مرزا جہلمی اور شیعہ کا کفر؟... مختار ثقفی

  پلمبر مرزا...شیعہ...مختار ثقفی..........!!

مرزا جہلمی اور شیعوں کا ایک اور لزوم کفر........!!
.
مرزا کا موقف،خلاصہ:
پلمبر مرزا کہتا ہے کہ مختار ثقفی کے ہیچھے صحابی ابن عمر نماز پڑھا کرتے تھے، مختارثقفی شہید....اسکی مذمت و کذاب ہونے کے متعلق صحیح سند سے کوئی روایت نہیں،مسلم والی روایت میں مختار کا نام نہیں ترمذی والی روایت میں قیل کہا گیا یعنی سنی سنائی بات(یوٹیوب پے
mukhtar saqafi shiah mirza
 لکھ کر سرچ کریں گے تو وڈیو آجائے گی) 
.
شیعہ کا موقف,خلاصہ:
کچھ شیعہ کتب میں مختار کی مذمت ہے کچھ میں مدحت ہے لیکن محققین شیعہ نے کہا کہ مذمت والی روایت ضعیف ہیں لیھذا مختار ثقفی عظیم مسلمان مجاہد و شہید ہے
تدبروا أقوال الأئمة في مدح المختار لعلموا أنه من  السابقين المجاهدين الذين مدحهم الله تعالى جل جلاله في كتابه المبين،(معجم رجال الحدیث19/106)
.
جواب:
مختار ثقفی کا کذاب ہونا اور دعوی کرنا کہ جبرائیل اس کے پاس وحی لاتا ہے...یہ دونوں باتیں متواتر ہیں، کتب تاریخ کتب اسلاف اہل سنت اس سے بھری پڑی ہیں اور متواتر قطعی چیز پوتی ہے...مرزا کا مختار کی تعریف کرنا، شہید کہنا پھر قطعیت کے ساتھ شہید نہ کہنا متذبذب ہونا دراصل ایک طرح سے جہالتا یا منافقتا تواتر و قطعیت کا انکار و لزوم کفر ہے
.
وقد تواتر خبر المختار بن أبي عبيد الكذاب
الذي كان نائبا على العراق وكان يزعم أنه نبي، وأن جبريل كان يأتيه بالوحي، وقد قيل لابن عمر وكان زوج أخت المختار وصفيه، إن المختار يزعم أن الوحي يأتيه. قال: صدق، قال الله تعالى: وإن الشياطين ليوحون إلى أوليائهم
ترجمہ:
اور مختار کا معاملہ تواتر سے ثابت ہے کہ وہ کذاب تھا عراق میں ائب تھا اور خود کو نبی سمجھتا تھا، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیاکہ مختار کہتا ہے اس کے پاس وحی آتی ہے سیدنا ابن عمر نے فرمایا ہاں اس کے پاس شیطان کی وحی آتی ہے قرآن میں ہے کہ شیطان اپنے شیطان دوستوں کی طرف وحی کرتا ہے
(بدایہ نہایہ6/237)
یہاں یہ بات بھی ثابت ہوگئ کہ سیدنا ابن عمر مختار ثقفی کو شیطان کذاب سمجھتے تھے انکے پیچھے کیسے نماز پڑھتے ہونگے....ہرگز نہیں پڑھتے ہونگے، مرزا جہلمی نے جو کہا کہ سنن کبری مین ہے کہ سیدنا ابن عمر مختار کے پیچھے نماز پڑھتے تھے، بہت تلاش کے باوجود مجھے سنن کبری میں ایسا کچھ نیہیں ملا بلکہ الٹا کتب تاریخ لکھا ہے کہ سیدنا ابن عمر مختار ثقفی کو شیطان کذاب جھوٹی وحی کا مدعی سمجھتے تھے....لیھذا مختار کے پیچھے نماز پڑھنےکی بات مرزا جہلمی کا جھوٹ ہے یا پھر ممکن  ہے جب شروع میں مختار صحیح ہو اس وقت اسکے پیچھے نماز پٍڑھتے ہوں اور جب اسکے کرتوت دعوی وحی سامنے آیا تو ترک کر دیا ہو اور خوب مذمت کی.....!! 
.
شرح النووی میں اس طرح ذکر کیا گیا ہے:" وقولها في الكذاب فرأيناه تعني به المحتار بن أبي عبيد الثقفي كان شديد الكذب ومن أقبحه ادعى أن جبريل صلى الله عليه وسلم يأتيه واتفق العلماء على أن المراد بالكذاب هنا المختار
ترجمہ:
مختار بن ابو عبید ثقفی بہت جھوٹا تھااور اس کا سب سےبڑا جھوٹ یہ تھا کہ اس نےدعویٰ کیا کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آتےہیں ۔اور علمائےکرام کا اس بات پر #اتفاق ہےکہ کذّاب سےمراد مختار ثقفی ہے
(شرح صحیح مسلم  للنووی :باب ذکر کذاب ثقیف )
.

عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم  في ثقيف كذاب ومبير : يقال : الكذاب المختار
ترجمہ:
سیدنا ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم نے(اللہ کے عطاء کر علم غیب سے غیب کی خبر دی)ارشاد فرمایا کہ قبیلہ ثقیف میں ایک کذاب ہوگا اور ایک خون ریزی کرنے والا، کہا جاتا ہے کہ کذاب سے مراد مختار ثقفی ہے
(ترمزی حدیث2220)
مرزا جہلمی نے جھوٹ بولا کہ ترمذی میں قیل ہے جبک ترمذی میں یقال ہے....اہل علم جانتے ہیں کہ قیل اکثر ضعف کے لیے اتا ہے مگر یقال اکثر ضعف کے بیان کے لیے نہیں آتا بلکہ مشھور و متواتر کے بیان کے لیے بھی اتا ہے....یہاں یقال بیان مشھور و متواتر کے لیے ہے کیونکہ اسلاف و مورخین کا اجماع و اتفاق و تواتر ہے کہ مختار کذاب تھا
.
جب مورخین نے کہہ دیا کہ مختار کا کذاب ہوتا متواتر و متفق علیہ ہے تو اب سند کی حاجت نہ تھی لیکن پھر بھی ہم مختار کے کذاب مدعی نبوت ہونے پے کچھ روایات باسند نقل کر رہے ہیں تاکہ اتمام حجت ہو، اطمینان قلب ہو
.
①قال يعقوب بن سفيان: ثنا أبو بكر الحميدي، ثنا سفيان بن عيينة عن مجالد عن الشعبي، قال: فأخرت أهل البصرة فغلبتهم بأهل الكوفة، والأحنف ساكت لا يتكلم، فلما رآني غلبتهم أرسل غلاما له فجاء بكتاب فقال: هاك اقرأ: فقرأته فإذا فيه: من المختار لله يذكر أنه نبي،
احنف
فرماتے ہیں کہ اس کے پاس مختار کا خط تھا جس میں لکھا تھا کہ خدا کی قسم وہ(مختار ثقفی) نبی ہے
(بدایہ نہایہ6/237)
یہ روایت صحیح ہے
.
پہلا راوی يعقوب بن سفيان:ثقہ امام محدث
الإمام ، الحافظ ، الحجة ، الرحال ، محدث(سیر اعلام13/181)
.
دوسرا راوی أبو بكر الحميدي:امام اجل ثقہ
عبد الله ابن الزبير ابن عيسى القرشي الأسدي الحميدي المكي أبو بكر ثقة حافظ فقيه أجل أصحاب ابن عيينة من العاشرة مات بمكة سنة تسع عشرة وقيل بعدها قال الحاكم كان البخاري إذا وجد الحديث عند الحميدي لا يعدوه إلى غيره
(تقریب التھذیب رقم3320)
.
تیسرا راوی سفیان بن عیینہ ثقہ حافظ حجہ
سفيان ابن عيينة ابن أبي عمران ميمون الهلالي أبو محمد الكوفي ثم المكي ثقة حافظ فقيه إمام حجة..(تقریب التھذیب2451)
.
چوتھا راوی شعبی:امام علامۃ العصر ثقہ حافظ
الشعبي...عامر بن شراحيل بن عبد بن ذي كبار -وذو كبار : قيل من أقيال اليمن  - الإمام ،  علامة العصر ، أبو عمرو الهمداني ثم الشعبي(سیر اعلام النبلاء4/295)
.
②أخبرنا سليمان أبو داود الطيالسي قال: أخبرنا شعبة عن أبي حصين قال:أوصى عبيدة السلماني أن يصلي عليه الأسود بن يزيد. فقال الأسود: اعجلوا به قبل أن يجيءالكذاب يعني المختار
مختار ثقفی کذاب کہا گیا ہے
(طبقات کبری 6/154)
یہ روایت بھی صحیح ہے
.
پہلاراوی ابوداود طیالسی:حافظ امام ثقہ جبل علم
: ما رأيت أحفظ من أبي داود الطيالسي
(سیر اعلام9/379)

دوسرا راوی شعبہ بہت بڑا امام حافظ ثقہ
أول مَن تكلم في الرجال: شُعْبة بن الحَجَّاج، ثم تبعه يحيى بن سعيد القطان، ثم تبعه أحمد بن حنبل ويحيى بن معين؛ (تهذيب الكمال للمزي جـ 12 صـ 495).
.
تیسرا راوی ابو حصین بھی ثقہ
قال ابن معين والنسائي وجماعة : أبو حصين ثقة(سیر اعلام النبلاء5/413)

③حدثنا محمود بن محمد الواسطي، نا زكريا بن يحيى زحمويه، نا ثابت أبو حمزة، ثنا كثير النواء، عن رفاعة الفتياني قال: دخلت علىالمختار، فلما أن أردت أن أخرج قال: يا أبا عمر ألا تعيننا على هذا الكرسي، فإنه قام عنه جبريل آنفا، قلت: بلى، أعينك على أن تحرقه وتنسفه في اليم نسفا، قال رفاعة: فأهويت بيدي إلى قائم سيفي، فقلت: في نفسي ألا أقتل هذا الكذاب، حتى ذكرت كلمة أخي عمرو بن الحمق أنه، سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: «من ائتمن رجلا على دمه فقتله فأنا من القاتل بريء، وإن كان المقتول كافرا»
اس
روایت میں مختار کو کذاب کافر(مرتد) کہا گیا ہے اور راوی کہتا ہے کہ مختار نے کہا کہ ابھی ابھی جبرائیل وحی لایا ہے
(طبرانی اوسط رویت7781)
اس روایت کو اصل وتفرد کے اعتبار سے ضعف تھا مگر تعدد طرق کی وجہ سے یہ حسن و صحیح روایت بن گئ ہے


پہلا راوری:ثقہ حافظ عالم
محمود بن محمد بن منويه 
الحافظ المفيد العالم أبو عبد الله الواسطي(سیر اعلام نبلا14/242)
.
دوسرا راوی ثقہ متقن
زَكَرِيَّا بن يحيى بن صبيح زحمويه من أهل وَاسِط يروي عَن هشيم وخَالِد ثَنَا عَنهُ شُيُوخنَا الْحسن بن سُفْيَان وَغَيره وَكَانَ من المتقنين فِي الرِّوَايَات مَاتَ سنة خمس وَثَلَاثِينَ وَمِائَتَيْنِ
(الثقات لابن حبان)

تیسرا راوی:ثاب ابوحمزہ
منفرد ہو تو ضعیف ورنہ مقبول اور اس روایت میں منفرد نہیں لیھذا مقبول
خرج عن حد الاحتجاج به إذا انفرد
(المجروحین2/206)
.
چوتھا راوی کثیرالنواء:منفردات میں ضعیف مگر متابع میں مقبول....یہاں اسکا متابع موجود
كثير بن إسماعيل النواء لا بأس به.
(الثقات للعجلي2/224)
.
پانچواں راوی:رفاعة الفتياني:ثقہ ہے
رفاعة الفتناني، فقد روى له النسائي وابن ماجة، هو ثقۃ
(حاشیہ ابن حبان13/320)
.
④حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: ثنا أَبُو الْمُنْذِرِ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: ثنا عِيسَى بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: إِنَّ عَلِيَّ بْنَ حُسَيْنٍ قَامَ عِنْدَ بَابِ الْكَعْبَةِ يَلْعَنُ الْمُخْتَارَ بْنَ أَبِي عُبَيْدٍ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا أَبَا الْحَسَنِ لِمَ تَسُبَّهُ وَإِنَّمَا ذُبِحَ فِيكُمْ؟ فَقَالَ: " إِنَّهُ كَذَّابٌ عَلَى اللهِ تَعَالَى وَعَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "
سیدنا امام محمد بن علی الباقر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا علی ابن الحسین(زین العابدین علیہ الرحمہ کعبہ کے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر مختار ثقفی پر لعنت کر رہے تھے تو آپ ( علیہ الرحمہ) سے ایک شخص نے کہا : اے ابوالحسن ( امام زین العابدین علیہ الرحمہ) آپ کیوں اس پر سب کرتے ہیں جب کہ وہ آپ لوگوں کے لیے ہی تو ذبح ( قتل) ہوا ہے؟
تو اس پر آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا: بے شک وہ(مختار ثقفی) اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر بہت زیادہ جھوٹ بولتا تھا۔
(أخبار مكة1/232)
رضا عسقلانی بھائی اس روایت کی تحقیق میں لکھتے ہیں
اس روایت کی سند حسن صحیح ہے۔
اس روایت کی سند کی تحقیق مندرجہ ذیل ہے:
-1اس روایت کی سند کا پہلا راوی امام عبداللہ بن محمد بن عباس المکی الفاکہی ہے جن کے بارے میں امام ذہبی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
الإِمَامُ، أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللهِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ العَبَّاسِ المكِّيُّ، الفَاكِهِيُّ.
] سیر اعلام النبلاء ج16 ص 44 رقم 29[
امام ذہبی علیہ الرحمہ کے نزدیک لفظ "امام" اعلی درجہ کی توثیق میں سے ہے۔ ملاحظہ ہو]الموقظۃ للذہبی ص 76[
-2اس سند میں دوسرا راوی یحیی بن ابی طالب جعفر بن الزبرقان ہے جن کی توثیق مندرجہ ذیل ہے:
وقال ابن أبي حاتِم: كتبتُ عَنْهُ مَعَ أبي، وسألتُ أبي عَنْهُ، فقال: محله الصدق
]تاریخ بغداد ج 16 ص 323 رقم 7464[
وَقَالَ البَرْقَانِيّ: أَمرنِي الدَّارَقُطْنِيّ أَنْ أُخَرِّجَ لِيَحْيَى بنِ أَبِي طَالِبٍ فِي الصَّحِيْحِ.
]سیر اعلام النبلاء ج 12 ص 620 رقم 242[
وثقه الدارقطني
]لسان المیزان ج 8 ص 452 رقم 8475[
قال الدارقطني: لم يطعن فيه أحد بحجة، وَلا بأس به عندي
]تاریخ بغداد ج 16 ص 323 رقم 7464[
وقال مسلمة بن قاسم: ليس به بأس تكلم الناس فيه.
]لسان المیزان ج 8 ص 452 رقم 8475[
اس راوی پر ایک جرح ہے جس کی نوعیت بھی امام ذہبی علیہ الرحمہ نے بتا دی ہے امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
وقال موسى بن هارون: أشهد أنه يكذب. عني في كلامه ولم يعن في الحديث , فالله أعلم , والدارقطني فمن أخبر الناس به.
اور موسی بن ہارون نے کہا: میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ یہ جھوٹ بولتا ہے ، (اس کے بعد امام ذہبی کلام کرتے ہیں ) اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی گفتگو میں جھوٹ بولتا ہے ، اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ حدیث بیان کرتے وقت جھوٹ بولتا ہے ، باقی اللہ بہتر جانتا ہے ۔ اور امام دارقطنی علیہ الرحمہ تو اس کے بارے میں سب سے زیادہ واقف تھے۔
]میزان الاعتدال ج 4 ص 387 رقم 9547[
امام دارقطنی علیہ الرحمہ نے توثیق کر دی ہے لہذا اب توثیق ہی راجح ہے۔ واللہ اعلم
اس کے علاوہ الکنیٰ والاسماء للدولابی ]ج 2 ص 464 رقم الحدیث 835)[میں اسی روایت میں اس راوی کی متابعت ثقہ راوی ابوالحسن علی بن معبد بن نوح البغدادی نے کر رکھی ہے اور حافظ دولابی حنفی بھی صدوق اور حسن الحدیث ہے ان پر جو جرحیں ہیں وہ ساری مبہم اور تعصب پر مبنی ہیں۔ 
(واللہ اعلم(
-3اس روایت کے تیسرے راوی ابوالمنذر اسماعیل بن عمر الواسطی ہیں جو صحیح مسلم کے راوی بھی ہیں جن کے بارے میں خطیب بغدادی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
وكان ثقة
]تاریخ بغداد ج 6 ص 241 رقم 3279[
امام یحیی بن معین فرماتے ہیں:
من تجار أهل واسط، ليس به بأس، وهو إسماعيل بن عمر
]تاریخ بغداد ج 6 ص 241 رقم 3279[
-4اس روایت کی سند میں چوتھے راوی عیسیٰ بن دینار الخزاعی ہے جس کی توثیق مندرجہ ذیل ہے
امام یحیی بن معین فرماتے ہیں:
ليس به بأس
]سوالات ابن الجنید ص 427 رقم 640[
عيسى بن دينار ثقة
]الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج 6 ص 275 رقم 1527[
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
عِيسَى بْن دِينَار لَيْسَ بِهِ بَأْس
]العلل و معرفۃ الرجال ج 2 ص 339 رقم 2508[
امام ابوحاتم الرازی فرماتے ہیں:
عيسى بن دينار فقال صدوق عزيز الحديث
]الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج 6 ص 275 رقم 1527[
اس روایت میں پانچویں راوی امام محمد بن علی بن الحسین الباقر علیہ الرحمہ ہیں ویسے یہ بزرگ ہستی توثیق کی محتاج نہیں پھر بھی امام ذہبی سے آپ کی ادنیٰ سی توثیق پیش کر دیتا ہوں۔
امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
هُوَ السَّيِّدُ، الإِمَامُ، أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بنُ عَلِيِّ بنِ الحُسَيْنِ بنِ عَلِيٍّ العَلَوِيُّ، الفَاطِمِيُّ، المَدَنِيُّ، وَلَدُ زَيْنِ العَابِدِيْنَ.
] سیر اعلام النبلاء ج 4 ص 401 رقم 158[
امام دارقطنی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: 
وَأَبُو جَعْفَرٍ وَإِنْ كَانَ مِنَ الثِّقَاتِ
]سنن الدارقطنی ج 5 ص 243 رقم الحدیث 4260[
اس روایت کی سند میں سب سے آخری راوی اور بزرگ ہستی حضرت امام علی بن الحسین بن علی زین العابدین علیہ الرحمہ کی ہے ویسے یہ بزرگ ہستی بھی توثیق کی محتاج نہیں پھر بھی ادنی سی توثیق پیش کر دیتا ہوں۔
امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
وَكَانَ عَلِيُّ بنُ الحُسَيْنِ ثِقَةً، مَأْمُوْناً، كَثِيْرَ الحَدِيْثِ، عَالِياً، رَفِيْعاً، وَرِعاً.
]سیر اعلام النبلاء ج 4 ص 387 رقم 157[
رواۃ کی تحقیق سے واضح ہو گیا کہ اس روایت کی سند حسن صحیح ہے۔
.

کسی معتبر عالم نے ان روایات کو ضعیف کہا ہو میرے علم میں نہیں بلکہ انکا صحیح ہونا ہم نے ثابت کیا... اگر بالفرض ضعیف مان بھی لیں تو بھی تعدد طرق سے حسن و صحیح قابل حجت بن جاتی ہے اور اجماع و تواتر واتفاق علماء کی وجہ سے تقویت مزید ملتی ہے بلکہ مختار کا کذاب و مدعی وحی معاملہ اور اسکا کفر و مرتد ہونا صحیح و متواتر متفق علیہ ہے کہ جسکا انکار بالتاویل ہو تو لزوم کفر اور اگر انکار منافقتا ہو تو زندیقیت اور اگر انکار ویسے ہی ہو تو کفر(نعوذ باللہ من ذالک)......واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلم
.
حضرتِ امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب "تاریخ الخلفاء"میں تحریر فرمایا:"وفي أيام ابن الزبير كان خروج المختار الكذاب الذي ادعى النبوة فجهز ابن الزبير لقتاله إلى أن ظفر به في سنة سبع وستين وقتله لعنه الله"۔
یعنی حضرتِ ابنِ زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےزمانہ حیات میں ہی مختار ثقفی نےخروج کیا تھا ،جس نے نبی ہونےکا دعویٰ بھی کیا تھا تو حضرتِ ابنِ زبیر نےاسےقتل کرنےکےلیے  لشکر تیار کیا جو کہ سڑسٹھ (67)ہجری اسے قتل کرنےکامیاب ہوا۔اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہو۔ (تاریخ الخلفاء:عبد اللہ بن زبیر،ص252)
.
مختار ثقفی نے قاتلان حسین کو چن چن کر قتل کیا یہ تو محب اہلبیت تھا کافر کیسے ہو سکتا
جواب:
جن کو مارا ان میں سے کون واقعی شہادت حسین میں ملوث تھا اور کون نہیں....عین ممکن اس نے کچھ مجرموں کو قتل کیا ہو اور کئ ناحق قتل بھی کیے ہوں.....اگر سب برحق قتل کیے تو بھی یہ مسلمان ہونے کے لیے کافی نہہیں...اللہ تو فاجر سے بھی دین کی خدمت لے لیتا ہے
الحدیث،ترجمہ:
اللہ تو فاجر(گمراہ.بدمذھب.منافق،مرتد،زندیق)سے بھی اس دین اسلام کی تائید اور کام لیتا ھے(بخاری حدیث 3062)
.
دوستو بھائیو ساتھ دیجیے…فتنہ مرزا جہلمی کےرد پے پوسٹوں کو لائک کیجیے،شئیر کیجیے،سوالیہ، تعمیری تنقیدی، تحقیقی، تائیدی باطل کی مذمتی وغیرہ کمنٹ کیجیے
تاکہ
حق سچ وائرل ہو،زیادہ پھیلے،لوگ فتنہ کفر گمراہیت سے اگاہ ہوں اور اپنا ایمان و عقیدہ محفوظ و مضبوط بناءے رکھیں...جزاکم اللہ خیرا
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
facebook,whatsApp nmbr
03468392475

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.