہیں اور نعرہ لگاتے ہیں جھوٹی محبت کا۔۔۔ ذرا برابر بھی شرم نہیں انہیں۔۔۔۔۔۔!!

.

قَالَ : فَهُمَا عَلَى ذَلِكَ إِلَى الْيَوْمِ.

راوی فرماتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر صدیق سے لے کر سیدنا علی وغیرہ تک یہ اسی طریقے پر جاری ہے( کہ اموال رسول  کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی ملکیت نہیں ہے وہ صدقہ ہیں وہ اہل بیت و دیگر رشتہ داروں اور دیگر مسلمانوں اور اللہ کی راہ میں خرچ ہوتا رہا سب خلفاء راشدین کے دور میں)

(ابوداؤد روایت2968)

.

ولهذا لَمَّا صارت الخِلافة إلى عليٍّ لم يُغيِّرْها عن كونها صدَقة

 جب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اسی طریقے کو جاری رکھا جو سیدنا ابوبکر صدیق نے جاری رکھا تھا اور اموالِ رسول کریم کو صدقہ قرار دیا

(اللامع الصبيح بشرح الجامع الصحيح9/156)

(منحة الباري بشرح صحيح البخاري6/209)


.

ومما يدل على ما قلناه: ما قاله أبو داود: أنه لم يختلف على - رضى الله عنه - أنه لما صارت الخلافة إليه لم يغيرها عن كونها صدقة

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال صدقہ ہیں اس بات پر یہ بھی دلیل ہے کہ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ جب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اسے صدقہ قرار دیا اور جس طرح سیدنا صدیق اکبر نے خرچہ جاری کیا تھا سیدنا علی نے اسی طریقے پر اسی طرز کو جاری رکھا اس سے تبدیل نہ کیا کسی کی ملکیت قرار نہ دیا

(إكمال المعلم بفوائد مسلم6/79)

۔

قال: وأخرج عن جعفر أيضا أنه قيل له: إن فلانا يزعم أنك تتبرأ من أبي بكر وعمر فقال برء الله من فلان إني لأرجو أن ينفعني الله بقرابتي من أبي بكر

 ایک شخص نے کہا امام جعفرصادق سے کہ فلاں آدمی سمجھتا ہے کہ آپ ابو بکر اور عمر سے براءت کرتے ہیں جس پر امام جعفر صادق نے فرمایا کہ (جس نے میرے متعلق کہا ہے کہ براءت کرتا ہوں)اللہ اس سے بری ذمہ ہے(میں براءت نہیں کرتا توہین تنقیص فاسق فاجر ظالم غاصب وغیرہ نہیں سمجھتا بلکہ ایسا اللہ کا پیارا محبوب ولی عظیم الشان صحابی سمجھتا ہوں کہ)بے شک مجھےامید ہےاللہ مجھے نفع دیگا(سیدنا)ابوبکر کےساتھ میری قرابت اور رشتہ داری کی وجہ سے

(شیعہ کتاب الصوارم المھرقہ ص246)

(شیعہ کتاب الإمام جعفر الصادق ص178)

.

سیدنا علی فرماتے ہیں

إنه بايعني القوم الذين بايعوا أبا بكر وعمر وعثمان على ما بايعوهم عليه، فلم يكن للشاهد أن يختار ولا للغائب أن يرد، وإنما الشورى للمهاجرين والأنصار، فإن اجتمعوا على رجل وسموه إماما كان ذلك لله رضى

میری(سیدنا علی کی)بیعت ان صحابہ کرام نے کی ہےجنہوں نےابوبکر و عمر کی کی تھی،یہ مہاجرین و انصار صحابہ کرام کسی کی بیعت کرلیں تو اللہ بھی راضی ہے(اور وہ خلیفہ برحق کہلائے گا) تو ایسی بیعت ہو جائے تو دوسرا خلیفہ انتخاب کرنے یا تسلیم نہ کرنے کا حق نہیں(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ ص491)

سیدنا علی کےاس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ

①خلافت سیدنا علی کے لیے نبی پاک نے مقرر نہ فرمائی تبھی تو سیدنا علی نے صحابہ کرام کی شوری کو اللہ کی رضا و پسند فرمایا

سیدنا علی کےاس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ

②سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان کی خلافت برحق تھی، دما دم مست قلندر سیدنا علی دا چوتھا نمبر

سیدنا علی کےاس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ

③صحابہ کرام ایمان والے تھے کافر فاسق ظالم نہ تھے ورنہ سیدنا علی انکی مشاورت و ھکم کو برحق نہ کہتے

رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین

لہذا سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے اس قول سے ثابت ہو جاتا ہے کہ خلافت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ بلا فصل بالکل برحق ہے اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر صحابہ کرام کے فیصلے بھی برحق ہیں چاہے وہ فدک کے بارے میں ہوں یا کسی اور معاملے میں ہوں۔۔۔۔ زیادہ سے زیادہ اکا دکا معاملات میں اجتہادی خطا پر کہا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو۔۔۔۔و بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!

۔

۔#######################

*#شیعوں کا اعتراض*

شیعہ کہتے ہیں کہ یہ بھی جھوٹ پھیلایا جاتا ہے کہ اہل بیت کو باغ فدک وغیرہ میں سے خرچہ دیا جاتا تھا کیونکہ ابو داؤد میں دو ٹوک لکھا ہے کہ ابوبکر نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو دینے سے انکار کر دیا ان پر خرچ کرنا بھی گوارا نہ کیا

.

*#سچے اہل اسلام یعنی اہلسنت کا جواب*

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی اپنے اموال میں سے ذرا برابر کا بھی مالک نہیں بنایا بلکہ اہل بیت ازواج مطہرات و دیگر مسلمانوں پر خرچ کرتے رہے اسی طرح رسول کریم نے فرمایا کہ میرا جو ترکہ ہے وہ صدقہ ہے...اس قسم کی حدیث پاک کو سیدنا علی نے بھی تسلیم کیا ، سیدنا عباس نے بھی تسلیم کیا ، سیدنا ابوبکر اور عمر صحابہ کرام نے بھی تسلیم کیا کہ ایسی حدیث واقعی میں ہے،لہذا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مالی میراث درحقیقت مالی میراث ہی نہیں تھی وہ تو اہل بیت و دیگر مسلمانوں کے لیے صدقہ تھی نفلی صدقہ جسے مناسب انداز میں مستحقین میں امام وقت خلیفہ وقت تقسیم کرے گا۔۔اگر اہل بیت کرام کو ضرورت نہ ہوتی تو ممکن تھا کہ انہیں باغ فدک وغیرہ میں سے نہ دیا جاتا تو بھی کوئی اعتراض نہ تھا مگر سیدنا صدیق اکبر کا انصاف اور سچائی اور محبت دیکھیے کہ اپ نے اہلبیت و دیگر رشتے داران رسول و فقراء مسلمین و اللہ کی راہ میں اسی طرح خرچ کیا جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرج کیا کرتے تھے.... پھر سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اسی طرح خرچ کیا کرتے تھے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کیا کرتے تھے... لہذا جو کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اہل بیت پر خرچ نہیں کیا وہ جھوٹ کہتے ہیں

.

*چند دلائل و حوالہ جات ملاحظہ کیجیے…...!!*

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ اچھا ‘ تو پھر ذرا ٹھہرئیے اور دم لے لیجئے میں آپ لوگوں سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”ہم پیغمبروں کا کوئی مالی اعتبار سے وارث نہیں ہوتا ‘ جو کچھ ہم (انبیاء) چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ “ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات گرامی بھی تھی۔ ان حضرات نے تصدیق کی ‘ کہ جی ہاں ‘ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا  اب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما کی طرف مخاطب ہوئے ‘ ان سے پوچھا۔ میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ‘ کیا آپ حضرات کو بھی معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے یا نہیں؟ انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیشک ایسا فرمایا ہے۔۔(پس ثابت ہوا کہ یہ حدیث سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا علی سیدنا عباس وغیرہ کے مطابق بھی برحق و ثابت ہے)سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب میں آپ لوگوں سے اس معاملہ کی شرح بیان کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس غنیمت کا ایک مخصوص حصہ مقرر کر دیا تھا۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی دوسرے کو نہیں دیا تھا(جب نبی کریم نے اپنا حصہ کسی کو زندگی میں نہیں دیا تو ثابت ہوا کہ انبیاء کرام کے مال صدقہ ہوتے ہیں، کسی کی ملکیت نہیں بنتے) پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی «وما أفاء الله على رسوله منهم‏» سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «قدير‏» تک اور وہ حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص رہا۔ مگر قسم اللہ کی یہ جائیداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو چھوڑ کر اپنے لیے جوڑ نہ رکھی ‘ نہ خاص اپنے خرچ میں لائے ‘ بلکہ تم  لوگوں کو(بغیر مالک بنائے صرف خرچہ اٹھانے کے لیے)دیں اور تمہارے ہی کاموں میں خرچ کیں۔ یہ جو جائیداد بچ رہی ہے اس میں سے آپ اپنی بیویوں کا سال بھر کا خرچ لیا کرتے اس کے بعد جو باقی بچتا وہ اللہ کے مال میں شریک کر دیتے... خیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی زندگی میں ایسا ہی کرتے رہے۔ حاضرین تم کو اللہ کی قسم! کیا تم یہ نہیں جانتے؟ انہوں نے کہا بیشک جانتے ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما سے کہا میں آپ حضرات سے بھی قسم دے کر پوچھتا ہوں ‘ کیا آپ لوگ یہ نہیں جانتے ہیں؟ (دونوں حضرات نے جواب دیا ہاں!) پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یوں فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے اٹھا لیا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں ‘ اور اس لیے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال و جائیداد اپنی نگرانی میں لیے اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کرتے تھے اسی طرح سیدنا صدیق اکبر(اہلبیت وغیرہ پر)خرچ کرتے رہے۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے اس طرز عمل میں سچے مخلص ‘ نیکوکار اور حق کی پیروی کرنے والے تھے...(پھر سیدنا عمر نے بھی رسول کریم اور سیدنا ابوبکر کے طرز پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا جسے سیدنا علی سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے بھی تسلیم کیا)

(صحیح بخاری 3094)

.

سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آ گئے اور ان کے پاس سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، سیدنا عبدالرحمٰن اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہم (پہلے سے) بیٹھے تھے، یہ دونوں (یعنی سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما) جھگڑنے لگے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن اور سعد رضی اللہ عنہم سے کہا: کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”نبی کا سارا مال صدقہ ہے سوائے اس کے جسے انہوں نے اپنے اہل کو کھلا دیا یا پہنا دیا ہو، ہم لوگوں کا کوئی مالی وارث نہیں ہوتا“، لوگوں نے کہا: کیوں نہیں (ہم یہ بات جانتے ہیں آپ نے ایسا ہی فرمایا ہے) اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مال میں سے اپنے اہل پرخرچ کرتے تھے اور جو کچھ بچ رہتا وہ صدقہ کر دیتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے آپ کے بعد اس مال کے متولی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دو سال تک رہے، وہ ویسے ہی خرچ کرتے رہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کرتے تھے

(ابوداود 2975)

.

 سیدنا عمر فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد میں خلیفہ ہوا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال میں وہی تقسیم اور خرچہ جاری رکھا کہ جس طرح سیدنا ابوبکر صدیق کیا کرتے تھے... پھر ان اموال سے خرچہ اٹھانے کے لئے میں نے آپ اہل بیت کو یہ مال دیا اس شرط پر کہ آپ لوگ اسی طرح خرچہ اٹھاتے رہو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ میں خرچہ دیا کرتے تھے جس طرح سیدنا ابوبکر صدیق آپ میں خرچہ کیا کرتے تھے اور آپ لوگوں سے اس پر عہد بھی لیا

(نسائی روایت4148)

.

 سیدنا عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ فدک وغیرہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال تھے  اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہلبیت و مسلمانوں و فی سبیل اللہ خرچ کیا کرتے تھے... سیدہ فاطمہ نے اپنی ملکیت کے لیے کچھ لینا چاہا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا... پھر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اسی عمل و خرچے کو جاری رکھا پھر سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے بھی اس عمل کو جاری رکھا پھر یہ مروان کے حوالے کر دیا گیا اور پھر یہ مجھے ملا تو میں عمر بن عبدالعزیز کہتا ہوں کہ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ کی ملکیت قرار نہ دیا وہ میرا حق نہیں ہو سکتا میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں اس کو اسی حال پر واپس لوٹا رہا ہوں کہ جس حال پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے

(ابوداود روایت2972)

۔

*#اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ جو کہتے تھے شیعہ کے سیدنا عمر بن عبدالعزیز نے اہل بیت کو بطور میراث واپس کر دیا۔۔۔یہ شیعوں کا جھوٹ ہے۔۔۔۔سیدنا عمر بن عبدالعزیز نے کسی کی ملکیت میں نہ دیا بلکہ اس کو سیدنا ابوبکر صدیق کے طریقے پر جاری کر دیا جو طریقہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا*

۔

.###################

*#شیعہ اعتراض کرتے ہیں کہ خلیفہ راشد ابوبکر نے باغ فدک وغیرہ اپنے قبضے میں رکھے اہل بیت کو نہ دیے لیکن خلیفہ راشد عثمان نے مروان کو دے دیا اور خلیفہ راشد عبدالعزیز نے واپس اہل بیت کو دے دیا تو بتاؤ ان خلفائے راشدین میں سے کون برحق ہے اور کون باطل۔۔۔۔؟؟*

.

*#جواب*


 اس کا جواب یہ ہے کہ اہل سنت اور شیعہ کی کتب میں حدیث پاک سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ جو بھی تھا وہ سب مسلمانوں کے لئے صدقہ تھا وہ اہل بیت پہ خرچ ہو سکتا تھا دوسرے مسلمانوں پر بھی خرچ ہو سکتا تھا کسی اہل بیت پر خرچ کرنا فرض واجب نہیں تھا... لہذا سیدنا ابوبکر صدیق نے اپنے قبضے میں نہیں رکھا اپنے ملکیت میں نہیں رکھا بلکہ اوپر ہم لکھ  ائے سیدنا صدیق اکبر نے اہل بیت میں خرچ کیا اور دیگر مسلمانوں میں خرچ کیا ہاں کسی کی ملکیت میں نہ دیا اور اسی طرح سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے مروان کے لیے نگہبانی میں تو دیا لیکن مروان کی ملکیت میں نہیں دیا اور اسی طرح سیدنا عمر بن عبدالعزیز نے اہل بیت کی ملکیت میں نہیں دیا بلکہ اسے اس طریقے پر جاری کر دیا جس طریقے پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے جاری کیا تھا کہ وہ طریقہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جاری کردہ تھا لہذا تینوں خلفائے راشدین چاروں خلفاء راشدین کا طرز عمل برحق ہے 

۔

.

 

فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا لَهُ فِيهَا حَقٌّ

 (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چھوڑا ہوا مال صدقہ ہے تو )اس صدقے میں ہر مسلمان کا حق ہے(وہ کسی کے لیے خاص نہیں)

(ابوداود روایت2966)

.

بين المسلمين ومصالحهم، وأن أمره إلى من يلي أمره بعد، متفق عليه بين الصحابة حتى العباس وعلي

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مال صدقہ ہیں وہ مسلمانوں میں اہلبیت وغیرہ میں خرچ ہوتے رہیں گے اور اس کی نگرانی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کے خلیفہ کے سپرد ہے اس بات پر تمام صحابہ کا اتفاق ہے حتی کہ سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہما کا بھی اسی بات پر اتفاق ہے

(لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح7/146)

.

 اب جب ثابت ہوگیا کہ احادیث اور صحابہ کرام اور اہل بیت عظام کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال صدقہ ہیں تو  لازم نہیں ہے کہ صرف اہل بیت میں ہی خرچ ہو وہ کہیں بھی خرچ ہو سکتے ہیں...یہ سب خلیفہ کی صوابدید پر ہے کہ وہ کہاں پر زیادہ حاجت کو محسوس کرتا ہے وہاں پر خرچ کرے گا

لیھذا

 سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جب دیکھا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال اہل بیت میں خرچ کرنا لازم نہیں ہے تو انہوں نے دیگر اموال اہل بیت کو دیے اور اموال رسول دیگر معاملات میں خرچ کییے

.

إِنَّمَا أَقْطَعَ عُثْمَانُ فَدَكَ لِمَرْوَانَ لِأَنَّهُ تَأَوَّلَ أَنَّ الَّذِي يَخْتَصُّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكُونُ لِلْخَلِيفَةِ بَعْدَهُ فَاسْتَغْنَى عُثْمَانُ عَنْهَا بِأَمْوَالِهِ

 باغ فدک سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے مروان کو دیا تھا خرچے کیلئے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ دلیل پکڑی کہ اموال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی خلیفہ کے لئے سپرد ہے تو سیدنا عثمان نے دیگر مال اہل بیت کو دے کر اموال رسول کریم سے مستغنی کر دیا

(كتاب فتح الباري لابن حجر6/204)

.###################

.

*#سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے قربی رسول اللہ کو نہ دیا کا معنی و تحقیق.......؟؟*

امام ابوداود و دیگر محدثین سے ہم نے ثابت کر دیا کہ خلفائے راشدین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو قریبی رشتہ داروں کو اور دیگر مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال میں سے خرچہ دیا کرتے تھے، معترض نے جو امام ابو داود کے حوالے سے لکھا ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کو کچھ نہ دیتے تھے یہ سراسر جھوٹ ہے....امام ابوداود نے ایسی کوئی حدیث نہیں لکھی بلکہ یہ سیدنا جبیر کا قول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذووی القربی کو سیدنا صدیق اکبر نہ دیتے تھے اور باقی تقسیم رسول اللہ علیہ والی فرماتے تھے

.

*#پہلی بات*

پہلی بات تو یہ ہے سیدنا جبیر کا قول دیگر محدثین کے بظاہر خلاف ہے تو غیر معتبر ہے

وهذا الحديث يخالفه فيما يأتي قريبًا من حديث

(بذل المجهود في حل سنن أبي داود10/166)

.

*#دوسری بات*

 امام ابو داؤد نے ذووی القربی باب لکھا ہے مطلب دور کے رشتہ دار یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے رشتہ داروں کو سیدنا صدیق اکبر نہ دیتے تھے کیونکہ مال اتنا زیادہ نہ تھا کہ وہ سب کو دیتے بلکہ نبی پاک نے بھی اپنے بعض ذوی قربی یا دور کے رشتے داروں نہ دیا جیسا کہ ابوداود کے اس باب میں ہے

بَابٌ.فِي بَيَانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ، وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَى

(ابوداود قبیل 3/255)

.

(ذَوُو الْقُرْبَى)الْمُرَادُ بِهِمْ الْمَذْهَبُ الأَْوَّل: أَنَّهُمْ بَنُو هَاشِمٍ فَقَطْ، وَهُوَ مَا ذَهَبَ إِلَيْهِ أَبُو حَنِيفَةَ وَمَالِكٌ...الْمَذْهَبُ الثَّانِي: أَنَّ ذَوِي الْقُرْبَى هُمْ بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ فَقَطْ وَهُوَ الْمَذْهَبُ عِنْدَ الشَّافِعِيَّةِ (٥) ، وَالْحَنَابِلَةِ...الْمَذْهَبُ الثَّالِثُ: أَنَّ ذَوِي الْقُرْبَى هُمْ بَنُو قُصَيٍّ وَذَلِكَ مَرْوِيٌّ عَنْ أَصْبَغَ مِنَ الْمَالِكِيَّةِ،...الْمَذْهَبُ الرَّابِعُ: أَنَّ ذَوِي الْقُرْبَى قُرَيْشٌ كُلها

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذووی القربی(دور کے ) رشتہ دار کون سے ہیں.....؟؟ اس میں اختلاف ہے کچھ فرماتے ہیں کہ فقط بنو ہاشم ہیں اور اور یہ امام اعظم ابو حنیفہ اور امام مالک کا قول ہے..کچھ فرماتے ہیں کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ہیں اور یہ امام شافعی کا قول ہے اور حنبلیوں کا قول ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بنو قصی ہیں اور یہ بعض مالکیوں سے مروی ہے اور ایک قول یہ ہے کہ سب قریش ذووی القربی ہیں

(الموسوعة الفقهية الكويتية،70 33/67) 

.

*#تیسری بات*

 ایک توجیہ یہ لکھی ہے کہ بےشک سیدنا صدیق اکبر دیتے تھے تو لہذا سیدنا جیبر کا قول کم علمی غلط فھمی پر مبنی ہے معتبر نہیں ہے

" هذا إما مبني على عدم علمه بإعطاء أبو بكر إياهم وسيجيء عن علي ما يدل على أنه كات يعطي، فلعله كان يعطي ولم يطلع عليه جبير والإثبات مقدم علي النفی

 سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ نے یہ جو فرمایا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ذووی القربی کو نہ دیا کرتے تھے تو یہ سید جبیر کی کم علمی ہے کہ انہیں معلوم نہیں تھا... سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ تو دیا کرتے تھے جیسے کہ اگلی والی حدیث سے ثابت ہے... اور ثبوت والی حدیث نفی والی روایت پر مقدم ہے

(فتح الودود في شرح سنن أبي داود3/307)

.

##################

*#شیعہ اعتراض کرتے ہیں کہ تمہاری کتابوں میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور تمہاری یہ کتاب بخاری کی حدیث میں ہے کہ سیدہ فاطمہ کو ابوبکر نے ناراض کیا اور اسی ناراضگی کی حالت میں سیدہ فاطمہ کی وفات ہو گئی*

.

*#جواب و تحقیق*

اول بات تو یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا ناراض نہ ہوئیں تھیں، بعض کتب میں جو مہاجرت و ترک کلام لکھا ہے اسکا معنی علماء نے یہ لکھا ہے کہ فدک وغیرہ کے متعلق کلام ترک کردیا مطالبہ ترک کر دیا...(دیکھیے ارشاد الساری شرح بخاری5/192 ،عمدۃ القاری15/20وغیرہ کتب)

بالفرض

اگر سیدہ فاطمہ ناراض بھی ہوئی تھیں تو سیدنا ابوبکر نے انہیں منا لیا تھا راضی کر لیا تھا اور سیدہ فاطمہ راضی ہوگئ تھیں

ترضاھا حتی رضیت

سیدناصدیق اکبر بی بی فاطمہ کو مناتے رہے حتی کہ سیدہ فاطمہ راضی ہوگئیں(سنن کبری بیہقی12735 عمدۃ القاری15/20,السیرۃ النبویہ ابن کثیر4/575)

سیدنا علی راضی سیدہ فاطمہ راضی ، ہدایت ملے ورنہ جل بھن جائے رافضی نیم رافضی......!!

.

ابوبکر…فرضیت عنہ

فاطمہ ابوبکر(کی وضاحت،اظہارمحبت کےبعد)راضی ہوگئیں(شیعہ کتاب شرح نہج بلاغۃ2/57)

.

 سیدہ فاطمہ نے جو فرمایا کہ میں بات نہ کروں گی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب باغ فدک وغیرہ کے متعلق بات و مطالبہ نہ کروں گی... کچھ روایات میں جو ہے کہ سیدہ فاطمہ نے مہاجرت(قطع تعلقی) کر لی( تو یہ راوی کا وھم ہے ، حقیقت یہ ہے کہ)اسکا معنی یہ ہے کہ اس کے بعد ملاقات بحث و مباحثہ وغیرہ سب کچھ کی نوبت ہی نہ ائی، قطع تعلقی تو یہ ہے کہ ایک دوسرے سے ملاقات ہو اور سلام دعا نہ کریں یہ حرام ہے

(ارشاد الساری شرح بخاری5/192 ملتقطا)

.

امام ابن ملقن فرماتے ہیں:

وإنما كان هجرانها له انقباضًا عن لقائه وترك مواصلته. وليس هذا من الهجران المحرم، وإنما المحرم من ذَلِكَ أن يلتقيا فلا يسلم أحدهما على صاحبه. ولم يرو واحد أنهما التقيا وامتنعا من التسليم،ولسنا نظن به إضمار الشحناء والعداوة، وإنما هم كما وصفهم الله رحماء بينهم.وروي عن علي أنه لم يغير شيئًا من سيرة أبي بكر وعمر بعد ولايته في تركة رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، بل أجرى الأمر فيها على ما أجرياه في

حياتهما

 کسی بھی روایت میں یہ نہیں ہے کہ سیدہ فاطمہ اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی آپس میں ملاقات ہوئی ہو اور ان دونوں نے سلام دعا نہ کی ہو، جب ایسا ثابت نہیں ہے تو ثابت ہوا کہ قطع تعلقی نہیں ہوئی تھی، قطع تعلقی تو یہ ہے کہ اپس میں ملیں لیکن سلام دعا نہ کریں، اور ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم وہم و گمان کرتے پھریں کہ ان کے درمیان نفرت و دشمنی تھی، ایت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ تو اپس میں بہت رحم دل اور محبت کرنے والے تھے، ہاں پہلی ملاقات کے بعد دوسری ملاقات بحث و مباحثہ مطالبہ وغیرہ کی نوبت ہی نہیں ائی تھی(جسے راوی کو وھم ہوا کہ قطع تعلقی کی)... نیز سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی مروی ہے کہ اپ نے سیدنا ابوبکر صدیق و سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی سیرت و فیصلوں پر عمل کیا اور باغ فدک وغیرہ کے معاملے میں بھی وہی کچھ جاری رکھا جو ان دونوں نے جاری کیا تھا

( التوضیح شرح جامع صحیح18/373ملتقطا)


.

امام قاضی عیاض فرماتے ہیں:

وأنها لما بلغها الحديث أو بين لها التأويل تركت رأيها إذ لم يكن بعد ولا أحد من ذريتها فى ذلك طلب بالميراث، وإذ قد ولى على - الأمر فلم يعدل به عما فعل فيه أبو بكر وعمر

 سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے باغ فدک وغیرہ کا مطالبہ کیا تھا مگر جب انہیں حدیث پاک بتائی گئ تو سیدہ نے اپنی رائے اپنے فیصلے مطالبے سے رجوع کر لیا،اسکی دلیل یہ بھی ہے کہ اس کے بعد انکی اولاد نے یا سیدنا علی نے بطور میراث مطالبہ نہیں کیا حالانکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو کچھ بھی کرسکتے تھے مگر پھر بھی باغ فدک وغیرہ میں وہی طریقہ و فیصلہ جاری رکھا جو سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما نے جاری کیا تھا

( اکمال المعلم شرح صحیح مسلم 6/81)

.

امام بدرالدین عینی فرماتے ہیں:

إِنَّمَا كَانَ هجرها انقباضاً عَن لِقَائِه وَترك مواصلته، وَلَيْسَ هَذَا من الهجران الْمحرم، وَأما الْمحرم من ذَلِك أَن يلتقيا فَلَا يسلم أَحدهمَا على صَاحبه وَلم يرو أحد أَنَّهُمَا التقيا وامتنعا من التَّسْلِيم....لما ولي عَليّ، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، لم يُغير هَذِه الصَّدَقَة عَمَّا كَانَت فِي أَيَّام الشَّيْخَيْنِ

پہلی ملاقات کے بعد دوبارہ ملاقات بحث مباحثہ وغیرہ کی نوبت نہ آئی تھی تو ملاقات نہ ہو پائی(اس سے راوی کو وھم ہوا کہ قطع تعلقی ہوئی)حالانکہ یہ قطع تعلقی نہیں، گناہ نہیں، قطع تعلقی و گناہ تو یہ ہے کہ ملاقات ہو اور دعا سلام نہ ہو اور کسی بھی روایت میں نہیں کہ سیدہ فاطمہ و سیدنا ابوبکر صدیق کی ملاقات ہوئی ہو اور سلام دعا نہ ہوئی ہو.....نیز سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تو آپ نے فدک وغیرہ میں سیدنا ابوبکر و عمر کے فیصلوں کو نہ بدلہ بلکہ وہی جاری رکھے

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري 21 ,15/20 ملتقطا)

.

*#دوسری بات*

فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي... نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے فاطمہ کو( جان بوجھ کر یا ناحق) ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا...(بخاری حدیث 3767)

.

دیگر احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث پاک کے دو معنی بنتے ہیں

*#پہلا معنی......!!*

جان بوجھ کر ناراض کرے ناحق ناراض کرے.....جبکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جان بوجھ کر یا ناحق ناراض نہ کیا تھا

.

یہ معنی کرنے کی دلیل یہ ہے کہ  دوسروں کے متعلق بھی سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کچھ ارشاد فرمایا ہے

فَمَنْ أَحَبَّ الْعَرَبَ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَ الْعَرَبَ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ

جو عربوں سے محبت کرے تو یہ مجھ سے محبت ہے اور جس نے اہل عرب کو ناراض گیا اس نے مجھے ناراض کیا

(شعب الایمان حدیث1330)سارے عرب تو مسلمان نہیں ہوئے تو  جو کفار عرب میں سے دشمنان اسلام تھے اس سے دشمنی کرنا سے ان کو غضبناک کرنا اللہ و رسول کو ناراض کرنا تو نہیں...اسی طرح اہل عرب میں سے جو مسلمان ہیں اگر وہ ہم سے ایسی بات و حکم و فیصلے چاہیں جو قرآن و احادیث پاک کے خلاف ہوں تو انکی پیروی نہیں کرنی... چاہے وہ ناراض ہی کیوں نہ ہوجائیں....لیھذا کہنا پڑے گا کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان عرب کو ناحق یا جان بوجھ کر غضبناک کرنا ناراض کرنا رسول کریم کو ناراض کرنا ہے

جبکہ

سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو جان بوجھ کر یا ناحق ناراض نہیں کیا تھا سیدنا سدیق اکبر نے تو لیھذا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ پر کوئی اعتراض نہیں بنتا....!!

.

مَنْ أَحَبّ قُرَيْشًا فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَبْغَضَ قُرَيْشًا فَقَدْ أَبْغَضَنِي

جس نے قریش سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، جس نے قریش کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا

(طبرانی کبیر حدیث201) سارے قریش تو مسلمان نہیں ہوئے تو  جو کفار قریش میں سے دشمنان اسلام تھے اس سے دشمنی کرنا سے ان کو غضبناک کرنا اللہ و رسول کو ناراض کرنا تو نہیں...اسی طرح قریش میں سے جو مسلمان ہیں اگر وہ ہم سے ایسی بات و حکم و فیصلے چاہیں جو قرآن و احادیث پاک کے خلاف ہوں تو انکی پیروی نہیں کرنی...چاہے وہ ناراض ہی کیوں نہ ہوجائیں....لیھذا کہنا پڑے گا کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان قریش کو ناحق یا جان بوجھ کر غضبناک کرنا ناراض کرنا رسول کریم کو ناراض کرنا ہے

جبکہ

سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو جان بوجھ کر یا ناحق ناراض نہیں کیا تھا سیدنا سدیق اکبر نے تو لیھذا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ پر کوئی اعتراض نہیں بنتا....!!

.

رِضَا الرَّبِّ فِي رِضَا الْوَالِدِ، وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِ 

والد کی رضامندی میں اللہ کی رضامندی ہے اور والد کی نافرمانی و ناراضگی میں اللہ کی نافرمانی ناراضگی ہے

(ترمذی حدیث1899)

اب اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم حق کریں کہیں لیکن والدین ناراض ہوں تو اللہ بھی ناراض ہوگا.....؟؟ ہرگز نہیں، کہنا پڑے گا کہ جو جان بوجھ کر یا ناحق والدین کو ناراض کریگا تو اس سے اللہ کی ناراضگی ہے

اور

سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو جان بوجھ کر یا ناحق ناراض نہیں کیا تھا سیدنا سدیق اکبر نے تو لیھذا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ پر کوئی اعتراض نہیں بنتا....!!

.

ان احادیث مبارکہ کی طرح سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے متعلق حدیث پاک کا بھی یہ مطلب بنے گا کہ جو سیدہ فاطمہ کو جان بوجھ کر یا ناحق ناراض کرے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کرنے والا کہلائے گا...

.

رسول کریمﷺنےفرمایا جس نےفاطمہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی(ترمذی حدیث3869)رسول کریمﷺنےفرمایا جس نےمیرےصحابہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی(ترمذی حدیث3862)دونوں قسم کی حدیثیں عام کریں پھیلائیں تاکہ ناصبیت اور رافضیت دونوں کا رد ہو

.

 سیدہ فاطمہ کو  ناراض کرنے والی حدیث لکھنے کے بعد امام ملا علی قاری نے اوپر دی گئی کچھ احادیث بھی ذکر فرمائی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ عظیم فضیلت ہے لیکن اس سے ملتی جلتی فضیلت دوسروں کو بھی حاصل ہے

(دیکھیے مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح9/3965)

.

ولا يقدح فيه غضبها، فإن الوعيد في إغضابها، والضابط في الإغضاب أن يقول الإنسان قولا أو فعلا يقصد بذلك أذى شخص فيغضب به. ولم يقصد أبو بكر أذاها، حاشاه ثم حاشاه

عن ذلك

 سیدہ فاطمہ کے متعلق جو ہے کہ جو ان کو غضبناک کرے گا ناراض کرے گا وہ رسول کریم کو ناراض کرے گا تو سیدنا صدیق اکبر نے انہیں ناراض نہیں کیا تھا کیونکہ ناراض تو اس طرح کرنا ہوتا ہے کہ ناراض کرنا مقصود ہو اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہو سکتا

(السيوف المشرقة ومختصر الصواقع المحرقة ص532)

.

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی شان میں ناراضگی والی حدیث ہے تو یہ بھی معلومات میں رہے کہ صحابہ کرام کے متعلق بھی سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کچھ فرمایا ہے...مثلا

اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ

 اللہ اللہ میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو ان کو میرے بعد انکو طعن و مذمت کا نشانہ نہ بناؤ، جو ان سے محبت کرے گا تو یہ مجھ سے محبت ہے اور میں بھی اس سے محبت رکھوں گا اور جو ان سے بغض رکھے گا انہیں ناراض کرے گا تو انہوں نے بیشک مجھے ناراض کیا جو انہیں اذیت پہنچائے گا بے شک اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو اذیت دی

(ترمذی حدیث3862)

.

الْأَنْصَارُ لَا يُحِبُّهُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضُهُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللَّهُ

 انصار صحابہ کرام سے محبت ایمان والا ہی کرے گا اور انہیں ناراض اور ان سے بغض نہ کرے گا مگر یہ کہ منافق....جو ان سے محبت کرے گا تو اس سے اللہ محبت فرمائے گا... جس نے ان سے بغض رکھا ان کو ناراض کیا اس نے اللہ کو ناراض کیا

(بخاری حدیث3783)

.

*#دوسرا معنی*

 رسول کریم نے جو فرمایا ہے کہ سیدہ فاطمہ کو جو ناراض کرے گا اس نے مجھے ناراض کیا اس کا ایک معنی یہ ہے کہ جو مباح کام کرکے سیدہ کو ناراض کریے گا ناحق ناراض کرے گا یا جان بوجھ کے ناراض کرے گا تو وہ مجھے ناراض کرے گا.... مباح کام کیا جائے اس سے کوئی شخص ناراض ہو جائے تو مباح کام کرنے والے پر کوئی وبال نہیں ہوتا لیکن یہ سیدہ فاطمہ کی خاصیت ہے کہ رسول کریم نے انہیں خصوصیت عطا فرمائی کہ سیدہ فاطمہ کو مباح کام کرکے بھی ناراض نہیں کیا جا سکتا

، وإن توليد الإيذاء مما كان أصله مباحاً وهو من خواصه صلى الله عليه وسلم

 جو سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو مباح کام کرکے ناراض کرے گا تو یہ رسول کریم کو ناراض کرنا ہے اور یہ انکی خصوصیات میں سے ہے

(شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن12/3903)

(لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح9/699نحوہ)

 اس معنی کے تحت بھی سیدہ فاطمہ کو سیدنا ابوبکر صدیق نے اذیت نہیں پہنچائی غضبناک نہیں کیا کیونکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرض واجب کی تکمیل کی کہ وراثت نبوی کو بحکم نبوی صدقہ کرنا فرض تھا،کسی کی ملکیت میں نہ دینا فرض تھا جو آپ نے پورا کیا

.

ولو أجابها إلى سؤالها كان معصية من وجهين:الأول: مخالفة أمر رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وإبطال صدقته.الثاني: أنه كان ما يعطي لفاطمة مالًا حرامًا بلا خلاف

سیدہ فاطمہ کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے سیدنا ابوبکر صدیق اگر فدک وغیرہ سیدہ کی ملکیت کر دیتے تو گناہ گار ہوتے کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و حدیث کو باطل قرار دینا کہلاتا اور اگر ملکیت میں دے دیتے تو انکے لیے بطور ملکیت مالِ حرام ملکیت میں دینا قرار پاتا کہ سیدعالم کی تو میراث نہیں تھی تو یہ مال بطور میراث مالک بنانا حرام تھا

(الکوثر الجاری شرح بخاری6/88)

البتہ جس طرح سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم اہل بیت پر خرچ فرماتے رشتہ داروں پر خرچ فرماتے مسلمانوں پر خرچ فرماتے اسی طرح سیدنا ابوبکر صدیق بھی اہل بیت نبوی پر نبی پاک کے رشتے داروں پر اور مسلمانوں پر خرچ فرماتے تھے...اسی طرح کا عمل سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا علی وغیرہ خلفاء راشدین نے کیا جیسے کہ کچھ حوالہ جات اوپر لکھ آیا

.

شیعہ کتب میں بھی لکھا ہے کہ گناہ معصیت کا معاملہ ہو تو اس میں کسی کی پیروی نہیں کرنی

وفي العلل عنه (عليه السلام) لا طاعة لمن عصىک

علل میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گناہ و معصیت میں کسی کی بات نہیں ماننی

(شیعہ کتاب التفسير الصافي 1/464)

.

لیھذا گناہ و معصیت کے معاملے میں اہل عرب یا قریش یا کسی قوم کسی لیڈر حتی کہ سادات کرام و والدین کی بھی بات نہیں ماننی....اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرنی ہے

سیدہ فاطمہ نے جان بوجھ کر معصیت و گناہ کا حکم نہیں دیا تھا کیونکہ لگتا ہے انکو حدیث پاک معلوم نہ تھی اس لیے سیدہ فاطمہ سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہونے کی دعوےدار تھیں لیکن حدیث پاک میں ہے کہ انبیاء کرام کی میراث نہیں تو اس حدیث پاک کی روشنی میں سیدہ پاک کا مطالبہ درست نہ تھا،سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے معصیت و گناہ ہوتا اگر آپ فدک وغیرہ کا مالک سیدہ کو بنا دیتے....جبکہ سیدعالم کا ہی حکم ہے کہ معصیت و گناہ کرکے کسی کو راضی مت کرو، اس لیے سیدنا ابوبکر صدیق نے گناہ سے بھی خود کو بچایا اور سیدہ سے باادب عرض کرکے جان بوجھ کر یا ناحق ناراض نہ کیا حتی کہ انتہاء درجے کی محبت کا اظہار کیا اور خرچہ بھی دیتے رہے اور جب گمان ہوا کہ شاید سیدہ ناراض ہیں تو ان کے گھر جاکر انکو خوش کیا 

.

*#سیدنا علی نے سیدہ فاطمہ کو ناراض کیا،کیا کہو گے...؟؟*

جَاءَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ بَيْتَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيّاً فِي اَلْبَيْتِ فَقَالَ اِبْنُ عَمِّكَ فَقَالَتْ كَانَ بَيْنِي وَ بَيْنَهُ شَيْءٌ فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمہ کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علی کو گھر میں نہ پایا تو فرمایا کہاں ہیں؟ تو سیدہ فاطمہ نے فرمایا کہ ہم دونوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا اور ہم دونوں ایک دوسرے پر ناراض ہو گئے اس لیے وہ گھر سے چلے گئے ہیں(پھر سیدعالم نےانکی صلح کرائی)

(شیعہ کتاب کشف الغمۃ1/66)

(شیعہ کتاب بحار الأنوار35/65نحوہ)

یہی کہنا پڑے گا کہ سیدنا علی نے جان بوجھ کر یا ناحق ناراض نہ کیا تھا....اسی طرح سیدنا ابوبکر صدیق نے بھی جان بوجھ کر ناحق ناراض نہ کیا سیدہ فاطمہ کو.......رضی اللہ عنھم اجمعین 

.

*#تیسری بات*

*سیدہ فاطمہ کی سیدنا ابوبکر صدیق سے رضامندگی کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ.....!!*

سیدنا ابوبکر کی زوجہ سیدہ فاطمہ کی بیماری میں ان کی دیکھ بھال کرتی رہیں، سیدہ فاطمہ نے انہیں وصیت کی تھی کہ وہ انہیں غسل دیں، یہ بات شیعہ کتب سے بھی ثابت ہے

سیدہ فاطمہ کی وصیت:میری میت کو غسل ابوبکر کی زوجہ اور علی دیں(شیعہ کتاب مناقب شہرآشوب3/138)سیدہ فاطمہ کے نزدیک سیدنا ابوبکر ظالم غاصب دشمن ہوتے تو بھلا دشمن ظالم کی بیوی سے کوئی اتنا گہرا تعلق و محبت کوءی رکھے گا....؟؟ہرگز نہیں...اسکا مطلب سیدہ فاطمہ سیدنا ابوبکر صدیق سے راضی تھیں یا تھوڑا اگر خفا بھی تھیں تو راضی ہوگئ تھیں

.

وقالت أسماء بنت عميس: أوصت إلي فاطمة ألا يغسلها إذا ماتت إلا انا وعلي..سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نےحضرت سیدنا ابوبکر کی زوجہ سیدہ بی بی اسماء کو وصیت کی تھی کہ جب میری وفات ہو تو وہ اور حضرت علی غسل دیں اور کوئ بھی نا ہو..(مصنف عبدالرزاق3/409 سنن دارقطنی2/447نحوہ، التلخیص الحبیر ابن حجر 3/1268نحوہ ..شیعہ کتاب مناقب شہرآشوب3/138) سیدہ فاطمہ کے نزدیک سیدنا ابوبکر ظالم غاصب دشمن ہوتے تو بھلا دشمن ظالم کی بیوی سے کوئی اتنا گہرا تعلق و محبت کوءی رکھے گا....؟؟ہرگز نہیں...اسکا مطلب سیدہ فاطمہ سیدنا ابوبکر صدیق سے راضی تھیں یا تھوڑا اگر خفا بھی تھیں تو راضی ہوگئ تھیں

.

*#چوتھی بات*

بخاری حدیث نمبر 4240 اور مسلم حدیث نمبر1759 کے تحت امام زہری کا قول ہے ناکہ حدیث کہ سیدہ فاطمہ کی وفات کی خبر ابوبکر کو نہ دی گئ اور راتوں رات دفن کیا گیا حضرت علی نے جنازہ پڑھایا

یہ امام زہری کا تفرد  اضافہ و ادراج ہے امام زہری کے علاوہ گیارہ راویوں نے یہی حدیث بیان کی مگر زہری والا اضافہ نہ کیا لیھذا زہری کا اضافہ بلاسند و بلادلیل ہے جوکہ مدرج و مرجوح ہے راجح اور صحیح یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق نے جنازہ پڑھایا...علماء کا اتفاق ہے کہ بخاری مسلم میں موجود اقوال ، تفردات  تعلیقات ادجات صحیح ہوں یہ لازم نہیں..(دیکھیے نعمۃ الباری شرح بخاری7/615وغیرہ)

.

امام ابن رجب فرماتے ہیں:

فإن الزهريَ كان كثيراً ما يروي الحديث، ثم يدرجُ فيه أشياءَ، بعضها مراسيلُ، وبعضها من رأيه وكلامه

 امام زہری بہت دفعہ ایسا کیا کرتے تھے کہ حدیث کو روایت کرتے تھے اور اس میں کچھ چیزیں ادراج کر لیا کرتے تھے بعض مراسیل ہوتی تھی بعض ان کی رائے ہوتی تھی بعض ان کا اپنا کلام ہوتا تھا

(فتح الباری لابن رجب8/12)

.

أن هذا الكلام كله للزهري

(سیدہ فاطمہ ناراض رہیں،انکی وفات کی خبر سیدنا ابوبکر صدیق کو نہ دی گئ اور چھپکے سے راتوں رات دفنایا گیا)یہ سب گفتگو زہری کی ہے،ادراج ہے

(الکوکب الوہاج 19/117)

.

وإذا تبيّن الإدراج فإنه لا يكون حجة

جب یہ ثابت ہو کہ ادارج ہے تو ادراج والی گفتگو بذات خود کوئی دلیل و ثابت شدہ بات نہیں کہلائے گی(ہاں دیگر دلائل سے وہ ادراج والی بات ثابت ہو تو یہ الگ معاملہ ہے)

(الکواکب الدریہ  ص117)

۔

✍تحریر: العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

naya wtsp nmbr

03062524574

purana wtsp nmbr

03468392475

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.