Labels

کچھ فضائل و سیرت سیدنا معاویہ تفاسیر سے احادیث سے امام بخاری سے امام احمد سے اسلاف سے صحابہ تابعین سے اور شیعہ کتب سے

 *بعض فضائل و احوالِ سیدنا معاویہ تفاسیر و احادیث و اقوال صحابہ اور امام احمد بن حنبل اور امام بخاری اور امام غزالی و پیران پیر وغیرہ اکابرین کے اقوال سے شان معاویہ ملاحظہ کیجیے اور سیدنا معاویہ کے متعلق کچھ حوالہ جات شیعہ کتب سے........!!*


سوال:

علامہ صاحب روافض نیم روافض اعتراض کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ کے فضائل ثابت نہیں،ہر صحابی نبی جنتی جنتی پے بھی اعتراض کرتے ہیں،کہتے ہیں امام بخاری وغیرہ مشھور محدثین فضائل معاویہ کے منکر تھے تبھی تو فضائل معاویہ کا باب نہ باندھا

.

*جواب.و.تحقیق......!!*


القرآن:

لَا یَسۡتَوِیۡ  مِنۡکُمۡ مَّنۡ  اَنۡفَقَ مِنۡ قَبۡلِ الۡفَتۡحِ وَ قٰتَلَ ؕ اُولٰٓئِکَ  اَعۡظَمُ  دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ  بَعۡدُ وَ قٰتَلُوۡا ؕ وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ  الۡحُسۡنٰی

 تم میں سے جس نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا اور جہاد کیا ان کا درجہ ان لوگوں سے زیادہ ہے کہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور جہاد کیا لیکن سارے صحابہ سے اللہ تعالی نے اچھا وعدہ یعنی جنت کا وعدہ کیا ہے

(سورہ الحدید آیت10)

.

آیت کی تفسیر ملاحظہ کیجیے کہ سیدنا ابوبکر و عمر سیدنا علی و سیدنا معاویہ مہاجرین انصار اور ان کے بعد کے سارے صحابہ کرام جنتی ہیں...ہر صحابی نبی جنتی جنتی

①*صحابی سیدنا ابن عباس کا عقیدہ:*

مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْح} فتح مَكَّة {وَقَاتل} الْعَدو مَعَ النبى صلى الله عَلَيْهِ وَسلم {أُولَئِكَ} أهل هَذِه الصّفة {أَعْظَمُ دَرَجَةً} فَضِيلَة ومنزلة عِنْد الله  بِالطَّاعَةِ وَالثَّوَاب {مِّنَ الَّذين أَنفَقُواْ مِن بَعْدُ} من بعد فتح مَكَّة {وَقَاتَلُواْ} الْعَدو فِي سَبِيل الله مَعَ النبى صلى الله عَلَيْهِ وَسلم {وكلا} كلا لفريقين  من أنْفق وَقَاتل من قبل الْفَتْح وَبعد الْفَتْح {وَعَدَ الله الْحسنى} الْجنَّة

یعنی 

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ سے پہلے جن صحابہ کرام نے خرچ کیا جہاد کیا اور فتح مکہ کے بعد جنہوں نے خرچ کیا جہاد کیا ان کے درجات میں اگرچہ تفاوت ہے لیکن سب صحابہ کرام سے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ کیا ہے 

(تنوير المقباس من تفسير ابن عباس ص457)

.

*②امام القرظی تابعی( وفات180ھجری تقریبا) کا عقیدہ:*

وقال محمد بن كعب القرظي: أوجب الله  لجميع الصحابة الجنة والرضوان

ترجمہ 

محمد بن كعب القرظي علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے تمام صحابہ کے لیے جنت اور رضامندی کو واجب کردیا ہے 

(أنموذج اللبيب في خصائص الحبيب1/236)

.

*③امام مقاتل وفات تقرہبا150ھجری کا عقیدہ:*

 لا يَسْتَوِي مِنْكُمْ فى  الفضل والسابقة مَنْ أَنْفَقَ مِنْ ماله قَبْلِ الْفَتْحِ فتح مكة «وَقاتَلَ» «1» العدو أُولئِكَ  أَعْظَمُ دَرَجَةً يعني جزاء مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ من بعد فتح مكة وَقاتَلُوا «2»  العدو وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنى يعني الجنة، يعني كلا الفريقين وعد الله الجنة

یعنی

جن صحابہ نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا قتال کیا اور جہاد کیا انکا درجہ زیادہ عظیم ہے ان صحابہ سے کہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا جہاد کیا لیکن سب صحابہ کے لئے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے  

(تفسير مقاتل بن سليمان4/239)

.

*④امام ابن وھب وفات تقریبا192ہجری کا عقیدہ:*

{لا يستوي منكم من أنفق من قبل الفتح}، قال: فتح مكة...فَالْحُسْنَى الْجَنَّةُ

یعنی

فتح مکہ سے پہلے جنہوں نے خرچ کیا وہ عظیم درجے والے ہیں ان کے برابر نہیں ہو سکتے وہ صحابہ کہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا لیکن سب صحابہ کے لئے جنت کا وعدہ ہے 

(تفسير القرآن من الجامع لابن وهب62 ,1/176)


.

*⑤امام سمرقندی وفات تقریبا 373ھجری کا عقیدہ:*

.من أنفق وقاتل مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ يعني: فتح  مكة. ونزلت الآية في شأن أصحاب رسول الله صلّى الله عليه وسلم المهاجرين والأنصار. يعني: الذين أنفقوا أموالهم مع  رسول الله صلّى الله عليه وسلم، وقاتلوا الكفار، لا يستوي حالهم وحال غيرهم. ويقال: هذا  التفضيل لجميع أصحابه رضي الله عنهم أجمعين.

وعد الله كلا الحسني يعني الجنة

یعنی

یہ آیت مبارکہ صحابہ کرام کے بارے میں نازل ہوئی کہ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا تھا جہاد کیا کہ یہ عظیم مرتبے والے ہیں ان کے مرتبے کو وہ صحابہ نہیں پہنچ سکتے کہ جو فتح مکہ کے بعد والے ہیں لیکن سب کے سب صحابہ کے لیے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے 

(تفسير السمرقندي = بحر العلوم3/403ملتقطا)

.

*⑥امام ابن ابی زمنین وفات399ھجری کاعقیدہ:*

لا یَسْتَوِي من أنْفق مِنْكُم من قبل الْفَتْح وَقَاتل، وَهُوَ فتح مَكَّة.

(أُوْلَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلاًّ وَعَدَ اللَّهُ لْحُسْنَى} يَعْنِي: الْجنَّة؛ من أنْفق وَقَاتل قبل فتح مَكَّة وَبعده

یعنی

تم صحابہ کرام میں سے جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ کیا اور جہاد کیا ان کا درجہ ان صحابہ کرام سے زیادہ ہے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور جہاد کیا لیکن سب صحابہ سے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے، چاہے فتح مکہ سے پہلے والے ہوں یا فتح مکہ کے بعد والے 

(تفسير القرآن العزيز لابن أبي زمنين4/349,350)

.

.

 ⑦يعني: فتح مكة {وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى} كلا الفريقين وعد الله الحسنى الجنة

یعنی

فتح مکہ سے پہلے والے اور فتح مکہ کے بعد والے سب صحابہ کرام سے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ کیا ہے 

(التفسير الوسيط4/246)

.

⑧يستوي منكم مَنْ أنفق من قبل الفتح} يعني: فتح مكَّة {وقاتل} جاهد مع رسول  الله صلى الله عليه وسلم أعداء الله {أولئك أعظم درجة} يعني: عند الله {من الذين أنفقوا من بعد} الفتح {وقاتلوا وكلاً} من الفريقين {وعد الله الحسنى} الجنَّة

یعنی

فتح مکہ سے پہلے جن صحابہ کرام نے خرچ کیا اور جہاد کیا ان کا درجہ ان سے زیادہ ہے کہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور جہاد کیا لیکن سب صحابہ سے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ کیا ہے 

(الوجيز للواحدي تحت سورہ حدید ایت10)

.

⑨ثواباً جزيلاً وهو الجنة، و (منهم) هنا بيانية وليست تبعيضية، (وعد الله الذين آمنوا وعملوا الصالحات منهم)  هذه بيان لجميع الصحابة، وليست لبعض منهم

یعنی 

فتح مکہ والے اور فتح مکہ کے بعد والے سب سے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے یہ آیت و فضیلت تمام صحابہ کرام کے لئے ہے بعض کے لئے نہیں ہے 

(تفسير محمد إسماعيل المقدم تفسیر سورہ فتح آیت25_29)

.

10=أَي: لَا يَسْتَوِي من أنْفق  وَقَاتل قبل فتح مَكَّة، وَمن أنْفق وَقَاتل بعد فتح مَكَّة..{وكلا وعد الله الْحسنى} أَي: الْجنَّة

یعنی

جن صحابہ کرام نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا اور جہاد کیا وہ اور وہ صحابہ کہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا جہاد کیا برابر نہیں ہو سکتے لیکن تمام صحابہ کرام سے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ کیا ہے 

(السمعاني، أبو المظفر5/367,368)

.


 11=الْمُرَادُ بِهَذَا الْفَتْحِ فَتْحُ  مَكَّةَ،: أَيْ وَكُلَّ وَاحِدٍ مِنَ الْفَرِيقَيْنِ  وَعَدَ اللَّه بالحسنى أَيِ الْمَثُوبَةَ الْحُسْنَى، وَهِيَ الْجَنَّةُ

آیت میں فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور دونوں فریقین یعنی سب صحابہ کے لئے اللہ تعالی نے اچھا وعدہ یعنی جنت کا وعدہ کیا ہے 

(تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير29/453)

.

12=وَالْجُمْهُورُ على أن المراد بالفتح هاهنا فَتْحُ مَكَّةَ،

جمہور اور اکثر علماء اس بات پے ہیں کہ یہاں فتح سے مراد فتح مکہ ہے 

(تفسير ابن كثير ط العلمية8/46)

.

13=:أَكْثَرُ الْمُفَسِّرِينَ عَلَى أَنَّ الْمُرَادَ بِالْفَتْحِ فَتْحُ مَكَّةَ...(وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنى) أَيِ الْمُتَقَدِّمُونَ الْمُتَنَاهُونَ  السَّابِقُونَ، وَالْمُتَأَخِّرُونَ اللَّاحِقُونَ، وَعَدَهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا الْجَنَّةَ مَعَ تَفَاوُتِ الدَّرَجَاتِ

یعنی 

اکثر مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور اللہ تعالی نے سب صحابہ کے لئے جنت کا وعدہ کیا ہے درجات کی اونچ نیچ کے ساتھ 

(تفسير القرطبی,17/239,241)

.

14=وَظَاهِرُ لَفْظِ الْفَتْحِ أَنَّهُ فَتْحُ مَكَّةَ فَإِنَّ هَذَا الْجِنْسَ الْمُعَرَّفَ صَارَ عَلَمًا بِالْغَلَبَةِ عَلَى فَتْحِ مَكَّةَ، وَهَذَا قَوْلُ جُمْهُورِ الْمُفَسِّرِينَ

یعنی 

ظاہر یہی ہے کہ فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور یہ جمہور مفسرین کا قول ہے 

(التحرير والتنوير 27/374 )

.

15=لا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ}  يَعْنِي فَتْحَ مَكَّةَ فِي قَوْلِ أَكْثَرِ الْمُفَسِّرِينَ، وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: هُوَ صُلْحُ الْحُدَيْبِيَةِ {وَقَاتَلَ}  يَقُولُ: لَا يَسْتَوِي فِي الْفَضْلِ مَنْ أَنْفَقَ مَالَهُ وَقَاتَلَ الْعَدُوَّ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ فَتْحِ مَكَّةَ مَعَ مَنْ أَنْفَقَ وَقَاتَلَ بَعْدَهُ {أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا} .وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى} أَيْ كِلَا الْفَرِيقَيْنِ وَعَدَهُمُ اللَّهُ الْجَنَّةَ

یعنی

امام شعبی کا قول ہے کہ فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے لیکن اکثر مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں فتح سے مراد فتح مکہ ہےاور وہ صحابہ کرام کہ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا جہاد کیا ان کا درجہ عظیم ہے ان صحابہ کرام سے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا جہاد کیا اور اللہ تعالی نے دونوں فریقین یعنی سب صحابہ کرام سے جنت کا وعدہ کیا ہے  

(تفسير البغوي - طيبة8/33,34)

.

اور سیدنا معاویہ فتح مکہ کے بعد ایمان لائے وہ عظیم فقیہ صحابہ کرام میں سے تھے جیسے کہ نیچے حوالہ جات ائیں گے لیھذا اس ایت میں سیدنا معاویہ کی بھی فضیلت ہے، ان کے لیے بھی جنت کا وعدہ ہے.....!!

.=====================

*سیدنا معاویہ کے مطلق فضائل......!!*

الحدیث:

خَيْرُكُمْ قَرْنِي...تم میں سے بہترین اور خیر و بھلائی سے بھرپور لوگ وہ ہیں جو(صحابہ کرام و اہلبیت عظام وغیرہ مسلمین)میری اس قرن(صدی)والے ہیں

(بخاری حدیث2651)

.

قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: أَيُّهُمَا أَفْضَلُ: مُعَاوِيَةُ أَوْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ؟ فَقَالَ: «مُعَاوِيَةُ أَفْضَلُ، لَسْنَا نَقِيسُ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا» . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِيَ الَّذِينَ بُعِثْتُ فِيهِمْ

 امام احمد بن حنبل سے سوال کیا گیا کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز، امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں... ہم کسی غیر صحابی(حتی کہ عظیم الشان تابعی وغیرہ جیسے عمر بن عبدالعزیز)کو(سیدنا معاویہ وغیرہ)کسی صحابی کے برابر نہیں کرسکتے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے افضل ترین وہ لوگ(صحابہ) ہیں کہ جن میں میں ظاہری حیات رہا

(السنة لأبي بكر بن الخلال2/434)

ثابت ہوا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فضیلت والے صحابی ہیں، غیر صحابی بڑے بڑے متقی پرہیزگار صوفیاء اولیاء علماء سیدنا معاویہ کے برابر نہیں ہوسکتے

.

وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي....رسول کریمﷺنےفرمایا:

میرے صحابہ میری امت کے لیے (ستاروں کی طرح) امان ہیں

(مسلم حدیث6466)

.

وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي

رسول کریمﷺنےفرمایا:

جس نےمیرےصحابہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی(ترمذی حدیث3862)

.

فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ

رسول کریمﷺنےفرمایا:

(میرے صحابہ کی تو ایسی عظیم شان و فضیلت و عظمت ہے کہ)تم میں سے کوئی احد پہاڑ جتنا سونا خرچ کرے تو میرے صحابہ کے ایک مد یا آدھے مد کے برابر نہیں

(بخاری حدیث3673)

.

الحدیث:

فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ،

رسول کریمﷺنےفرمایا:

جو میرے صحابہ سے محبت رکھے تو یہ مجھ سے محبت ہے اسی وجہ سے میں اس سے محبت رکھتا ہوں اور جو ان سے بغض کرے نفرت و گستاخی کرے تو یہ مجھ سے بغض و نفرت ہے...(ترمذی حدیث3862)

.

مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے میرے صحابہ کی گستاخی کی اس پر اللہ کی لعنت ہے

(استاد بخاری المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت6/405)

(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل2/908نحوہ)

(جامع الأحاديث سیوطی16/149نحوہ)

(السنة لابن أبي عاصم2/483نحوہ)

.

الحدیث:

 لاَ تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي أَوْ رَأَى مَنْ رَآنِي

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے مجھے حالت اسلام میں دیکھا (اور اس کی وفات حالت ایمان میں ہوئی )تو اسے آگ نہ چھوئے گی اور اس کو بھی آگ نہ چھوئے گی جو میرے صحابہ کو حالت ایمان میں دیکھے(اور حالت ایمان میں وفات پا جائے)

(ترمذی حدیث3858حسن)

(حسن، كتاب مشكاة المصابيح حدیث6013)

( جامع الأحاديث حدیث16938)

( الرياض النضرة 1/220)

(الجامع الصغير وزيادته حدیث14424)

(السنة لابن أبي عاصم 2/630)

(کنز العمال حدیث32480-)

 

رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَعَنْ جَمِيعِ الصَّحَابَةِ الَّذِينَ ضَمِنَ اللَّهُ لَهُمْ فِي كِتَابِهِ أَنَّهُ لَا يُخْزِيهِمْ , وَأَنَّهُ يُتِمُّ لَهُمْ نُورَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , وَيَغْفِرُ لَهُمْ...أَخْبَرَ أَنَّهُ قَدْ رَضِيَ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ , وَأَنَّهُ أَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا , فَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ , وَنَفَعَنَا بِحُبِّهِمْ , وَبِحُبِّ أَهْلِ بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَبِحُبِّ أَزْوَاجِهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ

یعنی

اللہ تعالی تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جائے کہ جن کے بارے میں اللہ تعالی نے ضمانت دی ہے اپنی کتاب میں اور ان کے لیے تیار رکھا ہے جنت کو اور ان سے راضی ہوا ہے اللہ ہمیں ان کی محبت سے سرفراز فرمائے اور اہل بیت کی محبت عطا فرمائے اور ازواج مطہرات کی محبت عطا فرمائے 

(الشريعة للآجري قبل الحدیث1168)

.

غوث اعظم دستگیر فرماتے ہیں

ومن رآني فله الجنة

حضور علیہ الصلوۃ و السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ جس نے مجھے دیکھا(یعنی صحابہ کرام جن کی وفات حالات اسلام میں ہوئی)وہ سب جنتی ہیں 

( الغنية لطالبي طريق الحق2/144)

.

يُشِيرُ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللَّهُ إِلَى الرَّدِّ عَلَى الرَّوَافِضِ وَالنَّوَاصِبِ. وَقَدْ أَثْنَى اللَّهُ تَعَالَى عَلَى الصَّحَابَةِ هُوَ وَرَسُولُهُ، وَرَضِيَ عَنْهُمْ، وَوَعَدَهُمُ الْحُسْنَى.كَمَا قَالَ تَعَالَى: {وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ} [التَّوْبَةِ: 100] .

یعنی 

علامہ طحاوی رحمۃ اللہ تعالی اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس میں رد ہے رافضیوں کا اور ناصبیوں کا وہ اس طرح کے اللہ تعالی نے تمام صحابہ کرام سے سابقین اولین مہاجرین و انصار وغیرہ جو ان کے بعد آئے ان سب سے اللہ تعالی راضی ہوا اور ان کے لیے جنت کا وعدہ فرمایا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے 

(,شرح الطحاوية ت الأرناؤوط ,2/689)

.

صحابی کی معتبر تعریف یہ ہے

①الصَّحابيِّ مَنْ لَقِيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ [تَعالى] عليهِ [وآلهِ] وسلَّمَ ُمؤمِناً بهِ وماتَ عَلى الإِسلامِ

صحابی اس کو کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو یا ملاقات کی ہو اور اس کی وفات اسلام پر ہوئی ہو 

[نزهة النظر في توضيح نخبة الفكرpage 111]

.


②مَنْ لَقِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْلِمًا وَمَاتَ عَلَى إِسْلَامِهِ.

صحابی وہ ہے جس نے اسلام کی حالت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو یا ملاقات کی ہو اور اسلام پر ہی وفات پائی ہو

[تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ,2/667]

.


لہذا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتد ہو گئے وہ صحابہ نہیں،صحابی تو ہوتا ہے کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھے یا ملاقات کرے اور حالت ایمان پر اس کی وفات ہو۔۔۔۔صحابہ کرام تمام کے تمام عدول و نیک اور جنتی ہیں ان میں کوئی بھی کافر مرتد گستاخ فاسق نہیں۔۔۔۔حتی کہ آپس میں جنگ کرنے والے صحابہ کرام مثلا سیدنا معاویہ سیدنا علی وغیرہ رضی اللہ عنھم اجمعین بھی فاسق نہیں۔۔۔صحابہ کرام کو عادل و نیک  ہم نے اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ قرآن کی آیات اور احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ صحابہ کرام عادل اور نیک تھے مرتد گستاخ و فاسق نہیں

۔

قَالَ الخَطِيْبُ البَغْدَادِيُّ رَحِمَهُ اللهُ بَعْدَ أنْ ذَكَرَ الأدِلَّةَ مِنْ كِتَابِ اللهِ، وسُنَّةِ رَسُوْلِ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -، الَّتِي دَلَّتْ على عَدَالَةِ الصَّحَابَةِ وأنَّهُم كُلُّهُم عُدُوْلٌ، قَالَ: «هَذَا مَذْهَبُ كَافَّةِ العُلَمَاءِ، ومَنْ يَعْتَدُّ بِقَوْلِهِم مِنَ الفُقَهَاءِ

خطیب بغدادی نے قرآن سے دلاءل ذکر کیے، رسول اللہ کی سنت سے دلائل ذکر کیے اور پھر فرمایا کہ ان سب دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام صحابہ کرام عادل ہیں(فاسق و فاجر ظالم گمراہ نہیں)اور یہی مذہب ہے تمام علماء کا اور یہی مذہب ہے معتدبہ فقہاء کا 

(الكفاية ص67)

.

أجمعت الأمة على وجوب الكف عن الكلام في الفتن التي حدثت بين الصحابة.

ونقول: كل الصحابة عدول، وكل منهم اجتهد، فمنهم من اجتهد فأصاب كـ علي فله أجران، ومنهم من اجتهد فأخطأ كـ معاوية فله أجر، فكل منهم مأجور، القاتل والمقتول، حتى الطائفة الباغية لها أجر واحد لا أجران، يعني: ليس فيهم مأزور بفضل الله سبحانه وتعالى.

امت کا اجماع ہے کہ صحابہ کرام میں جو فتنے جنگ ہوئی ان میں نہ پڑنا واجب ہے تمام صحابہ کرام عادل ہیں(فاسق و فاجر ظالم گمراہ نہیں)ان میں سے ہر ایک مجتہد ہے اور جو مجتہد حق کو پا لے جیسے کہ سیدنا علی تو اسے دو اجر ہیں اور جو مجتہد خطاء پر ہو جیسے سیدنا معاویہ تو اسے ایک اجر ملے گا لہذا سیدنا علی اور معاویہ کے قاتل مقتول سب جنتی ہیں حتیٰ کہ سیدنا معاویہ کا باغی گروہ بھی جنتی ہے اسے بھی ایک اجر ملے گایعنی تمام صحابہ میں سے کوئی بھی گناہ گار و فاسق نہیں اللہ کے فضل سے  

[شرح أصول اعتقاد أهل السنة للالكائي ١٣/٦٢]

.

قال حجة الإسلام الغزالي رحمه الله يحرم على الواعظ وغيره......وما جرى بين الصحابة من التشاجر والتخاصم فانه يهيج بغض الصحابة والطعن فيهم وهم اعلام الدين وما وقع بينهم من المنازعات فيحمل على محامل صحيحة فلعل ذالك لخطأ في الاجتهاد لا لطلب الرياسة او الدنيا كما لا يخفى وقال في شرح الترغيب والترهيب المسمى بفتح القريب والحذر ثم الحذر من التعرض لما شجر بين الصحابة فانهم كلهم عدول خير القرون مجتهدون مصيبهم له أجران ومخطئهم له أجر واحد

یعنی

حجة الاسلام امام غزالی نے فرمایا کہ صحابہ کرام کے درمیان جو مشاجرات ہوئےان کو بیان کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے خدشہ ہے کہ صحابہ کرام کے متعلق بغض بغض اور طعن پیدا ہو۔ ۔۔۔۔۔صحابہ کرام میں جو مشاجرات ہوئے ان کی اچھی تاویل کی جائے گی کہا جائے گا کہ ان سے اجتہادی خطا ہوئی انہیں حکومت و دنیا کی طلب نہ تھی

ترغیب وترہیب کی شرح میں ہے کہ

مشاجرات صحابہ میں پڑنے سے بچو بے شک تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)تمام صحابہ کرام خیرالقرون ہیں مجتہد ہیں مجتہد میں سے جو درستگی کو پہنچا اس کے لئے دو اجر اور جس نے خطا کی اس کے لیے ایک اجر 

[روح البيان، ٤٣٧/٩]

.

قال ابن الصّلاح: «ثم إن الأمة مجمعة على تعديل جميع الصّحابة ومن لابس الفتن منهم، فكذلك بإجماع العلماء الذين يعتدّ بهم في الإجماع قال الخطيب البغداديّ في الكفاية» مبوبا على عدالتهم: عدالة الصحابة ثابتة معلومة بتعديل اللَّه لهم، وإخباره عن طهارتهم واختياره لهم في نص القرآن

یعنی

محقق عظیم علامہ ابن صلاح فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 

وہ صحابہ کرام بھی عدل ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے اس پر معتدبہ علماء کا اجماع ہے

محقق عظیم واعظ اور علامہ خطیب بغدادی فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل ہیں(فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)صحابہ کرام کی تعدیل اللہ نے فرمائی ہے اور اللہ نے ان کی پاکیزگی کی خبر دی ہے 

[ابن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ٢٢/١]

۔

.

الصحابة كلهم عدول

تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 

[عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ١٧٨/١٠]

.

أن الصحابة كلهم عدول من لابس منهم الفتنة ومن لم يلابس

تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں) 

وہ بھی عدل ہیں جو فتنوں جنگوں میں پڑے اور وہ بھی عادل ہیں جو نہ پڑے 

[تفسير الألوسي = روح المعاني، ١٤٠/٦]

.

امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں:

فان معاویة واحزابه بغوا عن طاعته مع اعترافهم بانه افضل اھل زمانه وانه الاحق بالامامة بشبهه هی ترک القصاص عن قتله عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنه ونقل فی حاشیة کمال القری عن علی کرم اللہ تعالیٰ وجهه انہ قال اخواننا بغوا علینا ولیسوا کفرة ولا فسقة لما لھم من التاویل وشک نیست کہ خطاء اجتہادی از ملامت دور است واز طعن وتشنیع مرفوع

بے شک معاویہ اور اس کے لشکر نے حضرت علی  سے بغاوت کی، باوجودیکہ کہ وہ مانتے تھے کہ وہ یعنی سیدنا علی تمام اہل زمانہ سے افضل ہے اور وہ اس سے زیادہ امامت کا مستحق ہے ازروئے شبہ کے اور وہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے قصاص کا ترک کرنا ہے ۔ اور حاشیہ کمال القری میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ہمارے بھائیوں نے ہم پر بغاوت کی حالانکہ نہ ہی وہ کافر ہیں اور نہ ہی فاسق کیونکہ ان کے لیے تاویل ہے

اور شک نہیں کہ خطائے اجتہادی ملامت سے دور ہے اور طعن وتشنیع سے مرفوع ہے

(مکتوبات امام ربانی 331:1کاپڈ) 

.


محبوب سبحانی سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:

واتفق أهل السنة على وجوب الكف عما شجر بينهم، والإمساك عن مساوئهم، وإظهار فضائلهم ومحاسنهم، 

ترجمہ:

اہلسنت کا اس پر اتفاق ہے کہ صحابہ کرام مین جو اختلافات و مشاجرات ہوئے، جو کچھ سیدنا علی و طلحہ و زبیر وعائشہ و معاویہ میں جو کچھ جاری ہوا ان مین ہم اپنی ربان کو لگام دیں اور ان کی مذمت و برائی سے رک جائیں، اور ان کے فضائل و اچھائیاں بیان کریں 

(غنیۃ الطالبین جلد1 ص161,163ملتقتا مع حذف یسیر)

.


وقد قال - صلى الله عليه وسلم: " «إذا ذكر أصحابي فأمسكوا» " أي: عن الطعن فيهم، فلا ينبغي لهم أن يذكروهم إلا بالثناء الجميل والدعاء الجزيل، وهذا مما لا ينافي أن يذكر أحد مجملا أو معينا بأن المحاربين مع علي ما كانوا من المخالفين، أو بأنمعاوية وحزبه كانوا باغين على ما دل عليه حديث عمار: " «تقتلك الفئةالباغية» " ; لأن المقصود منه بيان الحكم المميز بين الحق والباطل والفاصل بين المجتهد المصيب، والمجتهد المخطئ، مع توقير الصحابة وتعظيمهم جميعا في القلب لرضا الرب

ترجمہ:

اور بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ میرے صحابہ کا ذکر ہو تو رک جاؤ، یعنی لعن طعن سے رک جاؤ...تو ضروری ہے کہ انکا ذکر ایسے ہو کہ انکی مدح سرائی کی جائے اور دعاء جزیل دی جائے، لیکن اسکا یہ مطلب نہین کہ حضرت علی سے جنگ کرنے والوں کو یا سیدنا معاویہ اور انکے گروہ کو باغی نا کہا جائے(بلکہ مجتہد باغی کہا جائے گا یہ فضائل بیان کرنے کے منافی نہین کہ مجتہد باغی گناہ نہیں) کیونکہ حدیث عمار کہ اے عمار رضی اللہ عنہ تجھے باغی گروہ قتل کرے گا....کیونکہ (اجتہادی باغی خاطی کہنا مذمت کے لیے نہین بلکہ)اس لیے ہے کہ وہ حکم واضح کر دیا جائے جو حق و باطل میں تمییز کرے اور مجتہد مصیب اور مجتہد خطاء کار مین فیصلہ کرے، اس کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کی(فقط زبانی منافقانہ نہیں بلکہ) دلی تعظیم و توقیر ہو، اللہ کی رضا کی خاطر

(مرقاۃ تحت الحدیث3397ملتقط)

.

سَأَلْتُ أَبَا أُسَامَةَ أَيُّمَا كَانَ أَفْضَلَ مُعَاوِيَةُ أَوْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ؟ فَقَالَ: لَا نَعْدِلُ بِأَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا

 ابو اسامہ سے سوال کیا کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز، آپ نے فرمایا کہ ہم کسی غیر صحابی(حتی کہ عظیم الشان تابعی وغیرہ جیسے عمر بن عبدالعزیز)کو(سیدنا معاویہ وغیرہ)کسی صحابی کے برابر نہیں کرسکتے

(جامع بيان العلم وفضله2/1173)

ثابت ہوا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فضیلت والے صحابی ہیں، غیر صحابی بڑے بڑے متقی پرہیزگار صوفیاء اولیاء علماء سیدنا معاویہ کے برابر نہیں ہوسکتے

.

وَقَالَ رَجُلٌ لِلْمُعَافَى بْنِ عِمْرَانَ: أَيْنَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنْ مُعَاوِيَةَ ؟! .. فَغَضِبَ وَقَالَ: لَا يُقَاسُ بِأَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ

 ایک شخص نے المعافی سے پوچھا کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز کا مرتبہ سیدنا معاویہ کے معاملے میں کتنا ہے...؟؟ آپ غضبناک ہو گئے اور فرمایا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی صحابی(سیدنا معاویہ وغیرہ) کے برابر کوئی نہیں ہو سکتا

(الشفا بتعريف حقوق المصطفى2/123)

ثابت ہوا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فضیلت والے صحابی ہیں، غیر صحابی بڑے بڑے متقی پرہیزگار صوفیاء اولیاء علماء سیدنا معاویہ کے برابر نہیں ہوسکتے

.

معاوية بن أبى سفيان الصحابى ابن الصحابى

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنھما صحابی ہیں اور آپ کے والد بھی صحابی ہیں

(تهذيب الأسماء واللغات2/101))

.

مُعَاوِيَةَ وَيَقُولُ: كَانَ مِنَ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ

سیدنا فضیل فرماتے ہیں سیدنا معاویہ اصحاب محمد کے علماء صحابیوں میں سے ہیں

(السنة لأبي بكر بن الخلال2/438)

.

وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ مِنَ الْعُدُولِ الْفُضَلَاءِ وَالصَّحَابَةِ النُّجَبَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَمَّا الْحُرُوبُ الَّتِي جَرَتْ فَكَانَتْ لِكُلِّ طَائِفَةٍ شُبْهَةٌ اعْتَقَدَتْ تَصْوِيبَ أَنْفُسِهَا بِسَبَبِهَا وَكُلُّهُمْ عُدُولٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَمُتَأَوِّلُونَ فِي حُرُوبِهِمْ وَغَيْرِهَا وَلَمْ يُخْرِجْ شئ مِنْ ذَلِكَ أَحَدًا مِنْهُمْ عَنِ الْعَدَالَةِ لِأَنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ اخْتَلَفُوا فِي مَسَائِلَ مِنْ مَحَلِّ الِاجْتِهَادِ كَمَا يَخْتَلِفُ الْمُجْتَهِدُونَ بَعْدَهُمْ فِي مَسَائِلَ مِنَ الدِّمَاءِ وَغَيْرِهَا وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ نَقْصُ أَحَدٍ مِنْهُمْ

سیدنا معاویہ عادل و دیندار فضیلت والے نجباء صحابہ میں سے ہیں باقی جو ان میں جنگ ہوئی تو ان میں سے ہر ایک کے پاس شبہات تھے اجتہاد جس کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی عادل ہونے کی صفت سے باہر نہیں نکلتا اور ان میں کوئی نقص و عیب نہیں بنتا

(امام نووي ,شرح النووي على مسلم ,15/149)


.=====================

*فضائل معاویہ میں صحیح حدیث وہ بھی بخاری سے*

الحدیث:

أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ البَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا

میری امت کا پہلا گروہ کہ جو بحری جہاد کرے گا ان کے لئے جنت واجب ہے 

(صحيح البخاري,4/42حدیث2924)

(المعجم الكبير  للطبراني حدیث323)

(دلائل النبوة للبيهقي مخرجا 6/452)

(مستدرك للحاکم4/599حدیث8668)

۔

أَرَادَ بِهِ جَيش مُعَاوية،وَإِنَّمَا مَعْنَاهُ: أوجبوا اسْتِحْقَاق الْجنَّة

مذکورہ حدیث میں جنتی گروہ سے مراد سیدنا معاویہ کا گروہ ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ جنت کا مستحق ہونا واجب ہوگیا 

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري14/198ملتقطا)

.


أوجبوا") يعني: الجنة،

یعنی وہ گروہ جو سب سے پہلے بحری جہاد کرے گا ان کے لئے جنت واجب ہے

(التوضيح لشرح الجامع الصحيح ,17/661)


.

أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ،

 سب سے پہلے مسلمانوں نے جو بحری جہاد کیا وہ معاویہ بن سفیان کے ساتھ کیا 

(سنن ابن ماجه ,2/927)

.

أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ،

سب سے پہلے مسلمانوں نے جو بحری جہاد کیا وہ معاویہ بن سفیان کے ساتھ کیا 

(صحيح ابن حبان - محققا10/468)

.

أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ

سب سے پہلے مسلمانوں نے جو بحری جہاد کیا وہ معاویہ بن سفیان کے ساتھ کیا

(البداية والنهاية ط الفكر6/222)

.

 أَوَّلُ مَنْ غَزَا فِي الْبَحْرِ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ زَمَانَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے بحری جہاد کیا سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں

(تاريخ الطبري4/260)


.

هذا الحديث منقبة لمعاوية لأنه أول من غزا في البحر

یہ حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی منقبت ثابت کرتی ہے کیونکہ سیدنا معاویہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے بحری جہاد کیا 

(السراج المنير شرح الجامع الصغير,2/205)

.

وَفِيهِ فَضْلٌ لِمُعَاوِيَةَ إِذْ جَعَلَ مَنْ غَزَا تَحْتَ رَايَتِهِ مِنَ الْأَوَّلِينَ

یعنی اس حدیث پاک سے معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اسی کے جھنڈے تلے مسلمانوں نےسب سے پہلے بحری جہاد کیا

(الاستذکار لابن عبد البر5/128)

.

فضیلت میں ضعیف و حسن احادیث قبول ہوتی ہے،سیدنا معاویہ کی فضیلت میں کچھ ضعیف و حسن احادیث بھی ہیں اس کے علاوہ مذکوہ صحیح حدیث بھی سیدنا معاویہ کی فضیلت میں ہے، وہ جو کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ کی فضیلت میں صحیح حدیث نہیں یہ انکی کم علمی یا غلط فھمی یا بےتوجھی ہے

.=======================

*سیدنا معاویہ کی حکومت سیدنا عمر کی حکومت جیسی عادلانہ برحق تھی،رضی اللہ تعالیٰ عنھما*

عَمِلَ مُعَاوِيَةُ بِسِيرَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ سِنِينَ لَا يَخْرِمُ مِنْهَا شَيْئًا»

سیدنا معاویہ نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت پر سالوں تک عمل کیا۔۔۔ان سالوں میں سوئی برابر بھی راہ حق سے نہ ہٹے 

(السنة لأبي بكر بن الخلال روایت683)

وقال المحقق إسناده صحيح

(حاشیۃ معاوية بن أبي سفيان أمير المؤمنين وكاتب وحي النبي الأمين صلى الله عليه وسلم - كشف شبهات ورد مفتريات1/151)

سالوں کی قید شاید اس لیے لگاءی کہ تاکہ وہ سال نکل جائیں جن میں سیدنا معاویہ نے ولی عہد کیا...کیونکہ ولی عہد سیدنا عمر کی سیرت نہیں بلکہ سیدنا معاویہ کا اجتہاد تھا...جب سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حکومت سیدنا عمر کے نقش قدم پر تھی اور سیدنا عمر کی حکومت رسول کریم کے ارشادات کے مطابق تھی تو ایسی برحق عادلانہ حکومتوں کے بارے میں کیوں نہ کہا جائے کہ فیضان عمر جاری رہے گا ، فیضان علی جاری رہے گا ، فیضان معاویہ جاری رہے گا 

.

سیدنا معاویہ فقیہ مجتہد تھے

قَالَ : إِنَّهُ فَقِيهٌ

  فرمایا کہ بےشک معاویہ فقیہ ہیں

(بخاری روایت3765)

.

الحدیث:

فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ، فَلَهُ أَجْرٌ

 اجتہاد کرے پھر وہ درستگی کو پائے تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر اجتہاد کرے اور خطاء کرے تو اس کے لئے ایک اجر ہے(بخاری حدیث7352)

.

 لہذا ولی عہد کرنا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا اجتہاد تھا اور اجتہاد میں اگر خطاء بھی واقع ہو تو اس کے لیے ایک اجر ہے...لیھذا ولی عہدی کی وجہ سے سیدنا معاویہ پر طعن و مذمت نہیں بنتی......!!

.

*امام حسن نے جب خلافت سیدنا معاویہ کے سپرد کی ، صلح کی اور سیدنا معاویہ کی حکومت منھج رسول ، منھج خلفاء راشدین پے رہی الا چند مجتہدات کے تو سیدنا معاویہ کی حکومت عادلہ راشدہ کہلائی، خلافت راشدہ تب کہلاتی جب حدیث کے مطابق تیس سال کے دوران ہوتی...امارت حکومت عادلہ ہے تو ایسی حکومت زندہ باد کیوں نہ ہو.....؟؟ ایسی سیاست و کردار کا فیضان کیوں نا جاری رہے.....؟؟*

.

وقد كان ينبغي أن تلحق دولة معاوية وأخباره بدول الخلفاء وأخبارهم فهو تاليهم في الفضل والعدالة والصحبة

تفسیری ترجمہ:

(سیدنا امام حسن نے جب حکومت سیدنا معاویہ کو دی انکی بیعت کی، ان سے صلح کی تو اس کے بعد)سیدنا معاویہ کی حکومت خلفاء راشدین کی حکومت کی طرح حکومت عادلہ کہلانی چاہیے اور سیدنا معاویہ کے اقوال و اخبار بھی خلفاء راشدین کے اقوال و اخبار کی طرح کہلانے چاہیے کیونکہ فضیلت عدالت اور صحابیت میں سیدنا معاویہ خلفاء راشدین کے بعد ہیں

(تاریخ ابن خلدون2/650)

.

سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نےجب سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت کی اس وقت سے سیدنا معاویہ برحق "امیر المومنین" قرار پائے، اور آپکی حکومت اچھی(برحق.و.عادلہ)قرار پائی

(دیکھیے بخاری روایت3765, بدایہ نہایہ11/143، تاریخ الخلفاء ص256وغیرہ)

.

قَالَ كَعْب الْأَحْبَار لم يملك أحد هَذِه الْأمة مَا ملك مُعَاوِيَة

ترجمہ:

سیدنا کعب الاحبار نے فرمایا کہ جیسی(عظیم عادلہ راشدہ) بادشاہت سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تھی ایسی کسی کی بادشاہت نہیں تھی 

(صواعق محرقہ2/629)

.


وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَسْوَدَ مِنْ مُعَاوِيَةَ.

ترجمہ:

سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا معاویہ سے بڑھ کر کسی کو کثرت سے کرم نوازی کرنے والا ، حلم و بردباری والا، سخاوت کرنے والا نہیں پایا

[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ,9/357 روایت15921]

[السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/441]

.


ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُوْلُ:مَا رَأَيْتُ رَجُلاً كَانَ أَخْلَقَ لِلمُلْكِ مِنْ مُعَاوِيَةَ

ترجمہ:

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کے میں نے(رسول کریم اور خلفاء راشدین وغیرہ مستحقین کے بعد) معاویہ سے بڑھ کر حکومت کے لیے بادشاہت کے لیے کسی کو عظیم مستحق ترین , لائق ترین اور عظیم  اخلاق والا  نہیں پایا 

[سير أعلام النبلاء3/153]

.


عَنِ ابْن عُمَر، قَالَ: مَا رأيت أحدا بعد رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أسود من مُعَاوِيَة. فقيل لَهُ: فأبو بَكْر، وَعُمَر، وعثمان، وعلي! فَقَالَ: كانوا والله خيرا من مُعَاوِيَة، وَكَانَ مُعَاوِيَة أسود منهم

ترجمہ:

سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا معاویہ سے بڑھ کر کسی کو کثرت سے کرم نوازی کرنے والا ، حلم و بردباری والا، سخاوت کرنے والا نہیں پایا...کسی نے پوچھا کہ ابوبکر عمر عثمان اور علی سے بھی زیادہ۔۔۔؟فرمایہ کہ یہ سب حضرات سیدنا معاویہ سے افضل تھے مگر کثرت کرم نوازی بردباری سخاوت میں سیدنا معاویہ زیادہ تھے 

[الاستيعاب في معرفة الأصحاب ,3/1418]

.

سیدی امام احمد رضا نے بھی اسی حدیث پاک کو دلیل بنا کر سیدنا معاویہ کو جنتی لکھا ہے...(دیکھیے سیدی رضا کی کتاب "تعلیقات امام اہل السنۃ علی العلل المتناہیۃ ص5 مخطوظ)

.

*سیدنا معاویہ کے متعلق بعض حسن معتبر یا ضعیف معتبر احادیث ملاحظہ کیجیے کہ فضائل میں ضعیف بھی مقبول......!!*

يتْرك)أَي الْعَمَل بِهِ فِي الضَّعِيف إِلَّا فِي الْفَضَائِل

فضائل کے علاوہ میں حدیث ضیف پر عمل نہ کیا جائے گا مگر فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے

(شرح نخبة الفكر للقاري ص185)

.

قال الحافظ فى " النتائج " 2 / 299:ترقى الحديث إلى درجة الضعيف الذى يعمل به الفضائل

حافظ ابن حجر عسقلانی نے النتائج میں لکھا ہے کہ ضعیف جو غیر مقبول ہو(ضعیف جدا ہو، منکر بلاتائید ہو)وہ ترقی کرکے ایسی ضعیف بن جاتی ہے جس پر فضائل میں عمل جائز ہے

(روضة المحدثين11/349)

.

الحدیث:

لَا تَذْكُرُوا مُعَاوِيَةَ إِلَّا بِخَيْرٍ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ اهْدِ بِهِ»

حضرت معاویہ کا تذکرہ خیر کےساتھ ہی کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی وعلیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ! اسے(ہدایت یافتہ بنا کر اسے)ذریعہ ہدایت بنا۔

(سنن الترمذي ت شاكر ,5/687حدیث3843)

اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا رد نہیں ہوتی لہذا سیدنا معاویہ اور ان کا گروہ فاسق منافق نہ تھےہدایت یافتہ تھے اگرچہ اجتہادی خطا پر تھے کیونکہ اجتہادی خطا پر بھی ایک ثواب ملتا ہے 

.

الحدیث:

جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، اسْتَوْصِ مُعَاوِيَةَ ; فَإِنَّهُ أَمِينٌ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ، وَنِعْمَ الْأَمِينُ هُوَ

جناب جبریل رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے محمد! معاویہ سے خیر خواہی کرو کیونکہ وہ اللہ کی کتاب پر امین ہیں اور وہ کیا ہی اچھے امین ہیں۔

(الطبراني ,المعجم الأوسط ,4/175حدیث3902)

(جامع الأحاديث ,1/200حدیث321)

حضرت جبرائیل علیہ السلام کا حضرت معاویہ کو امین کہنا  اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا انکار نا فرمانا بلکہ سیدنا معاویہ کو کاتب رکھ لینا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ آمین ایماندار تھے فاسق منافق نہ تھے 

.

.

 أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا لِمُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ «اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ، وَالْحِسَابَ وَقِهِ الْعَذَابَ»

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت معاویہ بن سفیان کیلئے دعا فرمائی،اے اللہ اسے لکھنا اور حساب سکھا اور اسے عذاب سے محفوظ فرما۔

(السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/459 حدیث712)

(فضائل الصحابة لاحمد بن حنبل حدیث1749)۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اللہ تعالی سیدنا معاویہ کو عذاب سے بچائے اور نبی پاک کی دعا رد نہیں ہوتی لہذا سیدنا امیر معاویہ جنتی ہیں فاسق منافق نہیں, انہیں عذاب نہ ہوگا جب کہ فاسق منافق کو عذاب ہوتا ہے 

.

 «دَخَلَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ وَرَأْسُ مُعَاوِيَةَ فِي حِجْرِهَا وَهِيَ تُقَبِّلُهُ، فَقَالَ لَهَا: " أَتُحِبِّينَهُ؟ ". فَقَالَتْ: وَمَا لِي لَا أُحِبُّ أَخِي! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " فَإِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُحِبَّانِهِ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام حبیبہ کے پاس آئے اور سیدنا معاویہ کا سر مبارک سیدہ ام حبیبہ کے جھولی میں تھا اور سیدہ ام حبیبہ بوسہ دے رہی تھی کہ رسول کریم نے فرمایا کہ کیا تم معاویہ  سے اتنی محبت کرتی ہو؟ عرض کی کیوں نہ کروں؟میرے بھائی ہیں( اور مسلمان ہوچکے ہیں) تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ اور اس کا رسول بھی معاویہ سے محبت کرتے ہیں

(مجمع الزوائد حدیث15923)

.

ادْعُوا لِي مُعَاوِيَةَ ، فَلَمَّا وَقَفَ عَلَيْهِ ، قَالَ : أَشْهِدُوهُ أَمَرَكُمْ ، أَحْضِرُوهُ أَمَرَكُمْ ، فَإِنَّهُ قَوِيُّ أَمِينٌ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معاویہ کو بلاؤ جب وہ حاضر ہوئے تو فرمایا معاویہ کو اپنے معاملات میں شامل کیا کروں اس سے مشورہ کیا کرو بے شک وہ قوی(علم و حکمت و تجربے والا) ہے آمین ہے امانت دار ہے

(البحر الزخار بمسند البزاز حدیث2987)

.

النبي صلى الله عليه وسلم انه قال لمعاوية: " اللهم اجعله هاديا مهديا واهد به

صحابی رسول عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا: ”اے اللہ! تو ان کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنا دے، اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے

(ترمذی حدیث3842)

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا رد نہیں ہوتی لہذا حضرت امیر معاویہ ہدایت یافتہ تھے فاسق منافق نہیں۔۔۔بلکہ اکثر معاملات میں ہدایت دینے والے مجتہد تھے اکا دکا معاملات میں اجتہادی خطا ان سے ہوئی جس پر حدیث پاک کے مطابق ایک اجر ملے گا

.

 سیدنا معاویہ فقیہ مجتہد تھے

قَالَ : إِنَّهُ فَقِيهٌ

  فرمایا کہ بےشک معاویہ فقیہ ہیں

(بخاری روایت3765)

الحدیث:

فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ، فَلَهُ أَجْرٌ

 اجتہاد کرے پھر وہ درستگی کو پائے تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر اجتہاد کرے اور خطاء کرے تو اس کے لئے ایک اجر ہے(بخاری حدیث7352)

.

.

*سیدنا معاویہ اور عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جھلک*

أوصى أن يكفن فِي قميص كَانَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قد كساه إياه، وأن يجعل مما يلي جسده، وَكَانَ عنده قلامة أظفار رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فأوصى أن تسحق وتجعل فِي عينيه وفمه

ترجمہ:

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے وصیت کی تھی کہ انہیں کفن میں وہ قمیض پہنائی جائے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہنائی تھی اور سیدنا معاویہ کے پاس حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے ناخن مبارک کے ٹکڑے تھے ان کے متعلق وصیت فرمائی کہ وہ ان کی آنکھوں اور منہ پر رکھے جائیں 

[أسد الغابة ,5/201]

.

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتے تھے،ایک دفعہ حضرت قابس بن ربیعہ آپ کے پاس آئے تو آپ انکی تعظیم میں کھڑے ہوگئے اور انکی پیشانی پر بوسہ دیا اور مرغاب نامی علاقہ ان پر نچھاور کر دیا، ان کے لیے وقف کردیا

وجہ فقط اتنی تھی کہ حضرت قابس کے چہرے کی کچھ مشابہت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے تھی 

(دیکھیے شفا جلد دو ص40)

.

جب امام حسن امیر معاویہ کے پاس آتے تو امیر معاویہ انہیں اپنی جگہ بٹھاتے خود سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے،کسی نے پوچھا آپ ایسا کیوں کرتے ہیں فرمایا کہ امام حسن ہم شکل مصطفی ہیں صلی الله علیہ وسلم اس مشابہت کا احترام کرتا ہوں۔(مرآۃ شرح مشکاۃ8/460)

.

*جہاد و فتوحاتِ سیدنا معاویہ کی جھلک*

وفي سنة ثلاث وأربعين فتحت الرخج وغيرها من بلاد سجستان، وودان من برقة، وكور من بلاد السودان

وفي سنة خمس وأربعين فتحت القيقان قوهستان

خلاصہ:

رخج وغیرہا کئ ممالک سجستان ودان کور سوڈان قعقان قوہستان وغیرہ کئ ممالک سلطنتیں سیدنا معاویہ کے دور میں فتح ہوئے...عرب تا افریقہ تک تقریبا آدھی دنیا پر سیدنا معاویہ کی حکومت تھی

[تاريخ الخلفاء ,page 149ملخصا]

.

*سیدنا معاویہ کی اہلبیت و امام حسن کی تعظیم و خدمت کی ایک جھلک*

اس صلح کے وقت واقعہ یہ ہوا کہ امیر معاویہ نے امام حسن کے پاس سادہ کاغذ بھیجا اور فرمایا کہ آپ جو شرائط صلح چاہیں لکھ دیں مجھے منظور ہے،امام حسن نے لکھا کہ اتنا روپیہ سالانہ بطور وظیفہ ہم کو دیا جایا کرے اور آپ کے بعد پھر خلیفہ ہم ہوں گے، آپ نے کہا مجھے منظور ہے۔چنانچہ آپ سالانہ وظیفہ دیتے رہے اس کے علاوہ اکثر عطیہ نذرانے پیش کرتے رہتے تھے،ایک بار فرمایا کہ آج میں آپ کو وہ نذرانہ دیتا ہوں جو کبھی کسی نے کسی کو نہ دیا ہو۔چنانچہ آپ نے اربعۃ مائۃ الف الف نذرانہ کیے یعنی چالیس کروڑ روپیہ۔(مرقات)جب امام حسن امیر معاویہ کے پاس آتے تو امیر معاویہ انہیں اپنی جگہ بٹھاتے خود سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے،کسی نے پوچھا آپ ایسا کیوں کرتے ہیں فرمایا کہ امام حسن ہم شکل مصطفی ہیں صلی الله علیہ وسلم اس مشابہت کا احترام کرتا ہوں۔

(مراۃ شرح مشکاۃ8/460)

.


.

*سیدنا معاویہ کی ازواج مطہرات کی خدمت کی ایک جھلک*

سیدنا معاویہ بی بی عائشہ کو تحفے تحائف تک بھیجا کرتے تھے جو اس طرف واضح اشارہ ہے کہ سیدنا معاویہ رسول کریم کی ازواج مطہرات کا خیال رکھا کرتے تھے

أَهْدَى مُعَاوِيَةُ لِعَائِشَةَ ثِيَابًا وَوَرِقًا وَأَشْيَاءَ

ترجمہ:

حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کو کپڑے اور چاندی کے سکے(نقدی) اور دیگر چیزیں تحفے میں بھیجیں

(حلية الأولياء 2/48)

.

سیدنا معاویہ اہلبیت کو تحائف دیتے وہ قبول فرماتے

ﻭﻋﻦ ﺟﻌﻔﺮِ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﺃﻥَّ ﺍﻟﺤﺴﻦَ ﻭﺍﻟﺤﺴﻴﻦَ ﻛﺎﻧﺎ ﻳَﻘْﺒَﻼ‌ﻥِ ﺟﻮﺍﺋﺰَ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ.

سیدنا حسن حسین سیدنا معاویہ کے تحائف قبول کرتے تھے

( المصنف - ابن أبي شيبة -4/296)

.


ﻭﻋﻦ ﻋﺒﺪِﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺑُﺮﻳﺪﺓَ، ﺃﻥ ﺍﻟﺤﺴﻦَ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ رضي الله عنهما ﺩﺧﻞ ﻋﻠﻰ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻓﻘﺎﻝ: ﻷ‌ُﺟﻴﺰَﻧَّﻚ ﺑﺠﺎﺋﺰﺓٍ ﻟﻢ ﺃﺟﺰ ﺑﻬﺎ ﺃﺣﺪﺍً ﻗﺒﻠﻚ، ﻭﻻ‌ ﺃﺟﻴﺰ ﺑﻬﺎ ﺃﺣﺪﺍً ﺑﻌﺪﻙ ﻣﻦ ﺍﻟﻌﺮﺏ، ﻓﺄﺟﺎﺯﻩ ﺑﺄﺭﺑﻌﻤﺎﺋﺔ ﺃﻟﻒ، ﻓﻘَﺒِﻠﻬﺎ.

ایک دفعہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے تو سیدنا معاویہ نے فرمایا کہ آج میں آپ کو وہ تحفہ دوں گا کہ ایسا تحفہ آپ سے پہلے کسی کو نہ دیا اور نہ دوں گا پھر سیدنا معاویہ نے آپ کو چار لاکھ درھم تحفے میں دیے امام حسن نے قبول فرمائے

(المصنف - ابن أبي شيبة -6/188)

.

صرف تحفے لینے اور دینے کا معاملہ نہ تھا بلکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالئ عنہ تعریف بھی کیا کرتے تھے

فَلَمَّا اسْتَقَرَّتِ الْخِلَافَةُ لِمُعَاوِيَةَ كَانَ الْحُسَيْنُ يَتَرَدَّدُ إِلَيْهِ مَعَ أَخِيهِ الْحَسَنِ، فَكَانَ مُعَاوِيَةُ يُكْرِمُهُمَا إِكْرَامًا زَائِدًا، وَيَقُولُ لَهُمَا: مَرْحَبًا وَأَهْلًا. وَيُعْطِيهِمَا عَطَاءً جَزِيلًا

 جب سیدنا معاویہ کی خلافت (سیدنا حسن و حسین وغیرھما کی صلح کے بعد) قائم ہوگئ تو سیدنا حسن اور حسین سیدنا معاویہ کے پاس آیا کرتے تھے اور سیدنا معاویہ ان کا بے حد احترام عزت و اکرام کرتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ مرحبا اپنے گھر میں ہی آئے ہو اور انہیں بہت بڑے بڑے تحفے دیتے تھے

(البداية والنهاية ت التركي11/476)


.

عبد الله وسئل عن رجل انتقص معاوية وعمرو بن العاص أيقال له رافضي قال إنه لم يجترئ عليهما إلا وله خبيئة سوء ما يبغض أحد أحدا من أصحاب رسول الله (صلى الله عليه وسلم) إلا وله داخلة سوء

 امام ابن عساکر فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا گیا کہ اُس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں کہ جو سیدنا معاویہ اور سیدنا عمرو بن عاص کی توہین و گستاخی کرے کیا وہ رافضی کہلائے گا...؟؟ سیدنا امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ سیدنا معاویہ اور سیدنا عمر بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق کوئی بھی جرت نہیں کر سکتا لیکن وہ شخص کہ جس کے دل میں خباثت ہو کہ کسی صحابی کے متعلق وہی گستاخی کرے گا کہ جس کے دل میں کوئی برائی و خباثت ہوگی

(تاریخ دمشق ابن عساکر59/210)

.

*سیدنا معاویہ کی فضیلت میں ایک اور صحیح حدیث*

قَالَ: قُلْتُ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ: أَلَيْسَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُلُّ صِهْرٍ وَنَسَبٍ يَنْقَطِعُ إِلَّا صْهِرِي وَنَسَبِي» ؟ قَالَ: " بَلَى، قُلْتُ: وَهَذِهِ لِمُعَاوِيَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ، لَهُ صِهْرٌ وَنَسَبٌ. قَالَ: وَسَمِعْتُ ابْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ: «مَا لَهُمْ وَلِمُعَاوِيَةَ، نَسْأَلُ اللَّهَ الْعَافِيَةَ»

 راوی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے سوال کیا کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ ہر نسب اور ہر رشتے داری منقطع ہو جائے گی سوائے میری رشتہ داری اور میرے نسب کے...؟؟ تو امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ جی ہاں یہ حدیث پاک ہے... راوی کہتے ہیں کہ پھر میں نے سوال کیا کہ کیا یہ فضیلت سیدنا معاویہ کو بھی حاصل ہے....؟؟ امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ بے شک یہ فضیلت سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو حاصل ہے کہ ان کا نسب اور ان کی رشتہ داری نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے... امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا کہ سیدنا معاویہ کے بارے میں نامناسب باتیں کرتے ہیں، (نامناسب باتوں اور ایسے لوگوں سے)اللہ عافیت میں رکھے

(أبو بكر الخلال ,السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/432)

.

 عظیم الشان تابعی سیدنا عمر بن عبدالعزیز سے بھی زیادہ افضل قرار دیا اور عظمت والا صحابی قرار دیا سیدنا معاویہ کو امام احمد بن حنبل نے

: قلتُ لأبي عبد اللَّه: أيهما أفضل: معاوية أو عمر بن عبد العزيز؟فقال: معاوية أفضل، لسنا نقيس بأصحاب رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم- أحدًا؛ قال النبي -صلى اللَّه عليه وسلم-: "خيرُ الناسِ قرني الذي بعثتُ فيهم

 امام احمد بن حنبل کے بیٹے کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ کون افضل ہے سیدنا معاویہ یا عمر بن عبدالعزیز.....؟؟ امام احمد بن حنبل نے فرمایا سیدنا معاویہ افضل ہیں اور فرمایا کہ ہم وہ لوگ نہیں کہ جو صحابہ کرام کے برابر کسی(تابعی وغیرہ) کو کہیں، صحابہ کرام تو وہ عظیم شخصیت ہیں جن کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین لوگ وہ ہیں کہ جن میں مجھے مبعوث کیا گیا

(كتاب الجامع لعلوم الإمام أحمد - العقيدة4/465)

.

 امام احمد بن حنبل نے سیدنا معاویہ کو فضیلت والا صحابی قرار دیا جیسے کہ اوپر حوالہ جات گذرے اور پھر امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ کسی بھی ایک صحابی کی کوئی توہین کرے تو اس کو اسلام پر مت سمجھو

قَالَ لِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: يَا أَبَا الْحَسَنِ، إِذَا رَأَيْتَ رَجُلًا يَذْكُرُ أَحَدًا مِنَ الصَّحَابَةِ بِسُوءٍ فَاتَّهِمْهُ عَلَى الْإِسْلَامِ

 راوی کہتے ہیں کہ مجھے امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ کسی بھی ایک صحابی کو نامناسب الفاظ سے یاد کرے تو اس کے ایمان پر شک  کرو

( البداية والنهاية ت التركي11/450)

.

حتی کہ امام احمد بن حنبل کے مطابق جو سیدنا معاویہ وغیرہ کسی صحابی کے بارے میں نامناسب کہے تو اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے ورنہ بائیکاٹ کا حکم دیا امام احمد بن حنبل نے.... ایسے لوگوں کے بیانات وغیرہ روایات وغیرہ نہ سننے نہ ماننے کا حکم دیا امام احمد بن حنبل نے... اور امام احمد بن حنبل نےحکم دیا کہ لوگوں میں ایسوں کی مذمت کی جائے جو سیدنا معاویہ وغیرہ کے متعلق توہین کریں یا بے ادبی کریں

يقول لأبي عبد اللَّه: جاءني كتاب من الرقة أن قومًا قالوا: لا نقول: معاوية خال المؤمنين. فغضب وقال: ما اعتراضهم في هذا الموضع؟ يجفون حتى يتوبوا

 ایک خط آیا لوگوں نے پوچھا کہ آپ کیا فرماتے ہیں معاویہ مومنوں کے ماموں ہیں یا نہیں تو امام احمد بن حنبل غضبناک ہو گئے اور فرمایا یہ( یعنی صحابہ کرام) بھی کوئی اعتراض کی جگہ ہیں....؟؟ ایسے لوگوں سے بے رخی اور سختی سے پیش آیا جائے گا ( بائیکاٹ کیا جائے گا) یہاں تک کہ توبہ کریں

(كتاب الجامع لعلوم الإمام أحمد - العقيدة4/464)

.

وَجَّهْنَا رُقْعَةً إِلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ: مَا تَقُولُ رَحِمَكَ اللَّهُ فِيمَنْ قَالَ: لَا أَقُولُ إِنَّ مُعَاوِيَةَ كَاتَبُ الْوَحْيِ، وَلَا أَقُولُ إِنَّهُ خَالُ الْمُؤْمِنِينَ، فَإِنَّهُ أَخَذَهَا بِالسَّيْفِ غَصْبًا؟ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: هَذَا قَوْلُ سَوْءٍ رَدِيءٌ، يُجَانَبُونَ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ، وَلَا يُجَالَسُونَ، وَنُبَيِّنُ أَمْرَهُمْ لِلنَّاسِ

 ہم نے ایک خط امام احمد بن حنبل کی جانب سے لکھا کہ آپ کیا فرماتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو کہتا ہے کہ میں معاویہ کو کاتب وحی نہیں کہوں گا اور میں انہیں مومنوں کا ماموں نہیں کہوں گا، معاویہ نے طاقت کے زور پر حکومت حاصل کی ہے.... امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ یہ برا قول ہے ردی قول ہے ایسے قول کہنے والے لوگوں سے کنارہ کشی کی جائے گی ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نہ کیا جائے گا(بائیکاٹ کیا جائے گا) اور ایسے لوگوں کے کرتوت و مذمت ہم لوگوں میں عام کریں گے( تاکہ لوگ ایسے لوگوں خطیبوں لکھاریوں سے کنارہ کشی کریں اور گمراہ نہ ہوں)

(أبو بكر الخلال ,السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/434)

.

مبتدع زنديق من سب معاوية أو غيره من الصحابة رضي الله عنهم أجمعين

 جو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی گستاخی کرے یا کسی اور صحابی کی گستاخی کرے وہ بدمذہب بدعتی زندیق ہے(شرح أصول اعتقاد أهل السنة للالكائي - محمد حسن عبد الغفار62/18)

.

الحدیث:

فَلَا تُجَالِسُوهُمْ، وَلَا تُؤَاكِلُوهُمْ، وَلَا تُشَارِبُوهُمْ، وَلَا تُنَاكِحُوهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا مَعَهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا عَلَيْهِمْ

ترجمہ:

بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ میل جول نہ رکھو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان سے شادی بیاہ نہ کرو، ان کے معیت میں(انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو

[السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/483حدیث769]

.

الحدیث:

فلا تناكحوهم ولا تؤاكلوهم ولا تشاربوهم ولا تصلوا معهم ولا تصلوا عليهم

ترجمہ:

بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ شادی بیاہ نہ کرو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان کے معیت میں (انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو

[جامع الأحاديث ,7/431حدیث6621]

.

إِسْحَاق بْن إِبْرَاهِيمَ قَالَ: سمعت أبا عبد اللَّه يسأل عَنِ الذي يشتم معاوية نصلي خلفه قَالَ: لا ولا كرامة

 سیدنا اسحاق بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا کہ جو شخص سیدنا معاویہ کی گستاخی کرے کیا ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں تو فرمایا ہر گز نہیں..اور اس گستاخ کی کوئی عزت نہیں

(طبقات الحنابلہ1/108)

.

.

يا أبا عبد الله: إن ههنا رجل يُفضِّلُ عمر بن عبد العزيز على معاوية بن أبي سفيان، فقال أحمد: لا تجالسه، ولا تؤاكله ولا تشاربه، وإذا مرض فلا تعُده

 امام احمد بن حنبل سے ایک شخص نے عرض کی کے ایک شخص کہتا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز معاویہ بن ابی سفیان سے افضل ہے تو امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ ایسے شخص کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا مت رکھ اور اس کے ساتھ کھانا پینا مت رکھ اور جب وہ مریض ہو جائے تو اس کی عیادت نہ کر(مطلب مکمل بائیکاٹ کر)

(ذیل طبقات الحنابلۃ1/301)

.

سمجھانے کےساتھ ساتھ مسلمانی کے دعوےدار بدمذہب و گستاخ سے بائیکاٹ کا حکم ہے....!! سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا علی سیدنا معاویہ کسی بھی صحابی کے گستاخ کو سمجھاؤ سمجھاؤ،  اور اس کے ساتھ ساتھ بائیکاٹ کیجیے، ان کے ساتھ انکے پیچھے نماز نہ پڑہیے، نہ کھائیے نہ پئیے...محافل میں نہ بلائیے.. انکی نہ سنیے،  نہ مانیے.....!!

.

امام عبداللہ بن مبارک رحمہ الہ جن کا شمار کبار محدثین وفقہاء میں ہوتا ہے، ان سے سوال ہوا کہ صحابی سیدنا معاویہ افضل ہیں یا تابعی سیدنا عمر بن عبد العزیز....؟؟فرماتے ہیں:  الْغُبَار الَّذِي دخل أنف فرس مُعَاوِيَة مَعَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم خير من عمر ابْن عبد الْعَزِيز كَذَا وَكَذَا مرة

اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ کی معیت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک کی غبار عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے اتنے اتنے درجہ افضل ہے(بعض روایات میں ہے کہ ہزار درجہ بہتر ہے)

(الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة2/613)


.

عظیم صوفی حضرت بشر حافی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں خود سن رہا تھا امام معافی بن عمران جن کا لقب یاقوتۃ العلماء تھا سے پوچھا گیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ؟ انہوں نے فرمایا: ”كان معاوية أفضل من ستمائة مثل عمر بن عبدالعزيز“

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ جیسے چھ سو بزرگوں سے بھی افضل تھے۔

(السنة لأبي بكر بن الخلال2/435)

.

امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کے شاگرد، امام مسلم علیہ الرحمہ کے استادِ محترم، محدث امام ابو زرعہ رازی بیان فرماتے ہیں:

أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيِّ، أَنَّهُ قَالَ لَهُ رَجُلٌ: إِنِّي أُبْغِضُ مُعَاوِيَةَ. فَقَالَ لَهُ: وَلِمَ؟ قَالَ: لِأَنَّهُ قَاتَلَ عَلِيًّا. فَقَالَ لَهُ أَبُو زُرْعَةَ: وَيْحَكَ! إِنَّ رَبَّ مُعَاوِيَةَ رَبٌّ رَحِيمٌ، وَخَصْمُ مُعَاوِيَةَ خَصْمٌ كَرِيمٌ، فَأَيْشِ دُخُولُكَ أَنْتَ بَيْنَهُمَا؟ !

ابو زرعہ رازی کے پاس ایک شخص آیا۔ اس نے کہا کہ میں معاویہ سے بغض رکھتا ہوں، ابوزرعہ نے کہا کیوں؟ تو اس شخص نے کہا: اس لئے کہ معاویہ نے علی سے جنگ کی۔ تو ابو زرعہ نے اسے کہا کہ معاویہ کا ربّ، ربِّ رحیم ہے۔ اور معاویہ کا مدِ مقابل (علی) کریم ہے۔ تُو ان دونوں کے درمیان کیوں گھستا ہے

(البداية والنهاية ت التركي11/427)

.

*امام بخاری سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت و شان بیان کرتے ہیں*

سَمِعْتُ بْنَ مُنَبِّهٍ عَنِ ابْنِ عباس قال ما رأيت احدا اخلق للملك مِنْ مُعَاوِيَةَ

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کے میں نے(رسول کریم اور خلفاء راشدین وغیرہ مستحقین کے بعد) معاویہ سے بڑھ کر حکومت کے لیے بادشاہت کے لیے کسی کو عظیم مستحق ترین , لائق ترین اور عظیم  اخلاق والا  نہیں پایا 

(التاریخ الکبیر امام بخاری7/321)

.

امام بخاری سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت و شان بیان کرتے ہیں

النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِيَةَ الْحِسَابَ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یا اللہ معاویہ کو حساب کا علم عطا فرما

التاریخ الکبیر امام بخاری7/321)

.

امام بخاری سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت و شان بیان کرتے ہیں

سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِهِ وَاهْدِ بِهِ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ کے متعلق فرمایا یا اللہ اسے ہادی بنا مہدی بنا، اسے ہدایت دے اور اس کے ذریعے ہدایت دے

(التاریخ الکبیر امام بخاری7/321)

نوٹ:

 امام بخاری نے صحیح بخاری میں فضائل معاویہ کا باب لکھنے کے بجائے ذکر معاویہ کا باب باندھا... جس سے کچھ لوگوں نے سمجھ لیا کہ سیدنا معاویہ کے بارے میں کوئی معتبر فضیلت ثابت نہیں ہے... امام بخاری کا اپنی دوسری کتاب میں صحیح یا حسن حدیث و روایات بیان کرنا اور اس سے شان امیر معاویہ بیان کرنا اس بات کی دلالت ہے کہ سیدنا معاویہ کی فضیلت ثابت ہے صحیح ترین نہ سہی مگر صحیح یا کم سے کم حسن معتبر حدیث موجود ہے.... دراصل امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں صحیح ترین احادیث کو جمع کیا ہے اور اس میں کیونکہ سید امام بخاری کے مطابق صحیح ترین سیدنا معاویہ کی فضیلت میں نہیں تھی تو اس لیے فضائل معاویہ باب نہ لکھا... لیکن دوسری کتاب میں آپ نے صحیح بخاری کے مقابلے میں یہ شرط نہ رکھیں کے صحیح ترین روایت ذکر کی جائے بلکہ دوسری کتاب میں صحیح روایت حسن روایات بھی لکھی ہیں تو اس لیے آپ نے شان معاویہ دوسری کتاب میں بیان کیا

.

یہی وجہ ہے کہ جن ائمہ محدثین نے اصح ترین حدیث لکھنا اپنے اوپر لازم نہ کیا بلکہ صحیح یا حسن یا ضعیف کو بھی لکھا کہ فضائل میں متفق طور پر یہ قبول ہیں تو انہوں نے فضائل معاویہ، مناقب معاویہ کے عنوان و ابواب لکھے

.

مثلا امام احمد بن حنبل کی کتاب میں باب فضائل معاویہ ہے

فَضَائِلُ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا

(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل2/913)

.

علامہ هبة اللہ طبری رازی نے فضائل معاویہ کا باب باندھا

سِيَاقُ مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي فَضَائِلِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة8/1524)

.

علامہ آجری نے کتاب فضائل معاویہ کا عنوان دیا

كِتَابُ فَضَائِلِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

(الشريعة للآجري5/2431)

.

علامہ ابن حجر عسقلانی نے فضل معاویہ باب لکھا

فَضْل مُعَاوِيَةَ رَضِيَ الله عَنْه

(المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية16/434)

.

امام ترمذی نے فضائل کے ہم نام لفظ یعنی مناقب علی اور "مناقب معاویہ"  کا باب لکھا

مَنَاقِبُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللہ عنہ...پھر لکھتے ہیں مَنَاقِبُ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

(دیکھیے ترمذی ابواب المناقب)

.

علامہ دھلوی فرماتے ہیں کہ مناقب کا معنی ہے شرف و فضائل

المناقب) جمع منقبة وهي الفضيلة والشرف

(لمعات شرح مشکاۃ9/557)

.

امام بخاری نے فضائل کا ہم نام یعنی مناقب فاطمہ لکھا...اگر مناقب کا معنی فضیلت نہین تو کیا امام بخاری کے مطابق خاتون جنت کی کوئی فضیلت نہیں....؟؟

بَابٌ : مَنَاقِبُ فَاطِمَةَ

(بخاری5/29)

.

مناقب معاوية

(غاية المقصد فى زوائد المسند4/52)

اور بھی بہت کتب ہیں جن کے نام فضائل معاویہ مناقب معاویہ ہیں...کتب میں ابواب و عنوان بےشمار ہیں کہ مناقب معاویہ فضائل معاویہ...ہم نے بطور تبرک چند پیش کییے،حق پسند کے لیے اتنا کافی ہے

.

*سیدنا معاویہ عاجزی انکساری عبادت گذاری عوام کی خدمت غریبوں کی مدد صحابہ و اہلبیت اور انکی اولادوں کی خدمت اور جہاد جدت و ترقیاتی کام ، برائی سے بچنے بچانے،  نیکی کا حکم دینے وغیرہ معاملات میں سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سخت پیروکار تھے اور سیدنا عمر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکات و سنن کے پیروکار تھے، جدت ترقی اجتہاد بھی حدیث و سنت سے ثابت ہے انکی......!!*

.

فَيَدُورُ عَلَى الْمَجَالِسِ يَسْأَلُ هَلْ وُلِدَ لِأَحَدٍ مَوْلُودٌ، أَوْ قَدِمَ أَحَدٌ مِنَ الْوُفُودِ، فَإِذَا أُخْبِرَ بِذَلِكَ أَثْبَتَ فِي الدِّيوَانِ. يَعْنِي لِيُجْرِيَ عَلَيْهِ الرِّزْقَ

 (سیدنا معاویہ نے احادیث و حضرت سیدنا عمر کی سیرت سے اخذ کرکے ایک شخص کو مقرر کیا کہ)وہ چکر لگاتا اگر کہیں کوئی اولاد پیدا ہوتی یا کہیں کوئی وفد و مہمان آتا تو(سیدنا معاویہ کی حکومت کی طرف سے) اس کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کیا جاتا تھا، بچے کے لیے ضروریات کا انتظام کیا جاتا...(البداية والنهاية ت التركي11/438)

.

*تقریبا آدھی دنیا کے حکمران تھے سیدنا معاویہ اور سخی و مددگار بھی تھے تو ان کے لیے جائز طریقے سے دولمتمندی بہت اہم تھی......!!*

وفي سنة ثلاث وأربعين فتحت الرخج وغيرها من بلاد سجستان، وودان من برقة، وكور من بلاد السودان

وفي سنة خمس وأربعين فتحت القيقان قوهستان

خلاصہ:

رخج وغیرہا کئ ممالک سجستان ودان کور سوڈان قعقان قوہستان وغیرہ کئ ممالک سلطنتیں سیدنا معاویہ کے دور میں فتح ہوئے...عرب تا افریقہ تک تقریبا آدھی دنیا پر سیدنا معاویہ کی حکومت تھی

[تاريخ الخلفاء ,page 149ملخصا]

.

*سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عاجزی انکساری زھد و تقوی کی ایک جھلک.......!!*

خَرَجَ مُعَاوِيَةُ ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَابْنُ صَفْوَانَ حِينَ رَأَوْهُ، فَقَالَ : اجْلِسَا....

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے تو سیدنا عبداللہ بن زبیر اور سیدنا ابن صفوان نے جب ان کو دیکھا تو کھڑے ہو گئے( سیدنا معاویہ نے عاجزی انکساری کرتے ہوئے ، شریعت و حدیث پے عمل کرتے ہوئے فرمایا میرے لیے کھڑے نہ ہوا کرو اور)فرمایا کہ بیٹھ جاؤ

(ترمذی 2755)

.

قَلَّمَا يَكَادُ أَنْ يَدَعَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ أَنْ يُحَدِّثَ بِهِنَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ : " مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّ هَذَا الْمَالَ حُلْوٌ خَضِرٌ ، فَمَنْ يَأْخُذْهُ بِحَقِّهِ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَإِيَّاكُمْ وَالتَّمَادُحَ فَإِنَّهُ الذَّبْحُ

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اکثر جمعہ مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے اور یہ مال میٹھا ہے سرسبز ہے جو شخص اس کو حق کے ساتھ لے گا اس کے لیے برکت ہوگی اور اپنے آپ کو (خوشامدی اور مبالغانہ ناحق یا زیادہ)تعریف کرنے والا مت بناؤ کہ یہ ہلاکت میں ڈالنا ہے

(مسند احمد بن حنبل 16846)

 واضح ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہ اپنی تعریف کروانے والے، واہ واہ کروانے والے نہ تھے،لوگوں کو خوشامدی چاپلوس چمچہ بننے سے روکتے تھے،  وہ عاجزی انکساری والے تھے

.

، فأخذت من شعره، وهو في موضع كذا وكذا، فإذا أنا مت فخذوا ذلك الشعر فاحشوا به فمي ومنخري.... ثم أغمي عليه. ثم أفاق فقال لمن حضره من أهله: اتقوا الله، فإن الله يقي من اتقاه، ولا تقى لمن لا يتقي الله ثم قضي

 سیدنا معاویہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک لئے ہیں اور وہ فلاں جگہ پر رکھے ہیں جب میں وفات پا جاؤں تو ان بالوں کو لینا اور میرے منہ پے رکھنا(گویا میرے ہونٹ رسول کریم کے بال مبارک چومتے رہیں)اور منخر پے رکھنا... پھر کچھ کلام کرنے کے بعد آپ پر غشی طاری ہو گئی، جب ہوش آیا تو فرمایا اے اہل خانہ تقوی اختیار کرنا، جو اللہ سے نہیں ڈرتا اس کا کوئی تقوی نہیں

(فصل الخطاب في الزهد والرقائق والآداب2/163)

ایسی ادا،  ایسی وصیت اور تقوی کی نصیحت....اللہ اللہ کوئی عجز و انکساری والا عاشق رسول ہی کرسکتا ہے

.

، فقال معاوية للناس: إن هذا أحياني أحياه الله

 ایک شخص نے سیدنا معاویہ کو مدلل جواب دیا تو آپ نے ان کی اصلاح کو قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے مجھے زندہ کر دیا ہے اللہ اسے زندہ رکھے

(موسوعة الأخلاق والزهد والرقائق1/241)

ثابت ہوا کہ تکبر بڑائی والے نہ تھے، اصلاح قبول فرما لیتے جوکہ عاجزی و انکساری کی علامت ہے...ہاں سیدنا معاویہ اجتہادی مسائل میں مدلل اختلاف بھی رکھتے تھے جیسے کہ دیگر بعض صحابہ کرام و بعض اہلبیت عظام بھی مدلل فروعی اجتہادی اختلاف کرتے تھے

.

دَخَلَ عَلَى مُعَاوِيَةَ فَحَدَّثَهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: فَبَكَى مُعَاوِيَةُ فَاشْتَدَّ بُكَاؤُهُ ثُمَّ أَفَاقَ، وَهُوَ يَقُولُ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ

 ایک راوی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا معاویہ کو ایک حدیث پاک سنائی تو راوی کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رونے لگے اور بہت شدید روئے پھر جب ان کو افاقہ ہوا تو کہنے لگے اللہ نے سچ فرمایا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا

(الزهد والرقائق - ابن المبارك - ت الأعظمي ص159)

.

 يا معاوية، إن هذا المال ليس بمالك ولا مال أبيك وأمك، فبأي حق تحبسه عن الناس؟! فبدا الغضب على وجه معاوية وجعل الناس يترقبون ما عسى أن يكون منه، فما كان منه إلا أن أشار إلى الناس: أن امكثوا في أماكنكم ولا تبرحوها، ثم نزل عن المنبر وتوضأ، وأراق على نفسه شيئًا من الماء ثم صعد المنبر، فحمد الله عز وجل وأثنى عليه بما هو أهله، وقال: إن أبا مسلم قد ذكر أن هذا المال ليس بمالي ولا مال أبي وأمي، وقد صدق أبو مسلم فيما قال، وإني سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: "إن الغضب من الشيطان، وإن الشيطان خلق من النار، وإنما تطفأ النار بالماء، فإذا غضب أحدكم فليتوضأ" [رواه أبو داو)أيها الناس: اغدوا علي أعطياتكم على بركة الله عز وجل

خلاصہ:

ابو مسلم نےسیدنا معاویہ سے فرمایا کہ آپ عطیات کیوں نہیں دے رہے....؟؟ یہ آپ کے ذاتی تو نہیں ہیں...؟؟ سیدنا معاویہ ممبر سے نیچے تشریف لائے اور وضو فرمایا... پھر ممبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ ابو مسلم نے سچ کہا ہے اور رسول کریم نے فرمایا ہے کہ جب غصہ آئے تو اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو(لیھذا میں نے وضو کیا)تو لے لو مجھ سے اپنے عطیات اللہ کی برکت سے

(موسوعة الأخلاق والزهد والرقائق2/131)

.

: رَأَيْتُ مُعَاوِيَةَ عَلَى الْمِنْبَرِ بِدِمَشْقَ يَخْطُبُ النَّاسَ وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ مَرْقُوعٌ

 راوی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا معاویہ کو دمشق میں ممبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا وہ لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے اور آپ کی قمیض مبارک پر پیوند لگے ہوئے تھے

(الزهد لأحمد بن حنبل ص142)

.


انَ مُعَاوِيَةُ مُتَوَاضِعًا....رَأَيْتُ مُعَاوِيَةَ فِي سُوقِ دِمَشْقَ وَهُوَ مُرْدِفٌ وَرَاءَهُ وَصِيفًا، عَلَيْهِ قَمِيصٌ مَرْقُوعُ الْجَيْبِ، وَهُوَ يَسِيرُ فِي أَسْوَاقِ دِمَشْقَ

 بے شک سیدنا معاویہ بہت عاجزی انکساری والے تھے میں نے سیدنا معاویہ کو دمشق کے بازاروں میں دیکھا کہ وہ بازاروں میں گھوم رہے تھے حالانکہ آپ کی قمیض مبارک پر پیوند لگے تھے

(البداية والنهاية ت التركي11/438)

.

بعض اسلامی بادشاہوں اور علماء صوفیاء ائمہ سے عمدہ لباس پہننا ، عمدہ جگہ بیٹھنا بھی ثابت ہے تو یہ بھی سنتِ رسول سے ثابت ہے بشرطیکہ ہم تکبر نہ کریں،  دوسروں کو ، طلباء کو، ماتحتوں کو، محبین کو ، مریدین کو ، عوام کو حقیر نہ سمجھیں اور موقعہ مناسبت سے عاجزی انکساری کا اظہار بھی کریں......!!

.

رَأَيْتُهُ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ لَمْ أَرَ شَيْئًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ

 صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو سرخ دھاری دار عمدہ پوشاک میں دیکھا، آپ سے بڑھ کر کوئی حَسین و خوبصورت نہیں دیکھا

(بخاری3551)

.

ثُمَّ جَاءَ وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ شَامِيَّةٌ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ شامی جبہ مبارک پہنے ہوئے تھے

(مسلم629)

.

رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ إِضْحِيَانٍ ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى الْقَمَرِ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ، فَإِذَا هُوَ عِنْدِي أَحْسَنُ مِنَ الْقَمَرِ

صحابی فرماتے ہیں

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چاندنی رات میں دیکھا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور چاند کو دیکھنے لگا ، آپ نے سرخ دھاری دار عمدہ پوشاک پہنی تھی، میری نظر میں حضور چاند سے زیادہ حَسین و خوبصورت تھے

(ترمذی 2811)

.

ھذہ جُبَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَلْبَسُهَا لِلْوُفُودِ، وَيَوْمَ الْجُمُعَةِ

یہ جبہ مبارک جو رسول کریم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ملاقاتوں کے لیے اور جمعہ(اور عید وغیرہ)میں پہنا کرتے تھے

(الأدب المفرد بخاری - ت عبد الباقي ص127)

.

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا قَدِمَ عَلَيْهِ الْوَفْدُ لَبِسَ أَحْسَنَ ثِيَابِهِ، وَأَمَرَ أَصْحَابَهُ بِذَلِكَ

جب کوئی وفد آتا تو نبی کریم صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عمدہ لباس پہنتے اور صحابہ کرام کو بھی عمدہ لباس پہننے کا فرماتے

(معرفة الصحابة لأبي نعيم2/584)

.

.==============

.

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

والظاهر أن ربنا واحد ونبينا واحد، ودعوتنا في الاسلام واحدة. لا نستزيدهم في الإيمان بالله والتصديق برسوله صلى الله عليه وآله ولا يستزيدوننا. الأمر واحد إلا ما اختلفنا فيه من دم عثمان

 یہ بات بالکل واضح ہے ظاہر ہے کہ ان(سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہ)کا اور ہمارا رب ایک ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہے، انکی اور ہماری اسلامی دعوت و تبلیغ ایک ہے، ہم ان کو اللہ پر ایمان رسول کریم کی تصدیق کے معاملے میں زیادہ نہیں کرتے اور وہ ہمیں زیادہ نہیں کرتے...ہمارا سب کچھ ایک ہی تو ہے بس صرف سیدنا عثمان کے قصاص کے معاملے میں اختلاف ہے

(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ3/114)

 ثابت ہوا کہ سیدنا علی کا ایمان سیدنا معاویہ کا ایمان سیدنا معاویہ کا اسلام سیدنا علی کا اسلام اہل بیت کا اسلام صحابہ کرام کا اسلام قرآن و حدیث سب کے سب معاملات میں متفق ہی تھے،سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ سب کے مطابق قرآن و حدیث میں کوئی کمی بیشی نہ تھی....پھر کالے مکار بے وفا ایجنٹ غالی جھوٹے شیعوں نے الگ سے حدیثیں بنا لیں، قصے بنا لیے،الگ سے فقہ بنالی، کفریہ شرکیہ گمراہیہ نظریات و عمل پھیلائے، سیدنا علی و معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام کے اختلاف کو دشمنی منافقت کفر کا رنگ دے دیا...انا للہ و انا الیہ راجعون

.

شیعوں کی معتبر ترین کتاب نہج البلاغۃ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم موجود ہے کہ:

ومن كلام له عليه السلام وقد سمع قوما من أصحابه يسبون أهل الشام أيام حربهم بصفين إني أكره لكم أن  تكونوا سبابين، ولكنكم لو وصفتم أعمالهم وذكرتم حالهم كان أصوب في القول

ترجمہ:

جنگ صفین کے موقعے پر اصحابِ علی میں سے ایک قوم اہل الشام (سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرھما رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین) کو برا کہہ رہے تھے، لعن طعن کر رہے تھے

تو

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا:

تمہارا (اہل شام، معاویہ ، عائشہ صحابہ وغیرہ کو) برا کہنا لعن طعن کرنا مجھے سخت ناپسند ہے ، درست یہ ہے تم ان کے اعمال کی صفت بیان کرو...(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ ص437)

.

ثابت ہوا سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہ صحابہ کرام کی تعریف و توصیف کی جائے، شان بیان کی جائے....یہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پسند ہے....ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہھما صحابہ کرام پر لعن طعن گالی و مذمت کرنے والے شیعہ ذاکرین ماکرین  رافضی نیم راضی محبانِ اہلِ بیت نہیں بلکہ نافرمان و مردود ہیں،انکےکردار کرتوت حضرت علی کو ناپسند ہیں..سخت ناپسند

.

ان عليا لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق ولكنه كان يقول: هم إخواننا بغوا علينا

ترجمہ:

بےشک سیدنا علی اپنےاہل حرب(سیدنا معاویہ،سیدہ عائشہ اور انکےگروہ)کو نہ تو مشرک کہتےتھےنہ منافق…بلکہ فرمایا کرتےتھےکہ وہ سب ہمارےبھائی ہیں مگر(مجتہد)باغی ہیں(شیعہ کتاب بحارالانوار32/324)

(شیعہ کتاب وسائل الشیعۃ15/83)

(شیعہ کتاب قرب الاسناد ص94)

سیدنا ابوبکر و عمر، سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام کو کھلےعام یا ڈھکے چھپے الفاظ میں منافق بلکہ کافر تک بکنے والے،توہین و گستاخی کرنےوالےرافضی نیم رافضی اپنےایمان کی فکر کریں…یہ محبانِ علی و اہلبیت نہیں بلکہ نافرمانِ علی ہیں،نافرمانِ اہلبیت ہیں

.

فنعى الوليد إليه معاوية فاسترجع الحسين...سیدنا حسین کو جب سیدنا معاویہ کی وفات کی خبر دی گئ تو آپ نےاِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا…(شیعہ کتاب اعلام الوری طبرسی1/434) مسلمان کو کوئی مصیبت،دکھ ملےتو کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ(سورہ بقرہ156)ثابت ہوا سیدنا معاویہ امام حسین کے مطابق کافر ظالم منافق دشمن برے ہرگز نہ تھے جوکہ مکار فسادی نافرمان دشمنان اسلام گستاخانِ معاویہ کے منہ پر طمانچہ ہے

.

هذا ما صالح عليه الحسن بن علي بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان: صالحه على أن يسلم إليه ولاية أمر المسلمين، على أن يعمل فيهم بكتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وآله وسيرة الخلفاء الصالحين

(شیعوں کے مطابق)امام حسن نے فرمایا یہ ہیں وہ شرائط جس پر میں معاویہ سے صلح کرتا ہوں، شرط یہ ہے کہ معاویہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سیرتِ نیک خلفاء کے مطابق عمل پیرا رہیں گے

(شیعہ کتاب بحار الانوار جلد44 ص65)

سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "نیک خلفاء کی سیرت" فرمایا جبکہ اس وقت شیعہ کے مطابق فقط ایک خلیفہ برحق امام علی گذرے تھے لیکن سیدنا حسن "نیک خلفاء" جمع کا لفظ فرما رہے ہیں جسکا صاف مطلب ہے کہ سیدنا حسن کا وہی نظریہ تھا جو سچے اہلسنت کا ہے کہ سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم خلفاء برحق ہیں تبھی تو سیدنا حسن نے جمع کا لفظ فرمایا...اگر شیعہ کا عقیدہ درست ہوتا تو "سیرت خلیفہ" واحد کا لفظ بولتے امام حسن....اور دوسری بات یہ بھی کہ سیدنا معاویہ خلفاء راشدین کی راہ حق پے چلے ورنہ سیدنا حسن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھما ضرور بیعت توڑ دیتے،سیدنا حسن حسین کی صلح رسول کریم کی صلح ہے جو سیدنا معاویہ کو عادل بادشاہ بنا دیتی ہے

.الحدیث:

أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ، وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ

ترجمہ:

(رسول کریم نے حسن حسین وغیرہ اہلبیت سے فرمایا) تم جس سے جنگ کرو میری اس سے جنگ ہے،تم جس سے صلح کرو میری اس سے صلح ہے

(اہلسنت کتاب صحیح ابن حبان حدیث6977)

(شیعہ کتاب بحار الانوار32/321)

.

اور تیسری بات بھی اہلسنت کی ثابت ہوئی کہ "قرآن و سنت" اولین ستون ہیں کہ ان پے عمل لازم ہے جبکہ شیعہ قرآن و سنت کے بجائے اکثر اپنی طرف سے اقوال گھڑ لیتے ہیں اور اہلبیت کی طرف منسوب کر دیتے ہیں...

.

شیعہ تعریف میں یا تنقید میں یا عقائد  فقہ و تاریخ میں اپنی طرف سے احادیث روایات اقوال قصے کہانیاں بنا کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم و اہلبیت کی طرف منسوب کرتے ہیں جوکہ بعض اوقات کفر ورنہ گمراہی و گناہ ہے

لعنهم الله قد وضعوا أخبارا

اللہ کی لعنت ہو مفوضہ(شیعوں کے ایک فرقے پر) جنہوں نے

جھوٹی روایات(من گھڑت احادیث اقوال قصے)گھڑ لی ہیں

(شیعہ کتاب من لا يحضره الفقيه - الشيخ الصدوق1/290)

(شیعہ کتاب وسائل الشيعة - الحر العاملي5/422)

.

الناس ﺃﻭﻟﻌﻮﺍ ﺑﺎﻟﻜﺬﺏ ﻋﻠﻴﻨﺎ

امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ لوگ(شیعہ) جو(بظاہر)ہم اہلبیت کے محب کہلاتے ہیں انہوں نے اپنی طرف سے باتیں، حدیثیں اقوال قصے گھڑ لی ہیں اور ہم اہلبیت کی طرف منسوب کر دی ہیں جوکہ جھوٹ ہیں(شیعہ کتاب رجال کشی ﺹ135, 195،شیعہ کتاب بحار الانوار 2/246,....2/250)

لیھذا

شیعہ کی بیان کردہ روایات احادیث قصے وہی معتبر ہیں جو قرآن و سنت و مستند تاریخ کے موافق ہوں ورنہ جھوٹ و غیرمقبول کہلائیں گے

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.