*#روزہ و نماز کی نیت کی تحقیق؟ قیاس،تقلید؟ بدعت کی کچھ تفصیل و تحقیق۔۔۔؟؟ وہابی نجدی اہلحدیث اور مرزا جہلمی وغیرہ کے مشھور اعتراض کا مدلل محقق جواب اور تشریف لال... اور مولویوں میں اتنا اختلاف کیوں۔۔۔۔۔؟؟*
سوال:
علامہ صاحب یہ دیکھیں مرزا جہلمی کس طرح مذاق اڑا رہا ہے اس کا منہ توڑ جواب لکھیے
.
*جواب....!!*
*#اہم گزارش*
علمی تحقیقی اصلاحی سیاسی تحریرات کے لیے اس فیسبک پیج کو فالوو کیجیے،پیج میں سرچ کیجیے،ان شاء اللہ بہت مواد ملے گا...اور اس بلاگ پے بھی کافی مواد اپلوڈ کردیا ہے...لنک یہ ہے:
https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1
https://www.facebook.com/profile.php?id=100022390216317&mibextid=ZbWKwL
اور تحریرات سوالات اعتراضات کے جوابات، اہلسنت کے دفاع، معاشرے کی اصلاح و معلومات و تحقیق و تشریح و تصدیق یا تردید وغیرہ کے لیے مجھے وٹسپ کر سکتے ہیں
naya wtsp nmbr
03062524574
میرے نئے وٹسپ نمبر کو وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنائیے تاکہ میں تحریرات وہاں بھیج سکوں،،،سوالات اعتراضات کے جوابات دے سکوں۔۔۔۔دینی خدمات زیادہ سے زیادہ سر انجام دے سکوں
۔
مرزا جہلمی کہتا ہے:
مرزا جہلمی ہنستے ہوئے تمسخر و مذاق اڑاتے ہوئے کہتا ہے...المفھوم: وبصوم غد نویت... میں نے کل کے روزے کی نیت کی آج کی نہیں، پھر گستاخانہ لہجے میں کہتا ہے کہ بابوں(یعنی علماء اسلاف اولیاء) کو کل اور آج کا پتہ نہیں تھا، نیت تو آج کے روزے کی کرنی ہے لیکن نیت کل کے روزے کی کروا گئے...ہاہاہاہا...وڈیو پوسٹ میں لگا دی ہے اور دی گئ لنکس پے بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں
.
*ہمارا جواب....!!*
علماء سے فروعیات ظنیات میں اختلاف مدلل بادب ہوکر کیا جاسکتا ہے مگر علماء کی توہین تمسخر مذاق اڑانے والے اپنے ایمان کی خبر لیں، اگر آپ نے توجہ سے مکمل تحریر بلاتعصب پڑھ لی تو مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ عزوجل آپ ان اعتراض کرنے والوں سے دور ہوجائیں گے اور مذاق اڑانے والے مرزا جہملی جیسوں کے متعلق تو اپ کا خون خول اٹھے گا اور جوش ایمانی اتنا ابھرے گا کہ اپ کا دل کرے گا کہ اپ کے ہاتھ چھتر ہوں اور مذاق اڑانے والے جہلمی کی تشریف ہو اور اپ کو گنتی فقط نناوے تک ائے.............ڈیش ڈیش کا معنی آپ سمجھ ہی گئے ہونگے۔۔۔۔سمجھانے کے ساتھ ساتھ ضدی فسادی سے ایسا سلوک لازم ہے تاکہ ائندہ کسی کو مذاق اڑانے گمراہ کرنے کی جراءت نہ ہو۔۔۔۔ہاں باادب ہوکر سوال کرنا اور باادب فروعی اختلاف کرنا بھی برحق ہے اسکی وجہ سے نفرت نہ کیجیے ، دل چھوٹا نہ کیجیے
۔
القرآن:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ
اے ایمان والو ایک دوسرے پے مت ہنسو(ایک دوسرے سے دل دکھانے والا مزاح نہ کرو،ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑاو)
(سورہ الحجرات آیت11)
جب عام مسلمان کی اتنی شان ہے کہ اسکا تمسخر و مذاق اڑنا جرم و ممنوع ہے تو برحق علماء و اولیاء اسلاف کا مذاق اڑانا کتنا بڑا گھٹیا پن ہوگا....؟؟
.
الحديث:
بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ ؛ دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ
کسی کے شریر فسادی و بدترین ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے، ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون حرام ہے مال حرام ہے عزت حرام ہے(یعنی عزت کرنا لازم ہے، بےعزتی،مذاق و تسمخر اڑانا حرام ہے)
(مسلم حدیث6541)
.
أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم قَالَ: لَيسَ مِن أُمَّتِي مَن لَم يُجِلَّ كَبِيرَنا، ويَرحَم صَغِيرَنا، ويَعرَف لِعالِمِنا
بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ میری امت میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے اور چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے علماء کا حق نہ جانے،ادب نہ کرے
(بخاری فی التاریخ الکبیر حدیث3267)
(المستدرک حاکم حدیث نمبر421نحوہ)
.
ثلاثةٌ لَا يَسْتَخِفُّ بِحَقِّهِمْ إِلَّا مُنافِقٌ: ذُو الشِّيْبَةِ فِي الاسْلَامِ وذُو العِلْمُ وإمامٌ مُقْسِطٌ
تین لوگوں کی توہین اور بےعزتی گستاخی تمسخر بےادبی منافق ہی کرے گا... ایک وہ کہ جسے اسلام میں سفیدی پڑ گئ ہو، دوسرا وہ جو علم والا ہو اور تیسرا عادل بادشاہ( یعنی ان تینوں کی بے ادبی توہین کرنا اور حقوق نہ جاننا یہ منافقت کی نشانی ہے)
(جامع صغیر حدیث6347)
.
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اغْدُ عَالِمًا، أَوْ مُتَعَلِّمًا، أَوْ مُسْتَمِعًا، أَوْ مُحِبًّا، وَلَا تَكُنِ الْخَامِسَةَ فَتَهْلِكَ
راوی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ یا تو عالم ہو جا یا پھر طالب علم، علم کا طلب گار ہو جا یا پھر علم سننے والا ہو جا یا پھر علماء سے محبت کرنے والا ہو جا اور پانچواں شخص مت بننا کہ ہلاک ہو جاؤ گے
(طبرانی اوسط حدیث5171)
.
الاستهزاء بأشخاصهم....وهذا محرم...الاستهزاء بالعلماء لكونهم علماء، ومن أجل ما هم عليه من العلم الشرعي، فهذا كفر
حقیقی علماء کی توہین علم شرعی کی وجہ سے کریں تو یہ کفر ہے اور اس کے علاوہ دوسری وجوہات ہوں تو حرام و گناہ ہے
(الموسوعة العقدية - الدرر السنية7/57)
.
*باادب مدلل باسلیقہ اختلاف برحق ہے، اسکی ایک دلیل ملاحظہ کیجیے......!!*
الحدیث:
قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الأحزاب: «لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة» فأدرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم: بل نصلي، لم يرد منا ذلك، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فلم يعنف واحدا منهم
ترجمہ:
غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:
تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے
(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)
پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نا فرمائی
(بخاری حدیث946)
.
دیکھا آپ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کا قیاس و استدلال اور اس میں اختلاف... صحابہ کرام نے اس برحق اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر منافق فاسق گمراہ گستاخ نہیں کہا اور نبی پاک نے بھی کسی کی ملامت نا فرمائی...ایسا اختلاف قابل برداشت ہے بلکہ روایتوں مین ایسے فروعی برحق پردلیل باادب اختلاف کو رحمت فرمایا گیا ہے
.
اختلاف ایک فطرتی چیز ہے.... حل کرنے کی بھر پور کوشش اور مقدور بھر علم و توجہ اور اہلِ علم سے بحث و دلائل کے بعد اسلامی حدود و آداب میں رہتے ہوئے پردلیل اختلاف رحمت ہے
مگر
آپسی تنازع جھگڑا ضد انانیت تکبر لالچ ایجنٹی منافقت والا اختلاف رحمت نہیں، ہرگز نہیں...اختلاف بالکل ختم نہیں ہو پاتا مگر کم سے کم ضرور کیا جا سکتا ہے،اس لیے اختلاف میں ضد ،انانیت، توہین و مذمت نہیں ہونی چاہیے بلکہ صبر اور وسعتِ ظرفی ہونی چاہیے... اور یہ عزم و ارادہ بھی ہونا چاہیے کہ اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، ختم نہیں ہو پایا تو اختلاف کو کم سے کم ضرور کیا جائے گا..اختلاف کو جھگڑے سے بچایا جائے گا..
.
اختلاف کی بنیاد حسد و ضد ہر گز نہیں ہونی چاہیے...
اختلاف اپنی انا کی خاطر نہ ہو
اختلاف لسانیت قومیت کی خاطر نہ ہو
اختلاف ذاتی مفاد لالچ کی خاطر نہ ہو
اختلاف شہرت واہ واہ کی خاطر نہ ہو
اختلاف فرقہ پارٹی کی خاطر کی نہ ہو
اختلاف کسی کی ایجنٹی کی خاطر نہ ہو
اختلاف منافقت، دھوکے بازی کی خاطر نہ ہو
اختلاف ہو تو دلیل و بھلائی کی بنیاد پر ہو، بہتر سے بہترین کی طرف ہو، علم و حکمت سے مزین ہو،
.
ہر شخص کو تمام علم ہو،ہر طرف توجہ ہو، ہر میدان میں ماہر ہو یہ عادتا ممکن نہیں، شاید اسی لیے مختلف میدانوں کے ماہر حضرات کی شوری ہونا چاہیے، اسی لیے اپنے آپ کو عقل کل نہیں سمجھنا چاہیے....بس میں ہی ہوں نہیں سوچنا چاہیے...ترقی در ترقی کرنے کی سوچ ہو، ایک دوسرے کو علم، شعور، ترقی دینے کی سوچ ہو....!!
.
کسی کا اختلاف حد درجے کا ہو، ادب و آداب کے ساتھ ہو، دلائل و شواہد پر مبنی ہو تو اس سے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے...ایسے اختلاف والے کی تنقیص و مذمت نہیں کرنی چاہیے،ایسے اختلاف پے خطاء والے کو بھی اجر ملتا ہے
الحدیث:
فاجتهد، ثم اصاب فله اجران، وإذا حكم فاجتهد، ثم اخطا فله اجر
مجتہد نے اجتہاد کیا اور درستگی کو پایا تو اسے دو اجر اور جب مجتہد نے اجتہاد کیا خطاء پے ہوا اسے ایک اجر ملے گا
(بخاری حدیث7352)
توجیہ تنبیہ جواب تاویل ترجیح کی کوشش کرنی چاہیے جب یہ ممکن نا ہو تو خطاء اجتہادی پر محمول کرنا چاہیے.....ہاں تکبر عصبیت مفاد ضد انانیت ایجنٹی منافقت وغیرہ کے دلائل و شواہد ملیں تو ایسے اختلاف والے کی تردید و مذمت بھی برحق و لازم ہے
.
اسی طرح ہر ایک کو اختلاف کی بھی اجازت نہیں... اختلاف کے لیے قرآن مجید سورہ نساء ایت83 وغیرہ سے ثابت ہوتا کہ اہل استنباط میں سے ہونا ضروری ہے... کافی علم ہونا ضروری ہے... وسعت ظرفی اور تطبیق و توفیق توجیہ تاویل ترجیح وغیرہ کی عادت ضروری ہے، جب ہر ایرے غیرے کم علم کو اختلاف کی اجازت نا ہوگی تو اختلافی فتنہ فسادات خود بخود ختم ہوتے جاءیں گے
.
سیاسی اختلافات اور دیگر باہم اختلافات میں کہا جاتا ہے کہ یہ تو سیاست کا حسین رنگ ہے جمہوریت کا حسین رنگ ہے تو پھر مولویوں کے با ادب برحق اختلاف ہمیں کیوں ہضم نہیں ہوتا۔۔۔۔؟؟ ہمیں ایک دوسرے کے با ادب فروعی اختلاف کو برداشت کرنا چاہیے۔۔۔ اختلافات کو کم سے کم کرنا چاہیے اور کم نہ ہو سکیں تو برحق فروعی اختلاف ادب کے ساتھ دین اسلام کی ترویج و تائید کے لیے اور مسلمانوں کی بہتری کے لیے اور بہتر سے بہتری کے لیے ہونا چاہیے۔۔۔۔جو جس محاذ پر دین اسلام کی خدمات کر رہا ہے اس سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس کی حوصلہ افزائی بھی کسی نہ کسی انداز میں ہونی چاہیے اور اگر مجبورا حوصلہ افزائی نہ کر سکیں تو ہم عوام سمجھ جائیں کہ فلاں معتبر اہل سنت تائید و ترویج نہیں کر رہا ہے معتبر اہل سنت کی تو لازما اس پر ملکی یا بین الاقوامی جبر و پریشر ہوگا لہذا دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے، نفرتیں نہیں کرنی چاہیے
۔
*مرزا جہلمی والا اعتراض غیرمقلد وہابی اہلحدیث حضرات بھی کرتے ہیں پھیلاتے ہیں...انکا اعتراض بھی ملاحظہ کیجیے.....!!*
وہابی اہل حدیث نجدی وغیرہ کہتے ہیں کہ اگر “غد” کا معنی آنے والا کل کریں تو، “وبصوم غد نویت۔۔۔” کا مطلب ہے میں نے کل کے دن کے روزے کی نیت کی اور روزہ تو سحری کے وقت آج کے دن کا رکھ رہا ہے اور نیت کل کی کر رہا ہے۔گویا وہ آج کا روزہ نہیں رکھ رہا
پھر چند سطور بعد وہابی نجدی اہل حدیث لکھتا ہے کہ
جو روزے کی نیت رات کو نہیں کرتا اس کا روزہ نہیں ہے )
سنن نسائي حدیث نمبر ( 2334 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 583 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔پھر وہابی نجدی اہل حدیث لکھتا ہے کہ
حدیث کا معنی یہ ہےکہ جو رات کو روزہ رکھنے کا ارادہ اور نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہے ۔ اور نیت کا تعلق دل ہے جوکہ ایک قلبی عمل ہے اس کا زبان سے کوئي تعلق نہیں اس لیے مسلمان کو دل سے ارادہ کرنا چاہیے کہ *وہ کل روزہ رکھےگا* ، اس کے لیے مشروع نہیں کہ وہ زبان سے یہ کہتا رہے میں روزے کی نیت کرتا ہوں یا میں حقیقتاً تیرے لیے روزہ رکھ رہا ہوں ، یا اس طرح کے دوسرے الفاظ جوآج کل لوگوں نےایجاد کررکھے ہیں وہ سب بدعت میں شمار ہوتے ہیں ۔صحیح نیت یہی ہے کہ انسان دل سے ارادہ کرے کہ وہ صبح روزہ رکھے گا ، اسی لیے شیخ جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی سے سوال کیا گيا تو ان کا جواب تھا :
جس کے دل میں یہ بات آگئي کہ وہ *صبح روزہ رکھے گا* اس کی نیت ہوگئی ۔دیکھیں الاختیارات صفحہ نمبر( 191 )
۔
کچھ اسی کی بات مرزا جہلمی نے بھی کی ہے اور مذاق اڑایا ہے کہ روزہ آج کا اور نیت کل کی....!!
.
.
*مرزا جہلمی اور غیرمقلدوں اہلحدیثوں کو جواب.....!!*
معترض تجاہل و گمراہی کا شکار ہے اور دوسروں کو بھی جاہل و گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے
*پہلی بات........!!*
معترض کو اعتراض ہے کہ "غد" یعنی کل کا روزہ کہنا عقلا و شرعا ٹھیک نہیں کہ سحری آج کے روزے کی اور نیت کل کے روزے کی ہو رہی ہے.......لیکن مزے کے بات ہے کہ معترض خود لکھ بیٹھا کہ
دل سے ارادہ کرنا چاہیے کہ *وہ کل روزہ رکھےگا* ،
.
*دوسری بات.....!!*
معترض کو پتہ ہی نہیں کہ اس نے اپنے شیخ الاسلام کی الاختیارات کتاب سے جو نقل کیا ہے وہاں صاف لکھا ہے کہ "غد" کہہ کر نیت کی جائے تو بھی ٹھیک ہے....الاختیارات کی اصل عربی عبارت ملاحظہ کیجیے:
من خطر بباله أنه صائم غداً، فقد نوى
ترجمہ:
جس کے دل میں یہ بات آگئ کہ وہ *کل کا روزہ رکھ رہا ہے* تو بےشک اس نے نیت کر لی...(اختیارات ص191)
.
معترض نے یہاں اپنے اعتراض سے شیخ الاسلام کو بچانے کے لیے ان کی عبارت میں موجود لفظ "غد" کا ترجمہ صبح کیا ہے جوکہ بہت بڑی خیانت و دھوکہ دہی ہے...یہاں بھی غد کا ترجمہ" کل" لکھتا تو خود ہی پھنس جاتا اس لیے ترجمہ بدل دیا.......!!
.
*تیسری بات........!!*
غد کے الفاظ جدید بدعت نہیں بلکہ پرانے علماء کرام نے "غد" یعنی کل کے روزے کی نیت کرنے کو حق و سچ برحق لکھا ہے اور اس کی احادیث مبارکہ سے دلیل بھی موجود ہے پہلے اپ عبارات پڑھیں پھر دلیل کی طرف ائیں گے اور اپ انشاءاللہ عزوجل مذاق اڑاتے ہوئے مرزا جہلمی پر جوتوں کی برسات کرنے کا تشریف لال کرنے کا شوق رکھیں گے
.
من خطر بباله أنه صائم غداً، فقد نوى
ترجمہ:
جس کے دل مین یہ بات آئی کہ وہ کل کا روزہ رکھ رہا ہے تو بے شک اسکی نیت ہوگئ
كشاف القناع: ٣٦٧/ ٢.
1/181 الفقہ الاسلامی وادلتہ
.
سیدنا غوث اعظم فرماتے ہیں:
.نوى أي وقت من الليل من بعد غروب الشمس إلى قبل أن يطلع الفجر الثاني، أنه صائمٌ غدًا من شهر رمضان
ترجمہ:
رات سے لیکر فجر سے پہلے پہلے تک نیت کرے کہ وہ کل کا روزہ رکھ رہا ہے
الغنیۃ 1/23
.
.
اذَا نَوَى مِنْ اللَّيْلِ نَوَيْت أَنْ أَصُومَ غَدًا لِلَّهِ تَعَالَى مِنْ فَرْضِ رَمَضَانَ
ترجمہ:
رات کے وقت نیت یوں کرے کہ میں کل کا روزہ رکھ رہا ہوں رمضان کا فرض روزہ...(جوہرہ 1/136)
.
ذَهَبَ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ.....َبِأَنْ يَنْوِيَ أَنَّهُ صَائِمٌ غَدًا عَنْ رَمَضَانَ مَثَلاً
ترجمہ:
جمھور و اکثر علماء کا موقف ہے کہ نیت واجب ہے، مثال کے طور پر یوں کہے کہ وہ کل کا روزہ رکھ رہا ہے
موسوعہ فقہیہ کوئیتییہ
13/42
فلینظر البدائع ٢ / ٨٤، وحاشية الدسوقي على الشرح الكبير ١ / ٥٢٠، والقوانين الفقهية ص ١٢٢. ومغني المحتاج ١ / ٤٢٤ ـ ٤٢٥، والمغني لابن قدامة ٣ / ٩٤
.
.
ان عبارات سے واضح ہے کہ امت مسلمہ کے اکثر علماء نے یہی فرمایا ہے کہ یوں نیت کی جائے کہ وہ کل کا روزہ رکھ رہا ہے، جمھور علماء کا مذاق اڑانے والے اپنے ایمان کی فکر کریں.....اس نیت کےلیے کوئی مقرر کردہ الفاظ ضروری نہیں حتی کہ دل میں ارادہ کیا کہ کل کا روزہ رکھ رہا ہے اور زبان سے کچھ نہ کہا تو بھی نیت ہوگئ......دل میں نیت کے ساتھ ساتھ الفاظوں کے ساتھ نیت کی جائے تو اسے علماء احناف نے بہتر قرار دیا ہے،مگر الفاظ ضروری مقرر نہیں کیے بلکہ
نویت ان اصوم غدا من فرض رمضان
وبصوم غد نویت من شہر رمضان
وغیرہ عربی کے مختلف الفاظوں سے نیت ہوسکتی ہے، اردو فارسی وغیرہ الفاظوں سے بھی نیت ہوسکتی ہے
.
"غد" یعنی کل کا روزہ رکھنے کی نیت کرنے میں سب علماء کا اتفاق ہے.....معترض کا غد پر اعتراض کرنا خود ان کے معتمد علماء پر اعتراض کرنے کے مترادف ہے اور لفظ کل کہنے پر تمسخر اڑانا اپنی جہالت کا پیغام دینا ہے
.
*چوتھی بات.......!!*
*اب ائیے یہ سمجھتے ہیں کہ علماء نے اخر یہ کیوں فرمایا کہ کل کے روزے کی نیت کرے..........؟؟*
دراصل یہ کل کے روزے کی نیت حقیقتا اج کے روزے کی نیت ہے، کیونکہ روزہ سحری کے وقت کے ختم ہونے کے بعد سے لیکر غروبِ افتاب تک ہوتا ہے اور نیت سحری کے وقت کی جاتی ہے تو
رات کے وقت جب سحری کوئی کرتا ہے تو وہ فجر کے بعد شروع ہونے والے روزے کی سحری کر رہا ہوتا ہے یہ روزہ سحری کے کچھ دیر بعد شروع ہونے والا ہوتا ہے تو یہ مستقبل کا روزہ ہوا اسی لیے اس کے لیے کل کا روزہ کہا جاتا ہے کیونکہ روزہ ابھی تک شروع ہی نہیں ہوا
.
لیھذا رات کے وقت غد یعنی کل کے روزے یعنی آنے والے روزے کی نیت کرنا جمہور علماء بلکہ خود معترض کے معتبر علماء کے مطابق بھی برحق و سچ ہے.....اس پر اعتراض جہالت و گمراہی ہے
.
*غدا کا ایک معنی حدیث پاک سے.......!!*
فَإِنَّهُ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِجَمْعٍ، وَصَلَّى صَلَاةَ الصُّبْحِ مِنَ الْغَدِ قَبْلَ وَقْتِهَا
صحابی فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء کی نماز جمع کی حج کے موقع پر اور کل کی فجر نماز(معتاد و معتدل) وقت سے پہلے پڑہی
(ابوداؤد تحت الحدیث1934)
حدیث پاک میں غد یعنی کل کا لفظ ایا ہے اب اگر غدا کا معنی فقط ایک یہی ہوتا کہ کل کا دن اگلی تاریخ یعنی چوبیس گھنٹے بعد کا وقت جیسے کہ مرزا نے یہی معنی کییے اگر یہی معنی کریں تو مطلب بنے گا کہ رات کو حج کے موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء کو جمع کیا اور 24 گھنٹے بعد جاکر فجر کی نماز کو جلدی پڑھا... جبکہ یہ معنی سراسر غلط ہے حدیث پاک کے خلاف ہے کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ جس رات نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء کو جمع کیا اسی رات فجر نماز کو جلدی پڑھا
.
اس حدیث پاک سے ثابت ہوگیا کہ جس رات میں بندہ ہو اسی رات کو فجر کے وقت کے لئے غد کا لفظ استعمال کر سکتا ہے...اور یہی روزہ میں ہوتا ہے کہ ہم رات کے وقت سحری کر رہے ہوتے ہیں اور صبح شروع ہونے والے روزے کے لیے غدٍ کل کا روزہ کہہ کر نیت کرتے ہیں...جوکہ بالکل برحق ہے
.
*پانچویں بات......!!*
باقی رہی بات اس مسلے کی کہ نیت الفاظوں سے کرنا بدعت ہے یا نہیں......؟؟ تو یہ مختصرا عرض ہے کہ کچھ علماء نے اسے بدعت کہا ہے اور ان کی مراد یہاں بدعت سے مراد بدعت حسنہ ہوگی کیونکہ اس کی اصل احادیث مبارکہ سے ثابت ہے اور جس کی اصل احادیث سے ثابت ہو ایات سے ثابت ہو تو وہ درحقیقت بدعت ہی نہیں ہوتی اسے ظاہری طور پر بدعت کہا جاتا ہے۔۔۔۔یہی وجہ ہے کہ علماء احناف نے لفظوں کے ساتھ نیت کرنے کو مستحب و ثواب کہا ہے....روزہ کی نیت کے الفاظ اگرچہ سنت نبوی اور اقوال صحابہ سے مروی نہیں مگر نماز قربانی وغیرہ کچھ معاملات کی نیت مروی ہے تو ان نیتوں پر قیاس کرتے ہوئے ہر عبادت کی نیت لفظوں کے ساتھ کرنے کو مستحب لکھا گیا ہے.....جب یہ قیاس ہے تو اس کے لیے یہ مطالبہ کرنا کہ نیت سنت سے دکھاؤ ، یہ مطالبہ جہالت ہے کیونکہ سنت میں نیت کے الفاظ آئے ہوتے تو قیاس کی کیا حاجت تھی.....؟؟
ہاں
یہ مطالبہ برحق ہے کہ قیاس کس پر کیا،اور قیاس کا ثبوت کہاں سے ہے......؟ تو لیجیے قیاس کا مختصر ثبوت
القرآن..ترجمہ:
اگر معاملات کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط (اہلِ تحقیق، باشعور، باریک دان، سمجھدار علماء) ضرور جان لیتے.. (سورہ نساء آیت83)
.
دیکھا آپ نے آیت میں اولی الامر اور علماء اور اہل استنباط کی پیروی کا حکم بھی ہے...اگر فقط سب کچھ صرف اور صرف قرآن و حدیث ہی سب کچھ ہوتا تو اولی الامر اہل استنباط کی پیروی کا حکم نا ہوتا.... ہاں اتنا ضرور شرط ہے کہ یہ اہل استنباط جو کہیں وہ قرآن و سنت سے اخذ ہو ورنہ انکی اپنی مرضی، من مانی معتبر نہیں.. اسلام نے اصل اصول بتا دیے اور کئ احکام دو ٹوک بتا دیے اور پھر اسلام نے فرمایا کہ ایسے مسائل بھی آئیے گے جنکا دوٹوک حکم قرآن و حدیث میں نہیں ہوگا ایسے مسائل میں اسلام نے اہل استنباط علماء کے اقوال اور ان کے قیاس، انکی رائے کی پیروی کا حکم دیا ہے...یہ.بات میں اپنی طرف سے نہین کہہ رہا یہ بات قرآن و حدیث سے ماخوذ ہے
.
الحدیث:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما أراد أن يبعث معاذا إلى اليمن قال: «كيف تقضي إذا عرض لك قضاء؟»، قال: أقضي بكتاب الله، قال: «فإن لم تجد في كتاب الله؟»، قال: فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «فإن لم تجد في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا في كتاب الله؟» قال: أجتهد رأيي، ولا آلو فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره، وقال: «الحمد لله الذي وفق رسول، رسول الله لما يرضي رسول الله»
ترجمہ:
بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ارادہ فرمایا کہ حضرت معاذ کو یمن کی طرف بھیجیں تو حضرت معاذ سے پوچھا:
تمھارے پاس کسی بات کا فیصلہ ہونے کو آئے تو کیسے فیصلہ کرو گے، عرض کیا قرآن سے فیصلہ کرونگا
نبی پاک نے فرمایا کہ اگر قرآن میں اسکا حکم(دو ٹوک) نا پاو تو پھر کیا کرو گے
عرض کیا اللہ کے رسول کی سنت سے فیصلہ کرونگا
نبی پاک نے پھر فرمایا کہ رسول اللہ کی سنت اور کتاب اللہ دونوں میں(دو ٹوک) حکم نا پاؤ تو پھر کیا کرو گے
عرض کیا
پھر میں اجتہاد کرکے اپنی رائے پر فیصلہ کرونگا اور میں اجتہاد و استنباط مین کوئی کسر نا چھوڑوں گا...رسول کریم نے ان کے سینے پر تھپکی دی اور فرمایا
شکر و حمد ہے اللہ کریم کی کہ جس نے رسول اللہ کے بھیجے ہوئے کو اس بات کی توفیق دی کہ جس سے اللہ کا رسول راضی ہے
(ابو داؤد حدیث3592)
ضعفه الشيخ الألباني، ولكن بعض أهل العلم صححه أو حسنه، ومنهم ابن كثير في أول تفسير سورة الفاتحة، وكذلك الشوكاني حسنه وقال: إن ابن كثير جمع فيه جزءاً وقال: كذلك أيضاً أبو الفضل بن طاهر المقدسي جمع فيه جزءاً.وقد وجدت آثار عن عدد من الصحابة تدل على ما دل عليه
ابو داود شریف کی مذکورہ حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن بعض اہل علم نے اس حدیث کو صحیح و دلیل قرار دیا ہے یا پھر حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے جیسے کہ امام ابن کثیر نے اور جیسے کہ امام شوکانی نے صحیح یا حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے... بعض ائمہ نے تو اس حدیث کی تائید و تخریج و شرح پر کتب و رسائل تک لکھے ہیں... صحابہ کرام سے بہت سارے آثار مروی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے قرآن اور حدیث بھر اقوال صحابہ پھر ان پر کیا گیا اجتہاد و قیاس کرنا اور عمل کرنا کرانا جائز بلکہ لازم و برحق ہے
(شرح ابوداود للعباد تحت الحدیث3592)
.
اوپر آیت میں اہل استنباط و اہل اجتہاد کے قیاس و رائے کو معتبر قرار دیا گیا تھا اور مذکورہ حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن و سنت کے علاوہ قیاس و رائے بھی معتبر مگر وہاں جہاں دو ٹوک قرآن و سنت کا حکم نا ہو.......!!
یہی وجہ ہے کہ ہم اہل سنت قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ مستند علماء کرام کے اقوال کو بھی پیش کرتے ہیں، وہابیوں اہل حدیثوں کی طرح آدھے اسلام کے پیروکار نہیں
.
کچھ عبادات کی نیت کے الفاظ مروی ہوءے ہیں مثلا قربانی کی نیت:
إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ، وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ، وَعَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ، بِاسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ "
(ابوداود حدیث2795)
.
نجدی وہابی و اہلحدیث غیر مقلد وغیرہ کے معتبر عالم ابن باز نے لکھا کہ:
: المشروع أن يتلفظ ويقول: اللهم إنها منك ولك
قربانی کرتے وقت (دلی نیت کے ساتھ ساتھ) زبان سے نیت کرے اور کہے کہ: اللهم إنها منك ولك
(فتاوى نور على الدرب لابن باز18/182)
.
تو روزہ کی نیت کرنے کا حکم حدیث پاک میں ہے جیسا کہ معترض نے بھی حدیث پیش کی اور زبان سے روزہ وغیرہ کی نیت قربانی وغیرہ عبادات پر قیاس کرتے ہوئے نیت کے الفاظ مستحب ثابت کیے گئے ہیں....اور قیاس کرنے کا جواز خود قرآن و حدیث سے ثابت ہے جیسے کہ ہم نے اوپر ایت اور حدیث پیش کی ہے، صحابہ کرام نے قیاس کیے.... تابعین نے قیاس کیے، البتہ قیاس کرنے سے پہلے قیاس کے اصول و ضوابط پڑھنا سمجھنا لازم ہیں کہ کہاں اور کیسے اور کس حد تک قیاس جائز بلکہ لازم ہے........؟؟ یہ ایک الگ لمبی بحث ہے جس پر باقاعدہ کتب لکھی جا چکی ہیں
.
بَلِ النِّيَّةُ بِاللِّسَانِ مِنَ الْبِدْعَةِ الْحَسَنَ
ترجمہ:
بلکہ زبانی نیت بدعت حسنہ ہے
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,4/1387]
.
درمختار کا مختار قول کیا ہے ملاحظہ کیجیے
وَالتَّلَفُّظُ) عِنْدَ الْإِرَادَةِ (بِهَا مُسْتَحَبٌّ) هُوَ الْمُخْتَارُ،
ترجمہ:
دلی نیت کے وقت زبانی نیت کرنا مستحب و اچھا ہے اور یہی مختار ہے
[ در مختار مع رد المحتار ,1/415]
.
علامہ طحطاوی کا مختار قول بھی ملاحظہ کیجیے
ولا عن أحد من الصحابة والتابعين" زاد ابن أميرحاج ولا عن الأئمة الأربعة قوله: "وهذه بدعة" قال في البحر فتحرر من هذه الأقوال أنه بدعة حسنة
یعنی:
زبانی نیت رسول کریم صحابہ کرام تابعین عظام ائمہ سے مروی نہیں، یہ بدعت ہے یعنی بدعت حسنہ ہے
[حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح221 ,page 220]
.
فإن فعله لتجتمع عزيمته عليه فهو حسن
ترجمہ:
اگر زبانی نیت دل کی نیت کو پختہ کرنے کے لیے کرے تو اچھا ہے
[منحة السلوك في شرح تحفة الملوك ,page 121]
وَضَمُّ التَّلَفُّظِ إلَى الْقَصْدِ أَفْضَلُ) لِمَا فِيهِ مِنْ اسْتِحْضَارِ الْقَلْبِ لِاجْتِمَاعِ الْعَزِيمَةِ بِهِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: النِّيَّةُ بِالْقَلْبِ فَرْضٌ، وَذِكْرُهَا بِاللِّسَانِ سُنَّةٌ، وَالْجَمْعُ بَيْنَهُمَا أَفْضَلُ
یعنی:
دلی نیت کے ساتھ زبانی نیت کرنا افضل ہے کہ دلی ارادہ پختہ ہوتا ہے، امام محمد علیہ الرحمۃ نے فرمایا ہے کہ دلی نیت فرض اور زبانی نیت سنت(یعنی مشائخ کا اچھا طریقہ) ہے اور دونوں نیتیں کرنا افضل ہے
[مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ,1/85]
.
واختلف كلامهم في التلفظ فرجح في منية المصلي تبعا للمجتبى وغيره استحبابه وجعله في اختياره تبعا للبدائع والمحيط سنة كذا عن محمد وفي الشرح والكافي أنه أحسن....وهذه بدعة انتهى أي: حسنة
یعنی:
زبانی نیت کے متعلق مشاءخ کے کلام میں اختلاف ہے، منیہ و مجتبی بدائع محیط وغیرہ میں راجح و مختار اس کو کہا ہے کہ یہ اچھا ہے، یہ بدعت ہے یعنی اچھی بدعت ہے
[النهر الفائق شرح كنز الدقائق ,1/188]
.
إلَّا أَنَّ الذِّكْرَ بِاللِّسَانِ مَعَ عَمَلِ الْقَلْبِ سُنَّةٌ فَالْأَوْلَى أَنْ يَشْغَلَ قَلْبَهُ بِالنِّيَّةِ وَلِسَانَهُ بِالذِّكْرِ وَيَدَهُ بِالرَّفْعِ،
مگر یہ کہ زبانی نیت دلی نیت کے ساتھ اچھا ہے کہ دل کو نیت کے ساتھ مشغول کرنا، زبان کو تلفظ کے ساتھ مشغول کرنا اور ہاتھوں کو اٹھانے کے ساتھ مشغول کرنا ہے
[الجوهرة النيرة على مختصر القدوري ,1/48]
.
(وَالتَّلَفُّظُ مُسْتَحَبٌّ) لِمَا فِيهِ مِنْ اسْتِحْضَارِ الْقَلْبِ
ترجمہ:
زبانی نیت کرنا مستحب ہے کہ اس سے دل حاضر ہوتا ہے
[درر الحكام شرح غرر الأحكام ,1/62]
.
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: النِّيَّةُ بِالْقَلْبِ فَرْضٌ، وَذِكْرُهَا بِاللِّسَانِ سُنَّةٌ، وَالْجَمْعُ بَيْنَهُمَا أَفْضَلُ
ترجمہ:
امام محمد علیہ الرحمۃ نے فرمایا ہے کہ دلی نیت فرض اور زبانی نیت سنت(یعنی مشائخ کا اچھا طریقہ) ہے اور دونوں نیتیں کرنا افضل ہے
[الاختيار لتعليل المختار ,1/48]
.
لَكِنَّهُ حَسَنٌ لِاجْتِمَاعِ عَزِيمَتِهِ
ترجمہ:
لیکن دلی نیت کو پختہ کرنے کے لیے زبانی نیت کرنا اچھا ہے
[العناية شرح الهداية ,1/266]
.
فَإِنْ فَعَلَهُ لِتَجْتَمِعَ عَزِيمَةُ قَلْبِهِ فَهُوَ حَسَنٌ
ترجمہ:
اگر دلی ارادے کو پختہ کرنے کے لیے زبانی نیت کرے تو اچھا ہے
[فتاوی عالمگیری،الفتاوى الهندية ,1/65]
.
*چھٹی بات.......!!*
مرزا جہلمی نام نہاد کم علم متعصب اہلحدیث و غیرمقلدین حضرات کو ہر گز نہ سنیے، انکی ایک نہ مانییے کہ یہ کم علم و جاہل بےباک بےادب آپ کو بھی گمراہ و گستاخ کر دیں گے
الحدیث:
فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا
جاہل(کم علم) فتویٰ دیں گے تو وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے( لہذا ایسوں سے بچو)
(بخاری حدیث100)
.
الحدیث:
[ ایاکم و ایاھم لا یضلونکم و لا یفتنونکم ]
’’گمراہوں،گستاخوں، بدمذہبوں سے دور بھاگو ، انہیں اپنے سے دور کرو(سمجھانے کے ساتھ ساتھ قطع تعلق و بائیکاٹ کرو) کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں‘‘(صحیح مسلم1/12)
.
آیات پاک و حدیث پاک کی تنسیخ تخصیص توضیح تفسیر و تشریح دوسری ایات و احادیث سے ہوتی ہے جس پر کئ دلائل و حوالہ جات ہیں ہم اختصار کے پیش نظر فقط ایک حدیث پاک پیش کر رہے ہیں
الحدیث:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينسخ حديثه بعضه بعضا، كما ينسخ القرآن بعضه بعضا ".
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کو دوسری حدیث منسوخ و مخصوص(و تشریح) کر دیتی ہے۔ جیسے قرآن کی ایک آیت دوسری آیت سے منسوخ و مخصوص(و تفسیر) ہو جاتی ہے
(مسلم حدیث777)
لیھذا یہ اصول یاد رہے کہ بعض آیات و احادیث کی تشریح تنسیخ تخصیص دیگر آیات و احادیث سے ہوتی ہے....عام آدمی کے لیے اسی لیے تقلید لازم ہے کہ اسے ساری یا اکثر احادیث و تفاسیر معلوم و یاد نہیں ہوتیں،مدنظر نہیں ہوتیں تو وہ کیسے جان سکتا ہے کہ جو ایت یا حدیث وہ پڑھ رہا ہے وہ کہیں منسوخ یا مخصوص تو نہیں.....؟؟ یااسکی تفسیر و شرح کسی دوسری آیت و حدیث سےتو نہیں.....؟ اسی لیے سیدنا سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں
الحديث مَضِلَّة إلا للفقهاء
ترجمہ:
حدیث(اسی طرح آیت عام آدمی کےلیے)گمراہی کا سبب بن سکتی ہے سوائے فقہاء کے
(الجامع لابن أبي زيد القيرواني ص 118)
تو آیت و حدیث پڑھتے ہوءے معتبر اہلسنت عالم کی تفسیر و تشریح مدنظر ہو تقلید ہو یہ لازم ہے ورنہ اپنے سے نکات و مسائل نکالنا گمراہی بلکہ کفر تک لے جاسکتا ہے....وہ عالم وہ مجتہد و فقیہ نکات و مسائل نکال سکتا ہے جو بلاتصب وسیع الظرف ہوکر اکثر تفاسیر و احادیث کو جانتا ہو لغت و دیگر فنون کو جانتا ہو مگر آج کے مصروف دور میں اور علم و حافظہ کے کمی کے دور میں اور فنون و احاطہ حدیث و تفاسیر کے کمی کے دور میں بہتر بلکہ لازم یہی ہے کہ عالم فقیہ بھی تقلید کرے، کسی مجتہد کے قول و تفسیر و تشریح کو لے لے کیونکہ ہر مسلے پر اجتہاد مجتہدین کر چکے
البتہ
جدید مسائل میں باشعور وسیع الظرف وسیع علم والا عالم اپنی رائے پردلیل باادب ہوکر قائم کر سکتا ہے
.
نوٹ:سچوں(کو پہچان کر ان)کا ساتھ دو(سورہ توبہ آیت119) سچے اچھے مولوی تو عظیم نعمت ہیں،دین و دنیا کو بدنام تو جعلی منافق مکار کر رہےہیں....عوام و خواص سب کو سمجھنا چاہیےکہ #جعلی_مکار_منافق تو علماء پیر اینکر لیڈر سیاست دان جج وکیل استاد ڈاکٹر فوجی وغیرہ افراد و اشیاء سب میں ہوسکتےہیں،ہوتے ہیں
تو
جعلی کی وجہ سے #اصلی سےنفرت نہیں کرنی چاہیےبلکہ اصلی کو تلاش کر، پہچان کر اسکا ساتھ دینا چاہیے اور اپنی و سب کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے، رجوع توبہ کا دل جگرہ رکھنا چاہیے
#*ساتویں بات.....!!*
قران اور احادیث پر قیاس کر کے کچھ ثابت کیا جائے تو وہ اچھی بدعت کہلاتا ہے بری بدعت نہیں کہلاتا یعنی حقیقت وہ بدعت ہی نہیں ہوتا اسے ظاہری طور پر بدعت کہا جاتا ہے حقیقت میں اس کی اصل ثابت ہے تو لہذا وہ برحق ہے جیسے کہ اوپر ہم نے دلائل پیش کیے کہ قیاس و اجتہاد ورائے کی اجازت اہل استنباط علماء وسیع علم والے علماء کو ہے اور ان کے قیاس و اجتہاد پر عمل کرنا بھی ہم پر لازم ہے
۔
*#اٹھویں بات۔۔۔۔۔۔۔!!*
اب تھوڑی سی بدعت کی تفصیل بھی ملاحظہ کیجئے
حدیث پاک میں ہے کہ:
وما سكت عنه فهو مما عفا عنه
ترجمہ:
جس چیز کے متعلق(قرآن و احادیث میں)خاموشی ہو(مطلب دوٹوک حلال یا دوٹوک حرام نہ کہا گیا ہو تو)وہ معاف ہے، جائز ہے... (ابن ماجہ حدیث3368)
یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد وغیرہ بہت کتابوں میں ہے
.
حدیث پاک میں ہے:
من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء
ترجمہ:
جس نے اسلام میں نیا اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے بعد
جو جو اس پر عمل کرے گا ان سب کا ثواب اسے ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کمی نا آے گی
(مسلم حدیث نمبر1017...6800)
یہ حدیث پاک ابن ماجہ سنن نسائی وغیرہ بہت کتابوں میں بھی ہے
.
ان دونوں احادیث مبارک سے ثابت ہوتا ہے کہ:
①جو کام سنت نا ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا...لیھذا یہ کہنا کہ فلان کام سنت نہیں اس لیے بدعت ہے، یہ کہنا غلط ہے کیونکہ حدیث پاک کی روشنی سے واضح ہے کہ جو سنت نا ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا... ہاں اگر سنت نا ہو اور جائز بھی نا ہو بلکہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہو تب بدعت و گناہ کہلائے گا
.
②اگر کوئی آپ سے کہے کہ فلاں کام سنت نہیں بدعت ہے تو آپ فورا جواب دیں کہ ٹھیک ہے سنت نہیں تو کیا جائز بھی نہیں...؟؟
.
③بے شک سنت کی عظمت ہے مگر اسی سنت نے ہمیں سکھایا ہے کہ سنت کے علاوہ جائز بھی کوئی چیز ہے... لیھذا سنت سنت کی رٹ لگانے کے ساتھ ساتھ جائز جائز کی رٹ لگانا بھی ضروری ہے
.
④ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ عبادت وہ نیک کام جسکا کوئی ایک طریقہ مقرر نا ہو تو اس کے نئے طریقے بدعت نہیں بلکہ اس کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں....ہاں جس کام جس عبادت کے طریقے اسلام نے متعین و مخصوص کر دیے ہیں ان میں نیا طریقہ نکالنا ٹھیک نہیں... جیسے نماز روزے کے نئے طریقے نکالنا ٹھیک نہیں مگر صدقہ خیرات ذکر اذکار درود میلاد فاتحہ ایصال ثواب شب براءت ،شب معراج، شب قدر کی سالانہ عبادات و شب بیداری وغیرہ کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں بشرطیکہ اسلام کے کسی اصول کے خلاف نا ہوں..
.
*نئے طریقے بدعت نہیں تو #پھر_آخر_بدعت_ہے_کیا.....؟؟*
دراصل بدعت کی تعریف واضح الفاظ میں کسی آیت کسی حدیث میں نہیں آئی، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا وہ بدعت ہے ہم انہیں کہتے ہیں کہ کسی حدیث میں یہ دکھا دیں کہ بدعت وہ ہے جو کام صحابہ کرام نے نا کیا ہو...؟؟
کچھ لوگ کہتے ہیں جو سنت نہیں وہ بدعت ہے، یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ اوپر احادیث کی زبانی بتایا جا چکا ہے کہ جو کام سنت نا ہو وہ جائز بھی کہلا سکتا ہے، سنت کے بعد جائز بھی ایک قیمتی چیز ہے
.
*پھر آخر بدعت ہے کیا.....؟؟*
آیات تفاسیر احادیث میں غور کرکے بدعت کی تعریف اخذ کی گئ ہے جسے علماء کرام نے جامع انداز میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے کہ:المراد بھا ما احدث ولیس لہ اصل فی الشرع،،ویسمی فی عرف الشرع بدعۃ، وماکان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعۃ فالبدعۃ فی عرف الشرع مذمومۃ بخلاف اللغۃ
ترجمہ:
بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی شریعت میں کوئ اصل نا ہو،،شریعت میں اسی کو بدعت کہا جاتا ہے
اور
جس نئے کام کی اصل ہو کہ اس پر شریعت رہنمائ کرے وہ تو بدعت نہیں، بدعۃ شریعت میں مذموم ہی ہوتی ہے"با خلاف لغت(اور ظاہری بدعت) کے"
(فتح الباری 13/253،اصول الایمان ص126
اصول الرشاد ص64 مرعاۃ،عمدۃ القاری، مجمع بحار الانوار
فتح المبین،وغیرہ بہت کتابوں میں بھی یہی تعریف ہے
جن تین کتابوں کا مکمل حوالہ لکھا ہے وہ اس لیے کہ پہلی کتاب تمام کے ہاں معتبر ہے خاص کر اہل حدیث کے لیے
اور دوسری کتاب وہابیوں کی ہے سعودی عرب کی حکومت نے چھاپی ہے اور تیسری کتاب امام اہلسنت سیدی احمد رضا کے والد صاحب کی کتاب ہے)
.
سیدنا عمر کا فتوی اور جمھور صحابہ کرام کا عدم انکار:
نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ
یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے
(بخاری جلد2 صفحہ707)
یہ فتوی دیگر بہت کتابوں میں بھی ہے
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بدعت کو کیا ہی اچھی بدعت کہا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بظاہر کوئی چیز بدعت ہوتی ہے لیکن اس کی اصل شریعت میں ہوتی ہے تو وہ اچھی بدعت کہلاتی ہے اور اس پر جمھور صحابہ کرام علیھم الرضوان نے انکار بھی نہیں کیا تو اکثر صحابہ کرام کے مطابق بدعت اچھی بھی ہوتی ہے... بعض صحابہ کرام سے جو مروی ہے کہ انہوں نے بعض نیک کاموں کو بدعت کہا تو یہ ان کا غیر مفتی بہ یا مؤول قول کہلائے گا
.
سنی وہابی نجدی شیعہ اہل حدیث وغیرہ تمام کی کتابوں میں "موضوع حدیث" لفظ بولا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں کوئ "حدیث" موضوع نہیں ہوتی ..اسکو فقط ظاہر کے لحاظ سے اور لغت و معنی مجاز کے لحاظ سے "حدیث" کہا جاتا ہے
اسی طرح "اچھی بدعت" حقیقت میں بدعت نہیں اسے فقط ظاہر کے لحاظ سے لغت و مجاز کے لحاظ سے بدعت کہا جاتا ہے... اوپر صحابہ کرام کے فتوے میں جو اچھی بدعت فرمایا گیا وہ بھی حقیقت میں بدعت نہیں...اسے ظاہر و لغت کے لحاظ سے بدعت فرمایا گیا ہے... بدعت کی جو پانچ اقسام بتائی جاتی ہیں وہ بھی دراصل ظاہر و لغت کے لحاظ سے ہیں ورنہ بدعت حسنہ حقیقتا بدعت ہی نہیں، بدعت کی تعریف میں"بخلاف لغت کے" الفاظوں میں اسی چیز کو بیان کیاگیا ہے
.
*وہابیوں اہلحدیثوں غیرمقلدوں نجدیوں کا امام ابن تیمیہ پہلے اپنا نظریہ لکھتا ہے اور پھر بطور دلیل یا نقل امام شافعی کے قول کو برقرار رکھتا ہے کہ*
وَمَا خَالَفَ النُّصُوصَ فَهُوَ بِدْعَةٌ بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِينَ وَمَا لَمْ يُعْلَمْ أَنَّهُ خَالَفَهَا فَقَدْ لَا يُسَمَّى بِدْعَةً قَالَ الشَّافِعِيُّ - رَحِمَهُ اللَّهُ -: الْبِدْعَةُ بِدْعَتَانِ: بِدْعَةٌ خَالَفَتْ كِتَابًا وَسُنَّةً وَإِجْمَاعًا وَأَثَرًا عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَذِهِ بِدْعَةُ ضَلَالَةٍ. وَبِدْعَةٌ لَمْ تُخَالِفْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَهَذِهِ قَدْ تَكُونُ حَسَنَةً لِقَوْلِ عُمَرَ: نِعْمَتْ الْبِدْعَةُ هَذِهِ هَذَا الْكَلَامُ أَوْ نَحْوُهُ رَوَاهُ البيهقي بِإِسْنَادِهِ الصَّحِيحِ فِي الْمَدْخَلِ
جو نص شرعی یعنی( قرآن و حدیث) خلاف ہو وہ بدعت ہے اس پر سب کا اتفاق ہے اور جس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ وہ نص کے خلاف ہے تو اس کو بدعت نہیں کہیں گے... امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک بدعت وہ ہے کہ جو کتاب اللہ اور سنت کے خلاف ہو یا اجماع کے خلاف ہو یا(جمھور) صحابہ کرام کے اقوال کے خلاف ہو تو یہ بدعت گمراہی ہے اور دوسری بدعت وہ ہے کہ جو ان چیزوں کے خلاف نہ ہو تو یہ بدعت حسنہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا عمر نے فرمایا تھا کہ یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے، اس قسم کی بات کو امام بیہقی نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے
( مجموع الفتاوى ابن تيميه20/163)
.
*کل بدعۃ ضلالۃ(ہر بدعت گمراہی ہے)کی وضاحت انہی ابن تیمیہ وہابی سے سنیے...لکھتا ہے*
عَنْهُ فَيَعُودُ الْحَدِيثُ إلَى أَنْ يُقَالَ: " كُلُّ مَا نُهِيَ عَنْهُ " أَوْ " كُلُّ مَا حُرِّمَ " أَوْ " كُلُّ مَا خَالَفَ نَصَّ النُّبُوَّةِ فَهُوَ ضَلَالَةٌ " وَهَذَا أَوْضَحُ مِنْ أَنْ يَحْتَاجَ إلَى بَيَانٍ بَلْ كُلُّ مَا لَمْ يُشْرَعْ مِنْ الدِّينِ فَهُوَ ضَلَالَةٌ. وَمَا سُمِّيَ " بِدْعَةً " وَثَبَتَ حُسْنُهُ بِأَدِلَّةِ الشَّرْعِ فَأَحَدُ " الْأَمْرَيْنِ " فِيهِ لَازِمٌ: إمَّا أَنْ يُقَالَ: لَيْسَ بِبِدْعَةِ فِي الدِّينِ وَإِنْ كَانَ يُسَمَّى بِدْعَةً مِنْ حَيْثُ اللُّغَةُ. كَمَا قَالَ عُمَرُ: " نِعْمَت الْبِدْعَةُ هَذِهِ " وَإِمَّا أَنْ يُقَالَ: هَذَا عَامٌّ خُصَّتْ مِنْهُ هَذِهِ الصُّورَةُ لِمُعَارِضِ رَاجِحٍ كَمَا يَبْقَى فِيمَا عَدَاهَا عَلَى مُقْتَضَى الْعُمُومِ كَسَائِرِ عمومات الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، وَهَذَا قَدْ قَرَّرْته فِي " اقْتِضَاءِ الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيمِ " وَفِي " قَاعِدَةِ السُّنَّةِ وَالْبِدْعَةِ " وَغَيْرِهِ.
خلاصہ
ہر بدعت گمراہی ہے تو اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے اور ایسی ہر بدعت گمراہی ہے اور جس کی اصل ثابت ہو وہ بدعت ہی نہیں ہے تو وہ لغت و ظاہر کے اعتبار سے بدعت ہے اور وہ گمراہی نہیں ہے ، وہ بدعت حسنہ ہے... یا پھر یہ کہا جائے گا کہ ہر بدعت گمراہی ہے اس عموم سے بدعت حسنہ مستثنی ہے جیسے کہ قرآن و حدیث کے کئ عموم ہوتے ہیں اور اس سے کچھ چیزیں مستثنی ہوتی ہیں
( مجموع الفتاوى ابن تيميه10/370)
.
*ابن حزم اور بدعت قولی فعلی بدعت حسنہ*
البدعة: كل ما قيل أو فعل مما ليس له أصل في ما نسب إليه، وهو في الدين كل ما لم يأت [في القرآن ولا] عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، إلا منها ما يؤجر عليه صاحبه ويعذر فيما قصد به الخير، ومنها ما يؤجر عليه صاحبه جملة ويكون حسنا
بدعت ہر اس قول کو کہتے ہیں ہر اس فعل کو کہتے ہیں کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو... شریعت میں بدعت وہ ہے کہ جس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو... جس کی اصل ثابت ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اس پر اجر دیا جاتا ہے
(رسائل ابن حزم4/410)
.
*ابن جوزی اور بدعت*
ومتى أسند المحدث إِلَى أصل مشروع لم يذم
جس بدعت کی اصل ثابت ہو اس کی مذمت نہیں ہے( وہ تو دراصل بدعت ہے ہی نہیں اسے تو ظاہر اور لغت کے اعتبار سے بدعت کہا جاتا ہے)
(ابن جوزي تلبيس إبليس ص18)
.
.
*وہابیوں اہلحدیثوں غیرمقلدوں نجدیوں کا امام شوکانی علامہ ابن حجر کی عبارت لکھتا ہے اور اسکی نفی نہیں کرتا جسکا صاف مطلب ہے کہ یہ عبارت، یہ نظریہ بھی یا یہی نظریہ ٹھیک ہے*
وَالتَّحْقِيقُ أَنَّهَا إنْ كَانَتْ مِمَّا يَنْدَرِجُ تَحْتَ مُسْتَحْسَنٍ فِي الشَّرْعِ فَهِيَ حَسَنَةٌ، وَإِنْ كَانَتْ مِمَّا يَنْدَرِجُ تَحْتَ مُسْتَقْبَحٍ فِي الشَّرْعِ فَهِيَ مُسْتَقْبَحَةٌ، وَإِلَّا فَهِيَ مِنْ قِسْمِ الْمُبَاحِ، وَقَدْ تَنْقَسِمُ إلَى الْأَحْكَامِ الْخَمْسَةِ
تحقیق یہ ہے کہ جو ظاہر اور لغت کے اعتبار سے بدعت ہو تو اس کی تقسیم کچھ یوں ہوگی کہ اگر وہ شریعت کے کسی اصول کے تحت اچھی درج ہو سکتی ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ شریعت کے کسی اصول کے تحت بری ہو تو وہ بری بدعت ہے اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہو تو وہ بدعت مباحہ ہے اور بدعت کی پانچ قسمیں بیان کی جاتی ہے
(كتاب نيل الأوطار3/65)
.
*کل بدعۃ ضلالۃ کا جواب و وضاحت*
فإن قلت: ففي الحديث: "كل بدعة ضلالة "؟ قلت: أراد بدعة لا أصل لها في الإسلام؛ بدليل قوله: "من سنَّ سُنَّةً حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها إلى يوم القيامة
حدیث میں جو ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے تو اس سے مراد وہ ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو وہ گمراہی ہے (کیونکہ بدعت جس کی اصل ثابت ہو وہ گمراہی نہیں)کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ جس نے نیا اچھا طریقہ جاری کیا تو اسے اجر ملے گا اور عمل کرنے والوں کا اجر بھی ملے گا قیامت تک
(الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري4/331)
.
: شر الأمور محدثاتها: يعني: المحدثات التي ليس لها في الشريعة أصل يشهد لها بالصحة والجواز، وهي المسمّاة بالبدع؛ ولذلك حكم عليها بأن كل بدعة ضلالة. وحقيقة البدعة: ما ابتُدئ وافتُتح من غير أصل شرعي، وهي التي قال فيها - صلى الله عليه وسلم -: من أحدث في أمرنا ما ليس منه فهو ردّ
تمام نئے امور میں سے گندی چیز بدعت ہے... نئے امور جو برے ہیں ان سے مراد وہ ہیں کہ جن کی اصل شریعت میں ثابت نہ ہو اسی کو بدعت کہتے ہیں اور اسی لئے کہتے ہیں کہ ہر بدعت گمراہی ہے یہی بدعت کی حقیقت ہے حدیث پاک میں ہے کہ جو ہمارے دین میں نئی چیز پیدا کرے تو وہ مردود ہے تو اس سے مراد بھی یہی بدعت ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو
(القرطبی..المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم2/508)
.
، ومتى استند المحدث إلى أصل مشروع لم يذم...متى تكون البدعة حسنة؟فالبدعة الحسنة متفق على جواز فعلها والاستحباب لها رجاء الثواب لمن حسنت نيته فيها، وهي كل مبتدع موافق لقواعد الشريعة غير مخالف لشيء
ہر وہ نیا کام کہ جس کی اصل ثابت ہو تو اس کی مذمت نہیں ہے... بدعت کب حسنہ ہو جاتی ہے کہ اس پر عمل جائز ہو جائے اور ثواب کی امید ہو تو بظاہر جو بدعت ہو وہ اگر شرعی قواعد کے موافق ہو تو بدعت حسنہ ہے
(حقيقه السنة والبدعة للسيوطي ص92)
.
ما ليس له أصلٌ في الشرع، وإنما الحامل عليه مجرد الشهوة أو الإرادة، فهذا باطلٌ قطعًا، بخلاف محدَثٍ له أصلٌ في الشرع إما بحمل النظير على النظير، أو بغير ذلك؛ فإنه حسنٌ....فالحاصل: أن البدعة منقسمةٌ إلى الأحكام الخمسة؛ لأنها إذا عرضت على القواعد الشرعية. . لم تخل عن واحدٍ من تلك الأحكام
ہر وہ بدعت کہ جس کی شریعت میں اصل ثابت نہ ہو بلکہ اس پر عمل کرنے کے لیے خواہش نفس ہی ہو تو یہ قطعاً باطل بدعت ہے اور وہ نیا کام کہ جو بظاہر بدعت ہو لیکن اس کی شریعت میں اصل موجود ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے... الحاصل بدعت کی پانچ قسمیں ہیں کیونکہ بدعت کو قواعد شریعت پر پرکھا جائے گا تو پانچ قسمیں بنیں گی
(الفتح المبين بشرح الأربعين لابن حجر الہیثمی ص476)
.
وَمَا كَانَ مِنْ بِدْعَةٍ لَا تُخَالِفُ أَصْلَ الشَّرِيعَةِ وَالسُّنَّةِ فَتِلْكَ نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ
وہ بدعت کے جو شریعت کے اصولوں کے خلاف نہ ہو تو وہ کیا ہی اچھی بدعت ہے
(كتاب الاستذكار لابن عبد البر 2/67)
.
وَصَفَهَا بِنِعْمَتْ لِأَنَّ أَصْلَ مَا فَعَلَهُ سُنَّةً
جس کی اصل سنت سے ثابت ہو تو وہ کیا ہی اچھی بدعت ہے
(شرح الزرقاني على الموطأ1/418)
.
وَإِنْ لَمْ تُوجَدْ فِي الزمان الأول، فأصولها موجودة
بدعت حسنہ کے مروجہ طریقے کہ جو بظاہر پہلے کے زمانے میں نہ تھے لیکن اس کے اصول موجود تھے تو اس لیے یہ اچھی بدعت ہیں
(الاعتصام للشاطبي ت الشقير والحميد والصيني1/48)
.
، وإلا فقد عرفت أن من البدع ما هو واجب....، أو مندوب
ورنہ آپ جانتے ہیں کہ بدعت کی ایک قسم واجب بھی ہوتی ہے اور ایک قسم اچھی بھی ہوتی ہے
(عبدالحق محدث دہلوی، لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح1/507)
.
امام زین العرب فرماتے ہیں کہ حقیقتا شرعا بدعت اس کو کہتے ہیں کہ جو اصول دین کے قیاس سے ثابت نہ ہو، امام ھروی فرماتے ہیں کہ شرعا بدعت وہ ہے کہ جس کی قرآن اور سنت سے اصل ظاہر نہ ہو یا جسکی خفی اصل ثابت نہ ہو یا جسکی مستنبط اصل نہ ہو تو وہ شرعا بدعت ہے برائی ہے وگرنہ جسکی اصل ظاہر یا اصل خفی یا اصل مستنبط موجود ہو وہ بدعت حسنہ ہے
( بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشريعة نبوية في سيرة أحمدية1/87)
.
فكم من محدث حسن كما قيل في إقامة الجماعات في التراويح إنها من محدثات عمر رضي الله عنه وأنها بدعة حسنة إنما البدعة المذمومة ما يصادم السنة القديمة أو يكاد يفضي إلى تغييرها
کئ ایسے نئے امور ہوتے ہیں کہ جو بدعت حسنہ کہلاتے ہیں جیسے کہ تراویح کی (مستقل)جماعت کروانا یہ سیدنا عمر کی بدعات حسنہ میں سے ہے ... حقیقی بدعت تو وہ ہے یا بدعت مذمومہ تو وہ ہے کہ جو سنت قدیمہ کے خلاف ہو یا سنت کو تغیر کرنے والی ہو
(الغزالي ,إحياء علوم الدين ,1/276)
.
لَكِنْ قَدْ يَكُونُ بَعْضُهَا غَيْرَ مَكْرُوهٍ فَيُسَمَّى بِدْعَةً مُبَاحَةً وَهُوَ مَا شَهِدَ لِجِنْسِهِ أَصْلٌ فِي الشَّرْعِ
جو کام بظاہر بدعت ہو لیکن وہ مکروہ نہیں ہوتے تو اس کو بدعت مباحہ کہتے ہیں وہ وہ ہے کہ جس کی اصل شریعت میں ثابت ہو
(فقه حنفي البحر الرائق 3/258)
.
البدعة منقسمة إلى واجبة ومحرمة ومندوبة ومكروهة ومباحة, قال: والطريق في ذلك أن تعرض البدعة على قواعد الشريعة, فإن دخلت في قواعد الإيجاب .. فهي واجبة أو في قواعد التحريم .. فمحرمة, أو المندوب .. فمندوبة, أو المكروه .. فمكروهة, أو المباح .. فمباحة
بدعت کی درج ذیل قسمیں ہے واجب مکروہ حرام مستحب مباح.... اس کی صورت یہ ہے کہ بدعت کو شریعت کے قواعد پر پرکھا جائے گا اگر وہ واجب کے قواعد میں ہو تو بدعت واجبہ ہے اگر وہ حرام کے قواعد میں ہو تو بدعت حرام ہے اور اگر وہ مستحب کے زمرے میں آتی ہوں تو بدعت مستحب ہے اور اگر وہ مکروہ کے تحت آتی ہو تو مکروہ ھے ورنہ مباح ہے
(فقہ شافعی النجم الوهاج في شرح المنهاج10/323)
(فقہ حنفی رد المحتار,1/560 نحوہ)
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
naya whatsapp nmbr
03062524574