صدیق اکبر فاروق اعظم لقب اور شیعوں و چمن زمان کے حوالہ جات کی تحقیق

*میری تحقیق کہ خاص صدیقین9ہیں اور صدیق اکبر سیدنا ابوبکر ہیں ، صدیق اصغر سیدنا علی ہیں اور فاروق اعظم سیدنا عمر ہیں سیدنا علی فاروق اصغر یا فاروق ثانی ہیں اور شیعوں و چمن زمان کے دلائل کا جواب اور انکی مکاریوں خیانتوں کی ایک جھلک......!!*
میری پہلی بات:
علامہ خفاجی فرماتے ہیں:
ابی بکر فلانہ الصدیق الاکبر...کذا کرم اللہ وجہہ الکریم فانہ یسمی الصدیق الاصغر
 سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ صدیق اکبر ہیں اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ صدیق اصغر ہیں
(نسیم الریاض1/234)
.
(قالت لعائشة) أي: الصديقة بنت الصديق الأكبر....خرجوا على سيدنا علي الصدِّيق الأصغر رضي الله عنه
 سیدہ عائشہ جو صدیق اکبر ابوبکر صدیق کی بیٹی ہیں اور خوارج جو نکلے صدیق اصغر سیدنا علی کے خلاف
( أصل الزراري شرح صحيح البخاري - مخطوط ص183)
.
 مجدد دین و ملت امام اہلسنت سیدی احمد رضا لکھتے ہیں:
علماء فرماتے ہیں،ابوبکر صدیق صدیق اکبر ہیں اور علی مرتضی صدیق اصغر،صدیق اکبر کا مقام اعلٰی صدیقیت سے بلند وبالا ہے
(فتاوی رضویہ15/681)
.
*ہم اہلسنت مطابق ہر صحابی صدیق ہے بلکہ ہر سچا مومن صدیق ہے مگر خاص صدیق 9 ہیں*
وعن ابن عَبَّاسٍ - رضي اللَّه عنه - قال: الصديقون هم الذين أدركوا الرسل - عليهم السلام - وصدَّقوهم.وعن أبي ذر - رضي اللَّه عنه - قال: الصديقون هم المؤمنون
 صدیقین وہ ہیں کہ جنہوں نے رسولوں کا زمانہ پایا اور ان کی تصدیق کی اور سیدنا ابوذر فرماتے ہیں کہ صدیقین سے مراد مومنین ہیں
(تفسير الماتريدي = تأويلات أهل السنة3/249)
.
يَقُولُ تَعَالَى ذِكْرُهُ: وَالَّذِينَ أَقَرُّوا بِوَحْدَانِيَّةِ اللَّهِ وَإِرْسَالِهِ رُسُلَهُ، فَصَدَّقُوا الرُّسُلَ وَآمَنُوا بِمَا جَاءُوهُمْ بِهِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِمْ، أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ
 اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں یہ فرمایا ہے کہ جس نے اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار کیا اور اس کے رسولوں کے رسول ہونے کا اقرار کیا اور رسولوں کی تصدیق کی اور ایمان لائے تو یہ لوگ صدیقین ہیں
(تفسير الطبري = جامع البيان ط هجر22/412)
.
قال: هم ثمانية: أبو بكر وعلي وزيد وطلحة والزبير وسعد وحمزة وعمر, تاسعهم ألحقه الله تعالى بهم لما عرف من صدق نيته, وقال مجاهد: كل من آمن بالله فهو صديق وتلا الآية
 ایک قول یہ ہے کہ صدیقین 8 ہیں ابوبکر ہیں علی ہیں زید ہیں طلحہ ہیں زبیر ہیں سعد ہیں حمزہ ہیں عمر ہیں.... مجاہد فرماتے ہیں کہ صدیقین سے مراد ہر وہ شخص ہے کہ جو صدق دل سے ایمان لائیں
(الریاض النضرۃ 1/45)
.
.
 عن مجاهد بن جبر -من طريق ليث- قال: كلُّ مؤمن صدِّيق وشهيد. ثم تلا: {والَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ ورُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ والشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ} (١) [٦٤٩٧]. (١٤/ ٢٨٢)
٧٥٦٩٧ - عن مجاهد بن جبر -من طريق ابن أبي نجيح- في قوله: {الصِّدِّيقُونَ والشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ}، قال: بالإيمان على أنفسهم بالله (٢). (ز)٧٥٦٩٨ - قال الضَّحّاك بن مُزاحِم: {أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ} هم ثمانية نفرٍ مِن هذه الأُمّة، سبقوا أهل الأرض في زمانهم إلى الإسلام: أبو بكر، وعلي، وزيد، وعثمان، وطلحة، والزبير، وسعد، وحمزة، وتاسعهم عمر بن الخطاب
 سیدنا مجاہد فرماتے ہیں کہ ہر مومن صدیق ہیں.... امام ضحاک فرماتے ہیں کہ صدیقین اس امت میں یہ ہیں جو زمانے میں اسلام کی طرف سبقت جنہوں نے کی اور وہ یہ ہیں ابو بکر علی زید عثمان طلحہ زبیر سعد حمزہ اور صدیق نمبر 9 عمر بن خطاب ہیں
(موسوعة التفسير المأثور21/558)
( فتح الرحمن في تفسير القرآن6/540نحوہ)
( تفسير البغوي - طيبة8/38نحوہ)
( تفسير الثعلبي 26/73نحوہ)
.
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو لقب صدیق کس نے دیا چند حوالہ جات ہم اہلسنت کی کتب سے ملاحظہ کیجیے
الحدیث:
صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أُحُدٍ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، فَرَجَفَ بِهِمْ، فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ، قَالَ: «اثْبُتْ أُحُدُ فَمَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدَانِ»
 ایک دفعہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم احد پہاڑ پر تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر فاروق سیدنا عثمان غنی ساتھ تھے کہ پہاڑ جنبش کرنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پاؤں مبارک مارا اور فرمایا ساکن ہو جا ، تیرے اوپر نہیں ہے مگر یہ کہ ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید
1:صحيح البخاري ,5/11حدیث3686)
2:مسند أبي يعلى,13/509حدیث7518)
3:مجمع الزوائد9/55حدیث14372)
4:سنن النسائي ,6/236حدیث3609)
5:كنز العمال ,11/637حدیث33100)
6:جامع الأحاديث4/388)
7: مجمع بحار الأنوار1/26)
8:ذخيرة العقبى في شرح المجتبى حدیث3636)
9:صحيح ابن حبان15/442)
10:الجامع الصغير وزيادته حدیث132)
11:سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد9/506)
12:مسند أبي داود الطيالسي3/484)
بعینہ او بمعناہ....اس کے علاوہ بھی کئ کتب میں یہ حدیث موجود ہے ہم نے بارہویں کی نسبت سے بارہ حوالے لکھے
.
 مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام صدیق ہیں ہر سچے مخلص مومن صدیق ہیں.... مگر صدیقیت میں زیادہ مشہور و کمال سیدنا ابوبکر اور سیدنا علی کو ہے تو اس لیے سیدنا ابو بکر صدیق کو صدیق اکبر کہا جاتا ہے اور سیدنا علی کو صدیق اصغر کہا جاتا ہے جیسا کہ ہم شروع تحریر میں حوالے ذکر کر آئے...رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین
.
*#سیدنا_عمر_کا_لقب_فاروق_اعظم*
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَزْرَقِيُّ الْمَكِّيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَسَنٍ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم: «إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ، وَهُوَ الْفَارُوقُ
نبی پاک صلّى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے حق کو عمر کی زبان و دل پے رکھا ہے یہ فاروق ہیں
(الطبقات الكبرى ط دار صادر3/270)
(كتاب كنز العمال حدیث32717)
(الجامع الصغير وزيادته حدیث3510)
(تاريخ المدينة لابن شبة2/662)
(الصواعق المحرقة1/282)
.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، ثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ صَالِحٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللهِ عَنْ بْنِ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ....فَسَمَّانِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ الْفَارُوقَ
سیدنا عمر فرماتے ہیں کہ(جس دن میں ایمان لایا اور مسلمانوں کو سرعام نماز پڑھنے کا مشورہ دیا اور عمل کروایا اور تحفظ دیا)اس دن نبی پاک صلّى الله عليه وسلم نے مجھے فاروق کا لقب دیا 
1(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء1/40)
2(مرآة الزمان في تواريخ الأعيان3/114)
3(جامع الاحادیث للسیوطی 30159-)
4(الرياض النضرة في مناقب العشرة2/272)
5(تاريخ الإسلام للذھبی ت تدمري 1/180 میں اس کی تخریج میں لکھا ہے یہ روایت درج ذیل کتب میں بھی ہے
6(مناقب عمر لابن الجوزي 12/ 13 و 19،
7(صفة الصفوة 1/ 272، 373،
8(دلائل النبوّة لأبي نعيم 1/ 79، 80،
9(عيون التواريخ 1/ 75- 77)
.
.
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو  حَزْرَةَ يَعْقُوبُ بْنُ مُجَاهِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو ذَكْوَانَ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: " مَنْ سَمَّى عُمَرَ الْفَارُوقَ؟ قَالَتِ: النَّبِيُّ عَلَيْهِ السَّلَامُ
سیدہ عائشہ سے پوچھا کہ سیدنا عمر کو فاروق لقب کس نے دیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے فرمایا کہ نبی پاک صلّى الله عليه وسلم نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لقب فاروق دیا
(تاريخ الطبري 4/195)
(الطبقات الكبرى  ,3/205)
(تاريخ المدينة لابن شبة2/662)
(البداية والنهاية ط هجر10/188)
.
*#پھر تو سارے صحابہ کرام فاروق....؟؟*
اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي
اللہ اللہ میرے صحابہ کے متعلق اللہ کا خوف کرو ، انہیں میرے بعد تنقید و مذمت کا نشانہ نہ بناؤ، جس نے میرے صحابہ سے محبت کی تو یہ مجھ سے محبت ہے اور میں ایسے شخص سے محبت کرتا ہوں...اور جس نے میرے صحابہ سے بغض کیا تو یہ مجھ سے بغض ہے اور ایسے کو میں ناپسند کرتا ہوں، جس نے میرے صحابہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی
(ترمذی حدیث3862)
اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام علیھم الرضوان سے بغض کفر و منافقت ہے، گویا ہر صحابی فاروق ہے.....؟؟
.
*#سیدنا_علی_فاروق*
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَنَّهُ لَا يُحِبُّكَ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضُكَ إِلَّا مُنَافِقٌ
سیدنا علی فرماتے ہیں مجھ سے رسول کریم نے عہد کیا کہ تجھ سے محبت مومن کریگا اور تجھ سے بغض منافق کریگا
(ترمذی حدیث3736)
سیدنا علی مومن و منافق میں فرق کی وجہ ہیں تو گویا فاروق ہوئے......؟؟
.
*#انصار_فاروق؟؟*
آيَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ
ایمان کی نشانی انصاری صحابہ سے محبت رکھنا ہے اور انصاری صحابہ سے بغض منافقت کی نشانی ہے
(بخاری حدیث17)
منافق و مومن میں تفریق انصار صحابہ...گویا یہ بھی فاروق ہوئے......؟؟
.
*#الحاصل*
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سے بغض منافقت و کفر کی علامت ہے تو اس لحاظ سے ہر صحابی فاروق کہلانے کے لائق ہے مگر سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خصوصی منزلت و فضیلت کی وجہ سے فقط ان دو کو فاروق کہنا قرینِ قیاس لگتا ہے
کیونکہ 
سیدنا عمر اول شخصیت ہیں کہ جن کی بدولت اسلام سرعام ہوا اور انکی بدولت حق و باطل میں فرق ہوا…اور سیدنا علی وہ عظیم ذات ہیں کہ جن کی بدولت دوسری بار حق و باطل یعنی اسلام و خارجیت ناصبیت میں فرق ہوا...لیھذا ان دو عظیم تر شخصیات کو فاروق کہنا حق بنتا ہے....سیدنا عمر کو فاروق اعظم یا فاروق اول اور سیدنا علی کو فاروق اصغر یا فاروق ثانی کہا جائے تو کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے
.
 میری دوسری بات:
*قاعدہ نمبر ①*
مدار سند حدیث پر ہے اگر اس سے روایت کرنے والا کذاب یا وضاع متفرد ہو تو وہ روایت موضوع ہوگی اور اگر ضعیف ہے تو روایت صرف ضعیف ہوگی(شرح الزرقانی علی المواہب الفصل الاول من المقصد الثامن فی طبہ صلی اللہ علیہ وسلم ج9 صفحہ 337 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)حضرت علامہ ملا علی قاری فرماتے ہیں: موضوع اس روایت کو کہا جاتا ہے جس کے راوی پر کذب کا طعن ہو(شرح نخبۃ الفکر فی مصطلحات اہل الاثر  جلد1 صفحہ 435 دار الارقم لبنان بیروت)
موضوع تو جب ہوتی کہ اس کا راوی متہم بالکذب ہوتا....یا ناقل رافضی(ہو اور) حضرات اہلبیت کرام علٰی سیدہم وعلیہم الصلاۃ والسلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اُس کے غیر سے ثابت نہ ہوں(تو روایت موضوع  من گھرٹ جھوٹی مردود کہلائے گی)،جیسے حدیث:لحمك لحمی ودمك دمی (تیرا گوشت میرا گوشت،تیرا خُون میرا خُون.ت)
(فتاوی رضویہ 5/461..466ملتقطا)
.
تیسری بات:
*اب یہ بات جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی کو صدیق اکبر فرمایا ہے یا نہیں......؟؟*
.
*شیعہ حضرات بھی اکثر وہی دلائل اہلسنت کتب کی کہہ کر دیتے ہیں جو چمن زمان صاحب نے دیے ہیں...لیھذا اس تحریر میں چمن زمان صاحب کا رد کرتے ہوئے شیعہ کا بھی خود بخود رد ہو جاتا ہے*
.
 سید عرفان شاہ مشہدی اور حنیف قریشی صاحب وغیرہ کے ممدوح اور مایہ ناز محقق کہلانے والے چمن زمان صاحب لکھتے ہیں:
 متعدد طرق سے مروی ہے کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے مولائے کائنات کو صدیق اکبر فرمایا...پھر چمن زمان صاحب *پہلی روایت* لکھتے ہیں
انت الصدیق الاکبر وانت الفاروق....تم ہی صدیق اکبر و فاروق ہو(ترتیب الامالی للشجری ص197, چمن زمان کی کتاب مولائے کائنات صدیق اکبر ص28)
.
 *میرا تبصرہ*
 مذکورہ کتاب میں اس کی سند یہ لکھی ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَلِيٍّ الْأَرْجِيُّ، بِقِرَاءَتِي عَلَيْهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سُنْبُكٍ الْبَجَلِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ عُمَرُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مَالِكٍ الْأُشْنَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ زَكَرِيَّا الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمَرْوَزِيُّ الْأَعْوَرُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ
(ترتيب الأمالي الخميسية للشجري ,1/58)
.
مُوسَى بْن إِبْرَاهِيم المَرْوَزِيّ كَذَّاب
 موسی بن ابراہیم المروزی بہت بڑا جھوٹا راوی ہے
(السیوطی كتاب اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة2/299)
.
الدَّارَقُطْنِيّ: باطل منكر، وموسى بن إبراهيم، ومن دونه ضعفاء، لا يحتج بهم...
 امام دارقطنی نے فرمایا کہ یہ روایت باطل منکر ہے کیونکہ موسی بن ابراہیم اور اس کے علاوہ دیگر راوی ضعفاء ہیں وہ ایسے سخت ضعیف ہیں کہ جن کے ساتھ دلیل نہیں پکڑی جاسکتی
(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/667)
.
وَالْمُتَّهَم بِهِ الْمروزِي وَهُوَ يَعْنِي مُوسَى بن إِبْرَاهِيم
 موسی بن ابراہیم  پر اعتراض ہے کہ اس نے جھوٹی حدیثیں گھڑی ہے
(ابن عراق تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة1/351)
.
 وقال ابن معين: كذاب
 امام ابن معین نے فرمایا کہ موسی بن ابراہیم بہت بڑا جھوٹا راوی ہے
(تاريخ الإسلام - ت بشار5/707)
.
- مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمَرْوَزِيُّ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ لَا يُتَابَعُ عَلَى حَدِيثِهِ
 موسی بن ابراہیم منکر الحدیث ہے اس کی حدیث پر کسی نے اتباع نہیں کی ہے
(الضعفاء الكبير للعقيلي4/166)
.
موسى بن إبراهيم المروزي، قال الذهبي: أحاديثه موضوعات
 علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ موسی بن ابراہیم کی روایت من گھڑت جھوٹی ہیں
(ابن حجر المطالب العالية محققا13/813)
.
مُوسَى بن إِبْرَاهِيم الْمروزِي كذبه يَحْيَى بن معین
 امام یحیی بن معین نے موسی بن ابراہیم کو جھوٹا راوی قرار دیا
(العراقی تخريج أحاديث الإحياء = المغني عن حمل الأسفار ص854)
.
كذبه يحيى قال الدارقطني وغيره متروك فمن بلاياه
 موسی بن ابراہیم کو امام یحییٰ نے جھوٹا قرار دیا ہے اور امام دارقطنی وغیرہ نے متروک راوی قرار دیا ہے اور اس کی مردود روایات میں سے کچھ روایات یہ بھی ہیں
(لسان الميزان6/111)
.
أَبُو الْحُسَيْنِ عُمَرُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مَالِكٍ الْأُشْنَانِيُّ
وكان يكذب
 عمر بن حسن اشنانی جھوٹ بولتا تھا
(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/479)
.
 عمر بن الْحسن الْأُشْنَانِي القَاضِي كذبه الدَّارَقُطْنِيّ فِيمَا قيل
 ایک قول کے مطابق امام دارقطنی نے عمر بن حسن کو جھوٹا قرار دیا
(ابن عراق تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة1/90)

- عمر بن الحسن الأشناني القاضي: كذبه الدارقطني
 عمر بن حسن کو امام دارقطنی نے جھوٹا راوی قرار دیا
(ذہبی ديوان الضعفاء ص290)
.
*دوسری روایت*
چمن زمان نے دوسری روایت لکھی کہ سیدنا علی کا ہاتھ مگر رسول کریم نے فرمایا کہ یہ صدیق اکبر ہیں فاروق الامت ہیں...پہلا حوالہ طبرانی کا دیا...
.
 *میرا تبصرہ*
طبرانی میں سند یہ لکھی ہے اس روایت کی:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ الْوَزِيرُ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى السُّدِّيُّ، ثنا عُمَرُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ أَبِي سُخَيْلَةَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَعَنْ سَلْمَانَ قَالَ
(طبرانی روایت6184)
.
①مذکورہ روایت میں راوی نمبر ایک اسماعیل ہے:
سَمعتُ أبا بكر بن أبي شيبة، أو هناد بن السري أنكر علينا ذهابنا إلى إسماعيل هذا، وقال: أيش علمتم عند ذاك الفاسق الذي يشتم السلف
 اسماعیل بن موسی السدی کے متعلق ہے کہ ہم اس کے پاس جا رہے تھے تو امام بخاری کے استاد ابن ابی شیبہ یا امام ھناد نے ہمیں جانے سے روکا اور فرمایا کہ تم اس فاسق کے پاس کیا علم حاصل کرنے جا رہے ہو کہ جو اسلاف کو گالیاں دیتا ہے
(كتاب الكامل في ضعفاء الرجال1/5٢8)
.
حدثنا إسماعيل بن موسى) الفزاري أبو محمد الكوفي، نسيب السدي أو ابن بنته أو ابن أخته، صدوق، يخطئ رمي بالرفض
 کچھ معاملات میں اسماعیل بن موسی معتبر ہے لیکن یہ خطاء بہت کرتا ہے اور اس پر رافضی ہونے کی جرح بھی ہے
( شرح سنن ابن ماجه للهرري = مرشد ذوي الحجا والحاجة إلى سنن ابن ماجه7/316)
.
.
: إسماعيل بن موسى السدي، ضعيف، رمي بالرفض
 اسماعیل بن موسی شدید ضعیف راوی ہے اس پر رافضی ہونے کی جرح بھی ہے
(الأحاديث الواردة في فضائل الصحابة7/76)
.
قال ابن حبان: إسماعيل دجال
 امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ اسماعیل بن موسی دجال کذاب ہے
(لسان الميزان ت أبي غدة2/432)
.
إسماعيل بن موسى الفزاري السدي يترفض قال ابو داود صدوق يتشيع
 اسماعیل بن بوسی رافضیت والا تھا اور ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ صدوق ہے لیکن شیعیت اس میں تھی
(المغني في الضعفاء1/88)
.
اتهم بحديث في فضل علي بن أبي طالب، وقال في كتاب «الضعفاء»: كان غاليا في التشيع يشتم السلف
 اسماعیل بن موسی پر جرح ہے کہ اس نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل میں حدیث گھڑی ہے،كتاب «الضعفاء» میں ہے کہ یہ شیعیت میں غلو کرتا تھا اور یہ اسلاف کو گالم گلوچ کرتا تھا
( إكمال تهذيب الكمال ط الفاروق2/207)
.
إسماعيل بن موسى السدي، وهو رافضى
اسماعیل بن موسی رافضی ہے
(الأحاديث الواردة في فضائل الصحابة7/17)
.
کچھ ائمہ نے اس سے روایت لی ہے جسکی وجہ شاید یہ ہوگی کہ اس روایت کا متابع ہوگا....یا پھر ان کے مطابق ضعیف و صدوق ہوگا دیگر روایات مخصوصہ میں......!!
بحرحال قاعدہ ایک کے تحت یہ روایت موضوع جھوٹی مردود کہلائے گی
.

② مذکورہ طبرانی کی روایت میں دوسرا راوی فضیل بن مرزوق ہے...
وفضيل بن مرزوق هو: الأغر، صدوق يهم، ورمي بالتشيع
 فضیل بن مرزوق یہ صدوق ہے وہم کرتا ہے اور اس پر جرح ہے شیعہ ہونے کی
(الأحاديث الواردة في فضائل الصحابة7/17)
.
وقال عبد الخالق بن منصور، عن يحيى بن معين: صالح الحديث، ولكنه شديد التشيع
 عبدالخالق فرماتے ہیں کہ امام یحییٰ بن معین نے فرمایا کہ یہ راوی فضیل بن مرزوق صالح الحدیث ہے مگر اس میں شدید تشیع تھا
( تهذيب الكمال في أسماء الرجال23/307)
.
 وفضيل ضعفه يحيى وقال ابن حبان يروي الموضوعات ويخطئ على الثقات
 امام یحی فرماتے ہیں کہ فضیل بن مرزوق انتہائی ضعیف ہے اور امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ یہ موضوع جھوٹی روایات بیان کرتا تھا اور ثقہ راویوں پر خطا کرتا تھا
(السيوطي كتاب اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة1/308)
.
حدثنا فضيل بن مرزوق) الأغر -بالمعجمة والراء- الرقاشي أبو عبد الرحمن الكوفي، صدوق يهم، رمي بالتشيع
 فضیل بن مرزوق صدق وھمی ہے اور اس پر تشیع کی جرح ہے
(شرح سنن ابن ماجه للهرري = مرشد ذوي الحجا والحاجة إلى سنن ابن ماجه5/311)
.
يهم كثيرا يكتب حديثه، قلت يحتج به؟ قال لا
فضیل بن مرزوق کے متعلق امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں کہ یہ بہت زیادہ وہم کرتا تھا اس کی حدیث لکھی جائے گی لیکن اس سے دلیل نہیں پکڑی جائے گی
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم7/75)
.
وفيه أيضا فضيل بن مرزوق الأغر قال عنه الحافظ صدوق يهم ورمي بالتشيع
 فضیل بن مرزوق کے متعلق حافظ فرماتے ہیں کہ یہ صدوق ہے وھم کرتا ہے اور اس پر تشیع کی جرح ہے
(ابن حجر المطالب العالية محققا16/205)
.
. وقال مرة: صالح ولكنه شديد التشيع. وقال مرة: لا بأس به. وقال أبو حاتم: صدوق صالح الحديث، يهم كثيرا، يكتب حديثه ولا يحتج به. وقال عثمان بن سعيد الدارمي: يقال: إنه ضعيف. وقال النسائي: ضعيف. وقال ابن عدي أرجو أن لا بأس به. وقال ابن حبان: منكر الحديث جدا، كان يخطئ على الثقات، ويروي عن عطية الموضوعات
 کبھی فرمایا کہ یہ صالح ہے لیکن شدید شیعیت والا ہے اور کبھی فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ہے امام ابو حاتم نے فرمایا کہ صدوق صالح الحدیث ہے وھم کرتا ہے بہت زیادہ... اس کی حدیث لکھی جائے گی لیکن دلیل نہیں پکڑی جائے گی...عثمان بن سعيد الدارمي نے فرمایا کہ ضعیف ہے اور امام نسائی نے فرمایا کہ ضعیف ہے اور امام ابن عدی نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ اس پر کوئی حرج نہیں ہے لیکن ابن حبان نے فرمایا کہ یہ بہت سخت منکر الحدیث ہے بہت خطا کرتا ہے اور عطیہ سے موضوع جھوٹی روایات بیان کرتا ہے
(البداية والنهاية ت التركي8/573)
.
فضل بن مرزوق کی تعدیل ہے مگر اس پر سخت جرح بھی ہے...تو شدید تشیع بھی ہو اور بلامتابع قوی اسکی روایت فضائل اہلبیت میں ہو تو  مردود ہونے کی واضح نشانی ہے...جیسے کہ قاعدہ نمبر ایک سے واضح
.
③ طبرانی کی مذکورہ سند میں تیسرا راوی عمر بن سعید البصری ہے
عمر بن سعيد البصري...قال ابن حبان: كان ممن يخطىء كثيرا حتى استحق الترك.وقال ابن عَدِي: منكر الحديث...قال البخاري: منكر الحديث
امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ عمر بن سعید بہت غلطیاں کرتا تھا اس لیے اس کی بیان کردہ روایات ترک کرنے کی مستحق ہیں...امام بخاری اور امام ابن عدی فرماتے ہیں عمر بن سعيد البصري منکر الحدیث ہے
(لسان الميزان ت أبي غدة93 ،6/108)
اور شیعہ اصول کے مطابق بھی منکر الحدیث مردود و ناقابل حجت ہے
فحديثه منكر مردود
ترجمہ:
اسکی حدیث منکر مردود ہے..(شیعہ کتاب رسائل فی درایۃ الحدیث1/185)
.
دوسرا حوالہ چمن زمان نے تاریخ دمشق41/42) کا دیا
.
میرا تبصرہ:
اس حوالے میں بھی وہی مجروح راوی موجود ہیں جو اوپر طبرانی کے ہیں
.
تیسرا حوالہ چمن زمان نے انساب الاشراف 2/118 کا دیا ہے
میرا تبصرہ:
اسکی سند یہ لکھی ہے
حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَرْقَمَ، عَنْ وَهْبِ بْنِ أَبِي دُبَيٍّ:عَنْ أَبِي سُخَيْلَةَ قَالَ: مَرَرْتُ أَنَا وَسَلْمَانَ بِالرَّبَذَةِ عَلَى أَبِي ذَ
(أنساب الأشراف للبلاذري ,2/118)
.
 مذکورہ روایت بھی غیر معتبر ہے کہ اس میں راوی غیر معتبر ہیں
- يونس بن أرقم، الكندي، البصري...وكان يتشيع
 یونس بن ارقم اس میں تشیع تھا
(التاريخ الكبير للبخاري بحواشي محمود خليل8/410)
.
قال عبد الله بن أحمد: قلت لأبي: لم لم تكتب عن وليد بن صالح؟ قال: رأيته يصلي في مسجد الجامع، يسيء الصلاة (فتركته)
 مذکورہ روایت میں ایک راوی ولید بن صالح کے متعلق امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ یہ نماز میں برائی کرتا تھا تو اس لیے میں نے اس سے حدیث لینا چھوڑ دیں
( موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله4/95)
.
وكان يتشيع
 ولید بن صالح میں تشیع تھا
( الثقات لابن حبان9/288)
.
 الحاصل روایت نمبر 2  معتبر و ثابت نہیں
.
*تیسری روایت*
چمن زمان صاحب لکھتے ہیں رسول کریم نے سیدنا علی کو فرمایا
وانت الصدیق الاکبر و انت الفاروق...اور تم ہی صدیق اکبر اور فاروق ہو
(مسند بزاز3898 ترتیب الامالی للشجری705 تاریخ دمشق42/41..42)  فرائد السمطین102...103 مناقب علی لابن مردویہ35..36..37 التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ1/65)
.
میرا تبصرہ:
اسکی سند یہ ہے
1حدثنا عباد بن يعقوب العرزمي، قال: نا علي بن هاشم، قال: نا محمد بن عبيد الله بن أبي رافع، عن أبيه، عن جده أبي رافع، عن أبي ذر(مسند بزاز3898)
.
2.أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ الْحَسَنُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ زَيْدٍ الْمُعَدَّلُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَاهَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَائِشَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْأَشْقَرُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ هَاشِمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي
(ترتيب الأمالي الخميسية للشجري ,1/188)
.
3.حدثنا عبد السلام بن صالح، قال: نا علي بن هاشم بن البريد، عن محمد بن عبد الله بن عبيد الله بن أبي رافع مولى النبي صلى الله عليه وسلم، عن أبيه عن جده عن أبي ذر
(التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ1/65)
.
 تینوں سندوں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مرکزی راوی علی بن ہاشم بن البرید ہے
، وسئل عن علي بن هاشم بن البريد، فقال: أهل بيت تشيع،
 علی بن ہاشم اہل بیت فرماتے ہیں یہ شیعیت کرتا تھا
(الضعفاء الكبير للعقيلي3/255)
(الجامع في الجرح والتعديل2/242)
.
علي بن هاشم بن البريد: له مناكير، قال محمد بن عبد الله بن نمير، وابن حبان: غال في التشيع
 علی بن ہاشم یہ منکر روایت کرتا تھا اور امام ابن حبان وغیرہ نے فرمایا کہ یہ شیعیت میں غلو کرتا تھا
(ديوان الضعفاء ص286)
.
1- وسئل عن علي بن هاشم بن البريد، فقال: أهل بيت تشيع،.
 علی بن ہاشم تشیع کرتا تھا
 «الضعفاء» للعقيلي ٤/ ٢٨٣.

2- وقال ابن عدي: علي بن هاشم بن البريد، هو وأبوه غاليان في سوء مذهبهما، سمعت ابن حماد يذكره عن البخاري.
 امام ابن عدی اور امام بخاری وغیرہ سے مروی ہے کہ علی بن ہاشم اور اس کا والد دونوں اپنے مذہب کے برے ہونے میں غلو کرتے تھے
 «الكامل» ٨/ ٨٢.

3- وقال الجوزجاني: هاشم بن البريد وابنه علي بن هاشم، غاليان في سوء مذهبهما.
علی بن ہاشم اور اس کا والد دونوں اپنے مذہب کے برے ہونے میں غلو کرتے تھے «أحوال الرجال» (٨٨ و ٨٩).

4- وقال عبد الرحمن بن أبي حاتم الرازي: سألت أبي عن علي بن هاشم بن البريد، فقال: كان يتشيع،
 امام ابن ابی حاتم رازی فرماتے ہیں کہ علی بن ہاشم میں تشیع تھا
«الجرح والتعديل» ٦/ ٢٠٧.

5- وقال ابن حبان: علي بن هاشم بن البريد كان غاليا في التشيع، ممن يروي المناكير عن المشاهير، حتى كثر ذلك في رواياته، مع ما يقلب من الأسانيد.
 امام ابن حبان نے فرمایا کہ علی بن ہاشم تشیع میں غلو کرتا تھا اور مشہور ہستیوں سے منکر مردود روایات بیان کرتا تھا یہاں تک کہ اس کی روایات بہت ہوگئی اور یہ سندوں کو الٹ پلٹ کرتا تھا

6حدثنا مكحول قال: سمعت جعفر بن أبان يقول: سمعت ابن نمير يقول، علي بن هاشم كان مفرطا في التشيع، منكر الحديث. 
 علی بن ہاشم شیعیت میں بہت غلو کرتا تھا اور یہ منکر الحدیث تھا
«المجروحين» (٦٨٢)
(1 تا6 نقلا كتاب المسند المصنف المعلل5/403)
.
بعض ائمہ نے اس سے روایت لی تو اسکی وجہ متابع کا پایا جانا یا معناً صحیح ہونا وغیرہ علت ہوگا وگرنہ شیعیت و کذب کی جرح اور روایت فضائل اہلبیت میں یہ متفقہ طور پر مردود و باطل جھوٹا ہے جیسے کہ قاعدہ نمبر ایک سے واضح
.
دیگر کچھ روات پے نظر
فرائد سمطین معتبر اہل سنت کتاب نہیں اور اس کی روایت میں اور التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ کی روایت میں ابو الصلت راوی ہے
أبو الصلت عبد السلام بن صالح الهري رافضي خبيب
 ابو صلت ہروی خبیث رافضی ہے
( مشيخة النسائي ص63)
.
عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ صَالِحٍ أَبُو الصَّلْتِ الْهَرَوِيُّ كَانَ رَافِضِيًّا خَبِيثًا
ابو صلت ہروی خبیث رافضی ہے
(.الضعفاء الكبير للعقيلي3/70)
.
- عبد السلام بن صالح بن سليمان بن أيوب بن ميسرة، القُرَشِيّ، مولاهم، أبو الصلت الهروي، سكن نيسابور، الشيعي، الكافر...قال البَرْقانِيّ: ذكر أبو الصلت عبد السلام بن صالح الهروي عند أبي الحسن الدَّارَقُطْنِيّ، فقال: أبو الحسن - وأنا أسمع - كان خبيثًا رافضيًا
 عبدالسلام الھروی شیعہ کافر تھا... خبیث رافضی تھا
(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/411)
.
عبّاد بن يعقوب العرزميّ  شيخ البزار، قال الحافظ ابن حجر في "زوائد البزار من كبار الروافض
 اصول روایت کا ایک اور راوی عباد بن یعقوب حافظ ابن حجر اسکے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ بڑے بڑے رافضیوں میں سے تھا
(نثل النبال بمعجم الرجال2/252)
.
عمران بن عبد الرحيم في سند الدارقطني وابن شاهين، وفي ترجمته من "الميزان" عن السليماني: هو الذي وضع حديث
 روایت کا ایک اور راوی عمران بن عبدالرحیم اس نے حدیث جھوٹی وضع کی ہے
(النكت الجياد المنتخبة من كلام شيخ النقاد3/357)
.
قال السليماني: فيه نظر. هو الذي وضع حديث أبي حنيفة عن مالك. انتهى...وقال أبو الشيخ: كان يرمى بالرفض
 عمران بن عبدالرحیم اس کے متعلق سلمان نے کہا کہ اس میں غوروفکر کرنے کی حاجت ہے یہ وہی راوی ہے جس نے امام مالک سے ابو حنیفہ کی روایت وضع من گھڑت اور جھوٹی بیان کی ہے اور شیخ فرماتے ہیں کہ اس پر رافضی ہونے کی جرح ہے
(لسان الميزان ت أبي غدة6/175)
(تاريخ الإسلام - ت بشار6/785نحوہ)
.
فرائد السمطین کا حوالہ چمن زمان نے دیا
.
میرا تبصرہ:
اہلسنت کی کتاب نہیں،حتی کہ شیعہ نے اپنی کتاب قرار دیا
وجعله الأمين العاملي من أعيان الشيعة ولقبه بالحموئي (نسبة إلى جده حمويه) وقال : له (فرائد السمطين في فضائل المرتضى والبتول والسبطين - خ) في طهران (الجامعة المركزية 583) في 160 ورقة وقال الذهبي : شيخ خراسان كان حاطب ليل - يعني في رواية الحديث - جمع أحاديث ثنائيات وثلاثيات ورباعيات من الأباطيل المكذوبة
یعنی
فرائد السمطين في فضائل المرتضى والبتول والسبطين کا لکھنے والا شیعوں کے بڑے بڑے علماء میں سے تھا اس نے بہت ساری باطل جھوٹی روایتیں بیان کی ہیں
 [الأعلام لخير الدين الزركلي الجزء1 صفحة63)
. حتی کہ شیعوں نے اسے اپنا عالم تسلیم کیا ہے
ذهب فيه إلى تشيعه ويمكن ان يستفاد تشيعه من أمور 1 روايته عن أجلاء علماء الشيعة..
 شیعہ علماء نے کہا ہے کہ یہ شیعہ تھا اور اس بات کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اس نے بڑے بڑے شیعہ علماء سے روایت لی ہیں
(شیعہ کتاب أعيان الشيعة2/219)
.
مناقب علی لابن مردویہ کی روایت میں بھی علی بن ہاشم اور ابو صلت ہروی راوی ہیں جس کے متعلق اوپر بیان کیا جا چکا ہے
.
الحاصل:
 مذکورہ روایت کے بعض راوی شیعہ رافضی کذاب جھوٹے متہم وغیرہ ہیں.... ایسے راویوں کی روایت موضوع ومن گھڑت کہلاتی ہے دیکھیے قاعدہ نمبر ایک
.
*روایت نمبر ④*
 چمن زمان صاحب چوتھی روایت لکھتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا یہ (یعنی سیدنا علی) فاروق امت اور یہی صدیق اکبر ہیں
( تاریخ بغداد 11/ 120 الکامل فی ضعفاء الرجال 5/379 الضعفاء الکبیر للعقیلی 2/47 تاریخ دمشق 42/42...43 مناقب علی لابن مردویہ38)
.
 میرا تبصرہ
 میں تو سمجھا تھا کہ چمن زمان صاحب پر تنقیدات وغیرہ کی وجہ سے وہ محتاط ہو گئے ہوں گے لیکن یہاں اس نے مکاری خیانت دھوکے بازی کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی اس عادت پر برقرار ہیں نہ جانے اسے کسی کی داد و امداد کی لالچ ہے یا اسے جھوٹ بولنے مکاری کرنے کی عادت ہے
.
الکامل فی ضعفاء الرجال 5/379 کا حوالہ چمن زمان نے دیا یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اس کتاب میں اس روایت کو معتبر کہہ کر لکھا گیا ہے حالانکہ اس کتاب میں اس روایت کو عبداللہ بن داھر کی مردود غیر معتبر روایت کہہ کر لکھا گیا ہے
.
 اسی طرح چمن زمان صاحب نے الضعفاء الکبیر للعقیلی 2/47 کا حوالہ تو دیا لیکن اس کے راوی پر امام عقیلی نے تبصرہ فرمایا وہ چھپا دیا جو کہ عین مکاری خیانت ہے...ہم آپ کے سامنے مصنف کا تبصرہ پیش کر رہے ہیں:
 دَاهِرُ بْنُ يَحْيَى الرَّازِيُّ كَانَ مِمَّنْ يَغْلُو فِي الرَّفْضِ وَلَا يُتَابَعُ عَلَى حَدِيثِهِ 
 داہر بن یحی یہ وہ شخص تھا کہ جو رافضیت میں غلو کرتا تھا اور اس کی حدیثوں کی کوئی متابعت نہیں کرتا
(الضعفاء الكبير للعقيلي ,2/46)
.
 چمن زمان نے اس روایت کا حوالہ تاریخ دمشق دیا:
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِسْحَاقَ الْبَغَوِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَزَّازُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاهِرِ بْنِ يَحْيَى الرَّازِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبَايَةَ الأَسَدِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، 
(تاريخ بغداد ت بشار ,11/120)
.
میرا تبصرہ:
 اسی طرح تاریخ دمشق کا حوالہ دیتے ہوئے چمن زمان صاحب نے بھی مکاری خیانت کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ چھپا دیا...تاریخ دمشق کے مصنف کا تبصرہ پڑہیے
قال ابن عدي عامة ما يرويه ابن داهر في فضائل علي هو فيه متهم
 علامہ ابن عدی فرماتے ہیں کہ ابن داہر فضائل سیدنا علی میں جو بیان کرتے ہیں وہ اس میں متھم ہیں( یعنی جھوٹی من گھڑت روایت فضیلت میں بیان کرتے ہیں)
(تاريخ دمشق لابن عساكر ,42/42)
.
 ان تمام حوالہ جات میں مرکزی راوی عبداللہ بن داھر ہے....اس کے متعلق کچھ حوالے ملاحظہ ہوں...اس روایت کے متعلق علماء نے دوٹوک لکھا کہ شیعہ رافضی خبیث جھوٹے منکر راوی عبداللہ بن داھر کی بیان کردہ من گھڑت روایت ہے، نبی پاک نے سیدنا علی کے متعلق ایسا فرمایا ہو کسی معتبر روایت میں نہیں آیا
.
*فهذا باطل* ولم أر أحدا ذكر داهر هذا حتى ولا بن أبي حاتم بلديه انتهى وإنما لم يذكروه لأن البلاء كله من ابنه عبد الله وقد ذكروه واكتفوا به وقد ذكره العقيلي كما مضى وقال كان يغلو في الرفض ثم ساق الحديث المذكور
خلاصہ
مذکورہ روایت باطل ہے، اسکا ایک راوی عبداللہ بن داھر رافضیت میں غلو کرتا تھا
(لسان الميزان2/414)
.
رواه الْعُقَيْلِيُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَرْفُوعًا. وقال:  في إسناده داهر بن يحيى الرازي كان ممن يغلو في الرفض، ولا يتابع على حديثه، وابنه عبد الله بن داهر كذاب وهو الراوي عنه...وقد رواه الحاكم [في الكنى] من طريق أخرى، وقال: إسناده غير صحيح...وفي الميزان، في ترجمة إسحاق بن بشر الأسدي أنه كذاب وضاع، وأورد له هذا الحديث
خلاصہ:
مذکورہ روایت من گھڑت ہے کیونکہ اسکا راوی داھر رافضی تھا غلو کرتا تھا اسکی حدیث کی کسی معتبر راوی نے تائید نہیں کی، اسکا بیٹا عبداللہ بن داھر یہ بہت بڑا جھوٹا کذاب تھا،  روایات و احادیث اپنی طرف سے گھڑ لیتا تھا...اسحاق بن بشر بھی بہت بڑا جھوٹا راوی تھا جو اپنی طرف سے روایات گھڑ لیتا تھا
( الفوائد المجموعة ص345)
.
وَإِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ مِمَّنْ لا يُحْتَجُّ بِنَقْلِهِ إِذَا انْفَرَدَ لِضَعْفِهِ وَنَكَارَةِ حديثه
(الاستيعاب في معرفة الأصحاب ر3157)
.
[4295 - عبد الله بن داهر بن يحيى بن داهر الرازي، أبو سليمان المعروف بالاحمرى.]عن أبيه.وعنه أحمد بن أبي خيثمة.قال أحمد ويحيى: ليس بشئ.قال: وما يكتب حديثه إنسان فيه خير. وقال العقيلي: *#رافضي_خبيث* قال ابن عدي: عامة ما يرويه في فضائل علي، وهو متهم في ذلك.
قلت: قد أغنى الله عليا عن أن تقرر / مناقبه بالاكاذيب والاباطيل
خلاصہ
مذکورہ روایت کا راوی عبداللہ بن داھر رافضی خبیث ہے یہ سیدنا علی کے فضائل میں احادیث گھڑتا تھا
(میزان الاعتدال2/416)
.
 *هَذَا حَدِيث مَوْضُوع*
أما الطَّرِيق الأول: فَفِيهِ عباد بن يَعْقُوب.
قَالَ ابْنُ حِبَّانَ: يروي الْمَنَاكِير عَن  الْمَشَاهِير فَاسْتحقَّ التّرْك، وَفِيهِ عَليّ بن هَاشم. قَالَ ابْنُ حِبَّانَ: كَانَ يروي عَن الْمَشَاهِير *الْمَنَاكِير وَكَانَ غاليا فِي التَّشَيُّع*قَالَ الشَّيْخ عباد بن يَعْقُوب: أخرج عَنْهُ البُخَارِيّ فِي صَحِيحه.وَفِيهِ مُحَمَّد بن عبيد الله.
قَالَ يحيى: لَيْسَ بشئ.
وَأما الطَّرِيق الثَّانِي: فَفِيهِ أَبُو الصَّلْت  الْهَرَوِيّ وَكَانَ *كذابا رَافِضِيًّا خبيثا* فقد اجْتمع عباد وَأَبُو الصَّلْت فِي رِوَايَته عَن عَليّ بن هَاشم، فَالله أعلم أَيهمَا سَرقه
من صَاحبه.
وَقد ذكرنَا عَليّ بن هَاشم وَمُحَمّد بن عبيد الله.
وَأما طَرِيق ابْن عَبَّاس فالمتهم بِهِ عبد الله بن داهر فَإِنَّهُ كَانَ *غاليا فِي الرَّفْض* قَالَ يَحْيَى بْنُ معِين: لَيْسَ بشئ، مَا يكْتب عَنْهُ إِنْسَان فِيهِ خبر.
(الموضوعات لابن الجوزي1/345)
.
٦ عبد الله بن داهر بن يحيى بن داهر) ، وقال: عامة ما يرويه فى فضائل على وهو فيه متهم
 عبداللہ بن داہر یہ سیدنا علی کے فضائل میں جو روایات بیان کرتا ہے اس میں عام طور پر یہ متھم ہے(یعنی جھوٹی روایت کرتا ہے)
(السیوطی  جامع الأحاديث23/91)
.
رافضي خبيث"، وقال ابن عدي: "عامة ما يرويه في فضائل علي، وهو متهم في ذلك"
عبداللہ بن داہر خبیث رافضی ہے یہ سیدنا علی کے فضائل میں جو روایات بیان کرتا ہے اس میں عام طور پر یہ متھم ہے یعنی جھوٹی روایت کرتا ہے
(كتاب الضعفاء لأبي زرعة الرازي في أجوبته على أسئلة البرذعي - أبو زرعة الرازي وجهوده في السنة النبوية1/33)
.
روایت نمبر⑤
 چمن زمان صاحب نے پانچویں روایت میں بھی یہ لکھا ہے کہ سیدنا علی ہی صدیق اکبر اور فاروق امت ہیں اور درج ذیل کتابوں کے حوالے دیئے(اسد الغابۃ6/265...الاستیعاب4/1744...الاصابہ7/294...تاریخ دمشق42/450)
.
 چمن زمان صاحب نے خیانت مکاری کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ چھپا دیا یہ لیجئے مصنف کا تبصرہ پڑھییے
إسحاق بن بشر ممن لا يحتج بحديثه إذا انفرد، لضعفه ونكارة حديثه
 اسحاق بن بشر یہ وہ راوی ہیں کہ جس کی حدیث سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی ہے جب یہ منفرد ہو کیونکہ یہ سخت ضعیف اور منکر ہے
(أسد الغابة ط العلمية ,6/265)
.
چمن زمان صاحب نے خیانت مکاری کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ چھپا دیا یہ لیجئے مصنف کا تبصرہ پڑھییے
وَإِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ مِمَّنْ لا يُحْتَجُّ بِنَقْلِهِ إِذَا انْفَرَدَ لِضَعْفِهِ وَنَكَارَةِ حديث
اسحاق بن بشر یہ وہ راوی ہیں کہ جس کی حدیث سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی ہے جب یہ منفرد ہو کیونکہ یہ سخت ضعیف اور منکر ہے
(الاستيعاب في معرفة الأصحاب ,4/1744)
.
چمن زمان صاحب نے خیانت مکاری کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ چھپا دیا یہ لیجئے مصنف کا تبصرہ پڑھییے
احد المتروکین
 اسحاق بن بشر متروک راوی ہے
(الإصابة في تمييز الصحابة ,7/294)

.
 اب آتے ہیں اس روایت کی سند کی طرف اس کی سند درج ذیل ہے
أخبرنا أبو الفتح يوسف بن عبد الواحد أنا شجاع أنا أبو عبد الله بن مندة أنا محمد بن يعقوب نا إبراهيم بن سليمان بن علي الحمصي نا إسحاق بن بشر نا خالد بن الحارث عن عوف عن الحسن عن أبي ليلى الغفاري
(تاريخ دمشق لابن عساكر ,42/450)
.
إسحاق بن بشر الأسدي أنه كذاب وضاع
 اسحاق بن بشر بہت بڑا جھوٹا اور موضوع من گھڑت روایتیں جھوٹی روایت بیان کرنے والا ہے
(الفوائد المجموعة ص345)
.
وَفِي الْمِيزَان: إِسْحَاق بْن بشر كَذَّاب فِي عداد يصنعُ الحَدِيث وَأورد لَهُ هَذَا الحَدِيث
 میزان میں ہے کہ اسحاق بن بشیر کذاب ہے بہت بڑا جھوٹا ہے یہ موضوع جھوٹی روایتیں گھڑنے والوں میں سے ہے
(السیوطی اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة1/298)
.
، وَفِيه إِسْحَق بن بشر الْأَسدي الْكَاهِلِي مَعْدُود فِي الوضاعين
اسحاق بن بشیر یہ موضوع جھوٹی روایتیں گھڑنے والوں میں سے ہے
(تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة1/353)
.
*روایت نمبر ⑥*
چمن زمان صاحب نے روایت لکھی اور اس پر علامہ سیوطی کا تبصرہ کچھ حد تک لکھا کہ یہ یہ روایت بیٹے کی وجہ سے مردود ہے لیکن باپ سے مروی ہو تو مردود نہیں ہے لیکن پھر اس پر امام سیوطی نے علامہ ابن جوزی کا تبصرہ نقل کیا کہ باپ سے مروی ہو تو بھی مقبول نہیں ہے کہ سرقۃ الحدیث کا احتمال قوی ہے پھر لکھا کہ اس کا ایک شاہد ہے ابن عباس والی روایت لیکن اس کو بھی موضوعات میں شمار کیا گیا ہے جیسے کہ اوپر روایت نمبر 4 میں ہم بحث کر چکے ہیں
.
 الحاصل
 ہمارے مطابق ایسی کوئی بھی معتبر سند سے روایت ثابت نہیں ہے کہ جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو صدیق اکبر فرمایا ہو.......!!
.
چوتھی بات:
 *اب آتے ہیں ان روایات کی طرف کہ جن میں بظاہر یہ لکھا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے خود کو صدیق اکبر کہا.....!!*
روایت نمبر ①
 چمن صاحب لکھتے ہیں کہ روایت میں ہے کہ مولا علی نے فرمایا کہ میں صدیق اکبر ہوں... اور پھر بعد میں درج ذیل کتابوں کے نام لکھے
( الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم 186...187...التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ1/65 382.. الکنی والاسماء للدولابی 1587 الاوائل لابی عروبہ 46)
.
 میرا تبصرہ
اسکی درج ذیل اسناد ہمیں ملیں
- حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ يَحْيَى أَبُو الْخَطَّابِ، قَالَ حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ، وَحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُصْعَبٍ الْوَاسِطِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ أَنْبَأَ نُوحُ بْنُ قَيْسٍ الْحُدَّانِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو فَاطِمَةَ، قَالَ سَمِعْتُ مُعَاذَةَ الْعَدَوِيَّةَ
.
.حَدَّثَنَا أَبُو الخَطَّاب الْحَسَّانِيُّ وَمُحَمَّد بْنُ يَحْيَى بْنِ الْقُطَعِيِّ حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَان بْنُ عَبْد اللَّهِ أَبُو فَاطِمَةَ عَنْ مُعَاذَةَ بِنْتِ عَبْد اللَّهِ الْعَدَوِيَّةِ
.
قَالَ الْبُخَارِيُّ: لَا يُتَابَعُ عَلَيْهِ، وَلَا يُعْرَفُ سَمَاعُ سُلَيْمَانَ مِنْ مُعَاذَةَ
 امام بخاری فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی کوئی متابعت نہیں ہے پیروی نہیں ہے اور سلیمان نے معاذہ سے نہیں سنا( جب سننا ثابت ہی نہیں تو پھر یہ روایت  مردود کہلائے گی)
( الضعفاء الكبير للعقيلي2/130)
.
، ولا يعرف سماع سُلَيْمان من معاذة
اور سلیمان نے معاذہ سے نہیں سنا( جب سننا ثابت ہی نہیں تو پھر یہ روایت مردود کہلائے گی)
(تهذيب الكمال في أسماء الرجال12/19)
.
قلت وقال ابن عدي لا أعرف له غيره ولا يتابع عليه كما قال البخاري
 میں مصنف کہتا ہوں کہ امام ابن عدی نے فرمایا ہے کہ اس کے علاوہ اس کی کوئی روایت معروف نہیں اور اس کی پیروی نہیں کی گئی جیسے کہ امام بخاری نے فرمایا
( تهذيب التهذيب4/205)
.
 *روایت نمبر ②*
 چمن زمان صاحب نے ابن ماجہ مستدرک حاکم فضائل صحابہ امام احمد بن حنبل سنن کبریٰ تفسیر ثعلبی وغیرہ کچھ کتب سے روایت لکھی کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں صدیق اکبر ہوں میرے بعد کوئی بھی خود کو صدیق اکبر کہے تو وہ جھوٹا ہے
.
میرا تبصرہ:
 امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں
فَقَالَ: اضْرِبْ عَلَيْهِ؛ فَإِنَّهُ حَدِيثٌ منكر
 یہ حدیث منکر ہے نا قابل قبول ہے اس پر میں سزا دوں گا
(المنتخب من علل الخلال1/204)
( الجامع لعلوم الإمام أحمد - علل الحديث15/147)
.
عبيد الله...وَكَانَ شِيعِيًّا
 اس روایت کا راوی عبید اللہ شیعہ تھا
(طبقات الحفاظ للسيوطي ص155)
.
آفته عباد قلت أخرجه النَّسَائِيّ فِي الخصائص وَصَححهُ الْحَاكِم على شَرطهمَا لَكِن تعقبه الذَّهَبِيّ بِأَن عبادا ضَعِيف
 اس روایت کو نسائی نے امام حاکم نے لکھا ہے لیکن امام ذھبی نے تعقب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ عباد( سخت) ضعیف ہے
( تذكرة الموضوعات للفتني ص96)
.
عبيد الله ابن موسى [بن أبي المختار] ابن باذام العبسي الكوفي أبو محمد ثقة كان يتشيع
 اس روایت کا راوی عبید اللہ بن موسی ثقہ ہے لیکن اس میں تشیع تھا
(ابن حجر تقريب التهذيب ص375)
.
؛ عُبيد الله بن موسى العبسي، خبيثٌ ضال، كان شِيعيًّا مُحترقًا
 عبیداللہ بن موسی خبیث ہے گمراہ ہے اور شیعہ ہے جلا ہوا
(المسند المصنف المعلل20/150)
.
- عبيد الله بن موسى العبسي٤: يكنى أبا محمد: صدوق، وكان يتشيع
 عبیداللہ بن موسی صدوق ہے لیکن اس میں تشیع تھا
( الثقات للعجلي ط الباز ص319)
.
، لَا تَأْتِ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ مُوسَى، فَإِنَّهُ بَلَغَنِي عَنْهُ غُلُوًّا
 امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ عبید اللہ بن موسی کے پاس ہرگز مت جانا مجھے خبر پہنچی ہے کہ وہ شیعیت میں غلو کرنے والا ہے
( الضعفاء الكبير للعقيلي3/127)
.
دون عبيد الله بن موسى العبسي، لأن عبيد الله أيضاً شيعي، بل غالٍ في التشيع
 عبیداللہ شیعہ ہے بلکہ شیعیت میں غلو کرنے والا ہے
( منهج الإمام أحمد في إعلال الأحاديث1/255)
.
الْعَلَاءِ بْنِ صَالِحٍ الْأَسَدِيِّ الْكُوفِيِّ وَثَّقُوهُ، وَلَكِنْ قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: كَانَ مِنْ عُتُقِ الشِّيعَةِ. وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: رَوَى أَحَادِيثَ مَنَاكِيرَ
 اس روایت کا ایک راوی العلاء بن صالح اس کی توثیق کی گئی ہے لیکن امام ابوحاتم فرماتے ہیں کہ یہ بڑے بڑے شیعوں میں سے تھا امام علی بن مدینی فرماتے ہیں کہ یہ منکر روایتیں بیان کرتا تھا
(البداية والنهاية ت التركي4/66)
.
 مذکورہ راویوں سے صحاح ستہ  وغیرہ کے اماموں نے، بعض اماموں نے روایات لی ہیں تو اس کی وجہ یقینا یہی ہوگی کہ ان کا کوئی متابع ہوگا یا وہ روایات شیعوں کے نظریوں کے مطابق نہ ہوں گی وگرنہ باطل و مردود کہلائیں گی...پڑہیے سب سے اوپر لکھا قاعدہ 1
.
 چمن زمان صاحب نے بعض اسلاف کے اقوال نقل کیے ہیں کہ جنہوں نے سیدنا صدیق اکبر کے علاوہ سیدنا علی کو بھی صدیق اکبر فرمایا ہے.... اس کے بارے میں یہی کہیں گے کہ انہوں نے بعض روایات پر اعتماد کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے اگرچہ وہ بات خطا ثابت ہوئی.... ایسا ہوتا ہے کہ کبھی کسی کو خطا لاحق ہوتی ہے کوئی غیر معتبر روایت لکھ دیتا ہے اور بعد کے لوگ اسے نقل کرتے جاتے ہیں
اس سلسلے میں یہ قاعدہ مد نظر رکھنا ضروری ہے
*قاعدہ نمبر ②*
 امام اہلسنت سیدی احمد رضا فتاوی شامی کی عبارت کو دلیل.بناتے ہوے فرماتے ہیں:
اگر تسلیم بھی کیا جائے کہ بہت سی جگہوں میں مذکور ہے تو بھی کثرت نقول مستلزم صحت کو نہیں پہلے ایک شخص کو غلطی ہوجاتی ہے اور بعد کے لوگ اس کی غلطی بظنِ صحت نقل کرتے چلے جاتے ہیں
۔شامی جلد 4ص 351 میں ہے:قد یقع کثیرا ان مؤلفا یذکر شیئا خطاً فینقلونہ بلا تنبیہ فلیکثر الناقلون و اصلہ لواحد مخطئ 
اکثر ایسا واقع ہوا ہے کہ مؤلف سے کوئی غلطی ہوگئی تو لوگ اسے بلا تنبیہ نقل کرتے رہتے ہیں حتی کہ اس کے ناقلین کثیر ہوجاتے ہیں حالانکہ اصل کے اعتبار سے ایک مخطی ہوتا ہے
(فتاوی رضویہ جلد6 صفحہ،199,198)
.
*روایت نمبر ③*
 چمن زمان صاحب نے معجم الاوسط للطبرانی فضائل الخلفاء الشریعہ وغیرہ کے حوالے سے لکھا کہ رسول کریم نے فرمایا کہ علی میں نے جو کچھ مانگا اپنے لئے وہ تیرے لئے بھی مانگا اور اللہ نے مجھے عطا کیا سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں
.
میرا تبصرہ:
اسکی اسناد یہ ہیں
حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ الْهَرَوِيُّ، فِيمَا أَجَازَنِي، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، ثنا عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ، ثنا جَعْفَرُ بْنُ زِيَادٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عَلِيٍّ،
.
- حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، ثَنَا أَبُو يَحْيَى، ثَنَا عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ، نا جَعْفَرُ بْنُ زِيَادٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ
.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ أَبُو يَحْيَى، وَسُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ قَالَا: ثنا عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ، ثنا جَعْفَرُ بْنُ زِيَادٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ
.
الفقيه أنا أبو محمد عبد الرحمن بن عثمان أنا أبو الحسن خيثمة بن سليمان أنا إسحاق بن سيار نا علي بن قادم عن جعفر الأحمر عن يزيد بن أبي زياد عن عبد الله بن الحارث عن علي
.
وفي السند علي بن قادم، وهو: الخزاعى، شديد التشيع (٤)، والحديث في فضل على - رضى الله تعالى عنه
 مذکورہ روایت کی سند میں علی بن قادم ہے جو کہ شدید تشیع کرنے والا تھا اور حدیث سیدنا علی کے فضائل میں ہے( تو مردود کہلائے گی جیسے کہ اوپر قاعدہ نمبر 1 میں بیان ہوا)
(الأحاديث الواردة في فضائل الصحابة7/21)
.
علي بن قادم الخزاعي الكوفي: صدوق يتشيع شيعي كوفي فيه مقال". "الخبر" ضعيف من قبل التشيع"
 علی بن قادم صدوق ہے شیعہ ہے تشیع کی وجہ سے اس کی خبر سخت ضعیف ہے
( تحفة اللبيب بمن تكلم فيهم الحافظ ابن حجر من الرواة في غير «التقريب»1/588)
.
مُنْكَر الحدَّيث، شديد التشيُّع
 علی بن قادم منکر الحدیث ہے شدید شیعیت والا ہے
(تاريخ الإسلام - ت بشار5/407)
.
أرخه بن سعد وقال كان ممتنعا منكر الحديث شديد التشيع
علی بن قادم منکر الحدیث ہے شدید شیعیت والا ہے
( تهذيب التهذيب7/374)
.
جعفر بن زياد...وكان يتشيع
 مذکورہ روایت میں ایک اور راوی جعفر بن زیاد ہے جس میں تشیع تھا
(موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله1/199)
.
وجعفر الأحمر له أحاديث يرويه عَنْهُ غير أهل الكوفة غير ما ذكرته، وَهو يروي شيئا من الفضائل، وَهو فِي جملة متشيعة الكوفة
 جعفر یہ کوفی شیعوں میں سے ہے اور فضائل اہل بیت میں روایت کرتا ہے
(الكامل في ضعفاء الرجال2/377)
.
جعفر بن زياد الأحمر (ت س)عن بيان بن بشر صدوق شيعي
 جعفر بن زیاد صدوق ہے شیعہ ہے
( من تكلم فيه وهو موثق ت أمرير ص59)
.
: صَالِحُ الْحَدِيثِ وَكَانَ يَتَشَيَّعُ
 جعفر بن زیاد صالح الحدیث ہے اور اس میں تشیع تھا
(الضعفاء الكبير للعقيلي1/186)
.

 وعلي بن قادم هو: الخزاعي، أبو الحسن، فيه ضعف، وله ما ينكر، وفيه غلو في التشيع، والحديث في فضل علي - رضى الله عنه -. يرويه عن: جعفر بن زياد الأحمر، وهو صدوق له ما ينكر، وفيه شيعية غالية. يرويه عن: يزيد بن أبي زياد، وهو: أبو عبد الله الهاشهى، وهو شيعي، ضعيف، كبر، وصار يتلقن ما ليس من حديثه، فيحدث به
 اس روایت میں علی بن قادم ہے جس میں شدید ضعف ہے کیونکہ یہ منکر روایت کرتا ہے اور اس میں شیعیت میں غلو تھا اور روایت سیدنا علی کے فضائل میں ہے( تو قاعدہ نمبر 1 کے تحت یہ مردود کہلائے گی)... روایت میں جعفر بن زیاد ہے جوکہ صدوق ہے لیکن اس کی منکر روایت بھی ہیں اور اس میں غلو تھا شیعیت میں.... اس روایت میں یزید بن ابی زیاد ہے جو کہ شیعہ سخت ضعیف ہے یہ بڑا ہو گیا تھا تو اس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا تو یہ وہ باتیں بیان کرتا تھا کہ جو باتیں ثابت ہوتی بھی نہیں تھی
(الأحاديث الواردة في فضائل الصحابة7/34)
.
 الحاصل اس روایت کا دارومدار غالی شیعہ راویوں پر ہے اور روایت فضائل اہل بیت میں ہے تو اوپر قاعدہ نمبر 1 کے تحت روایت مردود قرار پائے گی یا کم سے کم ضعیفا جدا قرار پائے گی کہ جو فضائل میں بھی معتبر نہیں... مذکورہ رادیوں سے معنی اگر روایت لی ہے تو اس کی وجہ یہ ہوگی کہ اس کا کوئی متابع ہوگا یا پھر شیعیت رافضیت کی باتوں میں اس کی روایت نہ ہوگی
.
*روایت نمبر ④*
 چمن زمان صاحب نے چند حوالوں سے لکھا کہ صدیق تین ہیں حبیب نجار حزقیل اور علی....اور علی افضل ہیں
 الصديقون ثلاثة حبيب النجار من آل ياسين وحزقيل مؤمن آل فرعون وعلى بن أبى طالب وهو أفضلهم
.
میرا تبصرہ:
فيه عمرو بن جميع متهم بالوضع
 اس روایت میں عمرو بن جمیع ہے جس پر جرح ہے کہ یہ حدیث من گھڑت جھوٹی وضع کرتا تھا
(السیوطی جامع الأحاديث14/60)
.
وكان كذَّابًا خبيثا
 عمرو بن جمیل کذاب جھوٹا خبیث راوی تھا
( الكامل في ضعفاء الرجال6/196)
.
متهم بالوضع
عمرو بن جمیع ہے جس پر جرح ہے کہ یہ حدیث من گھڑت جھوٹی وضع کرتا تھا
( ديوان الضعفاء ص302)
.
كان كذابا
عمرو بن جمیع کذاب جھوٹا تھا
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم6/224)
.
 
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.