پردہ پوشی...ملا تمھارا کیا؟کرتوت...توپ..برداشت..رجوع

 *پردہ پوشی...اکابر...ارے ملاں تمھارا کیا.....؟؟...اپنا مذہب چھوڑو مت،کسی کو چھیڑو مت،تفرقہ مت کرو....؟؟ کرتوت بتانا.. مذمت...توپ، تکبر، رجوع…؟؟*

.
*زبان درازی گستاخی*
الحدیث:
إِنَّ مِنْ أَرْبَى الرِّبَا الِاسْتِطَالَةَ فِي عِرْضِ الْمُسْلِمِ بِغَيْرِ حَقٍّ
ترجمہ:
مسلمان کےمتعلق ناحق زبان درازی سود سےبڑھ کےگناہ ہے(ابوداؤد4876شیعہ کتاب میزان الحکمۃ2/1033)
جب عام مسلمان کے متعلق زبان درازی اتنا بڑا مذموم جرم
تو
 سوچیےانبیاء علیھم السلام صحابہ کرام اہلبیت عظام اولیاء کرام اور برحق علماء و مشائخ کےگستاخ کتنےگھٹیا منافق مردود حاسد فسادی باطل ہوئے…؟؟
.
*پردہ پوشی*
الحدیث:
المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه، ومن كان في حاجة أخيه كان الله في حاجته، ومن فرج عن مسلم كربة، فرج الله عنه كربة من كربات يوم القيامة، ومن ستر مسلما ستره الله يوم القيامة
ترجمہ:مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،وہ نا اس پر ظلم کرے اور نا ظلم کرنے دے،نہ بےیار و مددگار چھوڑے اور جو اپنے(مسلمان بھائی) کی حاجت روائی میں ہو اللہ اسکی حاجت روائی فرمائے گا،
اور
جو کسی مسلمان سے مصائب.و.مشقت تکالیف دور کرے اللہ قیامت کے دن اس سے تکالیف.و.مشقت دور فرمائے گا،
اور
جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ قیامت کے دن اسکی پردہ پوشی فرمائے گا..(بخاری حدیث2442)
.
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَقِيلُوا ذَوِي الْهَيْئَاتِ عَثَرَاتِهِمْ، إِلَّا الْحُدُودَ
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اچھے اخلاق والوں کی لغزشوں سے درگزر کرو(پردہ پوشی کرو مگر ناحق دفاع کے بجائے گذارشات کرو،توجہ دلاؤ)مگر یہ کہ معاملہ اسلامی حدود کا ہو تو درگزر نہیں
(ابوداود حدیث4375)
 اس حدیث پاک سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ اچھے لوگوں سچے علماء مولویوں پیروں لیڈروں سے کچھ سرزد ہوجائے کوئی غلطی ہوجائے تو اسے اچھالا نہ جائے پردہ پوشی تاویل توجیہ کی جائے اور اکیلے میں ان کی توجہ دلائی جائے ان کو مشورہ دیا جائے اور اس عالم پیر مولوی لیڈر کو چاہیے کہ رجوع کا دل جگرہ رکھے اسے انا کا مسلہ نہ بنائے
ہاں
جو مسلسل مکاری خیانت بدمذہبی گمراہی پے بضد ہو تو اسکی پردہ پوشی نہیں...
.
*زندہ یا مردہ مسلمان کی پردہ پوشی لازم ہے سوائے چند کے کہ انکی پردہ پوشی جرم ہے.............!!*
القرآن..ترجمہ:
حق سے باطل کو نا ملاؤ اور جان بوجھ کر حق نہ چھپاؤ
(سورہ بقرہ آیت42)
.
إلا أن يكون مبتدعا يظهر البدعة أو مجاهرا بالفسق والظلم فيذكر ذلك زجرا لأمثاله
مسلمان میت کی پردہ پوشی کی جائے گی سوائے اس کے کہ وہ واقعی بدعتی ہو اور بدعتوں کا برملہ اظہار کرتا ہو، پھیلاتا ہو یا گناہ و ظلم دلیری سے اعلانیہ کرتا ہو
تو ایسوں کی پردہ پوشی نہیں بلکہ وہ عیوب و برائیاں مذمت بیان کی جاءیں جو اس میں ہوں تاکہ ان جیسوں کے لیے جھڑک و عبرت ہو...(الطحطاوی1/570)
.
الحدیث:
من كتم غالا فإنه مثله
ترجمہ:
جو(زندہ یا مردہ) غل کرنے والے(خیانت کرنے والے، چھپکے سے کمی بیشی کرنے والے، کھوٹ،کرپشن کرنے والے) کی پردہ پوشی کرے تو وہ بھی اسی کی طرح(خیانت کرنے والا، کھوٹا، دھوکے باز مجرم) ہے
(ابو داؤد حدیث2716)
.
الحدیث:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أترعون عن ذكر الفاجر؟، اذكروه بما فيه يعرفه الناس
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کیا تم(زندہ یا مردہ) فاجر(فاسق معلن منافق , خائن، دھوکے باز) کو واضح کرنے سے ہچکچاتے ہو...؟
(جیسا وہ ہے ویسا کہنے سے گھبراتے ہو...؟؟)
اسے ان چیزوں(ان کرتوتوں، عیبوں اعلانیہ گناہوں ، خیانتوں، منافقتوں دھوکے بازیوں) کے ساتھ واضح کرو جو اس میں ہوں تاکہ لوگ اسے پہچان لیں(اور اسکی گمراہی خیانت منافقت بدعملی دھوکے بازی مکاری سے بچ سکیں)
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد حدیث667وحسنہ و ضعفہ بعضھم لکن معناہ صحیح ثابت بغیرہ کما فی الاسرار للقاری)
یہ حدیث پاک  کتبِ حدیث و تفاسیر اور فقہ و تصوف کی کئی کتب میں موجود ہے... مثلا جامع صغیر، شعب الایمان، احیاء العلوم، جامع الاحادیث، طبرانی...کنزالعمال، کشف الخفاء ردالمحتار ، عنایہ شرح ہدایہ، فتاوی رضویہ، تفسیر ثعالبی، تفسیر درمنثور وغیرہ کتب میں موجود ہے
.
لیھذا فاجروں مکاروں گمراہوں بدمذہبوں کی پردہ پوشی نہیں کی جائے گی، انکے گندے نظریات ان کی گندی باتیں ان کے گمراہ کن باتیں، ان کی مکاریاں، ان کی خیانتیں بیان کرنا
بیانِ حق ہے، لازم ہے، اسلام کی نمک حلالی ہے ، تفرقہ بازی نہیں ہے.... اب دیکھیے کہ چور کبھی خود کو چور نہیں کہے گا  باطل کبھی خود کو باطل نہیں کہے گا ، مکار خود کو کبھی مکار نہیں کہے گا ،خائن کبھی خود کو خائن نہیں کہے گا جھوٹا کبھی خود کو جھوٹا نہیں کہے گا
تو
 ان کی خیانت مکاریاں دھوکہ بازیاں  بدمذہبی منافقتیں پکڑنی پڑتی ہیں اور سرعام پھیلانا پڑتی ہیں تاکہ لوگ ان کی گمراہیوں بدمذہبیو مکاریوں منافقوں دھوکے سے خود کو بچائیں… تو سچوں کی پہچان کیجئے ان کا ساتھ دیجیے اور مکاروں جھوٹوں جعلیوں سے بچئیے
القرآن،ترجمہ:
سچوں(کو پہچان کر ان)کا ساتھ دو(سورہ توبہ آیت119)
دین و دنیا کو بدنام تو جعلی منافق مکار کر رہےہیں....عوام و خواص سب کو سمجھنا چاہیےکہ #جعلی_مکار_منافق تو علماء پیر اینکر لیڈر سیاست دان جج وکیل استاد ڈاکٹر فوجی وغیرہ افراد و اشیاء سب میں ہوسکتےہیں،ہوتے ہیں
تو
جعلی کی وجہ سے #اصلی سےنفرت نہیں کرنی چاہیےبلکہ اصلی کی تلاش اور اسکا ساتھ دینا چاہیے
.
دو باطل نعرے،نظریے،سوچ کہ:
ارے لوگو تمھارا کیا...ارے ملّا  تمھارا کیا میں جانوں میرا خدا جانے…اپنا فرقہ چھوڑو مت ، کسی اور فرقے کو چھیڑو مت...؟؟
.
جواب:
اُسی رب تعالیٰ کے کلام مجید میں جگہ جگہ حکم ہے کہ:ترجمہ:
نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو..(مثلا دیکھیے سورہ لقمان آیت18)
کیا اب بھی کہو گے کہ تمھارا کیا................؟؟
.
اُسی رب تعالیٰ کے کلام پاک میں کہ،ترجمہ:
حق سے باطل کو نا ملاؤ اور جان بوجھ کر حق مت چھپاؤ
(دیکھیے سورہ بقرہ آیت42)
کیا اب بھی کہو گے کہ تمھارا کیا..............؟؟
.
اسی رب تعالیٰ کا فرمان ہے،ترجمہ:
رب کے راستے کی طرف سب کو بلاؤ حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ(سورہ نخل ایت125)
کیا اب بھی کہو گے کہ تمھارا کیا................؟؟
.
اسی رب تعالیٰ کا فرمان ہے،ترجمہ:
منافقوں کافروں سے جہاد کرو اور سختی کرو
(سورہ توبہ آیت73)
کیا اب بھی کہو گے کہ تمھارا کیا................؟؟
.
 اسی رب تعالیٰ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ فاجروں خائنوں مکاروں کی پردہ پوشی نہ کی جائے جیسے کہ اوپر احادیث مبارکہ گزر چکی
لیھذا
باطلوں جھوٹوں مکاروں کو چھیڑنا ، انکی پکڑ کرنا، انکی مذمت کرنا حق واضح کرنا لازم.....
لیھذا ارے ملا تمھارا کیا، نہ کہنا لازم
البتہ
فروعیات ظنیات میں اختلاف پردلیل باسلیقہ ہو تو برداشت لازم.....ایسا اختلاف اہلسنت میں بھی آپ کو ملے گا 
ہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اُسی رب کریم نے فرمایا ہے کہ،ترجمہ:
لوگوں کو نیکی،بھلائی کا کہتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو.؟(دیکھیے سورہ بقرۃ آیت44)
.
عقلی دلیل:
دوسروں کے سامنے یا سرعام برائی کرو گے تو دوسروں کی حق تلفی ہوگی.. لیھذا معاشرے کو بھی حق پہنچتا ہے کہ وہ.برائی ظلم وبائی نقصان سے روکے..
ہاں وہ معاملہ.. وہ بات.. وہ عمل جو کسی کے سامنے نا ہو.. تنہاہی میں ہو تو اگرچے وہ بھی گناہ ہے..دنیا و آخرت کی بربادی کا کام ہے... اللہ.اس سے بچنے کا بھی حکم فرماتا ہے مگر
اس صورت میں کسی کے سامنے نہیں.. کسی کی.حق تلفی نہیں.. معاشرتی حق تلفی نہیں.. فقط اپنی بربادی ہے.. مگر اللہ تو جانتا ہے.. ہم نہیں جانتے ..تو ایسے معاملے میں تو جانے تیرا خدا جانے... شعر کا یہ معنی لیا جائے تو ٹھیک مگر اُسے ایسے مشھور کر دیا گیا کہ جو چاہو کرو... لوگو تمھارا کیا.. ملا تمھارا کیا..
.
یہ بھی یاد رہے کہ کوئی شخص یا گھر یا محلہ یا پورا علاقہ نیک ہو جائے تب بھی ایک دوسرے کو یاد دہانی اور حق بیانی اور نصیحتیں کرتے رہنے کا حکم ہے..
.
کلام سے باطل معنی لیے جاتے ہیں تو سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ فرمان یاد آتا ہے جو آپ نے خوارج کے نعرے "صرف اللہ حاکم" کے جواب میں آپ نے فرمایا تھا کہ:
کلمۃ الحق ارید بھا الباطل.. یعنی بات تو حق ہے مگر اسکا معنی و مقصود باطل ہے..(مسلم روایت نمبر1066)
.
*فاجروں خائنوں بدمذہبوں جھوٹوں مکاروں کو واضح کرنا برحق اور لازم ہے،اور اختلاف برحق پے برداشت کرنا اور برداشت کی تلقین پھیلانا لازم ہے...اسی میں انفرادی معاشرتی بھلائی و کامیابی ہے...*
.
نوٹ:
اچھے اکابر بڑوں کی پردہ پوشی کیجیے مگر وہ اصلاح و تنبیہ و گذارشات سے اکابر مستثنی نہیں.....ان کے پاس با ادب طریقے سے گذارش کی جائے گی
.
چھوٹوں کی بات، مشورے کو عار مت سمجھیے،
تسلی بخش افھام تفھیم والا جواب دیجیے ورنہ چھوٹے کی بات مشورہ قبول کر لیجیے..رجوع توبہ کا دل جگرہ ہر ایک کے پاس ہونا چاہیے
.
استاد لیڈر سربراہ کسی بڑے کو مشورہ دینا........؟؟
بن مانگے مشورہ رائے دینا.............؟؟
تسلی بخش جواب ورنہ رجوع کیجیے..........؟؟
①المفھم شرح مسلم میں ایک حدیث پاک سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے...ترجمہ:امام اور سربراہ(لیڈر، کسی بڑے)کو مشورہ دینا چاہیے خواہ انہوں نے مشورہ طلب نا کیا ہو
(المفھم شرح مسلم 1/208بحوالہ تبیان القرآن تحت تفسیر سورہ الشوری آیت10)
.
②امام نووی علیہ الرحمۃ ایک حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں.
ترجمہ:اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب امام اور سربراہ(لیڈر اکابر) کوئی حکم مطلق دے اور اس کے متبعین میں سے کسی شخص کی رائے اس کے خلاف ہوتو اس کو چاہیے کہ وہ امیر و سربراہ کے سامنے اپنی رائے پیش کرے تاکہ امیر اس پر غور کرے، پس اگر امیر پر یہ منکشف ہو کہ اس متبع کی رائے(مشورہ) صحیح ہے تو اسکی طرف رجوع کر لے ورنہ اس متبع کے شبہ کو زائل کرے اور اسکی تسلی کرے..
(شرح مسلم للنووی1/581بحوالہ تبیان القرآن تحت تفسیر سورہ الشوری آیت10)
.
لیھذا اپنے آپ کو مشورے کا غیرمحتاج مت سمجھیے، کوئی اپ سے اختلاف کرے تو دلائل سے جواب دیجیے، تسلی بخش جواب دیجیے ورنہ قبول کر لیجیے....یہ مت کہیے کہ میں تو بڑا ہوں فلاں فلاں کا استاد ہو، میں تو لیڈر ہوں، میرے تو فلاں فلاں عہدے ہیں،  مرشد عالم مفتی ہونا مت جتائیے تسلی بخش جواب دیجیے ورنہ حق قبول کیجیے...مشورہ لیتے رہیے.. خطاء سے پاک مت سمجھیے...
.
اپنے آپ کو بہت بڑی توپ مت سمجھیے،اپنے آپ کو علمِ کل اور عقلِ کل مت سمجھیے، یہ مت سمجھیے کہ بس میں ہوں، بس میری پارٹی میری تنظیم ہی ہے، باقی سب کو گھاس نا ڈالنا، عزت نا دینا ٹھیک نہیں،ہاں اپنی اور دوسروں کی بہتری و ترقی کی کوشش کرنی چاہیے مگر خودپسندی میں نہیں رہنا چاہیے، خود پسندی ہلاکت خیز بیماری ہے
الحدیث:
 وثلاثٌ مُهْلِكاتٌ: هَوًى مُتَّبِعٌ وَشُحٌّ مُطاعٌ واعْجابُ المَرءِ بِنَفْسِهِ
ترجمہ:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزیں ہلاک کر دیتی ہیں
1:خود پسندی
2:لالچ و بخل کی اطاعت
3:خواہشاتِ نفس کی پیروی
( الجامع الصغير وزيادته حدیث5350)
.
اللہ کریم وسیع القلب بنائیے تکبر و انانیت و ضد سے بچائے، برداشت و رجوع کا دل جگرہ عطاء فرمائے...جو اختلاف مدلل باسلیقہ فروعی ہو ، قابل برداشت ہو اسے برداشت کرنا چاہیےمگر منافقت مکاری دھوکے بازی جیسی بنیادوں پے اختلاف ہو تو ہرگز پردہ پوشی و برداشت نہیں کرنا چاہیے
ہاں
جلد بازی بھی ٹھیک نہیں اور خود ہی ہو عقل کل سمجھنا بھی ٹھیک نہیں
حضرت سیدنا مسروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں
كفى بالمرءجهلا، أن يعجب بعلمه
ترجمہ:
کسی کےجاہل ہونے کےلیے اتنا کافی ہےکہ اسے اپنے علم و رائے پر غرور ہو،محض اپنی معلومات و رائے ہی اچھی لگے(دارمی روایت395) #علمی_جاہل_متکبر
.
ہمیشہ اسلاف کے قرآن و سنت سے اخذ کردہ اقوال پر ہی عمل کرنا چاہیے انہیں پھیلانا چاہیے، انہیں اپنانا چاہیے...خود مجتہد نہ بن بیٹھنا چاہیے:
طلبگارِ علم پےوقار،سکینہ لازم ہے(تردید تصدیق میں جلدباز نا ہو)خوفِ خدا ہو(اپنی رائےکےبجائے)اسلاف کےقول کا متبع ہو(جدید/فروعی مسلہ ہوتو مدلل باسلیقہ ذاتی رائےپیش کرے)(جامع لاخلاق1/232)
.
*#اہم_نوٹ*
اصلاح کی کوشش کے ساتھ ساتھ
مکاروں دھوکے بازوں بروں باطلوں کے کرتوت واضح کرنا حق ہےچاہے یہ لوگ اسلام کے لبادہ میں ہوں یا ملحد عیاش ہوں یا دنیادار ہوں یا مشرک کافر و فجار ہوں.....مذمت سے زیادہ اصلاح کی کوشش و اندازِ اصلاح زیادہ ہو مگر ضدی مکار فاجر عیاش کو واضح کرنا مذمت کرنا بھی لازم کہ اسی میں انفرادی معاشرتی بھلائی ہے
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574

Post a Comment

1 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.