سیدنا معاویہ پر پانچ سنگین اعتراضات کے علمی تحقیقی جوابات

 *#یوم شہادتِ سیدنا علی کے دن سیدنا معاویہ پر پانچ سنگین اعتراض پھیلائے جارہے ہیں،ان کے  علمی و تحقیقی جوابات......!!*

سوال:

علامہ صاحب یہ تحریر وائرل کی جارہی ہے...جلد از جلد جواب لکھ بھیجیے، جزاکم اللہ خیرا

.

*#جواب.و.تحقیق.......!!*

*#شیعہ روافض نیم روافض کا پہلا اعتراض*

امام ابن عساکر رضي الله عنه اپنی اسنادِ جید کے ساتھ بحوالہ امام ابوداؤد الطیاسی رضي الله عنه بیان کرتے

ہیں حضرت اسود بیان کرتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضي الله عنه سے کہا کیا آپ اس شخص (معاويه) پر تعجب نہیں کرتی جو طلقاء میں سے ہے اور خلافت کے معاملہ میں رسول اللہ کے اصحاب (امیر المومنین علی) سے جھگڑتا ہے

تو عائشہ رضي الله عنه نے فرمایا : نہیں تعجب والی بات نہیں، یہ اقتدار الہی ہے وہ نیک و بد کو بھی عطا کرتا ہے اس نے فرعون کو اہل مصر پر چار سو سال تک بادشاہ بنایا اور اسی طرح دیگر کفار کو بھی :(البداية والنهاية (ت: التركي)

الجزء الحادی عشر ، ص/ 130-131

یعنی نعوذ باللہ سیدنا معاویہ کی حکومت فرعون جیسی ہے

.

*#جواب.و.تحقیق......!!*

روایت باطل و مردود و جھوٹی ہے کیونکہ معنوی طور پر بھی صحیح کے خلاف ہے اور اسکے کچھ راوی بھی جھوٹے باطل مردود برے حافظے والے غیرمعتبر ہیں

*#پہلی بات....!!*

سأَلت يَحيَى بن مَعِين، عن أَيوب بن جابِر، فقال: ذَهَبت الى أَيوب بن جابِر وقَد كَتَبت عنه، وكان أَيوب بن جابِر، ومُحمد بن جابِر لَيسا بِشَيء

 امام یحیی ابن معین فرماتے ہیں کہ ایوب بن جابر اور محمد بن جابر دونوں کی کوئی حیثیت نہیں

(الجامع لكتب الضعفاء والمتروكين والكذابين2/507)

.

وَقَالَ أَبُو زُرْعَةَ [٥] : وَاهِي الْحَدِيثِ

امام ابو زرعہ فرماتے ہیں ایوب بن جابر واھیات ہے

(تاريخ الإسلام - ت تدمري12/79)

.

عيسى بن يونس، أنه كان يرميه بالكذب. قيل له: فأيش كان حاله، أيش أنكروا عليه؟ قال: رأوا لُحوقًا في كتابه

 امام عیسی بن یونس ایوب بن جابر کو جھوٹا کہتے تھے،پوچھا گیا کیوں...؟ آپ نے فرمایا اسکی کتابوں روایتوں میں بہت کچھ جھوٹ ملایا گیا ہے

(الجامع لعلوم الإمام أحمد - الرجال16/286)

.

خطِئُ حَتَّى خَرَجَ عَنْ حَدِّ الاحْتِجَاجِ بِهِ؛ لِكَثْرَةِ وَهْمِهِ

امام ابن حبان نے فرمایا: ایوب بن جابر بہت وھم و خطاء والا تھا کہ جسکی وجہ سے اسکی روایت و حدیث سے دلیل نہیں پکڑ سکتے

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة8/236)

.


: أيوب بن جابر بن سَيَّار اليمامي (٣)، عن سماك بن حرب، وغيره، قال يحيى: ليس بشيء. وقال (٤) ابن المديني يضع حديثه. وقال أبو زرعة: واه

 امام ابن معین فرماتے ہیں کہ ایوب بن جابر کی کوئی حیثیت نہیں اور امام ابن المدینی فرماتے ہیں کہ یہ من گھڑت جھوٹی حدیثیں روایتں بیان کرتا تھا گھڑ لیتا تھا اور امام ابوزرعہ نے فرمایا کہ یہ واہیات راوی ہے

(بهجة المحافل وأجمل الوسائل بالتعريف برواة الشمائل1/146)


.

بعض آئمہ نے روایت لی ہے تو اسکی وجہ یہ ہوگی کہ وہ روایت دیگر روایات کے موافق ہوگی جبکہ اسکی یہ روایت کسی دوسری صحیح روایت کے موافق نہیں بلکہ معتبر روایات کے خلاف ہے کہ ایک صحابی پر اتنا بڑا طعن و اعتراض کرنا فرعونیت کا فتوی لگانا کوئی معمولی بات نہیں کہ ایسے ویسے کی بھی روایت قبول کر لیں......!!

.

تغير قبل موته من الكبر وساء حفظه

 ابو اسحاق کا حافظہ خراب ہو گیا تھا

(كتاب من تكلم فيه وهو موثق ت أمرير ص208)

.

كان تغيَّر، وهو مُدلِّسٌ أيضًا

ابواسحاق سبیعی کا حافظہ خراب ہو گیا تھا اور وہ مدلس بھی ہے

(نثل النبال بمعجم الرجال4/117)

.

- أبو إسحاق السَّبِيعي. قال الترمذي: أبو إسحاق في آخر أمره كان قد ساء حفظه....كان يدلس

 امام ترمذی فرماتے ہیں کہ ابو اسحاق کا حافظہ خراب ہو گیا تھا اور وہ تدلیس کرتا تھا

(معجم الجرح والتعديل لرجال السنن الكبرى ص185)

.

 حافظہ خراب اور اوپر سے تدلیس جیسی بری صفت....یقینا ایسے راوی کی بات روایت ایسے معاملات میں ہرگز ہرگز قبول نہ ہوگی...باطل من گھڑت مردود کہلائے گی

بعض آئمہ نے جو ان سے روایات لیں ان میں عن نہیں ہوگا تدلیس نہیں ہوگی یا انکا متابع ہوگا یا اول وقت کی روایت ہوگی ورنہ محض ان سے ہی روایت ہو باقی کوئی ایسی روایت نہ کرے تو بھلا ایسے خراب حافظے والے مدلس کی روایت کیسے قبول کی جاسکتی ہے

.

*#دوسری بات.....!!*

امام ابن عساکر کے مطابق سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاتب وحی صحابی پابند اسلام نیک بادشاہ ہیں تو امام ابن عساکر انکو کیسے غیر صحابی فاسق فاجر فرعونی قسم کا بادشاہ ثابت کریں گے.....؟؟ لیھذا ابن عساکر نے جو روایت لکھی اسے معتبر سمجھ کر نہیں لکھا بلکہ ایک غیرمعتبر بات کے طور پر لکھا ہے

معاوية بن صخر أبي سفيان بن حرب بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف أبو عبد الرحمن الأموي خال المؤمنين وكاتب وحي رب العالمين أسلم يوم الفتح وروى عنه أنه قال أسلمت يوم القضية وكتمت إسلامي خوفا من أبي وصحب النبي (صلى الله عليه وسلم) وروى عنه أحاديث....فملك الناس كلهم عشرين سنة  بالملك ففتح الله به الفتوح ويغزو الروم ويقسم الفئ والغنيمة ويقيم الحدود والله لا يضيع أجر من أحسن عملا

یعنی

 امام ابن عساکر فرماتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اموی ہیں، مومنوں کے ماموں کاتب وحی صحابی ہیں، فتح مکہ کے دن اسلام ظاہر کیا اور مروی ہے کہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے تھے... تقریبا 20 سال بادشاہ رہے اللہ تعالی نے آپ کی وجہ سے بے بہت فتوحات عطا فرمائیں اور غزوہ روم بھی آپ نے کیا ، آپ پابند اسلام تھے اسلام کی حدود کی سخت پاسداری فرماتے تھے اور اللہ ان جیسے نیکوں کا صلہ ضائع نہیں کرتا

(تاریخ دمشق ابن عساکر61، 59/55)

.

*#تیسری بات.......!!*

امام ابوداود طیالسی نے اپنی ایک کتاب مسند ابی داؤد الطیالسی میں کم و بیش پندرہ(15)احادیث سیدنا معاویہ سے روایت کی، اگر نعوذ باللہ امام طیالسی کے مطابق سیدنا معاویہ فاجر غیر معتبر ظالم ہوتے تو بھلا ایسے شخص سے حدیث کون لیتا ہے.....؟؟ سیدنا معاویہ سے احادیث لینا بھی اس بات کی گواہی ہے کہ سیدنا معاویہ فاجر و غیر صحابی نہ تھے بلکہ نیک مجتہد صحابی تھے لیھذا مذکورہ روایت میں امام طیالسی کا نام آنا اس بات کی گواہی ہے کہ یہ من گھڑت ہے کیونکہ امام طیالسی تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو معتبر صالح نیک سمجھتے تھے ان سے روایات و احادیث لکھتے تھے

.

*#چوتھی بات......!!*

*سیدہ عائشہ کا فرمان کہ معاویہ اچھے ہیں،کچھ معاملات کی وجہ سے سیدنا معاویہ کے متعلق اگر سیدہ عائشہ نے کچھ اگرچہ فرمایا بھی تو سیدنا معاویہ نے عذر سنایا وضاحت دی اور سیدہ عائشہ نے عذر قبول کر لیا لیھذا معاذ اللہ فاجر فرعونی ظالم حاکم کہنے والی روایت باطل ہے....!!*


كَيْفَ أَنَا فِي حَاجَاتِكِ وَرُسُلِكِ وَأَمْرِكِ؟، قَالَتْ: صَالِحٌ

 سیدنا معاویہ نے فرمایا کہ( اجتہاد کی بنیاد پے جنگ و قتل کو چھوڑییے)آپ کے معاملے میں اے سیدہ عائشہ میں کیسا ہوں...؟؟ سیدہ عائشہ نے فرمایا آپ اچھے ہیں

(المعجم الكبير للطبراني19/319)

(دلائل النبوة للبيهقي6/457)

.

يَا أمَّ الْمُؤْمِنِينَ كَيْفَ أَنَا فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنْ حَاجَاتِكَ وَأَمْرِكَ؟ قَالَتْ: صَالِحٌ...فَلَمْ يَزَلْ يَتَلَطَّفُ حَتَّى دَخَلَ فَلَامَتْهُ فِي قَتْلِهِ حُجْرًا، فَلَمْ يَزَلْ يَعْتَذِرُ حَتَّى عَذَرَتْهُ

(اجتہاد کی بنیاد پے جنگ و قتل کو چھوڑییے) اے ام المومنین اس کے علاوہ میں کیسا ہوں تو سیدہ عائشہ نے فرمایا اچھے ہیں... سیدنا حجر کے قتل کے معاملے میں سیدہ عائشہ نے سیدنا معاویہ کی ملامت فرمائی تو سیدنا معاویہ نے عذر پیش کیا یہاں تک کہ سیدہ عائشہ نے عذر قبول کر لیا

(البداية والنهاية ت شيري8/60)

.

*#پانچویں بات…....!!*

 شیعہ روافض نیم روافض کی پیش کردہ روایت جس میں کہا گیا ہے کہ سیدنا معاویہ صحابی نہیں ہیں اس روایت کا ایک راوی عبد الرحمن بن محمد بن یاسر جوبری ہے... تو اس کا یہ مطلب بنا کے جوبری کے مطابق سیدنا معاویہ صحابی نہیں ہیں حالانکہ جوبری سے ثابت ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ صحابی ہیں

حَتَّى أَدْرِي مَذْهَبَكَ فِي مُعَاوِيَة. فَقُلْتُ: صَاحِبِ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، وَتَرَحَّمْتُ عَلَيْهِ

عبد الرحمن بن محمد بن یاسر جوبری سے کہا کہ سیدنا معاویہ کے متعلق اپنا نظریہ عقیدہ بتاؤ...عبد الرحمن بن محمد بن یاسر جوبری نے کہا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور ان پر اللہ تعالی کی خصوصی رحمت ہو

(سیر اعلام النبلاء13/134)

اس سے بھی اشارہ ملتا ہے کہ مذمت والی شیعہ روافض نیم روافض کی پیش کردہ روایت باطل من گھڑت جھوٹی ہے

.##################

*#شیعہ روافض نیم روافض کا دوسرا اعتراض…!!*

تحریر میں لکھا ہے کہ طلقاء کا شمار صحابہ کرام میں نہیں ہوتا...دلیل کے طور پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول پیش کیا گیا کہ:

وَتَحَرَّوْا لِحَرْبِ عَدُوِّکُمْ، فَانْتَبِهُوا إِنَّمَا تُقَاتِلُونَ الطلقاء وَأَبْنَاءَ الطلقاء وَ أَهْلَ الْجَفَاءِ، وَ مَنْ أَسْلَمَ کَرْهاً... وَلِلْإِسْلَامِ کُلِّهِ حَرْباً، أَعْدَاءَ السُّنَّةِ وَالْقُرْآنِ، وَ أَهْلَ الْبِدَعِ وَالْأَحْدَاثِ، وَ أَکَلَةَ الرِّشَا، وَ عَبِیدَ الدُّنْیا»

اپنے دشمنوں سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ اور جان لو کہ تم طلقاء اور ان کے بیٹوں اہل جفا سے نبرد آزما ہو جو دباؤ کے تحت ڈر کے مارے اسلام لائے یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اسلام سے جنگ کرتے رہے یہ لوگ قرآن و سنت کے دشمن ہیں یہی لوگ اہل بدعت ہیں یہی لوگ راشی اور دنیا کے رسیا بندے ہیں۔

(دینوری، ابن‌قتیبه؛ الامامه والسیاسه، بیروت، دارالاضواء، 1410 ق، طبع اول، ص178.)

.

*#پہلی بات......!!*

الامامۃ و السیاسۃ معتبر اہلسنت کتاب نہیں بلکہ متنازعہ کتاب ہے حتی کہ بعض نے اسے ابن قتیبہ کی تصنیف ہی قرار نہ دیا بعض نے لکھا کہ ابن قتیبہ دو تھے ایک سنی ایک شیعہ،شیعہ نے کتاب لکھی اور شیعہ اسے سنی مصنف کہہ کر دھوکہ دیتے ہیں..(دیکھیے میزان الکتب ص 275 لسان المیزان ر4460)

.

*#دوسری بات.....!!*

 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی اتنی بڑی بات اور اتنا بڑا فتوی... یقینا ایسی بات کے لئے سند کا ہونا بہت ضروری ہے، حالانکہ اس کی کوئی بھی سند موجود نہیں ہے اور جب سند موجود نہ ہو تو ایسی بات معتبر نہیں کہلاتی بلکہ جھوٹ کہلاتی ہے کہ جو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف منسوب کی گئی ہے

الإِسْنَادُ مِنَ الدِّينِ. وَلَوْلَا الإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ

 سند دین کے اصولوں میں سے ہے اگر سند (لانے لکھنے کی سختی)نہ ہوتی تو جو شخص جو منہ میں آتا کہہ دیتا

(صحيح مسلم - ت عبد الباقي1/15)

(شرح صحيح البخاري للحويني4/1)

(العلل الواقع بآخر جامع الترمذي - ت بشار ص232نحوہ)

(الكافي في علوم الحديث ص403)

(مقدمة ابن الصلاح ومحاسن الاصطلاح ص437)

(الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي2/213)اور بھی بہت ساری کتب میں ایسا لکھا ہے

.

*#تیسری بات.....!!*

مزکورہ روایت میں سیدنا معاویہ وغیرہ کو اسلام دشمن منافق قران و سنت کا دشمن کہا گیا ہے جبکہ سیدنا علی کے مطابق سیدنا معاویہ ایسے نہ تھے

نہج البلاغۃ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم موجود ہے کہ:

ومن كلام له عليه السلام وقد سمع قوما من أصحابه يسبون أهل الشام أيام حربهم بصفين إني أكره لكم أن  تكونوا سبابين، ولكنكم لو وصفتم أعمالهم وذكرتم حالهم كان أصوب في القول

جنگ صفین کے موقعے پر اصحابِ علی میں سے ایک قوم اہل الشام (سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرھما رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین) کو برا کہہ رہے تھے، لعن طعن کر رہے تھے

تو

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا:

تمہارا (اہل شام، معاویہ ، عائشہ صحابہ وغیرہ کو) برا کہنا لعن طعن کرنا مجھے سخت ناپسند ہے ، درست یہ ہے تم ان کے اعمال کی صفت بیان کرو...(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ ص437)

.

ثابت ہوا سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہ صحابہ کرام کی تعریف و توصیف کی جائے، شان بیان کی جائے....یہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پسند ہے....ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہھما صحابہ کرام پر لعن طعن گالی و مذمت کرنے والے شیعہ ذاکرین ماکرین  رافضی نیم رافضی محبانِ اہلِ بیت نہیں بلکہ نافرمان و مردود ہیں،انکےکردار کرتوت حضرت علی کو ناپسند ہیں..سخت ناپسند

.

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

والظاهر أن ربنا واحد ونبينا واحد، ودعوتنا في الاسلام واحدة. لا نستزيدهم في الإيمان بالله والتصديق برسوله صلى الله عليه وآله ولا يستزيدوننا. الأمر واحد إلا ما اختلفنا فيه من دم عثمان

 یہ بات بالکل واضح ہے ظاہر ہے کہ ان(سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہ)کا اور ہمارا رب ایک ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہے، انکی اور ہماری اسلامی دعوت و تبلیغ ایک ہے، ہم ان کو اللہ پر ایمان رسول کریم کی تصدیق کے معاملے میں زیادہ نہیں کرتے اور وہ ہمیں زیادہ نہیں کرتے...ہمارا سب کچھ ایک ہی تو ہے بس صرف سیدنا عثمان کے قصاص کے معاملے میں اختلاف ہے

(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ3/114)

 ثابت ہوا کہ سیدنا علی کا ایمان سیدنا معاویہ کا ایمان سیدنا معاویہ کا اسلام سیدنا علی کا اسلام اہل بیت کا اسلام صحابہ کرام کا اسلام قرآن و حدیث سب کے سب معاملات میں متفق ہی تھے،سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ سب کے مطابق قرآن و حدیث میں کوئی کمی بیشی نہ تھی....پھر کالے مکار بے وفا ایجنٹ غالی جھوٹے شیعوں نے الگ سے حدیثیں بنا لیں، قصے بنا لیے،الگ سے فقہ بنالی، کفریہ شرکیہ گمراہیہ نظریات و عمل پھیلائے، سیدنا علی و معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام کے اختلاف کو دشمنی منافقت کفر کا رنگ دے دیا...انا للہ و انا الیہ راجعون

.

هذا ما صالح عليه الحسن بن علي بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان: صالحه على أن يسلم إليه ولاية أمر المسلمين، على أن يعمل فيهم بكتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وآله وسيرة الخلفاء الصالحين

(شیعوں کے مطابق)امام حسن نے فرمایا یہ ہیں وہ شرائط جس پر میں معاویہ سے صلح کرتا ہوں، شرط یہ ہے کہ معاویہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سیرتِ نیک خلفاء کے مطابق عمل پیرا رہیں گے

(شیعہ کتاب بحار الانوار جلد44 ص65)

سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "نیک خلفاء کی سیرت" فرمایا جبکہ اس وقت شیعہ کے مطابق فقط ایک خلیفہ برحق امام علی گذرے تھے لیکن سیدنا حسن "نیک خلفاء" جمع کا لفظ فرما رہے ہیں جسکا صاف مطلب ہے کہ سیدنا حسن کا وہی نظریہ تھا جو سچے اہلسنت کا ہے کہ سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم خلفاء برحق ہیں تبھی تو سیدنا حسن نے جمع کا لفظ فرمایا...اگر شیعہ کا عقیدہ درست ہوتا تو "سیرت خلیفہ" واحد کا لفظ بولتے امام حسن....اور دوسری بات یہ بھی کہ سیدنا معاویہ خلفاء راشدین کی راہ حق پے چلے ورنہ سیدنا حسن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھما ضرور بیعت توڑ دیتے،سیدنا حسن حسین کی صلح رسول کریم کی صلح ہے جو سیدنا معاویہ کو عادل بادشاہ بنا دیتی ہے

.الحدیث:

أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ، وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ

ترجمہ:

(رسول کریم نے حسن حسین وغیرہ اہلبیت سے فرمایا) تم جس سے جنگ کرو میری اس سے جنگ ہے،تم جس سے صلح کرو میری اس سے صلح ہے

(اہلسنت کتاب صحیح ابن حبان حدیث6977)

(شیعہ کتاب بحار الانوار32/321)

.

عن أبى مسلم الخولانى أنه قال لمعاوية: أنت تنازع عليا فى الخلافة أو أنت مثله؟ ، قال: لا، وإنى لأعلم أنه أفضل منى وأحق بالأمر ولكن ألستم تعلمون أن عثمان قتل مظلوما وأنا ابن عمه ووليه أطلب بدمه؟

ابو مسلم الخولانى فرماتے ہیں میں نے سیدنا معاویہ سے کہا کہ آپ خلافت کے معاملے میں سیدنا علی سے جھگڑا کر رہے ہیں کیا آپ سیدنا علی کی مثل ہیں...؟؟ سیدنا معاویہ نے فرمایا ہرگز نہیں اور بے شک میں جانتا ہوں کہ بے شک وہ(سیدنا علی) مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے زیادہ حقدار ہیں لیکن کیا تم یہ نہیں جانتے کہ سیدنا عثمان ظلماً شہید کئے گئے اور میں اس کے چچا کا بیٹا ہوں اور اسکا ولی ہوں ...کیا میں اس کے خون کا قصاص طلب نہیں کر سکتا....؟؟

(روضة المحدثين7/242)

سیدنا معاویہ و سیدنا علی کا اجتہادی اختلاف تھا مگر آپس میں نفرت و دشمنی نہ رکھتے تھے

.

قَالَ مُعَاوِيَةُ لِضَرَارٍ الصَّدَائِيِّ : يَا ضَرَّارُ، صِفْ لِي عَلِيًّا....فبكى مُعَاوِيَة وَقَالَ: رحم الله أَبَا الْحَسَن، كَانَ والله كذلك، فكيف حزنك عَلَيْهِ يَا ضرار؟ قَالَ: حزن من ذبح ولدها  وَهُوَ فِي حجرها. وكان مُعَاوِيَة يكتب فيما ينزل بِهِ ليسأل لَهُ علي بْن أَبِي طالب رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ ذَلِكَ، فلما بلغه قتله قَالَ: ذهب الفقه والعلم بموت ابْن أَبِي طالب

 سیدنا معاویہ نے سیدنا ضرار سے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان بیان کرو میں سننا چاہتا ہوں... سیدنا ضرار نے طویل شان بیان کی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ روتے ہوئے فرمانے لگے اللہ کی قسم سیدنا علی ایسے ہی تھے... اے ضرار تمہیں سیدنا علی کی وفات پر جو غم ہے وہ بیان کرو... سیدنا ضرار نے فرمایا کہ مجھے غم ایسا ہے جیسے کسی کی اولاد اس کی جھولی میں ہی شہید کر دی جائے.... سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالئ عنہ مسائل میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف لکھ کر پوچھا کرتے تھے جب سیدنا معاویہ کو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کی خبر ملی تو فرمایا کہ آج فقہ اور علم چلا گیا

(الاستيعاب في معرفة الأصحاب ,3/1108)

سیدنا معاویہ و سیدنا علی کا اختلاف تھا مگر آپس میں نفرت و دشمنی نہ رکھتے تھے

.

*#چوتھی بات.........!!*

*سیدنا معاویہ صحابی ہیں، چند حوالے ملاحظہ کیجیے...!!*

دَعَوْنَا مِنْ مُعَاوِيَةَ فَإِنَّهُ قَدْ صَحِبَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں سیدنا معاویہ کے متعلق نازیبا بات نہ کرو وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں

(المعجم الكبير للطبراني11/124)

(الشريعة للآجري5/2459نحوه)

(مشكاة المصابيح1/399نحوہ)

.

قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: أَيُّهُمَا أَفْضَلُ: مُعَاوِيَةُ أَوْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ؟ فَقَالَ: «مُعَاوِيَةُ أَفْضَلُ، لَسْنَا نَقِيسُ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا» . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِيَ الَّذِينَ بُعِثْتُ فِيهِمْ

 امام احمد بن حنبل سے سوال کیا گیا کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز، امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں... ہم کسی غیر صحابی(حتی کہ عظیم الشان تابعی وغیرہ جیسے عمر بن عبدالعزیز)کو(سیدنا معاویہ وغیرہ)کسی صحابی کے برابر نہیں کرسکتے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے افضل ترین وہ لوگ(صحابہ) ہیں کہ جن میں میں ظاہری حیات رہا

(السنة لأبي بكر بن الخلال2/434)

ثابت ہوا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فضیلت والے صحابی ہیں، غیر صحابی بڑے بڑے متقی پرہیزگار صوفیاء اولیاء علماء سیدنا معاویہ کے برابر نہیں ہوسکتے

.

سَأَلْتُ أَبَا أُسَامَةَ أَيُّمَا كَانَ أَفْضَلَ مُعَاوِيَةُ أَوْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ؟ فَقَالَ: لَا نَعْدِلُ بِأَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا

 ابو اسامہ سے سوال کیا کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز، آپ نے فرمایا کہ ہم کسی غیر صحابی(حتی کہ عظیم الشان تابعی وغیرہ جیسے عمر بن عبدالعزیز)کو(سیدنا معاویہ وغیرہ)کسی صحابی کے برابر نہیں کرسکتے

(جامع بيان العلم وفضله2/1173)

ثابت ہوا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فضیلت والے صحابی ہیں، غیر صحابی بڑے بڑے متقی پرہیزگار صوفیاء اولیاء علماء سیدنا معاویہ کے برابر نہیں ہوسکتے

.

وَقَالَ رَجُلٌ لِلْمُعَافَى بْنِ عِمْرَانَ: أَيْنَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنْ مُعَاوِيَةَ ؟! .. فَغَضِبَ وَقَالَ: لَا يُقَاسُ بِأَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ

 ایک شخص نے المعافی سے پوچھا کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز کا مرتبہ سیدنا معاویہ کے معاملے میں کتنا ہے...؟؟ آپ غضبناک ہو گئے اور فرمایا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی صحابی(سیدنا معاویہ وغیرہ) کے برابر کوئی نہیں ہو سکتا

(الشفا بتعريف حقوق المصطفى2/123)

ثابت ہوا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فضیلت والے صحابی ہیں، غیر صحابی بڑے بڑے متقی پرہیزگار صوفیاء اولیاء علماء سیدنا معاویہ کے برابر نہیں ہوسکتے

.

معاوية بن أبى سفيان الصحابى ابن الصحابى

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنھما صحابی ہیں اور آپ کے والد بھی صحابی ہیں

(تهذيب الأسماء واللغات2/101)



.

معاوية بن أبى سفيان صخر بن حرب بن أمية الأموى: أبو عبد الرحمن الخليفة، صحابى

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اموی خلیفہ اور صحابی ہیں(مغاني الأخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار3/555)

.

مُعَاوِيَةَ وَيَقُولُ: كَانَ مِنَ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ

سیدنا فضیل فرماتے ہیں سیدنا معاویہ اصحاب محمد کے علماء صحابیوں میں سے ہیں

(السنة لأبي بكر بن الخلال2/438)

.

مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ) : وَهُمَا صَحَابِيَّانِ

 سیدنا معاویہ صحابی ہیں اور سیدنا ابو سفیان بھی صحابی ہیں

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح1/364)

.

 علامہ ابن صلاح فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل و دیندار ہیں( فاسق و فاجر دنیادار ظالم منافق نہیں) وہ صحابہ کرام بھی عادل و دیندار ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے(جیسے سیدنا معاویہ وغیرہ) اس پر معتدبہ علماء کا اجماع ہے..خطیب بغدادی فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل و دیندار ہیں(فاسق و فاجر ظالم دنیادار منافق نہیں)صحابہ کرام کی تعدیل اللہ نے فرمائی ہے اور اللہ نے ان کی پاکیزگی کی خبر دی ہے 

(امام ابن حجر عسقلانی.. الإصابة في تمييز الصحابة، 1/22)

ثابت ہوا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ جو جنگوں میں پڑے وہ سب کے سب نیک عادل صحابی ہیں اس پر تمام معتبر علماء کا اجماع ہے اور یہ نظریہ  قرآن و حدیث سے ثابت ہے

.

وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ مِنَ الْعُدُولِ الْفُضَلَاءِ وَالصَّحَابَةِ النُّجَبَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَمَّا الْحُرُوبُ الَّتِي جَرَتْ فَكَانَتْ لِكُلِّ طَائِفَةٍ شُبْهَةٌ اعْتَقَدَتْ تَصْوِيبَ أَنْفُسِهَا بِسَبَبِهَا وَكُلُّهُمْ عُدُولٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَمُتَأَوِّلُونَ فِي حُرُوبِهِمْ وَغَيْرِهَا وَلَمْ يُخْرِجْ شئ مِنْ ذَلِكَ أَحَدًا مِنْهُمْ عَنِ الْعَدَالَةِ لِأَنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ اخْتَلَفُوا فِي مَسَائِلَ مِنْ مَحَلِّ الِاجْتِهَادِ كَمَا يَخْتَلِفُ الْمُجْتَهِدُونَ بَعْدَهُمْ فِي مَسَائِلَ مِنَ الدِّمَاءِ وَغَيْرِهَا وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ نَقْصُ أَحَدٍ مِنْهُمْ

سیدنا معاویہ عادل و دیندار فضیلت والے نجباء صحابہ میں سے ہیں باقی جو ان میں جنگ ہوئی تو ان میں سے ہر ایک کے پاس شبہات تھے اجتہاد جس کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی عادل ہونے کی صفت سے باہر نہیں نکلتا اور ان میں کوئی نقص و عیب نہیں بنتا

(امام نووي ,شرح النووي على مسلم ,15/149)

.

*#چوتھی بات......!!*

*#اگر سیدنا معاویہ کو طلقاء مان بھی لیا جائے تو طلقاء کہنے سے صحابیت کی نفی نہیں ہوتی جیسے مہاجر و انصار کہنے سے صحابیت کی نفی نہیں ہوتی......!!*

.

أنه صحابي من الطلقاء

 بے شک وہ صحابی ہیں طلقاء میں سے ہیں

(التنوير شرح الجامع الصغير5/194)

.

الصَّحَابِيُّ، مِنَ الطُّلَقَاءِ

وہ صحابی ہیں طلقاء میں سے ہیں

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة2/543)

.

ذكره ابن سعد، والطّبريّ: وابن شاهين في الصحابة، وكان من الطلقاء

  امام ابن سعد اور امام طبری اور امام ابن شاہین نے انہیں صحابہ میں شمار کیا اور وہ طلقاء میں سے تھے

(الإصابة في تمييز الصحابة4/301)

.

أَبُوْهُ مِنَ الطُّلَقَاءِ، وَمِمَّنْ حَسُنَ إِسْلاَمُهُ

 ان کے والد طلقاء میں سے تھے اور ان کا اسلام لانا اچھا ہو گیا تھا

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة3/484)

.

معاوية) بنُ أبي سفيانَ خالُ المؤمنين وأميرُهم، الأمويُّ -بضم الهمزة- الصّحابيُّ بنُ الصحابيِّ، كان من مُسلمة الفتح، ومن المؤلَّفة قلوبهم، ثمَّ حَسُنَ إسلامه كأبيه وأمه هند بنت عتبة

یعنی

 سیدنا معاویہ ماموں ہیں مومنین کے اور مومنوں کے امیر ہیں،صحابی ہیں، صحابی کے بیٹے ہیں،فتح مکہ کے دن ایمان ظاہر کیا،پہلے پہل مولفۃ القلوب میں سے تھے پھر اسلام لانا انکا اچھا ہوگیا، اسلام پر اچھائی و پابندی کے ساتھ رہے جیسے کہ انکا والد ابوسفیان اور انکی والدہ ھندہ(کا اسلام اچھا ہوگیا تھا،اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے)

(كشف اللثام شرح عمدة الأحكام3/472)

.

 سیدنا ابو سفیان سیدنا معاویہ سیدنا حکیم سیدنا حارث سیدنا صفوان سیدنا سہیل سیدنا حویطب سیدنا علاء سیدنا عیینہ سیدنا اقرع سیدنا مالک بن عوف سیدنا عباس بن مرداس سیدنا قیس سیدنا جبیر

یہ سب پہلے پہل مولفۃ القلوب میں سے تھے پھر اسلام لانا انکا اچھا ہوگیا، اسلام پر اچھائی پابندی کے ساتھ رہے 

(كتاب المعارف1/342)

.

ابْنُ عَمِّ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الطُّلَقَاءِ الَّذِيْنَ حَسُنَ إِسْلاَمُهُم..

 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے طلقاء میں سے تھے پھر ان کا اسلام اچھا ہوگیا،اسلام پر اچھائی پابندی کے ساتھ رہے

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة3/95)

.

أسلم هو وأبوه يوم فتح مكة، وشهد حُنينًا وكان من المؤلفة قلوبهم، ثم حسن إسلامه

سیدنا معاویہ اور انکے والد سیدنا ابو سفیان فتح مکہ کے دن ایمان لائے جہاد حنین (وغیرہ) میں شریک ہوئے، پہلے پہل مولفۃ القلوب تھے پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے

(تاريخ الخلفاء سيوطي ص148)

.

ومعاوية بن أبي سفيان ثمّ حسن إسلامه

سیدنا معاویہ پہلے پہل مولفۃ القلوب تھے پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے

(درج الدرر في تفسير الآي والسور ط الفكر1/777)

.

، وكان هو وأبوه من المؤلَّفة قلوبهم، ثم حَسُنَ إسلامُهما

سیدنا معاویہ اور انکے والد ابو سفیان پہلے پہل مولفۃ القلوب تھے پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے

(التاريخ المعتبر في أنباء من غبر1/286)

.

العلماء متفقون على حسن إسلامه

علماء متفق ہیں کہ سیدنا معاویہ کا اسلام لانا اچھا ہوگیا تھا،اسلام پر اچھائی سے رہے

(الإصابة في الذب عن الصحابة  ص220)

.

أبو سفيان بن حرب» ، و «معاوية» ابنه، ثم حسن إسلامهما

سیدنا معاویہ اور انکے والد سیدنا ابو سفیان فتح مکہ کے دن ایمان لائے(پہلے پہل مولفۃ القلوب میں سے تھے) پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے

(المعارف ابن قتيبة 1/342)

.################

*#شیعہ روافض نیم روافض کا تیسرا اعتراض......!!*

حضرت سعید بن جمہان رضي الله عنه روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے صحابیِ رسولٌ سیدنا سفینہ رضي الله عنه  بیان کیا کہ

قال حدثني سعيد بن جمهان رضي الله عنه قال حدثني سفينة رضي الله عنه قال خطبنا النبي صلى الله عليه و آله وسلم فقال: الخلافةُ النبوَّة في أمتي ثلاثون سنة ثم تكونُ ملكا عَضُوضًا :

رسول اللہ نے خطبہ ارشاد فرمایا پھر فرمایا میری امت میں نبوت کی خلافت تیس سال ہو گی اس کے بعد ظالمانہ بادشاہت ہو گی :قَالَ لِي سَفِينَةُ رضي الله عنه : أَمْسِكْ خِلَافَةَ أَبِي بَكْرٍ رضي الله عنه  وَ خِلَافَةَ عُمَر رضي الله عنه َخِلَافَةَ عُثْمَانَ رضي الله عنه ، وَخِلَافَةَ عَلِي رضي الله عنهٍّ ثُمَّ قَالَ لِیی اُمْسِکُ خِلافَتَ حَسنُ رضي الله عنه ما فَوَجَدْنَا هَا ثَلَاثِينَ سَنَةً،

قَالَ سَعِيد رضي الله عنه ٌ: فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ بَنِي أُمَيَّةَ يَزْعُمُونَ أَنَّ الخِلَافَةَ فِيهِمْ ؟قَالَ سفينة رضي الله عنه  : كَذَبُ بَنُو الزَّرْقَاءِ بَلْ هُمْ مُلُوكٌ مِنْ شَرِّ المُلُوكِ وَ أَوَّلَ الْمُلُوكِ مُعَاويةَ: (اَلْحَدَيْث اَلْحُسنْ:)پھر سفینہ رضي الله عنه نے مجھ سے کہا ابو بکرٌ کی خلافت لے لو، پھر عمرٌ پھر عثمانٌ پھر علیٌ کی خلافت لے لو پھر کہا حسنٌ کی خلافت لے لو پس ہم نے انکو تیس سال پایا:سعید بن جمھان کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا سفینہ سے پوچھا کہ بنواُمیہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ بھی خلافت والے ہیں؟تو سیدنا سفینہ نے کہا: زرقا کی اولاد جھوٹ بولتی ہے بلکہ وہ تو بادشاہ ہیں بہت ہی بدترین بادشاہ اور انکا پہلا بادشاہ معاویہ ہے

.

*#جواب.و.تحقیق.....!!*

*#پہلی بات.......!!*

اس روایت میں ہے کہ بنو زرقاء نے جھوٹ بولا......اس جملے سے شیعہ روافض نیم روافض نے واضح طور پر یہ تاثر دیا کہ صحابی سیدنا سفینہ نے بنو زرقاء سے مراد سیدنا معاویہ سے لیکر آگے تک کے حکمران مراد لیے ہیں

جبکہ

ابوداود میں ہے کہ سیدنا سفینہ نے بنو زرقاء سے مراد بنو مروان مراد لیے ہیں

بَنِي الزَّرْقَاءِ. يَعْنِي بَنِي مَرْوَانَ

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ بعض برے بادشاہ ہونگے وہ بنو زرقاء میں سے ہونگے بنو زرقاء سے مراد بنو مروان ہیں

(ابوداود روایت4646)

.

وَاعْلَمْ أَنَّ الْمَرْوَانِيَّةَ أَوَّلُهُمْ يَزِيدُ

بنو مروان یعنی مروانی حکمرانوں سے مراد وہ حکمران ہیں کہ جن میں پہلا حکمران یزید تھا پھر اسکے بعد کے حکمران

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح8/3389)

.

لیھذا سیدنا سفینہ نے سیدنا معاویہ کو برا نہ کہا،  جھوٹا ظالم وغیرہ نہ کہا بلکہ انکی مراد یزید اور اسکے بعد کے ظالم حکمران مراد تھے

.

*#دوسری بات......!!*

اصل حدیث میں صرف اتنا ہے کہ خلافت تیس سال ہوگی اس کے بعد ملوکیت ہوگی، اصل حدیث میں عضوضا یعنی ظالمانہ کاٹ کھانے والی ناحق ملکویت کے الفاظ نہیں لیھذا یہ اضافہ منکر وھم و تدلیس و نکارت و مردود ہے

.

 کچھ کتب اہلسنت میں بظاہر عضوضا ہے کہ معاویہ کی ملوکیت کاٹ کھانے والی ظالمانہ ہے لیکن کتب میں واضح لکھا ہے کہ *#حضرت_سفینہ* کی روایت کردہ حدیث میں یہ ہے کہ میرے بعد خلافت تیس سال ہوگی پھر کاٹ کھانے والی ظالمانہ ناحق ملوکیت ہوگی....

.

اب آئیے سیدنا سفینہ کی حدیث کو اس کے اصل ماخذ و کتب میں دیکھتے ہیں اگر اصل ماخذ میں عضوضا کاٹ کھانے والی ظالمانہ ناحق کے الفاظ ہیں تب تو اعتراض بن سکتا ہے اور اگر اصل ماخذ میں عضوضا کے الفاظ نہیں تو یقینا یہ اضافہ وھم و منکر و تدلیس و نکارت و مردود کہلائے گا.

.

اصل حدیثِ سفینہ یہ ہے: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَفِينَةُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الخِلاَفَةُ فِي أُمَّتِي ثَلاَثُونَ سَنَةً، ثُمَّ مُلْكٌ بَعْدَ ذَلِكَ

ترجمہ:

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی

 [سنن الترمذي ت بشار ,4/73حدیث2226]

.

 حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ

 [سنن أبي داود4/211 حدیث4646]

.

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ مَنْ يَشَاءُ، أَوْ مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ»

 [سنن أبي داود ,4/211 حدیث4647]

.


أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَحْمَدَ الْمَلِيحِيُّ، أَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي شُرَيْحٍ، أَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْبَغَوِيُّ، نَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، أَخْبَرَنِي حَمَّادُ هُوَ ابْنُ سَلَمَةَ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الْخِلافَةُ ثَلاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا

(شرح السنة للبغوي ,14/7)

.

حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ الْعَبْسِيُّ، كُوفِيٌّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ، حَدَّثَنِي سَفِينَةُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «الْخِلَافَةُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ مُلْكًا بَعْدَ ذَلِكَ»

[مسند أحمد مخرجا ,36/256 حدیث21928]

.

أَخْبَرَنَا أَبُو يَعْلَى، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ السَّامِيُّ، قَالَ:حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الْخِلَافَةُ ثَلَاثُونَ سَنَةً، وَسَائِرُهُمْ مُلُوكٌ، وَالْخُلَفَاءُ

[صحيح ابن حبان - مخرجا ,15/34حدیث6657]

.

 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ غَنَّامٍ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أنا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ، ثنا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْخِلَافَةُ بَعْدِي فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً

 [المعجم الكبير للطبراني ,1/89حدیث136] 

.

 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ الْمَهَّالِ، ح وَحَدَّثَنَا الْمِقْدَامُ، ثنا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، قَالَا: ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الْخِلَافَةُ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا»

[,المعجم الكبير للطبراني ,1/55]

.

 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ، حَدَّثَنِي سَفِينَةُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْخِلَافَةُ بَيْنَ أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ مُلْكٌ بَعْدَ ذَلِكَ

 [المعجم الكبير للطبراني ,7/83]

.

 حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا هُشَيْمٌ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْخِلَافَةُ بَعْدِي فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً , ثُمَّ مُلْكٌ

 [المعجم الكبير للطبراني ,7/83]

.

 أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ قَالَ: أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جَمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْخِلَافَةُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ مُلْكًا بَعْدَ ذَلِكَ»

 [السنن الكبرى للنسائي ,7/313 حدیث8099]


.

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا حُمَيْدُ بْنُ عَيَّاشٍ الرَّمْلِيُّ، ثنا الْمُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ثُمَّ قَالَ: «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ عَامًا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا

سیدنا سفینہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خلافت تیس سال ہوگی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی

[المستدرك على الصحيحين للحاكم ,3/75حدیث4439]

.

میری تلاش میں یہ حوالے باسند نظر سے گذرے سب کا ترجمہ ملتا جلتا ہے اور اہم بات یہ کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جہاں بھی باسند حدیث سفینہ ہے یا یوں کہیے کہ حدیث سفینہ کے اصل ماخذ جو بھی ہیں ان سب میں عضوضا کاٹ کھانے والی ظالمانہ ناحق ملوکیت کے الفاظ نہیں....یہ الفاظ چند ان کتب اہلسنت میں ہیں جنہوں نے حدیث ِ سفینہ کہہ کر روایت کیا مگر چونکہ اصل حدیثِ سفینہ میں عضوضا کا اضافہ نہیں لیھذا یہ مصنفین کا وھم و نکارت و زیادت و مردود کہلائے گا...سیدنا معاویہ کی حکومت ملوکیت تھی اچھی عادلانہ حکومت تھی جس پر ہم دو تفصیلی تحریر بھی لکھ چکے ہیں 

.

#البتہ مسند طیالسی و طبرانی اور بیھقی میں ایک روایت ہے جس میں عضوضا کے الفاظ ہیں...یہ تین چار حوالے مقدور بھر تلاش کرنے سے مجھے ملے ان سب روایات میں عضوضا کا لفظ ہے....اسکا جواب یہ ہے کہ

①مذکورہ عضوضا یعنی ظالمانہ کاٹ کھانے والی ملوکیت ہوگی..یہ اضافے والی روایت کی تمام سندوں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک راوی لیث بن ابی سلیم ہے جوکہ ضعیف ہےاس پر اختلاط و اضطراب و نکارت و تدلیس کی جرح ہے لیھذا فضائل کی بات ہوتی تو اسکی روایت مقبول ہوسکتی تھی مگر روایت میں چونکہ حکم شرعی عضوضا یعنی ظالم فاسق فاجر ثابت کیا جارہا ہے اور سب کا متفقہ اصول ہے کہ حکم شرعی ظلم و فسق و فجور ثابت کرنے کے لیے ضعیف روایات ناقابلِ قبول ہیں، ناقابل حجت ہیں

.

②نیز اس ضعیف راوی نے صحیح روایات پر اضافہ کیا ہے اور متفقہ اصول ہے کہ ایسے راوی کی زیادت بلامتابع ہو تو ناقابل حجت ہے،مردود ہے

.

لَيْث بن أبِي سُلَيم ضعيف

لَيْث بن أبِي سُلَيم ضعيف ہے

(الكامل في ضعفاء الرجال7/233)

.

ومدار الإسناد على ليث بن أبي سليم وهو ضعيف...وفيه ليث بن أبي سليم وهو مدلس

سند کا دار و مدا لَيْث بن أبِي سُلَيم پر ہے جوکہ ضعیف ہے تدلیس کرتا ہے

(المطالب العالية ابن حجر 11/408ملتقطا)

.

وكان ليث اكثرهم تخليطا...ليس حديثه بذاك، ضعيف

لیث خلط ملط زیادات کرتا ہے جوکہ معتبر نہیں کیونکہ یہ ضعہف راوی ہے

(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم7/178ملتقطا)

.

لَيْثُ بنُ أَبِي سُلَيْمٍ بنِ زُنَيْمٍ الأُمَوِيُّ...لِنَقصِ حِفْظِهِ...قَالَ أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ: لَيْثُ بنُ أَبِي سُلَيْمٍ مُضْطَرِبُ الحَدِيْثِ...فَالزِّيَادَةُ هُوَ ضَعِيْفٌ...تَرَكَه: يَحْيَى القَطَّانُ، وَابْنُ مَهْدِيٍّ، وَأَحْمَدُ، وَابْنُ مَعِيْنٍ....فَيُرْوَى فِي الشَّوَاهِدِ وَالاعْتِبَارِ، وَفِي الرَّغَائِبِ، وَالفَضَائِلِ، أَمَّا فِي الوَاجِبَاتِ، فَلاَ.

لَيْث بن أبِي سُلَيم ضعيف ہے کہ اس کے حافظے میں نقص ہے،امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ یہ مضطرب الحدیث ہے(کبھی کچھ ، کبھی کچھ کہتا ہے وھم و تدلیس و نکارت کرتا ہے)تو یہ جو الفاظ زیادہ کرے وہ ضعیف کہلائیں گے

امام یحیی القطان اور امام ابن مہدی اور امام احمد اور امام ابن معین نے اس راوی کی روایات زیادات کو ترک کیا ہے

پس

اسکی روایت شواہد متابعت فضائل میں تو معتبر ہین مگر فرض واجباب(ظلم فسق و فجور وغیرہ احکام شرع) میں اسکی روایات معتبر نہیں

[سير أعلام النبلاء ط الرسالة184 ,6/179ملتقطاملخصا]

.###################

*#شیعہ روافض نیم روافض کا چوتھا اعتراض.....!!*

شیعہ روافض نیم روافض کی تحریر میں اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ سیدنا معاویہ سیدنا علی کو سرعام گالیاں دلواتے تھے....دلیل کے طور پر کچھ حوالے لکھے

.

*#جواب.و.تحقیق......!!*

پہلی بات:

جو حوالے لکھے ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں کہ سیدنا معاویہ نے گالیاں دی ہوں یا دلوائی ہوں....سوائے ایک حوالے کے وہ حوالہ شیعہ روافض نیم روافض کا دیا ہوا یہ ہے کہ

طبری معاویہ کا مولا علی ع پر لعنت کرنا یوں نقل کرتے ہیں

فبلغ ذلك و قال معاوية  فكان اذا قنت لغن عليا و ابن عباس و الحسن بن علي و الحسين بن علي و الا مالك

شتر:

معاویہ نماز میں قنوت کرتا اور قنوت میں یوں کہتا لعنت ہو علی پر ، حسن بن علی پر ، حسین بن علی پر ، ابن عباس پر اور مالک اشتر پر ۔

(الطبری، ج 2 ، باب خلافت علی بن ابی طالب، ص953)

.

*#جواب.و.تحقیق.......!!*

پہلی بات:

طبری کی آدھی ادھوری عبارت کیوں پیش کی....؟؟ کیا یہ خیانت نہیں....؟؟ پہلے طبری کی پوری عبارت پڑہیے لکھتا ہے

وَكَانَ إذا صلى الغداة يقنت فيقول: اللَّهُمَّ العن مُعَاوِيَة وعمرا وأبا الأعور السلمي وحبيبا وعبد الرَّحْمَن بن خَالِدٍ والضحاك بن قيس والوليد] .فبلغ ذَلِكَ مُعَاوِيَة، فكان إذا قنت لعن عَلِيًّا وابن عباس والأشتر وحسنا وحسينا

 طبری ابو مخنف کے حوالے سے یہ روایت کرتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ فجر کی نماز میں دعا کرتے تھے کہ یا اللہ معاویہ پر عمرا پر سلمی پر حبیب پر عبدالرحمن پر ضحاک پر قیس پر ولید پر لعنت کر.... یہ خبر سیدنا معاویہ کو لگی تو سیدنا معاویہ بھی فجر کی نماز میں یہ دعا کرتے تھے اے اللہ لعنت کر علی پر ابن عباس پر اشتر پر حسن پر حسین پر

(تاریخ طبری5/71... و فی نسخۃ2/953)

بتائیے کیا آپ کا ضمیر گوارا کرتا ہے کہ سیدنا علی گالیاں دیتے تھے.....؟؟ یقینا نہیں... تو جواب خود عبارت میں واضح ہے کہ یہ عبارت بےسند بے ثبوت جھوٹی مردود ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ایسے کردار کے جامع تھے کہ ہم تصور ہی نہیں کرسکتے کہ وہ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے دلواتے ہوں......!!

.

*#دوسری بات......!!*

اسکی سند ہی نہیں لکھی اور سند کے بغیر ایسی اہم بات ہرگز ہرگز ثابت نہیں ہوسکتی

.

 *#تیسری بات......!!*

 مذکورہ روایت کا مرکزی راوی ابو مخنف ہے جو کہ جھوٹا کذاب شیعہ مردود راوی ہے

ابو مخنف...." أبو مخنف " اسمه لوط بن يحيى هالك

ابومخنف ہلاکت میں پڑا ہوا راوی ہے

(لسان الميزان ابن حجر7/104)

.

لوط بن يحيى أبو مخنف كَذَّاب...وقال ابن عدي: شيعي محترق....أخبارى، لا يوثق به

ابومخنف کذاب جھوٹا راوی ہے امام ابن عدی نے فرمایا کہ جلا بھنا شیعہ راوی ہے....اسکی باتوں روایتوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا

(الجامع لكتب الضعفاء والمتروكين والكذابين12/359)

.

*#پانچویں بات.......!!*

 سیدنا علی اور سیدنا معاویہ سے بعض ایسی روایات مروی ہیں کہ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے اور ان کا کردار بھی ایسا تھا کہ ان سے گالم گلوچ والی بات کا صدور ناممکن ہے...کوئی بدمذہب بری سوچ والا ہی کہہ سکتا ہے کہ سیدنا علی سیدنا معاویہ ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے...لیکن کوئی ایمان والا ایسا سوچ بھی نہیں سکتا

: وهذا الحديث: يدل على معرفة معاوية بفضل علي ـ رضي الله عنه ـ ومنزلته، وعظيم حقه، ومكانته، وعند ذلك يبعد على معاوية أن يصرح بلعنه وسبه، لما كان معاوية موصوفًا به من الفضل والدين، والحلم، وكرم الأخلاق

 معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا ضرار صدائی سے شان علی سنتے(جسکو اوپر ہم لکھ آئے) اور زار و قطار روتے

.. اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بڑی فضیلت تھی، بڑا ادب تھا.... سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بڑے فضیلت والے تھے بڑے دین دار تھے بڑے حلم و بردباری والے تھے بڑی کرم نوازی والے تھے اچھے اخلاق والے تھے وہ بھلا کیسے سیدنا علی کو گالیاں دیتے یا دلواتے....؟؟

(المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم6/278)

.

وما يذكره المؤرخون من أن معاوية رضي الله تعالى عنه كان يقع في الأمير كرم الله تعالى وجهه بعد وفاته ويظهر ما يظهر في حقه، ويتكلم بما يتكلم في شأنه مما لا ينبغي أن يعول عليه أو يلتفت إليه؛ لأن المؤرخين ينقلون ما خبث وطاب، ولا يميزون بين الصحيح والموضوع

 والضعيف

 تاریخ کی بعض کتابوں میں جو کچھ ایا ہے نعوذ باللہ کہ سیدنا علی سیدنا معاویہ ایک دوسرے کو گالم گلوچ کرتے تھے یہ سب جھوٹ ہے، ایسی باتوں کی طرف بالکل دھیان نہ دیں اور کوئی توجہ نہ کریں کیونکہ مورخین ہر بات نقل کر دیتے ہیں چاہے وہ جھوٹی ہو چاہے وہ سچی ہو چاہے وہ موضوع ہو چاہے وہ خبیث ہو چاہے وہ اچھی ہو

(صب العذاب ص421)

.#############

*#شیعہ روافض نیم روافض کا پانچواں اعتراض.....!!*

امام ابن اثیر نے اسدالغابہ، ج 5 س 224 میں امام مناوی "نصاب الاشراف" میں قوی سند کے ساتھ حضرت عمر رضي الله عنه کا قول لکھتے ہیں 

عن عمر أنه قال ھذا األمر في أھل بدر ما بقي منھم أحد ثم في أھل أحد ما بقي منھم أحد ثم في كذا وكذا ولیس فیھا لطلیق وال لولد طلیق وال لمسلمة الفتح شيء:

حضرت عمر نے کہا کہ خلافت اہل بدر میں رہے گی اور طلقاء اور ان کی اولادوں کا اس میں کوئی حق نہیں ہے:اس روایات سے اصحابِ محمد اور طلقاء کی نشان دیہی واضع ہو گئی ہے اصحاب محمد طلقاء کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے تھے

.

*#جواب.و.تحقیق......!!*

*#پہلی بات.......!!*

اس روایت کی سند ہمیں یہ ملی

أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عِمْرَانَ ، عَنْ شَيْخٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى ، عَنْ عُمَرَ

سند میں مجھول راوی شیخ کہہ کر ذکر کیا گیا ہے اور مجھول کی روایت ایسے معاملات میں قبول نہیں ہوتی لیھذا یہ روایت ثابت نہیں، باطل و مردود ہے

أجمع العلماء قديما وحديثا، على أن المجهول لا يقبل له قول ولا خبر، ولا تقوم به حجة

 پہلے کے علماء اور بعد کے علماء سب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ مجہول کی روایت کو قبول نہ کیا جائے گا اس کی خبر کو اس کے قول کو قبول نہ کیا جائے گا اس کو دلیل نہیں بنایا جائے گا

(الدرر السنية في الأجوبة النجدية11/256)

.

رِوَايَةُ مَجْهُولِ الْعَدَالَةِ ظَاهِرًا وَبَاطِنًا لَا تُقْبَلُ عِنْدَ الْجَمَاهِيرِ

 جمہور علماء کے مطابق جو راوی ظاہرا باطنا مجہول ہو اس کی روایت قبول نہیں کی جائے گی

(تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي1/372)

.

مجْهُول، فَلهَذَا خَبره غير مَقْبُول

 مجہول راوی ہے تو اس کی خبر کو قبول نہیں کیا جائے گا

(شرح نخبة الفكر للقاري ص512)

.

اور اسکا دوسرا راوی حسین بن عمران غیرمعتبر راوی ہے

حسين بن عمران الجهني قال البخاري: لا يُتابع في حديثه

(الجامع في الجرح والتعديل1/175)

.

*#دوسری بات*

 اگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین سیدنا معاویہ وغیرہ کو قابل اعتبار نہ سمجھتے تو ان سے حدیثیں بیان بھی نہ کرتے حالانکہ سیدنا معاویہ سے صحابہ کرام نے حدیثیں بیان کی ہیں

روى عَنْهُ جماعة من الصحابة: ابن عباس، والخدري، وَأَبُو الدرداء، وجرير، والنعمان ابن بشير، وابن عمر، وابن الزبير، وغيرهم. ومن التابعين: أَبُو سلمة وحميد، ابنا عبد الرحمن، وعروة، وسالم، وعلقمة بْن وقاص، وابن سيرين، والقاسم بْن مُحَمَّد، وغيرهم

 سیدنا معاویہ سے حدیث بیان کی ہے بہت سارے صحابہ کرام نے مثلا سیدنا ابن عباس نے سیدنا ابو سعید خدری نے سیدنا ابو دردا نے سیدنا جریر نے سیدنا نعمان نے سیدنا ابن عمر نے سیدنا ابن زبیر نے رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین

(اسد الغابۃ4/436)

.

*#تیسری بات........!!*

حکومت میں سیدنا معاویہ وغیرہ کا حق نہیں اس پر دلیل کے طور پر جس روایت کو پیش کیا جا رہا ہے وہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ثابت ہی نہیں جیسے کہ ہم اوپر ثابت کر چکے دوسری بات یہ کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ساری زندگی گورنری حکومت سونپی....اگر حکومت میں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ جیسوں کا حق نہ ہوتا تو ہرگز سیدنا عمر ان کو حکومت نہ دیتے

لا شكَّ أنّ استعمال عمر لمعاوية، وإبقاءه عليه طول مدة خلافته؛ هو تزكيةٌ عاليةٌ

 اس میں کوئی شک نہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حکومت دی گورنری دی اور ساری زندگی گورنر مقرر رکھا اور یہ بہت بڑی شان ہے پاکیزگی ہے

(فتح المنان بسيرة أمير المؤمنين معاوية بن أبي سفيان ص52)

.

 تم جس روایت سے مذمت ثابت کر رہے ہو وہ تو ثابت نہیں لیکن سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ثابت ہے کہ اپ نے شان معاویہ بیان کی ہے

ذكر معاوية عند عمر بن الخطاب فقال: دعونا من ذم فتى قريش وابن سيدها

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر ہوا سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی محفل میں تو کچھ نازیبا کہا گیا سیدنا معاویہ کے متعلق....تو سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے شان معاویہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اس شخص کی تم مذمت کرتے ہو کہ جو قریش کا جوان اور اس کے سردار کا بیٹا ہے

(مختصر تاريخ دمشق25/18)

.

كان عمر بن الخطاب إذا رأى معاوية، قال: هذا كسرى العرب

 سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ جب سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھتے تو فرماتے ہیں یہ عرب کا کسری ہے(جس طرح کسری عظیم الشان بادشاہ سمجھے جاتے تھے اسی طرح سیدنا معاویہ عرب کے عظیم الشان بادشاہ ہیں)

(حلم معاوية لابن أبي الدنيا ص20)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

old but working whatsap nmbr

03468392475

00923468392475

New but second whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

رابطہ اولڈ وٹس اپ نمبر پے فرماءیے مگر دونوں نمبر سیو رکھیے اور گروپس میں بھی دونون نمبر شامل کرکے ایڈمین بنا دیجیے کہ پرانہ نمبر کبھی کبھار گربڑ کرتا ہے تو نیو نمبر سے دینی خدمات جاری رکھ سکیں...جزاکم اللہ خیرا

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.