مولود کعبہ کون اور چمن زمان کی بے باکی خیانت

 *#مولود کعبہ اور چمن زمان کی بےباکیاں خیانتیں..........!!*

 چمن زمان صاحب کو محقق کس نے کن دلائل کی بنیاد پر کہہ دیا.....؟؟ یہ تو عالم کہلانے کے بھی لائق نہیں ظالم ہیں ظالم بے باک مکار خائن.......علماء تو سچے ہوتے ہیں خوف خدا والے ہوتے ہیں..القران:
اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ  الۡعُلَمٰٓؤُا
 علماء تو وہی ہیں کہ جو اللہ کا خوف رکھتے ہیں
(سورہ فاطر آیت28)
.
چمن زمان صاحب لکھتے ہیں:
مولائے کائنات کا مولودِ کعبہ ہونا آپ کے عظیم مناقب سے ہے ، لیکن یہ بات اپنی جگہ ہے کہ مبغضین کو جیسے مولائے کائنات کے دیگر مناقب ہضم نہیں ہوتے یونہی یہ منقبت بھی برداشت نہیں ہوتی۔ بہانے بہانے سے اس کے انکار کی کوشش کی جاتی ہے....(انتھی)
.
میرا تبصرہ:
 مولائے کائنات سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو مولود کعبہ نہ کہنے والوں کو آپ نے مبغض یعنی  اہلبیت سے بغض رکھنے والا قرار دے دیا...اب چند حوالے علماء اہل سنت کے پیش ہیں کہ جنہوں نے سیدنا مولا کائنات کو مولود کعبہ تسلیم نہیں کیا.... کیا آپ کی نظر میں یہ سب بھی بغض اہل بیت میں مبتلا تھے؟ ناصبی تھے؟ خارج از اہلسنت تھے......؟؟
.
علامہ سیوطی:
- ثُمَّ حَكِيمٌ مُفْرَدٌ بَأَنْ وُلِدْ ... بِكَعْبَةٍ وَمَا لِغَيْرِهِ عُهِدْ
 امام سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ سیدنا صحابی حکیم بن حزام واحد آدمی ہیں جو کعبہ میں پیدا ہوئے دوسروں کے لئے ثابت نہیں
(ألفية السيوطي في علم الحديث ت الفحل ص144)
.
علامہ خفاجی:
حکیم بن حزام ولد داخل الکعبۃ ولم یولد فیھا احد غیرہ
 علامہ خفاجی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حکیم بن حزام کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اس کے علاوہ کوئی بھی کعبہ کے اندر پیدا نہیں ہوا
(نسیم الریاض شرح شفا1/509)

.
علامہ سیوطی اور علامہ ابن حجر
: قَالَ الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ: كَانَ مَوْلِدُ حَكِيمٍ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ.
قَالَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ: وَلَا يُعْرَفُ ذَلِكَ لِغَيْرِهِ
 علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ زبیر بن بکار نے فرمایا ہے کہ حکیم بن حزام  کعبہ میں پیدا ہوئے اور شیخ الاسلام ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس کے علاوہ کسی کے لئے ثابت نہیں ہے کعبہ میں پیدا ہونا
( تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي2/880)
.
امام نووی اور بعض حافظ الحدیث علماء:
حكيم بن حزام كان مولده في جوف الكعبة، قال بعض الحفاظ: لم يشاركه في هذا أحد
 علامہ نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حکیم بن حزام کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اور بعض حفاظ الحدیث فرماتے ہیں کہ اس فضیلت میں آپ کا کوئی بھی شریک نہیں ہے
(إرشاد طلاب الحقائق إلى معرفة سنن خير الخلائق صلى الله عليه وسلم2/775)
.
حاجی خلیفہ اور علامہ ابن عساکر:
قَالَ ولد عَلِيّ بِمَكَّة فِي شعب بَنِي هَاشم
 سیدنا علی مکہ میں شعب بنی ہاشم میں پیدا ہوئے تھے(کعبہ میں پیدا نہ ہوئے)
(تاریخ خليفة بن خياط ص199)
(تاريخ دمشق لابن عساكر42/575)
.
 دیگر کئ علماء نے بھی صراحتا دلالۃً نفی کی ہے تفصیل کے لیے دیکھیے قاری لقمان صاحب کی کتاب "مولود کعبہ کون".... چمن زمان صاحب بتائے کہ ان جیسے محدث خوف خدا رکھنے والے معتدل علماء بھی بغض اہل بیت میں مبتلا تھے......؟؟ یقینا نہیں بلکہ آپ بغض اہلسنت میں مبتلا لگتے ہیں،کم سے کم گمراہ بے باک تو ضرور ہوگئے ہیں...رافضیوں نیم رافضیوں سے اور ان کے حمایتی لوگوں سے داد و امداد وصول کرنے کے متلاشی لگتے ہیں
.
*چمن زمان کی خیانت بظاہر بغض ِ صحابہ......؟؟*
 چمن زمان لکھتے ہیں
مؤرخِ شہیر ابو عبد اللہ محمد بن اسحاق فاکہی متوفی 275ھ اخبارِ مکہ میں رقمطراز ہیں:
وَأَوَّلُ مَنْ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ: عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ
مہاجرین میں سے بنو ہاشم کی پہلی وہ شخصیت جن کی ولادت کعبۃ اللہ میں ہوئی وہ مولا علی کی ذاتِ والا ہیں۔
(اخبار مکہ 3/198)
.
میرا تبصرہ:
دیکھا جائے تو آپ نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مولود کعبہ ہونے پر جو یہ دلیل دی اس میں خیانت کرتے ہوئے صحابی سیدنا حکیم بن حزام کا ذکر حذف کیا تو یہ آپ کی بغض صحابہ کی نشانی نہیں کہلائے گی آپ کے اصول کے مطابق......؟؟
.
علامہ فاکہی نے اسی روایت میں سیدنا حکیم بن حزام کو بھی مولود کعبہ لکھا ہے...یہ لیجیے ان کے الفاظ
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي يُوسُفَ، قَالَ: ثنا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَقُولُ: " سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ....وَأَوَّلُ مَنْ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ: حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ.... وَأَوَّلُ مَنْ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ: عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ
 سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جو کعبہ میں پیدا ہوا وہ حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور بنو ہاشم میں سے جو سب سے پہلے کعبہ میں پیدا ہوا وہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں
(أخبار مكة للفاكهي ,3/198روایت2018ملتقطا)
.
چمن زمان صاحب نے لکھا:
مبغضین کو اس جملے میں مولائے کائنات کی مدح نظر نہ آتی تو حاکم نیشاپوری کا حوالہ دے دے کر لوگوں کو پاگل کر دیتے۔۔۔!!! آپ آزما لیں ، کوئی سا جملہ جو مبغضین کے مقاصد کی تکمیل میں ممد ومعاون ہو اور وہ جملہ ضروری نہیں کہ کسی اہل سے صادر ہوا ہو ، کسی غیر معروف اور غیر معتبر شخص نے کچھ بھی کہہ دیا تو مبغضینِ مولائے کائنات اسے آسمان پہ چڑھا لیتے ہیں ، لیکن اس کے بر عکس ایک ذمہ دار محدث مولائے کائنات کی جوفِ کعبہ میں ولادت کی روایات کو تواتر کا عنوان دے رہا ہے ، لیکن ظلم کی انتہاء ہے کہ مبغضین اس بات کا بابِ مناقب میں بھی اعتبار نہیں کرنا چاہتے...)انتھی)
.
میرا تبصرہ:
 علماء کہ جنہیں آپ مبغضین کہہ رہے ہیں ان کا وطیرہ رہا ہے کہ انہوں نے امام حاکم کی کئ باتوں کو نہ مانا....جنہیں آپ مبغض کہہ رہے انکا انداز تو یہ نہیں کہ غیر معروف غیر معتبر ذرائع سے روایات لی ہوں
ہاں
 آپ کے کلام پر ہماری تحقیقات تنقیدات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ میں یہ عادت موجود ہے کہ آپ کو جہاں سے جو کچھ ملتا ہے جیسا ملتا ہے لکھ ڈالتے ہیں ، استدلال کر ڈالتے ہیں ، معتبر کہہ ڈالتے ہیں... غیر معروف اور غیر معتبر روایات لینا تو آپ کی عادت ہے.... شاید آپ امام حاکم کو معتبر ذمہ دار محدث کہہ رہے ہیں حالانکہ معتبر علماء کرام نے امام حاکم پر تساہل اور تشیع کی جرح کی ہے اور اسے غیر معتبر غیر ذمہ دار قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ ان کی کتاب سے آنکھ بند کرکے کچھ نہ لیا جائے بلکہ اس کی روایات کی تحقیق کی جائے... ہم چند حوالہ جات پیش کر رہے ہیں تاکہ قارئین کو معلوم ہو کہ سچ کون بول رہا اور مکاری خیانت بےباکی کون کر رہا ہے
.
علامہ سیوطی فرماتے ہیں:
الحكم بتصحيح ما ليس بصحيح، فكان الأولى ترك باب النظر والنقد مفتوحًا ليُحكم على كل حديث بما يليق به
 امام حاکم اس چیز کو صحیح کہہ دیتے ہیں جو صحیح نہیں ہوتی تو بہتر یہی ہے کہ غور و فکر نقد و جرح کا دروازہ کھلا رہے اور امام حاکم کی روایت پر صحیح حسن ضعیف موضوع جو بھی مناسب حکم ہو وہ لگایا جائے
(البحر الذي زخر في شرح ألفية الأثر 2/782)
.
علامہ نووی فرماتے ہیں
وهو متساهل
 امام حاکم کسی روایت کو صحیح کرنے میں بہت سست و نرم آدمی ہیں( حدیث کو ، روایت کو صحیح قرار دینے کے لیے کڑی شرائط علماء رکھتے ہیں لیکن امام حاکم کڑی شرائط نہیں رکھتے اس وجہ سے وہ اس حدیث  و روایت کو بھی صحیح کہہ دیتے ہیں جو صحیح نہیں ہوتی)
(التقريب والتيسير للنووي ,page 26)
.
، وهو متساهل في التصحيح، فينبغي أن يتتبع ويحكم على أحاديثه بما يليق بحالها، ولقد تتبعه الذهبي وحكم على أكثر أحاديثه بما يليق بحالها
 امام حاکم کسی حدیث کو صحیح کر قرار دینے میں نرم ہیں ضروری ہے کہ امام حاکم کی بیان کردہ احادیث اور روایات کا تتبع تخریج کیا جائے اور اس پر وہ حکم لگایا جائے جو اس کے لائق ہے... علامہ ذہبی نے تتبع کیا ہے اور ان کی اکثر احادیث پر حکم لگایا ہے جو اس کے لائق ہے
( تيسير مصطلح الحديث ص50)
.
علامہ بدر الدین اور حافظ عراقی کا نظریہ
ونَقلَ الحَافِظُ "العِراقِيُّ" عن "بَدرِ الدِّينِ بنِ جَماعَةَ" قَالَ: "يُتَتَبَّعُ ويُحكَمُ عَلَيهِ بِما يَلِيقُ بِحالِهِ، من الحُسْنِ أو الصِّحَّةِ أو الضَّعْفِ". وهَذا هُو الصَّوابُ
 حافظ عراقی نے نقل کیا ہے بدر الدین سے کہ امام حاکم کی بیان کردہ احادیث اور روایات کا تتبع چھان بین کیا جائے اور اس پر وہ حکم لگایا جائے جو اس کے موافق ہو یعنی حسن صحیح ہونے کا یا ضعیف ہونے کا حکم لگایا جائے اور یہی مذہب صحیح ہے
(الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث ص91)
.
علامہ ابن حجر اور علامہ ذہبی فرماتے ہیں:
يصحح في مستدركه أحاديث ساقطة، ويكثر من ذلك، فما أدرى هل خفيت عليه فما هو ممن يجهل ذلك، وإن علم فهذه خيانة عظيمة، ثم هو شيعي مشهور
 امام حاکم مستدرک میں ساقط احادیث کو صحیح قرار دیتے ہیں اور یہ ان سے بہت ہوا اور میں نہیں جانتا کہ یہ اس پر مخفی ہوا یا پھر اس نے جان بوجھ کر کیا... اگر ان کو علم تھا کہ یہ حدیث روایت صحیح نہیں ہے پھر بھی صحیح قرار دے دیا تو یہ بہت بڑی خیانت ہوگی اور پھر وہ(امام حاکم) مشہور ہیں شیعہ ہونے میں
(ميزان الاعتدال3/608)
(لسان الميزان5/233)
.
چمن زمان صاحب لکھتے ہیں:
آپ ﷺ نے سیدنا ابو طالب سے کہا:
ما شأنك يا عم؟چچا جان! کیا پریشانی ہے؟سیدنا ابو طالب نے فرمایا: إن فاطمة بنت أسد تشتكي المخاض فاطمہ بنت اسد زچگی کی تکلیف میں ہیں۔آپ ﷺ نے جنابِ ابو طالب کا ہاتھ تھاما اور سیدہ فاطمہ بنت اسد کو لے کر کعبہ مشرفہ کی جانب آئے اور سیدہ فاطمہ بنت اسد کو کعبۂ مشرفہ کے اندر بٹھا دیا۔پھر فرمایا:اجلسي على اسم الله اللہ کا نام لے کر بیٹھ جائیں۔فطلقت طلقة فولدت غلاماً مسروراً، نظيفاً، منظفاً لم أر كحسن وجههسیدہ فاطمہ بنت اسد کو زچگی کا ایک جھٹکا محسوس ہوا اور اس کے ساتھ ہی ناف بریدہ ، صاف ستھرا ، ایسا خوبصورت بچہ پیدا ہوا کہ کسی نظر نے ایسا خوبصورت بچہ نہ دیکھا۔حضرت سیدنا ابو طالب نے بچے کا نام "علی" رکھا اور اللہ کے نبی ﷺ انہیں اپنی گود میں اٹھا کر سیدہ فاطمہ بنت اسد کے گھر تک لائے۔
(مناقب علی لابن المغازلی حدیث 3 ، الفصول المہمۃ فی معرفۃ الائمۃ 1/172)
.
میرا تبصرہ:
پہلی بات:کھل کے بات کرو...سیدنا ابوطالب لکھ رہے ہو کیا تم ایمان ابی طالب کے قائل ہو یا عدم ایمان کے؟
.
دوسری بات:
اس روایت میں واضح لکھا ہے کہ ولادت علی کے وقت ابوطالب موجود تھے جبکہ کثیر سنی شیعہ مورخین و شارحین نے لکھا ہے کہ ولات علی کے وقت ابوطالب موجود ہی نہ تھے لیھذا یہ بات دلالت کرتی ہے کہ مذکورہ روایت من گھڑت ہے
.
 أنَّ أُمَّ على كانت فاطمة بنت أسد فلما ولدت علياً وأبو طالب غائب
 سیدہ فاطمہ بنت اسد نے جب سیدنا علی کو پیدا کیا تو ابوطالب حاضر نہ تھے،وہاں موجود نہ تھے
(مناقب علي ابن المغازلي ص154)

أبو طالب غائب
 ولادت علی کے وقت ابو طالب وہاں موجود نہ تھے
(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي - ج ٣٩ - الصفحة ١٥)
.
ذكروا أن علي بن أبي طالب ولد وأبو طالب غائب
 علماء نے ذکر کیا ہے کہ سیدنا علی کی ولادت ہوئی اور ابو طالب وہاں موجود نہ تھے
(شیعہ کتاب موسوعة شهادة المعصومين لجنة الحديث في معهد باقر العلوم-1/259)
.

: ولد عليٌّ وأبو طالب غائب
 سیدنا علی پیدا ہوئے اور ابو طالب  وہاں موجود نہ تھے
(كشف اللثام شرح عمدة الأحكام1/291)

.
أَن أم عَليّ فَاطِمَة بنت أَسد ولدت عليا وَأَبُو طَالب غَائِب
 سیدنا علی کی والدہ فاطمہ بنت اسد نے سیدنا علی کو پیدا کیا تو اس وقت ابو طالب وہاں موجود نہ تھے
( خزانة الأدب ولب لباب لسان العرب للبغدادي6/64)
.
ذَكَرُوا أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وُلِدَ وَأَبُو طَالِبٍ غَائِبٌ
 علماء نے ذکر کیا ہے کہ سیدنا علی جب پیدا ہوئے تو ابو طالب وہاں موجود نہ تھے
( المجالسة وجواهر العلم3/269)
.
أن أم علي، وهي فاطمة بنت أسد، ولدت علياً وأبو طالب غائب
سیدنا علی کی والدہ فاطمہ بنت اسد نے سیدنا علی کو پیدا کیا تو اس وقت ابو طالب وہاں موجود نہ تھے
(الاقتضاب في شرح أدب الكتاب3/70)
.
ولد رَضِي الله عَنهُ وَأَبوهُ غَائِب
 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ پیدا ہوئے اور ان کے والد وہاں موجود نہ تھے
(سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي2/554)
.
تیسری بات:
سند کے کچھ راوی مجھول ہیں....نہ جانے کیسے تھے رافضی شیعہ غیر معتبر تھے یا کوئی اور....؟؟ اور پھر روایت خلاف حقائق بھی ہے لیھذا مردود
.
*سبط ابن جوزی اور علامہ صفوری کی روایت کا جواب*
پہلی بات: سند ہی نہ لکھی
دوسری بات: علماء فرماتے ہیں:
فتراه يأتي فيه بمناكير الحكايات، وما أظنه بثقة فيما ينقله،....ثم إنه ترفض.
 سبط ابن جوزی آپ دیکھیں گے کہ وہ ایسی حکایات کو لکھتے ہیں کہ جو صحیح روایات کے خلاف ہوتی ہیں اور میں ان کو ان کی نقل کردہ باتوں میں ثقہ معتبر نہیں سمجھتا... اور پھر ان(سبط ابن جوزی ) میں رافضیت بھی تھی
(الذهبي، شمس الدين ,ميزان الاعتدال ,4/471)
(ابن حجر العسقلاني ,لسان الميزان ,6/328)
 علامہ صفوری کی کتاب نزہۃ المجالس کے متعلق تو مشھور ہے کہ اس میں ضعیف حسن موضوع روایات تک موجود ہیں
.
جگھڑا،ناگواری ختم کرنے سدباب کرنےکےلیے نبی پاکﷺ نے فرمایا جسکا میں مولا و محبوب ہوں،علی اس کے مولا و محبوب ہیں(شیعہ کتاب بحار الانوار37/190ملخصا)اللہ جبرائیل نیک مومنین مولا ہیں(سورہ تحریم4)ہر صحابی مولا…مولا علی مولا…مولا ہر ولی مولا… افضلیت میں سیدنا ابوبکر عمر مقدم ہیں(ابن ماجہ روایت106)باب قضاء میں سیدنا علی مقدم ہیں(بخاری روایت4481)مگر ہر صحابی نبی جنتی جنتی(تفسير ابن عباس ص457)
.
سیدنا عمر فرماتے ہیں کہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام اور سیدنا علی دونوں کعبہ میں پیدا ہوئے(أخبار مكة للفاكهي ,3/198ملخصا)سیدنا علی اندازا 13 رجب کو کعبہ میں پیدا ہوئے(دیکھیے تحفہ اثنا عشریہ صفحہ 164,165.,166) جشن مولود کعبہ مبارک ہو…بہتر ہے کہ سیدنا حکیم بن حزام اور سیدنا علی دونوں کو مولود کعبہ لکھیے پھیلائے تاکہ بدمذہبوں رافضیوں نیم رافضیوں کا رد بھی ہو
.
*میرے مطابق شیعہ کے مرچ مسالے غلط سوچ و نظریات نکال کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا علی اور سیدنا حکیم بن حزام دونوں کعبہ میں پیدا ہوئے رضی اللہ تعالیٰ عنھما.......!!*
.
 بعض کتب میں لکھا ہے کہ صحابی سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کعبہ میں پیدا ہوئے اس کے علاوہ کوئی پیدا نہیں ہوا... بعض کتب میں لکھا ہے کہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ ہی کعبہ میں پیدا ہوئے اس کے علاوہ کوئی پیدا نہیں ہوا... بعض کتب میں ہے کہ دونوں ہستیاں کعبہ میں پیدا ہوئیں...ہمیں یہ تیسرا قول قوی ترین لگتا ہے...میری معلومات کے مطابق سب سے قوی ترین دلیل اور حوالہ یہ ہے:
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي يُوسُفَ، قَالَ: ثنا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَقُولُ: " سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ....وَأَوَّلُ مَنْ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ: حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ.... وَأَوَّلُ مَنْ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ: عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ
 سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جو کعبہ میں پیدا ہوا وہ حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور بنو ہاشم میں سے جو سب سے پہلے کعبہ میں پیدا ہوا وہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں
(أخبار مكة للفاكهي ,3/198روایت2018ملتقطا)
.
 اس کے علاوہ اب ہم چند حوالے لکھ رہے ہیں جس میں سیدنا علی یا سیدنا حکیم بن حزام کو مولود کعبہ لکھا گیا ہے اور دوسرے کی صریح نفی نہیں کی گئ... جن علماء نے سیدنا علی کی نفی کی یا حکیم بن حزام کی نفی کی تو ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں ہے اس لیے ہم ان کے حوالے نقل نہیں کر رہے...اگر سیدنا علی کے مولود کعبہ ہونے کی روایت ضعیف ہے تو سیدنا حکیم بن حزام کے مولود کعبہ ہونے کی صحیح متصل سند بھی ہمارے علم کے مطابق موجود نہیں...اور معاملہ فضیلیت کا ہے کوئی حکم شرعی ثابت کرنا مقصود نہیں تو دونوں کو مولود کعبہ کہنا سمجھنا ہی قوی لگتا ہے
 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الْوَهَّابِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ عَثَّامٍ، يَقُولُ: «وُلِدَ حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ فِي الْكَعْبَةِ، دَخَلَتْ أُمُّهُ الْكَعْبَةَ، فَمَخَضَتْ فِيهِ، فَوَلَدَتْ فِيهِ
 حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے ان کی والدہ کعبہ میں داخل ہوئیں تو انہیں درد زہ ہوا اور انہوں نے عین کعبہ کے اندر حکیم بن حزام کو پیدا کیا
(معرفة الصحابة لأبي نعيم روایت1881)
(المستدرك على الصحيحين للحاكم روایت6041)
.
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَرْبِيُّ، ثَنَا مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَذَكَرَ نَسَبَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَزَادَ فِيهِ، «وَأُمُّهُ فَاخِتَةُ بِنْتُ زُهَيْرِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى، وَكَانَتْ وَلَدَتْ حَكِيمًا فِي الْكَعْبَةِ وَهِيَ حَامِلٌ، فَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ، وَهِيَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ، فَوَلَدَتْ فِيهَا فَحُمِلَتْ فِي نِطَعٍ، وَغُسِلَ مَا كَانَ تَحْتَهَا مِنَ الثِّيَابِ عِنْدَ حَوْضِ زَمْزَمَ، وَلَمْ يُولَدْ قَبْلَهُ، وَلَا بَعْدَهُ فِي الْكَعْبَةِ أَحَدٌ» قَالَ الْحَاكِمُ: «وَهَمُّ مُصْعَبٍ فِي الْحَرْفِ الْأَخِيرِ، فَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْأَخْبَارِ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَسَدٍ وَلَدَتْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ
 امام حاکم فرماتے ہیں کہ سیدنا مصعب فرماتے ہیں کہ حکیم بن حزام کے علاوہ کوئی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا... امام حاکم فرماتے ہیں کہ مصعب کو اس میں وہم ہوا ہے کیونکہ یہ خبر متواتر ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی کعبہ میں پیدا ہوئے
(المستدرك على الصحيحين للحاكم3/550)
.
وفي مستدرك الحاكم أن علي بن أبي طالب كرم الله وجهه ولد أيضا في داخل الكعبة
 مستدرک حاکم میں ہے کے سیدنا علی اور سیدنا حکیم بن حزام دونوں کعبہ میں پیدا ہوئے
(شرح الشفا للقاری1/159)

ولد في جوف الكعبة، في السنة الثانية والثلاثين من ميلاد رسول الله صلى الله عليه وسلم.
 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ عین کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اس وقت آپ علیہ الصلاۃ و السلام کی عمر مبارک 32سال تھی
(التعريف بالإسلام ص302)
.
ولد على بن أبى طالب رضى الله عنه فى الكعبة 
 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے
( تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس1/279)
.

أما ما روي أن علي بن أبي طالب ولد فيها فضعيف عند العلماء
 وہ جو روایت میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے تو یہ علماء کے مطابق ضعیف ہے
(فتح القريب المجيب على الترغيب والترهيب5/192)
.
وما في "المستدرك" من أن عليًّا - رضي الله عنه - وُلد في الكعبة ضعيف
 اور مستدرک میں جو ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے تو یہ ضعیف ہے
( البحر المحيط الثجاج 27/75)
.
أي لأنه ولد في الكعبة وعمره صلى الله عليه وسلم ثلاثون سنة فأكثر...قيل الذي ولد في الكعبة حكيم بن حزام...قال بعضهم: لا مانع من ولادة كليهما في الكعبة، لكن في النور: حكيم بن حزام ولد في جوف الكعبة، ولا يعرف ذلك لغيره. وأما ما روي أن عليا ولد فيها فضعيف عند العلماء
 سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور آپ علیہ الصلاۃ و السلام کی عمر مبارک 30 سال سے زیادہ تھی... اور کہا گیا ہے کہ کعبہ میں صرف سیدنا حکیم بن حزام ہی پیدا ہوئے.... علماء نے فرمایا کہ دونوں کا کعبہ میں پیدا ہونا کوئی ممانعت نہیں رکھتا... لیکن النور میں ہے کہ سیدنا حکیم بن حزام ہی کعبہ میں پیدا ہوئے اور جو سیدنا علی کے متعلق ہے کہ کعبہ میں پیدا ہوئے تو وہ ضعیف ہے
( السيرة الحلبية1/202)
.
وَأما مَا رُوِيَ عَن عَلّي رَضي اللهُ عَنهُ أَنه ولد فِيهَا فضعيف
 اور جو روایت میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے تو یہ ضعیف ہے
(كتاب البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبير6/489)
.
 اور تمام علماء کے مطابق ضعیف قول سے فضیلت ثابت کی جا سکتی ہے... ہاں البتہ افضلیت وغیرہ شیعوں کے مرچ مسالے خلاف شرع نظریات وہ اس سے ثابت نہیں کیے جا سکتے
.
حكيم بن حزام الذي ولد في جوف الكعبة
 صحابی سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ کہ جو کعبہ میں پیدا ہوئے
(كتاب الوفيات لابن قنفذ ص67)
.
حکیم بن حزام....ولد في الكعبة
 صحابی سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے
(كتاب الاستيعاب في معرفة الأصحاب1/362)
.
.
،حکیم بن حزام..... وُلِدَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ
 صحابی سیدنا حکیم بن حزام کعبہ میں پیدا ہوئے
( من عاش مائة وعشرين سنة من الصحابة ص21)
.
 وكان ولد في الكعبة
صحابی سیدنا حکیم بن حزام کعبہ میں پیدا ہوئے تھے
(كتاب المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام7/47)
.

أقول لا مانع من ولادة كليهما فى الكعبة المشرّفة
 تاریخ الخمیس کے مصنف کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ سیدنا علی اور سیدنا حکیم بن حزام دونوں کا کعبہ مشرفہ میں پیدا ہونے کی  نفی کی کوئی وجہ و دلیل نہیں ہے
(تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس1/279)
.
معین تاریخ:
متقدمین اہل تاریخ نے سیدنا علی کی ولادت کی تاریخ لکھی ہو ایسا ہمیں نہیں ملا اور یہ صرف سیدنا علی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ کئ صحابہ کرام بلکہ اکثر صحابہ کرام کی معین تاریخ ولادت نہیں لکھی گئ
.
بعد کے کچھ علماء نے بلادلیل و بلا حوالہ معتبرہ تیرہ رجب یا پندرہ رجب لکھی ہے
وما قيل إن فاطمة بنت أسد أوحي إليها: أن أدخلي وشرفي، فكذب صريح لأنه لم يقل أحد من الإسلاميين بنبوتها. فتأمل. والمشهور في ولادة الأمير عندنا هو أن أهل الجاهلية كانت عاداتهم أن يفتحوا باب الكعبة في يوم الخامس عشر من رجب ويدخلونها للزيارة، فممن دخل فاطمة، فوافقت الولادة ذلك اليوم.... وأيضا قد ثبت في التواريخ الصحيحة أن حكيم بن حزام
 اور وہ جو کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت اسد کو وحی ہوئی کہ کعبہ میں داخل ہوجاؤ اور کعبہ کو شرف بخشو حضرت علی کی ولادت سے... تو یہ بات صریح جھوٹ ہے کیونکہ کسی نے بھی سیدہ فاطمہ کی نبوت کا دعوی نہیں کیا.... اور ہمارے مطابق مشہور یہ ہے کہ جاہلیت میں عادت تھی کہ کعبہ کا دروازہ 15 رجب کو کھولا کرتے تھے تو لوگ زیارت کے لیے داخل ہوتے تھے جس میں سیدہ فاطمہ بھی داخل ہوئی اور سیدنا علی کی ولادت ہو گئی... اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ صحیح تاریخ میں ہے کہ حکیم بن حزام بھی کعبہ میں پیدا ہوئے
(السيوف المشرقة ومختصر الصواقع المحرقة ص204)
.
ولادت والا واقعہ:
شیعہ کتب مین واقعہ درج ہے کہ حضرت علی کی والدہ کو وحی ہوئ،کچھ کتابوں میں ہے کہ الھام ہوا کہ کعبے میں جاے کیونکہ ولادتِ علی کا وقت قریب ہے... وہ کعبے مین گئیں دردِ زہ ہوا اور کعبے کے اندر سیدنا علی کی.ولادت ہوئ.. کچھ کتب میں اسکی مزید تفصیل یوں ہے کہ کعبہ کے اندر کا دروازہ کبھی کبھار ہی کھلتا تھا.. پندرہ رجب حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کا دن کے موقعے پر چار پانچ دن کے لیے کعبے کا اندر کا دروازہ بھی کھلتا تھا.. باپردہ خواتین پندرہ رجب سے دو تین دن پہلے ہی زیارت کر آتی تھیں..اس طرح اندازہ لگایا گیا کہ تیرہ رجب کو سیدنا علی کی والدہ کعبہ گئی ہوگی..پھر اہل تشیع نے سیدنا عیسی علیہ السلام سے بھی حضرت علی کو افضل کہہ دیا کہ حضرت عیسی کی ولادت کے وقت بی بی مریم کو بیت المقدس سے باہر بھیجا گیا اور یہاں کعبہ کے اندر ولادت علی کا حکم..
شاہ صاحب کا تبصرہ:
 شاہ صاحب نے مذکورہ روایت ، مذکورہ واقع  کو جھوٹ دھوکہ قرار دیا...فرمایا کہ کسی معتبر کتاب مین حدیث میں کہیں یہ نہیں آیا کہ بی بی مریم کو بیت المقدس سے نکل جانے کا حکم ہوا ہو...ہرگز نہیں.. اور فرمایا کہ کسی معتبر کتاب میں یہ نہیں کہ ولادتِ علی کے لیے کعبہ جانے کا حکم ہوا ہو..ہرگز نہیں.. وہ ایک اتفاق تھا.. وحی کا کہنا تو کفر ہے... شاہ صاحب نے تیرہ رجب پر گفتگو نہ فرمائی.. البتہ ان کے کلام سے واضح ہوتا ہے کہ شیعہ کے مرچ مسالے جھوٹ بے بنیاد غلط نظریات نکال کر یہ ہوسکتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ سیدنا علی کی والدہ بھی کعبہ کی زیارت کو گئی ہوں اور وہاں  دردِ زہ زیادہ ہوگیا ہو اور اس طرح سیدنا علی کی ولادت کعبہ میں ہوئی ہو مگر شاہ صاحب نے ساتھ میں دو ٹوک ارشاد فرمایا کہ اس سے افضلیت وغیرہ شیعہ کے دعوے ثابت نہین ہوتے کیونکہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام بھی کعبہ کے اندر پیدا ہوے...(دیکھیے تحفہ اثنا عشریہ صفحہ 164,165.,166)
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.