جنت پے خلفاء کا نام اور عسقلانی بھائی کو جواب

 *خلفاء راشدین کا نام عرش پے تحقیق پر رضا عسقلانی بھائی کو جواب.........!!*

👈 چمن زمان صاحب نے طبرانی کے حوالے سے ایک روایت لکھی تھی کہ سیدنا علی کا نام عرش پر لکھا ہوا تھا معراج کی رات نبی پاک نے دیکھا.... اس پر میں نے ایک مضمون لکھا کہ یہ طبرانی کی روایت موضوع من گھڑت جھوٹی ہے اور علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ خلفائے اربعہ کے متعلق بھی آتا ہے کہ ان کا نام لکھا ہو عرش پے دیکھا تو وہ روایات بھی جھوٹی من گھڑت ہیں
.
 *اس مقالے پر رضا عسقلانی بھائی نے چند اشکالات و اعتراضات اٹھائے ان کے جوابات اور تحقیق پیش خدمت ہے*
.
میں نے لکھا تھا کہ:
طبرانی میں اسکی سند یہ ہے:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا عُبَادَةُ بْنُ زِيَادٍ الْأَسَدِيُّ، ثنا عَمْرُو بْنُ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الثُّمَالِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي الْحَمْرَاءِ خَادِمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
.
سند میں ایک راوی عبادہ بن زیاد الاسدی ہے...اس کے متعلق علماء فرماتے ہیں:
قال ابن عدي وعبادة بن زياد هو من أهل الكوفة من الغالین( و فی نسخۃ الغالین) في الشيعة وله أحاديث مناكير في الفضائل
🧐مصنف کتاب یعنی علامہ ابن عساکر فرماتے ہیں کہ ابن عدی نے فرمایا اس روایت کے راوی عبادہ بن زیاد کے متعلق علامہ ابن عدی نے فرمایا ہے کہ یہ غلو کرنے والا شیعہ تھا اور اس کی فضائل میں بیان کردہ روایات صحیح روایات کے خلاف ہوتی ہیں
( تاريخ دمشق لابن عساكر42/270)
.
قال محمد بْن محمد بْن عَمْرو النَّيْسَابُوري الحافظ: عَبَادة بْن زياد مُجْمَعٌ على كذبه ووضعه الأحاديث
🧐حافظ کے مطابق علماء کا اتفاق ہے کہ عبادہ بن ثابت جھوٹا راوی ہے  اور اپنی طرف سے باتیں گھڑ لیتا تھا اور انہی احادیث کہتا تھا
( تاريخ الإسلام - ت بشار5/844)
.
.
عَبَادة بن زِياد هو من أهل الكوفة من الغالين في الشيعة وله أحاديث مناكير في الفضائل
🧐عبادہ غلو کرنے والا شیعہ تھا اور اس کی فضائل میں بیان کردہ روایات صحیح روایات کے خلاف ہوتی ہیں
( الكامل في ضعفاء الرجال5/560)
.
*رضا عسقلانی نے اسکا جواب دیا کہ:المفھوم*
بعض آئمہ نے عبادہ کی توثیق کی ہے حتی کہ امام ذہبی نے اپنے ہی قول سے رجوع کرکے میزان میں اسے فقط ضیعف کہا ہے اور مجھے یعنی عنایت کو طعنہ مارا ہے کہ آپ کا مطالعہ کم ہے
.
*میرا جواب*
مطالعہ میرا کم ہوگا لیکن فالحال آپ کا مطالعہ کم لگ رہا ہے کیونکہ امام ذہبی نے پہلے میزان الاعتدال لکھیں پھر اس کے بعد تاریخ اسلام کتاب لکھی میزان میں جو توثیق کی تو اس کا رد اپنی کتاب تاریخ اسلام میں کر دیا اور ہم نے ان کی تاریخ اسلام کتاب کا حوالہ دیا ہے...لیھذا امام ذہبی کے مطابق یہ راوی کذاب جھوٹا موضوع من گھڑت روایت کرنے والا ہے، میزان پہلے لکھی تاریخ اسلام بعد میں لکھی اس کا ثبوت یہ ہے کہ امام ذہبی تاریخ اسلام میں اپنی کتاب میزان کا حوالہ دیتے ہیں جسکا مطلب میزان پہلے لکھی...مثلا
وَقَدْ سُقْتُ مِنْ أَخْبَارِهِ فِي كِتَابِ الْمِيزَانِ
 امام ذہبی ایک راوی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کی کچھ باتیں میں نے کتاب المیزان میں لکھی ہیں
(الذهبي، شمس الدين ,تاريخ الإسلام ت تدمري ,9/56)
.
👈 اب آتے ہیں اس بات کی طرف کے بعض ائمہ ہلکی توثیق کرتے ہوئے شیعہ قدری کہا ہے اور بعض نے شدید جرح کی ہے تو کس کا قول راجح کہلائے گا.........؟؟
یقینا جرح ہی معتبر و راجح کہلائے گی کہ توثیق والوں نے بھی شیعہ و قدری لکھا ہے تو ایسی صورت میں جرح مقدم ہی کہلائے گی کہ جرح غلو اور قدری اور وضاع ہونے کی مفسر ہے
.
الجرح مقدم إذا فسّر، لاسيما إذا فسّر بالكذب، ووضع الحديث
 جرح جب مفسر ہو تو وہ مقدم کہلائے گی توثیق سے... خاص کر اس وقت کہ جب جرح کذب یا وضع کی ہو
(كتاب سؤالات الترمذي للبخاري حول أحاديث في جامع الترمذي2/606)
.
وَالْجرْح) بِفَتْح الْجِيم بِمَعْنى التجريح. (مُقَدم على التَّعْدِيل) أَي عِنْد التَّعَارُض
 جب ایک طرف توثیق ہو اور دوسری طرف جرح مفسر ہو تو جرح مقدم کہلائے گی
(الملا على القاري ,شرح نخبة الفكر للقاري ,page 741)


.
میں(عنایت اللہ حصیر)نے لکھا تھا کہ:
قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ الْمُبَارَكِ يَقُولُ: لَا تُحَدِّثُوا عَنْ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ، فَإِنَّهُ كَانَ يَسُبُّ السَّلَفَ.....: كَتَبْتُ عَنْ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: حَدَّثَنَا كَثِيرٌ، فَبَلَغَنِي عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَوْمًا عِنْدَ حَبَّانَ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ هَنَّادٌ: وَأَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَهُ وَمَا أُرَاهُ إِلَّا نَوْفَلٌ يَقُولُ: كَفَرَ النَّاسُ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا أَرْبَعَةً
🧐امام ابن مبارک فرماتے ہیں کہ عمرو بن ثابت سے کوئی بھی روایت مت کرو یہ اسلاف کو گالیاں دیتا تھا.... ایک راوی کا کہنا ہے کہ میں نے عمرو بن ثابت سے لکھی ہوئی ایک روایت دیکھی ہے جس میں لکھا ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چار لوگوں کے علاوہ سارے صحابہ کافر ہو گئے تھے...نعوذ باللہ
( الضعفاء الكبير للعقيلي3/261)
.
رضا عسقلانی بھائی نے جواب دیا کہ:المفھوم:
 گالیاں دیتا تھا یہ جرح تو ٹھیک ہے لیکن دوسری جرح وہ ضعیف ہے
.
میرا جواب:
 جب ایک ہی امام کہہ رہا ہے کہ یہ گالیاں دیتا تھا اور وہی امام کہہ رہا ہے کہ یہ صحابہ کرام کے بارے میں کفر کا فتویٰ دیتا تھا تو یہ نا انصافی ہے کہ امام کی ایک بات کو مانا جائے اور دوسری کو نہ مانا جائے...
.
میں(عنایت اللہ حصیر)نے لکھا تھا کہ:
قال أبو داود: رافضي
🧐امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ عمرو بن ثابت رافضی ہے
(ديوان الضعفاء ص302)
.
رضا عسقلانی بھائی نے جواب دیا:المفھوم:
 امام ابو داؤد نے اس کی توثیق بھی کی ہے.... امام ابن حبان نے اگر کے اس پر حدیث گھڑنے کا جرح کیا ہے لیکن دیگر ایک دو ائمہ نے توثیق کی ہے
.
میرا جواب:
 پہلی بات تو یہ ہے کہ جب ایک راوی کے بارے میں جرح ہو اور توثیق بھی ہو تو اس میں دیکھا جائے گا کہ جرح مفسر ہے تو وہی مقدم و معتبر ہے....اور یہاں جرح مفسر ہے تو مقدم و معتبر کہلائے گی جیسے کہ اوپر قاعدہ بیان کر چکے....اور یہاں یہ قاعدہ بھی یاد رہے کہ:
*قاعدہ نمبر ①*
مدار سند حدیث پر ہے اگر اس سے روایت کرنے والا کذاب یا وضاع متفرد ہو تو وہ روایت موضوع ہوگی اور اگر ضعیف ہے تو روایت صرف ضعیف ہوگی(شرح الزرقانی علی المواہب الفصل الاول من المقصد الثامن فی طبہ صلی اللہ علیہ وسلم ج9 صفحہ 337 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)حضرت علامہ ملا علی قاری فرماتے ہیں: موضوع اس روایت کو کہا جاتا ہے جس کے راوی پر کذب کا طعن ہو(شرح نخبۃ الفکر فی مصطلحات اہل الاثر  جلد1 صفحہ 435 دار الارقم لبنان بیروت)
موضوع تو جب ہوتی کہ اس کا راوی متہم بالکذب ہوتا....یا ناقل رافضی(ہو اور) حضرات اہلبیت کرام علٰی سیدہم وعلیہم الصلاۃ والسلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اُس کے غیر سے ثابت نہ ہوں(تو روایت موضوع  من گھرٹ جھوٹی مردود کہلائے گی)،جیسے حدیث:لحمك لحمی ودمك دمی (تیرا گوشت میرا گوشت،تیرا خُون میرا خُون.ت)
(فتاوی رضویہ 5/461..466ملتقطا)
.

میں(عنایت اللہ حصیر)نے لکھا تھا کہ:
چمن زمان صاحب کی پیش کردہ روایت کے متعلق علماء نے دوٹوک لکھا کہ یہ روایت باطل موضوع من گھڑت اور جھوٹی ہے
» هَذَا بَاطِل واختلاق بَين
 (مذکورہ چمن زمان کی لکھی ہوئی) روایت باطل ہے واضح طور پر من گھڑت جھوٹی ہے
(تذكرة الموضوعات للفتني ص97)
.
" رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى سَاقِ الْعَرْشِ إِنِّي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ غَيْرِي خَلَقْتُ جَنَّةَ عَدْنٍ بِيَدِي مُحَمَّدٌ صَفْوَتِي مِنْ خَلْقِي أَيَّدْتُهُ بِعَلِيٍّ نَصَرْتُهُ بِعَلِيٍّ " (كرّ) من حَدِيث أبي الْحَمْرَاء مولى رَسُول الله، وَفِيه عمار بن معطر، وَأَبُو حَمْزَة الثمالِي رَافِضِي
 (چمن زمان صاحب کی پیش کردہ روایت)ایک اور سند سے بھی ہے لیکن اس نے بھی ایک راوی رافضی ہے
(ابن عراق... تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة1/402)
.
 امام سیوطی علیہ الرحمہ نے اس روایت کی دو چار سندیں بیان کی اور سب کو موضوع من گھڑت جھوٹی روایت قرار دیا...آپ لکھتے ہیں
هذا باطل....قال في (الميزان) (٢): هذا اختلاقٌ بيِّن.
وقال الحافظ ابن حجر في (اللسان) (٣): رواه ابن عساكر (٤) في ترجمة الحسن بن محمد بن أحمد بن هشام السلمي بسنده إليه عن أبي جعفر محمد بن عبد الله البغدادي حدثني محمد بن الحسن بالباب والأبواب حدّثنا حميد الطَّويل، فذكر مثله (٥).
قال: وهو موضوع بلا ريب.....وعمّار بن مطر كذّبه أبو حاتم (٩)، وقال ابن عدي: أحاديثه بواطيل وأبو حمزة الثمالي رافضي.....: قال ابن حبان: ابن أبي الزعيزعة دجال مِن الدجالين يروي الموضوعات
( چمن زمان کی پیش کردہ روایت) باطل ہے اور میزان میں ہے کہ یہ واضح طور پر جھوٹی من گھڑت ہے.... حافظ ابن حجر عسقلانی نے ابن عساکر سے اس کی ایک اور سند روایت کی ہے اور اس کے بعد لکھا ہے کہ یہ بھی بلا شک و شبہ موضوع من گھڑت اور جھوٹی ہے.... اس کی ایک اور سند بھی ہے اس میں عمار بن مطر ہے جس کو امام ابوحاتم نے کذاب قرار دیا ہے اور امام ابن عدی نے فرمایا ہے کہ اس کی احادیث باطل ہیں اور اس روایت میں ابو حمزہ ہے جوکہ رافضی ہے.... اسی نوعیت کی ایک اور سند بھی ہے جس میں ابن أبي الزعيزعة ہے جو کہ دجال ہے جھوٹا ہے اور موضوع من گھڑت جھوٹی روایات کرتا ہے
( الزيادات على الموضوعات للسيوطي 1/268...269)
.
اس پر رضا عسقلانی بھائی نے جواب دیا کہ:المفھوم:
 حسین بابی کی روایت کو امام ذھبی نے موضوع اور من گھڑت اور جھوٹی قرار دیا ہے لیکن یہی روایت حسین بابی کے علاوہ ابو الحمراء سے مروی ہے ابو الحمراء کی سند ضعیف ہے موضوع من گھڑت جھوٹی نہیں.... اس طرح مولانا حصیر صاحب کا اس روایت کو موضوع کہنے کا دعوی باطل ثابت ہوا... نیز عسقلانی بھائی کہتے ہیں کہ اس روایت میں الصینی پر جرح ہے مگر طبرانی کے صدوق راوی عبادہ نے متابعت کی ہے لیھذا جرح مقبول نہیں
.
میرا جواب:
 ہم نے اپنی تحریر میں ابو حمراء والی روایت پر کلام ہی نہیں کیا تھا تو آپ ہم پر یہ کیسے الزام لگا رہے ہیں کہ ہم نے اس روایت کو موضوع کہا ہے......؟؟ ہم نے جس روایت کو موضوع لکھا اس کو اسلاف کے حوالے سے موضوع لکھا اور لکھا کہ ہو سکتا ہے اس روایت کی مزید کوئی سند ہو تو اس کو دیکھا جائے گا...آپ نے سند پیش کی ہے تو اس پر کلام بھی حاضر ہے
.
آپ نے جو سند پیش کی اس کے تین راویوں پر کلام ہے
ابراہیم بن اسحاق الصینی
عمرو بن ثابت
ابو الحمراء الثمالی
.
اپ نے الصینی کو متابعت کی وجہ سے ثقہ قرار دیا تو عرض ہے کہ جس راوی عبادہ کی وجہ سے ثقہ قرار دے رہے ہیں ہم اسے اور اسکی روایت کو اوپر جھوٹی موضوع غیر معتبر ثابت کر چکے لیھزا متابعت فائدہ نہ دیگی بلکہ اسلاف اس روایت کو موضوع لکھ چکے اور آپ بھی موضوع مان چکے تو موضوع روایت تقویت کیسے دے گی....؟؟
لیھذا اس روایت مین بھی وہی راوی ہے جس روایت کو موضوع متفق طور پر مان چکے لیھزا یہ بھی موضوع ہی قرار پائی
.
- عبَادَة بِالْفَتْح بن زِيَاد الاسدي عَن قيس بن الرّبيع قَالَ ابْن عدي شيعي غال وَقَالَ غَيره مُتَّهم فِي الحَدِيث
 امام ابن عدی نے فرمایا کہ عبادہ غلو کرنے والا شیعہ ہے اور دوسرے ائمہ نے فرمایا کہ اس پر اعتراض ہے جرح ہے کہ یہ حدیثیں گھڑ لیتا تھا
(المغني في الضعفاء1/328)
.
سمعت إبراهيم بن مُحَمد بن عيسى يقول: سَمعتُ موسى بن هارون الحمال يقول عَبَادة بن زِياد الكوفي تركت حديثه
(الكامل في ضعفاء الرجال5/560)
.
عمرو بن ثابت رافضی اسلاف کو گالیان بکنے والا مردود راوی کی روایت کو آپ کیسے مان رہے ہیں.......؟؟افسوس
عمرو بن ثابت کے متعلق ہم اوپر لکھ چکے
.
اس تیسری روایت کا راوی ثمالی پر رافضی کی جرح ہے

وَأَبُو حَمْزَة الثمالِي رَافِضِي
ابو حمزہ ثمالی رافضی ہے
(ابن عراق... تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة1/402)
.
وَأَبُو حَمْزَة الثمالِي رَافِضِي
ابو حمزہ ثمالی رافضی ہے
الزيادات على الموضوعات للسيوطي 1/268...269)
.
اوپر قاعدہ بیان ہوچکا کہ متفرد راوی رافضی ہو روایت فضائل اہلبیت میں ہو تو موضوع من گھڑت جھوٹی
.
اگر آپ پھرر بھی بضد ہیں کہ مذکورہ تما جروح معتبر نہیں تو آپ کا قول اگرچہ مردود مگر کم سے ثمالی وغیرہ متروک ضعیف جدا تو ضرور کہلائین گے اور ایسی روایت فضائل میں بھی مردود
الدَّارَقُطْنِيّ رحمه الله يقول ثابت بن أبي صفية، أبو حمزة الثمالي، متروك.
 امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ ثمالی متروک راوی ہے
(كتاب موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله1/161)
.
قلت: فيه أبو حمزة (الثمالي) (٢)، وهو ضعيف جداً
ثمالی سخت ضعیف راوی ہے
(كتاب مختصر تلخيص الذهبي6/2798)
.
 علماء فرماتے ہیں
.مراتب الضعف الشديد (التي لا يعبر بحديث أصحابها)
ـ متروك، ذاهب الحديث
👈 متروک الحدیث یا ذاہب الحدیث کہا جائے تو یہ شدید ضعیف ہونے کی جرح ہے کہ ایسی شدید ضعیف روایت (فضائل و احکام میں) معتبر نہیں
(خلاصة التأصيل لعلم الجرح والتعديل ص36)
.
لْمرتبَة الثَّانِيَة فِي هَذِه قَالَ ابْن أَي حَاتِم اذا قَالُوا مَتْرُوك الحَدِيث اَوْ ذَاهِب الحَدِيث اَوْ كَذَّاب فَهُوَ سَاقِط لَا يكْتب حَدِيثه
الْمرتبَة الثَّانِيَة فلَان مُتَّهم بِالْكَذِبِ اَوْ الْوَضع وَفُلَان سَاقِط وَفُلَان هَالك وَفُلَان ذَاهِب اَوْ ذَاهِب الحَدِيث اَوْ مَتْرُوك اَوْ مَتْرُوك الحَدِيث...وكل من قيل فِيهِ ذَلِك من هَذِه الْمَرَاتِب الثَّلَاث لَا يحْتَج بِهِ وَلَا يستشهد بِهِ وَلَا يعْتَبر بِهِ
👈مَتْرُوك الحَدِيث یا ذَاهِب الحَدِيث  یا كَذَّاب یا فَهُوَ سَاقِط لَا يكْتب حَدِيثه یا مُتَّهم بِالْكَذِبِ ایا متھم بالْوَضع وغیرہ کی جرح ہوتو ایسی روایت سے (فضائل و احکام) ثابت نہیں کیے جاسکتے اور نہ ہی ایسی روایت بطور شاہد پیش کی جاسکتی ہے اور نہ ایسی روایت معتبر ہے
(الرفع والتكميل ص152...153)

.
👈 قاعدہ:
فضائل میں ضعیف حدیث مقبول ہے بشرطیکہ منکر و متھم شدید ضعیف نہ کہ یہ فضائل میں بھی مقبول نہیں
فقد ذكر الحافظ ابن حجر في شروط جواز العمل بالضعيف ثلاثة شروط
أحدها: أن يكون الضعف غير شديد، فيخرج من انفرد من الكذابين والمتهمين بالكذب ومَن فَحُش غلطُه. ونَقَل العلائيُّ الاتفاقَ عليه
الثاني: أن يندرج تحت أصلٍ معمولٍ به.
الثالث: أن لا يعتقد عند العمل به ثبوته بل يعتقد الاحتياط
👈 علامہ ابن حجر نے فرمایا کہ حدیث ضعیف فضائل میں مقبول ہونے کی تین شرطیں ہیں
¹شدید ضعیف نہ ہو
²اسکی اصل ثابت ہو
³احتیاط مقصود ہو
(أحكام الحديث الضعيف - ضمن «آثار المعلمي» ص164)
.
👈  شیعہ سنی نجدی سب کا متفقہ اصول ہے کہ
فحديثه منكر مردود
ترجمہ:
اس(غیرثقہ)کی حدیث.و.روایت(بلامتابع بلاتائید ہو تو)منکر و مردود ہے
(شیعہ کتاب رسائل فی درایۃ الحدیث1/185)
(المقنع في علوم الحديث1/188)
.
كلام الحافظ ابن العربي فيحمل على شديد الضعف المتفق على عدم العمل به كما أشار إليه السخاوي. قوله: (في الفضائل) قال في  المجموع وغيره فضائل الأعمال وحذف هنا اما اكتفاء بالعلم من كون المقام لفضل العمل أو تنبيهاً على تعميم الفضائل الشاملة للعمل وغيره كما يدل له قولهم يجوز العمل بالضعيف فيما عدا الأحكام والعقائد. قوله: (والترغيب والترهيب) أي  بسائر فنونه وكذا كل ما لا تعلق له بالأحكام والعقائد كما قاله في الإرشاد. قوله: (ما لم يكن موضوعاً) وفي معناه  شديد الضعف فلا يجوز العمل بخبر من انفرد من كذاب ومتهم بكذب ومن فحش غلطه فقد نقل العلائي الاتفاق عليه
👈 حافظ ابن عربی کے کلام محمل یہ ہے کہ شدید ضعیف پر عمل نہ کیا جائے گا، موضوع متھم کذاب فحش غلط کی روایت فضائل میں بھی فضائل میں معتبر نہیں اس پر سبکا اتفاق ہے
(كتاب الفتوحات الربانية على الأذكار النواوية1/83)
.
رضا عسقلانی نے آخر میں لکھا کہ اس معنی کی دو روایات موضوع ہین لیکن ثمالی والی روایت ضعیف مقبول ہے
.
میرا جواب:
ہم نے ثمالی کی روایت کو بھی مردود ثابت کر دیا لیھذا اس معنی میں اس وقت تک کوئی روایت اسلاف کے حوالے سے معتبر و مستند موجود ہو ، ہمیں نہیں ملی......!!
واللہ تعالیٰ و رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلم بالصواب
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.