لافتی الا علی لاسیف الا ذوالفقار کی تحقیق..شجاعت..چمن زمان کی خیانتیں

 *لا فتی الا علی کی تحقیق، اسکا معنی درست ہے مگر روایتا ثابت نہیں اور چمن زمان محقق زمان کہلا کر مسلسل خیانتیں کر رہا ہے لیھذا محقق کہلانے کے لائق نہیں اور بعض صحابہ کرام کی اعلی شجاعت*

رسول کریمﷺ سب سے زیادہ بہادر:
 سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی ایک ایک دن ایک ایک پل بہادری سے بھرا پڑا ہے .. کوئی بدبخت ہی ہوگا کہ جو ان کی بہادری کا انکار کرے.. بہادری سے حق پر ڈٹے رہنے پر آپ کو کیا کیا تکلیفیں مشقتیں اٹھانی پڑی کسی سے مخفی نہیں...آپ حق پر بہادری کے ساتھ قائم دائم رہے... بطور تبرک ایک واقعہ پیش کرتا ہوں
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، احسن الناس، وكان اجود الناس، وكان اشجع الناس، ولقد فزع اهل المدينة ذات ليلة، فانطلق ناس قبل الصوت، فتلقاهم رسول الله صلى الله عليه وسلم راجعا، وقد سبقهم إلى الصوت وهو على فرس لابي طلحة، عري في عنقه السيف، وهو يقول: لم تراعوا، لم تراعوا، قال: وجدناه بحرا، او إنه لبحر، قال: وكان فرسا يبطا
ترجمہ:
‏‏‏‏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے  زیادہ خوبصورت تھے اور سب سے زیادہ سخی تھے اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ والوں کو خوف ہوا ، جدھر سے آواز آ رہی تھی ادھر لوگ چلے، راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹتے ہوئے ملے (آپ لوگوں سے پہلے تنہا خبر لینے کو تشریف لے گئے تھے) اور سب سے پہلےآپ صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لے گئے تھے آواز کی طرف سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ  عنہ کے گھوڑے پر جو ننگی پیٹھ تھا اور آپ کے گلے میں تلوار تھی اور فرماتے تھے کچھ ڈر نہیں کچھ ڈر نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: یہ گھوڑا تو دریا ہے اور پہلے وہ گھوڑا آہستہ چلتا تھا (یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ وہ تیز ہو گیا)۔
(مسلم روایت6006)
.
*سیدنا صدیق اکبر سب سے بہادر*
أَخْرَجَ البَزَّارُ في مُسْنَدِهِ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ عَنْ عَلِيِّ بنِ أَبِي طَالِبٍ -رضي اللَّه عنه- قَالَ: يَا أيُّها النَّاسُ مَنْ أشْجَعُ النَّاسِ؟ فَقَالُوا: أَنْتَ يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، فَقَالَ: أمَا إِنِّي مَا بَارَزَنِي  أَحَدٌ إِلَّا انْتَصَفْتُ مِنْهُ، وَلَكِنْ هُوَ أَبُو بَكْرٍ، إنَّا جَعَلْنَا لِرَسُولِ اللَّهِ -صلى اللَّه عليه وسلم- عَرِيشًا، فَقُلْنَا مَنْ يَكُونُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى اللَّه عليه وسلم- يَهْوِي إِلَيْهِ أَحَدٌ مِنَ المُشْرِكِينَ، فَوَاللَّهِ مَا دَنَا مِنَّا أحَدٌ إِلَّا أَبُو بَكْرٍ شَاهِرًا بِالسَّيْفِ عَلَى رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى اللَّه عليه وسلم-، لَا يَهْوِي إِلَيْهِ أحَدٌ إِلَّا أَهْوَى عَلَيْهِ، فَهَذَا أشْجَعُ النَّاسِ
ترجمہ:
مسند بزاز میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے دریافت کیا کہ بتاو سب سے زیادہ بہادر کون ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ سب سے زیادہ بہادر آپ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو ہمیشہ اپنے جوڑ سے لڑتا ہوں۔۔ آپ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ شجاع اور بہادر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ سنو :جنگ بدر میں ہم لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک عریش یعنی جھونپڑا بنایا،ہم لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کون رہے گا ؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان پر کوئی حملہ کردے۔ خدا کی قسم اس کام کیلئے سوائے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کوئی آگے نہیں بڑھا آپ(صدیق اکبر) شمشیر برہنہ ہاتھ میں لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوگئے پھر کسی دشمن کو آپ کے پاس آنے کی جرات نہیں ہوسکی اور اگر کسی نے جرات بھی کی تو آپ اس پر ٹوٹ پڑے۔ اس لئے حضرت ابو بکر صدیق ہی سب سے زیادہ شجاع اور بہادر ہیں
(كتاب اللؤلؤ المكنون في سيرة النبي المأمون2/386)
.
 بہادری کی بحث ہو اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا تذکرہ نہ کیا جائے یہ انصاف نہیں... آپ کی بہادری کسی اہل انصاف مطالعہ کرنے والے پر ڈھکی چھپی نہیں.... تاریخ اس بات سے بھری پڑی ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایمان لایا تو بہادری کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہو گئے اور مسلمانوں سے فرمایا کہ آپ اعلانیہ نماز پڑھیں طواف کریں تبلیغ کریں
.
بہادری کا تذکرہ ہو اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر نہ چھڑے یہ کیسے ہو سکتا ہے 
ثُمَّ أَخَذَ الرَّايَةَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ ؛ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا پھر جھنڈا اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید نے اٹھایا تو اللہ کریم نے فتح عطا فرمائی 
(مسند احمد حدیث1750..بخاری حدیث1246نحوہ.. بخاری حدیث3757)
.
سَمِعْتُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ يَقُولُ : لَقَدِ انْقَطَعَتْ فِي يَدِي يَوْمَ مُؤْتَةَ تِسْعَةُ أَسْيَافٍ،.
راوی فرماتے ہیں میں نے سنا خالد بن ولید فرمارہے تھے جنگ 
مُؤْتَةَ کے موقع پر میں اتنا خوب لڑا کہ 9 تلواریں ٹوٹ گئیں 
(بخاری روایت4265)
.
لَا تُؤْذُوا خَالِدًا، فَإِنَّهُ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّه
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خالد بن ولید کو اذیت نہ پہنچاو کہ بے شک وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے
(صحيح ابن حبان15/566)
علماء محققین نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے 
الخبر أخرجه الطبرانى من طريق آخر فى الصغير: المعجم الصغير: ١/٢٠٩. وقال الهيثمى: رواه الطبرانى فى الصغير والكبير باختصار، والبزار بنحوه. ورجال الطبرانى ثقات. مجمع الزوائد
(حاشیہ جامع المسانيد والسنن5/48)
.
سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ) أَيْ:  شَجِيعٌ مِنْ شُجْعَانِهِ
 سیدنا خالد بن ولید اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے یعنی اللہ کے بہادروں میں سے ایک عظیم بہادر ہیں
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح9/3790)
.
.
وأبو بكر رضي الله عنه كان أشجع الناس، لم يكن بعد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أشجع منه، هو أشجع من عمر، وعمر أشجع من عثمان، وعلي وطلحة والزبير. وهذا يعرفه من يعرف سيرهم
سب سے زیادہ بہادر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس کے بعد سب سے زیادہ بہادر سیدناابوبکرصدیق ہیں پھر سیدنا عمر سب سے زیادہ بہادر ہیں پھر سیدنا عثمان سیدنا علی سیدنا طلحہٰ سیدنا زبیر بہادر ہیں اس چیز کو ہر شخص جانتا ہے کہ جو ان کی سیرت کا مطالعہ کرتا ہے 
(كتاب أبو بكر الصديق أفضل الصحابة، وأحقهم بالخلافة ص45)
.
* سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی عظیم بہادری*
 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بہادری کا اس سے اندازہ لگائیے کہ خیبر کے دن جو آپ نے بہادری کے جوہر دکھائے تو صحابہ کرام حیران اور ششدر رہ گئے... کتب تاریخ آپ کی بہادری کے واقعات سے بھری پڑی ہیں
.
* سیدنا ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کی عظیم بہادری*
أَبُو سُفْيَانَ: فَلَمَّا لَقِينَا الْعَدُوَّ بِحُنَيْنٍ اقْتَحَمْتُ عَنْ فَرَسِي وَبِيَدِي السَّيْفُ صَلْتًا، وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي أُرِيدُ الْمَوْتَ دُونَهُ وَهُوَ يَنْظُرُ إِلَيَّ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا أَخُوكَ وَابْنُ عَمِّكَ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ فَارْضَ عَنْهُ، قَالَ: «قَدْ فَعَلْتُ، يَغْفِرُ اللَّهُ لَهُ كُلَّ عَدَاوَةٍ عَادَانِيهَا»
سيدنا ابو سفيان رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ غزوہ حنین کے دن میں اپنے گھوڑے سے کود پڑا اور میرے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی اور دشمن کے مقابلے کے لئے میں اس بہادری سے نکلا کہ میں موت کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا تھا... نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے تو سیدنا عباس نے فرمایا یارسول اللہ آپ کا بھائی یہ آپ کے چچا کا بیٹا ابوسفیان دیکھئے تو سہی کس بہادری سے لڑ رہے ہیں آپ ان سے راضی و خوش ہو جائیے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں راضی اور خوش ہو گیا اللہ اس کی پرانی دشمنیوں کو معاف فرما دے
(المستدرك على الصحيحين للحاكم ,3/284)
نبی پاک راضی،اللہ پاک راضی
جل بھن جائےرافضی،نیم رافضی
.
*سیدنا طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کی عظیم بہادری*
رايت يد طلحة شلاء وقى بها النبي صلى الله عليه وسلم يوم احد".
 میں نے طلحہ رضی اللہ عنہ کا وہ ہاتھ دیکھا جو شل ہو چکا تھا۔ اس ہاتھ سے انہوں نے( عظیم بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوءے )غزوہ احد کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی حفاظت کی تھی۔
(بخاری 4063)
.
* سیدنا ابو دجانہ رضی اللہ تعالی عنہ کی عظیم بہادری*
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ سَيْفًا يَوْمَ أُحُدٍ، فَقَالَ : " مَنْ يَأْخُذُ مِنِّي هَذَا ؟ " فَبَسَطُوا أَيْدِيَهُمْ، كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ يَقُولُ : أَنَا أَنَا. قَالَ : " فَمَنْ يَأْخُذُهُ بِحَقِّهِ ؟ " قَالَ : فَأَحْجَمَ الْقَوْمُ ، فَقَالَ سِمَاكُ بْنُ خَرَشَةَ أَبُو دُجَانَةَ : أَنَا آخُذُهُ بِحَقِّهِ. قَالَ : فَأَخَذَهُ، فَفَلَقَ بِهِ هَامَ الْمُشْرِكِينَ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تلوار لی احد کے دن اور فرمایا: ”یہ کون لیتا ہے مجھ سے؟“، لوگوں نے ہاتھ پھیلائے، ہر ایک کہتا تھا: میں لوں گا، میں لوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا حق ادا کر کےکون لے گا؟“، یہ سنتے ہی لوگ ہٹے (کیونکہ احد کے دن کافروں کا غلبہ تھا) سماک بن خرشہ ابودجانہ نے کہا: میں اس کا حق ادا کروں  گا اور لوں گا، پھر انہوں نے اس کو لے لیا اور(عظیم جرات و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے)مشرکوں کے سر اس تلوار سے چیر ڈالے
(مسلم حدیث6353)
.
*سیدنا سعد رضی اللہ تعالی عنہ کی عظیم بہادری*
ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفدي احدا غير سعد سمعته يقول: ارم فداك ابي وامي اظنه يوم  احد".
 میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو کسی کے لیے اپنے ماں باپ قربان کرنے کا لفظ کہتے نہیں سنا، سوائے سعد بن ابی وقاص کے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرما رہے تھے۔ تیر  مار، اے سعد! میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں، میرا خیال ہے کہ یہ غزوہ احد کے موقع پر فرمایا
(بخاری حدیث6184)
.
.
كَانَ يُقَالُ: أَشْجَعُ النَّاسِ الزُّبَيْرُ، وَأَبْسَلُهُمْ عَلِيٌّ
کہا جاتا تھا کہ سیدنا زبیر سے بھی زیادہ بہادر سیدنا علی ہیں 
(مكارم الأخلاق لابن أبي الدنيا ص57)
.
لَا فَتَى إِلَّا عَليّ لَا سَيْفَ إِلَّا ذُو الْفِقَارِ
کوئی جوان نہیں مگر یہ کہ علی...کوئی تلوار نہیں مگر یہ کہ ذُو الْفِقَارِ.... یہ نعرہ اور یہ بات عوام تو عوام و خواص میں بھی کافی مشہور و معروف ہے حتی کہ سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت احمد رضا علیہ الرحمتہ جیسے محقق مدقق  نے بھی اسے ذکر فرمایا اور جس کتاب کا حوالہ دیا اس کتاب میں یہ بات واقعی موجود ہے مگر اس کتاب میں سند موجود نہیں ہے لہذا امام اہلسنت پر خیانت وغیرہ کا فتوی نہیں لگے گا
لیکن
محقق کہلانے والے سمجھے جانے والے چمن زمان صاحب نے اس نعرے بات کو ثابت کرنے کے لیے اچھی خاصی تحریر لکھی اور اس میں محقق ہونے کا حق ادا نہ کیا، خیانتیں کیں...جیسے کہ تفصیل آرہی ہے
.
*اس نعرے بات  صفت  کی نفی کرنے والے بعض علماء محققین*
امام محقق مولا علی قاری حنفی فرماتے ہیں 
لَا فَتَى إِلَّا عَليّ لَا سَيْفَ إِلَّا ذُو الْفِقَارِ //
لَا أَصْلَ لَهُ مِمَّا يُعْتَمَدُ عَلَيْهِ...وَذَكَرَهُ كَذَا فِي الرِّيَاضِ النَّضِرَةِ...أَقُولُ وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى بُطْلَانِهِ أَنَّهُ لَوْ نُودِيَ بِهَذَا مِنَ السَّمَاءِ فِي بَدْرٍ لَسَمِعَهُ الصَّحَابَةِ الْكِرَامِ وَنَقَلَ عَنْهُمُ الْأَئِمَّةُ الْفِخَامُ وَهَذَا شَبِيهُ مَا يُنْقَلُ مِنْ ضَرْبِ النُّقَارَةِ حَوَالِيَ بَدْرٍ وَيَنْسُبُونَهُ إِلَى الْمَلَائِكَةِ عَلَى وَجْهِ الِاسْتِمْرَارِ مِنْ زَمَنِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ إِلَى يَوْمِنَا هَذَا وَهُوَ بَاطِلٌ عَقْلًا وَنَقْلًا وَإِنْ كَانَ ذَكَرَهُ ابْنُ مَرْزُوقٍ وَتَبِعَهُ الْقَسْطَلَّانِيُّ فِي مَوَاهِبِهِ وَكَذَا مِنْ مُفْتَرَيَاتِ الشِّيعَةِ الشَّنِيعَةِ
یعنی
علامہ محقق مولا علی قاری حنفی فرماتے ہیں کہ لَا فَتَى إِلَّا عَليّ لَا سَيْفَ إِلَّا ذُو الْفِقَارِ کوئی جوان نہیں مگر یہ کہ علی ہیں کوئی تلوار نہیں مگر یہ کہ ذُو الْفِقَارِ 
اس کی کوئی اصل موجود نہیں ہے کہ جس پر اعتماد کیا جا سکے یہ شیعوں کی من گھڑت باتوں میں سے ہے 
( الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص385)
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح6/2593نحوہ)
.
علامہ محقق محمد خلیل حنفی فرماتے  ہیں 
لَا فَتى إِلَّا عَليّ، وَلَا سيف إِلَّا ذُو الفقار. بَاطِل، لَا أصل لَهُ
لَا فَتَى إِلَّا عَليّ لَا سَيْفَ إِلَّا ذُو الْفِقَارِ کوئی جوان نہیں مگر یہ کہ علی ہیں کوئی تلوار نہیں مگر یہ کہ ذُو الْفِقَارِ اس کی کوئی اصل موجود نہیں ہے
( اللؤلؤ المرصوع ص222)
.
علامہ محقق محمد بن محمد درویش شافعی فرماتے ہیں 
وَسَنَده واه لم يَصح
لَا فَتَى إِلَّا عَليّ لَا سَيْفَ إِلَّا ذُو الْفِقَارِ کوئی جوان نہیں مگر یہ کہ علی ہیں کوئی تلوار نہیں مگر یہ کہ ذُو الْفِقَارِ اس کی سند واہیات ہے اور لا فتی والا   قول صحیح سند سے ثابت نہیں ہے
(كتاب أسنى المطالب في أحاديث مختلفة المراتب ص322)
.
قَالَ الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ: حَدَّثَنِي عَمَّارُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْحَنْظَلِيِّ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: «نَادَى مُنَادٍ فِي السَّمَاءِ يَوْمَ بَدْرٍ: لَا سَيْفَ إِلَّا ذُو الْفَقَارِ، وَلَا فَتَى إِلَّا عَلِيٌّ» . قَالَ الْحَافِظُ بْنُ عَسَاكِرَ:  وَهَذَا مُرْسَلٌ، وَإِنَّمَا تَنَفَّلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَيْفَهُ ذَا الْفَقَارِ يَوْمَ بَدْرٍ ثُمَّ وَهَبَهُ لِعَلِيٍّ بَعْدَ ذَلِكَ
( البداية والنهاية ط هجر11/38)
یہ سند صرف مرسل ضعیف ہی نہیں موضوع منکر مردود ہے
عمار بن محمد اور سعد الحنظلی کے متعلق نیچے تحقیق آ رہی ہے


.
 سید عرفان شاہ مشہدی بمع گروپ اور حنیف قریشی بمع گروپ کے ممدوح اور معتبر اور ناز اور محقق زماں کہلانے والے چمن زمان صاحب لکھتے ہیں
لیکن جس شخصیت میں شجاعت وجوانمردی کو بھی کمال ملتا ہے وہ ہیں سیدنا عبد المطلب کے پوتے ، سیدنا ابو طالب کے بیٹے ، رسول اللہ ﷺ کے بھائی شیرِ خدا ، بازوئے مصطفی ﷺ مولائے کائنات مولا علی مشکل کشا کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم۔۔۔جن کی جوان مردی پہ غیب سے آواز آتی ہے:
لَا فَتى إِلَّا عَليّ لا سيفَ إلا ذو الفقارِ
نہیں کوئی جوان مگر حیدرِ کرار ، نہیں کوئی تلوار مگر ذو الفقار۔۔۔!!! تلوار بس ذو الفقار ہے اور مردِ جوان فقط علی ہیں.....(انتھی)
 پھر محقق زمان کہلانے والے چمن زمان صاحب نے چند حوالے دیے ہیں آئیے دیکھتے ہیں کہ ان حوالوں میں کیا محقق صاحب نے تحقیق کا حق ادا کیا یا خیانت اور مکاریاں کیں
حوالہ نمبر1:
سرت ابن ہشام 2/100
میرا تبصرہ: مذکور کتاب میں اس روایت کی کوئی سند نہیں لکھی ہے
.
حوالہ نمبر2
محقق زمان کہلانے والے چمن زمان صاحب نے دوسرا حوالہ
، معجم ابن الابار ص164 کا دیا
میرا تبصرہ:
محقق پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اگر وہ واقعی محقق ہے تو جس کتاب سے حوالہ دے رہا ہے اس کی تحقیق بھی کر لیا کرے ورنہ رطب و یابس ایسی ویسی بات اٹھا کر حوالہ دے تو کوئی بھی بات کرسکتا ہے... لیکن محقق صاحب نے تحقیق کا حق ادا نہ کیا... اگر تحقیق کرتے تو اس حوالے کو غیر معتبر باتے.... اسے اسے مکاری کہیے یا کتمان یا جہالت......؟؟ خیر ہم آپ کو بتائیے دیتے ہیں کہ مذکورہ حوالے کی سند میں عمار اور الحنظی مردود راوی ہیں تفصیل نیچے آ رہی ہے
.
حوالہ نمبر3
(نشوۃ الطرب ص807)
میرا تبصرہ: مذکور کتاب میں اس روایت کی کوئی سند نہیں لکھی ہے
.
حوالہ نمبر4
سبل الہدی والرشاد 4/229)
میرا تبصرہ:
مذکور کتاب میں اس روایت کی کوئی سند نہیں لکھی ہے
.
حوالہ نمبر5
محقق زمان کہلانے والے چمن زمان صاحب نے پانچواں حوالہ
مناقبِ علی لابن المغازلی 234 کا دیا
میرا تبصرہ:
 اس کتاب کی تحقیق و تخریج کرنے والے علما نے اور دیگر علماء نے وضاحت کر دی تھی کہ اس کتاب کے اندر موضوع من گھڑت اور جھوٹی اور منکر روایات موجود ہیں لیھذا احتیاط کیجئے
 مگر یہ عجیب محقق ہیں احتیاط کرنے تحقیق کرنے کے بجائے اسی روایت کو ہی اپنی دلیل بنا لیا... یہ محبت میں غلو کرنا کہلائے گا مکاری کہلائے گا ایجنٹی کہلائے گا کسی کو خوش کرنا کہلائے گا یا جہالت.....؟؟ بہرحال چمن زمان صاحب کو محقق تو دور کی بات معتبر عالم بھی نہیں کہہ سکتے...علماء نے فرمایا ہے کہ اس روایت کی سند میں محمد بن عبيد الله عمرو بن ثابت مردود راوی ہیِں تفصیل نیچے آ رہی ہے
.
چھٹا حوالہ:
 الاکتفاء 1/389
میرا تبصرہ:
مذکور کتاب میں اس روایت کی کوئی سند نہیں لکھی ہے
ساتواں حوالہ:
الروض الانف 6/48
میرا تبصرہ:
مذکور کتاب میں اس روایت کی کوئی سند نہیں لکھی ہے
.
آٹھواں حوالہ:
محقق زمان کہلانے والے چمن زمان صاحب نے آٹھواں حوالہ 
 معجم ابن الابار ص164 ، 165 ، کا دیا
میرا تبصرہ:
 اپنی بات پر جو سچا جھوٹا ضعیف منکر و مردود جیسا بھی حوالہ ملا لکھ ڈالے... یہ اہل تحقیق کا شیوا نہیں ہے... ہاں کسی کو خوش کرنے کے لیے، کسی سے کچھ داد و امداد وصول کرنے کے لئے ایسا کچھ کیا جا سکتا ہے...بحرحال مذکورہ حوالے کی
سند میں عمار اور الحنظی مردود راوی ہیں تفصیل نیچے آ رہی ہے
.
نواں حوالہ:
الکامل فی التاریخ 2/44
میرا تبصرہ:
مذکور کتاب میں اس روایت کی کوئی سند نہیں لکھی ہے
.
دسواں حوالہ:
محقق زمان کہلانے والے چمن زمان صاحب نے دسواں حوالہ 
 الکامل فی ضعفاء الرجال 6/457 ، 458 کا دیا
میرا تبصرہ:
 محقق ہونے کے ناطے فرض تھا کہ تحقیق کرتے مگر یہاں تو معاملہ کچھ الٹ ہوگیا...محقق صاحب نے مکاری خیانت کرتے ہوئے اس روایت کے روای عیسی بن مہران پر مصنف کا تبصرہ چھپا دیا
مصنف علامہ ابن عدی نے فرمایا
حدث بأحاديث موضوعة مناكير محترق فِي الرفض
 اس روایت کے راوی نے موضوع منکر جھوٹی روایتیں کی ہیں منکر روایت کی ہیں جو صحیح روایت کے خلاف ہیں یہ راوی رافضیت میں جلا ہوا ہے
(الكامل في ضعفاء الرجال ,6/457)
.
گیارواں حوالہ:
محقق زمان کہلانے والے چمن زمان صاحب نے گیارواں حوالہ 
 میزان الاعتدال 3/324) کا دیا
میرا تبصرہ:
عین مکاری خیانت کرتے ہوئے اس روایت کے روای عیسی بن مہران پر تبصرہ چھپا دیا...مصنف کتاب اس روایت کے راوی کے متعلق فرماتے ہیں
رافضي كذاب
بہت بڑا جھوٹا رافضی تھا
(ميزان الاعتدال ,3/324)

.
بارھواں حوالہ:
جزء ابن عرفۃ حدیث 38  کا دیا
میرا تبصرہ:
 حق تو یہ تھا کہ محقق صاحب اگر واقعی محقق تھے تو اس روایت کی تحقیق فرماتے مگر اسے کیا کہیے داد وصول کرنا امداد وصول کرنا دھوکہ دینا مکاری کرنا خیانت کرنا یا جہالت یا غفلت.... بہرحال اس روایت میں طریف بن حنظلی راوی ہے جس کے متعلق تحقیق نیچے آ رہی ہے
.
حوالہ نمبر13:
محقق زمان کہلانے والے چمن زمان صاحب نے حوالہ نمبر13
مناقبِ علی لابن المغازلی 235 کا دیا ہے
میرا تبصرہ:
 اس کتاب کی تحقیق و تخریج کرنے والے علما نے اور دیگر علماء نے وضاحت کر دی تھی کہ اس کتاب کے اندر موضوع من گھڑت اور جھوٹی اور منکر روایات موجود ہیں لیھذا احتیاط کیجئے
 مگر یہ عجیب محقق ہیں احتیاط کرنے تحقیق کرنے کے بجائے اسی روایت کو ہی اپنی دلیل بنا لیا... یہ محبت میں غلو کرنا کہلائے گا مکاری کہلائے گا ایجنٹی کہلائے گا کسی کو خوش کرنا کہلائے گا یا جہالت.....؟؟ بہرحال چمن زمان صاحب کو محقق تو دور کی بات معتبر عالم بھی نہیں کہہ سکتے...علماء نے فرمایا ہے کہ اس روایت کی سند میں طریف بن حنظلی راوی ہے جو مردود ہے جسکی تفصیل نیچے آرہی ہے
.
حوالہ نمبر14:
 الھواتف لابن ابی الدنیا 5 ،
مجھے مذکورہ حوالے میں یہ روایت نہیں ملی
.
حوالہ نمبر15:
محقق زمان کہلانے والے چمن زمان صاحب نے حوالہ نمبر15 
معجم ابن الابار ص164 کا دیا ہے
میرا تبصرہ:
 لگتا ہے اس محقق صاحب کے نزدیک سچ جھوٹ جو کچھ ملے اپنی تائید میں لکھ دو یہی تحقیق ہے...خیر ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ سند میں عمار اور الحنظی مردود راوی ہیں تفصیل نیچے آ رہی ہے
.
حوالہ نمبر16:
.محقق زمان کہلانے والے چمن زمان صاحب نے حوالہ نمبر16
 تاریخِ دمشق 42/71 ،کا دیا ہے
میرا تبصرہ:
صاحب نے حسب عادت یہاں پر بھی تحقیق سے ذرا برابر بھی کام نہ لیا... محققین کے مطابق سند میں عمار اور الحنظی مردود راوی ہیں تفصیل نیچے آ رہی ہے
.
حوالہ نمبر17:
 ذخائر العقبی ص74 
میرا تبصرہ:
مذکور کتاب میں اس روایت کی کوئی سند نہیں لکھی ہے
.
حوالہ نمبر18:
، زرقانی علی المواہب 5/87 ، 9/381 
میرا تبصرہ:
ایسا واقعہ لکھا ہی نہین ملا... ممکن ہے مطبوعہ کا فرق ہو اور پھر معاملہ سند کا بھی دیکھا جائے گا
.
حوالہ نمبر19:
، البدایۃ والنہایۃ 7/250
میرا تبصرہ:
 ایک جگہ سند نہین لکھی ایک جگہ مرسل لکھا ایک جگہ سند میں عمار اور الحنظی مردود راوی ہیں تفصیل نیچے آ رہی ہے
.
حوالہ نمبر20:
الریاض النضرۃ 3/155
میرا تبصرہ:
مذکور کتاب میں اس روایت کی کوئی سند نہیں لکھی ہے
.
حوالہ نمبر 21:
 روح البیان میں ہے:
میرا تبصرہ:
مذکور کتاب میں اس روایت کی کوئی سند نہیں لکھی ہے
.
حوالہ نمبر22:
محقق زمان کہلانے والے چمن زمان صاحب نے حوالہ نمبر22
مناقب علی لابن المغازلی 155 کا دیا ہے
میرا تبصرہ:
 محقق کا کام ہوتا ہے سب سے پہلے کتاب کے مصنف کے متعلق تحقیق کرنا کہ آیا وہ صحیح روایتوں کو لاتا ہے یا مکس کرکے ضعیف جھوٹی روایت کو بھی لاتا ہے تاکہ وہ اس کتاب کی حقیقت جان لے اور بیان کرنے میں احتیاط کرے اور تحقیق میں محققین کے اقوال سے فائدہ اٹھائے... اس کتاب کے بارے میں محققین نے تنبیہ کر دی ہے کہ اس میں جھوٹی روایات موضوع منکر روایات موجود ہیں تو محقق صاحب کم سے کم اس کتاب کی تحقیق و تخریج کرنے والوں سے ہی استفادہ کر لیتے... مگر اس سے غفلت کہیے یا تجاہل کہیے یہ کسی کو خوش کرنا کہ بس جو کچھ آیا ہے وہ لکھ دیا تحقیق کے ت پر بھی عمل نہ کیا... چلئے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اس روایت میں ابو الجارود مردود راوی ہے جس کی تفصیل نیچے آ رہی ہے
.
*لَا فَتَى إِلَّا عَليّ لَا سَيْفَ إِلَّا ذُو الْفِقَارِ
کوئی جوان نہیں مگر یہ کہ علی ہیں ، کوئی تلوار نہیں مگر یہ کہ ذُو الْفِقَارِ....اس روایت کی سندیں اور اس پر محققین کے تبصرہ پیش خدمت ہیں*
.
ایک سند یہ ملی:
َنبأَنَا أَبُو مَنْصُور بن خيرون أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعَدَةَ أَنْبَأَنَا حَمْزَةُ بْنُ يُوسُفَ أَنْبَأَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنِ عَدِيٍّ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يُونُسَ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مِهْرَانَ حَدَّثَنَا مُحَوَّلٌ حَدثنَا عبد الرحمن بْنُ الأَسْوَدِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عبيد الله
ابْن أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَبِي رَافِعٍ 
.
 اس سند کے تمام راویوں پر جرح کرنا تو یہاں ممکن نہیں لیکن ایک راوی پر جرح پیش خدمت ہے
عِيسَى بْنُ مِهْرَانَ...من رؤوس الرافضة.حكى عَنْهُ: محمد بْن جرير الطبري، وغيره. وله كتاب فِي تكفير الصحابة وفسقهم، ملأه بالكذب والبهتان
عِيسَى بْنُ مِهْرَانَ بڑے بڑے شیعوں میں سے تھا ابن جریر الطبری وغیرہ نے اس سے روایت لی ہیں اس راوی نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں صحابہ کو کافر قرار دیا ہے فاسق قرار دیا ہے اور اس کتاب میں جھوٹ اور بہتان ہے
(كتاب تاريخ الإسلام - ت بشار6/383)
.
 عيسى بن مهران، وهو رافضي،  يحدث بالموضعات
عِيسَى بْنُ مِهران رافضی ہے جو من گھڑت جھوٹی باتیں روایات بیان کرتا ہے
(كتاب الفوائد المجموعة ص372)
.
عِيسَى بن مهْرَان المستعطف أَبُو مُوسَى كَانَ بِبَغْدَاد رَافِضِي كَذَّاب جبل قَالَ بن عدي حدث بِأَحَادِيث مَوْضُوعَة محترق فِي الرَّفْض
عِيسَى بن مهْرَان رافضی ہے بہت ہی بڑا جھوٹا ہے اور یہ موضوع من گھڑت اور جھوٹی روایتیں بیان کرتا ہے اور یہ رافضیت میں جلا ہوا ہے
(كتاب الكشف الحثيث ص205)
.
حدث بأحاديث موضوعة مناكير محترق فِي الرفض
 عیسی بن مہران چوٹی من گھڑت روایتیں منکر روایتیں بیان کرتا ہے اور یہ رافضیت میں جلا ہوا ہے
(الكامل في ضعفاء الرجال6/458)
.
عيسى بن مهران المستعطف أبو موسى.]
كان ببغداد. رافضي كذاب جبل.
قال ابن عَدِي: حدث بأحاديث موضوعة محترق في الرفض.
وقال أبو حاتم: كذاب.وقال الدارقطني: رجل سوء.
وقال الخطيب: كان من شياطين الرافضة  ومردتهم وقع إلي كتاب من تصنيفه في الطعن على الصحابة وتكفيرهم
یعنی
 عیسی بن مہران یہ رافضی تھا کذاب بہت بڑا جھوٹا تھا علامہ ابن عدی نے فرمایا کہ یہ موضوع من گھڑت اور جھوٹی حدیث بیان کرتا ہے یہ رافضیت میں جلا ہوا تھا... امام ابوحاتم فرماتے ہیں کہ یہ بہت بڑا جھوٹا تھا امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ یہ برا شخص تھا... خطیب بغدادی فرماتے ہیں کہ یہ شیطان رافضیوں میں سے تھا اس کی کتابوں میں صحابہ کرام پر طعن ہے اور صحابہ کرام کی تکفیر ہے
(كتاب لسان الميزان ت أبي غدة6/222)
.
ایک سند یہ ملی
روى أَبُو بكر مرْدَوَيْه من حَدِيث يَحْيَى بن سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ عَنْ أَبِيهِ عَن عِكْرِمَة عَن ابْن عَبَّاس قَالَ: صَاح صائح  يَوْم أحد من السَّمَاء: " لَا سيف إِلَّا ذُو الفقار وَلَا فَتى إِلَّا عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ 
.
.قال البُخارِيّ يَحْيى  بن سلمة بن كهيل، عن أبيه كوفي في حديثه مناكير.وقال النسائي يَحْيى بن سلمة بن كهيل متروك الحديث.
يَحْيى  بن سلمة بن كهيل متروک الحدیث ہے اس کی بیان کردہ حدیث اور روایات صحیح روایات صحیح احادیث کے خلاف ہوتی ہیں
(كتاب الكامل في ضعفاء الرجال9/21)
.
يحيى بن سلمة بن كهيل  ضعيف الحديث وكان يغلو في التشيع
يحيى بن سلمة بن كهيل سخت ضعیف ہے اور یہ شیعیت میں غلو کرتا تھا
(كتاب المسند المصنف المعلل9/20)
.
ایک سند یہ ملی
أَخْبَرَنَا عَمَّارٌ أَبُو الْيَقْظَانِ عَنْ سَعْدِ بْنِ طَرِيفٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ
سعد بن طريف وهو الإسكافي الحنظلي أبو العلاء الكوفي
.
سعد ابن طريف الإسكاف [الإسكافي] الحنظلي [أبو العلاء] الكوفي  متروك ورماه ابن حبان بالوضع وكان رافضيا من السادسة
سعد ابن طريف متروک ہے امام ابن حبان نے اس پر الزام لگایا ہے کہ یہ اپنی طرف سے باتیں گھڑ لیتا تھا اور یہ رافضی تھا
(كتاب تقريب التهذيب ص231)
.
وهُوَ يفرط فِي التشيع.
وَقَال أَبُو زُرْعَة (٦) : لين الحديث (٧) .
وَقَال أبو حاتم (٨) : ضعيف الحديث، منكر الحديث.
وَقَال الجوزجاني: مذموم
سعد ابن طريف شیعیت میں بہت زیادہ غلو کرتا تھا سخت ضعیف اور منکر الحدیث تھا یعنی ایسی روایات بیان کرتا تھا جو صحیح احادیث اور صحیح روایات کے خلاف ہوتی تھیں
( تهذيب الكمال في أسماء الرجال10/273)
.
لا يحل لأحد يروي عنه...وَهو يغرق في التشيع
سعد ابن طريف سے روایت لینا حلال نہیں اور یہ شیعیت میں غرق تھا
(كتاب الكامل في ضعفاء الرجال4/383)
.
ایک سند یہ ملی:
حدثنا أبو القاسم الفضل بن محمد بن عبد الله الأصفهاني ⦗٢٥٩⦘ -قدم علينا واسطاً في شهر رمضان من سنة أربع وثلاثين وأربعمائة إملاء في جامع واسط- قال: أخبرنا محمد بن علي، أخبرنا محمد بن  عبد الله حدثنا الهيثم بن محمد بن خلف بن محمد، حدثنا علي بن المنذر، حدثنا ابن فضل، حدثنا عمر بن ثابت عن محمد بن  عبيد الله بن أبي رافع عن أبيه عن جده قال: نادى المنادي يوم أحد: لا سيف إلا ذو الفقار ولا فتى إلا علي
.
 لَيْسَ حَدِيثُهُ بِشَيْءٍ. حَدَّثَنِي آدَمُ , قَالَ: سَمِعْتُ الْبُخَارِيَّ قَالَ: مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ  اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ قَالَ ابْنُ مَعِينٍ لَيْسَ بِشَيْ
مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ  اللَّهِ کے متعلق امام بخاری نے فرمایا کہ یہ منکر الحدیث ہے یعنی ایسی حدیث بیان کرتا ہے ایسی روایت بیان کرتا ہے جو صحیح روایات اور احادیث کے خلاف ہوتی ہیں امام ابن معین نے فرمایا کہ یہ کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا
(كتاب الضعفاء الكبير للعقيلي4/104)
.
هذا محمد بن عبيد الله، متروك
مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ  اللَّهِ کو ترک کردیا گیا ہے
(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/600)
.
مذکورہ رواہت میں ایک راوی عمرو بن ثابت ہے
قال ابن المبارك: لا تحدثوا عن عمرو بن ثابت، فإنه يسب السلف...وقال أبو داود: رافضي خبيث.
وقال هَنَّاد: لم أصل عليه، لأنه قال: لما  مات النبي - صلى الله عليه وسلم - كفر الناس إلا خمسة
یعنی
 لا فتی الا علی لاسیف الا ذوالفقار کی روایت میں ایک راوی عمرو بن ثابت ہے امام ابن المبارک فرماتے ہیں کہ عمر بن ثابت سے کچھ بھی حدیث بیان مت کرو بے شک وہ اسلاف کو گالیاں دیتا تھا اور امام ابوداؤد نے فرمایا کہ یہ رافضی خبیث تھا امام ہناد نے فرمایا کہ یہ کہتا تھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سارے لوگ(بشمول صحابہ کرام) کافر ہوگئے سوائے 5 کے
(كتاب تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال7/128)
.
وَكَانَ شِيعِيًّا مُتَغَالِيًا، تَرَكَهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، وغيرهم.
وَقَالَ ابْنُ مَعِينٍ [١] : لَيْسَ بِثِقَةٍ.وَقَالَ هَنَّادٌ: لَمَّا مَاتَ لَمْ أُصَلِّ عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ قَالَ: «لَمَّا مَاتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَفَرَ النَّاسُ إِلا خَمْسَةٌ» [٢] .وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ [٣] : لا يَحِلُّ ذِكْرُهُ فِي الْكُتُبِ إِلا عَلَى سبيل الاعتبار.وقال بن الْمُبَارَكِ: لا تُحَدِّثُوا عَنْهُ فَإِنَّهُ كَانَ يَسُبُّ السَّلَفَ
عمرو بن ثابت غالی شیعہ تھا..امام ہناد نے فرمایا کہ یہ کہتا تھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سارے لوگ کافر ہوگئے سوائے 5 کے... امام ابن حبان نے فرمایا کہ اس کی روایات کو بطور دلیل وغیرہ ذکر کرنا حلال ہی نہیں ہے... امام ابن المبارک نے فرمایا کہ اس سے حدیث مت بیان کرو روایتیں مت بیان کرو یہ اسلاف کو گالیاں دیتا تھا
(كتاب تاريخ الإسلام - ت تدمري11/280)
(ميزان الاعتدال ,3/249 نحوہ)


.
ایک سند یہ ملی:
- أخبرنا أبو طاهر محمد بن علي بن محمد البيع البغدادي، أخبرنا أبو أحمد عبيد الله بن محمد بن أحمد بن أبي مسلم الفرضي، حدثنا أبو العباس أحمد بن محمد بن سعيد المعروف بابن عقدة الحافظ، حدثنا جعفر بن محمد بن سعيد الأحمسي، حدثنا نصر -وهو ابن مزاحم-، حدثنا الحكم بن مسكين، حدثنا أبو الجارود وابن طارق عن عامر بن واثلة، وأبو ساسان  وأبو حمزة عن أبي إسحاق السبيعي عن عامر بن واثلة
.
 أبو الجارود زياد بن المنذر متروك الحديث - وضعفه جدا.
حدثنا عبد الرحمن قال قرئ على العباس بن محمد الدوري عن يحيى بن معين أنه قال: أبو الجارود زياد بن المنذر كذاب
یعنی
أبو الجارود زياد بن المنذر آپ کی بیان کردہ احادیث اور روایات کو ترک کر دیا گیا ہے اور اس کو سخت ضعیف قرار دیا ہے... امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ یہ بہت بڑا جھوٹا تھا
(كتاب الجرح والتعديل لابن أبي حاتم3/546)
.
 زياد بْن الْمُنْذِرِ أَبُو الْجَارُودِ كَذَّابٌ
أبو الجارود زياد بن المنذر بہت بڑا جھوٹا تھا
.(كتاب الكامل في ضعفاء الرجال4/133)
.
زياد بن المنذر أبو الجارود كذاب، قال البخاري في نافع بن الحارث لم يصح حديثه.قال الهيثمي في المجمع (٧/ ٥)، وفيه زياد بن المنذر وهو كذاب.قال البوصيري في الإتحاف (٢/ ١٦٧/ ب)  فيه زِيَادُ بْنُ الْمُنْذِرِ عَنْ نَافِعِ بْنِ الْحَارِثِ وهما ضعيفان، وزاد في المسندة وهما واهيان متهمان
أبو الجارود زياد بن المنذر بہت بڑا جھوٹا ہے امام بخاری نے فرمایا ہے کہ اس کی حدیثیں صحیح نہیں ہے علامہ ہیثمی نے فرمایا ہے کہ یہ کذاب ہے امام بوصیری نے فرمایا کہ یہ سخت ضعیف ہے اور واہیات ہے اور اس پر الزام ہے کہ یہ اپنی طرف سے حدیث روایت گھڑ لیتا تھا
(كتاب المطالب العالية محققا14/594)
.


بعض علماء اس جملے کو حسن معتبر مقبول صفتِ سیدنا علی قرار دیا
امام سیوطی نےعمار والی سند کو معتبر قرار دیا 
عمّار مَتْرُوك (قلت) كلا بل ثِقَة ثَبت حجَّة  من رجال مُسْلِم
(اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة1/333)
مگر اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ عمار کو ثقہ قرار دیں تب بھی اس سند میں سَعْدِ بْنِ طَرِيفٍ غالی شیعہ غیر معتبر راوی ہے جیسے کہ اوپر گذرا
.
علامہ سہیلی وغیرہ نے اس روایت کو لکھا جرح نہ کی
مثلا دیکھیے الروض الأنف ت تدمري6/30)
.
 یہاں ایک بات ذہن میں رہے کہ کوئی  بات خبیث انسان سے نکلے تو اس سے خبیث معنی مراد لئے جائیں گے اور کسی معتبر اچھی سے نکلے تو اس کی تاویل کی جائے گی
سیدی اعلٰی حضرت امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ بعض محتمل لفظ جب کسی مقبول سے صادر ہوں بحکمِ قرآن انہیں "معنی حسن" پر حمل کریں گے، اور جب کسی مردود سے صادر ہوں جو صریح توہینیں کرچکا ہو تو اس کی خبیث عادت کی بنا پر معنی خبیث ہی مفہوم ہوں گے کہ:
 کل اناء یترشح بما فیہ صرح بہ الامام ابن حجر المکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔
 ہر برتن سے وہی کچھ باہر آتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے... 
(فتاوی رضویہ : ج29، ص225)
.
 جب شیعہ بولتے ہیں، رافضی نیم رافضی بولتے ہیں کہ سیدنا علی جیسا کوئی جوان نہیں ہے تو معاذ اللہ ان کی مراد یہی خبیث معنی ہوتا ہے کہ ان جیسا  مطلقا کوئی بہادر نہیں... لیکن یہی الفاظ اگر کسی اچھے سے نکلے تو اس کی تاویل کی جائے گی کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم میں بے شک بہادری جرات مندی تھی مگر اعلی بہادری کے معاملے میں نوجوانوں میں سیدنا علی جیسا کوئی نہیں، اور جو نوجوانی سے تھوڑی بڑھ کر عمر کے ہیں ان میں سیدنا علی سے زیادہ بہادر اور کوئی ہے جیسے سیدنا خالد بن ولید اور اس سے بھی بڑھ کر عمر والے ہیں تو ان میں اور کوئی زیادہ بہادر ہے جسے سیدنا صدیق اکبر سیدنا عمر وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین
.
 اللہ کریم جانتا ہے کہ ہمارا مقصد یہ نہیں کہ کوئی گر جائے کوئی نیچا ہو جائے کوئی بدبخت ہو جائے کوئی گمراہ ہو جائے کوئی بدمذہب ہو جائے.. ہماری دعا تو یہی ہے کہ اللہ تعالی چمن زمان صاحب کو واقعی سچا محقق اہلسنت بنائے
.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.