*قرآن و حدیث و اقوالِ صحابہ و اقوالِ اسلاف میں کس قیاس و تقلید کا حکم ہے اور کس قیاس و تقلید کی مذمت ہے........؟؟*
سوال:
علامہ صاحب بالخصوص غیر مقلدین اہلحدیث اور مرزا جہلمی کے پیروکار ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ قیاس کرنا تقلید کرنا کفر و شرک بدعت ہے، قرآن میں اس کی مذمت ہے کہ یہود و نصاری نے اپنے علماء کو رب بنا لیا وہ یہی تھا کہ ان کے قیاس کی تقلید کرتے تھے... صحابہ کرام اور بعد کے اسلاف نے قیاس و تقلید کی شدید مذمت کی ہے
.
*جواب و تحقیق......!!*
الحاصل:
قرآن حدیث اقوالِ صحابہ و اقوالِ اسلاف کے مطابق قیاس وہ مذموم ہے کہ جو اللہ کریم کی حلال کردہ یا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حلال کردہ چیز کو حرام کر دے یا حرام کو حلال کرے یعنی خلاف شرع اور خلافِ نص جو قیاس ہو اسکی مذمت ہے ، اور ایسی تقلید و اتباع کی مذمت ہے کہ جو خلافِ شرع حکم کی بھی پیروی کی جائے...اور جو قران و حدیث و اقوال صحابہ کی بنیاد پر کسی نص کے خلاف کییے بغیر کافی علم و تحقیق ہونے کے ساتھ قیاس ہو وہ تو علماء پر لازم ہے وہ برحق ہے...اسکی مزمت نہیں، ایسے قیاسی حکم کی پیروی تقلید جائز و برحق ہے،ایسے قیاس کرنے اور اس کی تقلید کرنے کا حکم قرآن و حدیث میں ہے،صحابہ کرام و اسلاف کی سیرت میں ہے، ایسا قیاس صحابہ کرام نے کیا، تابعین نے کیا، اولیاء اسلاف نے کیا....حتی کہ تقلید کے منکر غیر مقلد اور اہلحدیث اور مرزا جہلمی اور اس کے فالوورز اگر غور کریں تو وہ بھی تقلید کے بغیر رہ نہیں سکتے، دیکھئیے مثلا امام بخاری نے ایک حدیث بیان کی ہم نے آنکھیں بند کرکے تسلیم کرلیا ، امام بخاری پر اعتماد کر لیا کہ انہوں نے سچ لکھا ہوگا، مثلا امام ابو داؤد نے امام مسلم نے حدیث لکھی تو ہم نے اعتماد کر لیا کہ یہ معزز لوگ ہیں یہ سچے لوگ ہیں انہوں نے اگر حدیث لکھی ہے تو یہ سوچ ہوگی ہم نے ان سے دلیل کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ بغیر دلیل کے اعتماد کیا کہ یہ لوگ سچے ہیں اور سچے راویوں سے روایت لیتے ہیں تو دلیل کی ضرورت نہیں...یہی تو تقلید ہے..اور راویوں پر جرح و تعدیل کرنے والے علماء پر بھی ہم سب اعتماد کرکے تقلید کرتے ہیں...ہاں قیاس و اجتہاد ہر شخص نہیں کرسکتا، ہر شخص اپنی طرف سے مسائل و نکات نہیں نکال سکتا کہ آیت و حدیث کی تفسیر تشریح تخصیص وضاحت دوسری ایات و احادیث سے ہوتی ہے، اقوال و افعال اسلاف سے معنی کی سمجھ لگتی ہے اور بھرپور علم اور اچھی عقل و حافظے اور صحیح غور فکر کے بغیر کوئی قیاس کریگا مسائل و نکات نکالے گا تو قوی امکان ہے کہ گمراہ ہوگا گمراہ کرے گا....!!
.
الحدیث:
فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا
جاہل و کم علم(اپنی من مانی، اپنی خواہشات کے مطابق یا کم علمی کی بنیاد پر یا غلط قیاس کی بنیاد پر) فتویٰ دیں گے تو وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے( لہذا ایسوں سے بچو،ایسے خلاف شرع و غلط قیاس سے بچو،ایسےخلاف شرع و غلط قیاس و حکم کی تقلید و پیروی سے بچو)
(بخاری حدیث100)
اہلحدیث غیرمقلدین اور مرزا جہلمی کے پیروکار جو اعتراضات کرتے ہیں وہ خود گمراہی میں ہیں کہ انہوں نے کافی علم نہیں پڑھا اور کافی علم پڑھے بغیر فتویٰ بازی شروع کر دی....
.
آئیے قرآن و حدیث اور اقوال صحابہ و اقوال اسلاف پڑھتے ہین سمجھتے ہیں کہ آخر قیاس و تقلید کا اصل مسئلہ ہے کیا
.
جس آیت کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے اگر اس کی وضاحت میں تفسیر پیش کروں گا تو وہ کہنے لگیں گے کہ دیکھیں آیت کی تمھارے عالموں نے اپنی طرف سے تفسیر کردی ہے
لیھذا
آیت کی وضاحت حدیث و اقوال صحابہ سے ملاحظہ کیجیے
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ } قَالَ : " أَمَا إِنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا يَعْبُدُونَهُمْ، وَلَكِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَهُمْ شَيْئًا اسْتَحَلُّوهُ، وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَيْهِمْ شَيْئًا حَرَّمُوهُ
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے جو ارشاد فرمایا ہے کہ یہود و نصاریٰ نے اپنی راہبوں اپنے پادریوں(اپنے عالموں) کو خدا بنا لیا اللہ کو چھوڑ کر تو وہ اس طرح کہ وہ انکی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ اس طرح خدا بنا لیا کہ انہوں نے( اپنی طرف سے یا اللہ کے حکم کے خلاف) جس چیز کو حلال کر لیا اس کو لوگوں نے حلال کر لیا جس کو انہوں نے(اپنی طرف سے یا اللہ کے حکم کے خلاف) حرام کہا لوگوں نے اس کو حرام قرار دے دیا
(ترمذی حدیث3095)
.
فَقَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ} [التوبة: ٣١] حَتَّى فَرَغَ مِنْهَا، فَقُلْتُ: إنَّا لَسْنَا نَعْبُدُهُمْ، فَقَالَ: «أَلَيْسَ يُحَرِّمُونَ مَا أَحَلَّ اللهُ فَتُحَرِّمُونُهُ، ويُحِلُّونَ مَا حَرَّمَ اللهُ فَتَسْتَحِلُّونَهُ؟» قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: «فَتِلْكَ عِبَادَتُهُمْ
( ایک صحابی عیسائیت سے توبہ تائب ہوکر مسلمان ہوئے تو اس کے گلے میں صلیب تھی تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس کو ہٹا دو، صحابی نے اپنے گلے سے صلیب اتار دی) نبی پاک نے ارشاد فرمایا کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے پادریوں کو اپنے راہبوں کو اللہ کے علاوہ خدا بنا لیا تو صحابی نے عرض کی یارسول اللہ ہم تو ان کی عبادت نہیں کرتے تھے تو پھر خدا کیسے بنا لیا…؟ نبی پاک نے ارشاد فرمایا کہ کیا تمہارے پادری راہب اس چیز کو حرام نہیں کرتے تھے کہ جس کو اللہ نے حلال کیا تھا اور پھر تم لوگ پادریوں کی اتباع میں اللہ کی مخالفت میں حرام قرار دیتے تھے اور تمہارے پادری اور راہب حلال قرار دیتے تھے اس چیز کو جس کو اللہ نے حرام قرار دیا تھا اور تم لوگ پادریوں راہبوں کی مانتے تھے... صحابی نے عرض کی بے شک یا رسول اللہ اسی طرح تھا تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ یہی تو ان کی عبادت کرنا ہے
(المعجم الكبير للطبراني17/92)
.
.
سئل حذيفة عن هذه الآية {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ} (٣) أكانوا يصلون لهم؟ قال: لا، ولكنهم كانوا يحلون لهم ما حرم اللَّه عليهم فيستحلونه، ويحرمون ما أحل اللَّه لهم فيحرمونه، فصاروا بذلك أربابًا
سیدنا صحابی حذیفہ بن یمان سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا کہ آیت میں ہے کہ پادریوں کو اور راہبوں کو اللہ کے علاوہ خدا بنا لیا.... تو ان کو اس طرح خدا بنا لیا کہ ان کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے....؟ نہیں اس طرح نہیں بلکہ راہب اور پادری اپنی خواہشات کی بنیاد پر اللہ کے حکم کے خلاف فتوی دیتے تھے اپنی رائے اور قیاس سے اللہ تعالی کی حلال کردہ چیز کو حرام کر دیتے تھے اور حرام کردہ کو حلال کر دیتے تھے تو اس طرح ان کو خدا بنا لیا گیا
(المهذب في اختصار السنن الكبير8/4108)
(كتاب سنن سعيد بن منصور - 5/246نحوہ)
.
أَبِي الْبَخْتَرِيِّ، فِي قَوْلِهِ: {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ} [التوبة: ٣١] قَالَ: أَطَاعُوهُمْ فِيمَا أَمَرُوهُمْ بِهِ مِنْ تَحْرِيمِ حَلَالٍ وَتَحْلِيلِ حَرَامٍ , فَعَبَدُوهُمْ بِذَلِكَ
ابو البختری اللہ تعالی کے اس قول کی وضاحت میں ارشاد فرماتے ہیں کہ انہوں نے راهبوں پادریوں کو اللہ کے علاوہ خدا بنا لیا یعنی اس طرح کے انہوں نے اللہ کی حلال کردہ چیز کے حرام کرنے کے معاملے میں پادریوں کی راہبوں کی پیروی کر لی اور اللہ کی حرام کردہ کو حلال کرنے کے معاملے میں پادریوں کی راہبوں کی پیروی کر لی اسی طرح انہوں نے ان کی عبادت کی
(استاد بخاری المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت7/156)
.
آیت اور اس کی وضاحت میں احادیث و اقوال صحابہ سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ قیاس و تقلید و پیروی کی مذمت اس وقت ہے کہ جب اللہ و رسول کے حرام کردہ چیز کو پادریوں کے کہنے پر عالموں کے کہنے پر راہبوں کے کہنے پر حلال کر دیا جائے یا اللہ و رسول کی حلال کردہ چیز کو پادریوں کے کہنے پر عالموں کے کہنے پر راہبوں کے کہنے پر حرام کر دیا
.
لہذا اگر اللہ تعالی کی حکم قرآن آیت اور حدیث مبارکہ پر قیاس کرکے قرآن و سنت کی مخالفت کیے بغیر کوئی وسیع العلم جامع شرائط عالم قیاس کرکے حل و حکم پیش کرے تو اسکی مذمت نہیں، ایسے قیاسی حکم کی تقلید و پیروی کی مذمت نہیں، ایسے قیاس کرنے کا تو حکم ہے اور ایسے قیاس کی تقلید کا حکم ہے
بلکہ
مذمت اس قیاس و تقلید کی ہے کہ جو قرآن و سنت کے خلاف ہو جسکی بنیاد قران و سنت و اثار کے بجائے محض عقل ہو تو مذمت ہے،لیھذا صحابہ کرام تابعین عظام و اسلاف نے جو قیاس کی مذمت کی اور تقلید کی مذمت کی وہ اس قسم کے قیاس و تقلید کی مذمت کی ہے
.
غیرمقلدو اہلحدیثو اپنے امام ابن تیمیہ کی ہی سن لو...ابن تیمیہ لکھتا ہے
الْجُمْهُورُ الَّذِينَ يُثْبِتُونَ الْقِيَاسَ قَالُوا: قَدْ ثَبَتَ عَنِ الصَّحَابَةِ أَنَّهُمْ قَالُوا بِالرَّأْيِ وَاجْتِهَادِ الرَّأْيِ وقاسوا، كما ثبت عنهم ذم ما ذَمُّوهُ مِنَ الْقِيَاسِ. قَالُوا: وَكِلَا الْقَوْلَيْنِ صَحِيحٌ، فَالْمَذْمُومُ الْقِيَاسُ الْمُعَارِضُ لِلنَّصِّ
صحابہ کرام تابعین عظام اور علماء کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ مشروط قیاس برحق ہے... صحابہ کرام سے ثابت ہے کہ انہوں نے قیاس کیا، اجتہاد کیا... اور صحابہ کرام و اسلاف سے قیاس اور تقلید کی مذمت بھی ہے... دونوں باتیں برحق ہیں کیونکہ اس قیاس کی مذمت ہے کہ جو نص(قرآن و حدیث ) کے خلاف ہو
(مختصر منهاج السنة ابن تیمیہ ص115)
(منهاج السنة النبوية ابن تیمیہ 3/412)
.
من ذم الرأي وتكلف القياس) أي: الذي على غير أصل
رائے اور قیاس کی مذمت اس وقت ہے کہ جو اصل(قرآن و حدیث و اقوال صحابہ)پر مبنی نہ ہو
(منحة الباري بشرح صحيح البخاري10/289)
.
الأئمة الأربعة قائلون بالرأي والقياس، قيد الرأي في الترجمة بالتكلف وهو قياس لا يوجد له أصل، أو يعارضه نص، أو فقد منه شرط آخر كما بين في موضعه
( صحابہ کرام تابعین عظام کے علاوہ) چار اماموں نے بھی قیاس کیا اجتہاد کیا... مذمت تو اس قیاس و اجتہاد کی ہے کہ جس کی کوئی اصل(قرآن و حدیث و اقوال صحابہ) نہ ہو یا جو نص(قرآن و حدیث) کے مخالف ہو یا قیاس و اجتہاد کی شرائط میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے تو اس قیاس و اجتہاد کی مذمت ہے
(الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري11/157)
.
وقد روي عن السلف آثار كثيرة في ذم القياس...وسائر الفقهاء وقالوا في هذه الآثار وما كان مثلها في ذم القياس: إنه القياس على غير أصل
بےشک اسلاف سے مروی ہے کہ انہوں نے قیاس کی مذمت کی ہے... یہ اس قیاس کی مذمت ہے کہ جو اصل(قرآن و حدیث و اقوال صحابہ) پر مبنی نہ ہو
(تفسير القاسمي محاسن التأويل5/14)
.
وَأَمَّا مَا رُوِيَ عَنِ السَّلَفِ فِي ذَمِّ الْقِيَاسِ فَهُوَ عِنْدَنَا قِيَاسٌ عَلَى غَيْرِ أَصْلٍ
اسلاف سے جو قیاس کی مذمت مروی ہے وہ ہمارے مطابق اس قیاس کی مذمت ہے کہ جو اصل(قرآن و حدیث و اقوال صحابہ) پر مبنی نہ ہو
(جامع بيان العلم وفضله2/890)
.
فكل نص فيه ذم للقياس يُعنى به القياس الفاسد غير المعتبر شرعا، وهو الذي لم يستكمل شروط القياس،وكل نص فيه دليل على العمل بالقياس، وفيه مدح له، فإنه يُعنى به القياس الصحيح، وهو المستكمل لشروط القياس
(صحابہ کرام اور تابعین عظام یا اسلاف سے) جو اقوال بھی مروی ہیں کہ جس میں قیاس کی مذمت ہو تو اس سے مراد قیاس فاسد کی مذمت ہے، قیاس فاسد غیر معتبر ہوتا ہے اور قیاس فاسد وہ ہوتا ہے جو قیاس کی شرائط کو جامع نہ ہو
اور
جس عبارت میں کہ قیاس پر عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور قیاس کی مدح و تعریف کی گئ ہے تو اس سے مراد وہ قیاس صحیح ہے جو قیاس کی شرائط کو جامع ہو
(المهذب في علم أصول الفقه المقارن4/1856)
.
أن هذه الأقوال محمولة على القياس المذموم
(صحابہ کرام اور تابعین عظام یا اسلاف سے) جو قیاس کی مذمت مروی ہے وہ اس قیاس کی مذمت ہے جو فاسد ہو
(التحصيل من المحصول1/98)
.
وَأَمَّا عِلْمُ الْمَقَايِيسِ فَأَصْلُهُ فِي السُّنَّةِ، ثُمَّ فِي علم السلف بالقياس، نعم (١٢) قَدْ جَاءَ فِي ذَمِّ الْقِيَاسِ أَشْيَاءُ حَمَلُوهَا عَلَى الْقِيَاسِ الْفَاسِدِ، (وَهُوَ الْقِيَاسُ عَلَى غَيْرِ أَصْلٍ
بے شک جان لو کہ قیاس سنت سے ثابت ہے(اور قرآن و احادیث و اقوال صحابہ سے ثابت ہے)پھر اسلاف سے بھی قیاس کرنا ثابت ہے، ہاں قیاس کی مذمت میں جو کچھ مروی ہے وہ اس قیاس کی مذمت ہے جو فاسد ہو کہ جو کسی اصل(قران حدیث) پر مبنی نہ ہو
(الاعتصام للشاطبي ت الشقير والحميد والصيني1/340)
.
يعني أن ما روي عن الصحابة -رضي اللَّه عنهم- من ذم القياس والرأي، محمول على القياس الفاسد المخالف للنصوص ولا يريدون القياس الصحيح
وہ جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے قیاس کی اور رائے کی مذمت کی ہے تو اس سے مراد قیاس فاسد ، رائے فاسد کی مذمت مراد ہے، قیاس فاسد رائے فاسد وہ ہے کہ جو نصوص(قرآن و احادیث) کے خلاف ہو... صحابہ کرام نے جو قیاس کی مذمت کی ہے وہ قیاس فاسد کی مذمت ہے جبکہ صحیح قیاس کی مذمت نہیں کی ہے
(نثر الورود شرح مراقي السعود2/412)
.
من ذم القياس والسلف فهو ينطبق على القياس الفاسد
اسلاف نے جو قیاس کی مذمت کی ہے تو اس کا اطلاق قیاس فاسد پر ہوتا ہے
(الشرح الكبير لمختصر الأصول ص500)
.
القياس الفاسد: وهو الذي لم تتوافر فيه أركان القياس، فإذًا ما جاء عن السلف من ذمِّ القياس، فيرادُ به القياس الفاسد، وما جاء عنهم من اعتبار القياس، فيرادُ به القياس الصحيح، فبهذا يجمَع بين أقوال السلف في القياس
فاسد قیاس وہ ہوتا ہے کہ جس میں قیاس کے شرائط اور ارکان کی پاسداری نہ کی جائے، اسی قیاس کی اسلاف نے مذمت کی ہے... اور وہ جو مروی ہے کہ اسلاف نے قیاس کو معتبر سمجھا ہے معتبر قرار دیا ہے تو اس سے مراد صحیح قیاس معتبر ہے... اس طرح اسلاف کے اقوال میں تضاد ختم ہو جائے گا
(المحصول في شرح صفوة الأصول ص104)
.
بل ذم القياس مع وجود النص أو القياس على غير الأصل من كتاب أو سنة
قیاس کی مذمت اس وقت ہے کہ وہ نص(قرآن و حدیث) ہوتے ہوئے اس کے مدمقابل کیا جائے،یا قیاس کی مذمت اس وقت ہے کہ وہ اصل یعنی قران و سنت پر مبنی نہ ہو
(أصول الدين عند الإمام أبي حنيفة ص150)
.
: هُوَ أَنْ تُحْمَلَ الْأَحَادِيثُ الدَّالَّةُ عَلَى ذَمِّ الْقِيَاسِ عَلَى مَا إِذَا كَانَ هُنَاكَ نَصٌّ، وَتُحْمَلُ الْأَحَادِيثُ الدَّالَّةُ عَلَى الْحَثِّ عَلَيْهِ عَلَى مَا إِذَا لَمْ يَكُنْ هُنَاكَ نَصٌّ، احْتِرَازًا مَنْ تَنَاقُضِ الدَّلِيلِ الشَّرْعِيِّ
کچھ روایات ہیں جو قیاس کی مذمت پر دلالت کرتی ہیں اور کچھ روایات ہیں کہ جو قیاس کرنے کی ترغیب پر دلالت کرتی ہیں... تو ان دونوں پر عمل اس طرح ممکن ہے کہ اگر قیاس نص(قرآن و حدیث) کے مقابلے میں ہو تو پھر اس کی مذمت ہے اور اگر نص(قرآن و حدیث) کے مقابلے میں نہ ہو تو پھر اس کی مذمت نہیں ہے تاکہ دلیل شرعی میں کوئی تضاد نہ ہو
(شرح مختصر الروضة3/288)
.
قیاس کی مذمت کے اقوال لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ قیاس کی مذمت اس قیاس کی ہے جو شرعی نص(قرآن حدیث)کی بنیاد پر نہ ہو...اور جو قیاس قرآن و سنت و اقوال صحابہ سے ماخوذ ہو اسکی مذمت نہیں
الْأُصُولِ وَبِهِ قَالَ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ وَسَائِرُ الْفُقَهَاءِ، وَقَالُوا فِي هَذِهِ الْآثَارِ وَمَا كَانَ مِثْلَهَا فِي ذَمِّ الْقِيَاسِ: إِنَّهُ الْقِيَاسُ عَلَى غَيْرِ أَصْلٍ،
جمہور علماء تمام فقہاء نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ قیاس کی مذمت میں جو کچھ آیا ہے وہ اس قیاس کی مذمت ہے کہ جو اصل(قرآن و سنت) پر مبنی نہ ہو
(جامع بيان العلم وفضله2/893)
.
قال النووي: فيه جواز القياس وهو مذهب العلماء كافّة، ولم يخالف فيه إلَّا أهل الظاهر، ولا يعتدّ به، وأمّا المنقول عن التابعين ونحوهم من ذمّ القياس، فليس المراد به القياس الذي يعتمده الفقهاء المجتهدون
ایک حدیث پاک سے دلیل پکڑتے ہوئے امام نووی فرماتے ہیں کہ اس سے قیاس کرنے کا جواز نکلتا ہے اور یہی مذہب ہے تمام علماء کا...اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے سوائے ظاہری علماء کے جن کا شمار کسی کھاتے میں نہیں... اور وہ جو بعض تابعین سے قیاس کی مذمت مروی ہے اس سے مراد وہ قیاس ہے کہ جو نص(قرآن و سنت و اقوال صحابہ) پر مبنی نہ ہو
(مرقاة الصعود إلى سنن أبي داود3/1330)
(بذل المجهود في حل سنن أبي داود13/631)
.
. وما نقل عن السلف من ذم القياس: المراد به القياس المصادم للنص
وہ جو بعض اسلاف سے قیاس کی مذمت مروی ہے اس سے مراد وہ قیاس ہے کہ جو نص(قرآن و حدیث) کے متصادم ہو
(التحفة الربانية في شرح الأربعين حديثا النووية ص58)
.
################
الِاجْتِهَادُ وَالِاسْتِنْبَاطُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِجْمَاعُ الْأُمَّةِ هُوَ الْحَقُّ الْوَاجِبُ، وَالْفَرْضُ اللَّازِمُ لِأَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِذَلِكَ جَاءَتِ الْأَخْبَارِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَنْ جَمَاعَةِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ. وَقَالَ أَبُو تَمَّامٍ الْمَالِكِيُّ: أَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى الْقِيَاسِ
قرآن مجید اور سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجتہاد کرنا اور استنباط و قیاس کرنا اور اجماع امت یہ سب حق اور واجب ہیں، قرآن و حدیث سنت و اقوال صحابہ پر اجتہاد و قیاس کرنا اہل علم پر فرض اور لازم ہے... یہی حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اکثر صحابہ اور تابعین سے مروی ہے، ابو تمام مالکی فرماتے ہیں کہ تمام علماء کا اجماع ہے کہ قیاس شرعی چیز ہے، شرعی دلیل ہے
(تفسير القرطبي = الجامع لأحكام القرآن7/172)
.
قال ابن تيمية: "ومن كان متبحرًا في الأدلة الشرعية أمكنه أن يستدل على غالب الأحكام بالنصوص وبالأقيسة....وقال ابن القيم: ".... فهذه نبذة يسيرة تطلعك على ما وراءها من أنه ليس في الشريعة شيء يخالف القياس
ابن تیمیہ کہتا ہے کہ جو دلائل شرعیہ میں متبحر ہو اس کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ نصوص کے ساتھ اکثر احکام نکالے اور جن میں نص نہ ہو اس میں قیاس کرے...ابن قیم کہتا ہے کہ مذکورہ بہت سارے دلائل ہیں کہ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دلائل قیاس کرنے کی مخالفت نہیں کرتے
(معالم أصول الفقه عند أهل السنة والجماعة ص184)
.
إن أكثر الصحابة رضي الله تعالى عنهم كانوا يَعْمَلُون بالقياس ....ابنُ جرير الطبري: إن إنكارَه بدعةٌ،
بے شک اکثر صحابہ کرام قیاس پر عمل کیا کرتے تھے اور ابن جریر طبری نے فرمایا ہے کہ قیاس کا انکار کرنا تو بدعت ہے
(فيض الباري على صحيح البخاري6/517)
.
*سیدنا صدیق اکبر اور صحابہ کرام کا اجتہاد و قیاس.....!!*
فَإِنْ أَعْيَاهُ أَنْ يَجِدَ فِيهِ سُنَّةً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ رُءُوسَ النَّاسِ وَخِيَارَهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ، فَإِذَا اجْتَمَعَ رَأْيُهُمْ عَلَى أَمْرٍ قَضَى بِهِ
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ و صحابہ کرام بھرپور کوشش کرتے کہ قرآن اور سنت میں درپیش مسئلہ کی وضاحت مل جائے، اگر وضاحت نہ ملتی یا دو ٹوک حکم نہ ملتا تو بڑے بڑے صلحاء صحابہ کرام کو جمع فرماتے اور ان سے مشورہ لیتے تو جب وہ قیاس کرکے کسی رائے پر متفق ہو جاتے تو سیدنا ابوبکرصدیق اس قیاس اور رائے پر فیصلہ فرما دیتے
(دارمی روایت163)
.
*سیدنا عمر اور صحابہ کرام کا اجتہاد و قیاس.....!!*
عُمَرَ بنَ الخطابِ كان يَفعَلُ ذَلِكَ، فإِن أعياه أن يَجِدَ فى القُرآنِ والسُّنَةِ نَظَرَ هَل كان لأبِى بكرٍ فيه قَضاءٌ؟ فإِن وجَدَ أبا بكرٍ قَد قَضَى فيه بقَضاءٍ قَضَى به، وإِلا دَعا رُءوسَ المُسلِمينَ وعُلَماءَهُم فاستَشارَهُم، فإِذا اجتَمَعوا على الأمرِ قَضَى
سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بھر پور کوشش کرتے لیکن پھر بھی قرآن اور سنت میں واضح دوٹوک حکم نہ ملتا تو پھر وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے فیصلوں اور اقوال میں غور و فکر کرتے، اگر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے فیصلوں میں پاتے تو اسی مطابق فیصلہ فرماتے...اگر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے فیصلوں میں نہ پاتے تو مسلمانوں کے بڑے بڑے علماء کو جمع فرماتے اور وہ قیاس کرتے، جب کسی رائے پر متفق ہو جاتے تو پھر اسی رائے پر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فیصلہ فرما دیتے
(سنن کبری بیھقی20/336)
.
*سیدنا عمر اور عظیم قاضی شریح اور اجتہاد و قیاس......!!*
"كَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى شُرَيْحٍ: إِذَا أَتَاكَ أَمْرٌ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَاقْضِ بِهِ، وَلَا يَلْفِتْكَ الرِّجَالُ عَنْهُ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كتاب الله- عز وجل- وكان فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فاقض به، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ- عَزَّ وَجَلَّ- وَلَا فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَاقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ أئمة الهدى، فإن لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَلَا في ما قَضَى بِهِ أَئِمَّةُ الْهُدَى فَأَنْتَ بِالْخِيَارِ إِنْ شِئْتَ أَنْ تَجْتَهِدَ رَأْيَكَ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تُؤَامِرَنِي
سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے قاضی شریح کی طرف لکھا کہ جب کوئی معاملہ درپیش ہو تو کتاب اللہ میں دیکھو مل جائے تو اسی پر فیصلہ کرو، اور لوگوں کی خواہش آپ کو اس فیصلے سے منہ موڑنے ہرگز نہ دے، اور اگر کتاب اللہ میں دو ٹوک واضح حکم موجود نہ ہو تو پھر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں دیکھو اگر مل جائے تو اسی پر فیصلہ کرو، اگر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ میں نہ لے تو پھر اس پر فیصلہ دو کہ جو ائمہ صالحین فیصلہ دے چکے اسی پر فیصلہ کرو، اگر ان سب میں آپ کو نہ ملے تو پھر آپ اختیار کے ساتھ ہیں اگر چاہیں تو آپ اپنی رائے و قیاس کریں( قرآن سنت اور اقوال اسلاف پر ) اور اگر چاہیں تو آپ میرے سپرد کر دیں
(اتحاف الخیرۃ المھرۃ روایت4891)
.
*صحابی سیدنا ابن مسعود کا فتوی اجتہاد و قیاس کے متعلق.....!!*
فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَلْيَجْتَهِدْ رَأْيَهُ
اگر معاملہ ایسا ہو کہ قرآن و سنت میں موجود نہ ہو اور اس پر صالحین کا موقف بھی موجود نہ ہو تو پھر احتیاط و محنت سے(قران و سنت اقوال اسلاف پر) اجتہاد و قیاس کرے
(نسائی روایت5397)
.
سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ قَالَ: «نِعْمَ وَزِيرُ الْعِلْمِ الرَّأْيُ الْحَسَنُ
امام زہری فرماتے ہیں کہ علم کا وزیر کیا ہی اچھا ہے وہ قیاس و رائے جو اچھا ہو(قرآن و سنت و اقوال اسلاف پر مبنی ہو)
(جامع بیان العلم روایت1615)
.
*سیدنا ابن عباس اور اجتہاد و قیاس......!!*
كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، إِذَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ فَإِنْ كَانَ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى قَالَ بِهِ. وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ عزَّ وجلَّ، وَكَانَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أَخْبَرَ بِهِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا فِي قَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَكَانَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخَذَ بِهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عنهما اجتهد رأيه
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے کسی چیز حکم معاملے کے بارے میں سوال کیا جاتا تو پھر وہ کتاب اللہ میں دیکھتے اگر کتاب اللہ میں مل جاتا تو وہ حکم ارشاد فرما دیتے اور اگر کتاب اللہ میں نہ ملتا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں غور کرتے اگر اس میں مل جاتا تو وہ بتا دیتے، اگر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ میں نہ ملتا تو پھر سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے کچھ مروی ہوتا تو وہ اسی کو اختیار فرماتے اور وہ بتا دیتے ورنہ(قرآن سنت حدیث اقوال اسلاف پر) قیاس اور اجتہاد فرماتے
(المطالب العالیہ ابن حجر روایت2180)
.
*سیدنا عمر اور سیدنا ابو موسی اشعری اور قیاس و اجتہاد.....!!*
ويشكل عليك اعرف الاشباه والامثال ثم قس الامور
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ابو موسی اشعری سے فرمایا کہ اگر کسی مسئلہ میں تمہیں مشکل پیش آئے تو پھر مثالوں(قرآن سنت حدیث اقوال اسلاف)میں غور کرو اور اس پر قیاس کرو
(مسند الفاروق ابن کثیر2/546)
.###################
*قیاس و تقلید کے برحق و لازم ہونے بعض دلائل و حوالہ جات اوپر گذرے، کچھ یہ ہیں.....!!*
القرآن:
لَوۡ رَدُّوۡہُ اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ
اگر معاملات و مسائل کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق،باشعور،باریک دان،سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور جان لیتے
(سورہ نساء آیت83)
آیت مبارکہ میں واضح حکم دیا جارہا ہے کہ اہل استنباط کی طرف معاملات کو لوٹایا جائے اور انکی مدلل مستنبط رائے و سوچ و حکم کی تقلید و پیروی کی جائے.....!!
.
يَسْتَخْرِجُونَهُ وَهُمُ الْعُلَمَاءُ..الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُنَافِقِينَ، لَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى ذَوِي الرَّأْيِ وَالْعِلْمِ،...وَفِي الْآيَةِ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْقِيَاسِ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ مَا يُدْرَكُ بِالتِّلَاوَةِ وَالرِّوَايَةِ وَهُوَ النَّصُّ، وَمِنْهُ مَا يُدْرَكُ بِالِاسْتِنْبَاطِ وَهُوَ الْقِيَاسُ عَلَى الْمَعَانِي الْمُودَعَةِ فِي النُّصُوصِ
اہل استنباط سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو احکام و نکات نکالتے ہوں اور وہ علماء ہیں... آیت میں منافقین اور مومنین سب کو حکم ہے کہ وہ معاملات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دیں اور اہل علم کی طرف لوٹا دیں اور رائے و قیاس کرنے والوں کی طرف لوٹا دیں... اس آیت میں دلیل ہے کہ قیاس کرنا بالکل جائز ہے کہ علم وہ ہوتا ہے کہ جو نص یعنی قرآن اور حدیث و سنت سے ملتا ہے یا پھر ان سے نکالا جاتا ہے یہی تو قیاس ہے
(تفسیر بغوی2/255)
.
دلت هذه الآية على أنَّ القياس حُجَّة... أن في الأحْكَام ما لا يُعْرَف بالنَّصِّ، بل بالاستِنْبَاطِ... أن العَامِيِّ يجِب عليه تَقْلِيد العُلَمَاء
مذکورہ آیت مبارکہ دلالت کرتی ہے کہ قیاس ایک دلیل و حجت ہے، اس آیت سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ بعض احکام نص سے معلوم ہوتے ہیں اور بعض احکام قیاس و استنباط سے معلوم ہوتے ہیں.... بے شک عام آدمی پر واجب ہے کہ وہ علماء کرام کی تقلید کرے
(اللباب فی علوم الکتاب6/526)
.
وفي هذه الآية دليل على وجوب القول بالاجتهاد، عند عدم النص...فقد دل بذلك على أن من العلم ما يدرك بالتلاوة والرواية، وهو النص، ومنه ما يدرك بغيرهما، وهو المعنى، وحقيقة الأعتبار والاستنباط والقياس: الحكم بالمعاني المودعة في النصوص غير الحكم بالنصوص
یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جب نص نہ ہو تو اجتہاد اور قیاس کرنا واجب ہے اور اس پر عمل کرنا بھی لازم ہے..اس آیت سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ بعض احکام نص سے معلوم ہوتے ہیں اور بعض احکام قیاس و استنباط سے معلوم ہوتے ہیں
(تفسیر ثعلبی10/493)
.
الحدیث:
حدثنا حفص بن عمر، عن شعبة، عن ابي عون، عن الحارث بن عمرو اخي المغيرة بن شعبة، عن اناس من اهل حمص، من اصحاب معاذ بن جبل، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، لما اراد ان يبعث معاذا إلى اليمن، قال:" كيف تقضي إذا عرض لك قضاء؟، قال: اقضي بكتاب الله، قال: فإن لم تجد في كتاب الله؟، قال: فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فإن لم تجد في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا في كتاب الله؟، قال: اجتهد رايي ولا آلو، فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره، وقال: الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله لما يرضي رسول الله".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کرب بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاس کو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے
(ابوداؤد حدیث3592)
.
ضعفه الشيخ الألباني، ولكن بعض أهل العلم صححه أو حسنه، ومنهم ابن كثير في أول تفسير سورة الفاتحة، وكذلك الشوكاني حسنه وقال: إن ابن كثير جمع فيه جزءاً وقال: كذلك أيضاً أبو الفضل بن طاهر المقدسي جمع فيه جزءاً.وقد وجدت آثار عن عدد من الصحابة تدل على ما دل عليه
ابو داود شریف کی مذکورہ حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن بعض اہل علم نے اس حدیث کو صحیح و دلیل قرار دیا ہے یا پھر حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے جیسے کہ امام ابن کثیر نے اور جیسے کہ امام شوکانی نے صحیح یا حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے... بعض ائمہ نے تو اس حدیث کی تائید و تخریج و شرح پر کتب و رسائل تک لکھے ہیں... صحابہ کرام سے بہت سارے آثار مروی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے قرآن اور حدیث بھر اقوال صحابہ پھر ان پر کیا گیا اجتہاد و قیاس کرنا اور عمل کرنا کرانا جائز بلکہ لازم و برحق ہے
(شرح ابوداود للعباد تحت الحدیث3592)
.
یہ حدیث مبارک مشعل راہ ہے کہ قران پھر حدیث و سنت پھر قیاس و استدلال....اس حدیث مبارک سے واضح ہوتا ہے کہ قران حدیث و سنت سے اجتہاد و استدلال کرنا برحق و ماہر علماء کا منصب بلکہ ذمہ داری ہے....استدلال و قیاس کرنے میں سب متفق ہوں یہ ضروری نہیً لیھذا غیرمنصوص ظنیات و فروعیات میں کبھی اختلاف ہونا فطری عمل ہے
الحدیث:
قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الأحزاب: «لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة» فأدرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم: بل نصلي، لم يرد منا ذلك، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فلم يعنف واحدا منهم
ترجمہ:
غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:
تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے
(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)
پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نا فرمائی
(بخاری حدیث946)
.
دیکھا آپ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کا قیاس و استدلال اور اس میں اختلاف... صحابہ کرام نے اس برحق اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر منافق فاسق گمراہ گستاخ نہیں کہا اور نبی پاک نے بھی کسی کی ملامت نا فرمائی...ایسا اختلاف قابل برداشت ہے بلکہ روایتوں مین ایسے فروعی برحق پردلیل باادب اختلاف کو رحمت فرمایا گیا ہے
.
اختلاف ایک فطرتی چیز ہے.... حل کرنے کی بھر پور کوشش اور مقدور بھر علم و توجہ اور اہلِ علم سے بحث و دلائل کے بعد اسلامی حدود و آداب میں رہتے ہوئے پردلیل اختلاف رحمت ہے
مگر
آپسی تنازع جھگڑا ضد انانیت تکبر لالچ ایجنٹی منافقت والا اختلاف رحمت نہیں، ہرگز نہیں...اختلاف بالکل ختم نہیں ہو پاتا مگر کم سے کم ضرور کیا جا سکتا ہے،اس لیے اختلاف میں ضد ،انانیت، توہین و مذمت نہیں ہونی چاہیے بلکہ صبر اور وسعتِ ظرفی ہونی چاہیے... اور یہ عزم و ارادہ بھی ہونا چاہیے کہ اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، ختم نہیں ہو پایا تو اختلاف کو کم سے کم ضرور کیا جائے گا..اختلاف کو جھگڑے سے بچایا جائے گا..
.
اختلاف کی بنیاد حسد و ضد ہر گز نہیں ہونی چاہیے...
اختلاف اپنی انا کی خاطر نہ ہو
اختلاف لسانیت قومیت کی خاطر نہ ہو
اختلاف ذاتی مفاد لالچ کی خاطر نہ ہو
اختلاف شہرت واہ واہ کی خاطر نہ ہو
اختلاف فرقہ پارٹی کی خاطر کی نہ ہو
اختلاف کسی کی ایجنٹی کی خاطر نہ ہو
اختلاف منافقت، دھوکے بازی کی خاطر نہ ہو
اختلاف ہو تو دلیل و بھلائی کی بنیاد پر ہو، بہتر سے بہترین کی طرف ہو، علم و حکمت سے مزین ہو،
.
ہر شخص کو تمام علم ہو،ہر طرف توجہ ہو، ہر میدان میں ماہر ہو یہ عادتا ممکن نہیں، شاید اسی لیے مختلف میدانوں کے ماہر حضرات کی شوری ہونا بہت ضروری ہے، اسی لیے اپنے آپ کو عقل کل نہیں سمجھنا چاہیے....بس میں ہی ہوں نہیں سوچنا چاہیے...ترقی در ترقی کرنے کی سوچ ہو، ایک دوسرے کو علم، شعور، ترقی دینے کی سوچ ہو....!!
.
کسی کا اختلاف حد درجے کا ہو، ادب و آداب کے ساتھ ہو، دلائل و شواہد پر مبنی ہو تو اس سے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے...ایسے اختلاف والے کی تنقیص و مذمت نہیں کرنی چاہیے،ایسے اختلاف پے خطاء والے کو بھی اجر ملتا ہے
الحدیث:
فاجتهد، ثم اصاب فله اجران، وإذا حكم فاجتهد، ثم اخطا فله اجر
مجتہد نے اجتہاد کیا اور درستگی کو پایا تو اسے دو اجر اور جب مجتہد نے اجتہاد کیا خطاء پے ہوا اسے ایک اجر ملے گا
(بخاری حدیث7352)
توجیہ تنبیہ جواب تاویل ترجیح کی کوشش کرنی چاہیے جب یہ ممکن نا ہو تو خطاء اجتہادی پر محمول کرنا چاہیے.....ہاں تکبر عصبیت مفاد ضد انانیت ایجنٹی منافقت وغیرہ کے دلائل و شواہد ملیں تو ایسے اختلاف والے کی تردید و مذمت بھی برحق و لازم ہے
.
اسی طرح ہر ایک کو اختلاف کی بھی اجازت نہیں... اختلاف کے لیے اہل استنباط مین سے ہونا ضروری ہے... کافی علم ہونا ضروری ہے... وسعت ظرفی اور تطبیق و توفیق توجیہ تاویل ترجیح وغیرہ کی عادت ضروری ہے، جب ہر ایرے غیرے کم علم کو اختلاف کی اجازت نا ہوگی تو اختلافی فتنہ فسادات خود بخود ختم ہوتے جاءیں گے
.
امام احمد رضا فرماتے ہیں:
اطلاق و عموم سے استدلال نہ کوئی قیاس ہے نہ مجتھد سے خاص(اطلاق و عموم سےاستدلال کوئی بھی ماہر عالم کرسکتا ہے اس کے مجتہد ہونا ضروری نہیں)..(فتاویٰ رضویہ جلد7 صفحہ496)
.
ہاں اطلاق و عموم میں کیا کیا آئے گا اور کون اور کیا کس وجہ سے اطلاق و عموم نہیں آئے گا..؟ یہ سمجھ بوجھ بھی ضروری ہے... جس کے لیے
آیات احادیث اثارِ صحابہ و تابعین و آئمہ اسلام...اور
وسیع گہرا مطالعہ...عقائد فقہ لغت علم المعانی والبیان
اور اس قسم کے دیگر علوم پر نظر ضروی ہے... ایسے علماء محققین کو اطلاق و عموم سے استدلال جائز و ثواب بلکہ کبھی لازم تک ہوجاتا ہے......!!
.
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: «مَنْ كَانَ عَالِمًا بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَبِقَوْلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا اسْتَحْسَنَ فُقَهَاءُ الْمُسْلِمِينَ وَسِعَهُ أَنْ يَجْتَهِدَ رَأْيَهُ...قال الشافعی لَا يَقِيسُ إِلَّا مَنْ جَمَعَ آلَاتِ .الْقِيَاسِ وَهَى الْعِلْمُ بِالْأَحْكَامِ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَرْضِهِ وَأَدَبِهِ وَنَاسِخِهِ وَمَنْسُوخِهِ وَعَامِّهِ وَخَاصِّهِ وإِرْشَادِهِ وَنَدْبِهِ
....وَلَا يَكُونُ لِأَحَدٍ أَنْ يَقِيسَ حَتَّى يَكُونَ عَالِمًا بِمَا مَضَى قَبْلَهُ مِنَ السُّنَنِ، وَأَقَاوِيلِ السَّلَفِ وَإِجْمَاعِ النَّاسِ وَاخْتِلَافِهِمْ وَلِسَانِ الْعَرَبِ وَيَكُونُ صَحِيحَ الْعَقْلِ حَتَّى يُفَرِّقَ بَيْنَ الْمُشْتَبِهِ، وَلَا يُعَجِّلَ بِالْقَوْلِ وَلَا يَمْتَنِعَ مِنَ الِاسْتِمَاعِ مِمَّنْ خَالَفَهُ لَأَنَّ لَهُ فِي ذَلِكَ تَنْبِيهًا عَلَى غَفْلَةٍ رُبَّمَا كَانَتْ مِنْهُ.... وَعَلَيْهِ بُلُوغُ عَامَّةِ جَهْدِهِ، وَالْإِنْصَافُ مِنْ نَفْسِهِ حَتَّى يَعْرِفَ مِنْ أَيْنَ قَالَ مَا يَقُولُ
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے شاگرد رشید محمد بن حسن فرماتے ہیں کہ جو کتاب اللہ کا عالم ہو سنت رسول اللہ کا عالم ہوتا ہے اور صحابہ کرام کے اقوال کا عالم ہو اور فقہاء کے اجتہاد و استنباط و قیاس کا عالم ہو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ قیاس و اجتہاد کرے... امام شافعی فرماتے ہیں کہ قیاس و اجتہاد وہی کرسکتا ہے کہ جس نے قیاس کے لیے مطلوبہ علوم و فنون میں مہارت حاصل کی ہو، مثلا قرآن کریم(اور سنت رسول) کے احکامات کا علم ہو قرآن کریم(و سنت رسول) کے فرض واجبات آداب ناسخ منسوخ عام خاص اور اس کے ارشادات و مندوبات وغیرہ کا علم ہو... قیاس و اجتہاد صرف اس عالم کے لئے جائز ہے کہ جو عالم ہو سنتوں کا، اسلاف(صحابہ کرام تابعین عظام و دیگر ائمہ)کے اقوال کا عالم ہو، اسلاف کے اجماع و اختلاف کا عالم ہو، لغت عرب کے فنون کا عالم ہو، عمدہ عقل والا ہو تاکہ اشتباہ سے بچ سکے،اور جلد باز نہ ہو،اور مخالف کی بات سننے کا دل جگرہ رکھتا ہوکہ ممکن ہے یہ غفلت میں ہو اور مخالف کی تنقید سے غفلت ہٹ جائے اور اس پر واجب ہے کہ دلائل پر بھرپور غور کرے انصاف کے ساتھ بلاتعصب اور اسے پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے کس بنیاد پر کہہ رہا ہے
(جامع بیان العلم و فضلہ2/856)
.
*صحابہ کرام تابعین عظام سلف صالحین اولیاء مجتہدین علماء صالحین کی تقلید و پیروی کے دلائل و شرائط.....!!*
پہلی بات:
اوپر بہت دلائل و حوالے قرآن و حدیث و اقوال و افعال صحابہ و تابعین سے گذرے کہ قیاس و اجتہاد کیا جائے اس پر فتوی دیا جائے اور عوام پر عمل و تقلید لازم ہے
.
دوسری بات:
تقلید و قیاس کے متعلق چند آیات ملاحظہ کیجیے
القرآن:
لَوۡ رَدُّوۡہُ اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ
اگر معاملات و مسائل کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق،باشعور،باریک دان،سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور جان لیتے
(سورہ نساء آیت83)
آیت مبارکہ میں واضح حکم دیا جارہا ہے کہ اہل استنباط کی طرف معاملات کو لوٹایا جائے اور انکی مدلل مستنبط رائے و سوچ و حکم کی تقلید و پیروی کی جائے.....!!
.
دلت هذه الآية على أنَّ القياس حُجَّة... أن في الأحْكَام ما لا يُعْرَف بالنَّصِّ، بل بالاستِنْبَاطِ... أن العَامِيِّ يجِب عليه تَقْلِيد العُلَمَاء
مذکورہ آیت مبارکہ دلالت کرتی ہے کہ قیاس ایک دلیل و حجت ہے، اس آیت سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ بعض احکام نص سے معلوم ہوتے ہیں اور بعض احکام قیاس و استنباط سے معلوم ہوتے ہیں.... بے شک عام آدمی پر واجب ہے کہ وہ علماء کرام کی تقلید کرے
(اللباب فی علوم الکتاب6/526)
.
دَلَّتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلَى أَنَّ الْقِيَاسَ حُجَّةٌ فِي الشَّرْعِ..الْعَامِّيَّ يَجِبُ عَلَيْهِ تَقْلِيدُ الْعُلَمَاءِ
مذکورہ آیت مبارکہ دلالت کرتی ہے کہ قیاس ایک دلیل و حجت ہے اور بے شک عام آدمی پر واجب ہے کہ وہ علماء کرام کی تقلید کرے
(تفسیر کبیر10/154)
.
القرآن:
وَّ اتَّبِعۡ سَبِیۡلَ مَنۡ اَنَابَ اِلَیَّ... اور اس کی پیروی کر جو میری طرف رجوع کرتا ہے
(سورہ لقمان آیت15)
.
وَصِيَّةٌ لِجَمِيعِ الْعَالَمِ، كَأَنَّ الْمَأْمُورَ الْإِنْسَانُ. وَ" أَنابَ" مَعْنَاهُ مَالَ وَرَجَعَ إِلَى الشَّيْءِ، وَهَذِهِ سَبِيلُ الْأَنْبِيَاءِ وَالصَّالِحِينَ.
اس آیت مبارکہ میں تمام لوگوں کو وصیت ہے ہر انسان کو حکم ہے کہ ان(انبیاء کرام علماء اسلاف) کی پیروی کرے کہ جو اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں یعنی انبیاء کرام کی پیروی کریں اور صالحین کی پیروی کریں
(تفسیر قرطبی 14/66)
یہی پیروی تو تقلید کہلاتی ہے
.
القرآن:
فَسۡئَلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ
اہل الذکر(سچے علماء)سے پوچھو اگر تمھیں پتہ نہ ہو
(سورہ نحل آیت43)
.
فاسألوا أهل الذكر فقلدوهم؛ إن كنتم لا تعلمون بالبينات والحجج؛ لأنهم كانوا أهل تقليد، لم يكونوا أهل نظر وتفكر في الحجج والبينات
اہل الذکر(سچے علماء)سے پوچھو اور انکی تقلید کرو اگر تمھیں دلائل کا علم نہ ہو... انکو تقلید کا حکم ہے کہ ہر شخص وسیع علم و حافظے صحیح غور و فکر والا نہیں ہوتا
(تفسیر ماتریدی6/509)
.
لَمْ يَخْتَلِفِ الْعُلَمَاءُ أَنَّ الْعَامَّةَ عَلَيْهَا تَقْلِيدُ عُلَمَائِهَا، وَأَنَّهُمُ الْمُرَادُ بِقَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ:" فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ" وَأَجْمَعُوا على أن الأعمى لأبد لَهُ مِنْ تَقْلِيدِ غَيْرِهِ مِمَّنْ يَثِقُ بِمَيْزِهِ بِالْقِبْلَةِ إِذَا أَشْكَلَتْ عَلَيْهِ، فَكَذَلِكَ مَنْ لَا عِلْمَ لَهُ وَلَا بَصَرَ بِمَعْنَى مَا يَدِينُ بِهِ لَا بُدَّ لَهُ مِنْ تَقْلِيدِ عَالِمِهِ، وَكَذَلِكَ لَمْ يَخْتَلِفِ الْعُلَمَاءُ أَنَّ الْعَامَّةَ لَا يَجُوزُ لَهَا الْفُتْيَا، لِجَهْلِهَا بِالْمَعَانِي الَّتِي مِنْهَا يَجُوزُ التَّحْلِيلُ وَالتَّحْرِيمُ
سب اس بات پر متفق ہیں کہ علماء کی تقلید کرے گا عام آدمی... یہ بات اس آیت میں بھی ہے کہ اہل ذکر سے پوچھو یعنی علماء سے پوچھو، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ ناکافی علم کی وجہ سے فتویٰ دینا جائز نہیں ہے(تو تقلید بھی اس عالم کی کی جائے گی جو کافی علم والا ہو)
(تفسیر قرطبی11/272)
.
*تیسری بات.....!!*
اوپر حوالے گذرے کہ نبی کریم نے قیاس و اجتہاد کی ترغیب دی اور صحابہ کرام تابعین عظام نے قیاس کیا نیز اوپر بہت دلائل و حوالے قرآن و حدیث و اقوال و افعال صحابہ و تابعین سے گذرے کہ قیاس و اجتہاد کیا جائے اس پر فتوی دیا جائے اور عوام پر عمل و تقلید لازم ہے...ہاں یہاں یہ تنبیہ کرتے چلیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قیاس و اجتہاد و حکم پر عمل کرنے سے روک دیا کہ جو اللہ تعالی کی نافرمانی میں ہو،قرآن و حدیث و سنت کے مخالف ہو،جو قیاس جامع الشرائط نہ ہو
الحدیث:
السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ، مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سننا اور اطاعت کرنا مسلمان پر لازم ہے اگرچہ اسے پسند ہو یا ناپسند ہو جب تک کہ گناہ و گمراھی کی بات کا حکم نہ ہو اگر گناہ اور گمراہیت کا حکم ہو تو نہ سنو نا مانو
(بخاری حدیث7144)
ناکافی علم والے لوگوں گمراہوں بدمذہبوں کی نہ سنییے نہ مانییے کہ کہیں تمھیں بھی گمراہ نہ کریں
.
*قیاس کی شرائط کا خلاصہ یہ ہے کہ.....!!*
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: «مَنْ كَانَ عَالِمًا بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَبِقَوْلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا اسْتَحْسَنَ فُقَهَاءُ الْمُسْلِمِينَ وَسِعَهُ أَنْ يَجْتَهِدَ رَأْيَهُ...قال الشافعی لَا يَقِيسُ إِلَّا مَنْ جَمَعَ آلَاتِ .الْقِيَاسِ وَهَى الْعِلْمُ بِالْأَحْكَامِ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَرْضِهِ وَأَدَبِهِ وَنَاسِخِهِ وَمَنْسُوخِهِ وَعَامِّهِ وَخَاصِّهِ وإِرْشَادِهِ وَنَدْبِهِ
....وَلَا يَكُونُ لِأَحَدٍ أَنْ يَقِيسَ حَتَّى يَكُونَ عَالِمًا بِمَا مَضَى قَبْلَهُ مِنَ السُّنَنِ، وَأَقَاوِيلِ السَّلَفِ وَإِجْمَاعِ النَّاسِ وَاخْتِلَافِهِمْ وَلِسَانِ الْعَرَبِ وَيَكُونُ صَحِيحَ الْعَقْلِ حَتَّى يُفَرِّقَ بَيْنَ الْمُشْتَبِهِ، وَلَا يُعَجِّلَ بِالْقَوْلِ وَلَا يَمْتَنِعَ مِنَ الِاسْتِمَاعِ مِمَّنْ خَالَفَهُ لَأَنَّ لَهُ فِي ذَلِكَ تَنْبِيهًا عَلَى غَفْلَةٍ رُبَّمَا كَانَتْ مِنْهُ.... وَعَلَيْهِ بُلُوغُ عَامَّةِ جَهْدِهِ، وَالْإِنْصَافُ مِنْ نَفْسِهِ حَتَّى يَعْرِفَ مِنْ أَيْنَ قَالَ مَا يَقُولُ
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے شاگرد رشید محمد بن حسن فرماتے ہیں کہ جو کتاب اللہ کا عالم ہو سنت رسول اللہ کا عالم ہو اور صحابہ کرام کے اقوال کا عالم ہو اور فقہاء کے اجتہاد و استنباط و قیاس کا عالم ہو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ قیاس و اجتہاد کرے... امام شافعی فرماتے ہیں کہ قیاس و اجتہاد وہی کرسکتا ہے کہ جس نے قیاس کے لیے مطلوبہ علوم و فنون میں مہارت حاصل کی ہو، مثلا قرآن کریم(اور سنت رسول) کے احکامات کا علم ہو قرآن کریم(و سنت رسول) کے فرض واجبات آداب ناسخ منسوخ عام خاص اور اس کے ارشادات و مندوبات وغیرہ کا علم ہو... قیاس و اجتہاد صرف اس عالم کے لئے جائز ہے کہ جو عالم ہو سنتوں کا، اسلاف(صحابہ کرام تابعین عظام و دیگر ائمہ)کے اقوال کا عالم ہو، اسلاف کے اجماع و اختلاف کا عالم ہو، لغت عرب کے فنون کا عالم ہو، عمدہ عقل والا ہو تاکہ اشتباہ سے بچ سکے،اور جلد باز نہ ہو،اور مخالف کی بات سننے کا دل جگرہ رکھتا ہوکہ ممکن ہے یہ غفلت میں ہو اور مخالف کی تنقید سے غفلت ہٹ جائے اور اس پر واجب ہے کہ دلائل پر بھرپور غور کرے انصاف کے ساتھ بلاتعصب اور اسے پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے کس بنیاد پر کہہ رہا ہے
(جامع بیان العلم و فضلہ2/856)
.
*چوتھی بات.......!!*
آیات پاک و حدیث پاک کی تنسیخ تخصیص توضیح تفسیر و تشریح دوسری ایات و احادیث سے ہوتی ہے جس پر کئ دلائل و حوالہ جات ہیں...مثلا
الحدیث:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينسخ حديثه بعضه بعضا، كما ينسخ القرآن بعضه بعضا ".
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کو دوسری حدیث منسوخ و مخصوص(و تشریح) کر دیتی ہے۔ جیسے قرآن کی ایک آیت دوسری آیت سے منسوخ و مخصوص(و تفسیر) ہو جاتی ہے
(مسلم حدیث777)
لیھذا یہ اصول یاد رہے کہ بعض آیات و احادیث کی تشریح تنسیخ تخصیص دیگر آیات و احادیث سے ہوتی ہے....عام آدمی کے لیے اسی لیے تقلید لازم ہے کہ اسے ساری یا اکثر احادیث و تفاسیر معلوم و یاد نہیں ہوتیں،مدنظر نہیں ہوتیں تو وہ کیسے جان سکتا ہے کہ جو ایت یا حدیث وہ پڑھ رہا ہے وہ کہیں منسوخ یا مخصوص تو نہیں.....؟؟ یااسکی تفسیر و شرح کسی دوسری آیت و حدیث سےتو نہیں.....؟ اسی لیے سیدنا سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں
الحديث مَضِلَّة إلا للفقهاء
ترجمہ:
حدیث(اسی طرح آیت عام آدمی کےلیے)گمراہی کا سبب بن سکتی ہے سوائے فقہاء کے
(الجامع لابن أبي زيد القيرواني ص 118)
تو آیت و حدیث پڑھتے ہوءے معتبر اہلسنت عالم کی تفسیر و تشریح مدنظر ہو تقلید ہو یہ لازم ہے ورنہ اپنے سے نکات و مسائل نکالنا گمراہی بلکہ کفر تک لے جاسکتا ہے....وہ عالم وہ مجتہد و فقیہ نکات و مسائل نکال سکتا ہے جو بلاتصب وسیع الظرف ہوکر اکثر تفاسیر و احادیث کو جانتا ہو لغت و دیگر فنون کو جانتا ہو مگر آج کے مصروف دور میں اور علم و حافظہ کے کمی کے دور میں اور فنون و احاطہ حدیث و تفاسیر کے کمی کے دور میں بہتر بلکہ لازم یہی ہے کہ عالم فقیہ بھی تقلید کرے، کسی مجتہد کے قول و تفسیر و تشریح کو لے لے کیونکہ ہر مسلے پر اجتہاد مجتہدین کر چکے
البتہ
جدید مسائل میں باشعور وسیع الظرف وسیع علم والا عالم اپنی رائے پردلیل باادب ہوکر قائم کر سکتا ہے
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App,twitter nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574