Labels

لفظ پیران پیر ممنوع نہیں تو علی ورگہ پیر وکھا مینوں ممنوع کیوں۔۔۔؟؟

 *#پیران پیر کہنا ممنوع نہیں ہے تو سیدنا علی ( رضی اللہ تعالی عنہ و فداہ روحی) ورگا پیر وکھا مینوں ممنوع کیوں۔۔۔۔۔؟؟*

سوال:

علامہ صاحب ہم نے اپ کی تحریر پڑھی ، اچھی لگی لیکن ایک سوال اب بھی باقی ہے کہ پیران پیر کہنا ممنوع نہیں ہے تو پھر علی ورگہ پیر زمانے تے وکھا مینوں کیوں ممنوع ہے۔۔۔۔۔؟؟ جس طرح پیران پیر کہنے سے یہ لازم نہیں اتا کہ وہ صحابہ کرام تابعین کے بھی پیر ہیں اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ پیر ہیں سے لازم نہیں اتا کہ وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بھی پیر ہیں۔۔۔۔تو پھر ممنوع کیوں۔۔۔۔۔؟؟

۔

*#جواب*

پیران پیر کا مطلب ہے اپنے زمانے میں اپنے وقت میں اپنے ہم عصر پیروں میں سب سے بڑے پیر غوث اعظم دستگیر ہیں۔۔۔۔یہ معنی کوئی تاویل نہیں بلکہ سیدھے سیدھے معنی بنتے ہیں کیونکہ عرف میں اس کا یہی معنی مشہور ہے 

جبکہ

سیدنا علی ورگا پیر ویکھا مینوں کا معنی بنتا ہے کہ سیدنا علی کے ہم عصر سیدنا علی کے زمانے میں ان کے وقت میں سیدنا علی جیسا کوئی پیر نہیں۔۔۔۔سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ہم عصر کون ہے۔۔۔۔؟؟ ان کا ہم عصر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا عمر اور دیگر صحابہ کرام بھی ہیں اور ان کے ہم عصر بعد کے تابعین بھی ہیں۔۔۔سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا زمانہ وہ زمانہ بھی ہے کہ جب سیدنا صدیق اکبر خلیفہ تھے اور سیدنا علی کا زمانہ وہ بھی ہے کہ جب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ چوتھے خلیفہ تھے

۔

اب اس شعر کا مطلب بنے گا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ہم عصر ان کے وقت کا کوئی پیر نہیں۔۔۔حالانکہ اہل سنت کا نظریہ ہے کہ سیدنا علی کے ہم عصر سیدنا صدیق اکبر بھی ہے اور وہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے افضل پیر ہیں۔۔۔۔سیدنا علی کے زمانہ وہ زمانہ بھی ہے کہ جب سیدنا صدیق اکبر خلیفہ تھے تو اس وقت اس زمانے میں سیدنا علی کے اس زمانے میں علی ورگہ پیر وکھا مینوں کہنا ممنوع کہلائے گا کیونکہ اس زمانے میں تو علی سے افضل پیر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ تھے

۔

اب ہم عصر اور سیدنا علی کے زمانے کا یہ معنی مراد لینا کہ سیدنا علی جب خلیفہ تھے اس وقت ان جیسا کوئی پیر نہیں تھا اس زمانے میں ان جیسا کوئی ویر نہیں تھا تو اس حساب سے یہ شعر درست بنتا

۔

تو لفظ پیران پیر 

اور شعر

زمانے تے علی ورگہ پیر ویکھا مینوں

میں زمین اسمان کا فرق ہے پہلے لفظ کے معروف معنی یہی ہیں کہ ہم عصر اور ان کے زمانے میں سیدنا غوث اعظم دستگیر سے بڑھ کر کوئی پیر نہیں وہ سب پیروں کے پیر ہیں

جبکہ

زمانے تے علی ورگہ پیر وکھا مینوں

کہ دو معنی بنتے ہیں ایک معنی باطل ہیں بد مذہبی ہیں جبکہ دوسرے معنی درست ہیں 

۔

لہذا ان دونوں کو اپس میں قیاس نہیں کرنا چاہیے لہذا عام طور پر زمانے تے علی ورگا پیر وکھا مینوں ممنوع ہونا چاہیے کہ اس سے قوی امکان ہے کہ یہ تاثر جائے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا صدیق اکبر کے بھی پیر ہیں۔۔۔۔کسی جگہ کوئی واضح کرے کہ میرا یہ معنی مراد ہے اور اس معنی کے تحت اس درست معنی کے تحت میں یہ شعر پڑھ رہا ہوں تو بھی ممنوع ہونا چاہیے کہ اج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ویڈیو ادھی کاٹ کر پھیلا دی جاتی ہے اور طرح طرح کے پروپیگنڈے عام کیے جاتے ہیں یا وہ وضاحت نہ جانے کسی تک پہنچے یا نہ پہنچے اور قوی امکان ہے کہ بد مذہبی والا معنی ان کے ذہن میں پہنچے لیھذا عام طور پر ممنوع کا ہی فتوی دینا چاہیے کہ اگر اجازت دے دی گئی تو کوئی وضاحت کیے بغیر ہی پڑھنا شروع ہو جائیں گے اور بد مذہبی کو تقویت ملتی جائے گی۔۔۔۔!!۔۔۔۔ہاں البتہ اس شعر کو پڑھنے والے پر فٹافٹ سے رافضیت کا فتوی نہیں لگانا چاہیے تفضیلیت کا فتوی نہیں لگانا چاہیے کیونکہ وہ تاویل کرکے دوسرا معنی مراد لے سکتا ہے تو ممانعت کا مطلب نہیں کہ اپ رافضیت تفضیلیت کے فتوے لگاتے پھریں ہاں کسی اور دلیل و شواہد کی بنیاد پر کسی کی تفضیلیت رافضیت نمایاں ہوتی ہے تو پھر اس صورت میں یہ شعر بھی اس کی تفضیلیت رافضیت کی طرف اشارہ ہوگا

 کیونکہ

سیدی اعلی حضرت نے علماء کرام کے قران و سنت و اثار سے بنائے گئے قاعدے کو دلیل بنا کر فرمایا:

یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ بعض محتمل لفظ جب کسی مقبول سے صادر ہوں بحکمِ قرآن انہیں "معنی حسن" پر حمل کریں گے، اور جب کسی مردود سے صادر ہوں جو صریح توہینیں کرچکا ہو تو اس کی خبیث عادت کی بنا پر معنی خبیث ہی مفہوم ہوں گے کہ:

 کل اناء یترشح بما فیہ صرح بہ الامام ابن حجر المکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔

 ہر برتن سے وہی کچھ باہر آتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے... 

(فتاوی رضویہ : ج29، ص225)

.

لیکن اچھے معنی مراد لینے اور فتوی رافضیت تفضیلیت نہ لگانے کا یہ مطلب نہیں کہ کھلی چھوٹ دے دی جائے کیونکہ اگرچہ فتوی نہیں مگر احتیاط ضروری ہے فتنہ سے بچانا بھی ضروری ہے۔۔۔یہ شعر چونکہ بظاہر باطل مذہب کی تائید کر رہا ہے غلط معنی اجاگر کر رہا ہے بدمذہبیت اجاگر کر رہا ہے تو ممنوع قرار پائے گا لیکن چونکہ اس کا ایک تاویلی معنی درست بھی بنتا ہے تو فورا سے کسی پر رافضیت تفضیلیت کا فتوی بھی نہیں لگائیں گے ہاں جس کی رافضیت تفضیلیت کسی اور دلیل سے شواہد سے ثابت ہو چکی ہو تو اسے تاویل فائدہ نہ دے گی اس کے متعلق تاویل نہ کریں گے بلکہ اس کے متعلق یہی کہا جائے گا کہ اس نے باطل معنی کے تحت یہ شعر پڑھا ہے

.

اتَّقُوا مَوَاضِعَ التُّهَم

تہمت کی جگہوں سے بچو۔۔۔۔علامہ مولا علی قاری نے فرمایا کہ اگرچہ یہ حدیث نہیں ہے مگر احادیث اور صحابہ کے اقوال سے اس کا معنیٰ صحیح ثابت ہوتا ہے  

(دیکھیے اسرار مرفوعہ روایت10]



عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: مَنْ عَرَّضَ نَفْسَهُ لِلتُّهْمَةِ فَلَا يَلُومَنَّ مَنْ أَسَاءَ بِهِ الظَّنَّ

حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص تہمت کی جگہوں پر اپنے آپ کو رکھے تو اس کے متعلق برے گمان رکھنے والے لوگوں کو وہ ہرگز ملامت نہیں کرسکتا 

[الزهد لأبي داود ,page 98]

.

اس شعر کو پڑھنا اپنے اپ کو تہمت کے مقام میں ڈالنے کے مترادف ہے تو اس لیے عمومی طور پر اس شعر کی ممانعت ہونی چاہیے ، پڑھنے کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہیے۔۔۔اگرچہ تاویل کر کے اس کا درست معنی لیا جا سکتا ہے لیکن اخر تاویل کس کس کو سمجھائیں گے ، کہاں کہاں تک پہنچائیں گے۔۔۔؟؟ پتہ نہیں کہیں پہنچے نہ پہنچے تو یہ تہمت کا مقام ہے اور لوگوں کے ذہنوں میں برے معنی بدمذہبیت والے معنی ڈال کر اسے فتنہ میں مبتلا کرنا بھی ہے معاشرے میں فتنہ کی اجازت دینا بھی ہے اس لیے ممنوع ہونا چاہیے

۔

سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ قران مجید کے عشق میں نماز کے عشق میں جماعت کراتے ہوئے طویل قرات کی لیکن بعض مقتدیوں پر طویل قرات دشوار گزری کیونکہ کسی کو کوئی مرض لاحق ہوتا ہے کسی کو شرعی مجبوری شرعی ضرورت کے تحت جلدی جانا ہوتا ہے کسی کو طبعی مجبوری کی وجہ سے جلد جانا ہوتا ہے تو اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو فرمایا

لا تكن فتانا

ترجمہ:

تم کسی فتنے کا باعث نا بنو

(ابو داود حدیث791)

۔

سوچیے کہ جماعت میں قران مجید کی طویل قرات سے بھی اس وجہ سے منع کیا گیا کہ فتنہ فساد نہ ہو تو ذرا غور کیجئے کہ جس شعر کا معنی بظاہر عمومی طور پر غلط ہی ہو صرف اس کی تاویل کر کے درست معنی لیا جائے تو بھلا ایسے شعر کی عمومی اجازت  دینا فتنہ نہیں۔۔۔۔؟؟ فتنے میں ڈالنا نہیں۔۔۔۔۔؟؟ یقینا فتنہ کا باعث بنے گا اس لیے ممنوع ہونا چاہیے 

واللہ تعالی اعلم رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلم

۔

نوٹ:

میرے جیسے کم عمر کم علم علماء پر لازم ہے کہ وہ اگرچہ مشہور ہوں اگرچہ طاقتور ہوں اگرچہ پیسے والے ہوں شہرت والے ہوں پھر بھی اپنے علم اور رائے پر ڈٹ کر فورا فتوی نہ دیں اور کسی کی توہین مذمت اختلاف اپنے علم کی بنیاد پر نہ کریں بلکہ اپنی رائے اپنا علم بڑے علماء کے پاس بڑے مفتیان کرام کے پاس حاضر کریں عرض کریں اگر وہ تائید فرما دیں تو ان کا نام لے کر یا ضرورتاً ان کا نام حذف کر کے اچھے انداز میں عرض کریں ۔۔۔اچھے انداز میں مدلل انداز میں با ادب انداز میں اختلاف کریں لیکن سامنے اگر کوئی بڑا عالم ہے تو اس صورت میں لازما اپنے اپ کو محاذ مت سمجھیں بلکہ اپ یہ کہیں کہ فلاں مفتی صاحب اپ سے رجوع کا تقاضہ کر رہے ہیں یعنی ادب کرتے ہوئے بے شک اپ اختلاف رکھیں مگر ادب کرتے ہوئے اپنے علم اور دلیل کی بنا پر رجوع کا مطالبہ کرنے کے بجائے ثالث کسی بڑے مفتی کو کسی بڑے عالم کو بنائیں اور وہ بڑا عالم بڑا مفتی ثالث بن کر اپ کے مخالف عالم کو سمجھائے کیونکہ چھوٹے علماء کم علم کم عمر علماء عرض کر سکتے ہیں لیکن تقاضا نہیں کر سکتے یہ ادب کے خلاف ہے۔۔۔

۔

اور بالخصوص سنی بھائی سے اختلاف ہو تو اس معاملے میں کبھی بھی یہ نہ کہیں کہ  فتح قریب۔۔۔۔کیونکہ سنی بھائی سے سنی عالم دین سے ہمارا کوئی جنگ و جھگڑا نہیں اگرچہ وہ گمراہ بھی ہو تو بھی فتح قریب نہیں کہنا چاہیے کہ ان تمام صورتوں میں شیطان وسوسے ڈالے گا ضد پہ ڈٹے رہنے کی طرف راغب کرے گا یا لوگوں کے دلوں میں سامنے والے کے رجوع کرنے کے باوجود اس کی عزت کم کر دے گا کہ یہ تو ہار گیا۔۔۔۔ارے سنی بھائیوں میں کوئی ہار جیت نہیں ہوتی۔۔۔۔اختلاف ہو تو بھی رجوع کرائیں تو بھی ہار جیت فتح وغیرہ کے الفاظ استعمال نہ کریں بلکہ انسو بہاتے ہوئے عرض کریں کہ اللہ تعالی نے سامنے والے مخالف کو اتنا بڑا حوصلہ دیا اتنا بڑا ذہن دیا اتنا بڑا دل جگرہ دیا کہ اس نے مجھ ناچیز کی رائے کو اہمیت دی حالانکہ میری رائے کی کوئی اہمیت نہیں اہمیت تو بڑے علماء کی رائے کی ہے۔۔۔۔

واللہ تعالی اعلم

۔#################

سیدنا علی توں افضل سیدنا ابوبکر پیر اے، آ وکھاواں تینوں

۔

سیدنا ابوبکر سیدنا علی توں افضل ویر اے آ سمجھاواں تینوں... رضی اللہ عنھم اجمعین

.

مذکورہ شعر میں نے لکھا ہے جو اس شعر کا جواب بنتا ہے وہ شعر یہ ہے 

علی وَرگا زمانے تے کوئی پیر وِکھا مینوں 

علی باہج محمد دا کوئی وِیر وِکھا مینوں 

۔

اس شعر میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بڑھ کر کسی کو پیر نہیں کہا گیا حالانکہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا علی سے افضل ہیں تو وہ سب سے بڑے پیر ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد۔۔۔۔اسی طرح دوسرے شعر میں یہ کہا گیا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بھائی نہیں یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا علی کے علاوہ کوئی بہادر ساتھی نہیں جبکہ یہ دونوں معنی بھی نہیں ہیں۔۔۔۔جیسے کہ نیچے تفصیل ارہی ہے 

۔

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی افضل ہیں دلائل اور حوالہ جات اس لنک پر پڑہیے

https://www.facebook.com/share/p/1NtB4Mo6U9/

https://tahriratehaseer.blogspot.com/2024/01/blog-post.html

۔

ویر کا معنی مجھے ڈکشنری میں یہ ملا کہ 

 دلیر... بہادر ...ساتھی...( فیروز اللغات ص1418 میں ویرتا کا معنی اور ریختہ ڈکشنری وغیرہ) بعض احباب نے توجہ دلائی کہ عرف میں ویر بھائی کو بھی کہتے ہیں

۔

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ بہادر ہیں یہ خود سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا ہے

.

*سیدنا صدیق اکبر سب سے بہادر*

أَخْرَجَ البَزَّارُ في مُسْنَدِهِ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ عَنْ عَلِيِّ بنِ أَبِي طَالِبٍ -رضي اللَّه عنه- قَالَ: يَا أيُّها النَّاسُ مَنْ أشْجَعُ النَّاسِ؟ فَقَالُوا: أَنْتَ يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، فَقَالَ: أمَا إِنِّي مَا بَارَزَنِي  أَحَدٌ إِلَّا انْتَصَفْتُ مِنْهُ، وَلَكِنْ هُوَ أَبُو بَكْرٍ، إنَّا جَعَلْنَا لِرَسُولِ اللَّهِ -صلى اللَّه عليه وسلم- عَرِيشًا، فَقُلْنَا مَنْ يَكُونُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى اللَّه عليه وسلم- يَهْوِي إِلَيْهِ أَحَدٌ مِنَ المُشْرِكِينَ، فَوَاللَّهِ مَا دَنَا مِنَّا أحَدٌ إِلَّا أَبُو بَكْرٍ شَاهِرًا بِالسَّيْفِ عَلَى رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى اللَّه عليه وسلم-، لَا يَهْوِي إِلَيْهِ أحَدٌ إِلَّا أَهْوَى عَلَيْهِ، فَهَذَا أشْجَعُ النَّاسِ

ترجمہ:

مسند بزاز میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے دریافت کیا کہ بتاو سب سے زیادہ بہادر کون ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ سب سے زیادہ بہادر آپ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو ہمیشہ اپنے جوڑ سے لڑتا ہوں۔۔ آپ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ شجاع اور بہادر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ سنو :جنگ بدر میں ہم لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک عریش یعنی جھونپڑا بنایا،ہم لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کون رہے گا ؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان پر کوئی حملہ کردے۔ خدا کی قسم اس کام کیلئے سوائے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کوئی آگے نہیں بڑھا آپ(صدیق اکبر) شمشیر برہنہ ہاتھ میں لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوگئے پھر کسی دشمن کو آپ کے پاس آنے کی جرات نہیں ہوسکی اور اگر کسی نے جرات بھی کی تو آپ اس پر ٹوٹ پڑے۔ اس لئے حضرت ابو بکر صدیق ہی سب سے زیادہ شجاع اور بہادر ہیں

(كتاب اللؤلؤ المكنون في سيرة النبي المأمون2/386)

۔

۔

*رسول کریمﷺ نے کن کن کو بھائی فرمایا۔۔۔.؟؟*

شعر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھائی فقط سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو قرار دیا گیا ہے جبکہ درج ذیل صحابہ کرام کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھائی قرار دیا ہے

رسول کریم ﷺ نے

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا دینی بھائی اور صاحب فرمایا:أَخِي وَصَاحِبِي

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ابو بکر میرا (دینی) بھائی اور اور (میرا خاص )ساتھی ہے 

(بخاری حدیث3656)

.

رسول کریمﷺنے سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا دینی بھائی فرمایا:

قال: استاذنت النبي صلى الله عليه وسلم في العمرة، فاذن لي، وقال:" لا تنسنا يا اخي من دعائك"، فقال كلمة ما يسرني ان لي بها الدنيا، قال شعبة: ثم لقيت عاصما بعد بالمدينة فحدثنيه، وقال:" اشركنا يا اخي في دعائك".

عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کرنے کی اجازت طلب کی، جس کی آپ نے مجھے اجازت دے دی اور فرمایا: ”میرے(دینی) بھائی! مجھے اپنی دعاؤں میں نہ بھولنا“، آپ نے( یہ) ایسی بات کہی جس سے مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ اگر ساری دنیا اس کے بدلے مجھے مل جاتی تو اتنی خوشی نہ ہوتی۔ (راوی حدیث) شعبہ کہتے ہیں: پھر میں اس کے بعد عاصم سے مدینہ میں ملا۔ انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی اور اس وقت «لا تنسنا يا أخى من دعائك» کے بجائے «أشركنا يا أخى في دعائك» کے الفاظ کہے ”اے میرے(دینی) بھائی ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں شریک رکھنا

(ابوداود حدیث1498)

.

رسول کریمﷺنے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا دینی بھائی فرمایا:

ابن عمر، قال: آخى رسول الله صلى الله عليه وسلم بين اصحابه فجاء علي تدمع عيناه، فقال: يا رسول الله آخيت بين اصحابك ولم تؤاخ بيني وبين احد، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " انت اخي في الدنيا والآخرة ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، وفي الباب عن زيد بن ابي اوفى.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے  درمیان باہمی بھائی چارا کرایا تو علی رضی الله عنہ روتے ہوئے آئے اور کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اپنے اصحاب کے درمیان بھائی چارا کرایا ہے اور میری بھائی چارگی کسی سے نہیں کرائی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”تم میرے(دینی)بھائی ہو دنیا اور آخرت دونوں میں“۔

(ترمذی حدیث3720)

.

رسول کریمﷺنے سیدنا زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھائی فرمایا

وَقَالَ لِزَيْدٍ : " أَنْتَ أَخُونَا

رسول کریمﷺنے سیدنا زید کےلیے فرمایا تم ہمارے (دینی)بھائی ہو

(بخاری 4251)

.

رسول کریمﷺنےسیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو صراحتا یا تقریرا بھائی فرمایا:...اخوک...اخی لعمری

المستدرك على الصحيحين للحاكم ,3/284)

۔

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

https://wa.me/923468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.