Labels

لبیک کے دھرنے بلوچ بھائیوں کے دھرنے سندھی پٹھان بلوچ قومیت پرستی لیڈر پرستی حکومت کو کیا کرنا چاہیے

 *#سوال۔۔۔ احتجاج کا ثبوت احادیث اور صحابہ کرام کےعمل سے۔۔راستے بند کرنا۔۔ریڈ زون میں دھرنا دینا ۔۔۔ ماہ رنگ بلوچ عورت کی سربراہی ۔۔۔ ہم پہلے سندھی بلوچ انسان ہیں یا مسلمان ۔۔۔عدلیہ فوج حکومت اور سندھی پٹھان بلوچ تمام سے اپیل و گزارش۔۔۔۔۔۔۔ !!*

تمھید:

، اعتراض کیا جاتا ہے کہ دھرنا دینا احتجاج کرنا کہیں سے بھی ثابت نہیں ہے تو یہ لبیک والے بدعتی ہیں راستے بند کرنا گناہ ہے تو لبیک اور بلوچ وغیرہ دھرنے کیوں دیتے ہیں ۔ ۔۔راستے کیوں بند کرتے ہیں ۔۔۔کچھ لوگ کہتے ہیں ہم پہلے انسان ہیں انسانیت بڑا مذہب ہے پھر دیگر کچھ ہیں، یہی وسوسہ ملحد دین بیزار لوگ بھی پیش کرتے ہیں اور ان کے اپنے انسانیت کے اصول ہیں جبکہ دین اسلام کے انسانیت کے اپنے اصول ہیں۔۔۔اسی طرح کچھ سندھی بھائی کہتے ہیں کہ ہم پہلے سندھی ہیں پھر پاکستانی اس لیے ہم پاکستان سے جدا ہو کر سندھو ملک بنانا چاہتے ہیں، اسی طرح کچھ بلوچ بھائی کہتے ہیں کہ ہم پہلے بلوچ ہیں پاکستان کا حصہ نہیں ہیں لہذا بلوچستان الگ ملک بنایا جائے ۔۔۔۔اس تناظر میں ملک حکمران ایجنسی فوج وغیرہ حکمت دانائ درگزر کے بجائے طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔۔۔سمجھانے کے بجائے ڈنڈے تشدد کا استعمال کر رہی ہے اور کہتی ہے کہ ریڈ زون میں کسی بھی طرح احتجاج نہیں کیا جا سکتا بلکہ خاص مقام پہ احتجاج کیا جائے جو حکومت خاص کر دے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ماہ رنگ بلوچ عورت ہو کر سربراہی کر رہی ہے جو کہ بلوچی ثقافت اور اسلام کے خلاف ہے۔۔۔۔

ان سب پر ہم قران و سنت کی روشنی میں یہ تیری لکھ رہے ہیں، اللہ ہمیں حق سچ لکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

۔ 

الحدیث

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْكَلِمَةُ الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ ، فَحَيْثُ وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا

حکمت کی بات مومن کا گمشدہ اثاثہ ہے جہاں سے بھی ملے وہ اس کا حقدار ہے

(ترمذی حدیث2687)

اس حدیث پاک میں واضح اشارہ ہے کہ حکمت کی بات ہمیں کسی چھوٹے بڑے یا کسی مشھور یا غیر مشھور کہیں سے کسی سے بھی ملے لے لینی چاہیے۔۔۔ محض اپنے اپ کو عقل کل نہیں سمجھنا چاہیے

۔ 

###############

*# پہلی بحث احتجاج کا ثبوت ریڈ زون میں جانا راستے بند کرنے کا ثبوت۔ ۔۔۔۔۔ !!*

الحدیث

كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَدْرِ النَّهَارِ، قَالَ : فَجَاءَهُ قَوْمٌ حُفَاةٌ عُرَاةٌ، مُجْتَابِي النِّمَارِ مُجْتَابِي النِّمَارِ ، أَوِ الْعَبَاءِ مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ، عَامَّتُهُمْ مِنْ مُضَرَ، بَلْ كُلُّهُمْ مِنْ مُضَرَ، فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَا رَأَى بِهِمْ مِنَ الْفَاقَةِ، فَدَخَلَ، ثُمَّ خَرَجَ فَأَمَرَ بِلَالًا، فَأَذَّنَ، وَأَقَامَ، فَصَلَّى، ثُمَّ خَطَبَ، فَقَالَ : " { يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ } إِلَى آخِرِ الْآيَةِ { إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا } ، وَالْآيَةَ الَّتِي فِي الْحَشْرِ { اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ } تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِينَارِهِ، مِنْ دِرْهَمِهِ، مِنْ ثَوْبِهِ، مِنْ صَاعِ بُرِّهِ، مِنْ صَاعِ تَمْرِهِ، حَتَّى قَالَ : وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ ". قَالَ : فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ بِصُرَّةٍ كَادَتْ كَفُّهُ تَعْجِزُ عَنْهَا بَلْ قَدْ عَجَزَتْ، قَالَ : ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ حَتَّى رَأَيْتُ كَوْمَيْنِ مِنْ طَعَامٍ، وَثِيَابٍ حَتَّى رَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَلَّلُ كَأَنَّهُ مُذْهَبَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ ". 

حضرتِ سَیِّدُنا ابو عَمرو جریر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ہم دن کے ابتدائی وقت میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر تھے۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس کچھ بےلباس(ستر پوشی جتنا اور انتہائی غریبانہ لباس تھا اس کے سوا کوئی لباس نہ تھا ایسے لوگ)لوگ آئے جنہوں نے اُون کی دھاری دار چادریں یا ٹاٹ کی چادریں پہنی ہوئی تھیں اور ان کی گردنوں میں تلواریں لٹکی ہوئی تھیں ،  ان میں سے اکثر بلکہ سب کے سب قبیلہ مُضَر سے تعلق رکھتے تھے۔اُن کو اِس فقر و فاقہ کی حالت میں دیکھ کر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا چہرہ اَنور متغیر ہوگیا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اندر تشریف لے گئے پھر باہر تشریف لائے اور حضرتِ سَیِّدُنا بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اذان کا حکم دیا ،  سَیِّدُنابلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اذان دی اور اقامت کہی اورآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیا اوریہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:

 (یٰۤاَیُّهَا  النَّاسُ   اتَّقُوْا  رَبَّكُمُ  الَّذِیْ  خَلَقَكُمْ  مِّنْ  نَّفْسٍ  وَّاحِدَةٍ  وَّ  خَلَقَ  مِنْهَا  زَوْجَهَا  وَ  بَثَّ  مِنْهُمَا  رِجَالًا  كَثِیْرًا  وَّ  نِسَآءًۚ-وَ  اتَّقُوا  اللّٰهَ  الَّذِیْ  تَسَآءَلُوْنَ  بِهٖ  وَ  الْاَرْحَامَؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  كَانَ  عَلَیْكُمْ  رَقِیْبًا (۱))  (پ۴،  النساء:۱)ترجمۂ کنزالایمان:اے لوگو اپنے ربّ سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مردوعورت پھیلادیے اوراللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے۔

پھر یہ دوسری آیت پڑھی جو سورۂ حشر کے آخرمیں ہے:

 (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ-)  (پ۲۸،  الحشر:۱۸)ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ سے  ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ کل کے ‏لیےکیا آگے بھیجا۔

پھر ارشاد فرمایا:  ’’ لوگ اپنے دینار،  درہم،  کپڑوں ،  ایک صاع گندم،  ایک صاع کھجوروں میں سے کچھ نہ کچھ صدقہ کریں اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ ‘‘  راوی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اس فرمانِ جنت نشان کو سننے کے بعد ایک انصاری صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک تھیلی لائے جس کےوزن کی وجہ سے ان کا ہاتھ تھکنے والا تھا بلکہ تھک ہی چکا تھا۔اس کے بعد لوگ دھڑا دھڑ اپنے صدقات بارگاہِ رسالت میں پیش کرنے لگےیہاں تک کہ میں نے غلے اور کپڑے کے دو ڈھیر دیکھے اور میں نےدیکھا کہ حضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا چہرۂ انورخوشی سےکُنْدَن  (یعنی خالص سونے)  کی طرح چمک رہا تھا۔پھرآپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : ’’ جس نے اسلام میں کوئی نیک اور اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اُسے اُس کا اَجر ملے گا اور بعد میں اُس پر عمل کرنے والوں کا بھی اجر ملے گا اوراُن عمل کرنے والوں کے اجر میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ ایجاد کیا تو اُسے اس کا گناہ ملے گا اور  بعد میں اُس پر عمل کرنے والوں کا بھی گناہ ملے گا اور اُن عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی واقع نہ ہوگی۔ ‘

(مسلم حدیث 1017)

.

مذکور حدیث پاک میں یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صحابہ کرام کی ایک جماعت احتجاج کے لیے ائی۔ ۔۔۔ البتہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان اپنی حالت زار اپنے حقوق اپنے مسائل وغیرہ کے لیے جمع ہو کر مخصوص حالت میں ا کر جلوس کی صورت میں حاکم کے پاس ائیں مطالبات پیش کریں فی زمانہ اسے احتجاج کا نام دیا جائے تو یہ بالکل برحق اور ثابت ہے

۔ 

اصل بات تو یہی ہے کہ احتجاج اس طرح کرنا چاہیے کہ کسی اور کو تکلیف نہ پہنچے فقط حکومت وقت اور ذمہ داروں تک بات پہنچے کہ ہم کس پریشانی میں ہیں ہمارے مطالبات حل کیے جائیں پورے کیے جائیں مسائل حل کیے جائیں

۔ 

لیکن اگر حکومت ایسی ہو ایسی نا اہل ہو کہ اس کی مخصوص کردہ جگہ پر احتجاج کرنے سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو تو پھر مجبورا اپنے حقوق کے لیے چھوٹے نقصانات برداشت کرنے پڑتے ہیں تاکہ بڑے فوائد حاصل کیے جا سکیں اس لیے راستے بند کیے جا سکتے ہیں اس لیے ریڈ زون میں بھی جانے کی کوشش کی جا سکتی ہے تاکہ حکومت پر ذمہ داروں پر پریشر پڑے اور دھرنے کی بھی صورت دی جا سکتی ہے تاکہ مسائل جلد حل ہوں ان پر پریشر پڑے

۔ 

اہم اسلامی مطالبات حقوق پے ملک گیر زبردست احتجاج دھرنے جلوس ریلیاں ہوں تو شرکت کرکے کامیاب بنائیے کہ اس سے حکومت کو بہانا مل جائے گا کہ وہ عالمی طاقتوں کو کہہ سکے گی کہ دیکھو ہم تو نہیں چاہتے مگر عوام کا دباو ہے…احتجاج مجبوری ہے لیھذا احتجاج کی وجہ ٹریفک جام،  کاروبار جام وغیرہ چھوٹے موٹے نقصانات و اذیت برداشت کیجیے

.

القرآن:

إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة، فاسعوا إلى ذكر الله وذروا البيع

ترجمہ:

جب جمعہ کے دن جمعہ نماز کے لیے ندا دی جائے(نماز جمعہ کے لیے بلایا جائے، اذان دی جائے) تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرو اور کاروبار چھوڑ دو

(سورہ جمعہ آیت9)

.

جمعہ نماز فرض ہے مگر تحفظِ اسلام اور تحفظِ ناموس رسالت اور تحفظِ ختمِ نبوت تو نمازِ جمعہ سے بڑھ کر عظیم فریضہَِ اسلام ہیں

جب جمعہ نماز کے لیے اسلام نے سختی کی، کاروبار بند کرایا تو یقینا حالتِ مجبوری میں تحفظِ اسلام اور تحفظ ناموس رسالت اور تحفظِ ختمِ نبوت وغیرہ اسلام کے اہم معاملات و نظریات کے لیے کاروبار اور اکثر راستے بند کرائے جاسکتے ہیں...احتجاج دھرنے دییے جاسکتے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ بھرہور کوشش کی جائے کہ کسی کی موت احتجاج دھرنے کی وجہ سے نا ہو...اس لیے کچھ راستے ایمبولینس ایمرجنسی کے لیے بھی کھلے رکھنا چاہیے...کوشش کے باوجود کسی کی موت ہوجائے تو عظیم مقصد کے لیے شہادت کہلائے گی، اس شہادت و قتل کا ذمہ دار مجبور احتجاجی ذمہ دار نہین کہلاءیں گے... احتجاج دھرنے مجبوری ہیں، موجودہ حالات میں ہم کمزوروں مجبوروں کے پاس احتجاج اور دھرنے کے علاوہ مفید راستہ ہی کیا بچا ہے.....؟؟

.

لیھذا جب بھی انتہاہی اہم اسلامی مقصد کے لیے مجبورا احتجاج یا دھرنے کی کال دی جائے تو دل و جان سے حصہ لیجیے...کاروبار بند کیجیے... تکلیف برداشت کیجیے... اور جنہین تکلیف ہو اسے سمجھائیے حوصلہ بڑھاءیے کہ بھائی آپ کو عظیم مقصد کی خاطر مشقت اٹھانا پڑ رہی ہے تو آپ کو اجر و ثواب دوگنا سے بھی زیادہ بڑھا کر دیا جائے گا

اسلام ہماری اذیت و مشقت نہین چاہتا، جان بوجھ کر تکلیف میں پڑنے اور دوسروں کو تکلیف میں ڈالنے سے روکتا ہے مگر اسلام یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ اچھے کام میں مشقت اٹھانی پڑے تو اجر و ثواب زیادہ ملتا ہے

.

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ولكنها على قدر نفقتك أو نصبك

ترجمہ:

اور تمھیں اسکا ثواب تمھارے خرچ یا تھکاوٹ و مشقت کے حساب سے ملے گا

(بخاری حدیث1787)

.


عظیم مقصد کے لیے تکالیف برداشت کرنا پڑتی ہیں...بلکہ عظیم مقصد میں ہمیں تکلیف پر تکلیف ہی نہیں ہونی چاہیے

.

.

مریض کا علاج کے وقت اسے کتنی تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے...؟؟کبھی تو جسم کا کوئی عضو بھی کاٹنا پڑتا ہے...مریض کے ناچاہتے ہوئے بھی اسے کڑوی دوائی دی جاتی ہے...کڑوی دوا کی اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے...مریض پر مختلف پابندیاں اس کی بھلائی کے لیے لگائی جاتی ہیں... مرض موذی وبائی ہو تو معاشرتی بھلائی کے لیے دوسروں پر پابندی لگائی جاتی ہے...دوسروں کو بھی اپنی بھلائی اور مریض کی بھلائی کے لیے تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہیں

 اسی طرح

گستاخیِ رسول   ختم نبوت پر مختلف قسم کے ڈاکے حیلے بہانے سے ڈاکے موذی وبائی مرض ہیں

سیکیولر ازم من پرستی،فحاشی بھی وبائی مرض ہے

جو

پاکستان میں پھیلا گیا اور پھیلایا جا رہا تھا اور پھیلا جا رہا ہے اس کے علاج کے لیے دیگر طریقوں کے علاوہ لبیک یا دیگر سچے اہلسنت دھرنے اور احتجاج کریں تو اپنی بھلائی اور معاشرتی بھلائی کے لیے تکلیف برداشت کیجیے اور احتجاج دھرنوں میں شرکت کیجیے

.

لبیک وغیرہ اہلسنت قائدین ورکرز کی ذات کی گرفتاری نہیں بلکہ نظریہ کی گرفتاری ہے…لیھذا ایسے قائدین کے لیے نکلنا بھی اسلام کے لیے نکلنا ہے

.

###########

*#دوسری بحث ہم پہلے انسان ہیں بلوچ ہیں پٹھان ہیں سندھی ہیں پھر مسلمان ہیں اس لیے الگ ملک ملنا چاہیے۔۔اس کا جواب.......!!*

الحدیث:

قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ

نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے( یعنی دین اسلام کی فطرتی احکام پر پیدا ہوتا ہے) وہ تو بعد میں اس کو اس کے ماں باپ (یا دیگر لوگ یا معاشرہ یا اس کا گندا ذہن یا شیطان یا والدین یا دوست احباب وغیرہ) اسے یہودی نصرانی مجوسی وغیرہ بنا دیتے ہیں

(بخاری حدیث1385)

.

الحدیث:

آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ ؛ فَإِنْ مُتَّ فِي لَيْلَتِكَ مُتَّ عَلَى الْفِطْرَةِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اس طرح سو جاو یہ کہہ کر کہ اے اللہ میں قران مجید پر ایمان لایا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لے کر ائے ان پر ایمان لایا اگر تم اس حالت میں وفات پا جاؤ تو فطرت پر وفات پا گئے(ثابت ہوا کہ اسلام پے ہونا فطرت پے ہونا ہے)

( ترمذی حدیث3574)

۔ 

پہلی حدیث پاک اور دوسری حدیث پاک دونوں سے واضح ہوتا ہے کہ انسان فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوا ہے توحید والے عقیدے نظریے پر پیدا ہوا ہے۔۔۔اچھے نظریے عقیدے پر پیدا ہوا ہے ۔۔۔حسن اخلاق والے نظریے پر پیدا ہوا ہے اس سے تو برا یا قومیت پرست یا شخصیت پرست یا وطن پرست یا یہودی یا عیسائی یا دین بیزار ملحد وغیرہ مجوسی وغیرہ دیگر جو کچھ بھی ہے اس کی طرف تو اسے معاشرہ لے کے جاتا ہے یا دوست احباب لے کر جاتے ہیں یا والدین گمراہ کرتے ہیں یا انسان وسوسے میں ا کر شیطان کے وسوسے میں اکر گمراہ ہو جاتا ہے نفس پرستی میں ا کر گمراہ ہو جاتا ہے

۔ 

لہذا ہم پہلے مسلمان ہیں پھر انسان ہیں

لہذا ملحد لوگ دین بیزار لوگ نیچری لوگ جو اپنی عقل کے مطابق قواعد بناتے ہیں قوانین بناتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ انسانیت کے اصول ہیں تو یہ غلط کہتے ہیں ۔۔۔۔ارے یہ تمہارے بنائے ہوئے اصول ہیں ۔۔۔ انسانیت کے اصول تو وہ ہیں جو اسلام نے بتائے

۔ 

 ہم پہلے مسلمان ہیں پھر پٹھان ہیں

 ہم پہلے مسلمان ہیں پھر بلوچ ہیں

 ہم پہلے مسلمان ہیں پھر سندھی ہیں

ہم پہلے مسلمان ہیں پھر مہاجر یا کشمیری ہیں یا پنجابی ہیں

۔ 

لہذا ہم سب بھائی بھائی ہیں ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرنی چاہیے۔۔قوم پرستی نہیں کرنی چاہیے ۔۔۔قومیت تو فقط پہچان کے لیے ہے لہذا یہ مت کہیے کہ ہم پہلے پٹھان ہیں بلوچ ہیں سندھی ہیں اس لیے ہمیں الگ ملک دیا جائے

.

  رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " الْإِسْلَامُ يَزِيدُ وَلَا يَنْقُصُ ". فَوَرَّثَ الْمُسْلِمَ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسلام بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا

(ابوداود تحت الحدیث2912)

(استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ تحت حدیث31450نحوہ)

.

لیہذا ہمیشہ یہی مد نظر ہو کہ اسلام کی سربلندی کس چیز میں ہے۔۔۔؟؟ کیا ملک کے ملک پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا اسلام کے لیے اچھا ہے اسلام کے لیے نفع بخش ہے۔۔۔۔؟؟ یا مہاجر اور انصار صحابہ کرام علیہم الرضوان کی طرح بلوچ پنجابی پٹھان سندھی مہاجر سارے سب مل کر پوری طاقت سے متحد ہو کر اسلام مطابق ملک پاکستان کو مضبوط بنائیں اسی میں اسلام کی سربلندی ہے اور اسی میں ہماری بھلائی ہے ۔۔۔ہاں ایک دوسرے کے کتنے حقوق بنتے ہیں کون کون سے حقوق بنتے ہیں اس چیز کے لیے علماء حق سے رابطہ رکھا جائے اور انہی کی سربراہی میں جلوس نکالے جائیں ۔۔۔انہی کی سربراہی میں مطالبات تیار کیے جائیں ۔۔۔ انہی کی سربراہی میں مطالبات کے لیے عظیم الشان دھرنے وغیرہ ہوں جلوس ہوں۔ ۔۔۔۔ باقی ہم بلوچ ہیں ہمارے علاقے میں کوئی نہ ائے ہم سندھی ہیں ہمارے علاقے میں کوئی نہ ائے ہم پنجابی ہیں ہمارے علاقے میں کوئی نہ ائے ہم پٹھان ہیں ہمارے علاقے میں کوئی نہ ائے یہ سب قومیت پرستی عظیم ترین گناہ ہے بات کفر تک منافقت تک جا سکتی ہے جاتی ہے۔ ۔۔۔۔ ہاں یہ کہنا چاہیے کہ یہ علاقہ اکثریت میں فلاں قوم کا ہے تو یہاں پر حقوق بھی اسلام کے مطابق اس علاقے والوں کو زیادہ ملنے چاہیے اپنے علاقے کی ترقی چاہنا اپنی قوم کی ترقی چاہنا اسلام کے دائرے میں ہو تو بالکل جائز اور برحق ہے


۔ 

حدیث ترجمہ:

جو عصبیت(قوم پرستی، گروپ پرستی) کی طرف بلاے وہ ہم(اہل حق،اہل اسلام) میں سے نہیں..

وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی لڑائ لڑے،

وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر مرے..

(ابوداود جلد2 صفحہ698 باب فی العصبیۃ)

.

حدیث ترجمہ:

عصبیت(قوم پرستی، گروپ پرستی)یہ ہے کہ تم ظلم.و.ناحق پر قوم کی مدد کرو..

(ابوداود جلد2 صفحہ698 باب فی العصبیۃ)

.

حدیث ترجمہ:

تم میں سے بہتر وہ ہیں جو عزیز و اقارب قوم کا دفاع و مدد کریں بشرطیکہ معاملہ گناہ(گناہ و ناحق) کا نا ہو..

(ابوداود جلد2 صفحہ698 حدیث5120 باب فی العصبیۃ)

.

پنجابیوں کو کو فقط پنجابی ہونے کی بنیاد پر قتل کرنا ناحق قتل ہے، اسی طرح لسانیت قومیت کی بنیاد پر بلوچوں کا قتل بھی ناحق ہے، اسی طرح پختونوں کو محض پختون ہونے کی وجہ سے قتل کرنا بھی ناحق ہے...محض قومیت کی وجہ سے امتیازی سلوک رکھنا ناحق ہے..اسلام میں قوم پرستی لسانیت کی بنیاد پر لڑائی و کاروائی کی مذمت ہے، اسے جاہلیت کی موت فرمایا گیا ہے

.

قوم کی حمایت...انکی فلاح و بہبود ترقی کی سوچ و کردار اگر اسلامی اخلاقی حد تک ہو برحق و سچ پر مبنی ہو تو جائز ہے ثواب ہے، ایسی مشروط اسلامی قوم پسندی اور ایسی وطن پسندی کی مذمت نہیں بلکہ یہ تو ذمہ داری ہے...اسلامی حد مین رہتے ہوئے حق پر قوم ملک کا دفاع کرنا برحق ہے اسکو قوم پرستی وطن پرستی نہیں کہا جاسکتا...

.

ناحق اور ظلم پر تائید و حمایت کرنا یا حق ناحق کی پرواہ کیے بغیر اپنی قوم ملک پارٹی گروپ کی اندھا دھند پیروی کرنا قوم پرستی ہے پارٹی پرستی ہےوطن پرستی ہے..جوکہ ناحق ہے اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے عقلا بھی ٹھیک نہیً

.

کسی بات،کسی کام کی فقط اس وجہ سے تائید و حمایت کرنا کہ قومیت،برادری،ملک،پارٹی کا معاملہ ہے چاہے حق سچ ہو یا نا ہو تو یہ قوم پرستی ہے وطن پرستی فرقہ پرستی ہے

جسکی احادیث مبارکہ میں سخت مذمت ہے..

.

وطن پرستی اور مشروط وطن پسندی مین فرق

قومیت پرستی اور مشروط قومیت پسندی میں فرق ملحوظ خاطر رکھنا لازم ہے.......!!

.

*بھائی چارگی اپنانا لازم ہے۔۔۔ایثار محبت برداشت و ترقی کی ترویج لازم ہے...قوم پرستی ظلم و بھتہ خوری اجارہ داری دہشتگردی کی مذمت و روک تھام لازم ہے..........!!*

القرآن..ترجمہ:

مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں

(سورہ حجرات آیت10)

.

القرآن..ترجمہ:

جو اپنی ضرورت و تنگی کے باوجود دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، جو لالچ سے بچائے گئے وہی کامیاب ہیں(سورہ حشر آیت9)

.

مسلمان مسلمان کا بھائی ہےوہ اپنےبھائی پےنہ ظلم کرے،نہ ظلم ہونےدے،نہ مسلمان بھائی کو بےیار.و.مددگار چھوڑے(بخاری حدیث2442)

.

کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی مسلمان کو ڈرائے دہشگردی غنڈہ گردی پھیلائے(اجارہ داری کرے بھتہ خوری کرے جائز نہیں)(ابوداود حدیث5004)

.

آپس میں بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کرو، اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو...(بخاری حدیث6076)

.

 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

وَاعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ

 جان لو کہ بے شک ساری زمین تو اللہ اور اس کے رسول کی ہے...(بخاری حدیث3167)

.

 ساری زمین ساری طاقت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے ہم تو اللہ کے بندے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں

تو

 تو یہ مت کہیے کہ یہ علاقہ ہمارا ہے یہاں پنجابیوں کی جگہ نہیں سندھیوں کی جگہ نہیں مہاجر کی جگہ نہیں پٹھان کی جگہ نہیں... ہر علاقے ہر ملک میں مسلمان مختلف قوموں کو آپس میں مل کر بھائیوں کی طرح رہنا چاہیے ...جو زمین کا حصہ جس کی ظاہری ملکیت میں ہے جو کاروبار جس کی ظاہری ملکیت میں ہے وہ اس کا ہے اس پر حسد نہ کریں،بھتہ نہ لیں،دہشت نہ پھیلائیں....ہاں ایک مسلمان کو سوچنا چاہیے کہ جو کاروبار میں کر رہا ہوں اس میں میرے یہاں کے مقامی لوگ بھی شریک ہوتے جائیں، یہ کاروبار سیکھتے جائیں تو اچھی بات ہے کہ ایثار و ترقی ایک دوسرے کی چاہنا اسلام کا حکم ہے... کسی قوم کو کسی ذات کو تعلیم سے ترقی سے روکنا امتیازی سلوک کرنا یہ ٹھیک نہیں ہے... کسی مسلمان کو کسی مسلمان کے علاقے میں کاروبار سے روکنا ، جگہ خریدنے سے روکنا بھی ٹھیک نہیں ہے.... کسی کی اجارہ داری غنڈہ گردی نہیں ہونی چاہیے بلکہ جو طاقت میں ہو تو وہ کمزوروں کو طاقت و ترقی و شعور میں لانے کی کوشش کرے کہ سب مسلمان بھائی بھائی ہیں

۔ 

################

*#تیسری بحث۔ ۔۔ ایسے معاملات میں حکومت لیڈر سیاست دان حکمران جرنیل وغیرہ فوج وغیرہ ایجنسی وغیرہ کا کام۔ ۔۔۔۔۔ !!*

القران:

اِدۡفَعۡ  بِالَّتِیۡ  ہِیَ  اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِیۡ بَیۡنَکَ وَ بَیۡنَہٗ  عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ  وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ

دفاعی اقدام  احسن انداز میں کرو کہ اگر تمہارے اور ان کے درمیان دشمنی بھی ہوگی تو وہ ایسے ختم ہو جائے گی کہ جیسے تم گہرے دوست ہو

( سورہ فصلت ایت34)

۔ 

ویسے تو یہ حکم عموما سب کے لیے ہے کہ وہ اس طرح اپنا دفاع کریں اس اچھے انداز میں کریں اچھے الفاظ میں کریں دلیل سے کریں کہ اگلا دشمن بھی ہوگا تو دشمنی ختم ہو جائے گی حسن اخلاق کو دیکھ کر بھلائی کو دیکھ کر ، انصاف پسندی کو دیکھ کر ، سخاوت کو دیکھ کر ، ایثار کو دیکھ کر، دلیل اور انداز کو دیکھ کر دشمنی ختم ہو جائے گی مگر کبھی مجبورا کسی سے سختی سے بات کرنا پڑتی ہے یا سختی سے نمٹنا پڑتا ہے مگر عمومی طور پر اوپر والا نرمی والا حسن اخلاق والا ہی انداز رکھنا چاہیے خاص طور پر حکمرانوں کو جرنیلوں کو فوج کو سیاست دانوں کو تو خاص خیال رکھنا چاہیے کہ وہ عوام کے ساتھ اچھا رویہ رکھیں ان کے حقوق کا تحفظ کریں بن مانگے حقوق عطا کریں اگر حقوق کے لیے کوئی نکلا ہے جلسے جلوس کر رہا ہے دھرنے دے رہا ہے تو اسے اچھے انداز سے نمٹیں۔ ۔۔۔ غنڈا گردی داداگری طاقت کا استعمال منافقت کا استعمال ایجنٹی کا استعمال یہ سب حکومت کو فوج کو عوام کی نظر میں گھٹیا قرار دے دے گا پھر یہ دھرنے جلوس وغیرہ سب کچھ بغاوت میں تبدیل ہوتے جائیں گے اور ملک تباہ ہوتا جائے گا ۔۔۔۔اے پیاری عوام اگر حکمران ملک تباہ کرنے کے درپے ہوں تو اپ لوگ دھرنے جلوس وغیرہ سے باز ا جائیں بلکہ علمائے کرام کا دامن تھام لیں اور ان سے پوچھیں کہ اب کیا کرنا ہے کیسے کرنا ہے کن مطالبات تک جانا ہے کن مطالبات کو فی الحال مطالبات میں شمار نہیں کرنا

۔ 

الحدیث:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَقِيلُوا ذَوِي الْهَيْئَاتِ عَثَرَاتِهِمْ، إِلَّا الْحُدُودَ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اچھے اخلاق والوں کی لغزشوں سے درگزر کرو مگر یہ کہ معاملہ اسلامی حدود کا ہو تو درگزر نہیں

(ابوداود حدیث4375)

 اس حدیث پاک سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ اچھے لوگوں سچے اچھے علماء کرام مولویوں پیروں لیڈروں سادات کرام وغیرہ سے کچھ بظاہر نازیبا فتوی یا قول یا دھمکی وغیرہ سرزد ہوئی ہے تو اسے بہانہ بنا کر علماء پر تشدد مولویوں پر تشدد ظلم و بربریت کے پہاڑ نہیں توڑنے چاہیے بلکہ حکومت تحمل مزاجی بردباری درگزر سے کام لے

بلکہ

دیگر برحق علماء محققین دانشور سلجھے ہوئے علماء منجھے ہوئے علماء اہل محبت علماء عشق رسول والے علماء سے مشاورت کرنی چاہیے کہ فلاں سے فلاں فتوی یا قول یا دھمکی سرزد ہوئی ہے جسے دیکھا جائے تو بغاوت بھی کہہ سکتے ہیں لیکن ہم اسلام کو ماننے والے ہیں تو اسلام ہمیں بردباری تحمل مزاجی درگزر کا درس دیتا ہے وضاحت طلب کرنے کا درس دیتا ہے تو اپ علماء کرام کا فلاں معاملے میں فلاں بندے کے قول یا دھمکی کو کس زمرے میں لیا جائے اور اپ علماء اس میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں

کہیں ایسا تو نہیں کہ جسے ہم بغاوت سمجھ رہے ہیں وہ برحق فتوی ہو وہ برحق دھمکی ہو لیکن ہم مجبور ہیں یہ مجبوری ہے عالمی پریشر ہے تو اپ لوگ ہماری جگہ ہوتے کیا کرتے علماء سے مشاورت کی جائے خفیہ طریقے سے علماء سے مشاورت کی جائے تاکہ عالمی طاقتوں تو یہ نہ لگے کہ سچے علماء اقتدار میں اگئے ہیں لہذا اب بہانہ بنا کر اس اسلامی ملک کو تباہ کر دو پابندیاں لگا دو ایٹمی ا سے قبضہ کر لو مختلف جنگی ساز و سامان قبضہ کر لو پابندیاں لگا دو۔ ۔۔۔ لہذا حکومت کو بھی لچک دکھانی چاہیے اور ہمارے علماء کرام بعض علماء کرام کو بھی لچک دکھانی چاہیے اور بعض کو جوش و جذبے والا جوش جذبے ابھارنے والا ہونا چاہیے تاکہ عالمی طاقتوں کو کچھ نہ کچھ خوف رہے کہ ان میں اب بھی جوش ایمانی موجود ہے اور اس کی کچھ جھلک بھی نظر انی چاہیے

#################

*#الحاصل۔۔۔بلوچ سندھی پنجابی پٹھان اور حکمران فوج عدلیہ ایجنسی وغیرہ کو یہ کچھ کرنا چاہیے۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔ !!*

سب سے پہلے تو عوام بھائی بلوچ بھائی سندھی بھائی پنجابی بھائی پٹھان بھائی سارے اپنے حقوق کے لیے علماء کرام اور ماہرین قانون سے رابطہ مسلسل رکھ کر یہ طے کرنا چاہیے کہ کتنے وسائل پر کتنے حقوق ہمارے بنتے ہیں کتنے فیصد بنتے ہیں کتنے فیصد ادا ہو رہے ہیں اور کتنے فیصد ادا نہیں ہو رہے اور کیوں نہیں ہو رہے بظاہر۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔؟؟ 

پھر

بغاوت کرنے الگ ملک بنانے کے بجائے علماء کی سربراہی میں علماء کی اجازت سے دھرنے جلوس نکالیں اپیلیں کریں کیسز کریں اگر کارگر نہ ہوں تو ریڈ زون میں بھی دھرنا کیا جا سکتا ہے تاکہ پریشر پڑے عوام کا سمندر ہو تاکہ حکمران اگر ایجنٹ بھی ہوں تو اپنے اقاوں کو کہہ سکیں کہ عوامی پریشر ہے ہمیں حقوق دینے ہوں گے ورنہ عوام جوتے مارے گی

۔ 

تمام قوموں کو قومیت پرستی سے علاقہ پرستی سے بچنا چاہیے چوری غنڈا گردی ڈکیتی بےحیائ زنا شراب جوا وغیرہ برے کاموں سے بچنا چاہیے لازمی بچنا چاہیے اور اپنی اولاد کو بھائیوں کو ان برائیوں سے دور رکھنا کی بھرپور کوشش کی جائے۔ ۔ ۔ اپس میں بھائی چارگی کا درس دیا جائے بھائی چارگی قائم کی جائے ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے ایک دوسرے کی ترقی سوچنی چاہیے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے چاہیے نوابی تکبر وغیرہ سے بچنا لازم ہے۔ ۔ ۔۔ علماء کا ادب اور ان کی خدمت کرتے رہنا چاہیے اور علماء سے مشاورت کر رکھنی چاہیے علماء کرام کے احکامات کی مدلل احکام احکامات کی پر لاجک احکامات کی پاسداری کرنی چاہیے ان پر عمل کرنا چاہیے دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی ترقی بھی کرنی چاہیے اسلام کی سربلندی کے لیے۔ ۔۔۔۔ !!

۔ 

علماء کرام عوام کو اپنا بڑا بھائی چھوٹا بھائی سمجھیں ان کا ادب کریں شفقت کریں ادب اور شفقت سے سمجھائیں عرض کریں یا حکم دیں انہیں کیڑے مکوڑے نہ سمجھیں اپنی من مانی نہ کریں بلکہ شریعت مطہرہ کا حکم حق سچ کا فیصلہ سنائیں جو اسلام کی سربلندی کا باعث بنے ایک دم سے سب کچھ نافذ کر دینا بظاہر ممکن نہیں لگتا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم اسلام سے دور ہوتے جائیں بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہمیں اسلام کے قریب سے قریب تر ہوتے جانا چاہیے اور اہستہ اہستہ نفاذ کرنا چاہیے یک دم نفاذ بھی ہو سکتا ہے کچھ معاملات کو فلفور نافذ کرنا چاہیے اسلام کی سربلندی کے لیے۔ ۔۔۔ 

۔ 

حکومت عدلیہ حکمران لیڈر فوج سیاستدان سب پر لازم ہے کہ ہم عوام کا خیال رکھیں ہمارے حقوق علماء کی مشاورت سے طے کروائیں اور حقوق اہستہ اہستہ زیادہ سے زیادہ دیتے جانے کی کوشش کریں، نوابی تکبر گنڈا گردی سے باز ائیں۔۔۔۔ ناحق کیسز بنانا، ناحق گرفتاریاں کرنا یا ناحق اٹھا لینا، بندے غائب کر دینا، بندے مار دینا یہ ان اصول اور انصاف اور اسلام کے خلاف ہے اس سے نفرت ہی بڑھے گی۔ ۔ ۔ ۔ حکومت تو وہ ہے کہ جو محبت کے بل بوتے پر کی جائے۔ ۔۔ طاقت کے زور پر ڈنڈے کے زور پر بظاہر حکومت تو کی جا سکتی ہے لیکن دلوں میں کوئی اس کی جگہ نہیں اور قیامت کے روز اس کا بھیانک انجام ہوگا

۔ 

حکومت فوج سیاستدان بغاوت کو بھی کچلنے کے لیے محض اپنی طاقت کے بل بوتے پر ایکشن نہ اٹھائے کہ اس سے مزید بغاوت بڑھے گی مزید داخلی انتشار پھیلے گا مسلمان کمزور ہوں گے اسلام کی کمزوری کا باعث بنے گا۔ ۔۔۔ بغاوت دہشت گردی وغیرہ کو ختم کرنے کے لیے بات چیت کرنی چاہیے علمائے کرام کو ان کے وفود کو لیڈر عمائدین کو اپنے ساتھ ملا کر انہیں تحفظ سکیورٹی فراہم کر کے دہشت گردوں بغاوت والوں سے ان کا رابطہ کرانا چاہیے اور انہیں ان بزرگوں کے ذریعے سے سمجھایا جائے۔ ۔۔۔ ان پر سخاوت کرنی چاہیے اس نے اخلاق سے پیش انا چاہیے تاکہ وہ کسی کی ایجنٹی میں نہ ائیں پیسے وغیرہ کی لالچ میں نہ ائیں انہیں ان کے علاقے میں عہدے طاقت وغیرہ دینے چاہیے حقوق دینے چاہیے۔ ۔ ۔ اور انہیں ہمیشہ ہمیشہ یہی تلقین کی جائے کہ اسلام کے مطابق ہم سب کو پابند ہونا ہے اسلام کے مطابق چلنا ہے۔ ۔۔ 

۔ 

کچھ بھائی کہہ رہے تھے کہ بلوچوں کا جو دھرنا ہے گوادر میں وہ اخر گوادر میں کیوں ہے کسی اور شہر میں کیوں نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟ اسلام میں تو عورت کی سربراہی ناجائز ہے پھر ان کی سربراہی عورت کیوں کر رہی ہے یہ تو بلوچوں کی ثقافت کے بھی خلاف ہے۔ ۔ ۔۔۔ ؟؟ 

۔ 

اس کے جواب میں عرض ہے کہ مجھے نہیں پتہ کہ عورت کس وجہ سے سربراہی کر رہی ہے عین ممکن ہے کہ وجہ یہ ہو کہ اگر مرد بلوچ لیڈر بنتا تو اسے اٹھا لیا جاتا اسے اڑا دیا جاتا جب کہ ہمارے معاشرے میں اور عالمی معاشرے میں عورت کی عزت و تحفظ کچھ زیادہ ہی ہے اس لیے عورت کو سربراہ بنایا گیا تاکہ جائز حقوق حاصل کیے جا سکے اور ناحق گرفتاریاں ٹارگٹ کلنگ بوری بند لاشوں کے سلسلے کو روکا جائے اور وسائل پر جائز حقوق حاصل کیے جائیں لیکن میں اپنے بلوچ بھائیوں کو کہنا چاہوں گا کہ وہ یہی نظریہ رکھیں کہ اسلام مطابق عورت کی سربراہی ٹھیک نہیں بلوچی ثقافت کے بھی خلاف ہے اور ثقافت اگر اسلام مطابق ہو تو برحق ہے اگر ثقافت اسلام کے خلاف ہو تو اسے جوتے کی نوک پر رکھنا چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ بلوچ بھائی یہی سمجھیں کہ ہمیں مجبورا ماہ رنگ بلوچ عورت کو سربراہ بنایا ہے ورنہ ہمارے اصلی لیڈر ہمارے اصلی سردار بڑے بڑے علماء ہیں اور ان سے وابسطہ سردار بھی ہمارے لیڈر ہیں کہ جو مشہور بھی نہیں کیونکہ جو مشہور ہوتا ہے اسے اڑا دیا جاتا ہے یا مشہور فقط وہ ہوتا ہے جو حکومت کا پالتو ہوتا ہے یا ڈرپوک ہوتا ہے

۔ 

رہی بات گوادر میں اور اسلام اباد میں فیض اباد میں ایسے ریڈ زون میں جلسے دھرنے کرنے کی تو اس کی وجہ بھی یہی ہوگی کہ ہم نے بہت کوشش کر کے دیکھ لی کوئی حق نہیں ملتے اس لیے مجبورا ریڈ زون ایریے میں بڑی تعداد کے ساتھ جانا چاہیے۔۔۔جانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ پریشر پڑے اور ان حکمرانوں کو بہانہ بھی ملے کہ وہ اپنے سے اوپر والے حکمرانوں کو کہہ سکیں کہ عوام کا سمندر ہے ہم مجبور ہیں ہمیں مطالبات ماننے ہوں گے

۔ 

رہی بات جسٹس فائض عیسی کے قتل کے انعام کی تو اس معاملے کو علمائے کرام کی شوری میں جماعت میں پیش کیا جائے اگر علماء کرام فرمائیں کہ یہ بیان ٹھیک نہیں ہے اور اس پر سزا نہیں دینی چاہیے بلکہ محبت اور عشق رسول کی وجہ سے اسے درگزر کرنا چاہیے تو حکومت اس پر عمل کرے اور اگر علماء فرمائیں کہ سزا بنتی ہے تو پھر سزا کا تعین کروائیں اور علماء کرام کے فیصلے کو اوٹ پاکستانی قانون کی دیں کوئی نہ کوئی شق نکل ہی ائے گی۔ ۔۔۔ یا پھر اس دھمکی کی تاویل کرا کر دھمکی دینے والے سے ہی وضاحت کرائی جائے پھیلائی جائے کہ میں غلط فہمی میں تھا کہ قادیانیت نوازی ہو رہی ہے اس لیے دھمکی دے بیٹھا تھا جو کہ برحق تھا لیکن قادیانیت نوازی تھی اس بارے میں مجھے غلط فہمی ہوئی قادیانیت نوازی نہیں ہے

۔ 

حکومت عدلیہ چیف جسٹس سرعام یا خفیہ طور پر کسی طریقے سے علماء کو بڑے بڑے قائدین کو باور کرائے کہ ہم اسلام کو نافذ کرتے جا رہے ہیں، قادیانیت نوازی نہیں کر رہے دوسرے ملکوں کی ایجنٹی نہیں کر رہے۔ ۔۔۔۔۔ !!

.

اور اگر علماء کرام کے پاس شواہد ہیں کہ پاکستان کے قانون کو روند کر یا کوئی آڑ لے کر قادیانیت نوازی ہو رہی ہے تو پھر سرعام حمایت کا اعلان کریں یا پھر خفیہ طور پر یا اشارتا اعلان کریں کہ انعام رکھنے والے کی بھرپور حمایت کی جائے اس کے لیے نکلا جائے اس کی مانی جائے اور ان کی حمایت کے لیے جلسے جلوس نکالے جائیں کیسز کیے جائیں کوئی نہ کوئی اسلامی قانون کی شق حمایت میں نکل ہی ائے گی

.

اس معاملے میں منجھے ہوئے علماء کرام مشہور علماء کرام کی سرعام تائید یا اشارتا تائید انتہائی ضروری ہے ورنہ اگر عشق رسول میں آکر غلط فہمی میں قادیانیت نوازی سمجھ بیٹھے تو رجوع کا دل جگرا بھی رکھنا چاہیے۔۔۔ قومیت پرستی کی طرح شخصیت پرستی لیڈر پرستی بھی ٹھیک نہیں۔۔۔۔ مگر کوئی لیڈر بار بار غلطیاں نہ کرتا ہو کبھی کبھار ایسا ہو گیا تو اس کے لیے بھی وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اس کے لیے نکل کر اسے زیادہ سے زیادہ ریلیف دلانا چاہیے

۔ 

, اپ نے ایک بات ضرور نوٹ کی ہوگی کہ میں نے تحریر میں بار بار لکھا ہے کہ بڑے بڑے علماء کرام علماء برحق کی مشاورت اور ان کی حکم پر ہی کاروائی کرنی چاہیے ان کی اطاعت اور پیروی کرنی چاہیے ہر بات میں علماء علماء علماء.... اس کی وجہ یہ ایت مبارکہ ہے

.

القرآن:

لَوۡ رَدُّوۡہُ  اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ

اگر معاملات و مسائل کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق،باشعور،باریک دان،سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور جان لیتے

(سورہ نساء آیت83)

 آیت مبارکہ میں واضح حکم دیا جارہا ہے کہ اہل استنباط باشعور وسیع علم منجھے ہوئے علماء کی طرف معاملات کو لوٹایا جائے اور ایسے علماء قران اور حدیث تمام کی طرف نظر رکھتے ہیں صحیح معنی سمجھتے ہیں ایسے علماء جب قران مجید کی روشنی میں فیصلہ کریں گے حکم سنائیں گے فتوی دیں گے یا حدیث کی روشنی میں فیصلہ سنائیں گے فتوی دیں گے حقوق بتائیں گے یا قران و حدیث سے اجتہاد کر کے فیصلہ دیں گے فتوی سنائیں گے حقوق بتائیں گے معاملات کیسے چلانے ہیں بتائیں گے تو ان کی پیروی لازم ہے ہم ان کے تابع ہیں ان سے سوالات با ادب ہو کر پوچھ سکتے ہیں دلیل پوچھ سکتے ہیں ادب کے دائرے میں اور یہ حضرات قران و حدیث و اقوال صحابہ و ان پر قیاس کے تابع ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ہم بھی تابع ہیں تو وہ بھی تابع ہیں لہذا ہم میں سے کسی کی کسی پر نوابی نہیں

۔ 

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.