چمن زمان سے مباحثہ،موضوع انبیاء کرام اور خطاء اجتہادی

 پڑہیے تو بلاتعصب مکمل پڑہیے ورنہ ہرگز نہ پڑہیے

انبیاء کرام سے اجتہادی خطاء ممکن و جائز ہے بعض انبیاء کرام سے ہوئی بھی...ایسا اسلاف نے لکھا، مفتی چمن زمان نے لکھا کہ انبیاء کرام سے اجتہادی خطاء سے معصوم و محفوظ ہیں اس پر کچھ دلائل بھی دیے اور افھام و تفھیم کے لیے میرا ان سے مکالمہ ہوا جسے مفتی چمن زمان کے شاگرد علامہ پتافی نے لکھا تو ہم نے اسکا جواب لکھا...چمن زمان کے دلائل کا رد کیا....آئیے اپ بھی پڑہیے

مفتی.چمن زمان صاحب کے شاگرد علامہ مشتاق پتافی کو جواب اور مفتی چمن زمان سے مکالمہ کی تفصیل..........!!!
موضوع کیا انبیاء کرام علیھم السلام سے اجتہادی خطاء ہوسکتی ہے.....؟؟
.
پتافی:
#فتح_مبین(جواب فتح منا رہے ہین....افسوس مطلب افھام و تفھیم مقصد نہ تھا اور نہ انداز افھام و تفھیم والا؟ جبکہ ہم نے وقت مقرر کیا تھ افھام و تفھیم کے کےلیے)
.
پتافی
چند دنوں سے سکھر کے ایک علامہ صاحب جلالی کی حمایت اور محقق زمان مفتی چمن زمان نجم القادری صاحب کی مخالفت میں مسلسل پوسٹیں کر رہے تھے اور دعوے کر رہے تھے کہ مفتی صاحب میرے ان دلائل کا جواب دیں ۔۔
(جواب:جلا لی صاحب کے موقف کے برعکس میرا موقف ہے جو انہوں نے شاید پرھا ہی نہیں....)
.
پتافی:
مفتی صاحب کو انکے علمی مبلغ کا علم تھا اسلیے خاطر خواہ اہمیت نہیں دے رہے تھے۔۔
مگر یہ حضرت آئے دن چینلج پر چینلج کرتے آئے ۔۔
مفتی صاحب کو بعض دوستوں نے کہا کہ آپ انکو جواب دیں ۔۔۔
وہ کیا چاہتے ہیں۔! 
مفتی صاحب نے کہا اگرچہ میں مصروف ہوں لیکن وہ اپنا شوق پورا کرلیں۔۔
جب چاہیں بات کرلیں۔۔۔آمنے سامنے ۔۔۔
مگر اس حضرت کا اصرار تھا کہ فیس بک پر جواب دیں ۔۔۔
مفتی صاحب نے کہا میں اتنا فری نہیں ۔۔اگر جواب چاہیے تو سامنا کرو۔۔
مفتی صاحب کی عاجزی دیکھیں یہاں تک فرما دیا کہ اگر آپ آنا چاہتے ہیں تو فبہا ورنہ حکم کریں میں آجاتا ہوں۔۔
(جواب:
بلا کر تین چار گھنٹے بات کرنے کا ٹائم تھا مفتی صاحب کے پاس مگر  زیادہ سے زیادہ گھنٹہ دلاءل لکھنے میں لگتے اس کے لیے ٹائم نہیں تھا....شاید سوچی سمجھی سازش تھی کہ عنایت تو سیدھا سادہ ہے اسے مناظرہ کہاں اتا ہے لیھذا بلا کر چالاکی مکاری چرب زبانی سے دھلائی کرتے ہیں)
.
پتافی:
بہر حال وہ خود مفتی صاحب کے پاس آنے کو تیار ہوگئے گزشتہ شب وہ جامعہ میں حاضر ہوئے۔۔۔
مگر آنے سے پہلے انہوں نے کئی ایک بے تکی پوسٹیں کی کہ مفتی صاحب حوالے اور دلائل تیار رکھیے میں مناظرہ کے لیے نہیں افھام و تفھیم کے لیئے آرہا ہوں۔۔۔
(جواب:
افھام و تفھیم کی پوستیں کرنا بےتکی کیسے ہوگئیں.....؟)
.
بالآخر وہ رات جامعہ میں  آئے ۔۔۔
مفتی صاحب کے سامنے بیٹھے 
مفتی صاحب نے اپنا مدعی یہ تحریر فرمایا۔۔
(جواب:
مدعی مناظرہ میں لکھا جاتا ہے ہم افھام و تفھیم کے لیے تھے مدعی کہنا غلط بیانی ہے....اسے ایک وضاحتی نوٹ کہا جاسکتا ہے)
.
پتافی:
"#انبیاء_کرام_علی_نبینا_وعلیہم_الصلوة_و_السلام_سے #اجتھاد_میں_خطا_کا_مسئلہ_علماء_کے_مابین_اختلافی_ہے #لیکن_راجح_اور_ہمارے_اکابر_کا_مختار_یہ_ہے_کہ_انبیاء_کرام #علی_نبینا_وعلیہم_الصلوة_والسلام_باب_اجتھاد_میں #خطا_سے_معصوم_ہیں"

علامہ صاحب نے اپنا مدعی خود اپنے ہاتھوں سے یہ تحریر فرمایا
(جواب:
مدعی نہیں وضاحت لکھی تھی مدعی تو وہ تھا جو بار بار فیس بک پے بولا اور سامنے بھی بولا وہی معتبر یہ تو فقط تنبیہ و وضاحت لکھی)
'' #انبیاء_کرام_علی_نبینا_وعلیہم_السلام_خطا_فی #الاجتھاد_سے_معصوم_نہیں_بعض_انبیاء_کرام_سے #اجتھادی_خطا_ہوئی_بھی_ہے_لیکن_اللہ_جل_شانہ_انبیاء #کرام_کی_اصلاح_فرما_دیتا_ہے_اور_وہ_اپنی_خطا_اجتھادی #پر_قائم_نہیں_رہتے''
.
پتافی:
مفتی صاحب نے انبیاء کرام کے لیے لفظ اصلاح کو ناپسند فرمایا۔۔
بہر حال انکا مدعی تھا۔۔۔
اور میں یہاں کہوں گا دیکھیے جلالی کی حمایت نے کیسا دل مردہ کردیا کہ دلائل ڈھونڈ کر کیا ثابت کرنے آئے ۔۔انبیاء کرام کی خطائیں۔۔۔العیاذ باللہ
(جواب:ہم کئ بار لکھ چکے کہ پاک ہستیوں کی خطاءیں تلاشنا نہ ہمارا شوق ہے نا ہی پسندیدہ موضوع مگر جب اسلاف نے لکھا تو ان کے خلاف جو لکھے گا تو ہم اسلاف کا دفاع اسلاف کے حوالے بیان کرکے کریں گے...جن اسلاف نے اجتہادی خطاء لکھا کیا ان کے متعلق بھی کہو گے جو ہمارے بارے مین لکھا اعتقاد رکھا العیاذ باللہ.....؟؟)
.
پتافی:
بہرحال جلالی کے حمایتی
(جواب:حمایتی کس حد تک ہوں یہ بھی پتہ ہونا چاہیے تھا میرا موقف پہلے پڑھ تو لیتے؟)
.
پتافی:
صاحب نے کہا کہ میں آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے دلائل اور حوالہ جات سے ثابت کریں کہ انبیاء کرام اجتھادی خطا سے معصوم ہیں۔۔!
(جواب:
میں نے یہ نہین کہا کہ دلاءل دیں....میں تو دلائل سننے کو بھی تیار نہ تھا...کافی وقت تک مفتی صاحب کو دلاءل دینے سے روکے رکھا...میرا موقف تھا کہ مسلہ اعتقادی اہم ہے لیھذا فقط اسلاف کے اقوال و حوالہ جات ہی پیش کیجیے...یہ بات بات کرتے وقت بھی کئ بار کہی اور اس سے پہلے بھی فیس بک پر ایسا ہی کہہ چکا تھا)
.
پتافی:
مفتی صاحب نے سب سے پہلے اپنی گفتگو شروع کی دلائل سے۔۔، 
چند منٹ بعد جب مفتی صاحب کی گفتگو انکی سمجھ سے بالاتر ہوئی تو کہنے لگے دلائل کو چھوڑ دیں بس اکابر کے حوالے پیش کریں۔۔۔
(جواب:
بدگمانی کی آپ نے کہ دلاءل سمجھ سے بالاتر تھے اس لیے منع کیا...بلکہ میں نے دلائل کے بجائے حوالہ جات کی بات اس لیے کی کہ یہ موضوع اجتہادی نہیں اعتقادی ہے...اسلاف کے عقیدے پر چلیں گے ناکہ اپنے مدعی و دلائل پر)
.
پتافی:
مفتی صاحب نے فرمایا حوالے کی باری بعد میں آتی ہیں پہلے دلائل سنیں ۔۔۔
اس بات پر بہت وقت ضایع کیا اور مانے ہی نہیں کہ میں نے دلائل کا کوئی مطالبہ کیا ہے ۔۔
فرمانے لگے میرا آپ سے شروع دن سے حوالوں کا مطالبہ تھا دلائل کا تھا ہی نہیں۔۔
انکو انہی کی آڈی سے پوسٹ میں دکھائی گئی۔
جس میں دلائل کا مطالبہ واضح موجود تھا ۔۔
(جواب:
میں نے اکثر حوالہ جات ہی کا مطالبہ لکھا ایک جگہ دلائل لکھا تو اسکا بھی معنی بتا دیا کہ دلاءل سے مراد اسلاف سے منقولی دلائل ہیں)
.
پتافی:
مگر چونکہ حضرت بری طرح دلائل میں پھنس رہے تھے تو فرمایا کہ میری مراد دلائل منقولہ تھی ۔۔۔آپ اپنے دلائل نہ دیں۔۔۔
حالانکہ پوسٹ میں صرف دلائل کا ذکر تھا منقولہ کی کوئی قید نہیں تھی۔۔
(جواب:قرینہ کلام سیاق و سباق سے واضح کہ یہاں دلاءل سے مراد اسلاف سے منقولی دلائل)
.
حضرت بضد تھے کہ بس مجھے اکابر کے حوالے دکھائیے اور میری جان چھوڑیئے۔
مفتی صاحب نے فرمایا چلو ٹھیک ہے حوالوں کی طرف آتے ہیں ۔۔
مفتی صاحب کی طرف سے 
 
#پہلا_حوالہ۔۔
#کشف_الاسرار_عن_اصول_فخرالاسلام_البزدوی
مؤلف: امام علاٶالدین عبد العزیز البخاری
 المتوفی 730 ھجری
جلد نمبر 3 
صفحہ نمبر 290
 واجتھادہ لایحتمل الخطاء عند الاکثر
ترجمہ: اکثر علماء کے نزدیک نبی کا اجتھاد خطا کا احتمال نہیں رکھتا ۔۔
اسکی دلیل منقول بھی مفتی صاحب نے دے دی۔۔
اس حوالہ پر حضرت نے فرمایا کہ کسی ایک نبی کے بارے میں فرمایا گیا ہے انبیاء کرام کے بارے میں دکھاؤ، 
۔۔۔سبحان اللّٰہ۔۔
(جواب:
اس میں تعجب کی کیا بات ہے جب موقف ہی یہی ہے کہ انبیاء کرام سے اجتہادی خطاء کی نفی کرنا ہے تو حوالے میں بھی انبیاء سے نفی ہونی چاہیےناکہ ایک نبی پاک کی...لیھذا حوالہ نامقبول و رد قرار پاپا)
.
پتافی:
 #دوسرا_حوالہ
#الجامع_لاحکام_القرآن
 مؤلف: ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابی بکر قرطبی رحمہ اللہ
 متوفی 671 ھجری
جلد نمبر 14 صفحہ 23و6
 الفرق بینھم و بین غیرھم من المجتھدین انھم معصومون عن الغلط والخطا وعن التقصیر فی اجتھادھم وغیرھم لیس کذالک ھذا مذھب الجمھور فی ان جمیع الانبیاء صلوات اللہ علیھم معصومون عن الخطا و الغلط فی اجتھادھم_ 
ترجمہ: (پچھلی کلام میں بات یہ ہورہی ہے کہ انبیاء بھی اجتھاد کرتے ہیں جس طرح عام غیر نبی اجتھاد کرتے ہیں،)
عبارت کا ترجمہ: لیکن انبیاء کرام اور باقی غیر نبی مجتھدوں میں فرق یہ ہے کہ انبیاء کرام اپنے اجتھاد میں غلطی خطا اور تقصیر سے معصوم ہوتے ہیں لیکن غیر نبی مجتھدین ان سےبمعصوم نہیں ہوتے۔
اور یہی مذھب جمھور علماء کا ہے اس میں کہ بے شک انبیاء صلوات اللہ علیہم اپنے اجتھاد میں غلطی اور خطا سے معصوم ہوتے ہیں۔۔
اس حوالہ سے  حضرت کا یہ اعتراض بھی جاتا رہا کہ صرف ایک نبی کا ذکر ہے یا صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے ہیں۔۔۔
بہر حال یہ حوالہ اس وقت بے دلی سے قبول تو فرمالیا مگر گفتگو کے آخر فرمانے لگے جو آپ کے حوالے قابل قبول ہیں وہ کتب اور مصنف معروف نہیں ہیں۔۔
علامہ قرطبی جیسی شخصیت کو بھی جلالی کا حمایتی غیر معروف کہ کر جان چھڑائی۔۔
(جواب:جن اسلاف کے حوالے ہم نے ان کے مقابلے میں علامہ قرطبی کم ہیں....اور پھر علامہ قرطبی فرماتے ہیں وَلَا يَمْتَنِعُ وُجُودُ الْغَلَطِ وَالْخَطَأِ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ كَوُجُودِهِ مِنْ غَيْرِهِمْ، لَكِنْ لَا يُقَرُّونَ عَلَيْهِ،ترجمہ:انبیاء کرام سے غلط و خطاء(اجتہادی)ہوسکتی ہے ممنوع نہیں لیکن انبیاء کرام اجتہادی خطا پر دائم قائم نہیں رہتے
(تفسیر قرطبی11/308)
لیھذا یہ حوالہ بھی نامقبول و رد قرار پاپا)
.
پتافی
#تیسرا_حوالہ ۔۔
#روح_المعانی ۔۔
جلد 12
صفحہ نمبر178
مولف علامہ محمود آلوسی رحمہ اللہ 
ونعلم قطعا ان الانبیاء علیھم السلام معصومون من الخطایا لایمکن وقوعھم فی شیئ منہا ضرورت انا لو جوزنا علیہم شیئا من ذالک بطلت الشرائع ولم یوثق بشیئ مما یذکرون انہ وحی من اللہ تعالی۔۔
ترجمہ اور ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ بے شک انبیاء کرام خطاٶں سے معصوم ہوتے ہیں ان سے خطاوں سے کچھ بھی واقع ہونا ممکن نہیں ۔۔یہ اسلیے کہ اگر ہم ان خطاوں کو ان سے جائز قرار دیں تو شریعتیں باطل ہوجائیں گی اور ان انبیاء سے اعتماد اٹھ جائے گا کہ جو یہ ذکر کر رہے ہیں یہ واقعی اللہ کی طرف سے وحی ہے یا ان میں انکو خطا واقع ہوئی ہے۔۔۔(جواب ہمارے حق میں وحی اور اجتہاد دونوں کی پیروی لازم، انبیاء کرام بتا دیتے لکھوا دیتے تھے کہ یہ وحی ہے یہ وحی نہیں....لیھذا وحی غیر وحی میں اشتباہ نہ رہا اور اجتہاد میں خطاء ہوتی تو اللہ کریم فورا وحی فرما کر اصلاح فرما دیتا لیھذا کوئی بطلان و اشتباہ نہیں... یہی اسلاف کا قول ہے)
اسلیے ضروری طور پر یقین کرنا پڑے گا کہ انبیاء خطاؤں سے معصوم ہوتے ہیں۔
.
پتافی
یہاں حضرت کو جان چھڑانے ایک اور بہانہ ملا کہ خطا کے ساتھ اجتھاد مذکور نہیں لہذا یہ خطا معصیت بھی ہوسکتی ہے۔
العیاذ باللہ ۔۔۔جلالی کی حمایت کی نحوست کہ انبیاء سے خطائے اجتھادی کو ثابت کرتے کرتے ان پاک ذاتوں کی طرف خطاے معصیت کو بھی ممکن سمجھتے ہی
(جواب:یہ آپ کا جھوٹ ہے کہ انبیاء کرام سے خطائے معصیت کو ہم نے جائز کہا.....بلکہ میں نے یہ کہا تھا کہ خطاء سے مراد خطاء معصیت ہے اور انبیاء سے اسکی نفی ہے یعنی مزکورہ حوالے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کرام خطاء معسیت سے معصوم ہیں اجتہادی جائز ہےلیھذا یہ حوالہ بھی نامقبول و رد قرار پاپا....اور روح المعانی کا یہ حوالہ بھی دیکھیے کیا لکھتے ہیں
جمهور المحدثين والفقهاء على أنه يجوز للأنبياء عليهم السلام الاجتهاد في الأحكام الشرعية ويجوز عليهم الخطأ في ذلك لكن لا يقرون عليه
ترجمہ:
جمہور.و.اکثر محدثین و فقہاء کا نظریہ ہے کہ انبیائے کرام کے لئے اجتہادی خطا جائز ہے لیکن وہ اجتہادی خطا پر قائم نہیں رہتے ( بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)
[تفسير الألوسي = روح المعاني ,7/68]
.
پتافی:
۔۔۔اس سے اندازہ ہوا جلالی گروپ ناصبیت سے بھی ایک قدم آگے نکل چکے ہیں۔۔
(جواب:ناسبیت سے آیک قدم اگے کا فتوی کفر ہے یا.....؟؟ بہرحال جن اسلاف نے خطاء اجتہادی کو جاءز کہا کیا وہ بھی ناصبی......؟نعوذ باللہ)
.
پتافی:
#چوتھا_حوالہ۔۔۔
#التقریر_والتحبیر
شرح علامہ محقق ابن امیر الحاج ۔۔فتاوی رضویہ پڑھنے سے اندازہ کرلیں ان شخصیت پر اعلی حضرت رحمہ اللہ نے کتنا اور کیسا اعتماد فرمایا۔۔
جلد 3 صفحہ 381
قیل بامتناع جواز الخطا علی اجتھادہ نقلہ فی الکشف وغیرہ عن اکثر العلماء و قال الامام الرازی والصفی الھندی انہ الحق وجزم بہ الحلیمی والبیضاوی وذکر السبکی انہ الصواب وان الشافعی نص علیہ فی مواضع من الام
 یہ مسئلہ مختلف فیھا ہے 
ترجمہ ۔۔ایک قول یہ ہے کہ نبی مجتھد سے خطاۓ اجتھادی ممتنع ہے ۔۔۔
الکشف وغیرہ میں یہی اکثر علماء سے منقول ہے ۔۔۔
امام رازی اور صفی ھندی نے فرمایا کہ  یہی قول حق ہے ۔۔
اور اسی پر حلیمی اور علامہ بیضاوی نے بھی جزم فرمایا اور سبکی رحمہ اللہ نے ذکر کیا کہ یہی قول درست ہے ۔۔
اور امام شافعی رحمہ اللہ نے الام میں جا بجا اسی قول پر نص کی ہے۔۔۔
اس پر حضرت نے کئی بہانے بنائے ۔۔۔
کہا کہ یہاں بھی کسی ایک نبی کے بارے کہا گیا ہے سارے نبییوں کے بارے نہیں۔۔
اور فرمایا کہ ہو سکتا ہے مؤلف سے نسبت میں غلطی ہوئی ان بزرگوں نے ایسا نہ فرمایا ہو۔۔
واہ ۔۔۔!!
جس ہستی پر اعلی حضرت رحمہ اللہ بے حد اعتماد کرتے ہوں انکے لیے یہ جلالی کا حامی کہ گیا کہ ان پر اعتماد نہیں کیا سکتا ۔۔۔
(جواب:
سیدی اعلی حضرت علامہ شامی پر کتنا اعتماد کرتے تھے جگہ جگہ حوالے مگر پھر کچھ جگہ پر علامہ شامی پر اعتراضات بھی کییے....کبھی مستند سے بھی اشتباہ و غلطی غلط فھمی ہوجاتی ہے اور بات بھی ایک نبی پاک کی ہے ناکہ انبیای کرام کی لیھذا یہ حوالہ بھی نامقبول و رد قرار پاپا)
.
پتافی
#پانچواں_حوالہ ۔۔
#الموافقات 
مصنف۔۔علامہ محقق ابو اسحاق ابراھیم بن موسی بن محمد شاطبی  رحمہ اللہ
 متوفی 790
جلد 4.صفحہ 335
والتفریع علی القول بنفی الخطا اولی ان لایحکم باجتھادہ حکما یعارض کتاب اللہ تعالی ویخالفہ 

ترجمہ: نفی خطا کے قول پر تفریع بٹھانا اولی ہے تاکہ انکے اجتھاد سے ایسا حکم ثابت ہی نا ہو سکے جو کتاب اللہ کے معارض اور مخالف ہو۔۔
یہ حوالہ بھی یہ کہ ٹھکرا دیا کہ کسی ایک نبی بالخصوص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے ہے لہذا نا قابل قبول۔۔
عدم قبولیت کی وجہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک ۔۔واہ جلالی کی حمایت کافائدہ۔۔۔
(جواب:بدگمانی جھوٹ....رد کی وجہ اسم مبارک نہین بلکہ امکان خصوصیت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور موقف و دلیل میں عدم مطابقت وجہ ہے رد کی..لیھذا یہ حوالہ بھی نامقبول و رد قرار پاپا)
.
پتافی:
#چھٹا_حوالہ 
#قواطع_الادلہ_فی_الاصول
امام ابو مظفر منصور بن محمد بن عبد الجبار السمعانی ۔۔المتوفی 489
جلد 2
صفحہ 105
 لانہ علیہ السلام کان معصوما عن الخطا فی الاحکام
ترجمہ ۔۔۔اسلیے کہ آپ علیہ السلام احکام میں خطا سے معصوم ہیں۔۔۔
اس حوالہ پر انکا ایک اعتراض یہ تھا کہ یہ صرف حضور صلی اللہ علیہ کے لیے ۔ہے۔۔اور خطا کے ساتھ اجتھاد نہیں دبے لفظوں میں جلالی کے حمایتی نے معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خطا معصیت کا قول کر رہے تھے
(جواب جھوٹ خطائے معصیت کا قول نہیں کیا کما مر)
(جواب:بدگمانی جھوٹ....رد کی وجہ اسم مبارک نہین بلکہ امکان خصوصیت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور موقف و دلیل میں عدم مطابقت وجہ ہے رد کی....لیھذا یہ حوالہ بھی نامقبول و رد قرار پاپا)
.
پتافی:
۔۔۔یہ سارے گناہ جلالی کے کھاتے میں ہی جائیں گی۔۔۔کیوں یہ خطا خطا کا کھیل انہوں نے ہی ایجاد کیا ہے۔۔
(جواب جن اسلاف نے خطاء اجتہادی کا قول کیا وہ بھی گستاخ و گناہ گار.....؟ جلا لی سے اتنا بغض....؟ اختلاف کیجیے مگر حد میں رہتے ہوئے)
.
پتافی:
#ساتواں_حوالہ۔۔
#الفکر_السامی۔۔
محمد بن حسن الحجوی الثعالبہ الفاسی ۔۔متوفی ۔۔1291 ھجری
جلد 1
صفحہ 138
والصواب ان اجتھادہ علیہ السلام  لا یخطی۔۔
ترجمہ۔۔۔درست قول یہ ہے کہ آپ علیہ سلام اپنے اجتھاد میں خطا نہیں کرتے۔۔
تو چونکہ حوالہ رد کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک کو متعین کیے ہویے تھے لہذا کہا کہ یہاں بھی صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے۔۔(جواب:بدگمانی جھوٹ....رد کی وجہ اسم مبارک نہین بلکہ امکان خصوصیت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور موقف و دلیل میں عدم مطابقت وجہ ہے رد کی...لیھذا یہ حوالہ بھی نامقبول و رد قرار پاپا)

#آٹھواں_حوالہ
#المعتقد_والمنتقد۔۔
سیدنا فضل رسول بدایونی 
جس پر اعلی حضرت عظیم البرکت نے حاشیہ کے لیے اس کتاب کاانتخاب فرمایا۔۔۔
ان القول بجواز الخطا علیہم فی اجتھادھم قول بعید مھجور فلایلتفت الیہ۔۔
ترجمہ۔۔بے شک انبیاء علیہم السلام کے بارے خطائے اجتھادی کا قول حق سے بعید ہے ناقبل عمل اس قول کی طرف التفات نہیں کیا جایے گا۔۔۔
محشی جب کسی کتاب پہ حاشیہ لکھتا ہے تو اگر کتاب میں موجود کسی مسئلہ کو بیان نا کریں اس مسئلہ پر خاموش رہنا یہ محشی کی اس مسئلہ سے اتفاق کی دلیل ہوا کرتا ہے اسے قول تقریری کہتے ہیں ۔۔(جواب اس اصول کا حوالہ دیجیے عقلا عین ممکن کہ موافقت کے بغیر عدم توجہ صرف نظر یا بعد میں کچھ لکھنے کی امید پر بھی محشی کچھ جگہ پے حاشیہ نہیں لگاتا لیھذا تقریر نہ ہوا)
.
پتافی:
لہذا اس مسئلہ پر اعلی حضرت رحمہ اللہ نے کوئی حاشیہ نا لگا کر اس کو تسلیم کر رہے ہیں اور یہ اعلی حضرت رحمہ اللہ کا قول تقریری بنے گا۔۔۔(جواب ہر گز نہیں کمامر)
بہرحال جلالی کے حمایتی نے اس سے ثابت ہونے والے اعلی حضرت کے قول تقریری کو تو نا مانا البتہ کتاب کا حوالہ با دل نخواستہ مان لیا۔۔(جواب اس شرط پر مان لیا کہ قلمی نسخہ میں استمرار موجود نہیں تب اس حوالے کا جواب پہلے دے چکا کہ مصنف کا تسامح عجلت یا فرق نسخہ لیھذا حوالہ معتبر نہ رہا)
.
پتافی
#نواں_حوالہ۔۔
اسی کتاب پر علامہ تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان صاحب نے فرمایا۔۔
اس کے سوا یہ بات بھی ہے نبیوں سے انکے اجتھاد میں خطا کے جائز ہونے کا قول صحت سے دور مہجورہے اسکی طرف التفات نہیں۔۔(جواب تاج الشریعہ نے ترجمہ کیا مترجم کا مترجم کتاب کی ہربات سے اتفاق ہولازم نہیں...لیھزا تاج الشریعہ کا حوالہ بھی نہ رہا)
.
پتافی:
#دسواں_حوالہ۔۔۔
#نہایت_الاصول_فی_درایة_الاصول
مولف۔۔شیخ صفی الدین محمد بن عبدالرحیم الھندی
متوفی۔۔715 ھ
صفحہ۔۔3811
اذا جوزنا لہ الاجتھاد فالحق عندنا انہ لا یجوز لہ ان یخطی
لنا۔۔ان تجویز الخطا علیہ غض من منصبہ فوجب ان لایجوز۔
ترجمہ۔۔

جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجتھاد کو جائز قرار دیں تو حق ہمارے نزدیک یہ قول ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطا نہیں کرتے ۔۔
ہم یہ اسلیے کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خطا کو جائز قرار دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کے مناسب نہیں۔۔تو واجب ہے کہ ہم خطا کو جائز قرار نا دیں۔۔۔
اور اس حوالے پر جواب انکا ایک ہی تھا یہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔۔(جواب:بدگمانی جھوٹ....رد کی وجہ اسم مبارک نہین بلکہ امکان خصوصیت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور موقف و دلیل میں عدم مطابقت وجہ ہے رد کی....لیھذا یہ حوالہ بھی نامقبول و رد قرار پاپا)
.
پتافی:
 #گیارہواں_حوالہ۔۔۔
تفسیر الفخر الرازی
امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ
جلد۔۔10
صفحہ۔۔170
۔۔دلت الایة علی ان الانبیاء علیہم الصلوةو السلام معصومون عن الخطا فی الفتوی وفی الاحکام 
ترجمہ: آیة اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بے شک انبیاء علیہم الصلاة والسلام فتوی اور احکام میں خطا سے معصوم ہیں۔۔۔
اور جلالی کے علمی یتیم نے جو یہاں جو بونگی ماری کہ اہل علم حیران ہیں کہ کوئی عالم یہ بات کر سکتا ہے۔۔
انہوں نے اس حوالہ پر فرمایا کہ
یہاں خطا فی الفتوی والاحکام لکھا ہے۔۔۔
یہ خطاے اجتھادی کے بارے میں نہیں بلکہ خطا معصیت کے بارے ہے۔۔۔اہل علم اس سے جلالی کے حمایتی کا علمی مبلغ کا اندازہ کرسکتے ہیں۔۔۔یہ جلالی گروپ دوسروں کو علمی یتیم کہ کر پکارتے ہیں خود ان کے علمی مبلغ کا یہ حال ہے
(جواب:طعنے کسنے بھپکی مارنے کے علاوہ اپ کے پاس میرے اعتراض کا جواب نہیں کیا......؟؟
یہاں خطسء اجتہادی کا ذکر نہ تو لفظا ہے نہ ہی سیاقا سباقا...لیھذا یہ حوالہ بھی نامقبول و رد قرار پاپا)
.
پتافی
#بارہواں_حوالہ۔۔۔
#حاشیہ_التوضیح_والتصحیح
محشی۔۔النحریر الھمام ابن عاشور قاضی مالکی رحمہ اللہ
 المتوفی۔۔684
وقد ترک المصنف التنبیہ علی منع الخطا فی اجتھادہ صلی اللہ علیہ وسلم وھو الذی اختارہ الامام وقال انہ الحق۔۔
ترجمہ:مصنف نے اس بات پر تنبیہ کو چھوڑ دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجتھادی خطا ممتنع ہے اور اسی قول کو امام نے پسند فرمایا ہے اور فرمایا ہے یہی قول حق ہے۔۔
(جواب:رد کی وجہ اسم مبارک نہین بلکہ امکان خصوصیت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور موقف و دلیل میں عدم مطابقت وجہ ہے رد کی کما مر...لیھذا یہ حوالہ بھی نامقبول و رد قرار پاپا)
.
پتافی
#تیرہواں_حوالہ۔۔۔
#البحر_المحیط 
امام ابو حیان اندلسی۔۔المتوفی 745 ھ 
جلد 7..صفحہ۔۔378
ویعلم قطعا ان الانبیاء علیھم السلام معصومون من الخطایا لایمکن وقوعھم فی شیئ منہا ضرورت انا لو جوزنا علیہم شیئا من ذالک بطلت الشرائع ولم یوثق بشیئ مما یذکرون انہ وحی من اللہ تعالی۔۔
ترجمہ: اور ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ بے شک انبیاء کرام خطاؤں سے معصوم ہوتے ہیں ان سے خطاؤں سے کچھ بھی واقع ہونا ممکن نہیں ۔۔یہ اسلیے کہ اگر ہم ان خطاؤں کو ان سے جائز قرار دیں تو شریعتیں باطل ہوجائیں گی اور ان انبیاء سے اعتماد اٹھ جائے گا کہ جو یہ ذکر کر رہے ہیں یہ واقعی اللہ کی طرف سے وحی ہے یا ان میں انکو خطا واقع ہوئی ہے۔۔۔(جواب ہمارے حق میں وحی اور اجتہاد دونوں کی پیروی لازم، انبیاء کرام بتا دیتے لکھوا دیتے تھے کہ یہ وحی ہے یہ وحی نہیں....لیھذا وحی غیر وحی میں اشتباہ نہ رہا اور اجتہاد میں خطاء ہوتی تو اللہ کریم فورا وحی فرما کر اصلاح فرما دیتا لیھذا کوئی بطلان و اشتباہ نہیں... یہی اسلاف کا قول ہے)
اسلیے ضروری طور پر یقین کرنا پڑے گا کہ انبیاء خطاؤں سے معصوم ہوتے ہیں۔۔(جواب:قول شاذ ہوسکتا ہے مسنف کا اپنا مختار ہوسکتا ہے اسلاف کے اقوال ہم نے دیے انکے مقابل یہ حوالہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا)
.
پتافی
یہ تو ہوئے مفتی صاحب کی طرف سے اکابرین کے حوالہ کہ انبیاء کرام کے بارے خطا فی الاجتھاد مختلف فیہ ہے مگر مختار قول یہ ہے کہ انبیاء کرام خطا فی الاجتھاد سے معصوم ہوتے ہیں۔۔۔
مگر ان حضرت کی یہ ضد تھی کہ حوالے میں لفظ انبیاء ہو کسی ایک نبی یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے نا ہو ۔۔۔
اور خطا کے ساتھ اجتھاد ہو۔۔
۔۔یعنی انبیاء۔۔اور اجتھاد ہر حوالے میں یہ دو لفظ موجود ہوں۔۔(جواب لفظ شرط قرار نہیں دیا تھا بلکہ سیاق و سباق سے اگر اجتہاد و انبیاء ہون تو بھی ٹھیک)
.
اب آتے ہیں ان حضرت کے ان پندرہ حوالوں کی طرف جن کی رٹ لگا کر یہ بھپکیاں مارتے رہتے ہیں۔
۔کیا انکے اپنے حوالے میں یہ دونوں الفاظ موجود ہیں۔۔
کیا وہ اکابر کے حوالے ہیں۔۔
 ①وَقد كَانَت مِنْهُم زلات وخطایاھم
ترجمہ:
اور بےشک بعض انبیاء کرام علیھم السلام سے لغزیشیں اور(اجتہادی)خطائیں ہوئیں
[أبو حنيفة ,الفقه الأكبر ,page 37]
مفتی صاحب نے فرمایا کہ نمبر ایک اس کتاب کی نسبت امام اعظم کی طرف متکلم فیہا ہے اسکے غیر معتبر ہونے کے لیے اتنا کہ دینا بھی کافی ہے مگر میں مان لیتا حوالہ ۔۔مگر بتائیں عبارت میں خطا کے ساتھ اجتھاد کہاں ہے۔۔۔
(جواب اجتہاد کے ساتھ سیاق و سباق قرینہ کلام کہتا ہے کہ یہاں بات اجتہاد کی ہورہی ہے ورنہ خطاء معصیت کی تو نفی ہے لیھذا خطا سے مراد اجتہادی خطاء ہی ہوئ)
.
پتافی
ساتھ ہی مفتی صاحب نے فرمایا معاذ اللہ میں انبیاء سے خطاۓ معصیت کجا میں خطاۓ اجتھادی کا بھی قائل نہیں مگر میرے حوالے میں خطا کے ساتھ آپ کو اجتھاد چاہیے تھا۔۔۔(جواب نفی کے لیے مطلقا خطا قبول نہیں تھا کیونکہ اس سے یہ بھی مراد ہوسکتا تھا کہ خطاء معسیت کی نفی ہے لیھذا نفی کے وقت اجتہاد کا تذکرہ لفظا یا سیاقا سباقا ضروری جبکہ اثبات میں مطلقا خطا بولا جائے تو خطاء اجتہادی مراد ہوگا کہ خطاء معصیت مراد لینا گناہ)
.
پتافی
اس لیے وہ حوالہ بھی رد کیا جس میں خطا فی الفتوی و الاحکام آیا ہے۔۔
لہذا یہ حوالہ آپ کا رد ہوتا ہے۔۔(جواب:رد نہیں ہوتا جسیا کہ اوپر لکھ چکا)
.
پتافی:
مگر میں پھر بھی گن لیتا ہوں۔۔(جواب:شکریہ اور تاج الفقہاد امام اعظم کا ایک حوالہ سب پے بھاری ہے)
.
پتافی
②وجاز الخطا في اجتهاد الأنبياء الا انهم لا يقرون عليه
ترجمہ: 
انبیائے کرام کے اجتہاد میں خطا واقع ہونا جائز ہے مگر یہ کہ وہ خطائے اجتہادی پر قائم نہیں رہتے (بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)
[التفسير المظهري ,6/215]
مفتی صاحب کی طرف سے اسے بھی گنا گیا۔۔۔
مگر مفتی صاحب نے یہ کبھی کہا ہی نہیں کہ سارے علماء اس پر متفق ہیں کہ انبیاء سے خطا فی الاجتھاد نہیں ہوسکتی مسئلہ مختلف فیہا ہے۔۔۔
یہ علامہ صاحب تفسیر مظہری جواز کے قائل ہیں ۔۔مگر مختار جمہور اس سے ثابت نا ہوا۔۔۔
③لأن الأنبياء معصومون من الغلط والخطأ لئلا يقع الشك في أمورهم وأحكامهم , وهذا قول شاذ من المتكلمين. والقول الثاني: وهو قول الجمهور من العلماء والمفسرين ولا يمتنع وجود الغلط والخطأ من الأنبياء كوجوده من غيرهم. لكن لا يقرون عليه وإن أقر عليه غيرهم
خلاصہ: 
وہ جو کہتے ہیں کہ انبیاء کرام غلطی اور خطا سے معصوم ہے یہ قول شاذ متکلمین کا ہے
جمہور علماء اور مفسرین کا قول یہ ہے کہ انبیائے کرام سے اجتہادی غلطی اور اجتہادی خطا ہوجاتی ہے لیکن وہ اس پر قائم نہیں رہتے (بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)غیر انبیاء سے خطا اجتہادی ہوتی ہے تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اس پر قائم نہ رہیں بلکہ بعض اس پر قائم بھی رہتے ہیں 
[اتفسير الماوردي = النكت والعيون ,3/457بحذف یسییر]
اس پر بھی مفتی صاحب نے فرمایا خطا کے ساتھ اجتھاد کا ذکر نہیں آپکے اپنے دعوی کے مطابق یہ بھی رد ہے
(جواب جیسا کہ فقہ اکبر میں مطلقا خطاء اثبات تھی تو لازما اجتہادی مراد اسی طرح یہاں بھی اجتہادی خطاء مراد اور اس حوالے میں یہ بھی ہے کہ مفتی چمن زمان والا موقف شاذ ثابت اور اس حواللے میں یہ بھی ثابت کہ عنایت والا موقف جمھور کا ہے لیھزا جمھور کا حوالہ دو کی ڈیمانڈ بھی پوری)
.
پتافی:
.④أن الخطأ إذا وقع من نبي بقول أو فعل فإن الله تعالى يصححه على الفور، مما يبين وجوب الأسوة والقدوة بهم، وأن ذلك لا يؤثر على الاقتداء والتأسي بهم؛ لأن خطأهم مصحح بخلاف خطأ غيرهم
 خلاصہ: 
جب کسی نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے قول یا فعل میں خطااجتہادی ہوتی ہے تو اللہ تعالی فورا اس کی تصحیح فرما دیتا ہے(لہذا انبیاءکرام کی خطا اجتہادی وقتی ہوتی ہے جس پر وہ قائم نہیں رہتے اللہ تعالی ان کی اصلاح فرما دیتا ہے)بر خلاف غیر انبیاء کی خطا کے کہہ غیر انبیاء سے جب خطا اجتہادی ہوتی ہے تو اللہ تعالی اس کی اصلاح نہیں فرماتا(لہذا غیر انبیاء کی خطا اجتہادی کبھی وقتی ہوتی ہے کبھی دوامی)  
[أصول أهل السنة والجماعة ,1/6]
.اس حوالے پر بھی مفتی صاحب نے فرمایا کہ یہ اجتھاد سے خالی ہے ۔۔(اوپر تفسیل گذر چکی کہ خطاء اثبات ہو تو خطاء اجتہادی مراد لازم)
.
پتافی:
اور کسی ایک نبی کے بارے ہے۔۔اس پر حضرت گویا ہویے کہ نبی نکرہ ہے اور نکرہ میں عموم ہوتا ہے۔۔لہذا سارے انبیاء شامل ہونگے ۔۔۔اس سے طلباء بھی سمجھ سکتے ہیں ابتدائی کتب میں قائدہ موجود ہے کہ نکرہ نفی میں ہو تو عموم کا فائدہ دیتا ہے ۔۔لیکن حضرت جلالی کے حمایتی تو جلالی کی طرح  مبادیات سے بھی غافل نکلے
(جواب عموم بولنا میری غلطی مگر یہان لفظ نبی مطلق اور مطلق اپنے اطلاق پر سب کو شامل لیھزا یہ ھوالہ بھی معتبر)
.
پتافی:
⑤وَقَالُوا: يَجُوزُ الْخَطَأُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ إِلَّا أَنَّهُمْ لَا يُقِرُّونَ عَلَيْهِ
ترجمہ:
علماء فرماتے ہیں کہ انبیاء کرام سے خطاء جائز ہے مگر یہ کہ وہ خطا پر قائم نہیں رہے تھے
[تفسير البغوي - طيبة ,5/333]
.یہ بھی خطا اجتھاد کے بغیر لہذا اپکے اپنے قائدے کے مطابق یہ حوالہ بھی رد۔۔۔(اوپر فقہ اکبر کے حوالے میں مزکورہ و ثابت ہوا کہ خطاء اثبات ہو تو لا محالہ خطاء اجتہادی مراد لیھذا حوالہ معتبر اور لفظ قالوا میں صاف واضح کہ یہ مذہب اکثر علماء کا ہے)
.
پتافی:
مفتی صاحب بار بار یہ بھی فرما رہے تھے کہ معاذ اللہ میں خطاۓ اجتھادی سے بھی انبیاء کو معصوم مانتا ہوں چہ جایے کہ خطاۓ معصیت ۔۔
مگر جس بنیاد پر مفتی صاحب کے حوالے وہ حضرت رد کر رہے تھے اسی بنیاد ایسا کہا گیا۔۔(جواب بنیاد ہی غلط ثابت کردی ہم نے جیسا کہ فقہ اکبر کے حوالے میں لکھا)
.
پتافی
⑥فأخطأ في الاجتهاد،وهذا شأن الأنبياء لا يُقَرُّون على الخطأ
ترجمہ:
نبی پاک سے اجتہاد میں خطاء ہوئی اور یہ انبیائے کرام کی شان ہے کہ وہ خطاء (اجتہادی)پر قائم نہیں رہتے(بلکہ اللہ تعالی انکی  اصلاح فرما دیتا ہے)
[الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري ,6/36ملخصا]
اخطا میں ایک نبی کا ذکر ہے ۔۔لہذا یہ بھی رد۔۔۔(جواب شان الانبیاء مین لفظ انبیاء نظر نہیں ایا اپ کو....؟ لیھذا یہ حوالہ بھی معتبر)
.
پتافی
یہ انداز بھی اسلیے اپنایا گیا کیوں حضرت نے خود مفتی صاحب کے حوالے کے بارے پہلے یہی انداز اپنا چکے تھے(جواب مطلب حقیقت کچھ اور ہے مگر یہان حق کو میرے انداز کی وجہ سے ٹھکرایا...؟ یہ تو مناظرانہ مکارانہ انداز ہوا افھام و تفھیم کا نہ ہوا)
.
.
پتافی:
⑦يجوز وقوع الخطأ منهم، لكن لا يقرّون عليه،
ترجمہ: 
انبیائے کرام سے خطا اجتہادی کا واقع ہونا جائز ہے لیکن وہ خطا پر قائم نہیں رہتے( بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)
[روضة الناظر وجنة المناظر ,2/354]
اس میں بھی خطا کے ساتھ اجتھاد کہیں ذکر نہیں(فقہ اکبر کی بحث میں ثابت کر چکا کہ اثبات میں خطاء لکھا ہو تو لا محالا اجتہادی خطاء مراد ہے کما مر لیھزا یہ حوالہ بھی معتبر)
.
پتافی:
⑧يجوز عليهم، ولا يقرون عليه
انبیائے کرام سے خطا اجتہادی کا واقع ہونا جائز ہے لیکن وہ خطا پر قائم نہیں رہتے( بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)
[التمهيد في أصول الفقه ,4/317]
یہاں تو نا خطا کا ذکر نا انبیاء کا  نہ اجتھاد۔۔۔(جواب سیاق و سباق پرھا ہوتا تو اس طرح نہ تھکراتے....بحث ہی جب خطاء اجتہادی کی چل رہی ہے تو اس پر فرمایا گیا کہ انبیاء سے اجتہادی خطاء جائز مگر وہ اس پر قاءم و داءم نہین رہتے....لیھذا یہ حوالہ بھی معتبر)
.
پتافی
⑨انبیاء (علیہم السلام) اپنی عصمت میں زلات (لعزشوں، اجتہادی خطاء، مکروہ تنزیہی یا خلاف  اولی کا ارتکاب) سے مامون(محفوظ) نہیں ہوتے
(تبیان القرآن تحت سورہ الاعلی آیت6)
یہ حوالہ اکابر میں سے نہیں۔۔(جواب ہم تو انکو متاخرین اکابرین میں سمجھتے ہیں جیسا کہ اپ نے تاج الشریعہ کو اکابرین میں سمجھا اسی یہ شیخ الحدیث و التفسیر بھی اکابر میں شمار لیھزا یہ حوالہ بھی معتبر)
.
دوسرے یہ کہ نبی بھی اجتہاد کرسکتے ہیں کیونکہ ان دونوں حضرات کے یہ حکم اجتہادی تھے نہ کہ وحی۔ تیسرے یہ کہ نبی کے اجتہاد میں خطا بھی ہوسکتی ہے
(نور العرفان تحت سورہ الانبیاء آیت79)
یہ حوالہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا دیا ہوا ہے مگر حضرت کو پتا ہی نہیں تھا کہ اس کتاب کے مصنف کون ہیں(جواب مفتی چمن زمان کو بھی پرہ نہ تھا کہ اسکا مصنف کون ہے)
.
پتافی
کیوں یہ حضرت خود طاہر القادری کو گمراہ مانتے ہیں اور انبیاء کرام کو خطا پر ثابت کرنے کے کیے انکا قول بھی لے کر آئے۔۔واہ واہ سبحان اللہ جلالیو دیکھ لو۔۔؟(جواب یہ حوالہ منھاجیوں کے لیے حجت کے طور پر ہے)
.
پتافی:
.10)حضرت آدم علیہ السلام سے اجتہاد میں خطا ہوئی اور خطائے اجتہادی معصیت نہیں ہوتی۔
(خزائن العرفان تحت سورہ بقرہ ایت36)
یہ حوالہ بھی اکابرین میں  سے نا تھا ۔۔۔(جواب ہم تو انکو متاخرین اکابرین میں سمجھتے ہیں جیسا کہ اپ نے تاج الشریعہ کو اکابرین میں سمجھا اسی یہ شیخ الحدیث و التفسیر بھی اکابر میں شمار لیھذا یہ حوالہ بھی معتبر)
.
11)نوح (علیہ السلام) یا تو اس نہی کو بھول گئے یا ان سے خطا اجتہادی ہوئی
(نور العرفان تحت سورہ المومنون آیت27)
یہ حوالہ ایک تو اکابرین کا نا تھا  دوسرا کسی ایک نبی کے بارے تھا سب کے لیے نہیں۔۔۔(جواب ہم تو انکو متاخرین اکابرین میں سمجھتے ہیں جیسا کہ اپ نے تاج الشریعہ کو اکابرین میں سمجھا اسی یہ شیخ الحدیث و التفسیر بھی اکابر میں شمار البتہ انبیاء کا زکر نہیں اس لیے غیر معتبر مان لیا)
 .
پتافی:
.12) اس لئے کہ انبیاء (علیہم السلام) معصوم ہوتے ہیں۔ یہ ہوسکتا ہے کہ اجتہاد میں خطا ہوجائے۔ چنانچہ آپ کو بھی اجتہاد میں خطا ہوئی اور خطا اجتہادی معصیت نہیں ہوتی۔
(عرفان القرآن تحت سورہ بقرہ ایت36)
مکرر
.13)تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ:
(1)اجتہاد برحق ہے اور اجتہاد کی اہلیت رکھنے والے کو اجتہاد کرنا چاہیے۔

(2)… نبی علیہ  السلام بھی اجتہاد کرسکتے ہیں  کیونکہ ان دونوں  حضرات کے یہ حکم اجتہاد سے تھے نہ کہ وحی سے ۔

(3)… نبی علیہ  السلام کے اجتہاد میں  خطا بھی ہوسکتی ہے تو غیر نبی میں  بدرجہ اولی غلطی کا احتمال ہے۔

(4)… خطا ہونے پر اجتہاد کرنے والا گنہگار نہیں  ہوگا۔ 

(5)… ایک اجتہاد دوسرے اجتہاد سے ٹوٹ سکتا ہے البتہ نص اجتہاد سے نہیں  ٹوٹ سکتی۔ 
(صراط الجنان تحت سورہ انبیاء آیت78)
اکابرین میں سے نہیں۔۔۔(جواب ہم تو انکو متاخرین اکابرین میں سمجھتے ہیں جیسا کہ اپ نے تاج الشریعہ کو اکابرین میں سمجھا اسی یہ شیخ الحدیث و التفسیر بھی اکابر میں شمار لیھذا یہ حوالہ بھی معتبر)
.
پتافی:
.14)لا الصغائر غير المنفرة خطأ
ترجمہ:
انبیاء کرام (اجتہادی)خطاء والے صغائر غیر منفرہ سے معصوم نہیں
(مسامرہ ص195)
خطا اجتھادی کا ذکر ہیں نہیں۔۔(جواب فقہ اکبر کی بحث میں ثابت کرچکے کہ خطا اثبات ہو تو لامحالہ لازما اجتہادی مراد لیھذا یہ حوالہ بھی معتبر)
.15)جمهور المحدثين والفقهاء على أنه يجوز للأنبياء عليهم السلام الاجتهاد في الأحكام الشرعية ويجوز عليهم الخطأ في ذلك لكن لا يقرون عليه
ترجمہ:
جمہور.و.اکثر محدثین و فقہاء کا نظریہ ہے کہ انبیائے کرام کے لئے اجتہادی خطا جائز ہے لیکن وہ اجتہادی خطا پر قائم نہیں رہتے ( بلکہ اللہ تعالی انکی اصلاح فرما دیتا ہے)
[تفسير الألوسي = روح المعاني ,7/68]
خطاے اجتھادی کا ذکر نہیں۔(جواب اللہ اللہ یہ مکاری توبہ....ذالک کا مشار الیہ کیا ہے....؟؟ ادنی سا طالب علم بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہاں مشار الیہ الاجتہاد ہے لیھزا یہ ھوالہ بھی معتبر)
.
بعد میں المعتقد محشی سیدی امام اہلسنت اعلی حضرت مترجم تاج الشریعۃ کی ایک  عبارت کی طرف کسی بھائی نے توجہ دلائی جس میں صاف لکھا ہے کہ بعض انبیاء کی وقتی غیر دوامی خطاء(خطاء اجتہادی) اور لغزشیں ثابت ہیں..
ملاحظہ فرمائیں
ملا علی قاری نے فرمایا یہ بات کہنا بچند وجوہ خطا ہے اس لئے کہ لوہاروں کو ملائکہ پر قیاس کرنا منع ہے ۔ اس لئے کہ انبیاء کی خطاء نہ تھی مگر بعض اوقات  ، نادر لغزشیں  ، جنہیں صغیرہ کہا جاتا ہے بلکہ خلاف اولی  ، بلکہ وہ دوسروں کی برائیوں کی بنسب نیکیاں تھیں ، اور اس کے باوجود وہ لغزشیں بعد میں توبہ سے مٹ گئیں اور ان کی توبہ کا قبول ہونا محقق ہے ، جیسا کہ اللہ نے اس کی خبر دی ، بر خلاف امتوں کے گناہوں کے اس لئے کہ وہ کبیرہ  ، غیر کبیرہ ، ارادی ، غیر ارادی ، اور دائمی گناہوں کو شامل ہیں ۔ اور ان کی توبہ کی تقدیر پر اس کی صحت کے شرائط کا متحقق ہونا ، اور اس کا مقبول ہونا معلوم نہیں ، بلکہ توبہ کرنے والے کا انجام کار بھی معلوم نہیں بخلاف انبیاء  ، کہ وہ لغزش پر قائم رہنے سے معصوم ہیں اور سوء خاتمہ کا ان کو اندیشہ نہیں تو یہ قیاس صحیح نہیں ۔ اور قاری نے فرمایا  : رہا اس کا یہ قول اگر میں گناہ کیا تو انبیا ء  نے بھی گناہ کیا ، تو اس بات میں سخت اندیشہ ہے اس لئے کہ انبیاء معصوم ہیں اور یہ ان کی خصوصیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی وہ لغزش بخش دی جو معصیت کی صورت میں تھی ، اور جناب باری کی طرف ان کا رجوع مقام توبہ میں ہوا ، تو بخشی ہوئی خطا کو اس کے مقابل میں ذکر کرنا جو حقیقتاً معصیت ہے منع ہے ، اگر چہ معصیت والا اس سے توبہ کر لے کہ وہ تحت مشیت ہے اس لئے کہ شرائط توبہ کی صحت ثابت نہیں لہذا فقیر کو بادشاہوں پر قیاس نہیں کیا جاتا ۔   المعتقد المنتقد مع المعتمدالمستند  ۔ صفحہ نمبر (252)  تا (253)  مکتبہ برکات المدینہ جامع مسجد بہار شریعت بہادر آباد کراچی  ۔ مترجم حضور تاج الشریعہ حضرت مولانا مفتی اختر رضا خان قادری برکاتی ازہری علیہ الرحمہ۔
.
پتافی
مفتی صاحب کے سارے الزامی جوابات تھے ۔۔(مطلب حقیقت کچھ اور تھی اور محض الزاما رد کیا؟ افسوس یہ کسی افھام و تفھیم والے عالم سچے عالم کا شیوہ نہیں کہ وہ الزاما حق کو تھکرا دے)
.
پتافی
مفتی صاحب نے فرمایا یہ پندرہ حوالے بہت تھوڑے میں آپ کو سو حوالے پیش کر سکتا ہوں کہ جنہوں نے فرمایا ہے کہ انبیاء سے خطاے اجتھادی ہوسکتی ہے اس کا انکار ہی نہیں۔۔دعوی میں یہ لکھ دیا گیا کہ مسئلہ مختلف فیہا دونوں طرف علماء کے قول موجود ہیں مگر دعوی یہ ہے مختار مذھب کونسا ۔۔۔(جواب یہ اب قارءین و علماء پرھ کر ہی فیسلہ کریں گے کہ کون ھق پے عنایت یا مفتی چمن زمان ساحب)
.
پتافی
تو مفتی صاحب نے فرمایا ہم نے جو حوالے پیش کیے انکے اندر 
مختار اور اولی مذھب ثابت ہوا۔۔۔(جواب ہم مفتی ساھب کے حوالہ جات کارد کر دیا اکا دکا معتبر نہیں کہ ہمارے اکثر حوالے معتبر ثابت)
.
پتافی:
دوسرے قول یعنی خطا کے جواز کا قول مھجور ہے صحت سے بعید ہے اسکی طرف التفات نہیں کیا جایے گا۔۔۔ جیسا علامہ تاج الشریعہ مفتی اختر رضا الازھری نے فرمایا۔۔(جواب جھوٹ تاج الشریعہ نے ترجمہ کیا جسکا یہ مطلب نہین کہ ساری کتاب سے وہ متفق...اس کے برعکس ہم نے جمھور و معتبر اسلاف کے حوالے پیش کییے)
.
پتافی:
بالآخر حضرت اٹھتے ہوئے فرمانے لگے کہ میرے حوالے معتبر اور معروف کتب و مصنفین کے ہیں۔۔(جواب جیسا کہ اوپر ثابت کردیا الحمد للہ)
.
پتافی:
اور آپ کے حوالے کتب معروفہ نہیں اور مصنفین بھی معروف نہیں ۔۔لہذا میں ابھی رجوع نہیں کرونگا میں جا کر دیکھوں کہ کے آپ نے جن کتابوں کے حوالے دیے وہ مضبوط ہیں یا میرے حوالے مضبوط۔۔(اب ثابت کر چکا کہ میرے حوالے معتبر)
.
پتافی:
اگر آپکے مضبوط نکلے تب رجوع کروںگا۔۔(جواب اب اپ وسعت قلبی کرتے ہوءے حق قبول کریں رجوع کریں)
.
پتافی:
بیچ میں حضرت جلالی کے حمایتی انبیاء کو خطا پر ثابت کرنے کے لیے اللہ احد کی آیت کو قابل نسخ کا قول کردیا۔العیاذ باللہ۔۔۔(جواب ساتھ میں وضاحت بھی کردی تھی کہ جب کوءی ایت نازل ہوتی تو اس میں مکمل نسخ یا ھکم نسخ یا تلاوت نسخ کا احتمال موجود کما لایخفی علی من لہ ادنی تامل.....کوئی بھی ایت چاہے قل ہو اللہ ہو جب نازل ہورہی تھی تو اس میں احتمال نسخ(نسخ تلاوت نسخ حکم کوئی بھی امکان نسخ) تھا…مفتی چمن زمان نے اسے کفر قرار دیا…یہ جملہ کلمہ کفر تھا یا نہ تھا ہر حال میں توبہ کرتا ہوں…اب آپ مفتی چمن پر لازم ہے کہ اسکو زید بکر کا نام دیکر کفر ثابت کریں ورنہ کفر اپ پر لوٹ آئے گا توبہ آپ کو سرعام کرنی ہوگی)
.
ضمیمہ:
بعد میں سیدی رضا یہ عبارت ملی جو ہمارے قول کی دلیل ہے
کان نسخ التلاوۃ والحکم جمیعا جائزافی حیاۃ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم
قرآن عظیم سے کسی چیز(کسی بھی آیت)کی تلاوت و حکم دونوں کا منسوخ ہونا زمانہ نبوی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں جائز تھا
(کشف الاسرارعن اصول البزدوی3/188 بحوالہ فتاوی رضویہ 14/261)
.
اب مفتی چمن زمان زید بکر کا نام ڈال کر کفر ثابت کریں ورنہ سرعام توبہ رجوع تجدید ایمالن تجدید نکاح کریں کہ مسلمان پر بلادلیل کفر کا فتوی دیا
الحدیث:
يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا
جس نےبظاہر مسلمان کو کافر کہا تو کفر دونوں میں سے کسی ایک کی طرف لوٹے گا(بظاہر مسلمان نے اگر واقعی کفر کیا ہے تو وہ کافر اور اگر بظاہر مسلمان حقیقتا بھی مسلمان ہے تو کافر کہنے والے کی طرف کفر لوٹے گا)
[صحيح البخاري حدیث6103]...انتھی

.
.
پتافی:
گستاخ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی حمایت کے یہ سب نقصانات ہیں۔۔۔اللہ سے پناہ مانگو کہ اللہ ناراض نا ہو ۔۔ورنہ حال یہی ہوتا ہے جو کل ایک حمایتی کا دیکھا گیا۔۔(جواب اجتہادی خطاء جب انبیاء کی منسوب ثابت ہے وہ بےادبی گستاخی نہیں، سیدنا امیر معاویہ سیدہ عائشہ کی طرف منسوب کرنا گستاخی نہیں تو سیدہ فاطمہ کی طرف منسوب کرنا بھی گستاخی نہیں....البتہ اس بارے میں میرا موقف علامہ جلا لی سے الگ ہے میری تائم لاءن پے لفظ سیدہ فاطمہ کی اجتہادی خطاء لکھ کر سرچ کریں اور کافی نیچے جاکر تین موقف پڑہیں)
.

#تحریر_مشتاق_احمد_پتافی
#جامعة_العین_سکھر
.
نوٹ:یہ بغض چالاکی مکاری ہے یا غفلت کہ علامہ پتافی چمنی نے اپنے استاد کے حوالہ جات کا ترجمہ کیا مگر ہمارے حوالہ جات سے ہمارا ترجمہ ہی اڑا دیا...لیکن ہم نے اب جواب دیتے وقت دوبارہ اپنا ترجمہ ڈال دیا ہے
.
اجتہادی خطاءیں گنوانا نہ ہمارا شوق ہے نہ پسندیدہ موضوع مگر محبت کی آڑ میں حق سچ نصوص و عباراتِ اسلاف کو جھٹلایا جائے...جھوٹ کو محبت کہا جائے تو حق سچ واضح کرنا لازم
.
القرآن..ترجمہ:
حق سے باطل کو نا ملاؤ اور جان بوجھ کر حق نہ چھپاؤ
(سورہ بقرہ آیت42)
.
الحدیث..ترجمہ:
خبردار...!!جب کسی کو حق معلوم ہو تو لوگوں کی ھیبت
(رعب مفاد دبدبہ خوف لالچ) اسے حق بیانی سے ہرگز نا روکے
(ترمذی حدیث2191)
.
الحدیث.. ترجمہ:
حق کہو اگرچے کسی کو کڑوا لگے
(مشکاۃ حدیث5259)
.
جو حق(بولنے، حق کہنے، حق سچ بتانے)سے خاموش رہے وہ گونگا شیطان ہے
(رسالہ قشیریہ 1/245)
.
الحدیث:
متنطعون(تعریف تنقید تقریر تحریر وغیرہ قول یا عمل میں غلو.و.مبالغہ کرنےوالے)ہلاکت میں ہیں(مسلم حدیث6784)
بعض انبیاء کرام صحابہ اہلبیت اسلاف سےمطلقا اجتہادی خطاء کی نفی کرنا حق سچ کےخلاف ہے،جھوٹی تعریف اور غلو نہیں تو اور کیا ہے…؟؟
بےادبی جرم مگر تعریف میں حد و سچائی بھی لازم

.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
facebook,whatsApp,telegram nmbr
03468392475

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.