*#کیا جھاڑو رات کے وقت لگانے سے تنگدستی اتی ہے۔۔۔۔؟؟اس مسئلے میں قبلہ مفتی اکمل قادری صاحب یا قبلہ الیاس قادری صاحب یا مرزا جہلمی تینوں میں سے کون درست ہے۔۔؟؟اور شادی کے بعض رسم و رواج کا حکم۔۔۔۔؟؟*
سوال:
علامہ صاحب یہ ویڈیو دیکھیں مرزا جہلمی کے فالوور نے بھیجی ہے جس میں ایک طرف مرزا جہلمی کہہ رہا ہے کہ رات کو جھاڑو دینے سے منع کرنا توہم برستی ہے جہالت ہے اور ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ مفتی اکمل صاحب نے بھی اس قسم کی بات کی ہے۔۔۔جبکہ ویڈیو میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ قبلہ الیاس قادری صاحب فرما رہے ہیں کہ رات کو جھاڑو لگانا تنگدستی کا سبب ہے۔۔۔تو علامہ صاحب ہمارا سوال ہے کہ ہم کس کی مانیں۔۔۔؟؟جہلمی کو تو دفع کر سکتے ہیں لیکن ایک طرف اہلسنت کے عظیم مفتیوں میں سے ایک مفتی اکمل صاحب ہیں اور دوسری طرف قبلہ علامہ الیاس قادری صاحب ہیں کہ جن کے ماتحت بڑے بڑے مفتیان کرام ہیں کہ جن سے وہ رہنمائی لیتے رہتے ہیں اگر قبلہ الیاس قادری صاحب نے غلط کہا ہوتا تو مفتیانِ دعوت اسلامی ضرور اصلاح فرماتے۔۔۔تو اب مفتیان دعوت اسلامی کی بظاہر بےتکی بات مانیں یا مفتی اکمل صاحب کی لاجک بھری بات کو مانیں۔۔۔۔؟؟
۔
*#عرض*
تمام احباب سے گزارش ہے کہ میرا مشہور واٹسپ نمبر 03468392475 کچھ دنوں سے بلاک ہے٫ریویو کا آپشن بھی نہیں آ رہا، ماہرین کہتے ہیں کہ مستقل بلاک کر دیا ہے وٹسپ والوں نے۔۔تقریبا700واٹسپ گروپ تھے جس میں تحریرات بھیجا کرتا تھا۔۔اپ سے گزارش ہے کہ میرا نیا واٹسپ نمبر 03062524574 سیو کیجئے اور وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنا دیجئے تاکہ میں پہلے سے بھی بڑھ کر دین کی خدمت کر سکوں ، علمی اصلاحی تحقیقی تحریرات زیادہ سے زیادہ پھیلا سکوں۔۔۔امید ہے اپ میری مدد ضرور کریں گے اور نمبر سیو کرکے گروپوں میں بھی ایڈ کرکے ایڈمین بنا دیں گے۔۔۔اپ کا بہت بہت شکریہ۔۔یاد رکھیے نمبر ضرور سیو کیجئے پھر گروپوں میں شامل کیجئے ایڈمین بنائیے پھر ہوسکے تو رپلے فرمائیے۔۔۔ جزاکم اللہ خیرا
۔
علمی تحقیقی اصلاحی سیاسی تحریرات کے لیے اس فیسبک پیج کو فالوو کیجیے،پیج میں سرچ کیجیے،ان شاء اللہ بہت مواد ملے گا...اور اس بلاگ پے بھی کافی مواد اپلوڈ کردیا ہے...لنک یہ ہے:
https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1
https://www.facebook.com/profile.php?id=100022390216317&mibextid=ZbWKwL
۔
*#جواب۔و۔تحقیق*
فقہ کی عظیم الشان کتاب الہدایہ کے مصنف کے شاگرد رشید علامہ برہان الدین فرماتے ہیں کہ
وکنس البیت فی اللیل
تنگدستی کے اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ رات کے وقت جھاڑو لگایا جائے
(تعلیم المتعلم ص86)
۔
دیکھیں قران اور حدیث پاک میں کوئی حکم ا جائے تو لاجک تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔ہاں اچھا ہے کہ لاجک سمجھی جائے۔۔۔ حکمتیں راز سمجھے جائیں تاکہ ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے کہ قران و حدیث کے تمام احکامات حکمت سے بھرپور ہیں۔۔فوائد سے بھرپور۔۔ معاشرتی فوائد سے بھرپور ۔۔۔ انفرادی فوائد سے بھرپور ہوتے ہیں اور جب ان فوائد اور راز اور حکمتوں کی طرف ہم پہنچیں گے سمجھیں گے تو ایمان مضبوط ہو جائے گا ایمان تازہ ہو جائے گا۔۔۔ ان فوائد اور حکمتوں تک ہمارا ذہن پہنچے یا نہ پہنچے مگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم میں ضرور حکمتیں اور فوائد ہیں
۔
لیکن اسلاف کے اقوال ا جائیں تو اندھا دھند توپ کا رخ ان کی طرف نہیں کرنا چاہیے کہ وہ تو بابوں کا قول ہے۔۔۔ بابیت ہے ۔۔۔۔بے فائدہ ہے۔۔۔ بے لاجک ہے۔۔۔۔ بے تکا ہے
بلکہ
حسن ظن رکھنا چاہیے کہ اسلاف فرما گئے تو ضرور کوئی حکمت ہوگی ۔۔۔کوئی فائدہ ہوگا جس کی وجہ سے وہ یہ حکم ارشاد فرما گئے۔۔۔اگر حکمت سمجھ میں اجائے تو زبردست اور اگر حکمت فوائد سمجھ نہ ائے تو بے شک اب عمل ترک کر دیں لیکن یہ سمجھ کر کہ ہماری سمجھ میں وہ حکمتیں وہ راز نہ ا سکے جو اسلاف کے ذہن میں تھے۔۔۔مگر قران و حدیث کی حکمتیں فوائد سمجھ نا بھی ائیں تب بھی عمل کرنا لازم ہے لیکن اسلاف کے اقوال پر عمل کرنا لازم ہو شریعت نے ایسا لازم نہیں کیا لہذا ادب کے ساتھ اسلاف کے اقوال کو ترک کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ ترک بھی نہیں کہ ہم اسلاف میں سے کسی کے قول کو چھوڑ کر دوسرے کسی اسلاف کے قول کو عمل بنا لیتے ہیں
۔
اسلاف کے اقوال ا جائیں یا بظاہر کوئی اسلاف کے اقوال متضاد نظر ائیں تو اپنی عقل کو جلد بازی میں مت ڈالیے۔۔۔سرسری نظر میں جو معنی سمجھ ایا یا معنی سمجھ نہ ایا اس کے مطابق فیصلہ مت کیجئے بلکہ گہری سوچ تفکر تدبر کی کوشش کیجئے اگر اپ کو سمجھ نہ ائے تو دیگر علماء کرام سے راز اور حکمتیں پوچھنے کی کوشش کیجئے مگر اس طرح ظلم نہ کیجئے کہ وہ جو کہہ گئے کہانیاں کر گئے بے تکی بات کہہ گئے، بابیت کر گئے، توھم پرستی میں ڈال گئے۔۔۔۔اس قسم کے ظالمانہ فتوے معتبر اسلاف پر مت لگائیے
۔#################
.
*#رات کو جھاڑو لگانا تنگدستی کا سبب کیسے ہے۔۔۔۔۔؟؟*
اپ کا سوال موصول ہوا۔۔۔میں نے کچھ سمجھنے کی کوشش کی لیکن کوئی لاجک سمجھ نہ ائی پھر میں نے تازہ وضو کرکے نفل پڑھے اور اللہ سے دعا کی یا اللہ کریم مجھے اس کی حکمت اور راز اور سمجھ عطا فرما۔۔۔۔ پھر میں کمرے کے کونے میں تنہائی میں بیٹھ گیا اور غور و فکر کرنے لگا۔۔۔کچھ دیر بعد جو کچھ میرے ذہن میں اس بات کے فوائد اور حکمتیں سمجھ میں ائیں وہ اپ کے نظر کر رہا ہوں
۔
الحدیث:
دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ فَرَأَى كِسْرَةً مُلْقَاةً، فَأَخَذَهَا فَمَسَحَهَا ثُمَّ أَكَلَهَا، وَقَالَ : " يَا عَائِشَةُ، أَكْرِمِي كَرِيمًا ؛ فَإِنَّهَا مَا نَفَرَتْ عَنْ قَوْمٍ قَطُّ فَعَادَتْ إِلَيْهِمْ
حضور علیہ الصلوۃ والسلام گھر میں تشریف لائے تو دیکھا کہ روٹی کا ٹکڑا پڑا ہوا ہے تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے اٹھایا اسے صاف کیا اور تناول فرمایا اور فرمایا اے عائشہ عزت والے کی عزت کر بے شک یہ رزق یہ روٹی جس قوم سے نفرت کر کے روٹھ جاتی ہے تو اس کے پاس لوٹ کے نہیں اتی
(ابن ماجہ حدیث 3353)
۔
اس حدیث پاک میں واضح ہے کہ تنگدستی کا ایک سبب رزق کی ، روٹی کی، اناج کی بے حرمتی بھی ہے۔۔۔روٹی اناج رزق کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو وقعت نہ دینا اور اسے پھینکنا بھی تنگدستی کے اسباب میں سے ہے
۔
پہلے کے زمانے میں رات کے وقت چراغ زیادہ نہ ہوا کرتے تھے یا ان کی روشنی آس پاس کم جاتی تھی تو رات کے وقت اکثر کم روشنی یا اندھیرا ہوتا تھا تو اسلاف نے فرمایا کہ کم روشنی اور اندھیرے کی وجہ سے رات کو جھاڑو نہ لگاؤ کہ یہ تنگدستی کا سبب ہے
۔
جی ہاں بظاہر رات کے وقت جھاڑو لگانے سے تنگدستی انا اس وجہ سے ہے کہ کم روشنی یا اندھیرے کی وجہ سے ہم اناج چاول گندم روٹی کے ٹکڑے وغیرہ کی پہچان نہ کر پائیں گے اور ان کو بھی جھاڑو کے ساتھ کچرے میں ڈال دیں گے اور اوپر حدیث پاک میں اپ پڑھ چکے کہ رزق کی بے حرمتی سے تنگدستی اتی ہے۔۔۔۔نیز یہ بھی وجہ ہے کہ کوئی سکہ، کوئی چاندی کا سکہ ، کوئی سونے کا سکہ، پیسے وغیرہ قیمتی چیزیں وغیرہ جو چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں وہ بھی اندھیرے کی وجہ سے یا کم روشنی کی وجہ سے جھاڑو پھیرنے کے ساتھ کچرے میں چلی جائیں گی تو یہ بھی غربت تنگدستی کا سبب بنے گا۔۔۔شاید انہی راز اور حکمت کے تحت اسلاف نے رات کے وقت جھاڑو لگانے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ یہ تنگدستی کا سبب ہے
۔
اج بھی گاؤں دیہات میں بجلی نہیں ہوتی لوڈ شیڈنگ کا راج ہوتا ہے تو اج کے دور میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ رات کو جھاڑو نہ لگایا جائے کیونکہ ہماری بات سننے والے گاؤں والے بھی ہیں اندھیرے والے بھی ہیں اجالے والے بھی ہیں تو سب کو مطلقا کہہ دیا جائے تو حرج نہیں ہاں اس کی حکمت اور راز بھی بتائی جائے ۔۔۔وجہ بھی بتائی جائے تو اچھا ہے تاکہ رات کے وقت اگر کوئی جھاڑو لگائے لیکن اندھیرا نہ ہو روشنی ہو بلب جل رہے ہوں تو اب بظاہر کوئی علت نہیں کوئی وجہ نہیں تو اس لیے اب جھاڑو لگانا، اب روشنی میں جھاڑو لگانا، اب مصنوعی روشنی میں جھاڑو لگانا تنگدستی کا سبب نہیں کہلائے گا
۔
لہذا ادب کے ساتھ اپنی لاجک پیش کر سکتے ہیں۔۔۔ اپنی رائے پیش کر سکتے ہیں لیکن کسی پر توہم پرستی کا فورا فتوی نہیں لگا سکتے۔۔۔اسلاف پر توہم پرستی کا فتوی نہیں لگا سکتے اسلاف کے اقوال کو ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈال سکتے۔۔۔ ان کو بے وقعت بے لاجک نہیں کہہ سکتے۔۔۔ایسے اندھا دھند فائرنگ کرنے والے جہلمی جیسے لوگ مردود ہیں، اللہ انہیں سمجھ عطا فرمائے
۔
البتہ مفتی اکمل صاحب کے متعلق ہم یہی گمان رکھیں گے کہ لائیو سوال جواب میں زیادہ سوچنے کا وقت نہیں ملتا تو شاید اس راز اور حکمت کی طرف فورا ان کا ذہن نہیں گیا اس لیے اس لیے انہوں نے منع فرما دیا۔۔۔اگر ان کو یہ لاجک یہ حکمت یہ راز ہم عرض کریں تو ان شاء اللہ عزوجل یقینا وہ فرمائیں گے کہ اس لاجک کے تحت اس راز اور حکمت اور فائدے کے تحت بالکل جھاڑو رات کو لگانا تنگدستی کا سبب ہے۔۔۔مفتی اکمل صاحب کا جو فتوی ہے کہ جہالت ہے توہم پرستی ہے وہ اس صورت میں ہے کہ جو واقعی توھم پرستی پر ہو۔۔۔اسلاف کے اقوال پر اس لیے عمل کرنا کہ وہ شریعت کے مخالف نہیں لیکن ان کے راز ہمیں معلوم نہیں ہے لیکن پھر بھی اسلاف کے ذہن میں ضرور کوئی راز اور حکمتیں ہوں گی کہ جس کی وجہ سے انہوں نے حکم دیا اگر اس نظریے کے تحت عمل کیا جائے اور یہ بات بھی واضح کی جائے کہ کوئی نہ کوئی حکمت اور راز ہوں گے تو اس لیے ہم عمل کر رہے ہیں تو یہ توہم پرستی نہیں ہے
۔
جبکہ مرزا جہلمی پورا ہفتہ کسی موضوع پر تیاری کرتا ہے اس کے پاس سوچنے کا وقت ہے تدبر کا وقت ہے مگر وہ سوچ بچار تدبر نہیں کرتا بس سرسری نظر میں اعتراض بن گیا تو اعتراض جھاڑ دیتا ہے اور بابیت کا فتوی لگا دیتا ہے اور توہم پرستی کا فتوی لگا دیتا ہے اور اسلاف کی بزرگوں کی توہین کرتا ہے، مذاق اڑاتا ہے تمسخر کرتا ہے جیسے کہ اس نے اس ویڈیو میں قبلہ الیاس قادری صاحب کا مذاق اڑایا ہے تمسخر کیا ہے اسے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے کہ یہ ایک ذات کا تمسخر نہیں بلکہ قبلہ الیاس قادری صاحب نے تو اسلاف کی زبانی فرمایا تھا کہ رات کو جھاڑو نہیں لگانا چاہیے تو گویا ہم اسلاف پر توھم پرستی جہالت بے تکیت کا فتوی لگا رہے ہیں
حالانکہ
شریعت مطہرہ ہمیں حکم دیتی ہے کہ ہم اسلاف و علماء کرام کے اقوال افعال ، صوفیا کرام کے اقوال افعال کی حکمتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔۔۔ ان کے قول اقوال و افعال کی توجیہ کریں اور سوچیں سمجھیں کہ کوئی نہ کوئی راز تو ہوگا، کچھ تو حکمت ہوگی۔۔۔اگر حکمت سمجھ نہ بھی ائے تو بھی یہی اخر میں کہہ کر سر خم کر دیں کہ فلاں عالم فلاں صوفی فلاں بزرگ نے جو بات فرمائی ہے اس کی حکمت مجھے سمجھ نہیں ارہی مگر بےشک حکمت ضرور ہوگی لیکن شریعت نے اسلاف کے اقوال کو فرض واجب قرار نہیں دیا تو اس لیے شریعت کی اجازت کی وجہ سے میں دوسری بات پر عمل کر رہا ہوں لیکن فلاں صوفی فلاں بزرگ فلاں عالم کے متعلق میرا نظریہ یہی ہے کہ ان کا یہ قول توہم پرستی پر نہیں بلکہ کوئی نہ کوئی راز اور حکمت ہوگی
۔
القران:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا(سورہ الحجرات آیت12)...۔۔والمؤمن ينبغي أن يحمل كلام أخيه المسلم على أحسن المحامل ، وقد قال بعض السلف : لا تظن بكلمة خرجت من أخيك سوءا وأنت تجد لها في الخير محملا .
فمن حق العلماء: إحسان الظن بهم؛ فإنه إذا كان من حق المسلم على المسلم أن يحسن الظن به ، وأن يحمل كلامه على أحسن المحامل، فمن باب أولى العالم
خلاصہ:
قرآن و حدیث میں حکم ہے کہ بدگمانی غیبت تجسس سے بچا جائے،اچھا گمان رکھا جائے۔۔۔اسی وجہ سے واجب ہےکہ مذمت تکفیر تضلیل تفسیق اعتراض کے بجائے عام مسلمان اور بالخصوص اہلبیت صحابہ اسلاف صوفیاء و علماء کے کلام.و.عمل کو حتی الامکان
اچھے معنی و محمل، اچھی تاویل، اچھی توجیہ پے رکھا جائے
(دیکھیےفتاوی حدیثیہ1/223...فتاوی العلماءالکبار فی الارہاب فصل3...فھم الاسلام ص20...الانوار القدسیہ ص69)
.
،قال عمر رضی اللہ عنہ
ولا تظنن بكلمة خرجت من مسلم شراً وأنت تجد لها في الخير محملا
حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں
مسلمان کوئی بات کرے(یا کوئی عمل کرے) اور آپ اس کا اچھا محمل و معنی پاتے ہوں تو اسے برے معنی پر محمول ہرگز نہ کریں
(جامع الاحادیث روایت31604)
.
صحابہ کرام یا تابعین عظام یا اولیاء اسلاف صوفیاء علماء رحمھم اللہ تعالیٰ اجمعین پر اعتراض.و.مذمت کرنے والوں
کو
بالخصوص نجدیوں غیرمقلدوں رافضیوں نیم رافضیوں تفسیقیوں نام نہاد اہل حدیثوں مرزا جہلمی جیسوں
کو
اللہ کریم مذکورہ اصول سمجھنے کی توفیق دے، مذکورہ اصول پے عمل کی توفیق دے......شریروں ضدیوں کے فساد و شر ، گمراہیوں سے ہم اہل حق اہلسنت کو بچائے....ضدی فسادی گستاخِ اسلاف کو حتی المقدور سمجھانا ورنہ رد.و.مذمت اور لگام لگانا لازم....قید و بائیکاٹ لازم......!!
.
.######################
*#رسم و رواج۔۔۔۔۔۔۔؟؟*
آیات و احادیث کی بنیاد پے علماء کرام فرماتے ہیں کہ:
رسم کا اعتبار جب تک کسی فساد عقیدہ پر مشتمل نہ ہو اصل رسم کے حکم میں رہتا ہے،اگر رسم محمود ہے محمود ہے، مذموم ہو مذموم ہے،مباح ہو مباح ہے
(فتاوی رضویہ جلد 24 صفحہ119)
۔
یعنی رسم و رواج توہم پرستی کی بنیاد پر نہ ہوں اور کسی غیر مسلم سے مشابہت کی وجہ سے نہ ہوں بلکہ خود سے رسم و رواج نکال لیے یا اسلاف سے چلتے ا رہے بوڑھوں سے چلتے ا رہے یا کسی قوم مذہب سے نکال کر عمل کیا لیکن نیت یہ ہے کہ اس وجہ سے عمل کر رہا ہوں کہ یہ اچھا عمل ہے شریعت کے مطابق ہے شریعت کے مخالف نہیں ہے ۔۔۔یہ مقصد نہ ہو کہ فلاں غیر مسلم کی مشابہت کر رہا ہوں یہ مقصد نہ ہو
اور
اس رسم اور رواج کی کوئی حکمت کوئی لاجک کوئی راز بھلائی سمجھ میں اتی ہو تو بے شک اس رسم کو ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرط کہ ان فوائد اور حکمتوں کو ذہن میں رکھا جائے نہ کہ محض توھم پرستی مقصود ہو۔۔۔
.
اس لیے بالخصوص بوڑھوں پر فورا سے جاہلیت کا فتوی مت لگائیے بلکہ ان کے رسم و رواج کی توجیہ فوائد اور راز جاننے کی کوشش کیجئے اگر راز سمجھ میں ا جائے فوائد اور لاجک سمجھ میں اجائے تو عمل کر لیجئے اگر سمجھ میں نہ ائیں یا وہ فوائد وہ راز پہلے تھے اب نہیں ملتے تو اسلاف کو سمجھائیے بزرگوں کو بوڑھوں کو سمجھائیے کہ پہلے یہ فوائد کی وجہ سے رسم تھے لیکن اب یہ فوائد ختم ہو گئے ہیں تو اب یہ رسم ختم کر دینی چاہیے لیکن اگر فوائد اب بھی اس رسم کے موجود ہوں تو حرج نہیں
۔
جیسے شادی میں رسم ہے رواج ہے کہ دولہا اور دلہن دودھ میں انگوٹھی تلاش کرتے ہیں اور دلہن کو دولہا اٹھا کر چارپائی پے بیڈ پے بٹھاتا ہے یا کچھ علاقوں میں رواج ہے کہ دولہا دلہن دونوں ایک دوسرے کے سر سے روئی کے ٹکڑوں کو پھونک مار کر اڑاتے ہیں
یہ سارے رسم و رواج بظاہر بے تکے بے لاجک لگ رہے ہیں لیکن یہ توھم پرستی نہیں۔۔۔دراصل پہلے کے زمانے میں شرم و حیا بہت زیادہ ہوا کرتی تھی اور کم عمری میں شادی ہوا کرتی تھی تو دولہا دلہن اپس میں مانوس نہیں ہوتے تھے تو ان دونوں کو اپس میں مانوس کرنے کے لیے ایک دوسرے کا دوست بنانے کے لیے یہ رواج یہ ٹپس استعمال کی جاتی تھی یہ رسم و رواج استعمال کیے جاتے تھے کہ اس طرح وہ ایک دوسرے کے قریب اتے ہیں، ایک دوسرے سے تھوڑا سا مذاق کر لیتے ہیں۔۔۔ ایک دوسرے سے دل لگی کر لیتے ہیں۔۔۔ اس طرح دل لگی کی شروعات ہوتی ، محبت کی شروعات ہوتی۔۔۔شادی ہوتے ہی ہوس پوری کرنے لگ جانا بری بات ہے۔۔۔ نفرت والی بات ہے ۔۔۔وحشیانہ بات ہے تو اس سے بچانے کے لیے بزرگوں بوڑھے بوڑھیوں نے ان رسم و رواج کو ایجاد کیا یا ان رسم و رواج کو کہیں سے لے لیا تاکہ ہوس کے بجائے ایک دوسرے سے الفت محبت دل لگی شروعات ہو جائے
۔
شادی کوئی ایسا ایونٹ نہیں کہ بندہ فقط ہر دم سنجیدہ ہی رہے۔۔۔۔بلکہ یہ تفریح کا بھی ایونٹ ہے ۔۔۔یہ تفریح بھی موقع ہے۔۔۔یہ دل لگی کا بھی موقعہ ہے۔۔۔اور سنجیدگی کا بھی موقع ہے۔۔۔تو اس بہت بڑے ایونٹ میں ۔۔۔ اس بہت بڑے موقعہ میں جہاں تفریح مناسب لگے وہاں تفریح کی جائے، دل لگی کی جائے اور جہاں موقعہ ہو سنجیدگی کا وہاں سنجیدگی کا اظہار کیا جائے
۔
*#دلہن کے پاؤں دھو کر چاروں طرف پھینکنا۔۔۔۔؟؟*
نئی نویلی دلہن کا پاؤں دھونا اور گھر کے کونوں پر چھڑکنے کو علماء نے مستحب اور باعث خیر و برکت لکھا ہے جیسا کہ حضرت علامہ يعقوب بن سيد على البرساوی نے اس عمل کو مستحب لکھا ہے (مفاتح الجنان شرح شرعة الاسلام ص447منقول )
فتاوی رضویہ میں ہے
دلہن کو بیاہ کر لائیں تو مستحب ہے کہ اس کے پاؤں دھو کر مکان کے چاروں گوشوں میں چھڑکیں اس سے برکت ہوتی ہے (فتاویٰ رضویہ2/596 )
۔
اس کے متعلق بڑا شوشہ چھوڑا گیا کہ یہ کیسا توھم پرستی کا فعل ہے۔۔۔جو مجھے اس بات کی حکمت سمجھ ائی وہ یہ ہے کہ اس طرح کا فعل کر کے ہم نئ نویلی دلہن کے ذہن میں یہ بٹھا رہے ہوتے ہیں کہ دیکھو ہم تمہیں باعث برکت سمجھتے ہیں، اب تم نے وہ کام نہیں کرنے کہ جو بے برکتی کے باعث ہوں۔۔۔ہم ایک طرح سے اس کے ذہن میں یہ بات ڈال رہے ہوتے ہیں کہ اپ نے چوری کرپشن گھر میں نہیں کرنی کہ گھر کا سامان پیسے دولت وغیرہ چوری کر کے اپنے بھائیوں اپنے گھر والوں کو مت دینا بلکہ اس نئے گھر کو اپنا گھر سمجھنا اور اس کے لیے برکت کا باعث بننا۔۔۔اسراف اور زیادہ خرچ مت کرنا کیونکہ ہم تمہیں برکت کا باعث سمجھ رہے ہیں تو اپ نے بھی اس کا بھرپور مظاہرہ کرنا ہے کہ بچت کرنی ہے فضول خرچہ نہیں کرنا۔۔۔عزت والوں کی عزت کرنی ہے روٹی اناج وغیرہ کی عزت کرنی ہے سالن روٹی اتنا پکانا ہے جتنی ضرورت ہو اور رزق کو پھینکنا نہیں ہے کہ حدیث پاک ہم اوپر بیان کر چکے کہ اس سے تنگدستی ہوتی ہے۔۔۔۔گویا ہم نئی نویلی دلہن کو یہ احساس دلا رہے ہوتے ہیں کہ ہم تو تمہاری اتنی قدر کرتے ہیں کہ تمہارے پاؤں کے دھون کو گھر میں چھڑک رہے ہیں تو اپ نے بھی ہر چیز کی قدر کرنی ہے ۔۔۔گھر کو گھر سمجھنا ہے ۔۔۔۔اس طرح واقعی میں یہ عمل عملی طور پر ثابت کر دے گا کہ ان شاءاللہ دلہن برکت کی باعث بنے گی کہ ہم اسے اپنی عزت سمجھیں گے اور اسے وقعت دیں گے اور عملی طور پر عزت اور وقعت دیں گے تو قوی امید ہے کہ عورت بھی اس گھر کو فضول خرچی سے بچائے گی، محنت کرے گی، سلائی کڑائی کرے گی، کفایت شعاری کرے گی، بچت کرے گی اور ایک دوسرے سے محبت عزت ہوگی تو یقینا گھر میں خیر و برکت ہی ہوگی
۔
۔
بعض قول یا کام کسی غیر مسلم ثقافت سے نکل کر مسلم ثقافت میں ا جائیں تو اگر وہ ثقافت شریعت کے خلاف نہیں اور اس سے فوری طور پر یہ تاثر بھی نہ جاتا ہو کہ یہ تو کفریہ کام کیا جا رہا ہے شرکیہ کام کیا جا رہا ہے اور وہ کام وہ قول غیر مسلموں کا شعار بہت بڑی واضح پکی نشانی بھی نہ ہو تو اسے مسلم ثقافت میں رواج دے کر بھلائی اور خیر حاصل کرنا جائز ہے کیونکہ حدیث پاک میں ہے
الحديث:
الكَلِمَةُ الحِكْمَةُ ضَالَّةُ المُؤْمِنِ، فَحَيْثُ وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا»
حکمت کی بات مومن کی گمشدہ میراث ہے تو جہاں وہ پائے اسے لے لے
(سنن الترمذي ت شاكر ,5/51 حدیث2687)
(سنن ابن ماجه ,2/1395حدیث4169)
اس حدیث پاک میں واضح اشارہ ہے کہ حکمت بھرا کوئی رسم و رواج کوئی کام کوئی قول اگرچہ وہ بظاہر غیر مسلموں کا ہو تو بھی مسلمان اس کے زیادہ حقدار ہیں بشرطیکہ
واضح طور پر پکی مشابہت کفار سے نہ ہو تو اس قول کو اس فعل کو اس ٹرک و ٹپس کو، اس رسم و رواج کو اپنا لینا خیر و بھلائی کے لیے ہو تو بالکل جائز ہے کوئی حرج نہیں لیکن کوشش کی جائے کہ اس کی راز اور حکمت کو بیان کیا جائے تاکہ کوئی لوگ محض توہم برستی کے کنویں میں نہ جا گریں۔۔۔۔۔!!
۔
✍تحریر: العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
naya wtsp nmbr
03062524574
purana block shuda wtsp nmbr
03468392475