روزہ کی نیت؟قیاس،وہابی نجدی اہلحدیث وغیرہ کے مشھور اعتراض کا مدلل محقق جواب

*روزہ کی نیت؟قیاس،وہابی نجدی اہلحدیث وغیرہ کے مشھور اعتراض کا مدلل محقق جواب...........؟؟*
.
ایک بھائی نے تحریر بھیجی اور اسکا جواب طلب کیا، اس تحریر میں لکھا تھا کہ: 
اگر “غد” کا معنی آنے والا کل کریں تو، “وبصوم غد نویت۔۔۔” کا مطلب ہے میں نے کل کے دن کے روزے کی نیت کی اور روزہ تو سحری کے وقت آج کے دن کا رکھ رہا ہے اور نیت کل کی کر رہا ہے۔گویا وہ آج کا روزہ نہیں رکھ رہا
پھر چند سطور بعد لکھا تھا کہ:
جو روزے کی نیت رات کو نہیں کرتا اس کا روزہ نہیں ہے )
سنن نسائي حدیث نمبر ( 2334 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 583 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
حدیث کا معنی یہ ہےکہ جو رات کو روزہ رکھنے کا ارادہ اور نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہے ۔ اور نیت کا تعلق دل ہے جوکہ ایک قلبی عمل ہے اس کا زبان سے کوئي تعلق نہیں اس لیے مسلمان کو دل سے ارادہ کرنا چاہیے کہ *وہ کل روزہ رکھےگا* ، اس کے لیے مشروع نہیں کہ وہ زبان سے یہ کہتا رہے میں روزے کی نیت کرتا ہوں یا میں حقیقتاً تیرے لیے روزہ رکھ رہا ہوں ، یا اس طرح کے دوسرے الفاظ جوآج کل لوگوں نےایجاد کررکھے ہیں وہ سب بدعت میں شمار ہوتے ہیں ۔صحیح نیت یہی ہے کہ انسان دل سے ارادہ کرے کہ وہ صبح روزہ رکھے گا ، اسی لیے شیخ جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی سے سوال کیا گيا تو ان کا جواب تھا :
جس کے دل میں یہ بات آگئي کہ وہ *صبح روزہ رکھے گا* اس کی نیت ہوگئی ۔دیکھیں الاختیارات صفحہ نمبر ( 191 )
.
.
تحقیق و جواب:
معترض تجاہل و گمراہی کا شکار ہے اور دوسروں کو بھی جاہل و گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے
کیونکہ
معترض کو اعتراض ہے کہ "غد" یعنی کل کا روزہ کہنا عقلا و شرعا ٹھیک نہیں کہ سحری آج کے روزے کی اور نیت کل کے روزے کی ہو رہی ہے.......لیکن مزے کے بات ہے کہ معترض خود لکھ بیٹھا کہ
دل سے ارادہ کرنا چاہیے کہ *وہ کل روزہ رکھےگا* ،
.
معترض کو پتہ ہی نہیں کہ اس نے اپنے شیخل الاسلام کی الاختیارات کتاب سے جو نقل کیا ہے وہاں صاف لکھا ہے کہ "غد" کہہ کر نیت کی جائے تو بھی ٹھیک ہے....الاختیارات کی اصل عربی عبارت ملاحظہ کیجیے:
من خطر بباله أنه صائم غداً، فقد نوى
ترجمہ:
جس کے دل میں یہ بات آگئ کہ وہ *کل کا روزہ رکھ رہا ہے* تو بےشک اس نے نیت کر لی...(اختیارات ص191)
.
معترض نے یہاں اپنے اعتراض سے شیخل الاسلام کو بچانے کے لیے ان کی عبارت میں موجود لفظ "غد" کا ترجمہ صبح کیا ہے جوکہ بہت بڑی خیانت و دھوکہ دہی ہے...یہاں بھی غد کا ترجمہ" کل" لکھتا تو خود ہی پھنس جاتا اس لیے ترجمہ بدل دیا.......!! 
.
غد کے الفاظ جدید بدعت نہیں بلکہ پرانے علماء کرام نے "غد" یعنی کل کے روزے کی نیت کرنے کو حق و سچ برحق لکھا ہے....چند عبارات ملاحظہ فرمائیں
.
من خطر بباله أنه صائم غداً، فقد نوى
ترجمہ:
جس کے دل مین یہ بات آئی کہ وہ کل کا روزہ رکھ رہا ہے تو بے شک اسکی نیت ہوگئ
كشاف القناع: ٣٦٧/ ٢.
1/181 الفقہ الاسلامی وادلتہ
.
سیدنا غوث اعظم فرماتے ہیں:
.نوى أي وقت من الليل من بعد غروب الشمس إلى قبل أن يطلع الفجر الثاني، أنه صائمٌ غدًا من شهر رمضان
ترجمہ:
رات سے لیکر فجر سے پہلے پہلے تک نیت کرے کہ وہ کل کا روزہ رکھ رہا ہے
الغنیۃ 1/23
.
.
اذَا نَوَى مِنْ اللَّيْلِ نَوَيْت أَنْ أَصُومَ غَدًا لِلَّهِ تَعَالَى مِنْ فَرْضِ رَمَضَانَ
ترجمہ:
رات کے وقت نیت یوں کرے کہ میں کل کا روزہ رکھ رہا ہوں رمضان کا فرض روزہ...(جوہرہ 1/136)
.

ذَهَبَ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ.....َبِأَنْ يَنْوِيَ أَنَّهُ صَائِمٌ غَدًا عَنْ رَمَضَانَ مَثَلاً
ترجمہ:
جمھور و اکثر علماء کا موقف ہے کہ نیت واجب ہے، مثال کے طور پر یوں کہے کہ وہ کل کے روزہ رکھ رہا ہے 
موسوعہ فقہیہ کوئیتییہ
13/42
فلینظر البدائع ٢ / ٨٤، وحاشية الدسوقي على الشرح الكبير ١ / ٥٢٠، والقوانين الفقهية ص ١٢٢. ومغني المحتاج ١ / ٤٢٤ ـ ٤٢٥، والمغني لابن قدامة ٣ / ٩٤
.
.
ان عبارات سے واضح ہے کہ امت مسلمہ کے اکثر علماء نے یہی فرمایا ہے کہ یوں نیت کی جائے کہ وہ کل کا روزہ رکھ رہا ہے.....اس نیت کےلیے کوئی مقرر کردہ الفاظ ضروری نہیں حتی کہ دل میں ارادہ کیا کہ کل کا روزہ رکھ رہا ہے اور زبان سے کچھ نہ کہا تو بھی نیت ہوگئ......دل میں نیت کے ساتھ ساتھ الفاظوں کے ساتھ نیت کی جائے تو اسے علماء احناف نے بہتر قرار دیا ہے،مگر الفاظ ضروری مقرر نہیں کیے بلکہ
نویت ان اصوم غدا من فرض رمضان
وبصوم غد نویت من شہر رمضان
وغیرہ عربی کے مختلف الفاظوں سے نیت ہوسکتی ہے، اردو فارسی وغیرہ الفاظوں سے بھی نیت ہوسکتی ہے
.
نیت الفاظوں سے کرے یا نہ کرے اس میں کچھ علماء کا اختلاف ہے
مگر
"غد" یعنی کل کا روزہ رکھنے کی نیت کرنے میں سب کا اتفاق ہے.....معترض کا غد پر اعتراض کرنا خود ان کے معتمد علماء پر اعتراض کرنے کے مترادف ہے
.
*اب ائیے یہ سمجھتے ہیں کہ علماء نے اخر یہ کیوں فرمایا کہ کل کے روزے کی نیت کرے..........؟؟*
دراصل یہ کل کے روزے کی نیت حقیقتا اج کے روزے کی نیت ہے، کیونکہ روزہ سحری کے وقت کے ختم ہونے کے بعد سے لیکر غروبِ افتاب تک ہوتا ہے اور نیت سحری کے وقت کی جاتی ہے تو
رات کے وقت جب سحری کوئی کرتا ہے تو وہ فجر کے بعد شروع ہونے والے روزے کی سحری کر رہا ہوتا ہے یہ روزہ سحری کے کچھ دیر بعد شروع ہونے والا ہوتا ہے تو یہ مستقبل کا روزہ ہوا اسی لیے اس کے لیے کل کا روزہ کہا جاتا ہے کیونکہ روزہ ابھی تک شروع ہی نہیں ہوا
.
لیھذا رات کے وقت غد یعنی کل کے روزے یعنی آنے والے روزے کی نیت کرنا جمہور علماء بلکہ خود معترض کے معتبر علماء کے مطابق بھی برحق و سچ ہے.....اس پر اعتراض جہالت و گمراہی ہے
.
باقی رہی بات اس مسلے کی کہ نیت الفاظوں سے کرنا بدعت ہے یا نہیں......؟؟ تو یہ مختصرا عرض ہے کہ کچھ علماء نے اسے بدعت کہا ہے اور علماء احناف نے لفظوں کے ساتھ نیت کرنے کو مستحب و ثواب کہا ہے....روزہ کی نیت کے الفاظ اگرچہ سنت نبوی اور اقوال صحابہ سے مروی نہیں مگر نماز قربانی وغیرہ کچھ معاملات کی نیت مروی ہے تو ان نیتوں پر قیاس کرتے ہوئے ہر عبادت کی نیت لفظوں کے ساتھ کرنے کو مستحب لکھا گیا ہے.....جب یہ قیاس ہے تو اس کے لیے یہ مطالبہ کرنا کہ نیت سنت سے دکھاؤ ، یہ مطالبہ جہالت ہے کیونکہ سنت میں نیت کے الفاظ آئے ہوتے تو قیاس کی کیا حاجت تھی.....؟؟
ہاں
یہ مطالبہ برحق ہے کہ قیاس کس پر کیا،اور قیاس کا ثبوت کہاں سے ہے......؟ تو لیجیے قیاس کا مختصر ثبوت
القرآن..ترجمہ:
اگر معاملات کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط (اہلِ تحقیق، باشعور، باریک دان، سمجھدار علماء) ضرور جان لیتے.. (سورہ نساء آیت83)
.
دیکھا آپ نے آیت میں اولی الامر اور علماء اور اہل استنباط کی پیروی کا حکم بھی ہے...اگر فقط سب کچھ صرف اور صرف قرآن و حدیث ہی سب کچھ ہوتا تو اولی الامر اہل استنباط کی پیروی کا حکم نا ہوتا.... ہاں اتنا ضرور شرط ہے کہ یہ اہل استنباط جو کہیں وہ قرآن و سنت سے اخذ ہو ورنہ انکی اپنی مرضی، من مانی معتبر نہیں.. اسلام نے اصل اصول بتا دیے اور کئ احکام دو ٹوک بتا دیے اور پھر اسلام نے فرمایا کہ ایسے مسائل بھی آئیے گے جنکا دوٹوک حکم قرآن و حدیث میں نہیں ہوگا ایسے مسائل میں اسلام نے اہل استنباط علماء کے اقوال اور ان کے قیاس، انکی رائے کی پیروی کا حکم دیا ہے...یہ.بات میں اپنی طرف سے نہین کہہ رہا یہ بات قرآن و حدیث سے ماخوذ ہے
.
الحدیث:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما أراد أن يبعث معاذا إلى اليمن قال: «كيف تقضي إذا عرض لك قضاء؟»، قال: أقضي بكتاب الله، قال: «فإن لم تجد في كتاب الله؟»، قال: فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «فإن لم تجد في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا في كتاب الله؟» قال: أجتهد رأيي، ولا آلو فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره، وقال: «الحمد لله الذي وفق رسول، رسول الله لما يرضي رسول الله»
ترجمہ:
بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ارادہ فرمایا کہ حضرت معاذ کو یمن کی طرف بھیجیں تو حضرت معاذ سے پوچھا:
تمھارے پاس کسی بات کا فیصلہ ہونے کو آئے تو کیسے فیصلہ کرو گے، عرض کیا قرآن سے فیصلہ کرونگا
نبی پاک نے فرمایا کہ اگر قرآن میں اسکا حکم(دو ٹوک) نا پاو تو پھر کیا کرو گے
عرض کیا اللہ کے رسول کی سنت سے فیصلہ کرونگا
نبی پاک نے پھر فرمایا کہ رسول اللہ کی سنت اور کتاب اللہ دونوں میں(دو ٹوک) حکم نا پاؤ تو پھر کیا کرو گے
عرض کیا
پھر میں اجتہاد کرکے اپنی رائے پر فیصلہ کرونگا اور میں اجتہاد و استنباط مین کوئی کسر نا چھوڑوں گا...رسول کریم نے ان کے سینے پر تھپکی دی اور فرمایا
شکر و حمد ہے اللہ کریم کی کہ جس نے رسول اللہ کے بھیجے ہوئے کو اس بات کی توفیق دی کہ جس سے اللہ کا رسول راضی ہے
(ابو داؤد حدیث3592)
.
اوپر آیت میں اہل استنباط  و اہل اجتہاد کے قیاس و رائے کو معتبر قرار دیا گیا تھا اور مذکورہ حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن و سنت کے علاوہ قیاس و رائے بھی معتبر مگر وہاں جہاں دو ٹوک قرآن و سنت کا حکم نا ہو.......!!
یہی وجہ ہے کہ ہم اہل سنت قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ مستند علماء کرام کے اقوال کو بھی پیش کرتے ہیں، وہابیوں اہل حدیثوں کی طرح آدھے اسلام کے پیروکار نہیں
.
کچھ عبادات کی نیت کے الفاظ مروی ہوءے ہیں مثلا قربانی کی نیت:
إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ، وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ، وَعَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ، بِاسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ "
(ابوداود حدیث2795)
.
 نجدی وہابی و اہلحدیث غیر مقلد وغیرہ کے معتبر عالم ابن باز نے لکھا کہ:
: المشروع أن يتلفظ ويقول: اللهم إنها منك ولك
قربانی کرتے وقت (دلی نیت کے ساتھ ساتھ) زبان سے نیت کرے اور کہے کہ: اللهم إنها منك ولك
(فتاوى نور على الدرب لابن باز18/182)
.
 تو روزہ کی نیت کرنے کا حکم حدیث پاک میں ہے جیسا کہ معترض نے بھی حدیث پیش کی اور زبان سے روزہ وغیرہ کی نیت قربانی وغیرہ عبادات پر قیاس کرتے ہوئے نیت کے الفاظ مستحب ثابت کیے گئے ہیں....اور قیاس کرنے کا جواز خود قرآن و حدیث سے ثابت ہے، صحابہ کرام نے قیاس کیے.... تابعین نے قیاس کیے، البتہ قیاس کرنے سے پہلے قیاس کے اصول و ضوابط پڑھنا سمجھنا لازم ہیں کہ کہاں اور کیسے اور کس حد تک قیاس جائز بلکہ لازم ہے........؟؟ یہ ایک الگ لمبی بحث ہے جس پر باقاعدہ کتب لکھی جا چکی ہیں
.
بَلِ النِّيَّةُ بِاللِّسَانِ مِنَ الْبِدْعَةِ الْحَسَنَ
ترجمہ:
بلکہ زبانی نیت بدعت حسنہ ہے
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,4/1387]
.
درمختار کا مختار قول کیا ہے ملاحظہ کیجیے
وَالتَّلَفُّظُ) عِنْدَ الْإِرَادَةِ (بِهَا مُسْتَحَبٌّ) هُوَ الْمُخْتَارُ،
ترجمہ:
دلی نیت کے وقت زبانی نیت کرنا مستحب و اچھا ہے اور یہی مختار ہے
[ در مختار مع رد المحتار ,1/415]
.
علامہ طحطاوی کا مختار قول بھی ملاحظہ کیجیے
ولا عن أحد من الصحابة والتابعين" زاد ابن أميرحاج ولا عن الأئمة الأربعة قوله: "وهذه بدعة" قال في البحر فتحرر من هذه الأقوال أنه بدعة حسنة
یعنی:
زبانی نیت رسول کریم صحابہ کرام تابعین عظام ائمہ سے مروی نہیں،  یہ بدعت ہے یعنی بدعت حسنہ ہے
[حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح221 ,page 220]
.
فإن فعله لتجتمع عزيمته عليه فهو حسن
ترجمہ:
اگر زبانی نیت دل کی نیت کو پختہ کرنے کے لیے کرے تو اچھا ہے
[منحة السلوك في شرح تحفة الملوك ,page 121]



وَضَمُّ التَّلَفُّظِ إلَى الْقَصْدِ أَفْضَلُ) لِمَا فِيهِ مِنْ اسْتِحْضَارِ الْقَلْبِ لِاجْتِمَاعِ الْعَزِيمَةِ بِهِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: النِّيَّةُ بِالْقَلْبِ فَرْضٌ، وَذِكْرُهَا بِاللِّسَانِ سُنَّةٌ، وَالْجَمْعُ بَيْنَهُمَا أَفْضَلُ
یعنی:
دلی نیت کے ساتھ زبانی نیت کرنا افضل ہے کہ دلی ارادہ پختہ ہوتا ہے، امام محمد علیہ الرحمۃ نے فرمایا ہے کہ دلی نیت فرض اور زبانی نیت سنت(یعنی مشائخ کا اچھا طریقہ) ہے اور دونوں نیتیں کرنا افضل ہے
[مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ,1/85]

.
واختلف كلامهم في التلفظ فرجح في منية المصلي تبعا للمجتبى وغيره استحبابه وجعله في اختياره تبعا للبدائع والمحيط سنة كذا عن محمد وفي الشرح والكافي أنه أحسن....وهذه بدعة انتهى أي: حسنة
یعنی:
زبانی نیت کے متعلق مشاءخ کے کلام میں اختلاف ہے، منیہ و مجتبی بدائع محیط وغیرہ میں راجح و مختار اس کو کہا ہے کہ یہ اچھا ہے، یہ بدعت ہے یعنی اچھی بدعت ہے
[النهر الفائق شرح كنز الدقائق ,1/188]
.
إلَّا أَنَّ الذِّكْرَ بِاللِّسَانِ مَعَ عَمَلِ الْقَلْبِ سُنَّةٌ فَالْأَوْلَى أَنْ يَشْغَلَ قَلْبَهُ بِالنِّيَّةِ وَلِسَانَهُ بِالذِّكْرِ وَيَدَهُ بِالرَّفْعِ،
مگر یہ کہ زبانی نیت دلی نیت کے ساتھ اچھا ہے کہ دل کو نیت کے ساتھ مشغول کرنا، زبان کو تلفظ کے ساتھ مشغول کرنا اور ہاتھوں کو اٹھانے کے ساتھ مشغول کرنا ہے
[الجوهرة النيرة على مختصر القدوري ,1/48]
.
(وَالتَّلَفُّظُ مُسْتَحَبٌّ) لِمَا فِيهِ مِنْ اسْتِحْضَارِ الْقَلْبِ
ترجمہ:
زبانی نیت کرنا مستحب ہے کہ اس سے دل حاضر ہوتا ہے 
[درر الحكام شرح غرر الأحكام ,1/62]
.
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: النِّيَّةُ بِالْقَلْبِ فَرْضٌ، وَذِكْرُهَا بِاللِّسَانِ سُنَّةٌ، وَالْجَمْعُ بَيْنَهُمَا أَفْضَلُ
ترجمہ:
امام محمد علیہ الرحمۃ نے فرمایا ہے کہ دلی نیت فرض اور زبانی نیت سنت(یعنی مشائخ کا اچھا طریقہ) ہے اور دونوں نیتیں کرنا افضل ہے
[الاختيار لتعليل المختار ,1/48]

.
 لَكِنَّهُ حَسَنٌ لِاجْتِمَاعِ عَزِيمَتِهِ
ترجمہ:
لیکن دلی نیت کو پختہ کرنے کے لیے زبانی نیت کرنا اچھا ہے
[العناية شرح الهداية ,1/266]
.
فَإِنْ فَعَلَهُ لِتَجْتَمِعَ عَزِيمَةُ قَلْبِهِ فَهُوَ حَسَنٌ
ترجمہ:
اگر دلی ارادے کو پختہ کرنے کے لیے زبانی نیت کرے تو اچھا ہے
[فتاوی عالمگیری،الفتاوى الهندية ,1/65]
.
بدعت و بدعت حسنہ کی تحقیق حدیث و فقہ و مخالفین کے اقوال سے....اس لنک پے پڑہیے
.
https://tahriratehaseer.blogspot.com/2022/03/blog-post_3.html
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.