شانِ سیدنا معاویہ اور یہودی عیسائی ایرانی سازش پے کون دعوت اسلامی یا ریاض شاہ و مشہدی و گردیزی و حنیف قریشی و چمن زمان و طاہر الکادری وغیرہ....؟؟

 *#بظاہر ریاض شاہ چمن زمان عرفان شاہ گردیزی بمع ہمنوا و طاہر کادری بمع ہمنوا ایران یہود و نصاری کی سازشوں پے چل رہے ہیں تقریبا اٹھارہ نشانیاں یہاں آپ پڑھ سکیں گے... دعوت اسلامی ایرانی یہودی سازش پے نہیں چل رہی....!! اور کیا لفظ معاویہ کا معنی کتا ہے...؟؟نعوذباللہ اور کیا معاویہ نام اہلبیت میں تھا...؟؟ اور  سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان قرآن و احادیث سے، صحابہ کرام اہلبیت عظام تابعین ائمہ فقہاء مجتہدین محدثین صوفیاء علماء کے اقوال سے شانِ سیدنا معاویہ کی ایک جھلک....!!*

سوال:

علامہ صاحب وڈیو بڑے عرصے سے گھوم رہی ہے، آپ کو بھیج رہا ہوں جواب لکھیے، دوسروں نے جواب لکھا مگر ہمیں آپ کے جواب کا بےتابی سے انتظار رہتا ہے

.

تمھید:

 ریاض شاہ کی وڈیو جس میں ریاض شاہ کہتے ہیں کہ....المفھوم: یہودی سازش چل رہی ہے اور دعوت اسلامی الیاس قادری یہودیوں کے اشارے پے نئے نئے موقف عوام میں پھیلا رہے ہیں یہ و سازش و ظلم ہے جیسے بےگناہ بےخطاء کا نعرہ لگانا...پھر ریاض شاہ کہتے ہیں ہم جوڑنے والے ہیں انتشاری نہیں، جتنا بھی صحابی کہو مگر طلقاء میں سے تھے.....!!

.

نوٹ:نیم روافض ایرانی یہودی سازش پے ہیں اس کی اٹھارہ نشانیاں تو ہم نے ثابت کی ہیں اور انکا منہ توڑ جواب دیا ہے،نیم روافض کے مذکورہ نظریات جو وڈیو اور اسکرین شارٹ کی صورت میں ہیں، میرے پاس بھی محفوظ ہیں... آج کل بڑی مکاری چل رہی ہے کہ کچھ بھی بولو لکھو سوشل میڈیا پے ڈالو مگر پرنٹ نہ کراؤ اور وقت حاجت دم دبا کر مکر جاؤ...اللہ کرے کہ یہ لوگ نیم روافض کے تمام کرتوتوں کو کالعدم قرار دے کر براءت کریں اور معتبر اہلسنت کے دامن تھام لیں ...انہوں نے گند بغیر پرنٹ کییے پھیلا ہے تو ہم بھی احتیاط کرتے ہوئے پرنٹ نہیں کر رہے بلکہ پی ڈی ایف کی صورت تحریر کی صورت میں وائرل کر رہے ہیں کیونکہ ہم نیم روافض کی نظریات کے پرنٹ کا انتظار کریں تو کئ عوام اللہ نہ کرے گمراہ ہوچکی ہوتی

.

اپیل:

میرا پرانہ وٹس اپ نمبر 03468392475 بار بار مسئلہ کر رہا ہے کیونکہ یہ ٹیلی نار سے یوفون پے کنورٹ ہے تو وٹس اپ والے اور یوفون والے کہہ رہے ہیں کہ یہ ایشو آتا رہے گا...اس لیے میرا دوسرا وٹس اپ نمبر 03062524574 کو بھی سیوsaveکیجیے اور دونوں نمبروں کو سیو کرکے وٹس اپ گروپوں میں دونون نمبر شامل کرکے دونوں نمبرز کو ایڈمیں بنا دیں تاکہ ایک نمبر گڑ بڑ کرے تو دوسرے سے دینی خدمات جاری رکھ سکوں...جزاکم اللہ خیرا...اور گروپ ایڈمین حضرات کرم فرما کر میرے لیے رولز نرم کریں اور تحریر کو جگہ دیں لیکن اگر مجبورا ڈیلیٹ کرنا پڑے تو ڈیلیٹ کردیجیے گا، میں ناراض نہیں ہونگا....!! 

.

*#تفصیل..و...تحقیق......!!*

دل کے،  اندر کے احوال اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر ظاہری طور پر دیکھا جائے تو یہودی ایرانی سازش میں ریاض شاہ حنیف قریشی مشہدی چمن زمان گردیزی طاہر الکادری بمع ہمنوا یہودی ایرانی سازش پے چل رہے ہیں، انہی کے ٹکڑوں پے پل رہے ہیں اور لبادہ محبت اہلبیت کا اوڑہ رکھا ہے،فرمان اہلبیت:كَذَّابٌ....قَاتَلَهُمُ اللَّهُ، إِنْ كَانُوا لَيَأْكُلُونَ بِنَا

جھوٹے(جعلی محب؟مکار)یہ لوگ تو ہم اہلبیت کے نام پے کھانے(عیاشی کرنے، پیسہ پرستی کرنے) والے ہیں

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة روایت2695)

مکار جھوٹے تضاد بیانی کرنے والے من گھڑت جھوٹی موضوع روایات باتیں بنانے والے ، پھیلانے والے رافضی راویون سے روایات لینے والے پھیلانے والے مفتری من موجی مکار عیاش پیسہ پرست جعلی محب رافضی نیم رافضی برحق نہیں سچے محب نہیں بلکہ اہلبیت کے نام پے کھانے والے مکار جھوٹے باطل کذاب عیاش مردود ہیں دین و محبت اہلبیت کے لبادے میں....پہچانیے انہیں اور بائیکاٹ کیجیے

.

یہ لوگ ایرانی یہودی عیسائی سازش پے ہیں...پیسہ دولت شہرت عیاشی کے لیے ہیں...جس درج ذیل اٹھارہ نشانیاں ہم نے بیان کی ہیں

.

*#پہلی نشانی......!!*

جتنا انٹرویو میں نے سنا اس میں ریاض شاہ نے طلقاء کہا مگر سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہہ کر ربان میٹھی نہ کی، حالانکہ اسلاف نے لکھا کہ سیدنا معاویہ اگرچے طلقاء میں سے ہوں مگر بڑی شان والے بھی ہیں مگر ریاض شاہ پلس کمپنی طلقاء طلقاء کی رٹ لگائے بیٹھی ہے،رافضیوں کی طرح نام لینا تک گوارہ نہیں... ارے ظالموں معاویہ نام اہلبیت میں تھا غور کرو اہلبیت پیارا نام معاویہ معاویہ پکار پکار کر کتنے اسلام دشمنوں یہودی ایجنٹوں جعلی محبوں کے دل جلاتے ہونگے اور سیدنا معاویہ سے اختلاف کے باوجود ادب و پیار کا اظہار کرتے رہے اہلبیت نام معاویہ پکار پکار کر.....؟؟

.

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے داماد اور سیدنا جعفر طیار کے بیٹے عبداللہ نے اپنے بیٹے کا نام معاویہ رکھا.. یعنی سیدنا جعفر کے پوتے اور سیدنا علی کے داماد کا نام معاویہ تھا

وَمُعَاوِيَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنَّهُمْ لَبِسُوا ثِيَابًا مُهَدَّبَةً

 عبداللہ بن جعفر کے بیٹے معاویہ نے بھی حاشیہ دار کپڑے پہنے

(بخاری قبل الحدیث5792)

.

معاوية بن عبد الله بن جعفر بن أبي طالب٦: ثقة

سیدنا جعفر کے پوتے معاویہ ثقہ معتبر راوی ہیں

(الثقات للعجلي ت قلعجي ص432)

.

وزينب تزوجها عَبد الله بْن جعفر بْن أَبي طالب

سیدنا علی کی بیٹی زینب کا نکاح عبد اللہ بن جعفر سے ہوا(یعنی عبد اللہ بن جعفر سیدنا علی کے داماد ہیں جنہوں نے اپنے بیٹے کا نام معاویہ رکھا)

(تہذیب الکمال1/191)

.

معاوية بن عبد الله:ابن جعفر الطيار: وكان أحد سمحاء

سیدنا جعفر کے بیٹے عبداللہ کے بیٹے معاویہ بڑے سخی تھے

(شيعه کتاب معجم رجال الحديث 19/229)

.

سیدنا علی کے ایک اور داماد کا نام معاویہ تھا:

وكانت رملة بنت علي عند أبي الهياج، ثم خلف عليها معاوية

سیدنا علی کی بیٹی رملہ کا پھر نکاح معاویہ سے ہوا

( كتاب نسب قريش ص45)

.

 معاوية بن الحارث :صاحب لواء الأشتر ( الأشعث ) يوم صفين ، من أصحاب علي عليه السلام

معاویہ بن حارث سیدنا علی کے خاص ساتھیون میں سے تھے،  جنگ صفین میں جھنڈا انکے ہاتھ تھا

(شیعہ کتاب معجم رجال الحدیث 19/218)

.

معاوية بن سلمة :معاوية بن مسلمة المزني : كوفي ، من أصحاب الصادق عليه السلام

معاویہ بن سلمہ مزنی کوفی امام صادق کے خاص ساتھی و شاگرد و راوی ہیں...(شیعہ کتاب معجم رجال الحدیث 19/226)

.

معاوية بن سلمة النصري :( البصري ) : من أصحاب الصادق عليه السلام

معاویہ بن سلمہ نصری کوفی امام صادق کے خاص ساتھی و شاگرد و راوی ہیں...(شیعہ کتاب معجم رجال الحدیث ترقیم12475)

.

 معاوية بن سوادة :الكناني ، الكوفي ، من أصحاب الصادق عليه السلام 

معاویہ بن سوادہ کوفی امام صادق کے خاص ساتھی و شاگرد و راوی ہیں...(شیعہ کتاب معجم رجال الحدیث ترقیم12476)

.


معاوية بن صالح :الأندلسي ، القاضي ، من أصحاب الصادق عليه السلام

معاویہ بن صالح کوفی امام صادق کے خاص ساتھی و شاگرد و راوی ہیں...(شیعہ کتاب معجم رجال الحدیث 19/228)

.

 معاوية بن صعصعة :ابن أخي الأحنف ، من أصحاب علي عليه السلام

معاویہ بن صعصعة سیدنا علی کے خاص ساتھی و شاگرد و راوی ہیں...(شیعہ کتاب معجم رجال الحدیث 19/228)

.


معاوية بن كليب :ابن معاوية بن جنادة الأزدي الغامدي ، كوفي ، من أصحاب الصادق

معاویہ بن کلیب  امام صادق کے خاص ساتھی و شاگرد و راوی ہیں...(شیعہ کتاب معجم رجال الحدیث 19/239)

.

معاویہ بن عمار وعده ابن شهرآشوب من خواص أصحاب الصادق عليه السلام

معاویہ بن عمار کو ابن شھرآشوب نے امام صادق کا انتہائی خاص ساتھی و شاگرد و راوی کہا ہے...(شیعہ کتاب معجم رجال الحدیث19/238) 

.


معاوية بن يحيى : من أصحاب الرضا عليه السلام

معاویہ بن یحی امام رضا کے خاص ساتھی و شاگرد و راوی ہیں...(شیعہ کتاب معجم رجال الحدیث19/246)

 معاوية الجعفري :من شهود وصية أبي إبراهيم موسى بن جعفر عليهما السلام

معاویہ جعفری امام موسی کاظم کے خاص ساتھی و شاگرد و راوی ہیں کہ وصیت کے وقت انکو گواہ بنایا تھا....(شیعہ کتاب معجم رجال الحدیث19/246)

.

ہم نے بارہویں کی نسبت سے بارہ نام لکھے ہیں ورنہ کوئی تیس چالیس کے قریب قریب شیعہ رافضی کے ہاں معاویہ نام کے معتبر ہستیاں ہیں....جو معاویہ نام لینا گوارا نہین کرتے یا معاویہ کا معنی کتیا کرتے ہیں وہ یہ معنی اہلبیت کے اولاد و خاص شاگردوں کے متعلق بھی کہیں گے....؟؟ ڈوب مرو بے شرمو.......!! سوچو اہلبیت اطہار اپنی و شاگردون کو معاویہ معاویہ پکار پر تم جیسوں کے سینوں کو کتنا جلاتے ہونگے....؟؟

.

مکارو دھوکے بازو ایجنٹو سنو، پڑھو کہ معاویہ کا اور امام باقر کا معنی کیا ہے

لفظ معاویہ عوی سے بنا ہے عوی سے عواء بھی بنا ہے اور گرائمر کا قاعدہ ہے کہ مشتق میں مصدر والے معنی کمی بیشی کے ساتھ ہوتے ہیں

وعَوَى الشيءَ عَيّاً واعْتَواهُ: عَطَفَه.... عَوَيْت الشيءَ عَيّاً إِذا أَمَلْته... وعَوَى الرجلُ: بَلَغَ الثَّلَاثِينَ فقَويَتْ يَدهُ فعَوَى يَدَ غَيْرِهِ....العَوّا اسمُ نَجمٍ..سُمِّيَتِ العَوَّاءُ كأَنه يَعْوِي إِليها

عوی کا معنی ہے جھکانا، مدد کرنا امید رکھنا، عوی الرجل کا معنی ہے جو تیس سال کی پختہ عمر کو پہنچ جائے اور وہ دوسروں کو مضبوط کرے، عوی کا معنی بھونکنا بھی ہے، عوی سے عواء(معاویہ وغیرہ) اس چمکتے ستارے کو کہتے ہین جس دیکھ کر بھونکا جائے یا آواز کی جائے

(لسان العرب15/109)

گویا سیدنا معاویہ کا معنی ہوا.... مضبوط مرد، مدد کرنے والا... باطل وغیرہ کو جھکا دینے والا... امید رکھنے والا... وہ چمکتا ستارہ جسے دیکھ کر بھونکا جائے 

.

عوى] نه: فيه: كأني أسمع "عواء" أهل النار، أي صياحهم، والعواء صوت السباع وكأنه بالذئب والكلب أخص، من عوى يعوي. وفيه: سئل عن نحر الإبل فأمره أن "يعوي" رؤسها، أي يعطفها إلى أحد شقيها لتبرز لبتها وهي المنحر، والعوي اللي والعطف.

عوی کا ایک معنی ہے چیخ و پکار...ایک معنی ہے جھکانا

(مجمع بحار الانوار3/707)

.


وعَوَيْتُ رأس الناقة بزمامها، أي عُجْتُها....عوى] عَوى الكلب والذئبُ وابن آوى يَعْوي عُواءً: صاح. وهو يُعاوي الكلابَ، أي يُصايحُها. وعَوَيْتُ الشَعْرَ والحَبْلَ عَيًّا: لويته

عوی کا ایک معنی ہے اونٹنی کو بٹھانا، ایک معنی ہے کتے یا بھیڑیے کا بھونکنا....ایک معنی ہے جھکانا ٹیرا کرنا

(الصحاح تاج اللغۃ6/2441)

.

وعويت الْحَبل أعويه عيا إِذا لويته فَهُوَ معوي كَمَا تَقول: حَبل ملوي.والعوا: نجم

عوی کا ایک معنیطہے جھکانا اور عوی سے عواء(اور معاویہ وغیرہ مشتق ہوتے ہیں جن)کا معنی ایک ستارہ ہے

(جمھرۃ اللغۃ1/243)

.

عَوَيت الحبلَ إِذا لويته. والمصدر العَيّ. والعَيُّ فِي كل شَيْء: الليّ. قَالَ: وعَوَيت رَأس النَّاقة إِذا عُجْتها... والعَوَّى مَقْصُور: نجم....كَأَنَّهُ يَعْوِي إِلَيْهَا

عوی کا معنی ہے جھکانا بٹھانا، ایک معنی یہ بھی نکلتا ہے کہ وہ چمکتا ستارہ جسے دیکھ کر بھونکا جائے

(تھذیب اللغۃ3/163)

.

عَوَى الشَّعَرَ والعِمَامَةَ والقَوْسَ عَيَّاً: أي لَوَى...وأبو مُعَاوِيَةَ: كُنْيَةُ

 الفَهْد

عوی کا معنی ہے جھکانا...ابو معاویہ چیتے کو کہتے ہیں

.(المحیط فی اللغۃ1/128)

معاویہ کا معنی فقط کتیہ کتا ہوتا تو ابو معاویہ کا مطلب کتے کا باپ ہوتا...معاویہ کا ایک معنی مضبوط و طاقتور بھی ہے تو چیتا بہت مضبوط طاقتور ہوتا ہے اس لیے اسے ابو معاویہ کہتے ہیں

.

) عَوَى (الشَّيءَ) كالشَّعْرِ والحبْلِ {عَيًّا: (عَطَفَهُ) ولَواهُ....عَوَى (الرَّجُلُ: بَلَغَ ثَلاثيِنَ سَنَةً فقَوِيَتْ يَدُه} فَعَوَى يَدَ غَيرِهِ..وَأَبُو مُعاوِيَةَ) :) كُنْيَةُ (الفَهْدِ

عوی کا ایک معنی ہے جھکانا... ایک معنی ہے مضبوط طاقتور جو دوسرے کو مضبوط بنائے...اسی سے معنی نکلتا ہے کہ ابومعاویہ چیتے کی کنیت ہے کیونکہ چیتا مضبوط طاقتور ہوتا ہے اور گردن پر وار کر جھکا دیتا ہے

(تاج العروس39/129)

.

و: عَوَى يَعْوِي عَيًّا وعُواءً، بالضم، وعَوَّةً وعَوِيَّةً: لَوَى خَطْمَهُ، ثم صَوَّتَ، أو مدَّ صَوْتَه ولم يُفْصِحْ، وـ الشيءَ: عَطَفَه، كاعْتَوَى فيهما،وـ الرجلُ: بَلَغَ ثَلاثِينَ سنةً، فَقَوِيَتْ يَدُه، فَعَوَى يَدَ غَيْرِهِ، أي: لَواها شَديداً،وـ البُرَةَ والقَوْسَ: عَطَفَها،وأبو مُعاوِيَةَ: الفَهْدُ

عوی کا معنی ہے رسی پکڑ کر بٹھانا آواز دینا...جھکانا بھی معنی ہے اور ایک معنی ہے تیس سال کی پختہ عمر کو پہنچ کر مضبوط و طاقتور ہوکر دوسرے کا طاقت و مدد دینا بھی معنی ہے...ابومعاویہ چیتے کو کہتے ہیں

(القاموس المحیط1316)

.

کتب لغت اس طرح کی معنی سے بھری پڑی ہیں ہم نے سیدنا معاویہ جنتی اور جنت کے آٹھ دوازے کی نسبت سے آٹھ حوالے لکھے ہیں

اور

یہ قاعدہ ہے کہ گندہ ذہن گندہ معنیطہی لے گا جبکہ اہل حق اچھے معنی مراد لیتے ہیں

سیدی اعلٰی حضرت امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ بعض محتمل لفظ جب کسی مقبول سے صادر ہوں بحکمِ قرآن انہیں "معنی حسن" پر حمل کریں گے، اور جب کسی مردود سے صادر ہوں جو صریح توہینیں کرچکا ہو تو اس کی خبیث عادت کی بنا پر معنی خبیث ہی مفہوم ہوں گے کہ:

 کل اناء یترشح بما فیہ صرح بہ الامام ابن حجر المکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔

 ہر برتن سے وہی کچھ باہر آتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے... 

(فتاوی رضویہ : ج29، ص225)

.

وَيُسمَّى البَقَر ثَوْراً وَالْجمع أَثْوار....اي متفَرِّقة

گائے کا بقر(باقر) اس لیے کہتے ہیں کہ وہ بھٹکی ہوئی ہوتی ہے

(المخصص 2/263)

.

بقر)الْبَطن وَنَحْوه بقرًا شقَّه والفتنة الْقَوْم فرقتهم

باقر بقر سے بنا ہے بقر کا ایک معنی ہے چیر پھاڑ کرنا، لوگوں میں فتنہ ڈال کر جدا کر دینا

(المعجم الوسیط1/65)

.

و) الباقِرُ: (الأَسَدُ) ؛ لأَنّه إِذا اصطادَ الفَرِيسةَ بَقَرَ بَطْنَها

شیر کو باقر کیتے ہیں کیونکہ باقر کا معنی ہے چیر پھاڑ فساد برپا کرنے والا اور شیر بھی چیڑ پھاڑ کر دیتا ہے

(تاج العروس10/30)

.

ذكر فتْنَة عُثْمَان إِنَّهَا باقرة كداء الْبَطن أَي مفْسدَة للدّين مفرقة للنَّاس....الباقر لِأَنَّهُ بقر الْعلم وَعرف أَصله واستنبط فَرعه وأصل الْبَقر الشق وَالْفَتْح

سیدنا عثمان کے واقعے کو فتنہ باقرہ کہتے ہیں کیونکہ باقر کا ایک معنی ہے پیٹ کی بیماری..ایک معنی ہے دین کو فاسد کرنا...ایک معنی ہے لوگوں کو تفرقہ جداءی میں ڈال دینا، باقر کا ایک معنی کھولنا بھی ہے تو اس مناسبت سے امام باقر کو باقر کہتے ہیں

(غریب الحدیث1/81)

.

کوئی صاحب عقل کہہ سکتا ہے کہ باقر کا معنی فسادی ہے، فتنہ پرور ہے، جدائیاں کرنے والا ہے، خونی درندہ ہے، دین کا فاسد کرنے والا ہے.....؟؟ نہیں ناں کیونکہ اچھے معنی کھولنا بھی موجود ہے تو اس مناسبت سے کہ انہوں نے علم و روحانیت کو واضح کیا کھولا اس لیے امام باقر کہلائے

.###########

*#دوسری نشانی......!!*

اسلام فرماتا ہے حق سے باطل کو نہ ملاؤ مگر طاہر کادری میل جول دوستی یاری رکھتا یہود و نصاری روافض و نیم روافض و بدمزہبوں سے...،طاہر جانی تمھارے مطابق یہود و نصاری وغیرہ بھی حق ہیں کیا.....؟؟

القرآن..ترجمہ:

حق سے باطل کو نا ملاؤ اور جان بوجھ کر حق نہ چھپاؤ

(سورہ بقرہ آیت42)

اس ایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ باطلوں مردودوں منافقوں مکاروں بدمذہبوں کے کرتوت بھی بیان کیے جائیں تاکہ حق اور باطل الگ الگ ہوجائیں یہ ذمہ داری ہے نگہبانی ہے فرقہ واریت نہیں، فرقہ واریت تو مکار ایجنٹ سازشی کرے رہے سچے اچھے برحق تو حق کو واضح کر رہے باطل کرتوتوں کو بیان کرکے حق کو واضح کر رہے ہیں...لیھزا یہ مت کہو کہ کیا فرقہ واریت کر رہے ہو تحریر کے ذریعے....ہم حق بیامن کرکے رہے ہیں....باطل چور کرپٹ ایجنت منافق خود کو حق ہی کہے گا...اہل حق بھی خود کو حق کہیں گے...فیصلہ دلائل و نشانیوں سے کیجیے، پہچان کیجیے اصلی کی...

.

*#پیارے مسلمان بھائیو یاد رکھو........!!*

الحدیث:

أَلَا إِنَّ شَرَّ الشَّرِّ، شِرَارُ الْعُلَمَاءِ، وَإِنَّ خَيْرَ الْخَيْرِ، خِيَارُ الْعُلَمَاءِ

ترجمہ:

خبردار............!! بےشک بد سے بدتر چیز برے علماء ہیں اور اچھی سے اچھی چیز اچھے علماء ہیں

(دارمی حدیث382)

غور کیا جائے تو اس حکم میں علم و معلومات پھیلانے والے تمام لوگ و ذرائع اس حکم میں شامل ہیں

لیھذا

علماء، معلمین، مرشد، اساتذہ، میڈیا، سوشل میڈیا، صحافی، تجزیہ کار،وکیل،جج،جرنیل،مبلغ ، واعظ وغیرہ معلومات پھیلانے والے لوگ

اچھی سے اچھی چیز ہیں بشرطیکہ کہ اچھے ہوں سچے ہوں باعمل ہوں

اور

یہی لوگ بد سے بدتر ہیں اگر برے ہوں

.

الحدیث:

إِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ

مجھے میری امت پر گمراہ کن ائمہ کا خوف ہے(لیھذا میں تمھیں تنبیہ کرتا ہوں کہ ان گمراہ کرنے والوں کو پہچانو ان سے دور رہو اور عوام کو ان سے دور رکھو،انکی مذمت کرتوت بیان کرو،یہ فرقہ واریت نہیں)...(ترمذی حدیث2229)

.

القرآن،ترجمہ:

سچوں(کو پہچان کر ان)کا ساتھ دو(سورہ توبہ آیت119)

دین و دنیا کو بدنام تو جعلی منافق مکار کر رہےہیں....عوام و خواص سب کو سمجھنا چاہیےکہ #جعلی_مکار_منافق تو علماء پیر اینکر لیڈر سیاست دان جج وکیل استاد ڈاکٹر فوجی وغیرہ افراد و اشیاء سب میں ہوسکتےہیں،ہوتے ہیں

تو

جعلی کی وجہ سے #اصلی سےنفرت نہیں کرنی چاہیےبلکہ اصلی کی تلاش کرنی چاہیے اور اسکا ساتھ دینا چاہیے

.

کہتے ہیں منفی باتیں نہ کرو..جوڑؤ ناکہ توڑو....ارے بھیا باطل منافق مکار کی نفی لازم ہے دیکھیے کلمہ طیبہ بھی نفی سے شروع ہوتا ہے...یہ ضروری نفی انتہائی اہم مثبت اقدام ہے...افراد کی قوت سے جوڑ کر اسلام کی مضبوط دیوار و گھر بنانا ہے تو اس مین جعلی کھوکھلی اینٹیں یعنی بدمزہب مکار منافق باطل وغیرہ کو دھکا مار کر الگ صف میں رکھنا ہوگا ورنہ یہ گندی اینٹیں دیوار و عمارت میں شامل ہوگئیں تو عمارت و دیوار بدنما اور کمزور ہوجائے گی کہ نہ جانے کب یہ مکار منافق باطل بدمذہب ایجنٹی کرکے ادھر چلے جائیں اور دیوار کمزور سے کمزور تر ہوتی جائے...دیوار اسلام سے اور اچھی اینٹ سے جوڑیے، کینسر والا عضو کاٹنا پڑتا ہے ورنہ وہ دوسروں کو بھی کھا جائے گا کمزور و بیمار ناکارہ کردیگا.....!!

.

یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اسلام کی سربلندی سنت کی پیروی میں صحابہ کرام میں اختلاف ہوگیا دو گروپ بنے ہر ایک نے الگ عمل کیا مگر دونوں نے ایک دوسرے کی مذمت نہ کی تو رسول کریم نے انکی مذمت نہ کی(دیکھیے بخاری حدیث946)تو ادب کے ساتھ فروعی اختلاف ہو ، ایجنٹی منافقت مفادیت چاپلوسیت وغیرہ برے مقاسد کے تحت نہ ہو تو ایسا مدلل پرلاجک فروعی اختلاف ہو تو برداشت کرنا لازم ہے،لیھذا ایسا فروعی بادب اختلاف رکھنے والے کئ دیوبند کئ اہلحدیث کئ سلفی کئ نام کے شیعہ کچھ نیم روافض وغیرہ کو برداشت کرنا لازم ہے اور ہم ایسے فروعی اختلاف پے کبھی مذمتی تحریر تقریر نہیں کرتے الحمد للہ...ہاں ایک دوسرے کو سلیقے صحیح دلیل سے سمجھاؤ کہ فلاں بات زیادہ بہتر ہے،زیادہ مضبوط ہے،اسلام و مسلمین کے لیے زیادہ مفید ہے......!! کبھی متحد ہونا مفید ہوتا ہے کبھی کوئی کسی محاذ پے لڑے محنت و جد و جہد کرے، کوئی کسی اور محاذ پے لڑے جدا جدا ہوکر لڑیں جد و جہد کریں مگر اسلام کے لیے اور ہوسکے تو اشارتاً ایک دوسرے کی تائید بھی کریں اور ممکن ہے ایسے فروعی برحق اختلاف والے لیڈر بظاہر کسی دباؤ کی وجہ سے ایک دوسرے سے لاتعلقی مذمت کریں تو آپ سمجھ جائیں کہ حکمت عملی ہوگی ورنہ انکا اختلاف تو فروعی پردلیل ہے،قابلِ اعتماد پے اعتماد بھی سیکھیں انکی مجبوریاں سمجھیں اور وہ کام کریں جو اسلام و مسلمین کے لیے مفید ہو چاہے......!!

.

طاہر الکادری طارق جمیل مشہدی ریاض شاہ وغیرہ کی اتنی تحریری تقریری تبلغی خدمات ہیں وہ بھلا کیسے باطل ایجنٹ ہونگے

جواب:

إِنِّي لَسْتُ كُلَّ كَلَامِ الْحَكِيمِ أَتَقَبَّلُ

اللہ فرماتا ہے کہ میں دانشوروں کی ہر(اچھی)باتیں قبول نہیں کرتا(وہ قبول کرتا ہوں جو حق کہے لکھے حق ہوکر سچا و باعمل ہوکر)(مشکواۃ حدیث قدسی5338)کسی مکار چمچے چاپلوس ایجنٹ منافق بدمذہب کی کتب رسائل تقریروں تحریروں دینی کام خدمات عبادات سے متاثر نہ ہوا کریں،فقط مقدار نہ دیکھیں،سچائی و عمل دیکھیں تحقیق کریں پھر متاثر ہوں پھر پھیلائیں،تعریف کریں

.

الحدیث:

إِنَّ اللَّهَ لَيُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ

ترجمہ:

بےشک اللہ عزوجل فاجر(گمراہ، بدمذھب،منافق، مرتد، زندیق،فاسق،ظالم)سے بھی اس دین اسلام کی تائید.و.خدمات لیتا ھے(صحیح بخاری حدیث 3062)

خدمات تقریریں کتب خدمت خلق بھی اسی وقت کام آئے گی جب عقیدے نظریے ٹھیک ہوں اعمال ٹھیک ہوں، شیطان کتنا بڑا عالم عبادت گذار تھا مگر ایک برے نظریے نے اسے مردود لعنتی بنا دیا اسکا علم اسکی عبادات شہرت سب کچھ رائیگاں گیا…ایک گلاس دودھ میں چند قطرے زہر یا پیشاب کے ملا لیں اور کہا جائے دو چار ہی تو قطرے ہیں باقی تو دودھ ہے اس سے اتحاد کر لو اس دودھ کو بھی اچھا مفید سمجھ لوں،  پی لو........؟؟کیا ایسا کہنا ٹھیک ہے؟؟ ہر گز نہیں عقلا اخلاقا شرعا ہر لحاظ سے ٹھیک نہیں…خوارج بھی کلمہ بہت نیک و قاری تھے، مگر ان کی مزمت و مشروط قتل حدیث پاک سے ثابت ہے کیونکہ ان کے دو چار نظریے ہی اسلام کے منافی تھے…صحابہ کرام نے انہیں سمجھایا اور ضدی فسادیوں سے جہاد کیا…خوارج تم کلمہ گو ہو اہل قبلہ ہو اس لیے تم سے اتحاد کرتے ہین تمھہیں بھی حق کہتے ہیں ایسا صحابہ کرام نے نہ کیا......لیھزا ہر جگہ اتحاد کی میٹھی دعوت بھی گمراہ کن ہے، ایسوں سے اتحاد نہ کرنا لازم...انہیں سمجھانا لازم...ضدی فسادی بدمذہب سے مشروط قتال ورنہ بائیکاٹ و مذمت لازم......یہ تفرقہ بازی نہیں ،عیب جوئی نہیں ، غیبت نہیں بلکہ حق بیانی و لازم ہے اسلام کی نمک حلالی ہے

.

الحدیث:

 أترعون عن ذكر الفاجر؟، اذكروه بما فيه يعرفه الناس

ترجمہ:

کیا تم(زندہ یا مردہ طاقتور یا کمزور کسی بھی) فاجر(فاسق معلن منافق , خائن،مکار، دھوکے باز بدمذہب مفادپرست گستاخ) کو واضح کرنے سے ہچکچاتے ہو...؟(جیسا وہ ہے ویسا کہنے سے گھبراتے ہو...؟؟)اسے ان چیزوں(ان کرتوتوں، عیبوں اعلانیہ گناہوں ، خیانتوں، منافقتوں دھوکے بازیوں) کے ساتھ واضح کرو جو اس میں ہوں تاکہ لوگ اسے پہچان لیں(اور اسکی گمراہی خیانت منافقت بدعملی دھوکے بازی مکاری شر فساد سے بچ سکیں)

(طبرانی معجم  کبیر  حدیث 1010)

(طبرانی معجم صغیر حدیث598نحوہ)

یہ حدیث پاک  کتبِ حدیث و تفاسیر اور فقہ و تصوف کی کئی کتب میں موجود ہے... مثلا جامع صغیر، شعب الایمان، احیاء العلوم، جامع الاحادیث، کنزالعمال، کشف الخفاء ردالمحتار ، عنایہ شرح ہدایہ، فتاوی رضویہ، تفسیر ثعالبی، تفسیر درمنثور وغیرہ کتب میں بھی موجود ہے

علامہ ہیثمی نے فرمایا:

وإسناد الأوسط والصغير حسن، رجاله موثقون، واختلف في بعضهم اختلافاً لا يضر

 مذکورہ حدیث پاک طبرانی کی اوسط اور معجم صغیر میں بھی ہے جسکی سند حسن معتبر ہے، اسکے راوی ثقہ ہیں بعض میں اختلاف ہے مگر وہ کوئی نقصان دہ اختلاف نہیں

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ت حسين أسد2/408)

.

سمجھانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے...مگر حسبِ تقاضہِ شریعت ایسوں کے عیوب مکاریاں منافقتیں خیانتیں کرپشن فسق و فجور دھوکے بازیاں بیان کرنا برحق ہے لازم ہے اسلام کا حکم ہے....یہ عیب جوئی نہیں، غیبت نہیں، ایسوں کی پردہ پوشی کرنا جرم ہے... یہ فرقہ واریت نہیں، یہ حسد نہیں، بغض نہیں بلکہ حق کی پرواہ ہے اسلام کے حکم کی پیروی ہے...شاید کہ یہ سدھر جائیں انہیں ہدایت ملے ورنہ ذلت کے خوف سے فساد و گمراہی پھیلانے سے رک جائیں اور معاشرہ اچھا بنے... ہاں حدیث پاک میں یہ بھی واضح ہے کہ وہ عیوب، وہ خیانتیں، وہ دھوکے بازیاں وہ کرتوت بیان کیے جائیں جو اس مین ہوں...جھوٹی مذمت الزام تراشیاں ٹھیک نہیں......!!

.

کوئی مجرم اپنے جرم سے سچی توبہ کر لے تو بے شک توبہ قبول ہوتی ہے مگر یاد رکھیے کچھ جرائم ایسے ہوتے ہیں کہ توبہ رجوع تو قبول مگر توبہ رجوع کی وجہ سے انکی سزا معاف نہیں ہوتی...ایسا نہیں کہ جو مَن میں آئے جرم کرو اور توبہ کرکے سزا معاف......؟؟نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں... بلکہ بعض جرائم ایسے ہوتے ہیں کہ توبہ کے باوجود سزا اسلام نے مقرر و لازم کر دی ہے... عقل کے لحاظ سے بھی یہ ٹھیک ہے، اسی میں ذاتی اجتماعی انسانی معاشرتی بھلائی ہے... بے شک اسلام کے کیا ہی بہترین عمدہ ترین برحق اصول ہیں.......!!

.

اسلام فرماتا ہے دلائل آجانے کے بعد ظالموں منافقوں باطلوں کے پاس نہ بیٹھو....مگر طاہر پیا کا گھر ہی انگریزوں کے دامن میں ہے،میل جول دوستیاں اسلام دشمنون سے ہیں،نام دے رکھا ہے رواداری کا... ارے بابا یہ رواداری نہیں بوٹ پالشی ایجنٹی منافق مکاری شراکت داری ہے

القرآن:

فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ  الذِّکۡرٰی  مَعَ الۡقَوۡمِ  الظّٰلِمِیۡنَ

یاد آجانے(دلائل آجانے)کے بعد تم ظالموں(بدمذبوں گمراہوں گستاخوں مکاروں گمراہ کرنے والوں منافقوں ظالموں) کے ساتھ نہ بیٹھو(نہ میل جول کرو، نہ انکی محفل مجلس میں جاؤ، نہ کھاؤ پیو، نہ شادی بیاہ دوستی یاری کرو،ہر طرح کا ائیکاٹ کرو)

(سورہ انعام آیت68)

.

وَكَذَلِكَ مَنَعَ أَصْحَابُنَا الدُّخُولَ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ وَدُخُولِ كَنَائِسِهِمْ وَالْبِيَعِ، وَمَجَالِسِ الْكُفَّارِ وَأَهْلِ الْبِدَعِ، وَأَلَّا تُعْتَقَدَ مَوَدَّتُهُمْ وَلَا يُسْمَعَ كَلَامُهُمْ

ہمارے علماء نے اس ایت سے ثابت کیا ہے کہ دشمنوں کے پاس نہ رہا جائے،چرچ گرجا گھروں میں ہرگز نہ مسلمان نہ جائے،کفار اہل کتاب بدمذہب سے بھی میل جول نہ رکھا جائے،نہ ان سے محبت رکھے نہ انکا کلام سنے(یہود و نصاری مشرکین کفار ملحدین منافقین مکار بدمذہب سب سے بائیکاٹ کیا جائے،بغیر محبت و دوستی یاری کے احتیاط کے ساتھ فقط سودا بازی تجارت کی جاسکتی ہے بشرطیکہ اسلام پے آنچ نہ آئے بلکہ تجارت سے اسلام و مسلمین کا فائدہ مدنظر ہو)

(تفسیر قرطبی 7/13)

.

رسول کریم نے فرمایا

الحدیث:

كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يصوم يوم السبت والأحد أكثر ما يصوم من الأيام، ويقول: إنهما يوماعيد للمشركين فأنا أحب أن أخالفهم

ترجمہ:

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے ایام کے مقابلے میں ہفتے اور اتوار کے اکثر ایام میں زورہ رکھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ:

یہ مشرکوں(یہود و عیسائیوں) کے عیدوں کے دن ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ انکی مخالفت کروں...(سنن کبری نسائی حدیث2789, صحیح ابن خزیمہ2167, مستدرک حاکم1593)

.

دیکھا آپ نے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و اسلامی تعلیم و اصول یہ ہے کہ یہود و نصاری، مشرک و ہندو، ملحدین وغیرہ اسلام مخالف مذاہب و مسالک کی عیدوں میں انکی مخالفت کرنی چاہیے...انکی موافقت کرتے ہوئے مبارک دینا اسلامی تعلیمات میں سے نہیں...

.

یہ مخالفت کا حکم مطلق ہے چاہے انکی عید کسی صحیح نظریے پر ہو یا غلط نظریے پر ہرحال میں انکی عیدوں کے دن کی مخالفت کی جائے گی...دیکھیے ہفتے کے دن عیسائیوں کی عید کسی بری بنیاد پر مبنی نہین بلکہ اسکا عیسائیوں کے لیے عید ہونے کا تذکرہ قران مجید میں ہے مگر پھر بھی اس عید کے دن مخالفت کا حکم ہے

کیونکہ

مجموعی طور پر یہود و نصاری ہندو وغیرہ غیراسلام مذاہبِ مروجہ غلط نظریات و معمولات پر مبنی ہیں حتی کہ اس حدیث پاک مین انکو مشرک تک کہا گیا ہے

.

لیھذا

کرسمس ہولی دیوالی وغیرہ صحیح نظریات کی بنیاد پر عید مانی جائے تو بھی اسکی مخالفت کی جائے گی، شرکت نہ کی جاءے گی، مبارکبادی نہ دی جائے، ہندو یہود و نصاری وغیرہ کی مخالفت کی جائے گی کیونکہ مجموعی طور پر یہود و نصاری ہندو وغیرہ ٹھیک نہیں...انہیں بدل کر مسلمان کرنا ہی اسلام کا اصل منشاء و مقصد ہے... اسلام ان کو کچھ مشروط حقوق دیتا ہے کہ وہ اپنی مذہبی تہوار منائیں مگر مسلمانوں کو اجازت نہیں دیتا کہ ان میں شرکت کریں یا مبارک باد دیں... رواداری یہ ہے کہ ہم انکے تہوار نہ منائیں مگر وہ خود حدود میں منائیں تو روا ہے....ان میں مسلمانوں کی شرکت رواداری نہین بلکہ خلافِ اسلام اقدام،منافقت و مشارکت ہے…ہمیں اسلامی عید پے غیرمسلم مبارک باد دیں، تحائف دیں ، دعوت کریں تو قبول نہ کیجیے اور یہ مت سوچیے کہ انہوں نے مبارکبادی دی لیھذا بدلے میں ہمیں ان کے تہواروں پے مبارکباد دینی چاہیے بلکہ دوٹوک بولیے کہ

معذرت اے غیرمسلم ذمیوں تم سے دشمنی نہیں،معاہدے کےتحت حدود میں تم اور ہم پر امن رہیں گےمگر ہم تمھارے تہواروں میں شرکت نہیں کرسکتے،تمھیں حق نہیں کہہ سکتے،تمھیں مبارکباد نہیں دےسکتے…!!

لیکن طاہر کادری چمچہ مکار کرسمس مناتا ہے، کیک موم بتیاں مبارکیں گلے ملنا اور نہ جانے کیا کیا کرتے کراتے ہیں....پہچانیے ایجنٹ مکار منافق ایجنٹ کو

.#################

*#تیسری نشانی......!!

طاہر کادری پاکستان میں شولا بیانی کرتے ہوئے فخر سے کہتا ہے کہ میں نے قانون گستاخِ رسول کوئی بھی ہو اسکی سزا موت بنوایا اور کہا کہ میرا نظریہ ہے کہ رسول کریم کا گستاخ مسلم ہو یا غیرمسلم اسے سزائے موت دی جائے گی مگر اپنے آقاؤں انگریزون کی گود میں بیٹھ کر کہتا ہے قانون میں نے نہیں بنوایا میرے مطابق تو غیرمسلم گستاخ کو سزائے موت نہیں ملے گی...مکار چاپلوس منافق ایجنٹ سازشی مفادی مطلبی عیاش کہیں کا....!!

.#################

*#چوتھی نشانی....!!*

طاہر کادری کہتا ہے رسول کریم نے عیسائیوں کے وفد کو مسجد میں نماز کی اجازت دی لیھذا یہودی عیسائی ہماری مساجد میں آکر اپنی عبادت کرسکتے ہیں...ابے مکار سن ایک دفعہ ایک دیہاتی مسجد میں پیشاب کر رہا تھا صحابہ کرام نے منع کرنا چاہا تو نبی پاک نے فرمایا اسکو چھوڑو.. پھر آپ نے مسجد دھلوائی...(یہ واقعہ بخاری حدیث نمبر 220اور بہت کتب ساری میں بھی ہے) اب کیا کہو گے چرسیو موالیوں آؤ مسجد کے اندر پیشاب کرو....؟؟ بلکہ آو مل کر پیشاب کرتے ہیں؟ کہو گے....؟؟ نہیں ناں....اسی طرح اچانک سے عیسائیوں اہل نجران کے وفد نے اپنی عبادت شروع کردی تھی تو رسول کریم نے فرمایا چھوڑو دفع کرو...ورنہ اس کے علاوہ کبھی یہود و نصاری رسول کریم کے پاس مسجد میں عبادت کرنے گلنے ملنے میل جول یاری باشی ہوئی...؟؟ کبھی نہیں....دوستی یاری باشی شراکت داری تائیدی اتحاد ہرگز ان سے جائز نہیں ہاں یہ رواداری ہے کہ اپنے گھروں اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کریں ہم صبر کرلیں گے....!! نشانی نمبر دو میں تفصیل و دلائل لکھ ائے کہ اہل کتاب وغیرہ سے یاری باشی کرسمس عید کوئی دن ان کے ساتھ منانا ٹھیک نہین

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ تو انکی سچائی پر منبی تہوار میں بھی مخالفت فرماتے تھے یہ ایجنٹ مکار چمچہ چاپلوس طاہر الپادری کہیں کا....!!

.##################

*#پانچویں نشانی.......*

طاہر کادری کہتا ہے جھوٹا خواب بتانا کہ خواب میں نبی پاک کی زیارت ہوئی کفر و بدمذہبی ہے پھر جناب بتاتے ہیں رسول کریم کو خواب میں دیکھا آپ نے فرمایا تمھاری عمر 63,64 سال ہوگی، واویلا مچایا کہ جلدی اقتدار دو میں مرنے والا ہوں مگر اب ستر برس سے زیادہ عمر کے ہوگئے تو کیا پتہ چلا جھوٹا خواب گھڑ لیا تھا طاہر مکار نے....؟؟ اپنے فتوے مطابق کافر مرتد ٹہرا ایجنٹ اقتدار کی ہوس کا پیاسی کہیں کا...پھر آئیں بائیں شائیں جھوٹی موٹی کمزور دلیل تو شیطان نے بھی دی تھی اسکے چیلے طاہر کادری نے یہود و نصاری کی طرح آئیں بائیں شائیں کرنے لگا......!!

.###############

*#چھٹی نشانی......!!*

انصاف مساوات و انسانیت کے جھوٹے دعوے دار مکار اسرائیل امریکہ یورپ برطانیہ انڈیا ہندو عیسائی یہودی سب مل کر بےگناہ فلسطینوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ ڈھا رہے ہیں، اپنے ہی بنائے ہوئے جنگی قوانین انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رے ہیں، ظالم وحشی درندے زخموں سے چور چور روتے بلکتے بلکتے بچوں عورتوں پر رتی برابر بھی رحم نہیں کھا رہے، ظلم پے ظلم کی داستان لکھے جا رہے ہیں جس سے ثابت ہوگیا کہ یہ لوگ ظالم وحشی دوغلے مکار منافق ہیں....ایسے میں ہر جگہ سے فلسطینوں کے حق میں آواز اٹھ رہی ہے، حتی المقدور ہر کوئی کوشش کر رہا ہے، فحش اداکارائیاں رنڈیاں تک اواز اٹھا رہی ہیں

مگر

سفیرِ امن کہلانے والا مفادی چاپلوس چمچہ ایجنٹ مکار منافق طاہر الپادری نے کوئی مضبوط مذمت بائیکاٹ ریلیاں مارچ نہ کراءیں، مضبوط آواز بلند نہ کی حالانکہ اپنے کو سفیر امن کہتا ہے تو زیادہ آواز اٹھانا اس پر لازم تھا مگر یہود و نصاری یورپ امریکہ ناراض ہوجاتے اس لیے ممکن ہے ٹوٹی پھوٹی جوٹی مذمت کی ہو مگر کھل کر میدان میں نہ آیا،چمچہ ایجنٹ کہیں کا....اس نے اپنے منہاجیوں کو ناجانے کونسا لالی پاپ کھلا کر یورپ برطانیہ میں یہود و نصاری و سیکیولروں کی گود میں بیٹھ کر مزے لے رہا ہے.....ارے وہ تو تھا ہی شروع سے منافق چاپلوس ایجنٹ مکار مگر اے منہاجی بھائیو تم تو ہوش کرو، بےدخل کردو منھاج القران سے طاہر پادری کو یا پھر خود لاتعلقی کا اعلان کرو، توبہ کرو منہاجیت سے.....!!

.################

*#ساتویں نشانی.....!!*

مذمت تو خوارج کی خود طاہر الکادری نے بھی کی ہے انہیں جہنمی کتے لعنتی ،دھوکے باز ، مخلوق سے بدتر ، کالے بدعتی گستاخ وغیرہ لکھا ہے(دیکھیے اسکی کتاب دہشتگردی اور فتنہ خوارج ص363تا451)لیکن ہم برے کی مذمت کریں کرتوت واضح کریں تو کہتے ہیں طاہر پیا مذمت نہیں کرتی گالی گلوچ نہیں کرتے علمی بات کرتے ہیں، ارے بھیا دیکھیے طاہر نے علمی بات کے ساتھ خوارج کی مذمت بھی کی،ہم بھی علمی بات دلائل اصلاح کی کوشش کے ساتھ ضدی فسادی مکار ایجنٹ کی مذمت بھی کرتے ہیں

سنی نجدی وہابی شیعہ وغیرہ کو کلمہ گو کہہ کر اتحاد کا ڈرامہ رچانے والے ڈاکٹر طاہر منہاجی اور اسکے حمایتیوں سے سوال ہے کہ خوارج بھی تو کلمہ گو ہیں ان کے خلاف فتوی کیوں جاری کیا....؟؟

کیا جوشِ ایمانی کی رگ جاگ اٹھی تھی یا امریکہ یورپ برطانیہ وغیرہ سیکیولر قسم کی حکومتوں کو خوش کرنے کے لیے ایسا فتوی دیا...؟؟

اگر جوش ایمانی کی رگ جاگ اٹھی تھی تو یہ جوش ایمانی دیگر فرقوں برے عالموں کی گستاخیوں پر کہاں غائب....؟؟ یا تو کلمہ گو کہہ کر اتحاد کا نعرہ لگانا ڈاکٹر صاحب کی منافقت دھوکہ بازی مکاری کہلائے گا...؟؟ ہاں مکاری بھی ہے طاہر الکادری کی اور امریکہ یورپ یہود نصاری کی ایجنٹی نبھانا بھی ہے

.##################

*#نشانی نمبر8*

رافضیوں کو خوش کرنے انکی سازش کامیاب بنانے یہود و نصاری کے پٹھو بن کر چمن زمان بمع گروپ اور طاہر الکادری نے کہا کہ اول روحانی خلیفہ سیدنا علی ہیں،اور عرفان شاہ کے سامنے افضلیت سیدنا علی کا کلام پڑھا گیا جس پر وہ جھوم رہے تھے مطلب اسکا بھی یہی تفضیلی عقیدہ ہے جبکہ یہ نعرہ انکا اہلسنت تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو افضل کہے وہ بدعتی ہے اسے سزا دی جائے کوڑے لگائے جائیں قید کیا جائے...اسکی تقریر تحریر پر پابندی لگانا لازم...ہاں اسے سمجھایا بھی جائے ورنہ بائیکاٹ تو لازم ہے

.


چمن زمان لکھتا ہے:

پہلی عبارت:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے مقام قطبیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر سیدہ فاطمہ زہراء کو ملا..

(چمن زمان کی کتاب المحفوظہ ص48)

.

دوسری عبارت:

چمن زمان لکھتا ہے:

آئمہ اہلبیت اقطاب ولایت ہیں...(پھر چمن زمان ان ائمہ اہلبیت کا نام لکھتا ہے تو پہلے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام لکھتا ہے یعنی چمن کے مطابق سیدنا اول خلیفہ روحانی اول قطب ہیں)

(دیکھیے چمن زمان کی کتاب بارہ امامان اہلبیت ص41)


چمن زمان لکھتا ہے:

پس قطب ہر دور میں پوری جماعت مسلمین سے افضل ہوتا ہے

(چمن زمان کی کتاب محفوظہ ص51)

.

چمن زمان لکھتا ہے کہ

ہم باب نظریات میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی شخصیت پر مکمل اعتماد کرتے ہیں

(چمن زمان کی کتاب جدید نعرے ص57,58)

.

الحاصل:

 چمن زمان کی پہلی عبارت کو مانا جائے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا اول قطب ہیں اور چمن زمان کے مطابق بھی قطب ایک وقت میں ایک ہی ہوتا ہے اور وہ قطب سب سے افضل ہوتا ہے

تو

نتیجہ نکلا کہ چمن زمان کے مطابق سیدہ فاطمہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالی عنہا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی افضل ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی افضل ہیں بلکہ انبیاء کرام علیھم السلام کے بعد سب سے افضل ہیں

جبکہ

 چمن زمان کی دوسری عبارت کے مطابق اول قطب سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں لیھذا چمن زمان کے مطابق سیدنا علی سیدہ فاطمہ سے افضل ہیں سیدنا صدیق اکبر سے بھی افضل ہیں،بلکہ انبیاء کرام علیھم السلام کے بعد سب سے افضل ہیں

تو

تضاد بیانی مکاری واضح ہے چمن زمان کی....شاید ایجنٹی منافقت چمچہ گیری ایرانی مال وغیرہ کا چکر ہو

بحرحال

چمن زمان کی پہلی عبارت یا دوسری عبارت دونوں سے بظاہر افضلیت سیدنا صدیق اکبر کا انکار لازم اتا ہے، لیھذا چمن زمان عقائد اہلسنت کے مخالف کہلائے گا،بلکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اقوال کا بھی نافرمان کہلائے گا کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بارہا فرمایا کہ سیدنا صدیق اکبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ہیں بلکہ صحابہ کرام تابعین محدثین آئمہ اربعہ فقہاء صوفیاء سب کے نزدیک سیدنا صدیق اکبر افضل ہیں اور چمن زمان ان سب کا نافرمان کہلائے گا

.

اسی طرح بظاہر طاہر الکادری بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا صحابہ کرام کا، تابعین محدثین آئمہ اربعہ فقہاء صوفیاء کا نافرمان کہلائے گا...خارج از اہلسنت کہلائے گا

 کیونکہ

اہلسنت کا نظریہ ہے کہ سیدنا صدیق اکبر سیاسی و روحانی اول خلیفہ ہیں لیکن طاہر الکادری کے مطابق سیدنا صدیق و عمر سیاسی خلیفہ تھے،سیدنا علی روحانی اول خلیفہ تھے(دیکھیےطاہر الکادری کی کتاب القول الوثیق ص41)

.

چمن زمان نے صاف لکھا کہ وہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کو باب عقائد میں امام مانتا ہے تو لیجیے سیدی اعلیٰ حضرت کی تعلیمات پڑہیے

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  ارشاد فرماتے ہیں : سیدنا ابوبکر صدیق کی افضلیت پھر سیدنا عمر کی افضلیت قطعی اجماعی متواتر ہے،آج کل کے جہال جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو افضل قرار دیتے ہیں آئمہ نے انہیں رافضی قرار دیا ہے،  مسئلہ افضلیت ہرگز باب فضائل سے نہیں بلکہ باب عقائد میں سے ہے

 (فتاوی رضویہ5/585ملخصا)

.

سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت لکھتے ہیں :

" یہی تعظیم و محبت و جاں نثاری و پروانہ واری شمع رسالت علیہ صلوة وا لتحیتہ ہے ، جس نے صدیق اکبر کو بعد انبیاء و مرسلین صلی اللہ تعالی علیہم اجمعین تمام جہان پر تفوق بخشا ، اور ان کے بعد تمام عالم ، تمام خلق ، تمام اولیاء ، تمام عرفاء سے افضل و اکرم و اکمل اعظم کر دیا "

(فتاوی رضویہ 29/371)

پتا چلا کہ سیدنا صدیق اکبر بعد انبیاء و مرسلین ساری مخلوق ، سارے عالم ، سارے ولیوں ، سارے غوثوں ، سارے قطبوں ، سارے عارفوں سے افضل ، اکرم ، اکمل اور اعظم ہیں ۔

.

سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت لکھتے ہیں:

حضرت امیر المومنین سیدنا مولٰی علی کرم ﷲ وجہہ الکریم کو حضرت شیخین رضی ﷲ تعالٰی عنہما سے افضل بتانا رفض و بد مذہبی ہے(فتاوی رضویہ6/442) اللہ کریم غلو مبالغہ آراءی ناحقی کی بنیاد پر مبنی محبت کی آڑ میں رافضیت اور ہر قسم کی بدمذہبی سے بچائے

.

*امام اہلسنت مجدد دین و ملت پیکر عشق و محبت سیدی احمد رضا علیہ الرحمۃ نے ظاہری اور باطنی روحانی اول خلیفہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لکھا اور اس کو صحابہ کرام تابعین و اسلاف و امت کا اجماعی عقیدہ قرار دیا اور جو کہتے ہیں کہ باطنی اول خلیفہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں انہیں سیدی امام احمد رضا نے جھوٹے سنی اور گمراہ قرار دیا....متن اور اس پر سیدی امام احمد رضا کا حاشیہ پڑہیے......!!*

 امام بر حق رسول اللہ ﷺ کے بعد ابو بکر ، پھر عمر، پھر عثمان، پھر علی رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین ہیں، اور ( ان چاروں کی فضیلت [۳۱۶) ترتیب خلافت کے موافق ہے۔

(۳۱۶) اس حسین عبارت میں مصنف رحمہ اللہ تعالی علیہ نے ائمہ سابقین کی پیروی کی اور اس میں اس زمانے کے تفصیلیوں کا رد ہے جو جھوٹ اور بہتان کے بل پر سنی ہونے کے مدعی ہیں اس لئے کہ انہوں نے فضیلت میں ترتیب کے مسئلے کو ( ظاہر سے ) اس طرف پھیرا کہ خلافت میں اولیت (خلافت میں زیادہ حقدار ہونے ) کا معنی دنیوی خلافت کا زیادہ حقدار ہونا، اور یہ اس کے لئے ہے جو شہروں کے انتظام اور لشکر سازی، اور اس کے علاوہ دوسرے امور جن کے انتظام وانصرام کی سلطنت میں حاجت ہوتی ہے ان کا زیادہ جاننے والا ہو۔ اور یہ باطل خبیث قول ہے، صحابہ اور تابعین رضی اللہ تعالی عنہم کے اجماع کے خلاف ہے۔... اس لئے طریقہ محمدیہ وغیرہا کتابوں میں اہلسنت و جماعت کے عقیدوں کے بیان میں اس مسئلے کی تعبیر یوں فرمائی کہ اولیاء محمدیین ( محمد رسول اللہ ﷺ کی امت کے اولیاء ) میں سب سے افضل ابو بکر ہیں پھر عمر ہیں پھر عثمان میں پھر علی میں رضی اللہ تعالی عنہم اور اس ناتو اں بندے کی ان گمراہوں کی رد میں ایک جامع کتاب ہے جو کافی اور مفصل اور تمام گوشوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے جسکا نام میں نے مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین رکھا

(المعتقد المنتقد ص286ملتقطا)

.

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اول روحانی خلیفہ و افضل تھے کئ اسلاف اہلسنت کے حوالاجات اور قرآن و حدیچ سے بعض دلائل ملاحظہ کیجیے

حق چار یار کی نسبت سے چار قرآنی دلائل

①القرآن..سورہ توبہ...ایت40

استدل أهل السنة بالآية على أفضلية أبي بكر

 علمائے اہلسنت نے اس آیت مبارکہ سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت ثابت کی ہے

(تفسير النيسابوري = غرائب القرآن ورغائب الفرقان3/471)


.

②القرآن...سورہ حدید...ایت10

فيها دليل واضح على تفضيل أبي بكر وتقديمه

اس ایت میں واضح دلیل ہے کہ سیدنا ابوبکر انبیاء و رسل کے بعد سب سے افضل ہیں اور خلافت محمدی میں پہلے خلیفہ ہیں

(اللباب في علوم الكتاب18/462)


.

③القرآن..سورہ لیل...آیت17

وَثَبَتَ دَلَالَةُ الْآيَةِ أَيْضًا عَلَى أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَفْضَلُ الْأُمَّةِ

  اس آیت مبارکہ کی دلالت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق اس امت میں سب سے افضل ہیں

(تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير31/188)


.

④القران..سورہ نور...آیت22

وهذا يدل على أنه كان أفضل الناس بعد الرسول

 یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ہیں

(اللباب في علوم الكتاب14/335)

.

چاروں حوالہ جات میں دوٹوک لکھا ہے کہ سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.===============

سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے افضل ہونے اولین قطب و روحانی خلیفہ ہونے کے متعلق چند احادیث مبارکہ بمع شرح اور اقوال صحابہ و تابعین........!!*

.①مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ ". فَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ فَصَلَّى

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابوبکر کو کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے تو سیدنا ابو بکر نکلے اور نماز پڑھانا شروع کی

(بخاری حدیث664)

.

والإمامة الصغرى تدل على الكبرى، ومطابقة الحديث للترجمة ظاهرة، فإن أبا بكر أفضل الصحابة، وأعلمهم وأفقههم 

 اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ جب نماز میں سیدنا ابوبکر صدیق زیادہ مستحق ہیں تو بڑی امامت(روحانی و سیاسی خلافت) میں بھی وہ سب سے زیادہ حقدار ہیں، اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق تمام صحابہ میں سب سے زیادہ افضل تھے سب سے زیادہ علم والے تھے سب سے زیادہ فقہ و سمجھ والے تھے

(ارشاد الساری شرح بخاری2/43)


.

②لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِي خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ، وَلَكِنْ أَخِي وَصَاحِبِي

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں کسی امتی کو خلیل بناتا تو ابوبکر صدیق کو خلیل بناتا لیکن وہ میرے بھائی ہیں اور میرے خاص ساتھی ہیں

(بخاری حدیث3656)

.

وَفِي الْجُمْلَةِ هَذَا الْحَدِيثُ دَلِيلٌ ظَاهِرٌ عَلَى أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَفْضَلُ الصَّحَابَةِ

  لیکن بحرحال یہ حدیث دلیل ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق تمام صحابہ سے افضل تھے

(مرقاۃ شرح مشکواۃ9/3885)

.

③مِنَ الرِّجَالِ ؟ قَالَ : " أَبُوهَا ". قُلْتُ : ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ : " عُمَرُ "

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مَردوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے آپ نے فرمایا عائشہ کا والد(یعنی سیدنا ابوبکرصدیق) میں نے کہا کہ پھر کون فرمایا پھر عمر

(مسلم حدیث2384)

.

وَفِيهِ دَلَالَةٌ بَيِّنَةٌ لِأَهْلِ السُّنَّةِ فِي تَفْضِيلِ أَبِي بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرَ عَلَى جَمِيعِ الصَّحَابَةِ

 اس حدیث پاک میں ہم اہلسنت کے لیے واضح دلیل ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق سب سے افضل ہیں اس کے بعد سیدنا عمر سب سے افضل ہیں

(شرح مسلم امام نووی15/153)

.

④فَوُزِنْتَ أَنْتَ وَأَبُو بَكْرٍ فَرَجَحْتَ أَنْتَ بِأَبِي بَكْرٍ، وَوُزِنَ عُمَرُ وَأَبُو بَكْرٍ فَرَجَحَ أَبُو بَكْرٍ، وَوُزِنَ عُمَرُ وَعُثْمَانُ فَرَجَحَ عُمَرُ

 ایک شخص نے عرض کی کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ترازو لایا گیا اور اس میں آپ کو وزن کیا گیا اور ابو بکر کو وزن کیا گیا تو آپ کا پلڑا بھاری رہا... پھر ابوبکر اور عمر کو وزن کیا گیا تو ابوبکر کا پلڑا بھاری رہا پھر عمر اور عثمان کو وزن کیا گیا تو عمر کا پلڑا بھاری رہا

(ابوداؤد حدیث تقریری4634)

.

ومعنى رجحان كل من الآخر أن الراجح أفضل من المرجوح

 اس حدیث کا یہ معنی ہے کہ جس کا پلڑا بھاری رہا وہ افضل ہے( لہذا سیدنا ابوبکر صدیق افضل ہیں اس کے بعد سیدنا عمر اس کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہم)

(عون المعبود شرح حدیث4634)


.

⑤وَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ : فَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جہاں تک تعلق ہے میرے زمین میں دو وزیروں کا تو وہ ابوبکر اور عمر ہیں

(ترمذی حدیث3680)

.

فِيهِ دَلَالَةٌ ظَاهِرَةٌ عَلَى فَضْلِهِمَا عَلَى غَيْرِهِمَا مِنَ الصَّحَابَةِ وَهُمْ أَفْضَلُ الْأُمَّةِ، وَعَلَى أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَفْضَلُ مِنْ عُمَرَ

 اس حدیث پاک میں واضح دلیل ہے کہ سیدنا ابوبکر اور عمر تمام صحابہ کرام سے افضل ہیں اور ساری امت سے افضل ہیں اور سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سے افضل ہیں

(مرقاۃ شرح مشکواۃ9/3915)

.

سیدنا ابوبکر صدیق کی افضلیت پر تو احادیث بہت ہیں حتی کہ بعض علماء نے250سے زائد تخریج فرمائیں مگر ہم نے تبرکا چند مشھور احادیث لکھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.

*صحابہ کرام کے مطابق افضل کون.....؟؟*

حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «كُنَّا نُخَيِّرُ بَيْنَ النَّاسِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنُخَيِّرُ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ، ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ»

ترجمہ

ہم صحابہ کرام لوگوں کے درمیان فضیلت دیتے تھے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارک میں تو ہم فضیلت دیتے تھے سب سے پہلے ابو بکر صدیق کو پھر سیدنا عمر کو پھر عثمان بن عفان کو ُ(پھر سیدنا علی کو) 

[صحيح البخاري ,5/4روایت3655]


.


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: إِنَّ ابْنَ عُمَرَ قَالَ: كُنَّا نَقُولُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ: «أَفْضَلُ أُمَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَهُ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ»

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہیں میں ہم صحابہ کرام کہا کرتے تھے کہ کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد  اس امت میں سب سے پہلے افضل ابوبکر صدیق ہے پھر سیدنا عمر سیدنا عثمان(پھر سیدنا علی)

[سنن أبي داود ,4/206روایت4628]


.

حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ , ثنا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ الْخَزَّازُ , عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنَّا  مَعْشَرَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ مُتَوَافِرُونَ نَقُولُ:أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ

ترجمہ:

ہم صحابہ کہا کرتے تھے کہ

نبی پاک کے بعد تمام امت میں سے سب سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر

(بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث2/888 روایت959)

صحابہ کرام کے یہ بعض اقوال ہم نے لکھے جن سے دوٹوک ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے مطابق

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.

*سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مطابق افضل کون......؟؟*

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:

خير الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم أبو بكر، وخير الناس بعد أبي بكر عمر

ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں سے بہتر.و.افضل ابوبکر ہیں اور ابوبکر کے بعد سب لوگوں سے بہتر.و.افضل عمر ہیں...(ابن ماجہ روایت نمبر106)


.

علی...افْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، وَبَعْدَ أَبِي بَكْرٍ، عُمَرُ

سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ نبی پاک کے بعد تمام امت میں سے سب سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر

(مسند احمد2/201)


.

خَطَبَنَا عَلِيٌّ، فَقَالَ: " مَنْ خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا؟ " فَقُلْتُ: أَنْتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ: " لَا خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ

سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے خطبہ دیا اور ہم سے پوچھا کہ اس امت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے راوی کہتا ہے کہ میں نے کہا آپ امیر المومنین....تب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ نہیں میں(علی سب سے افضل)نہیں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے بہترین اور افضل ترین شخص ابوبکر صدیق ہیں پھر عمر ہیں

[مسند أحمد ط الرسالة ,2/201 روایت834]

.

لقد تواتر عن أمير المؤنين علي رضي الله عنه أنه كان يقول على منبر الكوفة: خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر ثم عمر روى المحدثون والمؤرخون هذا عنه من أكثر من ثمانين وجها. ورواه البخاري وغيره. وكان علي رضي الله عنه يقول: لا أوتي بأحد يفضلني على أبي بكر وعمر إلا ضربته حد المفتري.

ولهذا كان الشيعة المتقدمون متفقين على تفضيل أبي بكر وعمر. نقل عبد الجبار الهمداني من كتاب: تثبيت النبوة أن أبا القاسم نصر بن الصباح البلخي قال في كتاب النقض على ابن الرواندي: سأل شريك بن عبد الله فقال له: أيهما أفضل: أبو بكر أو علي؟ فقال له: أبو بكر. فقال السائل: تقول هذا وأنت شيعي؟! فقال له: نعم: من لم يقل هذا فليس شيعيا!! والله لقد رقى هذه الأعواد على لقال: إلا أن خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر ثم عمر، فكيف نرد قوله، وكيف نكذبه؟ والله ما كان كذابا.

 خلاصہ:

یہ بات متواتر سے ثابت ہے کیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اس امت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ افضل ابو بکر ہیں پھر عمر۔۔۔حضرت علی کی یہ روایت قریبا 80 طرق سے مروی ہے

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے تھے کہ جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دے گا میں اسے بہتان باندھنے والے کی سزا دوں گا۔۔۔حتی کہ متقدمین شیعہ بھی یہ اعتقاد  رکھتے تھے کہ سب سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر

ہمدانی نے کتاب النقض کے حوالے سے لکھا ہے کہ شریک نے  سوال کیا کہ کون افضل ہے ابوبکر یا علی تو جواب دیا ابو بکر....سائل نے کہا کہ تم شیعہ ہو کر یہ بات کرتے ہو۔۔۔؟

آپ نے فرمایا جو حضرت ابوبکر صدیق کی فضیلت نہ دےوہ(اصلی) شیعہ ہی نہیں کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کئی بار اس ممبر پر چڑھے اور فرمایا کہ امت میں سب سے افضل ابوبکر صدیق پھر عمر ہیں ہم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بات کو کیسے جھٹلا سکتے ہیں.....؟؟ 

[العواصم من القواصم ط دار الجيل ,page 274]

.

سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے دوٹوک فرما دیا کہ

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے


.

الحدیث التقریری:

كُنَّا نَقُولُ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ: أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَيَسْمَعُ ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يُنْكِرُهُ

ہم صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی کہا کرتے تھے کے اس امت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ افضل ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان ہیں ( پھر سیدنا علی) حضور علیہ السلام یہ سنتے تھے اور اس کا انکار نہ فرماتے تھے 

[المعجم الكبير للطبراني ,12/285حدیث13132]

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.===============

*سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے افضل ہونے اولین قطب و روحانی خلیفہ ہونے کے متعلق کئ علماء ائمہ اولیاء صوفیاء کے اقوال ہیں، سب کو جمع کیا جائے تو ضخیم کتاب مجلدات بن جائیں...اختصار کے ساتھ چند مشھور اسلاف کے اقوال پڑہیے....!!*

*امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں*

وَأفضل النَّاس بعد النَّبِيين عَلَيْهِم الصَّلَاة وَالسَّلَام أَبُو بكر الصّديق ثمَّ عمر بن الْخطاب الْفَارُوق ثمَّ عُثْمَان بن عَفَّان ذُو النورين ثمَّ عَليّ بن أبي طَالب المرتضى رضوَان الله عَلَيْهِم أَجْمَعِينَ

 انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر ہیں پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین

(الفقه الاكبر ص41)

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.

*امام شافعی کا عقیدہ*

سمعت أبا عبد اللَّه يقول في التفضيل: أبو بكر، ثم عمر،

 راوی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ افضلیت میں سیدنا ابوبکر سب سے افضل ہیں اس کے بعد سیدنا عمر ہیں

( الجامع لعلوم الإمام أحمد - العقيدة4/289)

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.

فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ عَلِيَّ بنَ أَبي طالبٍ أَفْضَلُ من أَبِي بَكْرٍ قد رَدَّ الكِتابَ والسُّنَّة

 امام شافعی فرماتے ہیں کہ جس نے یہ گمان کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں تو اس نے کتاب و سنت کو رد کردیا

(الجامع لعلوم الإمام أحمد - العقيدة3/41)

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.

*ابن جوزی ابن مفلح اور  امام احمد کا عقیدہ*

 وأفضلُ الناس بعدَ رسول الله أبو بكر وعُمر وعثمان وعَلي

 تمام لوگوں میں سب سے زیادہ افضل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر ہیں پھر عمر ہیں پھر عثمان پھر علی ہیں

(مناقب الإمام أحمد ص239)

(المقصد الارشد1/317نحوہ)

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے


.

*امام مالک کا نظریہ*

سئل مالك من أفضل الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ وقال مالك أبو بكر ثم قال ثم من؟ قال عمر ثم قال ثم من؟ قال عثمان

 امام مالک سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے تو امام مالک نے فرمایا ابوبکر صدیق ہیں پھر اس کے بعد عمر ہے پھر اس کے بعد عثمان ہیں

(ترتيب المدارك وتقريب المسالك45، 2/46)

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.

*امام غزالی کا نظریہ*

 وأن أفضل الناس بعد النبي صلى الله عليه وسلم أبو بكر ثم عمر ثم عثمان ثم علي رضي الله عنهم وأن يحسن الظن بجميع الصحابة ويثني عليهم كما أثنى الله عز وجل ورسوله صلى الله عليه وسلم عليهم أجمعين (8) فكل ذلك مما وردت به الأخبار وشهدت به الآثار فمن اعتقد جميع ذلك موقناً به كان من أهل الحق وعصابة السنة وفارق رهط الضلال وحزب البدعة

یعنی

 بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر ہیں پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی ہیں رضی اللہ تعالی عنہم اور ہم پر لازم ہے کہ ہم تمام صحابہ کی تعریف و مدح سرائی کریں جیسے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول نے ان کی تعریف و مدح کی ہے یہ تمام باتیں وہ ہیں کہ جن کے متعلق احادیث اور آثار ہیں جو یہ اعتقاد رکھے گا وہ اہل سنت میں سے ہوگا اہل حق میں سے ہوگا اور گمراہوں اور بدعتوں سے دور ہوگا

(احیاء العلوم 1/93)

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.

*امام سيوطي کا نظریہ*

فَأَبُو بكر الصّديق أفضل الْبشر بعد الْأَنْبِيَاء فعمر بن الْخطاب بعده فعثمان بن عَفَّان بعده فعلي بن أبي طَالب بعده

 سیدنا ابوبکر صدیق تمام انبیاء کے بعد تمام لوگوں سے افضل ہیں اس کے بعد سیدنا عمر افضل ہیں ان کے بعد سیدنا عثمان افضل ہیں ان کے بعد سیدنا علی افضل ہیں رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین

(إتمام الدراية لقراء النقاية ص17)

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.

*پیران پیر دستگیر کا نظریہ*

غوث اعظم پیران پیر دستگیر فرماتے ہیں کہ تمام امتوں سے افضل امت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے، پھر امت محمدیہ میں سب سے افضل صحابہ ہیں اور صحابہ میں افضل عشرہ مبشر ہیں اور عشر مبشرہ میں سے افضل چار خلفاء ہیں اور چار خلفاء میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان پھر علی رضی اللہ تعالیٰ عنھم

وأفضل الأربعة أبو بكر ثم عمر ثم عثمان ثم علي -رضي الله تعالى عنهم

(غنیۃ الطالبین157, 1/158)

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.

*امام طحاوی کا نظریہ*

وَنُثْبِتُ الْخِلَافَةَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ أَوَّلًا لِأَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه تفضيلا له وتقديما على جميع الأمة ثُمَّ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه ثم لعثمان رَضِيَ اللَّهُ عَنْه ثُمَّ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه وهم الخلفاء الراشدون

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہم خلافت سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق کے لیے ثابت کرتے ہیں کیونکہ وہ سب سے افضل ہیں اور سب سے مقدم ہیں پھر اس کے بعد سیدنا عمر بھر اس کے بعد سیدنا عثمان پھر اس کے بعد سیدنا علی یہ تمام کے تمام خلفاء راشدین ہیں

(عقیدہ طحاویہ ص81)

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.

*امام ملا علی قاری کا نظریہ*

 يَنْبَغِي لِقَوْمٍ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَؤُمَّهُمْ غَيْرُهُ» ) . وَفِي مَعْنَاهُ مَنْ هُوَ أَفْضَلُ الْقَوْمِ مِنْ غَيْرِهِمْ، وَفِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ أَفْضَلُ جَمِيعِ الصَّحَابَةِ، فَإِذَا ثَبَتَ هَذَا فَقَدَ ثَبَتَ اسْتِحْقَاقُ الْخِلَافَةِ

 یہ جو حدیث پاک میں ہے کہ جس قوم میں ابوبکر ہو تو دوسرا کوئی امامت نہ کرائےاس حدیث پاک سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق تمام صحابہ سے افضل ہیں اور خلافت کے اولین مستحق ہیں

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح9/3888)

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.

*داتا علی ہجویری علیہ الرحمۃ کا نظریہ*

صدیق اکبر انبیاء کے بعد تمام بشروں سےافضل ہیں،اہل طریقت کے پیشوا خاص ہیں(کشف المحجوب ص174،175)داتا صاحب کے مطابق بھی سیدنا صدیق اکبر سیاسی و روحانی اول خلیفہ ہیں

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.===================

*سیدنا صدیق اکبر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی افضلیت اجماعی و قطعی ہے...چند حوالے ملاحظہ کیجیے.......!!*

وأجمعوا.... أبو بكر، ثم عمر، ثم عثمان، ثم علي - رضوان الله عليهم

 *امام ابو موسی اشعری* فرماتے ہیں کہ تمام کے تمام اہلسنت کا اجماع ہے متفقہ فیصلہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق سب سے افضل ہیں پھر سیدنا عمر ہیں پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی ہیں

(رسالة الي اهل الثغر ص170)

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.

وَمِنْ قَوْلِ أَهْلِ اَلسُّنَّةِ أَنَّ أَفْضَلَ هَذِهِ اَلْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّنَا صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، وَأَفْضَلَ اَلنَّاسِ بَعْدَهُمَا عُثْمَانُ وَعَلِيٌّ

 تمام اہل سنت کا نظریہ ہے کہ اس امت میں سب سے افضل شخص نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان اور سیدنا علی

(أصول السنة لابن أبي زمنين ص270)

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.

*علامہ امام عینی فرماتے ہیں*

ومذهب أهل السنة: أن أفضل الناس بعد نبينا -عليه السلام- أبو بكر، ثم عمر، ثم عثمان، ثم علي - رضي الله عنه

 تمام اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر ہیں پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی ہیں

( نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار16/498)

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.

*امام ابن ملقن فرماتے ہین*

قام الإجماع من أهل السنة والجماعة على أن الصديق أفضل الصحابة، ثم عمر

 اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ تمام صحابہ میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں اس کے بعد سیدنا عمر ہیں

(التوضيح لشرح الجامع الصحيح20/250)

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.

قال ابو الحسن الأشعري تفضيل ابى بكر على غيره من الصحابة قطعى قلت قد اجمع عليه السلف وما حكى عن ابن عبد البر ان السلف اختلفوا فى تفضيل ابى بكر وعلى فهو شىء غريب الفرد به عن غيره ممن هو أجل منه علما واطلاعا

 امام ابو الحسن اشعری فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق کی افضلیت قطعی ہے...صاحب تفسیر مظہری فرماتے ہیں کہ اس بات پر تمام اسلاف کا اجماع ہے اور وہ جو ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ کچھ اختلاف ہے تو یہ اختلاف شاذ ہے اختلاف کرنے والوں کی جلالت اور علم اور اطلاع ان علماء جیسی نہیں ہے کہ جنہوں نے قطعی قرار دیا ہے

(التفسير المظهري9/191)

 ثابت ہوا کہ اگرچہ تھوڑا سا اختلاف کا قول ہے لیکن ہم ان علماء کی معذرت پیش کر دیں گے کہ انہیں اطلاع نہیں پہنچی انہیں علم حاصل کم ہوا ان کی توجہ نہ گئی کہ مسئلہ افضلیت کو اختلافی کہہ گئے...اگر انہیں وسیع علم و اطلاع پہنچتی تو وہ بھی قطعی کا قول ہی فرماتے

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.

*امام قسطلانی فرماتے ہیں*

الأفضل بعد الأنبياء أبو بكر، وقد أطبق السلف على أنه أفضل الأمة. حكى الشافعي وغيره إجماع الصحابة والتابعين على ذلك

 انبیاء کرام کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں اس پراسلاف نے اجماع کیا ہے اور امام شافعی وغیرہ نے منقول کیا ہے کہ اس بات پر صحابہ اور تابعین کا بھی اجماع ہے

(ارشاد الساری شرح بخاری6/85)


.

*علامہ ہاشم ٹھٹھوی سندھی فرماتے ہیں*

اقول لو اطلع هؤلاء على الاحاديث الكثيرة البالغة حد التواتر وعلى الاجماع الدالين على الترتيب المذكور لما قالوا بظنيتها اصلاً ولما قروا بقطعيتها حتما

 جن لوگوں نے سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی افضلیت کو ظنی کہا ان لوگوں کے علم میں اجماع اور وہ روایات نہ تھیں کہ جو تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور اگر انہیں سیدنا ابوبکر و عمر کی سیدنا علی وغیرہ سب پر افضلیت کی حد تواتر تک پہنچی ہوئی روایات پہنچتی اور  اجماع کا پتہ چلتا تو وہ کبھی بھی اس مسئلے کو ظنی قرار نہ دیتے بلکہ حتمی و قطعی اجماعی قرار دیتے

(الطریقۃ المحمدیۃ ص122..123)

.================

*سیدنا ابوبکر و عمر روحانی و سیاسی اولین خلیفہ تھے، قطب تھے،ولایت و کمالات کے جامع تھے...دوٹوک عبارتیں ملاحظہ کیجیے.....!!*

 اہلسنت کا عقیدہ وہی ہے جو صحابہ کرام اور اہل بیت کا تھا کہ پہلا نمبر ابو بکر صدیق کا...سیدنا علی کے مطابق بھی پہلا نمبر سیدنا ابوبکر صدیق کا ہے...احادیث میں مطلق فضیلیت و خلافت ہے اسے سیاسی اور روحانی میں تقسیم کرکے کہنا کہ صدیق و عمر سیاسی ظاہری خلیفہ تھے اور علی بلافصل دور صدیقی ہی سے روحانی خلیفہ تھے(جیسا کہ ڈاکٹر طاہر الکادری کے کلام سے ظاہر ہے دیکھیےانکی کتاب القول الوثیق ص41 اور چمن زمان کی کتاب بارہ امام)....ایسا کہنا اپنی طرف سے روایات میں زیادتی کے مترادف و مردود ہے....اہلسنت کے نظریہ ، اہل علم کے نظریہ کے خلاف ہے

.

اب ہم سولہ وہ حوالے نقل کر رہے ہیں جن میں دوٹوک لکھا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق اول روحانی و سیاسی خلیفہ تھے، اول قطب تھے..پھر سیدنا عمر روحانی و سیاسی خلیفہ تھے،قطب تھے....پھر سیدنا عثمان پھر سیدنا علی...رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین

*حوالہ:1*

و فی شرح المواهب اللدنية قال: أول من تقطب بعد النبی الخلفاء الأربعة على ترتيبهم في الخلافة، ثم الحسن هذا ما عليه الجمهور

شرح المواهب اللدنية میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے جو قطب(روحانی خلیفہ) ہیں وہ خلفائے اربعہ ہیں اس ترتیب پر جو ان کی خلافت کی ترتیب ہے یعنی سب سے پہلے قطب(روحانی و سیاسی خلیفہ) سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی قطب ہیں پھر سیدنا حسن(رضی اللہ تعالیی عنھم اجمعین)اور یہ وہ(نظریہ قول) ہے کہ جس پر جمہور(علماء اور صوفیاء)ہیں 

(جلاء القلوب2/265)

.

*حوالہ 2*

علامہ ابن رجب لکھتے ہیں:

لما انطوى بساط النبوة من الأرض بوفاة الرسول صلى الله عليه وسلم لم يبق على وجه الأرض أكمل من درجة الصديقية وأبو بكر رأس الصديقين فلهذا استحق خلافة الرسول

 جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے تو صدیقیت کے علاوہ کوئی بھی افضل درجہ نہ تھا اور  سیدنا  ابوبکر صدیق تمام صدیقوں کے سردار تھے اسی لیے خلافت(روحانی و سیاسی خلافت)کے مستحق ٹہرے

(لطائف المعارف ص104)

.

*حوالہ نمبر3*

صوفی امام شعرانی اور صوفی ابی مدین اور صوفی امام علی الخواص کا نظریہ:

ابی بکر الصدیق...وھو اول اقطاب ھذہ الامۃ و کذالک مدۃ خلافۃ عمر و عثمان و علی...وبلغنا مثل ذلك عن الشيخ ابن العربی فقلت لشيخنا فهل يشترط ان يكون القطب من اهل البيت كما قاله بعضهم فقال لا يشترط ذلك لأنها طريق وهب يعطيها الله تعالى لمن شاء

 سیدنا ابوبکر صدیق اس امت کے تمام قطبوں میں سے سب سے پہلے اولین قطب ہیں اور اسی طرح سیدنا عمر اپنی خلافت کے زمانے میں قطب تھے اور سیدنا عثمان بھی اپنی خلافت میں قطب تھے اور سیدنا علی اپنے خلافت کے زمانے میں قطب تھے، اسی طرح کا نظریہ ہمیں صوفی ابن مدین سے بھی ملا ہے، امام شعرانی فرماتے ہین کہ میں نے اپنے شیخ مرشد امام علی الخواص سے پوچھا کہ کیا قطب کے لیے اہلبیت نبوی میں سے ہونا شرط ہے جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں، آپ نے فرمایا شرط نہیں، قطبیت اللہ کی عطاء ہے جسے چاہے نوازے

(مجموع رسائل ابن عابدین 2/275)

.


*حوالہ نمبر 4*

وأول من تقطب بعد النبي يَةُ الخلفاء الأربعة على ترتيبهم في الخلافة، ثم الحسن، هذا ما عليه الجمهور

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے جو قطب(روحانی خلیفہ) ہیں وہ خلفائے اربعہ ہیں اس ترتیب پر جو ان کی خلافت کی ترتیب ہے یعنی سب سے پہلے قطب سیدناابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی قطب ہیں پھر سیدنا حسن(رضی اللہ تعالیی عنھم اجمعین)اور یہ وہ(نظریہ قول) ہے کہ جس پر جمہور(علماء اور صوفیاء)ہیں 

(مشتهى الخارف الجاني ص506)

.

*حوالہ نمبر 5*

علامہ مناوی فرماتے ہیں:

لكن حيث أطلق القطب لا يكون في الزمان إلا واحدا وهو الغوث، وهو سيد أهل زمنه وإمامهم، وقد يحوز الخلافة الظاهرة كما حاز الباطنة، كالشيخين والمرتضى والحسن و عبد العزيز رضي الله عنهم،

 قطب زمانے میں ایک ہوتا ہے اور اسے غوث بھی کہتے ہیں اور وہ  اپنے تمام زمانے والوں کا سردار و امام و افضل شخص ہوتا ہے...قطب  کبھی روحانی خلیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ  سیاسی خلیفہ بھی ہوتا ہے جیسے کہ سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا علی سیدنا حسن اور سیدنا عبد العزیز( یہ سب روحانی اور سیاسی دونوں قسم کے خلافت والے تھے)

(التوقیف ص58)

.

*حوالہ نمبر6*

وبعد عصرہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفتہ القطب، متفق علیہ بین اہل الشرع و الحکماء۔۔۔انہ قد یکون متصرفا ظاہرا فقط کالسلاطین و باطنا کالاقطاب و قد یجمع بین الخلافتین  کالخلفاء الراشدین کابی بکر و عمر بن عبدالعزیز

اور

حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارکہ کے بعد جو آپ کا خلیفہ ہوا وہی قطب ہے اس پر تمام اہل شرع(علماء صوفیاء)اور حکماء کا اتفاق ہے کہ خلیفہ کبھی ظاہری تصرف والا ہوتا ہے جیسے کہ عام بادشاہ اور کبھی فقط باطنی تصرف والا ہوتا ہے جیسے کہ قطب اور کبھی خلیفہ ایسا ہوتا ہے کہ جو ظاہری تصرف بھی رکھتا ہے اور باطنی تصرف بھی رکھتا ہے(وہ بادشاہ بھی ہوتا ہے اور قطب  و روحانی خلیفہ بھی ہوتا ہے)جیسے کہ خلفائے راشدین مثلا سیدنا ابو بکر صدیق اور عمر بن عبدالعزیز    

(نسیم الریاض3/30ملتقطا)

.

*حوالہ نمبر7*

شیخ الدقائق صوفی امام ابن عربی کا قول منقول ہے کہ:

ولكن الأقطاب المصطلح على أن يكون لهم هذا الإسم مطلقًا من غير إضافة لا يكون إلا واحد وهو الغوث أيضًا وهو سيد الجماعة في زمانه ومنهم من يكون ظاهر الحكم ويحوز الخلافة الظاهرة كما حاز الخلافة الباطنة كأبي بكر وعمر وعثمان وعلي رضوان الله تعالى عليهم

قطب زمانے میں ایک ہوتا ہے اور اسے غوث بھی کہتے ہیں اور وہ  اپنے تمام زمانے والوں کا سردار و امام و افضل شخص ہوتا ہے...قطب  کبھی روحانی خلیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ  سیاسی خلیفہ بھی ہوتا ہے جیسے کہ سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا علی( یہ سب روحانی اور سیاسی دونوں قسم کے خلافت والے تھے)

(الموسوعة الميسرة في تراجم أئمة التفسير والإقراء والنحو واللغة3/2530)

.

*حوالہ نمبر 8*

قطب.....وھو الغوث ایضا و ھو سید الجماعۃ فی زمانہ۔۔یحوز الخلافۂ الظاہریۃ کما حاز الخلافۃ الباطنیۃ کابی بکر و عمر و عثمان و علی رضوان اللہ تعالیٰ علھیم...و ذہب التونسی من الصوفیۃ الی ان اول من تقطب بعدہ صلی اللہ علیہ وسلم  ابنتہ فاطمۃ و لم ار لہ فی ذالک سلفا

قطب(روحانی خلیفہ) اس کو غوث بھی کہتے ہیں اور وہ اپنے زمانے میں تمام امتیوں کا سردار و افضل ہوتا ہے...خلیفہ کبھی ایسا ہوتا ہے جو ظاہری خلافت بھی پاتا ہے اور باطنی خلافت و قطبیت بھی پاتا ہے جیسے کہ سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر اور سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین اور صوفیاء میں سے تونسی اس طرف گئے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد اول قطب ان کی بیٹی فاطمہ ہے اور ہم اس مسئلہ میں ان کا کوئی ہمنوا و حوالہ نہیں پاتے  

(مجموع رسائل ابن عابدین 2/265ملتقطا)

.

*حوالہ نمبر 9*

سیدی امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ کا نظریہ

غوث(کو)قطب الاقطاب(بھی کہا جاتا) ہے

(فتاوی رضویہ28/373)

 امت میں سب سے پہلے درجہ غوثیت(روحانیت قطبیت) پر امیر المومنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ممتاز ہوئے...اسکے بعد امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غوثیت مرحمت ہوئی

(ملفوظات اعلی حضرت حصہ اول ص178)

یہی حق و صواب ہے، دلائل و اسلاف کے نظریہ کے مطابق ہے... اس کے برخلاف کچھ سیدی رضا کے کلام سے مفھوم ہو تو وہ مرجوع و کالعدم قرار پائے گا

.

*حوالہ نمبر10*

محدث مورخ صوفی ابن ابی الفتوح خرق متصلۃ بالنبی ابوبکر الصدیق ثم عمر...

 باطنی خلافت کا خرقہ(سلسلہ) جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے متصل ہوتا ہے اس میں سے پہلا خرقہ سیدنا ابوبکر صدیق کا ہے پھر سیدنا عمر کا ہے

(فھرس الفھارس و الاثبات2/914 ملخصا)

.

*حوالہ نمبر11*

قاضی ثناء اللہ پانی پتی کا نظریہ:

 شیخین(سیدنا ابوبکر و عمر)رضی اللہ تعالی عنہما کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا وزیر قرار دیا جس سے معلوم ہوا کہ وہ قطب ارشاد کمالات نبوت ہیں.. اسی لیے جمیع صحابہ حتی کہ خود حضرت علی افضلیت شیخین کے قائل تھے اور اسی پر اجماع کیا،بعد کے لوگوں نے...(السیف المسلول ص533)

.

*حوالہ نمبر12*

 حضرت خواجہ باقی باللہ نقشبندی فرماتے ہیں:

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قطب سیدنا ابوبکرصدیق ہیں قطب وہ ہے جو اپنے وقت میں واحد اور سب سے افضل ہوتا ہے، اس کے بعد سیدنا عمر قطب ہوئے اس کے بعد سیدنا عثمان اور اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ قطب ہیں....(مکتوبات خواجہ ص89..90ملخصا)

.

*حوالہ نمبر13*

خواجہ محمد پارسا  فرماتے ہیں:

 سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالئ عنہ  ولایت اور علم باطن میں سب سے زیادہ اکمل سب سے زیادہ افضل سب سے زیادہ علم والے اور تمام اولیاء امت سے بڑے و اعظم ہیں اور اس بات پر اجماع ہے..(رسالہ قدسیہ ص30 ملخصا)

.

*حوالہ نمبر14*

مرزا مظہر جانان فرماتے ہیں:

چاروں خلفاء( سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا علی) اور حضرت امام حسن میں یہ دونوں باتیں(ظاہری و باطنی خلافت) جمع تھیں...(مکتوبات مرزا مظہر جانان ص148)

.

*حوالہ نمبر15*

مجدد الف ثانی کا نظریہ بقول قاضی ثناء اللہ پانی پتی…!!

قاضی صاحب اپنا اور مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ کا نظریہ لکھتے ہیں کہ:

صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ (پھر)حضرت عمر رضی الله (پھر)حضرت عثمان غنی رضی اللہ اور(پھر) حضرت علی رضی اللہ کی جو بیعت کی تو اس بیعت سے مقصود کسب کمالات باطنی بھی مقصود تھا۔ (ارشاد الطالبين مترجم ص 16-17ملخصا) ثابت ہوا کہ سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر اولین روحانی خلیفہ بھی تھے اور ظاہری خلیفہ بھی تھے

نوٹ:

حوالہ نمبر10تا15کتاب الانوار الجلیہ سے لکھے ہیں...مزید تفصیل بھی مذکورہ کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے،میرے پاس pdf میں موجود نہیں

.

*حوالہ نمبر16*

*#امام اہلسنت مجدد دین و ملت پیکر عشق و محبت سیدی احمد رضا علیہ الرحمۃ نے ظاہری اور باطنی روحانی اول خلیفہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لکھا اور اس کو صحابہ کرام تابعین و اسلاف و امت کا اجماعی عقیدہ قرار دیا اور جو کہتے ہیں کہ باطنی اول خلیفہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں انہیں سیدی امام احمد رضا نے جھوٹے سنی اور گمراہ قرار دیا....متن اور اس پر سیدی امام احمد رضا کا حاشیہ پڑہیے......!!*

 امام بر حق رسول اللہ ﷺ کے بعد ابو بکر ، پھر عمر، پھر عثمان، پھر علی رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین ہیں، اور ( ان چاروں کی فضیلت [۳۱۶) ترتیب خلافت کے موافق ہے۔

(۳۱۶) اس حسین عبارت میں مصنف رحمہ اللہ تعالی علیہ نے ائمہ سابقین کی پیروی کی اور اس میں اس زمانے کے تفصیلیوں کا رد ہے جو جھوٹ اور بہتان کے بل پر سنی ہونے کے مدعی ہیں اس لئے کہ انہوں نے فضیلت میں ترتیب کے مسئلے کو ( ظاہر سے ) اس طرف پھیرا کہ خلافت میں اولیت (خلافت میں زیادہ حقدار ہونے ) کا معنی دنیوی خلافت کا زیادہ حقدار ہونا، اور یہ اس کے لئے ہے جو شہروں کے انتظام اور لشکر سازی، اور اس کے علاوہ دوسرے امور جن کے انتظام وانصرام کی سلطنت میں حاجت ہوتی ہے ان کا زیادہ جاننے والا ہو۔ اور یہ باطل خبیث قول ہے، صحابہ اور تابعین رضی اللہ تعالی عنہم کے اجماع کے خلاف ہے۔... اس لئے طریقہ محمدیہ وغیرہا کتابوں میں اہلسنت و جماعت کے عقیدوں کے بیان میں اس مسئلے کی تعبیر یوں فرمائی کہ اولیاء محمدیین ( محمد رسول اللہ ﷺ کی امت کے اولیاء ) میں سب سے افضل ابو بکر ہیں پھر عمر ہیں پھر عثمان میں پھر علی میں رضی اللہ تعالی عنہم اور اس ناتو اں بندے کی ان گمراہوں کی رد میں ایک جامع کتاب ہے جو کافی اور مفصل اور تمام گوشوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے جسکا نام میں نے مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین رکھا

(المعتقد المنتقد ص286ملتقطا)

.

سوال:

سیدہ طیہ طاہر فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا تو سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا جزو و جگر کا ٹکڑا ہے اس سے سیدنا صدیق اکبر سیدنا عمر سیدنا علی کیسے افضل ہوسکتے ہیں....؟؟

جواب:

پہلی بات:

سیدعالم کے تین بیٹے بھے تھے تو اس طرح کم از کم چوتھا نمبر افضلیت میں سیدہ فاطمہ کا آئے گا تمھارے حساب سے....؟؟

دوسری بات:

جزو ہونا فضیلت ہے مگر افضلیت کا دارومدار قومیت نسب پر نہیں

القرآن:

وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُم

ترجمہ:

میں(اللہ)نے تمہیں شاخیں اور قوم قبیلے نسب اس لیے بنایا تاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بے شک اللہ کے نزدیک عزت(افضلیت) والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار عبادت گذار نیکوکار ہو...(سورہ حجرات آیت13)

.

الحدیث:

ومن بطأ به عمله، لم يسرع به نسبه

جسکو اسکا عمل پیچھے کر دے اسے اسکا نسب آگے نہیں کرتا

(مسلم.حدیث نمبر2699)

اس آیت و حدیث پاک میں واضح اشارہ ہے کہ وڈیرے دولت شہرت طاقت نوابی، سید پاک ہونا، لیڈر ہونا، ڈان ہونا، صاحبزادہ ہونا،جج جرنیل ہونا،صحافی عالم مفتی مفکر مدبر دانشور واعظ سائنسدان کوئی بھی عھدہ طاقت قومیت ہو وہ سب پہچان کے لیے ہے کہ ہم تکبر کرتے ہیں یا نہیں، امتحان کے لیے ہے کہ اسے ہم اسلام کے لیے استعمال کرتے ہیں یا نہیں.....اصل عزت اوقات متقی پرہیزگار نیکوکار کی ہے، دولت طاقت شہرت سیادت علم بھی ہو تو نیکیاں کرنے سخاوت کرنے کسی مجبور کے کام آنے، خدمات کرنے کے لیے ہو، علم و مدارس جدت و ٹیکنالوجی میں مہارت کے لیے ہو کہ یہ بھی اسلام کی سربلندی کا ذریعہ ہیں.....!!

.

جو رافضی تفضیلی سیدنا ابوبکر اور عمر پر سیدنا علی کو فضیلت دے گا وہ بدعتی ہے گمراہ بدمذہب ہے اسے سزا دی جائے اس کا بائیکاٹ کیا جائے گا اسے سمجھایا جائے گا...کچھ دلائل و حوالے درج زیل ہیں......!!*

جو رافضی تفضیلی سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ پر سیدنا علی کو فضیلت دے وہ بدعتی بدمذہب گمراہ ہے......!!

وَمُبْتَدِعٌ إنْ فَضَّلَ عَلِيًّا عَلَيْهِمَا

 اگر رافضی تفضیلی سیدنا علی کو سیدنا ابوبکر صدیق و عمر پر فضیلت دے گا تو وہ بدعتی گمراہ بدمذہب کہلائے گا

(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر1/667)

.

وَإِنْ فَضَّلَ عَلِيًّا عَلَيْهِمَا فَمُبْتَدِعٌ

اگر رافضی تفضیلی سیدنا علی کو سیدنا ابوبکر صدیق و عمر پر فضیلت دے گا تو وہ بدعتی گمراہ بدمذہب کہلائے گا

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري5/136)

.

يُفَضِّلُ عَلِيًّا كَرَّمَ اللَّهُ تَعَالَى وَجْهَهُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ - لَا يَكُونُ كَافِرًا إلَّا أَنَّهُ مُبْتَدِعٌ

اگر رافضی تفضیلی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ پر فضیلت دیتا ہو تو وہ کافر نہیں ہے مگر بدعتی گمراہ بدمذہب ہے

(فتاوی عالمگری...الفتاوى الهندية ,2/264)

.

حضرت امیر المومنین سیدنا مولٰی علی کرم ﷲ وجہہ الکریم کو حضرت شیخین رضی ﷲ تعالٰی عنہما سے افضل بتانا رفض و بد مذہبی ہے(فتاوی رضویہ6/442)

.

*بدعتی کا حکم ہے کہ سمجھایا جائے، تعزیری تادیبی سزا بادشاہ اسلام دے اور بائیکاٹ کیا جائے.....!!*

الْقُهُسْتَانِيُّ وَلَا تُوضَعُ عَلَى الْمُبْتَدِعِ، وَلَا يُسْتَرَقُّ وَإِنْ كَانَ كَافِرًا لَكِنْ يُبَاحُ قَتْلُهُ إذَا أَظْهَرَ بِدْعَتَهُ، وَلَمْ يَرْجِعْ عَنْ ذَلِكَ وَتُقْبَلُ تَوْبَتُهُ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تُقْبَلُ تَوْبَةُ الْإِبَاحِيَّةِ وَالشِّيعَةِ وَالْقَرَامِطَةِ وَالزَّنَادِقَةِ مِنْ الْفَلَاسِفَةِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إنْ تَابَ الْمُبْتَدِعُ قَبْلَ الْأَخْذِ وَالْإِظْهَارِ، تُقْبَلُ وَإِنْ تَابَ بَعْدَهُمَا لَا تُقْبَلُ

 بدعتی فساد پھیلائے اگر اسے سزا کے لیے پکڑنے سے پہلے وہ توبہ کرلے تو بعض نے فرمایا سزا معاف ہے بعض نے فرمایا نہیں... بدعتی کو سمجھایا جائے گا اس پر جزیہ وغیرہ نہ رکھا جائے گا اور اسے غلام نہ بنایا جائے گا

(حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي4/199)

.

فِيهِ زَجْرٌ وَتَأْدِيبٌ وَلَوْ بِالْقَتْلِ، كَمَا قَالُوا فِي اللُّوطِيِّ وَالسَّارِقِ وَالْخَنَّاقِ إذَا تَكَرَّرَ مِنْهُمْ ذَلِكَ حَلَّ قَتْلُهُمْ سِيَاسَةً وَكَمَا مَرَّ فِي الْمُبْتَدِعِ

 بدعتی اگر بار بار فساد پھیلائے تو بادشاہ اسلام کے لیے سیاستاً اس کا قتل کرنا جائز ہے ورنہ اسے سمجھایا جائے گا اسے ڈانٹا جائے گا

(كتاب حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي4/15)

.

يَجِبُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ مِنْ أُولِي الأَْمْرِ وَغَيْرِهِمْ أَنْ يَأْمُرُوا أَهْل الْبِدَعِ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَيَحُضُّوهُمْ عَلَى اتِّبَاعِ السُّنَّةِ وَالإِْقْلاَعِ عَنِ الْبِدْعَةِ وَالْبُعْدِ عَنْهَا. لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}........الْمَنْعُ بِالْقَهْرِ، مِثْل كَسْرِ الْمَلاَهِي وَتَمْزِيقِ الأَْوْرَاقِ وَفَضِّ الْمَجَالِسِ.التَّخْوِيفُ وَالتَّهْدِيدُ بِالضَّرْبِ الَّذِي يَصِل إِلَى التَّعْزِيرِ، وَهَذِهِ الْمَرْتَبَةُ لاَ تَنْبَغِي إِلاَّ لِلإِْمَامِ أَوْ بِإِذْنِهِ؛ لِئَلاَّ يَتَرَتَّبَ عَلَيْهَا ضَرَرٌ أَكْبَرُ مِنْهَا

 بدعتیوں کو سمجھایا جائے گا برائی سے روکا جائے گا بدعتوں سے روکا جائے گا جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ تم میں سے ایک قوم ہو کہ جو بھلائی کی طرف بلائے اور برائی سے روکے.. اور اس کے علاوہ زبردستی روکنا ان کو ڈانٹنا ان کو سزا دینا امام وقت بادشاہ وقت یا اسکے نائب(علماء اہلسنت میں سے اکابرین) کے حکم سے جائز ہے... ہر آدمی کو اجازت نہیں تاکہ فساد نہ پھیلے

(موسوعہ فقہیہ کوئیتیہ8/40)

.

لِأَنَّهُ الَّذِي يُقِيمُ الْحُدُودَ فِي الْعَادَةِ

عموما سزائیں دینا عام طور پر قاضی کا ہی کام ہے(کچھ استثنائی صورتوں میں عام ادمی بھی سزا دے سکتا ہے)

 (رد المحتار ,6/140)

.

*سمجھانے ورنہ بائیکاٹ کرنے کا حکم.......!!*

بدمذہب گمراہ یا کافر مرتد زندیق  کی صحبت یاری دوستی میل جول کھانا پینا اکھٹے کرنا انکی مجلس محفل میں شرکت کرنا سب جائز نہیں...ان  سے انکی محفلوں مجلسوں سے دور رہنا لازم ہے، بائیکاٹ کرنا لازم ہے...سمجھانے کے ساتھ ساتھ مجرموں گستاخوں بدمذہبوں سے سلام دعا کلام ، کھانا پانی ، میل جول ، شادی بیاہ نماز وغیرہ میں شرکت نہ کرنے، انکی مذمت کرنے کرتوت بیان کرنے بائیکاٹ کرنے کے دلائل یہ ہیں

القرآن:

فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ  الذِّکۡرٰی  مَعَ الۡقَوۡمِ  الظّٰلِمِیۡنَ

یاد آجانے(دلائل آجانے)کے بعد تم ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھو(نہ میل جول کرو، نہ انکی محفل مجلس میں جاؤ، نہ کھاؤ پیو، نہ شادی بیاہ دوستی یاری کرو)

(سورہ انعام آیت68)

.

الحدیث:

[ ایاکم و ایاھم لا یضلونکم و لا یفتنونکم ]

’’گمراہوں،گستاخوں، بدمذہبوں سے دور بھاگو ، انہیں اپنے سے دور کرو(سمجھانے کے ساتھ ساتھ قطع تعلق و بائیکاٹ کرو کہ) کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں‘‘(صحیح مسلم1/12)

.

ایک امام نےقبلہ کی طرف تھوکا،رسول کریمﷺنےفرمایا:

لایصلی لکم

ترجمہ:

وہ تمھیں نماز نہیں پڑھا سکتا

(ابوداؤد حدیث481، صحیح ابن حبان حدیث1636,

مسند احمد حدیث16610 شیعہ کتاب احقاق الحق ص381)

.

الحدیث:

فَلَا تُجَالِسُوهُمْ، وَلَا تُؤَاكِلُوهُمْ، وَلَا تُشَارِبُوهُمْ، وَلَا تُنَاكِحُوهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا مَعَهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا عَلَيْهِمْ

ترجمہ:

بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ میل جول نہ رکھو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان سے شادی بیاہ نہ کرو، ان کے معیت میں(انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو

(السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/483حدیث769)

.

الحدیث:

فلا تناكحوهم ولا تؤاكلوهم ولا تشاربوهم ولا تصلوا معهم ولا تصلوا عليهم

ترجمہ:

بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ شادی بیاہ نہ کرو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان کے معیت میں (انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو

(جامع الأحاديث ,7/431حدیث6621)

.

سوال:

علامہ صاحب شیعہ حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ جو کہا جاتا ہے کہ سیدنا علی نے فرمایا کہ مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دیگا اسے کوڑے ماروں گا، شیعہ کہتے ہیں کہ یہ روایت جھوٹی ہے، خود اہلسنت کتب میں لکھا ہے کہ یہ ثابت نہیں....اسکا تحقیقی تفصیلی مدلل جواب لکھ بھیجیے

.

*جواب.و.تحقیق......!!*

 پہلے پہل تو ہم نے سمجھا کہ یہ کسی شیعہ کا ہوائی فائر ہے لیکن جب شیعہ کتب میں دیکھا تو شیعہ محقق مجلسی اس روایت کے متعلق لکھتا ہے

 إنما روى هذا الحديث سويد بن غفلة وقد أجمع أهل الآثار على أنه كان كثير الغلط...

 سیدنا علی کے فرمان کو سوید بن غفلہ نے روایت کیا ہے اور اہل اثار کا اتفاق ہے کہ سوید بن غفلہ بہت زیادہ غلطیاں کرتا تھا(یعنی یہ مردود غیر ثقہ راوی ہے)

(شیعہ کتاب بحار الانوار10/377)

.

*ہم اہلسنت کا جواب*

 شیعوں. کی مکاری اور دھوکہ دہی ہے... کیونکہ شیعہ محققین کے مطابق بھی سوید بن غفلہ ثقہ معتبر راوی ہے

.

- سويد بن غفلة " عفلة ": من أصحاب علي بل من أولياءه كما قاله المفيد والبرقي - ومن أصحاب الحسن روى في تفسير القمي " فهو ثقة

 سوید بن غفلہ سیدنا علی کے اولیاء اصحاب  میں سے ہے اور شیخ قمی نے فرمایا ہے کہ یہ ثقہ معتبر راوی ہے

(شیعہ کتاب المفيد من معجم رجال الحديث - محمد الجواهري ص272)

.

شیعہ شیخ محقق میلانی کہتا ہے

لا أوتين بأحد يفضلني على أبي بكر وعمر إلا جلدته حد المفتري .... فقد وضعوا على الإمام أمير المؤمنين عليه السلام أشياء في حق الأصحاب وفي خصوص الشيخين، منها هذا الكلام الذي استند إليه ابن تيمية في غير موضع من (منهاج السنة) من غير سند ولا نقل عن كتاب معتبر عندهم

 میلانی کہتا ہے کہ وہ جو  روایت ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دے گا اسے میں جھوٹے بہتان والی سزا یعنی 80 کوڑے ماروں گا تو یہ امیر المومنین حضرت علی پر جھوٹ باندھا گیا ہے... ابن تیمیہ نے اس روایت کو بغیر کسی سند کے بغیر کسی معتبر عند اہل السنۃ حوالے کے لکھا ہے

(شیعہ کتاب نفحات الأزهار 2/366)

 

.

*ہم اہلسنت کا جواب.....!!*

 دعویٰ تو یہ کر رہے ہیں کہ اہل سنت نے جھوٹی من گھڑت روایت لکھی  ہے لیکن دلیل میں صرف ابن تیمیہ کا حوالہ،ابن تیمیہ تو معتبر اہلسنت ہی نہیں، اہلسنت کی کتب دیکھی ہوتی ٹٹولی ہوتیں تو پتہ چل جاتا کہ یہ روایت اہلسنت کتب میں سند کے ساتھ اور حوالے کے ساتھ لکھی ہوئی ہے... خیر تم نے حوالہ ابن تیمیہ کا مانگا ہے تو ابن تیمیہ مذکورہ روایات لکھنے کے بعد انکا حوالہ دینے کے لیے لکھتا ہے

رواهما عبد الله بن أحمد وروى ذلك ابن بطة اللالكائي من حديث سويد بن غفلة عن علي في خطبة طويلة خطبها.

وروى الإمام أحمد بإسناد صحيح عن ابن أبي ليلى

 حضرت علی نے جو فرمایا ہے کہ مجھے ابوبکر اور عمر پر جو فضیلت دے گا اسے 80 کوڑے ماروں گا اس روایت کو امام احمد بن حنبل کے بیٹے عبد اللہ نے روایت کیا ہے اور اللالكائي نے روایت کیا ہے سوید بن غفلہ سے اور سیدنا عمر سے بھی مروی ہے

(الصارم المسلول ابن تيميه ص585)

 دیکھا ابن تیمیہ اس روایت کا حوالہ فضائل صحابہ امام احمد بن حنبل کے بیٹے کی کتاب کا دے رہا ہے اور ابن بطة اللالكائي کی کتاب کا حوالہ دے رہا ہے اور ان دونوں کتابوں میں اس کی سند موجود ہے... لہذا یہ جھوٹ بھی شیعہ کا نہ چلا

.

*#سیدنا_علی رضی اللہ تعالی عنہ سے جو روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جو مجھے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہما پر فضیلت دے گا میں اسے جھوٹ و بہتان باندھنے والے کی سزا یعنی 80 کوڑے ماروں گا...اس روایت کی تحقیق........!!*

شیعہ کا موقف:

 اوپر شیعہ کا موقف لکھا جا چکا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ روایت موضوع ومن گھڑت جھوٹی ہے اس کا کوئی حوالہ نہیں ہے اس کا کوئی سند نہیں ہے

.

*#ہم_اہلسنت_کا_موقف.....!!*

اس سلسلے میں مجھے انیس حوالے باسند ملے...ان میں سے جو ہم پہلی روایت و حوالہ  پیش کریں گے وہ یا تو صحیح ہے ورنہ کم از کم حسن معتبر ضرور ہے کہ سب راویوں کو ثقہ تو کہا گیا ہے لیکن اکا دوکا ناقدین نے بعض راویوں کو ثقہ کہنے کے ساتھ ساتھ بڑھاپے میں تغیر یا لایتابع جیسی خفیف جرح بھی ہے تو ثقہ ہیں لیکن صحیح روایت کے ثقہ راویوں سے کم اور ضعیف راویوں سے اوپر درجے کے راوی ہیں

لیکن

دیگر روایات کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ روایت صحیح معتبر کہلائے گی ورنہ کم از کم حسن معتبر تو ضرور ہے کہ اگر سب روایات کو ضعیف مان بھی لیا جائے تو بھی تعدد طرق مختلف سندوں کی وجہ سے حسن معتبر ہے

.

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سیدنا سوید یا زید یا أبو الزَّعْرَاء نے روایت کی ہے اور سیدنا الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ نے بھی سیدنا علی سے ایسی روایت کی ہے اور سیدنا علقمہ نے بھی سیدنا علی سے ایسی روایت کی ہے

اور

ایسا حکم سیدنا عمر سے بھی مروی ہے لیھذا یہ حکم صحیح معتبر یا حسن معتبر روایت سے ثابت شدہ کہلائے گا اگرچہ سندوں کو ضعیف مان لیا جائے تو بھی ضعیف مل کر حسن معتبر روایت بن جاتی ہے

.

*#قاعدہ…..ضعیف احادیث و روایات مل کر حسن معتبر قابل دلیل بن جاتی ہیں.....!!*

وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن

تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور(حدیث و روایت کا) متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے

(شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)

لِأَنَّ كَثْرَةَ الطُّرُقِ تُقَوِّي

کثرت طرق(تعدد طرق)سے روایت و حدیث کو تقویت ملتی ہے(اور ضعف ختم ہوجاتا ہے)

(تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ,1/179)

أن تعدد الطرق، ولو ضعفت، ترقي الحديث إلى الحسن

بےشک تعدد طرق سے ضعیف روایت و حدیث حسن و معتبر بن جاتی ہے(اللؤلؤ المرصوع ص42)


.

لِلصَّحِيحِ وَالْحَسَنِ، لِصَلَاحِيَتِهِمَا لِلِاحْتِجَاجِ

 صحیح اور حسن حدیث و روایت دلیل بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں

(سیوطی... تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي1/195)

.

*#حوالہ_1.....!!*

أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ غَالِبٍ الْخُوَارَزْمِيُّ، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَمْدَانَ النَّيْسَابُورِيُّ بِخُوَارَزْمَ: قَالَ: أَمْلَى عَلَيْنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبُوشَنْجِيُّ، ثنا أَبُو صَالِحٍ الْفَرَّاءُ مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، ثنا شُعْبَةُ , عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ , عَنْ أَبِي الزَّعْرَاءِ , أَوْ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ , أَنَّ سُوَيْدَ بْنَ غَفَلَةَ الْجُعْفِيَّ , دَخَلَ عَلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي إِمَارَتِهِ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنِّي مَرَرْتُ بِنَفَرٍ يَذْكُرُونَ أَبَا بَكْرٍ , وَعُمَرَ بِغَيْرِ الَّذِي هُمَا لَهُ أَهْلٌ مِنَ الْإِسْلَامِ , لِأَنَّهُمْ يَرَوْنَ أَنَّكَ تُضْمِرُ لَهُمَا عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ , وَإِنَّهُمْ لَمْ يَجْتَرِئُوا عَلَى ذَلِكَ إِلَّا وَهُمْ يَرَوْنَ أَنَّ ذَلِكَ مُوَافِقٌ لَكَ , وَذَكَرَ حَدِيثَ خُطْبَةِ عَلِيٍّ وَكَلَامِهِ فِي أَبِي بَكْرٍ , وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ , وَقَوْلِهِ فِي آخِرِهِ " أَلَا: وَلَا يَبْلُغُنِي عَنْ أَحَدٍ يُفَضِّلُنِي عَلَيْهِمَا إِلَّا جَلَدْتُهُ حَدَّ الْمُفْتَرِي " قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْبُوشَنْجِيُّ: هَذَا الْحَدِيثُ الَّذِي سُقْنَاهُ وَرَوَيْنَاهُ مِنَ الْأَخْبَارِ الثَّابِتَةِ , لِأَمَانَةِ حُمَّالِهِ , وَثِقَةِ رِجَالِهِ

 سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کی کہ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ سیدنا ابوبکر و عمر پر طعن تنقیص گستاخی کر رہے تھے، ان کا خیال ہے کہ آپ بھی دل میں یہی بات رکھتے ہیں..... سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے متعلق ایسی کوئی بات دل میں نہیں رکھتا... جو مجھے سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ تعالی عنہما پر فضیلت دے گا تو اسے میں جھوٹ اور بہتان باندھنے والے شخص والی سزا دوں گا یعنی 80 کوڑے ماروں گا

الْبُوشَنْجِيُّ اور خطیب بغدادی کے مطابق اس روایت کے تمام راوی ثقہ معتبر ہیں

(الکفایۃ خطیب بغدادی ص376)

.

اس حوالے و روایت کی سند کے راویوں کا احوال درج ذیل ہے

*پہلا راوی... احمد بن محمد خوارزمی برقانی*

أبو بكر أحمد بن محمد بن غالب الخوارزمي، الفقيه، الحافظ

احمد بن محمد خوارزمی برقانی حافظ الحدیث فقیہ  ہے(معتبر ثقہ ہے)

( الأربعون على الطبقات لعلي بن المفضل المقدسي ص447)

.

قَالَ الخَطِيْبُ:كَانَ البَرْقَانِيُّ ثِقَةً وَرِعاً ثَبْتاً فَهماً

 خطیب بغدادی فرماتے ہیں کہ برقانی ثقہ راوی ہے متقی پرہیزگار ہے علم و فہم و فقہ والا ہے 

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة17/465)

.

*دوسرا راوی....ابن حمدان حیری*

 مُحَمَّدُ بنُ أَحْمَدَ بنِ حَمْدَانَ بن علي بن عبد الله بن سنان، أبو العباس الحيري النيسابوري، محدث خوارزم 

 محمد بن احمد بن حمدان بن علی بن عبداللہ بن سنان ابو العباس حیری نیشاپوری  خوارزم کا محدث(ثقہ معتبر) ہے

(سير أعلام النبلاء - ط الحديث17/234)

.

*تیسرا راوی البوشنجيّ*

أبو عبد الله البوشنجيّ محمد بن إبراهيم بن سعيد بن عبد الرحمن بن موسى، أبو عبد الله، العبديّ، البوشنجيّ، الماسونيّ الفقيه، الأديب، أحد الفقهاء والحفّاظ العلماء، شيخ أهل الحديث في عصره

ابو عبداللہ البوشنجيّ فقیہ ہے ادیب ہے حافظ الحدیث عالم ہے

 اپنے وقت کے محدثین کے شیوخ میں سے ہے

(كتاب المقفى الكبير5/58)

.

محمد بن إبراهيم بن سعيد بن عبد الرحمن البُوْشَنْجي: ثقة حافظ فقيه

البوشنجيّ ثقہ ہے حافظ ہے فقیہ ہے

(تحفة اللبيب بمن تكلم فيهم الحافظ ابن حجر من الرواة في غير «التقريب»2/23)

.

*چوتھا راوی محبوب الأنطاكي*

محبوب " بن موسى الأنطاكي أبو صالح الفراء عن ابن المبارك وأبي إسحاق وعنه أبو داود وسعيد بن عبد الرحمن الأنطاكي وثقه العجلي

محبوب بن موسی الأنطاكي ابو صالح کو امام عجلی نے ثقہ قرار دیا ہے

(لسان الميزان ابن حجر7/350)

(الجامع في الجرح والتعديل2/435نحوہ)

.

وَقَال أَبُو عُبَيد الآجري عَن أبي داود: ثقة لا يلتفت إلى حكاياته إلا من كتاب.وذكره ابنُ حِبَّان في كتاب "الثقات"، وَقَال: متقن فاضل

محبوب بن موسی الأنطاكي کے متعلق امام ابو داؤد نے فرمایا ہے کہ ثقہ راوی ہے... امام ابن حبان نے ثقہ راویوں میں اس کا شمار کیا اور فرمایا ہے کہ یہ متقن(مضبوط بھروسے والا معتبر اور) فاضل راوی ہے

(تهذيب الكمال في أسماء الرجال27/266)


.

*پانچواں روای أبو إسحاق الفزاريّ*

الأوزاعيّ حديثا. فقيل: من حدّثك بهذا؟ قال: حدّثني الصّادق المصدوق أبو إسحاق الفزاريّ الفزاريّ أبو إسحاق الحجّة الإمام شيخ الإسلام، ثقة متقن

 امام اوزاعی فرماتے ہیں کہ ابو اسحاق الفزاری سچا راوی ہے اور اس کی سچائی بیان کی گئی ہے اور یہ حجۃ الاسلام ہے دلیل ہے امام ہے شیخ الاسلام ہے، ثقہ ہے متقن(مضبوط و بھروسے والا)ہے

(شذرات الذهب في أخبار من ذهب2/383)

.

أبو اسحاق الفزاري الثقة المأمون إمام

 ابو اسحاق الفزاری ثقہ ہے مامون ہے امام ہے

(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم1/282)

.

إِبْرَاهِيم بن مُحَمَّد أَبُو إِسْحَاق الْفَزارِيّ كوفى ثِقَة وَكَانَ رجلا صَالحا قَائِما بِالسنةِ

 ابو اسحاق الفزاری کوفی ہے ثقہ ہے اور نیک آدمی تھا سنت کو مضبوطی سے تھامنے والا تھا

(الثقات للعجلي ت البستوي1/205)

.

*چھٹا راوی امام شعبہ*

شُعْبَةُ أَمِيرُ المُؤْمِنِينَ في الحَدِيثِ

 امام شعبہ تو حدیث میں امیر المومنین ہے

(التاريخ الكبير للبخاري 5/399)

.

شعبة بن الحجاج بن الورد، الإمام الحبر الحافظ شيخ الإسلام أبو بسطام العتكي الأزدي

 امام شعبہ تو بہت بڑے امام ہیں حبر الاسلام ہیں حافظ الحدیث شیخ الاسلام ہیں

(ديوان الإسلام3/138)

.

*ساتواں راوی محمد بن سلمة*

محمد بن سلمة بن كهيل، يعتبر به

 محمد بن سلمہ بن کہیل معتبر راوی ہے

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/579)

.

- سَلمَة بن كهيل الْحَضْرَمِيّ كُوفِي ثِقَة ثَبت فِي الحَدِيث تَابِعِيّ

 سلمہ بن کہیل کوفی ہیں ثقہ ہیں،ثبت ہیں، تابعی ہیں

(الثقات للعجلي ت البستوي1/421)

.

قال أحمد بن حنبل: سلمة متقن الحديث، وقيس بن مسلم متقن للحديث أيضاً، لا تبالي إذا أخذت عنهما حديثهما

 امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ سلمہ اور قیس دونوں متقن(مضبوط معتبر) ہیں جب ان سے روایت کرو تو دل میں کوئی کھٹکا نہ رکھو

(موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله2/82)

.

*ساتواں راوی أبو الزَّعْرَاء*

عبد الله بن هانِئ الكِنْدي الأزدي أبو الزَّعْرَاء الكبير الكوفي.

 وقال العجلي: من أصحاب عبد الله، ثِقَةٌ

أبو الزَّعْرَاء عبداللہ بن ھانی الکندی کوفی ہیں امام عجلی نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے

(الجامع في الجرح والتعديل2/38)

.

 وثقه بن حبان هو عبد الله بن هانئ الكندي

أبو الزَّعْرَاء کو امام ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے

(لسان الميزان ابن حجر7/464)

.

*آٹھوان روای زید بن وھب*

: زيد بْن وهب الجهني أدرك الجاهلية، وأسلم في حياة النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وهاجر إليه، فبلغته وفاته في الطريق، يكنى أبا سليمان، وهو معدود في كبار التابعين، سكن الكوفة، وصحب علي بْن أَبِي طالب

 زید بن وہب انہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ مبارک پایا ہے اور نبی پاک کی طرف ہجرت کی ہے لیکن راستے میں ہی ان کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر پہنچی لیھذا یہ بڑے تابعین میں شمار ہوتا ہے اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی صحبت اس نے اختیار کی ہے

(أسد الغابة في معرفة الصحابة ط العلمية2/377)

.

يحيى بن معين أنه قال: زيد بن وهب ثقة

 امام یحیی بن معین فرماتے ہیں کہ زید بن وہب ثقہ ہے

(بغية الطلب فى تاريخ حلب - ت زكار9/4057)

.

وكان من الثّقات

 زید بن وہب ثقہ راویوں میں سے ہے

(تاريخ الإسلام - ت تدمري6/71)

.

قال الأعمش: إذا حَدَّثك زيد بن وَهْب عن أحد، فكأنك سمعته من الذي حدَّثك عنه.قال يحيى بن معين: هو ثقة.وقال عبد الرحمن بن يوسف بن خراش: زيد بن وهب كوفيٌّ، ثقةٌ

 امام اعمش فرماتے ہیں کہ جب تجھے زید بن وہب کسی سے روایت کرے تو گویا کہ تم اسی شخص سے سن رہے ہو جس سے وہ روایت کر رہا ہے امام یحییٰ بن معین نے فرمایا کہ زید بن وہب ثقہ راوی ہے اور عبدالرحمان نے بھی فرمایا ہے کہ زید بن وہب ثقہ ہے

(الكمال في أسماء الرجال5/84)

.

*نواں راوی امام سوید بن غفلہ*

- سُوَيْد بن غَفلَة الْجعْفِيّ كُوفِي تَابِعِيّ ثِقَة

سُوَيْد بن غَفلَة جعفی کوفی تابعی ثقہ ہیں

(الثقات للعجلي ت البستوي1/443)

.

. وكان فقيها إماما

سُوَيْد بن غَفلَة بڑے فقیہ و امام تھے

(الأعلام للزركلي3/146)

.===================

*#حوالہ_2…......!!*

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي هَدِيَّةُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ قثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قثنا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْحَكَمِ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: لَا يُفَضِّلُنِي أَحَدٌ عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ إِلَّا جَلَدْتُهُ حَدَّ الْمُفْتَرِي

الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ کوئی بھی مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت نہ دے ورنہ میں اسے جھوٹ اور بہتان والے کی سزا یعنی 80 کوڑے ماروں گا

(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل روایت49)

.

*پہلا راوی عبداللہ بن احمد بن حنبل*

سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن عبد الله بن أحمد بن حنبل، وحنبل ابن عم أحمد بن حنبل، فقال: ثقتان ثبتان

 امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل کے بیٹے عبد اللہ اور انکے چچا کے بیتے حنبل ثقہ ثبت ہیں

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/348)

.

*دوسرا راوی هَدِيَّةُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ*

قال أبو بكر بن أَبي عاصم: ثقة.وذكره ابنُ حِبَّان فِي كتاب "الثقات" ، وَقَال: ربما أخطأ

هَدِيَّةُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ کے متعلق امام ابوبکر بن ابی عاصم نے فرمایا ہے کہ یہ ثقہ ہیں اور امام ابن حبان نے اس کو ثقات میں شمار کیا ہے اور فرمایا ہے کہ کبھی کبھار خطا کرتا تھا

(تهذيب الكمال في أسماء الرجال30/158)

(التكميل في الجرح والتعديل ومعرفة الثقات والضعفاء والمجاهيل1/456)

.

*تیسرا راوی أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ*

أَحْمَدُ بنُ يُوْنُسَ التَّمِيْمِيُّ اليَرْبُوْعِيُّ الكُوْفِيُّ الإِمَامُ، الحُجَّةُ، الحَافِظُ، أَبُو عَبْدِ اللهِ أَحْمَدُ بنُ عَبْدِ اللهِ بنِ يُوْنُسَ التَّمِيْمِيُّ، اليَرْبُوْعِيُّ، الكُوْفِيُّ،....سَمِعْتُ أَحْمَدَ بنَ حَنْبَلٍ، وَسَأَلَهُ رَجُلٌ: عَمَّنْ أَكْتُبُ؟قَالَ: ارْحَلْ إِلَى أَحْمَدَ بنِ يُوْنُسَ، فَإِنَّهُ شَيْخُ الإِسْلاَمِ.

وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ: كَانَ ثِقَةً، مُتْقِناً

 احمد بن یونس امام ہے حجت ہے حافظ ہے، امام احمد بن حنبل سے ایک شخص نے پوچھا کہ کس سے لکھوں تو فرمایا کہ جاؤ احمد بن یونس سے لکھو کہ بے شک وہ شیخ الاسلام ہے امام ابو حاتم نے فرمایا کہ احمد بن یونس ثقہ ہے

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة10/457)

.

*چوتھا راوی مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ*

سَمِعْتُ يَحْيَى، وَسُئِلَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، فَقَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ صَالِحَ الْحَدِيثِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى قَالَ: مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ لَيْسَ بِشَيْءٍ. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: قَالَ أَبِي: مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ ثِقَةٌ

 امام یحییٰ فرماتے ہیں کہ محمد بن طلحہ بن مصرف صالح الحدیث ہے، اسکی روایات میں کوئی حرج نہیں... امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے کہ یہ ثقہ ہیں

(الضعفاء الكبير للعقيلي4/85)

.

محمد بن طلحة بن مصرّف"١":ثقة"٢"، قال النسائي"٣": "ليس بالقوي""٤"، "وقواه الدارقطني........حاصل أقوال الأئمة فيه:

وثقه بعضهم، ولينه بعضهم، وضعفه ابن معين في بعض الروايات عنه، ولكن لم يأت بجرح مفسر، والرجل مع توثيق البعض له قد احتج به الجماعة، وقد تُكُلِّمَ في سماعه من أبيه، لكنه ثقة، والثقة إذا ادعى السماع لا يكذَّب في ذلك ... ، وهو يخطئ قليلاً. وكذا قال في المغني: "وقال: "قلت: قد احتجا به في الصحيحين أصلاً"، وقال في الميزان: "صدوق مشهور، محتج به في الصحيحين"، وقال: "قلت: روى عنه عبد الرحمن بن مهدي، وعون بن سلام، وجبارة بن المغلس"، وفي الكاشف، ذكر الأقوال فيه فقط، وذكره في رسالة الثقات، وقال: "ثقة من رجال الصحيحين أصلاً، قال س: ليس بالقوي، قلت: ما هو بقوة شعبة

 محمد بن طلحہ ثقہ راوی ہے امام نسائی نے فرمایا کہ اتنا قوی نہیں ہے امام دارقطنی نے اس کو قوی راوی فرمایا... ان کے متعلق اقوال کا حاصل یہ ہے کہ بعض ائمہ نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے امام ابن معین نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن ضعیف کہنے کی کوئی ٹھوس وجہ بیان نہ فرما سکے... صحاح ستہ میں اس کی روایات موجود ہیں تو لہٰذا اگر اس کو قوی نہیں کہا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ زیادہ قوی نہیں ہے لیکن ثقہ ضرور ہے

(من تكلم فيه وهو موثق و حاشیتہ ص453)

.

*پانچواں راوی ابو عبیدہ بن حکم*

أُمَيَّة بن الحكم.عن الحكم بن جحل.وعنه ابنه مِهْجَع.لا يعرف

 ابو عبیدہ امیہ بن حکم کے بارے میں ہے کہ معروف راوی نہیں ہے

(لسان الميزان ت أبي غدة2/218)

(المغني في الضعفاء1/94)

.

*مجھول کا حکم.......!!*

 اگر اسے مجھول مان بھی لیا جائے تو بھی حدیث ضعیف کہلائے گی اور اس کے دیگر طرق و سندیں موجود ہیں تو ضعیف سندیں مل کر حسن معتبر بن جائیں گے

إِسناده ضعيف لجهالة محمد بن يعقوب.لكن له شواهد يرتقي بها إلى الحسن لغيره

 راوی کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن شواہد کی وجہ سے وہ ترقی کر کے حسن لغیرہٖ معتبر بن جاتی ہے

(المطالب العالية محققا ابن حجر4/444)

.

بدليل المتابعات، أو الشواهد، وبهذا يرتقي من درجة الضعيف إلى درجة الحسن لغيره.ويضاف إلى هذا: ما كان ضعفه لإرسال، أو عنعنة مدلس، أو لجهالة حال بعض رواته، أو لانقطاع يسير؛ فإنَّ هذا الضعف يزول بمجيئه من طريق آخر، ويصير الحديث حسناً لغيره؛ بسبب العاضد الذي عضده

 مرسل ہونے کی وجہ سے یا مدلس ہونے کی وجہ سے یا جہالت راوی کی وجہ سے مجہول راوی کی وجہ سے یا انقطاع کی وجہ سے اگر حدیث ضعیف ہو جائے تو دیگر دوسری ضعیف یا قوی سے ملکر وہ حسن معتبر کے درجہ پر پہنچ جاتی ہے

(محاضرات في علوم الحديث ص13)

.

*چھٹا راوی الحکم بن حجل*

وأمَّا الحكم بن جَحْل فهو: الأزديُّ، البصريُّ، وثَّقه ابن معين في رواية إسحاق بن منصور عنه، ولا نعلم أحدًا تكلَّم فيه

 الحکم بن حجل کو امام ابن معین نے ثقہ قرار دیا ہے اور ہم کسی محدث کو نہیں جانتے کہ جس نے اس میں جرح کی ہو

(تنقيح التحقيق لابن عبد الهادي3/146)

.

قال يحيى بن معين: ثقة.روى له: الترمذي، وأبو داود، وابن ماجه

الحكم بن جَحْل کو امام یحیی بن معین نے ثقہ قرار دیا ہے اور امام ترمذی نے امام ابو داؤد اور امام ابن ماجہ نے ان سے. روایت کی ہے

(الكمال في أسماء الرجال4/256)

 تاريخ الإسلام - ت تدمري7/345نحوہ)

(تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال2/409نحوہ)

.=================

*#حوالہ_3......!!*

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قثنا هَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ، وَالْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، قَالَا: نا شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ قَالَ: ضَرَبَ عَلْقَمَةُ بْنُ قَيْسٍ هَذَا الْمِنْبَرَ فَقَالَ: خَطَبَنَا عَلِيٌّ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَذَكَرَهُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَذْكُرَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ أُنَاسًا يُفَضِّلُونِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، وَلَوْ كُنْتُ تَقَدَّمْتُ فِي ذَلِكَ لَعَاقَبْتُ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الْعُقُوبَةَ قَبْلَ التَّقَدُّمِ، فَمَنْ قَالَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَهُوَ مُفْتَرٍ، عَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُفْتَرِي، إِنَّ خَيْرَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ

 سیدنا علقمہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے خطبہ دیا اللہ کی حمد کی ذکر کیا جتنا چاہا پھر فرمایا کہ مجھے کچھ لوگوں کی خبر پہنچی ہے کہ وہ مجھے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر پر فضیلت دیتے ہیں، میں سمجھائے بغیر اس پر سزا نہیں دوں گا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر اور پھر سیدنا عمر ہیں اس کے بعد جو کوئی اس بات کا انکار کرے جو مجھے فضیلت دے تو اس پر میں جھوٹ باندھنے والے بہتان باندھنے والے مفتری کی سزا دوں گا(80 کوڑے لگاؤں گا)

(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل  روایت484)

.

*پہلا راوی هَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ*

يحيى بْن مَعِين: ثقة.وَقَال أبو حاتم: صدوق...كان أَحْمَد بْن حَنْبَل يثنى عليه...وَقَال النَّسَائي: ليس به بأس.وذكره ابنُ حِبَّان في كتاب "الثقات

 امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ ہیثم بن خارجہ ثقہ راوی ہے امام ابو حاتم نے فرمایا ہے کہ یہ صدوق ہے سچا ہے اور امام احمد بن حنبل اس کی تعریف کیا کرتے تھے امام نسائی نے فرمایا ہے کہ اس راوی میں کوئی حرج نہیں ہے اور امام ابن حبان نے اس کو ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے

(تهذيب الكمال في أسماء الرجال377 ،30/376 )

.

*دوسرا راوی الحکم بن موسی*

الحكم بن موسى كان رجلا صالحا ثبتا

 الحکم بن موسی اچھا آدمی تھا ثبت تھا (ثقہ راوی تھا)

( بغية الطلب فى تاريخ حلب - ت زكار6/2879)

.

وقال عليّ بْن المَدِينيّ: سألتُ أبا عليّ جَزَرَة عن سُرَيْج بْن يونس، والْحَكَم بْن موسى، ويحيى بْن أيّوب، فوثقهم جدا

 امام علی بن مدینی فرماتے ہیں کہ میں نے علی جزرہ سے پوچھا کہ سریج اور حکم اور یحیی کیسے راوی ہیں تو انہوں نے ان تینوں کی بہت زیادہ توثیق فرمائی

(تاريخ الإسلام - ت تدمري17/144)

.

- الحكم بن مُوسَى أَبُو صَالح ثِقَة

 حکم بن موسی ابو صالح ثقہ راوی ہے

(الثقات للعجلي ت البستوي1/313)

.

*تیسرا راوی شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ*

قلت لابن المبارك: شهاب بن خراش؟ فقال: ثقة.نا عبد الرحمن أنا حرب بن إسماعيل [الكرماني - ٣] فيما كتب إلي قال قلت لأحمد: شهاب بن خراش؟ قال: لا بأس به.نا عبد الرحمن قال أنا أبو بكر بن أبي خيثمة فيما كتب إلي قال سمعت يحيى بن معين يقول: شهاب بن خراش بن حوشب كوفي نزل الشام ليس به بأس.نا عبد الرحمن قال سألت أبي عن شهاب بن خراش فقال: صدوق لا بأس به.نا عبد الرحمن قال سئل أبو زرعة عن شهاب بن خراش فقال: لا بأس به

 امام ابن مبارک نے فرمایا کہ شہاب بن خراش ثقہ راوی ہے... امام احمد بن حنبل اور امام یحی بن معین نے فرمایا کہ اس راوی میں کوئی حرج نہیں ہے... عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا شہاب بن خراش کے بارے میں؟ تو فرمایا کہ یہ سچا ہے اس راوی میں کوئی حرج نہیں ہے... امام ابو زرعہ سے اس راوی کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا اس راوی میں کوئی حرج نہیں ہے

(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم4/362)

.

قال أبو داود: قلت لأحمد: شهاب بن خراش؟ قال: كان أصله واسطياً، وكان سكن بيت المقدس، ما أرى به بأساً

 امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا شہاب بن خراش کے بارے میں فرمایا کہ اس راوی میں کوئی حرج نہیں ہے

(موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله2/162)

.

*چوتھا راوی الْحَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ*

قلت لابن المبارك: الحجاج بن دينار؟ فقال: ثقة.حدثنا عبد الرحمن؟ ؟ عبد الله بن أحمد بن حنبل فيما كتب إلي قال قال أبي: الحجاج بن دينار ليس به بأس. قال ابن نمير: كوفي ثقة، وذكره ابن حبان البستي في جملة "الثقات

 امام ابن مبارک فرماتے ہیں کہ حجاج بن دینار ثقہ راوی ہے... امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اس راوی میں کوئی حرج نہیں ہے... ابن نمیر نے فرمایا ہے کہ یہ ثقہ ہے اور امام ابن حبان نے اس کو ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے

(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم3/160)

.

وَقَالَ عَليّ بن الْمَدِينِيّ الْحجَّاج بن دِينَار ثِقَة

 امام علی بن مدینی نے فرمایا ہے کہ حجاج بن دینار ثقہ راوی ہے

(تاريخ أسماء الثقات ص69)

.

*پانچواں راوی ابو معشر*

سَمِعْتُ يَحْيى بن مَعِين يقول أبو مَعْشَر المديني ضعيف....سَمِعت أَبَا نعيم يَقُول كَانَ أَبُو مَعْشَر سنديا وكان رجلا الكن...قَالَ ابْن مهدي يعرف وينكر.وقال النسائي نجيح أَبُو معشر

مدني ضعيف

 امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ ابو معشر ضعیف راوی ہے...ابن مہدی نے فرمایا کہ صحیح روایات بھی کرتا تھا اور منکر بھی، امام نسائی نے ضعیف قرار دیا

(الكامل في ضعفاء الرجال،312، 8/311)

.

لَيْسَ بِقَوِيٍّ...فَقَالَ: كَانَ صَدُوقًا , وَلَكِنَّهُ لَا يُقِيمُ الْإِسْنَادَ

 ابو معشر اتنا قوی راوی نہیں ہے سچا راوی ہے لیکن سندوں کو قائم نہیں رکھ پاتا

(الضعفاء الكبير للعقيلي4/308)

.

وأبو معشر، وإن كان ضعيفًا فروايتُه تعضِّدُ...أبو معشر نجيح: حديثه حسنٌ في الشواهد

 ابو معشر اگرچہ ضعیف راوی ہے لیکن اتنا ضعیف بھی نہیں کہ اس کی روایت کی دوسری روایت سے توثیق نہ ہوسکے، شواہد میں اسکی روایت حسن معتبر ہے

(نثل النبال بمعجم الرجال4/336)

اس راوی کے ہلکے ضعف سے وجہ روایت حسن معتبر یا زیادہ سے زیادہ انفرادی ضعیف کہلائے گی مگر دیگر ضعیف روایات بھی ہیں اس سلسلے میں، تو ضعیف ضعیف سے مل کر حسن معتبر بن جائے گی

.

*چھٹا راوی امام إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ*

عاصم قال: كان إبراهيم رجل صدق...الأعمش. قال: كان إبراهيم صيرفيا في الحديث

 عاصم فرماتے ہیں کہ سیدنا ابراہیم نخعی بہت سچے آدمی تھے امام اعمش فرماتے ہیں کہ ابراہیم تو کھرے اور کھوٹے کی پہچان کرتے تھے

(موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله1/46)

.

إبراهيم النخعي:هو، أبو عمران إبراهيم بن يزيد بن قيس النخعي، الكوفي، فقيه أهل الكوفة، التابعي الجليل..أجمع العلماء على توثيقه

 امام ابراہیم نخعی فقیہ ہیں تابعی ہیں جلیل القدر ہیں، علماء کا اتفاق ہے کہ آپ ثقہ ہیں

(الحديث والمحدثون ص197)

.

*ساتواں راوی سیدنا علقمہ*

هو أبو شبل علقمة بن قيس بن عبد الله النخعي الكوفي التابعي الجليل...وقد أجمع معاصروه على جلالته ووقاره وغزارة علمه.....وكان ثقة كثير الحديث...انَ عَلْقَمَةُ مِنَ الرَّبَّانِيِّينَ»

 سیدنا علقمہ جلیل القدر تابعی ہیں تمام علماء کا اس پر اجماع ہے کہ آپ کی جلالت و وقار اور علم بہت وسیع تھا... آپ ثقہ علمائے ربانیین میں سے ہیں

(السنة قبل التدوين1/525)

.

- عَلْقَمَةُ بنُ قَيْسِ بنِ عَبْدِ اللهِ أَبُو شِبْلٍ النَّخَعِيُّ فَقِيْهُ الكُوْفَةِ، وَعَالِمُهَا، وَمُقْرِئُهَا، الإِمَامُ، الحَافِظُ، المُجَوِّدُ، المُجْتَهِدُ الكَبِيْرُ، أَبُو شِبْلٍ عَلْقَمَةُ بنُ قَيْسِ بنِ عَبْدِ اللهِ بنِ مَالِكِ بنِ عَلْقَمَةَ بنِ سَلاَمَانَ بنِ كَهْلٍ

 سیدنا علقمہ کوفہ کے بہت بڑے فقیہ ہیں بہت بڑے عالم ہیں بہت بڑی قاری ہیں امام ہیں حافظ ہیں، مجود و مجتہد ہیں

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة4/53)

.================

*#حوالہ_4......!!*

أنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْكَاتِبُ، قَالَ: نا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ نُوحٍ الْجُنْدَيْسَابُورِيُّ قَالَ: نا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: نا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: نا شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: وَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى مِنْبَرِ الْكُوفَةِ، فَقَالَ: خَطَبَنَا عَلِيٌّ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ، فَذَكَرَ مَا شَاءَ أَنْ يَذْكُرَ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ نَاسًا يُفَضِّلُونَنِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، وَلَوْ كُنْتُ تَقَدَّمْتُ فِي ذَلِكَ لَعَاقَبْتُ، وَلَكِنْ أَكْرَهُ الْعُقُوبَةَ قَبْلَ التَّقَدُّمِ، مَنْ أُتِيتُ بِهِ مِنْ بَعْدِ مَقَامِي قَدْ قَالَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَهُوَ مُفْتَرٍ، عَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُفْتَرِي. ثُمَّ قَالَ: إِنَّ خَيْرَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ

سیدنا علقمہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے خطبہ دیا اللہ کی حمد کی ذکر کیا جتنا چاہا پھر فرمایا کہ مجھے کچھ لوگوں کی خبر پہنچی ہے کہ وہ مجھے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر پر فضیلت دیتے ہیں، میں سمجھائے بغیر اس پر سزا نہیں دوں گا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر اور پھر سیدنا عمر ہیں اس کے بعد جو کوئی اس بات کا انکار کرے جو مجھے فضیلت دے تو اس پر میں جھوٹ باندھنے والے بہتان باندھنے والے مفتری کی سزا دوں گا(80 کوڑے لگاؤں گا)

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة اللالكائي

 روایت 2678)

.

*پہلا راوی مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْكَاتِبُ*

- مجد الدّين أبو عبد الله محمّد بن عثمان بن محمّد التستريّ الحويزيّ الكاتب يعرف بابن شيحان.صاحب الأخلاق الكريمة والهمّة العظيمة،

 ابو عبداللہ محمد بن عثمان کاتب ہے، عظیم ہمت اور اخلاق کریمہ والا ہے(معتبر راوی ہے)

(مجمع الآداب في معجم الألقاب4/517)

.

*دوسرا راوی محمد بن نوح*

الدَّارَقُطْنِيّ عن محمد بن نوح الجنديسابوري؟ فقال: هو ثقة

 امام دارقطنی سے پوچھا گیا محمد بن نوح کے بارے میں تو فرمایا ثقہ راوی ہے

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/631)

.

محَمَّدُ بنُ نُوْحٍ أَبُو الحَسَنِ الجُنْدَيْسَابورِيُّ الفَارِسِيُّ الإِمَامُ، الحَافِظُ، الثَّبْتُ....قَالَ أَبُو سَعِيْدٍ بنُ يُوْنُسَ: ثِقَةٌ حَافِظٌ وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: ثِقَةٌ مَأْمُوْنٌ

 محمد بن نوح حافظ ہے ثبت ہے ابو سعید فرماتے ہیں کہ ثقہ ہیں حافظ ہیں اور امام دارقطنی نے انھیں ثقہ اور مامون قرار دیا

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة35، 15/34 )

.

*تیسرا راوی ھارون بن اسحاق*

هارون بن إسحاق بن محمد بن مالك بن زبيد الهمداني، أبو القاسم، الكُوفِيّ. قال السُّلَمِيُّ: سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن هارون بن إسحاق، فقال: ثقة

 امام دارقطنی سے ہارون بن اسحاق کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا ثقہ ہے

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/687)

.

هارون بن إسحاق بن محمد الهمداني الكوفي ثقة

 ہارون بن اسحاق ثقہ راوی ہے

(كمشيخة النسائي = تسمية الشيوخ ص102)

.

*چوتھا راوی سعید بن منصور*

أَحْمَد بْن حنبل يحسن الثناء عليه.وَقَال حنبل بن إسحاق: قلتُ لأبي عَبد اللَّهِ: سَعِيد بْن منصور؟ قال: من أهل الْفَضْل والصدق.

وَقَال سلمة بْن شبيب: ذكرته لأحمد بْن حنبل، فأحسن الثناء عليه وفخم أمره.وَقَال الْفَضْل بْن زياد: سمعت أبا عَبد اللَّهِ وقيل لَهُ: من بمكة؟ قال: سَعِيد بْن منصور وَقَال مُحَمَّد بْن عَبد اللَّهِ بْن نمير ، ومحمد بْن سعد ، وأَبُو حاتم ، وعبد الرحمن بنيوسف بْن خراش : ثقة. زاد أَبُو حاتم: من المتقنين الأثبات ممن جمع وصنف.وَقَال غيره: كان مُحَمَّد بْن عبد الرحيم إذا حدث عنه اثنى عليه وأطراه، وكان يَقُولُ: حَدَّثَنَا سَعِيد بْن منصور وكان ثبتا

 سعید بن منصور کے بارے میں امام احمد بن حنبل اچھی تعریف کیا کرتے تھے... فرماتے تھے کہ وہ فضیلت والے ہیں سچے ہیں ثقہ ہیں،

(كتاب تهذيب الكمال في أسماء الرجال11/80)

*بقایا راوی وہی ہیں جو حوالہ نمبر تین میں مذکور ہیں*

.=================

*#حوالہ_5.......!!*

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنِي هُدَيَّةُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ أَبُو صَالِحٍ، بِمَكَّةَ، نَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ، عَنِ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْحَكَمِ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: «لا يُفَضِّلْنِي أَحَدٌ عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِلا جَلَدْتُهُ جَلْدَ الْمُفْتَرِي

الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی بھی مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت نہ دے ورنہ میں اسے جھوٹ باندھنے والے بہتان باندھنے والے کی سزا دوں گا

(السابع عشر من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي روایت25)

*اس کے راوی وہی ہیں جو حوالہ نمبر دو میں ہیں*

.==================

*#حوالہ_6........!!*

أَنْبَأَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْهَيْثَمِ النَّاقِدُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ , عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْحَكَمِ الْأَسَدِيِّ , عَنِ الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَا يُفَضِّلُنِي أَحَدٌ عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ , وَلَا يُفَضِّلُنِي أَحَدٌ عَلَيْهِمَا إِلَّا جَلَدْتُهُ جَلْدَ الْمُفْتَرِي

الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی بھی مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت نہ دے ورنہ میں اسے جھوٹ باندھنے والے بہتان باندھنے والے کی سزا دوں گا

(الشريعة للآجري روایت1813)

.

*پہلا راوی ابراہیم بن ھیثم*

إِبْرَاهِيْمُ بنُ الهَيْثَمِ المُحَدِّثُ، الرَّحَّالُ، الصَّادِقُ

 ابراہیم بن ہیثم محدث ہیں بہت سفر کرنے والے ہیں سچے ہیں

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة13/411)

.

*دوسرا راوی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْكُوفِيُّ*

قَالَ أَبُو حاتِم صدوق

 عبداللہ بن عمر کوفی کے بارے میں امام ابو حاتم فرماتے ہیں کہ سچے ہیں

(تاريخ الإسلام - ت تدمري17/221)

.

*بقایا راوی وہی ہیں جو حوالہ نمبر دو میں ہیں*

.==============

*#حوالہ_7.......!!*

أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ , أنا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ الصَّفَّارُ , ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ جَابِرٍ , ثنا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى , ثنا شِهَابٌ يَعْنِي ابْنَ خِرَاشٍ ثنا الْحَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ , عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: ضَرَبَ عَلْقَمَةُ هَذَا الْمِنْبَرِ وَقَالَ: خَطَبَنَا عَلِيٌّ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَذَكَرَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَذكُرَهُ ثُمَّ قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ نَاسًا يُفَضِّلونَنِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، وَلَوْ كُنْتُ تقَدَّمْتُ فِي ذَلِكَ لَعَاقَبْتُ فِيهِ وَلَكِنْ أَكْرَهُ الْعُقُوبَةَ قَبْلَ التَّقَدُّمِ، وَمَنْ قَالَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَهُوَ مُفْترٍ، عَلَيْهِ مَا عَلَى ⦗٣٦٢⦘ الْمُفْتَرِي، إِنَّ خَيْرَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرَ

سیدنا علقمہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے خطبہ دیا اللہ کی حمد کی ذکر کیا جتنا چاہا پھر فرمایا کہ مجھے کچھ لوگوں کی خبر پہنچی ہے کہ وہ مجھے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر پر فضیلت دیتے ہیں، میں سمجھائے بغیر اس پر سزا نہیں دوں گا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر اور پھر سیدنا عمر ہیں اس کے بعد جو کوئی اس بات کا انکار کرے جو مجھے فضیلت دے تو اس پر میں جھوٹ باندھنے والے بہتان باندھنے والے مفتری کی سزا دوں گا(80 کوڑے لگاؤں گا)

(الاعتقاد للبيهقي ص361)

.

*پہلا راوی عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ*

، وكان ثقة، وقدمت نيسابور في السنة الّتي مات فيها. وقال عبد الغافر الفارسي في "السياق": الجليل الحافظ

 علی بن احمد بن عبدان جلیل القدر حافظ ہیں اور ثقہ ہیں

(السلسبيل النقي في تراجم شيوخ البيهقي465)

.

*دوسرا راوی أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ الصَّفَّارُ*

انَ ثِقَةً ثَبْتاً

أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ الصَّفَّارُ ثقہ ثبت راوی ہے

(سير أعلام النبلاء - ط الحديث12/45)

.

*تیسرا راوی مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ جَابِرٍ*

الدَّارَقُطْنِيّ: محمد بن الفضل بن جابر بن شاذان السقطي، صدوق

 امام دارقطنی نے فرمایا ہے کہ محمد بن فضل سچا راوی ہے

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/614)

.

*باقی راوی وہی ہیں جو حوالہ نمبر تین کے ہیں*

.========================

*#حوالہ_8......!!*

أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ الْفَقِيهُ , أنا أَبُو حَامِدِ بْنِ بِلَالٍ , ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْأَحْمَسِي , ثنا الْمُحَارِبِيُّ , ثنا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ , عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ , عَنِ الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ، قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيٌّ بِالْبَصْرَةِ فَقَالَ: أَلَا لَا يُفَضِّلْنِي أَحَدٌ عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ لَا أُوتَى بِأَحَدٍ فَضَّلَنِي عَلَيْهِمَا إِلَّا جَلَدْتُهُ حَدَّ الْمُفْتَرِي

(الاعتقاد للبيهقي ص358)

.

*#حوالہ_9......!!*

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى، ثنا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدِ بْنِ الْحَكَمِ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ حُجَلَ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: لَا يُفَضِّلُنِي عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، أَوْ لَا أَجِدُ أَحَدًا يُفَضِّلُنِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، إِلَّا وَجَلَدْتُهُ جَلْدَ حَدِّ الْمُفْتَرِي

(السنة لابن أبي عاصم روايت1219)

.

*#حوالہ_10.......!!*

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، ح. وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الصُّوفِيُّ، ثنا الهُيْثمُ بْنُ خَارِجَةَ، وَالْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، ح. وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا الْعَلَاءُ بْنُ عَمْرٍو، قَالُوا: ثنا شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ، ثنا الْحَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: ضَرَبَ عَلْقَمَةُ هَذَا الْمِنْبَرَ فَقَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا يَخْطُبُ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ فَقَالَ: خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا عَلَيْهِ السَّلَامُ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ أَلَا وَإِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ رِجَالًا يُفَضِّلُونِي عَلَيْهِمَا أَلَا فَمَنْ وَجَدْتُهُ فَضَّلَنِي عَلَيْهِمَا فَهُوَ مُفْتَرٍ، ⦗١٤١⦘ عَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُفْتَرِي

(فضائل الخلفاء الراشدين لأبي نعيم الأصبهاني روایت169)


.

*#حوالہ_11.......!!*

حَدَّثَنَا عَلِيٌّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَغَوِيُّ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ قَالَ عَلْقَمَةُ خَطَبَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ.........فَمَنْ أُتِيتُ بِهِ بَعْدَ مَقَامِي هَذَا قَدْ قَالَ شَيْئًا من ذلك فهو مفتري عَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُفْتَرِي خَيْرُ النَّاسِ كَانَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ

(فضائل أبي بكر الصديق للعشاري روایت39)

.

*#حوالہ_12......!!*

حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَسَنُ بْنُ الْبَزَّارِ، ثنا الْهَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ، ثنا ⦗٤٨٠⦘ شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا عَلَى الْمِنْبَرِ، فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى مِنْبَرِ الْكُوفَةِ، يَقُولُ: بَلَغَنِي أَنَّ قَوْمًا يُفَضِّلُونَنِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، وَلَوْ كُنْتُ تُقِدِّمْتُ فِي ذَلِكَ لَعَاقَبْتُ فِيهِ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الْعُقُوبَةَ قَبْلَ التَّقْدِمَةِ، مَنْ قَالَ شَيْئًا مِنْ هَذَا فَهُوَ مُفْتَرٍ، عَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُفْتَرِي. إِنَّ خِيَرَةَ النَّاسِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ

(السنة لابن أبي عاصم روایت993)

.

*#حوالہ_13.......!!*

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، ثنا شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: ضَرَبَ عَلْقَمَةُ بِيَدِهِ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ: خَطَبَ عَلِيٌّ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ نَاسًا يُفَضِّلُونِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، فَلَوْ كُنْتُ تَقَدَّمْتُ فِي ذَلِكَ لَعَاقَبْتُ فِيهِ، وَلَكِنْ أَكْرَهُ الْعُقُوبَةَ قَبْلَ التَّقَدُّمِ، فَمَنْ قَالَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَهُوَ مُفْتَرٍ، عَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُفْتَرِي. خَيْرُ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ

(شرح مذاهب أهل السنة لابن شاهين روایت198)

.

*حوالہ نمبر آٹھ یا تیرہ کے تقریبا وہی مرکزی راوی ہیں جو اوپر تحقیق کردہ روایات کے راوی ہیں......!*

.

*#حوالہ_14......!!*

وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ مردوية، حَدثنَا سُلَيْمَان بن أَحْمد حَدثنَا الْحسن بن مَنْصُور الرمالي، وَأَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْعَتَكِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: بَلَغَ عَلِيًّا - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أَنَّ أَقْوَامًا يُفَضِّلُونَهُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللَّهُ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ قَوْمًا يُفَضِّلُونِّي عَلَى أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَلَوْ كُنْتُ تَقَدَّمْتُ فِيهِ لَعَاقَبْتُ مِنْهُ، فَمَنْ سَمِعْتُهُ بَعْدَ الْيَوْمِ يَقُولُ هَذَا فَهُوَ مُفْتَرٍ عَلَيْهِ حَدُّ الْمُفْتَرِي، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ خَيْرَ هَذِهِ الأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا: أَبُو بَكْرٍ

(الحجة في بيان المحجة روایت344)

.=========

*#حوالہ_15........!!*

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُظَفَّرِ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ، ثَنَا يُوسُفُ بْنُ وَاضِحٍ، ثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، ثَنَا شُعْبَةُ بْنُ حُصَيْنٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي لِيَلَى....«إِنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ خَيْرَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كَذَا فِي كَذَا فِي كَذَا ثَلَاثًا، فَمَنْ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ حَلَّ عَلَيْهِ مَا حَلَّ عَلَى الْمُفْتَرِي

( تثبيت الإمامة وترتيب الخلافة لأبي نعيم الأصبهاني روایت54)

.

*#حوالہ_16......!!*

أنا أَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ، أنا الْحُسَيْنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الرَّبِيعِ، قَالَ: نا حُمَيْدُ بْنُ الرَّبِيعِ، قَالَ: نا هُشَيْمٌ، أنا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ⦗١٣٧٠⦘، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: «خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، فَمَنْ قَالَ غَيْرَ هَذَا فَهُوَ مُفْتَرٍ، وَعَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُفْتَرِي

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة اللالكائي

 روایت 2448)

.

*#حوالہ_17.......!!*

- أنا أَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ، أنا الْحُسَيْنُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، قَالَ: نا حُمَيْدُ بْنُ الرَّبِيعِ، قَالَ: نا هُشَيْمٌ، أنا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، فَمَنْ قَالَ غَيْرَ هَذَا بَعْدَ مَقَامِي هَذَا فَهُوَ مُفْتَرٍ، عَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُفْتَرِي

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة اللالكائي

 روایت 2604)

.

*#حوالہ_18.......!!*

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا هُشَيْمٌ قَالَ: أنا حُصَيْنٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: أَلَا إِنَّ خَيْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، فَمَنْ قَالَ سِوَى ذَلِكَ بَعْدَ مَقَامِي هَذَا فَهُوَ مُفْتَرٍ، عَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُفْتَرِي

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے خطبہ دیا اللہ کی حمد کی ،اللہ کی ثنا کی پھر فرمایا کہ امت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر ہیں جس نے اس کے خلاف کوئی بات کی تو وہ بہتان باندھنے والا جھوٹا ہے اس پر بہتان اور جھوٹ باندھنے والے کی سزا ہوگی(80 کوڑے سزا ہوگی)

(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل روایت189)

.

*پہلا راوی ہشیم*

فذاكر مالك بن أنس بحديث، فَقَالَ: وهل بالعراق أحد يحسن الحديث إلا ذاك الواسطي؟ يعني هشيما...إن هشيما كان يقوى من الحديث...سمعت يَحْيَى بْن سَعِيد القطان، وعبد الرحمن بن مهدي يقولان: هشيم فِي حصين أثبت...وَقَال أَبُو داود (٣) : قال أَحْمَد بْن حنبل: ليس أحد أصح حديثا عن حصين بن هشيم... سَأَلتُ أبي(ابو حاتم)عَنْ هشيم، فَقَالَ: ثقة

 سیدنا مالک بن انس نے فرمایا کہ ہشیم حسن الحدیث ہے، قوی راوی ہے...اثبت راوی ہے... امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ حصین عن ہشیم صحیح ترین سندوں میں سے ہے، امام ابو حاتم فرماتے ہیں کہ ہشیم ثقہ راوی ہے

(تهذيب الكمال في أسماء الرجال30/280)

.

*دوسرا راوی حصین*

أَبُو حَاتِم الرَّازِيّ هُوَ ثِقَة فِي الحَدِيث فِي آخر عمره سَاءَ حفظه وَهُوَ صَدُوق قَالَ عبد الرَّحْمَن بن أبي حَاتِم سَأَلت أَبَا زرْعَة عَن حُصَيْن هَذَا فَقَالَ ثِقَة

 امام ابوحاتم فرماتے ہیں کہ حصین ثقہ راوی ہے اس کی آخری عمر میں حافظے میں کچھ خرابی آ گئی تھی لیکن پھر بھی وہ سچا صدوق ہے، امام ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ حصین ثقہ راوی ہے

(التعديل والتجريح، لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح2/532)فضائل صحابہ کے محقق نے ابن حجر کے حوالے سے لکھا کہ حصین کے اختلاط و حافظہ خراب ہونے سے پہلے ہی روایات کی گئ ہے لیھذا کوئی ضعف کی بات نہیں

.

قال أبو داود: قلت لأحمد: الشيباني؟قال: بخ، ثم قال: الشيباني ومطرف وحصين، هؤلاء ثقات

 امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا شیبانی کے بارے میں، مطرف کے بارے میں ، حصین کے بارے میں...؟؟ تو جواب ارشاد فرمایا یہ سارے ثقہ راوی ہے

(الجامع لعلوم الإمام أحمد - الرجال16/487)

.

*تیسرا راوی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى*

أحمد بن حنبل: "ابن أبي ليلى ضعيف

 امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ عبدالرحمن بن ابی لیلی ضعیف راوی ہے

(منهج الإمام أحمد في إعلال الأحاديث1/284)

.

قال يحيى بن معين: عبد الرحمن بي أبي ليلى ثقة.وكذلك قال العجلي. قال أبو حاتم: لا بأس به

 عبدالرحمن بن ابی لیلی کے بارے میں امام یحییٰ بن معین اور امام عجلی نے فرمایا کہ ثقہ ہے امام ابو حاتم نے فرمایا کہ اس راوی میں کوئی حرج نہیں

(مختصر تاريخ دمشق15/81)

.

سوال: بعض محققین نے محدثین نے فرمایا ہے کہ ابن ابی لیلی کا سماع سیدنا عمر سے ثابت نہیں ہے

جواب:

تو یہ انقطاع و ارسال ہوا جس سے روایت ضعیف ہوجاتی ہے مگر دیگر ضعیف روایات سے مل کر حسن معتبر بن جاتی ہے

.

والحديث المرسل: حديث ضعيف عند المحدثين، لا يجوز الاحتجاج به، وأجاز الاحتجاج به بعض الفقهاء كالإمام أبي حنيفة، ومالك، وأحمد -رحمهم الله- بشرط أن يكون مرسل التابعي،

 محدثین نے فرمایا ہے کہ مرسل مقبول نہیں ہے لیکن فقہاء جیسے کہ امام ابو حنیفہ امام مالک امام احمد کے نزدیک شرائط کے ساتھ مرسل تابعی کی روایت مقبول ہے

(كتاب الزبد في مصطلح الحديث ص23)

.

جب تابعی رسول کریم سے روایت کرے تو ارسال و انقطاع کے باوجود مقبول کہ تابعی کی شان عظیم ہے تو تابعی جب صحابی سے ارسال و انقطاع ہو تو بدرجہ اولیٰ مقبول ہے اور بالفرض ضعیف مان بھی لیا جائے تو اوپر دیگر ضعیف روایات اسی معنی کی ہیں تو شیعہ سنی نجدی اہلحدیث سب کے مطابق مقبول و معتبر کہلائے گی جیسے کہ شروع میں قاعدہ لکھ آئے.....!!


.###################

*#نشانی نمبر9*

رافضیوں یہود و نصاری کی ایجنٹی و سازش میں اکر چمن زمان بمع گروپ نے کہا کہ ہر صحابی نبی جنتی جنتی نعرہ بدعت ہے غلط ہے

جبکہ اہلسنت کا متفقہ نظریہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ ہر صحابی جنتی ہے، جسکی وفات ایمان پے نہ ہو وہ صحابی ہی نہیں

.

*ہر صحابی نبی جنتی جنتی، سیدنا علی و سیدنا معاویہ جنتی جنتی نعروں کے برحق ہونے کے دلائل و حوالہ جات اور شبہات اعتراضات کا ازالہ اور چمن زمان کو دعوتِ رجوع ...صلی اللہ علیہ وسلم و رضی اللہ تعالیٰ عنھم*

.

چمن زمان صاحب لکھتے ہیں

صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین میں سے بعض ہستیوں کے بارے میں *#غلو* سے کام لیا جارہا ہے... ان حضرات(چمن زمان بمع گروپ کے علاوہ جو ہیں مثلا دعوت اسلامی لبیک وغیرہ) نے گزشتہ چند ماہ پہلے باب نظریات میں اضافہ کرتے ہوئے چند نعرے اپنے نظریات و عقائد کا حصہ بنائے جیسے ہر صحابی نبی جنتی جنتی ، معاویہ و علی جنتی جنتی، ابوسفیان معاویہ جنتی جنتی(نیز چمن زمان صاحب نے ان نعروں کو اختراعی بھی کہا) 

(دیکھیے جدید نعرے ص6,7)

مزہد کہتے ہیں

یہ نعرے ابن حزم بدمذہب سے پہلے کسی نے نہیں لگائے

(دیکھیے جدید نعرےص45)

.

*جواب و تحقیق*

:اول بات تو یہ ہے کہ یہ نعرہ ابن حزم(وفات تقریبا456ھجری) سے پہلے ہی لگایا جا چکا تھا جیسے کہ ہم ان دلائل سے ظاہر کر رہے ہیں 

①*صحابی سیدنا ابن عباس کا عقیدہ:*

مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْح} فتح مَكَّة {وَقَاتل} الْعَدو مَعَ النبى صلى الله عَلَيْهِ وَسلم {أُولَئِكَ} أهل هَذِه الصّفة {أَعْظَمُ دَرَجَةً} فَضِيلَة ومنزلة عِنْد الله  بِالطَّاعَةِ وَالثَّوَاب {مِّنَ الَّذين أَنفَقُواْ مِن بَعْدُ} من بعد فتح مَكَّة {وَقَاتَلُواْ} الْعَدو فِي سَبِيل الله مَعَ النبى صلى الله عَلَيْهِ وَسلم {وكلا} كلا لفريقين  من أنْفق وَقَاتل من قبل الْفَتْح وَبعد الْفَتْح {وَعَدَ الله الْحسنى} الْجنَّة

یعنی 

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ سے پہلے جن صحابہ کرام نے خرچ کیا جہاد کیا اور فتح مکہ کے بعد جنہوں نے خرچ کیا جہاد کیا ان کے درجات میں اگرچہ تفاوت ہے لیکن سب صحابہ کرام سے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ کیا ہے 

(تنوير المقباس من تفسير ابن عباس ص457)

.

*②امام القرظی تابعی( وفات180ھجری تقریبا) کا عقیدہ:*

وقال محمد بن كعب القرظي: أوجب الله  لجميع الصحابة الجنة والرضوان

ترجمہ 

محمد بن كعب القرظي علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے تمام صحابہ کے لیے جنت اور رضامندی کو واجب کردیا ہے 

(أنموذج اللبيب في خصائص الحبيب1/236)

.

*③امام مقاتل وفات تقرہبا150ھجری کا عقیدہ:*

 لا يَسْتَوِي مِنْكُمْ فى  الفضل والسابقة مَنْ أَنْفَقَ مِنْ ماله قَبْلِ الْفَتْحِ فتح مكة «وَقاتَلَ» «1» العدو أُولئِكَ  أَعْظَمُ دَرَجَةً يعني جزاء مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ من بعد فتح مكة وَقاتَلُوا «2»  العدو وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنى يعني الجنة، يعني كلا الفريقين وعد الله الجنة

یعنی

جن صحابہ نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا قتال کیا اور جہاد کیا انکا درجہ زیادہ عظیم ہے ان صحابہ سے کہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا جہاد کیا لیکن سب صحابہ کے لئے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے  

(تفسير مقاتل بن سليمان4/239)

.

*④امام ابن وھب وفات تقریبا192ہجری کا عقیدہ:*

{لا يستوي منكم من أنفق من قبل الفتح}، قال: فتح مكة...فَالْحُسْنَى الْجَنَّةُ

یعنی

فتح مکہ سے پہلے جنہوں نے خرچ کیا وہ عظیم درجے والے ہیں ان کے برابر نہیں ہو سکتے وہ صحابہ کہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا لیکن سب صحابہ کے لئے جنت کا وعدہ ہے 

(تفسير القرآن من الجامع لابن وهب62 ,1/176)


.

*⑤امام سمرقندی وفات تقریبا 373ھجری کا عقیدہ:*

.من أنفق وقاتل مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ يعني: فتح  مكة. ونزلت الآية في شأن أصحاب رسول الله صلّى الله عليه وسلم المهاجرين والأنصار. يعني: الذين أنفقوا أموالهم مع  رسول الله صلّى الله عليه وسلم، وقاتلوا الكفار، لا يستوي حالهم وحال غيرهم. ويقال: هذا  التفضيل لجميع أصحابه رضي الله عنهم أجمعين.

وعد الله كلا الحسني يعني الجنة

یعنی

یہ آیت مبارکہ صحابہ کرام کے بارے میں نازل ہوئی کہ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا تھا جہاد کیا کہ یہ عظیم مرتبے والے ہیں ان کے مرتبے کو وہ صحابہ نہیں پہنچ سکتے کہ جو فتح مکہ کے بعد والے ہیں لیکن سب کے سب صحابہ کے لیے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے 

(تفسير السمرقندي = بحر العلوم3/403ملتقطا)

.

*⑥امام ابن ابی زمنین وفات399ھجری کاعقیدہ:*

لا یَسْتَوِي من أنْفق مِنْكُم من قبل الْفَتْح وَقَاتل، وَهُوَ فتح مَكَّة.

(أُوْلَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلاًّ وَعَدَ اللَّهُ لْحُسْنَى} يَعْنِي: الْجنَّة؛ من أنْفق وَقَاتل قبل فتح مَكَّة وَبعده

یعنی

تم صحابہ کرام میں سے جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ کیا اور جہاد کیا ان کا درجہ ان صحابہ کرام سے زیادہ ہے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور جہاد کیا لیکن سب صحابہ سے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے، چاہے فتح مکہ سے پہلے والے ہوں یا فتح مکہ کے بعد والے 

(تفسير القرآن العزيز لابن أبي زمنين4/349,350)

.

*جواب دوئم*

اگر بالفرض مان لیا جائے کہ یہ نعرہ ابن حزم کا اختراع کردہ ہے تو بعد کے معتبر علماء کا اس نعرے کو اپنا لینا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ابن حزم کے مردود قولوں میں سے نہیں ہے جیسے کہ نیچے تفصیل آرہی ہے 

.====================

چمن زمان صاحب لکھتے ہیں

تلاش بسیار کے باوجود کتب متقدمین و متاخرین میں تمام تر صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کے جنتی ہونے کا نظریہ بطور فکر اہلسنت نہ مل سکا جن علماء نے ذکر کیا انہوں نے اسے ابن حزم ظاہری کے حوالے سے نقل کیا اور ابن حزم ظاہری کے بارے میں گزارش کیا جا چکا ہے کہ وہ بد عقیدہ اور بدمزہب قسم کا شخص تھا

(دیکھیے جدید نعرے ص67,68)

۔

جواب نمبر1:

الحديث:

الكَلِمَةُ الحِكْمَةُ ضَالَّةُ المُؤْمِنِ، فَحَيْثُ وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا»

حکمت کی بات مومن کی گمشدہ میراث ہے تو جہاں وہ پائے اسے لے لے

(سنن الترمذي ت شاكر ,5/51 حدیث2687)

(سنن ابن ماجه ,2/1395حدیث4169)

۔

قَدْ يَصْدُقُ الْكَذُوبَ

ترجمہ:

بہت بڑا جھوٹا کبھی سچ بول دیتا ہے

(فتح الباری9/56،)

اول بات تو یہ ہے کہ ابن حزم سے پہلے کے علماء نے صحابہ کرام کو جنتی قرار دے دیا تھا ، یہ نعرہ لگا لیا تھا جیسے کہ اوپر بیان ہوا البتہ اگر آپ کے دعوے کو مان بھی لیا جائے کہ ابن حزم سے پہلے کسی نے جنتی قرار نہ دیا تھا تو بھی ابن حزم کی بات کو رد کر دینا برحق نہیں کیونکہ بہت بڑا جھوٹا بھی کبھی سچ اور دانشمندی کی بات کہہ دیتا ہے لہذا ابن حزم کی بات کو قرآن و سنت و آثار و اقوال اہلسنت پر رکھیں گے اگر وہ اس کے موافق ہوا تو اسے قبول کریں گے... اسکا یہ نعرہ قرآن و سنت و اقوال و آثار کے موافق ہے لیھذا مقبول

.

جواب نمبر2:

ابن حزم سے قبل کے علماء کا عقیدہ بتایا جاچکا کہ ہر صحابی نبی جنتی جنتی...اکثر تفاسیر سے یہی نعرہ و معنی ثابت ہوتا ہے بطور تبرک ہم صرف بارہ وہ حوالے پیش کر رہے ہین جنہوں نے خود سے تفسیر کی، ابن حزم کا قول نقل کرتے ہوئے تفسیر نہ کی...لہذا کہنا کہ بعد کے علماء نے ابن حزم کی پیروی کی یہ سراسر جھوٹ کہلائے گا بدگمانی کہلائے گی  کم علمی کم توجہی کہلائے گی 

.

 ①يعني: فتح مكة {وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى} كلا الفريقين وعد الله الحسنى الجنة

یعنی

فتح مکہ سے پہلے والے اور فتح مکہ کے بعد والے سب صحابہ کرام سے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ کیا ہے 

(التفسير الوسيط4/246)

.

②يستوي منكم مَنْ أنفق من قبل الفتح} يعني: فتح مكَّة {وقاتل} جاهد مع رسول  الله صلى الله عليه وسلم أعداء الله {أولئك أعظم درجة} يعني: عند الله {من الذين أنفقوا من بعد} الفتح {وقاتلوا وكلاً} من الفريقين {وعد الله الحسنى} الجنَّة

یعنی

فتح مکہ سے پہلے جن صحابہ کرام نے خرچ کیا اور جہاد کیا ان کا درجہ ان سے زیادہ ہے کہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور جہاد کیا لیکن سب صحابہ سے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ کیا ہے 

(الوجيز للواحدي تحت سورہ حدید ایت10)

.

③ثواباً جزيلاً وهو الجنة، و (منهم) هنا بيانية وليست تبعيضية، (وعد الله الذين آمنوا وعملوا الصالحات منهم)  هذه بيان لجميع الصحابة، وليست لبعض منهم

یعنی 

فتح مکہ والے اور فتح مکہ کے بعد والے سب سے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے یہ آیت و فضیلت تمام صحابہ کرام کے لئے ہے بعض کے لئے نہیں ہے 

(تفسير محمد إسماعيل المقدم تفسیر سورہ فتح آیت25_29)

.

④ أَي: لَا يَسْتَوِي من أنْفق  وَقَاتل قبل فتح مَكَّة، وَمن أنْفق وَقَاتل بعد فتح مَكَّة..{وكلا وعد الله الْحسنى} أَي: الْجنَّة

یعنی

جن صحابہ کرام نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا اور جہاد کیا وہ اور وہ صحابہ کہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا جہاد کیا برابر نہیں ہو سکتے لیکن تمام صحابہ کرام سے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ کیا ہے 

(السمعاني، أبو المظفر5/367,368)

.

⑤لاَ يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ ... الآية: الأشهر في هذه الآية  أَنَّها نزلت بعد الفتح، واخْتُلِفَ في الفتح المشار إليه فقال أبو سعيد الخُدْرِيُّ والشَّعْبِيُّ «1» : هو فتح الحديبية، وقال قتادة، ومجاهد، وزيد بن أسلم «2» : هو فتح مكة الذي أزال الهجرة، قال ع «3» : وهذا هو  المشهور...والْحُسْنى: الجنة،

یعنی

آیت میں فتح سے مراد کیا ہے ایک قول یہ ہے کہ فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے اور ایک قول یہ ہے کہ فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور یہی قول مشہور ہے اور اچھے وعدے  سے مراد جنت ہے یعنی تمام صحابہ کرام کے لیے جنت کا وعدہ ہے 

(تفسير الثعالبي5/380)

.

.

⑥لاَ يَسْتَوِى مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الفتح وقاتل} أي فتح مكة قبل عز  الإسلام وقوة أهله ودخول الناس في دين الله أفواجاً ومن أنفق من بعد الفتح فحذف لأن قوله مّنَ الذين أَنفَقُواْ مِن بَعْدُ يدل عليه {أولئك} الذين أنفقوا قبل الفتح  وهم السابقون الأولون من المهاجرين والأنصار الذين قال فيهم النبي صلى الله عليه وسلم لو أنفق أحدكم مثل أحد ذهباً ما بلغ مد احدم ولا نصيفه

{أَعْظَمُ دَرَجَةً مّنَ الذين أَنفَقُواْ مِن بَعْدُ وقاتلوا وَكُلاًّ} أي كل واحد من الفريقين {وَعَدَ الله الحسنى} أي المثوبة الحسنى وهي  الجنة

خلاصہ

وہ صحابہ کرام کے جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے جہاد کیا اور خرچ کیا اور وہ صحابہ کرام کہ جو جنہوں نے فتح مکہ کے بعد جہاد کیا خرچ کیا دونوں برابر نہیں ہو سکتے لیکن دونوں کے لیے اللہ تعالی نے اچھا وعدہ ہے یعنی جنت کا وعدہ کیا ہے 

(تفسير النسفي 3/435)

.

.

⑦لا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ قبل فتح مكة قبل عز الإسلام وقوّة أهله ودخول الناس في دين الله أفواجا وقلة الحاجة إلى القتال والنفقة فيه، ومن أنفق من بعد الفتح فحذف  لوضوح الدلالة أُولئِكَ الذين أنفقوا قبل الفتح وهم السابقون الأولون من المهاجرين والأنصار الذين قال فيهم النبي صلى الله عليه وسلم:

«لو أنفق أحدكم مثل أحد ذهبا ما بلغ مدّ أحدهم ولا نصيفه» «2» أَعْظَمُ دَرَجَةً. وقرئ:

قبل الفتح وَكُلًّا وكل واحد من الفريقين وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنى أى المثوبة الحسنى وهي الجنة

خلاصہ

وہ صحابہ کرام کے جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے جہاد کیا اور خرچ کیا اور وہ صحابہ کرام کے جو جنہوں نے فتح مکہ کے بعد جہاد کیا خرچ کیا دونوں برابر نہیں ہو سکتے لیکن دونوں کے لیے اللہ تعالی نے اچھا وعدہ ہے یعنی جنت کا وعدہ کیا ہے

(تفسير الزمخشري 4/474)

.


 ⑧الْمُرَادُ بِهَذَا الْفَتْحِ فَتْحُ  مَكَّةَ،: أَيْ وَكُلَّ وَاحِدٍ مِنَ الْفَرِيقَيْنِ  وَعَدَ اللَّه بالحسنى أَيِ الْمَثُوبَةَ الْحُسْنَى، وَهِيَ الْجَنَّةُ

آیت میں فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور دونوں فریقین یعنی سب صحابہ کے لئے اللہ تعالی نے اچھا وعدہ یعنی جنت کا وعدہ کیا ہے 

(تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير29/453)

.

⑨وَالْجُمْهُورُ على أن المراد بالفتح هاهنا فَتْحُ مَكَّةَ،

جمہور اور اکثر علماء اس بات پے ہیں کہ یہاں فتح سے مراد فتح مکہ ہے 

(تفسير ابن كثير ط العلمية8/46)

.

.10:أَكْثَرُ الْمُفَسِّرِينَ عَلَى أَنَّ الْمُرَادَ بِالْفَتْحِ فَتْحُ مَكَّةَ...(وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنى) أَيِ الْمُتَقَدِّمُونَ الْمُتَنَاهُونَ  السَّابِقُونَ، وَالْمُتَأَخِّرُونَ اللَّاحِقُونَ، وَعَدَهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا الْجَنَّةَ مَعَ تَفَاوُتِ الدَّرَجَاتِ

یعنی 

اکثر مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور اللہ تعالی نے سب صحابہ کے لئے جنت کا وعدہ کیا ہے درجات کی اونچ نیچ کے ساتھ 

(تفسير القرطبی,17/239,241)

.

11:وَظَاهِرُ لَفْظِ الْفَتْحِ أَنَّهُ فَتْحُ مَكَّةَ فَإِنَّ هَذَا الْجِنْسَ الْمُعَرَّفَ صَارَ عَلَمًا بِالْغَلَبَةِ عَلَى فَتْحِ مَكَّةَ، وَهَذَا قَوْلُ جُمْهُورِ الْمُفَسِّرِينَ

یعنی 

ظاہر یہی ہے کہ فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور یہ جمہور مفسرین کا قول ہے 

(التحرير والتنوير 27/374 )

.

12:لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ}  يَعْنِي فَتْحَ مَكَّةَ فِي قَوْلِ أَكْثَرِ الْمُفَسِّرِينَ، وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: هُوَ صُلْحُ الْحُدَيْبِيَةِ {وَقَاتَلَ}  يَقُولُ: لَا يَسْتَوِي فِي الْفَضْلِ مَنْ أَنْفَقَ مَالَهُ وَقَاتَلَ الْعَدُوَّ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ فَتْحِ مَكَّةَ مَعَ مَنْ أَنْفَقَ وَقَاتَلَ بَعْدَهُ {أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا} .وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى} أَيْ كِلَا الْفَرِيقَيْنِ وَعَدَهُمُ اللَّهُ الْجَنَّةَ

یعنی

امام شعبی کا قول ہے کہ فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے لیکن اکثر مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں فتح سے مراد فتح مکہ ہےاور وہ صحابہ کرام کہ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا جہاد کیا ان کا درجہ عظیم ہے ان صحابہ کرام سے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا جہاد کیا اور اللہ تعالی نے دونوں فریقین یعنی سب صحابہ کرام سے جنت کا وعدہ کیا ہے  

(تفسير البغوي - طيبة8/33,34)

.===================

چمن زمان صاحب لکھتے ہیں

ہم باب نظریات میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی شخصیت پر مکمل اعتماد کرتے ہیں آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس باب میں مستقل رسالہ لکھا،صحابہ کرام کے بارے میں صحابہ کے جنتی ہونے کا نظریہ کہیں بھی بیان نہیں فرمایا 

(دیکھیےجدید نعرے ص57,58)

.

جواب:

سیدی اعلی حضرت فرماتے ہیں صحابہ کرام جنتی ہیں جہنم سے دور، جہنم کی بھنک تک نہ پائیں گے:

رب عزوجل کہ عالم الغیب والشہادہ ہے اس نے صحابہ سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی دو قسمیں فرمائیں ، مومنین قبل الفتح جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے راہ خدا میں خرچ و جہاد کیا اور مومنین بعد الفتح جنہوں نے بعد کو، فریق اول کو دوم پر تفضیل عطا فرمائی کہ:لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل اولئک اعظم درجۃ من الذین انفقوا من بعد وقاتلوا؂ ۲

تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا ، وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا۔(ت)

( ۲ ؎ القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰)

اورساتھ ہی فرمادیا۔وکلا وعد اﷲ الحسنی ۔۳؂دونوں فریق سے اﷲ نے بھلائی کا وعدہ فرمالیا۔ اور ان کے افعال پر جاہلانہ نکتہ چینی کا دروازہ بھی بند فرمادیا کہ ساتھ ہی ارشادہوا۔واﷲ بما تعملون خبیر ۔۴؂

اللہ کو تمہارے اعمال کی خوب خبر ہے، یعنی جو کچھ تم کرنے والے ہو وہ سب جانتا ہے بااینہہ تم سب سے بھلائی کا وعدہ فرماچکا خواہ سابقین ہوں یا لاحقین ،

( ۳ ؎ القرآن الکریم ۵۷/۱۰) ( ۴ ؎ القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰)

اور یہ بھی قرآن عظیم سے ہی پوچھ دیکھئے کہ مولی عزوجل جس سے بھلائی کا وعدہ فرماچکا اس کے لیے کیا فرماتا ہے:ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولئک عنہا مبعدون لایسمعون حسیسہا وھم فیما اشتھت انفسھم خلدون لایحزنہم الفزع الاکبرو تتلقھم الملئکۃ ھذا یومکم الذی کنتم توعدون ۔۱؂

بے شک جن سے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہوچکا وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں اس کی بھنک تک نہ سنیں گے اور وہ اپنی من مانتی مرادوں میں ہمیشہ رہیں گے، انہیں غم میں نہ ڈالے گی بڑی گھبراہٹ، فرشتے ان کی پیشوائی کوآئیں گے یہ کہتے ہوئے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا۔

(۱؎ القرآن الکریم ۲۱/۱۰۱ و ۱۰۳)

(فتاوی رضویہ29/265)

چمن زمان صاحب نے خود اقرار کیا ہے کہ وہ افکار رضا کے پابند ہیں تو یہ افکار رضا پڑھنے کے بعد امید ہے اپنی کتاب کو کلعدم قرار دے دیں گے، پابندی لگائیں گے اور توبہ رجوع کریں گے اور آئندہ لکھنے سے پہلے مخالفین موافقین سے تصحیح و تصدیق کرائیں گے کہ بار بار غلطی کر رہے ہیں

.==================

چمن زمان صاحب نے چند حوالے نقل کئے کہ کسی کے جنتی ہونے کی شہادت دینا اور کسی سے برات کا اظہار کرنا دونوں بدعت ہیں۔۔۔(لہذا  ہر صحابی نبی جنتی جنتی نعرہ بدعتی ہے۔۔۔علی معاویہ جنتی جنتی بدعتی نعرہ ہے )

(دیکھیے جدید نعرے ص43)

.

جواب:

مذکورہ عبارات سے غلط مفہوم دینے کی کوشش کی گئی ہے اس قسم کی عبارت کا مفہوم کیا ہے آئیے اسلاف کی زبانی سنتے ہیں

وحكى أن صنفاً من الخوارج تفردوا بقول أحدثوه وهو قطعهم الشهادة على أنفسهم ومن وافقهم أنهم من أهل الجنة من غير شرط ولا استثناء.

یعنی

جنت کی گواہی دینا اور جہنم کی گواہی دینا اور برات کا اظہار کرنا یہ بدعت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بغیر شرط بغیراستثناء بغیر دلیل کےجنتی قرار دینا بدعت ہے( کیا پتا اس کا خاتمہ ایمان پر نہ ہو جب کہ صحابہ کرام کے بارے میں احادیث اور اقوال موجود ہیں کہ وہ جنتی ہیں اور صحابی کہتے ہی اس کو ہیں کہ جس کا خاتمہ ایمان پر ہو اور اس نے زیارت رسول کی ہو )

(الأشعري ,مقالات الإسلاميين ص119)

.

وَمَعْنَى الشَّهَادَةِ: أَنْ يَشْهَدَ عَلَى مُعَيَّنٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، أَوْ أَنَّهُ كَافِرٌ، بِدُونِ الْعِلْمِ بِمَا خَتَمَ اللَّهُ [لَهُ] بِهِ

یعنی 

یہ جو کہا جاتا ہے کہ کسی کے جنتی اور جہنمی ہونے کی شہادت نہیں دینی چاہیے اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی معین مسلمان شخص کے جہنم اور جنتی ہونے کی گواہی نہیں دینی چاہیے کیونکہ اس کو علم نہیں ہے کہ اس کا خاتمہ کس چیز پر ہوگا(جب کہ صحابہ کرام کے بارے میں احادیث اور اقوال موجود ہیں کہ وہ جنتی ہیں اور صحابی کہتے ہی اس کو ہیں کہ جس کا خاتمہ ایمان پر ہو اور اس نے زیارت رسول کی ہو )

[ابن أبي العز ,شرح الطحاوية - ط دار السلام ,page 471]

.


ومعنى الشهادة: أن يشهد على معين من  المسلمين أنه من أهل النار أو أنه كافر، بدون العلم بما ختم الله له به

یعنی 

یہ جو کہا جاتا ہے کہ کسی کے جنتی اور جہنمی ہونے کی شہادت نہیں دینی چاہیے اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی معین مسلمان شخص کے جہنم اور جنتی ہونے کی گواہی نہیں دینی چاہیے کیونکہ اس کو علم نہیں ہے کہ اس کا خاتمہ کس چیز پر ہوگا(جب کہ صحابہ کرام کے بارے میں احادیث اور اقوال موجود ہیں کہ وہ جنتی ہیں اور صحابی کہتے ہی اس کو ہیں کہ جس کا خاتمہ ایمان پر ہو اور اس نے زیارت رسول کی ہو )

(كتاب شرح الطحاوية لناصر العقل6/97)

.=======================

ہر صحابی نبی جنتی چند مزید حوالے

رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَعَنْ جَمِيعِ الصَّحَابَةِ الَّذِينَ ضَمِنَ اللَّهُ لَهُمْ فِي كِتَابِهِ أَنَّهُ لَا يُخْزِيهِمْ , وَأَنَّهُ يُتِمُّ لَهُمْ نُورَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , وَيَغْفِرُ لَهُمْ...أَخْبَرَ أَنَّهُ قَدْ رَضِيَ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ , وَأَنَّهُ أَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا , فَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ , وَنَفَعَنَا بِحُبِّهِمْ , وَبِحُبِّ أَهْلِ بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَبِحُبِّ أَزْوَاجِهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ

یعنی

اللہ تعالی تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جائے کہ جن کے بارے میں اللہ تعالی نے ضمانت دی ہے اپنی کتاب میں اور ان کے لیے تیار رکھا ہے جنت کو اور ان سے راضی ہوا ہے اللہ ہمیں ان کی محبت سے سرفراز فرمائے اور اہل بیت کی محبت عطا فرمائے اور ازواج مطہرات کی محبت عطا فرمائے 

(الشريعة للآجري قبل الحدیث1168)

.

غوث اعظم دستگیر فرماتے ہیں

ومن رآني فله الجنة

حضور علیہ الصلوۃ و السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ جس نے مجھے دیکھا(یعنی صحابہ کرام جن کی وفات حالات اسلام میں ہوئی)وہ سب جنتی ہیں 

( الغنية لطالبي طريق الحق2/144)

.

يُشِيرُ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللَّهُ إِلَى الرَّدِّ عَلَى الرَّوَافِضِ وَالنَّوَاصِبِ. وَقَدْ أَثْنَى اللَّهُ تَعَالَى عَلَى الصَّحَابَةِ هُوَ وَرَسُولُهُ، وَرَضِيَ عَنْهُمْ، وَوَعَدَهُمُ الْحُسْنَى.كَمَا قَالَ تَعَالَى: {وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ} [التَّوْبَةِ: 100] .

یعنی 

علامہ طحاوی رحمۃ اللہ تعالی اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس میں رد ہے رافضیوں کا اور ناصبیوں کا وہ اس طرح کے اللہ تعالی نے تمام صحابہ کرام سے سابقین اولین مہاجرین و انصار وغیرہ جو ان کے بعد آئے ان سب سے اللہ تعالی راضی ہوا اور ان کے لیے جنت کا وعدہ فرمایا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے 

(,شرح الطحاوية ت الأرناؤوط ,2/689)

.

الحدیث:

 لاَ تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي أَوْ رَأَى مَنْ رَآنِي

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے مجھے حالت اسلام میں دیکھا (اور اس کی وفات حالت ایمان میں ہوئی )تو اسے آگ نہ چھوئے گی اور اس کو بھی آگ نہ چھوئے گی جو میرے صحابہ کو حالت ایمان میں دیکھے(اور حالت ایمان میں وفات پا جائے)

(ترمذی حدیث3858حسن)

(حسن، كتاب مشكاة المصابيح حدیث6013)

( جامع الأحاديث حدیث16938)

( الرياض النضرة 1/220)

(الجامع الصغير وزيادته حدیث14424)

(السنة لابن أبي عاصم 2/630)

(کنز العمال حدیث32480-)

.

چمن زمان کے دلائل کا خلاصہ اور ہمارے جواب کا خلاصہ:

چمن زمان کی کتاب کا خلاصہ کیا جائے تو خلاصہ کچھ یوں بنتا ہے کہ ایک صحابی کے بارے میں نبی پاک نے فرمایا کہ اسے عذاب ہو رہا ہے اور سیدہ عائشہ کو فرمایا کہ تم بچے کو جنتی نہ کہو اور اسلاف نے فرمایا کہ جنت کی گواہی دینا برات کا اظہار کرنا بھی بدعت ہے اور اسلاف نے لکھا کہ ہم جن کو رسول اللہ نے بشارت دی جنت کی ان کے علاوہ کسی کو جنت کی گواہی نہیں دیتے(اور چمن زمان کے انداز سیاق و سباق  سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے مطابق تمام صحابہ کرام کو جنت کی گواہی نہیں دی گئی)

.

خلاصہِ جواب:

چمن صاحب نے کہا تھا کہ انہیں اعلی حضرت پر مکمل اعتماد ہے اور ہم نے اعلی حضرت سے یہ دکھا دیا کہ صحابہ کرام کو جہنم کی آگ چھوئے گی تک نہیں۔۔۔پھر چمن زمان کو یہ بھی دکھا دیا کہ ابن حزم سے پہلے کا قول موجود ہے کہ ہر صحابی نبی جنتی جنتی۔۔۔پھر متقدمین و متاخرین کے اقوال ذکر کیے کے تمام صحابہ سے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے اور پھر حدیث پاک بھی بتا دی کہ صحابہ کرام کو آگ چھوئے گی تک نہیں۔۔۔اب رہا یہ سوال کی ایک صحابی کو بظاہر عذاب ہو رہا تھا اور نبی پاک نے بھی بی عائشہ کو جنتی کہنے سے روکا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ وہ وہ صحابی نہ ہو بلکہ منافق ہو یا پھر عین ممکن ہے کہ اس وقت نبی پاک کو یہ بشارت جنت للصحابہ نہ ملی ہو ، پھر بعد میں فتح مکہ کے بعد یہ بشارت  بھی ملی ہو کے آپ کا ہر صحابی جنتی جنتی۔۔۔رہی بات ان اسلاف کی جنہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ کی گواہی کے بغیر کسی کو جنتی قرار نہ دیں گے تو اس کا مطلب ہم اوپر بیان کر چکے کہ یہ زندہ کے بارے میں ہے کیونکہ بخاری کی حدیث پاک میں ہے کہ اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے اور زندہ شخص کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا خاتمہ کس چیز پر ہوگا لہذا کسی مسلمان کے جنتی ہونے کی امید کی جاسکتی ہے لیکن لیکن یوں کہا جائے گا کہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوا تو جنتی اگر ایمان پر خاتمہ نہ ہوا تو جنتی نہیں اس قسم کی شرط اور شہادتِ رسول  کے بغیر قطعی جنتی کہنا بدعت ہے...جبکہ صحابہ کرام کے بارے میں رسول کریم کی بشارت موجود ہے ائمہ اسلاف کے اقوال موجود ہیں، صحابی کی تعریف میں ہی یہ قید لگائی گئی ہے کہ صحابی وہ ہوتا ہے  کہ جسکی وفات  ایمان پر ہو....لہذا ہر صحابی نبی جنتی جنتی ثابت ہو گیا اور ثابت ہوگیا کہ یہ حق و سچ ہے اور اسلاف کا نعرہ ہے

.

صحابی کی معتبر تعریف و ڈیفینیشن محققین اہلسنت کے مطابق کیا ہے حق چار یار کی نسبت سے چار حوالہ جات پیش ہیں

۔

①الصَّحابيِّ مَنْ لَقِيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ [تَعالى] عليهِ [وآلهِ] وسلَّمَ ُمؤمِناً بهِ وماتَ عَلى الإِسلامِ

صحابی اس کو کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو یا ملاقات کی ہو اور اس کی وفات اسلام پر ہوئی ہو 

[نزهة النظر في توضيح نخبة الفكرpage 111]

.


②مَنْ لَقِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْلِمًا وَمَاتَ عَلَى إِسْلَامِهِ.

صحابی وہ ہے جس نے اسلام کی حالت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو یا ملاقات کی ہو اور اسلام پر ہی وفات پائی ہو

[تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ,2/667]

.


③من لَقِيَ النبيَّ صلى الله عليه وسلم مسلمًا، ومات على الإسلام،

صحابی وہ ہے جس نے اسلام کی حالت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو یا ملاقات کی ہو اور اسلام پر ہی وفات پائی ہو

[تيسير مصطلح الحديث ,page 243]

.

④أن التعريف المبني على الأصح المختار عند المحققين هو أن الصحابي هو من لقي النبي صلى الله عليه وسلم مؤمنا به ومات على الإسلام

صحابی کی تعریف کہ جو مختار و معتبر ہے محققین کے مطابق وہ یہ ہے کہ صحابی اس کو کہتے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو یا دیکھا ہو ان پر ایمان لاتے ہوئے اور اس کی وفات بھی اسلام پر ہوئی ہو 

[منهج الإمام أحمد في إعلال الأحاديث ملخصا ,2/671]

.

لہذا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتد ہو گئے وہ صحابہ نہیں،صحابی تو ہوتا ہے کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھے یا ملاقات کرے اور حالت ایمان پر اس کی وفات ہو۔۔۔۔


.=====================

*سیدنا علی و معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما جنتی جنتی نعرے کی تحقیق و دلائل........!!*

چمن زمان صاحب نے ہر صحابی نبی جنتی جنتی ، معاویہ و علی جنتی جنتی، ابوسفیان معاویہ جنتی جنتی نعروں کو غلو من گھڑت اختراعی قرار دیا

(دیکھیے جدید نعرے ص6,7)

.

الجواب:

ہر صحابی نبی جنتی جنتی کے دلائل و چمن زمان کا رد بلکہ دعوتِ رجوع اوپر لکھ دیا ہے

.

سیدنا علی  و معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما جنتی جنتی کے دلائل و حوالہ جات درج ذیل ہیں

الحدیث:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبُو بَكْرٍ فِي الجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الجَنَّةِ وَالزُّبَيْرُ فِي الجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الجَنَّةِ، وَسَعْدٌ فِي الجَنَّةِ، وَسَعِيدٌ فِي الجَنَّةِ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الجَرَّاحِ فِي الجَنَّةِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ابو بکر جنتی ہے عمر جنتی ہے عثمان جنتی ہے علی جنتی ہے طلحہ جنتی ہے زبیر جنتی ہے عبدالرحمن جنتی ہے سعد جنتی ہے سعید جنتی ہے ابوعبیدہ جنتی ہے رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین

(سنن الترمذي ت شاكر ,5/647حدیث3747)

.

الحدیث:

أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ البَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا

میری امت کا پہلا گروہ کہ جو بحری جہاد کرے گا ان کے لئے جنت واجب ہے 

(صحيح البخاري,4/42حدیث2924)

(المعجم الكبير  للطبراني حدیث323)

(دلائل النبوة للبيهقي مخرجا 6/452)

(مستدرك للحاکم4/599حدیث8668)

۔

أَرَادَ بِهِ جَيش مُعَاوية،وَإِنَّمَا مَعْنَاهُ: أوجبوا اسْتِحْقَاق الْجنَّة

مذکورہ حدیث میں جنتی گروہ سے مراد سیدنا معاویہ کا گروہ ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ جنت کا مستحق ہونا واجب ہوگیا 

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري14/198ملتقطا)

.

أَي وَجَبت لَهُم الْجنَّة

یعنی وہ پہلا گروہ جو بحری جہاد کرے گا ان کے لئے جنت واجب ہے 

(كشف المشكل من حديث الصحيحين4/468)

.

(أوجبوا) أي: فعلوا فعلًا وجبت لهم به الجنة

یعنی وہ پہلا گروہ کہ جو بحری جہاد کرے گا انہوں نے واجب کرلیا جنت کو یعنی انہوں نے ایسا کام کیا کہ جس کی وجہ سے جنت واجب ہوگئی 

(التوشيح للسيىوطي تحت الحدیث2924)


.

وَجَبت لَهُم بِهِ الْجنَّة

یعنی وہ گروہ جو سب سے پہلے بحری جہاد کرے گا ان کے لئے جنت واجب ہے 

(فتح الباري لابن حجر ,6/103)

.

(قد أوجبوا) أي الجنة

یعنی وہ گروہ جو سب سے پہلے بحری جہاد کرے گا ان کے لئے جنت واجب ہے

(الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري ,12/177)

.

أوجبوا") يعني: الجنة،

یعنی وہ گروہ جو سب سے پہلے بحری جہاد کرے گا ان کے لئے جنت واجب ہے

(التوضيح لشرح الجامع الصحيح ,17/661)


.

أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ،

 سب سے پہلے مسلمانوں نے جو بحری جہاد کیا وہ معاویہ بن سفیان کے ساتھ کیا 

(سنن ابن ماجه ,2/927)

.

أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ،

سب سے پہلے مسلمانوں نے جو بحری جہاد کیا وہ معاویہ بن سفیان کے ساتھ کیا 

(صحيح ابن حبان - محققا10/468)

.

 أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ

سب سے پہلے مسلمانوں نے جو بحری جہاد کیا وہ معاویہ بن سفیان کے ساتھ کیا 

(دلائل النبوة للبيهقي محققا6/451)

.

أَوَّلُ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ

سب سے پہلے مسلمانوں نے جو بحری جہاد کیا وہ معاویہ بن سفیان کے ساتھ کیا 

(فتح الباري لابن حجر11/75)

.

وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ غَزَاهُ مُعَاوِيَةُ فِي زَمَنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے بحری جہاد کیا سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں 

(الشريعة للآجري تحت الحدیث1922)

.

أول من غزا البحر معاوية في زمن عثمان،

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے بحری جہاد کیا سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں

(ذخيرة العقبى في شرح المجتبى26/284)

.

أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ

سب سے پہلے مسلمانوں نے جو بحری جہاد کیا وہ معاویہ بن سفیان کے ساتھ کیا

(البداية والنهاية ط الفكر6/222)

.

 أَوَّلُ مَنْ غَزَا فِي الْبَحْرِ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ زَمَانَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے بحری جہاد کیا سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں

(تاريخ الطبري4/260)


.

هذا الحديث منقبة لمعاوية لأنه أول من غزا في البحر

یہ حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی منقبت ثابت کرتی ہے کیونکہ سیدنا معاویہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے بحری جہاد کیا 

(السراج المنير شرح الجامع الصغير,2/205)

.

وَفِيهِ فَضْلٌ لِمُعَاوِيَةَ إِذْ جَعَلَ مَنْ غَزَا تَحْتَ رَايَتِهِ مِنَ الْأَوَّلِينَ

یعنی اس حدیث پاک سے معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اسی کے جھنڈے تلے مسلمانوں نےسب سے پہلے بحری جہاد کیا

(الاستذکار لابن عبد البر5/128)

.

فضیلت میں ضعیف و حسن احادیث قبول ہوتی ہے،سیدنا معاویہ کی فضیلت میں کچھ ضعیف و حسن احادیث بھی ہیں اس کے علاوہ مذکوہ صحیح حدیث بھی سیدنا معاویہ کی فضیلت میں ہے، وہ جو کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ کی فضیلت میں صحیح حدیث نہیں یہ انکی کم علمی یا غلط فھمی یا بےتوجھی ہے


.#################

*#نشانی نمبر10*

چمن زمان نے وہی دلائل لکھے جو رافضی دیتے ہیں اور چمن زمان نے رافضی راویوں کا معتبر قابل دلیل سمجھا پھیلایا...یہ رافضیت کی سازش میں شامل ہونا نہیں تو اور کیا ہے.....؟؟

.

شیعہ جعلی مکار محقق لکھتا ہے

أورد أبو عبد الله الذهبي مع شدة عناده ونصبه في ميزان الاعتدال أنه ذكر العقيلي بالاسناد عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وآله أنه قال لام سلمة: ان عليا لحمه من لحمي وهو مني بمنزلة هارون من موسى غير أنه لا نبي بعدي، قال ابن عباس، ستكون فتنة فمن أدركها فعلية بخصلتين كتاب الله وعلي بن أبي طالب، فاني سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول وهو آخذ بيد علي: هذا أول من آمن بي وأول من يصافحني يوم القيامة، وهو فاروق هذه الأمة يفرق بين الحق والباطل، وهو يعسوب المؤمنين والمال يعسوب الظلمة، وهو الصديق الأكبر، وهو خليفتي من بعدي

👈شیعہ جعلی محقق کہتا ہے کہ امام ذہبی اہلسنت کا عالم ناصبی ہوکر اس نے حدیث لکھی ہے کہ جس میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد علی خلیفہ ہوں گے

(شیعہ کتاب اختيار معرفة الرجال - الشيخ الطوسي1/114..115)

.

بعض شیعہ جعلی محققین نے ابن مردویہ تاریخ دمشق لسان المیزان کا بھی حوالہ دیا ہے

اور

ان روایات سے ثابت کیا ہے کہ سیدنا علی خلیفہ بلافصل ہیں

قوله (أنت خليفتي بعدي) صريح في عدم الفصل

👈 شیعہ محققین کہتے ہیں کہ اہل سنت کی کتابوں میں حدیث ہے کہ حضرت علی میرے بعد خلیفہ ہوں گے یعنی دوٹوک فرمایا کہ خلیفہ بلا فصل ہوں گے

(شیعہ کتاب مجموعة الرسائل - الشيخ لطف الله الصافي1/92)

.

 شاید شیعہ کے جعلی محققین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زبردستی کے سنی اور جعلی محقق چمن زمان صاحب نے بھی ان روایات کو لکھا ہے اور تقریبا یہی حوالے دیے ہیں بلکہ درج ذیل حوالے دیے ہیں لیکن خلیفتی بعدی کے الفاظ چمن زمان نے چھپا دیے حذف کر دیے

چمن زمان نے یہ حوالے دییے

تاریخ بغداد11/120...الکامل فی ضععفاء الرجال5/379

الضعفاء الکبیر للعقیلی2/47..تاریخ دمشق42/42..43

مناقب علی لابن مردویہ ص66 ح38

اسد الغابۃ6/265...الاستیعاب4/1744

الاصابۃ7/294...تاریخ دمشق42/450

(دیکھیے چمن زمان کی کتاب مولاء کائنات ص31)

.

*پہلا حوالہ اور شیعوں و چمن زمان کی مکاری خیانت*

شیعہ اور چمن زمان نے پہلا حوالہ میزان الاعتدال کا دیا ہے اور عین مکاری و خیانت کرتے ہوئے میزان الاعتدال کا تبصرہ چھپا دیا.... میزان الاعتدال میں اس روایت کو لکھنے کے بعد فرماتے ہیں

فهذا باطل

 یہ جو روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ علی میرے بعد خلیفہ ہوں گے یہ روایت بالکل باطل (جھوٹی من گھڑت) ہے

(شمس الدين ,ميزان الاعتدال ,2/3)

کیوں باطل ہے وجہ بھی بتا دی کہ:

داهر بن يحيى الرازي، رافضي بغيض، لا يتابع على بلاياه

👈مذکورہ روایت کا راوی داہر بن یحییٰ ہے جو کہ رافضی بغض رکھنے والا ہے اور اس کی من گھڑت روایتوں کی کوئی متابعت نہیں کی گئی

(شمس الدين ,ميزان الاعتدال ,2/3)

.

ایک اور مقام پے میزان الاعتدال میں اسی روایت پر تبصرہ ہے کہ:قال ابن عدي: عامة ما يرويه في فضائل علي، وهو متهم في ذلك...قلت: قد أغنى الله عليا عن أن تقرر / مناقبه بالاكاذيب والاباطيل.

👈 یہ جو روایت ہے کہ علی میرے بعد خلیفہ ہوں گے یہ روایت اور سیدنا علی کی فضیلت میں دیگر روایت داہر کی من گھڑت جھوٹی روایتیں ہیں،ایسا امام ابن عدی نے فرمایا…میں (امام ذہبی) کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا علی کو غنی کر دیا ہے کہ انکی تعریف جھوٹی باطل روایتوں سے کی جائے

(شمس الدين ,ميزان الاعتدال ,2/417)

.

*دوسرا حوالہ اور شیعوں و چمن زمان کی مکاری خیانت*

شیعہ اور چمن زمان نے دوسرا حوالہ الضعفاء الکبیر للعقیلی

کا دیا اور عین مکاری و خیانت کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ چھپا دیا....الضعفاء الکبیر للعقیلی میں اس روایت کو لکھنے کے بعد مصنف فرماتے ہیں:

وَأَمَّا: «أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى» فَصَحِيحٌ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَرَوَاهُ عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ، وَمُصْعَبُ بْنُ سَعْدٍ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ وَأَمَّا سَائِرُهَا فَلَيْسَ بِمَحْفُوظٍ

👈أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى دیگر طرق کی وجہ سے صحیح ہے باقی جو کچھ روایت میں ہے وہ محفوظ نہیں

(الضعفاء الكبير للعقيلي ,2/47)

امام عقیلی اس روایت کے مرکزی راوی کے متعلق فرماتے ہیں

دَاهِرُ بْنُ يَحْيَى الرَّازِيُّ كَانَ مِمَّنْ يَغْلُو فِي الرَّفْضِ وَلَا يُتَابَعُ عَلَى حَدِيثِهِ

👈( وہ جو روایت ہے کہ علی میرے بعد خلیفہ ہوں گے اس کا راوی) داہر ان لوگوں میں سے تھا جو رافضیت میں غلو کرتا تھا اس کی روایت پر کوئی متابعت نہ کی گئ

(الضعفاء الكبير للعقيلي ,2/46)

.

*تیسرا حوالہ اور شیعوں و چمن زمان کی مکاری خیانت*

شیعہ اور چمن زمان نے تیسرا حوالہ تاریخ دمشق

کا دیا اور عین مکاری و خیانت کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ چھپا دیا....تاریخ دمشق میں اس روایت کو لکھنے کے بعد مصنف فرماتے ہیں:

داهر بن يحيى الرازي كان يغلو في الرفض ولا يتابع على حديثه

👈( وہ جو روایت ہے کہ علی میرے بعد خلیفہ ہوں گے اس کا راوی) داہر ان لوگوں میں سے تھا جو رافضیت میں غلو کرتا تھا اس کی روایت پر کوئی متابعت نہ کی گئ

(تاريخ دمشق لابن عساكر ,42/43)

.

*چوتھا حوالہ اور اسکی تحقیق*

شیعہ اور چمن زمان نے چوتھا حوالہ مناقب علی لابن مردویہ

کا دیا ہے

تحقیق و جواب:

پہلے ایک قاعدہ ذہن نشین کیجیے

*قاعدہ*

مدار سند حدیث پر ہے اگر اس سے روایت کرنے والا کذاب یا وضاع متفرد ہو تو وہ روایت موضوع ہوگی اور اگر ضعیف ہے تو روایت صرف ضعیف ہوگی(شرح الزرقانی علی المواہب الفصل الاول من المقصد الثامن فی طبہ صلی اللہ علیہ وسلم ج9 صفحہ 337 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)حضرت علامہ ملا علی قاری فرماتے ہیں: موضوع اس روایت کو کہا جاتا ہے جس کے راوی پر کذب کا طعن ہو(شرح نخبۃ الفکر فی مصطلحات اہل الاثر  جلد1 صفحہ 435 دار الارقم لبنان بیروت)

موضوع تو جب ہوتی کہ اس کا راوی متہم بالکذب ہوتا....یا ناقل رافضی(ہو اور) حضرات اہلبیت کرام علٰی سیدہم وعلیہم الصلاۃ والسلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اُس کے غیر سے ثابت نہ ہوں(تو روایت موضوع  من گھرٹ جھوٹی مردود کہلائے گی)،جیسے حدیث:لحمك لحمی ودمك دمی (تیرا گوشت میرا گوشت،تیرا خُون میرا خُون.ت)

(فتاوی رضویہ 5/461..466ملتقطا)

.

اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ مناقب علی لابن مردویہ میں مکمل سند نہیں لکھی البتہ ایک راوی داھر بن یحیی کا نام لکھا ہے

داھر بن یحیی الرازی اور اسکا بیٹا عبداللہ کیسے راوی ہیں اس کے متعلق علماء اہلسنت کے تبصرے پڑہیے

عبد الله بن داهر بن يحيى بن داهر) ، وقال: عامة ما يرويه فى فضائل على وهو فيه متهم

👈عبداللہ بن داہر یہ سیدنا علی کے فضائل میں جو روایات بیان کرتا ہے اس میں عام طور پر یہ متھم ہے(یعنی جھوٹی روایت کرتا ہے)

(السیوطی  جامع الأحاديث23/91)

.

داهر بن يحيى الرازي، رافضي بغيض، لا يتابع على بلاياه

👈داہر بن یحییٰ ہے جو کہ رافضی بغض رکھنے والا ہے اور اس کی من گھڑت روایتوں کی کوئی متابعت نہیں کی گئی

(شمس الدين ,ميزان الاعتدال ,2/3)

.

دَاهِرُ بْنُ يَحْيَى الرَّازِيُّ كَانَ مِمَّنْ يَغْلُو فِي الرَّفْضِ وَلَا يُتَابَعُ عَلَى حَدِيثِهِ

👈داہر ان لوگوں میں سے تھا جو رافضیت میں غلو کرتا تھا اس کی روایت پر کوئی متابعت نہ کی گئ

(الضعفاء الكبير للعقيلي ,2/46)

.

رافضي خبيث"، وقال ابن عدي: "عامة ما يرويه في فضائل علي، وهو متهم في ذلك"

👈عبداللہ بن داہر خبیث رافضی ہے یہ سیدنا علی کے فضائل میں جو روایات بیان کرتا ہے اس میں عام طور پر یہ متھم ہے یعنی جھوٹی روایت کرتا ہے

(كتاب الضعفاء لأبي زرعة الرازي في أجوبته على أسئلة البرذعي - أبو زرعة الرازي وجهوده في السنة النبوية1/3)

.

فهذا باطل* ولم أر أحدا ذكر داهر هذا حتى ولا بن أبي حاتم بلديه انتهى وإنما لم يذكروه لأن البلاء كله من ابنه عبد الله وقد ذكروه واكتفوا به وقد ذكره العقيلي كما مضى وقال كان يغلو في الرفض ثم ساق الحديث المذكور

خلاصہ

مذکورہ روایت باطل ہے، اسکا ایک راوی عبداللہ بن داھر رافضیت میں غلو کرتا تھا

(لسان الميزان2/414)

.

رواه الْعُقَيْلِيُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَرْفُوعًا. وقال:  في إسناده داهر بن يحيى الرازي كان ممن يغلو في الرفض، ولا يتابع على حديثه، وابنه عبد الله بن داهر كذاب وهو الراوي عنه...وقد رواه الحاكم [في الكنى] من طريق أخرى، وقال: إسناده غير صحيح...وفي الميزان، في ترجمة إسحاق بن بشر الأسدي أنه كذاب وضاع، وأورد له هذا الحديث

خلاصہ:

مذکورہ روایت من گھڑت ہے کیونکہ اسکا راوی داھر رافضی تھا غلو کرتا تھا اسکی حدیث کی کسی معتبر راوی نے تائید نہیں کی، اسکا بیٹا عبداللہ بن داھر یہ بہت بڑا جھوٹا کذاب تھا،  روایات و احادیث اپنی طرف سے گھڑ لیتا تھا...ایسی روایت اسحاق بن بشر سے بھی  مروی ہے اسحاق بن بشر بھی بہت بڑا جھوٹا راوی تھا جو اپنی طرف سے روایات گھڑ لیتا تھا

( الفوائد المجموعة ص345)

.

*چمن زمان کا دیا ہوا پانچواں حوالہ اور چمن زمان کی مکاری.و.خیانت....*

 چمن زمان صاحب نے اسد الغابۃ کا حوالہ دیا اور خیانت مکاری کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ چھپا دیا یہ لیجئے مصنف کا تبصرہ پڑھییے

إسحاق بن بشر ممن لا يحتج بحديثه إذا انفرد، لضعفه ونكارة حديثه

👈اسحاق بن بشر یہ وہ راوی ہیں کہ جس کی حدیث سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی ہے جب یہ منفرد ہو کیونکہ یہ سخت ضعیف اور منکر ہے

(أسد الغابة ط العلمية ,6/265)

.

*چمن زمان کا دیا ہوا چھٹا حوالہ اور چمن زمان کی مکاری.و.خیانت....*

 چمن زمان صاحب نے الاستیعاب کا حوالہ دیا اور خیانت مکاری کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ چھپا دیا یہ لیجئے مصنف کا تبصرہ پڑھییے

چمن زمان صاحب نے خیانت مکاری کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ چھپا دیا یہ لیجئے مصنف کا تبصرہ پڑھییے

وَإِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ مِمَّنْ لا يُحْتَجُّ بِنَقْلِهِ إِذَا انْفَرَدَ لِضَعْفِهِ وَنَكَارَةِ حديث

👈اسحاق بن بشر یہ وہ راوی ہیں کہ جس کی حدیث سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی ہے جب یہ منفرد ہو کیونکہ یہ سخت ضعیف اور منکر ہے

(الاستيعاب في معرفة الأصحاب ,4/1744)

.

*چمن زمان کا دیا ہوا ساتواں حوالہ اور چمن زمان کی مکاری.و.خیانت....*

 چمن زمان صاحب نے الاصابۃ کا حوالہ دیا اور خیانت مکاری کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ چھپا دیا یہ لیجئے مصنف کا تبصرہ پڑھییے

چمن زمان صاحب نے خیانت مکاری کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ چھپا دیا یہ لیجئے مصنف کا تبصرہ پڑھییے

احد المتروکین

👈 اسحاق بن بشر متروک راویوں میں سے ہے

(الإصابة في تمييز الصحابة ,7/294)


.

 اب آتے ہیں اس روایت کی سند کی طرف اس کی سند درج ذیل ہے

أخبرنا أبو الفتح يوسف بن عبد الواحد أنا شجاع أنا أبو عبد الله بن مندة أنا محمد بن يعقوب نا إبراهيم بن سليمان بن علي الحمصي نا إسحاق بن بشر نا خالد بن الحارث عن عوف عن الحسن عن أبي ليلى الغفاري

(تاريخ دمشق لابن عساكر ,42/450)

.

یہ روایت جھوٹی من گھڑت موضوع ہے کہ سند میں ایک راوی اسحاق بشر ہے جس کے متعلق علماء کے فرامین پڑہیے

إسحاق بن بشر الأسدي أنه كذاب وضاع

👈اسحاق بن بشر بہت بڑا جھوٹا اور موضوع من گھڑت روایتیں جھوٹی روایت بیان کرنے والا ہے

(الفوائد المجموعة ص345)

.

وَفِي الْمِيزَان: إِسْحَاق بْن بشر كَذَّاب فِي عداد يصنعُ الحَدِيث وَأورد لَهُ هَذَا الحَدِيث

👈میزان میں ہے کہ اسحاق بن بشیر کذاب ہے بہت بڑا جھوٹا ہے یہ موضوع جھوٹی روایتیں گھڑنے والوں میں سے ہے

(السیوطی اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة1/298)

.

، وَفِيه إِسْحَق بن بشر الْأَسدي الْكَاهِلِي مَعْدُود فِي الوضاعين

👈اسحاق بن بشیر یہ موضوع جھوٹی روایتیں گھڑنے والوں میں سے ہے

(تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة1/353)

.

*کچھ روایات میں دوٹوک ہے کہ نبی پاک نے بتایا کہ خلیفہ بلافصل ابوبکر ہونگے ....لیکن بعض علماء اہلسنت محققین نے ایسی روایات کو بھی موضوع من گھڑت جھوٹی قرار دیا ہے...ایک جھلک ملاحظہ کیجیے*

قال ابن عدي: يضع الحديث على الثقات. وقال ابن حبان: لا تجوز الرواية عَنْهُ..قلت: من موضوعاته: عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ: " {وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بعض أزواجه حديثا} ". قَالَ: أسرّ إليها أنّ أبا بَكْر خليفتي من بعدي

👈ایک راوی ہے جو ثقہ راویوں کی طرف نسبت کرکے جھوٹی من گھڑت روایات بیان کرتا ہے، اسکی جھوٹی من گھڑت روایات میں سے ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ کو راز بتا کہ ابوبکر میرے بعد خلیفہ ہونگے

(ذہبی تاريخ الإسلام - ت بشار5/65)

.

قلت: ومن أباطيله سعدان بن نصر عن خالد عن هشام، عَن أبيه، عَن عائشة رضي الله عنها: {وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه حديثا} قال أسر إليها أن أبا بكر خليفتي من بعدي

👈جھوٹی من گھڑت روایات میں سے ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ کو راز بتایا کہ ابوبکر میرے بعد خلیفہ ہونگے

(ابن حجر لسان الميزان ت أبي غدة3/314)

.

جبکہ

جمھور اہلسنت کا نظریہ ہے کہ:

ذھب جمھور اصحابنا... الیٰ ان النبی لم ینص علی امام بعدہ

👈جمہور اہل سنت کا نظریہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی کو دوٹوک خلیفہ مقرر نہ فرمایا

(شرح المقاصد 5/259)

.

والاکثر وھم جمھور اصحابنا....علی انہ لم یکن نص علی امامۃ احد بعدہ

👈 اکثر اور جمہور اہل سنت کا مذہب ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے بعد کسی کو دوٹوک خلیفہ نہ بنایا

(المسامرہ2/143)

.

لَمْ يَنُصّ على خليفة، لا على أبي بكر، ولا على غيره، وهذا هو مذهب جماعة من أهل السُّنَّة، والصحابة، ومن بعدهم

👈نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی کی خلافت پر دوٹوک تصریح نہ فرمائی، نہ ہی سیدنا ابوبکر صدیق کو خلیفہ دو ٹوک فرمایا اور نہ ہی کسی اور کو دوٹوک خلیفہ فرمایا... یہی اہل سنت کا مذہب ہے اور یہی صحابہ کرام کا مذہب ہے اور یہی صحابہ کے بعد کے اسلاف کا مذہب ہے

(البحر المحيط الثجاج في شرح صحيح الإمام مسلم بن الحجاج31/672)

.

فقد ترك أَي: التَّصْرِيح بالشخص الْمعِين، وَعقد الْأَمر لَهُ.

👈پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی معین شخص کو دو ٹوک الفاظ میں خلیفہ مقرر نہیں فرمایا

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري ,24/279)



وَلَوْ كَانَ هُنَاكَ نَصٌّ عَلَيْهِ أَوْ عَلَى غَيْرِهِ لَمْ تَقَعِ الْمُنَازَعَةُ

👈کسی کے خلیفہ ہونے پر اگر دو ٹوک نص(آیت معتبر حدیث) ہوتی تو خلافت پر تنازعہ واقع ہی نہ ہوتا

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,9/3885)

.

أن النبى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لم ينص على خلافة أبى بكر، ولا على علىٍّ، ولا على العباس

👈بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا علی اور سیدنا عباس میں سے کسی کو دوٹوک الفاظ میں خلیفہ مقرر نہ فرمایا

(القاضي عياض ,إكمال المعلم بفوائد مسلم ,6/221)

.

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنُصَّ عَلَى خَلِيفَةٍ وَهُوَ إِجْمَاعُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَغَيْرِهِمْ

👈بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو دوٹوک خلیفہ مقرر نہ فرمایا اس پر اہل سنت وغیرہ کا اجماع ہے

(شرح النووي على مسلم12/205..206)

.

قال : قيل لعمر : الا تستخلف ، قال : إن استخلف ، فقد استخلف من هو خير ، مني ابو بكر ، وإن اترك ، فقد ترك من هو خير مني ، رسول الله صلى الله عليه وسلم

👈سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے عرض کیا گیا آپ کسی کو اپنا خلیفہ کیوں نہیں بناتے؟ جواب دیا کہ اگر میں کسی کو خلیفہ نہ کروں تو مجھ سے بہتر شخص نے یہ کام کیا ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ٹوک الفاظ میں کسی کو خلیفہ نہیں بنایا اور اگر میں کسی کو خلیفہ بنا دوں تو مجھ سے بہتر شخصیت نے یہ کام کیا ہے یعنی سیدنا ابوبکر صدیق نے دوٹوک اپنا خلیفہ بنایا

(بخاری 7218)

.

، وإني لئن لا استخلف ، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يستخلف ، وإن استخلف فإن ابا بكر قد استخلف

👈اگر میں کسی کو خلیفہ نہ کروں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ٹوک الفاظ میں کسی کو خلیفہ نہیں بنایا اور اگر میں کسی کو خلیفہ بنا دوں تو سیدنا ابوبکر صدیق نے دوٹوک اپنا خلیفہ بنایا

(مسلم 4714...ترمذی، ابوداؤد وغیرہ)

.

ہاں البتہ نصوص کے اشارات ثابت کرتے ہیں کہ خلیفہ اول و بلافصل سیدنا ابوبکر ہیں

مثلا

الحدیث:

أَتَتِ امْرَأَةٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْهِ، قَالَتْ : أَرَأَيْتَ إِنْ جِئْتُ وَلَمْ أَجِدْكَ ؟ كَأَنَّهَا تَقُولُ : الْمَوْتَ، قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ

👈 ایک عورت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی نبی پاک نے فرمایا کہ میرے پاس بعد میں آنا، اس عورت نے کہا کہ اگر میں آپ کو نہ پاؤں گویا کہ وہ یہ کہہ رہی تھی کہ شاید آپ وفات پا چکے ہوں تو؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر کے پاس آنا

(بخاری حدیث3659)

.

اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي : أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ "

👈نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر اور عمر کی پیروی کرنا

(ترمذی حدیث3662)

.

الْإِشَارَةِ إِلَى أَنَّهُ الْخَلِيفَةُ بَعْدَهُ

👈اس حدیث میں اشارہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نبی پاک کی وفات کے بعد خلیفہ ہیں

(فتح الباري لابن حجر ,7/24)

.

 ما عليه أهل الأصول من أنه لم ينص على خلافه أحد (قلت) مرادهم لم ينص نصا صريحا

👈وہ جو اہل اصول کا متفقہ اصول ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ مقرر نہ فرمایا تو ان کی مراد یہ ہے کہ دوٹوک وضاحت کے ساتھ مقرر نہ فرمایا

(فيض القدير2/56)

.

وَلَمْ أَرَ فِي التَّعْرِيضِ بِالْخِلَافَةِ فِي سُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَوْضَحَ مِنْ هَذَيْنِ الْحَدِيثَيْنِ،

👈دونوں حدیثوں میں واضح اشارہ ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے اشارہ فرمایا ہے کہ ان کے بعد ان کے خلیفہ ابوبکر و عمر ہونگے

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,9/4017)

.

وفيه الإشارة إلى أن أبا بكر هو الخليفة بعد النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، ولا يعارض هذا جزم عمر أن النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لم يستخلف لأن مراده نفي النص على ذلك صريحًا

👈حدیث پاک میں اشارہ ہے کہ ابوبکر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ ہوں گے، وہ جو سیدنا عمر نے فرمایا کہ نبی پاک نے کسی کو خلیفہ نہ فرمایا تو انکی مراد یہ ہے کہ دو ٹوک الفاظ میں خلیفہ مقرر نہ فرمایا(لیکن اشارتاً فرمایا کہ میرے بعد یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر اور عمر خلیفہ ہوں گے)

(شرح القسطلاني، إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري ,6/87)

.

قاری لقمان بھائی لکھتے ہیں

پیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی  نے ایک شعر کہا ؎

دےکے بستر کردیا تھا فیصلہ ہجرت کی شب 

عقل کا اندھا ابھی ترتیب کے چکر میں ہے

مطلب: ہجرت کی رات رسول اللہ نے حضرت علی کو اپنے بستر پر سلا کر گویایہ فیصلہ کردیا تھا کہ میرے بعد علی ہے ۔

لیکن عقل کے اندھے ( ائمہ اہل سنت ) ابھی بھی ترتیب افضلیت ( کہ علی کا چوتھا نمبر ) لیے بیٹھے ہیں ۔

اس شعر میں نصیرؔ نے تفضیلی مذہب کی ترجمانی کی ہے ، اور دلیل بھی انھی والی دی ہے ۔

.مولانا محمد عاصم صدیقی تک جب یہ شعر پہنچا تو انھوں نے اس کاپہلا مصرع بدل کر نصیر صاحب کو یوں ارسال کیا ؎

ثانئِ اثنین کا ہے فیصلہ قرآن میں 

عقل کا اندھا ابھی ترتیب کے چکر میں ہے

مطلب: ہجرت کی رات رسول اللہ صدیق اکبر کو اپنے ساتھ لے گئے تھے تو اللہ ﷻ نے قرآن پاک میں حضرت صدیق  کو نبی کا  " دوسرا " کہا ، یعنی سرکارﷺ کے بعد جس کا سب سے پہلا نمبر ہے ۔ گویا رب تعالی نے نبی کے بعد صدیق کو پہلا نمبر دے دیا ، لیکن عقل کے اندھے ( تفضیلی ) کو ابھی بھی سمجھ نہیں آرہی ، وہ رب تعالیٰ کی عطا کردہ ترتیب کے خلاف مولا علی پاک کو پہلا نمبر دینے کے چکر میں ہیں...(قاری لقمان بھائی کا کلام ختم ہوا)

.###################

*#نشانی نمبر11*

 چمن زمان کہتا ہے کہ یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ظلم و زیادتی و بغض ہے کہ انکے مخالفین کو کافر نہ کہا جائے مطلب نعوذ باللہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کا گروہ چمن زمان کے مطابق کافر تھے،پھر چمن دلیل دیتا ہے کہ جیسے خلیفہ ثالث کے مخالف خلافت راشدہ کے مخالف باغی تھے اس لیے کافر اور سیدنا علی بھی خلیفہ راشد تو انکے باغی بھی کافر ہیں اور حدیث بھی چمن زمان نے بطور دلیل پڑھی کہ عمار کا قاتل و سالب جہنمی ہے مطلب سیدنا معاویہ و انکا گروہ جہنمی ہے،چمن زمان کہتا ہے کہ ظلم زیادتی ہے کہ سیدنا علی کے مخالفین کے لیے باغی کا معنی ہی بدل دیا گیا یعنی خطاء اجتہادی معنی کرنا ظلم و زیادتی سیدنا علی سے بغض ہے نعوذ باللہ اور چمن زمان کہتا ہے اصل معیار قرآن و حدیث ہے(علماء وغیرہ کے فتوے اجتہاد معتبر نہیں)

یہ

سب اسکی نشانی ہے کہ وہ ایرانی سازش یہود نصاری کی سازش پر ہے کہ اختلافات کو جھوٹی موٹی دلیل سے بڑھا چڑھا کر انتشار پیدا کیا جائے اور رافضیوں اور اسلام دشمنوں کو خوش کیا جائے....ہاں فروعی باادب پردلیل اختلاف چمن زمان بمع ہمنوا کرتے تو ایجنٹ سازشی نہ کہلاتے....مگر افسوس......!!

.

*#خلاصہ جواب.....!!*

چمن زمان کے الفاظ و انداز سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اجڑا چمن مردود فسادی گمراہ کرنے والا جاہل اجہل ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے بغض رکھنے والا ہے بات کفر تک جاسکتی ہے مگر فتوی معتبر مفتیان کرام ہی دیں گے…ہمارے مطالعہ کے مطابق محض خلافت راشدہ سے بغاوت کی وجہ سے کسی کو کافر قرار نہیں دیا گیا بلکہ تفصیل لکھی گئ کہ خلیفہ راشد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باغی جنہوں نے زکواۃ کا انکار کیا تو زکواۃ فرض کا انکار کفر ہے اس لیے ان باغیوں کو کافر مرتد قرار دیا گیا اور جن باغیوں نے زکواۃ کا انکار نہ کیا مگر زکواۃ دینے سے رک گئے انہیں گمراہ گناہ گار فاسق فسادی کہا گیا کیونکہ ان کے پاس اجتہاد نہ تھا، خلیفہ راشد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل باغی جنہوں نے قتل جیسا گناہ کیا تو انہیں فاسق کہا گیا اور جن باغیوں نے قتل ناحق کو بغیر اجتہاد کے جائز سمجھا انہیں کافر مرتد قرار دیا گیا اور خلیفہ راشد سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باغی جنہوں نے سیدنا علی وغیرہ کی تکفیر کی انکو کافر مرتد کہا گیا اور جن باغیوں نے تکفیر نہ کی انہیں فسادی گناہ گار فاسق قرار دیا گیا اور جنہوں نے اجتہاد کیا انکو اجتہادی خطاء پے کہا گیا، سیدنا معاویہ وغیرہ نے اجتہاد کیا تھا اس لیے انہیں اجتہادی خطاء پے کہا گیا...اور اجتہاد لازم قرار دیا ہے اسلام نے، اجتہادی و برحق قیاس کی بڑی اہمیت ہے، علماء مجتہدین کی پیروی کا حکم ہے

لیھذا

اہلسنت نے کوئی ظلم و زیادتی بغض و ناانصافی نہیں کی بلکہ جو دلیل کی بنیاد پے فتوی بنتا تھا وہ دیا لیکن چمن زمان کی دال میں کچھ کالا ضرور ہے بلکہ پوری دال ہی کالی جلی بھنی ہے، حاسد مکار شریر فسادی شخص ہے یہ اجڑا چمن،اسے سمجھنا لازم، سمجھ جائے رک جائے تو ٹھیک ورنہ ٹھکانے لگانا لازم...ٹھکانے لگانے کا مطلب قید و مناسب سزا ہے حتی کہ سزائے موت بھی ہوسکتی ہے اور سزا دینا حکومت و عدلیہ کا کام ہے مگر کبھی عام آدمی بھی سزا دے سکتا ہے،کچھ تفصیل میرے بلاگ پے موجود تحریر گستاخ رسول کی سزا کے ضمن میں پڑھ سکتے ہیں

.#################

*#تفصیل،دلائل و حوالہ جات......!!*

اجتہاد اور علماء کی پیروی اور سیدنا معاویہ کا اجتہاد اس پر نیچے لکھیں گے پہلے علماء و اسلاف کے فتوے عقیدے پڑہیے

.

*#امام_نووی کا عقیدہ، #تمام_سچے_اہلسنت کا عقیدہ…!!*

وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ مِنَ الْعُدُولِ الْفُضَلَاءِ وَالصَّحَابَةِ النُّجَبَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَمَّا الْحُرُوبُ الَّتِي جَرَتْ فَكَانَتْ لِكُلِّ طَائِفَةٍ شُبْهَةٌ اعْتَقَدَتْ تَصْوِيبَ أَنْفُسِهَا بِسَبَبِهَا وَكُلُّهُمْ عُدُولٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَمُتَأَوِّلُونَ فِي حُرُوبِهِمْ وَغَيْرِهَا وَلَمْ يُخْرِجْ شئ مِنْ ذَلِكَ أَحَدًا مِنْهُمْ عَنِ الْعَدَالَةِ لِأَنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ اخْتَلَفُوا فِي مَسَائِلَ مِنْ مَحَلِّ الِاجْتِهَادِ كَمَا يَخْتَلِفُ الْمُجْتَهِدُونَ بَعْدَهُمْ فِي مَسَائِلَ مِنَ الدِّمَاءِ وَغَيْرِهَا وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ نَقْصُ أَحَدٍ مِنْهُمْ....عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ هُوَ الْمُصِيبَ الْمُحِقَّ وَالطَّائِفَةُ الْأُخْرَى أَصْحَابُ مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانُوا بُغَاةً مُتَأَوِّلِينَ وَفِيهِ التَّصْرِيحُ بِأَنَّ الطَّائِفَتَيْنِ مُؤْمِنُونَ لَا يَخْرُجُونَ بِالْقِتَالِ عَنِ الْإِيمَانِ وَلَا يَفْسُقُونَ وَهَذَا مَذْهَبُنَا وَمَذْهَبُ مُوَافِقِينَا

سیدنا معاویہ عادل فضیلت والے نجباء صحابہ میں سے ہیں باقی جو ان میں جنگ ہوئی تو ان میں سے ہر ایک کے پاس شبہات تھے اجتہاد تھا جس کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی عادل ہونے کی صفت سے باہر نہیں نکلتا اور ان میں کوئی نقص و عیب نہیں بنتا

سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ درستگی پر تھے حق پر تھے اور دوسرا گروہ یعنی سیدنا معاویہ کا گروہ (اجتہادی) باغی تھے لیکن تاویل(اجتہاد) کرنے والے تھے دونوں گروہ مومنین ہیں دونوں گروہ ایمان سے نہیں نکلتے اور دونوں گروہ فاسق نہیں ہیں یہی ہمارا مذہب ہے اور یہی مذہب ہمارے(عقائد میں)موافقین(حنفی حنبلی مالکی وغیرہ تمام اہل سنت)کا مذہب ہے 

(شرح مسلم للنووی7/168 و 15/149)

*چمن زمان صاحب بتا امام نووی بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بغض و ناانصافی رکھنے والے تھے بلکہ سیدنا معاویہ کو اجتہادی خطاء پے کہنا امام نووی کے مطابق تمام اہلسنت کا نظریہ ہے تو بتاؤ اجڑے جلے بھنے چمن تم اہلسنت سے خارج کہلائے یا ڈھٹائی مکاری سے زبردستی کے اہلسنت کہلاؤ گے.....؟؟*

.

*#اہلسنت کا اجماعی متفقہ عقیدہ......!!*

أجمعت الأمة على وجوب الكف عن الكلام في الفتن التي حدثت بين الصحابة..ونقول: كل الصحابة عدول، وكل منهم اجتهد، فمنهم من اجتهد فأصاب كـ علي فله أجران، ومنهم من اجتهد فأخطأ كـ معاوية فله أجر، فكل منهم مأجور، القاتل والمقتول، حتى الطائفة الباغية لها أجر واحد لا أجران، يعني: ليس فيهم مأزور بفضل الله سبحانه وتعالى.

امت کا اجماع ہے کہ صحابہ کرام میں جو فتنے جنگ ہوئی ان میں نہ پڑنا واجب ہے تمام صحابہ کرام عادل ہیں(فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)ان میں سے ہر ایک مجتہد ہے اور جو مجتہد حق کو پا لے جیسے کہ سیدنا علی تو اسے دو اجر ہیں اور جو مجتہد خطاء پر ہو جیسے سیدنا معاویہ تو اسے ایک اجر ملے گا لہذا سیدنا علی اور معاویہ کے قاتل مقتول سب جنتی ہیں حتیٰ کہ سیدنا معاویہ کا باغی گروہ بھی جنتی ہے اسے بھی ایک اجر ملے گا یعنی تمام صحابہ میں سے کوئی بھی گناہ گار و فاسق نہیں اللہ کے فضل و کرم سے  

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة للالكائي13/62)

*امت محمدیہ سیدنا معاویہ کو خطاء اجتہادی پے کہہ رہی ہے اور تمھارے مطابق اے چمن یہ ناانصافی ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بغض ہے مطلب ساری امت اہلبیت کے بغض میں نعوذ باللہ مبتلا رہی ہے اور ایک تم اور شیعہ ہی سچے مسلمان ہو.....؟؟ یار صاف صاف اعلان کیوں نہیں کرتے کہ تم شیعہ رافضی ہو، کرتوت تو رافضیوں والے لگتے ہیں تمھارے......!!*


.

*#اہلسنت_کے_فقہ_و_عقائد_کے_امام_امام_اعظم_ابوحنیفہ کا عقیدہ*

قال أبو حنيفة و علي بن ابي طالب رضي الله عنه كان مصيبا في حربه و من قاتله كان على الخطأ "

سیدنا علی رضی اللہ عنہ جنگ کرنے میں حق پر تھے اور(سیدنا معاویہ غیرہ) نے ان سے جنگیں کیں وہ(اجتہادی)خطا پر تھے 

(أصول المنيفة ص 58)

*چمن زمان کچھ تو شرم کر....اپنے امام اور علماء اہلسنت کے خلاف جاتا ہے، امت محمدیہ اہلسنت کے خلاف بکتا ہے، بغض و ناانصافی و کفر کے فتوے جھاڑتا ہے....کچھ تو شرم کر.....!!*

.

*#امام العقیدہ امام اہلسنت امام ابو الحسن #الاشعری کا عقیدہ*

قال ولا أقول في عائشة وطلحة والزبير رضي الله عنهم إلّا أنّهم رجعوا عن الخطأ.....فهذه جملة من أصول عقيدته التي عليها الآن جماهير أهل الأمصار الإسلامية، والتي من جهر بخلافها أريق دمه

اور میں سیدہ عائشہ ، سیدنا طلحہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنھم کے بارے میں یہی عقیدہ رکھتا ہوں کہ انہوں نے اپنی اجتہادی خطا سے توبہ کر لی(لیکن سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ نے اجتہادی خطاء سے رجوع نہ کیا اس لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ ہوگئ)....یہ تمام عقائد وہ ہیں جس پر جمھور امت ہے جو اس کے خلاف عقیدہ رکھے، اسکے خلاف عقیدہ نظریہ پھیلائے اسے قتل کیا جائے

(المواعظ و الاعتبار للمقریزی4/195)

*کیا امام اشعری بھی تمھاری نگاہ میں اے اجہل چمن بغض والے تھے....؟؟ ظلم و زیادتی ناانصافی کرتے تھے....؟؟*

.

*#امام_تفتازانی اور #علامہ_پرہاروی کا عقیدہ*

بل عن خطأ في الاجتهاد من معاوية

سیدنا معاویہ جو سیدنا علی سے اختلاف و جنگ کی وہ سب اجتہادی خطاء تھی سیدنا معاویہ کی

(نبراس مع عقائد نسفیہ ص657)

.

*#امام_ابن_حجر_عسقلانی کا عقیدہ*

وَذَهَبَ جُمْهُورُ أَهْلِ السُّنَّةِ إِلَى تَصْوِيبِ مَنْ قَاتَلَ مَعَ عَلِيٍّ لِامْتِثَالِ قَوْلِهِ تَعَالَى وان طَائِفَتَانِ من الْمُؤمنِينَ اقْتَتَلُوا الْآيَةَ فَفِيهَا الْأَمْرُ بِقِتَالِ الْفِئَةِ الْبَاغِيَةِ وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ مَنْ قَاتَلَ عَلِيًّا كَانُوا بُغَاةً وَهَؤُلَاءِ مَعَ هَذَا التَّصْوِيبِ مُتَّفِقُونَ عَلَى أَنَّهُ لَا يُذَمُّ وَاحِدٌ مِنْ هَؤُلَاءِ بَلْ يَقُولُونَ اجتهدوا فأخطئوا

 جمہور اہل سنت نے فرمایا ہے کہ جس نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ساتھ مل کر سیدنا معاویہ وغیرہ سے قتال کیا وہ حق پر تھے کیونکہ باغیوں کے ساتھ قتال کیا جاتا ہے یہ آیت میں حکم ہے اور سیدنا معاویہ کا گروہ (اجتہادی) باغی تھا...اس کے ساتھ ساتھ اہلسنت اس بات پر بھی متفق ہیں کہ دونوں گروہوں میں سے کسی کو بھی مذمت کا نشانہ نہ بنایا جائے گا کیونکہ سیدنا معاویہ وغیرہ نے اجتہاد کیا اور اجتہاد میں خطا کی

(فتح الباری شرح بخاری13/67)

.

*#امام_غزالی #علامہ_حقی کا عقیدہ*

قال حجة الإسلام الغزالي رحمه الله يحرم على الواعظ وغيره......وما جرى بين الصحابة من التشاجر والتخاصم فانه يهيج بغض الصحابة والطعن فيهم وهم اعلام الدين وما وقع بينهم من المنازعات فيحمل على محامل صحيحة فلعل ذالك لخطأ في الاجتهاد لا لطلب الرياسة او الدنيا كما لا يخفى وقال في شرح الترغيب والترهيب المسمى بفتح القريب والحذر ثم الحذر من التعرض لما شجر بين الصحابة فانهم كلهم عدول خير القرون مجتهدون مصيبهم له أجران ومخطئهم

له أجر واحد

حجة الاسلام امام غزالی نے فرمایا کہ صحابہ کرام کے درمیان جو مشاجرات ہوئےان کو بیان کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے خدشہ ہے کہ صحابہ کرام کے متعلق بغض بغض اور طعن پیدا ہو۔ ۔۔۔۔۔صحابہ کرام میں جو مشاجرات ہوئے ان کی اچھی تاویل کی جائے گی کہا جائے گا کہ ان سے اجتہادی خطا ہوئی انہیں حکومت و دنیا کی طلب نہ تھی..ترغیب وترہیب کی شرح میں ہے کہ مشاجرات صحابہ میں پڑنے سے بچو بے شک تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)تمام صحابہ کرام خیرالقرون ہیں مجتہد ہیں مجتہد میں سے جو درستگی کو پہنچا اس کے لئے دو اجر اور جس نے خطا کی اس کے لیے ایک اجر 

(روح البيان 9/437)

*امام غزالی امام تفتازانی علامہ پرہاروی امام ابن حجر  علامہ حقی جیسے صوفیاء و محققین بھی اے چمن تمھارے فتوے کے مطابق سیدنا علی سے بغض رکھنے والے ظلم و زیادتی کرنے والے تھے....؟؟*

.

*#علامہ_پرہاروی کا عقیدہ*

بخاری مسلم احمد ابو داؤد نسائی ترمذی وغیرہ کی حدیث ہیں کہ مجتہد اگر درستگی پالے تو اسے دو اجر اور مجتہد خطا کرے تو اسے ایک اجر ملے گا صحابہ کرام نے جو جنگیں ہوئیں وہ اسی اجتہاد کی وجہ سے ہوئی تو ان میں سے جو درستگی کو تھا اس کو دو اجر ملیں گے اور جو سیدناَمعاویہ سمیت کچھ صحابہ تھے وہ اجتہادی خطاء پر تھے اسے ایک اجر ملے گا لہذا سیدنا معاویہ اور سیدنا علی و غیرہ دونوں گروہ جنتی ہیں 

(الناهية عن طعن أمير المؤمنين معاوية، ص27)

.

*#امام_غزالی کا عقیدہ*

وَمَا جرى بَين مُعَاوِيَة وَعلي رَضِي الله عَنْهُمَا كَانَ مَبْنِيا على الِاجْتِهَاد

( امام غزالی فرماتے ہیں کہ ہم اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ)اور جو سیدنا معاویہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے درمیان ہوا تو وہ اجتہاد پر مبنی تھا(نعوذ باللہ دنیاداری مکاری  کفر منافقت وغیرہ نہ تھا)

(قواعد العقائد امام غزالي ص227)

.

*#امام_ابن کثیر_کا عقیدہ*

وأما ما شجر بينهم بعده عليه الصلاة والسلام، فمنه ما وقع عن غير قصد، كيوم الجمل، ومنه ما كان عن اجتهاد، كيوم صفين. والاجتهار يخطئ ويصيب، ولكن صاحبه معذور وإن أخطأ، ومأجور أيضاً، وأما المصيب فله أجران اثنان، وكان علي وأصحابه أقرب إلى الحق من معاوية وأصحابه رضي الله عنهم أجمعين

صحابہ کرام میں کچھ جنگیں تو ایسی ہیں جو بغیر قصد کے ہوئیں جیسے کہ جنگ جمل اور کچھ جنگیں ایسی ہیں جو اجتہاد کی بنیاد پر ہوئی جیسے کہ صفین....جس نے درستگی کو پایا جیسے کہ سیدنا علی تو ان کو دو اجر ملیں گے اور جس نے اجتہاد میں خطا کی جیسے کہ سیدنا معاویہ تو اسے ایک اجر ملے گا 

( الباعث الحثيث  ص182)

.

*#امام_عینی_ کا عقیدہ*

وَالْجَوَاب الصَّحِيح فِي هَذَا أَنهم كَانُوا مجتهدين ظانين أَنهم يَدعُونَهُ إِلَى الْجنَّة، وَإِن كَانَ فِي نفس الْأَمر خلاف ذَلِك، فَلَا لوم عَلَيْهِم فِي اتِّبَاع ظنونهم، فَإِن قلت: الْمُجْتَهد إِذا أصَاب فَلهُ أَجْرَانِ، وَإِذا أَخطَأ فَلهُ أجر، فَكيف الْأَمر هَهُنَا. قلت: الَّذِي قُلْنَا جَوَاب إقناعي فَلَا يَلِيق أَن يُذكر فِي حق الصَّحَابَة خلاف ذَلِك، لِأَن اتعالى أثنى عَلَيْهِم وَشهد لَهُم بِالْفَضْلِ

اللہ تعالی نے صحابہ کرام پر تعریف کی ہے اور ان کی فضیلت بیان کی ہے تو یہ سب مجتہد تھے(سیدنا علی سیدنا معاویہ وغیرہ نے) جنگوں اور فتنوں میں اجتہاد کیا جس نے درستگی کو پایا اس کے لئے دو اجر اور جس نے خطا کی اس کے لیے ایک اجر یہی جواب صحیح ہے اور یہی جواب صحابہ کرام کے لائق ہے 

(عمدة القاري شرح بخاری4/209)

.

*#امام_ملا_علی_قاری کاعقیدہ*

وقد قال - صلى الله عليه وسلم: " «إذا ذكر أصحابي فأمسكوا» " أي: عن الطعن فيهم، فلا ينبغي لهم أن يذكروهم إلا بالثناء الجميل والدعاء الجزيل، وهذا مما لا ينافي أن يذكر أحد مجملا أو معينا بأن المحاربين مع علي ما كانوا من المخالفين، أو بأنمعاوية وحزبه كانوا باغين على ما دل عليه حديث عمار: " «تقتلك الفئةالباغية» " ; لأن المقصود منه بيان الحكم المميز بين الحق والباطل والفاصل بين المجتهد المصيب، والمجتهد المخطئ، مع توقير الصحابة وتعظيمهم جميعا في القلب لرضا الرب

اور بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ میرے صحابہ کا ذکر ہو تو رک جاؤ، یعنی لعن طعن سے رک جاؤ...تو ضروری ہے کہ انکا ذکر ایسے ہو کہ انکی مدح سرائی کی جائے اور دعاء جزیل دی جائے، لیکن اسکا یہ مطلب نہین کہ حضرت علی سے جنگ کرنے والوں کو یا سیدنا معاویہ اور انکے گروہ کو باغی نا کہا جائے(بلکہ مجتہد باغی کہا جائے گا یہ فضائل بیان کرنے کے منافی نہین کہ مجتہد باغی گناہ نہیں) کیونکہ حدیث عمار کہ اے عمار رضی اللہ عنہ تجھے باغی گروہ قتل کرے گا....کیونکہ (اجتہادی باغی خاطی کہنا مذمت کے لیے نہین بلکہ)اس لیے ہے کہ وہ حکم واضح کر دیا جائے جو حق کو واضح کرے اور مجتہد مصیب سیدنا علی اور مجتہد سیدنا معاویہ خطاء کرنے والے میں فیصلہ کرے، اس کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کی(فقط زبانی منافقانہ نہیں بلکہ) دلی تعظیم و توقیر ہو، اللہ کی رضا کی خاطر

(مرقاۃ تحت الحدیث3397ملتقطا)

*امام عینی امام ابن کثیر امام ملا علی قاری کو بھی بغض والے کہو گے اے چمن......؟؟ان کے متعلق بھی گندی سوچ رکھو گے پھیلاؤ گے کہ ظلم و زیادتی کی انہوں نے.....؟؟*

.

*#امام_سیوطی کا عقیدہ*

الصحابة كلهم عدول من لابس الفتن وغيرهم بإجماع من يعتد به

 تمام صحابہ کرام عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق کافر مرتد نہیں) 

وہ صحابہ کرام بھی عادل ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے(جیسے سیدنا معاویہ وغیرہ) اور دوسرے بھی عادل ہیں اور اس پر معتدبہ امت کا اجماع ہے 

(التدريب  امام سیوطی ص204)

(مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح،1/211)

.

*#امام_ابن_حجر_الهيتمي کا عقیدہ*

 وَغَايَة اجْتِهَاده أَنه كَانَ لَهُ أجر وَاحِد علىاجْتِهَاده وَأما عَليّ رَضِي الله عَنهُ فَكَانَ لَهُ أَجْرَان

زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیدنا معاویہ کو ایک اجر ملے گا اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دو اجر ملے گے 

(الصواعق المحرقة2/624)

*امام سیوطی اما ھیتمی بھی نہ بچ سکے اجڑے چمن تیرے فتوے سے......؟؟*

۔

.

*#امام_ربانی_مجدد_الف_ثانی کا عقیدہ*

فان معاویة واحزابه بغوا عن طاعته مع اعترافهم بانه افضل اھل زمانه وانه الاحق بالامامة بشبهه هی ترک القصاص عن قتله عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنه ونقل فی حاشیة کمال القری عن علی کرم اللہ تعالیٰ وجهه انہ قال اخواننا بغوا علینا ولیسوا کفرة ولا فسقة لما لھم من التاویل وشک نیست کہ خطاء اجتہادی از ملامت دور است واز طعن وتشنیع مرفوع ." 

ترجمہ:

بے شک معاویہ اور اس کے لشکر نے اس(حضرت علی  سے)بغاوت کی، باوجودیکہ کہ وہ مانتے تھے کہ وہ یعنی سیدنا علی تمام اہل زمانہ سے افضل ہے اور وہ اس سے زیادہ امامت کا مستحق ہے ازروئے شبہ کے اور وہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے قصاص کا ترک کرنا ہے ۔ اور حاشیہ کمال القری میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ہمارے بھائیوں نے ہم پر بغاوت کی حالانکہ نہ ہی وہ کافر ہیں اور نہ ہی فاسق کیونکہ ان کے لیے تاویل ہے

اور شک نہیں کہ خطائے اجتہادی ملامت سے دور ہے اور طعن وتشنیع سے مرفوع ہے

(مکتوبات امام ربانی 331:1منقولا عن بعض المصادر) 

.

وَإِنْ كَانُوا بُغَاةً فِي نَفْسِ الْأَمْرِ فَإِنَّهُمْ كَانُوا مُجْتَهِدِينَ فِيمَا تَعَاطَوْهُ مِنَ الْقِتَالِ، وَلَيْسَ كُلُّ مُجْتَهِدٍ مُصِيبًا، بَلِ الْمُصِيب لَهُ أَجْرَانِ والمخطئ لَهُ أجر.

سیدنا معاویہ کا گروہ باغی تھا لیکن وہ مجتہد تھے لہذا انہیں ایک اجر ملے گا اور جو درستگی پر ہوگا اسے دو اجر ملے گے 

(امام ابن كثير، السيرة النبوية2/308)

.

*#امام_اہلسنت_مجدد دین و ملت سیدی احمد رضا کا عقیدہ....!!*

بلاشبہہ ان(سیدنا معاویہ) کی خطا خطائے اجتہادی تھی اور اس پر الزام معصیت عائد کرنا اس ارشاد الہی کے صریح خلاف ہے۔(فتاوی رضویہ29/229)

.

*#علامہ_سید احمد سعید کاظمی شاہ صاحب کا عقیدہ*

"اگر کوئی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا ہے تو میں آپ کو بتادوں کہ امیر معاویہ سے جو کچھ بھی ہوا وہ اجتہادی خطاء کی بنا پر ہوا

(خطبات کاظمی3/300)

.####################

*#سیدنا_معاویہ رضی اللہ عنہ کی خطاء اجتہادی تھی،اسکی دلیل بھی پڑھتے چلیے......!!*

القرآن:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ  اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ

اےایمان والو اللہ کی اطاعت کرو، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اولی الامر کی اطاعت و پیروی کرو...پس اگر اختلاف و جگھڑا ہوجائے تو اگر تم ایمان والے ہو تو معاملہ اللہ اور رسول(قران و حدیث و سنت) کی طرف لوٹا دو

(سورہ نساء ایت59)

 آیت مبارکہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے معاملات قرآن حدیث اور سنت کی طرف لوٹا دے اور قرآن و سنت اور حدیث کی پیروی کرے تو وہ مسلمان شخص مومن کہلائے گا...اور سیدنا معاویہ اور سیدنا علی دونوں نے معاملہ قرآن و حدیث کی طرف لوٹا دیا تھا...دونوں معزز حضرات کی دلیل قرآن و احادیث تھیں... سوال میں اعتراض چونکہ سیدنا معاویہ پر ہوا ہے تو ہم آپ کو دکھاتے ہیں کہ سیدنا معاویہ نے اپنا معاملہ قرآن اور حدیث اور سنت کی طرف کیسے لوٹایا

القرآن:

مَنۡ قُتِلَ مَظۡلُوۡمًا فَقَدۡ جَعَلۡنَا لِوَلِیِّہٖ سُلۡطٰنًا

جو ظلماً قتل کیا جائے تو اللہ نے اس کے ولی کو قوت و اختیار دیا ہے(کہ قصاص لیں یا دیت لیں یا معاف کردیں)

(سورہ بنی اسرائیل آیت33)

.

نبی پاکﷺاحد پہاڑ پے تشریف فرما ہوئے اور آپ کے ساتھ سیدنا ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنھم تھے تو احد پہاڑ جنبش کرنے لگا نبی پاکﷺ نے فرمایا اے احد ساکن ہو جا راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں نبی پاکﷺنے اپنا پاؤں مبارک احد پہاڑ پے مار کر فرمایا تھا کہ ساکن ہوجا.....(پھر نبی کریم نے فرمایا)بےشک تجھ پر نبیﷺاور صدیق اور دو شہید ہیں(یعنی سیدنا عمر و عثمان ناحق و ظلماً قتل کییے جائیں گے،شہادت کا رتبہ پائیں گے )

(صحيح البخاري ,5/15حدیث3699)

.

وشهيدان) هما: عمر وَعُثْمَان

 بخاری شریف کی حدیث میں جو ہے کہ دو شہید ہیں ان سے مراد سیدنا عمر اور سیدنا عثمان شہید ہیں

(عمدۃ القاری شرح بخاری16/191)

.

وفيه معجزة للنبي - صلى الله عليه وسلم - حيث أخبر عن كونهما شهيدين، وكانا كما قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم ...

 مذکورہ حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ظاہر ہورہا ہے کہ بے شک نبی پاک صلی اللہ وسلم نے(اللہ کی عطاء سے ملے ہوئے علمِ غیب سے) یہ خبر دی تھی کہ سیدنا عمر اور سیدنا عثمان شہید ہونگے اور ایسا ہی ہوا جیسے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

(شرح مصابیح السنۃ6/434)

.

إِنَّهُ فَقِيهٌ

سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ بےشک سیدنا معاویہ فقیہ(مجتہد) ہیں

(بخاری روایت3765)

.

أَنْتَ تُنَازِعُ عَلِيّاً، أَمْ أَنْتَ مِثْلُهُ؟فَقَالَ: لاَ وَاللهِ، إِنِّيْ لأَعْلَمُ أَنَّهُ أَفْضَلُ مِنِّي، وَأَحَقُّ بِالأَمْرِ مِنِّي، وَلَكِنْ أَلَسْتُم تَعْلَمُوْنَ أَنَّ عُثْمَانَ قُتِلَ مَظْلُوْماً، وَأَنَا ابْنُ عَمِّهِ، وَالطَّالِبُ بِدَمِهِ

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا گیا کہ آپ سیدنا علی سے جھگڑا کر رہے ہیں اختلاف کر رہے ہیں کیا آپ ان کی مثل ہیں تو سیدنا معاویہ نے فرمایا نہیں نہیں اللہ کی قسم میں ان جیسا نہیں ہوں، میں انکے برابر نہیں ہوں، میں جانتا ہوں کہ سیدنا علی مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے معاملے میں وہ مجھ سے زیادہ حقدار ہیں لیکن کیا تم نہیں جانتے کہ سیدنا عثمان ظلماً شہید کئے گئے اور میں اس کے چچا کا بیٹا ہو اور اس کے قصاص کا طلب گار ہوں

(سير أعلام النبلاء ابن جوزی ط الرسالة3/140)

(البداية والنهاية امام ابن کثیر ت التركي11/425)

.

محققین نے اس روایت کی سند کو جید معتبر قرار دیا ہے

إسناده جيد

(روضة المحدثين7/242)

.

 *#آیت مبارکہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ظلماً جو قتل کیا جائے اس کے ولی قصاص لے سکتے ہیں اور حدیث پاک اور اسکی شرح سے سے یہ ثابت ہوا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ظلماً شہید کیے گئے تو سیدنا عثمان کے ولی قصاص لے سکتے ہیں اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہی تو ارشاد فرمایا تھا کہ میں سیدنا عثمان کا ولی ہوں لیھذا میں قصاص کا مطالبہ کرتا ہوں کہ سیدنا عثمان ظلماً شہید کیے گئے...سیدنا معاویہ نے اپنا دعوی اپنا اختلاف و اجتہاد قرآن و حدیث پے ہی رکھا یعنی معاملہ قرآن و حدیث و سنت کی طرف لوٹا دیا اور آیت میں ہے ایمان والے ہیں وہ مسلمان جو اپنا معاملہ قران و حدیث و سنت کی طرف لوٹا دیں لیھذا ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ مومن متقی نیک عادل پرہیزگار اور قرآن و سنت و حدیث کے پیروکار تھے ہاں فقیہ و مجتہد بھی تھے اور اسلام نے اجتہاد کی اجازت دی ہے، اجتہاد صحابہ کرام اہلبیت عظام نے کیا بلکہ اجتہاد کا حکم قرآن و حدیث میں موجود ہے......!!*

.###################

 چمن زمان کہتا ہے کہ:

خلیفہ ثالث سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے باغیوں کو کافر قرار دیا گیا کیونکہ انہوں نے خلافت راشدہ کے خلاف بغاوت کی لیکن نا انصافی کرتے ہوئے خلیفہ راشد سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو کافر قرار نہ دیا گیا یہ ظلم و زیادتی نہیں تو اور کیا ہے سیدنا علی سے.....؟؟ اور پھر کہتا ہے کہ ان باغیوں کے متعلق تو رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا تھا کہ یہ جہنمی ہیں کہ حدیث پاک میں ہے کہ عمار کا قاتل و سالب جہنمی ہے(اور سیدنا عمار  کو قتل سیدنا معاویہ و انکے گروہ نے کیا)اور چمن زمان کہتا ہے کہ قرآن و حدیث ہی معتبر ہے باقی معتبر نہیں

.

*#میرا تبصرہ*

پہلی بات:

علماء اسلاف مجتہدین کے اجتہاد و فیصلے کی بھی بڑی اہمیت ہے وہ بھی معتبر ہیں،تم چمن زمان دبے الفاظوں میں اسلاف کے قول و فتووں کو رد کر رہے ہو جوکہ سراسر گمراہی و فساد ہے

القرآن:

لَوۡ رَدُّوۡہُ  اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ

اگر معاملات و مسائل کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق،باشعور،باریک دان،سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور جان لیتے

(سورہ نساء آیت83)

 آیت مبارکہ میں واضح حکم دیا جارہا ہے کہ اہل استنباط کی طرف معاملات کو لوٹایا جائے اور انکی مدلل مستنبط رائے قیاس و اجتہاد و استدلال و سوچ و حکم کی تقلید و پیروی کی جائے.....!!

.

يَسْتَخْرِجُونَهُ وَهُمُ الْعُلَمَاءُ..الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُنَافِقِينَ، لَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى ذَوِي الرَّأْيِ وَالْعِلْمِ،...وَفِي الْآيَةِ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْقِيَاسِ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ مَا يُدْرَكُ بِالتِّلَاوَةِ وَالرِّوَايَةِ وَهُوَ النَّصُّ، وَمِنْهُ مَا يُدْرَكُ بِالِاسْتِنْبَاطِ وَهُوَ الْقِيَاسُ عَلَى الْمَعَانِي الْمُودَعَةِ فِي النُّصُوصِ

 اہل استنباط سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو احکام و نکات نکالتے ہوں اور وہ علماء ہیں... آیت میں منافقین اور مومنین سب کو حکم ہے کہ وہ معاملات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دیں اور اہل علم کی طرف لوٹا دیں اور رائے و قیاس کرنے والوں کی طرف لوٹا دیں... اس آیت میں دلیل ہے کہ قیاس کرنا بالکل جائز ہے کہ علم وہ ہوتا ہے کہ جو نص یعنی قرآن اور حدیث و سنت سے ملتا ہے یا پھر ان سے نکالا جاتا ہے یہی تو قیاس ہے

(تفسیر بغوی2/255)

.

دلت هذه الآية على أنَّ القياس حُجَّة... أن في الأحْكَام ما لا يُعْرَف بالنَّصِّ، بل بالاستِنْبَاطِ... أن العَامِيِّ يجِب عليه تَقْلِيد العُلَمَاء

 مذکورہ آیت مبارکہ دلالت کرتی ہے کہ قیاس ایک دلیل و حجت ہے، اس آیت سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ بعض احکام نص سے معلوم ہوتے ہیں اور بعض احکام قیاس و استنباط سے معلوم ہوتے ہیں.... بے شک عام آدمی پر واجب ہے کہ وہ علماء کرام کی تقلید کرے

(اللباب فی علوم الکتاب6/526)

.

 یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جب نص نہ ہو تو اجتہاد اور قیاس کرنا واجب ہے اور اس پر عمل کرنا بھی لازم ہے..اس آیت سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ بعض احکام نص سے معلوم ہوتے ہیں اور بعض احکام قیاس و استنباط سے معلوم ہوتے ہیں

(تفسیر ثعلبی10/493)

.

الحدیث..ترجمہ:

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پا سکو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے

(ابوداؤد حدیث3592)

.

 ابو داود شریف کی مذکورہ حدیث کو البانی نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن بعض اہل علم نے اس حدیث کو صحیح و دلیل قرار دیا ہے یا پھر حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے جیسے کہ امام ابن کثیر نے اور جیسے کہ امام شوکانی نے صحیح یا حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے... بعض ائمہ نے تو اس حدیث کی تائید و تخریج و شرح پر کتب و رسائل تک لکھے ہیں... صحابہ کرام سے بہت سارے آثار مروی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے قرآن اور حدیث بھر اقوال صحابہ پھر ان پر کیا گیا اجتہاد و قیاس  کرنا اور عمل کرنا کرانا جائز بلکہ لازم و برحق ہے

(شرح ابوداود للعباد تحت الحدیث3592)

.

یہ حدیث مبارک مشعل راہ ہے کہ قران پھر حدیث و سنت پھر اجتہاد قیاس و استدلال....اس حدیث مبارک سے واضح ہوتا ہے کہ قران حدیث و سنت سے قیاس اجتہاد و استدلال کرنا برحق و ماہر علماء کا منصب بلکہ ذمہ داری ہے...اور انکے اجتہادی قیاسی استدلالی فتووں فیصلوں اقوالوں کو ماننا ہم پر لازم ہے جبکہ چمن زمان اسلاف کے فتاوی و اقوال کو اہمیت ہی نہیں دے رہا جوکہ گمراہی و فساد ضرور ہے

.********************

*#دوسری بات*

احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بغاوت و اختلاف اجتہاد کی بنیاد پر ہو تو کبھی وہ برحق و لازم تک ہوجاتی ہے

الحدیث..ترجمہ:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ بھیجا اور ان پر ایک شخص کو امیر مقرر کردیا اس امیر نے آگ بھڑکائی اور حکم دیا کہ اس آگ میں داخل ہو جاؤ کچھ لوگوں نے اس کی اطاعت میں داخل ہونے کا ارادہ کیا اور دوسروں نے کہا کہ ہم جہنم کی آگ سے فرار ہوکر مسلمان ہوئے ہیں آگ میں داخل نہ ہونگے… تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اس کا تذکرہ کیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے لئے متعلق فرمایا کہ جو آگ میں داخل ہونا چاہتے تھے ان سے فرمایا کہ اگر تم داخل ہوتے تو قیامت تک اس میں رہتے اور دوسروں کے لئے فرمایا کہ معصیت (گناہ گمراہی الحاد لادینیت گستاخی غلامی کفر) کے معاملے میں کسی کی اطاعت مت کرو اطاعت تو نیک(اور جائز) کاموں میں ہے

(بخاری حدیث7257)

دیکھا آپ نے کہ صحابہ کرام نے اجتہاد کیا اور امیر سے بغاوت و اختلاف کیا، ایسا اختلاف و بغاوت تو لازم ہے

.*****************

*#تیسری بات*

احادیث سے ثابت ہے کہ بغاوت و اختلاف اجتہاد کی بنیاد پر ہو اور اجتہاد میں خطاء ہو تو اس پر بھی اجر ہے

الحدیث...ترجمہ:

غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:

تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے

(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)

پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نا فرمائی

(بخاری حدیث946)

.

دیکھا آپ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کا اجتہاد قیاس و استدلال اور اس میں اختلاف... صحابہ کرام نے اس برحق اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر منافق فاسق گمراہ گستاخ نہیں کہا اور نبی پاک نے بھی کسی کی ملامت نا فرمائی...ایسا اختلاف قابل برداشت ہے بلکہ روایتوں میں ایسے فروعی برحق پردلیل باادب اختلاف کو رحمت فرمایا گیا ہے بلکہ ایسے اختلاف پے خطاء والے کو بھی اجر ملتا ہے، سیدنا معاویہ کا اختلاف بھی اجتہاد پر مبنی اسی قسم کا تھا

الحدیث:

فاجتهد، ثم اصاب فله اجران، وإذا حكم فاجتهد، ثم اخطا فله اجر

مجتہد نے اجتہاد کیا اور درستگی کو پایا تو اسے دو اجر اور جب مجتہد نے اجتہاد کیا خطاء پے ہوا اسے ایک اجر ملے گا

(بخاری حدیث7352)

توجیہ تنبیہ جواب تاویل ترجیح کی کوشش کرنی چاہیے جب یہ ممکن نا ہو تو خطاء اجتہادی پر محمول کرنا چاہیے.....ہاں تکبر عصبیت مفاد ضد انانیت ایجنٹی منافقت وغیرہ کے دلائل و شواہد ملیں تو ایسے اختلاف والے کی تردید و مذمت بھی برحق و لازم ہے

.*****************

*#چوتھی بات*

احادیث سے ثابت ہے کہ کسی مسلمان کو کافر کہنا کفر ہے...اسی طرح حلال کو حرام یا حرام کو حلال کہنا کفر ہے

عقائد کے مشھور و معتبر امام امام ابو الحسن اشعری فرماتے ہیں:

وندين بأن لا نُكَفرِّ أحداً من أهل القبلة بذنب

ہمارا عقیدہ ہے کہ گناہ کرنے کی وجہ سے کسی مسلمان کو کافر نہ قرار دیا جائے گا

(الإبانة عن أصول الديانة - ت العصيمي ص228)

.

فقہ و عقائد کے معتبر امام امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں:

وَلَا نكفر مُسلما بذنب من الذُّنُوب وَإِن كَانَت كَبِيرَة إِذا لم يستحلها

اگر کوئی گناہ کو حلال نہ سمجھے تو ہم اسے گناہ گار کہیں گے کافر نہ کہیں گے

( الفقه الأكبر ص43)

.

وهذا من الأصول المقررة في معتقد أهل السنة والجماعة وقد عبر عنه الإمام الطحاوي بقوله (ولا نكفر مسلما بذنب إلا إذا استحله)

اہلسنت کا مدلل متفقہ اصول ہے کہ کسی گناہ کرنے والے کو کافر نہ کہیں گے البتہ گناہ کو حلال سمجھے تو کفر ہے

(الموسوعة العقدية6/161)

.

الحدیث:

إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِأَخِيهِ : يَا كَافِرُ. فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا

جس نے مسلمان کو کافر کہا تو کفر کا فتوی دونوں میں سے کسی ایک پر لوٹے گا

(بخاری حدیث6103)

ثابت ہوا کہ بغاوت و اختلاف میں ناحق کفر کا فتوی لگانے والا خود کافر ہوجاتا ہے

.

*#الحاصل*

بغاوت و اختلاف کی کئ صورتیں ہیں، سب کا حکم قرآن و حدیث کے مطابق الگ الگ ہے جبکہ چمن زمان الگ الگ حکم لگانے کو ظلم زیادتی منافقت و بغض قرار دے رہا ہے جو کہ گمراہی و فساد تو کم از کم ضرور ہے بات کفر تک جاسکتی ہے

.****************

*#آئیے دیکھتے ہیں کہ خلافت راشدہ کے باغیوں کو کافر کہا گیا یا تفصیل و دلیل کی بنیاد پر الگ الگ فتوی لگایا گیا....؟؟*

.

قِتَالُ الصِّدِّيقِ مَانِعِي الزَّكَاةِ، ثُمَّ إِنْ كَانَ مُقِرًّا بِهَا فَمُسْلِمٌ، وَإِنْ جَحَدَهَا فَكَافِرٌ إِجْمَاعً

 سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت راشدہ میں جو مانعینِ زکوۃ باغی تھے ان میں سے جو زکواۃ کا منکر تھا تو وہ باغی کافر ہے اور جو منکر نہ تھا مگر زکواۃ ادا نہ کرتا تھا تو وہ فقط باغی ہے کافر نہیں 

(شرح زرقانی علی الموطا2/186)

.

امام خطابی فرماتے ہیں:

أن أهل الردة كانوا أصنافا منهم من ارتد عن الملة ودعا إلى نبوة مسيلمة وغيره، ومنهم من ترك الصلاة والزكاة وأنكر الشرائع كلها وهؤلاء الذين سماهم الصحابة كفارا...فأما مانعو الزكاة منهم المقيمون على أصل الدين فإنهم أهل بغي

 باغی جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت راشدہ میں ظاہر ہوئے وہ تین طرح کے تھے ایک وہ تھے کہ جنہوں نے اسلام کو چھوڑ دیا تھا اور جھوٹے نبی کو نبی مان لیا تھا تو وہ لوگ مرتدین تھے اور دوسرے قسم کے وہ لوگ تھے جنہوں نے شریعت کا انکار کیا اور نماز زکواۃ کا انکار کیا انکو صحابہ کرام نے باغی کافر قرار دیا اور تیسرہ گروہ ایسا تھا کہ وہ دین اسلام کو اور اس کے فرائض و واجبات کو مانتے تھے لیکن زکوۃ ادا نہیں کرتے تھے تو وہ صرف باغی ہیں کافر مرتد نہیں ہیں

(معالم السنن 2/6)

.

امام نووی فرماتے ہیں:

فَأَمَّا مَانِعُو الزَّكَاةِ مِنْهُمُ الْمُقِيمُونَ عَلَى أَصْلِ الدِّينِ فَإِنَّهُمْ أَهْلُ بَغْيٍ.....وَلَمْ يُسَمَّوْا عَلَى الِانْفِرَادِ مِنْهُمْ كُفَّارًا وَإِنْ كَانَتِ الرِّدَّةُ قَدْ أُضِيفَتْ إِلَيْهِمْ لِمُشَارَكَتِهِمُ الْمُرْتَدِّينَ فِي مَنْعِ بَعْضِ مَا مَنَعُوهُ مِنْ حُقُوقِ الدِّينِ

 سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت راشدہ میں جن لوگوں نے دین اسلام کے کسی فرض واجب کا انکار نہ کیا لیکن زکوۃ نہ دی تو وہ فقط باغی ہیں کافر نہیں ہیں،لیکن زکواۃ نہ دینے والوں میں کچھ مرتد بھی تھے(کہ جنہوں نے فرض زکواۃ کا انکار کیا تھا)

(شرح نووی علی مسلم1/204)

.

امام ابن حجر فرماتے ہیں:

وَإِنَّمَا أُطْلِقَ فِي أَوَّلِ الْقِصَّةِ الْكُفْرُ لِيَشْمَلَ الصِّنْفَيْنِ فَهُوَ فِي حَقِّ مَنْ جَحَدَ حَقِيقَةً وَفِي حَقِّ الْآخَرِينَ مَجَازٌ تَغْلِيبًا

شروع شروع میں کہ جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت راشدہ شروع ہوئی تو کئی لوگوں نے زکواۃ دینے سے انکار کر دیا ان سب پر کفار مرتدین کا اطلاق کیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے جو زکواۃ کا منکر تھا وہ کافر تھا اور جو منکر نہیں تھا وہ فقط باغی تھا 

(فتح الباری شرح بخاری12/277)

.

وكان أهل الردة ثلاثة أصناف: صنف كفر بعد إسلامه ولم يلتزم شيئاً وعاد لجاهليته أو (6) اتبع مسيلمة أو العنسىَّ وصدَّق بهما، وصنف أقرَّ بالإسلام إلا الزكاة فجحدها وأقر بالإيمان والصلاة، وصنف اعترف بوجوبها ولكن امتنع من دفعها إلى أبى بكر... ،فرأى أبو بكر والصحابة -رضى الله عنهم- قتال جميعهم، الصنفان الأوَّلان لكفرهم والثالث لامتناعه بزكاته

 تین قسم کے لوگوں نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت راشدہ میں بغاوت کی، ایک گروہ وہ جس نے اسلام کو ترک کر دیا اور جھوٹے نبیوں کی پیروی کی ... دوسرا گروہ وہ تھا جو نماز وغیرہ دیگر فرائض و واجبات کو مانتا تھا لیکن فقط زکواۃ کو نہیں مانتا تھا... تیسرا گروہ وہ تھا جو زکواۃ کو بھی مانتا تھا لیکن زکواۃ ادا نہیں کرتا تھا

 پہلے دونوں گروہ کافر مرتد ہیں اور تیسرا گروہ اگرچہ کافر نہیں لیکن باغی ہے لہذا صحابہ کرام نے اور سیدنا صدیق اکبر نے ان سے جہاد کیا

(اکمال المعلم شرح مسلم1/243, 244)

.

(إِن الله مقمصك قَمِيصًا فَإِن أرادك المُنَافِقُونَ على خلعه فَلَا تخلعه حَتَّى تَلقانِي

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عثمان اللہ کریم تجھے خلافت سے نوازے گا اور منافقین چاہیں گے کہ تو خلافت کو چھوڑ دے تو تم خلافت کو مت چھوڑنا حتی کہ تو مجھ سے آ ملے

(الصواعق المحرقة1/322)

 اس حدیث پاک میں رسول کریم نے خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو منافق کہا ہے کافر نہیں کہا جبکہ چمن زمان کہتا ہے کہ تم لوگوں نے خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو کافر کہا ہے.....پکڑا گیا ناں چمن زمان کا جھوٹ مکاری انتشار بازی.....؟؟

.

بل الْإِجْمَاع قَائِم على رد روايتهم لعدم الريب فِي كفرهم لاستحلالهم قَتله، وَالْكَافِر مَرْدُود إِجْمَاعًا وَأَن لم يستحلوه فَلَا ريب فِي فسقهم

اس بات پر اجماع ہے سب علماء حق متفق ہیں کہ خلیفہ ثالث سیدنا عثمان کی خلافت راشدہ کے باغی قاتلوں کا حکم یہ ہے کہ ان میں سے جو قتل کو جائز سمجھتے تھے وہ کافر ہیں اور جو قتل کو حلال نہ سمجھتے تھے لیکن پھر بھی قتل کیا تو وہ فاسق و گنہگار ہے

(تيسير التحرير شرح كتاب التحرير3/42)

دیکھیے علماء و اسلاف نے خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے بعض باغیوں کو فقط فاسق کہا ہے کافر نہیں کہا جبکہ چمن زمان کہتا ہے کہ تم لوگوں نے خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو کافر کہا ہے.....پکڑا گیا ناں چمن زمان کا جھوٹ مکاری انتشار بازی.....؟؟

.

وَأَمَّا عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَخِلَافَتُهُ صَحِيحَةٌ بِالْإِجْمَاعِ وَقُتِلَ مَظْلُومًا وَقَتَلَتْهُ فَسَقَةٌ لِأَنَّ مُوجِبَاتِ الْقَتْلِ مَضْبُوطَةٌ وَلَمْ يَجْرِ مِنْهُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا يَقْتَضِيهِ وَلَمْ يُشَارِكْ فِي قَتْلِهِ أَحَدٌ مِنَ الصَّحَابَةِ وَإِنَّمَا قَتَلَهُ هَمَجٌ وَرُعَاعٌ مِنْ غَوْغَاءِ الْقَبَائِلِ وسفلة

 سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت بلا شبہ صحیح ہے اس پر اجماع ہے .... سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو جنہوں نے قتل کیا وہ فاسق تھے(مجتہد باغی اجتہادی خطاء والے نہ تھے)کیونکہ وہ کم عقل وحشی چھچھورے تھے، سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے قتل میں کوئی بھی صحابی شریک نہیں تھا

(شرح النووي على مسلم15/148)

غور کیجیے علماء و اسلاف نے خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو فقط فاسق کہا ہے کافر نہیں کہا جبکہ چمن زمان کہتا ہے کہ تم لوگوں نے خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو کافر کہا ہے.....پکڑا گیا ناں چمن زمان کا جھوٹ مکاری انتشار بازی.....؟؟

.

امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

فكفره أهل السنة بتكفيره عثمان

 سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو جنہوں نے کافر قرار دیا اہل سنت نے ان کو کافر قرار دیا

(لسان الميزان ت أبي غدة4/135)

.

دخل عليه جماعة من الفجرة قتلوه

فاسق و فاجروں کی ٹولی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر داخل ہوئی اور انہیں شہید کر دیا

(فتح القريب المجيب على الترغيب والترهيب13/366)

یہاں بھی خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو فقط فاسق فاجر کہا ہے کافر نہیں کہا جبکہ چمن زمان کہتا ہے کہ تم لوگوں نے خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو کافر کہا ہے.....پکڑا گیا ناں چمن زمان کا جھوٹ مکاری انتشار بازی.....؟؟

.

وَإِنَّهُم لم يستندوا فِي شَيْء مِمَّا خَرجُوا إِلَيْهِ فِي أمره إِلَى مَا يُمكن أَن يكون شُبْهَة فضلا عَن أَن يكون حجَّة....فضلال وظلم لَا محَالة على أَنه لَو اسْتحق قَتله وخلعه وإبعاده لم يجز أَن يتَوَلَّى ذَلِك من أمره الَّذين سَارُوا إِلَيْهِ لأَنهم لَيْسُوا من أضرابه وَلَا أشكاله

 سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے قاتل گمراہ و ظالم ہیں( کافر نہین، اجتہادی خطاء والے نہیں) کیونکہ وہ اجتہاد کے اہل ہی نہ تھے اور نہ ہی انکی کوئی دلیل و حجت قرآن و سنت سے تھی

(تمهيد الأوائل وتلخيص الدلائل ص520)

خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو گمراہ ظالم کہا ہے کافر نہیں کہا گیا جبکہ چمن زمان کہتا ہے کہ تم لوگوں نے خلیفہ ثالث کی خلافت راشدہ کے باغیوں کو کافر کہا ہے.....پکڑا گیا ناں چمن زمان کا جھوٹ مکاری انتشار بازی.....؟؟

.

وقد يكون مراده صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بهذا الخوارج لتكفيرهم المؤمنين. وهذا تأويل مالك ابن أنس

 امام مالک نے فرمایا کہ(خلیفہ راشد سیدنا علی کے بعض باغی یعنی) خوارج کافر ہیں کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کو کافر قرار دیا

(اکمال المعلم1/318)

چمن زمان کہتا ہے خلیفہ راشد سیدنا علی کے باغیوں کو کافر قرار نہیں دیا جبکہ اسکا جھوٹ و پول کھل گیا کہ کئ علماء نے سیدنا علی کے باغی غالی خوارج و روافض کو دلیل کی بنیاد پے کافر قرار دیا

.

.

(والمبتدع بِمَا) أَي ببدعة (هُوَ كفر) كغلاة الروافض والخوارج

(خلیفہ راشد سیدنا علی کے بعض باغی یعنی) غالی خوارج غالی روافض کافر ہیں( اگر غلو نہ کریں تو سیدنا علی کی خلافت راشدہ کے غیرغالی فقط باغی گناہ گار کہلائیں گے، کافر نہیں کہلائیں گے)

(تيسير التحرير شرح كتاب التحرير3/41)

خلیفہ راشد سیدنا علی کے باغیوں کو چمن زمان کے مطابق کافر قرار نہیں دیا گیا جبکہ اسکا جھوٹ و پول کھل گیا کہ کئ علماء نے سیدنا علی کے باغی غالی خوارج و روافض کو دلیل کی بنیاد پے کافر قرار دیا اور دلیل کی بنیاد پے ہی کچھ باغیوں کو کافر قرار نہ دیا جیسے کہ خلیفہ راشد اول سیدنا ابوبکر صدیق کے بعض باغیوں کو کافر نہیں قرار دیا گیا، ایسے ہی خلیفہ ثالث سیدنا عثمان کے بعض باغیوں کو کافر نہیں کہا گیا....لیھذا چمن زمان کا جھوٹ جہالت بغض انتشار بازی واضح ہوگئ

.

امام ابن ملقن امام ابومنصور سے منقولا لکھتے ہیں

 أنه يُكَفِّر الناس فيَكْفُر كما تفعل الخوارج

 خوارج اگر مسلمانوں کو کافر قرار دیں تو انہیں بھی کافر قرار دیا جائے گا

(التوضیح شرح جامع صحیح12/152)

.

واختار في أواخر "التحفة الإثنى عشرية" تكفير الخوارج ممن يكفر علياً - رضي الله عنه

 تحفہ اثنا عشریہ میں اس بات پر کو اختیار کیا ہے کہ جس نے سیدنا علی کی تکفیر کی اسے ہم کافر قرار دیں گے

(إكفار الملحدين في ضروريات الدين ص52)

.

 قاضی ابوبکر بن عربی نے صراحتا ذکر کیا ہے کہ خوارج جو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت راشدہ میں باغی ہوئے وہ (احادیث و دلائل کی بنیاد پے) کفار ہیں، امام سبکی کا بھی یہی نظریہ ہے، امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ ہمارے لیے یہی کافی ہے کہ جو صحابہ کرام کو کافر قرار دے وہ کافر ہے....یہی موقف صاحب شفاء اور صاحب الروضۃ کا ہے لیکن کئ اصولی خوارج کو اس وجہ سے کافر نہیں کہتے کہ وہ اسلام کے فرائض واجبات مانتے عمل کرتے ہیں بس کچھ معاملات میں تاویل فاسد کرکے باغی ہوئے

(فتح الباری شرح بخاری 12/299,300)

.

*#الحاصل......!!*

علماء اہلسنت کے قرآن و سنت سے دلائل و بحث کا خلاصہ یہ نکلا کہ:

خلیفہ راشد سیدنا ابوبکر کے خلاف نکلنے والے باغی مجتہد نہ تھے اور کئ تاویل فاسد بھی نہ رکھتے تھے اس لیے مرتد قرار پائے...بعض تاویل فاسد رکھتے تھے انہیں بعض علماء نے کافر مرتد نہیں کہا بلکہ گمراہ فسادی کہا

.

خلیفہ راشد سیدنا عثمان سے بغاوت کرنے والے مجتہد نہ تھے اور نہ ہی تاویل رکھتے تھے اور نہ ہی حلال کو حرام یا حرام کو حلال کہتے تھے اس لیے کافر مرتد قرار نہ پائے بلکہ باغی فسادی قرار پائے، بعض علماء نے لکھا کہ اگر ان میں سے کسی نے سیدنا عثمان کو کافر قرار دیا تو وہ کافر باغی ہے کیونکہ نہ اجتہاد ہے اس کے ساتھ نہ تاویل

.

خلیفہ راشد سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بغاوت کرنے والے تاویل فاسد رکھتے تھے تو وہ خوارج گمراہ فسادی بدترین قرار پائے،اگر خوارج سیدنا علی وغیرہ صحابہ کرام کو کافر کہیں تو بعض علماء نے لکھا کہ ایسے باغی خوارج کافر مرتد ہیں لیکن بعض علماء نے فرمایا کہ تاویل فاسد کے ذریعے کہیں تو گمراہ بدمذہب مردود ہیں اور جو سیدنا علی سے اجتہاد و دلیل سے اختلاف کرے جیسے سیدنا معاویہ تو انکا اجتہاد و دلیل کمزور ہے اس لیے اجتہادی خطاء والے باغی قرار پائے فاسق فاجر گمراہ بدمذہب نہ قرار پائے

.

یقینا یہ انصاف احتیاط و حق ہی ہے، جس میں دلائل کو مدنظر رکھا گیا ہے محض خلافت راشدہ کے دفاع کو وجہ بنا کر کافر نہیں کہا گیا، لیھذا چمن زمان کا قول جھوٹ جہالت و بغضِ صحابہ پر مبنی ہے، یہ شخص انتشار و تفرقہ پسند فسادی ہے جسکا علاج سمجھانا ورنہ بائیکاٹ و ٹھکانے لگانا ہے جیسے کہ ٹھکانے لگانے کی وضاحت شروع میں ہم کرچکے

.################

اب آتے ہیں چمن زمان کی دلیل کی طرف کہ حدیث پاک میں ہے کہ سیدنا عمار کا قاتل و سالب جہنمی ہے(مشھور یہی ہے کہ سیدنا عمار کو سیدنا معاویہ و انکے گروہ نے قتل کیا تو گویا چمن زمان کے مطابق نعوذ باللہ سیدنا معاویہ بمع گروہ کافر ہیں اور اہلسنت علماء نے سیدنا معاویہ بمع گروہ کو اجتہادی خطاء پے کہہ کر سیدنا علی سے بغض کیا زیادتی و ظلم کیا ناانصافی کی...نعوذ باللہ)

ہم

اوپر ثابت کر آئے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہ ناانصافی ظلم زیادتی نہیں بلکہ ہر خلافت راشدہ کے باغی پر دلیل کی بنیاد پے فتوی لگایا علماء اہلسنت نے اور اجتہادی خطاء کا فتوی بھی قرآن و سنت سے دلیل پیش کرکے دیا گیا

.

رہی بات حدیث پاک کی تو حدیث پاک میں ہی خود وضاحت موجود ہے کہ سیدنا عمار کا فقط قاتل جہنمی نہیں بلکہ جو قاتل بھی ہو اور سالب بھی ہو یعنی سیدنا عمار کے سامان کو مال غنیمت سمجھے اور مال غنیمت سمجھ کر لوٹ مار کرے کا مطلب ہوا کہ اسکے نزدیک سیدنا عمار کافر ہے اور اصول پڑھ چکے کہ بلادلیل کافر قرار دینا کفر و جہنمیوں کا کام ہے....جبکہ سیدنا معاویہ بمع گروہ نے سیدنا عمار کو شہید تو کیا مگر اسے کافر قرار نہ دیا سالب نہ ہوئے لیھذا یہ حدیث سیدنا معاویہ و گروہ پر فٹ نہیں آتی

.

امام سیوطی امام احمد بن حنبل امام نور الدین ھیثمی امام ابن حجر وغیرہ کئ محققین نے لکھا کہ:

إِنَّ قَاتِلَهُ وَسَالِبَهُ في النَّارِ، فَقِيلَ لِعَمْرٍو: هُوَ ذَا أنْتَ تُقَاتِلُهُ؟ فَقَالَ: إِنَّمَا قَالَ: قَاتِلُهُ وَسَالِبُهُ

 حدیث پاک میں ہے کہ سیدنا عمار کا قاتل و سالب جہنم میں ہے تو ان کے قاتل سے کہا گیا کہ اپ پھر کیوں قتل کر رہے ہیں عمار کو....؟؟ تو انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قاتل و سالب فرمایا ہے فقط قاتل نہیں فرمایا

(جمع الجوامع 21/750)

.

فالّذي يتحمّل إثمه ووزره قاتله وسالبه، وليس من يُقاتله

 حدیث پاک میں جو جہنمی کافر ہونے کی وعید ہے یہ اس شخص کے لیے ہے کہ جو سیدنا عمار بن یاسر کا قاتل و سالب ہو....جو(اجتہاد کی بنیاد پے) فقط قاتل ہو وہ جہنمی کافر نہیں

(وأد الفتنة دراسة نقدية لشبهات المرجفين وفتنة الجمل وصفين على منهج المحدثين ص259)

.#################

*#نشانی نمبر12*

 چمن زمان نے پھر سیدنا معاویہ کی شان پے حملہ کیا ہے اور کہا ہے کہ حدیث پاک میں ہے کہ تیس سال کے بعد ملکا عضوضا ہوگی یعنی کاٹ کھانے والی ظالمانہ حکومت ہوگی اور ظاہر بات ہے تیس سال کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت آئی تھی...یہ چمن زمان کی ڈھکے چھپے الفاظ میں صحابی سیدنا معاویہ کی مذمت ایران روافض یہود و نصاری کی سازش پے چلنا ہی تو کہلائے گا کہ اسلاف اہلسنت نے ایسا تو کچھ نہیں...پھر یہ نیم رافضی لوگ رافضیوں ایرانی ہڈیوں ڈالروں وغیرہ سازش و ایجنٹی میں نہیں کر رہے تو کس لیے کر رہے.....؟؟

.

سوال:

مولانا آپ کی تحریر شیئر کی تو شیعہ نے یہ اعتراض کیا ہےجواب دیں تسلی بخش

خلاصہ اعتراض:

شیعہ روافض نیم روافض تفضیلی تفسیقی وغیرہ کہتے ہیں کہ حدیث پاک میں ہے کہ خلافت تیس سال ہوگی پھر ظالمانہ کاٹ کھانے والی ملوکیت ہوگئ...سیدنا حسن کی خلافت تک تیس سال پورے ہوءے پھر معاویہ کی ملوکیت ہوئی اور حدیث پاک کے مطابق معاویہ کی ملوکیت کاٹ کھانے والی ظالمانہ ملوکیت ہےایسی ملوکیت سیاست زندہ باد نہیں ہوسکتی

حوالہ کتب اہلسنت طبرانی بیھقی فتح الباری

.

*#جواب.و.تحقیق*

پہلی بات:

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل میں احادیث و اقوال اہلسنت و شیعہ کتب سے ثابت ہے

.

*#دوسری بات.....!!*

اصل حدیث میں صرف اتنا ہے کہ خلافت تیس سال ہوگی اس کے بعد ملوکیت ہوگی، اصل حدیث میں عضوضا یعنی ظالمانہ کاٹ کھانے والی ناحق ملکویت کے الفاظ نہیں لیھذا یہ اضافہ منکر وھم و تدلیس و نکارت و مردود ہے

.

فتح الباری میں ہے کہ: حَدِيثِ سَفِينَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا عَضُوضًا ترجمہ:

حضرت سیدنا سفینہ کی روایت کردہ حدیث پاک میں ہے کہ میرے بعد خلافت تیس سال ہوگی پھر کاٹ کھانے والی ظالمانہ ناحق ملوکیت ہوگی

 [فتح الباري لابن حجر ,8/77]

.

 امام ابن کثیر فرماتے ہیں: حَدِيثُ سَفِينَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا

ترجمہ:حضرت سیدنا سفینہ کی روایت کردہ حدیث پاک میں ہے کہ میرے بعد خلافت تیس سال ہوگی پھر کاٹ کھانے والی ظالمانہ ناحق ملوکیت ہوگی

[البداية والنهاية 6/250]

.

 اسی طرح دیگر کچھ کتب اہلسنت مین بھی ہے مگر زیادہ تر ان دو کتب کے حوالےسے کہا جاتا ہے کہ معاویہ کی ملوکیت کاٹ کھانے والی ظالمانہ ہے...مذکورہ کتب میں واضح لکھا ہے کہ *#حضرت_سفینہ* کی روایت کردہ حدیث میں یہ ہے کہ میرے بعد خلافت تیس سال ہوگی پھر کاٹ کھانے والی ظالمانہ ناحق ملوکیت ہوگی....

.

اب آئیے سیدنا سفینہ کی حدیث کو اس کے اصل ماخذ و کتب میں دیکھتے ہیں اگر اصل ماخذ میں عضوضا کاٹ کھانے والی ظالمانہ ناحق کے الفاظ ہیں تب تو اعتراض بن سکتا ہے اور اگر اصل ماخذ میں عضوضا کے الفاظ نہیں تو یقینا یہ اضافہ وھم و منکر و تدلیس و نکارت و مردود کہلائے گا.

.

اصل حدیثِ سفینہ یہ ہے: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَفِينَةُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الخِلاَفَةُ فِي أُمَّتِي ثَلاَثُونَ سَنَةً، ثُمَّ مُلْكٌ بَعْدَ ذَلِكَ

ترجمہ:

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی

 [سنن الترمذي ت بشار ,4/73حدیث2226]

.

 حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ

ترجمہ:

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا ملوکیت عطا کرے گا

 [سنن أبي داود4/211 حدیث4646]

.

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ مَنْ يَشَاءُ، أَوْ مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ»

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا ملوکیت عطا کرے گا

 [سنن أبي داود ,4/211 حدیث4647]

.


أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَحْمَدَ الْمَلِيحِيُّ، أَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي شُرَيْحٍ، أَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْبَغَوِيُّ، نَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، أَخْبَرَنِي حَمَّادُ هُوَ ابْنُ سَلَمَةَ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الْخِلافَةُ ثَلاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا

ترجمہ:

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی 

(شرح السنة للبغوي ,14/7)

.

حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ الْعَبْسِيُّ، كُوفِيٌّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ، حَدَّثَنِي سَفِينَةُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «الْخِلَافَةُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ مُلْكًا بَعْدَ ذَلِكَ» ترجمہ:

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی

[مسند أحمد مخرجا ,36/256 حدیث21928]

.

أَخْبَرَنَا أَبُو يَعْلَى، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ السَّامِيُّ، قَالَ:حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الْخِلَافَةُ ثَلَاثُونَ سَنَةً، وَسَائِرُهُمْ مُلُوكٌ، وَالْخُلَفَاءُ

[صحيح ابن حبان - مخرجا ,15/34حدیث6657]

.

 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ غَنَّامٍ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أنا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ، ثنا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْخِلَافَةُ بَعْدِي فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں میرے بعد خلافت تیس سال ہوگی

 [المعجم الكبير للطبراني ,1/89حدیث136] 

.

 13 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ الْمَهَّالِ، ح وَحَدَّثَنَا الْمِقْدَامُ، ثنا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، قَالَا: ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الْخِلَافَةُ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا»

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی

[,المعجم الكبير للطبراني ,1/55]

.

 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ، حَدَّثَنِي سَفِينَةُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْخِلَافَةُ بَيْنَ أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ مُلْكٌ بَعْدَ ذَلِكَ

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی

 [المعجم الكبير للطبراني ,7/83]

.

 حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا هُشَيْمٌ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْخِلَافَةُ بَعْدِي فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً , ثُمَّ مُلْكٌ

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی

 [المعجم الكبير للطبراني ,7/83]

.

 أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ قَالَ: أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جَمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْخِلَافَةُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ مُلْكًا بَعْدَ ذَلِكَ»

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی

 [السنن الكبرى للنسائي ,7/313 حدیث8099]

.

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا حُمَيْدُ بْنُ عَيَّاشٍ الرَّمْلِيُّ، ثنا الْمُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ثُمَّ قَالَ: «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ عَامًا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی

[المستدرك على الصحيحين للحاكم ,3/75حدیث4439]

.

میری تلاش میں یہ حوالے باسند نظر سے گذرے سب کا ترجمہ ملتا جلتا ہے اور اہم بات یہ کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جہاں بھی باسند حدیث سفینہ ہے یا یوں کہیے کہ حدیث سفینہ کے اصل ماخذ جو بھی ہیں ان سب میں عضوضا کاٹ کھانے والی ظالمانہ ناحق ملوکیت کے الفاظ نہیں....یہ الفاظ چند ان کتب اہلسنت میں ہیں جنہوں نے حدیث ِ سفینہ کہہ کر روایت کیا مگر چونکہ اصل حدیثِ سفینہ میں عضوضا کا اضافہ نہیں لیھذا یہ مصنفین کا وھم و نکارت و زیادت و مردود کہلائے گا...سیدنا معاویہ کی حکومت ملوکیت تھی اچھی عادلانہ حکومت تھی جس پر ہم دو تفصیلی تحریر بھی لکھ چکے ہیں 

.

#البتہ مسند طیالسی و طبرانی اور بیھقی میں ایک روایت ہے جس میں عضوضا کے الفاظ ہیں...وہ روایت یہ ہے

 حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ لَيْثٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بَدَأَ هَذَا الْأَمْرَ نَبُوَّةً وَرَحْمَةً، وَكَائِنًا خِلَافَةً وَرَحْمَةً وَكَائِنًا مُلْكًا عَضُوضًا [مسند أبي داود الطيالسي ,1/184]

.

 حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْمُثَنَّى، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ، أَخُو حَجَّاجٍ، ثنا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، ثنا لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَأَبِي عُبَيْدَةَ قَالَا: سَمِعْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ بَدَأَ رَحْمَةً وَنُبُوَّةً، ثُمَّ خِلَافَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ كَائِنًا مُلْكًا عَضُوضًا، وَجَبْرِيَّةً، وَفَسَادًا فِي الْأَرْض

 [المعجم الكبير للطبراني ,20/53]

.

 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ فُورَكٍ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ، ثَنَا يُونُسُ بْنُ حَبِيبٍ، ثَنَا أَبُو دَاوُدَ، ثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ " اللهَ بَدَأَ هَذَا الْأَمْرَ نُبُوَّةً وَرَحْمَةً , وَكَائِنًا خِلَافَةً وَرَحْمَةٍ , وَكَائِنًا مُلْكًا عَضُوضًا , وَكَائِنًا عُتُوَّةً وَجَبْرِيَّةً وَفَسَادًا فِي الْأُمَّةِ , يَسْتَحِلُّونَ الْفُرُوجَ وَالْخُمُورَ وَالْحَرِيرَ , وَيُنْصَرُونَ عَلَى ذَلِكَ وَيُرْزَقُونَ أَبَدًا حَتَّى يَلْقَوُا اللهَ عَزَّ وَجَلَّ " [السنن الكبرى للبيهقي ,8/275]

 حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ قَالَ: كَانَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ يَتَنَاجَيَانِ بَيْنَهُمَا بِحَدِيثٍ، فَقُلْتُ لَهُمَا: مَا حَفِظْتُمَا وَصِيَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِي؟ قَالَ: وَكَانَ أَوْصَاهُمَا بِي، قَالَا: مَا أَرَدْنَا أَنْ نَنْتَجِي بِشَيْءٍ دُونَكَ، إِنَّمَا ذَكَرْنَا حَدِيثًا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَا يَتَذَاكَرَانِهِ قَالَا: «إِنَّهُ بَدَأَ هَذَا الْأَمْرُ نُبُوَّةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ كَائِنٌ خِلَافَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ كَائِنٌ مُلْكًا عَضَوضًا، ثُمَّ كَائِنٌ عُتُوًّا وَجَبْرِيَّةً وَفَسَادًا فِي الْأُمَّةِ، يَسْتَحِلُّونَ الْحَرِيرَ وَالْخُمُورَ وَالْفُرُوجَ وَالْفَسَادِ فِي الْأُمَّةِ، يُنْصَرُونَ عَلَى ذَلِكَ، وَيُرْزَقُونَ أَبَدًا حَتَّى يَلْقُوا اللَّهَ» -[178]-، Kإسناده ضعيف 874 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ، أَخُو حَجَّاجٍ الْأَنْمَاطِيِّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ لَيْثٍ، بِإِسْنَادِهِ، فَذَكَرَ نَحْوَهُKإسناده ضعيف [مسند أبي يعلى الموصلي ,2/177]

.

یہ تین چار حوالے مقدور بھر تلاش کرنے سے مجھے ملے ان سب روایات میں عضوضا کا لفظ ہے....اسکا جواب یہ ہے کہ

①مذکورہ عضوضا یعنی ظالمانہ کاٹ کھانے والی ملوکیت ہوگی..یہ اضافے والی روایت کی تمام سندوں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک راوی لیث بن ابی سلیم ہے جوکہ ضعیف ہےاس پر اختلاط و اضطراب و نکارت و تدلیس کی جرح ہے لیھذا فضائل کی بات ہوتی تو اسکی روایت مقبول ہوسکتی تھی مگر روایت میں چونکہ حکم شرعی عضوضا یعنی ظالم فاسق فاجر ثابت کیا جارہا ہے اور سب کا متفقہ اصول ہے کہ حکم شرعی ظلم و فسق و فجور ثابت کرنے کے لیے ضعیف روایات ناقابلِ قبول ہیں، ناقابل حجت ہیں

.

②نیز اس ضعیف راوی نے صحیح روایات پر اضافہ کیا ہے اور متفقہ اصول ہے کہ ایسے راوی کی زیادت بلامتابع ہو تو ناقابل حجت ہے،مردود ہے

.

لَيْث بن أبِي سُلَيم ضعيف

لَيْث بن أبِي سُلَيم ضعيف ہے

(الكامل في ضعفاء الرجال7/233)

.

ومدار الإسناد على ليث بن أبي سليم وهو ضعيف...وفيه ليث بن أبي سليم وهو مدلس

سند کا دار و مدا لَيْث بن أبِي سُلَيم پر ہے جوکہ ضعیف ہے تدلیس کرتا ہے

(المطالب العالية ابن حجر 11/408ملتقطا)

.

وكان ليث اكثرهم تخليطا...ليس حديثه بذاك، ضعيف

لیث خلط ملط زیادات کرتا ہے جوکہ معتبر نہیں کیونکہ یہ ضعہف راوی ہے

(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم7/178ملتقطا)

.

لَيْثُ بنُ أَبِي سُلَيْمٍ بنِ زُنَيْمٍ الأُمَوِيُّ...لِنَقصِ حِفْظِهِ...قَالَ أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ: لَيْثُ بنُ أَبِي سُلَيْمٍ مُضْطَرِبُ الحَدِيْثِ...فَالزِّيَادَةُ هُوَ ضَعِيْفٌ...تَرَكَه: يَحْيَى القَطَّانُ، وَابْنُ مَهْدِيٍّ، وَأَحْمَدُ، وَابْنُ مَعِيْنٍ....فَيُرْوَى فِي الشَّوَاهِدِ وَالاعْتِبَارِ، وَفِي الرَّغَائِبِ، وَالفَضَائِلِ، أَمَّا فِي الوَاجِبَاتِ، فَلاَ.

لَيْث بن أبِي سُلَيم ضعيف ہے کہ اس کے حافظے میں نقص ہے،امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ یہ مضطرب الحدیث ہے(کبھی کچھ ، کبھی کچھ کہتا ہے وھم و تدلیس و نکارت کرتا ہے)تو یہ جو الفاظ زیادہ کرے وہ ضعیف کہلائیں گے

امام یحیی القطان اور امام ابن مہدی اور امام احمد اور امام ابن معین نے اس راوی کی روایات زیادات کو ترک کیا ہے

پس

اسکی روایت شواہد متابعت فضائل میں تو معتبر ہین مگر فرض واجباب(ظلم فسق و فجور وغیرہ احکام شرع) میں اسکی روایات معتبر نہیں

[سير أعلام النبلاء ط الرسالة184 ,6/179ملتقطاملخصا]

.##################

*#نشانی نمبر13*

چمن زمان وغیرہ نے روافض شیعہ ویہ یہود و نصاری کو خوش کرنے پیسہ شہرت کمانے انتشار ڈالنے کے لیے کہا کہ

فیضان امیر معاویہ نعرہ بدعتی اختراعی جھوٹا ہے اور انکے مطابق سیدنا معاویہ نے شرائط صلح کو پورا نہ کیا

جبکہ

اسلاف نے سیدنا معاویہ کی بادشاہت کو عادلانہ کہا ہے تو بھلا پھر کیوں نہ کہیں کہ فیضان علی فیضانِ خلفاء راشدین  فیضان معاویہ جاری رہے گا.....!!

.

*حکومتِ سیدنا معاویہ عادلانہ تھی اور نعرہ فیضان معاویہ جاری رہے گا کی تحقیق اور شرائط صلح معاویہ.........!!*

.

سیدنا معاویہ کی حکومت سیدنا عمر کی حکومت جیسی عادلانہ برحق تھی،رضی اللہ تعالیٰ عنھما

عَمِلَ مُعَاوِيَةُ بِسِيرَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ سِنِينَ لَا يَخْرِمُ مِنْهَا شَيْئًا»

سیدنا معاویہ نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت پر سالوں تک عمل کیا۔۔۔ان سالوں میں سوئی برابر بھی راہ حق سے نہ ہٹے 

(السنة لأبي بكر بن الخلال روایت683)

وقال المحقق إسناده صحيح

(حاشیۃ معاوية بن أبي سفيان أمير المؤمنين وكاتب وحي النبي الأمين صلى الله عليه وسلم - كشف شبهات ورد مفتريات1/151)

سالوں کی قید شاید اس لیے لگاءی کہ تاکہ وہ سال نکل جائیں جن میں سیدنا معاویہ نے ولی عہد کیا...کیونکہ ولی عہد سیدنا عمر کی سیرت نہیں بلکہ سیدنا معاویہ کا اجتہاد تھا...جب سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حکومت سیدنا عمر کے نقش قدم پر تھی اور سیدنا عمر کی حکومت رسول کریم کے ارشادات کے مطابق تھی تو ایسی برحق عادلانہ حکومتوں کے بارے میں کیوں نہ کہا جائے کہ فیضان عمر جاری رہے گا ، فیضان علی جاری رہے گا ، فیضان معاویہ جاری رہے گا 

.

سیدنا معاویہ فقیہ مجتہد تھے

قَالَ : إِنَّهُ فَقِيهٌ

  فرمایا کہ بےشک معاویہ فقیہ ہیں

(بخاری روایت3765)

.

الحدیث:

فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ، فَلَهُ أَجْرٌ

 اجتہاد کرے پھر وہ درستگی کو پائے تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر اجتہاد کرے اور خطاء کرے تو اس کے لئے ایک اجر ہے(بخاری حدیث7352)

.

 لہذا ولی عہد کرنا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا اجتہاد تھا اور اجتہاد میں اگر خطاء بھی واقع ہو تو اس کے لیے ایک اجر ہے...لیھذا ولی عہدی کی وجہ سے سیدنا معاویہ پر طعن و مذمت نہیں بنتی......!!

.

*#شرائط_صلح:*

فأرسل إليه الحسن يبذل له تسليم الأمر إليه، على أن تكون له الخلافة من بعده، وعلى ألا يطالب أحدًا من أهل المدينة والحجاز والعراق بشيء مما كان أيام أبيه، وعلى أن يقضي ديونه، فأجاب معاوية إلى ما طلب، فاصطلحا على ذلك فظهرت  المعجزة النبوية في قوله صلى الله عليه وسلم: "يصلح الله به بين فئتين من المسلمين"

(پہلی شرط:)

سیدنا حسن نے سیدنا معاویہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ سیدنا معاویہ کو خلافت اور حکومت دینے کے لیے تیار ہیں ان شرائط پر کہ سیدنا معاویہ کے بعد حکومت سیدنا حسن کو ملے گی

اور

(دوسری شرط)

اہل مدینہ، اہل حجاز اور اہل عراق سے(محض اختلاف و گروپ کی وجہ سے)کوئی مطالبہ مواخذہ نہیں کیا جائے گا(شرعا جو مواخذہ ہوگا وہ کیا جائے گا)

اور

(تیسری شرط)

ایک شرط یہ تھی کہ سیدنا معاویہ حضرت امام حسن کا قرض چکائیں گے تو حضرت معاویہ نے ان شرائط پر صلح کرلی تو معجزہ نبوی ظاہر.و.پورا ہوا کہ جو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ تعالی میرے اس بیٹے کے ذریعے سے دو مسلمان گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا 

(تاريخ الخلفاء ص147)

(سمط النجوم العوالي3/89)

(أسد الغابة ط الفكر1/491)

(تهذيب الأسماء واللغات1/159)

.

(چوتھی شرط)

وإني قد أخذت لكم على معاوية أن يعدل فيكم

امام حسن نے فرمایا کہ میں نے سیدنا معاویہ سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ تم میں عدل کا معاملہ کریں گے 

(الطبقات الكبرى-متمم الصحابة1/326)

.

.

(پانچویں_شرط)

*#متنازعہ،غیر متفقہ شرط کہ ولی عہد نہ کریں گے:*

صالحه عَلَى أن يسلم إِلَيْهِ ولاية أمر المسلمين عَلَى أن يعمل فِيهَا بكِتَاب اللَّهِ وسنة نبيه وسيرة الخلفاء الصالحين؟! وعلى أنه ليس لمعاوية أن يعهد لأحد من بعده، وأن يكون الأمر شورى....ردھما الی معاویہ

سیدنا امام حسن نے اس بات پر صلح کی کہ سیدنا معاویہ کو وہ حکومت دیں گےاس شرط پر کہ سیدنا معاویہ عمل کریں گے کتاب اللہ پر نبی پاک کی سنتوں پر اور خلفائے راشدین کی سیرت پر۔۔۔۔۔۔اور سیدنا معاویہ اپنے بعد کسی کو مقرر نہ کریں گے بلکہ معاملہ شوری پر چھوڑیں گے۔۔۔یہ شرائط لکھ کر سیدنا معاویہ کی طرف خط بھیجا  

(أنساب الأشراف للبلاذري3/42)

.

متنازعہ شرط نہ منظور ہوکر صلح ہوئی:

فَلَمَّا أَتَتِ الصَّحِيفَةُ إِلَى الْحَسَنِ اشْتَرَطَ أَضْعَافَ الشُّرُوطِ الَّتِي سَأَلَ مُعَاوِيَةَ قَبْلَ ذَلِكَ وَأَمْسَكَهَا عِنْدَهُ، فَلَمَّا سَلَّمَ الْحَسَنُ الْأَمْرَ إِلَى مُعَاوِيَةَ طَلَبَ أَنْ يُعْطِيَهُ الشُّرُوطَ الَّتِي فِي الصَّحِيفَةِ الَّتِي خَتَمَ عَلَيْهَا مُعَاوِيَةُ، فَأَبَى ذَلِكَ مُعَاوِيَةُ وَقَالَ لَهُ: قَدْ أَعْطَيْتُكَ مَا كُنْتَ تَطْلُبُ فَلَمَّا اصْطَلَحَا

جو صحیفہ امام حسن کی طرف معاویہ نے روانہ کیا تھا جس پر مہر لگائی تھی امام حسن نے مذکورہ شرائط کے علاوہ کئ شرائط لگا دی تو حضرت معاویہ نےان(زائد)شرائط کو پورا کرنے سے انکار کر دیا پھر جب(زائد متنازع شرائط کو نکال کر ) دونوں نے صلح کرلی

(الكامل في التاريخ ج3 ص6)

۔

تفصیل:

یہ پانچویں شرط کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کتاب اللہ پر عمل کریں گے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کریں گے اور خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کریں گے تو اوپر گزرا کی سیدنا معاویہ کی حکومت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کی طرح تھی، سیدنا معاویہ سیدنا عمر کے نقش قدم پر چلے۔۔۔باقی رہی بات یہ کہ سیدنا معاویہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ بنا کر نہ جائیں گےتو اس شرط کے غیرمتفقہ متنازعہ  غیرموجود مردود ہونے کی تین وجوہ ہیں

①ایک وجہ یہ ہے کہ سب سے پہلی شرط یہ تھی کہ حکومت سیدنا معاویہ کے بعد سیدنا حسن کو ملے گی شوری کا تو تذکرہ ہی نہیں تھا جبکہ یہ پانچویں شرط شوری کا بتا رہی ہے لیھذا یہ شرط پہلی شرط کے خلاف و مردود ہے…پہلی شرط میں یہ ہے کہ سیدنا حسن کو بعد از سیدنا معاویہ خلافت ملے گی، پہلی شرط میں یہ نہیں لکھا کہ سیدنا حسین کو حکومت ملے گی لیھذا سیدنا حسن کی وفات ہوگئ تو پہلی شرط خود بخود کالعدم ہوگئ اس لیے سیدنا معاویہ نے اجتہاد کرتے ہوئے یزید کے لیے بیعت لی...زیادہ سے زیادہ اسے اجتہادی خطاء کہا جاسکتا ہے مگر سیدنا معاویہ کو بدعہد خائن دھوکےباز نہیں کہا جاسکتا

②اور کسی کو مقرر نہ کرنے کی یہ شرط کسی معتبر تاریخ کی کتاب میں بھی نہیں آئی۔۔۔

③نیز یہ بھی کتابوں میں آیا ہے کہ کچھ شرطیں ایسی تھی کہ جن کو سیدنا معاویہ نے رد کر دیا تھا تو عین ممکن ہے کہ یہ بھی انہی شرائط میں سے ہوں کہ جن کو سیدنا معاویہ نے رد کر دیا اور اس کے بعد سیدنا حسن سے صلح ہو گئی ہو

.

*سیدنا حسن نے سیدنا معاویہ کی بیعت کی اور بیعت کا حکم دیا:*

جمع الحسن رءوس أهل العراق في هذا القصر  قصر المدائن- فقال: إنكم قد بايعتموني على أن تسالموا من سالمت وتحاربوا من حاربت، وإني قد بايعت معاوية، فاسمعوا له وأطيعو

ترجمہ:

سیدنا حسن نے مدائن کے ایک محل میں عراق وغیرہ کے بڑے بڑے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ تم لوگوں نے میری بیعت کی تھی اس بات پر کہ تم صلح کر لو گے اس سے جس سے میں صلح کروں اور تم جنگ کرو گے اس سے جس سے میں جنگ کروں تو بے شک میں نے معاویہ کی بیعت کر لی ہے تو تم بھی سیدنا معاویہ کی بات سنو مانو اور اطاعت کرو 

(الإصابة في تمييز الصحابة ,2/65)

(المعرفة والتاريخ3/317)

(كوثر المعاني الدراري5/176)

(تاريخ بغداد ت بشار1/467)

.

فلما وقع الاتفاق على معاوية ونزل له السيد الحسن عن الأمر سُمي عام الجماعة

جب سیدنا معاویہ پر سب کا اتفاق ہو گیا اور  سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے خلافت سے دستبردار ہو گئے تو اس سال کو عام الجماعۃ کہتے ہیں یعنی اجتماع والا سال 

(المقدمة الزهرا في إيضاح الإمامة الكبرى ص22)

.

بايع الحسن معاوية

امام حسن نے سیدنا معاویہ کی بیعت کر لی 

(أسد الغابة,2/13)

(البداية والنهاية ط هجر11/359)

(تاريخ الإسلام ت تدمري4/131)

(نهاية الأرب في فنون الأدب20/230)

۔

.

هذا ما صالح عليه الحسن بن علي بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان: صالحه على أن يسلم إليه ولاية أمر المسلمين، على أن يعمل فيهم بكتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وآله وسيرة الخلفاء الصالحين

(شیعوں کے مطابق)امام حسن نے فرمایا یہ ہیں وہ شرائط جس پر میں معاویہ سے صلح کرتا ہوں، شرط یہ ہے کہ معاویہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سیرتِ نیک خلفاء کے مطابق عمل پیرا رہیں گے

(شیعہ کتاب بحار الانوار جلد44 ص65)

سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "نیک خلفاء کی سیرت" فرمایا جبکہ اس وقت شیعہ کے مطابق فقط ایک خلیفہ برحق امام علی گذرے تھے لیکن سیدنا حسن "نیک خلفاء" جمع کا لفظ فرما رہے ہیں جسکا صاف مطلب ہے کہ سیدنا حسن کا وہی نظریہ تھا جو سچے اہلسنت کا ہے کہ سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم خلفاء برحق ہیں تبھی تو سیدنا حسن نے جمع کا لفظ فرمایا...اگر شیعہ کا عقیدہ درست ہوتا تو "سیرت خلیفہ" واحد کا لفظ بولتے امام حسن....اور دوسری بات یہ بھی کہ سیدنا معاویہ خلفاء راشدین کی راہ حق پے چلے ورنہ سیدنا حسن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھما ضرور بیعت توڑ دیتے،سیدنا حسن حسین کی صلح رسول کریم کی صلح ہے جو سیدنا معاویہ کو عادل بادشاہ بنا دیتی ہے

.الحدیث:

أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ، وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ

ترجمہ:

(رسول کریم نے حسن حسین وغیرہ اہلبیت سے فرمایا) تم جس سے جنگ کرو میری اس سے جنگ ہے،تم جس سے صلح کرو میری اس سے صلح ہے

(اہلسنت کتاب صحیح ابن حبان حدیث6977)

(شیعہ کتاب بحار الانوار32/321)

.

اہلسنت نے ہر صحابیِ نبی جنتی جنتی نعرہ لگایا اور لگاتے ہیں اور لگاتے رہیں گے....حق چار یار کا نعرہ لگایا اور لگاتے ہیں اور لگاتے رہیں گے...خلفاء راشدین کی سیاست حکومت زندہ آباد نعرہ لگایا ، لگاتے رہیں گے، خلفاء راشدین کا فیضان جاری رہے گا نعرہ لگایا ، لگاتے رہیں گے

مگر

اس کے ساتھ ساتھ صحابی سیدنا معاویہ جنتی کا نعرہ لگایا…سیاست معاویہ زندہ آباد کا نعرہ لگایا، فیضان معاویہ جاری رہے گا کا نعرہ لگایا

تو

غیراہلسنت کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی سیدنا معاویہ کے نعروں کے خلاف ہوگئے اور مذمت کرنے لگے جو اہلسنت ہونے کا دعوی کرتے ہیں

.

کچھ تو آپ اوپر ملاحظہ کر چکے کہ سیدنا معاویہ کی حکومت سیاست عادلانہ زندہ باد تھی....آئیے مزید چند حوالے دیکھتے ہیں کہ سیدنا معاویہ کی سیاست کیسی تھی…انکی سیرت، انکا کردار کیسا تھا کہ زندہ باد اور فیضان معاویہ جاری رہے گا کے نعرے درست و حق کہلائیں........؟؟

.

*امام حسن نے جب خلافت سیدنا معاویہ کے سپرد کی ، صلح کی اور سیدنا معاویہ کی حکومت منھج رسول ، منھج خلفاء راشدین پے رہی الا چند مجتہدات کے تو سیدنا معاویہ کی حکومت عادلہ راشدہ کہلائی، خلافت راشدہ تب کہلاتی جب حدیث کے مطابق تیس سال کے دوران ہوتی...امارت حکومت عادلہ ہے تو ایسی حکومت زندہ باد کیوں نہ ہو.....؟؟ ایسی سیاست و کردار کا فیضان کیوں نا جاری رہے.....؟؟*

.

وقد كان ينبغي أن تلحق دولة معاوية وأخباره بدول الخلفاء وأخبارهم فهو تاليهم في الفضل والعدالة والصحبة

تفسیری ترجمہ:

(سیدنا امام حسن نے جب حکومت سیدنا معاویہ کو دی انکی بیعت کی، ان سے صلح کی تو اس کے بعد)سیدنا معاویہ کی حکومت خلفاء راشدین کی حکومت کی طرح حکومت عادلہ کہلانی چاہیے اور سیدنا معاویہ کے اقوال و اخبار بھی خلفاء راشدین کے اقوال و اخبار کی طرح کہلانے چاہیے کیونکہ فضیلت عدالت اور صحابیت میں سیدنا معاویہ خلفاء راشدین کے بعد ہیں

(تاریخ ابن خلدون2/650)

.

فأرسل إِلَى معاوية يبذل له تسليم الأمر إليه، عَلَى أن تكون له الخلافة بعده، وعلى أن لا يطلب أحدًا من أهل المدينة والحجاز والعراق بشيء مما كان أيام أبيه، وغير ذلك من القواعد، فأجابه معاوية إِلَى ما طلب، فظهرت المعجزة النبوية في قوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إن ابني هذا سيد يصلح اللَّه به بين فئتين من المسلمين ".ولما بايع الحسن معاوية خطب الناس

ترجمہ:

حضرت سیدنا حسن نے سیدنا معاویہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ خلافت و حکومت معاویہ کو دینے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ سیدنا معاویہ کے بعد خلافت انہیں ملے گی اور یہ بھی شرط کی کہ اہل مدینہ اہل حجاز اور اہل عراق میں سے کسی سے بھی کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا اور اس کے علاوہ بھی کچھ شرائط رکھیں سیدنا معاویہ نے ان شرائط کو قبول کرلیا تو نبی کریم کا وہ معجزہ ظاہر ہوگیا کہ جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ میرا بیٹا یہ سید ہے اللہ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا اور سیدنا حسن نے سیدنا معاویہ کی بیعت کر لی تو خطبہ بھی دیا  

[أسد الغابة ملتقطا,2/13]

.

*امام عالی مقام سیدنا حسن مجتبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں*

ﺍﺭﻯ ﻭﺍﻟﻠﻪ ﺍﻥ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺧﻴﺮ ﻟﻲ ﻣﻦ ﻫﺆﻻﺀ، ﻳﺰﻋﻤﻮﻥ ﺍﻧﻬﻢ ﻟﻲ ﺷﻴﻌﺔ ، ﺍﺑﺘﻐﻮﺍ ﻗﺘﻠﻲ ﻭﺍﻧﺘﻬﺒﻮﺍ ﺛﻘﻠﻲ، ﻭﺃﺧﺬﻭﺍ ﻣﺎﻟﻲ، ﻭﺍﻟﻠﻪ ﻟﺌﻦ ﺁﺧﺬ ﻣﻦ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻋﻬﺪﺍ ﺍﺣﻘﻦ ﺑﻪ ﺩﻣﻲ، ﻭﺍﻭﻣﻦ ﺑﻪ ﻓﻲ ﺍﻫﻠﻲ، ﺧﻴﺮ ﻣﻦ ﺍﻥ ﻳﻘﺘﻠﻮﻧﻲ ﻓﺘﻀﻴﻊ ﺍﻫﻞ ﺑﻴﺘﻲ ﻭﺍﻫﻠﻲ

ترجمہ:

(امام عالی مقام سیدنا حسن مجتبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں)اللہ کی قسم میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ جو میرے شیعہ کہلانے والے ہیں ان سے معاویہ بہتر ہیں، ان شیعوں نے تو مجھے قتل کرنے کی کوشش کی، میرا ساز و سامان لوٹا، میرا مال چھین لیا، اللہ کی قسم اگر مین معاویہ سے عہد لے لوں تو میرا خون سلامت ہو جائے اور میرے اہلبیت امن میں آجاءیں، تو یہ اس سے بہتر ہے کہ شیعہ مجھے قتل کریں اور میرے اہل و اہلبیت ضائع ہوجائیں گے 

(شیعہ کتاب احتجاج طبرسی جلد2 ص9)

.

*اور پھر سیدنا حسن حسین رضی اللہ تعالی عنھما نے بمع رفقاء سیدنا معاویہ سے صلح و بیعت کرلی اور فرمایا سیدنا معاویہ کی بیعت کرو، اطاعت کرو*

جمع الحسن رءوس أهل العراق في هذا القصر  قصر المدائن- فقال: إنكم قد بايعتموني على أن تسالموا من سالمت وتحاربوا من حاربت، وإني قد بايعت معاوية، فاسمعوا له وأطيعو

ترجمہ:

سیدنا حسن نے مدائن کے ایک محل میں عراق وغیرہ کے بڑے بڑے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ تم لوگوں نے میری بیعت کی تھی اس بات پر کہ تم صلح کر لو گے اس سے جس سے میں صلح کروں اور تم جنگ کرو گے اس سے جس سے میں جنگ کروں تو بے شک میں نے معاویہ کی بیعت کر لی ہے تو تم بھی سیدنا معاویہ کی بات سنو مانو اور اطاعت کرو 

(الإصابة في تمييز الصحابة ,2/65)

.

*لیکن*

جب سیدنا حسن نے حدیث پاک کی بشارت مطابق سیدنا معاویہ سے صلح کی، سیدنا معاویہ کی تعریف کی،انکی بیعت کی،بیعت کرنے کا حکم دیا تو بعض شیعوں نےسیدنا حسن کو کہا:يا مذل المؤمنين ويا مسود الوجوه

اے مومنوں کو ذلیل کرنےوالے،مونوں کے منہ کالا کرنےوالے(شیعہ کتاب مستدرک سفینہ بحار8/580)

.

سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:

قد خذلتنا شیعتنا

ترجمہ:

بے شک ہمارے کہلانے والے شیعوں نے ہمیں رسوا کیا،دھوکہ دیا، بےوفائی کی

(شیعہ کتاب مقتل ابی مخنف ص43)

(شیعہ کتاب موسوعہ کلمات الامام الحسین ص422)

.

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ

سیدنا حسن و معاویہ کا اختلاف بےشک تھا مگر سیدنا حسن کے مطابق بھی سیدنا معاویہ بہتر و اچھے تھے، کافر گمراہ منافق وغیرہ نہ تھے

.

سیدنا حسن کی بات ان لوگوں کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے جو کہتے ہیں کہ سیدنا حسن نے نه چاہتے ہوئے بیعت کی،مجبور ہوکر بیعت کی،تقیتًا بیعت کی

بلکہ

الٹا شیعوں کی مذمت ہے کیونکہ سیدنا حسن کی بات سے واضح ہے کہ ان کو شیعوں کی بےوفائی و منافقت کا تقریبا یقین تھا، آپ کو خوف تھا کہ شیعہ جان مال اور اہلبیت کو بھی قتل کر دیں گے....اس لیے آپ نے اپنی جان مال اور اہلبیت کے تحفظ کے لیے سیدنا معاویہ سے صلح کی کیونکہ سیدنا حسن کا خیال تھا کہ شیعہ اہلبیت کو نقصان دیں گے مگر معاویہ تحفظ دیں گے......اس میں سیدنا معاویہ کی بڑی شان بیان ہے اور شیعوں کی بےوفاءی مکاری اسلام و اہلبیت سے دشمنی کا بیان ہے

.

سیدنا حسن نے دوٹوک فرمایا کہ شیعوں نے ان پر حملہ کیا، مال لوٹا، ساز و سامان چھین کر لےگئے، اس سے ثابت ہوتا ہے شیعہ جعلی محب و مکار ہیں.......محبت کا ڈھونگ رچا کر وہ دراصل اسلام دشمنی اہلبیت دشمنی نبہانے والے ہیں.....اسلام کو تباہ کرنے والے، قرآن و سنت اسلام میں شکوک و شبہات پھیلانے والے دشمن اسلام ہیں، دشمنان اسلام کے ایجنٹ ہیں.......انکی باتیں کتابیں جھوٹ و مکاریوں سے بھری پڑی ہیں...........سیدنا حسین کو بھی انہی بےوفا مکار کوفی شیعوں نے شہید کرایا، یہ لوگ مسلمانوں میں تفرقہ فتنہ انتشار قتل و غارت پھیلانے والے رہے ہیں... انہین اسلام کی سربلندی کی کوئی فکر نہین بلکہ اسلام دشمن ہیں یہ لوگ..... انکا کلمہ الگ ،اذان الگ، نماز الگ، زکاۃ کے منکر، حج سے بیزار، قران میں شک کرنےوالے، شک پھیلانے والے، جھوٹے عیاش چرسی موالی بےعمل بدعمل بےوقوف و مکار دشمن اسلام دشمن اہلبیت ہیں...

.

قَالَ كَعْب الْأَحْبَار لم يملك أحد هَذِه الْأمة مَا ملك مُعَاوِيَة

ترجمہ:

سیدنا کعب الاحبار نے فرمایا کہ جیسی(عظیم عادلہ راشدہ) بادشاہت سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تھی ایسی کسی کی بادشاہت نہیں تھی 

(صواعق محرقہ2/629)

.


وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَسْوَدَ مِنْ مُعَاوِيَةَ.

ترجمہ:



سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا معاویہ سے بڑھ کر کسی کو کثرت سے کرم نوازی کرنے والا ، حلم و بردباری والا، سخاوت کرنے والا نہیں پایا

[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ,9/357 روایت15921]

[السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/441]

.


ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُوْلُ:مَا رَأَيْتُ رَجُلاً كَانَ أَخْلَقَ لِلمُلْكِ مِنْ مُعَاوِيَةَ

ترجمہ:

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کے میں نے(رسول کریم اور خلفاء راشدین وغیرہ مستحقین کے بعد) معاویہ سے بڑھ کر حکومت کے لیے بادشاہت کے لیے کسی کو عظیم مستحق ترین , لائق ترین اور عظیم  اخلاق والا  نہیں پایا 

[سير أعلام النبلاء3/153]

.


عَنِ ابْن عُمَر، قَالَ: مَا رأيت أحدا بعد رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أسود من مُعَاوِيَة. فقيل لَهُ: فأبو بَكْر، وَعُمَر، وعثمان، وعلي! فَقَالَ: كانوا والله خيرا من مُعَاوِيَة، وَكَانَ مُعَاوِيَة أسود منهم

ترجمہ:

سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا معاویہ سے بڑھ کر کسی کو کثرت سے کرم نوازی کرنے والا ، حلم و بردباری والا، سخاوت کرنے والا نہیں پایا...کسی نے پوچھا کہ ابوبکر عمر عثمان اور علی سے بھی زیادہ۔۔۔؟فرمایہ کہ یہ سب حضرات سیدنا معاویہ سے افضل تھے مگر کثرت کرم نوازی بردباری سخاوت میں سیدنا معاویہ زیادہ تھے 

[الاستيعاب في معرفة الأصحاب ,3/1418]

.

*سیدنا معاویہ اور عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جھلک*

أوصى أن يكفن فِي قميص كَانَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قد كساه إياه، وأن يجعل مما يلي جسده، وَكَانَ عنده قلامة أظفار رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فأوصى أن تسحق وتجعل فِي عينيه وفمه

ترجمہ:

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے وصیت کی تھی کہ انہیں کفن میں وہ قمیض پہنائی جائے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہنائی تھی اور سیدنا معاویہ کے پاس حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے ناخن مبارک کے ٹکڑے تھے ان کے متعلق وصیت فرمائی کہ وہ ان کی آنکھوں اور منہ پر رکھے جائیں 

[أسد الغابة ,5/201]

.

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتے تھے،ایک دفعہ حضرت قابس بن ربیعہ آپ کے پاس آئے تو آپ انکی تعظیم میں کھڑے ہوگئے اور انکی پیشانی پر بوسہ دیا اور مرغاب نامی علاقہ ان پر نچھاور کر دیا، ان کے لیے وقف کردیا

وجہ فقط اتنی تھی کہ حضرت قابس کے چہرے کی کچھ مشابہت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے تھی 

(دیکھیے شفا جلد دو ص40)

.

جب امام حسن امیر معاویہ کے پاس آتے تو امیر معاویہ انہیں اپنی جگہ بٹھاتے خود سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے،کسی نے پوچھا آپ ایسا کیوں کرتے ہیں فرمایا کہ امام حسن ہم شکل مصطفی ہیں صلی الله علیہ وسلم اس مشابہت کا احترام کرتا ہوں۔(مرآۃ شرح مشکاۃ8/460)

.

*جہاد و فتوحاتِ سیدنا معاویہ کی جھلک*

وفي سنة ثلاث وأربعين فتحت الرخج وغيرها من بلاد سجستان، وودان من برقة، وكور من بلاد السودان

وفي سنة خمس وأربعين فتحت القيقان قوهستان

خلاصہ:

رخج وغیرہا کئ ممالک سجستان ودان کور سوڈان قعقان قوہستان وغیرہ کئ ممالک سلطنتیں سیدنا معاویہ کے دور میں فتح ہوئے...عرب تا افریقہ تک تقریبا آدھی دنیا پر سیدنا معاویہ کی حکومت تھی

[تاريخ الخلفاء ,page 149ملخصا]

.

*سیدنا معاویہ کی اہلبیت و امام حسن کی تعظیم و خدمت کی ایک جھلک*

اس صلح کے وقت واقعہ یہ ہوا کہ امیر معاویہ نے امام حسن کے پاس سادہ کاغذ بھیجا اور فرمایا کہ آپ جو شرائط صلح چاہیں لکھ دیں مجھے منظور ہے،امام حسن نے لکھا کہ اتنا روپیہ سالانہ بطور وظیفہ ہم کو دیا جایا کرے اور آپ کے بعد پھر خلیفہ ہم ہوں گے، آپ نے کہا مجھے منظور ہے۔چنانچہ آپ سالانہ وظیفہ دیتے رہے اس کے علاوہ اکثر عطیہ نذرانے پیش کرتے رہتے تھے،ایک بار فرمایا کہ آج میں آپ کو وہ نذرانہ دیتا ہوں جو کبھی کسی نے کسی کو نہ دیا ہو۔چنانچہ آپ نے اربعۃ مائۃ الف الف نذرانہ کیے یعنی چالیس کروڑ روپیہ۔(مرقات)جب امام حسن امیر معاویہ کے پاس آتے تو امیر معاویہ انہیں اپنی جگہ بٹھاتے خود سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے،کسی نے پوچھا آپ ایسا کیوں کرتے ہیں فرمایا کہ امام حسن ہم شکل مصطفی ہیں صلی الله علیہ وسلم اس مشابہت کا احترام کرتا ہوں۔

(مراۃ شرح مشکاۃ8/460)

.


.

*سیدنا معاویہ کی ازواج مطہرات کی خدمت کی ایک جھلک*

سیدنا معاویہ بی بی عائشہ کو تحفے تحائف تک بھیجا کرتے تھے جو اس طرف واضح اشارہ ہے کہ سیدنا معاویہ رسول کریم کی ازواج مطہرات کا خیال رکھا کرتے تھے

أَهْدَى مُعَاوِيَةُ لِعَائِشَةَ ثِيَابًا وَوَرِقًا وَأَشْيَاءَ

ترجمہ:

حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کو کپڑے اور چاندی کے سکے(نقدی) اور دیگر چیزیں تحفے میں بھیجیں

(حلية الأولياء 2/48)

.

سیدنا معاویہ اہلبیت کو تحائف دیتے وہ قبول فرماتے

ﻭﻋﻦ ﺟﻌﻔﺮِ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﺃﻥَّ ﺍﻟﺤﺴﻦَ ﻭﺍﻟﺤﺴﻴﻦَ ﻛﺎﻧﺎ ﻳَﻘْﺒَﻼ‌ﻥِ ﺟﻮﺍﺋﺰَ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ.

سیدنا حسن حسین سیدنا معاویہ کے تحائف قبول کرتے تھے

( المصنف - ابن أبي شيبة -4/296)

.


ﻭﻋﻦ ﻋﺒﺪِﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺑُﺮﻳﺪﺓَ، ﺃﻥ ﺍﻟﺤﺴﻦَ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ رضي الله عنهما ﺩﺧﻞ ﻋﻠﻰ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻓﻘﺎﻝ: ﻷ‌ُﺟﻴﺰَﻧَّﻚ ﺑﺠﺎﺋﺰﺓٍ ﻟﻢ ﺃﺟﺰ ﺑﻬﺎ ﺃﺣﺪﺍً ﻗﺒﻠﻚ، ﻭﻻ‌ ﺃﺟﻴﺰ ﺑﻬﺎ ﺃﺣﺪﺍً ﺑﻌﺪﻙ ﻣﻦ ﺍﻟﻌﺮﺏ، ﻓﺄﺟﺎﺯﻩ ﺑﺄﺭﺑﻌﻤﺎﺋﺔ ﺃﻟﻒ، ﻓﻘَﺒِﻠﻬﺎ.

ایک دفعہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے تو سیدنا معاویہ نے فرمایا کہ آج میں آپ کو وہ تحفہ دوں گا کہ ایسا تحفہ آپ سے پہلے کسی کو نہ دیا اور نہ دوں گا پھر سیدنا معاویہ نے آپ کو چار لاکھ درھم تحفے میں دیے امام حسن نے قبول فرمائے

(المصنف - ابن أبي شيبة -6/188)

.

صرف تحفے لینے اور دینے کا معاملہ نہ تھا بلکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالئ عنہ تعریف بھی کیا کرتے تھے

فَلَمَّا اسْتَقَرَّتِ الْخِلَافَةُ لِمُعَاوِيَةَ كَانَ الْحُسَيْنُ يَتَرَدَّدُ إِلَيْهِ مَعَ أَخِيهِ الْحَسَنِ، فَكَانَ مُعَاوِيَةُ يُكْرِمُهُمَا إِكْرَامًا زَائِدًا، وَيَقُولُ لَهُمَا: مَرْحَبًا وَأَهْلًا. وَيُعْطِيهِمَا عَطَاءً جَزِيلًا

 جب سیدنا معاویہ کی خلافت (سیدنا حسن و حسین وغیرھما کی صلح کے بعد) قائم ہوگئ تو سیدنا حسن اور حسین سیدنا معاویہ کے پاس آیا کرتے تھے اور سیدنا معاویہ ان کا بے حد احترام عزت و اکرام کرتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ مرحبا اپنے گھر میں ہی آئے ہو اور انہیں بہت بڑے بڑے تحفے دیتے تھے

(البداية والنهاية ت التركي11/476)

.

*معاویت بھی زندہ آباد مگر یزیدت مردہ باد*

الحدیث:

أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ، وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ

ترجمہ:

(رسول کریم نے حسن حسین وغیرہ اہلبیت سے فرمایا) تم جس سے جنگ کرو میری اس سے جنگ ہے،تم جس سے صلح کرو میری اس سے صلح ہے

(اہلسنت کتاب صحیح ابن حبان حدیث6977)

(شیعہ کتاب بحار الانوار32/321)

شیعہ ، رافضی، نیم رافضی سچے مسلمان نہیں، سچے محب اہلبیت نہیں.....حسنی حسینی سچا مسلمان اور سچا محبِ اہلبیت وہ ہےجو یزیدیت سے جنگ اور معاویت سے صلح رکھے،زبان قابو میں رکھے

کیونکہ

سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنھما نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی اور سیدنا حسین نے یزید سے جنگ کی......اور حسنین کریمین کی صلح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلح اور انکی جنگ رسول کریم کی جنگ ہے

.

*سیدنا معاویہ کی اتباع سنت کی ایک جھلک اور عوام کی خدمت*

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث و سنت کی اتباع و پیروی اور عوام کی فلاح و خدمت کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث و سنت کی اتباع و پیروی کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے

أَنَّ أَبَا مَرْيَمَ الْأَزْدِيَّ، أَخْبَرَهُ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ ،فَقَالَ: مَا أَنْعَمَنَا بِكَ....فَقُلْتُ: حَدِيثًا سَمِعْتُهُ أُخْبِرُكَ بِهِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ وَلَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَاحْتَجَبَ دُونَ حَاجَتِهِمْ، وَخَلَّتِهِمْ وَفَقْرِهِمْ، احْتَجَبَ اللَّهُ عَنْهُ دُونَ حَاجَتِهِ وَخَلَّتِهِ، وَفَقْرِهِ» قَالَ: فَجَعَلَ رَجُلًا عَلَى حَوَائِجِ النَّاسِ

(ابوداود حدیث2948بالحذف الیسیر)

.

ترجمہ:

صحابی سیدنا ابو مریم الازدی حضرت سیدنا معاویہ کے پاس تشریف لائے تو حضرت معاویہ نے فرمایا:

آپ کی تشریف آوری سے ہمارا دل باغ بہار ہوگیا، فرمائیے کیسے آنا ہوا.......؟؟

صحابی ابو مریم الازدی(جو سیدنا معاویہ سے عمر میں چھوٹے تھے)نے فرمایا کہ میں آپ کو ایک حدیث پاک سنانے آیا ہوں

"رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

جسے اللہ نے مسلمانوں کی حکومت(لیڈری، ذمہ داری، عھدے داری)سے نوازا ہو اور وہ لوگوں پر اپنے دروازے بند کر دے حالانکہ لوگ تنگ دستی میں ہوں حاجات والے ہوں اور فقر و فاقہ مفلسی والے ہوں تو اللہ قیامت کے دن ایسے(نا اہل) حکمران و ذمہ دار پر(رحمت کے، جنت کے) دروازے بند کر دے گا حالانکہ وہ تنگ دست ہوگا حاجت مند ہوگا مفلس و ضرورت مند ہوگا..."

صحابی کہتے ہیں کہ حدیث پاک سنتے ہی فورا سیدنا معاویہ نے لوگوں کی حاجات و مسائل کے سننے، حل کرنے ، مدد کرنے کے لیے ایک شخص کو مقرر کر دیا

(ابوداود حدیث2948بالحذف الیسیر)

.

.

①سیدنا معاویہ بڑے صحابی تھے اور سیدنا ابومریم کم عمر صحابی تھے.......لیکن اس کے باوجود سیدنا معاویہ نے صحابی کی کیسی تعظیم کی اور انکی امد کو سعادت سمجھا.....جب کم عمر صحابی سے اتنی محبت تو بڑے بڑے صحابہ کرام مثل سیدنا علی و عمر وغیرھما سے کتنی عقیدت واحترام رکھتے ہونگے....اندازہ لگنا مشکل نہیں

.

②سیدنا معاویہ بڑے تھے سیدنا الازدی چھوٹے تھے مگر چھوٹے کو ایسی علم و روایت کی بات معلوم تھی جو بظاہر بڑے کو معلوم نہ تھی.....اسکا مطلب چھوٹا بڑے سے کچھ معاملات میں بڑھ سکتا ہے اور بڑا کچھ باتوں سے لاعلم ہوسکتا ہے....لیھذا ہمیں اپنے آپ کو علمِ کل اور بڑی توپ نہیں سمجھنا چاہیے

.

③سیدنا معاویہ بڑے تھے، علم والے بھی تھے، حاکم وقت بھی تھے مگر اس کے باوجود چھوٹے صحابی نے انہیں باادب ہوکر علم کی بات سکھانے بتانے میں ججک و شرم محسوس نہ کی اور بڑے یعنی سیدنا معاویہ نےبھی کوئی بےعزتی و شرم محسوس نہ کی، وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کیا اور چھوٹے کی بات مان لی.........لیھذا بڑے علماء مشائخ وغیرہ چھوٹوں کی بات مان لینے میں شرم و ججک محسوس نہ کریں اور چھوٹے کچھ کہیں تو باادب ہوکر عرض کریں اپنے آپ کو توپ نہ سمجھیں

.

④صحابی ابومریم الازدی نے "ولاہ اللہ" کو سیدنا معاویہ پر فٹ کرکے یہ عقیدہ بتایا ہے کہ صحابہ کرام، اہلبیت سیدنا معاویہ کی خطاء اجتہادی مانتے تھے مگر انہیں ظالم فاسق غاصب گناہ گار نہیں سمجھتے تھے... انکا نظریہ تھا غیرمنصوص معاملے میں اختلاف پردلیل ہوتو اسے نفرت و گناہ نہیں کہہ سکتے... انکا نظریہ تھا کہ سیدنا معاویہ کو حکومت اللہ نے عطاء کی ہے....انکی حکومت کوئی ظالمانہ غاصبانہ نہیں

.

⑤سیدنا معاویہ نے جیسے ہی معتبر ذرائع سے حدیث پاک سنی تو چوں چراں تاویل شاویل سے کام نہیں لیا....یہ نہیں کہا کہ دلیل لاؤ... بلکہ اسلام لانے کے بعد حدیث و سنت سے اتنے محبت کرنے والے بن گئے تھے کہ حدیث و سنت کے متعلق سنتے ہی اس پر عمل پیرا ہوتے.....مذکورہ واقعہ اسکی بھرپور عکاسی کرتا ہے

.

⑥اسلاف کی علم دوستی کا حال دیکھیے کہ اتنی دور سے بادشاہ وقت کے پاس محض ایک حدیث پاک سنانے پہنچ گئے اور بادشاہ کی علم دوستی دیکھیے کہ حدیث پاک ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنتے ہی اس پر عمل پیرا ہوگئے

.

اللہ کریم ہم سب کو حسنِ عقیدت ، علم دوستی، احترامِ سنت، وسعتِ قلبی، اور فرائض واجبات کے ساتھ ساتھ سنتوں پر بھی عمل کی توفیق عطاء فرمائے....

.

*#الحاصل*

سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے جب حکومت سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو سپرد کردی اور بیعت کی اور ان کی بیعت کرنے اور ان کی اطاعت کرنے کا حکم دے دیا

اور

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالئ عنہ متبع سنت تھے عادل تھے عاشق رسول تھے صحابہ اہلبیت وغیرہ کا احترام و خدمت کرتے تھے اور اپنی حکومت منھج سنت و منھج ِ خلفاء راشدین پر چلائی الا بعض اجتہادی مسائل کے اور بخاری میں ہے کہ سیدنا معاویہ فقیہ یعنی مجتہد تھے اور حدیث کے مطابق مجتہد خطاء بھی کرے تو ایک اجر

تو

ثابت ہوا کہ انکی حکومت اچھی عادلہ تھی اس لیے انکی سیاست زندہ باد کہنا اور فیضان معاویہ جاری رہے گا کا نعرہ لگانا بےجا نہیں برحق و سچ ہے...ہاں یزید کی سیاست و حکومت یزیدت مردہ باد لیکن والد کی وفات کے بعد بیٹے کے کرتوت ہوں تو اس کی وجہ سے باپ پر کوئی الزام و حرف نہیں آتا

.

جب یزید کی لئے بیعت لی گئ، بیعت کی گئی تو اس وقت یزید برا نہ تھا ، نااہل نہ تھا ، بعد میں پلید ظالم برا فاسق و فاجر بنا یا ظاہر ہوا....بیعت کے وقت بظاہر نااہل و برا نہ تھا اس پر ہم مختصراً حق چار یار کی نسبت سے چار دلائل  پیش کر رہے ہیں 

.

*دلیل نمبر 1:*

بَلَغَ ابْنَ عُمَرَ أَنَّ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ بُويِعَ لَهُ فَقَالَ: «إِنْ كَانَ خَيْرًا رَضِينَا , وَإِنْ كَانَ شَرًّا صَبَرْنَا

جب صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ خبر پہنچی کہ یزید بن معاویہ کی بیعت کی گئی ہے تو آپ نے فرمایا کہ اگر اچھا نکلا تو ہم راضی ہو جائیں گے اور اگر برا نکلا تو ہم صبر کر لیں گے 

(استادِ بخاری مصنف ابن أبي شيبة ,6/190روایت30575)

صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ کہنا کے اگر برا نکلا واضح دلیل ہے کہ اس وقت یزید  برا نہیں تھا


.

*دلیل نمبر 2:*

 بايعه ستون من أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم

ساٹھ صحابہ کرام نے یزید کی بیعت کی

(عمدة الأحكام الكبرى1/42)

(ذيل طبقات الحنابلة3/55)

بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنے صحابہ کرام کسی شرابی زانی بے نمازی فاسق و فاجر نااہل کی بیعت کریں۔۔۔۔؟؟

.

*دلیل نمبر3:*

اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي وَلَّيْتُهُ لِأَنَّهُ فِيمَا أَرَاهُ أَهْلٌ لِذَلِكَ فَأَتْمِمْ لَهُ مَا وَلَّيْتُهُ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي إِنَّمَا وَلَّيْتُهُ لِأَنِّي أُحِبُّهُ فَلَا تُتْمِمْ لَهُ مَا وَلَّيْتُهُ

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب یزید کے لیے بیعت لے لی تو آپ یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اللہ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کو اس لیے ولی عہد کیا ہے کہ وہ اس کا اہل ہے تو اس کو ولی عہدی عطا فرما اور اگر تو جانتا ہے کہ میں نے اس کو ولی عہد محض اس لئے بنایا ہے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کے لیے ولی عہدی کو مکمل نہ فرما

(البداية والنهاية ط هجر11/308)

صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہ نے بیٹے کو اہل سمجھتے تھے تب بھی تو ان کے لئے بیعت لی اور آگے کے لئے دعا فرمائی

.

*دلیل نمبر4:*

تمام معتبر کتب میں لکھا ہے کہ دو تین صحابہ کرام نے یزید کی بیعت نہ کی تو انہوں نے بیعت نہ کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ یہ طریقہ ولی عہدی مروجہ ماثورہ نہیں ہے بلکہ سیدنا معاویہ کا(اجتہاد کردہ)نیا طریقہ ہے۔۔۔اگر یزید نااہل ہوتا زانی شرابی فاسق و فاجر ہوتا تو صحابہ کرام ضرور اعتراض میں اس چیز کا تذکرہ کرتے... صحابہ کرام کو کوئی عذر معلوم نہ ہوا سوائے اس کے کہ ولی عہدی اسلام میں ایک نیا طریقہ ہے 

ويزيد أخوكم، وابن عمَكم، وأحسن النَّاس فيكم رأيًا، وإنما أردت أن تقدموه، وأنتم الذين تنزعون وتؤمرون وتقسمون، فسكتوا، فَقَالَ: ألَّا تجيبوني! فسكتوا، فأقبل عَلَى ابن الزبير فقال: هات  يابن الزبير، فإنك لعَمْري صاحب خطبة القوم. قَالَ: نعم يَا أمير المؤْمِنِينَ، نخيرك بَيْنَ ثلاث خصال، أيها مَا أخذتَ فهو لك، قَالَ: للَّهِ أَبُوك، اعرضهنّ، قَالَ: إن شئتَ صُنع مَا  صنع رَسُول اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ صُنع مَا صنع أَبُو بكر، وإن شئت صُنع مَا صنع عمر. قَالَ: مَا صنعوا؟ قَالَ: قُبِضَ  رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فلم يعهد عهدًا، وَلَمْ يستخلف أحدًا، فارتضي المسلمون أبا بكر. فَقَالَ: إِنَّهُ ليس فيكم  الْيَوْم مثل أَبِي بكر، إن أبا بكر كَانَ رجلًا تُقطع دونه الأعناق، وإني لست آمن عليكم الاختلاف. قَالَ: صدقت، واللَّه مَا نحب أن تدعنا، فاصنع ماصنع أَبُو بكر. قَالَ: للَّهِ أَبُوك وَمَا صنع؟ قَالَ: عمد إِلَى رَجُلٌ من قاصية11 قريش،  ليس من رهطه فاستخلفه، فإن شئت أن تنظر أي رَجُلٌ من قريش شئت، ليس من بني عَبْد شمس، فنرضى بِهِ. قَالَ: فالثالثة مَا هِيَ؟ قَالَ: تصنع مَا صنع عمر. قَالَ: وَمَا صنع؟ قَالَ: جعل الأمر شورى في ستة،  ليس فِيهِم أحد من ولده، وَلَا من بني أبيه، وَلَا من رهطه. قَالَ: فهل عندك غير هَذَا؟ قَالَ: لَا،

انظر: البداية "8/ 56-58"، تاريخ الطبري "5/ 270-276"، الكامل "3/ 490"

(تاريخ الإسلام ط التوفيقية4/77,78)

.

مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ جن کا شمار اکابر علماے اہل سنت میں ہوتا ہے ، آپ کا "فتاوی فیض الرسول" مشہور زمانہ ہے ، آپ بعض اذہان کے اندر اور زبانوں کے اوپر آنے والے ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

"رہا یزید کا فسق و فجور تو کہیں یہ ثابت نہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی میں یزید فاسق و فاجر تھا ، اور نہ ہی یہ ثابت ہے کہ انہوں نے یزید کو فاسق و فاجر جانتے ہوئے اپنا جانشین بنایا ، یزید کا فسق و فجور دراصل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ظاہر ہوا ، اور فسق ظاہر ہونے کے بعد فاسق قرار دیا جاتا ہے نہ کہ پہلے "

(سیرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ، ص 37)

.

*وسوسہ پیدا ہوتا ہے کہ تربیت اچھی تھی تو ایک دم سے کوئی شخص کیسے بدل جاتا ہے..ضرور تربیت میں گڑ بڑ ہوگی....؟؟*

تو لیجیے حدیث پاک پڑہیے

إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيمِ

 کوئی بندہ جہنم والے کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور کوئی بندہ جنت والے کام کرتا ہے وہ جہنمی ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اعمال کا دار و مدار خاتمہ پر ہے(اگر موت سے پہلے پہلے اچھے کام کرے گا تو جنتی، برے کام کرے گا تو جہنمی)

(بخاری حدیث6607)

 اس حدیث پاک سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ کوئی شخص شروع شروع میں اچھا ہوتا ہے اس کی تربیت اچھی ہوتی ہے لیکن پھر وہ اپنے نفسانی خواہشات پر عمل کرکے یا کسی شیطانی وسوسوں پے عمل کرکے یا کسی بھی وجہ سے  برے کام کرتا ہے اور جہنمی بن جاتا ہے

لیھذا

اچھی تربیت سے ہی لوگ جنتی بن جائیں یہ لازم نہیں ہے اچھی تربیت کے ساتھ ساتھ اچھے خاتمے کی بھی دعا کرنی چاہیے

.

*بیٹے کے کرتوت کی وجہ سے والدین پر حرف نہیں آتا......!!*

القرآن:

 وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ  وِّزۡرَ  اُخۡرٰی

کسی جان(مرد و عورت) کے کرتوتوں(گناہ کفر شرک برائی) کا بوجھ کسی اور جان پر نہیں ہوگا(سوائے اس کے کہ اسکا ملوث ہونا ثابت ہوجائے)

(سورہ انعام آیت164)

.

الحديث:

أَمَا إِنَّهُ لَا يَجْنِي عَلَيْكَ وَلَا تَجْنِي عَلَيْهِ ". وَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : { وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى }

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس بیٹے کے کرتوت(گناہ کفر شرک برائی)کا بوجھ تم پر نہیں ہوگا اور تمھارے کرتوت(گناہ کفر شرک برائی)کا بوجھ تمھارے بیٹے پر نہیں ہوگا

(ابوداود حدیث4495)

.

وَإِنَّمَا خُصَّ الْوَلَدُ وَالْوَالِدُ لِأَنَّهُمَا أَقْرَبُ الْأَقَارِبِ، فَإِذَا لَمْ يُؤَاخَذْ بِفِعْلِهِ فَغَيْرُهُمَا أَوْلَى

 جب سب سے قریبی شخص والد و بیٹے کے کرتوتوں(گناہ کفر شرک برائی)کا مواخذہ ایک دوسرے سے نہیں ہوگا تو دیگر لوگوں سے بھی بدرجہ اولیٰ نہیں ہوگا(سوائے اس کے کہ باپ بیٹا یا کوئی اور ملوث ہو تو وہ بھی گناہ کرتوت میں شامل کہلائے گا)

(مرقاۃ شرح مشکاۃ5/1843)

.

اس قسم کی آیت کو دلیل بنا کر سیدہ عائشہ طیبہ طاہرہ فرماتی ہیں:

وذهبت عائشة إلى أن أحدًا لا يعذب بفعل غيره، وهو أمر مجتمع عليه، لقوله تعالى: (ولا تزر وازرة وزر أخرى)

 سیدہ عائشہ طیبہ طاہرہ فرماتی ہیں کہ کسی شخص کو دوسرے شخص کے گناہ کی وجہ سے کرتوت کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جائے گا اور اس پر تمام صحابہ کرام علماء اسلام وغیرہ کا اجماع ہے سب یہی کہتے ہیں کیونکہ آیت میں ہے کہ کسی جان(مرد و عورت) کے کرتوتوں(گناہ کفر شرک برائی) کا بوجھ کسی اور جان پر نہیں ہوگا(سوائے اس کے کہ اسکا ملوث ہونا ثابت ہوجائے)

(شرح صحيح البخاري - ابن بطال3 /275)

.

اس قسم کی آیت کو دلیل بنا کر امام شافعی فرماتے ہیں

أَنْ لَا يُؤْخَذَ أَحَدٌ بِذَنْبِ غَيْرِهِ

 کسی کے گناہ سے دوسرے کی پکڑ(گناہ مذمت)نہ ہوگی

(السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية8/599)

.

الحاصل:

 یزید کے والدین نے بری تربیت کی ہو ایسا کچھ بھی صحیح سند کے ساتھ یا معتبر کتاب کے حوالے سے نہیں آیا بلکہ کتب میں آیا ہے کہ یزید کے والدین اچھے تھے حتی کہ اقتدار ملنے سے پہلے پہلے  یزید بھی اچھا تھا پھر اقتدار کے نشے میں یا نفسانی خواہشات میں وہ برا پلید بن گیا، اگر کوئی برا بن جائے تو اسکے والدین رشتے داروں پر کسی پر اعتراض نہیں جب تک کہہ پختہ ثبوت سے کسی کے ملوث ہونے کا ثبوت نہ مل جائے


.###################

*#نشانی نمبر13*

نام نہاد پیر گردیزی کا بیان سنیں، وہ کہتے ہیں کہ اہل بیت کہ جن کی تطہیر و پاکیزگی آیت میں ہے اس میں ازواج مطہرات شامل نہیں ہیں اور عرفان شاہ مشہدی بھی اسٹیج پے بیٹھے ہیں...یہ سراسر ایران نوازی روافض کی سازش پے چلنا نہیں تو اور کیا ہے.....؟؟

.

القرآن:

اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ  لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ  تَطۡہِیۡرًا

اے اہل بیت اللہ تم سے  ہر قسم کی ناپاکیوں عیبوں کو دور رکھنا چاہتا ہے تاکہ تمہیں مکمل طور پر پاکیزہ فرما دے، تمھاری تطہیر فرمادے

(سورہ احزاب آیت33)

.

گردیزو چمنیو مشہدیو سنو جس کے نام پے داد و پیسہ شہرت بٹورتے ہو اس تاجدار گولڑہ نے کیا فرمایا...پڑھو:

جمہور کا قول ہے کہ لفظ اہل بیت فریقین میں امہات المومنین اور آل عبا(یعنی جنکو نبی پاک نے چادر میں لیا تھا)علیھم السلام کو بھی شامل ہے

(تصفیہ ما بین سنی و شیعہ ص54)

جمھور کی مانو گے یا کسی کی پسند ناپسند کو.....؟؟ اور یہ بھی یاد رہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب نے اس قول کے متعلق لکھا ہے کہ اس کے دلائل ایت و احادیث کثیرہ ہیں

یہ لیجیے پڑہیے...شاہ صاحب سے سوال ہوا:

سوال :

جناب مخدوم محمد صدرالدین گیلانی قادری ملتانی آیہ تطہیر کن کے لئے ہے۔ آیہ تطہیر کے مصداق کون کون لوگ ہیں ؟

جواب حضور قبله مکتوب نمبر ۳۳۵

معظمی مکرمی جناب مخدوم صاحب حفظكم الله تعالے وعلیکم السلام ورحمة اللہ جوابا عرض ہے کہ آیت تطہیر میں لفظ اہلبیت امہات المومنین علیہا الرضوان و آل عبا علیہم السلام دونوں کو شامل ہے۔ سیاق آیتہ واحادیث کثیرہ اسی پر دال ہیں۔

 العيد الملتحي والمشتكى الى اللہ المدعو ب-مهرعلی شاه بقلم خوداز گولڑہ

(مکتبوبات طیباب مہر علی شاہ ص150)

.

آپ لوگوں کے ممدوح، اپ لوگوں کے امام و مجدد طاہر الکادری لکھتا ہے:

قول راجح یہ ہے کہ (جن احباب کو حضور نبی اکرم ﷺ نے چادر مبارک میں ڈھانپ لیا وہ)چادر والے اور ازواج مطہرات سب کے سب آیت اہل بیت کے خطاب میں شامل ہیں

(قرابۃ النبی ص63)

.

ہم نے آیت کے فورا بعد یہ دو حوالے اس لیے دیے کہ یہ دونوں شخصیات آپ کے ہاں بالخصوص انتہائی معتبر ہیں...تو انکی مانیے اور توبہ رجوع کیجیے ورنہ سمجھا یہی جائے گا کہ کسی کی پسند یا ناپسند کو اپنایا جا رہا ہے،دلائل و جمھور کو ٹھکرایا جا رہا ہے تو ضرور دال میں کچھ کالا ہوگا....!!

.

مشہدیو چمنیو گردیزیوں تم اہلسنت کا نام لیتے ہو...دعوے کرتے ہو کہ اسلاف اہلسنت کے تم پابند و پیروکار ہو تو لو اسلاف کے مدلل اقوال ملاحظہ کرو...اور کاش کہ واقعی اسلاف اہلسنت جمھور اہلسنت کی مانو بھی سہی......آمین ورنہ لوگوں پہچانو گردیزی مشہدی چمنی نیم روافض و روافض مکاروں کو

.

امام بیقی نے فرمایا

بابُ الدَّليلِ على أَنَّ أَزواجَه -صلى اللَّه عليه وسلم- مِن أهلِ بَيتِه....وذَلِكَ لأنَّ اللَّهَ تعالَى خاطَبَهُنَّ بقَولِه تعالَى: {يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ}. ثمَّ ساقَ الكَلامَ إلى أَن قال: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 32, 33]

یعنی

 آیت مبارکہ میں جو ہے کہ اللہ تعالی اہل بیت سے تمام ناپاکیوں کو دور فرما دے گا ان کی طہارت فرمادے گا تو اس آیت میں ازواج مطہرات بھی شامل ہیں کیونکہ آیت کا خطاب ہی ازواج مطہرات و اہل کساء(پنچ تن پاک سے ہے)

پھر منقولی دلیل یہ حدیث پاک لکھی

أُمِّ سلمةَ قالَت: فى بَيتِى أُنزِلَت: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا}. قالَت: فأَرسَلَ رسولُ اللَّهِ -صلى اللَّه عليه وسلم- إلى فاطِمَةَ وعَلِىٍّ والحَسَنِ والحُسَينِ فقالَ: "هَؤُلاءِ أَهلُ بَيتى". وفِى حَديثِ القاضِى والسُّلَمِى: "هَؤُلاءِ أَهلِى". قالَت: فقُلتُ: يا رسولَ اللَّه، أَما أَنا مِن أَهلِ البَيتِ؟ قال: "بَلَى إن شاءَ اللَّه تعالَى" (1). قال أبو عبدِ اللَّه: هذا حديثٌ صحيحٌ سَنَدُه، ثِقاتٌ رواتُه.

 سیدہ ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میرے گھر میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ اہل بیت سے ہر طرح کے عیوب و ناپاکی کو دور رکھ کر انہیں پاکیزہ بنانا چاہتا ہے.. جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ کو بلایا سیدنا علی کو بلایا سیدنا حسن کو بلایا سیدنا حسین کو بلایا اور فرمایا یہ میرے اہل بیت ہیں، نبی کریم کی زوجہ محترمہ ام سلمہ فرماتی ہیں کہ یا رسول اللہ کیا میں اہل بیت میں نہیں تو آپ نے فرمایا بے شک تم بھی اہل بیت میں ہو... ابو عبد اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اس کی سند صحیح ہے اس کے راوی ثقہ ہیں

(سنن کبری بیہقی حدیث2900)

.

مسند امام احمد بن حنبل امام ابن جریر اور تفسیر ابن کثیر:

إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً وَهَذَا نَصٌّ فِي دُخُولِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَهْلِ الْبَيْتِ هَاهُنَا،..قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ...اللَّهُمَّ إِلَيْكَ لَا إِلَى النَّارِ أَنَا وَأَهْلُ بَيْتِي» قَالَتْ: فَقُلْتُ وأنا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم: «وَأَنْتِ....ابن جرہر قالت أم سلمة رضي الله عنها: فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَدْخَلَنِي مَعَهُمْ، فَقَالَ صلى الله عليه وسلم: «أنت من أهلي...لَيْسَ الْمُرَادُ بِالْأَهْلِ الْأَزْوَاجَ فَقَطْ، بَلْ هُمْ مَعَ آلِهِ، وَهَذَا الِاحْتِمَالُ أَرْجَحُ جمعا بينهما وَبَيْنَ الرِّوَايَةِ الَّتِي قَبْلَهَا، وَجَمْعًا أَيْضًا بَيْنَ الْقُرْآنِ وَالْأَحَادِيثِ

 آیت مبارکہ میں جو ہے کہ اہل بیت اللہ تمھیں پاکیزہ کرنا چاہتا ہے تمھاری تطہیر فرمانا چاہتا ہے ایت سے دوٹوک واضح ہے کہ اس میں ازواج مطہرات بھی شامل ہیں... اس کی دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ مسند احمد میں روایت ہے کہ سیدہ ام سلمہ کو نبی پاک نے فرمایا کہ تم بھی اہل بیت میں شامل ہو، تیسری دلیل یہ ہے کہ جس کو ابن جریر نے روایت کیا ہے کہ سیدہ ام سلمہ نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے بھی چادر مبارک میں لے لیجئے تو آپ نے انہیں چادر میں لے لیا اور فرمایا تم بھی میرے اہل بیت میں سے ہو... لہذا آیات اور احادیث کے مطابق اہل بیت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور سیدنا علی سیدہ فاطمہ سیدنا حسن و سیدنا حسین بھی شامل ہیں

(تفسیر ابن کثیر تفسیر سورہ احزاب ایت33 ملتقطا)

.

اور جس ترمذی وغیرہ کی روایت میں زوجہ رسول سیدہ ام سلمہ کو اہلبیت کی تطہیر کی آیت میں شامل نہ ہونے کا ذکر ہے اسے بعض محققین نے ضعیف قرار دیا تو بعض نے آیت کے مقابل ہونے کی وجہ باطل قرار دیا تو بعض نے مرجوع قرار دیا اور اکثر علماء صوفیاء محققین محدثین نے تطہیر اہلبیت میں ازواج مطہرات کو بھی شامل کیا ہے جیسے کہ پیر مہر علی شاہ نے لکھا اور اسلاف کے اقوال آپ پڑھ رہے ہیں

وشهر ضعيف لسوء حفظه 

(نزہۃ الالباب علی ترمذی6/3473)

.

وهذه كما ترى آية بينة وحجة نيرة على كون نساء النبي عليه السلام من اهل بيته قاضية ببطلان مذهب الشيعة فى تخصيصهم اهل البيت بفاطمة وعلى وابنيه اى الحسن والحسين رضى الله عنهم واما ما تمسكوا به من ان النبي عليه السلام خرج ذات يوم غدوة وعليه مرط مرجل من شعر اسود: يعنى [بروى ميزر معلم بود از موى سياه] فجلس فأتت فاطمة فادخلها فيه ثم جاء على فادخله فيه ثم جاء الحسن والحسين فادخلهما فيه ثم قال انما يريد الله ليذهب عنكم الرجس اهل البيت فانه يدل على كونهم من اهل البيت لا ان من عداهم ليسوا كذلك

 یہ آیت مبارکہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بالکل واضح اور روشن دلیل ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں شامل ہیں... اس سے شیعوں کا مذہب باطل ہو جاتا ہے کہ جنہوں نے اہل بیت میں فقط سیدہ فاطمہ سیدنا علی سیدنا حسن اور حسین کو شامل کیا ہے، شیعہ لوگوں کی جو دلیل ہے کہ نبی پاک نے ان پنجتن پاک کو چادر میں لیا اور فرمایا یہ میرے اہل بیت ہیں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبی پاک نے یہ فرمایا کہ ان پنجتن پاک کے علاوہ کوئی اہل بیت نہیں

(تفسیر روح البیان 7/171)

.

وَالَّذِي يَظْهَرُ مِنَ الْآيَةِ أَنَّهَا عَامَّةٌ فِي جَمِيعِ أَهْلِ الْبَيْتِ مِنَ الْأَزْوَاجِ وَغَيْرِهِمْ...فَهَذِهِ دَعْوَةٌ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ بَعْدَ نُزُولِ الْآيَةِ، أَحَبَّ أَنْ يُدْخِلَهُمْ فِي الْآيَةِ الَّتِي خُوطِبَ بِهَا الْأَزْوَاجُ

یعنی

 آیت مبارکہ ہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات اور اولاد وغیرہ شامل ہیں، آیت میں بظاہر خطاب ازواج مطہرات سے تھا تو اس سے یہ گمان ہو سکتا تھا کہ ازواج مطہرات کے علاوہ اولاد اور سیدنا علی وغیرہ اہل بیت میں شامل نہیں تو اس گمان کو ختم کرنے کے لیے نبی پاک نے ان پانچ کو بلایا اور انہیں چادر میں لے کر فرمایا کہ یہ بھی اہل بیت ہیں

(تفسیر قرطبی تفسیر احزاب ایت33ملتقطا)

.

والآيةُ نص صريح في دخول أزواج النبي - صلى الله عليه وسلم - في أهل البيت

 آیت مبارکہ دوٹوک دلیل ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل ہیں

(التفسیر المامون6/170)

.

وَيُطَهِّرَكُمْ أَيْ يُلْبِسَكُمْ خِلَعَ الْكَرَامَةِ، ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى تَرَكَ خِطَابَ الْمُؤَنَّثَاتِ وَخَاطَبَ بِخِطَابِ الْمُذَكَّرِينَ بِقَوْلِهِ: لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ لِيَدْخُلَ فِيهِ نِسَاءُ أَهْلِ بَيْتِهِ وَرِجَالِهِمْ، وَاخْتَلَفَتِ الْأَقْوَالُ فِي أَهْلِ الْبَيْتِ، وَالْأَوْلَى أَنْ يُقَالَ هُمْ أَوْلَادُهُ وَأَزْوَاجُهُ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ مِنْهُمْ وَعَلِيٌّ مِنْهُمْ لِأَنَّهُ كَانَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ بِسَبَبِ مُعَاشَرَتِهِ بِبِنْتِ النَّبِيِّ عليه السلام وملازمته للنبي.

 اللہ پاک تم اہل بیت کو پاک فرمانا چاہتا ہے تمہاری تطہیر کرنا چاہتا ہے یعنی تم پر نوازشات کرم نوازیاں فرمانا چاہتا ہے... ازواج مطہرات کے لیے تو مونث کا صیغہ ہونا چاہیے جبکہ آیت میں مذکر کا صیغہ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مرد بھی شامل ہو جائیں تو پھر مذکر کا صیغہ استعمال ہوتا ہے، یہ مذکر کا صیغہ ہی بتا رہا ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات کے ساتھ ساتھ اولاد سیدہ فاطمہ  اور سیدنا علی سیدنا حسن حسین وغیرہ شامل ہیں

(تفسیر کبیر امام رازی25/168)

.

والذي يظهر من الآية أنها عامة في جميع أهل البيت من الأزواج وغيرهم

 آیت مبارکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہل بیت لفظ عام ہے اس میں  ازواج مطہرات اور دیگر شامل ہیں

(التفسیر الوسیط8/183)

.

والحق ما ذكرنا ان الاية يعم جميع اهل البيت وان كان سوق الكلام للنساء عن أم سلمة رضى الله عنها قالت فى بيتي أنزلت إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ قالت فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم الى فاطمة وعلى والحسن والحسين فقال هؤلاء اهل بيتي فقلت يا رسول الله اما انا من اهل البيت قال بلى ان شاء الله- رواه البغوي وغيره هذا الحديث يدل على ان اهل البيت يعم

 حق بات یہ ہے کہ آیت عام ہے اس میں ازواج مطہرات و پنجتن پاک سب شامل ہیں کیونکہ سیدہ ام سلمہ سے روایت ہے سیدہ ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میرے گھر میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ اہل بیت سے ہر طرح کے عیوب و ناپاکی کو دور رکھ کر انہیں پاکیزہ بنانا چاہتا ہے.. جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ کو بلایا سیدنا علی کو بلایا سیدنا حسن کو بلایا سیدنا حسین کو بلایا اور فرمایا یہ میرے اہل بیت ہیں، نبی کریم کی زوجہ محترمہ ام سلمہ فرماتی ہیں کہ یا رسول اللہ کیا میں اہل بیت میں نہیں تو آپ نے فرمایا بے شک تم بھی اہل بیت میں ہو.. حدیث پاک کو امام بغوی وغیرہ نے روایت کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں شامل ہیں اور لفظ اہل بیت عام ہے

(تفسیر مظہری7/340)

.

وفيه دليل على أن نساءه من أهل بيته

 آیت مبارکہ میں دلیل ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت میں داخل ہیں 

(تفسیر النسفی3/30)

.

أَهْلَ البيت} مُراداً بهم من حَواهم بيتُ النُّبوة {وَيُطَهّرَكُمْ} من أوضارِ الأوزارِ والمَعاصي {تَطْهِيراً} بليغاً واستعارةُ الرِّجسِ للمعصيةِ والتَّرشيحُ بالتَّطهيرِ لمزيدِ التَّنفيرِ عنها وهذهِ كما ترى آيةٌ بينةٌ وحجَّةٌ نيرةٌ على كونِ نساءِ النبيِّ صلَّى الله عليهِ وسلم من أهلِ بيتِه قاضيةً ببُطلان رأيِ الشِّيعةِ في تخصيصهم أهل البيتِ بفاطمةَ وعليَ وابنيهما رضوانُ الله عليهم وأمَّا ما تمسكوا به من أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرجَ ذاتَ غُدوةٍ وعليه مرط مرجل من شَعَرٍ أسودَ وجلسَ فأتتْ فاطمةُ فأدخلَها فيهِ ثم جاءَ عليٌّ فأدخلَه فيه ثم جاء الحسنُ والحسينُ فأدخلَهما فيهِ ثمَّ قال إنَّما يُريد الله ليُذهبَ عنكم الرِّجسَ أهلَ البيتِ فإنَّما يدلُّ على كونِهم من أهلِ البيتِ لاعلى أنَّ من عداهم ليسُوا كذلك

یعنی

 اہل بیت سے مراد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور دیگر کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں میں شامل ہیں  ہیں سب اہلبیت میں شامل ہیں اور انکی اللہ نے ہر نفرت والی بات و فعل سے پاکیزگی و تطہیر فرما دی ہے..یہ آیت مبارکہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بالکل واضح اور روشن دلیل ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں شامل ہیں... اس سے شیعوں کا مذہب باطل ہو جاتا ہے کہ جنہوں نے اہل بیت میں فقط سیدہ فاطمہ سیدنا علی سیدنا حسن اور حسین کو شامل کیا ہے، شیعہ لوگوں کی جو دلیل ہے کہ نبی پاک نے ان پنجتن پاک کو چادر میں لیا اور فرمایا یہ میرے اہل بیت ہیں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبی پاک نے یہ فرمایا کہ ان پنجتن پاک کے علاوہ کوئی اہل بیت نہیں

(تفسیر ابی السعود7/103)

.

وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ» ) قَالَ الْعُلَمَاءُ: مَعْنَى الْبَرَكَةِ هُنَا الزِّيَادَةُ مِنَ الْخَيْرِ وَالْكَرَامَةِ، وَقِيلَ: هِيَ بِمَعْنَى التَّطْهِيرِ وَالتَّزْكِيَةِ أَيْ طَهِّرْهُمْ، وَقَدْ قَالَ تَعَالَى: {لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33]

 اللہ پاک برکت فرمائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی ازواج پر اور ذریت پر... علماء نے فرمایا کہ برکت کے یہاں معنی زیادہ خیر اور بزرگی ہے.. ایک قول یہ ہے کہ یہ طہارت کے معنی میں ہے تطہیر کے معنی میں ہے، جیسے کہ آیت میں ہے کہ اہل بیت سے اللہ تعالی ہر طرح کی ناپاکی کو دور فرمانا چاہتا ہے اور انہیں پاکیزہ فرمانا چاہتا ہے

(شرح زرقانی علی الموطا1/51)

.

التخصيص بهم لا يناسب ما قبل الآية وما بعدها، والحديث يقتضي أنهم من أهل البيت لا أنه ليس غيرهم

 سیدہ فاطمہ سیدنا علی سیدنا حسن حسین کے ساتھ اہل بیت کو خاص کر دینا یہ آیت کے ماقبل اور مابعد کے خلاف ہے... اور وہ جو حدیث پاک میں ہے کہ نبی پاک نے ان پانچوں کو چادر میں لیا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان پانچ کے علاوہ کوئی اہل بیت نہیں

(تفسیر بیضاوی4/231)

.

شاہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں

{إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33].والحق أن أزواجه -صلى اللَّه عليه وسلم- أيضًا داخلات في هذا الخطاب

 قرآن مجید میں ہے کہ اللہ تعالی اہل بیت سے تمام ناپاکی کو دور رکھنا چاہتا ہے اور انکی تطہیر و پاکیزگی فرمانا چاہتا ہے تو اس تطہر و پاکیزگی میں لفظ اہلبیت میں ازواج مطہرات بھی داخل ہیں، یہی حق ہے

(لمعات شرح مشکواۃ3/57)

.##############

*#نشانی نمبر14*

چمن زمان کراچی میں عرفان شاہ مشہدی وغیرہ کی موجودگی و حکماً تائید سےتقریر میں کہتا ہے...المفھوم

 نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک سے لے کر اج تک آل رسول اہل بیت رسول کے ساتھ بغض و عداوت کا رویہ برتایا جا رہا ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح حدیث میں بیان فرما دیا کہ آل رسول اہل بیت رسول سے مراد وہ لوگ سادات ہیں جن پر اللہ تعالی کا درود ہے وہ سیدنا حسن حسین سیدہ فاطمہ سیدنا علی ہیں....پھر چمن زمان کہتا ہے: درود پاک میں اہل بیت ال رسول کو تو نہیں نکال سکے لیکن اہل بیت کا معنی بدل کر اپنے بغض اور عداوت کا اظہار کیا، اہل بیت کا معنی کیا کہ امت محمد.... پھر چمن زمان صاحب کہتے ہیں کہ اگر امت محمد ال محمد ہے تو پھر ساری امت کو زکواۃ نہیں لینی چاہیے ان پر زکواۃ حرام ہونی چاہیے کیونکہ ال محمد پر زکوۃ حرام ہے، پھر علماء کرام پر خوب طنز و مذمت کے تیر چلائے انہیں اہلبیت سے بغض عداوت منافقت کا مرتکب قرار دیا...طعنے دییے کہ شرم و حیاء کروم شرابی زانی وغیرہ کو آل محمد میں شامل کر رہے ہو......؟؟

یعنی

چمن زمان نے ازواج مطہرات و دیگر اولاد کو اہلبیت میں شمار نہیں کیا اہل عباء کو اہلبیت کہا

.

*#جواب.و.تحقیق.......!!*

خلاصہ:

سیدنا حسن سیدنا حسین سیدہ فاطمہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کے علاوہ کسی کو چمن زمان نے درود پاک میں ال رسول میں شمار نہیں کیا حالانکہ درود پاک میں ال محمد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ٹوک ارشاد فرمایا کہ ازواج مطہرات بھی شامل ہیں، صحابہ کرام اور تابعین اور بعد کے علماء نے آیات و احادیث سے دلیل اخذ کرکے فرمایا کہ فضیلت کے معاملے میں قیاس و ضعیف روایت بھی چل جائے گی لیھذا درود میں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد امت محمدیہ(اور امت محمدیہ میں صحابہ کرام اہلبیت آل رسول عظام بھی شامل ہیں یہ سب مراد) ہے...لیھذا چمن زمان نے جہالت مکاری چاپلوسی بغض و حسد صحابہ کرام و اسلاف علماء کی توہین کی ہے، احادیث و اقوال صحابہ و اسلاف کی خلاف ورزی کی ہے،ان سب کو بغض اہلبیت کا ایک طرح سے بظاہر مرتکب قرار دیا....نعوذ باللہ تعالیٰ....ال رسول سب امت ہیں تو پھر ہم زکواۃ کیوں لیتے ہیں اسکی وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما دی کہ فلاں آل رسول زکواۃ نہیں لے سکتے...اللہ صلاۃ بھیجے آل پر اسکا ایک معنی یہ ہے کہ پوری امت محمدیہ پر اللہ رحمت کرے بخش دے، شرابی زانی کو امت محمد سے نکالنے کی جراءت تم کیسے کرسکتے ہو چمن زمان....؟؟ ہوش کے ناخن لو آیت مبارکہ میں ہے کہ شرک سے کمتر کرتوت اللہ معاف فرما سکتا ہے تو ہم شرابی زانی پر درود پڑھ کر یہ دعا کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ اس گناہ گار مسلمان پر رحم فرما اسے ہدایت دے اور شفاعتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے یا فضلِ خدا سے یا کسی بھی بہانے ان گناہ گاروں کو بخش دے، سزا عذاب کم کر دے...ایسی دعا تو قرآن و سنت سے ثابت ہے اور تم طعنے مار رہے ہو....؟؟ شرابی زانی کو آل رسول سے نکال رہے ہو تم چمن زمان تو ذرا بتاؤ گناہ گار سادات کرام کیا آل رسول نہیں....؟؟ شرم و حیاء تو تم کو کرنی چاہیے چمن زمان صاحب......!!

.

*#تفصیل.و.دلائل......!!*

*#آلہ درود میں بولا جائے تو اس سے مراد امت ِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور امت محمدیہ میں صحابہ کرام و آل رسول اہلبیت عظام و دیگر مسلمان بھی شامل ہیں لیھذا سب پے درود.......!!*

 جابرِ بنِ عبدِ اللَّه قال: آلُ محمدٍ -صلى اللَّه عليه وسلم- أُمَّتُه

ترجمہ:

صحابی سیدنا جابرِ بنِ عبدِ اللَّه رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ( درود و موقعہ مناسبت میں) آل محمد سے مراد امت محمد ہے

(السنن الكبرى للبيهقي ,3/684روایت2911)

چمن زمان صاحب تم کہتے ہو امت محمد آل رسول نہیں جبکہ صحابی سیدنا جابر فرما رہے کہ آل محمد سے مراد پوری امت محمدیہ ہے...تو چمن زمان صاحب تمھارے مطابق کیا صحابی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بھی آل رسول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فداہ روحی ان پے جان قربان سے بغض میں مبتلا تھے نعوذ باللہ.....یا تمھاری سوچ و دال میں کچھ کالا ضرور ہے....؟؟

.

آل محمد: منْ هم؟ فقيل: أمته، وهذا قول طائفة مِن أصحاب محمد - صلى الله عليه وسلم

 ال محمد کون ہیں ایک قول یہ ہے کہ ال محمد سے مراد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے اور یہ صحابہ کرام کے ایک گروہ کا قول ہے

(معجم المناهي اللفظية ص302)

اے اجڑے چمن کیا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین بھی بغض اہل بیت میں نعوذ باللہ ملوث تھے تمہارے مطابق.....؟؟

.

وَقِيلَ: الْمُرَادُ بِالْآلِ جَمِيعُ أُمَّةِ الْإِجَابَةِ، وَقِيلَ: الْمُرَادُ بِالْآلِ الْأَزْوَاجُ وَمَنْ حَرُمَتْ عَلَيْهِ الصَّدَقَةُ وَيَدْخُلُ فِيهِمُ الذَّرِّيَّةُ، وَبِذَلِكَ يُجْمَعُ بَيْنَ الْأَحَادِيثِ

 امام ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ ال سے مراد تمام امت ہے اور یہ فرمایا گیا ہے کہ ال سے مراد ازواج مطہرات ہیں اور وہ جن پر صدقہ حرام ہے اس معنی میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذریت مبارکہ یعنی سیدنا حسن حسین سیدہ فاطمہ وغیرہ شامل ہیں، اس طرح احادیث مبارکہ میں تطبیق دی جائے گی، دونوں قسم کی احادیث کو اسکے مناسب مناسب پر جمع کیا جائے گا( یعنی دعا کے معاملے میں ال سے مراد تمام امت ہے اور باقی معاملات میں ال سے مراد دیگر ہیں)

(مرقاۃ شرح مشکواۃ2/740)

کیا امام ملا علی قاری بھی چمن زمان صاحب تمھیں ال رسول کے مبغض نظر آتے ہیں.....؟؟



معني الآل كل الامة

آل محمد سے مراد تمام امت محمدیہ ہے

(فتح الباري لابن حجر ,11/157)

امام ابن حجر بھی تمھارے مطابق اے چمن زمان بغضِ آل رسول میں مبتلا دکھائے دیتے ہیں....؟؟ کونسا چشمہ پہن رکھا ہے تم نے اے اجڑے چمن....؟؟

.

وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ) أَتْبَاعِهِ قَالَهُ مَالِكٌ

امام مالک نے فرمایا کہ آل محمد سے مراد متبعین(امت محمدیہ) مراد ہے

(شرح زرقانی علی الموطا1/572)

امام مالک جیسے عظیم الشان مجتہد و امام اور علامہ زرقانی بھی تمھارے بغضِ ال رسول کے فتوے سے بچ نہیں پاتے، بھلا پھر کن صحابہ و علماء کو مانتے ہو.....؟؟ اہلسنت کے علماء تو یہی فتوی دے رہے ہیں اور تم چمن زمان انکے فتووں کو ردی کے ٹوکرے میں پھینکتے ہو، یہ گستاخی فساد امت پھیلانا ہے یا تمھارا مودبانہ اختلاف....؟؟ مودبانہ مدلل اختلاف قابل برداشت ہے مگر بغض اہلبیت کے جھوٹے فتوے مکاریاں چالبازیاں دھوکے بازیاں ایجنٹیاں منافقتیں قبول نہیں....ہرگز نہیں.......!!


.

امام ابن عربی فرماتے ہیں

وقد اختلف في الآل هل هم أهل بيته أو أمته والصحيح أنهم أمته

آل محمد سے کیا مراد ہے اہلبیت یا امت محمد....صحیح یہ ہے کہ آل محمد سے مراد امت محمد ہے

(القبس في شرح موطأ مالك بن أنس ص356)

.

امام خطابی فرماتے ہیں

وكذلك آلُ مُحَمَّدٍ إِنَّمَا هُمْ أُمَّتُهُ

اور اسی طرح آل محمد سے مراد امتِ محمد ہے 

(غریب الحدیث للخطابی1/319)

.

امام ابن ملقن فرماتے ہیں:

وكذلك آل محمد إنما هم أمته

 اور اسی طرح ال محمد سے مراد امت محمدیہ ہے

(التوضيح لشرح الجامع الصحيح24/158)

.

وقيل: المراد بالآل جميع أمة الإجابة. قال ابن العربي: مال إلى ذلك مالك. وقال النووي في شرح مسلم: هو أظهر الأقوال، قال: وهو اختيار الأزهري وغيره من المحققين

 امام ابن عربی نے فرمایا ہے کہ درود پاک میں ال سے مراد تمام امت ہے کہ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھا ہو، اور یہی قول امام مالک کا ہے اور امام نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ یہ دیگر اقوال سے زیادہ ظاہر و مضبوط قول ہے اور اسی قول کو امام اظہری وغیرہ محققین نے اختیار کیا ہے

(مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح3/253)

.

چمن زمان اور اسکو ماننے والو ذرا اپنے ضمیر سے پوچھو کہ کیا امام مالک امام ابن عربی،  امام خطابی، امام ابن ملقن امام نووی وغیرہ بھی بغضِ آل رسول رکھتے تھے.....؟؟ چمن کے فتوے سے تو یہ ائمہ بھی نہ بچ سکے بلکہ صحابہ کرام سیدنا جابر پر بھی چمن زمان کا فتوی لگ رہا ہے، اب آپ کی مرضی ہے اجڑے چمن میں رہ کر تباہ ہونا ہے یا اسلاف کے اقوال کی چھاؤں تلے بہاروں میں زندگی گذارنی ہے.....؟؟

.

والآل أيضًا يجيء بمعنى الأتباع، وبهذا المعنى ورد إلى كل مؤمن، ومال إليه مالك، واختاره الأزهري وآخرون، وهو قول سفيان الثوري وغيره، ورجَّحه النووي في (شرح مسلم) (1)، وقيده القاضي حسين بالأتقياء (2)، والظاهر أن المراد في الحديث المعنى الأعم، واللَّه أعلم

 شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ال کا معنی متبعین(امت) بھی ہے، حدیث میں یہی معنی مراد ہے یہ فرمانا ہے امام مالک کا، اسی کو امام ازھری وغیرہ محققین نے اختیار کیا ہے اور یہی قول ہے سیدنا سفیان ثوری وغیرہ کا ہے اور اسی کو امام نووی نے راجح قرار دیا ہے.... امام قاضی عیاض نے فرمایا ہے کہ ال سے مراد متقی امتی ہے مگر ظاہر و قوی بات یہ ہے کہ یہاں درود کے معاملے میں اعم(سب امتی) مراد ہیں

(لمعات شرح مشکواۃ3/58)

سادات کرام کو مسکا مکاری منافقت چاپلوسی چرب زبانی کے ذریعے گمراہ کرنے کی کوشش کرنے والے چمن زمان و ہمنوا بتاؤ کیا شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ بھی ال رسول سے بغض رکھنے والے تھے.....؟؟ نعوذ باللہ

.

*#سوال.......!!*

اگر درود پاک کی حدیث میں ال سے مراد تمام امت ہے تو پھر رسول کریم نے چار شخصیات( سیدہ طیبہ فاطمہ سیدنا حسن سیدنا حسین سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہم)کو بلا کر ان کو ال کیوں قرار دیا.....؟؟

*#جواب…!!*

 والحديث يقتضي أنهم من أهل البيت لا أنه ليس غيرهم

 وہ جو حدیث پاک میں ہے کہ نبی پاک نے ان چاروں کو چادر میں لیا اور فرمایا کہ یہ میرے اہلبیت(ال رسول) ہیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ بھی اہلبیت ہیں، یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے علاوہ کوئی اہل بیت نہیں

(تفسیر بیضاوی4/231)

.

*#چمن زمان ایموشنل بلیک میلنگ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ چور شرابی زانی کو آل رسول میں شامل کرتے ہو....شرم کرو......!!*

جواب:

تو پھر کیا خیال ہے نعوذ باللہ جو سادات کرام گمراہ فاسق گناہ گار ہیں انکو ال رسول سے نکال دو گے....؟؟ تمھارے باپ کی شریعت ہے....؟؟ بغضِ آل رسول تو تم کر رہے ہو

دیکھو

امت پے درود ہو اسکا معنی ہے کہ اللہ ان پر رحم فرمائے، مغفرت فرمائے....اب بتاؤ قرآن و حدیث و مصطفی جان رحمت پے امید ہونے کا تقاضہ یہ نہیں کہ گناہ گار کے لیے بھی رحمت و بخشش کی دعا کے جائے اور انہیں ہداہت و نصیحت بھی کی جائے اور عذاب سے بھی ڈرایا جائے.....؟؟

والصَّلَاة فِي لِسَان العَرَب بَمَعْنَي التَّرَحُّم

درود کا ایک معنی رحم کے بھی ہیں

(الشفا بتعريف حقوق المصطفى2/81)

.

وَرَجَّحَ الشِّهَابُ الْقَرَافِيُّ أَنَّهَا مِنَ اللَّهِ الْمَغْفِرَةُ....وَقَالَ ابْنُ الْأَعْرَابِيِّ: الصَّلَاةُ مِنَ اللَّهِ الرَّحْمَةُ

 علامہ شہاب نے راجح قرار دیا ہے کہ اللہ کی طرف سے درود ہو اس کا معنی ہے کہ اللہ مغفرت فرمائے اور ابن اعرابی نے فرمایا کہ اللہ کی طرف سے درود ہو اس کا معنی ہے کہ رحمت ہو

(شرح زرقانی علی الموطا1/568)

.

القرآن:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ

 اللہ شرک کو معاف نہیں فرماتا اور جو شرک سے کمتر گناہ ہو ان کو معاف فرما دیتا ہے جس کے لیے چاہے

(سورہ نساء آیت116)

 تو یہ ایت مبارکہ ہمیں امید دلا رہی ہے کہ گنہگار اللہ کے فضل و کرم سے جہنم جائے بغیر ڈائریکٹ جنت میں جائیں گے ایسا ہو سکتا ہے.... یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا علماء کرام یا حفاظ کرام یا شہداء کرام وغیرہ کی  شفاعت  دعا و ایصال ثواب سے جنت چلے جائیں یا لواحقین یا عام مسلمان کی دعا و ایصال ثواب سے جہنمی گناہ گار جنت چلے جائیں

تو

کیوں نہ دعا کی جائے کہ اے رب ذوالجلال کرم فرما گناہ گاروں پر رحم فرما بخش دے اور ساتھ ساتھ گناہ گاروں کو خود کو اللہ کی قہاریت سے بھی ڈرایا جائے نصحیت حاصل کی جائے اور نصیحت کی جائے......!!

.

*#آل کے مذکورہ معنی ہم نے اپنی من مانی سے نہیں کییے بلکہ آل کے کئ معنی قرآن حدیث و لغت و دیگر کتب سے ثابت ہیں لیھذا مقام کےمناسب معنی مراد ہونگے.........!!*

القرآن:

 وَ اَغۡرَقۡنَاۤ  اٰلَ فِرۡعَوۡنَ

اور ہم نے آل فرعون کو غرق کیا

(سورہ بقرۃ آیت50)

.

آل فِرْعَوْن} قومه

آل فرعون سے مراد اسکی قوم ہے

( تفسير الجلالين ص236)

.

آلِ فِرْعَوْنَ} أَتْبَاعِهِ وَأَهْلِ دِينِهِ

آل فرعون سے مراد اسکے ماننے والے ہیں، اسکے دین والے ہیں

( تفسير البغوي - طيبة1/90)

اس آیت مبارکہ سے دوٹوک واضح ہوا کہ آل سے مراد قوم و امت بھی ہوتے ہیں

.

القرآن:

اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ  لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ  تَطۡہِیۡرًا

اے اہلبیت آل رسول اللہ تو تم سے ناپاکی کو دور فرمانا چاتا ہے اور تمھیں خوب پاکیزہ کرنا چاہتا ہے

(سورہ الاحزاب ایت33)

.

آل الرجل: هم الذين تؤول أمورهم إليه في نسب أو صحبة، والآل والأهل سواء

آل اور اہل کا ایک ہی معنی ہے، ال اور اہل سے مراد وہ لوگ ہیں جو نسبت صحبت وغیرہ کسی تعلق سے مائل ہوں

(تفسير العز بن عبد السلام1/124)

.

وَالَّذِي يَظْهَرُ مِنَ الْآيَةِ أَنَّهَا عَامَّةٌ فِي جَمِيعِ أَهْلِ الْبَيْتِ مِنَ الْأَزْوَاجِ وَغَيْرِهِمْ...فَهَذِهِ دَعْوَةٌ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ بَعْدَ نُزُولِ الْآيَةِ، أَحَبَّ أَنْ يُدْخِلَهُمْ فِي الْآيَةِ الَّتِي خُوطِبَ بِهَا الْأَزْوَاجُ

یعنی

 آیت مبارکہ ہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات اور اولاد وغیرہ شامل ہیں، آیت میں بظاہر خطاب ازواج مطہرات سے تھا تو اس سے یہ گمان ہو سکتا تھا کہ ازواج مطہرات کے علاوہ اولاد اور سیدنا علی وغیرہ اہل بیت میں شامل نہیں تو اس گمان کو ختم کرنے کے لیے نبی پاک نے ان پانچ کو بلایا اور انہیں چادر میں لے کر فرمایا کہ یہ بھی اہل بیت ہیں

(تفسیر قرطبی تفسیر احزاب ایت33ملتقطا)

.

والآيةُ نص صريح في دخول أزواج النبي - صلى الله عليه وسلم - في أهل البيت

 آیت مبارکہ دوٹوک دلیل ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل ہیں

(التفسیر المامون6/170)

.

وفيه دليل على أن نساءه من أهل بيته

 آیت مبارکہ میں دلیل ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت میں داخل ہیں 

(تفسیر النسفی3/30)

.

شاہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں

{إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33].والحق أن أزواجه -صلى اللَّه عليه وسلم- أيضًا داخلات في هذا الخطاب

 قرآن مجید میں ہے کہ اللہ تعالی اہل بیت سے تمام ناپاکی کو دور رکھنا چاہتا ہے اور انکی تطہیر و پاکیزگی فرمانا چاہتا ہے تو اس تطہر و پاکیزگی میں لفظ اہلبیت میں ازواج مطہرات بھی داخل ہیں، یہی حق ہے

(لمعات شرح مشکواۃ3/57)

.

تاجدار گولڑہ نے فرمایا..

جمہور کا قول ہے کہ لفظ اہل بیت فریقین میں امہات المومنین اور آل عبا(یعنی جنکو نبی پاک نے چادر میں لیا تھا)علیھم السلام کو بھی شامل ہے

(تصفیہ ما بین سنی و شیعہ ص54)

جمھور کی مانو گے یا کسی کی پسند ناپسند کو.....؟؟ اور یہ بھی یاد رہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب نے اس قول کے متعلق لکھا ہے کہ اس کے دلائل ایت و احادیث کثیرہ ہیں

یہ لیجیے پڑہیے...شاہ صاحب سے سوال ہوا:

سوال :

جناب مخدوم محمد صدرالدین گیلانی قادری ملتانی آیہ تطہیر کن کے لئے ہے۔ آیہ تطہیر کے مصداق کون کون لوگ ہیں ؟

جواب حضور قبله مکتوب نمبر ۳۳۵

معظمی مکرمی جناب مخدوم صاحب حفظكم الله تعالے وعلیکم السلام ورحمة اللہ جوابا عرض ہے کہ آیت تطہیر میں لفظ اہلبیت امہات المومنین علیہا الرضوان و آل عبا علیہم السلام دونوں کو شامل ہے۔ سیاق آیتہ واحادیث کثیرہ اسی پر دال ہیں۔

 العيد الملتحي والمشتكى الى اللہ المدعو ب-مهرعلی شاه بقلم خوداز گولڑہ

(مکتبوبات طیباب مہر علی شاہ ص150)

.

آپ لوگوں کے ممدوح، اپ لوگوں کے امام و مجدد طاہر الکادری لکھتا ہے:

قول راجح یہ ہے کہ (جن احباب کو حضور نبی اکرم ﷺ نے چادر مبارک میں ڈھانپ لیا وہ)چادر والے اور ازواج مطہرات سب کے سب آیت اہل بیت کے خطاب میں شامل ہیں

(قرابۃ النبی ص63)

.

جبکہ تاجدار گولڑہ اور شاہ عبدالحق وغیرہ کی مخالفت کرتے ہوئے چمن زمان ال رسول میں ازواج مطہرات کو شامل نہیں کر رہا.....لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم

.

آلُ) الرَّجُلِ أَهْلُهُ وَعِيَالُهُ وَ (آلُهُ) أَيْضًا أَتْبَاعُهُ

ال کا معنی ہے اہل و عیال اور آل کا معنی متعبین(امت) بھی ہے

(مختار الصحاح ص25)

.

فَقَالَتْ طَائِفَةٌ: آلُ النَّبِيِّ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَنِ اتَّبَعَهُ قَرَابَةً كَانَتْ أَو غَيْرَ قَرَابَةٍ...فَيَدْخُلُ فِي الصَّلَاةِ كُلُّ مَنِ اتَّبَعَ النَّبِيَّ، صَلَّى الله عليه وَسَلَّمَ، قُرَابَةً كَانَ أَو غَيْرَ قُرَابَةٍ...قَالَ قَائِلٌ آلُهُ أَهله وأَزواجه...: وَقَالَ قَائِلٌ آلُ مُحَمَّدٍ أَهل دِينِ مُحَمَّدٍ...وَقِيلَ: آلُهُ أَصحابه وَمَنْ آمَنَ بِهِ وَهُوَ فِي اللُّغَةِ يَقَعُ عَلَى الْجَمِيعِ

 کچھ لوگوں نے کہا کہ ال کا معنی ہے اہل و عیال ازواج رشتے دار... کچھ لوگوں نے فرمایا کہ ال کا معنی ہے پیروکار تو آل محمد کا معنی ہوا "دینِ محمدی والے" تو اس معنی کے تحت درود پاک میں آل سے مراد امت محمد ہے....اگرچہ اختلاف ہے مگر آل کے یہ سب معنی لغت کے اعتبار سے درست ہیں

(لسان العرب11/38)

.

الآلُ: أَهْلُ الرَّجُلِ وعِيالُه أَيْضا: أَتْباعُه وأولِياؤُه،

ال کا معنی ہے اہل و عیال، آل کا معنی پیروکار(امت) بھی ہے اور آل کا معنی دوست بھی ہے

(تاج العروس جز28 ص36)

.

وقيل: اَل محمد أتباعه. وقيل: الأتباع والرهط والعشيرة.

وقيل: اَل الرجل ولده. وقيل: قومه. وقيل: أهله الذين حرمت

عليهم الصدقة. وقيل: كل تقي إلى يوم القيامة، فهو آله- عليه السلام

آل محمد کا معنی یہ کیا گیا ہے کہ حضور کے پیروکار امتی ایک معنی یہ کیا گیا ہے کہ اس سے مراد پیروکار امتی اور گروہ اور خاندان بھی ہے۔۔اور کہا گیا ہے کہ آل کا معنیٰ ہے اولاد اور کہا گیا ہے کہ معنی ہےقوم۔۔۔اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ہر وہ نیک و متقی امتی جو قیامت تک آئے گا تو وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی آل میں شامل ہے  

(شرح ابوداود للعینی6/285)

.

والآل: يقع على ذات الشيء، وعلى ما يضاف إليه، وقيل: الوجهان في (آل محمد) أنهم أمته. وقيل: آله: قرابته. وقيل: آله: هو المراد في تحريم  الصدقة عليه وعليهم

آل سے مراد ذات ہے اور آل جسکی طرف مضاف ہو اس مناسبت سے معنی مراد ہوگا اور کہا گیا ہے کہ آل محمد سے دو معنی مراد ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ آل محمد سے مراد امتِ محمدیہ ہے اور دوسرا یہ کہ آل سے مراد اہلبیت اور کہا گیا ہے کہ ال محمد سے مراد وہ جن پر حرام ہے کہ زکاۃ لیں

(مطالع الأنوار على صحاح الآثار1/260بحذف یسیر)

.

وَعَلَى آل مُحَمَّد، قِيل أتْبَاعُه وَقِيل أمَّتُه وَقِيل آل

بَيْتِه وَقِيل الْأَتْبَاع ولرهط وَالْعَشِيرَة وَقِيل آل الرَّجُل وَلَدُه وَقِيل قَوْمُه وَقِيل أَهْلُه الَّذين حُرِّمَت عَلَيْهِم الصَّدَقَة

آل محمد سے مراد متبع ہیں یا آل محمد سے مراد امت محمدیہ ہے اور کہا گیا کہ آل سے مراد اہلبیت ہین اور کہا گیا ہے کہ آل محمد سے مراد وہ سادات ہیں جو زکاۃ نہین لےسکتے

(شفاء شریف2/81,82)

.

يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمَّا السَّلَامُ عَلَيْكَ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ، فَكَيْفَ الصَّلَاةُ ؟ قَالَ : " قُولُوا : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ،

 إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

 صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم آپ پر سلام بھیجنے کا تو ہمیں پتہ ہے مگر آپ پر صلاۃ کیسے بھیجیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یوں کہو اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ،

 إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

(بخاری حدیث4797)

اس حدیث پاک میں واضح دیکھا جا سکتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یوں کہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود ہو اور ال محمد پر درود ہو

اب

 دوسری حدیث میں دیکھتے ہیں تو آل محمد کی تفسیر اولاد محمد ازواج محمد بھی ہے

يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " قُولُوا : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم آپ پر سلام بھیجنے کا تو ہمیں پتہ ہے مگر آپ پر صلاۃ کیسے بھیجیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یوں کہو

اے اللہ درود بھیج محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور محمد کی ازواج مطہرات پر اور ان کی ذریت پر

(بخاری حدیث3369)

(مسلم حدیث407نحوہ)

(ابوداود حدیث969نحوہ)

 ان احادیث مبارکہ سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ درود پاک جب ہم نے پڑھنا ہے تو اس میں ال محمد سے مراد اولاد محمد  اور ازواج مطہرات بھی ہیں جبکہ خبیث چمن زمان ازواج مطہرات کو آل محمد میں شامل نہیں کر رہا کیونکہ اس کے مطابق درود میں آل محمد سے مراد سیدہ فاطمہ سیدنا حسن سیدنا حسین سیدنا علی ہی ہیں....جبکہ حدیث و آیات کی تشریح تفسیر دیگر احادیث و دلائل سے ہوتی ہے


آیات مبارکہ احادیث مبارکہ کتب تفسیر کتب لغت و دیگر کتب کہ جن کے حوالے ہم لکھ آئے عبارات لکھ آئے ان کے مطابق درود میں آل محمد سے مراد سیدہ فاطمہ سیدنا حسن حسین سیدنا علی سیدہ عائشہ وغیرہ ازواج مطہرات صحابہ کرام اہلبیت عظام اور دیگر تمام امتی اس درود میں آل محمد کے تحت داخل ہیں

.

شبہ:

چمن زمان کے انداز و الفاظ سے لگتا ہے کہ درود میں ال محمد سے مراد وہ ہے کہ جن پر اللہ تعالی درود بھیجتا ہے، اور حدیث پاک میں ہے کہ  نبی پاک نے فرمایا کہ اے اللہ درود بھیج ان چار پر(سیدہ فاطمہ سیدنا حسن حسین سیدنا علی پر)

جواب:

اچھا تو لیجیے دیکھیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان چار کے علاوہ کسی امتی کے لیے بھی فرمایا کرتے تھے کہ یا اللہ ان پر درود بھیج

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاهُ قَوْمٌ بِصَدَقَتِهِمْ قَالَ : " اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ فُلَانٍ ". فَأَتَاهُ أَبِي بِصَدَقَتِهِ، فَقَالَ : " اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی قوم صدقہ لے کر اتی تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام دعا فرماتے اے اللہ درود بھیج فلاں(صدقہ دینے والے) کی آل پر...ابی اوفی بھی صدقہ لائے تو نبی کریم روف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دی اے اللہ درود بھیج آل ابی اوفی پر

(بخاری حدیث1497)

.

اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَرَحْمَتَكَ عَلَى آلِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اللہ اپنی رحمت اور اپنا درود بھیج ال سعد بن عبادہ پر

(ابوداؤد حدیث5185)

ہاں تو چمن زمان سب احادیث و دلائل کو جمع کرکے تطبیق دے کے کچھ بولنا حکم نکالنا چاہیے یا ایک دو آیات و احادیث سے من چاہا مطلب نکال کر دیگر دلائل ٹھکرا کر گمراہ کرنا چاہیے......؟؟

.

*#چمن زمان کا جاہلانہ مکارانہ گستاخانہ گمراہ کن سوال...!!*

 سب سے پہلے تو چمن زمان اپنے دل کا بغض نکالتا ہے اور کہتا ہے کہ ال محمد میں شامل ہونے والے اے امتی مولویو تمہارا تو چولہا بھی صدقے پہ چلتا ہے حالانکہ ال محمد تو صدقہ نہیں کھا سکتی.....؟؟

جواب:

 لگتا تو ایسا ہے کہ چمن زمان مرد مجاہد ہے خود محنت کر کے کما کما کر پیسہ کما کمس کر مدرسہ چلا رہا ہے اور صدقات وغیرہ کو ٹھکرا دیتا ہے......؟؟ نہیں تو پھر دوسروں کو طعنے کیوں...؟؟

اللہ کے دین کے خدمت کرنے والے سچے اہلسنت علماء مشائخ ورکرز کو اللہ تعالی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسلام صحابہ کرام اہلبیت عظام کی محبت میں کوئی مال و دولت دیتا ہے انہیں معاشی فکر سے بےفکر کرتا ہے تو چمن زمان تو کیوں جلتا ہے....؟؟

.

درود و دعا و رحمت کے معاملے میں آل محمد میں تمام امت شامل ہے لیکن صدقہ کون سے ال محمد نہیں کھا سکتی اس کی وضاحت خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دی ہے

أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ آلَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَأْكُلُونَ الصَّدَقَةَ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ال محمد صدقہ نہیں کھاتے.... نہیں کھا سکتے ہیں

(بخاری حدیث1485)

.

کونسی آل محمد صدقہ واجبہ نہیں کھا سکتے.....؟؟

أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ ، حَدَّثَهُ، قَالَ : اجْتَمَعَ رَبِيعَةُ بْنُ الْحَارِثِ، وَالْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَا : وَاللَّهِ لَوْ بَعَثْنَا هَذَيْنِ الْغُلَامَيْنِ - قَالَا لِي وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ - إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَلَّمَاهُ، فَأَمَّرَهُمَا عَلَى هَذِهِ الصَّدَقَاتِ....إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَنْبَغِي لِآلِ مُحَمَّدٍ

ربیعہ اور عباس بن عبدالمطلب نے سیدنا علی سے مشاورت کرکے کہا کہ ہم نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام بھیجتے ہیں عرض کرتے ہیں کہ ہمیں بھی صدقات دیے جائیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو ملا کر فرمایا کہ ہم اہل بیت کے لیے صدقہ جائز نہیں ہے

(مسلم حدیث1072ملتقطا)

اسی لیے علماء کرام نے فتوی دیا کہ

أَوْلَادَ عَبَّاسٍ وَحَارِثٍ وَأَوْلَادَ أَبِي طَالِبٍ مِنْ عَلِيٍّ وَجَعْفَرٍ وَعُقَيْلٍ

 سیدنا عباس اور سیدنا حارث کی اولاد اور ابو طالب کی اولاد سیدنا علی کی اولاد سیدنا جعفر کی اولاد سیدنا عقیل کی اولاد ان سب کو صدقہ واجبہ لینا زکواۃ لینا اور انہیں دینا جائز نہیں ہے

(فتاوی شامی2/350)

.

ہاں انکو سادات کرام کو تحفہ ھدیہ نفلی صدقہ دے سکتے ہیں بلکہ دینا چاہیے کہ ان کے لیے تحفہ نفلی صدقہ کھانا سنت مبارکہ سے ثابت ہے

الحدیث:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُتِيَ بِطَعَامٍ سَأَلَ عَنْهُ : " أَهَدِيَّةٌ أَمْ صَدَقَةٌ ؟ " فَإِنْ قِيلَ : صَدَقَةٌ. قَالَ لِأَصْحَابِهِ : " كُلُوا ". وَلَمْ يَأْكُلْ، وَإِنْ قِيلَ : هَدِيَّةٌ. ضَرَبَ بِيَدِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلَ مَعَهُمْ

 نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اگر کچھ طعام کھانے پینے کی چیز لائی جاتی تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام پوچھتے کہ یہ تحفہ(نفلی صدقہ ھدیہ تحفہ ھبہ) ہے یا صدقہ(فرض واجب صدقہ) ہے اگر کہا جاتا صدقہ ہے تو صحابہ کرام سے فرماتے کہ اپ لوگ کھاؤ اور خود تناول نا فرماتے اور اگر کہا جاتا کہ یہ تحفہ ہے تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام ان کے ساتھ تناول فرماتے، نوش فرماتے

(بخاری حدیث2576)

.#############

*#نشانی نمبر15*

*چمن زمان کا ایک طرح سے سیدنا معاویہ پے طعن کہ وہ سیدنا علی کو گالیاں دلواتے تھے....یہ صاف صاف شیعون رافضیون کو خوش کرنے والی انکی سازش کو عام کرنے والی بات ہے حالانکہ سیدنا معاویہ گالیاں ہرگز نہین دلواتے تھے

.

چمن زمان صاحب لکھتے ہیں:

❤️👈 حضرت سعید بن زید کی روایت:

عبد الرحمن بن بیلمانی سے مروی ہے کہ ہم حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس موجود تھے تو ایک شخص نے اٹھ کر حضرت مولا علی کو گالیاں بکنا شروع کر دیں ، وہ گالیاں دیتا رہا ، دیتا رہا ، پھر حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا:

يَا مُعَاوِيَةُ، أَلَا أَرَى يُسَبُّ عَلِيٌّ بَيْنَ يَدَيْكَ وَلَا تُغَيِّرُ؟ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «هُوَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى»

اے معاویہ!

میں دیکھ رہا ہوں کہ مولا علی کو آپ کے سامنے گالیاں دی جا رہی ہیں اور آپ روک نہیں رہے۔

بے شک میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: علی مجھ سے اس درجہ پہ ہیں جس درجہ پہ موسی علیہ السلام سے ہارون علیہ السلام تھے۔

(السنۃ لابن ابی عاصم 1350)

.

👈  تبصرہ:

چمن زمان صاحب نے اس روایت کو دلیل بنایا اور اس کا رد نہ کیا اور اس پر دل کا نشان بنایا تو ایک طرح سے یہ بتانے کی کوشش کی کہ سیدنا معاویہ کے دربار میں مولا علی کو گالیاں دی جاتی تھی اور سیدنا معاویہ خاموش رہتے تھے۔۔۔حالانکہ چمن زمان صاحب کو چاہیے تھا کہ اس روایت کی تحقیق کرتے ایک صحابی سیدنا معاویہ پر طعن لازم آرہا ہے۔۔۔لیکن تحقیق کیسے کرتے ، آخر  شیعوں ایرانیوں رافضیوں سے داد اور امداد کیسے ملتی.....؟؟

.


۔👈  روایت کی تحقیق :

چمن زمان نے اس کا حوالہ دے دیا ہے  السنۃ لابن ابی عاصم 1350 .... کتاب میں اس روایت کی سند یہ لکھی ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الشَّامِيُّ  حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ مِهْرَانَ الْخَبَّازُ ثنا أبو بكر ابن عَيَّاشٍ عَنِ الأَجْلَحِ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ

.

👈  ایک راوی يزيد بن مهران کو ضعیف کہا گیا ہے

يزيد بن مهران الكوفي الخباز: ضعفه أبو داود

يزيد بن مهران کو امام ابوداود نے ضعیف قرار دیا

(كتاب ديوان الضعفاء ص444)

.

قال الدَّارَقُطْنِيّ: ضعيف، لا تقوم به  حجة

👈  يزيد بن مهران کے متعلق امام دار قطنی نے فرمایا کہ ایسا ضعیف ہے کہ اس کی روایات حجت و دلیل نہیں بن سکتیں

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/394)

گالی دینا اور اس پر خاموشی جیسے طعن و گناہ و جرم کے معاملے میں ، ایسے شرعی معاملے و حکم کے اثبات میں ضعیف راوی و روایت ہر گز مقبول نہیں ہوتی....فقط فضیلت کی بات ہوتی تو بات اور تھی

.

👈  اس روایت میں اور راوی الْبَيْلَمَانِيِّ ہے جس کے متعلق کتب میں ہے کہ:

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ

 وابن البيلماني ضعيف، لا تقوم به حجة إذا وصل الحديث، فكيف بما يرسله

👈  البيلماني ایسا ضعیف ہے کہ اس کی روایات حجت و دلیل نہیں بن سکتیں

(كتاب إتحاف المهرة لابن حجر19/184)

.

وقال الأزدى: منكر الحديث ويروى عن ابن عمر بواطيل، وقال صالح جزرة: حديثه  منكر

👈  البيلماني منکر و باطل روایتیں کرتا ہے

(فقه الإسلام = شرح بلوغ المرام8/167)

.

👈  ایک راوی اجلح جس کے متعلق علماء نے فرمایا

يحيى بن عبد الله الأجلح الكندي، أبو حجية: قال أبو حاتم: لا يحتج به

👈  الأجلح الكندي کے متعلق أبو حاتم نے فرمایا کہ اس کی روایات کو دلیل نہیں بناسکتے

(ديوان الضعفاء ص435)

.

👈  امام نسائی کہ جس پر تشیع کا الزام تک لگا انھوں نے بھی اجلح کو بری رائے رکھنے والا غیرقوی راوی تشیع میں غلو کرنے والا غیر معتبر راوی لکھا...آپ لکھتے ہیں

 الْأَجْلَحُ لَيْسَ بِذَلِكَ الْقَوِيِّ وكان له رأي سوءٍ

👈 الْأَجْلَحُ قوی نہیں ہے اور یہ بری رائے رکھتا تھا

(السنن الكبرى - النسائي - ط الرسالة3/402)

.

قال أَبو عبد الرَّحمَن النَّسَائي: الأجلح ليس بالقوي، وكان مسرفا في التشيع

 👈  امام نسائی نے فرمایا الْأَجْلَحُ قوی نہیں ہے اور تشیع میں غلو رکھتا تھا

(المسند المصنف المعلل4/176)

.

قال أحمد بن حنبل: أجلح  ومجالد متقاربان في الحديث، وقد روى الأجلح غير حديث منكر

👈  امام احمد بن حنبل نے فرمایا الْأَجْلَحُ حدیث کے معاملے میں متقارب ہے مگر حدیث کے علاوہ میں منکر روایات کرتا ہے جو صحیح کے خلاف ہوتی ہیں

(الجامع لعلوم الإمام أحمد - الرجال19/488)

.

سمعتُ ابْن حَمَّاد قال السعدي الأجلح مفتري

👈  ابْن حَمَّاد اور السعدي کے مطابق اجلح بہتان باندھنے والا جھوٹا راوی ہے

(الكامل في ضعفاء الرجال2/136)

.


👈  چمن زمان دوسری روایت لکھتے ہیں:

ابنِ نجیح اپنے والد سے راوی کہ ربیعہ حرشی نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی موجودگی میں کھڑے ہو کر سیدنا مولا علی کو گالیاں دینا شروع کیں تو جنابِ سعد اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا:

أَيَسُبُّ هَذَا عَلِيّا وَأَنْتَ سَاكِتٌ، وقَدْ سَمِعْتُ رسولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُ: أنت مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُون مُوسَى؟

یہ شخص مولا علی کو گالیاں دے رہا ہے اور تم خاموش ہو؟ تحقیق میں نے رسول اللہ ﷺ کو مولا علی سے فرماتے سنا:

تم مجھ سے ایسے ہو جیسے موسی سے ہارون۔

(تاریخ ابن ابی خیثمۃ 2/672 حدیث 2819)

.

👈  تبصرہ:

اسکی سند تاریخ ابن ابی خیثمۃ میں یہ لکھی ہے

حَدَّثَنَا عَبْد السَّلَام بْنُ صَالِح، قال: حدثنا بن عُيَيْنَة، عَنِ ابنِ

نَجِيْح، عَنْ أَبِيهِ

(تاریخ ابن ابی خیثمۃ 2/672)

.

👈 سند میں ایک راوی عبدالسلام بن صالح ہے جس کے متعلق علماء فرماتے ہیں

ذكر أبو الصلت عبد السلام  بن صالح الهروي عند أبي الحسن الدَّارَقُطْنِيّ، فقال: أبو الحسن - وأنا أسمع -  كان خبيثًا رافضيًا

👈  عَبْد السَّلَام بْنُ صَالِح خبیث رافضی تھا

(كتاب موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/411)

.

.

عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ صَالِحٍ أَبُو الصَّلْتِ الْهَرَوِيُّ كَانَ رَافِضِيًّا خَبِيثًا

👈  عَبْد السَّلَام بْنُ صَالِح خبیث رافضی تھا

(الضعفاء الكبير للعقيلي3/70)

.

عبد السلام بن صالح، أبو الصلت الهروي: اتهمه بالكذب غير واحد، قال أبو زرعة: لم يكن بثقة، وقال ابن عدي: متهم، وقال غيره: رافضي

👈  عبد السلام بن صالح پر کئ علماء کی  اس پر جھوٹا ہونے کی جرح ہے، امام أبو زرعة نے فرمایا ثقہ نہیں تھا، ابن عدي نے فرمایا کہ اس متھم ہے(جھوٹ و من گھڑت روایات باتیں کرتا ہے)دیگر علماء نے فرمایا یہ رافضی ہے

(ديوان الضعفاء ص249)

👈 بعض علماء نے اس سے روایت لی ہے تو اسکی وجہ یہ ہوگی کہ اسکا متابع ہوگا جبکہ یہاں گالی دینا اور اس پے خاموش رہنے جیسے طعن و حکم شرع کی بات ہے جس کا کوئی صریح صحیح متابع بھی نہیں تو یہ روایت مردود کہلائے گی

.##################

*#نشانی نمبر16*

چمن زمان بمع ہمنوا نے شیعوں ایرانیوں رافضیوں بدبختوں کی سازش پے چلتے ہوئے ایک طرح سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جب سیدنا علی نے سیدنا معاویہ کو اے کلیجہ چبانے والی کے بیٹے کہہ کر عار دلائی مذمت کی تو ہم یعنی چمنی مشہدی ریاضی شاہی حنیف قریشی گردیزی چمنی وغیرہ نیم روافض گروپ بھی معاویہ پے اعتراض و مذمت کرسکتے ہیں...حالانکہ اے کلیجہ چبانے والی روایت ثابت ہی نہیں

.

*کیا سیدنا علی نے سیدنا معاویہ سیدہ ہندہ کو عار دلائی مذمت کی....؟؟چمن زمان کے مطابق سیدنا علی نے جرم کیا نعوذ باللہ اور چمن زمان نے شیعہ عقیدہ کی ضمنا ترویج کی....!!مولا علی کا معنی و پس منظر*

چمن زمان صاحب لکھتےہیں کہ سیدنا معاویہ کو جواب دیا سیدنا علی نے کہ:

جوابا سیدنا مولا علی مشکل کشا کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم نے فرمایا:

أَبِالْفَضَائِلِ تَفْخَرُ عَلىَّ ابْنَ آكِلَة الأَكْبَادِ

اے کلیجہ کھانے والی کے بیٹے!

کیا فضائل کے ذریعے مجھ پہ فخر کرتے ہو؟

الی اخرہ

(تاریخِ دمشق 42/521 ، البدایۃ والنہایۃ 8/8 ، 9 ، مستعذب الاخبار ص325 ، 326 ، سبل الہدی والرشاد 11/301 ، شرح الززرقانی علی المواہب 1/449 ، 450 ، سمط النجوم العوالی 3/78 ، 79 ، معجم الادباء 4/1812 ، اکمال تہذیب الکمال 9/346 ، الوافی بالوفیات 21/184)

بندہ:

محمد چمن زمان نجم القادری

جامعۃ العین ۔ سکھر

02 جنوری 2022ء

28 جمادی الاولی 1443ھ

.

جواب و تحقیق:

سیدنا معاویہ سہدنا ابو سفیان سیدہ ہندہ رضی اللہ عنھم اجمعین مسلمان ہوئے اور اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معاف فرمایا دعائیں دی اور اسلام ماقبل کے گناہ کرتوت مٹا دیتا ہے...اور اسلام و نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق توبہ کے بعد پچھلے گناہ جرائم کی عار دلانا جرم و ممنوع ہے

تو

سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم بھلا کیسے مخالفت اسلام کرتے ہوئےکیسے عار دلائیں گے کہ "کلیجہ کھانےوالی کے بیٹے" کہہ کر.......؟؟

یہ سیدنا علی کی شان کے خلاف ہے، یہ شعر جہاں سیدنا معاویہ و ہندہ کی توہین کرتا ہے وہیں سیدنا علی کی شان کے بھی خلاف ہے

الحدیث:

أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ

اسلام لانے سےپہلے جو گناہ و مظالم کرتوت وغیرہ اس نے کیے اسلام لانے کے بعد اسلام ان گناہ و مظالم مذمتوں لعنتوں وغیرہ سب کچھ کو اسلام مٹا دیتا ہے

(اہلسنت کتاب مسلم حدیث192,321)

(شیعہ کتاب میزان الحکمۃ2/134)


 قالت: يا رسول الله ما كان على ظهر الارض من اهل خباء احب إلي ان يذلوا من اهل خبائك، ثم ما اصبح اليوم على ظهر الارض اهل خباء احب إلي، ان يعزوا من اهل خبائك، قال:ایضا

ترجمہ:

(،ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں اسلام لانے کے بعد) حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں یا رسول اللہ! روئے زمین  پر کسی گھرانے کی ذلت آپ کے گھرانے کی ذلت سی زیادہ میرے لیے خوشی کا باعث نہیں تھی لیکن آج کسی گھرانے کی عزت روئے زمین پر آپ کے گھرانے کی عزت سے زیادہ میرے لیے خوشی کی وجہ نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بھی"

(بخاری حدیث3825)

.

وَأَنا أَيْضا بِالنِّسْبَةِ إِلَيْك مثل ذَلِك، وَقيل: مَعْنَاهُ وَأَيْضًا ستزيدين فِي ذَلِك

بھی کا معنی ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تم سے راضی ہوں محبت کرتا ہوں، ایک معنی یہ بنتا ہے کہ اور بھی ترقی و محبت پاؤ گی

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري ,16/284)

.

فَعَفَا - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ کی والدہ کو معاف کردیا

(تاريخ ابن الوردي1/124)

.

وبايعتْ رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم -، فلما عرفَها، قالت: أنا هند، فاعفُ عما سلف، فعف

ہندہ نے رسول کریم کی بیعت کی اور معافی طلب کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ کی والدہ کو معاف کردیا

(التاريخ المعتبر في أنباء من غبر1/159)

.

وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دی کہ یا اللہ انکو معاف فرما بخش دے

(تاريخ الطبري = ,3/62)

.

ثم إن هند أسلمت يوم الفتح وحسن إسلامها

سیدنا معاویہ کی والدہ ہندہ اسلام لائی اور اسلام پے اچھائی کے ساتھ رہیں

(أسد الغابة في معرفة الصحابة ط العلمية7/281)

.

التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ

گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے گناہ ہی نہ کیا ہو

(ابن ماجہ حدیث4250)

.

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ عَيَّرَ أَخَاهُ بِذَنْبٍ لَمْ يَمُتْ حَتَّى يَعْمَلَهُ ". قَالَ أَحْمَدُ : قالوا: مِنْ ذَنْبٍ قَدْ تَابَ مِنْهُ۔

ترجمہ:

جناب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو مسلمان مسلمان کو کسی گناہ پر عار دلاتا ہے تو وہ عار دلانے والا مرنے سے پہلے خود بھی اس گناہ میں مبتلا ہوتا ہے۔

امام احمد نے فرمایا کہ محدثین نے کہا آپ ﷺ کی مراد اس سے وہ گناہ ہے، جس سے اس شحض نے توبہ کرلی ہو۔

(ترمذی حدیث2505)

.

الحدیث: 

لَا تَذْكُرُوا مُعَاوِيَةَ إِلَّا بِخَيْرٍ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ اهْدِ بِهِ

حضرت معاویہ کا تذکرہ خیر کےساتھ ہی کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی وعلیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ! اسے(ہدایت یافتہ بنا کر اسے)ذریعہ ہدایت بنا۔(سنن ترمذی حدیث 3843)

اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا رد نہیں ہوتی لہذا سیدنا معاویہ ہدایت یافتہ باعث ہدایت ہیں رسول کریم کی ان کے لیے اچھی دعا ہے

.

چمن زمان کے دیے گئے حوالوں کی تحقیق:

دوسرا حوالہ:

بدایہ نہایہ کا حوالہ تو دیا مگر حسب عادت تبصرہ چھپا دیا...اس روایت بعد مصنف نے لکھا:

وَهَذَا مُنْقَطِعٌ بَيْنَ أَبِي عُبَيْدَةَ وَزَمَانِ عَلِيٍّ وَمُعَاوِيَةَ

مزکورہ اشعار والی روایت منقطع ہے(ابو عبیدہ نے سیدنا علی کا زمانہ ہی نہ پایا تو سیدنا علی سے روایت کیسے کر رہا ہے)

(البداية والنهاية ط هجر11/117)

.

ومنقطع ــ أيضاً ــ بين ابن دريد وابن دماذ، فإنه قال: أُخبرنا عن ابن دماذ.  وهو مسلسل بأهل اللغة والأدب، وفي متنه نكارة ـ كما سيأتي بيانها ـ فالأثر ضعيف جداً سنداً ومتناً

مزکورہ اشعار والی روایت منقطع ہے(ابو عبیدہ نے سیدنا علی کا زمانہ ہی نہ پایا تو سیدنا علی سے روایت کیسے کرسکتا ہے) اور ابن درید اور دماذ کا زمانہ بھی ایک نہیں (تو روایت کیسے کی)

(كتاب فاطمة بنت النبي - صلى الله عليه وسلم - سيرتها، فضائلها، مسندها - رضي الله عنها -3/263)

.

پہلا حوالہ:

چمن زمان نے پہلا حوالہ تاریخ دمشق کا دیا جسکی سند یوں ہے

وأخبرنا أبو السعود أحمد بن علي بن المجلي أنا محمد بن محمد بن أحمد العكبري (5) رأنا أبو الطيب محمد بن أحمد بن خاقان ح قال ونا القاضي أبو محمد عبد الله بن علي بن أيوب أنا أبو بكر أحمد بن محمد بن الجراح قالا أنا أبو بكر بن دريد (1) قال وأخبرنا عن دماد عن أبي عبيدة

(تاريخ دمشق لابن عساكر ,42/520)

اس سند پر وہی اعتراض ہے جو حوالہ دوئم کے تحت لکھ آئے

.

*تیسرا حوالہ اور چمن زمان کی شیعیت کی طرف داری اور گمراہی.....؟؟*

چمن زمان نے تیسرا حوالہ مستعذب الاخبار کا دیا ہے

مستعذب الاخبار....اس میں نہ تو سند ہے اور نہ ہی "اے کلیجہ چبانے والی کی والاد " کے الفاظ ہیں...البتہ اس میں ایک اضافہ ہے کہ غدیر خم کے موقعہ پے تم پر میری اطاعت واجب کردی تھی...جبکہ یہ معنی سیدنا علی سے متصور نہیں ہوسکتے، کیا صحابہ کرام نے سیدنا علی کی اطاعت و اجازت کے بغیر سیدنا ابوبکر کو خلیفہ نامزد کرکے گناہ جرم گمراہی کی.....؟ جبکہ حدیث صحیح میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر و عمر کی پیروی و اقتداء کرنا....جبکہ مذکورہ شعر سے فسق صحابہ لازم آ رہا ہے  نعوذ باللہ کفر صحابہ تک بات جاسکتی ہے، چمن زمان کا اس روایت و کتاب سے استدلال کرکے بہت بڑا جرم و گمراہی کی اور گمراہ کرنے کی کوشش کی بلکہ بات کفر تک جاسکتی ہے، کم سے کم توبہ تجدید ایمان تجدید نکاح تو لازم ہے چمن زمان پر کہ شیعوں کے گمراہیہ کفریہ عقیدے کی ترجمانی کر رہا ہے.... غدیر خم کی حقیقت یہ ہے کہ:

شیعہ لوگ عید غدیر مناتے ہیں کہتے ہیں کہ اس روز حجۃ الوداع سے واپسی پر "غدیر خم" مقام پے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا " میں جس کا مولا علی اسکا مولی......حضور اکرم کے اس فرمان سے شیعہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رسول کریم نے حضرت علی کو اس قول کےذریعے  اپنا خلیفہ بلافصل بنایا

.

جواب.و.تحقیق:

عجیب بات ہے کہ حجۃ الوداع جو اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ کسی کو نہ بنایا اور واپسی پر تھوڑی تعداد کے سامنے غدیرخم پر خلیفہ کا اعلان کر دیا......؟؟

.

اگر خلافت کا اعلان رسول کریمﷺنےکرنا ہوتا تو اسکا صحیح و بہترین موقعہ حجۃ الوداع تھا........غدیرخم مقام پے تو رسول کریمﷺنے ایک تنازع کا حل فرمایا اور فرمایا کہ علی سے ناگواری مت رکھو، اس سے محبت کرو، جسکو میں محبوب ہوں وہ علی سے محبت رکھے

.

دراصل ہوا یہ تھا کہ مال غنیمت حضرت علی نے تقسیم کی تھی ، تقسیم پر کچھ صحابہ کرام کو ناگوار گذرا انہوں نے غدیرخم مقام پر رسول کریمﷺسے حضرت علی کی شکایت کی....رسول کریمﷺنے پوچھا اے بریدہ کیا تم علی سے(اس تقسیم کی وجہ سے)ناگواری محسوس کرتے ہو...؟ حضرت بریدہ نے فرمایا جی ہاں... رسول کریمﷺ نے فرمایا علی سے ناگواری مت رکھ، جتنا حصہ علی نے لیا ہےحق تو اس سے زیادہ حصہ بنتا ہے....بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بعد میری ناگواری ختم ہوگئ...اس تقسیم وغیرہ کی وجہ سے دیگر صحابہ کرام وغیرہ کو بھی ناگواری گذری ہو تو انکی بھی ناگواری ختم ہو اس لیے رسول کریمﷺنے اعلان فرمایا:

میں جسکا مولا علی اسکا مولا.... یعنی میں جسکو محبوب ہوں وہ علی سے بھی محبت رکھے،ناگواری ختم کردے

(دیکھیے بخاری حدیث4350,

مسند احمد23036,22967

مرقاۃ شرح مشکاۃ11/247

البيهقي في الكبرى 6/342

 الصواعق المحرقة 1/109

الاعتقاد للبيهقي ص 498

البداية والنهاية 5/227.)

.

شیعہ کتب سے بھی یہی پس منظر ثابت ہے

وخرج بريدة الأسلمي فبعثه علي عليه السلام في بعض السبي، فشكاه بريدة إلى رسول الله صلى الله عليه وآله فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: من كنت مولاه فعلي مولاه

یعنی

بریدہ اسلمی نے رسول کریمﷺسے حضرت علی کی مال غنیمت کی تقسم کی شکایت تو رسول کریمﷺنے فرمایا میں جسکا مولا و محبوب ہوں علی بھی اس کے مولا و محبوب ہیں)لیھذا ناگواری نہ رکھو، ختم کرو)

(شیعہ کتاب بحار الانوار37/190)

.


فأصبنا سبيا قال: فكتب إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: أبعث لنا من يخمسه، قال: فبعث إلينا عليا رضي الله عنه وفي السبي وصيفه هي من أفضل السبي قال: وقسم فخرج ورأسه يقطر، فقلنا: يا أبا الحسن ما هذا؟ قال: ألم تروا إلى الوصيفة التي كانت في السبي فإني قسمت وخمست فصارت في الخمس، ثم صارت في أهل بيت النبي صلى الله عليه وآله، ثم صارت في آل علي ووقعت بها، قال: فكتب الرجل إلى نبي الله صلى الله عليه وآله، فقلت: ابعثني مصدقا، قال: فجعلت أقرأ الكتاب وأقول صدق، قال: فأمسك يدي والكتاب، قال: أتبغض عليا؟ قال: قلت: نعم قال: فلا تبغضه وان كنت تحبه فازدد له حبا، فوالذي نفس محمد بيده لنصيب علي في الخمس أفضل من وصيفة، قال: فما كان من الناس أحد بعد قول رسول الله صلى الله عليه وآله أحب إلي من علي

یعنی

بریدہ اسلمی کہتےہیں ہمیں مال غنیمت حاصل ہوا...رسول کریمﷺکی طرف خط لکھا کہ تقسیم کے لیے کسی کو بھیجیں،رسول کریمﷺنے علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا حضرت علی نے تقسیم کیا اور اپنا حصہ بھی نکالا، ابو بریدہ تقسیم کی شکایت لے کر (غدیر خم مقام پے) رسول کریمﷺ

کو پہنچے اور شکایت و ناگواری کا اظہار کیا رسول کریمﷺنے فرمایا علی نے جتنا لیا اس سے بڑھ کرحصہ ہے اگر علی سے ناگواری ہے تو ختم کردو اگر محبت ہےتو زیادہ محبت کرو

(شیعہ کتاب کشف الغمہ لاربیلی1/293)

.

.

یہ تھا اصل پس منظر کہ تنازع پے ناگواری و جگھڑا ختم کرایا گیا باقی نہ تو کوئی بیعت لی گئ اور نہ بیعت و خلافت کا اعلان کیا گیا....یہ تھا پس منظر جسکو جھوٹے مکار شیعوں نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا....لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العلیم و لعنۃ اللہ علی الماکرین الکاذبین

.

چوتھا حوالہ:

چمن زمان صاحب نے چوتھا حوالہ سبل الھدی و الرشاد کا دیا ہے...تبصرہ: اس میں نہ تو سند ہے اور نہ ہی "اے کلیجہ چبانے والی کی والاد " کے الفاظ ہیں...البتہ الولاء کا ذکر ہے اور الولاء کا محبت ہے جیسا کہ اوپر مولا کا معنی و پس منظر لکھ آئے

.

پانچواں حوالہ:

چمن زمان نے پانچواں حوالہ شرح الزرقانی کا دیا حالانکہ وہاں مذکورہ اشعار میں سے فقط ایک شعر ہے

سبقتكم إلى الإسلام طرًا ... صغيرًا ما بلغت أوان حلمي

(شرح الزرقاني على المواهب اللدنية ,1/450)

حالانکہ حوالہ میں یہ ضرور مدنظر ہوا کرتا ہے کہ مقصود پایا جاتا ہو...ورنہ یہ بھی خیانت کے مترادف ہے

.

چھٹا حوالہ:چمن زمان صاحب نے چھٹا حوالہ سمط النجوم کا دیا ہے...تبصرہ: اس میں نہ تو سند ہے اور نہ ہی "اے کلیجہ چبانے والی کی والاد " کے الفاظ ہیں...البتہ الولاء کا ذکر ہے اور الولاء کا محبت ہے جیسا کہ اوپر مولا کا معنی و پس منظر لکھ آئے

.

ساتواں حوالہ:چمن زمان صاحب نے ساتواں حوالہ معجم الادباء کا دیا ہے...تبصرہ: اس میں نہ تو سند ہے اور نہ ہی "اے کلیجہ چبانے والی کی والاد " کے الفاظ ہیں

.

آٹھواں حوالہ:چمن زمان صاحب نے آٹھواں حوالہ اکمال تھذیب الکمال کا دیا ہے...تبصرہ: اس میں نہ تو سند ہے اور نہ ہی "اے کلیجہ چبانے والی کی والاد " کے الفاظ ہیں

.


نواں حوالہ:چمن زمان صاحب نے نواں حوالہ الوافی بالوافیات کا دیا ہے...تبصرہ: اس میں نہ تو سند ہے اور نہ ہی "اے کلیجہ چبانے والی کی والاد " کے الفاظ ہیں

.################

*#نشانی نمبر17*

رافضیوں یہود و نصاری کی سازشوں میں آکر طاہر الکادری  نے کہہ دیا کہ نعرہ مت لگاو بلکہ فضائل بھی بیان مت کرو اور مذمت بھی مت کرو، کہتا ہے فضائل معاویہ کا باب ہی نہیں کتب میں.... جبکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان بخاری شریف کی حدیث سے ثابت ہوتی ہے ترمذی شریف میں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان ہے، تابعین مجتہدین نے امام فقہا علماء صوفیان سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان بیان کی ہے، سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مقابلے میں اگرچہ ان کو اجتہادی خطا پر کہا ہے لیکن شان بھی بیان کی ہے، اور یہ فرمایا ہے کہ جو حدیث پاک میں ہے کہ لگام دو تو اس سے مراد مذمت کرنے سے لگام دو لیکن شان ضرور بیان کرو.... لیکن طاہر الکادری صاحب نے اس حدیث کا بھی الٹا مطلب لے لیا کہ شان بھی بیان نہیں کرنی

وقد قال - صلى الله عليه وسلم: " «إذا ذكر أصحابي فأمسكوا» " أي: عن الطعن فيهم، فلا ينبغي لهم أن يذكروهم إلا بالثناء الجميل والدعاء الجزيل،

ترجمہ:

اور بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ میرے صحابہ کا ذکر ہو تو رک جاؤ، یعنی لعن طعن سے رک جاؤ...تو ضروری ہے کہ انکا ذکر ایسے ہو کہ انکی مدح سرائی کی جائے اور دعاء جزیل دی جائے

(مرقاۃ تحت الحدیث3397ملتقطا)

.

أجمع أهل السنة والجماعة أنه يجب على كل مسلم تزكية جميع الصحابة وتعديلهم، والكفُّ عن سبهم والطعن فيهم، والثناءُ عليهم؛ لأن اللَّه تعالى ورسوله عدلهم وزكاهم وأثنى عليهم.

ہم اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ واجب ہے کہ تمام صحابہ کرام کو پاک پاکیزہ دیندار عادل کہا جائے،سمجھا جائے، پاکیزگی بیان کی جائے.. انہیں عادل نیک سچا کہا جائے، ان پر طعن کرنے سے اور انہیں گالی دینے سے روکا جائے اور ان کی تعریف کی جائے کیونکہ  اللہ تعالی نے اور اس کے رسول نے ان کو عادل قرار دیا ہے، ان کو پاکیزہ قرار دیا ہے اور ان کی تعریف کی ہے

(لمعات شرح مشكاة محدث دهلوي9/597)

.

پیران پیر دستگیر فرماتے ہیں

واتفق أهل السنة على وجوب الكف عما شجر بينهم، والإمساك عن مساوئهم، وإظهار فضائلهم ومحاسنهم، وتسليم أمرهم إلى الله -عز وجل- على ما كان وجرى من اختلاف علي وطلحة والزبير وعائشة ومعاوية -رضي الله عنهم- على ما قدمنا بيانه، وإعطائه كل ذي فضل فضله،

تمام اہلسنت کا متفقہ نظریہ ہے کہ صحابہ کرام میں جو اختلافات و جگھڑے ہوئے، جو کچھ سیدنا علی و سیدنا طلحہ و سیدنا  زبیر و سیدہ عائشہ و سیدنا معاویہ میں جو کچھ ہوا اس میں ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی ربان کو لگام دیں، ان کی مذمت و برائی نہ کریں،ان کے فضائل و اچھائیاں بیان کریں..(غنیۃ الطالبین1/163ملخصا)

.

دیکھو منہاجیوں محدثین صوفیاء نے کیا فرمایا....؟؟ رک جاؤ مطلب برائی کرنے سے رک جاؤ...یہ نہیں کہ اچھائی بیان کرنے بھی رک جاؤ....صحابہ کرام کی اچھائی تو رب تعالیٰ نے اور سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرمائی ہے

 

.

دیکھیے صحابہ کرام تابعین ائمہ مجتہدین محدثین و دیگر اولیاء اسلاف و علماء اہلسنت نے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق و دفاع میں کتنا کچھ لکھا....؟؟ کیا وہ سب یہودی کے اشاروں پے ناچنے والے تھے.....؟؟

اہلسنت کے مقابلے میں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بعض فرقے کافر قرار دیتے تو بعض منافق تو بعض گنہگار

تو

 اہل سنت کی یاد تازہ کرنے کے لیے ان کی تعلیمات کو اجاگر کرنے کے لیے دعوت اسلامی نے نعرہ لگایا بے خطا بے گناہ معاویہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ.... یہ نعرہ لگاتے ہی اہل سنت کے مخالف فرقے بھڑک اٹھے اور کچھ اہل سنت کے احباب نے بھی رائے دی کہ اس نعرے کو نہیں لگانا چاہیے کیونکہ اس کا ایک معنی غلط بھی بنتا ہے ایک معنی درست بھی بنتا ہے.... غلط معنی یہ بنتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے خطا اجتہادی بھی نہیں ہوئی... اور درست معنی یہ بنتا ہے کہ بے خطا سے مراد گناہ والی خطا نہیں، یعنی بے خطا کا معنی ہے بے گناہ.... گویا نعرہ یوں ہوا کہ بے گناہ بے گناہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ

لیکن

 چونکہ غلط معنی بھی پیدا ہو سکتا تھا اس لیے دعوت اسلامی نے اور امیر اہل سنت نے وضاحت کی کہ بے خطا کا معنی ہے بے گناہ... اور پھر فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نعرے سے رجوع کر لیا وضاحت کرنے کے باوجود فرما دیا کہ ہم چونکہ اسلاف اہل سنت کے پیروکار ہیں... اسلاف اہل سنت نے خطاء اجتہادی کا فرمایا ہے تو لہذا بے خطا کا ایک معنی غلط بھی ہو سکتا ہے تو اس لیے یہ نعرہ اب سے نہیں لگایا جائے گا اور پھر یہ نعرہ نہیں لگایا گیا

 کیا کوئی ایجنٹ اس طرح ہو سکتا ہے...؟؟ توبہ رجوع کر سکتا کرکے آئندہ احتیاط کا کہہ سکتا ہے....؟؟ یا ایجنٹ وہ ہوتا ہے جو آڑ لیکر ڈٹا رہتا ہے....؟؟ دعوت اسلامی اور قبلہ الیاس قادری نے بے گناہ بے خطا  نعرے پر نہ ڈٹ کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ سازشی نہیں ہیں....دعوت اسلامی اور قبلہ الیاس قادری نے وضاحت کی رجوع کیا اور احتیاط کے لیے آئندہ یہ نعرہ نہ لگانے کا کہا اور عمل کر دکھایا....اب اگر ریاض شاہ و مشہدی و چمن و حنیف قریشی طاہر الکادری بمع کمپنی ایجنٹ انتشتاری یہودیت کے سازشی نہ ہوتے تو وضاحت و رجوع کو قبول کرتے، اسلام نے توبہ رجوع کے بعد عار دلانے سے سخت منع کیا ہے(دیکھیےترمذی حدیث2505)لیکن یہ نیم رافضی گروپ عار دلا رہا بلکہ یہودی سازشی کا فتوی و بہتان لگا رہا

.

 ہر صحابی کی شان میں الگ الگ حدیث صحاح ستہ میں ہو لازم نہیں....یہ شرط تم نے کس آیت و حدیث سے نکال لی، دم ہے تو بتاؤ....اور ہاں سیدنا معاویہ کی شان میں یہ صحاح ستہ سے حدیث پاک

الحدیث:

أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ البَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا

میری امت کا پہلا گروہ کہ جو بحری جہاد کرے گا ان کے لئے جنت واجب ہے 

(صحيح البخاري,4/42حدیث2924)

(المعجم الكبير  للطبراني حدیث323)

(دلائل النبوة للبيهقي مخرجا 6/452)

(مستدرك للحاکم4/599حدیث8668)

۔

أَرَادَ بِهِ جَيش مُعَاوية،وَإِنَّمَا مَعْنَاهُ: أوجبوا اسْتِحْقَاق الْجنَّة

مذکورہ حدیث میں جنتی گروہ سے مراد سیدنا معاویہ کا گروہ ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ جنت کا مستحق ہونا واجب ہوگیا 

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري14/198ملتقطا)


.

أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ،

 سب سے پہلے مسلمانوں نے جو بحری جہاد کیا وہ معاویہ بن سفیان کے ساتھ کیا 

(سنن ابن ماجه ,2/927)

.

وَفِيهِ فَضْلٌ لِمُعَاوِيَةَ إِذْ جَعَلَ مَنْ غَزَا تَحْتَ رَايَتِهِ مِنَ الْأَوَّلِينَ

یعنی اس حدیث پاک سے معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اسی کے جھنڈے تلے مسلمانوں نےسب سے پہلے بحری جہاد کیا

(الاستذکار لابن عبد البر5/128)

.

سیدی امام احمد رضا نے بھی اسی حدیث پاک کو دلیل بنا کر سیدنا معاویہ کو جنتی لکھا ہے...(دیکھیے سیدی رضا کی کتاب "تعلیقات امام اہل السنۃ علی العلل المتناہیۃ ص5 مخطوظ)

.

*#صحاح ستہ سے دوسری حدیث پاک*

الحدیث:

لَا تَذْكُرُوا مُعَاوِيَةَ إِلَّا بِخَيْرٍ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ اهْدِ بِهِ»

حضرت معاویہ کا تذکرہ خیر کےساتھ ہی کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی وعلیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ! اسے(ہدایت یافتہ بنا کر اسے)ذریعہ ہدایت بنا۔

(سنن الترمذي ت شاكر ,5/687حدیث3843)

.

*#صحاح ستہ سے تیسری حدیث پاک*

النبي صلى الله عليه وسلم انه قال لمعاوية: " اللهم اجعله هاديا مهديا واهد به

صحابی رسول عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا: ”اے اللہ! تو ان کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنا دے، اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے

(ترمذی حدیث3842)

.

اللہ تم جیسوں کو ہدایت دے، اگے چل دیکھ امام بخاری نے بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان بیان کی ہے

.

کتب حدیث میں فضائل معاویہ کا باب بھلا کیوں موجود نہیں....؟؟

جواب:

موجود ہے مگر جہالت بغض کی عینک لگانے کو کیا نظر آئے کیا دیکھے......؟؟

*امام بخاری سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت و شان بیان کرتے ہیں*

سَمِعْتُ بْنَ مُنَبِّهٍ عَنِ ابْنِ عباس قال ما رأيت احدا اخلق للملك مِنْ مُعَاوِيَةَ

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کے میں نے(رسول کریم اور خلفاء راشدین وغیرہ مستحقین کے بعد) معاویہ سے بڑھ کر حکومت کے لیے بادشاہت کے لیے کسی کو عظیم مستحق ترین , لائق ترین اور عظیم  اخلاق والا  نہیں پایا 

(التاریخ الکبیر امام بخاری7/321)

.

امام بخاری سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت و شان بیان کرتے ہیں

النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِيَةَ الْحِسَابَ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یا اللہ معاویہ کو حساب کا علم عطا فرما

التاریخ الکبیر امام بخاری7/321)

.

امام بخاری سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت و شان بیان کرتے ہیں

سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِهِ وَاهْدِ بِهِ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ کے متعلق فرمایا یا اللہ اسے ہادی بنا مہدی بنا، اسے ہدایت دے اور اس کے ذریعے ہدایت دے

(التاریخ الکبیر امام بخاری7/321)

.

 امام بخاری نے صحیح بخاری میں فضائل معاویہ کا باب لکھنے کے بجائے ذکر معاویہ کا باب باندھا... جس سے کچھ لوگوں نے سمجھ لیا کہ سیدنا معاویہ کے بارے میں کوئی معتبر فضیلت ثابت نہیں ہے... امام بخاری کا اپنی دوسری کتاب میں صحیح یا حسن حدیث و روایات بیان کرنا اور اس سے شان امیر معاویہ بیان کرنا اس بات کی دلالت ہے کہ سیدنا معاویہ کی فضیلت ثابت ہے صحیح ترین نہ سہی مگر صحیح یا کم سے کم حسن معتبر حدیث موجود ہے.... دراصل امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں صحیح ترین احادیث کو جمع کیا ہے اور اس میں کیونکہ امام بخاری کے مطابق صحیح ترین دوٹوک حدیث پاک سیدنا معاویہ کی فضیلت میں نہیں تھی تو اس لیے فضائل معاویہ باب نہ لکھا... لیکن دوسری کتاب میں آپ نے صحیح بخاری کے مقابلے میں یہ شرط نہ رکھیں کہ صحیح ترین روایت ذکر کی جائے بلکہ دوسری کتاب میں صحیح روایت حسن روایات بھی لکھی ہیں تو اس لیے آپ نے شان معاویہ دوسری کتاب میں بیان کیا

.

یہی وجہ ہے کہ جن ائمہ محدثین نے اصح ترین حدیث لکھنا اپنے اوپر لازم نہ کیا بلکہ صحیح یا حسن یا ضعیف کو بھی لکھا کہ فضائل میں متفق طور پر یہ قبول ہیں تو انہوں نے فضائل معاویہ، مناقب معاویہ کے عنوان و ابواب لکھے

.

مثلا امام احمد بن حنبل کی کتاب میں باب فضائل معاویہ ہے

فَضَائِلُ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا

(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل2/913)

.

علامہ هبة اللہ طبری رازی نے فضائل معاویہ کا باب باندھا

سِيَاقُ مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي فَضَائِلِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة8/1524)

.

علامہ آجری نے کتاب فضائل معاویہ کا عنوان دیا

كِتَابُ فَضَائِلِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

(الشريعة للآجري5/2431)

.

علامہ ابن حجر عسقلانی نے فضل معاویہ باب لکھا

فَضْل مُعَاوِيَةَ رَضِيَ الله عَنْه

(المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية16/434)

.

امام ترمذی نے فضائل کے ہم نام لفظ یعنی مناقب علی اور "مناقب معاویہ"  کا باب لکھا

مَنَاقِبُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللہ عنہ...پھر لکھتے ہیں مَنَاقِبُ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

(دیکھیے ترمذی ابواب المناقب)

.

علامہ دھلوی فرماتے ہیں کہ مناقب کا معنی ہے شرف و فضائل

المناقب) جمع منقبة وهي الفضيلة والشرف

(لمعات شرح مشکاۃ9/557)

.

امام بخاری نے فضائل کا ہم نام یعنی مناقب فاطمہ لکھا...اگر مناقب کا معنی فضیلت نہین تو کیا امام بخاری کے مطابق خاتون جنت کی کوئی فضیلت نہیں....؟؟

بَابٌ : مَنَاقِبُ فَاطِمَةَ

(بخاری5/29)

.

مناقب معاوية

(غاية المقصد فى زوائد المسند4/52)

اور بھی بہت کتب ہیں جن کے نام فضائل معاویہ مناقب معاویہ ہیں...کتب میں ابواب و عنوان بےشمار ہیں کہ مناقب معاویہ فضائل معاویہ...ہم نے بطور تبرک چند پیش کییے،حق پسند کے لیے اتنا کافی ہے


.

إِنَّهُ فَقِيهٌ

سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ بےشک سیدنا معاویہ فقیہ(مجتہد) ہیں

(بخاری روایت3765)

.

سیدنا معاویہ کی حکومت سیدنا عمر کی حکومت جیسی عادلانہ برحق تھی،رضی اللہ تعالیٰ عنھما

عَمِلَ مُعَاوِيَةُ بِسِيرَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ سِنِينَ لَا يَخْرِمُ مِنْهَا شَيْئًا»

سیدنا معاویہ نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت پر سالوں تک عمل کیا۔۔۔ان سالوں میں سوئی برابر بھی راہ حق سے نہ ہٹے 

(السنة لأبي بكر بن الخلال روایت683)

وقال المحقق إسناده صحيح

(حاشیۃ معاوية بن أبي سفيان أمير المؤمنين وكاتب وحي النبي الأمين صلى الله عليه وسلم - كشف شبهات ورد مفتريات1/151)

سالوں کی قید شاید اس لیے لگاءی کہ تاکہ وہ سال نکل جائیں جن میں سیدنا معاویہ نے ولی عہد کیا...کیونکہ ولی عہد سیدنا عمر کی سیرت نہیں بلکہ سیدنا معاویہ کا اجتہاد تھا...جب سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حکومت سیدنا عمر کے نقش قدم پر تھی اور سیدنا عمر کی حکومت رسول کریم کے ارشادات کے مطابق تھی تو ایسی برحق عادلانہ حکومتوں کے بارے میں کیوں نہ کہا جائے کہ فیضان عمر جاری رہے گا ، فیضان علی جاری رہے گا ، فیضان معاویہ جاری رہے گا

.

وقد كان ينبغي أن تلحق دولة معاوية وأخباره بدول الخلفاء وأخبارهم فهو تاليهم في الفضل والعدالة والصحبة

تفسیری ترجمہ:

(سیدنا امام حسن نے جب حکومت سیدنا معاویہ کو دی انکی بیعت کی، ان سے صلح کی تو اس کے بعد)سیدنا معاویہ کی حکومت خلفاء راشدین کی حکومت کی طرح حکومت عادلہ کہلانی چاہیے اور سیدنا معاویہ کے اقوال و اخبار بھی خلفاء راشدین کے اقوال و اخبار کی طرح کہلانے چاہیے کیونکہ فضیلت عدالت اور صحابیت میں سیدنا معاویہ خلفاء راشدین کے بعد ہیں

(تاریخ ابن خلدون2/650)

.

سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نےجب سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت کی اس وقت سے سیدنا معاویہ برحق "امیر المومنین" قرار پائے، اور آپکی حکومت اچھی(برحق.و.عادلہ)قرار پائی

(دیکھیے بخاری روایت3765, بدایہ نہایہ11/143، تاریخ الخلفاء ص256وغیرہ)

.

قَالَ كَعْب الْأَحْبَار لم يملك أحد هَذِه الْأمة مَا ملك مُعَاوِيَة

سیدنا کعب الاحبار نے فرمایا کہ جیسی(عظیم عادلہ راشدہ) بادشاہت سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تھی ایسی کسی کی بادشاہت نہیں تھی 

(صواعق محرقہ2/629)

.


وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَسْوَدَ مِنْ مُعَاوِيَةَ

سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا معاویہ سے بڑھ کر کسی کو کثرت سے کرم نوازی کرنے والا ، حلم و بردباری والا، سخاوت کرنے والا نہیں پایا

[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ,9/357 روایت15921]

[السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/441]

.

انَ مُعَاوِيَةُ مُتَوَاضِعًا....رَأَيْتُ مُعَاوِيَةَ فِي سُوقِ دِمَشْقَ وَهُوَ مُرْدِفٌ وَرَاءَهُ وَصِيفًا، عَلَيْهِ قَمِيصٌ مَرْقُوعُ الْجَيْبِ، وَهُوَ يَسِيرُ فِي أَسْوَاقِ دِمَشْقَ

 بے شک سیدنا معاویہ بہت عاجزی انکساری والے تھے میں نے سیدنا معاویہ کو دمشق کے بازاروں میں دیکھا کہ وہ بازاروں میں گھوم رہے تھے حالانکہ آپ کی قمیض مبارک پر پیوند لگے تھے

(البداية والنهاية ت التركي11/438)

.

بعض اسلامی بادشاہوں اور علماء صوفیاء ائمہ سے عمدہ لباس پہننا ، عمدہ جگہ بیٹھنا بھی ثابت ہے تو یہ بھی سنتِ رسول سے ثابت ہے بشرطیکہ ہم تکبر نہ کریں،  دوسروں کو ، طلباء کو، ماتحتوں کو، محبین کو ، مریدین کو ، عوام کو حقیر نہ سمجھیں اور موقعہ مناسبت سے عاجزی انکساری کا اظہار بھی کریں......!!

.

*#سیدنا معاویہ مومن تھے...ایمان پے وفات پائی شیعہ کتب سے چند حوالے پڑہیے... !!*

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

والظاهر أن ربنا واحد ونبينا واحد، ودعوتنا في الاسلام واحدة. لا نستزيدهم في الإيمان بالله والتصديق برسوله صلى الله عليه وآله ولا يستزيدوننا. الأمر واحد إلا ما اختلفنا فيه من دم عثمان

 یہ بات بالکل واضح ہے ظاہر ہے کہ ان(سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہ)کا اور ہمارا رب ایک ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہے، انکی اور ہماری اسلامی دعوت و تبلیغ ایک ہے، ہم ان کو اللہ پر ایمان رسول کریم کی تصدیق کے معاملے میں زیادہ نہیں کرتے اور وہ ہمیں زیادہ نہیں کرتے...ہمارا سب کچھ ایک ہی تو ہے بس صرف سیدنا عثمان کے قصاص کے معاملے میں اختلاف ہے

(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ3/114)

 ثابت ہوا کہ سیدنا علی کا ایمان سیدنا معاویہ کا ایمان سیدنا معاویہ کا اسلام سیدنا علی کا اسلام اہل بیت کا اسلام صحابہ کرام کا اسلام قرآن و حدیث سب کے سب معاملات میں متفق ہی تھے،سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ سب کے مطابق قرآن و حدیث میں کوئی کمی بیشی نہ تھی....پھر کالے مکار بے وفا ایجنٹ غالی جھوٹے شیعوں نے الگ سے حدیثیں بنا لیں، قصے بنا لیے،الگ سے فقہ بنالی، کفریہ شرکیہ گمراہیہ نظریات و عمل پھیلائے، سیدنا علی و معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام کے اختلاف کو دشمنی منافقت کفر کا رنگ دے دیا...انا للہ و انا الیہ راجعون

.


ان عليا لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق ولكنه كان يقول: هم إخواننا بغوا علينا

ترجمہ:

بےشک سیدنا علی اپنےاہل حرب(سیدنا معاویہ،سیدہ عائشہ اور انکےگروہ)کو نہ تو مشرک کہتےتھےنہ منافق…بلکہ فرمایا کرتےتھےکہ وہ سب ہمارےبھائی ہیں مگر(مجتہد)باغی ہیں(شیعہ کتاب بحارالانوار32/324)

(شیعہ کتاب وسائل الشیعۃ15/83)

(شیعہ کتاب قرب الاسناد ص94)

سیدنا ابوبکر و عمر، سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام کو کھلےعام یا ڈھکے چھپے الفاظ میں منافق بلکہ کافر تک بکنے والے،توہین و گستاخی کرنےوالےرافضی نیم رافضی اپنےایمان کی فکر کریں…یہ محبانِ علی و اہلبیت نہیں بلکہ نافرمانِ علی ہیں،نافرمانِ اہلبیت ہیں

.

فنعى الوليد إليه معاوية فاسترجع الحسين...سیدنا حسین کو جب سیدنا معاویہ کی وفات کی خبر دی گئ تو آپ نےاِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا…(شیعہ کتاب اعلام الوری طبرسی1/434) مسلمان کو کوئی مصیبت،دکھ ملےتو کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ(سورہ بقرہ156)ثابت ہوا سیدنا معاویہ امام حسین کے مطابق کافر ظالم منافق دشمن برے ہرگز نہ تھے جوکہ مکار فسادی نافرمان دشمنان اسلام گستاخانِ معاویہ کے منہ پر طمانچہ ہے

.

هذا ما صالح عليه الحسن بن علي بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان: صالحه على أن يسلم إليه ولاية أمر المسلمين، على أن يعمل فيهم بكتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وآله وسيرة الخلفاء الصالحين

(شیعوں کے مطابق)امام حسن نے فرمایا یہ ہیں وہ شرائط جس پر میں معاویہ سے صلح کرتا ہوں، شرط یہ ہے کہ معاویہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سیرتِ نیک خلفاء کے مطابق عمل پیرا رہیں گے

(شیعہ کتاب بحار الانوار جلد44 ص65)

سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "نیک خلفاء کی سیرت" فرمایا جبکہ اس وقت شیعہ کے مطابق فقط ایک خلیفہ برحق امام علی گذرے تھے لیکن سیدنا حسن "نیک خلفاء" جمع کا لفظ فرما رہے ہیں جسکا صاف مطلب ہے کہ سیدنا حسن کا وہی نظریہ تھا جو سچے اہلسنت کا ہے کہ سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم خلفاء برحق ہیں تبھی تو سیدنا حسن نے جمع کا لفظ فرمایا...اگر شیعہ کا عقیدہ درست ہوتا تو "سیرت خلیفہ" واحد کا لفظ بولتے امام حسن....اور دوسری بات یہ بھی کہ سیدنا معاویہ خلفاء راشدین کی راہ حق پے چلے ورنہ سیدنا حسن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھما ضرور بیعت توڑ دیتے،سیدنا حسن حسین کی صلح رسول کریم کی صلح ہے جو سیدنا معاویہ کو عادل بادشاہ بنا دیتی ہے

.الحدیث:

أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ، وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ

ترجمہ:

(رسول کریم نے حسن حسین وغیرہ اہلبیت سے فرمایا) تم جس سے جنگ کرو میری اس سے جنگ ہے،تم جس سے صلح کرو میری اس سے صلح ہے

(اہلسنت کتاب صحیح ابن حبان حدیث6977)

(شیعہ کتاب بحار الانوار32/321)

.

*#اسلاف کی عبارات میں شان معاویہ....!!*

ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُوْلُ:مَا رَأَيْتُ رَجُلاً كَانَ أَخْلَقَ لِلمُلْكِ مِنْ مُعَاوِيَةَ

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کے میں نے(رسول کریم اور خلفاء راشدین وغیرہ مستحقین کے بعد) معاویہ سے بڑھ کر حکومت کے لیے بادشاہت کے لیے کسی کو عظیم مستحق ترین , لائق ترین اور عظیم  اخلاق والا  نہیں پایا 

[سير أعلام النبلاء3/153]

.

يا أبا عبد الله: إن ههنا رجل يُفضِّلُ عمر بن عبد العزيز على معاوية بن أبي سفيان، فقال أحمد: لا تجالسه، ولا تؤاكله ولا تشاربه، وإذا مرض فلا تعُده

 امام احمد بن حنبل سے ایک شخص نے عرض کی کے ایک شخص کہتا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز معاویہ بن ابی سفیان سے افضل ہے تو امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ ایسے شخص کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا مت رکھ اور اس کے ساتھ کھانا پینا مت رکھ اور جب وہ مریض ہو جائے تو اس کی عیادت نہ کر(مطلب مکمل بائیکاٹ کر)...(ذیل طبقات الحنابلۃ1/301)سمجھانے کےساتھ ساتھ مسلمانی کے دعوےدار بدمذہب و گستاخ سے بائیکاٹ کا حکم ہے....!! سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا علی سیدنا معاویہ کسی بھی صحابی کے گستاخ کو سمجھاؤ سمجھاؤ،  اور اس کے ساتھ ساتھ بائیکاٹ کیجیے، ان کے ساتھ انکے پیچھے نماز نہ پڑہیے، نہ کھائیے نہ پئیے...محافل میں نہ بلائیے.. انکی نہ سنیے،  نہ مانیے.....!!

.

امام عبداللہ بن مبارک رحمہ الہ جن کا شمار کبار محدثین وفقہاء میں ہوتا ہے، ان سے سوال ہوا کہ صحابی سیدنا معاویہ افضل ہیں یا تابعی سیدنا عمر بن عبد العزیز....؟؟فرماتے ہیں:  الْغُبَار الَّذِي دخل أنف فرس مُعَاوِيَة مَعَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم خير من عمر ابْن عبد الْعَزِيز كَذَا وَكَذَا مرة

اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ کی معیت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک کی غبار عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے اتنے اتنے درجہ افضل ہے(بعض روایات میں ہے کہ ہزار درجہ بہتر ہے)

(الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة2/613)


.

عظیم صوفی حضرت بشر حافی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں خود سن رہا تھا امام معافی بن عمران جن کا لقب یاقوتۃ العلماء تھا سے پوچھا گیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ؟ انہوں نے فرمایا: ”كان معاوية أفضل من ستمائة مثل عمر بن عبدالعزيز“

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ جیسے چھ سو بزرگوں سے بھی افضل تھے۔

(السنة لأبي بكر بن الخلال2/435)

.

امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کے شاگرد، امام مسلم علیہ الرحمہ کے استادِ محترم، محدث امام ابو زرعہ رازی بیان فرماتے ہیں:

أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيِّ، أَنَّهُ قَالَ لَهُ رَجُلٌ: إِنِّي أُبْغِضُ مُعَاوِيَةَ. فَقَالَ لَهُ: وَلِمَ؟ قَالَ: لِأَنَّهُ قَاتَلَ عَلِيًّا. فَقَالَ لَهُ أَبُو زُرْعَةَ: وَيْحَكَ! إِنَّ رَبَّ مُعَاوِيَةَ رَبٌّ رَحِيمٌ، وَخَصْمُ مُعَاوِيَةَ خَصْمٌ كَرِيمٌ، فَأَيْشِ دُخُولُكَ أَنْتَ بَيْنَهُمَا؟ !

ابو زرعہ رازی کے پاس ایک شخص آیا۔ اس نے کہا کہ میں معاویہ سے بغض رکھتا ہوں، ابوزرعہ نے کہا کیوں؟ تو اس شخص نے کہا: اس لئے کہ معاویہ نے علی سے جنگ کی۔ تو ابو زرعہ نے اسے کہا کہ معاویہ کا ربّ، ربِّ رحیم ہے۔ اور معاویہ کا مدِ مقابل (علی) کریم ہے۔ تُو ان دونوں کے درمیان کیوں گھستا ہے

(البداية والنهاية ت التركي11/427)

.

.

الْفُضَيْلُ: أَوْثَقُ عَمَلِي فِي نَفْسِي حُبُّ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَأَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ , وَحُبِّي أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ جَمِيعًا، وَكَانَ يَتَرَحَّمُ عَلَى مُعَاوِيَةَ وَيَقُولُ: كَانَ مِنَ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ

عظیم صوفی تبع تابعی سیدنا فضیل فرماتے ہیں کہ میرے اعمال میں سے سب سے زیادہ مضبوط عمل یہ ہے کہ میں سیدنا ابوبکر اور عمر اور ابو عبیدہ سے محبت کرتا ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام سے محبت کرتا ہوں اور معاویہ پر خصوصی رحمت ہو وہ بھی اصحاب محمد کے علماء صحابیوں میں سے تھے(تمام صحابہ کرام سے محبت کرنے کے دعوے کے بعد سیدنا معاویہ کا صحابہ میں شمار کرنے کا مقصد یہی ہے کہ کوئی سیدنا معاویہ کو محبوب صحابہ سے مستثنیٰ قرار نہ دے بلکہ دوٹوک فرمایا کہ سیدنا معاویہ بھی صحابہ میں سے ہیں، میں ان سے بھی محبت کرتا ہوں)

(السنة لأبي بكر بن الخلال2/438)

.

قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: أَيُّهُمَا أَفْضَلُ: مُعَاوِيَةُ أَوْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ؟ فَقَالَ: «مُعَاوِيَةُ أَفْضَلُ، لَسْنَا نَقِيسُ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا» . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِيَ الَّذِينَ بُعِثْتُ فِيهِمْ

 امام احمد بن حنبل سے سوال کیا گیا کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز، امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں... ہم کسی غیر صحابی(حتی کہ عظیم الشان تابعی وغیرہ جیسے عمر بن عبدالعزیز)کو(سیدنا معاویہ وغیرہ)کسی صحابی کے برابر نہیں کرسکتے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے افضل ترین وہ لوگ(صحابہ) ہیں کہ جن میں میں ظاہری حیات رہا

(السنة لأبي بكر بن الخلال2/434)

.

سَأَلْتُ أَبَا أُسَامَةَ أَيُّمَا كَانَ أَفْضَلَ مُعَاوِيَةُ أَوْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ؟ فَقَالَ: لَا نَعْدِلُ بِأَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا

 ابو اسامہ سے سوال کیا کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز، آپ نے فرمایا کہ ہم کسی غیر صحابی(حتی کہ عظیم الشان تابعی وغیرہ جیسے عمر بن عبدالعزیز)کو(سیدنا معاویہ وغیرہ)کسی صحابی کے برابر نہیں کرسکتے

(جامع بيان العلم وفضله2/1173)

ثابت ہوا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فضیلت والے صحابی ہیں، غیر صحابی بڑے بڑے متقی پرہیزگار صوفیاء اولیاء علماء سیدنا معاویہ کے برابر نہیں ہوسکتے

.

وَقَالَ رَجُلٌ لِلْمُعَافَى بْنِ عِمْرَانَ: أَيْنَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنْ مُعَاوِيَةَ ؟! .. فَغَضِبَ وَقَالَ: لَا يُقَاسُ بِأَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ

 ایک شخص نے المعافی سے پوچھا کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز کا مرتبہ سیدنا معاویہ کے معاملے میں کتنا ہے...؟؟ آپ غضبناک ہو گئے اور فرمایا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی صحابی(سیدنا معاویہ وغیرہ) کے برابر کوئی نہیں ہو سکتا

(الشفا بتعريف حقوق المصطفى2/123)

.

*#سیدنا علی سیدنا معاویہ وغیرہ تمام صحابہ کرام سے محبت اور انکی دینداری و عادل ہونا بیان کرنا اہلسنت  و دینداروں کی نشانی ہے......!!*

*صدیوں پہلے کا علماء و صوفیاء کا اعلامیہ.....!!*

قُرئ الاعتقاد القادريّ بالدّيوان. أخرجه القائم بأمر الله، فقُرئ وحضَره العلماء والزُّهّاد...هذا اعتقادُ المسلمين، ومَن خالفه فقد خالف وفَسَقَ وكَفَر....ويجب أن نحبّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ....ولا نقول في معاوية إلّا خيرًا ولا ندخل  في شيءٍ شَجَرَ بينهم

(اعلامیہ) اعتقاد قادری پڑھا گیا جس میں علما اور صوفیاء شامل ہوئے اس اعتقاد میں یہ لکھا تھا کہ یہ مسلمانوں کا اعتقاد ہے جو اس سے انحراف کرے گا مخالفت کرے گا تو وہ یا تو فاسق ہو جائے گا یا کافر ہو جائے گا... اس اعتقاد قادری میں یہ لکھا تھا کہ ہم (سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ) تمام کے تمام صحابہ کرام سے محبت کرتے ہیں اور بالخصوص سیدنا معاویہ کے متعلق بھلائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہتے اور ان کے درمیان جو کچھ ہوا اس میں ہم نہیں پڑتے

(تاريخ الإسلام - ت تدمري29/323ملتقطا)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سب سے محبت و عقیدت رکھنی چاہیے، یہی اہلسنت کا نظریہ و عقیدہ ہے، یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ و علی وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام سے محبت دیندار رکھتے ہیں

.

*#امام  العقائد و الفقہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں*

وَلَا نذْكر أحدا من أَصْحَاب رَسُول الله إِلَّا بِخَير

 ہم اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ہر ایک کا تذکرہ بھلائی کے ساتھ کرتے ہیں

(الفقہ الاکبر ص48)

.

عقائد کی مشھور و معتبر کتاب عقیدہ طحاویہ میں امام اہلسنت امام طحاوی فرماتے ہیں

وَنُحِبُّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ وَلَا نُفَرِّطُ فِي حُبِّ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَلَا نَتَبَرَّأُ مِنْ أَحَدٍ مِنْهُمْ

 ہم اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ ہم (سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ)تمام کے تمام صحابہ کرام سے محبت کرتے ہیں اور کسی کی محبت میں غلو نہیں کرتے اور کسی بھی صحابی سے براءت(بے محبتی، لاتعلقی)کا اعلان نہیں کرتے

(امام طحاوی عقیدۃ الطحاوية ص81)

.

 امام طحاوی نے اپنی کتب میں جا بجا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے احادیث روایت کیں جس کا صاف مطلب ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی امام طحاوی کے نزدیک صحابہ کرام میں سے تھے...مثلا امام طحاوی فرماتے ہیں

أَنَّ مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ...معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

(امام طحاوی شرح مشکل الاثار 4274)

.

وكل أهل السنة يحبون آل محمد، صلى الله عليه وآله وسلم، ويجب عليهم ذلك، كما يجب عليهم حب أصحاب رسول الله، صلى الله عليه وسلم، أجمعين

 تمام اہل سنت آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور یہ ان پر واجب ہے جس طرح کہ (سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ)تمام کے تمام صحابہ کرام کی محبت واجب ہے

(ابن کثیر طبقات الشافعيين ص9)

.

ما تنطق به الألسنة وتعتقده الأفئدة من واجب الديانات.....وأن نتولى أصحاب رسول الله صلى الله علية وسلم بأسهم ولا نبحث عن اختلافهم في أمرهم ونمسك عن الخوض في ذكرهم إلا بأحسن الذكر لهم

 یہ وہ عقائد ہیں کہ جو زبان سے بولے جاتے ہیں اور دل ان کو مانتا ہے... انہی عقیدوں میں سے یہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےتمام کے تمام صحابہ کرام(سیدنا معاویہ و سیدنا علی وغیرہ تمام کے تمام صحابہ کرام) سے محبت کریں اور ان میں جو آپس میں اختلاف ہوا اس میں مت پڑیں اور ان کا ذکر ہمیشہ بھلائی کے ساتھ ہی کریں

(الإرشاد إلى سبيل الرشاد ص8ملتقطا)

(طبقات الحنابلة - لابن أبي يعلى - ت الفقي2/181نحوہ)


.

پیران پیر دستگیر فرماتے ہیں

واتفق أهل السنة على وجوب الكف عما شجر بينهم، والإمساك عن مساوئهم، وإظهار فضائلهم ومحاسنهم، وتسليم أمرهم إلى الله -عز وجل- على ما كان وجرى من اختلاف علي وطلحة والزبير وعائشة ومعاوية -رضي الله عنهم- على ما قدمنا بيانه، وإعطائه كل ذي فضل فضله،

تمام اہلسنت کا متفقہ نظریہ ہے کہ صحابہ کرام میں جو اختلافات و جگھڑے ہوئے، جو کچھ سیدنا علی و سیدنا طلحہ و سیدنا  زبیر و سیدہ عائشہ و سیدنا معاویہ میں جو کچھ ہوا اس میں ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی ربان کو لگام دیں، ان کی مذمت و برائی نہ کریں،ان کے فضائل و اچھائیاں بیان کریں..(غنیۃ الطالبین1/163ملخصا)

.

واعتقاد أهل السّنّة تزكية جميع الصّحابة والثناء عليهم، كما أثنى اللَّه سبحانه وتعالى عليهم...، وجميع ذلك يقتضي طهارة الصّحابة والقطع على تعديلهم ونزاهتهم، فلا يحتاج أحد منهم مع تعديل اللَّه تعالى لهم، المطّلع على بواطنهم إلى تعديل أحد من الخلق له

امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ ہم اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ کرام کو پاک پاکیزہ دیندار عادل کہا جائے، سمجھا جائے، پاکیزگی بیان کی جائے اور ان کی تعریف کی جائے جیسے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف کی ہے... اللہ سبحان و تعالی اور اس کے رسول کے احکامات سے جب ثابت ہوتا ہے کہ تمام صحابہ کرام پاک پاکیزہ عادل دیندار اور عیوب سے منزہ ہیں تو کسی اور کی طرف سے پاکیزگی ثابت کرنے کی حاجت نہیں

(الإصابة في تمييز الصحابة ابن حجر عسقلاني22, 1/24)

.

أجمع أهل السنة والجماعة أنه يجب على كل مسلم تزكية جميع الصحابة وتعديلهم، والكفُّ عن سبهم والطعن فيهم، والثناءُ عليهم؛ لأن اللَّه تعالى ورسوله عدلهم وزكاهم وأثنى عليهم.

ہم اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ واجب ہے کہ تمام صحابہ کرام کو پاک پاکیزہ دیندار عادل کہا جائے،سمجھا جائے، پاکیزگی بیان کی جائے.. انہیں عادل نیک سچا کہا جائے، ان پر طعن کرنے سے اور انہیں گالی دینے سے روکا جائے اور ان کی تعریف کی جائے کیونکہ  اللہ تعالی نے اور اس کے رسول نے ان کو عادل قرار دیا ہے، ان کو پاکیزہ قرار دیا ہے اور ان کی تعریف کی ہے

(لمعات شرح مشكاة محدث دهلوي9/597)


.

. وَالَّذِي أَجْمَعَ عَلَيْهِ أَهْلُ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةُ أَنَّهُ يَجِبُ عَلَى كُلِّ أَحَدٍ تَزْكِيَةُ جَمِيعِ الصَّحَابَةِ

 اور جس بات پر تمام اہل سنت و الجماعت کا اجماع ہے وہ یہ ہے کہ ہر ایک پر واجب ہے کہ تمام کے تمام صحابہ کرام کو پاکیزہ دیندار عادل کہے سمجھے، پاکیزگی بیان کرے

(لوامع الأنوار البهية2/388)

.

اعْلَم أَن الَّذِي أجمع عَلَيْهِ أهل السّنة وَالْجَمَاعَة أَنه يجب على كل أحد تَزْكِيَة جَمِيع الصَّحَابَة

اور جان لو کہ جس بات پر تمام اہل سنت و الجماعت کا اجماع ہے وہ یہ ہے کہ ہر ایک پر واجب ہے کہ تمام کے تمام صحابہ کرام کو پاکیزہ دیندار عادل کہے سمجھے، پاکیزگی بیان کرے

( الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة2/603)

.

قال ابن الصّلاح: «ثم إن الأمة مجمعة على تعديل جميع الصّحابة ومن لابس الفتن منهم، فكذلك بإجماع العلماء الذين يعتدّ بهم في الإجماع قال الخطيب البغداديّ في الكفاية» مبوبا على عدالتهم: عدالة الصحابة ثابتة معلومة بتعديل اللَّه لهم، وإخباره عن طهارتهم واختياره لهم في نص القرآن.

 علامہ ابن صلاح فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل و دیندار ہیں( فاسق و فاجر دنیادار ظالم منافق نہیں) وہ صحابہ کرام بھی عادل و دیندار ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے اس پر معتدبہ علماء کا اجماع ہے..خطیب بغدادی فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل و دیندار ہیں(فاسق و فاجر ظالم دنیادار منافق نہیں)صحابہ کرام کی تعدیل اللہ نے فرمائی ہے اور اللہ نے ان کی پاکیزگی کی خبر دی ہے 

(امام ابن حجر عسقلانی.. الإصابة في تمييز الصحابة، 1/22)

.

وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ مِنَ الْعُدُولِ الْفُضَلَاءِ وَالصَّحَابَةِ النُّجَبَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَمَّا الْحُرُوبُ الَّتِي جَرَتْ فَكَانَتْ لِكُلِّ طَائِفَةٍ شُبْهَةٌ اعْتَقَدَتْ تَصْوِيبَ أَنْفُسِهَا بِسَبَبِهَا وَكُلُّهُمْ عُدُولٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَمُتَأَوِّلُونَ فِي حُرُوبِهِمْ وَغَيْرِهَا وَلَمْ يُخْرِجْ شئ مِنْ ذَلِكَ أَحَدًا مِنْهُمْ عَنِ الْعَدَالَةِ لِأَنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ اخْتَلَفُوا فِي مَسَائِلَ مِنْ مَحَلِّ الِاجْتِهَادِ كَمَا يَخْتَلِفُ الْمُجْتَهِدُونَ بَعْدَهُمْ فِي مَسَائِلَ مِنَ الدِّمَاءِ وَغَيْرِهَا وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ نَقْصُ أَحَدٍ مِنْهُمْ

سیدنا معاویہ عادل و دیندار فضیلت والے نجباء صحابہ میں سے ہیں باقی جو ان میں جنگ ہوئی تو ان میں سے ہر ایک کے پاس شبہات تھے اجتہاد جس کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی عادل ہونے کی صفت سے باہر نہیں نکلتا اور ان میں کوئی نقص و عیب نہیں بنتا

(امام نووي ,شرح النووي على مسلم ,15/149)


.

امام العقیدہ امام اہلسنت امام ابو الحسن #الاشعری کا عقیدہ*

قال ولا أقول في عائشة وطلحة والزبير رضي الله عنهم إلّا أنّهم رجعوا عن الخطأ.....فهذه جملة من أصول عقيدته التي عليها الآن جماهير أهل الأمصار الإسلامية، والتي من جهر بخلافها أريق دمه

اور میں سیدہ عائشہ ، سیدنا طلحہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنھم کے بارے میں یہی عقیدہ رکھتا ہوں کہ انہوں نے اپنی اجتہادی خطا سے توبہ کر لی(لیکن سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ نے اجتہادی خطاء سے رجوع نہ کیا اس لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ ہوگئ)....یہ تمام عقائد وہ ہیں جس پر جمھور امت ہے جو اس کے خلاف عقیدہ رکھے، اسکے خلاف عقیدہ نظریہ پھیلائے اسے قتل کیا جائے

(المواعظ و الاعتبار للمقریزی4/195)

.

*#امام_تفتازانی اور #علامہ_پرہاروی کا عقیدہ*

بل عن خطأ في الاجتهاد من معاوية

سیدنا معاویہ جو سیدنا علی سے اختلاف و جنگ کی وہ سب اجتہادی خطاء تھی سیدنا معاویہ کی

(نبراس مع عقائد نسفیہ ص657)

.

*#امام_ابن_حجر_عسقلانی کا عقیدہ*

وَذَهَبَ جُمْهُورُ أَهْلِ السُّنَّةِ إِلَى تَصْوِيبِ مَنْ قَاتَلَ مَعَ عَلِيٍّ لِامْتِثَالِ قَوْلِهِ تَعَالَى وان طَائِفَتَانِ من الْمُؤمنِينَ اقْتَتَلُوا الْآيَةَ فَفِيهَا الْأَمْرُ بِقِتَالِ الْفِئَةِ الْبَاغِيَةِ وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ مَنْ قَاتَلَ عَلِيًّا كَانُوا بُغَاةً وَهَؤُلَاءِ مَعَ هَذَا التَّصْوِيبِ مُتَّفِقُونَ عَلَى أَنَّهُ لَا يُذَمُّ وَاحِدٌ مِنْ هَؤُلَاءِ بَلْ يَقُولُونَ اجتهدوا فأخطئوا

 جمہور اہل سنت نے فرمایا ہے کہ جس نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ساتھ مل کر سیدنا معاویہ وغیرہ سے قتال کیا وہ حق پر تھے کیونکہ باغیوں کے ساتھ قتال کیا جاتا ہے یہ آیت میں حکم ہے اور سیدنا معاویہ کا گروہ (اجتہادی) باغی تھا...اس کے ساتھ ساتھ اہلسنت اس بات پر بھی متفق ہیں کہ دونوں گروہوں میں سے کسی کو بھی مذمت کا نشانہ نہ بنایا جائے گا کیونکہ سیدنا معاویہ وغیرہ نے اجتہاد کیا اور اجتہاد میں خطا کی(اور حدیث پاک کے مطابق اجتہاد میں خطاء پر بھی ایک اجر ملتا ہے،اجتہاد میں درستگی پر دو اجر ملتے ہیں)

(فتح الباری شرح بخاری13/67)

.

*#امام_غزالی #علامہ_حقی کا عقیدہ*

قال حجة الإسلام الغزالي رحمه الله يحرم على الواعظ وغيره......وما جرى بين الصحابة من التشاجر والتخاصم فانه يهيج بغض الصحابة والطعن فيهم وهم اعلام الدين وما وقع بينهم من المنازعات فيحمل على محامل صحيحة فلعل ذالك لخطأ في الاجتهاد لا لطلب الرياسة او الدنيا كما لا يخفى وقال في شرح الترغيب والترهيب المسمى بفتح القريب والحذر ثم الحذر من التعرض لما شجر بين الصحابة فانهم كلهم عدول خير القرون مجتهدون مصيبهم له أجران ومخطئهم

له أجر واحد

حجة الاسلام امام غزالی نے فرمایا کہ صحابہ کرام کے درمیان جو مشاجرات ہوئےان کو بیان کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے خدشہ ہے کہ صحابہ کرام کے متعلق بغض بغض اور طعن پیدا ہو۔ ۔۔۔۔۔صحابہ کرام میں جو مشاجرات ہوئے ان کی اچھی تاویل کی جائے گی کہا جائے گا کہ ان سے اجتہادی خطا ہوئی انہیں حکومت و دنیا کی طلب نہ تھی..ترغیب وترہیب کی شرح میں ہے کہ مشاجرات صحابہ میں پڑنے سے بچو بے شک تمام صحابہ عادل ہیں( فاسق و فاجر ظالم منافق نہیں)تمام صحابہ کرام خیرالقرون ہیں مجتہد ہیں مجتہد میں سے جو درستگی کو پہنچا اس کے لئے دو اجر اور جس نے خطا کی اس کے لیے ایک اجر 

(روح البيان 9/437)

.

*#امام_ابن کثیر_کا عقیدہ*

وأما ما شجر بينهم بعده عليه الصلاة والسلام، فمنه ما وقع عن غير قصد، كيوم الجمل، ومنه ما كان عن اجتهاد، كيوم صفين. والاجتهار يخطئ ويصيب، ولكن صاحبه معذور وإن أخطأ، ومأجور أيضاً، وأما المصيب فله أجران اثنان، وكان علي وأصحابه أقرب إلى الحق من معاوية وأصحابه رضي الله عنهم أجمعين

صحابہ کرام میں کچھ جنگیں تو ایسی ہیں جو بغیر قصد کے ہوئیں جیسے کہ جنگ جمل اور کچھ جنگیں ایسی ہیں جو اجتہاد کی بنیاد پر ہوئی جیسے کہ صفین....جس نے درستگی کو پایا جیسے کہ سیدنا علی تو ان کو دو اجر ملیں گے اور جس نے اجتہاد میں خطا کی جیسے کہ سیدنا معاویہ تو اسے ایک اجر ملے گا 

( الباعث الحثيث  ص182)

.

*#امام_عینی_ کا عقیدہ*

وَالْجَوَاب الصَّحِيح فِي هَذَا أَنهم كَانُوا مجتهدين ظانين أَنهم يَدعُونَهُ إِلَى الْجنَّة، وَإِن كَانَ فِي نفس الْأَمر خلاف ذَلِك، فَلَا لوم عَلَيْهِم فِي اتِّبَاع ظنونهم، فَإِن قلت: الْمُجْتَهد إِذا أصَاب فَلهُ أَجْرَانِ، وَإِذا أَخطَأ فَلهُ أجر، فَكيف الْأَمر هَهُنَا. قلت: الَّذِي قُلْنَا جَوَاب إقناعي فَلَا يَلِيق أَن يُذكر فِي حق الصَّحَابَة خلاف ذَلِك، لِأَن اتعالى أثنى عَلَيْهِم وَشهد لَهُم بِالْفَضْلِ

اللہ تعالی نے صحابہ کرام پر تعریف کی ہے اور ان کی فضیلت بیان کی ہے تو یہ سب مجتہد تھے(سیدنا علی سیدنا معاویہ وغیرہ نے) جنگوں اور فتنوں میں اجتہاد کیا جس نے درستگی کو پایا اس کے لئے دو اجر اور جس نے خطا کی اس کے لیے ایک اجر یہی جواب صحیح ہے اور یہی جواب صحابہ کرام کے لائق ہے 

(عمدة القاري شرح بخاری4/209)

.

امام_ابن_حجر_الهيتمي کا عقیدہ*

 وَغَايَة اجْتِهَاده أَنه كَانَ لَهُ أجر وَاحِد علىاجْتِهَاده وَأما عَليّ رَضِي الله عَنهُ فَكَانَ لَهُ أَجْرَان

زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیدنا معاویہ کو ایک اجر ملے گا اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دو اجر ملے گے 

(الصواعق المحرقة2/624)

۔

.

*#امام_ربانی_مجدد_الف_ثانی کا عقیدہ*

فان معاویة واحزابه بغوا عن طاعته مع اعترافهم بانه افضل اھل زمانه وانه الاحق بالامامة بشبهه هی ترک القصاص عن قتله عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنه ونقل فی حاشیة کمال القری عن علی کرم اللہ تعالیٰ وجهه انہ قال اخواننا بغوا علینا ولیسوا کفرة ولا فسقة لما لھم من التاویل وشک نیست کہ خطاء اجتہادی از ملامت دور است واز طعن وتشنیع مرفوع ." 

ترجمہ:

بے شک معاویہ اور اس کے لشکر نے اس(حضرت علی  سے)بغاوت کی، باوجودیکہ کہ وہ مانتے تھے کہ وہ یعنی سیدنا علی تمام اہل زمانہ سے افضل ہے اور وہ اس سے زیادہ امامت کا مستحق ہے ازروئے شبہ کے اور وہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے قصاص کا ترک کرنا ہے ۔ اور حاشیہ کمال القری میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ہمارے بھائیوں نے ہم پر بغاوت کی حالانکہ نہ ہی وہ کافر ہیں اور نہ ہی فاسق کیونکہ ان کے لیے تاویل ہے

اور شک نہیں کہ خطائے اجتہادی ملامت سے دور ہے اور طعن وتشنیع سے مرفوع ہے

(مکتوبات امام ربانی 331:1منقولا عن بعض المصادر) 

.

وَجَّهْنَا رُقْعَةً إِلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ: مَا تَقُولُ رَحِمَكَ اللَّهُ فِيمَنْ قَالَ: لَا أَقُولُ إِنَّ مُعَاوِيَةَ كَاتَبُ الْوَحْيِ، وَلَا أَقُولُ إِنَّهُ خَالُ الْمُؤْمِنِينَ، فَإِنَّهُ أَخَذَهَا بِالسَّيْفِ غَصْبًا؟ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: هَذَا قَوْلُ سَوْءٍ رَدِيءٌ، يُجَانَبُونَ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ، وَلَا يُجَالَسُونَ، وَنُبَيِّنُ أَمْرَهُمْ لِلنَّاسِ

 ہم نے ایک خط امام احمد بن حنبل کی جانب سے لکھا کہ آپ کیا فرماتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو کہتا ہے کہ میں معاویہ کو کاتب وحی نہیں کہوں گا اور میں انہیں مومنوں کا ماموں نہیں کہوں گا، معاویہ نے طاقت کے زور پر حکومت حاصل کی ہے.... امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ یہ برا قول ہے ردی قول ہے ایسے قول کہنے والے لوگوں سے کنارہ کشی کی جائے گی ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نہ کیا جائے گا(بائیکاٹ کیا جائے گا) اور ایسے لوگوں کے کرتوت و مذمت ہم لوگوں میں عام کریں گے( تاکہ لوگ ایسے لوگوں خطیبوں لکھاریوں سے کنارہ کشی کریں اور گمراہ نہ ہوں)

(أبو بكر الخلال ,السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/434)

.

أبا عبد الله يسأل عن الذى يشتم معاوية، نصلى خلفه؟ قال: لا، ولا كرامة

 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے سوال کیا گیا کہ وہ شخص کہ جو سیدنا معاویہ کا گستاخ ہے کیا اسکے پیچھے نماز پڑہیں.....؟؟ آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں، اور فرمایا ایسے گستاخ کی کوئی عزت نہیں کی جائے گی

(طبقات الحنابلة - لابن أبي يعلى - ت الفقي1/108)

.

وهو أحد كتبة الوحي، وهو الميزان في حب الصحابة، ومفتاح الصحابة، سئل الإمام أحمد بن حنبل رضي الله عنه أيهما أفضل معاوية أو عمر بن عبد العزيز، فقال: لغبار لحق بأنف جواد معاوية بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم خير من عمر بن عبد العزيز رضي الله تعالى عنه،

وأماتنا على محبته

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبین وحی میں سے ہیں،صحابہ کرام سے محبت کرنے کے معاملے میں سیدنا معاویہ ترازو ہیں(یعنی صحابہ کرام سے محبت ایمان کی نشانی ہے لازم ہے اور جو صحابہ کرام سے محبت کا دعوےدار ہو لیکن  سیدنا معاویہ سے محبت نہ رکھے تو وہ دعوے میں جھوٹا مکار ہے)امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے سوال کیا گیا کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں یا سیدنا عمر بن عبدالعزیز...؟؟ آپ نے جواب دیا کہ: سیدنا معاویہ کی اتنی شان بڑی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں سیدنا معاویہ کے گھوڑے کی ناک میں لگی غبار عظیم الشان خلیفہ راشد امام عبدالعزیز تابعی سے افضل ہے…اللہ ان سے راضی ہو اور ہمیں(دیگر صحابہ کرام و اہلبیت عظام وغیرہ اسلاف کے ساتھ محبت میں اور)سیدنا معاویہ کے ساتھ محبت میں موت عطاء فرمائے

(شذرات الذھب1/270)

.

أبا عبد اللَّه، وسئل عن رجل انتقص معاوية وعمرو بن العاص، أيقال له: رافضي؟ فقال: إنه لم يجترئ عليهما إلا وله خبيئة سوء، ما انتقص أحدٌ أحدًا من أصحاب رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم- إلا له داخلة سوء قال رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم-: "خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي

 امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا گیا کہ اُس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں کہ جو سیدنا معاویہ اور سیدنا عمرو بن عاص کی توہین و گستاخی کرے کیا وہ رافضی کہلائے گا...؟؟ سیدنا امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ سیدنا معاویہ اور سیدنا عمر بن عاص رضی اللہ تعالی عنھما کے متعلق کوئی بھی توہین و بےادبی کی جرت نہیں کر سکتا لیکن وہ شخص کہ جس کے دل میں خباثت ہو کہ کسی صحابی کے متعلق وہی گستاخی کرے گا کہ جس کے دل میں کوئی برائی و خباثت ہوگی،حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میں سے بہترین اور خیر و بھلائی سے بھرپور لوگ وہ ہیں جو(سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی و معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام وغیرہ مسلمین)میری اس قرن(صدی)والے ہیں

(كتاب الجامع لعلوم الإمام أحمد - العقيدة4/538)

.

قَالَ لِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: يَا أَبَا الْحَسَنِ، إِذَا رَأَيْتَ رَجُلًا يَذْكُرُ أَحَدًا مِنَ الصَّحَابَةِ بِسُوءٍ فَاتَّهِمْهُ عَلَى الْإِسْلَامِ

 راوی کہتے ہیں کہ مجھے امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ کسی بھی ایک صحابی کو نامناسب الفاظ سے یاد کرے تو اس کے ایمان پر شک  کرو

( البداية والنهاية ت التركي11/450)

.###############

*#نشانی نمبر18*

شیعہ روافض یہود نصاری وغیرہ کی سازش پے چلتے ہوئے ریاض شاہ بمع ہمنوا نے کہا کہ وہ تو طلقاء میں سے تھے طلقاء میں سے.....!!

حالانکہ

طلقاء میں سے ہونا مان بھی لیا جائے تو اسکا یہ مطلب کس نے نکالا کہ شان بیان نہ کرو طلقاء طلقاء کی رٹ لگاؤ....؟؟

.

معاوية) بنُ أبي سفيانَ خالُ المؤمنين وأميرُهم، الأمويُّ -بضم الهمزة- الصّحابيُّ بنُ الصحابيِّ، كان من مُسلمة الفتح، ومن المؤلَّفة قلوبهم، ثمَّ حَسُنَ إسلامه كأبيه وأمه هند بنت عتبة

یعنی

 سیدنا معاویہ ماموں ہیں مومنین کے اور مومنوں کے امیر ہیں،صحابی ہیں، صحابی کے بیٹے ہیں،فتح مکہ کے دن ایمان ظاہر کیا،پہلے پہل مولفۃ القلوب میں سے تھے پھر اسلام لانا انکا اچھا ہوگیا، اسلام پر اچھائی و پابندی کے ساتھ رہے جیسے کہ انکا والد ابوسفیان اور انکی والدہ ھندہ(کا اسلام اچھا ہوگیا تھا،اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے)

(كشف اللثام شرح عمدة الأحكام3/472)

.

أسلم هو وأبوه يوم فتح مكة، وشهد حُنينًا وكان من المؤلفة قلوبهم، ثم حسن إسلامه

سیدنا معاویہ اور انکے والد سیدنا ابو سفیان فتح مکہ کے دن ایمان لائے جہاد حنین (وغیرہ) میں شریک ہوئے، پہلے پہل مولفۃ القلوب تھے پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے

(تاريخ الخلفاء سيوطي ص148)

.

ومعاوية بن أبي سفيان ثمّ حسن إسلامه

سیدنا معاویہ پہلے پہل مولفۃ القلوب تھے پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے

(درج الدرر في تفسير الآي والسور ط الفكر1/777)

.

، وكان هو وأبوه من المؤلَّفة قلوبهم، ثم حَسُنَ إسلامُهما

سیدنا معاویہ اور انکے والد ابو سفیان پہلے پہل مولفۃ القلوب تھے پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے

(التاريخ المعتبر في أنباء من غبر1/286)

.

العلماء متفقون على حسن إسلامه

علماء متفق ہیں کہ سیدنا معاویہ کا اسلام لانا اچھا ہوگیا تھا،اسلام پر اچھائی سے رہے

(الإصابة في الذب عن الصحابة  ص220)

.

أبو سفيان بن حرب» ، و «معاوية» ابنه، ثم حسن إسلامهما. و «حكيم ابن حزام» ، ثم حسن إسلامه. و «الحارث بن هشام» ، أخو «أبى جهل بن هشام» ، ثم حسن إسلامه. [و «صفوان بن أميّة» ، ثم حسن إسلامه [٢] . و «سهيل ابن عمرو» ، ثم حسن إسلامه. [و «حويطب بن عبد العزى» ، ثم حسن إسلامه] . و «العلاء بن حارثة الثّقفيّ» ، و «عيينة بن حصن بن حذيفة ابن بدر» ، و «الأقرع بن حابس» ، و «مالك بن عوف النّصرى» ، و «العباس ابن مرداس السّلمى» ثم حسن إسلامه. و «قيس بن مخرمة» ، ثم حسن إسلامه. و «جبير بن مطعم» ، ثم حسن إسلامه

 سیدنا ابو سفیان سیدنا معاویہ سیدنا حکیم سیدنا حارث سیدنا صفوان سیدنا سہیل سیدنا حویطب سیدنا علاء سیدنا عیینہ سیدنا اقرع سیدنا مالک بن عوف سیدنا عباس بن مرداس سیدنا قیس سیدنا جبیر

یہ سب پہلے پہل مولفۃ القلوب میں سے تھے پھر اسلام لانا انکا اچھا ہوگیا، اسلام پر اچھائی پابندی کے ساتھ رہے 

(كتاب المعارف1/342)

.

اب بھی طلقاء طلقاء کی رٹ لگاؤ گے یا کہو گے طلقاء میں سے تھے مگر کئ دیگر صحابہ کرام کی طرح انکا اسلام بھی اچھا ہوگیا یہ سچائی اچھائی کے ساتھ اسلام و سنت کے پابند رہے.....!!

.#################

*#نشانی نمبر19*

حنیف قریشی اپنے اپ کو اہل سنت کا نمائندہ کہتا ہے اور پھر شیعون ایرانیوں کی روش و سازش پے چلتے ہوءے کہتا ہے کہ...المفھوم:

 حدیث پاک کہ انبیاء کرام علیھم السلام کی مالی وراثت نہیں،اس حدیث پاک کے راوی فقط ایک سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں،اور سیدنا ابوبکر صدیق کو سننے میں غلطی لگ سکتی ہے،اجتہادی خطاء ان سے اس معاملے میں بھی ہوسکتی ہے...!!

.

*#جواب.و.تحقیق*

نام نہاد سنی بہت گذرے اور اجکل بھی بہت ہیں جو اہلسنت کا لبادہ اوڑھ کر ناصبیت یا رافضیت وغیرہ کو فروخ دے رہے ہیں،انہی میں سے حنیف قریشی مشہدی چمن ریاض شاہ اینڈ کمپنی ہیں.....رافضیت کو خوش کرنے کی بات کرکے لگتا ہے کہ توبہ توبہ کرنا انکا کھیل بن چکا ہے لیھذا صحابہ کرام و علماء عظام کے فتوے کے مطابق یہ لوگ سچی پکی توبہ بھی کریں اور ان پر لازم ہے کہ بڑے عرصے تک وعظ تقریر تحریر سے رک جاءیں ورنہ حکومت زبردستی روکے ورنہ عوام و علماء انکا بائیکاٹ کریں اور زبردستی انکو روکیں اور اس قسم کے اشخاص توبہ کے بعد تقریر تحریر سے رک کر اہلسنت کی تعلیمات عقائد فقہ و نظریات تاریخ و سیرت وغیرہ معتبر اہلسنت علماء سے حاصل کریں پھر جب معتبر علماء اہل سنت مفتیان اہل سنت انہیں اجازت دیں تب جا کر یہ باحوالہ محتاط گفتگو کرسکتے ہیں

.

 حنیف قریشی کی بات کا جواب تو کئ علماء اہلسنت نے دیا ہے....اسلاف کی پیروی میں ہم نے بھی کچھ لکھا ہے...لیجیے پڑھیے اور مخالفین تک پہنچائیے انکے متعلقین تک پہنچاءیے شاید کہ ہدایت کا باعث بنے......!!

.

*#سیدنا علی،سیدنا عباس، سیدنا عثمان، سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سیدنا زبیر،سیدنا سعد بن ابی وقاص,سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھم کا نظریہ......!!*

یہ 7 ثقہ ترین معتبر ترین صحابہ کرام میں سے ہیں، حلفاً ارشاد فرما رہے ہیں کہ:

عُثْمَانَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَالزُّبَيْرِ وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ......أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ". يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ ؟ قَالَ الرَّهْطُ : قَدْ قَالَ ذَلِكَ. فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَقَالَ : أَنْشُدُكُمَا اللَّهَ، أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ ذَلِكَ ؟ قَالَا : قَدْ قَالَ ذَلِكَ

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان، سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سیدنا زبیر،سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنھم سے فرمایا

تم سب کو قسم ہے اللہ کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں زمین و آسمان ہے کیا بےشک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ ہماری کوئی مالی وراثت نہیں....؟؟

سب نے کہا:

بےشک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے

پھر سیدنا عمر نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنھم سے فرمایا کہ تمھیں قسم ہے کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرمایا تھا....؟؟ سیدنا علی سیدنا عباس دونوں نے فرمایا کہ بےشک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا ہے

(بخاری حدیث3094... مسلم  حدیث1757)

ابوداؤد حدیث2663... ترمذی حدیث1610)

.

الفاظوں پے غور کیجیے.....قسم دی جارہی ہے اللہ تعالیٰ کی اور یہ سات عظیم ترین ثقہ ترین معتبر ترین صحابہ کرام میں سے ہیں وہ بھی "قد قال" یعنی بےشک بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کہہ رہے ہیں یعنی قسم اور تاکید کے ساتھ کہہ رہے ہیں، تصدیق تائید کر رہے ہیں......اب بھی کوئی کہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے سننے میں غلطی ہو سکتی ہے تو وہ اپنے دماغ عقل بغض جہالت کا علاج کرائے

 یہ سات صحابہ کرام فرما سکتے تھے کہ پتہ نہیں ہم نے تو نہیں سنا شاید سیدنا ابوبکر نے سنا ہو......ایسا کہتے تو کون مائی کا لال انکو روک سکتا تھا......؟؟ کیونکہ کچھ ایسے مسائل گذرے ہیں جس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یا کسی اور صحابی نے اچھے انداز میں اختلاف کرتے ہوئے دوٹوک الگ فیصلہ سنایا

مگر

یہ سارے مل کر قسم اٹھا کر فرما رہے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم انبیاء کرام کی کوئی مالی میراث نہیں ہوتی....یقینا انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی حدیث سنی تبھی تو اتنے یقین سے فرما رہے ورنہ فرما دیتے کہ ہم نے تو نہیں سنی.....؟؟

اب بھی شک ہے کسی حنیف قریشی جیسے کو تو پھر وہ سنیت کے لبادے میں کذاب جھوٹا مکار مردود منافق نہیں تو کیا ہے......؟؟

.

عظیم ترین ... ثقہ ترین...  معتبر ترین صحابہ کرام میں سے ہیں کا مطلب واضح ہے کہ دیگر صحابہ کرام بھی معتبر ثقہ عظیم الشان ہیں......اگرچہ ان سات کی شان بہت ہی زیادہ ہے مگر کوئی صحابی کمتر بھی نہیں ، ہرگز نہیں....!! 

.

*#سیدنا ابوبکر سیدنا عمر رضی اللہ عنھما دونوں نے سنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے*

أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ فَاطِمَةَ جَاءَتْ أَبَا بَكْرٍ ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، تَسْأَلُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَا : سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ : " إِنِّي لَا أُورَثُ

 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا کہ ہم نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری کوئی مالی وراثت نہیں

(ترمذی حدیث1609)

سننے کی صراحت واضح کر رہی ہے کہ سننے والے فقط ایک سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نہیں ہے بلکہ سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہما دونوں نے سنا.......اب بھی شک کرو گے...؟؟

.

*#سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ راوی....اور الفاظ و انداز بھی ملاحظہ کیجیے......!!*

فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا نُورَثُ ؛ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ....فَاضَتْ عَيْنَا أَبِي بَكْرٍ، فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي...وَلَمْ أَتْرُكْ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهَا إِلَّا صَنَعْتُهُ

 سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم انبیاء کرام علیھم السلام کی کوئی مالی وراثت نہیں ہوتی ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ عامہ ہے(جو کسی کی بھی ملکیت نہیں بنے گا).... سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور خرچہ ضرور ملا کرے گا( جیسے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرچہ دیا کرتے تھے)..... سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ زار و قطار رونے لگے اور فرمانے لگے اللہ کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار مجھے میری ال سے زیادہ محبوب و عزیز ہیں کہ میں ان کی خدمت و محبت کرتا رہوں.... جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بطور خرچہ دیا کرتے تھے اسی طرح میں بھی دیا کروں گا

(بخاری حدیث4241....مسلم حدیث1759)

.

*#سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ راوی......!!*

عَنْ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّا لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ

 سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک ہم انبیاء کرام علیہم السلام کا کوئی مالی ورثہ نہیں ہے جو ہم چھوڑ کے جائیں وہ صدقہ ہے

(مسند احمد حدیث336)

.

*#سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ راوی...!!*

فَقَالَتْ عَائِشَةُ : أَلَيْسَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ

 سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم انبیاء کرام علیہم السلام کا کوئی مالی ورثہ نہیں جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے

(بخاری حدیث6730....مسلم حدیث1758)

.

عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ "

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ بےشک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم انبیاء کرام علیہم السلام کا کوئی مالی ورثہ نہیں جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے

(مسند احمد حدیث25125)

.

*#راوی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ....!!*

أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ 

 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہمارا کوئی مالی ورثہ نہیں ہے ہم جو چھوڑ کے جائیں وہ صدقہ ہے

(مسلم حدیث1761)

.

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّا مَعْشَرَ الْأَنْبِيَاءِ لَا نُورَثُ

 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ انبیاء کسی کو مالی وارث نہیں بناتے

(مسند احمد حدیث9972)

.

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَقْسِمُ وَرَثَتِي بَعْدِي

 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد میری کوئی وراثت تقسیم نہیں ہوگی

(صحیح ابن حبان حدیث6699)

.

.*#راوی سیدہ جویریہ رضی اللہ عنھا.....!!*

وَعَنْ جُوَيْرِيَةَ قَالَ: «مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَوْمَ تُوفِّيَ إِلَّا بَغْلَةً بَيْضَاءَ، وَسِلَاحَهُ، وَأَرْضًا جَعَلَهَا صَدَقَةً».

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ

 سیدہ جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بھی وفات کے وقت چھوڑا سواری کے جانور، عصا مبارک، جنگی سامان، اور جائیداد

سب کچھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ عامہ قرار دے دیا( جو کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتا)

 امام ہیثمی فرماتے ہیں اس کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے معتبر ہے

(مجمع الزوائد حدیث14285)

.

.*#سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما راوی.....!!*

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " «إِنَّا لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ» ".رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَفِيهِ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَمْرٍو الْبَجَلِيُّ، وَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ، وَضَعَّفَهُ غَيْرُهُ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ

 سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم انبیاء کرام علیہم السلام کسی کو مالی وارث نہیں کرتے جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے.... امام ہیثمی فرماتے ہیں کہ اس کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس میں ایک راوی ہے جس کو کچھ علماء نے ضعیف قرار دیا ہے اور امام ابن حبان نے اس کو ثقہ معتبر قرار دیا ہے اور باقی راوی اس کے سب ثقہ معتبر ہیں

(مجمع الزوائد حدیث14287)

.

*#سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ راوی......!!*

حُذَيْفَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ النَّبِيَّ لَا يُورَثُ 

 سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نبی کا تو کوئی مالی وارث نہیں ہوتا

(السنن الكبرى للبيهقي حدیث12743)

.

*#سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ راوی......!!*

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: أَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ وَبَرَةً مِنْ جَنْبِ بَعِيرٍ فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَا يَحِلُّ لِي مِمَّا أَفَاءَ اللهُ عَلَيْكُمْ قَدْرَ هَذِهِ إِلَّا الْخُمُسُ، وَالْخُمُسُ

مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ

 سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے لیے خمس حلال ہے اور یہ خمس میرے بعد تم ہی کی طرف صدقہ ہو کر لوٹے گا(صدقہ عامہ ہوگا کسی کی وراثت و ملکیت نہ ہوگا)

(السنن الكبرى للبيهقي حدیث12747)

.

ہماری ناقص تلاش و تحقیق کے مطابق مذکورہ حدیث پاک کے 14 راوی ہیں.....عظیم ترین ثقہ ترین معتبر ترین راوی ہیں....اور شک نہیں کہ گہری تحقیق کی جائے تو مزید راوی ہمارے مطالعے میں آئیں گے.....!!

اور سیدنا ابوبکر صریق رضی اللہ سمیت چودہ راویوں نے روایت،اجتہاد نہ کیا لیھذا اجتہادی خطاء بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہاں اجتہاد نہیں بلکہ نص یعنی حدیث  سنائی جارہی ہے

.

*کیا رسول کریمﷺکے اموال یعنی فدک وغیرہ کو سیدنا صدیق اکبر اہلبیت میں خرچ نہ کرتے تھے؟میراث رسولﷺ شیعہ کتب سے،مال رسولﷺ میں خلفاء راشدین کا طرز عمل......؟؟ اور کیا رسول کریم نے فدک سیدہ فاطمہ کو دے دیا تھا جیسے اہلسنت کتاب درمنثور و بزاز میں ہے....؟؟*

تمھید:

 فیس بک پے ایک صاحب نے لکھا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے تو یہ تھے کہ اہل بیت مجھے میرے رشتہ داروں سے زیادہ پیارے ہیں انہیں اموال رسول میں سے خرچہ دیا کروں گا لیکن ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ لَمْ يَكُنْ يُعْطِي قُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

یعنی صدیق اکبر نے اہل بیت کو کچھ مال نہ دیا… پھر مذکورہ فیسبکی مجتہد بن کر اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ صدیق اکبر خائن غاصب مکار جھوٹے تھےخیانت کرنے والے تھے دھوکہ دینے والے تھے جھوٹ بولنے والے تھے اہل بیت سے بغض رکھنے والے اہل بیت کو محروم کرنے والے تھے....(نعوذ باللہ)

نوٹ:

ادب کے ساتھ لفظ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ تو میں نے لکھا ہے ورنہ اس نے تو فقط ابوبکر لکھا تھا

.

*تحیق.و.جواب......!!*

الحدیث:فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا

جاہل(کم علم) فتویٰ دیں گے تو وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے( لہذا ایسوں سے بچو)

(بخاری حدیث100)

.


 احادیث مبارکہ روایات آثار وغیرہ کو سمجھے بغیر ، احاطہ کییے بغیر، وسیع مطالعہ کییے بغیر دو چار احادیث روایات پڑھ کر مجتہد بن بیٹھنا اور نعوذ باللہ اس قسم کے فتوے لگانا اور وہ بھی صحابہ کرام پر.......؟؟ خدا کا خوف کیجیے کسی علم والے سے پوچھئیے، روایات کی تحقیق کیجئیے، شروحات پڑہیے سمجھیے،مزید اس متعلق روایات پڑھئیے، اور پھر انصاف سے اپنا نقطہ نظر ادب کے ساتھ سوال کے انداز میں پیش کیجئیے ورنہ گمراہی فساد انتشار تفرقہ پھیلانا کہلائے گا نعوذ باللہ بات کفر تک جاسکتی ہے

.

*مسئلہ ترکہ رسول کریمﷺ باغ فدک وغیرہ کا نچوڑ یہ ہے کہ......!!*

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی اپنے اموال میں سے ذرا برابر کا بھی مالک نہیں بنایا بلکہ اہل بیت ازواج مطہرات و دیگر مسلمانوں پر خرچ کرتے رہے اسی طرح رسول کریم نے فرمایا کہ میرا جو ترکہ ہے وہ صدقہ ہے...اس قسم کی حدیث پاک کو سیدنا علی نے بھی تسلیم کیا ، سیدنا عباس نے بھی تسلیم کیا ، سیدنا ابوبکر اور عمر صحابہ کرام نے بھی تسلیم کیا کہ ایسی حدیث واقعی میں ہے، ہاں ممکن ہے کسی کی توجہ نہ گئ ہو اور ترکہ کا مطالبہ کر دیا ہو لیکن بحرحال توجہ دلانے عرض کرنے پر سب نے تسلیم کیا کہ ہاں ایسی حدیث پاک ہے.... جب یہ صدقہ تھا تو یہ کہیں بھی خرچ ہو سکتا تھا اہل بیت پر خرچ ہو سکتا تھا اہل بیت کو چھوڑ کر رسول کریم کے دیگر رشتہ داروں پر خرچ ہو سکتا تھا  یا دیگر رشتہ داروں کو چھوڑ کر مسلمانوں پر خرچ ہو سکتا تھا یا تھوڑا تھوڑا کرکے سب میں خرچ کیا جا سکتا تھا... لیکن سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کا کمال انصاف دیکھیے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت اور ان کی پیروی اتنی کرتے تھے کہ اس کی مثال دیکھیے کہ سیدنا صدیق اکبر نے اہلبیت و دیگر رشتے داران رسول و فقراء مسلمین و اللہ کی راہ میں اسی طرح خرچ کیا جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرج کیا کرتے تھے.... پھر سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اسی طرح خرچ کیا کرتے تھے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کیا کرتے تھے

.

*چند دلائل و حوالہ جات ملاحظہ کیجیے…...!!*

قَالَ عُمَرُ : تَيْدَكُمْ ، أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ". يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ ؟ قَالَ الرَّهْطُ : قَدْ قَالَ ذَلِكَ. فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَقَالَ : أَنْشُدُكُمَا اللَّهَ، أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ ذَلِكَ ؟ قَالَا : قَدْ قَالَ ذَلِكَ. قَالَ عُمَرُ : فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ. ثُمَّ قَرَأَ : { وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ }. إِلَى قَوْلِهِ : { قَدِيرٌ }. فَكَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ، وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ، قَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ، حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَعَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ حَيَاتَهُ. أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ ؟ قَالُوا : نَعَمْ. ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ : أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ ؟ قَالَ عُمَرُ : ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ فَعَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ،

ترجمہ:

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ اچھا ‘ تو پھر ذرا ٹھہرئیے اور دم لے لیجئے میں آپ لوگوں سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”ہم پیغمبروں کا کوئی مالی اعتبار سے وارث نہیں ہوتا ‘ جو کچھ ہم (انبیاء) چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ “ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات گرامی بھی تھی۔ ان حضرات نے تصدیق کی ‘ کہ جی ہاں ‘ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا  اب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما کی طرف مخاطب ہوئے ‘ ان سے پوچھا۔ میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ‘ کیا آپ حضرات کو بھی معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے یا نہیں؟ انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیشک ایسا فرمایا ہے۔۔(پس ثابت ہوا کہ یہ حدیث سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا علی سیدنا عباس وغیرہ کے مطابق بھی برحق و ثابت ہے)سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب میں آپ لوگوں سے اس معاملہ کی شرح بیان کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس غنیمت کا ایک مخصوص حصہ مقرر کر دیا تھا۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی دوسرے کو نہیں دیا تھا(جب نبی کریم نے اپنا حصہ کسی کو زندگی میں نہیں دیا تو ثابت ہوا کہ انبیاء کرام کے مال صدقہ ہوتے ہیں، کسی کی ملکیت نہیں بنتے) پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی «وما أفاء الله على رسوله منهم‏» سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «قدير‏» تک اور وہ حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص رہا۔ مگر قسم اللہ کی یہ جائیداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو چھوڑ کر اپنے لیے جوڑ نہ رکھی ‘ نہ خاص اپنے خرچ میں لائے ‘ بلکہ تم  لوگوں کو(بغیر مالک بنائے صرف خرچہ اٹھانے کے لیے)دیں اور تمہارے ہی کاموں میں خرچ کیں۔ یہ جو جائیداد بچ رہی ہے اس میں سے آپ اپنی بیویوں کا سال بھر کا خرچ لیا کرتے اس کے بعد جو باقی بچتا وہ اللہ کے مال میں شریک کر دیتے... خیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی زندگی میں ایسا ہی کرتے رہے۔ حاضرین تم کو اللہ کی قسم! کیا تم یہ نہیں جانتے؟ انہوں نے کہا بیشک جانتے ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما سے کہا میں آپ حضرات سے بھی قسم دے کر پوچھتا ہوں ‘ کیا آپ لوگ یہ نہیں جانتے ہیں؟ (دونوں حضرات نے جواب دیا ہاں!) پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یوں فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے اٹھا لیا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں ‘ اور اس لیے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال و جائیداد اپنی نگرانی میں لیے اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کرتے تھے اسی طرح سیدنا صدیق اکبر(اہلبیت وغیرہ پر)خرچ کرتے رہے۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے اس طرز عمل میں سچے مخلص ‘ نیکوکار اور حق کی پیروی کرنے والے تھے...(پھر سیدنا عمر نے بھی رسول کریم اور سیدنا ابوبکر کے طرز پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا جسے سیدنا علی سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے بھی تسلیم کیا)

(صحیح بخاری 3094)

.

دَخَلَ الْعَبَّاسُ وَعَلِيٌّ عَلَى عُمَرَ، وَعِنْدَهُ طَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَسَعْدٌ، وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ، فَقَالَ عُمَرُ  لِطَلْحَةَ ، وَالزُّبَيْرِ  ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَسَعْدٍ : أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " كُلُّ مَالِ النَّبِيِّ صَدَقَةٌ إِلَّا مَا أَطْعَمَهُ أَهْلَهُ وَكَسَاهُمْ، إِنَّا لَا نُورَثُ " ؟ قَالُوا : بَلَى. قَالَ : فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ مِنْ مَالِهِ عَلَى أَهْلِهِ، وَيَتَصَدَّقُ بِفَضْلِهِ، ثُمَّ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَلِيَهَا أَبُو بَكْرٍ سَنَتَيْنِ، فَكَانَ يَصْنَعُ الَّذِي كَانَ يَصْنَعُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ:

سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آ گئے اور ان کے پاس سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، سیدنا عبدالرحمٰن اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہم (پہلے سے) بیٹھے تھے، یہ دونوں (یعنی سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما) جھگڑنے لگے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن اور سعد رضی اللہ عنہم سے کہا: کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”نبی کا سارا مال صدقہ ہے سوائے اس کے جسے انہوں نے اپنے اہل کو کھلا دیا یا پہنا دیا ہو، ہم لوگوں کا کوئی مالی وارث نہیں ہوتا“، لوگوں نے کہا: کیوں نہیں (ہم یہ بات جانتے ہیں آپ نے ایسا ہی فرمایا ہے) اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مال میں سے اپنے اہل پرخرچ کرتے تھے اور جو کچھ بچ رہتا وہ صدقہ کر دیتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے آپ کے بعد اس مال کے متولی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دو سال تک رہے، وہ ویسے ہی خرچ کرتے رہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کرتے تھے

(ابوداود 2975)

.

 وُلِّيتُهَا بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ فَصَنَعْتُ فِيهَا الَّذِي كَانَ يَصْنَعُ، ثُمَّ أَتَيَانِي فَسَأَلَانِي أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْهِمَا، عَلَى أَنْ يَلِيَاهَا بِالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَالَّذِي وُلِّيتُهَا بِهِ، فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا، وَأَخَذْتُ عَلَى ذَلِكَ عُهُودَهُمَا،

 سیدنا عمر فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد میں خلیفہ ہوا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال میں وہی تقسیم اور خرچہ جاری رکھا کہ جس طرح سیدنا ابوبکر صدیق کیا کرتے تھے... پھر ان اموال سے خرچہ اٹھانے کے لئے میں نے آپ اہل بیت کو یہ مال دیا اس شرط پر کہ آپ لوگ اسی طرح خرچہ اٹھاتے رہو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ میں خرچہ دیا کرتے تھے جس طرح سیدنا ابوبکر صدیق آپ میں خرچہ کیا کرتے تھے اور آپ لوگوں سے اس پر عہد بھی لیا

(نسائی روایت4148)

.

جَمَعَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بَنِي مَرْوَانَ حِينَ اسْتُخْلِفَ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ فَدَكُ، فَكَانَ يُنْفِقُ مِنْهَا، وَيَعُودُ مِنْهَا عَلَى صَغِيرِ بَنِي هَاشِمٍ، وَيُزَوِّجُ مِنْهَا أَيِّمَهُمْ، وَإِنَّ فَاطِمَةَ سَأَلَتْهُ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهَا فَأَبَى، فَكَانَتْ كَذَلِكَ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَلَمَّا أَنْ وَلِيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَلَمَّا أَنْ وَلِيَ عُمَرُ عَمِلَ فِيهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلَا حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، ثُمَّ أُقْطِعَهَا مَرْوَانُ، ثُمَّ صَارَتْ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ. قَالَ عُمَرُ - يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ : فَرَأَيْتُ أَمْرًا مَنَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ لَيْسَ لِي بِحَقٍّ، وَأَنَا أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ رَدَدْتُهَا عَلَى مَا كَانَتْ. يَعْنِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 سیدنا عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ فدک وغیرہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال تھے  اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہلبیت و مسلمانوں و فی سبیل اللہ خرچ کیا کرتے تھے... سیدہ فاطمہ نے اپنی ملکیت کے لیے کچھ لینا چاہا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا... پھر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اسی عمل و خرچے کو جاری رکھا پھر سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے بھی اس عمل کو جاری رکھا پھر یہ مروان کے حوالے کر دیا گیا اور پھر یہ مجھے ملا تو میں عمر بن عبدالعزیز کہتا ہوں کہ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ کی ملکیت قرار نہ دیا وہ میرا حق نہیں ہو سکتا میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں اس کو اسی حال پر واپس لوٹا رہا ہوں کہ جس حال پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے

(ابوداود روایت2972)

.

*اموالِ رسول کریمﷺ سب مسلمانوں کے لیے صدقہ ہے کسی کے لیے ملکیت نہیں اور خلفاء راشدین نے ان اموال کو کیسے خرچ کیا.........؟؟*

 اوپر حدیث گزری ہے جس کی گواہی سیدنا علی نے دی سیدنا ابوبکر صدیق نے دی سیدنا عمر نے دی سید عباس نے دی ان سب نے تمام صحابہ کرام نے گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چھوڑا ہوا مال صدقہ ہے، اور صدقہ تو کسی کے لئے خاص نہیں ہوتا وہ تو تمام مسلمانوں کو دیا جا سکتا ہے... کمال عشق و محبت دیکھئے کمال اطاعت و پیروی دیکھئے کہ سیدنا ابوبکر صدیق نے اہل بیت کو بھی دیا مسلمانوں کو بھی دیا... اللہ کی راہ میں خرچ کیا، اور سیدنا عمر نے بھی ایسا ہی کیا جیسے کہ اوپر روایات میں دوٹوک لکھا ہے

.

*اوپر روایات میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تذکرہ نہیں...سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کس طرح کا معاملہ فرمایا...ملاحظہ کیجیے......!!*

قَالَ : فَهُمَا عَلَى ذَلِكَ إِلَى الْيَوْمِ.

سیدنا زهري فرماتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر صدیق سے لے کر سیدنا علی وغیرہ تک یہ اسی طریقے پر جاری ہے( کہ اموال رسول  کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی ملکیت نہیں ہے وہ صدقہ ہیں وہ اہل بیت و دیگر رشتہ داروں اور دیگر مسلمانوں اور اللہ کی راہ میں خرچ ہوتا رہا سب خلفاء راشدین کے دور میں)

(ابوداؤد روایت2968)

.

ولهذا لَمَّا صارت الخِلافة إلى عليٍّ لم يُغيِّرْها عن كونها صدَقة

 جب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اسی طریقے کو جاری رکھا جو سیدنا ابوبکر صدیق نے جاری رکھا تھا اور اموالِ رسول کریم کو صدقہ قرار دیا

(اللامع الصبيح بشرح الجامع الصحيح9/156)

(كتاب منحة الباري بشرح صحيح البخاري6/209)


.

ومما يدل على ما قلناه: ما قاله أبو داود: أنه لم يختلف على - رضى الله عنه - أنه لما صارت الخلافة إليه لم يغيرها عن كونها صدقة

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال صدقہ ہیں اس بات پر یہ بھی دلیل ہے کہ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ جب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اسے صدقہ قرار دیا اور جس طرح سیدنا صدیق اکبر نے خرچہ جاری کیا تھا سیدنا علی نے اسی طریقے پر اسی طرز کو جاری رکھا اس سے تبدیل نہ کیا کسی کی ملکیت قرار نہ دیا

(إكمال المعلم بفوائد مسلم6/79)


.

*سیدنا عثمان نے فدک مروان کو کیوں دیا.......؟؟*

 اوپر روایت میں اشارہ ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے باغ فدک مروان کو دیا تھا... تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ جو بھی تھا وہ سب مسلمانوں کے لئے صدقہ تھا وہ اہل بیت پہ خرچ ہو سکتا تھا دوسرے مسلمانوں پر بھی خرچ ہو سکتا تھا کسی اہل بیت پر خرچ کرنا فرض واجب نہیں تھا... عین ممکن ہےکہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے دیگر صدقات میں سے اہل بیت کو خرچہ دیا اور فدک صدقہ ان سے لے کر کسی اور کو دے دیا ہو.....؟؟

.

 سنی یا شیعہ نجدی تمام کتب میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی مالی ترکہ نہ تھا جو بھی تھا وہ سب صدقہ تھا جیسے اوپر احادیث گزریں... تو صدقہ کسی بھی مسلمان پر خرچ ہو سکتا ہے لہذا سیدنا عثمان پر کوئی اعتراض نہیں... ہاں یہ طرز جاری تھا کہ سیدنا ابو بکر صدیق نے سیدنا عمر نے سیدنا علی نے اسی طرح اہل بیت وغیرہ پر خرچ کیا جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے

سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ قرآن اور حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا لَهُ فِيهَا حَقٌّ

 (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چھوڑا ہوا مال صدقہ ہے تو )اس صدقے میں ہر مسلمان کا حق ہے(وہ کسی کے لیے خاص نہیں)

(ابوداود روایت2966)

.

بين المسلمين ومصالحهم، وأن أمره إلى من يلي أمره بعد، متفق عليه بين الصحابة حتى العباس وعلي

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مال صدقہ ہیں وہ مسلمانوں میں اہلبیت وغیرہ میں خرچ ہوتے رہیں گے اور اس کی نگرانی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کے خلیفہ کے سپرد ہے اس بات پر تمام صحابہ کا اتفاق ہے حتی کہ سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہما کا بھی اسی بات پر اتفاق ہے

(لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح7/146)

.

 اب جب ثابت ہوگیا کہ احادیث اور صحابہ کرام اور اہل بیت عظام کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال صدقہ ہیں تو  لازم نہیں ہے کہ صرف اہل بیت میں ہی خرچ ہو وہ کہیں بھی خرچ ہو سکتے ہیں...یہ سب خلیفہ کی صوابدید پر ہے کہ وہ کہاں پر زیادہ حاجت کو محسوس کرتا ہے وہاں پر خرچ کرے گا

لیھذا

 سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جب دیکھا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال اہل بیت میں خرچ کرنا لازم نہیں ہے تو انہوں نے دیگر اموال اہل بیت کو دیے اور اموال رسول دیگر معاملات میں خرچ کییے

.

إِنَّمَا أَقْطَعَ عُثْمَانُ فَدَكَ لِمَرْوَانَ لِأَنَّهُ تَأَوَّلَ أَنَّ الَّذِي يَخْتَصُّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكُونُ لِلْخَلِيفَةِ بَعْدَهُ فَاسْتَغْنَى عُثْمَانُ عَنْهَا بِأَمْوَالِهِ

 باغ فدک سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے مروان کو دیا تھا خرچے کیلئے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ دلیل پکڑی کہ اموال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی خلیفہ کے لئے سپرد ہے تو سیدنا عثمان نے دیگر مال اہل بیت کو دے کر اموال رسول کریم سے مستغنی کر دیا

(كتاب فتح الباري لابن حجر6/204)

.

عَلَيْهِ وَكَانَ تَأْوِيلُهُ فِي ذَلِكَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ مَا بَلَغَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ مِنْ قَوْلِهِ إِذَا أَطْعَمَ اللَّهُ نَبِيًّا طُعْمَةً فَهِيَ لِلَّذِي يَقُومُ مِنْ بَعْدِهِ وَكَانَ رَسُولُ الله يَأْكُلُ مِنْهَا وَيُنْفِقُ عَلَى عِيَالِهِ قُوتَ سَنَةٍ وَيَصْرِفُ الْبَاقِي مَصْرِفَ الْفَيْءِ فَاسْتَغْنَى عَنْهَا عُثْمَانُ بِمَالِهِ

 سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے مروان وغیرہ کو اموال میں سے دیا تو اس کی تاویل یہ تھی کہ آپ کو یہ دلیل معلوم تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو رسول اللہ کے مال ہیں وہ رسول اللہ کے بعد آنے والے خلیفہ کی نگرانی میں ہوں گے ان کی صوابدید پر ہوں گے لہذا سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی صوابدید یہ تھی کہ انہوں نے دیگر اموال اہل بیت کو دے کر اموال رسول کریم سے ان کو مستغنی کردیا

(عون المعبود وحاشية ابن القيم8/138)

.

*صدیق اکبر نے قربی رسول اللہ کو نہ دیا کا معنی.......؟؟*

امام ابوداود و دیگر محدثین سے ہم نے ثابت کر دیا کہ خلفائے راشدین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو قریبی رشتہ داروں کو اور دیگر مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال میں سے خرچہ دیا کرتے تھے، معترض نے جو امام ابو داود کے حوالے سے لکھا ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کو کچھ نہ دیتے تھے یہ سراسر جھوٹ ہے....امام ابوداود نے ایسی کوئی حدیث نہیں لکھی بلکہ یہ سیدنا جبیر کا قول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذووی القربی کو سیدنا صدیق اکبر نہ دیتے تھے اور باقی تقسیم رسول اللہ علیہ والی فرماتے تھے

پہلی بات:

پہلی بات تو یہ ہے سیدنا جبیر کا قول دیگر محدثین کے بظاہر خلاف ہے تو غیر معتبر ہے

وهذا الحديث يخالفه فيما يأتي قريبًا من حديث

(بذل المجهود في حل سنن أبي داود10/166)

دوسری بات:

 امام ابو داؤد نے ذووی القربی باب لکھا ہے مطلب دور کے رشتہ دار یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے رشتہ داروں کو سیدنا صدیق اکبر نہ دیتے تھے کیونکہ مال اتنا زیادہ تھا کہ وہ سب کو دیتے بلکہ نبی پاک نے بھی اپنے بعض ذوی قربی یا دور کے رشتے داروں نہ دیا جیسا کہ ابوداود کے اس باب میں ہے

بَابٌ.فِي بَيَانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ، وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَى

(ابوداود قبیل 3/255)

.

(ذَوُو الْقُرْبَى)الْمُرَادُ بِهِمْ الْمَذْهَبُ الأَْوَّل: أَنَّهُمْ بَنُو هَاشِمٍ فَقَطْ، وَهُوَ مَا ذَهَبَ إِلَيْهِ أَبُو حَنِيفَةَ وَمَالِكٌ...الْمَذْهَبُ الثَّانِي: أَنَّ ذَوِي الْقُرْبَى هُمْ بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ فَقَطْ وَهُوَ الْمَذْهَبُ عِنْدَ الشَّافِعِيَّةِ (٥) ، وَالْحَنَابِلَةِ...الْمَذْهَبُ الثَّالِثُ: أَنَّ ذَوِي الْقُرْبَى هُمْ بَنُو قُصَيٍّ وَذَلِكَ مَرْوِيٌّ عَنْ أَصْبَغَ مِنَ الْمَالِكِيَّةِ،...الْمَذْهَبُ الرَّابِعُ: أَنَّ ذَوِي الْقُرْبَى قُرَيْشٌ كُلها

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذووی القربی(دور کے ) رشتہ دار کون سے ہیں.....؟؟ اس میں اختلاف ہے کچھ فرماتے ہیں کہ فقط بنو ہاشم ہیں اور اور یہ امام اعظم ابو حنیفہ اور امام مالک کا قول ہے..کچھ فرماتے ہیں کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ہیں اور یہ امام شافعی کا قول ہے اور حنبلیوں کا قول ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بنو قصی ہیں اور یہ بعض مالکیوں سے مروی ہے اور ایک قول یہ ہے کہ سب قریش ذووی القربی ہیں

(كتاب الموسوعة الفقهية الكويتية،70 33/67) 

.

تیسری بات:

 ایک توجیہ یہ لکھی ہے کہ بےشک سیدنا صدیق اکبر دیتے تھے تو لہذا سیدنا جیبر کا قول کم علمی غلط فھمی پر مبنی ہے معتبر نہیں ہے

" هذا إما مبني على عدم علمه بإعطاء أبو بكر إياهم وسيجيء عن علي ما يدل على أنه كات يعطي، فلعله كان يعطي ولم يطلع عليه جبير والإثبات مقدم علي النفی

 سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ نے یہ جو فرمایا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ذووی القربی کو نہ دیا کرتے تھے تو یہ سید جبیر کی کم علمی ہے کہ انہیں معلوم نہیں تھا... سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ تو دیا کرتے تھے جیسے کہ اگلی والی حدیث سے ثابت ہے... اور ثبوت والی حدیث نفی والی روایت پر مقدم ہے

(فتح الودود في شرح سنن أبي داود3/307)

.

*رسول کریم کی مالی میراث نہیں، انکا مال صدقہ ہے،شیعہ کتب سے کچھ حوالے جات......!!*

رسول الله صلى الله عليه وآله يقول: " نحن معاشر الأنبياء لا نورث ذهبا ولا فضة ولا دارا ولا عقارا وإنما نورث الكتاب والحكمة والعلم والنبوة وما كان لنا من طعمة فلولي الأمر بعدنا أن يحكم فيه بحكمه

 شیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے سونے کا نہ چاندی کا نہ ہی گھر کا نہ ہی زمینوں کا... ہم تو کتاب اور حکمت اور علم کا وارث بناتے ہیں... جو کچھ ہمارا مال ہے وہ ہمارے بعد جو خلیفہ آئے گا اس کے سپرد ہے اس کی صوابدید پر موقوف ہے کہ وہ کس طرح خرچ کرتا ہے

(شیعہ کتاب الاحتجاج - الشيخ الطبرسي1/142)

.

، وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم

 شیعہ کہتے ہیں کہ بے شک علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں اور انبیائے کرام نے کسی کو درہم اور دینار( مالی وراثت )کا وارث نہیں بنایا انکی وراثت تو فقط علم ہے

(شیعہ کتاب الكافي - الشيخ الكليني1/34)


.

أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول: نحن معاشر الأنبياء لا نورث ذهبا ولا فضة ولا دارا ولا عقارا وإنما نورث الكتب (3) والحكمة والعلم والنبوة، وما كان لنا من طعمة فلولي الامر بعدنا ان يحكم فيه بحكمه

شیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے سونے کا نہ چاندی کا نہ ہی گھر کا نہ ہی زمینوں کا... ہم تو کتاب اور حکمت اور علم کا وارث بناتے ہیں... جو کچھ ہمارا مال ہے وہ ہمارے بعد جو خلیفہ آئے گا اس کے سپرد ہے اس کی صوابدید پر موقوف ہے کہ وہ کس طرح خرچ کرتا ہے

(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي29/231)


.

وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: (إنا معاشر الأنبياء لا نورث ذهبا ولا فضة، ولا دارا ولا عقارا. وإنما نورث الكتاب والحكمة، والعلم والنبوة

شیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے سونے کا نہ چاندی کا نہ ہی گھر کا نہ ہی زمینوں کا... ہم تو کتاب اللہ اور حکمت اور علم کا وارث بناتے ہیں

قال: فلما وصل الأمر إلى علي بن أبي طالب عليه السلام كلم  في رد فدك، فقال: إني لأستحي من الله أن أرد شيئا منع منه أبو بكر وأمضاه عمر

شیعہ لکھتے ہیں کہ جب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے باغ فدک کے بارے میں بات کی اور فرمایا کہ مجھے اللہ سے حیا آتی ہے کہ میں ایسا کام کرو کہ سیدنا ابو بکر صدیق نے جس سے منع کیا ہو اور اس کو سیدنا عمر نے جاری کیا ہو

(شیعہ کتاب الشافي في الامامة - الشريف المرتضى4/76)

.

ویسے تو ہم شیعہ کتب کے متعلق کہتے ہیں کہ جھوٹ تضاد گستاخی سے بھری پڑی ہیں مگر کچھ سچ بھی لکھا ہے انہون نے لیھذا کتب شیعہ کی بات قرآن و سنت معتبر کتب اہلسنت کے موافق ہوگی تو وہی معتبر...مذکورہ حوالہ جات موافق قرآن و سنت ہیں، موافق کتب اہلسنت ہین لیھذا معتبر

کیونکہ شیعہ ناصبی جیسے جھوٹے بھی کبھی سچ بول جاتے ہیں ، لکھ جاتے ہیں اگرچہ الٹی سیدھی تاویلیں اپنی طرف سے کرتے ہیں جوکہ معتبر نہیں

قَدْ يَصْدُقُ الْكَذُوبَ

ترجمہ:

بہت بڑا جھوٹا کبھی سچ بول دیتا ہے

(فتح الباری9/56، شیعہ کتاب شرح اصول کافی2/25)

.

سوال:

علامہ صاحب ایک شیعہ دوست نے اسکین بھیجا ہے مجھے بھی کنفیوز کردیا ہے...براءے مہربانی اس کا تسلی بخش تفصیلی جواب عنایت فرمائیں

اسکین میں ایک شیعہ کا دعوی تھا کہ بزاز مسند ابو یعلی تفسیر درمنثور وغیرہ کتب اہلسنت میں صحیح سند کے ساتھ حدیث ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے باغ فدک اپنی حیات مبارکہ ہی میں بی بی فاطمہ کو دے دیا تھا

.

جواب و تحقیق:

تفسیر در منثور کی پوری روایات یہ ہے:

أخرج الْبَزَّار وَأَبُو يعلى وَابْن أبي حَاتِم وَابْن مرْدَوَيْه عَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ رَضِي الله عَنهُ قَالَ: لما نزلت هَذِه الْآيَة {وَآت ذَا الْقُرْبَى حَقه} دَعَا رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَاطِمَة فَأَعْطَاهَا فدك

ترجمہ:

الْبَزَّار وَأَبُو يعلى وَابْن أبي حَاتِم وَابْن مرْدَوَيْه نے ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ نہ  سے روایت کی ہے کہ جب آیت نازل ہوئی کہ رشتے داروں کو ان کا حق تو حضور نے فاطمہ کو بلایا اور انہیں باغ  فدک دے دیا 

[الدر المنثور في التفسير بالمأثور ,5/273]

.

اس روایت کی سند کیا ہے اور کیسی ہے اس پر بات بعد میں کریں گے پہلے امام ابن کثیر کا اس روایت پے تبصرہ پڑھیے آپ لکھتے ہیں:

وَهَذَا الْحَدِيثُ مُشْكَلٌ لَوْ صَحَّ إِسْنَادُهُ؛ لَأَنَّ الآية مكية، وفدك إِنَّمَا فُتِحَتْ مَعَ خَيْبَرَ سَنَةَ سَبْعٍ مِنَ الْهِجْرَةِ

ترجمہ:

اگر اس روایت کی سند کو صحیح مان لیا جائے تو اس پر اشکال وارد ہوتا ہے کہ آیت مکی ہے اور فدک تو (آیت کے نازل ہونے کے کئی سال بعد ) مدینہ میں 7 ہجری میں فتح خیبر کے ساتھ فتح ہوا تھا(یعنی آیت نازل ہوتے وقت باغ فدک رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  کی ملکیت میں ہی نہیں تھا تو انھوں نے بی بی فاطمہ کو کیسے دیا۔۔۔۔؟؟)

(تفسیر ابن کثیر5/69)

.

ایک اور عقلی دلیل ملاحظہ کیجیے:

 المشهور المعتمد عليه ان فاطمة سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم فدك فلم يعطها- كذا روى عن عمر بن عبد العزيز- ولو كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أعطاها فاطمة لما منعها عنها الخلفاء الراشدون لا سيما على رضى الله عنه فى خلافته والله اعلم

ترجمہ:

مشہور اور معتمد یہ ہے کہ بی بی فاطمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باغ فدک کا مطالبہ کیا تھا لیکن رسول اللہ نے ان کو نہیں دیا جیسے کہ عمر بن عبدالعزیز سے مروی ہے.... یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باغ دیا ہو اور خلفاء راشدین نہ دیں خاص طور پر سیدنا علی(کہ انہوں نے بھی اپنی خلافت میں بی بی فاطمہ کے وارثوں میں باغ فدک تقسیم نہ کیا)

[التفسير المظهري ,5/434]

.

اب آتے ہیں تفسیر در منثور کی اس مذکورہ روایت کی سند کی طرف 

اسکی سند یہ ہے

قَرَأْتُ عَلَى الْحُسَيْنِ بْنِ يَزِيدَ الطَّحَّانِ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: هُوَ مَا قَرَأْتُ عَلَى سَعِيدِ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ(مسند ابی یعلی روایت1075)

.حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى التَّيْمِيُّ حَدَّثَنَا فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ

(البزاز بحوالہ تفسیر ابن کثیر5/68)

.

دونوں سندوں میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ مرکزی راوی عطیہ ہے اور عطیہ راوی کے متعلق علمائے جرح و تعدیل کے اقوال ملاحظہ کیجئے 

ضعيف الحديث وكان شيعيا

عطیہ عوفی ضعیف الحدیث ہے اور یہ شیعہ تھا 

(سیراعلام النبلاء5/326)

.

2321 - عَطِيَّة بن سعد أَبُو الْحسن الْكُوفِي ضعفه الثَّوْريّ وهشيم وَيحيى وَأحمد والرازي وَالنَّسَائی

عطیہ بن سعد الکوفی کو امام ثوری نے امام هشيم نے امام یحییٰ نے امام احمد نے امام رازی نے امام نسائی نے ضعیف قرار دیا ہے 

[الضعفاء والمتروكون,2/180]

۔

عطبة بن سعد العوفى [الكوفي]

تابعي شهير ضعيف..كان عطية يتشيع

عطبة بن سعد العوفى الكوفي مشہور تابعی ہے ضعیف ہے اور اس میں شیعیت تھی 

[ميزان الاعتدال ,3/79]

.

وذكر عطية العوفى فقال هو ضعيف الحديث

عطیہ عوفی کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ضعیف الحدیث ہے 

[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ,6/383]

.

وَقَال مسلم بن الحجاج: قال أحمد وذكر عطية العوفي، فقال: هو ضعيف الحديث....وكان يعد مع شيعة أهل الكوفة

امام مسلم نے فرمایا کہ امام احمد نے فرمایا کہ ذکر ہوا عطیہ عوفی کا تو فرمایا کہ وہ ضعیف الحدیث ہے اور یہ کوفی شیعوں میں شمار کیا جاتا تھا 

[تهذيب الكمال في أسماء الرجال148 ,20/147]

.


وَكَذَا ضعفه غير وَاحِد....وَكَانَ شِيعِيًّا

اسی طرح عطیہ عوفی کو کئی علماء نے ضعیف قرار دیا ہے اور یہ شیعہ تھا 

[الوافي بالوفيات ,20/56]

.

عطیہ عوفی کوفی جسکو اکابر علماء جرح و تعدیل نے ضعیف و غیر معتبر شیعہ راوی کہا جب ایسا راوی ایسی روایت کرے کہ جو صحیح روایت کے خلاف ہو عقل اور حقیقت کے بھی خلاف ہو اور اسکی روایت کی مثل و تائید کسی معتبر روایت سے نہ ہو تو یقینا اسکی ایسی منفرد روایت مردود ناقابل حجت کہلائے گی

.

صحیح روایت میں ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدہ فاطمہ نے فدک طلب کیا مگر رسول کریم نہ دیا...


.لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غیرہ

حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فدک وغیرہ اپنی ملکیت ہی میں رکھے کسی کو نہ دیے 

[صحيح البخاري حدیث3094]

اور باغ فدک کے متعلق سنی شیعہ کتب سے تفصیلی دلائل تحریر کے شروع میں لکھ آئے،دوبارہ ملاحظہ کرسکتے ہیں...!!

.

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

New but second whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

old but working whatsap nmbr

03468392475

00923468392475


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.