*تبرک دوا دعا دم جھاڑ پھونک مگر عقائد و اعمال....؟؟ قرآن ذکر اذکار وغیرہ میں کونسی شفاء ہے....؟؟ لال رومال والے نجدی کو جواب......!!*
سوال:
علامہ صاحب میں اللہ کے فضل و کرم سے عمرہ کے لیے جا رہا ہوں،عاشقان رسول کو تنگ کرنے والے لال رومال والا جو کہتا ہے قرآن کو فقط سمجھنے میں شفاء ہے... اس کو اپنی طرف سے جواب دینے کے لیے تو تیاری کی ہےلیکن اگر آپ بھی کچھ مختصرا لکھ دیں تو نوازش ہوگی
.
جواب:
قرآن و سنت کے مطابق تبرک دم جھاڑ پھونک شفاء کا ذریعہ وسیلہ ہیں کہ اصل میں تو شفاء اللہ ہی دیتا ہے....!!
القرآن:
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ
اور ہم قرآن کی(سورتیں ایات) نازل کرتے ہیں جو شفاء ہیں، رحمت ہیں
(سورہ بنی اسرائیل آیت82)
.
وأما كونه شفاء من الأمراض الجسمانية، فلأن التبرك بقراءته يدفع كثيرا من الأمراض
قرآن پاک(بے شک کفر شرک گمراہی جہالت وغیرہ باطنی امراض سے شفاء ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ)جسمانی امراض سے اس طرح شفاء دیتا ہے کہ قرآن پڑھ کر تبرک حاصل کرکے بہت سارے جسمانی امراض کو دفع کیا جاتا ہے
(تفسير الخازن لباب التأويل في معاني التنزيل ,3/144)
.
وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ في معنى كونه شفاء على القولين الْأَوَّلُ: أَنَّهُ شِفَاءٌ لِلْقُلُوبِ بِزَوَالِ الْجَهْلِ عَنْهَا وَذَهَابِ الرَّيْبِ وَكَشْفِ الْغِطَاءِ عَنِ الْأُمُورِ الدَّالَّةِ عَلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ. الْقَوْلُ الثَّانِي: أَنَّهُ شِفَاءٌ مِنَ الْأَمْرَاضِ الظَّاهِرَةِ بِالرُّقَى وَالتَّعَوُّذِ وَنَحْوِ ذَلِكَ، وَلَا مَانِعَ مِنْ حَمْلِ الشِّفَاءِ عَلَى الْمَعْنَيَيْنِ
قرآن پاک شفاء ہے مگر کس چیز سے شفاء ہے؟ اہل علم کا اختلاف ہے…بعض فرماتے ہیں کہ باطنی ذہنی دلی امراض سے شفاء ہے اس طرح کہ قرآن جہالت سے شفاء دیتا ہے، قرآن شکوک شبہات ختم کرکے شفاء دیتا ہے، قرآن اللہ کے وجود و توحید کے دلائل سے پردہ ہٹا کر شفاء دیتا ہے...بعض علماء فرماتے ہیں کہ قرآن جسمانی امراض سے شفاء ہے کہ قرآن سے تعویذ دم جھاڑ پھونک وغیرہ کرکے جسمانی امراض سے شفاء حاص کی جاتی ہے(غیر مقلدوں نجدیوں کا امام شوکانی کہتا ہے کہ)دونوں ہی معنی مراد لینے میں کوئی روکاوٹ نہیں
(غیر مقلدوں نجدیوں کا معتبر عالم شوکانی کی تفسیر فتح القدير ,3/300)
.
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ كُلَّ لَيْلَةٍ جَمَعَ كَفَّيْهِ، ثُمَّ نَفَثَ فِيهِمَا، فَقَرَأَ فِيهِمَا : { قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ }، وَ { قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ }، وَ { قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ }، ثُمَّ يَمْسَحُ بِهِمَا مَا اسْتَطَاعَ مِنْ جَسَدِهِ يَبْدَأُ بِهِمَا عَلَى رَأْسِهِ وَوَجْهِهِ، وَمَا أَقْبَلَ مِنْ جَسَدِهِ، يَفْعَلُ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ
ترجمہ:
بےشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات میں جب اپنے بستر پر تشریف لے جاتے تو اپنے ہاتھ جمع کرکے ان میں پھونکتے جن میں"قل ھو اﷲ احد"اور"قل اعوذ برب الفلق"اور"اعوذ برب الناس"پڑھتے پھر جسم کے جس حصہ تک ہوسکتا وہ ہاتھ پھیرتے اپنے سر مبارک اور چہرے پاک کے سامنے والے حصے سے شروع فرماتے یہ تین بار کرتے تھے
(بخاری حدیث5012 ترمذی حدیث3402)
.
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے نجدیت نیچریت وغیرہ کے نظریہ کی دھجیاں اڑ گئیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن سے تبرک حاصل کیا، دم کیا تاکہ امت بھی پیروی کرے دوا بھی کرے کراءے اور دم و دعا بھی کرے کرائے کہ ان میں اللہ نے شفاء رکھی ہے
.
الحدیث:
تداووا عباد الله، فإن الله، سبحانه، لم يضع داء، إلا وضع معه شفاء، إلا الهرم»
ترجمہ:
اے اللہ کے بندو دوا کرایا کرو کہ بے شک اللہ نے ہر مرض کی شفاء رکھی ہے سوائے بڑھاپے کے
(ابن ماجہ حدیث3436)
.
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يرد القضاء إلا الدعاء
ترجمہ:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تقدیر کو دعا ہی بدل دیتی ہے..(ترمذی حدیث2139, ابن ماجہ حدیث90نحوہ)
.
رحمتِ عالم ﷺ کے حضور عرض کی گئی :
یارسول اللہ ! یہ جو دم(قرآن ، سنت ، حدیث ذکر اذکار اسمائے حسنی وغیرہ ماثورہ وغیرہ دم درود دعائیں) ہیں، جن کےساتھ ہم دم کرتے ہیں ، اور دوائیں ، جن کے ذریعے علاج کرتے ہیں ، اور حفاظت و احتیاط، جن کے ذریعے ہم اپنا بچاؤ کرتے ہیں ؛ کیا یہ تقدیرِ الہی کو ٹال سکتے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہ تو خود اللہ کی تقدیر سے ہیں ۔(یعنی دعا دوا پرہیز و احتیاط سب کو اپنانا چاہیے کہ نہ جانے کس وسیلے ذریعے سے شفاء و راحت مل جائے اور تقدیر بدل جائے)
(ترمذی ،حدیث 2065)
.
يَقْرَأُ فِي نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ وَيَنْفُثُ، فَلَمَّا اشْتَدَّ وَجَعُهُ كُنْتُ أَقْرَأُ عَلَيْهِ وَأَمْسَحُ عَلَيْهِ بِيَدِهِ رَجَاءَ بَرَكَتِهَا
نبی پاک معوذات(تین یا چار قل شریف)پڑھتے اور خود پر دم فرماتے، جب آپ زیادہ بیمار ہوگئے تو(سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ)میں معوذات پڑھتی اور حضور علیہ الصلاۃ و السلام کے ہاتھ(پر پھونک مارتی اور آپ علیہ السلام کے ہاتھ)مبارک سے آپ کے جسم پر ملتی تبرک و برکت کی امید سے
(ابوداود3902 بخاری5016)
.
كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ ؟ فَقَالَ : " اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ
صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کی ہم جاہلیت میں دم جھاڑ پھونک کرتے تھے اب انکا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنا دم جھاڑ پھونک مجھے بتاؤ اگر اس میں کفر شرک کے الفاظ و اعتقاد نہ ہوں تو ایسے دم جھاڑ پھونک میں حرج نہیں
(مسلم حدیث5732 ابوداود حدیث3886)
.
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی سے صحابہ کرام تبرک حاصل کرتے تھےہاتھ ، چہرے ، جسم پے ملتے تھے..حتی کہ اگر نبی پاک کے وضو کا پانی نہ مل پاتا تو جس کے ہاتھ پے وہ لگا ہوتا اسکی تری اپنے ہاتھ پے ، چہرے پے ملتے تھے....دیکھیے بخاری تحت حدیث3566،376
.
ثابت ہوا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ کر بھی شفا حاصل کی اور تبرک حاصل کرکے بھی شفاء حاصل کی
.
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى الغداة، جاء خدم المدينة بآنيتهم فيها الماء، فما يؤتى بإناء إلا غمس يده فيها
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز پڑھتے تو مدینے کے(مختلف گھر و مقامات سے) خادم اپنے برتنوں میں پانی لے کر آتے،جو برتن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ(تبرک و شفاء کے لیے)اس میں ڈبو دیتے
(مسلم حدیث6042 بَابُ قُرْبِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّاسِ ، وَتَبَرُّكِهِمْ بِهِ وَتوَاضُعِهِ لَهُمْ......باب:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کے قریب ہونا اور لوگوں(صحابہ)کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک حاصل کرنا اور آپ علیہ الصلاۃ و السلام کی عاجزی و تواضع)
.
اگر سمجھنا ہی سب کچھ ہوتا اور تبرک کچھ بھی نہ ہوتا، شفا صرف سمجھنے میں ہوتی تو فقط قرآن و حدیث کو صحابہ کرام و تابعین سمجھنے عمل کرنے ہی پے اکتفاء کرتے جب کہ صحابہ کرام قرآن و حدیث سمجھنے عمل کرنے کے ساتھ ساتھ تبرک بھی حاصل کیا کرتے تھے کہ اس میں بھی شفا ہے کرم ہے برکت ہے
.
نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام کے جبہ مبارک سے تبرک حاصل کرنا، اس کے وسیلے سے شفاء حاصل کرنا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے ثابت ہے...سیدہ بی بی اسماء سیدِ عالم کے جبہ مبارک کے بارے میں فرماتی ہیں
فنحن نغسلها للمرضى يستشفى بها
ترجمہ:
ہم اس جبے مبارک کا دھون مریضوں کے لیے بناتے ہیں تاکہ اس سے (یعنی دھون کو پی کر یا جسم پر لگا کر) شفاء حاصل کی جائے.. (مسلم تحت حدیث2069) نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جبہ مبارک میں اتنی شفا ہے کہ صحابہ کرام اس سے تبرک حاصل کرتے تو بلاشبہ قرآن کریم وغیرہ متبرک کو سمجھ کر اور اس سے تبرک حاصل کرکے، اس کا دھون پی کر شفا حاصل کی جا سکتی ہے
.
*توجہ..........!!*
حدیث پاک میں ہے کہ جب نبی پاک وضو کرتے تو صحابہ کرام نبی پاک کے مبارک ہاتھوں سے لگے پانی کو حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر جلدی کرتے تھے تاکہ وہ اپنے جسموں اور چہروں پر لگائیں...اس پر آپ علیہ السلام نے فرمایا
" لم تفعلون هذا؟ "، قالوا: نلتمس به البركة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من أحب أن يحبه الله ورسوله فليصدق الحديث، وليؤد الأمانة، ولا يؤذي جاره "
.ترجمہ:
رسول کریم نے فرمایا: تم ایسا کیوں کرتے ہو..؟ صحابہ کرام نے عرض کی "ہم اس سے تبرک، برکت حاصل کرتے ہیں، رسول کریم نے فرمایا:
جو یہ چاہتا ہو کہ وہ اللہ اور اسکے رسول کا محبوب ہو جائے تو اسے چاہیے کہ سچ بولے اور امانت ادا کرے(خیانت نا کرے) اور پڑوسیوں کو اذیت نا پہنچائے
(دیکھیے شعب الایمان حدیث9104، جامع الاحادیث 42738)
.
تبرک دوا دعا دم جھاڑ پھونک وغیرہ پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار نہیں فرمایا، شرک بدعت جہالت کا فتوی نہیں لگایا، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا انداز اپنایا کہ تبرک دم جھاڑ پھونک بھی ہو، دعا اور دوا بھی ہو اور نیک اعمال بھی ہوں... تبرک دوا دعا دم جھاڑ پھونک کے ساتھ ساتھ نیک اعمال کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے، اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے...تبرکات دوا دعا دم جھاڑ پھونک پر مذمت ہرگز نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان کے ساتھ ساتھ نیک اعمال کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانی چاہیے...ہم پر اور علماء پر اور خطیبوں پر لازم ہے کہ تبرک دوا دعا دم کے بیان کے ساتھ ساتھ نیک اعمال عقائد و عبادات کی تاکید کریں، ایسا نہ ہو کہ عوام تبرکات دم دعا دوا میں گم ہوتی جائے اور نیک اعمال سے دور ہوتی جائے مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کچھ لوگ عمل کی طرف بلاتے ہیں اور تبرکات دم وغیرہ کی نفی کرتے ہیں جہالت قرار دیتے ہیں جو کہ ہرگز ہرگز ٹھیک نہیں.........!!
.
*ایک اشکال اور اسکا جواب.......!!*
اشکال:
بخاری مسلم کی حدیث پاک میں ہے کہ بغیر حساب کتاب کے جنت میں وہ داخل ہونگے جو کامل توکل کرتے ہونگے دم جھاڑ پھونک نہ کرتے ہونگے...حدیث پاک فقط دو تین چیزوں کے متعلق دم کی رخصت ہے
.
جواب:
اسکا جواب کچھ علماء نے یہ دیا ہے کہ دم جھاڑ پھونک خاص اولیاء کاملین ترک کریں کہ انکا درجہ و توکل اعلی و اتم ہے کہ وہ صبر و شکر کر لیں گے جبکہ عوام اللہ ہی کو حقیقی شافی سمجھ کر دم دوا دعا کریں کہ انکا توکل اتنا کامل نہیں کہ صبر کر سکیں
وَفعله لبَيَان الْجَوَاز وَبِالْجُمْلَةِ هَذَا صفة الْأَوْلِيَاء المعرضين عَن الْأَسْبَاب لَا يلتفتون الى شَيْء من العلائق وَتلك دَرَجَة الْخَواص والعوام رخص لَهُم التَّدَاوِي والمعالجات
(شرح سنن ابن ماجه للسيوطي وغيره ,page 245)
.
کچھ علماء نے یہ جواب دیا ہے کہ جو جاہلیت والی دم جھاڑ پھونک نہیں کرتے...قرآن ذکر ازکار دعا ماثورہ وغیرہ اسلامی متبرک سے دم جھاڑ پھونک کرنا کرانا توکل کے خلاف نہیں بلکہ یہ تو سنت سے ثابت ہے، ایسے دم جھاڑ پھونک کرنے کرانے کا تو حکم ہے...قال أبو الحسن بن القابسى: معنى لا يسترقون. يريد الاسترقاء الذى كانوا يسترقونه فى الجاهلية عند كهانهم وهو استرقاء لما ليس فى كتاب الله ولا بأسمائه وصفاته، وإنما هو ضرب من السحر، فأما الاسترقاء بكتاب الله والتعوذ بأسمائه وكلماته فقد فعله الرسول وأمر به ولا يخرج ذلك من التوكل على الله، ولايرجى فى التشفى به إلا رضا الله
(شرح صحيح البخارى لابن بطال ,9/405)
.
*نجدیوں غیرمقلدوں کا امام شوکانی کا جواب.......!!*
وَالْأَحَادِيثُ الْمَذْكُورَةُ فِي هَذَا الْبَابِ تَدُلُّ عَلَى أَنَّهُ يَجُوزُ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَسْتَرْقِيَ، وَيُحْمَلُ الْحَدِيثُ الْوَارِدُ فِي الَّذِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ وَهُمْ الَّذِينَ لَا يَرْقُونَ وَلَا يَسْتَرْقُونَ عَلَى بَيَانِ الْأَفْضَلِيَّةِ وَاسْتِحْبَابِ التَّوَكُّلِ وَالْإِذْنِ لِبَيَانِ الْجَوَازِ، وَيُمْكِنُ أَنْ يُجْمَعَ بِحَمْلِ الْأَحَادِيثِ الدَّالَّةِ عَلَى تَرْكِ الرُّقْيَةِ عَلَى قَوْمٍ كَانُوا يَعْتَقِدُونَ نَفْعَهَا وَتَأْثِيرَهَا بِطَبْعِهَا كَمَا كَانَتْ الْجَاهِلِيَّةُ يَزْعُمُونَ فِي أَشْيَاءَ كَثِيرَةٍ
حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ دم جھاڑ پھونک کرسکتے ہیں اور وہ جو حدیث پاک میں ہے کہ بغیر حساب کتاب کے جنت میں وہ داخل ہونگے جو کامل توکل کرتے ہونگے دم جھاڑ پھونک نہ کرتے ہونگے...تو اس حدیث سے دم جھاڑ پھونک کی نفی نہیں بلکہ یہ معنی ہے کہ افضل یہ ہے کہ دم جھاڑ پھونک نہ کی جائے اور یہ جواب بھی ممکن ہے کہ اس دم جھاڑ پھونک کی ممانعت ہے جو جاہلیت والا ہو کہ اسکی ذاتی تاثیر کا قائل ہو تو منع ہے(اگر یہ اعتقاد و نظریہ ہو کہ شرعی اسلامی دم جھاڑ پھونک وسیلہ ذریعہ ہے اصل میں شفاء اللہ ہی دیتا ہے تو ممانعت نہیں)
(الشوكاني ,نيل الأوطار ,5/348)
.
*امام نووی کا فیصلہ کن جامع کلام..............!!*
يَسْتَرْقُونَ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ فَقَدْ يظن مخالفا لهذه الأحاديث ولامخالفة بَلِ الْمَدْحُ فِي تَرْكِ الرُّقَى الْمُرَادُ بِهَا الرُّقَى الَّتِي هِيَ مِنْ كَلَامِ الْكُفَّارِ وَالرُّقَى المجهولة والتى بغير العربية ومالا يُعْرَفُ مَعْنَاهَا فَهَذِهِ مَذْمُومَةٌ لِاحْتِمَالِ أَنَّ مَعْنَاهَا كُفْرٌ أَوْ قَرِيبٌ مِنْهُ أَوْ مَكْرُوهٌ وَأَمَّا الرقى بآيات القرآن وبالأذكار المعروفة فلانهى فِيهِ بَلْ هُوَ سُنَّةٌ وَمِنْهُمْ مَنْ قَالَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الْحَدِيثَيْنِ إِنَّ الْمَدْحَ فِي ترك الرقى للأفضيلة وَبَيَانِ التَّوَكُّلِ وَالَّذِي فَعَلَ الرُّقَى وَأَذِنَ فِيهَا لِبَيَانِ الْجَوَازِ مَعَ أَنَّ تَرْكَهَا أَفْضَلُ وَبِهَذَا قال بن عَبْدِ الْبَرِّ وَحَكَاهُ عَمَّنْ حَكَاهُ وَالْمُخْتَارُ الْأَوَّلُ وَقَدْ نَقَلُوا بِالْإِجْمَاعِ عَلَى جَوَازِ الرُّقَى بِالْآيَاتِ وَأَذْكَارِ اللَّهِ تَعَالَى ....فَأَجَابَ الْعُلَمَاءُ عنه بأجوبة أحدها كان نهى أولاثم نَسَخَ ذَلِكَ وَأَذِنَ فِيهَا وَفَعَلَهَا وَاسْتَقَرَّ الشَّرْعُ عَلَى الْإِذْنِ وَالثَّانِي أَنَّ النَّهْيَ عَنِ الرُّقَى الْمَجْهُولَةِ كَمَا سَبَقَ وَالثَّالِثُ أَنَّ النَّهْيَ لِقَوْمٍ كَانُوا يَعْتَقِدُونَ مَنْفَعَتَهَا وَتَأْثِيرَهَا بِطَبْعِهَا كَمَا كَانَتِ الْجَاهِلِيَّةُ تَزْعُمُهُ فِي أَشْيَاءَ كَثِيرَةٍ أَمَّا قَوْلُهُ فِي الْحَدِيثِ الْآخَرِ لَا رُقْيَةَ إِلَّا مِنْ عَيْنٍ أَوْ حُمَةٍ فَقَالَ الْعُلَمَاءُ لَمْ يُرِدْ بِهِ حَصْرَ الرُّقْيَةِ الْجَائِزَةِ فِيهِمَا وَمَنْعَهَا فِيمَا عداهما وانما المراد لارقية أَحَقُّ وَأَوْلَى مَنْ رُقْيَةِ الْعَيْنِ وَالْحُمَّةِ لِشِدَّةِ الضَّرَرِ
خلاصہ:
حدیث پاک میں ہے کہ بغیر حساب کتاب کے جنت میں وہ داخل ہونگے جو کامل توکل کرتے ہونگے دم جھاڑ پھونک نہ کرتے ہونگے تو بظاہر یہ حدیث دم جھاڑ پھونک کی اجازت دینے والی احادیث کے خلاف ہے
تو
علماء نے اس کے مختلف جوابات دییے ہیں
پہلا جواب:
وہ جاہلیت والا دم جھاڑ پھونک نہ کرتے ہونگے کیونکہ اس میں کفریہ شرکیہ الفاظ ہوسکتے ہیں جبکہ اسلامی دم جھاڑ پھونک تو سنت ہے
دوسرا جواب:
دم جھاڑ پھونک سے پہلے منع کیا پھر ممانعت کو منسوخ کر دیا
تیسرا جواب:
دم جھاڑ پھونک اس کے لیے منع ہے جو اسکی ذاتی تاثیر کا قائل ہو(اگر یہ اعتقاد و نظریہ ہو کہ شرعی اسلامی دم جھاڑ پھونک وسیلہ ذریعہ ہے اصل میں شفاء اللہ ہی دیتا ہے تو ممانعت نہیں)
چوتھا جواب:
دم جھاڑ پھونک نہ کرنا افضل ہے کامل توکل والوں کے لیے
مختار و زیادہ معتبر قول:
(امام نووی فرماتے ہیں) قرآن ذکر و ازکار اللہ کے نام دعا ماثورہ وغیرہ اسلامی متبرک سے دم جھاڑ پھونک کے جائز ہونے پے تمام امت کا اجماع و اتفاق ہے اور ایسا دم جھاڑ پھونک سنت سے ثابت ہے لیھذا پہلا جواب ہی مختار ہے کہ وہ دم جھاڑ پھونک نہیں کرتے جو جاہلیت والا ہو
اور
وہ جو ہے کہ فقط دو تین امور میں دم جھاڑ پھونک کی اجازت ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ ان دو تین امور میں دم جھاڑ پھونک زیادہ تاکید سے ہے کہ ان میں ضرر شدید ہے ورنہ ہر مرض سے اسلامی دم جھاڑ پھونک جائز و سنت ہے
(شرح النووي على مسلم ,14/168)
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App,twitter nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574
MashAllah bht informative blog hy
ReplyDelete