Labels

سیدی اعلی حضرت کو اپنا پیشوا کہنے کے باوجود چمن زمان نے سیدی اعلی حضرت کی عبارت کی غلط تشریح کرکے لوگوں کو ایک مجدد وقت محب صحابہ و محب اہل بیت سیدی امام احمد رضا سے متنفر کرنے کی ناکام کوشش کی، ائیے چمن زمان جیسے منافق فسادی مکار کی بات کا پردہ چاک کرتے ہیں۔۔۔۔۔!!*

 *#سیدی اعلی حضرت کو اپنا پیشوا کہنے کے باوجود چمن زمان نے سیدی اعلی حضرت کی عبارت کی غلط تشریح کرکے لوگوں کو ایک مجدد وقت محب صحابہ و محب اہل بیت سیدی امام احمد رضا سے متنفر کرنے کی ناکام کوشش کی، ائیے چمن زمان جیسے منافق فسادی مکار کی بات کا پردہ چاک کرتے ہیں۔۔۔۔۔!!*

۔

https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1

۔

https://www.facebook.com/share/15dH3sCxWC/

۔

https://www.facebook.com/share/199Wb9nCxw/

۔

میرے واٹسپ چینل کو بھی فالو ضرور فرما لیں۔۔۔کیونکہ واٹسپ نمبر بار بار بلاک ہوتا ہے، اگر ہمیشہ کے لیے بلاک ہو گیا تو نیا نمبر سے واٹسپ چینل پر آ کر اپ سے رابطہ ہو پائے گا۔۔۔واٹس ایپ چینل کا لنک یہ ہے 

https://whatsapp.com/channel/0029Vb5jkhv3bbV8xUTNZI1E


۔

تحریرات سوالات اعتراضات کے جوابات، اہلسنت کے دفاع، معاشرے کی اصلاح و معلومات و تحقیق و تشریح و تصدیق یا تردید وغیرہ کے لیے مجھے وٹسپ کر سکتے ہیں

naya wtsp nmbr

03062524574

میرے نئے وٹسپ نمبر کو وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنائیے تاکہ میں تحریرات وہاں بھیج سکوں،،،سوالات اعتراضات کے جوابات دے سکوں۔۔۔۔دینی خدمات زیادہ سے زیادہ سر انجام دے سکوں۔۔۔👈نیز کافی ساری تحقیقات تحریرات معلومات اوپر دیے گئے تین لنکس میں موجود ہے وہاں سرچ کر کے بھی فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔۔۔۔!!

۔

*#📌نوٹ*

تحریرات ایک دم یا پھر تھوڑا تھوڑا کر کے پڑھیے اور ہو سکے تو پھیلائیے اور اپ کو اجازت ہے کہ اپ میری تحریر میں سے لنکس وغیرہ ہٹا دیں حتی کہ میرا نمبر بھی مٹا سکتے ہیں حتی کہ میرا نام مٹا کر فقط کاپی پیسٹ یا کاپی یا کاپڈ لکھ کر پھیلا سکتے ہیں یا ناشر لکھ کر اس کے بعد اپنا نام لکھ کر پھیلا سکتے ہیں۔۔۔ ہمارا مقصود ہے کہ تحقیق علمی تحریر اور حق زیادہ سے زیادہ پھیلے اور ہم بھلائی اچھائی کا سبب بنیں، کسی کی ہدایت کا سبب بنیں، کسی کے ایمان مضبوط ہونے کا سبب بنیں۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر میں نام نمبر اور لنکس اس لیے ڈالتا ہوں تاکہ اگر کسی کو میری تحریر پسند ا جائے تو وہ میری مزید تحریرات پڑھ سکے، اور اگر کسی کو کوئی اعتراض ہو تو وہ ڈائریکٹ مجھ سے رابطہ کر سکے، پھیلانے والے شخص کو کوئی تنگ نہ کرے

@@@@@@@@@@

🛑اب اتے ہیں اصل بحث پر

👈*#چمن زمان لکھتا ہے*

حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی افضلیت کا مسئلہ ایسی نوعیت کا ہے کہ اگر اس کے خلاف اللہ سبحانہ وتعالی کے رسول جنابِ خاتم الانبیاء کا فرمانِ صحیح بھی آ جائے تو ہم حضور ﷺ کی بات کو بھی رد کر دیں گے الا آنکہ اس کی تاویل ممکن ہو (فتاوی رضویہ)

۔

👊*#جواب و تحقیق*

*#پہلی بات1️⃣*

📌سیدی اعلی حضرت کی عبارت یہ ہے

 عقائدِ حقّہ میں ایك جانب کی تفصیلی محقق ہو اور اس کے خلاف احادیث مقام وضعاف سے استناد کیا جائے ، جس طرح آج کل کے جہال حضرات شیخین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاپر تفضیل حضرت مولا علی کرم الله   تعالٰی وجہہ الکریم میں کرتے ہیں ۔ یہ تصریح مضادتِ شریعت ومعاندتِ سنّت ہے۔ ولہذا ائمہ دین نے تفضیلیہ کو روافض سے شمار کیا کمابیناہ فی کتابنا المبارك مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین۱۳۹۷ھ (جیسا کہ ہم نے اسے اپنی مبارك کتاب “ مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین “ میں بیان کیا ہے۔ ت) بلکہ انصافًا اگر تفضیل شیخین کے خلاف کوئی حدیث صحیح بھی آئے قطعًا واجب التاویل ہے اور اگر بفرضِ باطل صالح تاویل نہ ہو واجب الرد کہ تفضیل شیخین متواتر واجماعی ہے

فتاوی رضویہ5/585

۔

*#🚨چمن زمان نے اس عبارت کا مفہوم یہ بیان کیا،چمن زمان لکھتا ہے*

حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی افضلیت کا مسئلہ ایسی نوعیت کا ہے کہ اگر اس کے خلاف اللہ سبحانہ وتعالی کے رسول جنابِ خاتم الانبیاء کا فرمانِ صحیح بھی آ جائے تو ہم حضور ﷺ کی بات کو بھی رد کر دیں گے الا آنکہ اس کی تاویل ممکن ہو (فتاوی رضویہ)

۔

🧠اپ دیکھ سکتے ہیں کہ چمن زمان لوگوں کے دلوں میں سیدی اعلی حضرت امام اہل سنت کی نفرت بٹھانے کے لیے اور اہل سنت سے نفرت بٹھانے کے لیے اس نے لفظ حدیث کے بجائے یہ لکھا کہ جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان صحیح بھی ا جائے تو ہم حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو بھی رد کر دیں گے 

۔

🧐اب یہ بات پڑھ کر کسی بھی سنی ، کسی بھی عاشق رسول کا خون کھولے گا یا نہیں۔۔۔۔۔؟؟ کسی بھی مسلمان کا ، کسی بھی عاشق رسول کا، کسی بھی سنی اہل سنت کا جگر کلیجہ تڑپ اٹھے گا یا نہیں۔۔۔۔؟؟ 🧨اور یہی تو چمن زمان چاہتا ہے کہ لوگوں کے دل جگرے تڑپ اٹھیں کہ نعوذ باللہ اہل سنت  جس ہستی یعنی امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت کو اپنا امام مانتی ہے اس نے تو نعوذ باللہ ایسی بات لکھ دی ہے کہ ہم امتیوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ افضل ترین شخصیت ہیں لہذا اس کے خلاف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح فرمان مبارک بھی ا جائے تو ہم رد کر دیں گے، ایسا مفہوم خبیث چمن زمان نے لوگوں کے دل و دماغ میں بٹھانے کی کوشش کی ہے اور سیدی اعلی حضرت اور اہل سنت سے نفرت کرانے اور اہل سنت چھڑوانے کی کوشش کی ہے۔۔۔کیونکہ ہر ذی شعور سوچے گا کہ 

بھلا ایک امتی کی اتنی جرات یا سارے امتی مل کر بھی اتنی جرات کر سکتے ہیں کہ سارے امتی مل جائیں اور ایک قانون بنا لیں اور اس  قانون کے خلاف حدیث پاک ا جائے تو وہ کہیں کہ حدیث پاک بھی مردود نعوذ باللہ۔۔۔؟؟

۔

🙏سوچو سوچو ایک عاشق رسول سیدی اعلی حضرت یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ امتی اگر کوئی قانون بنا لیں اجماع کر لیں تو صحیح حدیث، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک جو صحیح ثابت ہو وہ بھی مردود کہلائے گا نعوذ باللہ تعالی۔۔۔۔!! 🚨سیدی اعلی حضرت کبھی ایسا نہیں کہہ سکتے۔۔۔ سیدی اعلی حضرت امام اہل سنت کی عبارت کا جو غلط مفہوم  چمن زمان نے اپ کے اور ہمارے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کی ہے تو اس نے اہل سنت سے ہمیں دور کرنے کی کوشش کی ہے ، ہمیں اہلسنت مذہب حق چھوڑوانے کی مذموم کوشش کی ہے 

۔

🧐لیکن ائیے اپ کو سیدی اعلی حضرت رحمت اللہ تعالی علیہ سچے عاشق رسول کی عبارت کا صحیح مفہوم سمجھتے ہیں، تب اپ کا بھی جی چاہے گا کہ اس مکار خبیث چمن زمان شیطان کو چھتر مار مار کر جوتے مار مار کر معاشرے سے دفع دور کر دینا چاہیے بلکہ ٹھکانے لگانا چاہیے کیونکہ یہ ایران کی ہڈیوں اور برطانیہ کے باؤنڈ اور امریکہ کے ڈالروں پر پلنے والا شخص اور اسکے ہمنوا ہمیں شیعیت گمراہیت کفر کی طرف لے کے جا رہے ہیں، فساد و انتشار کی طرف لے کے جا رہے ہیں۔۔۔📌اب ہم دوسری بات کے عنوان کے تحت سیدی اعلی حضرت علیہ رحمہ کی عبارت کا صحیح مفہوم اپ کو بتائیں گے

۔

🛑🛑*#دوسری بات، 2️⃣سیدی اعلی حضرت کی عبارت کا صحیح مفہوم و مطلب۔۔۔۔۔!!*

بلا تشبیہ فقط سمجھانے کے لیے میں اپ کو ایک مثال دے رہا ہوں 

👈اپ ایک پیر صاحب کے مرید ہیں ،ان پیر کو وفات ہوئے چند دن گزر گئے۔۔۔اپ کو ایک جگری دوست معتبر ترین دوست جو اپ کے مرشد کا مرید بھی ہے، پکا مرید خاص مرید ہے اور نہایت ذہین بھی ہے کہ مرشد کی ایک ایک بات بعینہ اسی طرح یاد رکھتا ہے جس طرح پیر صاحب نے فرمائی ہو۔۔۔۔ ایسے مرید خاص نے اپ کو ا کر بتایا کہ پیر صاحب نے فلاں اور فلاں کو اپنی جماعت کا افضل ترین شخص قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی پیروی کرو

۔

🚨اب دوسری طرف اپ کا ایک اور پیر بھائی جو بظاہر داڑھی والا ہے نیک ہے شریف ہے نماز پڑھتا ہے اس نے اپ کو بتایا کہ پیر صاحب نے فلاں دوسرے شخص کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ سب سے افضل ہے اس کی پیروی کرو 

۔

🧠اب اپ دونوں کو تو برحق کہہ نہیں سکتے،اور یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ پیر صاحب نے متضاد بات کی ہو۔۔۔۔تو اپ پیر صاحب کی کس بات کو مانیں گے۔۔۔؟؟ اس بات کو مانیں گے کہ جو معتبر ترین شخص نے اپ کو بتائی یا اس شخص کی بات کو مانیں گے کہ جو بظاہر تو صحیح ہے مگر اس کی طبیعت تھوڑی خراب رہتی ہے، کبھی کبھار تھوڑا سا خراب ہو جاتا ہے تو اپ کس کی بات مانیں گے۔۔۔؟؟

۔

💯یقینا اپ کہیں گے کہ پیر صاحب کا وہ فرمان کہ جو مجھے  معتبر ترین دیندار پیر بھائی نے بتائی وہی بات برحق ہے اسی کو میں مانوں گا اور جو دوسری بات جو دوسرے پیر بھائی نے بتائی ہے وہ میں نہیں مانوں گا وہ واجب الرد ہے یعنی اس کو رد کرنا واجب ہے 

۔

🚨اب چمن زمان جیسا شیطان خبیث ایک بندہ اپ کی مجلس میں بیٹھا ہو اور اپ کو کہے کہ اللہ اللہ میرے بھائی کیا کر رہے ہو ، پیر صاحب کی بات کا انکار کر رہے ہو، رد کر رہے ہو۔۔۔؟؟ پیر صاحب کی بات جو اپ کو ایک پیر بھائی نے بتائی وہ دین دار ہے وہ نیک ہے نمازی ہے اس نے اپ کو پیر صاحب کا پیغام پہنچایا لیکن وہ تم رد کر رہے ہو۔۔۔۔؟؟

۔

🧐🧠اگر اپ صاف ستھری طبیعت کے ہوئے اور اچھی عقل کے ہوئے تو چھتر نکال کے لے ائیں گے یا پھر بندوک نکال کے لے ائیں گے یا چپل شریف اٹھائیں گے اور کہیں گے کہ اے خبیث انسان سدھر جا ورنہ یہاں سے دفع ہو جا ورنہ پھر تجھے چھتر جوتے اور بندوک کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔۔۔اے خبیث انسان میں اپنے پیر صاحب کی کسی بات کو رد نہیں کر رہا، پیر صاحب کی وہی بات معتبر ہے کہ جو معتبر ترین شخص نے مجھے بتائی ہے، باقی جو یہ دوسرا شخص بتا رہا ہے وہ اگرچہ بظاہر ٹھیک ٹھاک ہے صحیح ہے لیکن اس میں تھوڑا سقم ہے، تھوڑی طبیعت و سوچ کی خرابی ہے تو اس کی دماغ میں کوئی خلل اگیا ہو ، کوئی خرابی اگئی ہو ، یاداشت میں کوئی خرابی اگئی ہو عین ممکن ہے لہذا اس کی بات بظاہر صحیح لگ رہی ہے لیکن اس کی صحیح بات سے بھی زیادہ صحیح ترین بات وہ ہے کہ جو مجھے معتبر ترین ادمی نے بتائی ہے۔۔۔۔ لہذا میں پیر صاحب کی اس بات کو مان رہا ہوں کہ جو معتبر ترین طریقے سے مجھ تک پہنچی ہے۔۔۔لہذا میں پیر صاحب کی بات کا رد نہیں کر رہا بلکہ ان کی معتبر ترین بات کو مان رہا ہوں اور اسے ترویج دے رہا ہوں

۔

✊*#الحاصل*

اپ نے امید ہے خوب ترین نتیجہ نکال لیا ہوگا کہ معتبر ترین طریقے سے جو فرمان ہم تک پہنچے گا ، ہم اس کو قبول کر لیں گے اور جو معتبر ترین طریقے سے فرمان ایا اس کے خلاف کوئی معتبر طریقے سے فرمان ا جائے صحیح طریقے سے فرمان ا جائے تو بھی اس کو رد کر دیں گے کیوں کہ وہ معتبر ترین کے خلاف ہے۔۔۔یعنی ایک ہوتا ہے 👈"معتبر" اور دوسرا ہوتا ہے 👈"معتبر ترین"۔۔۔۔ایک ہوتا ہے 👈"صحیح" اور دوسرا ہوتا ہے 👈"صحیح ترین"۔۔۔تو معتبر کو اس وقت رد کر دیں گے جب معتبر ترین اس کے خلاف ہو اور اسی طرح صحیح کو اس وقت رد کر دیں گے جب اس سے زیادہ صحیح ترین اس کے خلاف ہو 

۔

🛑🛑🛑🧠🚨*#اب آتے ہیں سیدی اعلی حضرت رحمت اللہ تعالی علیہ کی بات کی طرف.....!!*

دراصل اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے بھی یہی بات لکھی ہے جو اوپر میں نے اپ کو مثال دے کے سمجھائی ہے۔۔۔۔۔ سیدی اعلی حضرت کی بات کا خلاصہ کیا جائے تو خلاصہ یہ بنتا ہے کہ: 

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت کے متعلق قران مجید سے دلائل اور "صحیح ترین احادیث مبارکہ" اتنی متواتر موجود ہیں، اتنی بہت ساری موجود ہیں کہ ان کے مقابلے میں اگر ایک دو صحیح حدیث ا جائیں تو اس صورت میں ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین پے عمل کریں گے، ان کو فرامین مبارک کو صحیح ترین مانیں گے کہ جو صحیح ترین طریقے سے ہم تک پہنچے ہیں اور جو بالفرض فقط صحیح طریقے سے پہنچے ہیں وہ اگر صحیح ترین احادیث رسول ، فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہیں اور کوئی تاویل بھی نہیں ہو سکتی تو پھر ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح ترین معتبر ترین متواتر ترین جو اقوال مبارکہ ہیں ان کو مانیں گے اور دوسرے بظاہر صحیح طریقے سے جو فرمان ائے گا اس کو ہم یہ کہہ کر رد کر دیں گے کہ جس نے ہم تک یہ بات پہنچائی ہے شاید اس سے کوئی غلطی غلط فھمی ہوئی ہے۔۔۔تو ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معتبر ترین صحیح ترین قول مبارک کو مقدم کیا ہے اور جو اس کے مخالفت میں بظاہر صحیح طریقے سے فرمان ایا ہے اس کو ہم نے اس لیے رد کر دیا ہے کہ شاید راوی سے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔بعض علماء صاف صاف لکھتے ہیں کہ راوی کی وجہ سے رد کر رہے ہیں اور بعض علماء اشارتا لکھتے ہیں کہ راوی کی وجہ سے رد کر رہے ہیں اور یہاں اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اشارتا لکھا ہے کہ راوی کی وجہ سے رد کر رہے، کیونکہ اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے متواتر لفظ لکھا ہے اور اجماع لکھا ہے اور متواتر وہ ہوتا ہے کہ جو بہت ساری احادیث صحیحہ قویہ کا مجموعہ ہو اور اجماع وہ ہوتا ہے کہ جو ایات و احادیث سے ماخوذ متفق علیہ فتوی ہوتا ہے

 تو

یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عین پیروی ہے،یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عظیم الشان عشق ہے کہ ہم ان کی صحیح ترین بات معتبر ترین طریقے سے جو بات ہم تک پہنچی اس کو ہم دل و جان سے قبول کر کے اس کی مخالفت میں انے والی بات کو اس لیے رد کر رہے ہیں کہ  یقین ہے کہ راوی سے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، یہ کوئی گستاخی نہیں بلکہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم رضوان سے یہ ثابت ہے کہ انہوں نے صحیح ترین کو ترجیح دی صحیح پر۔۔۔۔!!

۔

*#دلیل و حوالہ نمبر1️⃣*

الحدیث:

فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پھر امامت کا مستحق وہ شخص ہے کہ جو میری سنتوں کو سب سے زیادہ جانتا ہے اور اگر دوسرے لوگ بھی اسی طرح میری سنتوں کو زیادہ جانتے ہیں تو پھر ترجیح اس کو ہوگی کہ جس نے سب سے پہلے ہجرت کی ہے اور اگر دیگر ایسے لوگ موجود ہوں کہ انہوں نے بھی ہجرت کی ہے تو پھر ان میں سے اس کو ترجیح ملے گی کہ جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا

(مسلم حدیث673)

۔

🧠حدیث پاک سے واضح ہوتا ہے کہ جو سنت کو جاننے والا ہے وہ بھی معتبر شخص ہے صحیح شخص ہے لیکن اس کے مقابلے میں جو ہے وہ بھی صحیح شخص ہے کیونکہ وہ بھی سنت کو جانتا ہے تو پھر رسول کریم نے فرمایا کہ دونوں صحیح ہیں لیکن دونوں صحیح میں سے ایک زیادہ صحیح ترین مستحق ترین ہوگا اور اس کی نشانی یہ ہوگی کہ اس نے ہجرت پہلے کی ہوگی اور اگر اس معاملے میں بھی سارے صحیح ہو جائیں سارے مستحق قرار پائیں تو بھی ان میں زیادہ صحیح ترین زیادہ معتبر ترین زیادہ افضل ترین زیادہ مستحق ترین وہ شخص ہوگا کہ جو اسلام پہلے قبول کرے

۔

👊📌لہذا یہ اصول ثابت ہو گیا کہ صحیح کے مقابلے میں صحیح ترین کو منتخب کیا جائے گا۔۔۔اور سیدی اعلی حضرت نے یہی کیا ، علماء اہل سنت نے یہی کیا یہ سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی افضلیت کے متعلق صحیح ترین احادیث مبارکہ ہیں اور ان کے مخالفت میں اکا دکا صحیح احادیث اگر ا بھی جائیں تو ان اکا دکا احادیث مبارکہ کو یہ کہہ کر ترک کر دیں گے رد کر دیں گے کہ روایت کرنے والے ہم تک پہنچانے والے شخص سے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ورنہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم متضاد بات نہیں فرما سکتے 

۔

*#دلیل و حوالہ دوئم 2️⃣صحابہ کرام کا عمل مبارک*

صحابہ کرام علیہم الرضوان سے بھی ثابت ہے کہ انہوں نے صحیح حدیث کو چھوڑ کر صحیح ترین حدیث پر عمل کیا اور اسی پر فتوی دیا چند حوالہ جات پڑھیے

1۔۔۔۔اذَا تَحَقَّقَ التَّرْجِيحُ وَجَبَ الْعَمَل بِالرَّاجِحِ وَإِهْمَال الآْخَرِ، لإِِجْمَاعِ الصَّحَابَةِ عَلَى الْعَمَل بِمَا تَرَجَّحَ عِنْدَهُمْ مِنَ الأَْخْبَارِ... ابْنُ الْمُنِيرِ وَنَقَل الإِْجْمَاعَ عَلَى أَنَّ الْمَرْجُوحَ سَاقِطُ

 الاِعْتِبَارِ

دو احادیث صحیحہ یا بہت ساری احادیث صحیحہ ا جائیں تو لازم ہے کہ ان میں کوئی تاویل کر کے تطبیق دے کر اپس میں ان کا تضاد ختم کر دیا جائے اور اگر تضاد ختم کرنا ممکن نہ ہو تو پھر ثابت ہو جائے گا کہ ہم احادیث میں بعض کو بعض پر ترجیح دیں گے اور واجب ہوگا کہ جس کو ترجیح حاصل ہوگی اس پر عمل کرنا ہوگا اور جس کو ترجیح حاصل نہ ہوگی ان احادیث مبارکہ کو ترک کر دیا جائے گا رد کر دیا جائے گا 📌کیونکہ صحابہ کرام علیہم رضوان کا یہ طریقہ کار تھا کہ ان کے نزدیک جو صحیح ترین راجح ترین ترجیح پانے والی احادیث ہوتی ان پر عمل کرتے تھے اور ابن منیر نے تو اجماع نقل کیا ہے کہ جس حدیث کو ترجیح حاصل نہ ہوگی وہ ساقط الاعتبار ہے، رد ہے(اور رد کرنے کی وجہ اکثر طور پر یہ ہوتی ہے کہ جس نے ہمیں وہ حدیث سنائی اس کی ذہانت فطانت ثقاہت وغیرہ میں کچھ کمی ہوگی اس لیے اس سے کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی ورنہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں تضاد نہیں ہو سکتا)

الموسوعة الفقهية الكويتية36/345ومابعدہ

۔

2۔۔۔۔هو الترجيح اصطلاحا، وإذا حصل الترجيح وجب العمل بأقوى المارتين، للقطع عن الصحابة وغيرهم بذلك، وأنهم كانوا يقدمون الأقوى، وشاع ولم ينكر.

جب احادیث مبارکہ صحیحہ میں سے کسی کو ترجیح حاصل ہو جائے تو اس ترجیح والی قوی ترین حدیث پر عمل کرنا لازم ہوگا کیونکہ 📌یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ صحابہ کرام اسی طرح کرتے تھے کہ وہ قوی ترین مضبوط ترین احادیث مبارکہ کو مقدم کرتے تھے(اور دوسری احادیث صحیحہ کے جو مضبوط ترین قوی ترین نہ ہوتی تھی ان کو ترک کر دیتے تھے) اور ایسا معاملہ سرعام ہوتا تھا اور کسی صحابی سے انکار کرنا ثابت نہیں

تحفة المسؤول في شرح مختصر منتهى السول4/304


۔

3۔۔۔۔إذَا تَحَقَّقَ التَّرْجِيحُ وَجَبَ الْعَمَلُ بِالرَّاجِحِ وَإِهْمَالُ الْآخَرِ، لِإِجْمَاعِ الصَّحَابَةِ عَلَى الْعَمَلِ بِمَا تَرَجَّحَ عِنْدَهُمْ مِنْ

الْأَخْبَارِ

جب ثابت ہو جائے کہ احادیث صحیحہ میں سے بعض کو ترجیح حاصل ہو جائے تو واجب ہے کہ جس کو ترجیح حاصل ہوئی اس پر عمل کیا جائے اور دوسری احادیث مبارکہ صحیحہ کو ترک کر دیا جائے 📌کیونکہ ایسا کرتے تھے صحابہ کرام اجماعی طور پر کہ جس احادیث مبارکہ کو ان کے نزدیک ترجیح حاصل ہوتی تھی اس پر عمل کرتے تھے

البحر المحيط في أصول الفقه - ط الكتبي8/145

۔

🚨*#اعتراض*

صحابہ کرام تو سارے کے سارے معتبر ہیں ، صحیح ترین ہیں تو پھر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی متضاد روایات کیسے کر سکتے ہیں اور پھر ان متضاد روایتوں میں قوی ترین کا انتخاب کیسے کر سکتے ہیں کیونکہ سارے صحابہ کرام قوی ہیں معتبر ترین ہیں 

۔

🧠*#جواب*

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے مبارک میں حیات مبارک میں ایسا کچھ ہوا ہو، ہمارے علم میں نہیں۔۔۔📌البتہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تقریبا 80 90 سال صحابہ کرام حیات رہے تو مسئلہ اس وقت پیدا ہوا کہ جب تابعین نے روایت کرنا شروع کر دیا کہ ہمیں فلاں صحابی نے بتایا کہ رسول کریم نے فلاں مسئلے کے متعلق یہ فرمایا اور دوسرا تابعی ارشاد فرماتا کہ مجھے تو فلاں صحابی سے معلوم ہوا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں مسئلے کے اندر فلاں بات ارشاد فرمائی ہے تو اس طرح دو احادیث صحیحہ میں تعارض پیدا ہو جاتا تھا

۔

👈یعنی تعارض اکثر تابعین اور بعد کے راویوں کی وجہ سے پیدا ہو جاتا ہے۔۔۔تو پھر صحابہ کرام فیصلہ فرماتے کہ دیکھیں ان احادیث مبارکہ میں سے مضبوط ترین صحیح ترین قوی ترین کون سی ہے اور پھر وہ اس کو عمل کے لیے لازم قرار دے دیتے اور دوسری احادیث مبارکہ کو ترک فرما دیتے اور 📌صحیح ترین کا فیصلہ اس طرح اکثر ہوتا تھا کہ کون سا راوی مضبوط ترین ہے کون سا راوی ذہانت فطانت ثقاہت میں زیادہ معتبر قوی ہے اور کون سا راوی زیادہ تر وقت احادیث مبارکہ کو مختلف جگہوں سے سنی کا عادی ہے اور کون سا راوی بالکل بھی سستی نہیں کرتا تو اس طرح راویوں کے احوال سے پتہ چلتا تھا کہ فلاں احادیث مبارکہ قوی ترین معتبر ترین طریقے سے ہم تک پہنچی ہے تو لہذا وہی معتبر ہوگی قوی ترین ہوگی اور دوسری صحیح حدیث کے متعلق یہ فرماتے کہ شاید راوی سے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے یاروی کے علم اور ضبط وغیرہ میں کوئی کمی ہے اور اس طرح کے دیگر وجوہات۔۔۔اکثر طور پر ایسا ہی ہوتا تھا۔۔۔۔!!

۔

🚨چمن زمان صاحب کیا اب اپ صحابہ کرام پر بھی فتوی لگائیں گے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو ترک کر دیا۔۔۔نہیں جناب یہ اپ کی کم علمی اور دھوکہ دہی مکاری ہے کیونکہ صحابہ کرام نے رسول کریم کے قول مبارک کو ترک نہیں کیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مضبوط ترین ثابت ترین قوی ترین کو مبارک کو اختیار کیا اور جو دوسرا صحیح حدیث مبارک کا فرمان ہوتا اس کو اس لیے ترک کرتے کہ اس کے راوی میں اتنی بڑی ذہانت فطانت ثقاہت وغیرہ نہیں کہ جو ان راویوں میں ہے کہ جن کی حدیث کو ہم نے اختیار کر لیا ہے۔۔۔۔ تو اکثر راویوں وغیرہ کی وجہ سے صحیح حدیث کو کبھی کبھار چھوڑ دیا جاتا ہے ، ترک کر دیا جاتا ہے ، رد کر دیا جاتا ہے۔۔۔یہ عمل صحابہ کرام سے ثابت ہے

۔

👈یہاں لفظ رد سے اس کا لفظی معنی مراد ہے اور لفظ رد کا معنی ہے واپس کرنا،قبول نہ کرنا،چھوڑ دینا، ترک کرنا۔۔۔۔۔رد بمعنی مردود مراد نہیں۔۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔۔!!

لغت کی معتبر ترین کتاب میں رد کے یہ معنی بھی لکھے ہیں کہ

وَيُقَال رَدَّه عَن الأَمر ولَدَّه، أَي صَرَفَه عَنهُ برِفْق. رَدَّ (عَلَيْهِ) الشيءَ، إِذا (لَمْ يَقْبَلُهُ۔۔رَدَّ حِرْمَانٍ بِلَا شيءٍ

اور رد کے یہ معنی بھی ہوتے ہیں کہ پھیر دینا واپس کرنا محبت کے ساتھ۔۔۔اور یہ معنی بھی ہے کہ ( عاجزی اور محبت کے ساتھ) قبول نہ کرنا، اور یہ معنی بھی ہے کہ کسی کو خالی ہاتھ "چھوڑ دینا ترک کر دینا"

تاج العروس8/88ومابعدہ

۔

 🛑اور اگر مضبوط ترین قوی ترین کا انتخاب نہ ہو پاتا تو پھر صحابہ کرام میں اختلاف چلتا اتا اور یہ اختلاف بعد میں بھی چلتا ہوا اتا اور اج تک ایسا فروعی اختلاف، فقہی اختلاف چلتا ہوا ا رہا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن بات عقیدے اور نظریے کی ہو تو اس میں کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ کفر اور ایمان کا معاملہ ہے گمراہی اور ہدایت کا معاملہ ہے تو اس میں کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ہر کوئی اپنے اپنے نظریے پر عمل کرے 

۔

*#دلیل و حوالہ 3️⃣...4️⃣ امام احمد بن حنبل کا نظریہ*

يشير أحمد إلى أنه مع تعارض الأحاديث يعمل بالأقوى

 منها

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالی علیہ اشارہ فرما رہے ہیں کہ احادیث صحیحہ میں جب تعارض ہو جائے تو پھر اس میں سے قوی ترین صحیح ترین پر عمل کیا جائے گا اور دوسری غیر قوی صحیح حدیث کو ترک کر دیا جائے گا

فتح الباری ابن رجب 4/453

۔

*#دلیل و حوالہ 5️⃣......6️⃣امام ابن حجر عسقلانی اور امام ملا علی قاری کا نظریہ*

فَلَا يَخْلُو) أَي الْحَال عَن أحد الْأَمريْنِ: (إِمَّا أَن يُمكن تَرْجِيح أَحدهمَا على الآخر بِوَجْه من وُجُوه التَّرْجِيح)...خمسين، مَعَ إِشَارَته إِلَى زيادتها، وَبلغ بهَا غَيره زِيَادَة على مئة...(أَو بِالْإِسْنَادِ أوْ لَا) كَكَوْنِهِ بِإِسْنَاد اتّصف بالأصحية مثلا، وَكَون أَحدهمَا سَمَاعا أَو عَرْضاً، وَالْآخر كِتَابَة أَو وِجادة أَو مناولة،۔۔۔فَإِن أمكن التَّرْجِيح تعين الْمصير إِلَيْهِ) أَي بِالرُّجُوعِ إِلَيْهِ والاعتماد

عَلَيْهِ،

جب احادیث صحیحہ میں تعارض ہو جائے تو دو صورتیں ہیں ایک صورت تو یہ ہے کہ ان میں ترجیح دی جائے گی یعنی جس حدیث پاک کو کوئی تقویت مل جائے مثلا اس کا 📌راوی بہت زیادہ صحیح ہو سماعت میں یا پیش کرنے میں یا کتابت میں ضبط و حافظے اور دیگر معاملات میں تقویت کے کوئی 50 سے زائد اور ایک قول کے مطابق 100 سے زائد اشارے ہوتے ہیں کہ جس سے حدیث تقویت پا جاتی ہے یعنی حدیث کے راوی تقویت پا جاتے ہیں تب اس راوی کی حدیث کو تقویت دی جاتی ہے اور اس پر عمل کیا جاتا ہے اور اسی پر اعتماد کیا جاتا ہے اور یہی متعین ہو جاتا ہے کہ اسی پر اعتماد کرنا ہے اور اگر ترجیح ممکن نہ ہو تو پھر اگے تفصیل ہے

شرح نخبۃ الفکر ملا علی قاری ص384,385ملتقطا ملخصا

.

*#دلیل و حوالہ 7️⃣۔۔۔۔۔8️⃣ امام نووی اور امام سیوطی*

وَإِلَّا عَمِلْنَا بِالرَّاجِحِ) مِنْهُمَا، (كَالتَّرْجِيحِ بِصِفَاتِ الرُّوَاةِ) أَيْ كَوْنِ رُوَاةِ أَحَدِهِمَا أَتْقَنَ وَأَحْفَظَ، وَنَحْوَ ذَلِكَ ....التَّعَارُضُ بَيْنَ الْخَبَرَيْنِ إِنَّمَا هُوَ لِخَلَلٍ فِي الْإِسْنَادِ بِالنِّسْبَةِ إِلَى ظَنِّ الْمُجْتَهِدِ، وَأَمَّا فِي نَفْسِ الْأَمْرِ فَلَا تَعَارُضَ

احادیث مبارکہ صحیحہ میں 📌حقیقتا کوئی تعارض نہیں ہوتا وہ تو ہم تک پہنچنے میں یا سمجھنے میں تعارض محسوس ہوتا ہے، تو اگر احادیث مبارکہ میں بظاہر تعارض ہو تو اگر ان کو تطبیق دینا جمع کرنا ممکن ہو تعارض ختم کرنا ممکن ہو تو پھر وہ لازم ہے ورنہ ان احادیث صحیحہ میں سے ان صحیح حدیث کو عمل میں لائیں گے جس کو ترجیح حاصل ہو جائے گی 📌راویوں کے صفات کی وجہ سے، مثلا کسی صحیح حدیث کا راوی بہت زیادہ حافظے والا ہوتا ہے بہت زیادہ توجہ والا ہوتا ہے اور اسی طرح کی دوسری صفات راوی میں ہوتی ہیں تو اس کی حدیث ترجیح پا جاتی ہے اور 📌دوسری صحیح حدیث کو راوی میں کچھ کمی کی وجہ سے ترک کر دیا جاتا ہے

تدریب الراوی660, 2/654

۔

🛑👈*#نوٹ*

اہل علم جانتے ہیں کہ کسی حدیث پاک کو اگر ترک کر دیا جاتا ہے یا رد کر دیا جاتا ہے تو وہ راوی کی وجہ سے ترک کیا جاتا ہے یہ بات اتنی واضح ہے کہ علماء اپنی عبارات میں یہ لکھنے کی حاجت بھی محسوس نہیں کرتے کہ ہم حدیث ترک کر رہے ہیں تو راویوں کی وجہ سے کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے دوسری جگہوں پر دوسری کتابوں میں لکھ دیا ہوتا ہے کہ جب بھی ہم حدیث کسی کو رد کریں ترک کریں گے تو راوی کی وجہ سے کریں گے۔۔۔یہ بات اتنی واضح ہے کہ ہمیں دلائل و حوالے دینے کی ضرورت ہی نہیں۔۔۔ جرح و تعدیل شرح حدیث اصول حدیث وغیرہ میں یہ باتیں جگہ جگہ لکھی ہیں۔۔۔📌پھر بھی ہم نے تبرک کے طور پر مذکورہ بالا دو تین حوالے لکھے ہیں کہ جس میں واضح طور پر علماء نے لکھا کہ حدیث کو ترک کیا جاتا ہے ایک حدیث کو ترجیح دی جاتی ہے تو ترک اور ترجیح کا یہ معاملہ سب راویوں کی وجہ سے ہوتا ہے

۔

*#دلیل و حوالہ 9️⃣۔۔۔۔۔🔟 امام ابن الھمام حنفی اور امام ملا علی قاری حنفی فرماتے ہیں*

وَإِذَا حَصَلَ التَّعَارُضُ وَجَبَ التَّرْجِيحُ

ایک مسئلے کے اندر امام ملا علی قاری نے امام ابن ہمام کے حوالے سے چند احادیث صحیحہ ذکر کیں جو اپس میں ٹکرا رہی تھیں، اپ نے فرمایا کہ واجب ہے کہ ان احادیث میں سے مضبوط ترین صحیح ترین حدیث کو ترجیح دیں گے اور دوسری غیر قوی احادیث صحیحہ کو تاویل کریں گے یا رد کر دیں گے

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح3/1100ماخوذا

۔

*#دلیل و حوالہ1️⃣1️⃣ امام فخر الرازی کا نظریہ*

فقد حصل التعارض وإذا كان كذلك وجب المصير إلى الترجيح

امام فخر الدین رازی نے چند دلائل و احادیث لکھیں اور اس کے بعد فرمایا کہ ان میں ٹکراؤ تعارض ہے تو لہذا ہم پر واجب ہے کہ ہم ان میں سے مضبوط ترین اور صحیح ترین کو ترجیح دیں گے اور دوسرے کو تاویل کریں گے یا رد کریں گے

المحصول للرازي4/474ماخوذا

.

*#دلیل و حوالہ1️⃣2️⃣*

يرجح خبر المتواتر على الآحاد والمشهور؛ لأن المتواتر يفيد القطع، بخلاف خبر الآحاد والمشهور فإنه لا يفيد إلا الظن، والقطع مقدَّم على الظن

متواتر حدیث کو صحیح حدیث اور مشہور حدیث پر ترجیح دی جائے گی کیونکہ متواتر حدیث قطعی ہوتی ہے جبکہ مشہور اور خبر واحد صحیح حدیث قطعی نہیں ہوتی بلکہ ظنی ہوتی ہے اور ہر ذی شعور جانتا ہے کہ قطعی کو ظنی پر مقدم کرنا لازم ہے

الجامع لمسائل أصول الفقه وتطبيقاتها على المذهب الراجح ص422

.

*#دلیل و حوالہ1️⃣3️⃣*

وَعَلَى التَّنَزُّلِ بِأَنَّ الْأَصْلَ عَدَمُ جَمِيعِ هَذِهِ الِاحْتِمَالَاتِ فَهُوَ مُعَارَضٌ بِالْأَحَادِيثِ الدَّالَّةِ عَلَى أَفْضَلِيَّةِ الصِّدِّيقِ وَقَدْ تَوَاتَرَتْ تَوَاتُرًا مَعْنَوِيًّا فَهِيَ الْمُعْتَمَدَةُ

ایک صحیح حدیث کے متعلق جو بخاری میں ہے اس صحیح حدیث کے متعلق امام ابن حجر عسقلانی نے فرمایا کہ اس کی مختلف تاویلیں ہیں لیکن اگر وہ تاویل نہ مانی جائیں اور اس حدیث کو بغیر تاویل کے رکھا جائے تو بھی

 اس 📌صحیح حدیث کو چھوڑ دیں گے ترک کر دیں گے

 👈کیونکہ یہ حدیث ان احادیث مبارکہ سے ٹکرا رہی ہے کہ جو بہت زیادہ مضبوط ہیں قوی ترین ہیں متواتر ہیں جو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت پر دلالت کرتی ہیں اس لیے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت چونکہ کئی احادیث صحیحہ متواترہ مضبوط قوی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے لہذا اس کے مقابلے میں بخاری کی یہ صحیح حدیث رد کر دی جائے گی (کیونکہ بہت ساری احادیث مبارکہ کے یہ حدیث صحیح خلاف ہے تو یقینا راوی کی فہم میں یا ضبط میں یا ذہانت فطانت ثقاہت میں کوئی کمی ہوگی غلط فہمی ہوگی)

فتح الباری شرح بخاری ابن حجر12/396ماخوذا

۔

🛑*#اہم ترین نوٹ1*

مذکورہ بالا 12 دلائل و حوالہ جات میں یہ بات واضح ہے کہ حدیث مبارکہ کو صحیح حدیث مبارکہ کو دیگر قوی ترین صحیح حدیث مبارکہ کی وجہ سے ترک کر دیا جائے گا یا متواتر حدیث کی وجہ سے ترک کر دیا جائے گا۔۔۔🚨اب کیا چمن زمان اور اس کے ہمنوا یہی کہو گے کہ ان اسلاف نے صحابہ کرام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کو ترک کر دیا چھوڑ دیا رد کر دیا نعوذ باللہ تعالی۔۔۔۔؟؟ 🧠نہیں جناب انہوں نے نعوذ باللہ حدیث ہونے کی وجہ سے ترک نہیں کیا بلکہ اس وجہ سے ترک کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر فرامین مبارک قوی ترین موجود ہیں تو لہذا یہ حدیث صحیح مبارک کے راوی میں کچھ گڑبڑ ہے جس کی وجہ سے ہم اس کو ترک کر رہے ہیں۔۔

۔

🧐اگرچہ بعض اوقات الفاظوں میں یہ نہیں لکھا جاتا کہ ہم راوی کی وجہ سے ترک کر رہے ہیں لیکن اہل علم پر مخفی نہیں کہ علماء جب بھی یہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث پاک کو کو رد کر رہے ہیں تو ان کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ نعوذ باللہ فرمان رسول کریم ہونے کی وجہ سے ترک کر رہے ہیں بلکہ ان کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ فرمان رسول کریم جس ذریعے واسطے سند سے ہم تک پہنچا ہے اس ذریعے واسطے سند میں کچھ نہ کچھ ضرور غلط فہمی گڑبڑ ہے اس لیے ہم اس کو ترک کر رہے ہیں۔۔۔۔!!

۔

جیسا کہ کئی اسلاف نے اس بات کو دو ٹوک لکھا بھی ہے کہ راوی کی وجہ سے حدیث صحیح ترک کر رہے ہیں اور بعض اسلاف اس بات کو دو ٹوک نہیں لکھتے۔۔۔کیونکہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ اہل علم خوب جانتے ہیں کہ ہمارا مقصود ترک کرنے کا نعوذ باللہ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ یہ فرمان رسول ہے اس لیے ترک کر دو،  ایسا تو کوئی خبیث منافق انسان ہی سوچ سکتا ہے۔۔۔یہی وجہ ہے کہ اسی طرف خبیث انسان چمن زمان نے اشارہ مارا ہے کہ دیکھو نعوذ باللہ تعالی فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا اعلی حضرت نے امام اہل سنت نے۔۔۔۔۔!!

۔

جبکہ امام اہل سنت نے لفظ متواتر لکھا ہے اور اجماع لکھا ہے اور اہل علم کو پتہ ہے کہ متواتر بہت ساری احادیث قوی کا مجموعہ ہوتی ہیں اور اجماع بھی قران اور احادیث مبارکہ سے اخذ کیا جاتا ہے تو اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے حدیث صحیح کو ترک کرنے کی وجہ خود ہی ارشاد فرما دی کہ وہ زیادہ قوی ترین احادیث مبارکہ کے خلاف ہے اس لیے راوی کی وجہ سے ترک کر دی جائے گی 

۔

🛑*#اہم ترین نوٹ 2*

اب ہم وہ حوالہ جات پیش کر رہے ہیں کہ جس میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اجماع کی وجہ سے حدیث صحیح کو ترک کر دیا جائے گا اور اس کی وجہ بھی لکھی ہے کہ اجماع کی وجہ سے کیوں ترک کیا جائے گا۔۔۔۔؟؟

۔

ولئن سلمنا التخصيص به فهو معارض بالأحاديث الكثيرة البالغة درجة التواتر المعنوي الدالة على أفضلية الصديق فلا تعارضها الآحاد ولئن سلمنا التساوي بين الدليلين، لكن إجماع أهل السُّنة والجماعة على أفضليته، وهو قطعي فلا يعارضه ظني

بخاری شریف کی ایک حدیث کے متعلق امام قسطلانی نے فرمایا کہ اگر اس حدیث کو ہم سیدنا فاروق اعظم  کے ساتھ خاص مان لیں تو بھی یہ 📌بخاری شریف کی صحیح حدیث ترک کر دی جائے گی کیونکہ یہ حدیث پاک ان بہت ساری احادیث صحیحہ قویہ متواترہ کے خلاف ہے کہ جو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت پر دلالت کرتی ہیں،  چلو اگر بالفرض باطل مان لیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ دونوں کی افضلیت میں برابر برابر احادیث ہیں تب بھی ہم سیدنا فاروق اعظم والی احادیث مبارکہ کو ترک کر دیں گے کیونکہ اہل سنت والجماعت کا 

👈اجماع ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سب سے افضل ہیں اور اجماع ( قران و سنت احادیث مبارکہ سے ماخوظ ہوتا ہے اس لیے) قطعی ہوتا ہے تو اس کے مقابلے میں بخاری کی یہ حدیث صحیح کہ جو قطعی نہیں ترک کر دی جائے گی

شرح القسطلانی علی البخاری1/106

۔

سلمنَا التَّخْصِيص بِهِ، لكنه معَارض بالأحاديث الدَّالَّة على أَفضَلِيَّة الصّديق رَضِي الله عَنهُ، بِحَسب تَوَاتر الْقدر الْمُشْتَرك بَينهَا، وَمثله يُسمى بالمتواتر من جِهَة الْمَعْنى، فدليلكم آحَاد وَدَلِيلنَا متواتر، سلمنَا التَّسَاوِي بَين الدَّلِيلَيْنِ. لَكِن الْإِجْمَاع مُنْعَقد على أفضليته وَهُوَ دَلِيل قَطْعِيّ، وَهَذَا دَلِيل ظَنِّي، وَالظَّن لَا يُعَارض الْقطع، وَهَذَا الْجَواب يُسْتَفَاد من نفس تَقْرِير الدَّلِيل، وَهَذِه قَاعِدَة كُلية عِنْد أهل المناظرة فِي أَمْثَال 

هَذِه الإيرادات

بخاری کی اسی حدیث کی شرح میں علامہ عینی فرماتے ہیں کہ اگر ہم اس حدیث کو سیدنا فاروق اعظم کے ساتھ خاص مان لیں تو بھی یہ ان احادیث مبارکہ قویہ کے خلاف ہے کہ جو سیدنا ابوبکر صدیق کو افضل قرار دیتی ہیں اور وہ احادیث تواتر معنوی رکھتی ہیں تو 📌بخاری کی یہ حدیث اگرچہ صحیح ہے لیکن خبر واحد ہے ظنی ہے اور ہماری دلیل احادیث مبارکہ متواترہ ہیں کہ جو قطعی ہیں، اور اگر ہم برابر برابر مان لیں تو بھی سیدنا ابوبکر صدیق کی افضلیت پر چونکہ 👈اجماع ہے( اور اجماع قران و سنت احادیث مبارکہ سے ماخوظ ہوتا ہے) اس لیے بخاری کی یہ حدیث صحیح بھی نام مقبول ہوگی کیونکہ اجماع قطعی ہوتا ہے اور بخاری کی یہ حدیث صحیح قطعی نہیں ہے اور یہ قاعدہ کلیہ ہے اہل مناظرہ کو یاد رکھنا چاہیے اس طرح کے قواعد کلیہ کام اتے ہیں اعتراضات میں

عمدۃ القاری شرح بخاری 1/175

الکواکب الدراری شرح بخاری1/119

.

وَإِنْ كَانَ مُخَالِفًا لِنَصِّ الْكِتَابِ أَوْ لِلسُّنَّةِ الْمُتَوَاتِرَةِ أَوْ  لِلْإِجْمَاعِ  فَكَذَلِكَ؛ لِأَنَّ هَذِهِ الْأَدِلَّةَ قَطْعِيَّةٌ وَخَبَرُ الْوَاحِدِ ظَنِّيٌّ وَلَا تَعَارُضَ بَيْنَ الْقَطْعِيِّ وَالظَّنِّيِّ بِوَجْهٍ بَلْ الظَّنِّيُّ يَسْقُطُ بِمُقَابَلَةِ

الْقَطْعِيِّ

متواتر احادیث مبارکہ یا 👈اجماع یا قوی احادیث مبارکہ کے خلاف ہو تو اس کو رد کر دیں گے کیونکہ یہ قطعی ہیں اور خبر واحد صحیح حدیث ظنی ہوتی ہے تو ظنی قطعی کا مقابلہ نہیں ہو سکتا بلکہ حدیث صحیح جو ظنی ہو ساکت و رد ہو جائے گی قطعی کے مقابلے میں

کشف الاسرار شرح اصول البزدوی3/9

.

الإجماع: هو الدليل الذي يستند إليه المجمعون في إجماعهم، من كتاب أو سنة، أو قياس....اعلم أن الإجماع لا ينعقد إلا عن دليل، فإذا رأيت إجماعهم على حكم، علمنا أن هناك دليلًا جَمَعهم، سواء عرفنا ذلك الدليل،

 أو لم نعرف

🛑📌🧠🚨یاد رکھو اجماع ہمیشہ قران مجید کی ایات اور سنت و احادیث اور قران و احادیث سے اخذ شدہ قیاس پر مبنی ہوتا ہے لہذا جب بھی اجماع بولا جائے تو سمجھ جاؤ کہ وہاں پر ایسی مضبوط ترین دلائل موجود ہیں کہ جس کی وجہ سے اجماع کیا گیا ہے اگرچہ ہمیں ان دلائل کا علم ہو یا نہ ہو

موسوعة الإجماع في الفقه الإسلامي3/48

.

وخبرُ الواحدِ إذا ورد مخالفًا للإجماع يردُّ

خبر واحد یعنی اگرچہ حدیث صحیح ہو اگر وہ اجماع کے مخالف ہو تو رد کر دی جائے گی

مجموعة رسائل العلامة قاسم بن قطلوبغا ص75

نخب الأفكار علامہ عینی1/101

۔

🛑🛑*#الحاصل*

جب بھی معتبر علماء کرام فرمائیں کہ حدیث صحیح کو رد کر رہے ہیں ، ترک کر رہے ہیں تو اس کا غلط معنی مراد ہرگز نہیں ہوتا بلکہ یہ معنی مراد ہوتا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہم تک پہنچی ہے تو ہم تک پہنچانے والے شخص 👈راوی میں کچھ کمی ہے کہ جس کی وجہ سے اس حدیث صحیح کو ترک کر رہے ہیں بشرط کہ اس حدیث صحیح کے مقابلے میں دیگر احادیث صحیحہ قویہ یا قران و سنت و احادیث سے ماخوذ اجماع موجود ہو تو پھر حدیث صحیح کو ترک کر دیں گے راوی کی وجہ سے۔۔۔اور یہ بالکل برحق ہے اس میں کوئی گستاخی کی بات نہیں ہے، یہ عمل مبارک 🌹صحابہ کرام سے ثابت ہے اور اس کے بعد کے معتبر اسلاف سے ثابت ہے 

۔

🛑*#اہم ترین نوٹ*

سیدی اعلی حضرت مجدد دین و ملت علمائے معتبرین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ افضلیت کا مسئلہ باب عقائد میں سے ہے، سیدی اعلی حضرت لکھتے ہیں:

مسئلہ افضلیت ہرگز باب فضائل سے نہیں جس میں ضعاف سن سکیں بلکہ موافقت وشرح مواقف میں تو تصریح کی کہ بابِ عقائد سے ہے

فتاوی رضویہ5/585

۔

👈اور چمن زبان صاحب لکھتے ہیں کہ باب عقائد باب نظریات میں چمن زمان اور اس کے ہمنوا جیسے ریاض شاہ عرفان شاہ حنیف قریشی وغیرہ سب سیدی اعلی حضرت امام اہل سنت کے پیروکار ہیں:

*#چمن زمان لکھتا ہے*

ہم باب نظریات میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی شخصیت پر مکمل اعتماد کرتے ہیں

(دیکھیے چمن زمان کی کتاب جدید نعرے ص57,58)

.

🧐اب چونکہ افضلیت کے معاملے میں چمن زمان صاحب کو سیدی اعلی حضرت پر اعتراض ہے  اور اپ نے دیکھ لیا کہ اس نے سیدی اعلی حضرت کی عبارت کو کس طرح پیش کیا کہ لوگ اس سے متنفر ہو جائیں شدید نفرت کرنے لگ جائیں لیکن دعوی چمن زمان کا پہلے یہی تھا کہ چمن زمان سیدی اعلی حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ پر اعتماد کرتے تھے، اب اعتماد نہیں کر رہے تو لامحالہ چمن زمان اور اس کے ساتھ دینے والے ساتھی مثلا حنیف قریشی ریاض شاہ عرفان شاہ وغیرہ ان سب گروپ پر لازم ہے کہ 

👈اعلان کر دیں کہ ہم سیدی اعلی حضرت اور ان کے خلفاء ان کے مریدین وغیرہ سے لا تعلقی کا اعلان کرتے ہیں بلکہ یوں کہے کہ ہم تو ان سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ اس ٹولے کے مطابق امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے نعوذ باللہ عقائد کے ایک مسئلے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو ٹھکرا دینے کا اصول لکھا ہے،چمن زمان اور اس کے ساتھ دینے والے ساتھی مثلا حنیف قریشی ریاض شاہ عرفان شاہ وغیرہ اعلان کریں کہ لھذا اے اعلی حضرت کے ماننے والوں ہمیں چندہ مت دو، ہمارے لیے تمہارا چندہ تمھاری دوستی حرام ہے، اور اپنا خطاب جہاں بھی کریں وہاں پر بیان کر دیں کہ بھائی اعلی حضرت کے ماننے والو یہاں سے چلے جاؤ

۔

⏰لیکن اپ دیکھیں گے کہ ایسا کبھی نہیں کریں گے یہ لوگ۔۔۔۔۔۔کیونکہ وہ اہل سنت بریلویت کے نام پر کھاتے ہیں،چندا شہرت کماتے ہیں۔۔۔ہاں جس دن ایرانی ہڈیاں اور برطانوی پاؤنڈ اور امریکی ڈالر بہت زیادہ مل جائیں تو پھر شاید اس کو ضرورت نہ پڑے لیکن پھر بھی سیدی اعلی حضرت کے خلاف دو ٹوک نہیں لکھیں گے ، نہیں بولیں گے بلکہ اشارے کنائے میں سیدی اعلی حضرت اور ان کے عظیم خلفاء کے خلاف لکھیں گے بولیں گے کیونکہ پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اہل سنت سے جو ان کو چندہ ملتا ہے تو اعلی حضرت کے چاہنے والوں سے ملتا ہے، اب اگر سیدی اعلی حضرت کے خلاف دو ٹوک لکھیں گے ، بولیں گے  تو  لوگ جوتے ماریں گے

۔

اس لیے مکارانہ طور پر اعلی حضرت کے خلاف بکواس کر رہا ہے چمن زمان۔۔۔۔۔ اور حنیف قریشی ریاض شاہ عرفان شاہ اسے سمجھانے اور اس سے لا تعلقی کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں بلکہ ان بکواسات کے باوجود چمن زمان کو اپنے پروگراموں میں بلا رہے ہیں 

۔

 🚨🧠لیکن لوگو اس کی مکاری پہچان لو اور ابھی سے اس چمن زمان کو جوتے مار کر اپنے معاشرے سے دھکے دے کر نکال دو،

اور چمن زمان کے گروپ اور ہمنوا کو دل سے نکال دو، ان کی بات کا کوئی اعتبار نہ کرو، نہ انہیں سنو اور نہ ہی ان کی محفل میں جاؤ۔۔۔۔ 👈👈جب تک کہ تمام معاملات سے رجوع کر لیں اور ایک وقت تک وہ اپنے رجوع پر قائم رہ کر ثابت کر دیں کہ اب وہ بدل گئے ہیں سدھر گئے ہیں تو پھر علماء اہل سنت انہیں اجازت دے سکتے ہیں ، تب ہم علمائے اہل سنت کی اجازت سے انہیں سن سکتے ہیں لیکن پھر بھی احتیاط کے ساتھ۔۔۔۔❤️اور اللہ کریم خوب جانتا ہے کہ ہم جو ان کے خلاف لکھ رہے ہیں بد مذہبوں کے خلاف لکھ رہے ہیں تو اس لیے نہیں لکھ رہے کہ وہ بد مذہبی پر مزید ڈٹ جائیں بلکہ ہمارا مقصود یہ ہے کہ بدمذہبو دیکھو بدمذہبی میں واقعی بدمذہبی ہے اگرچہ اپ کو بدمذہبی بظاہر نظر نہیں ارہی مگر دیکھو دلائل سے ثابت ہو رہا ہے ہمارے دلائل سے ثابت ہو رہا ہے کہ بدمذہبی ہے یہ برائی ہے،لیھذا رک جاؤ بدمذہبی و برائی سے اور  دور ہو جاؤ بدمذہبی و برائی سےاور حق کے ساتھ ہو جاؤ۔۔۔

۔

 ❤️❤️اور حق اہل سنت والجماعت ہے، جو کہ اسلام کا سچا ترجمان جماعت ہے۔۔۔ جس میں حنفی شافعی مالکی حنبلی اور 👈کئی عوام اہل حدیث اور کئی عوام وہابیت اور کئی عوام نجدیت دیوبندیت اور بہت ساری عوام جنہیں اختلافات کا یعنی ایمان و کفر اور بدمذہبی والے اختلافات کا پتہ نہیں وہ سب جہنمی نہیں بلکہ وہ بھی اہل سنت ہیں کیونکہ جب انہیں دلائل کے ساتھ بتایا جائے تو یقینا وہ یہی کہیں گے کہ ہاں یہی اہل سنت کے جو دلائل ہیں وہی معتبر ہیں ہم بھی انہی کو مانتے ہیں۔۔۔❤️اور ہمارا مقصود بھی یہی ہے کہ سارے لوگ علم حاصل کرتے جائیں کہ اہل سنت کے نظریات کیا ہیں کن دلائل پر مبنی ہیں اور اسی کو اختیار کرتے جائیں

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

New  whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.