اسلاف کے حوالے دینے کے بجائے چمن زمان خود مجتہد بن کر بدبختی کے فتوے دینےلگا

 *چمن زمان مجتہد بن بیٹھا اور اسکے جھوٹ و بہتان مکاریاں پڑہیے اور اس کے فتوی کے مطابق کئ اکابرین اہلسنت ناصبی مبغض بے ایمان کہلائے،نعوذ باللہ......!!*

👈 چمن زمان کا جھوٹ و بہتان:
چمن زمان صاحب لکھتے ہیں
مگر دجالیوں ناصبیوں کو اتنی بات بھی ہضم نہیں ہوتی..پس لگ گئے شور مچانے....پہلے کہا سیدنا علی رضی اللہ عنہ و فداہ روحی وغیرہ کو یہ اجازت عذر کی وجہ سے تھی پھر کہا یہ خصوصیت دراصل سیدنا علی وغیرہ کی خصوصیت ہی نہیں کہ حالت عذر میں تو عام امتی بھی حالت جنابت میں مسجد سے گذر سکتا ہے..پھر بدبخت ٹولے کا تعصب بڑھا اور مولا علی کی خصوصیت کا انکار کرتے کرتے رسول کریم کی خصوصیت کی بھی نفی کر ڈالی اور کہا
الحاصل:
بعض علماء کرام کے مطابق یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ عام امتی بھی اس حالت میں عذر کی وجہ سے مسجد سے گزر سکتا ہے
بقول رضا     اف رے منکر یہ بڑھا جوش تعصب آخر
                  بھیڑ میں ہاتھ سے کمبخت کے ایمان گیا
(چمن زمان کی کتاب علی طاہر اطہر ص5)
.
👈 پہلا جھوٹ و خیانت و بہتان:
آدھی عبارت پیش کرکے ہم پر تھوپ دی کہ ہمارے مطابق سیدنا علی کی خصوصیت ہی نہیں
آپ ہماری پوری عبارت پڑہیے ہم نے لکھا تھا کہ:
بعض اہلسنت علماء بالخصوص فقہ شافعی کے مطابق روایات ضعیف منکر موضوع تک ہیں اور یہ خصوصیت دراصل سیدنا علی وغیرہ کی خصوصیت ہی نہیں کہ حالت عذر میں تو عام امتی بھی حالت جنابت میں مسجد سے گذر سکتا ہے(انتھی)
.
👈 غور کیجیے ہم نے دو ٹوک لکھا تھا کہ ہمارے مطابق نہین بلکہ بعض اہلسنت علماء کے مطابق یہ سیدنا علی کی خصوصیت نہیں
.
👈 اب بتائیے  آدھی عبارت پیش کرکے ہم پر بہتان باندھنے والا مکار خائن دجالی کون.......؟؟
.
👈 دوسرا جھوٹ اور خیانت اور بہتان:
چمن زمان نے لکھا کہ
پھر بدبخت ٹولے کا تعصب بڑھا اور مولا علی کی خصوصیت کا انکار کرتے کرتے رسول کریم کی خصوصیت کی بھی نفی کر ڈالی
.
👈 تبصرہ:
بہتان باندھنے والے پر جھوٹے پر مکار پر اللہ کی ****…ہم نے اس خصوصیت کی نفی کی ہی نہیں ہم نے تو صاف لکھا کہ:بعض اہلسنت علماء بالخصوص فقہ شافعی کے مطابق روایات ضعیف منکر موضوع تک ہیں اور یہ خصوصیت دراصل سیدنا علی وغیرہ کی خصوصیت ہی نہیں کہ حالت عذر میں تو عام امتی بھی حالت جنابت میں مسجد سے گذر سکتا ہے
.
👈 اب بتائیے جب ہم نے صاف لکھا کہ یہ بعض اہلسنت علماء کا قول ہے تو اس سے کیسے نتیجہ نکالا کہ یہ ہمارا قول ہے.....؟؟ ہمارا قول تو یہ دوٹوک لکھا تھا کہ:
آج  مذکورہ احادیث کی سند پر کلام  نہیں کرتے،کیونکہ کئ معتبر علماء کرام نے ان احادیث کو لیا ہے
لیکن بات یہ ہے کہ سیدنا علی کو یہ اجازت "طہارت مخصوصہ" کی وجہ سے تھی یا عذر و مجبوری دشواری کی وجہ سے تھی....؟؟
.
👈 *چمن زمان کے مطابق کئ اکابرین  بدبخت متعصب مغض ناصبی دجالی بے ایمان کہلائے..نعوذ باللہ*
چمن زمان نے سیدی رضا کے شعر کو دلیل بنا کر کہا کہ سیدنا علی اور رسول کریم سے خصوصیت کی نفی کرنا ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھنا ہے اور یہ ناصبی مبغض ہونے کی نشانی ہے
.
👈 آئیے چند اکابرین اہلسنت کے حوالے سے پڑہتے ہیں کہ کن کن نے اس خصوصیت کی نفی کرکے عام جنبی آدمی کو  عذر کی وجہ سے مسجد میں ٹہرنے اور بلاعذر مسجد سے گذرنے کی اجازت دی اور چمن زمان کے فتوے کے مطابق بدبخت کمبخت بے ایمان ناصبی مبغض ثابت ہوئے نعوذ باللہ
.
لِأَن هَذَا الحكم لَا يخْتَص بِهِ بل أمته كَذَلِك
👈حالت جنابت میں مسجد سے گزرنا یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ تو امت کے لئے بھی ہے 
(كتاب غاية السول في خصائص الرسول ص182)
👈چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.
وبالعبور فيه عند المالكية، أي: لا الشافعية، لأنهم جوزوا عبور الجنب في المسجد
👈 فقہ مالکی کے مطابق یہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا علی کی خصوصیت ہے لیکن شافعی علماء اہل سنت کے مطابق یہ ان کی خصوصیت نہیں ہے کیونکہ یہ تو عام آدمی کے لیے بھی جائز ہے 
(كتاب شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية7/153)
👈 چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.
.

(ويجوز لجنب
وحائضٍ ونُفَساءَ انقطع دمُهما دخولُ مسجد ولو بلا حاجة، لا لبثٌ به إلا بوضوءٍ، فإن تعذَّر واحتِيْجَ للبث جاز بلا تيممٍ
👈 حالت جنابت میں اور حیض والی کو اور نفاس والی کو مسجد میں داخل ہونا جائز ہے(یہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور  سیدنا علی کی خصوصیت نہیں ہے) ہاں البتہ اگر مسجد میں ٹھہرنا ہو تو وضو کرے اور اگر مجبوری ہو عذر ہو تو تیمم کے بغیر بھی ان سب عام امتیوں  کے لئے مسجد میں ٹھہرنا جائز ہے 
(حاشية الخلوتي على منتهى الإرادات1/130)
👈 چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.

(فلو تعذر) الوضوء على الجنب، ونحوه (واحتيج إليه) أي: إلى اللبث في المسجد لخوف ضرر بخروجه منه (جاز) له اللبث فيه (من غير تيمم
👈 جنابت کی حالت میں مسجد سے گزرنا جائز ہے ہاں ٹھہرنا جائز نہیں لیکن اگر عذر  ہو تو بغیر تیمم کے  ٹھہرنا بھی جائز ہے 
(كتاب كشاف القناع عن متن الإقناع - ط وزارة العدل1/349)
👈 چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.
ففى جواز العبور لها وجهان احدهما لا يجوز لاطلاق الخبر (لا احل المسجد لجنب ولا حائض) واصحهما  الجواز كالجنب ومن علي بدنه نجاسة لا يخاف معها التلويث
👈 صحیح بات یہ ہے کہ حالت جنابت وغیرہ میں مسجد سے گزرنا ہر امتی کے لئے جائز ہے 
(فتح العزيز بشرح الوجيز = الشرح الكبير للرافعي2/418)
👈 چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.
وَلِجُنُبٍ) وَكَافِرٍ أَسْلَمَ (وَحَائِضٌ وَنُفَسَاءَ انْقَطَعَ دَمُهُمَا أَوْ لَا، مَعَ أَمْنِ تَلْوِيثٍ، دُخُولُ مَسْجِدٍ لِمُرُورٍ وَلَوْ بِلَا حَاجَةٍ) ، لِقَوْلِهِ تَعَالَى {وَلا جُنُبًا إِلا عَابِرِي سَبِيلٍ} [النساء: ٤٣] ، وَهُوَ: الطَّرِيقُ. وَعَنْ جَابِرٍ " كَانَ أَحَدُنَا يَمُرُّ فِي الْمَسْجِدِ جُنُبًا مُجْتَازًا " رَوَاهُ سَعِيدُ بْنُ  مَنْصُورٍ. وَسَوَاءٌ كَانَ لِحَاجَةٍ أَوْ لَا، وَمِنْ الْحَاجَةِ كَوْنُهُ طَرِيقًا قَصِيرًا. وَ (لَا) يَجُوزُ لِجُنُبٍ وَحَائِضٍ وَنُفَسَاءَ (لُبْثٌ بِهِ) - أَيْ: الْمَسْجِدِ (مَعَ قَطْعِهِ) - أَيْ: الدَّمِ - (بِلَا عُذْرٍ) ، لِقَوْلِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «لَا أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلَا لِجُنُبٍ» رَوَاهُ أَبُو دَاوُد. (إلَّا بِوُضُوءٍ) ، فَإِنْ تَوَضَّئُوا؛ جَازَ لَهُمْ  اللُّبْثُ فِيهِ
👈 بغیر کسی حاجت کے مسجد میں داخل ہونا گزرنا حیض نفاس اور جنابت کی حالت میں جائز ہے البتہ ٹھہرنا جائز نہیں مگر یہ کہ عذر ہو تو ٹھہرنا بھی جائز ہے 
(مطالب أولي النهى في شرح غاية المنتهى1/172)
👈 چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.
وَلِلْجُنُبِ اللُّبْثُ فِيهِ بِوُضُوءٍ، وَعَنْهُ لَا "وَ"  وَفِي الرِّعَايَةِ رِوَايَةٌ يَجُوزُ لِجُنُبٍ مُطْلَقًا وَحَكَاهُ الْخَطَّابِيُّ عَنْ أَحْمَدَ وَإِنْ تَعَذَّرَ وَاحْتَاجَ فَبِدُونِهِ،
👈 حالت جنابت میں مسجد میں گزرنا ٹھہرنا جائز ہے یہ ایک روایت ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ وضو کرکے ٹھہرنا جائز ہے اور اگر عذر ہو تو بغیر وضو کے بھی جائز ہے 
(الفروع وتصحيح الفروع1/262)
👈 چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.
ولجنب عبور مسجد ولو لغير حاجة وكذا حائض ونفساء مع أمن تلويثه...إلا أن يتوضأ فلو تعذر واحتيج إليه جاز من غير تيمم نصا وبه أولی
👈 حالت جنابت میں اور حیض اور نفاس کی حالت میں  مسجد سے گزرنا ہر ایک امتی کے لیے جائز ہے اگرچہ کوئی حاجت نہ ہو ہاں اگر ٹھہرنا ہو تو وضو کر لے مگر یہ کہ اگر عذر ہو تو بغیر تیمم کے بھی ٹہر سکتے ہیں
(الإقناع في فقه الإمام أحمد بن حنبل1/46)
👈 چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.
.
وتعذر عليه خروجه منه لخوف على نفسه أو ماله. أما عبور المسجد مارّا به من غير مكث فلا يحرم
👈 جنابت کی حالت میں مسجد سے گزرنا جائز ہے ٹھہرنا جائز نہیں ہے اگر عذر ہو تو ٹھہرنا بھی جائز ہے  
( فتح القريب المجيب في شرح ألفاظ التقريب = القول المختار في شرح غاية الاختصار ص65)
👈 چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.
.
وصرّح بأنّ بيت أبي بكر كان له باب خارج المسجد؛ وخوخة إلى داخل المسجد، وبيت عليّ لم يكن له باب إلّا من داخل المسجد
( منتهى السؤل على وسائل الوصول إلى شمائل الرسول4/246)
چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.
.یہ حدیث اپنے ظاہری معنی میں نہیں ہے،یہ مطلب نہیں کہ حضرت علی کرم الله وجہہ کو مسجد میں جنبی ہونے کی اجازت ہے بلکہ بحالت جنابت مسجد میں سے گزرنے کی اجازت دی گئی مطلب وہ ہے جو آگے آرہا ہے۔۲؎ اس فرمان کا مقصد یہ ہے کہ کسی کے گھر کا دروازہ مسجد کی طرف نہ ہوتا کہ اسے مسجد میں گزرنا پڑے سوائے حضرت علی کے کہ ان کے گھر کا دروازہ مسجد میں ہوسکتا ہے وہ مسجد میں گزریں اگرچہ بحالت جنابت ہوں یہ حکم حضور کی حیات شریف میں تھا۔وفات کے قریب فرمایا کہ جس کا دروازہ مسجد میں ہو وہ بند کردیا جاوے سوائے ابوبکر کے دروازہ کے کہ وہ کھلا رہے۔لایبقین خوختہ آخر میں ہے الا خوخۃ ابی بکر اس کی تحقیق پہلے ہوچکی ہے۔خیال رہے کہ دوسری مسجدوں میں سے گزرنا بحالت جنابت احناف کے یہاں منع ہے،شوافع کے ہاں جائز ہے الا عابری سبیل مگر مسجد نبوی شریف میں سے بحالت جنابت گزرنا سب کے نزدیک حرام ہے سواء حضرت علی اور حضرت ابوبکر صدیق کے،اب بھی حضرت صدیق کے گھر کا دروازہ مسجد نبوی میں ہے جسے اب باب ابوبکر الصدیق میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
(مراۃ شرح مشکاۃ 8/386)
👈 چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.
السبب  في ذلك أن بيته كان مجاور المسْجد، وبابه من داخل المسجد كبيت النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -
👈 سیدنا علی و غیرہ کو جو یہ اجازت تھی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے گھر کا دروازہ مسجد کی طرف سے تھا جیسے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا دروازہ مسجد کی طرف تھا 
( قوت المغتذي على جامع الترمذي2/1012)
👈 چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟

لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ تُصِيبُهُ الْجَنَابَةُ يَمُرُّ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ غَيْرِي وَغَيْرَكَ، وَكَانَ مَمَرُّ دَارِهِمَا خَاصَّةً فِي الْمَسْجِدِ أَقُولُ: وَالْإِشَارَةُ  بِقَوْلِهِ: فِي الْمَسْجِدِ مُشْعِرَةٌ بِأَنَّهُ لَهُ اخْتِصَاصًا بِهَذَا الْحُكْمِ وَلَيْسَ لِغَيْرِهِ مِنَ الْمَسَاجِدِ، وَلَيْسَ ذَلِكَ إِلَّا لِأَنَّ بَابَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يُفْتَحُ إِلَى الْمَسْجِدِ، وَكَذَا بَابُ عَلِيٍّ،
👈 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے"ھذا المسجد(اس مسجد)" فرما کر یہ اشارہ فرمایا کہ سیدنا علی و غیرہ کو دیگر مساجد میں یہ اجازت حاصل نہیں ہے اور جو مسجد نبوی میں یہ اجازت تھی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا دروازہ خاص مسجد کی طرف سے ہی کھلتا تھا 
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح9/3942)
👈 چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.
وروى النسائي (٥) من حديث ابن عباس في "فضائل علي" قال: وكان  يدخل المسجد وهو جنب، وهو طريقه ليس له طريق غيرِه.
👈 سیدنا علی و غیرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو جو رخصت حاصل تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کا گھر کا دروازہ مسجد کی طرف ہی کھلتا تھا دوسرا کوئی دروازہ راستہ نہ تھا  
(كتاب التلخيص الحبير - ط أضواء السلف5/2210)
👈 چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.
لِأَنَّ بَيْتَهُ كَانَ فِي الْمَسْجِدِ
👈سیدنا علی و غیرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو جو رخصت حاصل تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کا گھر کا راستہ مسجد کی طرف ہی کھلتا تھا
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ,1/206)
👈 چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.
 لا يحل لأحدٍ أن يستطرقه جُنبًا غيري وغيرك"، وذلك لأنه كان ممرَّ أبواب دارهما في المسجد، وكانا لا يجدان ممرًا، بخلاف غيرهما
👈 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو جو یہ اجازت حاصل تھی کہ آپ حالت جنابت میں مسجد سے گزر سکتے ہیں تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی گذرگاہ اسی مسجد سے ہی تھی دوسری کوئی گزرگاہ نہیں تھی باخلاف دیگر صحابہ کرام وغیرہ کے 
(كتاب شرح المصابيح لابن الملك6/442)
👈 چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.
.
فأجابهم بعذره في ذلك
👈 سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کو جو یہ رخصت تھی تو اس کی وجہ عذر و مجبوری تھی 
( المطالب العالية محققا2/480)
👈 چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.
والمراد: أن يمر جنبًا فيه، وأن يكون (يجنب) صفة (أحد)، ويقدر قبل قوله: (في هذا المسجد): يمر، وذلك لأنه كان لرسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم- ولعلي -رضي اللَّه عنه- باب وممر في المسجد، ويجوز لمن كان له باب في المسجد مروره منه جنبًا، ولهذا قيده بقوله: (هذا المسجد) احترازًا عن سائر المساجد
👈 رسول کریم نے هذا المسجد( اس مسجد) یہ الفاظ فرماکر یہ قید لگائی ہے کہ دیگر مساجد میں یہ رخصت سیدنا علی وغیرہ کو  حاصل نہیں ہے۔۔۔مسجد نبوی میں جو یہ رخصت حاصل کی ہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا دروازہ مسجد نبوی سے جاتا تھا 
(لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح9/662)
👈 چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.
لا يحل لأحد تصيبه الجنابة يمر في هذا المسجد غيري وغيرك، لأن بابه صلى الله عليه وسلم وباب على كانا مفتوحين في المسجد
👈 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے جو یہ فرمایا ہے کہ حالت جنابت میں مسجد سے گزرنا سیدنا علی اور میرے علاوہ کسی کے لئے جائز نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ دونوں کا دروازہ مسجد میں ہی کھلتا تھا 
(مجمع بحار الأنوار5/362)
👈 چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.
: لا يحل لأحد تصيبه  الجنابة يمر في هذا المسجد غيري وغيرك، وكان ممر دراهما خاصة في المسجد.
أقول: والإشارة بقوله: ((في هذا المسجد)) مشعرة بأن له اختصاصاً بهذا الحكم وليس لغيره
👈 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ھذا المسجد اس مسجد  کے الفاظ فرماکر اشارہ فرمایا ہے کہ دیگر مساجد میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ کو یہ اجازت رخصت حاصل نہیں ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے جو یہ فرمایا ہے کہ حالت جنابت میں مسجد سے گزرنا سیدنا علی اور میرے علاوہ کسی کے لئے جائز نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ دونوں کا دروازہ مسجد میں ہی کھلتا تھا
(الكاشف عن حقائق السنن12/3887)
👈 چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.
لا يَحِلُّ لأحدٍ يستطْرِقُه جُنُبًا غيري  وغيرُك"؛ لأنه كان ممرَّ أبوابهما في المسجد، بخلاف غيرهما، فإنه لم يكن له مَمَرَّ دارِه في المسجد
👈 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ کو جو رخصت حاصل تھی کہ حالت جنابت میں مسجد سے گزر سکتے ہیں تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ دونوں کا راستہ مسجد سے ہی جاتا تھا  بخلاف دیگر صحابہ کرام وغیرہ کے  کہ ان کا دروازہ راستہ مسجد سے نہیں تھا 
(المفاتيح في شرح المصابيح6/315)
👈 چمن زمان صاحب کیا صاحب کتاب بھی بے ایمان مبغض ناصبی کہلائے........نعوذ باللہ.....؟؟
.
👈 *نوٹ: فقہ حنفی کے مطابق حالت جنابت میں مسجد سے گذرنا داخل ہونا ٹہرنا جائز نہیں الا یہ کہ عذر ہو جبکہ فقہ شافعی وغیرہ کے مطابق بلاعذر مسجد سے حالت جنابت میں گذرنا جائز ہے ٹہرنے کے لیے وضو تیمم کرے اگر ممکن ہوتو......عذر ہو تو بلا تیمم ٹہرنا جائز ہے*
قَال الْحَنَفِيَّةُ وَالْمَالِكِيَّةُ: إِنَّهُ يَحْرُمُ عَلَى الْجُنُبِ وَالْحَائِضِ وَالنُّفَسَاءِ دُخُول الْمَسْجِدِ...وَقَال الشَّافِعِيَّةُ وَالْحَنَابِلَةُ: يَحْرُمُ عَلَيْهِمُ الْمُكْثُ فِي الْمَسْجِدِ، كَمَا يَحْرُمُ عَلَى الْحَائِضِ وَالنُّفَسَاءِ الْعُبُورُ فِيهِ إِنْ خِيفَ تَلْوِيثُ الْمَسْجِدِ وَإِنْ لَمْ يُخَفِ التَّلْوِيثُ جَازَ الْعُبُور
حنفی مالکی علماء کےمطابق حالت جنابت میں حالت حیض میں حالت نفاس میں مسجد میں داخل ہونا(گذرنا) جائز نہیں
شافعی علماء اور حنبلی علماء فرماتے ہیں کہ حالت حیض نفاس اور جنابت کی حالت میں مسجد میں ٹھہرنا اگرچہ جائز نہیں ہے لیکن گزرنا جائز ہے
(الموسوعة الفقهية الكويتية ,37/218)

[مجموعة من المؤلفين ,الموسوعة الفقهية الكويتية ,37/218]



.
👈 *چمن زمان صاحب سے جب اسلاف کے حوالے دینا نہ بن پایا اور اسلاف کے اقوال کا جواب نہ بن پایا تو خود سے استدلال کرنے لگے مجتہد بن بیٹھے اور کچھ دلائل دییے*
.
👈جعلی مکار مجتہد کی پہلی دلیل:
سیدی رضا کے دونوں حوالوں میں  میں امام اہل سنت نے طہارت مخصوصہ کو علت  قرار نہیں دیا۔۔۔سیدی  امام اہلسنت احمد رضا نے طاہر مطہر فرما کر تعریف  فرمائی ہے نہ کہ وجہ بیان کی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیدی امام احمد رضا نے "اس مسجد" کا لفظ فرمایا ہے جو کہ دلالت کرتا ہے کہ دیگر مساجد میں اجازت نہیں اگر طہارت مخصوصہ علت  ہوتی تو دیگر مساجد میں بھی اجازت ہوتی
 .
👈 جعلی مکار مجتہد کی دوسری دلیل:
اولا: روات پر سخت جرح بھی ہے مثلا
 سَلَّامَ بْنَ أَبِي عَمْرَةَ مِنْ أَهْلِ النَّقْلِ، لَيْسَ فِي أَهْلِ الرِّوَايَةِ الْمَعْرُوفِينَ بِهَا، فَالْوَاجِبُ التَّوَقُّفُ فِي نَقْلِهِ
سَلَّامَ بْنَ أَبِي عَمْرَةَ کی روایات میں توقف کرنا واجب ہے 
(كتاب تهذيب الآثار مسند ابن عباس2/653)
.
وسَلاَّم بْن أَبِي عَمْرَةَ حديثهما ليس بشَيْءٍ.
سَلَّامَ بْنَ أَبِي عَمْرَةَ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے 
( الكامل في ضعفاء الرجال4/322)
.
سلام بن أبي عمرة الخراساني: عن عكرمة، قال ابن معين: ليس بشيء
سَلَّامَ بْنَ أَبِي عَمْرَةَ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے
( ديوان الضعفاء ص165)
.
يروي عن الثقات المقلوبات، لا يجوز الاحتجاج بخبره
سَلَّامَ بْنَ أَبِي عَمْرَةَ کی بیان کردہ روایات سے دلیل پکڑنا جائز نہیں ہے 
( المجروحين لابن حبان ت حمدي1/433)
.
👈 ثانیا:
بر تقدیر تسلیم  واقعے کے سیاق و سباق کو دیکھا جائے تو بہت بہت سارے صحابہ و اہلبیت وغیرہ کی رہائش مسجد میں ہونے لگی تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ باقی سب کو منع کر دیا۔۔۔اور اسے اللہ تعالی کی طرف سے اجازت قرار دیا۔۔۔طہارت مخصوصہ کوئی وجہ نہ فرمایا
روایت میں جو طاہر مطہر ہے  اسے علمائے کرام نے علت قرار  نہ دیا بلکہ واقعے کے سیاق و سباق  کو دیکھا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ صحابہ کرام اور اہل بیت عظام کے کافی افراد مسجد نبوی میں رہائش پذیر ہوگئے تھے تو سید عالم نے تمام کو روک دیا اور سیدنا علی کو اجازت دے دی کہ آپ طاہر مطہر رہیں
.
👈 جعلی مکار مجتہد کی تیسری  دلیل
جعلی مجتہد صاحب نے بزاز کی روایت کو دلیل بنایا کہ نبی پاک نے فرمایا کہ آپ سیدنا علی مسجد کو پاک بنائیں۔۔۔۔اس میں سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کب فرمایا کہ علی کو طہارت مخصوصہ کی وجہ سے ان کی اجازت ہے بلکہ سید سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا دو ٹوک  فرمان ہے اس روایت میں کہ اللہ نے اجازت دی ہے 
.
👈 جعلی مکار مجتہد کی چوتھی اور مضبوط ترین  دلیل 
چمن زمان صاحب لکھتے ہیں کہ اگر سیدنا علی کو عذر کی وجہ سے یہ اجازت تھی تو  رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور  سیدنا عمر فاروق نے آپ کے خصائص میں کیوں شمار کیا
جواب:
اس کا جواب علماء احناف کی طرف سے تو واضح ہے کہ گذرنا کسی کے لیے جائز نہیں مگر حرج دشواری کی وجہ سے سید عالم اور سیدنا علی کے لیے گذرنا فقط مسجد نبوی میں اجازت ہے اور یہ خصوصیت دشواری کی وجہ سے مشروط مقید و وقت تھی(طہارت مخصوصہ کی وجہ سے رخصت حاصل نہ تھی) جیسے کہ عبارات گذریں...ہر جنبی امتی کو گذرنے کی اجازت ہے ایسا قول کہنے والوں کی طرف سے جواب یہ ہے کہ مسجد نبوی کا حکم الگ ہے اس میں حالت جنابت میں گزرنا کسی کے لئے جائز نہیں ہے سوائے سیدنا علی اور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے
 أن الاستطراق يجوز لكل جنب، قال تعالى: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ [النساء: ٤٣] اللَّهمّ  إلا أن يدعى أنه لا يجوز الاستطراق في المسجد النبوي لأحد من الناس، سواهما
👈 مسجد میں جنابت والے شخص کو گزرنے کی اجازت ہے تو سیدنا علی کو اجازت دینے کی کیا خصوصیات ہوئی۔۔۔اس کا جواب یہ ہے کہ مسجد نبوی کا حکم الگ ہے اس میں حالت جنابت میں گزرنا کسی کے لئے جائز نہیں ہے سوائے سیدنا علی اور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے
(إمتاع الأسماع10/182)
.
👈 چمن زمان صاحب ہم آپ کو دوبارہ سے یاد دہانی کراتے چلیں کہ ہم نے کہا تھا کہ معتبر اہل سنت علما سے دکھا دیں کہ طہارت مخصوصہ کو علت قرار دیا ہو
جب کہ آپ اسلاف کے حوالے نقل کرنے کے بجائے خود سے مجتہد بن بیٹھے اور ایک طرح سے اسلاف  پر مبغض ناصبی منکر دجالی وغیرہ کے فتوے جھاڑنے لگے۔۔۔ہمت کریں اسلاف کے اقوال دکھائیں کہ مذکورہ اجازت طہارت مخصوصہ کی وجہ سے تھی اور جن بعض اکابرین نے خصوصیت ہی نہ گردانی یا عذر پر محمول کیا انکی عبارات کا تسلی بخش جواب دیں ورنہ حق قبول کرلیں
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.