قاری لقمان شاہد بھائی اور عسقلانی بھائی کو جواب…موضوع سیدنا حسن اور کثرت نکاح

نوٹ:
ہمارا مقصد ہار جیت نہیں بلکہ حق واضح کرنا ہونا چاہیے....ان دونوں مسائل بلکہ دیگر مسائل مین بھی آپ ہماری مدلل اصلاح کریں ہم یا تو جواب دیں گے یا پھر حق قبول کر لیں گے....ان شاء اللہ عزوجل
.
نوٹ:
رضا عسقلانی بھائی کے پاس بس ایک ضد ہے کہ واقدی مردود ہے، آئمہ علماء نے سیدنا حسن کے کثرت نکاح و طلاق کی نفی کی ہو ایسا کچھ بھی قاری لقمان شاہد بھائی اور عسقلانی بھائی پیش نہ کر سکے...جبکہ ہمارے پاس علماء اسلاف کے حوالہ جات ہیں کہ واقدی تاریخ میں معتبر ہے بشرطیکہ آئمہ نے کسی واقعہ کی نکیر نہ کی ہو...اور ہمارے پاس علماء اسلاف کے حوالہ جات ہین کہ اسلاف نے سیدنا امام حسن کے کثرت نکاح و طلاق کو مانا اور اسکی نفی نہ کی....جیسا کہ ہم حوالہ جات نیچے بیان کریں گے
.
ایک صاحب نے اپنی عقل سے آیت تطھیر کا خود ساختہ مفھوم لیکر کہا کہ امام حسن کا کثرت سے نکاح کرنے طلاق دینے والی بات ایت تطہیر کے خلاف ہے....تو اس صاحب کے جواب میں فقیر نے یہ تحاریر لکھیں....انصاف سے پڑہیے
.
آیتِ تطہیر سے من مانی تطہیر کرنے والے پیارے جناب کو ہم چیلنج کرتے ہیں کہ معتمد اہل سنت علماء سے دکھا دیں کہ انہون نے حضرت حسن کی کثرتِ نکاح و طلاق کا انکار کیا ہو.....جبکہ ہم دکھائیں گے کہ معتمد علماء کرام نے حضرتِ حسن کے کثرت نکاح و طلاق کا لکھا ہے اور قرآن و سنت و آثار سے اسکے جائز ہونے کی توجیہ و تفصیل بھی لکھی ہے...
کیا اسلاف کو آیتِ تطہیر سمجھ نہیں آئی.....؟؟
.
سردست چند حوالہ جات پر اکتفتاء کرتا ہوں
امام اہلسنت فرماتے ہیں
بعض صحابہ کرام مثل سیّدنا امام حسن مجتبٰی  ومغیرہ بن شعبہ وغیرہما رضی ﷲتعالٰی  عنہم سے جو کثرتِ نکاح وطلاق منقول ہے اسی حالت حاجت شرعیہ پر محمول ہے
فی ردالمحتار اذا وجدت الحاجۃ المذکورۃ ابیح وعلیہا یحمل ماوقع منہ صلی ﷲتعالٰی علیہ وسلم ومن اصحابہ وغیرہم من الائمۃ صونالھم عن العبث والایذاء بلاسبب۳؎۔ردالمحتار میں  ہے کہ جب حاجت مذکورہ پائی جائے تو طلاق مباح ہے، اور اسی معنٰی  پر محمول ہیں  حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم اور صحابہ کرام اور دیگر ائمہ کرام سے متعدد نکاح کے واقعات ہُوئے، تاکہ ان حضرات کی طرف عبث اور ایذاء رسانی کی نسبت نہ ہونے پائے۔(ت) (۳ ؎ ردالمحتار         کتاب الطلاق     داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۴۱۶)
.(فتاوی رضویہ12/469)
.
امام سیوطی فرماتے ہیں:
وأخرج ابن سعد عن علي بن الحسين: قال: كان الحسن مطلاقا للنساء،
ترجمہ:
ابن سعد نے علی بن حسین سے روایت تخریج کی ہے کہ سیدنا حسن (بہت نکاح کرتے تھے ہھر)بہت طلاق دیتے تھے
تاریخ الخلفاء للسیوطی 1/146
.
وأخرج ابن سعد عن جعفر بن محمد عن أبيه، قال: قال علي: يا أهل الكوفة، لا تزوجوا الحسن فإنه رجل مطلاق، فقال رجل من همدان والله لنزوجنه، فما رضي أمسك وما كره طلق.
تاریخ الخلفاء للسیوطی 1/146
.
وأخرج ابن سعد عن عبد الله بن حسن، قال: كان الحسن رجلا كثير نكاح النساء،
ترجمہ:
ابن سعد نے عبداللہ بن حسن سے روایت تخریج کی کہ حضرت سیدنا حسن بہت زیادہ نکاح کرتے تھے
تاریخ الخلفاء للسیوطی 1/146
.
وكان كثير التزوج، وكان مطلاقا مصداقا،
ترجمہ: امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بہت زیادہ شادیاں کرتے تھے اور بہت زیادہ طلاقیں دیتے تھے
سبل الھدی 11/69
.
وكان رضي الله عنه مطلاقا للنساء وكان لا يفارق امرأة إلا وهي تحبه وأحصن تسعين امرأة
 امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہا بہت طلاق دیتے تھے اور وہ کسی بھی عورت سے جدا نہ ہوتے تھے مگر یہ کہ وہ اس سے محبت کرتی تھی آپ نے کم و بیش سے نوے نکاح کیے
صواعق محرقہ2/411
.
امام غزالی فرماتے ہیں:
كان الحسن بن علي رضي الله عنهمامطلاقا ومنكاحا
ترجمہ:
حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ بہت طلاق دیتے تھے اور کثرت سے نکاح کرتے تھے
احیاء العلوم 2/56)
.
 الحسن بن علي - رضي الله عنهما - استكثر من النكاح والطلاق
 امام حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنھما کثرت سے   نکاح کرتے تھے اور کثرت سے طلاق دیتے تھے
فقہ حنفی مبسوط جلد 6 ص3
.
لما روي عن الحسن بن علي أنه كان كثير النكاح كثير الطلاق
 مروی ہے کہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ و کثرت سے نکاح کرتے تھے اور کثرت سے طلاق دیتے تھے
فقہ حنفی تبیین الحقائق2/189
.
وأما ما روي عن الحسن وكان قيل له: في كثرة تزوجه وطلاقه فقال: أحب الغنى، قال الله تعالى {وإن يتفرقا يغن الله كلا من سعته} [النساء: ١٣٠] فهو رأي منه
 امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ کثرت سے طلاق دیتے تھے اور کثرت سے نکاح کرتے تھے
مرقاۃ تحت حدیث3280
.
وقال الواقدي: حدثني علي بن عمر، عن أبيه، عن علي بن الحسين قال: كان الحسن بن علي مطلاقا للنساء، وكان لا يفارق امرأة إلا وهي تحبه
 امام حسن کثرت سے نکاح کرتے ہیں اور کثرت سے طلاق دیتے تھے
(بدایہ نہایہ8/43)
.

ذكر غير واحد من أهل العلم أن الحسن بن علي رضي الله عنهما كان كثير التزوج ، كثير التطليق
 کئی علماء نے یہ لکھا ہے کہ امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کثرت سے نکاح کرتے تھے اور کثرت سے طلاق دیتے تھے
قال ابن كثير رحمه الله :
" قالوا : وكان كثير التزوج ، وكان لا يفارقه أربع حرائر ، وكان مطلاقا ، مصداقا ، يقال إنه أحصن سبعين امرأة " انتهى من "البداية والنهاية" (8/42) . 
وذكرا نحوا من هذا الذهبي رحمه الله في "سير أعلام النبلاء" (3 /253) ، وينظر أيضا : "تاريخ دمشق" لابن عساكر (13 /251) ، "تاريخ الإسلام" للذهبي (4 /37) ، "محاضرات الأدباء" ، للراغب الأصفهاني (1 /408)
.

اور آخر میں گذارش ہے کہ بھائی
 کم علمی جلد بازی اندھی محبت میں آتے ہوئے محض اپنی عقل و قیاسِ فاسد کی بنیاد پر معتمد اسلاف کی بیان کردہ تواریخ کا انکار کرنا گمراہی ہے بلکہ عقل پرستی اور استشراق و الحاد کی پہلی سیڑھی ہے
اور پھر اسے سوشل میڈیا پر پبلک کرنا پھیلانا تو نری حماقت وجہالت، فتنہ و فساد ہے، لوگوں کو گمراہ کرنا ہے
.
پہلے اہل علم سے بحث کیجیے.... پھر اگر مطمئین نا ہوں تو سوال کے انداز میں فیس بک پر ڈالیے کہ اس مسلے میں قران احادیث اور صحابہ ائمہ اسلاف کے کیا اقوال ہیں
.
یا تو معتمد مستند علماء اہلسنت و اسلاف کے حوالے سے لکھا کریں اور اگر آپ کی اپنی تحقیق و تفردات ہوں تو دو ٹوک لکھا کریں کہ لوگو اسلاف کا قول فلاں ہے مگر میری رائے یہ ہے.....اپنی تفردات کو مجملا بیان کرکے اسے اہلسنت پر مت تھوپیں اور تھوپنا بھی اس انداز میں کہ جیسے اسلاف آیتِ تطہیر سے ناواقف و مخالف تھے.... لاحول ولاقوۃ الا باللہ
.
اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے
میں نے موصوف کو کال پر یہی گذارش کی کہ اہلسنت کے حوالے دین مگر وہ جواب نا دے سکے اور بھی کافی تفصیل ہوئی مگر موصوف ڈٹے رہے .... آخر کار مجھے یہ تحریر سرعام اپلوڈ کرنی پڑی تاکہ لوگوں کو اہلسنت علماء واسلاف کا موقف پتہ چلے، حق پتہ چلے... اللہ عقل پرستی آندھی عقیدت و محبت اور اسلاف کی توہین و تضلیل و تغفیل سے بچائے
.
ایک صاحب کا قول:
*ایک صاحب نے امام حسن کے کثرت نکاح و طلاق کے متعلق کچھ یوں لکھا کہ یہ جھوٹ پروپیگنڈا ہے آیت تطہیر کے خلاف ہے لیھذا امام ابو طالب مکی یا کوئی بھی امام ایسی روایات لکھے تو میں(یعنی وہ معترض صاحب) نہیں مانوں گا...
.
میرا تبصرہ:
انکی اس بات و انداز اور غلط بیانی پر میں نے شدید مذمت کی اور میں نے لکھا کہ ائمہ نے امام حسن کے کثرت نکاح و طلاق کو گناہ و مکروہ نہیں کہا بلکہ امام حسن کے اس فعل کا دفاع قرآن و احادیث سے کیا ہے.... لیھذا آیت تطہیر سے من مانی تطہیر کرنا اور آئمہ اسلاف کو اس طرح رد کرنا گمراہیت کا دتوازہ ہے اور بہت ہی بدترین عمل ہے
پھر میں نے اسی تحریر میں چند ائمہ سے امام حسن کے کثرت نکاح و طلاق کی عبارات حوالہ جات پیش کیں اور چیلنج دیا کہ دم ہے تو آئمہ اسلاف سے اسکی نفی ثابت کریں ورنہ اپنی عقل و من مانی تطہیر اپنے پاس رکھیں اور لوگوں کو گمراہ نا کریں
.
اس تحریر کا جواب اور چیلنج کا جواب تو اب تک انہوں نے نہین دیا یا ان سے بن نہیں پایا مگر ایک بھائی نے میرے دلاءل و حوالہ جات پر یہ جرح کی کہ امام حسن کے اس فعل کی روایت کی اسناد مین واقدی ہے جوکہ جھوٹا کذاب تھا...انہوں نے واقدی پر جرح مختلف آئمہ سے پیش کی اور امام احمد رضا اور امام ابن ہمام نے جو واقدی کی توثیق کی تو اسکا جواب یہ دیا کہ انکے استاد امام بدر الدین عینی نے واقدی کو کذاب و متروک کہا ہے
.
آئیے ان صاحب کی واقدی پر جرح کا جواب پڑھتے ہیں
①پہلی بات:
امام واقدی کی توثیق کو امام بدر الدین عینی کی جرح سے رد کرنا ٹھیک نہیں...کیونکہ امام بدرالدین عینی سے امام واقدی کی تعدیل و توثیق بھی ثابت ہے... امام بدر الدین عینی نقل فرماتے ہیً کہ:
وقال مصعب الزبيري: الواقدي ثقة مأمون. وقال أبو عُبَيد: الواقدي ثقة.
ترجمہ:
مصعب زبیری نے کہا ہے کہ واقدی ثقہ ہے مامون ہے اور ابوعبید نے فرمایا کہ واقدی ثقہ ہے
كتاب نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار1/70
.
لیھذا امام بدر الدین عینی امام احمد رضا اور ابن ہمام کی تعدلیل و توثیق برحق ہے اگرچہ کئ آئمہ نے واقدی پر جرح کی ہے مگر توثیق و تعدلیل بھی کئ آئمہ نے کی ہے حتی کہ امام بخاری کے استاد نے واقدی سے رویات لی ہیں
.

②دوسری بات:
واقدی پر جرح ہے تو کئ ائمہ نے توثیق و تعدیل بھی کی ہے...چند حوالہ جات ملاحظہ کری
ںقَالَ إِبْرَاهِيْمُ بنُ جَابِرٍ الفَقِيْهُ: سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ الصَّاغَانِيَّ - وَذَكَرَ الوَاقِدِيَّ - فَقَالَ: وَاللهِ لَوْلاَ أَنَّهُ عِنْدِي ثِقَةً، مَا حَدَّثْتُ عَنْهُ، قَدْ حَدَّثَ عَنْهُ: أَبُو بَكْرٍ بنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو عُبَيْدٍ ... ، وَسَمَّى غَيْرَهُمَا
ترجمہ:
ابراہیم بن جابر الفقیہ نے فرمایا کہ مین نے ابوبکر صاغانی سے سنا کہ واقدی کا تذکرہ کیا اور کہا اللہ کی قسم واقدی میرے نزدیک ثقہ ہے ورنہ مین ان سے روایات نا لیتا، واقدی سے تو ابن شیبہ(امام بخاری کے استاد) اور ابو عبید نے روایات لی ہیں اس کے علاوہ اءمہ کے نام گنوائے جنہوں نے واقدی سے روایات لیں
تاریخ بغداد3/9)
.
وَقَالَ إِبْرَاهِيْمُ الحَرْبِيُّ: سَمِعْتُ مُصْعَبَ بنَ عَبْدِ اللهِ يَقُوْلُ: الوَاقِدِيُّ: ثِقَةٌ، مَأْمُوْن 
تاریخ بغداد3/9)
ٌ
.
وَسُئِلَ مَعْنُ بنُ عِيْسَى، عَنِ الوَاقِدِيِّ، فَقَالَ:
أَنَا أُسْأَلُ عَنِ الوَاقِدِيِّ؟ الوَاقِدِيُّ يُسْأَلُ عَنِّي
ترجمہ:
موسی بن عیسی سے واقدی کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ عجب ہے کہ تم مجھ سے واقدی جیسے عظیم معتبر امام کے بارے میں سوال کرتے ہو....حالانکہ حق یہ ہے کہ میری جرح و تعدیل واقدی سے پوچھو
تاریخ بغداد3/9)
.

تاریخ بغداد کی مذکورہ توثیق کو امام ذھبی جیسے سخت عالم نے بھی سیر اعلام نبلاء مین برقرار رکھا ہے اور مزید توثیق و تعدیل میں یہ بھی لکھا کہ:
وَسَأَلْتُ ابْنَ نُمَيْرٍ عَنْهُ، فَقَالَ: أَمَّا حَدِيْثُهُ هَا هُنَا فَمُسْتَوٍ، وَأَمَّا حَدِيْثُ أَهْلِ المَدِيْنَةِ، فَهُم أَعْلَمُ بِهِ.
وَرَوَى: جَابِرُ بنُ كُرْدِيٍّ، عَنْ يَزِيْدَ بنِ هَارُوْنَ، قَالَ: الوَاقِدِيٌّ ثِقَةٌ.
الحَرْبِيُّ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللهِ يَقُوْلُ: الوَاقِدِيُّ ثِقَةٌ.
سیر اعلام نبلاء10/461)
.

وقال مصعبٌ الزُّبيري: هو ثقةٌ مأمون، واللهِ ما رأينا مثلَه قطّ.
ترجمہ
مصعب زبیری کہتے ہیں کہ واقدی ثقہ ہے مامون ہے، اللہ کی قسم اس جیسا عظیم عالم ان کے وقت میں کوئی نہین دیکھا
.
وقال يزيد بنُ هارونَ وأبو عُبيدٍ القاسم: الواقديُّ ثقة.
[وقال عبَّاس العنبري: الواقديّ أحبُّ إليَّ من عبد الرزاق.
وكان إبراهيم الحربيُّ معجبًا به ويقول: الواقديُّ أمنُّ الناس على أهل الإسلام، وأعلمُ الناس بأمر الإسلام،
مراۃ الزمان15/23
.

وقال محمد بن سلَّامٍ الجُمحي: الواقدي عالِم دهره.
محمد بم سلام نے کہا کہ واقدی عالمِ دھر تھا
فقال الخطيب: الواقديُّ ممن طبَّق علمُه الأرضَ شرقًا وغربًا، [ولم يَخْفَ على أحدٍ عرف أيامَ الناس] (4)، وسارت الركبانُ بكتبه في فنون العلوم، من المغازي، والسِّيَر، والطبقات، وأخبارِ الناس، وأخبارِ رسول اللهِ - صلى الله عليه وسلم -، والأحداثِ التي كانت في زمانه [والفقه، واختلافِ الناس] وغيرِ ذلك، وكان جَوَادًا كريمًا مشهورًا بذلك
مراۃ الزمان15/23
.
واقدی پر جرح و تعدیل کے بعد سبط ابن جوزی اپنا فیصلہ یوں بتاتے ہیں کہ:
وقال المصنِّف رحمه الله: ومَن طلب الترجيحَ بين هذه الأقوال، علم أن الأوْلى ذكر المحاسن [واللهُ تعالى مطَّلع على الضمائر والبواطن] وهؤلاء قومٌ حطُّوا رحالهم عند اللهِ تعالى منذ سنين، وهم أعلامُ الإسلام [وأئمَّة الدِّين، وخصوصًا الواقدي، فإنَّ أقواله في رواية تفاسيرِ القرآن مقبولةٌ مشهورة].
مراۃ الزمان15/23
.

③تیسری بات:
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف آئمہ نے جرح کی ہے اور دوسری طرف تعدیل و توثیق تو ہم کہاں جاءیں کس کو معتبر سمجھیں....؟
جواب:
ہمیں امام احمد رضا و دیگر اجلہ آئمہ کی توثیق و تعدیل پر عمل کرنا چاہیے لیکن تاریخ و سیرت وغیرہ مین تو واقدی تمام علماء کے مطابق معتبر و مقبول ہے بلکہ تاریخ و سیرت کا بہت بڑا معتبر امام مانا جاتا ہے... لیھذا امام حسن کی سیرت و تاریخ میں انکی روایات معتبر و مقبول ہیں خصوصا جبکہ دیگر آئمہ نے بھی وہی بات نقل کی ہو یہ صحت پر مہر ثبت کرنا...
.
④چوتھی بات:
سند کی حاجت و ضرورت حدیث مین ہوتی ہے جبکہ سیرت تاریخ تفسیر و مثلھا میں سند کی حاجت نہین ہوتی بلکہ آئمہ تاریخ کا بلانکیر نقل کرنا ہی سندِ صحت ہے حتی کہ احادیث کو بھی سند کے بغیر کچھ شرائط کے ساتھ قبول کرنا آئمہ اسلاف کا وطیرہ رہا ہے... معترض نے خود ایک پوسٹ میں یہ لکھا تھا کہ
امام ابواسحاق الاسفرائینی علیہ الرحمہ (متوفی 418ھ) فرماتے ہیں:
" تُعْرَفُ صِحَّةُ الْحَدِيثِ إِذَا اشْتُهِرَ عِنْدَ أَئِمَّةِ الْحَدِيثِ بِغَيْرِ نَكِيرٍ مِنْهُمْ."
حدیث اس وقت بھی صحیح معروف ہوتی ہے جب ائمہ حدیث کے ہاں بغیر انکار کے مشھور ہو جائے۔
تدریب الراوی للسیوطی ج١ ص ٦٦
.
⑤پانچویں بات:
حدیث کے معاملے میں واقدی کچھ کے مطابق معتبر ہے جبکہ کچھ کے مطابق معتبر نہیں
مگر
تاریخ سیرت وغیرہ میں واقدی سب کے نزدیک معتبر و قابل قبول ہے بلکہ امام مانا جاتا ہے
أنه في المغازي إمام متفقٌ على إمامته فيها، ولا يلزم من ضعفه في الحديث ضعفه في المغازي، كما تقدم القول في ابن إسحاق.
ترجمہ:
واقدی مغازی(سیرت تاریخ) میں ایسا امام ہے کہ اس معاملے میں اسکا امام ہوتا سب کے مطابق متفق علیہ ہے، حدیث مین واقدی کے ضعیف ہونے سے لازم نہین آتا کہ وہ مغازی(سیرت و تاریخ) میں بھی ضعیف ہو، جیسا کہ ابن اسحاق مین یہ قول گذر چکا
(السيرة النبوية من خلال أهم كتب التفسير ص32)
.
امام احمد رضا فرماتے ہیں
یہ جرح شدید ماننے والےبھی انہیں(واقدی کو) سِیر ومفازی واخبار(تاریخ)کا امام مانتے اور سلفاً وخلفاً ان کی روایات سِیر میں ذکر کرتے ہیں کمالایخفی علی من طالع کتب القوم
رضویہ5 ص527
.
اب آخر میں پھر گذارش و تنبیہ عرض کرتا چلوں کہ اے نوجوان نئے عالم بھائیؤ محققو خدارا جلد بازی عقل پسندی مت کرو.... آئمہ اسلاف کی اس طرح بے دردی و جرات سے تردید نا کرو... محبت اہل بیت اور محبت صحابہ میں حد سے نا بڑھو... سند سند کے بخار مین مبتلا نا رہو، لکھو تو دائریکٹ قرآن و حدیث کے مالک نا بن بیٹھو، آئمہ اسلاف کے ھوالے سے لکھو، نئی بات تحقیق لکھو تو سوالیہ انداز مین لکھو، اپنا تفرادات ہو تو دو ٹوک لکھو کہ میری راءئ ہے تفرد ہے، اہلسنت کا موقف نہیں...  اپنی بات کو حرف آخر اور خود کو عقل کل نا سمجھو،
.
اللہ ہم سب بادب اور صبر و وسعت والا بنائے، ہدایت عطا فرمائے
.
کیا امام واقدی کے مطابق حضرت معاویہ نے حضرت حسن کو زہر دلوایا..........؟؟
.
ایک بھائی کہتے ہیں کہ واقدی کے متروک ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تاریخ ابن عساکر میں ہے کہ اس واقدی نے سیدنا معاویہ کے متعلق جھوٹ و طعن نقل کیا ہے کہ حضرت معاویہ نے امام حسن کو زہر دلوایا، لیھذا واقدی کی روایات قابل قبول نہیں
.
جواب:
بھائی آپ نے جو روایت تاریخ ابن عساکر سے نقل کی اس پر شاید غور  نہین فرمایا اور شاید تاریخ ابن عساکر کی اگلی بات روایت پر غور نہین کیا
.
تاریخ ابن عساکر کی تینوں رویت ایک ہی موضوع پر ہیں، انہین جدا جدا مت کیجیے بلکہ مکمل تینوں روایات پڑھنے کے بعد نتیجہ اخذ کیجیے
.
تینوں روایات کا حاصل یہ ہے کہ
واقدی کہتا ہے کہ کچھ سننے والوں سے میں نے سنا ہے کہ امام حسن کو سیدنا معاویہ نے زہر دلوایا مگر تحقیقی سندی بات یہ ہے کہ امام حسن کو انکی بیوی نے یزید کے کہنے پر زہر دیا تھا....
.
یہ لیں اصل عربی الفاظ
 فابى أن يسميه وقد سمعت بعض من يقول كان معاوية قد تلطف لبعض خدمه أن يسقيه سما
قال وأنا محمد بن سعد أنا يحيى بن حماد أنا أبو عوانة عن يعقوب عن أم موسى أن جعدة بنت الاشعت بن قيس سقت الحسن السم فاشتكى منه شكاة قال فكان يوضع تحته طست وترفع أخرى نحوا من أربعين يوما
أنبأنا أبو محمد بن الأكفاني نا عبد العزيز الكتاني أنا عبيد الله بن احمد الصيرفي اجازة أنا أبو عمر بن حيوية أنا محمد بن خلف بن المرزبان حدثني أبو عبد الله الثمامي نا محمد بن سلام الجمحي عن ابن جعدبة قال كانت جعدة بنت الأشعت بن قيس تحت الحسن بن علي فدس إليها يزيد أن سمي حسنا أني مزوجك ففعلت فلما مات الحسن بعثت إليه جعدة تسأل يزيد الوفاء بما وعدها فقال أنا والله ولم نرضك للحسن فنرضاك لانفسنا فقال كثير وقد يروي للنجاشي (4) * يا جعد (5) بكيه ولا تسأمي * بكاء (6) حق ليس بالباطل لن (7) تستري البيت على مثله * في الناس من حاف ولا ناعل اعني الذي اسلمه أهله (8) * للزمن المستخرج الماحل كان إذا شبت له ناره * يرفعها بالنسب (9) الماثل كيما يراها بائس مرمل * أو فرد قوم ليس بالاهل يغلي بني اللحم حتى إذا * انضج لم يغل على آكل
(تاریخ ابن عساکر13/284)
.
یہی وجہ ہے کہ امام سیوطی نے بھی تاریخ الخلفاء مین اسی بات کو نقل کیا کہ امام حسن کو انکی بیوی نے یزید کے کہنے پر زہر دیا.... لیھذا واقدی پر یہ اعتراض ٹھیک نہین کہ اس نے جھوٹ باندھا.... بلکہ واقدی نے تو در حقیقت سنی سنائی بات کا تذکرہ کرکے اسکا رد باحوالہ باسند لکھا..
.
واقدی پر جرح بھی ہے اور تعدیل و توثیق بھی مگر واقدی کو کو تاریخ و سیر میں امام و معتبر بڑے بڑے علماء نے قرار دیا ہے، حتی کہ جرح والوں نے بھی تاریخ و سیرت میں معتبر کہا ہے، لیھذا واقدی کی روایات تاریخ و سیرت میں متفق طور پر مقبول ہین سوائے ان روایات کے کہ جن کو آئمہ نے نکیر و نفی کی ہو.... اس کے متعلق تفصیل ہم پہلے تحریر پوسٹ کرچکے ہیں
.
نوٹ:
عام طور پر طلاق دینا اچھی بات نہین مگر سیدنا حسن کا معاملہ کچھ اور تھا لوگ رشتہ سیدنا حسن سے کرنے کے لیے بےتاب ہوتے تھے اور خواہش رکھتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ قبائل کا تعلق اہلبیت سے جڑے اس لیے اس مقصد و فائدہ کے حصول کے لیے سیدنا حسن کثرت سے نکاح کرتے طلاق دیتے تھے
: وَاللهِ لَنُزَوِّجَنَّهُ، فَمَا رَضِيَ أَمْسَكَ، وَمَا كَرِهَ طَلَّقَ
اللہ کی قسم ہم حسن کو رشتے پے رشتے دیں گے جسے چاہیں رکھیں جسے چاہیں طلاق دیں
(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة3/253)
واللہ تعالی اعلم بالصواب

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.